Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دیکھنے گئے تھے جاپان، پر دیکھی افغان چوت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    مزا آ گیا سوہنیو
    لگے رہو

    Comment


    • #22

      تیسرا حصہ

      خاصی دیر ہو چکی تھی۔ باہر اب بارش بند ہو چکی تھی۔ ہم نے کپڑے پہنے اور شہر کی ہوا کھانے نکل گئے۔ گلی کوچوں کی سیر کرنے اور دوبارہ اسی نیپالی ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا کھایا۔

      راستے میں دیگر کپلز کی طرح ہم بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کہیں بھی کوئی کونا ، کھمبا نظر آتا تھا ایک دوسرے کو ڈیپ کس کرتے تھے۔

      دیر رات کمرے میں واپس آکر اس نے خود ہی میرے پینٹ کو نیچے کرکے لنڈ نکال کر منہ میں لیکر کہا کہ ’’تم نے تو مجھے گشتی ، سیکس ورکر جیسا بنایا دیا ۔‘‘ پھر کہنے لگی کہ" میں نے صحیح اردو یا ہندی بولی نا۔ ۔گشتی ہی کہتے ہیں نا۔‘‘ میں نے سر ہلا کر کہا کہ سبھی کپلز اورل کرتے ہیں۔

      اس نے کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ لنڈ اس قدر لذیذ ہوتا ہے۔ سویڈن میں میرے ایک بواے فرینڈ، جو پاکستانی نژاد امریکی تھا، نے کوشش کی تھی، مگر میں نے سختی سے منع کر دیا تھا۔ تم نے تو جس فنکاری کے ساتھ مجھے اورل کرنے پر مجبور کیا۔ داد دیتی ہوں۔‘‘

      اس دوران اس نے کپڑے نکال دیے تھے اور میں نے بھی کپڑوں سے چھٹکارہ پا لیا تھا۔ وہ نیچے گھٹنوں کے بل میرا بیٹھ کر میرا لنڈ پکڑ کر اس کو چوس رہی تھی۔ زبان کبھی ٹٹوں کو تو کھبی ٹوپہ کو ٹچ کر رہی تھی۔

      میں نے پوچھا کہ تمہاری گانڈ کے سوراخ کے ٹشوز تھوڑا باہر ہیں، جس سے لگتا ہے کہ اس کو کھودا گیا ہے۔ اس نے کہا۔۔"ہاں میرے حرامی شوہر نے تو اگلی ہی رات اس میں موٹا سا لنڈ ڈال کر میری حالت خراب کردی تھی۔ پھر ایک بواے فرینڈ نے کئی سال قبل بھی ڈال دی تھی۔"

      میرے کچھ کہنے سے قبل ہی اس نے کہا کہ اگر اس طرف ڈالنی ہے، تو اس کو تیار کرو پہلے۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔اس کے دو سوراخ تو میں چکھ چکا تھا۔ اب یہ تیسرا سوراخ تھا۔

      میں نے اسکو باتھ روم میں لیجاکر اس کے گانڈ کے سوراخ کو اچھی طرح صاف کرنے کےلئے کہا۔ اس نے اس کو صابن، پانی اور شیمپو سے خوب صاف کیا ، اس کے اندر اور باہر انگلی ڈال کر اس کو پوری طرح کلین کیا۔

      میں نے اسکو گود میں اٹھا کر بیڈ پر پیٹ کے بل لٹادیا اور اس کی گردن سے بوسےشروع کرکے، کمر، رانوں، ٹانگوں اور چوتڑوں کی جم کر کسنگ کی۔ پھر بیڈ کے ایج پر اسکو گھٹنوں کے بل بٹھا کر اب اس کی گانڈ کے دونوں حصوں کو الگ کرکے اس کی گانڈ کے سوراخ پر ہونٹ جما کر اس میں زبان داخل کی۔

