Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ایک گھر کی سیکسی کہانی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story ایک گھر کی سیکسی کہانی

    میرے والد کا نام سردار اسلم ہے اور میری والدہ کا نام پروین ہے۔ میرے والد کی عمرکافی ہے یعنی میری والدہ ان سے بیس سال چھوتی ہیں۔ہم دو بہن بھائیی ہیں،فرح میری بڑی بہن ہے جس کی عمر ١٨ سال ہے اور فرح سے چھوٹا میں ہوں اور میری عمر ١٦ سال ہے۔اور میری والدہ کی عمر ٣٧ سال ہے۔
    والد صاحب کا اپنا ذاتی کاروبار ہے۔ان کی دو دوکانیں ہیں ایک راولپنڈی میں اور ایک مظفرآباد میں۔اور ابا شادی کے فورن بعد راولپنڈی میں شفٹ ہو گیے تھے۔راولپنڈی میں ابا کے ایک رشتے کے بھائیی جمال کا گھر تھا اور ابا ،امی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔کچھ عرصہ قبل انکل جمال کراچی رہتے تھے اور وو ہماری پیدائیش کے بعد کراچی سے واپس آکر اپنے گھر میں رہنے لگے
    انکل جمال بوہت زندہ دل انسان تھے گو وو ابا سے چھوٹے تھے لیکن ابا ان سے بوہت پیار کرتے تھے۔ایک اور بات جو میں بتانا بھول گیا کے انکل جمال نے شادی نہیں کی تھی۔
    میں اور فرح ان سے بوہت خوش رہتے تھے ، وو ہم کو اکثر شام کو اسلام آباد سیر کروانے لیجاتے تھے۔
    جب ابا مظفرآباد جاتے تھے تو امی بھی ہمارے ساتھ جاتیں تھیں۔
    انکل جمال کا گھرکوئیی زیادہ برا نہیں تھا، دو کمرے نیچے ،ایک کچن،غسلخانہ ، اور ایک بڑا صحن اور دوسری منزل پر ایک کمرہ جس میں انکل رہتے تھے،دوسری منزل کو ایک راستہ گھر کے اندر سے اور ایک گھر کے بھر سے جاتا تھا ،بھر والا راستہ انکل کے دوستوں کے لیا تھا جو اکثر شام کو گھر اتے تھے اور رات کو دیر تک رہتے تھے۔ان کے دوستوں میں زیادہ تر ان سے کم عمر کے دوست ہوتے تھے
    ان کا گھر راولپنڈی کی ایک پرانی آبادی میں تھے جہاں لوگ کم رہتے تھے ۔ میں اور میری بہن ایک ہی اسکول میں پرتھے تھے، ہمارا اسکول مٹرک تک تھااور ہمارے گھر اور اسکول کے بیچ لوکاٹ کے باغات تھے۔۔
    مرے والد صاحب ایک مہینے کے زیادہ دن مظفرآباد میں گذرتے تھے اور صرف ایک ہفتہ ہمارے پاس اتے تھے
    اور جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے تو جب ہم بوہت مزے کرتے تھے۔رات کو دیر تک جاگنا ،فلمے دیکھنا ، سیر کرنا ، واغرہ واغرہ۔۔۔ اور امی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں تھیں۔ہماری امی انکل جمال کا بوہت خیال رکھتی تھیں۔
    انکل جمال کے گھر ایک لڑکا جس کی عمر ١٨ سال تھی اور نام جواد تھا روز اتا تھا اور جب وو اتا تھا تو انکل ہم کو نیچے بھیجہ دیتے تھے۔جواد ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا اور وہ کافی بدنام تھا اپنے علاقے میں۔جواد کے کچھ دوست اور بھی تھے جو انکل جمال کے گھر جواد کے ساتھ اتے تھے اور ان میں ایک لڑکا فیضان تھا۔ جو فرح کی سہیلی کا بھائیی تھا۔

    دوستوں میں یا داستان اپنی عمر کے ٢٥ سال گزارنے کے بعد سنا رہا ہوں۔اور جو واقعیات میں آپ کو بتاؤں گا وہ اس وقت کے ہیں جب میری عمر ١٥ یا ١٦ سال کی تھی۔
    ایک ہفتے کی رات تھی اور شہر میں بارش ہو رہی تھی،انکل جمال اسلام آباد گئیے ہووے تھے۔ جب وہ دیر تک واپس نہیں اے تو امی بوہت پریشان ہو گیئیں پھر انکل جمال کا فون آگیا
    اور انھوں نے بتایا کے جب بارش روکے گی وہ تب گھر ییں گے۔ بارش اور تیز ہو گی تھی۔ میں اور فرح امی کو بتا کر اوپرانکل کے روم میں چلے گیے اور ووہان ٹی۔وی دیکھنے لگے۔ امی اپنے روم میں چلی گیئیں اور انکل جمال کا انتظار کرنے لگیں
