Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

صبا کی کہانی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story صبا کی کہانی


    میرا نام صبا عمر چھتیس سال طلاق یافتہ عورت ہوں

    اٹھارہ سال پہلے میں اپنے کزن فروان کو بہت چاہتی تھی وہ بھی مجھے بہت زیادہ چاہتا تھا ہمارے گھر کے درمیان چند سو گز کا فاصلہ تھا گلی کے سرے پہ میرا اور دوسرے سرے پہ اس کا گھر تھا اس لیے ہماری ہر روز ملاقات ضرور ہوتی تھی

    پھر ہم دونوں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے جب ہم آٹھویں جماعت میں تھے تو اک دن فروان کو بریک ٹائم فٹ بال کھیلتے ہوئے دائیں پاوں پہ چوٹ لگ گئی جس وجہ سے اس کے انگوٹھے کا ناخن ٹوٹ گیا اور خون بہنے لگا مجھ سے رہا نا گیا میں نے اسی وقت ہاتھ میں پکڑی پانی والی بوتل سے پاوں کو دھویا اور اپنے سر پہ لپٹے ہوئے اسٹالر کو پھاڑ کر فروان کے زخمی انگوٹھے پہ خون صاف کر کے باندھ دیا

    سارے ٹیچرز ہکا بکا ہو گئے کیونکہ انکو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ صبا کو ہو کیا گیا یہ سب کیوں کر رہی ہے ہمارے موجود ہونے کے باوجود بھی.

    سارے ٹیچرز کو یہی لگا تھا جیسے ہمارے درمیان کوئی چکر چل رہا ہے تب میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے پیش ہوکر انکی یہ غلط فہمی دوووور کی کہ فروان میرے سوتیلے تایا کا بیٹا ہے

    تب سے میرا دل اک دم سے فروان کی طرف پھسلا اور میں فروان کو سوچنے لگی راتوں کو اکثر جاگتی رہتی اسے یاد کرتی ہے شاید اسی وجہ سے ہم دونوں میں پیار محبت چاہت خلوص نے رفتہ رفتہ جنم لینا شروع کر دیا کبھی وہ ہمارے گھر تو کبھی میں اس کے گھر چلی جاتی تھی ہم دونوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی دن ہماری ملاقات نا ہو تو یوں لگتا تھا جیسے دنیا ختم ہو گئی ہے

    دنیا تو ختم لگنی ہی تھی کیونکہ ہم دونوں اک دوسرے کو اپنی کل کائنات ہی سمجھتے تھے میرے امی ابو بہت اچھی طرح اس بات کو جانتے تھے اور ان کی خواہش بھی تھی ہماری شادی ہو جائے.... مگر....

    اچانک میرے میٹرک کے امتحان ابھی ختم ہوئے ہی تھے کہ فروان کے بڑے بھائی شہظل کا میرے لیے پرپوزل آ گیا امی ابو نا تو انکار کر سکتے تھے نا ہی اقرار کر سکتے تھے تو انہوں نے یہ فیصلہ میرے اوپر چھوڑ دیا بہت سوچ بچار کرنے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچی کہ میں انکار کر دیتی ہوں انکار کی وجہ فروان اور میرے درمیان بے انتہا محبت تھی جو ہم دونوں اک دوسرے کو کرتے تھے.

    فروان کو میرا انکار کرنا اتنا برا لگا کہ اس نے میرے گھر آکر میرے امی ابو سامنے مجھے مخاطب ہوکر کہنے لگا صبا تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے تم انکار کو اقرار میں بدلو ورنہ تمہاری وجہ سے خاندان والے تمہیں چھوڑ دینگے اور ویسے بھی میرا ضمیر اس بات پہ آمادہ نہیں ہوگا کہ میں محبت کے چکروں میں آکر اس لڑکی کو اپنا جیون ساتھی بناوں جس نے میرے بھائی کو ٹھکرایا ہو ایسا ہرگز بھی نہیں ہوگا اس لیے اپنے اس فیصلے پہ نظرثانی کرو

    میں جانتی تھی اس کی آنکھیں چہرہ دل بتا رہے ہیں کہ وہ مجھے بے انتہا محبت کرتا ہے لیکن گھر والوں کی وجہ سے وہ یہ سب کر رہا ہے

    کسی آندھی طوفان کی طرح وہ آیا اور میری محبت چاہت خلوص اور میرے سارے خوابوں خواہشوں کو مٹی کے گھروندے سمجھ کر توڑ گیا...

    میں شہظل کے نام کو اپنے نام کے جوڑنے پہ راضی ہو گئی اور خود کو تسلی دی کہ یہی میرے نصیب میں ہے تو میں پھر ناشکری کیوں کروں چند مہینوں بعد میری شہظل سے شادی ہو گئی.

