Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

‎ہنی مون

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    بہت عمدہ اپڈیٹ

    Comment


    • #32
      ‎شہریار اور میری شادی کو آج تین ہفتے مکمل ہو گئے تھے. ان تین ہفتوں میں ہم نے متعدد مرتبہ سیکس کیا تھا لیکن آج مارٹن اور انجیلا کے ہمراہ سمندر کی سیر کے بعد شہریار کا جوش دیدنی تھا. جوش کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور مجھ پر پل پڑا. ایک لمحے کو تو میں گڑبڑا کر ہی رہ گئی تھی. اسکا رویہ ہی ایسا تھا. میں نے تو آج تک اس کو بہت رحم دل اور خیال رکھنے والا ہی پایا تھا. یہ وحشیانہ پن میرے لئے بلکل نئی چیز تھی لحظہ میری حیرانگی قدرتی تھی. میں اکثر سیکس کے دوران منہ سے ایسی آوازیں نکالا کرتی تھی جیسے پورن فلموں میں چدنے والی اداکارائیں نکالتی ہیں. اس سے مجھے بھی دوران سیکس ایسا لگتا تھا کے میں کوئی فلمی اداکارہ ہوں اور آوازیں سن کر شہریار کا جنوں بھی بڑھتا تھا لیکن آج کی بات نرالی تھی. آج کوئی اداکاری میرے روئے میں شامل نہ تھی. سو فیصد قدرتی رد عمل تھا. جب شہریار نے مجھے گود میں اٹھا کر بیڈ پر پٹخا تو میری چیخ نکل گئی. شہریار تو جیسے بھیڑیا بنا ہوا تھا. میں سہم کر بیڈ پر اس کی پہنچ سے دور ہوئی لیکن اس نے آگے بڑھ کر میری ٹانگیں کھینچ کر اپنے قریب کر لیا. میرے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھیں جو کہ ایک دم بلند ہو گیں جب اس نے میرا بلاوذ اتارنے کے بجاے کھینچ کر پھاڑ ہی دیا. مجھے اچھی طرح سے معلوم ہو گیا تھا کہ بات صرف بلاوز تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکے اور بھی بہت کچھ پھٹنے والا ہے. چوت تو میری پہلے ہی پھاڑ چکا تھا. کیا اب میری گانڈ کی باری ہے؟ یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے. کھڑا تو شہریار کا لنڈ بھی تھا جس کا اندازہ پینٹ کے اندر سے ہی ہو رہا تھا. میرا بلاوز پھاڑنے کے بعد زیادہ وقت ضایع کے بغیر اس نے میری پینٹ اتار دی اور خود بھی ننگا ہو گیا. لنڈ کی تنتناہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی. لنڈ کی ٹوپی ایسے سرخ انگارہ ہو رہی تھی جیسے خون سے بھر گئی ہو. اف. ایک لمحہ ضایع کے بغیر اس نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور ایک ہی دھکے میں پورا کا پورا لنڈ میری چوت میں داخل کر دیا اور جھٹکے مارنے لگا. ہر جھٹکے کے ساتھ میری بلند ہوتی چیخوں نے شاید اسکا جنوں کئی گنا بڑھا دیا تھا کیونکہ ہر جھٹکے کی شدت میں اضافہ ہوا چلا جا رہا تھا. شکر تھا کہ یہاں کمرے ساؤنڈ پروف تھے ورنہ تماشا ہی بن جاتا. شہریار نے اس بری طرح مجھے چودا کہ یہ تجربہ میری زندگی کے یادگار ترین تجربوں میں سے ایک بن گیا. آغاز میں میں جس قدر سہمی ہوئی تھی، بعد میں میں نے اتنا ہی انجواے کیا. یہ سچ ہے کہ شروع میں میری چیخوں کی وجہ درد ہی تھا. بیشک میں کنواری نہیں تھی لیکن کہدے کے لئے چوت کا تر ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اور جب شہریار نے میری خشک چوت میں اپنا لوہے کے راڈ کی طرح سخت لنڈ پورا کا پورا ایک ہی جھٹکے میں گھسیڑ دیا تو درد تو ہونا ہی تھا نا. بہرحال، جب اتنی شدت سے چدائی ہو تو زیادہ دیر تک نہیں چلتی. وہی ہوا، پانچ منٹ کے اندر ہی شہریار ڈسچارج ہو گیا اور میرے ساتھ ہی بیڈ پر نڈھال ہو کر لیٹ گیا. کمرے میں مکمل خاموشی طاری تھی اور میں شہریار کے اس غصیلے موڈ کی وجہ سوچے چلے جا رہی تھی. کہیں شہریار کو اس بات پر تو غصہ نہیں آیا تھا کہ مارٹن نے مجھے گرنے سے بچانے کے لئے اپنے بازوں کا سہارا دیا تھا اور شہریار بیشک کتنا ہی کھلے ذہن کا مالک کیوں نا ہو، اپنی برہنہ مشرقی بیوی کو ایک برہنہ غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر حسد میں مبتلا تو ہو سکتا ہے نا. میرے لئے یہ سوچ ہی بہت تکلیف دہ تھی کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ ہمارے رشتے کی بنیاد اعتماد ہو اور شک ہم سے کوسوں دور ہے ۔(جاری ہے )