    فرح اور مجھ میں دو سال کا فرق تھا ،وہ مجھ سے بڑی تھیں لیکن وو مجھ سے کافی بڑی لگتیں تھیں،ان کا اونچا قد،گورا رنگ، بھرا بھرا جسم ، اور کلے لمبے بال ان کی عمر زیادہ بتاتے تھے۔ مختصر یا کے وو بوہت خوبصورت تھیں اور لوگ ان کو امی کی چھوتی بہن لگتیں تھیں۔خیر ہم تی وی دیکھ رہے تھے کے باہر والے راستے کی گھنٹی بجی، میں سمجھا کے جمال انکل آییں ہیںاور میں نے دروازہ کھول دیا لیکن ووہان فیضان کھڑا تھا میں اسے اندر لے آیا۔ وہ بارش کے پانی سے بھیگ چکا تھا۔
    فرح بولی؛؛فیضان تمارا دماغ خراب ہے جو اس بارش میں تم ادھر یے ہو۔
    فیضان بولا؛؛؛ فرح مجھے انکل سے کام تھا ۔۔کہاں ہیں وہ؟
    میں بولا؛؛ وہ تو اسلام آباد میں ہیں اور جب بارش روکے گی تو واپس آیینگے
    تو اس نے کہا کے کیا میں انتظار کر لوں
    فرح نے کہا کر لو لیکن اپنے کپڑے تو بدل لو بلکل بھیگ چکے ہیں اور مجھے کہا کے اپنا کوئیی لباس فیضان کو دے دوں اور یا کہ کر وہ امی کے پاس نیچے چلیں گیئیں اور جاتے جاتے یا بھی کہ گیئیں کے جب انکل جمال آییں تو میں ان کو بتا دوں۔میں نے فیضان کو اپنے کپڑے لا کر دیے جو اس کے جسم کے لیا تنگ تھے
    رات کے نو بج چکے تھے اور ابھی تک انکل جمال کا کوئیی پتا نہیں تھا۔ہم دونوں ٹی وی دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتے رہے
    میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کے جواد،فیضان اور شارق
    کی دوستی انکل جمال سے کیوں ہے لیکن اس کا جواب مجھے نہیں پتا تھا۔لیکن دل میں خواہش تھی کے اس کی وجہ معلوم کروں۔
    خیر فیضان مجھے گھورکر دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے گھورنے سے کچھ گھبرا سا گیا،اور اس سے نظریں چرانے لگا۔میں نے شلوار اور قمیض پہنی هوئی تھی جب کے فیضان نے پنٹ اور ٹی شیٹ اور وہ مجھ سے زیادہ صحت مند تھا اور اسی لیا مرے کپڑے اس کو تنگ تھے۔اس کمر پر بیلٹ نہیں بندھی تھی کیونکے اس کے چوتربھی موٹے موٹے تھے۔
    فیضان نے مجھے کہا کے آو باہر بارش کا مزہ لیتے ہیں تو میں اور وہ چھتہ پے آگیا،ہم دونوں بارش میں جلد ہی بھیگ گیے۔میں چھتہ کی دیوار کے ساتھ کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا اور تیز بارش بوندوں سے اپنے اپ کو بچا رہا تھا۔ہم دونوں کے کپڑے گلے ہو کر جسم سے چپکے ہووے تھے۔ اتنے میں زوردار بجلی چمکی اور میں ڈرکے پیچھے ہوا تو فیضان سے ٹکرا گیا۔ اور اس کا دھڑمرے جسم سے چپک گیا اور کوئیی سخت چیز مرے چوتروں میں گھس گی،میں ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ چیز فیضان کا للا تھا۔ میں نے غصّے سے فیضان کو دھکھا دیا لیکن اس نے مجھے پیار سے بھنج لیا۔ پھر اس نے میری للی کو پکڑ لیا اور اس کو ہلانا شروع کردیا
    ۔اس کا لنڈ ابھی تک مرے چوتروں کی درمیان گھسا ہوا تھا، مجھے بھی یا سب اچھا لگنے لگا اور میں نے مدافعت کرنا ترک کر دی ۔ میری شلوار پوری طرھ بھیگ کر میری ٹاگوںسے چپک گیئی تھی۔
    فیضان متواتراپنے لنڈ کو میری گانڈمیں گھسا رہا تھا لیکن شلوار کے اوپر سے۔ اس کا لنڈ بھوحت لمبا اور موٹا تھا۔خاص طور پر اس کے لنڈ کا ٹوپا کافی بڑا تھا۔
