Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دلدل

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دلدل

    دلدل
    میں پیشے کے اعتبار سے ایک الیکٹریکل انجینئر ہوں اور میرا نام مشتاق ہے۔ اس وقت میری عمر چوالیس برس ہے اور میری فیملی میں کل چھ افراد ہیں۔ میں مشتاق، میری بیوی سمیرہ، میرے تین بیٹے، ان کے نام اس لئے نہیں لینے کی ضرورت کہ وہ اس آپ بیتی میں کسی کردار کے حامل نہیں ہیں، میری تین بیٹیاں، جن میں سب سے بڑی کا نام سدرہ ہے۔ چھوٹی دو بیٹیوں کا نام اس لئے نہیں بتا رہا کہ وہ بھی اس کہانی میں کسی کردار کی حامل نہیں ہیں۔ یہ آپ بیتی کہہ لیں یا کہانی کہہ لیں صرف تین لوگوں یعنی میں، میری بیوی سمیرا اور میری بڑی بیٹی جس کی اس وقت عمراٹھارہ برس ہے اس کے گرد گھومتی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میری بیوی مجھ سے پانچ برس چھوٹی ہے اور اس وقت اس کی عمر انتالیس برس ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے تب سے جب میں ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا۔ میری بیوی ایک انتہائی خوبصورت اور سڈول وجود کی مالکن ہے۔ رنگ روپ بھی کافی اچھا ہے اور جسمانی ساخت بھی ایسی کہ کوئی اب بھی اسے دیکھے تو ساتھ سلانے کی خواہش کو دبا نہیں سکتا۔ اس کا فگر اڑتیس، ، بتیس اور چوالیس ہے جبکہ میری بیٹی بھی اپنی ماں کی ہی ہم شکل ہے، بس عمر کا فرق ہے جس کی وجہ سے اس میں عجیب سے شوخی اور سیکس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ میری شادی پسند کی شادی تھی اورہم دونوں میاں بیوی میں تمام معاملات بہت اچھے چل رہے تھے۔ میں ملازمت کے لئے پہلے مسقط گیا جہاں سے ایک یورپی کمپنی نے مجھے ٹریننگ کے لئے یورپ بھیج دیا۔ وہاں پر مجھے ایک پولش لڑکی سے شادی کا چانس ملا سو میں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور انگلینڈ میں سیٹل ہو گیا۔ اب میرے پاس برطانیہ کی شہریت بھی ہے۔ تو ہوا کچھ یوں کہ میں اس تمام ملازمت اور بعد ازاں شادی کی وجہ سے جب وطن واپس لوٹا تو سات برس کا عرصہ بیت چکا تھا، اس دوران میں نے چند تبدیلیاں نوٹ کیں۔ اول یہ کہ میری بیوی بہت زیادہ بے باک اور پر اعتماد ہو چکی تھی جب کہ میری بیٹی بھرپور جوان نہ سہی لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ میری واپسی پر بھی میری بیوی گھر سے باہر اپنی سہلیوں کے گھر گھومتی پھرتی رہتی تھی جب کہ اس دوران میں گھر میں اکیلا ہوتا تھا۔ بیٹیاں چونکہ باپ سے ویسے بھی کافی مانوس ہوتی ہیں اور پیار کرتی ہیں لہٰذا میری بیٹی سدرہ بھی میرے قریب ہوتی چلی گئی۔ ایک دن حسب معمول میں جب سو کر اٹھا تو میری بیوی نے مجھے بتایا کہ آج اس کی سہلیوں گا گروپ مری جا رہا ہے سو وہ ان کے ساتھ جا رہی ہے ، میں نے پوچھا کیا خود ڈرائیو کرو گی تو اس نے کہا کہ نہیں ایک ہائی ایس کا بندوبست کیا ہے، اسی پر جانا ہے اور واپس آنا ہے۔ میں نے کہا کہ سدرہ کو بھی ساتھ لے جاؤ کب سے ضد کر رہی ہے کہ اسے جانا ہے۔ تب سدرہ کی عمرپندرہ برس ہو چکی تھی اور وہ شرعی طور پر بالغ ہو چکی تھی یعنی اسے پیریڈز آتے تھے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی بلکہ میری بیوی نے خود مجھے بتائی تھی کہ وہ اب بالغ ہو چکی ہے۔ باقی بچے چھوٹے تھے۔ سمیرہ نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اور یہ عجیب لگتا ہے کہ میں جوان بیٹی کو ساتھ لے جاؤں جبکہ کسی بھی سہیلی کا کوئی بچہ ساتھ نہ ہو، میں نے کہا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی اور چلی گئی۔ یہ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ دراصل سیکس ایڈکٹ ہو چکی تھی اور دراصل سہلیوں کا تو بہانہ تھا، وہ نئے نئے لن لینے کی عادی تھی اور بڑی مہارت سے شکار کرتی تھی۔ خیر میں اپنی روٹین کے مطابق چھ ماہ کے لئے رہنے کے لئے آیا تھا پھر مجھے لوٹ جانا تھا۔ میرا دراصل رات سے موڈ ہو رہا تھا سمیرا کو چودنے کا لیکن اس نے منع کر دیا تھا کہ اس کی کمر میں درد ہے دو تین بعد کر لیں گے۔ میرا لن بہت بڑا تو نہیں ہے لیکن چھ انچ کا ہے اور عمر کی تقاضہ ہے کہ گولائی میں بھی کچھ زیادہ ہے۔ یعنی کم از کم ڈیڑھ انچ قطر تو ہو گا ہی۔ میں صبح سخت خواری محسوس کر رہا تھا کہ اسی دوران سدرہ میرے کمرے میں آئی اور کہنے لگی کہ ابو جی اٹھیں ناشتہ کر لیں ، امی بنا کر گئی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ آپ ناشتہ یہیں لے آو میں جب تک نہا کر فریش ہو جاتا ہوں۔ اسی دوران میں نے سدرہ کو کہا کہ یار میری الماری سے میرے کچھ کپڑے نکال کر پریس کر دو میں نے ایک دوست کی جانب جانا ہے۔ اس نے جب الماری کھولی تو میرے کپڑوں کے ساتھ ہی سائیڈ پر ایک نائیٹی اور چند ایک لیڈیز انڈر گارمینٹس بھی پڑے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کا ماحول جیسا کہ میں نے بتایا ہے کافی کھلا ڈلا تھا اس لئے سدرہ نے وہ کپڑے دیکھے تو گھبرائی یا شرمائی نہیں بلکہ مجھے چھیڑنے کے لئے کہنے لگی کہ ابو جی یہ والے کرنے ہیں یا کوئی اور، تب تک مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس کے ہاتھ میں کیا چیز آئی ہے، میں نے کہا جو دل چاہے کر دو میں نے تو پہنے ہی ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ وعدہ کرو جو میں کر کے دوں گی پریس آپ وہی پہنو گے۔ میں نے کہا یار کہہ دیا کہ پہن لوں گا، تب تک میں واش روم میں جا چکا تھا اور دروازہ اندر سے بند کر چکا تھا۔ اس نے شرارتاََ ایک پینٹ شرٹ پریس کئے اور ایک جانب وہ زنانہ زیر جامے رکھ دئیے۔ میں جب نہا کر نکلا تو صرف لانگ ٹاول میں تھا، میں نے دیکھا کہ سدرہ چائے اور پراٹھہ لئے میرے ہی بیڈ ہر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہے۔ میں نے چونکتے ہوئے جب زنانہ لباس کی جانب دیکھا تو کہا یہ کیا بدتمیزی ہے، اس نے کہا کہ ابو جی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جو مرضی کر دو تو اس وقت میرے ہاتھ میں یہی کپڑے تھے اس لئے اب اپنے وعدے پر قائم رہنا اور یہی کپڑے پہن کر جانا، میں نے غصے سے اسے دیکھا اور کہا کہ دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے یہ کیا بے ہودگی ہے۔ تب تک میرے ذہن میں کچھ ایسا ویسا تھا ہی نہیں۔ میں نے دیکھا کہ بجائے وہ ناراض ہونے کے آ کر مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ سوری ابو، میں نے تو مذاق کیا تھا، ، آپ کو برا لگا تو آئی ایم سوری، جب وہ میرے ساتھ لپٹی تو میرے جسم پر چیونٹیاں سی رینگنا شروع ہو گئیں لیکن یہ طے تھا کہ سدرہ کے دماغ میں بھی ایسا ویسا کچھ تھا نہیں یا کم از کم مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ میں نے اسے خود سے الگ کیا اور کہا کہ آئیندہ ایسا کچھ نہیں کرنا، مجھے بالکل بھی ایسا مذاق پسند نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے نہیں کروں گی پھر میری طرف دیکھ کر بولی آپ ابھی بھی ناراض ہیں، ہیں نا، تو میں نے کہا تم نے حرکت ہی ایسی کی تھی کہ دل کرتا تھا تمہیں دس جوتے لگاؤں۔ جب میں نے ایسا کہا تو سدرہ گھوم گئی اور اپنی ننھی سی گانڈ میری طرف کرتے ہوئے بولی مار لیں دس نہیں سو مار لیں پر مجھے معاف کر دیں، میں نے کہا اچھا اب جاؤ مجھے جانا ہے۔ وہ چلی گئی تو میں نے لباس پہنا، نانشتہ کیا اور اپنے دوستوں کی جانب نکل گیا۔ ابھی میں اپنے دوست کے گھر میں ہی تھا کہ اس کا ایک رشتہ دار آیا اور مجھ سے تعارف ہونے پر بات چیت کرنے لگا، باتوں باتوں میں اس نے میرے سسرال کا پوچھا تو وہ کہیں دور پار کا میرا بھی سسرالی رشتہ دار نکل آیا۔ ،میرے لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی، جو لوگ باہر ممالک میں رہتے ہیں ان سے لوگ رشتہ داریاں نکال ہی لیتے ہیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ جب اس نے میری بیوی کا ذکر کیا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ آئی، میں نے محسوس تو کیا لیکن کوئی سوال نیہں کیا، اسی اثنا میں میرا دوست واپس آ گیا جو اس نئے مہمان کے لئے بھی کچھ کھانے پینے کو لینے گیا تھا۔ اسی دوران میں نے دوست سے کہا کہ مجھے واش روم جانا ہے، جب میں واپس لوٹا تو میرے دوست کے چہرے کا رنگ اڑا اڑا سا تھا، اس وقت تو وہ کچھ نہ بولا، ہم نے کھانا ساتھ کھایا اوردن کے دو بجے میں واپس گھر کو لوٹا کہ گھر میں بچے اکیلے ہیں۔ جب میں گھر پہنچا تو اسی دوست کا فون آیا جس نے یہ انکشاف کیا کہ سمیرا دراصل بہت ہی فاحشہ عورت ہے اور اس کا کام ہی غیر مردوں سے دوستیاں لگا کر ان سے چدوانا ہے، میں نے ثبوت مانگا تو اس نے کہا کہ اس کا بھی انتظام ہو جائے گا لیکن تم وعدہ کرو کہ کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کرو گے کہ تمہارے بچے ہیں، میں نے کہا تم اس کی فکر نہ کرو،۔ میں ایک ٹھنڈے مزاج کا انسان ہوں لیکن سچ بات کہ یہ سب سن کر مجھے غصہ بہت آ رہا تھا کہ دیکھو میں ان کے لئے کیا کیا کرتا پھر رہا ہوں اور یہ میری غیر موجودگی میں اپنی پھدی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے رنگ رنگ کے لوڑے اپنے اندر لیتی پھر رہی ہے۔ اسی طرح دن گزرتے رہے لیکن میں نے برداشت سے کام لیا اور بالکل بھی یہ ظآہر نہ ہونے دیا کہ اس کا راز مجھ پر فاش ہو چکا ہے۔ یہ غالباََ دوست کی طرف جانے کے بعد ایک ماہ کا واقعہ ہو گا کہ میرے دوست نے مجھے ایک وڈیو دی اور کہا کہ اسے علیحدگی میں دیکھ لینا، تمہارے سوالوں کے جواب تمہیں مل جائیں گے، میں انتظار کرنے لگا کہ سمیرا گھر سے جائے تو میں سکون سے وہ وڈیو دیکھوں۔ دو دن بعد اسے پھر کسی سے چدوانے کی حاجت ہوئی تو اس نے بہانہ بنایا کہ وہ ایک سہیلی کی کزن کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں جا رہی ہے رات کو لیٹ آئے گی یا ممکن ہے کہ نہ آئے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا جاؤ کوئی بات نہیں میں ہوں بچوں کے پاس اور وہ بن ٹھن کر چلی گئی، اس کے جاتے ہی میں نے وہ ڈی وی ڈی پلئیر میں لگائی اور دیکھنے لگا، تھوڑی دیر کی وڈیو تھی لیکن اس میں میں حیران رہ گیا کہ میری بیوی جس نے کبھی میرا لن نہں چوسا تھا کس طرح مزے لے لے کر اس اپنے سے کم از کم دس برس چھوٹے مرد کا لن چوس رہی تھی اور وہ بھی اس کی پھدی کو ایسے چاٹ رہا تھا جیسے مارس کی چاکلیٹ ہوں۔ خیر اس سیکس وڈیو میں سمیرہ نے گانڈ بھی مروائی اور پھدی کا بھی حشر نشر کروایا، یقیناََ چودنے والا کسی دوا کے زیر اثر تھا کہ اس نے کم ازکم آدھا گھنٹہ سمیرہ کو جی بھر کر چودا اور پھر اپنا لن بھی اس کے منہ میں ڈال کر صاف کیا۔ میں کیا بتاؤں مجھے اتنی گھن آئی سمیرہ سے کہ دل چاہتا تھا اس کو اسی وقت گولی مار دوں یا طلاق دے دوں، لیکن پھر میں بچوں کا سوچ کر خاموش ہو گیا اور ایک فیصلہ کیا کہ مجھے آگے کیا کرنا ہے۔ میں اکثر ڈرنک بھی کرتا ہوں۔ لیکن گھر میں محتاط ہو کر ، لیکن اس وقت ایسا کوئی خطرہ نیہں تھا، سدرہ ہی سب سے بڑی تھی اور وہ اپنے کمرے میں اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھی کام کر رہی تھی، میں نے وہسکی کی بوتل اٹھائی اور ایک ہارڈ پیگ بنا کر چڑھا لیا۔ ابھی میں دوسرا پیگ پی ہی رہا تھا کہ سدرہ ایک دم سے کمرے میں داخل ہوئی اور چونکتے ہوئے کہا کہ ابو جی یہ کیا پی رہے ہیں، میں تب تک کچھ خماری کے زیر اثر آ چکا تھا ،میں نے کہ کچھ نہیں بیٹا بس تھوڑا سا زہر پی رہا ہوں۔ وہ ایک دم پریشان ہو گئی اور میرے ماتھے پر ہاتھ لگا کر بولی کی ابو آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا، میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے تم جاؤ اپنا کام کرو،۔ اس نے کہا کہ ابو مجھے آپ سے کچھ کام تھا اس لئے آپ کے پاس آئی ہوں، میں نے کہا ہا ں کہو، اس نے کہا نیہں ابھی آپ ریسٹ کریں میں کچھ دیر بعد آتی ہوں وہ آ کر لوٹ گئی لیکن پہلی مرتبہ میں نے دیکھا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے اور تنے ہوئے ممے اور اس کے چھوٹے چھوٹے نپلز کی نوکیں اس کی قمیض سے باہر صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔ میں نے زہن کو جھٹکا اور ایک پیگ اور لگا لیا۔ لیکن وہ ںظارہ ذہن سے نکل نہیں رہا تھا، میں نے پینا بند کر دیا اور سیدھا لیٹ گیا۔ غالباََ میں سو گیا لیکن شاید دو گھنٹے کے بعد سدرہ میرے کمرے میں تھی اور میں اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ میں نے کہا ہاں بیٹا اب بتاؤ کیا بات ہے تو اس نے کہا کہ میرا لیپ ٹاپ اب پرانا ہو گیا ہے کیا آپ دوسرا لے دیں گے، میں نے کہا لے لینا تو وہ خوش ہو گئی اور میرے گال پر پیار کر کے بولی ابو جی آپ دنیا کے سب سے اچھے ابو ہیں۔ لیکن اس کے وجود کا میرے وجود سے ٹکرانا تھا کہ میرا حشر برا ہو گیا۔ میں نے کچھ سوچا اور پھر ایک فیصلہ کیا۔ میں نے سدرہ کو کہا کہ میں ذرا فریش ہو کر آتا ہوں پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، اس نے کہا جی ابو اور میرے ہی کمرے میں اپنا لیپ ٹاپ لے کر آ گئی، میں نہا کر باہر نکلا تو صرف ٹاول میں تھا اور میں سیدھا سدرہ کے پاس آ گیا ،کچھ جھینپتے ہوئے میں نے کہا سدرہ بیٹا آپ کو امی نے کچھ ایسی باتیں نہیں بنائیں جو اسے آپ کو بتانا چائیں تھیں۔ وہ نہ سمجھنے والے انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئی بولی،نیہں ایسا تو امی نے کچھ نہیں بتایا، میں نے اس پر کہا کہ اسے اپنی مصروفیات سے وقت نکلے تو اولاد پر توجہ دے، میں نے کہا تمہارے ذہن میں اگر کچھ سوالات ہیں، کسی بھی قسم کے، اس کسی بھی قسم کے پر میں نے بہت زور دیا اور دو تین مرتبہ دوہرایا تو اس کے آنکھوں میں ایک رنگ آیا اور گزرگیا۔ اس نے کہا ہاں ابو سوالات تو ہیں لیکن ڈر لگتا ہے، آپ پھر سے ناراض ہو جاؤ گے۔ میں نے کہا نہیں ہوتا آپ پوچھو، اس نے کہا کہ آپ پہلے وعدہ کرو ناراض نہیں ہو گے، میں نے کہا پکا وعدہ ناراض نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا کہ مرد کا جسم اوپر سے نہیں بڑھتا لیکن عورتوں کا کیوں بڑھ جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے، میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت نے ماں بننا ہوتا ہے، بچو ں کو دودھ پلانا ہوتا ہے اس لئے جبکہ مرد نے دودھ نہیں پلانا ہوتا اس لئے اس کے ممے نہیں ہوتے۔ میرے منہ سے مموں کا ورڈ اس نے سنا تو پوچھا کہ ممے کیا ہوتے ہیں، میں نے کہا کہ ممے بریسٹس کو کہتے ہیں اور ساتھ ہی لوہا گرم دیکھتے ہوئے کہا کہ ذرا دیکھوں تو تمہارے بریسٹس کا سائز کیا ہے، ذرا اپنا دوپٹہ سائیڈ پر کرنا تو، اس نے ایک دم سے دوپٹہ ہٹا دیا تو میں نے مصنوعی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تمہارا لیفٹ والا ممہ رائٹ والے سے چھوٹا ہے، ذرا اپنی قمیض تو اوپر اٹھاؤ، میں دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے، اس نے فوراََ قمیض اٹھانا چاہی تو میں نے کہا جا کر دروازہ لاک کر دو یہ نہ ہوئی کوئی چھوٹا بہن بھائی آ جائے۔ وہ گئی اور دروازہ لاک کر واپس آ گئی، آتے ہی اس نے قمیض اوہر کی تو میں نے کہا پوری اتار دو، اس نے جب قمیض اتاری تو اس کی بغل میں بال تھے، میں نے کہا تم صفائی نہیں کرتی تو اس نے کہا کہ بھی پیریڈز کے بعد کروں گی، جس پر میں نے کہا کہ لازمی نہیں کہ پیریڈز کا انتظار کیا جائے، کسی بھی وقت صفائی کی جا سکتی ہے۔ اس سارے منظر میں میرا لن فل کھڑا ہو چکا تھا اور جب میں نے سدرہ کے مموں پر اپنا ہاتھ رکھا تو میرا حال برا ہو گیا تھا، اس نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ میرے ٹاول میں کچھ حرکت ہوئی ہے، اس نے میرے لن کی جانب دیکھتے ہوئے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا،جب اس نے میرے ٹاول میں حرکت دیکھی تو لازماََ اس میں اشتیاق کا پیدا ہونا فطری عمل تھا اور ساتھ ہی میرے اندر تھی ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہو چکی تھی، میں ایک خودکار مشین کی طرح وہ کچھ کرتا جا رہا تھا جو اگر سوچ سمجھ رکھتا ہوتا اس وقت تو کبھی نہ کرتا۔ سدرہ نے میری طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے اس کی چھٹی حس نے اسے بتا دیا کہ وہ اور میں کس کفییت میں ہیں۔ اس وقت تو وہ کچھ نہی بولی بس اتنا ہی کہا کہ ابو کیا مجھے اپنا جسم آپ کو دکھانا چاہئے تھا، میں نے کہا بہت کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے جو نہیں کرنا چاہئے لیکن چونکہ تم میری بیٹی ہو اس لئے اگر میں نے تمہارا جسم دیکھ لیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، میں نے بچپن میں بھی تمہارا سب کچھ دیکھا ہوا ہے۔ اس پر وہ کچھ مطمئین ہوئی اور کچھ بے چین، میں نے اس کی بے چینی بھانپتے ہوئے اسے کہا کہ کیا تم مرد کا جسم بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ لازمی امر ہے چھوٹی عمر کی لڑکیوں میں تجسس ضرور ہوتا ہے۔ اس نے سر ہاں میں ہلا دیا، میں نے اپنا ٹاول نیچے گرا دیا۔ میرا دل میرے کانوں میں دھڑک رہا تھا اور میں اس کے تاثرات کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے اپنی ماں سے اس سب کا ذکر کر دیا تو کیا ہو گا، یہ سوچ آتے ہی میرا سارا مزہ برباد ہو گیا لیکن میں نے موقع کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور ایک ایک کرے سدرہ کے تمام کپڑے اتروا دئیے۔ اس کا وجود گو اس وقت کافی چھوٹا تھا لیکن کنوارے وجود میں ایک اپنی ہی خوبصورتی اور سیکس ہوتا ہے۔ اس کے نپلز چھوٹے چھوٹے تھے اور ممے بھی بالکل تنے ہوئے، گورے گورے گول مٹول لیکن چھوٹے چھوٹے بھی تھے ، مکمل گولائی میں تھے اور اور عموما جس طرح سائیڈوں پر بڑھے ہوتے ہیں ویسے نہیں تھے۔ میرے اندر کا شیطان پورا جاگ چکا تھا، میں نے ان پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ اس عمل سے سدرہ کو بےچینی محسوس ہونا شروع ہوئی جو میں نے محسوس کر لی، میں نے اس کی پھدی کی جانب دیکھا تو اس نے اپنی ٹانگوں کو سختی سے آپس میں ملا رکھا تھا، میں سمجھ چکا تھا کہ وہ بھی گرم ہو رہی ہے اور نیچے سے گیلی بھی ہو چکی ہو گی، میں نے کہا کہ اپنی ٹانگیں کھولو اور زمین پر ایسے بیٹھ جاؤ جیسے پیشاب کرتے وقت بیٹھتے ہیں۔ اس نے جھجھکتے جھجھکتے میری بات مان لی اور جوں ہی وہ نیچے بیٹھی اس کی پھدی سے پری کم کے قطرے نکلنا شروع ہو گئے، اس پر اسے شرمندگی محسوس ہونا شروع ہو گئی اور اس نے کہا کہ ابو میں واش روم میں جانا چاہتی ہوں، میں نے پہلے دن کی کافی ڈویلپمنٹ کو کافی جانا اور اسے کہا کہ جا کر کپڑے پہن ہو اور واپس آ کر میری بات سنو۔ اس نے اپنا لباس اٹھایا اور واش روم کو چل دی۔ واپسی پر وہ مجھ سے نظریں چرا رہی تھی لیکن میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس جوانی کا مزہ میں ہی چکھوں گا چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ اس کے لئے مجھے صبر اور تدبیر سے کام لینا تھا کہ ابھی میری بیٹی کی عمر کم تھی اور وہ کسی سے یہ بات شئیر کر کے کام بگاڑ سکتی تھی۔ جب وہ واپس آ کر میرے پاس بیٹھی تو میں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور کہا کہ میری اچھی بیٹی جو کچھ ہوا ہمارے درمیان اس کو ہم دونوں کو ہر حال میں راز رکھنا ہے۔ اس نے بات سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی اور میں نے کہا کہ کچھ اور پوچھنا ہے تو پوچھ سکتی ہو، میں اس دوران دوبارہ ٹاول لپیٹ چکا تھا، اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ابو میں آپ کی نو نو کو دیکھنا چاہتی ہوں، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس کو نونو نہیں کہتے لن کہتے ہیں، وہ تھوڑا شرما گئی اور کہا جو بھی کہتے ہیں مجھے اس کو دیکھنا ہے، میں نے دوبارہ ٹاول کھول دیا اور اسے کہا کہ وہ چاہے تو اس کو چھو بھی سکتی ہے۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا، اس کے ہاتھوں کے لمس کا ملنا تھا کہ میرا لن کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔ کرتے کرتے میں فل اییریکٹ ہو گیا، اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا یہ کیوں سوج گیا ہے، میں نے کہا یہ سوجا نہیں ہے تیار ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کس لئے تیار ہو گیا ہے تو میں نے کہا کہ جب یہ فل سخت ہو جاتا ہے تو عورت کی پھدی میں ڈالتے ہیں، پھر جب مرد عورت کے اندر منزل ہوتا ہے تو حمل ہوتا ہے جس سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس نے کچھ سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا اور کہا کہ یہ منزل کیا ہوتا ہے، میں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی بیڈ سائیڈ سے لبریکینٹ نکال دیا کہ اسے میرے لن پر لگا کر آگے پیچھے تیزی سے ملو، اس نے ایسا ہی کیا، گرم تو میں پہلے سے ہی تھا، کچھ ہی دیر میں میں فارغ ہو گیا، میری منی کے قطرے جب سدرہ نے دیکھے تو حیران ہو گئی کہ یہ کیا نکل رہا ہے، اس نے پوچھا یہ کیا ہے تو میں نے کہا کہ اسی سے بچہ بنتا ہے۔ اس کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا لیکن چھوٹنے سے میرا جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا، میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ اگر آج رات تمہاری ماں گھر میں نہ آئی تو رات کو تمہیں فلم دکھا دوں گا ، تم سب خود دیکھ لینا، یہ سن کر سدرہ اٹھ کر چلی گئی اور میں جو کچھ آج ہوا تھا اچانک اور اتنی جلدی اس کو سوچتے سوچتے واش روم میں چل دیا۔ حسب توقع سمیرہ کا فون رات کو آٹھ بجے آ گیا کہ وہ نہیں آئے گی رات کو کہ اس کی دوست نے اس کو روک لیا ہے لہٰذا میں پریشان نہ ہوں۔ میں دل میں خوش ہوا کہ آج کی رات سدرہ سے مزہ لوں گا۔ جب رات کے گیارہ بج گئے تو سدرہ نے میرے دروازے پر ناک کیا، میں نے کہا آ جاؤ تو وہ آ گئی اور میرے بیڈ پر خاموشی سے بیٹھ گئی، میں نے اس کی آمد سے اس کا مقصد سمجھ لیا اور اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ ایک ٹرپل ایکس انسسٹ مووی لگا دی، چونکہ آواز کھلی تھی اس لئے سدرہ بڑی دل چسپی سے ساری فلم دیکھتی رہی جب کہ میں ایک طرف بیٹھا اس کے تاثرات دیکھتا رہا، جب میں نے محسوس کیا کہ اب سدرہ کافی گرم ہو چکی ہے تو اس سے کہا کہ سدرہ تم چاہو تو ایزی ہو کر بیٹھ جاؤ اور اپنے کپڑے اتار کی فلم دیکھو، زیادہ انجوائے کرو گی، اس نے کچھ کہے بنا اٹھ کر اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے۔ پوری ننگی ہو کر وہ میرے سامنے بیٹھ چکی تھی اور میرا حال خراب تھا، میں نے اس کے کندے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ سدرہ تم الٹی ہو کر لیٹ جاؤ میں تمہارے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوں اس سے تمہیں بہت مزہ آئے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میں اس کے پہلو میں لیٹ کر اس کی ٹانگوں پر سے ہاتھ پھیرتا ہوں اس کی چھوٹی سی گانڈ کی موری تک لے کر جاتا اور پھر واپس لے آتا، میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں بھی کپڑے اتار دوں؟ اس نے کہا اتار دیں مجھے کیوں برا لگے گا۔ میں نے فوراََ اپنے کپڑے اتارے اور سدرہ کے ساتھ اپنا ننگا لن ٹچ کرنا شروع کر دیا، اس کے جسم میں نے ایک جھر جھری لی اور پھر اس نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھل دیں جس سے اس کی پھدی کی لکیر مجھے دکھائی دینے لگی ، میں نے اس سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ لڑکی کی پھدی سیل ہوتی ہے اور پہلی مرتبہ اگر کرو تو درد ہوتا ہے۔ اس نے کہا ہاں اس کی ایک سہییلی نے اسے بتایا تھا، میں نے کہا کیا تمہیں پتا ہے کہ اگر گانڈ میں ڈالا جائے تو سیل نہیں ٹوٹتی لیکن درد کافی ہوتا ہے لیکن لڑکی کو مزہ بھی آتا ہے۔ اس نے کہا نہیں مجھے نہیں پتا تھا لیکن فلم میں ایک اینل سین وہ دیکھ چکی تھی اس لئے اس نے کہا کہ مجھے اس کا پتہ نہیں تھا اب فلم میں دیکھ کر پتہ چلا ہے، میں نے ویسے ہی اس کو چھیڑنے کے لئے کہا کہ کیا یار سدرہ تم نے پوری فلم دیکھ لی لیکن ایک مرتبہ بھی نہ تو میرا لن ہاتھ میں پکڑا نہ ہی منہ میں لیا، اس نے کہا آپ نے کہا ہی نہیں، میں نے کہا تم پوچھے بنا ہی پکڑ لیتی یا چوسنا شروع کر دیتیں۔ خیر اس نے میرے لن کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر میں جب وہ سخت ہو گیا تو اس کو جھجھکتے جھجھکتے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ میرا تو دماغ خراب ہو گیا لیکن میں نے کنڑول کئے رکھا، کچھ دیر کے بعد میں نے کہا سدرہ کیوں نہ تمہاری گانڈ میں لن ڈالا جائے، اس نے کہا آپ کا لن بہت موٹا ہے اور میری گانڈ کی موری بہت چھوٹی ہے، میں نے کہا کہ سب کی گانڈ کی موری چھوٹی ہی ہوتی ہے تم چاہو تو میری گانڈ کی موری کو دیکھ لو، یہ کہہ کر میں نے اپنی گانڈ اس کی طرف موڑی تو اس نے باقائدہ ہاتھ لگا کر چیک کیا پھر کہنے لگی کہ نہیں یہ میری موری سے بڑی ہے میں نے کہا اچھا ایسا کرتے ہیں کہ تم میری گانڈ میں انگلی ڈال کر دیکھ لو، کچھ بھی نہیں ہو گا، اس نے کہا یہ تو گندی جگہ ہوتی ہے، میں نے کہا کہ میں اینل سیکس کو جانتا ہوں، تم میرے ساتھ واش روم میں آو میں تمہیں اینیما کا طریقہ بتا دیتا ہون، اس سے تمیہں مزہ بھی آئے گا اور میں بھی انییما لے لوں گا۔ یہ اس کے لئے بالکل نئی بات تھی، میں اس کے ساتھ ٹوائیلٹ میں گیا اور مسلم شاور کا شاور اپنی گانڈ کے سوراخ سے لگا کر لیور پریس کرنا شروع کر دیا، کچھ دیر بعد میرا انٹرنل حصہ پانی سے بھر گیا، میں کموڈ پر بیٹھ کر پانی خارج کرنے لگا جس سے اندر کی تمام گندگی باہر نکل جاتی ہے اور گانڈ بالکل صاف ہو جاتی ہے۔ دو تین مرتبہ میں نے ایسا ہی کیا اور سدرہ سے کہا ک وہ بھی ایسا کرے لیکن اتنا پریشر اندر ڈالے جتنا وہ برداشت کر لے۔