      اس کو شاید اس کی امید نہیں تھی۔ وہ سرور میں آگئی۔ جب یہ سوراخ تھوڑا کھل گیا، تو میں نے انگلی لعاب سے تر کرکے سوراخ میں ڈال دی۔ تقریبا پندرہ بیس منٹ کی محنت کے بعد موری اب نرم ہوگئی تھی۔

      وہ ڈوگی پوزیشن میں تھی۔ اس نے اپنے پرس سے فیس کریم اور ویسلین نکال کے میرے لنڈ کے ٹوپہ پر لگائی۔ پھر میں نے انگلی سے کریم اور ویسلین اسکی گانڈ کی موری پر لگادی۔ اور انگلی اس کے اندر اور باہر کردی۔ اس کے ٹشوز اب خاصے نرم ہو گئے تھے اور اب اس میں کچھ بھی اندر جاسکتا تھا۔

      میں نے لنڈ کا ٹوپہ اسکی موری کے سوراخ پر فٹ کردیا۔ سیاہ گلابی موری کے سوراخ سے اندر کے ٹشوز بھی اب واضح نظر آرہے تھے۔ ٹشوز جیسے دھڑک رہے تھے اور کسی کی آمد کے منتظر تھے۔ میں نے ایک ہاتھ سے اسکے چوتڑ کو کھولے رکھا اور دوسرا ہاتھ اسکی رانوں کے دوسری طرف لیجاکر اس کی چوت اور اس کے دانہ کو سہلایا۔

      وہ پوری طرح گیلی تھی۔ اب ایک جھٹکے کے ساتھ میں نے لنڈ اسکی موری میں گھسا دیا۔ وہ مکھن کی طرح اس کے ٹشوز کو دھکیلتا ہوا اندر چلا گیا۔ نیچے میرے ہاتھ اس کی چوت میں کام کر رہے تھے اور وہ مزے سے آآآآآآاواواواواوہوہوہوہاہاہاہاہوہوہو آآآآ چلا رہی تھی۔

      میں نے تھوڑی دیر رک کر لنڈ کو اسکی موری کے دیواروں کا احساس کروایا۔ اسکی تنگ دیواریں جیسے لنڈ کا مساج کررہی تھیں۔ اس نے پوچھا ، پورا اندر گیا کیا؟ میں نے کہا ’’ہاں پورا اندر ہے۔‘‘ وہ حیران تھی، اسکو کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔

      میں نے اب آہستہ آہستہ دھکے لگانے شروع کردئے۔ اس کی گندمی گانڈ میرے سامنے تھی۔ میرے دونوں ہاتھ اسکی گانڈ کے پٹوں پر تھے اور ان کو الگ کرہے تھے، تاکہ میں لنڈ کی کاراوئی پوری طرح دیکھ سکوں۔۔

      میرا لنڈ اندر باہر جا رہا تھا۔ لنڈ کوموری کے دھانہ تک نکال کر میں دوبارہ زور سے دھکا دیکر اسکو اندر بھیج رہا تھا۔ وہ تکیے اور بیڈ شیٹ کو ہاتھوں سے بھینچ کر آوازیں نکال رہی تھی۔

      یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اب دھکے میں نے تیز تر کردئے۔ ابھی تک وہ گھوڑی کی پوزیشن میں تھی اور اسکی گانڈ بیڈ کے ایک پر اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ اب میں نے اسکو بیڈ پرآہستہ آہستہ اسطرح لیٹنے کےلئے کہا، کہ لنڈ باہر نہ چلا جائے۔


      میں نے ہاتھ اس کی پیٹ کے ارد گرد رکھے ہوئے تھے اور
      جوں جوں وہ آہستہ آہستہ لیٹ رہی تھی، میں بھی اسی کے ساتھ اس کے اوپر آرہا تھا، اور اس کی گانڈ کے ٹشوز میرے لنڈ کے اردگرد تنگ ہو رہے تھے۔ جیسے وہ اسکو نچوڑنے کےلئے بےتاب ہو رہے تھے۔