    مجھے اس کام کا زیادہ پتا نہیں تھا ،لیکن اتنا معلوم تھا کے لڑکے لڑکے آپسمیں یا کرتے ہیں اور مجھ بھی کافی لوگوں نے اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی، ہمارے گھر کے پاس ایک سبزی والے کی دوکان ہے اور اس نے کی دفع مجھے پیار وغیرہ کیا تھا اور اپنی دوکان کے ساتھ والے کمرے میں لی جا کر میری گانڈ مرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر میں وہاں سے بھگ آیا تھا ، اس کے علاوہ اور کافی لوگوں نے مرے ساتھ اوپر اوپر سے پیار کیا تھا۔، بس جواد سے میرا دل لگتا تھا کیوں کے وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔ فیضان نے مجھے کہا کے میں نیچے کا دروازہ بند کر دوں
    میں نے جا کر دروازہ بند کر دیا تو فیضان میرا ہاتھ پکڑ کر انکل کے کمرے میں آگیا اور مجھے پیار کرنا لگا ،اس نے مرے ھوٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیا اور چوسنے لگا،اور اپنا ایک ہاتھ میری شلوار کے اندر دل کر مرے چوتروں کو ملنے لگا جس کی وجہ سے مجھے بھوحت مزہ آرہا تھا۔پھر فیضان نے اپنا لنڈ پنٹ سے باہر نکالا اور مجھے پکڑا دیا۔میں نے اک کا لنڈ پکڑ کر اوپر نیچے ہلانے لگا۔
    تھوڑی دیر گزارنے کے بعد فیضان نے انکل جمال کی الماری کھولی اور وہاں سے ایک کریم کی ٹیوب نکالا اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا جو میں نے اتار دیے۔اور اپنی انگلی سے میری گانڈ کے جھید پر کریم لگی۔
    میں بولا۔ فیضان بھائیی آپ یہ کیا کر رہے ہو
    فیضان بولا؛؛خالد اس کریم سے تمہاری گانڈ کا ہولے ہول نرم ہو جائیے گا۔
    فیضان نے کافی کریم میری گانڈ پر ملی اور اپنی انگلی بھی اندر کرنے لگا جس سے مجھے بےانتہا درد ہوا اور مرے مو
    سے چیخ نکل گی، تو فیضان نے انگلی کرنا بند کردی لیکن مرے لنڈ کو ہلانا بند نہیں کیا جس کی وجہ سے میں گرم ہوتا رہا اور جب دوبارہ فیضان نے میری گانڈ میں انگلی کی تو میں اس درد کو برداشت کرتا رہا۔جب فیضان نے یہ محسوس کیا کے میری گانڈ نرم ہو گی ہے تو اس نے مجھے کھڑکی کے پاس لیجا کرمیز کے کونے پر الٹا لیتا دیا۔ میرے پاؤں فرش پر تھے اور کمر میز پر ٹکی هوئی تھی۔فیضان نے اپن لنڈ پر تھوک لگائی اور اپنا موٹا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ سے اندر کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ هوئی۔مجھے بھی درد ہو رہا تھا اور میری گانڈ بھی بھوحت ٹائیٹ/ تنگ تھی
    پھر فیضان نے اپنے اپنے لنڈ اور میری گانڈ پر تیل لگایا اور اپنے لنڈ کو دوبارہ میری گانڈ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔
    اس نے مجھے مرے کندھوں سے پکڑ لیا اور اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔پھر اس نے ہلکے ہلکے اندر کیا لیکن مجھے درد ہوا اور مرے آنسو نکل پڑے پر میں سوچ لیا تھا کے میں یہ سب برداشت کر لوں گا۔ میری گانڈ کا سوراخ اب کچھ کھل گیا تھا اور جب فیضان نے دیکھا کے میں تیار ہوں تو اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری گانڈ میں داخل کردیا۔میری تو سانس رک گیی اور آنکھیں باہر کو آگیئیں اور میں نے اپنی گانڈ بینچ لی تاکے فیضان اپنا لنڈ اور اندر نہ کر سکے، پر میں فیضان نے مجھے پوری ترہان اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا اور میں ہل بھی نہیں سکتا تھا۔فیضان نے اب اپنا ٹوپا میری گانڈ میں ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر دیا ،میں درد سے بےحال ہو گیا لیکن فیضان نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں پورا گھسا دیا اور پہلے ہلکے اور پھر پوری طاقت سے میری گانڈ مارنے لگا، وقت کے ساتھ مرے درد میں بھی کمی ہوتی جا رہی تھی اور میں بھی مزے لے رہا تھا