      Comment


      • #33
        بہت اعلیٰ

        Comment


        • #34
          زبردست کہانی ہے

          Comment


          • #35

            ‎میں نے شہریار سے ڈرتے ڈرتے میں نے اس وحشیانہ پن کی وجہ دریافت کی لیکن وہ مجھے بتانے سے جھجھک رہا تھا. میرے بار بار اصرار پر اس نے بتایا کہ جب مارٹن نے مجھے اپنے بازؤں میں تھاما تھا تو اسے برا لگنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا ہی اثر ہوا تھا یعنی مجھے مارٹن کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار نے ہارنی فیل کیا تھا. شہریار کے منہ سے یہ سن کر میں حیران رہ گئی. میں نے تو جو بات سوچی تھی حقیقت اس کے بلکل الٹ ہی نکلی. حیرانی اپنی جگہ، لیکن شہریار کی سوچ نے میری ذہن میں خیالات کی نئی جہتیں جگا دی تھیں. اگر مجھے غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار کو اچھا لگتا ہے تو یہ سلسلہ آخر کہاں رکے گا؟ ابھی تو مارٹن کے عمل میں کوئی جنسی عنصر نہیں تھا لیکن اگر کوئی مجھے غلط نیت سے چھو ے تو کیا پھر بھی شہریار کو اچھا لگے لگا اور کیا وہ ایسا منظر دیکھ کر لطف اندوز ہو گا؟ ایسے ان گنت سوالات میرے ذہن میں منڈلانے لگے تھے. شہریار کا وحشیانہ پن تو لگتا تھا کہ ڈسچارج ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا. میرے چہرے پر گہری سوچ کے آثار دیکھ کر شائد وہ بھانپ گیا کہ میرے ذہن میں یقیناً اسکی بات سے شکوک و شبھات پیدا ہو گئے ہیں جنہیں دور کرنے کی غرض سے اس نے مجھے بتایا کہ یہ اس کی سیکس فنٹسی ہے لیکن وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے میں ان کمفرٹیبل محسوس کروں اور نہ ہی کسی ایسے کام پر مجھے مجبور کرے گا جسے کرنا مجھے نہ پسند ہو.

            ‎اتنی محبت بھری باتیں سن کر میرا دل بھر آیا اور مجھے خوشی بھی ہی کہ میرا شوہر اتنا پیار کرنے والا ہے ورنہ پاکستانی مردوں کا حال تو میں دیکھ ہی چکی تھی. بہرحال، شوہر اتنا اچھا ہو تو پھر بیوی کے دل میں بھی محبت پیدا ہو ہی جاتی ہے خواہ مرضی کی شادی ہو یا نہیں. میری تو ویسے بھی پسند کی ہی شادی تھی. میں شہریار کی محبت کے سامنے پگھلی جا رہی تھی. لاکھ کوشش کی کہ خود پر قابو پا سکوں لیکن آنکھوں سے آنسو نکل ہی آے اور میں بے اختیار شہریار کے گلے لگ کر رونے لگی. شہریار مجھے تسلیاں دیے جا رہا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ میں اسکے گزشتہ روئے سے دلبرداشتہ ہوں جبکہ میں نے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ میں شہریار کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کروں گی خواہ اسے پورا کرنے کے لئے مجھے کسی حد تک بھی کیوں نہ جانا پڑے ۔(جاری ہے)