      اس کے پوری طرح لیٹنے سے ہی اس کی دیواریں اتنی تنگ ہوگئی کہ اب اور کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا اور بس اسی کے ساتھ میں نے منی اس کی گانڈ میں بہانی شروع کردی۔ گانڈ کی تنگ دیواروں نے میرے لنڈ کو چوس کر رکھ دیا۔ جب میں اس کے اوپر سے ٓاٹھا، تو دیکھا کہ میری منی گانڈ کے سوراخ سے ابل ابل کر باہر آرہی تھی۔

      باتھ روم جاکر میں نے لنڈ سے کریم اور ویسلین وغیرہ صاف کردی اور واپس آکر مہ وش نے اس کو منہ میں لے لیا۔ وہ نرم ہو گیا تھا۔ مگر چند منٹوں کے بعد اس کی زبان کی کوششوں اور منہ کی حرارت سے دوبارہ جوش میں آگیا۔

      میں نے اس کو بستر پر لٹانے سے قبل الارام لگادیا، کیونکہ ہمیں صبح سویرے ایر پورٹ کےلئے نکلنا تھا۔ میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور لنڈ اس کے چوت میں داخل کردیا۔ چند دھکوں کے بعد ہی اسکا ارگیزم آگیا۔ میں تو منی نکال چکا تھا ۔

      اس لئے میں نے اس کو کہا کہ کل رات کی ہی طرح لنڈ چوت کے اندر رکھ کر میرے اوپر آکر سو جاوٗ۔ صبح تین بجے جب الارام بجا تو میں نے اسکو اپنے نیچے کرکے اسکی ٹانگیں کھول کر ان کو اپنے کندھوں پر رکھ کر ایک آخری چدائی کرکے منی اس کی چوت میں بہادی۔

      اس دوران اسکے مموں اور ہونٹوں اور زبان سے خوب انصاف کیا۔

      اگلا ایک گھنٹہ ہم نے باتھ روم میں نہانے دھونے اور پیکنگ کرنے میں لگایا اور اسی کے ساتھ مہ وش نے ناشتہ بھی تیار کیا۔ ہانگ گانگ تک ہماری ایک ہی فلائٹ تھی۔ وہاں سے اسکو الگ ہوکر دوحہ کے راستہ کابل پہنچنا تھا۔ جبکہ مجھے ہانگ کانگ سے سیدھا ممبئی پہنچنا تھا۔

      چیک آوٹ کےبعد ایرپورٹ جانے والی ٹیکسی میں اس نے بتایا کہ جب اس نے کانفرنس روم میں پہلی بار مجھے دیکھا تھا تو اس کو لگا تھا کہ اس شخص کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔

      میں نے پوچھا ایسا کیسے، اس نے کہا کہ کانفرنس ٹیبل کی دوسری طرف بیٹھے ہوئے تم میری تصویریں اتار رہے تھے، اور میں نے نوٹس کیا کہ خاص طور پر تم ایسے وقت کلک کرتے تھے جب میں اپنی زبان باہر نکالتی تھی۔

      مجھے اس سے قبل معلوم نہیں تھا کہ اس نے یہ محسوس کیا ہوگا اور اس کا یہ بیان سو فیصد سچ تھا۔ واہ رے عورت۔۔۔سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنتی ہو۔۔۔

      میں نے کہا کہ جب تم زبان نکال کر ہونٹوں پر پھیرتی تھی، تو بہت سیکسی لگتی تھی۔ میں کنٹرول ہی نہیں کر پا رہا تھا۔

      "میں نے اخذ کیا تھا کہ کوئی ٹھرکی آدمی ہے، کہیں کوئی اسکینڈل نہ بنوا دے، اسی لئے میں دور دور ہی رہی، جب تک مترجم کی وجہ سے ہمیں ساتھ بیٹھنا پڑا۔ اور پھر تم نے میری پرزنٹیشن میں مدد کرکے بعد مجھے اتنا اٹنشن دیا اور خیال رکھا، پٹنا ہی پڑا،" اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