    اور میں نے اپنی گانڈ کو ڈھلا چھوڑ دیا تا کے
    فیضان کا لنڈ پورا اندر جا سکے۔
    مرے اندر کچھ ہو رہا تھا ،میرا لنڈ بھی میز سے ٹکرا ٹکرا کر پورا تن گیا تھا اور اوپر سے فیضان کے طاقت وار جھٹکے مجھے اور پاگل بنا رہے تھے،، مجھے لگا کے مرے لنڈ سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر سفید رنگ کا گھڑا پانی مرے لنڈ سے نکلا تو مجھے سکون ملا ۔۔ فیضان اب بھی اسی رفتار سے میری گانڈ مر رہا تھا ،، میں نے اس کو کہا ؛؛ اب بس کرو فیضان بھائیی ، لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور میری گانڈ مارتا رہا جب تک اک کے لنڈ نے پوری پانی میری گانڈ میں نہ ڈال دیا۔
    مجھے پہلی دفع گانڈ مرنے کا جو مزہ آیا میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
    اتنے میں باہر کی گھنٹی بیجی تو ہم نے اپنے اپنے کپڑے ٹھیکہ کیا ، پھر میں نے دروازہ کھولا تو انکل جمال تھے۔ ان کے ساتھ جواد بھائیی بھی تھے ،وو دونوں جلدی سے کمرے کے اندر آگے، بارش ابھی تک نہیں رکی تھی۔

    انکل جمال نے مجھے کہا کے جا کر امی کو بتا دو کے میں آگیا ہوں۔ میں نے نیچے اکر امی اور فرح کو بتا دیا کے انکل آگےا ہیں تو امی اور فرح دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور امی انکل کے لیا کھانا بنانے لگ گیئیں
    مرے پیٹ میں بوہت درد ہو رہا تھا میں بیت روم چلا گیا ۔۔ جب واپس سہن میں آیا تو امی نے کہا کے کیا بات ہے ،تمہاری چال کیوں بگاڑ گیے ہے تو میں نے بہانہ بنایا کے میں بارش میں پیسل گیا تھا،
    پھر امی نے انکل جمال اور جواد بھائیی اور فیضان بھی کو نیچے بلوایا اور انھوں نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا کے بعد وو تینوں اوپر چلے گیا۔
    میں اپنے کمرے میں اکر لیت گیا کیوں کے میری گانڈ بوہت بری ترہان دکھ رہی تھی اور جھید بھی سوجھ ہوا تھا اور میں الٹا لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کے انکل کے کمرے میں گانڈ کے سوراخ کو ڈھلا کرنے والی کریم اور پھر فیضان بھائیی کو اس کا پتا ہونا ۔ مری عقل کام نہیں کر رہی تھی ۔۔۔ کیا انکل جمال کا جواد بھائیی اور فیضان بھائیی کے ساتھ کوئیی گلط رشتہ ہے ،، کیوں کے فیضان اور جواد بھائیی بوہت خوبصورت تھے لیکن دونوں کافی بدنام تھے ، پھر میں نے سوچ لیا کے میں معلوم کر کے رہوں گا کے ان تینوں کے درمیان کیا رشتہ ہے۔
    کوئیی ١٠ بجے کے قریب انکل نے آواز دی کے ابو کا ٹیلیفون آیا ہے تو امی،فرح اور میں اوپر چلے گیے ۔
    وہاں پر انکل جمال تھے اور ان کے ساتھ جواد بھائیی تھے اور فیضان بھائیی اپنے گھر چلے گئیے تھے
    پہلے میں نے ابا سے باتھ کی اور نیند کی وجہ سے نیچے آگیا ۔ امی اور فرح وہیں تھیں اور ابا سے بات کر رہیں تھیں
    تھوڑی دیر کے بعد فرح غصّے سے بھری کمرے میں واپس آییں اور اپنے سنڈل اتار کر دیوار پر میرے اور بستر پر گر پڑیں۔اور بولیں میں سب کو دیکھ لوں گی
    میں نے حیران ہو کر پوچھا ؛؛؛ فرح کس کو دیکھ لو گی،، کسی نے کچھ کہا تم کو۔
    میں اور فرح آپس میں فری تھے اور دوستوں کی ترہان باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں شیر کر لیتے تھے
    فرح بولی ؛؛ یار تم ہر بات میں کیوں بولتے ہو
    مجھے فرح کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر میں کچھ نہیں بولا۔