    پہلی رات کمرے میں لگے ڈبل بیڈ پہ بچھی ہوئی لال رنگ کی بہت ہی پیاری بیڈ شیٹ اور رنگ برنگی مسہری ہلکی سی لیمپ کی روشنی اوپر سے تیز پرفیوم اعلی قسم کے ہم دونوں نے لگائے تھے بیڈ پہ گلاب کی پتیوں سے بنا بڑا سا دل اور بھی رومانٹک بنا رہا تھا ہم دونوں کو شہظل نے کمرے کو اندر سے لاک کیا اور میرے سامنے آکر بیٹھ گیا میں نے گھونگھٹ میں اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا دھیرے سے میرے ہاتھ کو شہظل نے ہونٹوں سے چوما جو میں نے اپنی تھائی پہ رکھا ہوا تھا ایک دم سے میرے اندر گرماہٹ کی ایسی لہر پورے جسم میں ہوئی جیسے بجلی میرے اوپر گر گئی ہو میں نے بائیں ہاتھ کی انگلی میں بہت ہی پیاری انگوٹھی کو دیکھا جب شہظل نے میرا گھونگھٹ اٹھایا مجھے منہ دکھائی میں انگوٹھی اور اک پائل شہظل نے گفٹ کی تھی پھر آہستہ آہستہ ہم دونوں نے پیار کرنے کا آغاز کیا اک دوسرے کی پسند ناپسند کو باتوں باتوں میں جاننے کی کوشش کی شہظل نے مجھے بھاری لہنگے سے آزاد کیا اور خود بھی شیروانی اتار دی میرے گورے بدن پہ لال رنگ کی پینٹی اور برا دیکھ کر شہظل مست ہو گیا اسے خود پہ کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن اس نے خود پہ قابو پا لیا اچانک وہ ایک دم سے بیڈ سے اٹھا تب میری پھدی میں آگ کا اک شعلہ بھڑک اٹھا جب میری نظر اس کے موٹے لمبے لن پہ پڑی جو چھ انچ جتنا ہوگا اس نے کمرے میں لکڑی کی بنی الماری کے سب سے درمیان والے خانے کے بلکل آخری دراز کو کھولا اور اس کے اندر سے اک ڈبہ نکالا اور اک برش تھا

    میں یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ آخر یہ ہے کیا خیر میری حیرانی بھی جلد ہی دور ہو گئی جب شہظل نے ڈبہ کھولا تو وہ شیرے سے بھرا ہوا تھا اور صرف دو گلاب جامن تھے اس میں اک اس نے خود کھایا اور اک مجھے اپنے ہاتھ سے کھلایا مگر مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر یہ دو گلاب جامن ہی کیوں اتنا چھپا کر رکھے ہیں کمرے میں مٹھائی کا ڈبہ بھی تو پڑا ہوا تھا اور ساتھ یہ برش کیوں رکھا ہے

    میں بلکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور شہظل میرے بائیں جانب میرے ساتھ ایسے لیٹا تھا کہ اک ٹانگ اس کی میری ٹانگ کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور دوسری ٹانگ اس نے فولڈ کر کے میری ٹانگوں پہ پھدی سے تھوڑا سا نیچے رکھی ہوئی تھی ایک ہاتھ میرے سر کے نیچے اور دوسرا میری چھاتی پہ میرے مموں کو دبانے میں مصروف تھا کچھ دیر اسی طرح ہم اک دوسرے کو چومتے رہے پھر شہظل اٹھا اور مجھے کہا ایسے ہی لیٹی رہو اور خود شیرے سے بھرا ہوا ڈبہ کھول کر اس میں برش ڈال کر میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا برش کو شیرے سے بگو کر میرے مموں پہ میرے پیٹ پہ لگانے لگا مجھے بہت الجھن اور کوفت ہونے لگی کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے کہیں یہ زہنی مریض تو نہیں ہے خیر میں اسی شش و پنج میں تھی جب شیرے سے بھرا ہوا برش میری پھدی پہ لگا میں ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور شہظل سے پوچھنے لگی شہظل یہ کیا کر رہے ہو آپ وہ بہت ہی پیار بھرے انداز میں میرے قریب ہوا اور ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر کہنے لگا میری جان پریشان نہیں ہونا ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس میرے پیار کرنے کا انداز کچھ الگ اور نیا ہوگا تمہارے لیے کیونکہ ایسے کبھی بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا اپنی بیوی کے ساتھ پھر اس نے مجھے لیٹنے کو بولا میں لیٹ گئی میرے پورے جسم پہ شیرے لگا ہوا تھا سر سے لیکر پیروں تک تب مجھے سمجھ آئی کہ شیرہ اور برش کیوں چھپا کر رکھا تھا جب شہظل میرے پیروں پہ لگے شیرے کو چاٹنے لگا میں تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی آہستہ آہستہ میری ٹانگوں پہ لگے شیرے کو چاٹ کر میرے پیٹ اور مموں تک شہظل پہنچ گیا میں یہ سب دیکھ کر تڑپتی رہی اور شہظل بہت پیار اور آرام سے مجھے چاٹ رہا تھا میرا بس نہیں چل رہا تھا میں کیسے اسے کہوں کہ شہظل بس ہو گئی میری پلییییییزززززززز اب پھدی میں لن کو ڈال کر مجھے سکون دے دو آخر میری تڑپ دیکھ کر شہظل کو مجھ پہ ترس آ گیا اور وہ پھدی پہ لگے شیرے کو چاٹنے لگا میں اور بھی تڑپ اٹھی لیکن لن پھر بھی پھدی میں نہیں ڈالا میں سسکیاں لے ریی تھی اااففففففف آااااہ شہظل.......