      واقعی یہ ایک یادگار ٹور تھا۔ بہت انجوائے کیا میں نے۔ تم نے مجھے پورا گشتی بنا کر رکھ دیا ۔ تینوں سوراخوں کے مزے لئے۔

      مزید اس نے کہا کہ ٹرین میں تم نےکیا کیا تھا؟ میں نے پوچھا کہ کیا کیا تھا؟ یاد کرو، تم نے اپنا اوزار باہر نہیں نکالا تھا کیا اور پینٹ کے اوپر ٹرین کے دھکوں کے ساتھ چود رہے تھے؟

      عورت واقعی قدرت کی بنائی ہوئی عجوبہ روزگار ہے۔۔ اس کو سب پتہ ہوتا ہے، بس ایسے ایکٹنگ کرتی ہے، جیسے کچھ معلوم نہیں ہے۔

      اسنے کہا مجھے تو پہلے اچھا نہیں لگا، مگر پھر گرم ہونے لگی اور وہیں من بنالیا تھا، کہ اگر کمرے میں تم نے پہل کی تو ساتھ دونگی۔

      میں نے کہا کہ ٹرین میں تم نے ہی تو پہلے مجھے پیچھے سے جھکڑا ہوا تھا،۔ تیرے بوبس تو میری کمر کو چھو کر میرے اندر قیامت ڈھا رہے تھے۔

      ’’ہاں وہ تو ہے، میں ڈر رہی تھی، کہ پچھڑ نہ جاوٗں، مجھے رہائش کی جگہ کا ایڈریس بھی معلوم نہ تھا اور جاپانی کرنسی بھی نہیں تھی پرس میں۔۔‘‘

      میں نے کہا کہ میں نے تو ممبئی سے ٹوکیودیکھنے کےلئے تگ و دو کی تھی۔ اس کانفرنس میں آنے کےلئے بھی بس اسی لئے حامی بھری تھی، کہ جاپان دیکھا جائے۔

      "ہاں یہ تو ہئ، مگرجب کمرے میں ہی ٹوکیو کا مزا ملا، تو باہر کیا کرنا تھا۔۔مجھے تو کوئی ریگرٹ نہیں ہے، تمہیں بھی تو نہیں ہونا چاہئے،" اس نے لقمہ دیا۔

      میں نے کہا، جب تین تین سوراخ منی انڈیلنے کےلئے ملیں، تو اس پر کئی جاپان اور ٹوکیو قربان۔۔یہ تو کسی بھی مرد کےلئے انتہائی خوش قسمتی کا مقام ہے۔

      "ہٹ بدمعاش کہیں کے۔ میرا تو برا حال کردیا۔ ایسی لگاتار چدائی کبھی میری نہیں ہوئی ہے، کئی سالوں کی کسر تم نے نکال کر رکھ دی،" اس نے ایک ہلکی سی چپت مار کے کہا۔

      ایر پورٹ اب قریب آریا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر ایر پورٹ پر کوئی ساوتھ ایشین نظر آیا تو دور دور ہی رہنا۔ اچھا ہوا کہ ہانگ کانگ تک کوئی ساوتھ ایشین مسافر نہیں تھا۔

      اگلے پانچ گھنٹے ہم فلائٹ میں ساتھ کی سیٹوں پر آرام سے بیٹھے تھے اور ہر منٹ دو منٹ کے بعد کسنگ کرتے تھے۔ اس نے ایک اسکرٹ پہنی تھی ۔ جہاز میں ہماری سیٹ کے آس پاس باقی سیٹیں خالی تھیں۔

      ایک کمبل ایر ہوسٹس سے منگوا کر اوپر لیکر میں نے اس کی پینٹی نیچے کرکے چوت میں اپنی انگلی ڈال دی تھی، اور اس نے میرے پینٹ کی زپ کھول کر لنڈ کو باہر نکال کر اسکو ہاتھوں سے پکڑ کر سہلا کر ماسٹربیشن کر رہی تھی۔ ایر ہوسٹس کو لگ رہا ہوگا کہ یا تو نیا شادی شدہ کپل ہنی مون پر ہے یا نئی ڈیٹنگ کرنے والا جوڑا ہے۔