    میری بہن فرح کی سخصیت میں اتنی کشش تھی کے جو بھی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا اسے بار بار گھورتا تھا ۔خاص طور پر اسکول کے لڑکے سب کے سب فرح کے گرد پروانوں کی ترہان مڈلاتے تھے اور جو چیز اسے ممتاز کرتی تھی وو اس کے چوتر یعنی گانڈ تھی۔گول گول اور ابھری هوئی ، خمدار کمر ، مناسب مگر ذرا بڑے بریسٹ، لمبا قد امی کے برابر،،
    ان سب کے ہوتے ہووے کیا کوئیی ان کو نظر انداز کر سکتا ہے۔

    پھر میں نے فرح سے کچھ نہیں پوچھا کے وہ کس کو دیکھنے کا کہ رہی ہے۔
    فرح کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے کہا کے کیا میں نے کمپوٹر استعمال کرنا ہے ،تو میں نے اس کو کمپوٹر چلا کر دے دیا۔ (یہ کمپوٹر انکل جمال نے فرح کو اس کی ضد پر لیکر دیا تھا اور ساتھ میں مائیک اور کیمرہ بھی دیا تھا) فرح کسی سے باتیں کرنے لگی ۔اور جب فیضان کا ذکر آیا تو پتا چلا کے وہ فیضان کی چھوتی بہن فائیزہ سے باتیں کر رہی ہے۔ وہ اپنے اسکول کی باتیں کر رہی تھی اس لیا میں نے کوئیی خاص خیال نہیں کیا۔
    میری امی ابھی تک انکل کے کمرے میں تھیں اور میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔بارش ابھی تک رکی نہیں تھی بلکے اس کی شدّت میں اور اضافہ ہو رہا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد انکل جمال نیچے ایے اور میرے پاس بیٹھ گیے۔ میں نے ان سے امی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کے تو ابا سے بات کر رہیں ہیں اور تم فکر نہ کرو میں خود ان کو چھوڑ جاؤں گا ۔ اور پھر وو ایک تکیہ اور کمبل لیکر ے کہتے ہووے چلے گیے کے آج جواد بارش کی وجہ سے ان کے کمرے میں سویہ گا۔انہوں نے کجھے اور فرح کو پانچ پانچ سو روپے بھی دیا۔
    فرح کو نیند آ رہی تھی اس لیا وو جلد سو گیئی
    میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا۔پھر میں اٹھ کر باہر صحن میں چلا آیا اور تیز ہوتی هوئی بارش کو دیکھنے لگا۔اوپر جانے والی سیڑیوں کی لائیٹ جل رہی تھی اور انکل جمال کا کمرہ بھی روشن تھا۔ میں یہ سوچ کر کے امی کو سیڑیوں کی چابی دے دوں ،میں اوپر چلا گیا ۔۔ اوپر کی چھت کا صحن کافی بڑا تھا اور کمرہ دو طرف سے کھڑکیاں تھیں جو عام طور کھلی رہتی تھیں۔ میں دروازے کی طرف گیا تو وو بند تھا۔ کمرے میں امی اور انکل جمال کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔میں نے امی کو آواز دی لیکن کوئیی جواب نہیں آیا ، کیونکے بارش کی تیزی اور ہوا کی آواز کا شور کافی تھا۔میں اس کھڑکی کی طرف گیا جو کھلی هوئی تھی۔اندر امی اور انکل جمال لوڈو کھل رہے تھے اور دونوں مسہری کے کنارے پر گھوٹنوں کے بل بیٹھے ہووے تھے اور دونوں کے گھوٹنوں پر کمبل ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لوڈو کی بساط رکھی هوئی تھی۔امی کے پیچھے جواد بھائیی مسہری کے نیچے قالین پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
    امی کی پشت یعنی کہولے مسہری سے باہر نکلے ہووے تھے امی کا سینہ ان کی رانوں پر تھا اور وو جھک کر کھیل رہیں تھیں
    ان کے اس اسٹائیل کو دیکھ کر میں حیرتزدہ رہ گیا کے چلو انکل جمال کی بات تو ٹھیک ہے لیکن جواد بھائیی تو غیر ہیں۔ امی بوہت موڈرن تھیں وو زمانے کے مطابقچلتی تھیں ۔ ان کے کپڑے بھی موڈرن ہوتے تھے ۔ آج انہوں نے ہرے رنگ چھوتی اور تنگ قمیض اور پیلے رنگ کی اونچی شلوار زیب تن کی هوئی تھی
    امی اور انکل جمال کے سر تقرباں ملے ہووے تھے اس ترہان امی کا گردن سے نیچے کا حصہ یعنی سینہ عریاں تھا۔اور وو اس عریانیت سے لاپرواہ ہو کر کھیل میں مصروف تھیں۔