    پلیییییزززززززز شہظل پلیییییزززززززز اب اور نہیں تڑپاو اندر ڈال دو نہیں تو میں مر جاوں گی..

    ارے واہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کیا میں تمہیں مرنے دونگا بتاو...

    میرے منہ سے بے اختیار نکلا نہیں کبھی بھی نہیں

    جان کیا پھدی میں انگلی ڈال لوں پہلے شہظل مجھ سے اجازت لینے والے انداز سے کہہ رہا تھا

    میں چپ رہی وہ سمجھ گیا تھا میری چپ کو اس نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے پھدی کے ہونٹوں کو کھولا اور دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی پھدی میں ڈال دی.....

    ااااااااااففففففففف آآآآآآآآآہ

    ہاہاہائے میں مررررررر گئی اااااففففففف شہظل میں اور بھی تڑپ اٹھی میرا اک ہاتھ مموں کو دبا رہا تھا اور اک ہاتھ پھدی پہ تھا شہظل سمجھ گیا اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر پھدی میں میری دونوں درمیان والی انگلیوں کو ڈال دیا اور اپنا وہی ہاتھ میرے مموں کو دبانے اور مسلنے لگا جو پھدی میں انگلی ڈالے ہوا تھا میں نہیں جانتی میں نے کیسے اپنی چیخوں کو دبایا میری بسسسس ہونے والی تھی پھر شہظل نے بہت ہی پیار سے

    میری ٹانگیں کھول کر لن کو پھدی کے ہونٹوں پہ جیسے ہی رکھا میری سسسسکی نکلی آااااااہ..... اااااففففففف شہظل ہاہاہائے میں مررررر گئی میری ماں اااففففففف آااااہ

    زندگی میں پہلی بار کسی مرد نے آج مجھے چھوا تھا چھوا ہی نہیں بلکہ چوما چاٹا بھی اور اب تو بسسسس ہو رہی تھی پھدی لن لینے کے لیے سو جتن کر رہی تھی.

    جان تم اپنے مموں کو دباو نپلز کو مسلو میں اب پھدی میں لن ڈالنے لگا ہوں خود پہ قابو رکھنا شہظل کہہ کر لن کو پھدی میں آہستہ آہستہ اندر کرنے لگا اور میں مموں کو دبانے اور نپلز کو مسلنے لگی جیسے جیسے لن پھدی کے اندر جا رہا تھا پھدی کے ہونٹ بھی لن کے ساتھ اندر کو مووو ہو رہے تھے دھیرے دھیرے سے پھدی میں لن اندر باہر ہونے کی رفتار کو تیز کرتا ہوا میری پھدی کو پنک کلر سے گاڑا لال کر گیا دس سے بارہ منٹ تک لن پھدی کے اندر باہر ہوتا رہا اور آخر میرا اکڑا ہوا جسم ڈھیلا پڑنے لگا میں فارغ ہو گئی تھی شہظل بھی فارغ ہو رہا تھا میری آنکھیں الٹی ہو گئی تھی آہستہ آہستہ میں بےجان ہو گئی شہظل نے لن کو پھدی میں ہی رہنے دیا اور میرے اوپر لیٹ کر مجھے چومتا چاٹتا رہا مموں کو چوستا رہا لگ بھگ سات سے آٹھ منٹ ایسے ہی ہم کرتے رہے اور پھر شہظل نے لن پھدی سے نکال کر کپڑے سے صاف کیا پھدی کو بھی میں نے لیٹے ہی صاف کیا میری ہمت جواب دے گئی تھی اٹھنا تو محال تھا مجھ سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا تھا

    تھوڑی دیر تک ہم دونوں آرام سے اک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر لیٹے باتیں کرتے رہے.