      ان ملکوں میں وہ ایسے کپل کو ڈسٹرب نہیں کرتے ہیں۔ نہ ہی کوئی ندیدوں کی طرح جوڑوں کو رومانس یا پیار کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ایر ہوسٹس ہمیں کنکھیوں سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتی تھی۔

      ماسٹربیشن کرتے کرتے اس نے اپنا منہ نیچے لاکر میرے لنڈ پر رکھا اور اورل کرنے لگی۔ وہ زبان باہر نکال نکال کر اس کے ٹوپہ اور اس کے سوراخ پر پھیر کر مذی زبان کی نوک پر رکھ کر پھر اوپر آکر میرا منہ چوم کر مجھے ٹیسٹ کرنے کےلئے دیتی تھی۔

      میں جب دور سے ہی ایر ہوسٹس کو آتا دیکھتا تھا، تو اس کے چہرے اور لنڈ کے اوپر کمبل ڈالتا تھا۔

      ایک ہاتھ سے اس نے میرے ٹٹے پکڑے ہوئے تھے اور ان کو مساج کر رہی تھی۔ اسکی زبان لنڈ کو جڑ سے ٹوپہ تک وارنش کرکے گیلا کر رہی تھی۔

      اس نے پہلے اس کا ٹوپہ اور پھر تقریبا پورا لنڈ منہ میں لے لیا۔ اس کا ٹوپہ تو حلق تک پہنچا ہوگا۔ اور اسکو چوسنے لگی۔ منہ کے اندر ہی زبان بھی اس کے ارد گرد پھیرتی رہی۔ کہاں دو روز قبل وہ لنڈ منہ میں لینے کی روادار نہیں تھی اور اب اسکو منہ سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھی۔

      میرا جسم اکڑ رہا تھا۔ ٹٹے ٹائٹ ہو گئے تھی۔ میری منی نکل رہی تھی۔ اس بار اس نے منی کا ایک بھی قطرہ منہ سے باہر بہنے نہیں جانے دیا۔ وہ پوری منی نگل گئی۔ جب وہ اٹھی، تو میرا پورا لنڈ زبان سے خشک کر چکی تھی۔

      لنڈ بھی اب نرم بھی ہوچکا تھا۔ مگر وہ اسکو اب بھی چھوڑ نہیں رہی تھی۔ اس کے ننھے سے سوراخ کو کھول کر اس پر لگی منی کا آخری قطرہ تک زبان کی نوک پر لیکر اسکو چاکلیٹ کی طرح ٹیسٹ کرکے نگل جاتی تھی۔ لنڈ کی ایک ایک رگ کو اس نے کھوجا اور اس پر زبان لگائی۔

      اس عنایت کی وجہ سے میں نے اس کو خوب چوما ۔ خاص طور پر اس کی زبان کو بہت چوسا۔ تاکہ منی کا کچھ ٹیسٹ میں بھی لوں۔ مگر وہاں اس کا ایک ڈراپ بھی نہیں تھا۔


      میری انگلیاں اس کی چوت کے اندر ہی تھیں اور اندر بار کر رہی تھیں۔ میرا اورل کرنے کو تو دل چاہتا تھا، مگر سیٹ پر بیٹھ کر ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے میں نے فنگرنگ پر ہی دھیان مرکوز کرکے ان کو اند باہر اور دانہ کو سہلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا جسم اکڑنے لگا۔

      میری انگلیوں کے ارد گرد اس کے چوت کی دیواریں تنگ ہونے لگیں۔ اس نے اوپر چوم چوم کر میرے چہرہ اور ہونٹوں کا برا حال کر کے رکھ دیا۔ اس نے میری زبان اپنے منہ میں لی اور اسکو لنڈ کی طرح چوسنے لگی اور اسی کے ساتھ او او او او او او ای ای ای ای ای ای کرکے پانی کا ایک پھوارہ چھوڑ کر اپنے آرگیزم کا اعلان کردیا۔