    کچھ دیر کے بعد انکل جمال بولے ؛؛؛ جواد تم کہاں مصروف ہو
    جواد بھائیی ؛؛؛ انکل میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ، بوہت اچھی فلم چل رہی ہے
    انکل جمال؛؛ تم بور تو نہیں ہو رہے ہو ، تم بھی آجاؤ ،ہم تینوں مل کر کھیلتے ہیں اور امی سے بولے کیوں پارو،
    امی بولیں ؛؛ مجھے کوئیی اعتراض نہیں
    جواد بھائیی بولے ؛؛ نہیں آنٹی ، آپ کھیلیںمیں اپ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں ۔
    اور جواد بھائیی امی کی چوتروں کے قریب ہو کر زمیں پر بیٹھ گیےاور اس ترہان بیٹھے کے ان کا ایک کندھا امی کے چوتروں میں گھس رہا تھا۔
    امی نے اس بات کا کوئیی نوتکےنوٹس نہیں لیا بس وو اپنے کھیل میں مصروف رہیں۔ کوئیی دس منت کے بعد جواد بھائیی نے اپنے کندھے پر ہاتھ سے خارش کی تو امی نے مڑھ کر جواد بھائیی کی طرف دیکھا تو جواد بھائیی نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیا۔
    جواد بھائیی نے اس حرکت کو کی دفع دوہرایا تو پھر امی نے کوئیی حرکت نا کی۔ جب امی نے جواد بھائیی کو کچھ نہیں کہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کے چوتروں کو سہلانا شروع کردیا۔
    انکل جمال نے امی سے کہا کے میں واش روم سے ہو کر اتا ہوں بس یہی کوئیی دس منت میں۔ اور وہ یہ کہ کر کمرے سے باہر آگیا
    جس وقت جواد بھائیی امی کے چوتروں پر ہاتھ پھر رہے تھے تو ان کا جسم مرے سامنے آگیا تھے اس لیا مجھے سب کچھ جو انہوں نے کیا تھا نظر نہیں آیا۔جیسے ہی انکل جمال باہر گیے تو جواد بھائیی نے تھوڑی سا ہلے تو میں نے دیکھا کے ان کا کندھا میری امی کی گانڈ میں گھسا ہوا ہے۔ امی بولیں ؛؛ جواد یہ کیا کر رہے ہو تم۔
    جواد بھائیی بولے ؛؛ سوری آنٹی مجھے خیال نہیں رہا۔اپ لوگوں کے کھیل دیکھنے میں مشغول تھا۔
    امی اور جواد بھائیی دونوں انجاں بنے رہے اور اسی ترہان بیٹھے رہے ،خاص طور پر امی اسی ترہان گھوٹنوں کے سہارے بیٹھی رہیں
    امی بولیں؛ جمال ابھی تک نہیں آیا
    جواد بھائیی بولے؛؛ آنٹی میں دیکھ کر اتا ہوں
    امی؛ نہیں نہیں وو خود آجاے گا، اور تم کجھ کو آنٹی مت کہا کرو
    جواد بھائیی بولے ؛؛؛ پھر آپ کو کس نام سے موخاطب کیا کروں
    امی بولیں پروین یہ باجی کہا کرو
    جواب بھائیی بولے ؛؛ مجھے پروین اچھا لگتا ہے
    امی ہنستے ہووے بولیں ؛؛ جواد تم مجھے جس نام سے پوکرو مجھ کو اچھا لگے گا۔ کیا تم اسکول نہیں جاتے
    جواد بھائیی ؛؛ نہیں پروین، میں گھر ہوتا ہوں یہ پھر جب انکل جمال اتے ہیں تو ادھر آجاتا ہوں
    امی بولیں ؛؛ میں بھی اکیلی ہوتیں ہوں گھر میں شام تک، اور اگر تم فری ہوتے ہو تو مورننگ میں آجایا کرو
    جواد بھائیی خوشی سے بولے ؛؛؛ میں آجاؤں گا پروین

    امی ؛ جو ذرا جمال کو دیکھ کر آو
    جواد بھائیی اٹھے تو میں نے دیکھا ،ان کا لنڈ تنا ہوا تھا، امی نے بھی اس کے لنڈ کی طرف ایک نظر ڈالی اور بولیں ؛؛ جواد کل تم جلدی آجانا ۔
    انکل جمال بھی واپس کمرے میں آگے، تو امی بولیں ؛؛ جمال اب میں جاتی ہوں رات کے ١٢ بج گیئیں ہیں۔انکل جمال امی کو چھوڑنے نیچے سیڑیوں تک آگے۔ میں ووہان پر چپ کر کھڑا تھا کے جب امی نیچے اور انکل اپنے روم میں واپس آییں تو میں اپنے کمرے میں واپس جاؤں۔
    لیکن میری آنکھیں اس وقت حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گیئیں جب امی نے انکل جمال کو پیار کیا اور کہا کے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں جب جواد سو جاے تو تم مرے کمرے میں آجانا ،میں دروازہ کھلا رکھوں گی۔