            Comment


            • #36
              Buhat hi umda kahani chal rahi hai. Zabardast update hai

              Comment


              • #37

                ‎ہمیں جرمنی میں آے ہوے تین ہفتے ہونے کو آ رہے تھے اور واپسی میں بس ٨ دن باقی تھے. ہم نے اس دوران زندگی کا خوب لطف اٹھایا. بازاروں، شاپنگ مالز کی سیر کی. پارکس کی سیر کی. تاریخی مقامات دیکھے اور بہترین ریسٹورنٹ سے کھانے کھاے. ان سب چیزوں کے باوجود مجھے سب سے زیادہ مزہ مارٹن انجیلا اور شہریار کے ہمراہ ساحل سمندر کی سیر کرنے پر آیا تھا. بنا کپڑوں کے سمندر کے پانی میں نہانا. دھوپ میں لیٹنا اور کسی کی نظروں کا مرکز نہ ہونا. سب لوگوں کا ایسے برتاؤ کرنا جیسے ننگا پن بلکل قدرتی چیز ہے. ان سب باتوں نے میرے نظریات بدل کر رکھ دیے تھے اور میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب مجھے کپڑوں میں ایک عجیب سی الجھن ہوتی ہے. ایک احساس سا رہتا ہے بے چینی کا جب تک کپڑے اتار کر ننگی نہ ہو جاؤں. سچی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ شہریار مجھ سے پہلے سے یہ طرز زندگی اپنا چکا تھا لیکن میں اس طرز زندگی سے ایسی مانوس ہوئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ میں ہمیشہ سے ہی ننگی رہتی چلی آ رہی ہوں اور شہریار اس میں نیا نیا داخل ہوا ہے.

                ‎بہرحال، ہم نے یہ آٹھ دن بھی گھومنے پھرنے میں گزار دیے. روانگی سے پہلے آج ہماری آخری رات تھی جرمنی میں. میں نے شہریار سے کہا کیوں نہ ہم جانے سے پہلے ایک بار مارٹن اور انجیلا سے ملتے چلیں. اس نے بھی میری بات کی تائد کی. وہ اطلاع دینا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کر دیا اور تجویز دی کہ سرپرائز دیتے ہیں. شہریار فورن مان گیا.

                ‎ہم دونوں اوبر کروا کر ان کے گھر پہنچے. راستے سے ایک شراب کی بوتل لینا نہیں بھولے تھے. یہ کسی کے گھر جانے کے آداب میں شامل تھا کہ کچھ نہ کچھ لے کر جایا جائے. پاکستان میں جس طرح مٹھائی لے کر جاتے ہیں. یہاں تو مٹھائی کا رواج نہیں. شراب البتہ خوب پسند کی جاتی ہے. رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا. گلی میں سناٹا تھا. معلومات کی غرض سے صرف اتنا بتاتی چلوں کہ وہاں رہائشی علاقے کمرشل علاقوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور کمرشل علاقوں میں جہاں زندگی ساری رات رواں دواں رہتی ہے، وہیں رہائشی علاقوں میں رات کے ٩ بجے تک ہی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے.

                ‎شہریار بیل بجانے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا. وہ حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگا. میں نے اسکے کان میں کہا کہ بیل بجانے سے پہلے کپڑے اتار لیں تو میزبانوں کو ایک اور خوشگوار سرپرائز دے سکتے ہیں. شہریار میری بیباکی پر یقیناً فخر محسوس کر رہا ہو گا. ہم دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے کپڑے اتارے جو میں نے اپنے پرس میں رکھ لئے. شہریار نے ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل تھام رکھی تھی اس لئے دوسرے ہاتھ سے گھنٹی بجائی. دروازے کے باہر انٹرکام پر کنفرمیشن کے بعد ہی مارٹن نے دروازہ کھولا تھا اور دروازہ کھولنے پر اس کے چہرے کے تاثرات دیدنی تھے. ہمارے آنے کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی. خوشی ہی تھی کہ اس نے بجاے مصافحے کہ آگے بڑھ کر شہریار کو گلے لگا لیا. اس سے گلے ملنے کے بعد مارٹن نے بس نہیں کی بلکہ مجھ سے بھی بغل گیر ہو گیا. میں اس سے ہاتھ تو ملا چکی تھی پہلے بھی اور ساحل پر اس نے بازوں کا سہارا بھی دیا تھا مجھے لیکن تب بھی میرے اور اس کے جسم میں کسی قدر فاصلہ برقرار تھا اور صرف گنتی کے چند اعضاء ہی ایک دوسرے سے چھو پاے تھے. اب جب مارٹن نے مجھے گلے لگایا تو میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی. اگرچہ یہ صرف چار پانچ سیکنڈز کی بات ہی تھی لیکن ان چار پانچ سیکنڈز میں میرا جسم مارٹن کے جسم سے مکمل چھو گیا تھا. میں نے تو آج تک کسی مرد سے کپڑے پہن کر گلے نہیں ملی تھی، اب جب ننگی ہو کر گلے ملی تو جسم میں آگ لگ گیی. میرا منہ اس کے کندھے پر ٹچ ہوا تھا. پستان اس کے سینے سے اور لنڈ میرے پیٹ پر ناف کی جگہ سے ٹچ ہوا تھا اسکا قد مجھ سے لمبا تھا اس لئے. میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو کنٹرول کیا تھا. گلے ملنے پر مارٹن نے میری کمر پر ہاتھ رکھے تھے اور میں نے اسکی کمر پر. ابھی مارٹن مجھ سے گلے مل کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ انجیلا بھی آ گئی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد ہم دونوں سے باری باری گلے ملی. سچ کہوں تو پہلی بار دونوں جنس کے لوگوں سے برھنہ حالت میں گلے ملنا بھی ایک منفرد تجربہ تھا. مارٹن اور انجیلا کے تاثرات تو ایسے تھے کہ جیسے یہ روٹین کی بات ہے لیکن میرے جنسی جذبات مکمل بیدار ہو گئے تھے. انہوں نے شراب کی بوتل پر شکریہ ادا کیا اور ہم لوگ ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے. بچے سو چکے تھے.