    صبا اک بات کہوں مانوگی کیا شہظل میری طرف کروٹ لیتے ہوئے بولا

    جب تک زندگی ہے اب آپ کی ہی تو ہر بات ماننی ہے مجھے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز میں نے بھی شہظل کی طرف کروٹ لیتے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹ ملاتے ہوئے کہا.

    شہظل کا اک ہاتھ میرے سر کے نیچے اور دوسرا میری گانڈ کو سہلا رہا تھا میں تھوڑا تھوڑا پھر سے گرم ہونے لگی .

    شہظل نے میری اک ٹانگ اٹھائی اور اپنی ٹانگ کو میری ٹانگوں میں رکھ کے لن کو پھر سے پھدی کے اندر رکھ کے مجھے گانڈ سے آگے کی طرف دبانے لگا میں بھی شہظل کو کمر سے پکڑ کر زور سے دبانے لگی آگے کی طرف ہونٹوں میں ہونٹ رکھ کے چوسنے لگی شہظل زور زور سے لن کو پھدی میں جھٹکے مارنے لگا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نا رہا اور ہم دونوں جلد ہی فارغ ہو کر الگ ہو گئے..

    شہظل کیا میں آپ سے اپنی اک وش شئیر کر سکتی ہوں..

    ہاں میری جان کیوں نہیں کر سکتی اک کیوں ہزار کرو بتاو کونسی وش شئیر کرنا چاہتی ہو شہظل نے میری گانڈ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا..

    میں چاہتی ہوں کہ......

    کیا چاہتی ہو میری جان...

    کچھ نہیں چھوڑیں کوئی بات نہیں

    ارے شرماو نہیں بتاو کھل کر

    اچھا بتاوں پھر....

    ہاں بتاو......

    میں چاہتی ہوں آپ گانڈ پہ شیرے کو لگا کر پیار سے چاٹیں

    ہاہاہائے میرے دل کی بات کہہ دی تم نے میرا اپنا دل بھی یہی چاہتا تھا لیکن تم سے کہہ نہیں سکا شاید تمہیں اچھا نہ لگے...

    پھر میں الٹی لیٹ گئی اور شہظل نے میری گانڈ پہ شیرے کو لگایا بھی اور گانڈ کو کھول کر اس میں بھی برش کو الٹا ڈال دیا

    میں تڑپ اٹھی میرا بس نہیں چل رہا رھا کیسے شہظل سے کہوں کہ لن ڈالو برش کی جگہ.

    مجھے کچھ سمجھ نا آئی تو میں نے دونوں چوتڑوں کو زور سے پکڑ کر گانڈ کے سراخ کو کھول دیا شہظل سمجھ گیا میں کیا چاہتی ہوں اور یوں میں نے پہلی ہی رات گانڈ کی آگ بھی بجھا لی...

    گانڈ مروانے کے بعد مجھے بہت درد ہونے لگے اور تھک گئی تھی پہلی ہی رات مل کر دونوں اٹیچ باتھ روم تھا کمرے میں ہی وہاں دونوں مل کر نہانے لگے اک دوسرے کو شیمپو کرتے بالوں میں صابن لگا کر اچھی طرح جسم کے اوپر سے شیرے کو بھی صاف کیا.

    شکر ہے نہانے کے دوران ہم نے پھر سے سیکس نہیں کیا نہانے کے بعد میں نے اپنا بیگ کھول کر اس میں سے نائیٹی اور عرق گلاب نکالا پھر عرق گلاب سے پھدی کو اچھی طرح صاف کیا خوشبو دار پھدی سونگ کر شہظل پھر سے گرم ہونے لگا لیکن میری نظروں میں ظاہر ہوتے انکار کو دیکھ کر شہظل نے موڈ بدل لیا اور میں بھی نائیٹی پہن کر سونے کے لیے شہظل سے لپٹ کر سو گئی...

  • #2
    سہاگ رات کا نیا سٹائل ۔مزا آ گیا






    سہاگ رات کا
    ​​​










    نا ا

    Comment


    • #3
      کافی دلچسپ کہانی لگ رہی ہے۔ اتنے شریف آغاز کے بعد طلاق تک بات کیسے پہنچی ۔ کافی دلچسپ موڑ لگ رہا ہے۔

      Comment


      • #4
        Wah aghaz to shehvat sa barpor or behtareen ha

        Comment


        • #5
          Kia mast suhagraat manaii

          Comment


          • #6
            بہت عمدہ آغاز کیا ہے، اور شیرے والا آئیڈیا تو بہت اچھوتا ہے

            Comment


            • #7
              Behtreen

              Comment


              • #8
                آغاز اچھا ہے سوپر

                Comment


                • #9
                  یجان انگیز کہانی ہے

                  Comment


                  • #10
                    آغاز تو بھت زبردست شاندار مزا آگیا جناب

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X