    اس نے ڈرتے ڈرتے ایک مرتبہ ایسا ہی کیا اور پھر بے فکر ہو کر دو تین مرتبہ کیا اور میرے ساتھ باہر آ گئی، میں نے آتے ہی اسے لبریکنٹ دیا کہ اسے میری گانڈ کے سوراخ پر مل دو کچھ میں نے خود لے کر اپنی گانڈ کے اندر تک لگا دیا اور اسے کہا کہ فنگرنگ کرنا شروع کر دے، میں اینل سیکس کا شروع سے عادی اور دیوانہ ہوں اور اکثر اوقات انگلینڈ میں ڈلڈوز کے ساتھ پراسٹیٹ اوگزم کر چکا ہوں، جب اس نے میری گانڈ میں ایک انگلی ڈآلی تو میں نے کہا دو ڈالو، پھر اسی طرح کرتے کرے اس نے چار انگلیاں اندر ڈالنا شروع کر دیں، میں نے کہا کہ اپنا پورا ہاتھ اندر ڈالو لیکن آہستگی سے، اس نے ڈرتے ڈرتے ایسا ہی کیااور اس کا ہاتھ کلائی تک میری گانڈ میں جا چکا تھا، میں مزے کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا اور میری پری کم گرنا شروع ہو چکی تھی، میں نے اسے بتایا کہ میل جی سپاٹ کونسا ہوتا ہے اس کو رب کرے، ایسا کرنے سے میں جلد ہی فارغ ہو گیا، اس کے بعد میں نے سدرہ کو گھوڑی بننے کا کہا اور اس کی گانڈ میں لبریکینٹ لگانا شروع کر دیا۔ ایک ایک کر جب میری تین انگلیاں اس کی گانڈ میں جانا شروع ہو گئیں تو میں نے اپنے لن پر لبریکینٹ لگایا جو فارغ ہونے کے بعد اتنی دیر میں پھر تیار ہو چکا تھا، میں نے جیسے ہی اپے لن کی ٹوپی اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور آہستہ آہستہ اس کو اندر پش کرنا شروع کیا، جیسے ہی میرا لن اس کے اندر آدھا گیا تو اس نے مچلنا شرو ع کر دیا اور کہنے لگی کہ ابو جی بہت درد ہو رہا ہے، میں رک گیا اور تھوڑی دیر اس کو نہ ہلایا جلایا، تھوڑی دیر میں اس کی گانڈ میرے لن کی عادی ہو چکی تھی، پھر میں نے آہستہ آہستہ لن اس کی گانڈ میں پورا اتار د یا، جب لن پورا اس کی گانڈ کے اندر چلا گیا تو اس کو کہا کہ وہ اپنی مرضی سے ہلنا شروع کر دے۔ اس نے آہستہ آہستہ ہلنا شروع کر دیا، کچھ دیر بعد اس کو بھی لطف آنے لگا اور اس کے منہ سے سی سی کی آوازیں آنے لگی اور اس کی رفتار تیز ہو گئی، ساتھ ساتھ میں نے اس کی پھدی کو رب کرنا بھی شروع کر دیا، چونکہ وہ دیکھ چکی تھی کہ منزل کیسے ہوتے ہیں اس لئے اس کی سانس تیزی سے چلنا شروع ہوئی اور وہ بہت ہی پریشر سے فارغ ہوئی کہ اس کی منی کی دھار بیڈ شیٹ پر آ کر گری اور وہ بے دم ہو کر نیچے لیٹ گئی، میں اس کے اوپر تھا، میں نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی اور کچھ منٹس کے بعد فارغ ہو گیا،،،،فارغ ہو کر میں نے سدرہ سے کہا کہ اب تم جا کر نہا لو میں بھی نہا لیتا ہوں، وہ شاید ابھی مزید ایڈونچر کرنا چاہتی تھی اس لئے بولی کہ ابو آپ نہا کر آ جائیں میں بہت تھک گئی ہوں ابھی کچھ دیر سوؤں گی، پھر اٹھ کر نہا لوں گی، میں نے کہا جیسے تمہاری مرضی اور واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ میں نہانے کے دوران بھی جو لمحات بیتے تھے انہیں یا د کر کے گرم ہوتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ کہا مجھے سدرہ کو چود دینا چاہئے یا ابھی نہیں، اسی کشمکش میں میں نہا کر ننگا ہی کمرے میں آیا تو دیکھا کہ سدرہ ابھی جاگ رہی تھی اور کہنے لگی کہ میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں پھر باتیں کرتے ہیں، میں نے کہ اوکے اور وہ واش روم کو چل دی، دس منٹ بعد وہ واپس آئی تو فریش ہو چکی تھی اور آتے ہی میرے ساتھ چپک کر لیٹ گئی اور ایسے ظاہر کرنے لگی جیسے وہ بہت تھک چکی ہے اور سونا چاہتی ہے، میں نے اس اپنے ساتھ پہلو میں لٹا لیا لیکن پھر اچانک چونکتے ہوئے سدرہ کو کہا کہ کیا اس نے مین دروازے کی اندر سے کنڈی لگائی ہے یا صرف سنٹر لاک ہی لگایا ہے، اس نے کہا صرف سینٹر لاک ہی لگایا ہے، یہ سن کر میں تیزی سے اٹھا اور کمرے سے باہر جانے لگا، ایک دم سے ٹراؤذر کھینچا اور جا کر مین دروانے کی اندر سے کنڈی لگا دی تا کہ اگر سمیرا آ بھی جائے تو دروازہ نہ کھل سکے اور اسے بیل بجانی پڑے۔ میں اطمینان سے واپس آیا اور سدرہ سے کہا کہ آئیندہ ایسی بے وقوفی نہیں کرنا، اگر میں بھول جاؤں تو تم یاد سے کنڈی لگا آیا کرنا۔اب چونکہ حجاب کے پردے اتر چکے تھے اس لئے سدرہ نے میرے ساتھ چپک کر بغیر جھجھکے میرے لن کو مسلنا شروع کر دیا اور میں نے بھی اس کے نپلز کو مسلنا شروع کر دیا، ٹھیک دو منٹ بعد ہی سدرہ دوبارہ گرم ہو چکی تھی اور میرے ساتھ اپنی پھدی رگڑ رہی تھی۔ مجھے بھی اس کی پھدی کے بالوں کا ہلکا ہلکا اپنی رانوں پر چپھنا بہت مزہ دے رہا تھا، میں نے جب سدرہ کی طرف دیکھاتو اس کی آنکھیں بند تھیں، میں نے سدرہ کو مخاطب کیا اور کہا کہ سدرہ میری بات سنو، جو ہم کرنے جا رہے ہیں اس کے بعد تم لڑکی سے عورت بن جاؤ گی، کیا تمہیں یہ منظور ہے؟ مزید یہ بھی بتایا کہ تمہاری پھدی جب پھٹے گی تو درد بھی ہو گا اور کل کو اگر تمہاری ماں پر یہ راز کھل گیا تو پھر کیا ہو گا۔ سدرہ نے جواب میں جو بات کی وہ بہت ہی حیران کن تھی، اس نے کہ جب میری گانڈ میں آپ نے لن ڈالا تھا اور مجھے چودا تھا ساری حدیں تو تب ہی کراس کر لی تھیں ہم نے، اب محض ایک جگہ رہ گئی جس میں مجھے لطف ملنا ہے تو اس میں ڈالتے وقت آپ کو کیوں ڈر لگ رہا ہے۔ آپ ڈالیں اندر جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔ میں اس کی جرات سے حیران رہ گیا اور اس سے کہا کہ اپنی ٹانگیں کھولو اس نے جب اپنی ٹانگیں کھولیں تو اس کی پھدی کافی گیلی ہو چکی تھی، میں نے اس کو تھوڑا سا رب کیا اور اس کے بعد اس کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے میری زبان اس کی پھدی کی گہرائیوں میں جاتی تھی ویسے ویسے وہ مچلتی جاتی تھی، اس دوران ہی اس نے دو تین تیز تیز جھٹکے لئے اور میں نے بروقت منہ پیچھے کیا، وہ فارغ ہو چکی تھی، میں نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا کیا مزید مزہ چاہئے یا آج کے لئے اتنا کافی ہے، اس نے میرے سرکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مجھے اپنے اوپر کھینچا اور فرنچ کس کرنا شروع کر دی، اسے فرنچ کس صحیح کرنا نہیں آتی تھی لیکن میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنی زبان دبائی تو اس نے منہ کھول دیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کی زبانوں کو چوسنے لگے۔ چند منٹ بعد ہی اس نے اپنی پھدی کو میرے لن سے رگڑنا شروع کر دیا، میں نے اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا ایک منٹ رکو، میں نے لبریکنٹ اپنے لن پر لگایا اور احیتیاطاََ اس کی پھدی میں اندر تک لگایا، جیسے ہی میری انگلی نے اس کی پھدی کے پردہ بکارت کو چھوا اس کے منہ سے کراہ نکلی، میں نے کہا تھوڑا درد ہو گا لیکن برداشت کرنا ہو گا، اس نے کچھ نہ کہا، میں اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے عین درمیان آ بیٹھا اور آہستگی سے اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑتا رگڑتا اندر دباتا چلا گیا، میں رکا تھوڑی دیر کے لئے، پھر میں نے سدرہ سے کہا کہ اب میں جھٹکا ماروں گا، تم برداشت کرنا، میں نے یہ کہہ کر جوں ہی جھٹکا مارا سدرہ کی آنکھیں ایک دم سے درد کی شدت سے پھیل گئی اور اس نے اپنی چیخ بڑی مشکل سے کنٹرول کی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا لن باہر نکال لیا اور اس کی پھدی سے جو خون نکل رہا تھااس کو صاف کیا۔ جب کچھ منٹ گزر گئے تو میں نے دوبارہ لبریکنٹ لگایا اور اس کو کہا کہ تھوڑی جلن ہو گی لیکن کچھ دیر بعد ختم ہو جائے گی۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور میں نے آہستگی سے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا جو کہ اب آرام سے اندر چلا گیا۔ میں نے ہلکا ہلکا ہلنا شروع کر دیا، کچھ دیر بعد سدرہ بھی میرا ساتھ دینے لگی۔میں نے اسی طرح اس کو چودتے ہوئے اٹھا کر اپنے اوپر بٹھا لیا اور اس نے فلمی انداز میں میرے لن کو اندر باہر لینا شروع کر دیا، شاید اس طرح اسے زیادہ مزہ آ رہا تھا کیونکہ ایسا کرتے ہی اس کی رفتار میں تیزی آتی گئی اور وہ تیز تیز جھٹکے مارتے مارتے فارغ ہو گئی، میں بھی بالکل منزل ہونے والا تھا لیکن جیسے ہی میں فارغ ہونے کے مرحلے پر پہنچا میں نے ایک دم سدرہ کو اوپر سے ہٹا دیا اور اس کو کہا کہ تیز تیز ہاتھ چلاؤ یا منہ میں لے کر چوسو، اس نے ہچکچاتے ہوئے میرے لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا اور میں ایک مرتبہ پھر بہت پریشر سے اس کے منہ میں فارغ ہو گیا،۔ چونکہ سدرہ کو اس کا تجربہ نہیں تھا نہ ہی اس کو ذائقہ کا علم تھا اس لئے کچھ منی تو اس نے نگل لی اور باقی باہر تھوک دی۔ لیکن شاید اس کو منہ میں فارغ کروانا پسند نہیں آیا تھا اس لئے وہ ایک دم بھاگی واش روم کی جانب اور اس نے الٹی کر دی، جب واپس آئی تو مجھے شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے گندہ کام کیا میرے ساتھ۔ خیر ہم خوشگوار موڈ میں گپیں مارتے مارتے سو گئے، صبح بچوں کی اسکول سے چھٹی تھی اس لئے ہم تھی دیر تک سوئے رہے، صبح دس بجے باہر دروازے کی گھنٹی بجی تو ہم چونک کر اٹھے اور میں نے سدرہ کو کہا کہ فٹا فٹ کپڑے پہنو اور اپنے کمرے میں جاؤ، وہ اٹھ کر بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گی اور میں نے جا کر مین گیٹ کھول دیا، ظاہر ایسے کیا جیسے میں ابھی ابھی سو کر اٹھا ہوں، باہر سمیرا کھڑی تھی جس کا کوئی یار اسے دروازے پر ڈراپ کر گیا تھا۔ وہ ایسے چل رہی تھی جیسے تمام رات ایک سے زیادہ بندوں سے چدوا کر آئی ہو۔ وہ آتے ہی بستر پر گر گئی اور مجھے کہا کہ میں ناشتہ کر کے آئی ہوں، ساری رات کی جاگی ہوئی ہوں اس لئے اب سوؤں گی، پلیز مجھے ڈسٹرب نہ کرنا۔ میں زیر لب مسکرایا اور کہا کیوں آج زیادہ انجوائے کر لیا تھا کہ بہت تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ اس نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے کہا کہ میں شادی کی تقریب میں گئی تھی، ، اپنی سہاگ رات پر نہیں گئی تھی کہ ساری رات انجوائے کرتی رہی ہوں، میں نے اس پر ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ سہاگ رات ایک مرتبہ ہوتی ہے، بار بار تو رنڈیاں چدواتی ہیں، میری اس بات پر اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر چلے گئے۔ اس نے شک بھری نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن پھر ایک دم قاتلانہ مسکراہٹ میں اس کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہنے لگی لگتا ہے میرے شوہر صاحب بہت دن سے پیاسے ہیں، آؤ آج میں پیاس بجھا ہی دیتی ہوں ، میں نے کہا نہیں مجھے کوئی پیاس نہیں ہے، ویسے بھی میں پہلے سے تھکی ہوئی عورت اورتھکی ہوئی گھوڑی پر سواری نہیں کرتا
    ،تم آرام کر لو پھر دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر آ گیا۔ جب رات کو سدرہ سو گئی تھی تو میں نے کمرے میں ساری گڑ بڑ ٹھیک کر دی تھی، بیڈ شیٹ پر جہاں خون کا نشان لگا تھا وہ نشان دھو دیا تھا، جہاں جہاں ٹشو پیپرز گرے تھے وہ بھی کموڈ میں فلش کر دئیے تھے اس لئے میں بڑے اطمینان سے سویا تھا جب کہ سدرہ کی آنکھوں میں پریشانی ضرور تھی اور یہی وجہ تھی کہ جب میں سمیرا کو کمرے میں دھکیل کر سدرہ کی جانب گیا تو وہ جاگ رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہی فکرمندی سے کہنے لگی کی ابو کمرے میں تو بہت کچھ گڑ بڑ تھی اگر امی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا، میں نے اس کی گانڈ کی لکیر میں انگلی پھیرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں ہو گا، میں نے رات کو تمہارے سونے کے بعد سب کچھ یس کر دیا تھا، اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو گی اس لئے اب اٹھو اور چائے بناو اور بے فکر ہو جاؤ، بالکل بھی اپنے چہرے سے کسی غیر متوقع بات کا اظہار یا ردعمل نیہں دینا۔ اگر موقع ملا تو دوبارہ ایسے ہی مزہ لیں گے۔ اس بات پر اس نے شرما کر نظریں جھکا لیں لیکن منہ سے کچھ بولے بنا ہی میرے قریب ہو کر میرے گال پر ایک کس کر دی، میں نے شرارتا اپنے ہونٹ سامنے کئے تو اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کہ کوئی دیکھ لے گا، آپ جائیں یہاں سے۔ اور میں وہاں سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آگیا،،،،