                ‎کچھ دیر ہم نے گپیں لگائیں. انجیلا شراب کی بوتل اور گلاس اٹھا لائی تھی. شائد اس لمحے ہم سب ہی جذبات میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ سب کچھ بھول گئے تھے. نہ تو انجیلا کو اس بات کا ہوش تھا کہ ہم شراب نہیں پیتے اور نہ ہی ہم نے منع کیا جب اس نے ہمارے سامنے گلاس لا کر رکھے. وہ دونوں تو شراب پینے کے عادی تھے اور شہریار بھی میرے سامنے اعتراف کر چکا تھا کہ وہ بھی کبھی کبھار ایک آدھ گلاس شراب پی ہی لیتا ہے مہینے بھر میں لیکن میں نے آج تک شراب نہیں پی تھی. یہ بات نہیں کہ میں کوئی بہت شریف لڑکی تھی. جس قسم کی پارٹیوں میں میں جاتی رہی تھی ان میں شراب کا آزادانہ استعمال ہوتا تھا لیکن ماڈرن ہونے کے باوجود میں نے شراب سے اس لئے احتراز برتا تھا کہ شراب کے نشے میں کہیں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس سے میرے والدین کی عزت پر کوئی حرف آے. پہلی بار شراب کی چسکی لی. زائقہ عجیب لگا لیکن میں آہستہ آہستہ چسکیاں لیتی رہی. باتوں باتوں میں پتہ بھی نہ چلا اور میں پورا گلاس پی گئی. عجیب سا احساس تھا.میں نے چرس کا نشہ کر رکھا تھا پہلے کئی بار لیکن یہ اس سے مختلف تھا. تھوڑی ہی دیر میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں آسمان پر اڑ رہی ہوں. اب میں باتوں میں حصہ تو لے رہی تھی لیکن باقی لوگوں کی باتوں پر فوکس نہیں کر پا رہی تھی زیادہ دیر تک. ایسا لگتا تھا جیسے شارٹ ٹرم میموری پر شراب کا اثر زیادہ ہوا تھا. مجھے شراب کے اثرات محسوس تو ہو رہے تھے لیکن میں نے بظاھر کسی کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا تھا کہ میں کچھ کچھ بہکنے لگی ہوں. تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد انجیلا نے ایک گیم کی تجویز دی جس میں شراب کی خالی بوتل میز پر لٹا کر گھمانی ہوتی تھی اور گھومتے ہوے بوتل جب رکتی تھی تو جس کی طرف اسکا رخ ہوتا تھا اسے گھمانے والے کی مرضی کا کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا تھا. مزے کی بات یہ تھی کہ کوئی حد نہیں تھی اس میں یعنی کوئی بھی کام کہا جا سکتا تھا. میں نے اس گیم کو فلموں میں تو دیکھا تھا لیکن حقیقی زندگی میں پہلی بار کھیلنےلگی تھی ۔(جاری ہے )

                Comment


                • #38
                  مارٹن کا لوڑا چوت میں جانے والا ہے۔۔۔
                  :d:d:d:d:d:d