      ’’یار یہ منی کیا ٹیسٹی چیز ہے۔‘‘ اسنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

      اسی کے ساتھ وہ باتھ روم میں واش کرنے چلی گئی۔ کیونکہ پانی نکلنے سے اس کی پینٹی جو ٹانگوں میں پھنسی تھی بھیگ گئی تھی۔ میں نے اسکو نکال کر اپنے پاس رکھ دی۔ اور آج بھی کبھی کبھی اسکو نکال کر سونگھتا ہوں اور اس پر ماسٹر بیشن کرتا ہوں۔

      یہ کہانی لکھتے ہوئے میں نے اس پینٹی کو سامنے رکھا ہوا تھا اور بار بار اس کو سونگھ رہا تھا اور اس پر زبان پھیر رہا تھا۔

      وہ دوسری پینٹی پہننے چلی گئی۔


      "ویسے تمہارا اسٹمنا تو بہت ہی غضب کا ہے۔ میرا شوہر تو ایک دو جھٹکے میں ہی فارغ ہوکر مردہ جیسا ہو جاتا تھا۔‘‘ باتھ روم سے واپسی پر اس نے کہا۔

      ’’ اس حرامی کو بس اتنا پتہ تھا کہ سوراخ میں ڈنڈا داخل کرکے منی انڈیلنی ہوتی ہے۔۔ میری شادی ہی کم عمر میں ہوئی تھی، اس نے پہلی رات کو میرے کپڑے ایک طرح پھاڑ کر اپنا موٹا لنڈ بغیر مجھے تیار کئے سوراخ میں ڈالا۔"

      ’’ میں جتنی چیختی جاتی تھی، اتنا ہی وہ وحشی ہوتا جاتا تھا۔ اسکو بتایا گیا تھا کہ عورت جتنی چیخے گی اور جتنی اس کی درد بھری آوزیں باہر سنائی دی جائیگی، اتنا ہی اسکی مردانگی تسلیم کی جا ئیگی۔۔‘‘

      صبح تک تو میری چوت سوج گئی تھی۔ ایک نرس بلائی گئی، جس نے میری ساس کو بتایا کہ اگر اس لڑکی کی زندگی چاہتے تو بیٹے کو بتاو کہ اگلے چند روز سیکس نہیں کرنا۔

      بس اگلی رات اس نے چوت کو تو چھوڑا مگر گانڈ کا آپریشن کیا، جو اس سے بھی تکلیف دہ تھا۔ بغیر کوئی کریم یا ویسلین لگائے، بس تھوک لگا کر اس نے گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال کر منی خارج کی۔ کئی روز میں چل پھر بھی نہں سکتی تھی۔

      یورپ میں بوائے فرینڈ تو ٹھیک ٹھاک تھے، مگر اتنی اور اس قدر چدائی ان کے بس کی بھی نہیں تھی،" اس نے کہا۔

      میں نے کہا کہ میری ٹائنمگ میں میری بیوی کا بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ اس کو آرگزم تک پہنچے میں کافی ٹائم لگتا ہے۔ اسی لئے مجھے بھی ٹائمنگ بڑھانی پڑی۔ ایک سیکسالوجسٹ نے لنڈ کی کچھ ایکسرسائزس سجھائی تھیں، جیسے پیشاب کرتے وقت رک رک کر پیشاب کرنا۔ اس سے لنڈ کے مسلز کی ورزش ہوتی ہے اور کنٹرول آتا ہے۔

      جب بلکل منی نکلنے کے قریب پوائنٹ آجائے، تو آنکھیں بند کرکے کسی اور طرف دھیان لگانا۔ جب منی واپس چلی جائے، تو واپس گھسے مارنا شروع کرنا۔ میری منی تب ہی نکلتی ہے، جب میں چاہوں گا۔