    انکل جمال بولے؛؛؛ پارو ، جواد جیسے ہی سوتا ہے میں اسی وقت آجاؤں گا۔
    پھر امی نیچے چلیں گیں اور انکل جمال اپنے روم میں آگے، اور میں اپنے روم میں جانے لگا تو انکل جمال اور جواد بھائیی ایک دوسرے سے لپٹ کر پیار کرنے لگے۔اور جواد بھائیی نے انکل جمال کی گانڈ کو دبانا شروع کر دیا ،، مجھے اب یقین ہوا کے انکل یا تو گانڈو ہیں یا لونڈے باز ہیں
    پھر میں وہاں سے چلا آیا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا،اور مرے ماضی کے سین ایک فلم کی ترہان مرے سامنے چلنے لگے۔
    انکل جمال کا اپنی چھوتی عمر کے لڑکوں سے دوستی ،امی کا روز رات کو ان کے کمرے میں جانا جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے،امی کے پاس روپیوں کا ہونا،فرح کا ان کے ساتھ دوستانہ اور اس کو جیب خرچ دینا وو بھی ٥٠٠٠ ہزار روپے ماہانہ ۔۔۔
    ے سب باتیں مرے ذھن میں سوار تھیں اور میں ان سب باتوں کا جواب چاہتا تھا۔
    میری آنکھوں میں نیند غیب تھی اور میں بیچنی سے انکل جمال کے انے کا انتظار کر رہا تھا،۔ایک بجے سیڑیوں کا دروازہ کھلا اور انکل اور جواد غسل خانے میں گئیے اور تھوڑی دیر کے بعد جواد بھائیی انکل کے روم میں چلے گئیے ۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اور میں نے اپنا کمرہ بند کر کے لائیٹ بھی بھجھائیی هوئی تھی۔ امی کے کمرے کی بتی روشن هوئی اور امی باہر آییں اور غسل خانے کا دروازہ کھٹکایا۔انکل نے دروازہ اوپن کیا اور امی کو اندر کھینچ لیا ، میں فورن صحن کے راستے امی کے روم میں گیا اور وہ دروازہ جو مرے کمرے میں کھلتا تھا وہ کھول کر اس میں سے اپنے روم میں آگیا
    اب میں رات کو کسی وقت بھی امی کے کمرے میں دیکھ سکتا تھا۔غسل خانے سے امی اور انکل جمال کی ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہیں تھیں، وو دونوں باہر آے اور امی انکل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیئیں
    انکل جمال بلکل ننگے تھے اور امی کے کپڑے بھی پانی سے بھیگے ہووے تھے
    جب انکل اندر کمرے میں داخل ہووے تو امی نے صحن کا دروازہ بند کر دیا اور ایک دم انکل سے لپٹ گیئیں۔اور انکل کے ہونٹ چومنے لگیں ، پھر امی نے انکل کو دھکا دے کر بستر پر گرایا اور اپنے کپڑے اتار کر انکل کے اوپر بیٹھ گیئیں
    اور انکل کے دونوں بازووں کو پہلا کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں، وہ انکل کے لنڈ پر بیٹھی تھیں اور اپنی چھوٹ کو انکل جمال کے لنڈ پر رگڑ رہیں تھیں۔
    میں سکتے میں یہ سب دیکھ رہا تھا،اور یہ سوچ رہا تھا کے کب سے ہو رہا ہے۔یہ حرام کاریاں کب سے ہو رہی ہیں,
    میرے کمرے میں میری بڑی بہن فرح سوی هوئی تھی اور امی اپنے کمرے سے اپنے شوہر کے بھائیی سے کھودے چودآیی کروا رہی تین۔ خیر امی اوپر سے انکل کے لنڈ کو اپنی چھوٹ پر رگڑھ
    رہیں تھیں اور انکل جمال امی کی مست گانڈ میں ہاتھ پھر رہے تھے۔ پھر امی اوپر سے ہٹ گیئیں اور انکل جمال کے ساتھ بیٹھ گیئیں ،اور ان کے لنڈ کو ہاتھوں میں پکڑکر چوسنے لگیں ،یوں لگتا تھا کے وو اس کام میں بوہت ماہر ہیں وہ انکل کا لنڈ اور انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کر رہے تھے۔امی کی گانڈ مرے دروازے کے بلکل قریب تھی اور جہاں سے میں دیکھ رہا تھا ووہان سے کوئیی تین فیٹ دور تھی اور جب انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کرتے تھے تو امی اپنی گانڈ اور کھول دیتی تھیں