                  Comment


                  • #39

                    ‎گیم کا نام تھا سپن دی باٹل. بؤتل کو درمیان میں میز پر رکھ کر گھمایا جاتا تھا اور کھیلنے والے میز کے گرد بیٹھ جاتے تھے. میں نے فلموں میں جب جب یہ گیم دیکھی تھی ان میں مختلف اصول تھے. ایک اصول یہ تھا کہ جو بؤتل کو گھماۓ گا وہ اس شخص کو بوسہ دے گا جس کی طرف بؤتل کا رخ ہو گا رکنے پر. ایک دوسرا ورژن بھی اس گیم کا تھا جس میں گھمانے والے سے قطع نظر بؤتل کے رکنے پر دیکھا جائے گا کہ بؤتل کا منہ اور پچھلا حصہ کن دو افراد کی جانب ہیں. ان دونوں افراد کو بوسہ کرنا ہو گا سب کے سامنے. دراصل اس گیم کے کوئی لکھے پڑھے اصول تھے ہی نہیں جس کا جو دل کرتا تھا، گیم کو اپنی پسند کے مطابق موڑ لیا جاتا تھا. جب انجیلا نے تجویز پیش کی تو میرے ذہن میں یہ تھا یا تو بؤتل کا منہ جس کی طرف ہو گا اسے اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعے سنانا ہو گا جس پر اسے شرمندگی ہو یا پھر باقی لوگ اسے کوئی ایسا کام کہیں گے جو خطرناک ہو سکتا ہے مصلاً بنا کپڑوں کے باہر کا چکر لگانا یا دکان سے کچھ لے کر آنا. میرے ذہن میں کنفیوژن تھی مگر جب مارٹن نے گیم کا آغاز کیا اور بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا تو میری کنفیوژن دور ہو گئی کیوں کہ ان دونوں نے فورن ایک دوسرے کو بوسہ دیا ہونٹوں پر. اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ اس کھیل کے اصول کیا ہیں لیکن میں نے پھر بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے ان سے پوچھ لیا کہ اگر میری جانب بوتل کا رخ آیا اور میں بوسہ نہ دینا چاہوں سب کے سامنے تو کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ پھر صورتحال سنگین ہوتی چلی جائے گی. یہ تو بنیادی اصول ہے اس کھیل کا کہ دس سیکنڈز کے اندر اندر بوسہ لینا ہوتا ہے. اگر دس سیکنڈز میں بوسہ نہ لے سکیں تو دونوں کو اگلے دس سیکنڈز کے اندر فرنچ کس کرنی پڑے گی. وہ بھی نہ کی تو پھر کھیل میں شریک باقی لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان دونوں کو کیا کام کرنے پر مجبور کرنا ہے اب.

                    ‎کچھ شراب کا نشہ تھا اور کچھ میں پہلے ان دونوں سے گلے ملنے کی وجہ سے ہارنی تھی. جب مارٹن اور انجیلا نے ہمارے سامنے ایک دوسرے کو بوسہ دیا تو میرے جنسی جذبات مزید مشتعل ہو گئے. نپلز بھی کھڑے تھے. شراب کے نشے کا یہ اثر بھی تھا کہ میں معمول سے زیادہ بولے چلے جا رہی تھی. کھیل میں خوب حصّہ لے رہی تھی. اگلی باری انجیلا کی تھی. اس نے بوتل گھمائی تو رخ شہریار کی طرف آیا. میں سمجھی تھی کہ شہریار جھجھکے گا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شہریار اور انجیلا دونوں ہی فٹا فٹ ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے لئے لپکے. انجیلا میرے بائیں جانب بیٹھی تھی اور شہریار میرے دائیں جانب. جب انہوں نے ایک دوسرے کو میز کے اوپر سے لپک کر ہونٹوں پر بوسہ دیا تو وہ میرے بلکل سامنے تھے اور میرے چہرے سے بہت قریب. میری نظروں کے اتنے قریب میرے شوہر کے ہونٹ انجیلا کے گلابی ہونٹوں سے ٹکراے. دونوں نے ہی پچ کی آواز نکالی جیسے چومتے وقت نکالتے ہیں. اب شہریار کی باری تھی گھمانے کی. اس نے بوتل گھمائی اور شو مئی قسمت کہ بوتل کا رخ پھر سے انجیلا کی طرف آ گیا. اف. پھر سے وہی سین چلا. مجھے غصہ بھی آ رہا تھا کہ میری طرف کیوں نہیں آ رہا بوتل کا منہ. غصے میں میں نے گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا اور گلاس کے پیندے میں جو تھوڑی سی شراب بچی تھی وہ بھی اپنے حلق میں انڈیل لی. انجیلا کی باری تھی. اس نے گھمائی تو رخ پھر شہریار کی جانب. تیسری بار مسلسل انہوں نے بوسہ لیا. سچی بات ہے کہ مجھے اب برا محسوس ہونے لگا تھا. اتنی آزاد خیال ہونے کے باوجود مجھے اب حسد محسوس ہو رہا تھا. میرے شوہر کو مسلسل ہونٹوں پر بوسہ دے جا رہی تھی اور وہ بھی میرے سامنے. جب چوتھی بار بھی بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا اور شہریار اور انجیلا نے میرے سامنے چوتھی بار ایک دوسرے کا ہونٹوں پر بوسہ لیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔(جاری ہے )