    میں ایک عجیب سے کیفیت سے دوچار ہو چکا تھا، اور جب میں گزری رات کے واقعات اور ان کے نتیجے کے بارے میں سوچتا تھا تو ایک جانب ضمیر کی ملامت گھیر لیتی تھی تو دوسری جانب شیطان یہ کہتا تھا کہ کوئی بات نہیں، آگ اور پانی کا کبھی میل نہیں ہوتا اور جب کبھی ہوتا ہے بجھتی آگ ہی ہے۔ میں یہی کچھ سوچتا سوچتا سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہا اور رات کو جب گھر میں داخل ہوا تو پہلی خبر میری منتظر تھی کہ امی کو اچانک کسی سہیلی کا فون آیا تھا اور اس نے اپنی گاڑی بھیجی تھی، امی وہاں پر گئی ہیں اوررات کو دیر سے آئیں گی، میں نے دل میں خوش ہوتے ہوئے دروازے کو اندر سے لاک کیا اور سسدرہ کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بھی ایک خوشی اور شرارت تھی۔ میں کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چل دیا اور سدرہ کو اشارتاََ کہہ دیا کہ میں آج جلدی سو جاؤں گا۔ وہ ٹھیک رات گیارہ بجے چھوٹے بہن بھائیوں کو سلا کر میرے کمرے میں آ گئی۔ آتے ہی اس نے مجھے بتایا کہ اس نے آج سارا دن نیٹ پر پورن فلمز دیکھی ہیں اور پراسٹیٹ مساج کی ٹیکنیکس بھی پتہ چلا لی ہیں۔ یہ میرے لئے پیغآم تھا کہ وہ آج پھر میرے ساتھ اینل کرنا چاہتی ہے ، شاید اسے اس میں مزہ آیا تھا، میں نے بھی اس کو منع نہیں کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں کہ کیا سیکھا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ چلیں آپ الٹے لیٹ جائیں اور اپنے کپڑے اتار دیں، میں نے کہا کہ میں پہلے انیما لے لوں، یہ کہہ کر میں واش روم میں گیا اور انیما لے کر واپس آ گیا، اچانک مجھے یاد آیا کہ میں انگلینڈ سے سٹریپ آن لے کر آیا ہوں، میں نے سدرہ سے پوچھا کیا تم نے سڑیپ آن سیکس بھی دیکھا ہے، اس نے کہا ہاں دیکھا تو ہے پر وہ سب کچھ آئے گا کہاں سے۔ میں نے کہا یہ کونسی بڑی بات ہے، یہ لو،سٹریپ آن کا لن دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی گئی اور اس تصور سے ہی وہ گرم ہو گئی کہ وہ اس سے اپنے باپ کو چودے گی، میں نے اس کو سٹریپ آن پہنایا اور خود کوڈا ہوگیا، اس نے میرے پیچھے سے آ کر سٹریب آن لن پر لبریکنٹ لگایا اور ایک ہی جھٹکے سے میری گانڈ میں گھسا دیا۔ مجھے شدید درد کا احساس ہوا لیکن اسے شاید مزہ آ رہا تھا، اس نے اپنا کام جاری رکھا اور تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی گانڈ کی پوزیشن ایسی کی کہ رگڑ میرے جی سپاٹ پر لگنا شروع ہو گئی۔ اس سے مجھے مزہ آنا شروع ہو گیا اور کچھ دیر بعد میں بہت ہی پریشر سے فارغ ہو گیا۔ مجھے فارغ ہوتا دیکھ کر سدرہ نے شرارت سے کہا کہ اب میرا کیا بنے گا۔ میں نے کہا کہ صبر تو کرو، دس منٹ میں دوبارہ تیار ہو جاؤں گا۔ اس نے کہا کہ چلیں دیکھ لیتے ہیں۔ اس میں فارغ ہو کر سائیڈ پر لیٹ گیا جب کہ سدرہ نے سٹریپ آن اتارنے شروع کر دئیے اور کہنے لگی کہ اب آپ کو تو مزہ مل گیا، اب میں اپنی مرضی کا مزہ لوں گی، میں نے کہا لے لو جیسا چاہتی ہو، اس نے کہا کہ میں آپ کے منہ پر بیٹھوں گی، آپ میری پھدی کو چاٹو، مجھے حقیقت میں یہ کام سخت ناپسند اس لئے تھا کہ عورت کا یہ وہ جوڑ ہوتا ہے جس میں سکن کے ڈیڈ سیلز سب سے زیادہ بنتے ہیں، اور عورت کا جسم چونکہ بہت نازک ہوتا ہے اس لے پھدی کے اردگرد کی جگہ بہت جلد کالی ہو جاتی ہے اور اس میں سے بو بھی اٹھتی ہے، خیر ناچار میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن پہلے جاکر اچھی طرح صابن سے اپنی پھدی کو دھو کر آؤ، وہ میری بات سمجھ گئی اور واش روم سے اچھی طرح رگڑ رگڑ کر اپنی پھدی اور ٹانگوں کے جوڑ صاف کر کے اور خشک کر کے میرے سینے پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کو ہاتھوں سے اٹھا کر اپنے منہ پر بٹھایا اور اس کی پھدی کو چاٹنے لگا، میں جیسے جیسے اس کی پھدی کو چاٹتا جا رہا تھا اس کا جوش بڑھتا جا رہا تھا، بمشکل دس منٹ میں ہی وہ فارغ ہو گئی اور اس کی منی میرے سینے پر آ گری۔ میں نے اس کو ٹشو سے صاف کیا اور کہا کہ اب جا کر میرے لن پر بیٹھو، اس نے کہا کہ نہیں آپ میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ کر کریں،میں نے کہا اوکے اور اس کی پھدی میں لن ڈال کر جھٹکے مارنے لگا۔ چونکہ ہم دونوں ہی ایک ایک مرتبہ فارغ ہو چکے تھے اس لئے کافی ٹائم لگ گیا، میں اے سی چلنے کے باوجود پسینے پسینے ہو گیا اور سدرہ کی حالت بھی مجھ سے مختلف نہ تھی، وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی لیکن میں نے عین وقت پر لن باہر نکال لیا اور اس کی گانڈ میں تھوڑا سا لن اندر ڈال کر فارغ ہو گیا۔ سدرہ کو اس کے بعد میں نے یہ کہہ کر بھگا دیا کہ اب جاؤ تمہاری ماں پتہ نہیں کس سے چدوا کر اب آتی ہی ہو گی، اس لئے تم کمرے سے چلی جاؤ، جواباََ اس نے جو کہا میرے لئے کسی دھچکے سے کم نہ تھا، ، سدرہ نے کہا کہ اچھا تو آپ کو پتہ چل گیا کہ تمہاری ماں ایک چدکڑ عورت ہے؟ اس پر اس نے کہا چدوانے سے پہلے مجھے یہ تو پتہ نہیں تھا کہ مرد اور عورت کے درمیان اصل کھیل کیا ہوتا ہے لیکن جب آپ سے چدوا لیا تو پتہ چلا کہ امی جب پارٹیوں میں جاتی تھی اور میں تب چھوٹی ہوتی تھی تو کس طرح مختلف مردوں سے ان کی بے تکلفی تھی اور وہ مرد سب سے نظر بچا کر ان کے ممے دبا دیا کرتے تھے یا ذو معنی باتوں سے ان کو بتایا کرتے تھے کہاں مل کر رات کو امی کو چودنا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ میرے دو کزنز بھی امی کو چود چکے ہیں اور وہ بھی میرے ہی گھر میں، میرے ہی بیڈ روم میں۔ یہ سن کر میں غصے سے پاگل ہو گیا اور سدرہ سے کہا کہ اب تم جاؤ آج تمہاری ماں کا حساب میں سیدھا کر کے ہی سوؤں گا۔ اس پر وہ ڈر گئی اور کہنے لگی کہ ابو کچھ ایسا نہ کرنا کہ پولیس کیس بن جائے اور بدنامی مفت میں ملے، میں نے کہا کہ نہیں میں ایسے یہ کھیل نہیں کھیلوں گا، تم بے فکر ہو کر جاؤ، کوئی دوسرا کان نہیں سنے گا کہ اس کمرے میں کیا باتیں ہوئی ہیں۔ ہم کمرے کو درست کر کے اور کپڑے پہن کر یہ موضوع ڈسکس کر ہی رہے تھے کہ سمیرا کے آنے کی اطلاع گھنٹی نے دے۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سمیرا ہی تھی اور وہ تھکی تھکی گھر میں داخل ہوئی۔ وہ کمرے میں آتے ہی بستر پر گر گئی ۔میں آج اس کا راز فاش کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دئے، وہ سمجھ گئی کہ میرا موڈ آج چودنے کا ہو رہا ہے۔ اس نے مجھے مخاطلب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آج تھکی ہوئی گھوڑی پر سواری کرنے کا ارادہ بن گیا ہے۔ میں نے کہا کہ ارادہ تھکی گھوڑی کی تھکن مزید بڑھانے کا ہے اس لئے اب کیا کیا جائے گھوڑی کو ہی خیال نہیں ہے تو پھر۔ سمیرا نے کہا کہ ایک منٹ میں پہلے واش روم سے نہا کر فریش ہو کر آ جاؤں پھر سیکس کرتے ہیں، میں نے کہا کہ نہیں ابھی جس حال میں ہو اسی میں سیکس کریں گے۔ اس نے کہا یہ کیا بچپنا ہے، میں نے کہا بچپنا ہے یا جو بھی ہے، میں نے اسی حال میں چودنا ہے تمہیں، اسکے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہو چکے تھے کیونکہ اس سے قبل میں نے کبھی اس انداز میں دوٹوک بات نہیں کی تھی۔ اس نے اپنا وجود کو سمیٹتے سمیٹتے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دئیے، جیسے ہی اس کی شلوار اتری میں نے اٹھا کر اس کا بغور جائزہ لیا، آسن کے حصے میں سفید سفید مواد چپکا ہوا تھا جو کچھ خشک ہو چکا تھا اور کچھ گیلا تھا۔ اس کے بعد جب اس نے اپنی قمیض اتاری تو اس میں سے بھی مردانہ سستے پرفیوم کلب 77 کی مہک اٹھ رہی تھی، یہ مہک ٹچ می شیونگ کریم میں بھی ہوتی ہے، جب میں نے اس کا برا دیکھا تو اس کا ایک ہک بھی ٹوٹا ہوا تھا، جب سمیرا نے مجھے ان تمام چیزوں کا جائزہ لیتے دیکھا تو سوالیہ نظروں سے لیکن گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہو مشتاق، میں نے کہا دیکھ رہا ہوں کہ جس نے آج تمہیں چودا ہے کوئی بڑا ہی گھٹیا اور دو کوڑی کا بندہ تھا جس نے کبھی مفت کی پھدی نہیں ماری تھی۔ میری بات سن کر سمیرا آگ بگولا ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگی اور اونچی آواز میں بولی کہ اس بکواس کا کیا مقصد ہے، میں نے کہا ایک منٹ ٹھہرو میں بتاتا ہوں کہ اس بکواس کا کیا مقصد ہے۔ یہ کہہ کر میں نے اٹھ کر اپنے لیپ ٹاپ کو آن کر دیا اور وہی مووی کلپ چلا دیااور آواز بھی کھول دی جو اتنی اونچی تھی کہ تمام مکالمہ سنا جا سکتا تھا۔ اس مووی کو دیکھ کر سمیرا کی تو جیسے روح ہی فنا ہو گئی۔ اس نے ایک دم سے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے کہ مجھے معاف کر دو مشتاق مجھ سے غلطی ہو گئی تھی، میں بہک گئی تھی۔ میں نے کہا غلطی ایک مرتبہ ہوتی ہے، دو مرتبہ ہوتی ہے ، دس مرتبہ ہوتی ہے، تمہیں عادت ہے رنگ رنگ کا لن لینے کی، اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ تم نے میرے کزنز کو بھی نہ چھوڑا اور ان سے بھی چدوا لیا۔میری بات سن کر وہ کابنپنے لگی اور کہنے لگی کہ جو سزا مرضی دے لو لیکن یہ بات کسی کو مت بتانا۔ میں نے کہا سمیرا تمہاری غلطی بہت بڑی ہے اس کی سزا بھی بہت بڑی ہو گی، کیا سزا بھگت لو گی۔ اس نے کہا کہ تم جو بھی کہو گے مجھے منظور ہو گا۔ میں نے کہا کہ ایسے نہیں، تم الف سے ے تک اپنے تمام یاروں کی کہانی مجھے سناؤ کہ کیا کیا کرتی رہی اور کس کس سٹائل میں کرتی رہی ہو۔ میری بات سن کر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور اپنی کہانی بیان کرنا شروع کر دی کہ کیسے اس کو لن کی عادت پڑی اور کس کس طرح اس نے چدوایا۔ میں اس کی باتوں کو لیپ ٹاپ میں ریکارڈ کر رہا تھا، جب اس کی کہانی ختم ہوئی تو میں نے کہا کہ اب تمہارا اعتراف جرم میرے پاس تمہارے خلاف ثبوت ہے۔ اس لئے کچھ بھی کرنے سے قبل یہ سوچ لینا کہ تمہیں تمہارے سارے خاندان کے سامنے ننگا کر کے رکھ دوں گا۔ اس نے کہا میں کسی کو نہیں بتاؤں گی، میں نے کہا میں جب تک یہاں ہوں تمہیں نیہں چودوں گا البتہ تم مجھے میری مرضی سے جب میں چاہوں گا اپنے منہ میں فارغ کروایا کرو گی اور میری منی کا ایک قطرہ بھی اگر تمہارے منہ سے باہر گرا تو میں اسی وقت تمہیں طلاق دے دوں گا، اس نے کہا یہ بھی منظور ہے۔ اس کے بعد جو شرط میں نے رکھی اس کو سن کر وہ بھونچکا رہی گئ اور سر جھکا کر کسی انتہائی گہری سوچ میں ڈوب گئی،،،میرا نے میری شرط کو سن کر کہا کہ کیا تمہارا دماغ درست کام کر رہا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری موجودگی کو جانتے ہوئے تمہارے ان کزنز سے سیکس کروں جن سے میں نے عرصہ ہوا تعلقات ختم کر دئیے ہیں، میں نے کہا کہ یہ میں نہیں جانتا تم بہتر جانتی ہو کہ کس طرح ٹوٹے تعلق کو دوبارہ جوڑا جاتا ہے۔ میری بات سن کر اس نے کہا کہ میں کوشش کر سکتی ہوں لیکن تمہارے کزنز تمہاری موجودگی میں میرے قریب بھی نہیں آئیں گے یہ ممکن نہیں ہے۔ میں نے کہا اس کی تم فکر نہ کرو، میں جس وقت تم ان سے چدوا رہی ہو گی میں قریب ہی ہوں گا اور تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ کس طرح سیکس کرتی ہو اور دوسروں کے ساتھ کیسے۔ اس پر اس نے کہا کہ اس نے الگ الگ تو ان دونوں کزنز سے چدوایا ہوا ہے ایک ساتھ کبھی بھی نہیں ، اس پر میں نے کہا یہ تو ان دونوں کو پتہ ہے کہ نا کہ تم ان سے چدواتی ہو، اس پر اس نے کہا کہ ہاں اس بات سے وہ دونوں آگاہ ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کا راز میرے سامنے کھول دیں، میں نے کہا یہ بھی میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے جو کہہ دیا ہے وہ کرنا ہے ورنہ اپنے نفع نقصان کی مالک تم خود ہو گی، تمہارے پاس صرف تین دن ہیں، ان تین دنوں میں جو بھی کرنا ہے کر لو بعد میں مجھے گلہ نہ کرنا۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گئ اور کہنے لگی کہ کرتی ہوں کچھ لیکن ساتھ ہی کہنے لگی کہ اس کام کے لئے مجھے ان سے ملنا ہو گا اور وہ تمہاری موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔ یا تو میں گھر سے باہر جاؤں گی یا ان کو بلاؤں گی اور گھر میں اس لئے ان کو بلانا چھوڑ دیا تھا کہ سدرہ بڑی ہو تی جا رہی تھی اور میرے بعد ان حرامیوں کی نظر سدرہ پر تھی، میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ سدرہ کی فکر تم چھوڑو اس کے لئے میں ہوں۔ وہ ایک دم چونک گئی اور میرے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن میں نے بڑی مشکل سے بات کو سنبھال لیا۔ اور اسے کہا کہ جو کہا اس پر عمل کرو اور جہاں جانا چاہتی ہو جاؤ لیکن میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے۔ اگلے دن اس نے میرے دونوں کزنز کو میری موجودگی میں فون کا سپیکر آن کر کے فون کیا، دونوں نے خوب ننگی گالیاں دیں اور صآف منع کر دیا، بڑی مشکل سے سمیرا نے ان کو تیار کیا کہ یار اسی لئے تو کہہ رہی ہوں کہ دونوں اکٹھے ہو کر میری آگ ٹھنڈی کرو، مشتاق تو ویسے بھی ٹھنڈا بندہ ہے اور سیدھا سیدھا سیکس کرتا ہے۔ ان دونوں نے جواب یہی دیا کہ ایک دوسرے سے بات کر کے وہ بتائیں گے کہ آیا وہ راضی ہیں یا نہیں۔ اگلے دن ان کی کالز آئیں کہ ٹھیک ہے ہم تیار ہیں لیکن مشتاق کو کسی بہانے گھر سے بھیجو اور زیادہ سے زیادہ وہ تین گھنٹے تک گھر میں رکیں گے۔ میں یہ سب سن رہا تھا اس لئے اشارے سے سمیرا کو کہا کہ حامی بھر لو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے پرسوں تم لوگ دن کو ایک بجے آ جانا اور چار بجے چلے جانا، میں مشتاق کو کہیں بھیج دوں گی۔
