Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فقیر سے بادشاہ تک کا سفر

Collapse
This topic is closed.
X
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شہوت کا سمندر بہا رہے ہو بھائی
    ہر اپڈیٹ پہلے والی سے زیادہ بہترین ہوتی ہے

    Comment


    • نور کے لنگڑا پن کا پتہ چلنا چاہئے کہ اس کی وجہ کیا ہے اور کوں ہے

      Comment


      • 9







        ۔

        بولی پھر شہر جارہے ہو ابھی تو اگلے زخم نہیں بھر ے میں بولا اب میں ٹھیک ہوں اور اب میں اپنا خیال رکھوں گا ۔ پھر نہا نے کے لیے پانی گرم کروایا اور نہانے لگا ابھی میں نہا رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے کے اندر ہاتھ ڈال کر کنڈی کھول لی اوہ یہ پائل تھی بولی آج میرے بنا ہی نہا رہے ہو میں بولی تمہیں شرم نہیں آتی نازنین اور سویرا موجود ہیں کسی نے دیکھ لیا توبدنامی الگ ہوگی اور جان سے الگ جائیں گے بولی ڈر پھوک ویسے تو بڑے بہادر مشہور ہو گئے لیکن ڈرتے ہو میں بولا تم جیسے بے وقوفوں سے ڈرنا چاہیے اور تم میری بہن ہو چاہے سوتیلی ہی سہی لیکن بہن تو ہو ۔ بولی بس بس زیادہ تقریر کی ضرورت نہیں ہے آگے بڑھ کر میرے لن کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنا شروع کردیا ۔ ایک بات تو تھی کہ پائل کا ہاتھ ٹچ ہوتے ہی میرے سارے رونکھڑے کھڑے ہوجاتے تھے اور جسم میں عجیب سے لذت دوڑنے لگ جاتی تھی جو کسی اور لڑکی کے ساتھ نہیں ہوتا تھا شائد بہن تھی اس لیے یا کچھ اور جو ابھی میری سمجھ سے باہر تھا ۔ پائل مجھے تم پسند آگئے ہو میں بولا تو ناچوں کیا خود تو مرے گی مجھے بھی مروائے گی بولی ایک لڑکی خود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تجھ پر سب نثار کرنے کو تیار ہے اور تم ہو کہ بزدل بنے ہوئے ہو ۔ بولی میرے ساتھ لگتے ہی تم کی ساری شرم ، غیر ت ختم ہوجاتی ہے اور دور جاتے ہی غیرت جاگ جاتی ہے یہ دیکھ لو تم کے گھوڑے کو میرا ٹچ کتنا پسند ہے ہاتھ لگتے ہی جان آجاتی ہے ۔ بولی شرم کرتے رہو گے تو صرف ہاتھ ہی چلاو گے ۔ اور مجھے دوست بناو گے تو عیش کرواوں گی اور ہاتھ سے جان چھوٹ جائے گی اور ایسی خوبصورت لڑکی تمہیں کہیں اور نہیں ملے گی میں بولا تم اور خوبصورت لگتا ہے تم کو غلط فہمی ہوگئی ہے جو خود کو خوبصورت سمجھ رہی ہے بولی پتہ ہے مجھے میں خوبصورت ہوں نہیں تو اپنے گھوڑے سے پوچھ جو کہ جھٹکے پر جھٹکے کھائے جا رہا ہے ۔ میں آخر بولا کیا چاہتی ہے بولی تمہیں ۔ بتایا ہے تو تمہیں چاہتی ہو ں میں بولا جو تم چاہتی ہو وہ نہیں ہوسکتا ایسا بھلا ہوتا ہے کیا کہ کوئی بھائی اپنی ہی بہن کے ساتھ ایسا کرے ۔ بولی یہ سب بعد کے رشتے ہیں مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے وہ ہے پیا س بجھانے کا ۔ میں بولا اتنی آگ لگی ہے تو اماں کو بول تیری شادی کردے ۔ بولی میرے سے اوپر ابھی چار نمبر ہیں نور ، سویرا ، نازنین اورتم پھر کہیں جا کر میری باری آئے گی میں بولا ابا سے بولتا ہوں تم کی شادی کرا دےبولی کورئی ضرورت نہیں ۔ پھر اچانک کھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور میرے لن کو پہلے تو ایک کس کیا اور پھر اس کے ٹوپے کو منہ میں بھر لیا پائل کی جو سب سے خاص بات تھی اس کے ہونٹوں کی گرمی ۔ تو پائل کے منہ کی گرمی جب میرے لن کی ٹوپی پر پڑی تو عجیب سے لذت میرے پورے جسم میں چھا گئی ۔ پائل نے میرے لن کی ٹوپی کو چوسنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ میرے لن کو اپنے منہ میں بھرنے لگی میرا لن کافی موٹا تھا لیکن پائل کو جیسے فرق ہی نہ پڑے اور وہ بے صبروں کی طرح میرے لن کو اپنے منہ میں آگے سے آگے لے جارہی ۔ جس کی وجہ سے پائل کے منہ سے رال بہہ رہا تھا پائل سکول گرل کی طرح بال پونی میں باندھے ہو ئے اور بالکل سکول گرل لگ رہی تھی ۔ پھر پائل نے میرے لن کو باہر نکالا اور اپنی قمیض اتار دی اور ساتھ ہی برا بھی اتار دی میں حیران تھا کہ سویرا اور نازنین باہر تھیں اور کوئی بھی آسکتا تھا عجیب پاگل لڑکی تھی لیکن اس وقت میں بھی پوری طرح مست تھا ایسے میرے لن کی چسوائی کسی نے نہ کی تھی یہاں کہ سحر یا زروا نے بھی نہ کی تھی ۔ پائل کی سکنگ میں جاریانہ پن تھا جیسے میرے لن کو گلے میں نہ اتار ا تو اس کا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا ۔ میں حیران ہورہا تھا کہ اس عمر میں پائل اتنی ماہر ہوچکی ہے اب مجھے یقین ہوچلا تھا کہ پائل ضرور باہر سے چدواتی ہے جس کی وجہ سے ایسے لن چسائی کررہی تھی لیکن اس وقت میں پوری طرح مست ہوچکا تھا اور ہر چیز بھول کر پائل سے لن چسوائی کا مزا لے رہا تھا اب پائل نے لن آدھا منہ میں بھرا ہوا تھا اور ایک ہاتھ سے میرے ٹٹوں کو سہلا رہی تھی اور لن کو اند سے اندر لے جارہی تھی ۔ ایک بار پھر پائل نے پوچھا تو کیا سوچا میں نے ہکلاتے ہوئے بولا کہ جو تم چاہو ۔ بولی پکی بات ہے اور ساتھ ہی میرے لن کو مسل دیا اور منہ میں بھر لیا میں بولا وعدہ وعدہ جیسا تم چاہو ۔ جس پر پائل نے میرے لن کو منہ میں بھر لیا اور آگے پیچھے کرنے لگی اور ساتھ ہی میرے ٹٹوں کو سہلاتی رہی مجھے کھڑا ہونا دشوار ہورہا تھا میں نے نلکے کی ہتھی کو پکڑ لیامزے سے میرا برا حال تھا ۔ اب میں نے بھی پائل کے سر کو پکڑا اور دھکے دینا شروع کردیے اور زیادہ سے زیادہ لن اندر کرنے کی کوشش کرنے لگا پائل کہاں ہار ماننے والی تھی وہ بھر پور ساتھ دے رہی تھی پھر پائل کھڑی ہو ئی اور میرے آگے جھک گئی اور لن کو منہ میں بھر لیا پھر پائل نے اپنا جتنا منہ ہوسکتا تھا کھولا اور مجھے بولی ڈالو اور دھکے لگاو میں بھی جوش میں تھا اور میں نے بھی آو دیکھا نہ تائو اور اپنا لن پائل کے منہ میں اتار کر دھکے لگانے شروع کردیے ۔ جس سے میرا لن اور اندر پائل کے گلے میں گس رہا تھا ابھی تک جتنا لن پائل کے منہ میں اتر چکا تھا ااج تک اتنا کسی نے نہ لیا تھا اور میں حیران تھا پائل ان سب سے عمر میں بہت چھوٹی تھی ۔ سحر جیسی ایکسپرٹ نے بھی اتنانہ لیا اور نہ ہی زروا اپنی تمام کوشش کے باوجود یہاں تک پہنچ پائی ۔ پھر جوش میں نے زور کا دھکا مارا جس وجہ سے میرا سارا لن پائل کے منہ سے ہوتا ہوا اس کے گلے تک دھنس گیا اور میرے ٹٹے پائل کے ہونٹو ں سے ٹکرائے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا لن کسی گرم پائپ میں گھس کر پھنس گیا ہو یہ کیا میرا لن پورا پائل کے منہ میں تھا ۔ پائل جھٹپٹا رہی تھی اور لن کو نکالنے کے لیے زور لگا رہی تھی ۔ میں نے لن باہر کھینچا توپائل کو کھانسی شروع ہوگئی میں کچھ دیر رک گیا جس پر پائل کی سانس بحال ہوئی ۔پائل بولی آخر میں نے تم کو فتح کرلیا میں بولا کیا مطلب ۔ بولی جس دن تم کو میں نے نورین کے ساتھ کمرے میں دیکھا تھا تو نورین بولی تھی کہ تم کا گھوڑا کوئی بھی پورا اپنے منہ میں نہیں لے سکتا لیکن میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ تم کا گھوڑا چاہے ایک بار ہی سہی پورا منہ میں گھساوں گی ۔ پائل نے پھر سے میرے لن کو اسی طرح منہ میں بھر لیا اور آگے پیچھے کرنے لگی ۔ میں پائل کے منہ میں دھکے لگانے لگا جتنا لن اندر لیتی میں اتنی زور سے دھکا لگاتا اور پائل گھوں گھوں کرتی اور اس کی رال اور تھوک بہہ کر نیچے گررہی تھی لیکن پائل ہار نہیں مان رہی بھی اس سب میں مجھے اتنا مزا آرہا تھا کہ میں بھول گیا کہ اس وقت کہاں ہو اور کیا کررہا ہوں پائل کون ہے ۔ یا کوئی بھی آسکتا ہے ۔ اور پہلی بار مجھے لگا کہ کچھ دیر اور چلا تو میں اس کے منہ میں ہی فارغ ہوجاوں گا حالانکہ ابھی تک سب نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح میں ان کے منہ میں ہی فارغ ہو جاوں اور اسی پر پائل نے بازی لے لی میں نے ایک زور کا دھکا لگایا جس سے میرا لن پائل کا گلا ایک بار پھر چیرتے ہوئے جڑ تک پائل کے منہ میں گھس چکا تھا اور میرے لن نے سیدھا پائل کے میدے میں ہی فائرنگ شروع کردی تھی پائل جھٹپٹا رہی تھی کہ لن باہر نکالوں کیونکہ پائل کی سانس رکنے والی تھی اس کی آنکھیں ابل پڑی تھی اور آنسو آرہے تھے لیکن میں اس مزے میں تھا کہ جب تک میرا لن خالی نہیں ہوگیا میں نے پائل کے منہ سے لن نہیں نکالا اور اس اس کے سر کو قابو میں رکھا پہلی بار کسی کے منہ میں فارغ ہورہا تھا جس کا الگ مزا تھا جس کہ پہلے کبھی نہیں آیا ۔ جب آخری قطرہ بھی پائل کے میدے میں خارج ہوگیا اور میں نے لن باہر کھینچا تو اس کے ساتھ ہی پائل کی سانس بحال ہوئی اور ساتھ ہی کھانستے ہوئے تھوک اور رال اور میرا گاڑھا مال الٹی کی شکل میں اس کے منہ سے نکلنے لگا ۔ کچھ دیر بعد جب پائل کی سان بحال ہوئی تو بولی سچ میں جانور ہو میں بولا سوری یار پہلی بار تھا اور زندگی میں پہلی بار ایسا مزا ملا کہ میں بیان نہیں کرسکتا تم واقعی کمال ہومیں بولا صرف ایک سوال کہ یہ سب کہاں سے سیکھا تو اس کا رنگ اڑ گیا پھر بولی وہ اپنی سہیلیوں سے سنا ہے سب میں بولا صرف سننے سے اتنا تجربہ نہیں ہوسکتا کہ تم صرف سن کر اتنی ماہر ہو جاو۔ میں نے کہا اب ہم دوست ہیں تو بولی ٹھیک ہے بتا دوں گی ۔ ابھی ہم بات کرہی رہے تھے کہ سویرا نے آواز لگائی کہ سو گئے ہوکیا جو اتنی دیر لگا دی نہانے میں تم ٹھیک تو ہو میری تو ہوا ٹائٹ ہوگئی لیکن پھر ہمت کر کے بولا میں ٹھیک ہوں بس نہا کر نکل رہا ہوں بولی جلدی کرو حویلی سے پیغام آیا ہے کہ جلدی نکلو ۔ میں بولا آیا بس نکل رہا ہوں ۔ سویرا کی آواز سن کر پائل نیچے بیٹھ چکی تھی اور اپنے آپ کو صاف کرتے ہوئے کپڑے پہن رہی تھی ۔ پھر بولی باہر دیکھو میں نے دروازے کی جھریوں میں سے پہلے باہر دیکھا پھر آہستہ سے کنڈی کھول کر باہر دیکھا تو سویرا کمرے میں جاچکی تھی اور نازنین کو تو کمرے سے اتنا لگاو ہے کہ وہ کمرے سے مہارانی کم ہی نکلتی ہے ہر چیز اس کے لیے پیش جو کردی جاتی ہے پتہ نہیں کمرے میں کیا کرتی رہتی ہے ۔ خیر پائل نے سر جھکا کر باہر دیکھا جس سے پائل کی گانڈ باہر کو نکل آئی میں نے ہلکی سی چپاٹ اس کی گانڈ پر لگائی اور بولا دیکھ لو کسی دن تم نے مروا دینا ہے بولی کچھ نہیں ہوتا ڈر پھوک میں بولا اتنی بہادر ہے تو اب نہ جاتی بولی ٹھیک ہے نہیں جاتی عجیب پاگل لڑکی ہے جس کو کسی چیز کا ڈر نہیں ہے ۔ میں بولا جاو لیکن یاد رکھنا اب میں صرف سچ سنوں گا بولی اچھا اچھا بتا دوں گی جو تم نے تیر مارنا ہوا مار لینا ۔ پھر آہستہ سے باہر نکل گئی اور گھر سے باہر چلی گئی تاکہ سب کو یہ لگے کے باہر تھی پھر دروازہ سے اندر آگئی اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ میں بہت حیران تھا اور تجسس میں تھا کیا ہے ایسا جس نے اس کو اتنا بے باق ہو ماہر کردیا ہے خیر جلد ہی پوچھ لوں گا ۔ پھر جلدی سے نہا کر باہر نکلا اور تیار ہو گیا جانے سے پہلے پیسے جو پہلے 50ہزار رکھے تھے اور آج زروا نے 50 ہزار روپے دیے تھے اب میرے پاس ایک لاکھ روپے تھا جس میں سے میں نے 20ہزار روپے جیب میں رکھ لیے اور باقی 80ہزار چھپا دیے جس کے لیے میں نے ایسی جگہ چنی تھی جہاں کسی کی نظر نہ پڑے لیکن خطرناک تھا جلد ہی اس کا کوئی حل نکالنا ہے ۔کیونکہ میں صرف یہاں تک ہی نہ رکنے والا تھا مجھے کچھ بننا تھا اور شائد قسمت نے مجھے موقع دیا تھا اور عقل ، شکل ، او ر طاقت اوپر والے نے دی تھی اب جتنی استعمال کر تا مجھ پر تھا ۔ خیر پسٹل رکھا اور خنجر بھی باندھ لیا جو کہ میں نے زخمی ہونے پر گھر پر رہنے پر چھپا دیا تھا اب پھر شہر جارہا تھا پچھلی بار استعمال نہ کرسکا شائد اس بار ضرورت پڑ جائے ۔ پھر حویلی کی طرف راوانہ ہوگیا ۔ حویلی پہنچا۔ گاڑی نکالی جو کے چمک رہی تھی شائد سردار نے دھلوائی تھی ویسے تو اب میں ہی چلاتا ہوں لیکن سرداروں کی گاڑیا ں دھونے کے لیے الگ بندے تھے ۔ جونہر کے پاس لے جا کر دھوتے تھےجہاں پر ایک سروس سٹیشن ٹائپ جگہ بنائی ہوئی تھی ۔ خیر کچھ دیر بعد سردار بھی تیار ہوگیا آکر گیا آج سردار نے بھی پینٹ شرٹ پہنی تھی اور کافی تیار ہوکر آیا تھا لگتا ہے کچھ خاص لوگ ہیں جو سردار اتنا ٹین شن ہو کر جارہا ہے ۔ سردار گاڑی میں بیٹھا تو میں نے پوچھا ہے خیر ہے جو آج بڑا تیار شیار ہوکر جارہے ہیں بولا کہ وہ میرے باہر کے دوست ہیں جب میں ان کے پاس ان کے ملک میں جاتا ہوں تو بہت پروٹوکول دیتے ہیں اور مجھے کافی بڑا اور مشہور آدمی سمجھتے ہیں اس لیے ان کے پاس زرا تیار ہو کر جانا پڑتا ہے ۔ بولے لگ تو تم بھی کم نہیں رہے میں بولا آپ نے ہی تو تیار ہونے کو کہا تھا بولے ٹھیک ہے لیکن ابھی بھی تم کے حلیہ میں زرا گنوار پن ہے شہر جا کر حلیہ درست کرلینا اور شہری حلیہ بنا لینا ۔ بال اتنے بڑھائے ہوئے کسی ترتیب میں نہیں ہے نہ ہی شیو کروائی ہےمجھے زروا نے جو تصویریں دیکھائیں تھیں یاد آگئیں اور اس کی باتیں بھی میں بولا سردار فکر نہ کرو آپ مجھے پہچان نہیں پاو گے بولے دیکھتے ہیں میں گاڑی کافی رفتار سے چلا رہا تھا جلد ہی شہر پہنچ گئے تو سردار بولے ڈیفنس میں ہماری ہے ایک کوٹھی ہے جس میں ان کا انتظام کرنا ہے رہنے کا غفورے نے مجھے بتایا تھا کہ سرداروں کی کافی جائیداد یں شہر میں بھی ہے ایک تو ماربل فیکٹری تھی جس پر میں پہلے جا چکا ہوں لیکن شہر میں ابھی تک کسی جگہ نہیں گیا ۔ سردار مجھے راستہ بتانے لگا تو کہا کہ اب ہم تین چار دن رکیں گے تو شہر کے راستے اچھے سے دیکھ لینا میں بولا ٹھیک ہے پھر ایک کوٹھی کے سامنے جا کر روکنے کو کہا اور ہارن دینے کو کہا تو ایک گارڈ جس نے بلیک کلر کی شرٹ اور پینٹ پہنی ہوئی تھی باہر نکلا اور گاڑی کو شائد پہچانتا تھا جلد ہی درواز ہ کھول دیا اند رداخل ہو گئے اور گاڑی اندر لے کر ایک طرف روک دی ۔ ہم ابھی اتر ے ہی تھے ایک بابو ٹائپ آدمی بھاگتا ہوا آیا اور سردار کو سلام کیا جس پر سردار نے جواب دیا اور کہا کہ کوٹھی کی حالت کیسی ہے بولا بہت اچھی ہے جناب آپ خود دیکھ لیں ہم باتیں کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے واقع ہی کمال کی جگہ تھی حویلی تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی حالانکہ وہ بھی کافی جدید تھی ۔ سردار بولا سب کو خبر کردو میرے کچھ مہمان بیرون ملک سے آرہے ہیں کوٹھی بالکل اچھے سے صاف صفائی کروا دو راشن وغیرہ اگر کچھ کمی ہے تو منگوا لو آدمی بولا ٹھیک ہے سر اس کا نام ناصر تھا ۔ جو شاہد کوٹھی کا منیجر ٹائپ کہہ لیں ۔ پھر سردار بولا سب ملازموں کو بلاو سب آگئے جن میں چار لڑکیاں اور دو مرد تھے ۔ جن میں دو لڑکیاں صاف صفائی کے لیے تھیں اور باقی گھر کے کاموں کے لیے اور دو لڑکیاں باورچی تھیں اور ایک گارڈ جو باہر وہ بھی ہمارے گاوں کا تھا اور ایک مرد اور تھا جو کہ ہیلپر تھا اور باہر سے جو بھی سامان لینا ہوتا وہی لاتا لڑکیاں بھی کافی ماڈرن تھیں اور صفائی والی لڑکیاں تو 16/17 سال کی ہونگی اور جو باورچی تھیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ 25/26 سال کی تھیں جنہوں نے پینٹ شرٹس ہی پہنی ہوئی تھیں اور ان کے بڑے بڑے ممے اور باہر کو نکلی ہوئی گانڈ کپڑوں کے اوپر سے ہی محسوس ہورہی تھی یہ سب ہمارے گاوں کی ہی تھیں جو کہ کوٹھی کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور شہر میں رہنے کی وجہ سے یہاں کا ماڈرن پن ان میں آگیا تھاسرداروں نے اپنی خدمت کے لیے کتنے لوگ رکھے ہوئے تھے کم سے کم 100 لوگ تو حویلی کے لیے ہوں گے پھر یہاں بھی ان میں صرف ایک آدمی یہاں شہر سے تھا جو کہ ان کا منیجر تھا سب کو گائیڈ کرنا اس کا کام تھا اور کام کروانا بھی ۔ سردار نے سب کو بتا دیا کہ میرے مہمان بہت خاص ہیں اور بیرون ملک سے آرہے ہیں جن میں انگریز بھی ہونگے ۔ اس لیے سب کچھ اچھے سے ہونا چاہیے کسی چیز کی کمی نہ ہو جو چیز مانگے فوراً حاضر کردی جائے ۔ پوری کوٹھی بالکل صاف ہونی چاہیے اور ہر کمرے کو اچھے سے دوبارہ صاف کرو ۔ اور کھانا اچھا ہونا چاہیے تم اچھا پکاتی ہو لیکن پھر بھی خیال رکھنا۔پھر سردار ایک کمرے میں چلا گیا کو کہ سیکنڈفلور پر تھا بہت ہی وی آئی پی کمرہ تھا ۔ اٹیچ باتھ روم تھا اور کیا کچھ نہیں تھا اس کمرے میں ۔ پھر بولا کہ انہوں نے کل دن میں 10بجے پہنچنا ہے میں اس لیے پہلے یہاں آگیا کہ سارے انتظام اپنی اانکھوں سے دیکھ سکوں ۔ پھر بولا تم جاو ناصر کے ساتھ شہر میں گھوم پھر آو اور اپنا حلیہ درست کروا لو ۔ ااتنے میں ایک لڑکی جو کہ باورچی ایک ٹرالی سی دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوئے جس میں چائے اور اس کے ساتھ کا سامان وغیرہ تھا جو کمرے کے ایک طرف میرز اور صوفہ سیٹ کے پاس کھڑی کردی اور ٹرالی سے اٹھا کر میز پر رکھنے لگی تو سردار بولا نازیہ ناصر کو بھیجنا چائے رکھ کر ۔ پھر کچھ دیر بعد ناصر آیا تو سردار بولا اس کو لے جاو اور شہر گھما لاو اور راستوں کی اچھے سے پہچان کرووا دینا اور اور اس کا حلیہ زرا شہری طرز کا کروا دو ۔ اور اس کو کچھ کپڑے اور جوتے وغیرہ بھی دلا دو ۔ ناصر بولا سر فکر نہ کریں ایک دم بدل دوں گا ۔ پھر میں ناصر کے ساتھ باہر آگیا تو ناصر نے میرا حال چال پوچھا اور بولا کہ آپ کون ہیں تو میں بولا میں سردار کا دوست ہوں تو اس نے مجھے زیادہ پروٹو کول دینا شروع کردیا ۔ پھر مجھے پہلے شہر کی آوارہ گردی کرواتا رہا اور اچھے سے روڈ سمجھاتا رہا ایک بار میں ہی سب سمجھ نہیں آسکتا تھا لیکن جو میرے پاس خاص صلاحیت تھی وہ تھا دماغ ایک بار جو چیز دیکھ لیتا وہ بھولتی نہیں تھی میں اچھے سے سارے رستے اور ان کے پوائنٹ یاد کرتا گیا اب تقریباً میں نے سارا شہر دیکھ لیا تھا یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہرچیز سمجھ چکا ہوںلیکن اب اگر گاڑی لے کر نکلتا تو بھولتا نہیں ۔ کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتا ۔ پھر اس نے مجھے ایک سیلون میں چھوڑا بولا کہ یہ شہر کا سب سے اچھا اور مہنگا سیلون ہے لیکن یہاں رش بہت ہے اس لیے کافی وقت لگ جائے گا میں بولا تو میں تمہیں کوٹھی ڈراپ کر دوں گا اور خود یہاں آجاوں گا تمہیں کوٹھی کے معاملات بھی دیکھنے ہیں صبح مہمان آرہے ہیں اور میں کچھ دیر اکیکے بھی راستے دیکھنا چاہتا ہوں اب گاڑی میں ڈرائیو کررہا تھا اور اس کو واپس کوٹھی میں لے آیا بولا کمال ہے آپ نے ایک بار میں راستہ سمجھ لیا میں بولا پہلے کئی بار آچکا ہوں شہر اس لیے جلد ہی سمجھ گیا پھر اس کو کوٹھی پر اتار اور اندر چلا گیا ۔ سردارکے کمرے کا دروازہ بجایا –اندر داخل ہوگئے سردار اندر بستر میں گھسا ہوا تھا ۔ ناصر نے سردار کو بتایا کہ میں نے سارے راستے سمجھا دیے ہیں سر اور پھر بتایا کہ سیلون میں کافی رش تھا وقت لگ جانا تھا اس لیے آفتاب سر نے کہا کہ مجھے ڈراپ کر کے وہ خود سیلون چلے جاتے ہیں بولے کیا ایک بار راستہ دیکھ کر یہ سیکھ چکا ہے تو ناصر بولا جنا ب اب یہ خود ہی گاڑی ڑائیو کر کے لایا ہے ۔ میں بولا فکر نہ کریں میں جلد ہی واپس آجاوں گا اور اپنا حلیہ بھی بدل لوں گا ۔ جب غفورے کے ساتھ شہر آیا تھا ٹانگین نکلوانے تو اس نے اچھے سے راستے سمجھا دیے تھے اور اب ناصر نے بھی سمجھا دیے ہیں ۔ اچھا ٹھیک ہے جاو ۔ اور ناصر کو بولا اس کو 20ہزار روپے دے دینا ۔ میں باہر نکلا اور ناصر نے مجھے پیسے پکڑائے اور میں جلدی سے گاڑی باہر لے کر نکلا اور سیدھا ایک پی سی او سے سحر کا نمبر ملایا جی ہاں میں نے سحر کے لیے ناصر کو واپس بھیج دیا اور سردار سے بھی جھوٹ بولا ۔جس پر اس نے فون اٹھایا اور بولی کون بول رہا ہے میں بولا وہ بول رہا ہوں جس کا تم کو انتظار ہے افی تم کہاں سے بول رہے میں بولا شہر سے بول رہا ہوں اور پھر میں نے پوچھا کہ گھر ہو کہ ہسپتال بولی میں ابھی گھر ہوں تو میں بولا کہ جلدی سے تیا ر ہوجاو میں آرہا ہوں بولی جانا کہاں ہے سب خیر ہے نہ میں بولا سب خیر ہے بس جلدی سے تیار ہو جاو میں5منٹ میں پہنچتا ہوں ۔ پھر میں نے فون کٹ کیا اور جلد ہی سحر کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا اور ہارن دیا سحر کچھ ہی پلوں میں باہر آگئی اور آکر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی بولی سب خیر تو ہے نہ میں بولا سب خیر ہے بولی مجھے ڈرا ہی دیا تھا کہ پھر کوئی مسئلہ تو نہیں بن گیا میں بولا بس تمہاری یاد ستانے لگی تو آگیا بولی آج کچھ اور بھی مانگ لیتی تو شائد مل جاتا آج تم شدت سے یاد آرہے ہو میں بولا میں یاد آرہا ہوں یا میرا گھوڑا بولی ۔ دونوں ۔ پھر میں نے اس کو بتایا کہ مجھے لیٹیسٹ ماڈل بننا ہے بولی مطلب میں بولا مجھے شہری بابو بننا ہے جناب سردار کے کچھ مہمان بیرون ملک سے آرہے ہیں تو سردار نے بولا ہے کہ حلیہ درست کرو اور شہری بابو بن جاو انہوں نے ایک بندے کے ساتھ بھیجا لیکن میں نے اس کو واپس بھیج دیا کیوں کہ مجھے تم کے ہاتھوں شہری بابو بننا ہے تم یہاں سے ہی ہو ایک لڑکی ہو ا س لیے تم اچھے سے مجھے شہری بابو بنا دو گی اچھا تو جناب کو انگریزوں کو ایمریس کرنا ہے ۔ میں بولا نہیں لیکن اب میں خود کو بدلنا چاہتا ہوں ۔ جب قسمت موقع دے رہی ہے تو کیوں نہ ۔ بولی اس کی فیس لگے گی میں بولا جنا ب میں تو آپ کا خادم ہو ں جو حکم کریں تو سحر کھلاکھلا کر ہنس پڑی جس کی ہنسی کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے زندگی سے بھرپور ہنسی تھی۔ بولی اس کی ایک ہی فیس ہے کہ رات تمہیں میرے ساتھ گزارنی پڑے گی میں بولا کہ خادم حاضر ہے ۔خیر بولی کے 10بج رہے ہیں خیر یہ شہر 10کے بعد ہی تو روشن ہوتا ہے رات جواں ہے ہم بھی جواں ہیں تو شرو ع کرتے ہیں پہلے شاپنگ کرتے ہیں پھر سیلون چلیں گے ۔ پھر مجھے وہ ایک بڑے سے مال پر لے آئی اور ایک کپڑوں کی دوکان پر لے گئی وہاں پر ایک سیل گرل تھی جس نے سحر کو دیکھا تو فوراً آگے بڑھی کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ ۔ سحر بولی ہاں یہ میرے دوست ہیں ان کے لیے کچھ شاپنگ کرنی تھی ۔ بولی بیٹھیے میں آپ کو بیسٹ کلیکشن دیکھاتی ہوںسحر نے مجھے بتا یا کہ اس باپ کا میں نے آپریشن کیا تھا اور اس کی زندگی بچائی تھی اس لیے اس کو مجھ سے بہت عقیدت ہے پھراس لڑکی نے جس نام مہرین تھا کافی سارے پینٹ شرٹ اور شہری لباس دیکھائے جس میں سحر نے 5 بہترین سوٹ چن لیے ۔پھر لڑکی کو کہا کہ کچھ نارمل دیکھاجو نارمل پہنے جاسکیں جس پر اس نے پتلونیں اور بنیان ٹائپ شرٹس دیکھائیں جو کہ آج کل کے لڑکے لوگ شہر می پہنتے تھے ۔ جس میں سے بھی سحر نے 5 چن لیے اور اس کے ساتھ باقی سامان بھی لے لیا بیلٹ وغیرہ اور اسی طرح کی چیزیں ۔ پھر سحر نے کہا بل بناو تو بل بنا 15ہزار روپے ۔ میں نے جیب سے پیسے نکال کر گننے لگا تو سحر نے پہلے ہی کہہی دیا کہ میرے اکاونٹ میں ڈال دینا ۔ میں بولا نہیں اگر ایسا کرو گی تو میں ابھی واپس چلا جاوں گا بولی پہلی دفعہ تم نے کوئی کام بولا ایک دوست مانتے ہوئےاس لیے چپ کر لے چلو تم نے خو د کو میرے حوالے کیا ہے اس لیے اب میری مرضی چلے گی ۔ میں چپ ہوگیا کہ میں کسر نکال دوں گا ۔ خیر اسی طرح جوتے لیے اور کافی سارا سامان لیا پروفیوم وغیرہ ۔ سحر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی پھر مجھے ایک بیوٹی سیلون پر لے گئی جہاں پر نائی لڑکیاں تھیں یہ سالا ہوکیا رہا ہے شہر میں کام کرنے کے لیے مرد مرگئے ہیں جس شاپ پر جاو لڑکیاں اب نائی بھی ۔ تو سحر نے کہا کہ ان کا میک اور کرنا ہے ۔ ان کے بالوں کا سٹائل بنا دو اور شیو وغیرہ کردو باکل اس کو چینج کرنا ہے ۔ نیو لک آنی چاہیے ۔ لڑکی واقع ہی اپنے کام میں ماہر تھی جس نے ایک ٹائٹ شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی اس نے دو گھنٹوں میں ہی میرا بالکل حلیہ بدل دیا کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ میں وہی آفتا ب خان ہوں جو سارا دن کھیتوں میں کام کرتا او ر اپنی سوتیلی ماں کی مار کھاتا ۔ میرے بال چھوٹے کردیے لیکن اتنے چھوٹے نہیں بس ایک ترتیب کے حساب سے اور شیو کی پھر میرے چہری پر پتہ نہیں کیا کیا لگاتی رہی اور مساج کرتی رہی میرا رنگ پہلے ہی صاف تھا اب تو بالکل چمک رہا تھا پھر اس نے میرے بال شیمپو کیے اور سر کو دھویا اور صاف کیا ۔ اور پھر قیمض اتروائی اور میری باڈی پر بھی کسی لوشن سے مساج کیا میری بادی کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں عجیب سے چمک ااگئی بولی سر آپ کی باڈی کمال کی ہے اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو فل باڈی مساج دے سکتی ہوں اس سے آپ کی باڈی اور نکھر جائے گی سحرپیچھے کھڑی سن رہی تھی بولی ضرورت نہیں ہے ان کی باڈی ویسے ہی اچھی ہے تم صرف اپنا کام کرو لڑکی جلدی جلدی کام کرنے لگی اور پھر سارا کام ہوگیا ۔ تو سیلون کے بنے باتھ میں نہایا اور ایک نئے ڈریس جو بھی سحر نے دلوائیں تھیں پہن لی جب باہر اآیا تو سحر دیکھتی رہ گئی بولی تم ضرور لڑکیوں کی جان لو گے بہت خوبصورت لگ رہے ہو تم میں ویسے بھی صنف نازک کے لیے کھینچاو ہے لیکن اب تو پورے مقناطیس بن گئے ہو جو بھی ہوگی چپک جائے گی میں بولا میں ایسے ہی ٹھیک ہوں بولی تم ایسے ہی ٹھیک ہو لیکن لڑکیاں کہاں ہار ماننے والی ہیں ۔ بولی تمہارا سردار اور جو بھی تم کو اس حلیے میں دیکھیں گے تو پہچان ہی نہیں پائیں گے میں بولا مجھے اتنا بھی چنے کے جھاڑ پر نہ چڑھاو کہ گر ہی نہ جاوں بولی سچ میں بہت پیارے لگ رہے ہو ۔ میرا دل تو کررہا ہے کہ تم کو یہیں پر کھا جاوں تو پیچھے سے سیلون والی لڑکی بولی کھا لیں ہمیں بھی تھوڑا حصہ دیجیے گا سحر نے مجھے بازو سے پکڑا اور بھگا کر لے گئی بولی کمینی یہیں پر نظر لگائے گی ۔ سحر سے واقع ہی اب صبر نہیں ہورہا تھا اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی میرے پینٹ کی زپ کھولی لیکن نیچے میں نے کھچا پہنا ہوا تھا اس نے پینٹ کے بٹن کو کھولا اور پھر پینٹ اور کچھے کو پکڑا اور مجھے بولی اوپر ہو میں بولا کیا کررہی ہو یہیں ننگا کررہی ہو بولی چپ کر کے بیٹھوں اور میری پینٹ اور کھچا گھٹنوں تک اتار دیا اور میرے گھوڑے کو باہر نکال لیا میں بولا رکو کوئی دیکھ لے گا بولی ہاں دیکھ لے گا ان کالے شیشوں میں بس کرو گاڑی چلاو میں بولا ایسے مجھ سے کیسے چلائی جائے گی بولی مجھے سے گھر تک صبر نہیں ہورہا ۔ اور وہ جھک گئی گاڑی میں ہی میرے لن کو منہ میں بھر لیا اور بے صبری سے میرے لن کو چوسنے لگی مجھے بھی مزا ٓنے لگا اور میں نے اپنی پینٹ اور کچھا پاوں سے نکال دیا تاکہ خراب نہ ہوجائیں مشکل سے کنٹرول کرتے ہوئے گاڑی چلائی اور سحر کے گھر کے باہر بیل دی سحر کو پکڑ کر سیدھا کیا کہ گھر ااگیا ہے گارڈ نے دروازہ کھولا گاڑی اندر لے گیا ۔ اور اور پینٹ پہننے لگا بولی رہنے دو سب سوئے ہوئے ہوں گی پچھلی بار سحر نے بتا یا تھا کہ اس کے امی ابو ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں کام کے سلسلے میں ۔ میں بولا تمہارے امی ابو واپس آگئے بولے امی ہی گھر پر ہیں اور ابو تو ابھی ملک سے باہر ہیں امی بھی اس وقت سوئی ہوں گی مجھے عجیب لگ رہا تھا لیکن پھر پینٹ اور کچھا کندھے پر ڈالا اور ایسے ہی نگا اندر چلا گیا ۔ سحر سیدھا کمرے میں مجھے کھینچتے ہوئے لے گئی میں بولا رکو تو سہی لیکن سحر مجھ پر ٹوٹ پڑی اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ پڑی میں بھی سحر کے ممے مسلنے لگ پڑا جس سے سحر سسکنے لگ پڑی ۔ پھر سحر الگ ہوئی ااور اپنے کپڑے بے صبری سے اتارنے لگی میں نے بھی سانس لی اور اپنی نئی شرٹ اتار کر ایک طرف رکھ سحر مجھ پر کود گئی جس سے میں بیڈ پر گرا اور سحر مجھے چومنے لگی اور میرے ہونٹوں کو کاٹنے لگی میری سسکی نکل گئی ۔ بولی آج تم کو کھا جاوں گئی میں بولا روکا کس نے ہے کھا جاو ۔ میں نے بھی سحر کے ممے ہاتھ میں بھر لیے اور چوسنے لگا اور پھر سحر میرے لن کی طرف آگئی اور منہ میں بھر لیا چوسنا شروع کردیا اور اپنی پھدی کو میرے منہ پر رکھ دیا جس کو میں نے چوسنا شروع کردیا اب سحر میرے اوپر ننگی الٹی لیتی تھی اور میرا لن چوس رہی تھی اور میں سحر کی پھدی کو چوس رہا تھا پھر سحر نے اپنا پانی میرے منہ پر چھوڑ دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے سحر کو پلٹا دیااور سحر کے اوپر آگیا اور اپنے گیلے لن پر مزید تھوک لگائی اور سحر کی گیلی پھدی پر رکھ کر دھکا مارا دھکا اتنا جاندار تھا کہ میرا لن ایک ہی گھسے میں سحر کی پھدی میں جڑ تک اتر گیا اور سحر نے چیخ ماری لیکن میں رکا نہیں اور دے دھنا دھن دھکے پر دھکے لگائے جارہا تھا سحر نیچے سسک رہی تھی اور سحر کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں ۔ لیکن میں بالکل رحم کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ سحر کو رف چدائی پسند تھی ۔ میں نے سحر کے ٹانگین کاندھوں پر رکھی اور بیڈ کےنیچے اتر گیا اور دھنا دھن دھکے لگا رہا تھا ۔ سحر پورے جوش کے ساتھ دھکوں کا جواب دے رہی تھی ۔ اور سسکیاں لے رہی تھی سحر کی پھدی میں دھکا لگاتے ہوئے تال سے تال مل رہی تھی جس سے اور جوش بڑھ رہا تھا پھر سحر کی پھدی نے لاوا اگل دیا ۔ لیکن میں نے سحر کی پھدی میں دھکے لگانے نہ چھوڑے جس پر سحر نے اب چیخنا شروع کردیا تھا میں نے اپنا پسٹن تیز چلانا شروع کردیا پھر جب سحر نے نے بلند آواز میں چیخنا شروع کردیا تو میں نے لن نکال لیا اورسحر کی پھدی سے پانی نکل کر سحر کی گانڈ کو بھگو رہا تھا اور میرے لن پر بھی سحر کا پانی لگا ہوا تھا میں نے ٹانگوں کو اور اٹھایا اور لن کو سحر کی گانڈ کا نشانہ لیا اور لن کو سحر کی گانڈ میں دبایا ٹوپی اندر گھس گئی تو سحر نے سسکی بھری میں نے ہٹ کا دھکا لگایا تو میرا لن سحر کی گانڈ چیرتا ہوا جڑ تک سحر کی گانڈ میں گھس گیا اور پھر میں نے مشینی پسٹن چلانا شروع کردیا ۔ سحر نے پھر سے چیلاناشروع کردیا میں نے سحر کو پلٹایا اور گھوڑی بنا لیا اور لن سحر کی گانڈ میں ہی رکھا اور گھوڑی بناتے ہی سحر کی گانڈ کا بھرتا بناتا رہاسحر نے اب عجیب عجیب آوازیں نکالنا شروع کردیں تھیں شاہد سحر نے پھر سے لاوا اگل دیا تھا لیکن آج میں بالکل رحم کے موڈ میں نہیں تھا اور سحر کی کمر کو پکڑ کر مضبوطی سے دھکے لگا رہا تھا اور یہ بھی بھول گیا تھا کہ گھر میں سے کوئی اٹھ کر آسکتا تھا کیونکہ سحر کی ماں ساتھ والے کمرے میں سورہی تھی اور پورے جوش سے سحر کی گانڈ بجا رہا تھا ۔ اچانک میری نظر کھڑکی پر پڑی جس کا پٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور وہاں پر ایک عورت کھڑی تھی جو کہ اندر کا نظارا دیکھ رہی تھی لیکن میں اس وقت اتنے جوش میں تھا کہ رک نہیں سکتا تھا اوریہ ضرور سحر کی ماں تھی جس کو دیکھنے پر میں نےاور جوش سے دھکے لگانے شروع کردیا نہ جانے کیوں میں سحر کی چیخیں سحر کی ماں کو سنوانا چاہتا تھا اس عور ت سے میری نظریں مل چکی تھیں اور میں اور زیادہ جوش سے سحر کی گانڈ مارنے لگا تھا اس وقت اتنی زور سے سحر کی گانڈ میں دھکے لگا رہا تھا کہ اگر اس کو میں کمر سے پکڑا نہ ہوتا تو وہ بیڈ سے نیچے گر جاتی میرے دھکے سے اور سحر درد سے چلا رہی تھی لیکن نہ جانے کیوں میں اس کو اور زیادہ درد دے رہا تھا میرا بس نہیں چل رہا تھا دل چاہتا تھا کہ سحر کی گانڈ میں خود بھی گھس جاوں نیچے سحر چیخ رہی تھی اور رحم کرنے کو کہہ رہی تھی میں اس کی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سحر کو بے دردی سے چود رہا تھا پھر میرے لن نے بھی ہار مان لی اور اس کی گانڈ میں اپنا بارو اتارنا شروع کردیا آج چار بار فارغ ہوچکا تھا پہلےگلناز کی پھدی میں دوبار ،پھر پائل کے منہ میں اب سحر کی گانڈ میں جس وجہ سے اب مجھے تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی ۔ میں وہیں پر سحر کے اوپر لیٹ گیا جو کہ میرے فارغ ہونے پر سانس لے رہی تھی جس پر میں نے اپنے لن باہر نکالا تو پھک کی آواز آئی جیسے کسی بوتل کا ڈھکن کھلا ہو۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو سحر کی ماں ابھی بھی کھڑی ہوئی سحر کی گانڈ کا نظارہ دیکھ رہی تھی پھر وہ چلی گئی ۔ میں نےپلٹا کر سحر کو اپنی طرف کیا اور اس کے آنسو پی لیے اور کسنگ شروع کردی ۔ جس پر کچھ دیر بعد سحر نارمل ہوگئی بولی آج کیا ہوگیا تھا لگتا تھا میری جان لے کر مانو گے میں بولا تم کی ٹائٹ گانڈ کی وجہ سے میں مدہوش ہوگیا تھا مجھے تم کی گانڈ اتنا مزا دے رہی تھی کہ خود کو روک نہیں پایا بولی میری گانڈ تم کو اتنی پسند آگئی ہے میں بولا لاجواب ہے اور ایک تھپڑ مار دیا بولی تب ہی تم نے اس بیچار کا ستیاناس کردیا ہے ۔ میں بولا کچھ نہیں ہوتا تم کو ڈاکٹر ہو کوئی نہ کوئی دوا ہوگی بولی ہے ایک جیل درد ختم کردیتی ہے فوراً میں بولا مجھے بھی دے دو بولی کس کو لگانی ہے میں بولا کوئی مل جاتا ہے بولی ہاں تم نے جو حلیہ بنایا ہے تو لڑکیاں تو آئیں گی اور ان کی خیر نہیں رہے گی میں بولا ایسا نہیں ہے لیکن کبھی ضرورت پڑ جاتی ہے میں بولا اب میں چلتا ہوں سردار میرا انتظار کررہا ہوگا میں سیلون کے لیے نکلا تھا اور 3بج چکے ہیں خیر میں سحر کے اٹیچ باتھ میں ہی نہایا اور دوبارہ وہی کپڑے پہن لیے کیونکہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی اتار دیے تھے ۔ پھر سحر مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی اور میں نے اس کو ایک زوردار کس کی جس کے بعد میں حویلی کی طرف روانہ ہوگیا ہارن دیا گارڈ نے کچھ دیر بعد دروازہ کھولا ۔ میں اندر چلا گیا اور سوچا سردار کو اس وقت نہیں جگاتا سو جاتا ہوں لیکن سردار شاہد میرے انتظار میں جاگ رہا تھا کمرے سے نکل کر بولا اآگئے میں تو بہت پریشان تھا کہ کہاں گئے میں بولا کہیں نہیں سیلون گیا اور خریداری کی رش ہونے اور نیا ہونے کی وجہ سے کچھ وقت لگ گیا بولا کچھ دیر اور نہ اآتے تو پولیس کو کال کرنے لگا تھا میں بولا سردار مجھے اتنا کچا سمجھا ہے بولا ویسےسچ میں تم اب پہچانے نہیں جارہے ہو بالکل ہیرو لگ رہے ہو میں بولا مجھے چنے کے جھاڑ پر نہ چڑھائیں بولے کسی سے بھی پوچھ لینا پھر بولااچھا اآرام کرو 3 بج کے ہیں 9بجے ایئر پورٹ بھی چلنا ہے میں بولا بے فکر رہیں ۔ صبح مین جلدی اٹھا 6 بجے کیونکہ روٹین تھی اس لیے عادت کے مطابق اٹھ گیا نہا کر تیا ر ہوا اور نئے کپڑے پہنے ایک بلیک پینٹ اور بلیک ہی شرٹ تھی جو میرے گورے رنگ پر خوب چچ رہی تھی اس پر بلیک کوٹ تھا باہر نکلا تو ناصر مہمانوں کے لیے فائنل تیار کروا رہا تھا مجھے دیکھ کر بولا تم تو بالکل بدل گئے ہو یار ہیرو بن گئے ہو اور لڑکیاں بھی مجھے ہی دیکھ رہی تھیں ۔ مجھے اپنے اآپ پر نا ز سا ہو رہا تھا سحر نے اچھی گرومنگ کی تھی ۔ خیر میں سردار کے ساتھ ایئر پورٹ چلا گیا ۔ فلائٹ ٹھیک دس بجے لینڈ کر گئی لیکن باہر اآتے ہوئے انہیں 11بج گئے وہ پانچ لوگ تھے جن مین 3لڑکیاں اور 2مرد تھے لڑکیاں دو انگریز اور ایک پنجابی تھی اور آدمیوں میں ایک انگریز اور ایک پنجابی تھا ۔ سردار ان سے گلے ملا اور میں نے بھی اآدمیوں سے ہاتھ ملایا لیکن جب لڑکیوں نے سلام کے لیے ہاتھ اآگے بڑھایا تو مجھے بہت حیرانی ہوئی لیکن سردار نے اشارہ کیا تو میں نے بھی ان لڑکیوں سے ہاتھ ملا لیا انگریز لڑکیوں کا نام شیزا اور لیزا تھا اور پنجابی والی کا سمرن کور تھا اورانگریز اآدمی کا نام جیک تھا اور پنجابی کا نام بلجیت سنگھ تھا ۔ بلجیت اور سمرن کور بہن منگیتر تھے اور جیک شیزا کا بوائے فرینڈ تھا جب کہ لیزا شیزا کی بہن تھی ۔ جب میل میلاپ ہوا اس کے بعد سامان گاڑی میں رکھا پجارو میں سب آگئے میں ڈرائیو کررہا تھا شیشے سے نظر پیچھے گئی تو لیزا کی نظر مجھ پر ہی ٹکی ہوئی تھی میں چوری چوری لیزا کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک

        ۔
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • بہت زبردست اپڈیٹ

          Comment


          • آخر اس کہانی پر لطف کی انتہا ہے۔

            Comment


            • Wah g, bohat umda update, payal to chupi rustam ha, norr or payal ka raaz kahani ko naya rang dy ga, zabardast ManMoji bhai

              Comment


              • kamal ki update di yar.story parh ker madhosh ho jata hon.is story ki jitni tareef ki jae kam hai.writer mubarikbad k mustahiq hai.top story hai

                Comment


                • Laghta ha Kahani international honey ja rahy ha abb mazza aye ga

                  Comment


                  • باکمال اپڈیٹ
                    ہیرو کی لک اور صحت مند باڈی شپ لڑکیوں کی جانِ لے گی

                    Comment


                    • لاجواب کھانی زبردست اپڈیٹ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X