                    Comment


                    • #40
                      ‎نہ جانے یہ نشے کا اثر تھا یا حسد کے جذبات کا کیا دھرا، جب مسلسل شہریار اور انجیلا میرے چہرے کے بلکل سامنے چوتھی بار بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھے تو مجھ سے برداشت نہ ہوا. میں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر ان دونوں کو قریب نہ آنے دیا. ابھی وہ لوگ میرے اس عمل کو پرکھ ہی رہے تھے کہ میری اگلی حرکت نے سب کے ہوش اڑا کر رکھ دیے. حرکت ہی ایسی تھی. میں نے میز کے اوپر سے ہی آگے بڑھ کر مارٹن کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے اور اتنی شدت سے چوسنے لگی کہ فرنچ لوگ خود بھی ایسی فرنچ کس نہ کرتے ہوں گے. اگرچہ میں تو پہلے ہی نشے میں مدہوش تھی لیکن پھر بھی شہریار اور انجیلا کے چہرے کے تاثرات بھانپ سکتی تھی جن پر یقینن انتہائی حیرانگی ہی ہو گی. حیرانگی تو مارٹن کو بھی ہی ہو گی لیکن میں نے اسے حیران ہونے کا موقع ہی نہیں دیا. میں اتنے شدید قسم کے جذبات میں تھی کہ مجھے اپنے جسم کا بھی کچھ ہوش نہ تھا. میز کے اوپر سے ہوتی ہوئی مارٹن کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے آنکھیں بند کیے میں اس کے اوپر ہی لیٹ گئی تھی. بیشک آغاز میں میری اس حرکت کا موجب حسد کے جذبات ہی تھے لیکن فرنچ کس نے میرے نشے کو دو آتشہ کر دیا تھا. شہریار کے ساتھ بھی کئی بار فرنچ کس کی تھی لیکن مارٹن کی زبان پر اپنی زبان ٹچ کر کے جو لذت حاصل ہوئی تھی وہ یونیک تھی. مجھے نہیں پتا تھا کہ شہریار اور انجیلا کیا کر رہے تھے. مجھے اس لمحے کسی بھی چیز کا ہوش نہ تھا. مارٹن نے پہلے پہل میرا چہرہ تھام کر مجھے اپنے سے دور کرنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن یا تو وہ میری حیوانگی سے دب گیا تھا یا پھر اسے خود بھی میری زبان اور ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھونے اور چوسنے میں مزہ آنے لگا تھا. دوسری بات زیادہ قرین قیاس تھی کیوں کہ وہ خود بھی فرنچ کس میں میرا بھرپور ساتھ دینے لگا تھا. شراب کے نشے نے میرے جنسی جذبات پہلے ہی کسی حد تک بھڑکا رکھے تھے اور میری یہ حرکت تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. فرنچ کس کرتے کرتے میں ہاتھ مارٹن کے جسم پر بھی پھیر رہی تھی. چونکہ مارٹن نیچے قالین پر چت لیتا تھا اور میں اس کے پیٹ کے اوپر چڑھ کر بیٹھی تھی اس لئے اس کی کمر پر تو ہاتھ نہیں پھیر پائی لیکن سینے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کے لنڈ کو ضرور پکڑ لیا تھا. اف. اس کا لنڈ مکمل تنا ہوا تھا. میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لنڈ کو اپنی چوت کے دہانے پر ایڈجسٹ کر کے دباؤ ڈالنے لگی. مجھے نہیں معلوم کہ فرنچ کس کا دورانیہ کتنا تھا. بس مجھے یہ معلوم ہے کے جب مارٹن کا لنڈ میری چوت میں گیا تھا تب ہی میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ علیحدہ کیا تھا. مارٹن کے سنہری بالوں سے بھرے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے میں مسلسل اوپر نیچے ہو رہی تھی اور اس کا لنڈ میری چوت میں اندر باہر اندر باہر ہو رہا تھا. میری آنکھیں فرط لذت سے بند تھیں. ایسا لگتا تھا کہ ہواؤں میں اڑ رہی ہوں. مارٹن کے ہاتھ مجھے اپنے سینے پر محسوس ہو رہے تھے. ہم دونوں کے منہ سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے زندگی میں پہلی بار سیکس کا لطف اٹھا رہے ہوں حالانکہ دونوں ہی خاصے تجربہ کار تھے. مارٹن تو یقینن تھا کیوں کہ وہ بڑی مہارت سے میری آوازوں اور جسم کی حرکت سے بھانپ گیا تھا کہ میں اب ڈسچارج ہونے والی ہوں. نہ جانے اس کے پاس کونسا طریقہ تھا لیکن میں ڈسچارج ہوئی تو ساتھ ہی وہ بھی ڈسچارج ہو گیا. ڈسچارج ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو. چوت میں مارٹن کی منی لئے میں مارٹن کے پہلو میں ہی نڈھال ہوگئی