    سارا پروگرام طے ہونے کے بعد سمیرا نے کہا کہ اب تم یہ سب کیسے دیکھو گے تو میں نے کہا کہ وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اسی دن شام کو میں نے سمیرا کو کہا کہ بچوں کو ساتھ لے جا کر کھانا کھلا کر لے آئے ساتھ یہ بھی کہا کہ صرف چدوانا ہی تمہاری ذمہ داری نہیں بچے بھی ہیں۔ اس نے ایک مرتبہ بھی انکار نہ کیااور بچوں کو تیار ہونے کا کہہ کر گھر سے چلی گئی، میں نے اسی وقت اپنے ایک جاننے والے کو فون کیا جس سے دن کو بات ہو چکی تھی کہ وہ ایک گھنٹے میں خفیہ کیمرے میرے کمرے میں فٹ کر دے ، اسے کہا کہ جلدی سے آ جائے۔ وہ آدھے گھنٹے میں آ گیا اور ساتھ میں انتہائی طاقتور اور اچھے پکسلز والے تین کیمرے لا کر میری مطلوبہ لوکیشنز پر لگا دئیے۔ نہ اس نے کوئی فالتو سوال کیا نہ میں نے کوئی وضاحت دی، اس کے بیس ہزار بنتے تھے میں نے پچیس ہزار دے کر اسے رخصت کیا، وہ تمام وائی فائی کیمرے تھے جن کو کسی وائر کی ضرورت نیہں پڑتی اور یہ سائز میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ دکھائی بھی نہیں دیتے اور ہوتے بھی نائٹ ویژن ہیں۔ یہ سب باتیں اس نے مجھے بتائیں اور ساتھ ہی کیمروں کا سافٹ وئیر میرے لیپ ٹاپ میں ڈال کر وہ بندہ چلا گیا، میں نے چیک کرنے کے لئے کیا کیمرے ٹھیک کام کر رہے ہیں سافٹ وئیر سے کیمرے آن کر کے دیکھے تو دل خوش ہو گیا کہ یہ کیمرے زوم والے تھے اور میں منظر کو زوم بھی کر سکتا تھا۔ بس ایک مسئلہ تھا کہ کیمرے بٹن سیلز سے چلتے تھے اور ان کا ٹائم صرف آٹھ گھنٹے تھا۔ اس کا حل میں نے یہ سوچا کہ اگلے دن کے لئے مطلوبہ سیلز خریدے اور اپنے پاس رکھ لئے،اور اگلے دن کا بے چینی کا انتظار کرنے لگا۔ رات کو سمیرا نے مجھ سے پوچھا کہ کل تم کس وقت تک جاؤ گے ، میں نے کہا میں بارہ بجے تک نکل جاؤں گا تم اطمینان سے پھدی مروانا لیکن یہ ظاہر مت کرنا مجھے ان کا راز معلوم ہے۔ ساتھ ہی میں نے اسے کہا کہ ایک کام کی تم کوشش کرنا ، اگر وہ مان گئے تو تمہاری سزا میں نہ صرف کمی کر دوں گا بلکہ تمہیں محدود اجازت بھی دے دوں گا۔ وہ کچھ خوش اور کچھ بےچین ہوتے ہوئے بولی کہ وہ کیا، میں نے کہا کہ جب دونوں خوب جوبن پر ہوں تو ان سے کہنا کہ آپس میں سیکس کریں یعنی ایک دوسرے کے للوں کو بھی چوسیں اور ایک دوسرے کی گانڈ بھی ماریں، یہ سن کو سمیرا ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ وہ دونوں تو پہلے سے ہی گانڈو ہیں، میں نے کئی مرتبہ ان کی گانڈ میں بازو ڈالے ہیں، اس کام میں کچھ مشکل نہیں ہو گی اور ہو جائے گا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ تم تو گھر سے جا رہے ہو تو پھر تم یہ سب کیسے دیکھو گے، میں نے کہا بس جتنا کہا ہے اس پر توجہ دو، باقی مجھ پر چھوڑ دو اور اب سو جاؤ، میں ذرا بچوں سے گپ شپ لگا کر آتا ہوں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے اور وہ واش روم میں جا گھسی اور میں سیدھا سدرہ کے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ شارٹس پہن کر سونے کی تیاری کر رہی تھی، میں نے اس کو مختصراََ ساری بات بتائی اور کہا کہ میرا لیپ ٹاپ ٹی وی لاونج میں پڑا ہوا ہے، اس کو اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آو اور سائیڈ پر ایک ڈیسک ٹاپ آئیکن بنا ہے کیمروں کا، جب کل تمہارے انکلز آ جائیں اور امی تمہیں کہے کہ بیٹا جا کر ریسٹ کرو اور سو جاؤ تو تم نےفوراََ لیپ ٹاپ آن کر کے، اس آئیکن پر کلک کر کے کیمرے آن کر لینے ہیں اور ریکارڈ موڈ پر لگا دینے ہیں، دھیان رکھنا کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ سدرہ نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ ابو یہ سب کیا ہے، میں نے کہا کل تمہیں سب خود پتہ چل جائے گا، یہ میرا انتقام ہے جو میں تمہاری ماں سے لے رہا ہوںِ ابھی تو ابتدا ہے، انتہا بھی تمہیں ضرور دکھاؤں گا۔ اس نے کہا اس میں ہو گا کیا جو آپ ریکارڈ کر رہے ہیں، میں نے کہا اس میں تمہاری امی کا اصل روپ ہو گا۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میں کر لوں گی، اس کے بعد میں نے کہا سدرہ اپنی پھدی کا نظارہ تو کرواؤ، اس نے شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی شارٹس کو نیچے کر دیا اور میں نے جھک کر اس پر ہلکا سا بائیٹ کیا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ اگلے دن مقررہ وقت پر سے کچھ پہلے ان دونوں کی کالز ایک ایک کر کے آئیں اور انیہوں نے کنفرم کیا کہ کیا وہ آ سکتے ہیں، سمیرا نے اوکے کا سگنل دیا اور میں نے کہا کہ میں تمہارا اصل روپ دیکھنا چاہتا ہوں، کوئی ڈرامے بازی یا مکاری نہیں چلے گی، اس نے کہا او کے اور میں گھر سے باہر نکل کر پیر سوہاوہ کی جانب ڈرائیو کرنے لگا۔ میرے دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی لیکن بڑی مشکل سے اپنے ہیجان پر قابو پا رہا تھا ، میں نے راستے میں جاتے ہوئے پولی کلینک کے سامنے سے ایک رنڈی کو بک کیا اور ساتھ لے کر منال چلا گیا، وہاں پر جا کر جی بھر کر اسے چودا اور ٹھیک ساڑھے چار بجے ہوٹل سے اس رنڈی کو لے کر واپس نکل پڑا، اسے جی سیون کے پاس ایک سٹاپ پر اتارا اور راستے میں رک کر سمیرا کو کال کی، اس نے کہا کہ کام ہو گیا ہے تم آ جاؤ، میری چھٹی حس مجھے کچھ اور ہی کہہ رہی تھی لیکن میں نے رسک لینے کا فیصلہ کیااورجیسے ہی گھر میں داخل ہوا لاونج میں سدرہ کی نظروں کو اپنا متلاشی پایا، سدرہ نے اشارتاََ مجھے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اسی اثناء میں سمیرا آ گئی اور میں نے کچھ کہے بنا اس کو بیڈ روم میں آنے کا اشارہ کیا، جب میں کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں موجود بو سے اندازہ ہو گیا کہ کھیل اچھی طرح کھیلا گیا ہے لیکن کچھ کہے بنا ہی سمیرا کو کہا کہ اپنی بے غیرتی کا ملبہ تو صاف کر دیتیں، جگہ جگہ ٹشو پیپرز پڑے ہیں، اس نے کہا میں اٹھانے ہی والی تھی کہ تمہارا فون آ گیا، اب بتاؤ خوش ہو، دیکھ لیا تم نے اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں طنزیہ سی مسکراہٹ تھی، میں نے کہا ہاں دیکھ لیا اور خاموشی سے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں، میں بھی چونکہ ریلیکس ہو چکا تھا اس لئے جلدی سو گیا ، جب سو کر اٹھا تو رات کے نو بج رہے تھے، سمیرا نے اس دوران کمرہ صاف کر دیا تھا اور مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میں نے تمہاری شرط پوری کر دی ہے، اب مجھے کچھ آزادی تو دو، ایک ہفتہ ہو گیا ہے اپنی سہلیوں سے ملے ہوئے، ابھی جانے دو رات کو دو بجے تک لوٹ آؤں گی، میں نے کہا کیا کسی اور سے بھی چدوانا ہے جو بے چینی ہو رہی ہے۔ اس نے کہا نہیں بس ایک کام سے جا رہی ہوں۔ میں نے کہا اوکے جاؤ لیکن وقت سے لوٹ آنا۔ اس نے کہا اگر کچھ دیر سویر ہو گئی تو فون کر دوں گی، میں نے سر سے اتارنے والے انداز میں کہا جاؤ بابا جان چھوڑو اب اور اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔ جب واپس آیا تو سدرہ کو اپنے کمرے میں موجود پایا جسی کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں، میں نے آ کر اس کے مموں پر ہاتھ رکھا تو اس نے جھٹکے سے ہٹاتے ہوئے کہا ابو یہ وڈیو بہت خطرناک ہے اسے پہلے دیکھ لیں پھر کچھ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، میں تو دن سے بہت بےچین ہوں یہ وڈیو دیکھ کر، میں نے وڈیو آن کی تو شروع میں وہی رسمی سی باتیں اور ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی، پھر میرے ایک کزن نے کہا سمیرا چلو پھر شروع کر تے ہیں اور یہ کہتے ہی ایک نے بھی اپنے کپڑے اتار دئیے اور دوسرا بھی پورا ننگا ہو گیا سمیرا نے انہیں کہا کہ ایک منٹ ٹھہرو تم لوگ جب تک ایک دوسرے کے لن کو چوسو میں آتی ہوں، یہ کہہ کر وہ باہر گئی اور دس منٹ بعد واپس آئی، اس کے چہرے پر اطمینان تھا اور آتے ہی اس نے کہا کہ پہلے مزہ کرتے ہیں پھر تم دونوں سے مجھے ایک کام لینا ہے۔ انہیوں نے کہا کام پہلے بتاؤ، اس نے کہا نہیں کام بعد میں پہلے یہ والا ضروری کام، یہ کہہ کر سمیرا نے اپنے تمام کپڑے اتار دئیے اور کسی بھوکی شیرنی کی طرح ایک کزن کے لن پر جھپٹی اور اس کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا، دوسرا کزن سمیرا کی پھدی کو چاٹ رہا تھا، تھوڑی ہی دیر میں تینوں تیار ہو گئے اور ایک کزن نے سمیرا کو بیڈ پر گراتے ہوئے اس کی ٹانگیں کھولیں اور اپنا لن پوری طاقت سے انڈر ڈالا، سمیرا نے کہا کہ دوسرا بے چارہ فارغ کھڑا ہے اسے کہوں کہ پیچھے سے تمہاری گانڈ میں اپنا لن ڈالے، وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ مرد کو کچھ بھی کہو وہ مانتا ہے، اس نے کہا ہاں ہاں ڈال لے کون سا پھٹ جائے گی، میں بھی اپنی باری پر ڈال لوں گا، اتنی بات سنتے ہیں دوسرے کزن نے اپنا لن سیدھا کیا اور اس کے پیچھے آ کر اس اس کی گانڈ پر تیل لگا کر اپنا لن اس میں گھسانے لگا، اب کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ سینڈوچ پوزیشن میں سیکس ہو رہا تھا اور تینوں مزے لے رہے تھے، اچانک سمیرا نے کہا نہیں یار ایسے مزہ نہیں آ رہا ، جو کزن سمیرا کو چود رہا تھا اس کا لن ڈھیلا ہو رہا تھا اور جو لوگ اینل سیکس کو جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ ایسا ہو جاتا ہے جب کوئی آپ کو چود رہا ہو تو آپ کا لن ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ سمیرا نے دوسرے کزن کو مخاطب کرتے ہوئے کہ اور گانڈو باہر نکالو اپنا لن اور میں اس کے اوپر بیٹھ کر چدواتی ہوں تم پیچھے سے میری گانڈ میں لن ڈاالو، اس نے کہا ٹھیک ہے، اور پھر پہلا کزن نیچے لیٹ گیا ، سمیرا اس کے اوپر بیٹھ کر اس کا لن اپنے اندر لے کر ہلنے لگی جبکہ دوسرے کزن نے پیچھے سمیرا کی گانڈ مارنی شروع کر دی، یہ سٹائل شاید سمیرا کاپسندیدہ سٹائل تھا کیونکہ اس کے تاثرات سے ایسا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر ایسے ہی وہ چدواتی رہی اور پھر کچھ وقفے سے تینوں ہی فارغ ہو گئے۔ سمیرا نے ساری منی اپنے جسم پر لی کچھ گانڈ پر اور کچھ اپنے مموں پر۔ جب وہ تینوں ایک سیشن مکمل کر چکے تو سمیرا نے کہا کہ یار کچھ نیا کرتے ہیں، ایسا کرو کہ تم ایک دوسرے کا لن چوسو، انہوں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ایسا ہی کیا جب کہ اس دوران سمیرا ان دونوں کی گانڈوں میں انگلی کرتی رہی۔ دونوں گانڈ مروانے میں ٹرینڈ لگتے تھے اس لئے مزے لیتے رہے پھر سمیرا نہ کہا کہ اب ایک دوسرے کو چودو لیکن مشنری سٹائل میں یعنی ٹانگیں کندھے پر رکھ کر تا کہ چدنے والا کا لن میں چوس سکوں، اس پر ان کا جوش بڑھ گیا اور ایک کزن نے دوسرے والے کی ٹانگیں اٹھار کر اپنے کندھے پر رکھی اور گانڈ میں لن ڈال کر جھٹکے مارنے لگا، سمیرا اس دوران چدنے والے منہ پر بیٹھ کر اپنی پھدی چٹواتی رہی اور ساتھ میں اس کا لن بھی چوستی رہی، ،پھر اسی طرح دوسرے نے اپنی باری لی، سب سے آخر میں سمیرا ایک سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گئی اور ان دونوں کو کہا کہ ایک مرتبہ ایک دوسرے کو چودو میں صرف دیکھوں گی تم کیسے لگتے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو گھوڑی بنا کر کچھ دیر ہی چودا اور ایک دوسرے کی گانڈ میں ہی فارغ ہو گئے، اس کے بعد تینوں نے اکٹھے شاور لیا اور اس دوران بھی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے۔ اس دھماکے دار چدائی سیشن کے بعد سمیرا ننگی جب کہ انہوں نے کپڑے پہن لئے تھے ان کو للوں سے پکڑتے ہوئے بولی کہ اب تم لوگوں نے میرا ایک کام کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ کیا تو اس نے ان کو صوفے پر بٹھایا اور اپنی ٹانگیں کھولتے ہوئے انتہائی سیکسی انداز میں بولی کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں ساری عمر یہ پھدی اور یہ مزہ ملتا رہے تو تمہیں مشتاق کو میرے راستے سے ہٹانا ہوگا ، یہ سن کر وہ سکتے میں آگئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو، جو بھی ہے وہ ہمارا کزن ہے اور تمہاری اور اپنی بے غیرتی کے سزا اس کو کیوں دیں، اس پر سمیرا نے ان سے کہا کہ مشتاق کو پتہ چل گیا کہ میں تم دونوں سے چدواتی ہوں اور وہ بہت غصے میں بھی ہے، آج میں نے بڑی مشکل سے اسے گھر سے بھیجا ہے، باہر اس لئے نہیں آ سکی کہ وہ گھر سے باہر جانے نہیں دیتا، شک کرتا ہے۔ اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا اور میرا راذ ہمیشہ راز رہے تو یہ کام تمیہں کرنا ہو گا چاہے کسی اور سے کروا لو، اگر لاکھ دو لاکھ لگتے ہیں تو وہ بھی میں دے دوں گی لیکن مشتاق کو اب مرنا ہو گا۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ چلو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں اس پہلو پر ابھی تو ہمیں جانے دو، اس نے کہا ٹھیک ہے چلے جاؤ لیکن یہ کام کرنا ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا اچھا بابا کچھ کرتے ہیں نا، ابھی تو جان چھوڑو، یہ کہہ کر سمیرا نے کہا ایک منٹ میں کپڑے پہن لوں، ، کپڑے پہن کر سمیرا نے باہر کاریڈور میں جھانکا اور خاموشی پا کر انہیں اشارہ کیا کہ وہ اب جا سکتے ہیں، جیسے ہی وہ گھر سے نکلے سمیرا تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے فون سے کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگی، فون ملتے ہیں سمیرا نے کسی افضل کا نام لیا اور پوچھا ہاں بتاؤ کہاں ہے وہ مادر چود مشتاق، اس نے آگے سے کیا کہا یہ میں نے سن پایا لیکن اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سے پتہ چل گیا کہ اس نے کل رات جو گھر سے باہر جانے کی اجازت مانگی تھی تو تمام بندوبست کر کے آئی تھی، اس نے اس افضل نام کے بندے کو میرے پیچھے لگا دیا تھا کہ گھر سے نکلتے وقت وہ دیکھے کہ میں کہاں جاتا ہوں یا گھر کے ہی آس پاس رہتا ہوں، یقینی طور پر اس نے میرا پیچھا کیا ہو گا اور میری ساری واردات اسے بتا دی ہے کہ مشتاق تو پیر سوہاوہ ایک ہوٹل میں بیٹھا داد ِعیش دے رہا ہے، اسی لئے سمیرا نے بڑے اطمینان سے دل کھول کر سیکس کروایا اور جو میری خواہش تھی اس کے مطابق بھی ان سے اس لئے سیکس کروایا تا کہ وہ ایک دوسرے کے آگے کانے ہو جائیں، اس نے ایک تیر سے دوشکار کھیلنے کی کوشش کی تھی۔ خیراس بات سے مجھے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جب ان دونوں کزنز کو ننگا کروا کر سمیرا کمرے سے باہر گئی تھی تو یقینی طور پر اس نے تب بھی افضل کو ہی فون کیا ہو گا کہ وہ کنفرم کرے کہ میں یہیں پر ہوں کہ چلا گیا ہوں۔ میں سمیرا کی ذہانت کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا لیکن اپنی بروقت تدبیر پر بہت خوش ہوا کہ وقت سے قبل مجھے ان کی سازش کا پتہ چل گیا، بس اب مجھے ایک مرتبہ اور ان تینوں سازشیوں کو اکٹھا کرنا تھا لیکن ہوشیاری کے ساتھ۔ رات کو جب ہم لیٹے تو سمیرا نے کہا کہو کیسا لگے مجھے چدتے دیکھ کر ، اس کا گہرا طنز میں سہہ گیا اور کہا کہ کچھ خاص مزہ نہیں آیا، انہیں کل دوبارہ بلاؤ، اس نے کہا کل نہیں پرسوں کا رکھ لو، میں نے کہا اوکے۔ اور وہ مطیمین ہوکر سو گئی۔ اگلے دن وہ کسی سے ملنے کا کہہ کر چلی گئی اور میں نے سدرہ کو بلا لیا، میں نے سدرہ کو کہا کیوں بیٹا کیون پریشان ہو تو کہنے لگی کہ امی آپ کو قتل کروانا چاہتی ہے اور آپ اتنے مطمئین ہیں، میں نے کہ تم اس کی فکر چھوڑو بس دیکھتی جاؤ کہ ہوتا کیا ہے۔ میں نے سدرہ کو ننگا کر کے اس کی پھدی کو خوب چاٹا ، اتنا چاٹا کہ وہ بے حال ہو گئی اور فوراََ ہی اس نے میرا لن کو اپنے منہ سے گیلا کیا اور میرے لن کی سواری کرنے لگی، یہ اس کا فیورٹ سٹائل تھا چدوانے کا، ایک سیکس سیشن کے بعد اس نے کہا کہ ابو اب میں جاؤں گی تو میں نے کہ ابھی گانڈ بھی مارنی ہے، اس نے کہا اس میں مزہ نہیں آتا تو میں نے کہا مجھے تو آتا ہے، سٹریپ آن کرو گی، اس نے کہا آپ کو کروانا ہے تو کر دیتی ہوں، میں واش روم سے تیار ہو کر آیا اور کوڈا ہو گیا، اس نے سٹریپ آن باندھے اور میری گانڈ میں ڈلڈو گھسا دیا، میں گرم تو پہلے سے ہی تھا، اس نے جیسے ہی چار پانچ صحیح جگہ پر رکھ کر جھٹکے مارے تو میں فارغ ہو گیا اور وہیں پر ننگا لیٹ گیا، سدرنے ٹشو سے میری منی صاف کی اور ٹشو ساتھ لے کر کموڈ میں جا کر فلش کر دئیے، میں اس کے کچھ دیر بعد اٹھ کر فریش ہوا اور دوبارہ سددرہ کو بلا کر کہا کہ کل وہ دونوں حرامی پھر آئیں گے اس لئے اسی طرح کیمرے سے مووی سیو کرنی ہے۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اٹھ کر چلی گی۔ اگلے دن اسی طرح سمیرا نے منصوبہ بندی سے میرے پیچھے بندہ لگا دیا اور چونکہ میں جانتا تھا کہ کوئی میرے پیچھے ہے اس لئے میں نے اس کو نظر میں رکھ لیا اور اس کی گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا، جب میں مقررہ وقت پر واپس گھر آیا تو سدرہ کی چہرہ اور بھی دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ میں نے اس وقت بات کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن کوئی بات تھی ایسی جو سدرہ کو بے چین کر رہی تھی، سدرہ نے کہا کہ ابو مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں اردو بازار سے، آپ مجھے ساتھ لے جائیں گے؟ میں نے کہا یار ادھر تو بہت رش ہوتا ہے پنڈی میں تو کہنے لگی کہ ہم ٹیکسی پر چلے جاتے ہیں اپنی گاڑی پر نہیں جاتے، میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن جائیں گے گاڑی میں ہی، بازار سے پہلے ہی گاڑی پارک کر دیں، اس نے کہا او کے اور کہنے لگی کہ بس پانچ منٹ دیں میں ریڈی ہو کر آتی ہوں، سمیرا کا چہرہ بالکل پر اطمینان تھا اس لئے میں سمجھ گیا کہ اس کو جواب ہاں میں ملا ہے۔ میں نے اس سے کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا اور سدرہ کو لے کر گھر سے نکل آیا ۔جیسے ہی ہم گھر سے باہر نکلے سدرہ نے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ یہ میری ماں نہیں ہے بالکہ ڈائن ہے۔ میں نے کہا ہوا کیا، کہنے لگی کہ وہ انکلز یعنی میرے کزنز کہہ رہے تھے کہ ٹھیک ہے ہم مشتاق کو ٹھکانے لگوا دیں گے، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا لیکن ان کی ایک شرط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ وہ مجھے چودنا چاہتے ہیں وہ بھی دونوں اکٹھے ساتھ مل کر۔ میں نے جب یہ سنا تو غصے سے میرا دماغ خراب ہو گیا خیر میں نے کہا اس پر تمہاری ماں نے کیا جواب دیا؟ اس نے کہا کہ امی نے کہا ٹھیک ہے اس کا انتظام ہو جائے گا۔ لیکن ان سے یہ بھی کہا کہ اس کام کے لئے اسے کم از کم ایک مہینہ درکار ہو گا میرا دماغ بنانے میں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، تم ایسا کرو جیسے تمہاری ماں کہتی ہے ویسا کرتی جاؤ، جب وقت آئے گا تو میں تمہیں بلاؤں گا اور تمہاری ماں کے سامنے تمہیں چودوں گا۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کیا مقصد ہے آپ کا، میں نے کہا اگر وہ ماں ہو کر تمہیں اپنے مقصد کے لئے اتنے غلط انداز میں استعمال کر سکتی ہے تو میں تمہارا سگا باپ ہو کر تمہارے ساتھ وہ کام کیوں نہ کروں جس سے نہ تو تمہیں کو خطرہ ہے نہ کو پریشانی ،بلکہ راز کا راز رہے گا اور ساتھ جب جب میں تمہاری ماں کے سامنے تمہیں چودوں گا وہ پل پل مرے گی اور اس کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ اس سب کی وجہ وہ خود ہے۔ جونہی بات سدرہ کی سمجھ میں آئی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے اثبات میں سر ہلا دیا، ہم دونوں بلاوجہ ہی پنڈی نکل آئے اور بجائے اردو بازار کے باڑے سے ہو کر آ گئے۔ جب میں نے وڈیو دیکھی تو اس میں وہی کچھ تھا بس اس مرتبہ بھی سمیرا نے ان سے ایک دوسرے کی گانڈیں مروائیں تھیں اور اپنی پھدی مروائی تھی لیکن بات جو سدرہ نے کہی تھی وہی اس کی زبانی میں نے خود سن لی تھی اس لئے میں چوکنا ہو گیا اور جو گاڑی والا میرا پیچھا کر رہا تھا اس کی گاڑی کا نمبر اپنے ایک جاننے والے پولیس افسر کو دیا کہ اس کی ساری ڈیٹیل نکلوا کر پا س رکھ لو، اگر کبھی ضرورت ہوئی تو اس بندے کو اٹھانا پڑ سکتا ہے، اس نے کچھ جرح کی لیکن میں نے کہا اگر ضرورت پڑی تو سب کچھ بتا دوں گا۔ اس رات بھی سمیرا نے اسی طنزیہ انداز میں کہا کہ آج کی چدائی کیسی لگی، میں نے کہا ہاں آج دیکھ کر بہت مزہ آیا، اس پر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پیٹھ پھیر کر سو گئی ، اگلی صبح ناشتے کی میز پر سمیرا نے سدرہ کو کہا کہ یہ کیا تم ہر وقت جھولے پہنے رکھتی ہو، نہ پتہ چلتا ہے کہ لڑکی ہو نا پتہ چلتا ہے کہ لڑکا ہو، کچھ لیڈیز والے کپڑے پہنا کرو، اس نے کہا امی میرے پاس سارے ہیں ہی ایسے۔ اس پر سمیرا نے کہا کچھ پیسے دیں سمیرا کو ڈریسز لے کر دینے ہیں، میں ساری بات سمجھ گیا کہ یہ اب اپنے مشن پر لگ گئی ہے کہ سدرہ کو سیکسی کپڑے پہنا کر اس کے اندر کے سیکس کو ابھارا جائے ا ن دونوں سے چدوانے کے لئے تیار کیا جائے۔ میں نے کہا او کے لے لینا اور جا کر اپنے ویلٹ سے بیس ہزار نکال کر دے دئیے، شام کو سددرہ کو لے کر سمیرا جناح سپر گئی اور وہاں سے جینزاور سلیو لیس شرٹس ، بریزرزاور پینٹی وغیرہ لے کر دیں اور کہا کہ پہن کر میرے سامنے آئے، میں نے بھی جب اسے دیکھا تو ایک مرتبہ دل چاہا کہ یہیں پر لٹا کر اسے چود دوں لیکن ابھی کچھ مراحل باقی تھے، اس لئے آنے وقت کا سوچ کر میں زیر لب مسکرانے لگا جب کہ سدرہ نے بھی میری محسوسات کو بھانپ کر میری طرف شرارتی نظروں سےدیکھا اور ہم دونوں ہی نے نظریں جھکا لیں وہ رات اس حوالے سے کچھ مختلف تھی کہ سمیرا نے خود سے میرے قریب ہو کر میرا لن چوسنا شروع کر دیا اور میری بتائی ہوئی یا لگائی ہوئی شرط کے مطابق اس نے مجھے اپنے منہ میں ہی فارغ کروا دیا، میں ایک مشینی انداز میں یہ سب ہوتا دیکھتا رہا اور کسی خاص گرمجوشی کا احساس سمیرا کو ہونے نہ دیا لیکن اتنا میں سمجھ چکا تھا کہ یہ بے خودی بے سبب نہیں ہے، لازماََ سمیرا کو اپنے یاروں سے چدوانے کی خارش ہو رہی ہے اس لئے وہ مجھے خوش کر کے اپنے لئے رعائیت کی طلبگار ہو گی، میں اس لمحے کا منتظر تھا جب وہ مجھ سے یہ بات کہے گی، اور پھر جب میں فارغ ہو کر ریلیکس ہو چکا تو سمیرا نے کہا کہ اپنا وعدہ تو یاد ہے نا، میں نے انجان بنتے ہوئے کہا کونسا وعدہ تو کہنے لگی کہ تم مجھے باہر جانے کی اجازت دو گے، میں نے جان کر اسے چڑانے والے انداز میں الٹا سوال داغ دیا کہ کیا اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ نیہں ہے کہ تم چدوانے کے لئے باہر جانا چاہتی ہو، اس نے میری بات سن کر سر جھکا لیا لیکن کچھ دیر بعد کہنے لگی کہ دیکھو مشتاق ہمارے درمیان جو شرم کا پردہ تھا وہ ہٹ چکا ہے، تم نے سارا راز جان لیا ہے، تمہارے کہنے پر میں دو دو مردوں سے اکٹھی چدی ہوں، میں نے یہ سب اس لئے منظور کیا کہ تم کسی طرح سے میرے اپنے رشتے کی اس حقیقت کو تسلیم کر لولیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسا ہونا ممکن نیہں ہے، میں جب بھی کہیں باہر جاؤں گی لازماََ تمہارے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ میں کسی سے چدوانے جا رہی ہوں، اس مسئلے کا حل کیا ہے تمہارے ذہن میں، میں نے جواباََ کہا کہ سمیرا اول تو مجھے جب یہ سب معلوم ہوا اسی وقت تمہیں لات مار کر نکال دینا چاہئے تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تمہارے بطن سے میری بیٹیاں بھی ہیں جن کے رشتے ناطے ہوتے وقت بہت مشکل درپیش ہوتی کہ لوگ برملا یہ بات کرتے کہ اگر ان کی ماں ایسی ہے تو اس کی بیٹیاں کیسی ہوں گی، بس یہ ایک وجہ ہے جس نے مجھے اب تک روکے رکھا ورنہ جتنا باخبر میں ہوں تمہارے سارے منصوبوں سے اتنا تم خود بھی نہیں ہو، میری بات اس کے لئے کسی ایٹم بم سے کم نیہں تھی، اس کی آنکھوں میں کئی رنگ آ کر چلے گئے لیکن اس نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے اپنی کیفیت پر قابو پا لیا اور کہنے لگی ایسے کون سے منصوبے ہیں میرے جن کا تم کو پتہ ہے؟ اس نے اندھیرے میں تیر چلانے کی کوشش کی تھی جبکہ میں تمام حالات کو روشنی میں دیکھ چکا تھا اس لئے میں نے کہا کہ میں بچہ نہیں ہوں، میرے بھی اندازے ہو سکتے ہیں اور میرا ایک اندازہ یہ ہے کہ تم یہ کبھی نہیں چاہ سکتیں کہ میری مطلقہ بن کر زندگی گزارو، البتہ یہ تمہارے لئے بہت مفید ہو گا کہ تم میری بیوہ کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آؤ اور یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تمہاری جگہ کوئی بھی عورت ہوتی اس کی سوچ یہی ہوتی، میں نے مزید کہا کہ میں نے دنیا دیکھی ہے، یورپ میں رہتا ہوں، وہاں پر اس طرح کی منصوبہ بندیاں اکثر خواتین کرتی رہتی ہیں لیکن وہاں کے مرد اس کا توڑ کرنا جانتے ہیں اس لئے میں بھی محتاط ہوں۔ میں تمہیں پیسے دے سکتا ہوں، تمہاری چدائیاں بھی برداشت کر سکتا ہوں لیکن اگر تمہارے ذہن میں کوئی ایسا خناس سما گیا ہے تو اس کو برداشت نہیں کر سکتا، تمہیں اپنا اعتماد بحال کرنا ہو گا اور اس کے لئے جو کرنا ہے تم نے کرنا ہے، میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میری بات سے جہاں اس کے چہرے پر تشویش کی لہر دوڑی وہیں پر اس کے چہرے پر یہ طمانیت بھی نظر آئی کہ یہ محض میرا اندازہ ہے یا شک ہے، مجھے اصل بات کا پتہ نہیں ہے۔ ہم لوگ باتیں کر رہے تھے جو کہ خاصے روکھے پھیکے انداز میں ہو رہی تھیں کہ اچانک میں نے سمیرا کو کہا کہ سدرہ کے لئے کوئی رشتہ وغیرہ دیکھتے ہیں تا کہ وہ وقت سے اپنے گھر والی ہو جائے، ابھی صرف منگنی وغیرہ کر دیتے ہیں شادی اس کی گریجویشن کے بعد کر دیں گے، اس کے بعد اگر اس نے یونیورسٹی جوائین کرنی ہوئی تو اس کا انتظام میں انگلینڈ میں کروا دوں گا تا کہ وہ وہاں پر سیٹل ہو کر اپنے شوہر کو بھی ساتھ بلا لے۔ میری بات سن کر سمیرا نے کہا کہ ابھی کہاں ابھی تو وہ بچی ہے، میں نے اس پر کہا کہ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں کہ وہ ابھی "بچی" ہوئی ہے، تم سے کچھ بعید نہیں کہ اس کو بھی اپنی راہ پر لگا دو ۔ یہ بات سن کر اس نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا لیکن اس کے دل میں کچھ تو ایسا آیا تھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی شیطانی چمک میں نے واضح محسوس کر لی۔ اس نے کہا بے فکر رہو میں نے جو کچھ بھی کیا وہ شادی سے بعد کیااور اس کو ابھی کیا معلوم کہ شادی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
    میں نے کہا کہ آج کل کی نسل اتنی بے خبر نہیں جتنا خیال کیا جاتا ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو لن پھدی کا کھیل کھیلنا آتا ہے، اس پر اس نے کہا تم کو اچانک سدرہ اتنی جوان کیوں لگنے لگی، میں نے کہا جس طرح کے کپڑے تم نے اسے پہنائے ہیں اس سے مجھے پتہ چل گیا ہے کہ اب وہ مرد کے قابل ہو گئی ہے، میری اس بات پر اس نے قہقہہ لگایا اور بولی کہ تم بھی تو مرد ہو نا اس لئے اس کے وجود کو دیکھے بنا باز نہیں آئے، میں نے کہا کہ رشتہ کوئی بھی ہو، عورت تو عورت ہوتی ہے، مرد کی نگاہ کی درسترس سے کوئی رشتہ اس معاملے میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس بات پر اس نے ایک عجیب بات کر دی، کہنے لگی کہ میں نے نیٹ پر دیکھا تھا کہ یورپ وغیرہ میں لوگ اپنی بیٹیوں سے ناجائز تعلقات قائم کر لیتے ہیں بلکہ ناروے میں ایک باپ کے اپنی سگی بیٹے سے چار بچے بھی پیدا ہو گئے تھے، میں نے کہا ہاں ایسا وہاں پر ہوتا رہتا ہے لیکن زیادہ کامن نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ فرض کرو اگر تمہارے اور سدرہ کے بیچ ایسا کوئی رشتہ قائم ہو جائے تو تم کیا کرو گے، میں نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا بے ہودہ سوال ہے، اس نے کہا میں نے کہا کہ فرض کرو، یہ نیہں کہا کہ ابھی اٹھ کر جاؤ اور اس کی پھدی میں اپنا لن ڈال دو، میں اس انداز ِ گفتگو سے تھوڑا جز بز تو ہوا لیکن کہ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے، جب لن کھڑا ہو اور سامنے ننگی اس کی بیٹی، بہن یا ماں ہی کیوں نہ کھڑی ہو، اس کے لئے اس کی حیثیت صرف ایک پھدی کی رہ جاتی ہے جس میں اس لن کو جانا ہوتا ہے، باقی باتیں بعد کی ہوتی ہیں کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے۔ میری بات سن کر اس کو کچھ اطمینان ملا اور اس نے بات یہں پرادھوری چھوڑ دی اور کہنے لگی کہ مجھے کل صرف دو گھنٹے کی اجازت دے دو، میں نے کہ سچ بتا کر جاؤ کہ کرنا کیا ہے، اس نے کہا سچ بتایا تو تم جانے نہیں دو گے، میں نے کہا تم بتا دو میں جانے دوں گا۔ اس نے کہا کہ ایک یار سے چدوانا ہے کہ تم تو اب چودو گے نہیں، اس لئے مجھے پلیز جانے کی اجازت دے دو ، میں صرف دو گھنٹے میں واپس آ جاؤں گی، میں نے کہا صبح سوچ کر جواب دوں گا۔ میرے جواب سے وہ حیران کم پریشان زیادہ ہو گئی اور تھینک یو کہہ کر سو گئی۔ اگلے دن جب میں سو کر اٹھا تو سمیرا کو سدرہ سے باتیں کرتے پایا، دونوں ماں بیٹی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی سر جوڑے آپس میں باتیں کر رہی تھیں، میں محتاط ہو گیا کہ ایسا نہ ہو یہ سدرہ کو اپنی باتوں کے جال میں جکڑ لے اس لئے میں نے جاتے ہی کہا کیا بات ہے آج بہت پیار محبت کا مظاہرہ ہو رہا ہے ماں بیٹی کے بیچ، اس پر سمیرا نے کہا میں تو ہمیشہ ہی پیار کرتی ہوں بس آج کی لڑکیاں ہی پکڑائی نہیں دیتیں، ہر وقت فیس بک پر اپنے دوستوں سے چیٹ کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ میں نے ناشتہ مانگا تو سدرہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مجھے کہا کہ ابو آج امی نے شام کو کہیں جانا ہے، میں نے کہا ہاں کہہ تو رہی تھی، کہنے لگی کہ انہیں جانے دینا ضروری بات کرنی ہے، میں نے کہا اوکے، ہم دونوں دھیمی آواز میں ابھی بات کر ہی رہے تھے کی سمیرا نے ہمیں سر جوڑے دیکھ لیا اور گہری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کمینی سی ہنسی ہنس دی۔ خیر ناشتے کے بعد میں اپنے کمرے میں آ گیا اور ایک پراپرٹی کے کاغذات کو درست کرنے لگا جس کا سودا کرنے کا میرا موڈ بن رہا تھا۔ ۔سمیرا نے آتے ہیں پوچھا کہ پھر کیا سوچا آپ نے، میں نے کہا کس بارے میں، اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ میں ہر مرتبہ بتاؤں کہ مجھے آج شام پھدی مروانے جانا ہے اپنے یار سے، میں نے کہا جاؤ دفع ہو جانا، لیکن یہ یاد رہے کہ اب اگر تم نے کوئی نیا رازدار بنایا یعنی کوئی نئی فلم وغیرہ مارکیٹ میں آئی تو وہ دن اپنا آخری دن سمجھنا۔ اس نے کہ میں اب اس معاملے میں اپنے آپ پر بھی بھروسا نہیں کرتی، جس کے ساتھ بھی جاؤں گی ، جگہ کا انتخاب میں خود کروں گی۔شام کو سمیرا کی تیاریاں دیکھنے والی تھیں، خوب سج سنور کر جب وہ جانے لگی تو میں نے ایک فقرہ چست کیا کہ لگتا ہے کوئی نیا شکار گھیرا ہے، اس نے کچھ نہیں کہا بس جاتے جاتے کہہ گئی کہ سدرہ کا خاص خیال رکھنا۔ میں نے کہا اس کا جتنا خیال میں رکھتا ہوں تمہیں کیا پتہ، اس نے کہا کچھ کچھ اندازہ ہو رہا ہے مجھے اب، میں نے چونکتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں گہرے سائے تھے ، میں سمجھ گیا کہ اس کی گھاگ نظریں سدرہ کے چہرے سے بہت کچھ بھانپ چکی ہیں اس لئے اب بہت محتاط ہونا پڑے گا، میں نے اس کو کہا کہ میں بکواس سننے کے موڈ میں نیہں ہوں، تم جاؤ جس نیک مشن پر جا رہی ہو، خواہ مخواہ میں میرا دماغ مت چاٹو۔ وہ ہنستی ہوئی میرے پاس سے گزری، مجھے آنکھ ماری جس پر میں نے کہا بے غیرت عورت اور وہ باہر کو چل دی۔ اچانک واپس پلٹی اور کہنے لگی کہ مجھے شاید کچھ وقت زیادہ لگ جائے ،میں نے کہا کتنا وقت زیادہ لگ سکتا ہے، اس نے کہا ممکن ہے رات کے بارہ ایک بج جائیں، میں نے گھڑی میں وقت دیکھا تو اس وقت سات بج رہے تھے، میں نے کہا دو گھنٹے مانگے تھے تم نے، اس نے کہا کوئی بات نہیں، اگر کچھ وقت اوپر نیچے ہو گیا تو ،تم سکون سے سو جانا، میں ڈسٹرب کئے بغیر آ جاؤں گی، میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا جب شلوار اتر گئی ہے تمہاری تو تم نے بالکل ہی کندھے پر رکھ لی ہے ، لہٰذا جاؤ اور جو مرضی آئے کرو، میں نے جو کرنا ہو میں کر لوں گا۔ اس پر اس نے کہا کر لینا، مجھے پروا نہیں ہے لیکن گھر میں نہ کرنا۔ میں ایک مرتبہ پھر چونکا لیکن اس نے پلٹ کر دیکھا نہیں اور باہر کو چل دی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ کیا اسے پتہ چل چکا ہے، میں نے سدرہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی موزوں وقت نہیں تھا، سب بچے جاگ رہے تھے اس لئے میں نے رات کا انتظار کرنا مناسب سمجھا اور شکر کیا کہ سمیرا نے خود ہی رات کو دیر سے آنے کا کہہ دیا کیونکہ میں بھی آج سدرہ پر گرم تھا لیکن اگر خود کہتا تو سمیرا کو شک ہو سکتا تھا۔ اس لئے جب رات کے ساڑھے دس بجے اور بچے سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو میں نے سدرہ کو بلا لیا، سدرہ بھی شاید آج خاصی گرم تھی اس لئے آتے ہی میرے اوپر چڑھ گئی اور فرنچ کسنگ سٹارٹ کر دی، میں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا، ٹھیک پانچ منٹ میں ہم دونوں پورے ننگے ہو چکے تھے اور میں اس کی پھدی کو چاٹ رہا تھا جب کہ وہ میرے لن کو چوس رہی تھی، وہ اس قدر گیلی ہو چکی تھی اس کا تمام پانی میرے منہ کی سائیڈوں سے بہہ رہا تھا جب کہ وہ جس انداز سے میرے لن کو چوس رہی تھی اس سے مجھے زیادہ وقت نہ لگا اور میں پورے پریشر سے اس کے منہ میں ہی فارغ ہو گیا، سدرہ تیزی سے اٹھی اور واش روم میں جا کر تمام منی تھوک آئی اور کہنے لگی کہ آپ بھی نا حد کرتے ہیں، بتا تو دیا کریں، میں باہر نکال کر فارغ کروا دیتی آپ کو، میں نے کہا سوری مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ پھر ہم دونوں دوبارہ سیکس میں مصروف ہو گئے۔ یہ پورا سیشن تقریباََ ایک گھنٹہ چلا اور اس دوران سدرہ تین مرتبہ فارغ ہو چکی تھی، جب یہ سیکس کا یہ طوفان تھم گیا تو میں نے سدرہ سے کہا کہ کیا بچے سو گئے تھے، اس نے کہا ہاں وہ سب سو گئے تھے، ہم ابھی اس وڈیو پر بات کر ہی رہے تھے کہ تمہاری ماں کو کیسے قابو کرنا ہے اس کو اس کے جال میں کیسے جکڑنا ہے کہ سدرہ کو یاد آیا کہ ابو وہ وڈیو میں نے ایک ڈی وی ڈی میں رائٹ کر کے رکھ لی ہے اور یو ایس بی جو آپ نے دی تھی اس میں محفوظ کر لی ہے، میں نے کہا اسی خوشی میں کیا خیال ہے ایک شاٹ اور نہ ہو جائے، سدرہ نے کہا کیوں نہیں تو میں نے کہا کہ اس مرتبہ تو گانڈ میں ڈالنے دو، بہت دن ہو گئے تمہاری گانڈ مارے ہوئے، اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن آرام سے کرنا، آپ کا لن کافی موٹا ہے اور میری ننھی سی گانڈ کا بیڑا غرق کر دیتا ہے، میں نے یہ سن کر جوش سے اپنے لن پر لبریکنٹ لگایا اور سدرہ کو بیڈ پر پٹخا، اس کو گھوڑی بنایا اورتمام تر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر میں نے اپنا لن سدرہ کی گانڈ کی موری میں گھسانا شروع کر دیا، اس کو تکلیف ہونا شروع ہوئی تو اس نے کہا ابو آہستہ کریں درد ہو رہا ہے، میں نے کہا تھوڑا برداشت کر لو اس نے وہ تو ٹھیک ہے پر گانڈ میری پھٹ رہی ہے تو بولوں گی تو سہی نا، میں نے کہا اچھا اور آہستہ آہستہ لن کو دبانا جاری رکھا، ابھی ہم لوگ اس سیکس سے محظوظ ہو ہی رہے تھے میرے کمرے کا دروازہ اچانک کھلا اور سمیرا کی تالیاں بجانے کی آواز آئی، میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور اس کی آواز میں ایک بشاشت اور اطمینان تھا، اس نے ویری گڈ، شاباش، لگے رہو لگے رہو، میں بھی تو دیکھوں کی سگا باپ اپنی بیٹی کی گانڈ کیسے مارتا ہے،میں اس وقت سخت جوش میں تھا اس لئے اس کی باتوں کا کچھ خاص نوٹس نہیں لیا لیکن سدرہ بری طرح سے ڈر چکی تھی، اس نے میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کو جکڑ لیا اور اپنا کام جاری رکھا۔ کچھ دیر میں میں اس کی گانڈ میں ہی فارغ ہو گیا اور سدرہ کو کہا کہ جا کر فریش ہو جاؤ، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، جو کچھ ہوا یہ ایک نہ ایک دن ہونا تھا۔سدرہ کا گبھرانا فطری عمل تھا لیکن میں ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا جو کچھ باتیں آئیندہ ہم میاں بیوی کے مابین ہونے والی تھیں۔ سمیرا کے چہرے پر البتہ ایک عجیب سے طمانیت محسوس کی جا سکتی تھی، میرے دلاسا دینے پر سدرہ سنبھل تو گئی لیکن کسی بت کی طرح ننگی میرے پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئی، اس کی ٹانگیں ہلکی ہلکی کانپ رہی تھیں، میں نے سددرہ کو کہا کہ کپڑے پہن لو، اس پر فوراََ سمیرا بولی کہ ٹھہرو، میں نے دیکھنا ہے تم لوگ کیا کیا کر چکے ہو، میں نے کہا وہ سب کچھ کر چکے ہیں جو تم غیر مردوں سے کروا چکی ہو، اس پر سمیرا نے کہا کہ میں نے اپنے باپ یا بھائی سے پھدی نہیں مروائی، یہ کہہ کر سمیرا نے سدرہ کو بیڈ پر دھکا دیا اور اس کی ٹانگیں کھول دیں، گھبراہٹ کی وجہ سے سدرہ اپنا دفاع بھی نہ کر سکی اور آرام سے اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں، سمیرا نے ایک نظر اس کی پھدی پر ڈالی اور کہا کہ اب بے شک کپڑے پہن لو میں نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا ہے۔ اس کے بعد میں نے بھی اپنے کپڑے پہن لئے اور بیٹھ کرہم تینوں ایک گہری خاموش وادی میں جیسے اتر گئے، کچھ دیر اسی طرح گزری اور سمیرا نے کہا کہ مشتاق تمہیں شرم آنی چاہئے تھی کہ تم نے اپنی ہی بیٹی سے ناجائز تعلقات قائم کر لئے، میں نے کہ تعلقات تو تعلقات ہوتے ہیں اس میں ناجائز یا جائز کا کوئی سوال نہیں ہوتا، جس دن تمہاری کارستانیوں کی خبر مجھے ملی تھی اسی دن میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ میں بھی اب غلط ہو کر دکھاؤں گا گو یہ میرا اپنے آپ سے انتقام تھا کہ لیکن پھر بھی میں یہ تسلیم کروں گا کہ مجھے اس گناہ کے کھیل میں اسی طرح لطف محسوس ہوا جس طرح تمہیں ہوتا رہا ہے۔ میری بات سن کر سمیرا نے کہا کہ میں نے کیا کیا ہے جو تم بار بار اس کو دہرا رہے ہو، میں نے کہا ابھی بتاتا ہوں تم نے کیا کیا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے سدرہ سے کہا کہ جا کر میرا لیپ ٹاپ اور وہ یو ایس بی اٹھا لاؤ، سدرہ کسی مشین کی طرح اٹھی اور اپنے کمرے کی جانب چل دی، اب سدرہ قدرے بہتر محسوس کر رہی تھی اور اس میں اعتماد واپس آتا جا رہا تھا، جب میں نے لیپ ٹاپ کی بات کی تو سدرہ کی آنکھوں میں ایک سکون کی لہز دوڑتی میں نے محسوس کر لی تھی، سدرہ دو منٹ میں لیپ ٹاپ لے کر آئی اور میں نے اس کے ساتھ چھوٹے سپیکرز اٹیچ کر کے وڈیو چلا دی۔ جیسے ہی وڈیو آن ہوئی اور اپنے کمرے کا منظر سامنے آیا ،سمیرا کی تو جیسے سٹی گم ہو گئی، اس نے کہا مشتاق یہ تم دونوں نے مل کر میرے ساتھ اچھا نہیں کیا، میں نے اس پر جواب دیا کہ یہ سب اس برے کا جواب تھا جس کی ابتدا تم نے کی تھی، اس نے کہا پھر بھی تم دونوں مل کر جو کھیل کھیل رہے تھے اس کی کوئی دلیل نہیں ہو سکتی، میں نے کہا بلاشبہ نہیں ہو سکتی لیکن کیا تم نے جو کیا اس کی کوئی دلیل ہو سکتی ہے اور پھر اس پر مستزاد یہ ہے کہ تم نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی اور وہ بھی اپنی ہی بیٹی کی پھدی کی قیمت پر، تم میں اور مجھ میں کیا فرق رہ گیا، تم اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کو اپنے یاروں کے ساتھ چودنے پر مجبور کر دیتیں جب کہ میں نے یہی کام خود سرانجام دے دیا۔ غلط پر غلط کوئی درست فعل نہیں ہوتا لیکن ادلے کا بدلہ اسی کو کہتے ہیں۔ لیپ ٹاپ ہر مووی ساتھ ساتھ چل رہی تھی جس سے سمیرا کافی ڈسٹرب ہو رہی تھی، میں نے کہا کیوں سچ سامنے دیکھ کر گھبراہٹ ہو رہی ہے، یا بیٹی پر راز کھلنے کا افسوس ہو رہا ہے کہ ماں کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا ہے۔ میری بات سن کر سمیرا نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا کہ دیکھو مشتاق ہمارا پورا گھرانہ برباد ہو چکا ہے، تم میں، مجھ میں اور سدرہ میں کوئی پردہ باقی نہیں رہا ہے تو پھر آگے کے معاملات کیسے چلیں گے، میں نے کہا دیکھو تم نے میرے قتل کی سازش تیار کی، میں چاہتا تو اس وڈیو کے ساتھ تمہیں وہاں پہنچا دیتا جہاں کا تم تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں، افضل کا اتا پتہ بھی میں نے ٹریس کروا لیا ہے اور اگر اب مجھے کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار تم بھی ہو گی کیونکہ اس وڈیو کی ایک کاپی میں نے اپنے وکیل کو دو دن قبل یہ کہہ کر دی تھی کہ اسے میری غیر قدرتی موت کی صورت میں دیکھا جائے اور جو کچھ مواد برآمد ہو اس کو قانونی کارروائی کا حصہ بنایا جائے۔ یہ میں نے ویسے ہی اوپر والی چھوڑی تھی کہ اس پر پریشر قائم ہو جائے ورنہ میں نے کسی کو وڈیو نیہں دی تھی، میری بات سن کر سمیرا اور بھی پریشان ہو گئی اور کہنے لگی کہ تمہارے دونوں کزنز تو سدرہ کی پھدی کے لئے اس قدر دیوانے ہو چکے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت کوئی حماقت کر سکتے ہیں، اس پر میں نے کہا کہ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تم ابھی ان کو فون کر کے کہہ دو کہ مشتاق کو تم دونوں پر شک ہو گیا ہے اس لئے تم لوگ ابھی کوئی بھی ایسی منصوبہ بندی نہ کرنا ورنہ قانون کی گرفت میں آ جاؤ گے۔ سمیرا نے اسی وقت ان دونوں کو فون کیا اور جو میں نے کہا تھا وہ دہرا دیا۔ اس جانب سے کیا جواب دیا گیا وہ سمیرا کے چہرے پر بکھرے اطمینان سے ظآہر ہو چکا تھااس لئے میں نے کوئی سوال جواب اس حوالے سے نہ کیا ، جب یہ تمام بات چیت اپنے اختتام کو پہنچ گئی تو سمیرا نے کہا کہ اب اٹھ کر تم دونوں نہا تو لو، کس طرح اس گندی حالت میں بیٹھ کر بے شرموں کی طرح ایک دوسری کی طرف دیکھ رہے ہو، میں نے کہا اب پیچھے بچا ہی کیا ہے جو چھپایا جائے۔ اس پر سمیرا نے کہا پھر بھی کچھ تو شرم لحاظ ہونا چاہئے، میں نے کہا کہ شرم لحاظ سب تم نے ختم کیا تھا، میں نے تو بس تھوڑا سا اپنا حصہ ڈالا اس میں، اس نے کہا نہیں یہ غلط ہوا ہے جو بھی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ جو ہونا تھا ہو گیا، اب اس کو دہرانے سے کیا حاصل،۔ سمیرا نے میرا جواب سن کر کہا کیا مطلب کہ کیا حاصل، کیا تم لوگ یہ رشتہ اور یہ چدائی کا سلسلہ جاری رکھو گے اسی طرح؟ میں نے کہا تم وعدہ کر لو کہ تم کسی سے نہیں چدائی کرواؤ گی تو میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ سدرہ کو دوبارہ کبھی نہیں چودوں گا۔ میں جانتا تھا کہ سدرہ کھانا پینا چھوڑ سکتی ہے لیکن اس کو لن لینے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ اپنی عادت کو ترک نہیں کر سکتی۔ اس نے کہا کہ میں سوچ کر جواب دوں گی، میں نے کہا آج فیصلے کا دن ہے، جو بھی فیصلہ کرنا ہے ابھی کرنا ہو گا تاکہ اس کے بعد ہمارے درمیان اس بات پر کبھی بحث نہ ہو کہ تم کس سے چدوانے جاتی ہو یا میں سدرہ کو کیوں چودتا ہوں۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور واش روم کی جانب چل دی، اس کے جانے کے بعد میں نے سدرہ کو کہا کہ سدرہ لیپ ٹاپ بند کر دو اور تیاری کرو، اب تمہاری ماں ہمارے ساتھ ہی تھری سم کرے گی، اس پر سدرہ کا ہیجان کچھ بڑھ گیا اور اس نے کہا نہیں ایسا نیہں ہو گا، میں نے کہا ابھی خود دیکھ لینا۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ سمیرا فریش ہو کر واپس آ گئی اور اس نے صرف ایک نائیٹی پہن رکھی تھی، وہ کمپیوٹر ٹیبل کی کرسی پر ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی اور اس کی پھدی صاف دکھائی دے رہی تھی، سمیرا نے کہا کہ دیکھو مشتاق یہ تم جانتے ہو کہ اب صرف تمہارے لن سے میرا گزارا ہونا مشکل ہے اس لئے میں اپنی روٹین نہیں چھوڑ سکتی۔ تم چاہو تو سدرہ کے ساتھ اپنی راتیں گزار سکتے ہو میں بیچ میں نیہں آؤں گی۔ میں نے کہا کہ اگر تم میرے نکاح سے جانا چاہو تو میں خاموشی سے تمہیں چھوڑنے پر تیار ہوں، اس پر اس کو کرنٹ سا لگا اور کہنے لگی کہ دنیا پوچھے گی تو کیا جواب دوں گی کہ شوہر نے کیوں چھوڑا، میں نے کہا تمہیں یہ غم نہیں کہ شوہر نے چھوڑا کیوں، دراصل تمہیں مال پانی کا مسئلہ ہو جائے گا جو میرے نکاح میں تم کو ملتا ہے، اس لئے اگر میرے نکاح میں رہنا ہے تو پھر سدرہ اور میرے اس کھیل میں تمہیں بھی شامل ہونا پڑے گا اور ہمارا ساتھ دینا پڑے گا، سدرہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور میرا نہیں خیال کہ تمہیں بھی کوئی اعتراض ہو سکتا ہے۔ سب کچھ تو تمہارا اور میرا سدرہ دیکھ چکی ہے، بولو کیا کہتی ہو؟ سمیرا کے ہونٹوں پر ایک کمینی سی مسکراہٹ آئی اور اس نے کہا اوکے جب تم دونوں کا اعتراض نہیں تو مجھے بھی نہیں اور یہ کہہ کر اٹھ کر میری ٹانگوں کے بیچ آ بیٹھی اور میرا ٹراؤزر نیچے کر کے میرا لن باہر نکال کر چوسنے لگی، سدرہ میرے پاس بیٹھی تھی میں نے اس سے کہا کہ اپنی ماں کی پھدی کو چاٹو زور زور سے۔ اس نے خاموشی سے میری بات پر عمل شروع کر دیا اور ٹھیک دس منٹ میں یہ گناہ کا کھیل اپنے پورے جوبن پر تھا جس پر نہ صرف انسانیت بلکہ شیطان بھی شرمندہ تھا کہ یہ تو میں نے بھی کبھی نہ سوچا ہو گا کہ حرام رشتوں کو کس طرح حلال سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے سمیرا کی سسکیاں بڑھ رہی تھیں ویسے ویسے سدرہ کی رفتار بھی بڑھ رہی تھی، میں نے سمیرا کو ہٹایا اور سدرہ کے منہ میں اپنا لن دے دیا، اور سمیرا کو کہا کہ سدرہ کی پھدی چاٹو، اس نے کچھ ہچکچاہٹ کا مظآہرہ کرتے ہوئے اپنی زبان اس کی نئی نئی سیل ٹوٹی پھدی پر رکھ دی اور اس کو چاٹنے لگی، اس دوران میں ہی سدرہ فارغ ہو گی جس پر سمیرا نے غصہ بھری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا یہ کیا گندگی میرے منہ میں انڈیل دی، جس پر سدرہ نے کہا کونسا آپ کا منہ پاک ہے جو رونا رو رہی ہو امی، اب ہو گیا جو ہونے دو اور کہا کہ دوبارہ چاٹو مجھے مزہ آ رہا تھاخراب نہ کرو میرا مزہ۔ اس نے بری بری شکلیں بناتے ہوئے پھر سے پھدی چاٹنی شروع کر دی، میں فل تیار ہو چکا تھا، میں نے سدرہ کو لٹایا اور اس کی پھدی پر لن رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اس کی پھدی میں اتار دیا، اس کے منہ سے کراہ نکلی لیکن وہ برداشت کر گئی، سمیرا کو میں نے اپنی گانڈ چاٹنے کا کہا وہ گانڈ چاٹنے لگی اور میں مزے کی دنیا میں کہیں بہت اوپر پرواز کرنے لگا، میں نے کچھ دیر بعد سمیرا کو لٹا کر اس کی پھدی خوب جم کر ماری اور جب فارغ ہونے لگا تو یکدم اپنا لن سمیرا کی گانڈ میں ڈال کر فارغ ہو گیا۔یہ سلسلہ تقریباََ تین ماہ تک چلتا رہا، اس کے بعد ایک رات میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اگلے دن اس پر عمل کر دیا، میں نے اپنے علاقے کے ایک مفتی صاحب کو گھر پر مدعو کیا، ان سے تمام واقعہ کہہ سنایا اور پوچھا کہ اب میرے متعلق کیا حکم ہے، تمام واقعہ سن کر وہ توبہ تو بہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ وہ گناہ کبیرہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی انسانی تاریخ میں، اس لئے میں اس سلسلے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔ آپ گناہ کی اس دلدل کی گہرائی تک اتر کر واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا،باقی اللہ کریم ہے، اگر وہ آپ کی بخشش کر دے تو کر دے، دنیا کی کسی بھی عدالت میں آپ تینوں کی سزا کم از کم موت ہے۔ میں یہ سن کر پریشان نہیں ہوا، بلکہ ان کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اگلے دن جا کر اپنی تمام جائیداد، بینک بیلنس اور دیگر اثاثہ جات اپنے وکیل کے طفیل اپنے بچوں کے نام منتقل کر دیئیے ماسوائے سدرہ کے۔ ساتھ میں شرط رکھی کہ بالغ ہونے کے بعد بیٹے کو اور لڑکیوں کو شادی کرنے کی صورت میں جائیداد اور بینک بیلنس میں سے مقررہ حصہ دے دیا جائے، اس کے بعد میں نے سمیرا اور سدرہ کو اپنے ساتھ لیا اور ایک ہل اسٹیشن پر چھٹیاں گزارنے کا کہہ کر ساتھ لے گیا، پہلے سے طے شدہ پلاننگ کے تحت وہاں پر ہمیں ڈکیتوں نے آ لیا اور میری مزاحمت پر مجھے بھی گولیاں ماری گئیں اور اسی چھینا جھپٹی میں چند بھٹکی ہوئی گولیاں سدرہ اور سمیرا کو ہمیشہ کے لئے دنیا کے غموں سے نجات دے گئیں، اس کے بعد میں نے چند دن پاکستان میں گزارے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کو چھوڑ کر یہاں انگلینڈ میں آگیا، لیکن یہاں پر آ کر بھی میرا ضمیر مجھے چین نہ لینے دیتا تھا، مجھے سوتے میں سدرہ اور سمیرا چڑیلیں بنی اپنی جانب کھینچتی دکھائی دیتی
    تھیں،


    ختم شد

  • #2
    واہ جناب واہ کیا کہانی لکھ ڈالی ہے۔ ایک ہی بار میں گرم کر کے ٹھنڈا کر دیا۔ بہت خوب ایسے ہی لکھتے رہئے۔

    Comment


    • #3
      Bohat achi jnab lajwab

      Comment


      • #4
        زبردست سٹوری

        Comment


        • #5
          Bohat hi behtreen aala aur sexy story hai aik masharti Kahani bohat khob

          Comment


          • #6
            شکریہ جناب بہت ہی اچھی کہانی شیئر کی آپ نے۔۔۔

            Comment


            • #7
              کمال کی کہانی ہے

              Comment


              • #8
                لاجواب

                Comment


                • #9
                  Boht zabardast or sabakamoz Kahani

                  Comment


                  • #10
                    بہت بہترین کہانی۔
                    جو نہ صرف ایک عمدہ سیکس سٹوری ہے پر ساتھ ہی ایک اعلیٰ ادبی شاہکار بھی۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X