      ہانگ کانگ میں میری فلائٹ، اسکی فلائٹ کے ایک یا دو گھنٹہ کے بعد تھی۔ گیٹ کی طرف روانہ ہونے سے قبل میں نے ایک استون کی آڑ میں اسکو گلے لگایا اور ہم نے خوب کسنگ کی۔ میں نے اس کی زبان آخری بار چکھی۔

      اسی کے ساتھ اب اس نے اپنے پرس سے چادر نکال کر اوڑھ لی اور حجاب پہن کر اپنی فلائٹ کے گیٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی، میں اس کو دیکھتا رہا۔ اس کی مٹکتی ہوئی گانڈ، جس کی میں نے چدائی کی تھی، دیکھتا رہا۔

      ہم کئی سال تک فون پر ایک دوسرے کو مسیج وغیرہ کرتے تھے، مگر پھر اس نے ایک روز کہا کہ جب وہ خود مسیج کرے، تب ہی جواب دوں۔ خیر اس سے اشارہ ملا کہ اس کو بستر کا کوئی ساتھی مل گیا ہے اور اب وہ میری وجہ سے اس رشتہ کو خراب نہیں کرنا چاہتی ہے۔ میں نے اسکی پرائیوسی کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
      کابل میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد اسکو میں نے متعدد بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اور ڈیبیٹ میں افغانستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔۔

      جب وہ باتیں کرتے ہوئے ہونٹوں کو تر کرنے کےلئے زبان باہر نکالتی ہے، من کرتا ہے کہ ٹی وی کے اندر گھس کر اس کی زبان لپک لوں۔

      اسی کے ساتھ اسکی گلابی چوت، بڑےتربوز جیسے لٹکتے ممے اور وہ تینوں سوراخ بھی یاد آتے ہے، لنڈ لیک کرنے لگتا ہے۔۔ کیا کروں، وہ ہے ہی ایک سیکسی چیز۔۔۔

      یہ کہانی لکھتےلکھتے اتنی بار لیک ہوچکا ہوں، کیا بتاوں۔ اس کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے کئی بار بیوی کی چدائی کرکے اپنے آپ کو ٹھنڈا کرنا پڑا۔۔

      بس یہ تھی کہانی، جاپان میں ایک افغان سیاستدان کی چوت کی اور اسکی چدائی کی۔۔۔۔

      جاپان دیکھنے کی حسرت تو دل میں رہی، مگر اس چوت پر کئی جاپان قربان۔۔مجھے کوئی تاسف نہیں ہے۔۔جب تک زندگی ہے، جاپان دیکھا جا سکتا ہے، چوت تو کئی جاپانوں سے بھی قیمتی چیز ہے۔ اس کے اندر تو جنت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔۔جنت میں جانے کی خواہش کس کو نہیں ہوتی ہے۔۔


      دوستوں اور فورم ممبران کے تفصیلی گندے گندے کمنٹس کا انتظار ہے۔ اس سے حوصلہ افزائی بھی ہوگی اور اس طرح کی کہانیاں لکھنے کی ترغیب بھی ملے گی۔۔


      image.png

      Comment


      • #23
        واہ واہ کیا زبردست اور مزے کی کہانی ہے مزہ آگیا سے

        Comment


        • #24
          اس شاندار کہانی کو لکھنے کے لیے سخت محنت کی تعریف کرتا ہوں۔​​

          Comment


          • #25
            افغانی بیوٹی دیکھو کیا بنتا

            Comment


            • #26
              افففففففف کمال

              Comment


              • #27
                لن کھڑا کر دیا گرم کہانی نے

                Comment


                • #28
                  Buhat hi unda update hai

                  Comment


                  • #29
                    لا جواب شہکار تحریر مزہ اگیا

                    Comment


                    • #30
                      kia kamaal kahaani hai mza aa gya

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X