                      ‎مارٹن کے ساتھ جم کر چدائی کا نتیجہ تھا کہ سانس درست ہونے میں دو سے تین منٹ لگ گئے. ہوش سنبھلنے پر احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر دیا. مارٹن اٹھ کر واشروم جا چکا تھا. ڈرائنگ روم میں صرف میں اکیلی ہی لیٹی رہ گئی. میرے سارے جذبات بشمول حسد کے ہوا ہو چکے تھے اور اب رہ رہ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ مجھ سے بہت سنگین غلطی ہو گئی ہے. میں حسد اور جنسی جذبات کی رو میں اس قدر شدت سے بہہ گئی تھی کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جیسے ختم ہو کر رہ گئی ہو. سونے پر سہاگہ یہ کہ شراب کے دو گلاس بھی چڑھا چکی تھی. میرا احساس ندامت اپنی جگہ لیکن شہریار اور انجیلا کی غیر موجودگی بھی مجھے کھٹک رہی تھی. کیا شہریار نے میرے اس عمل کا بدلہ انجیلا کو چود کر لیا ہے؟ یہ سوال بھی میرے ذہن میں گونجنے لگا. بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیوں کہ شہریار کسی اور سے سیکس کرے، یہ برداشت کرنا میرے لئے نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا. مجھ سے تو اس کی انجیلا کو کس تک پسند نہیں آیی تھی اور بھڑک کر مارٹن سے سیکس کر بیٹھی تھی. کہیں میں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار لی. شہریار اور انجیلا کی کس کا بدلہ مارٹن سے سیکس کر کے لینا سراسر نا انصافی ہی ہے اور اگر میرے اس عمل کا جواب شہریار نے انجیلا کو چود کر دیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی. اس قسم کی سوچوں نے میرا احساس ندامت کئی گنا بڑھا دیا تھا اور میں بے اختیار رونے لگی. آنسو تو پہلے سے ہی جاری تھے آنکھوں سے اب آواز بھی نکلنے لگی ہچکیوں کی صورت میں. مارٹن واشروم سے نکلا تو مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گیا. میرے رونے کو نظر انداز نا کر پایا اور بے اختیار میرے پاس آ کر میری دلجوئی کرنے لگا بغیر وجہ جانے. میرے ہاتھ کو پکڑ کر سہلایا. میں ابھی تک لیٹی ہوئی تھی. مارٹن نے اپنے بازو کا سہارا دے کر مجھے اٹھنے میں مدد دی. پتا نہیں یہ صرف میرے ساتھ مسلہ ہے یا پھر اور لوگوں کے ساتھ بھی کہ اگر روتے ہوے کوئی دلجوئی کرے تو اور زور سے رونا آتا ہے. مارٹن کی دلجوئی کا مجھ پر یہی اثر ہوا. میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. مارٹن نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا. میں بھی خوب زور سے لپٹ گئی. وہ میرے بالوں پر اور کمر پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ مجھ سے پوچھتا بھی جاتا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟

                      ‎میں اسے بتانے ہی لگی تھی روتے ہوے کہ شہریار اور انجیلا کمرے میں داخل ہوے. میری حیرت کی انتہا نا رہی جب ان دونوں نے ہی گزشتہ واقعات کی جانب کسی قسم کا کوئی اشارہ تک نا کیا بلکہ الٹا میرے رونے پر پریشان ہو کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا، کیوں رو رہی ہو؟ مجھے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ شہریار اور انجیلا کے درمیان جنسی تعلق قائم نہیں ہوا. میں شہریار اور انجیلا کی چال اور ان کے آپس کے تعلق اور بول چال کے انداز سے یہ بھانپ گئی تھی کہ انہوں نے سیکس نہیں کیا. اس سے میرے دل کی کسی قدر تسلی بھی ہوئی لیکن احساس ندامت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں شہریار سے اپنے کے کی معافی مانگوں. میں نے مارٹن کو چھوڑ کر شہریار کا ہاتھ تھام لیا اور نظریں جھکا کر اسے کہا آئ ایم سوری لیکن شہریار کا ری ایکشن کچھ اور ہی تھا.اس نے میرے ہاتھ تھام کر چوم لئے اس بات کی پرواہ کیۓ بغیر کے میں نے مارٹن سے چدنے کے بعد ابھی تک غسل خانے کا رخ نہیں کیا تھا اور دوران چدائی ہاتھوں سے مارٹن کے لنڈ کو چھوا تھا جس سے ہاتھوں پر لیس دار مادہ لگ گیا تھا. خیر، شہریار نے بغیر کسی جھجھک کے مارٹن اور انجیلا کی موجودگی میں ہی مجھے ہونٹوں پر کس کی اور مجھے سمجھنے لگا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جس پر شرمندگی ہو. ابھی شہریار کی بات جاری تھی کہ بیل بج اٹھی. انجیلا نے دروازے پر جا کر پیزا وصول کیا جسکا آرڈر شائد اس نے تب دیا تھا جب میں مارٹن کے ساتھ مصروف تھی. ہم نے وہیں میز کے ارد گرد بیٹھ کر پیزا کھایا اور کھانے کے دوران مجھے انجیلا، مارٹن، شہریار کے خیالات سے مزید واقفیت حاصل ہوئی. انجیلا کے چہرے پر تو ایک لمحے کے لئے بھی ایسا تاثر نہیں آیا تھا کہ مارٹن نے مجھے چود کر اس کے ساتھ بے وفائی کی ہے. بلکل یہی حال شہریار کا بھی تھا. میں نے انجیلا سے پوچھا کہ کیا تمھیں اس بات پر کوئی حسد محسوس نہیں ہوتا کہ تمہارا شوہر تمہارے علاوہ کسی اور لڑکی کو چودے اور وہ بھی تمہارے سامنے. کہنے لگی کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر برا منایا جائے. سیکس ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر بالغ انسان میں ہوتا ہے اور یہ بلکل قدرتی ہے کہ انسان اپنے لائف پارٹنر کے علاوہ کسی اور کو دیکھ کر جنسی طور پر مشتعل ہو جائے. ایسے میں اگر وہ انسان اپنے جذبات چھپاۓ تو نا صرف اس کی اپنی سیکس لائف ڈسٹرب ہو گی بلکہ میں بیوی کا آپس کا تعلق بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ پھر ان کے درمیان سیکس میں وہ گرم جوشی نا رہے گی جو پہلے تھی. انجیلا کی باتیں مجھے معقول لگیں لیکن تشنگی ابھی باقی تھی اس لئے مزید سوالات بھی کرنے پڑے. میں نے پوچھا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر شادی کا کیا فائدہ. شادی کے بغیر ہی یہ کام کرتے رہو. انجیلا نے بتایا کہ وہ خود بھی شادی کو اتنا اہم نہیں سمجھتی بلکہ شادی صرف ایک معاشرتی ضرورت کو نبھانے کے لئے کی ہے. انجیلا کی اس بات پر میں حیران ہی ہو گئی کہ اس کے بچوں میں سے بھی ایک بچہ مارٹن کا نہیں تھا بلکہ وہ انجیلا کے کسی اور سے سیکس کا نتیجہ تھا.

                      ‎اف. میں نے سوچا کہ اگر مارٹن سے سیکس کے نتیجے میں میں حاملہ ہو گئی تو کیا ہو گا. دل میں سوچا کہ کاش ایسا نا ہی ہو.

                      ‎اسی طرح ننگے بیٹھے گپیں مارتے وقت کا پتہ بھی نا چلا اور صبح ہو گئی. ہم نے اجازت چاہی اور اپنے ہوٹل لوٹ آے. جہاں سامان پیک تھے پہلے سے ہی. ہوٹل میں کچھ دیر سونے کے بعد ہم ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہو گئے جہاں سے وطن واپسی کا سفر شروع کرناتھا۔(ختم شد)
                      ​​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X