    اور پھر انکل جمال کی پوری انگلی امی کی گانڈ کر اندر تک جاتی تھی ،انکل جمال بھی کبھی ایک اور کبھی دو انگلیاں ڈالتے تھے۔
    امی مزے سے انکل جمال کا لنڈ اور ٹتے کو دیوانہ وار چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انکل جمال کی گانڈ تک کو چوم رہی تھیں۔
    میرا لنڈ یہ چودائیی کا منظر دیکھ کر تن گیا تھا اور میں نے بھی اپنے پاجامے کا ایلسٹک نیچے کر کے اپنی مٹہ مارنے لگا۔
    امی بولیں؛؛ جمال جان، اب تم بھی میری چھوٹ کو چاٹو
    یہ کہ کر امی بسٹر پر لائیٹ گیئیں اور انکل جمال کو اوپر انے کو کہا
    انکل جمال بسٹر پر کھڑے ہووے تو مجھے ان کا لنڈ نظر آیا ، ان کا لنڈ کوئیی زیادہ بڑا نہیں تھا یہی کوئیی چھ انچ کا ہو گا لیکن موٹا بوہت تھا ۔
    انکل جمال میری امی کے اوپر لیت کے امی کے موممے چوسنے لگے اور اپنا لنڈ امی کی چوٹ پر رگھرنے لگے امی کی حالت قبل یہ دید تھی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے انکل جمال ان کی پھددی میں اپنا لنڈ جلدی سے ڈال کر ان کو چود دے۔لیکن جمال انکل تو امی کے مممے چوسنے میں مصروف تھے۔ امی نے انکل جمال کو کہا ؛جانو اب مجھ سے صابر نہیں ہوتا ،تم اپنے لنڈ کو میری چوٹ میں ڈال دو اور میری آگ ٹھنڈی کر دو۔
    انکل جمال نے جب دیکھا کے میری امی بوہت گرم ہو گیئیں ہیں تو انھوں نے اپنا لنڈ میری امی کی چوٹ میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگے۔
    جیسے جیسے انکل نے اپنی رفتار بڑھای امی کی آوازیں نکلنے لگیں
    اور امی نے اپنی ٹاگوں کو انکل جمال کی کمر کے گرد لپٹا لیے
    انکل جمال بولے''' پارو
    اپنی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ لو تو پھر میرا لنڈ تمہاری چوٹ میں اندر تک جائیے گا،
    امی نے اپنے سر کا تکیہ اپنی گانڈ کے نیچا رکھ کر جمال کو کہا ؛؛ اب تم ڈال دو اپنا لنڈ
    انکل جمال نے اپنا چھوٹا سا لنڈ امی کی سے نکالا اور پھر پوری طاقت سے اندر گھسسہ دیا ۔اور دھکے لگانے لگے ۔ امی بھی پورا پورا انکل جمال کا ساتھ دے رہیں تھیں اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف اپنی گانڈ کو ہلا رہیں تھیں
    امی کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں اور تکیہ نیچے ہونے کی وجہ سے انکل جمال کا لنڈ امی چوٹ کے اندر تک آ اور جا رہا تھا،اور امی بھی پوری ترہان لفت اندوز ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر اسی طریقے سے چدوانے کے بعد امی نے انکل کو کہا کے میں گھوڑی بن جاتی ہوں تم پیچھے سے میری چوُت مارو،
    پھر امی گھوڑی بن گیئیں اور انکل جمال نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر امی کے چتروں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول لیا اور ان کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر چودنے لگے
    جب انکل کا جسم امی موٹے چتروں سے ٹکراتا تھا تو تھب تھب کی آوازیں اتی تھیں اور انکل پوری قوت سے امی کی چوت ماررہے تھے؛؛انکل جمال نے امی کو بولا کے میں نکلنے کے قریب ہوں
    اور انہوں نے اپنے دھکوں کی شدّت میں اضافہ کر دیا ،ادھر امی نے اپنی چوت کے دانے کو زور زور سے مسلنا کیا تاکے وہ انکل جمال کے ساتھ ہی اپنا پانی نکال لین،اور ایک زوردار جھٹکے کے انکل جمال نے اپنی منی امی کی چوت میں اگل دی اور کچھ ہی سیکنڈ کر بعد امی کی چوت کا پانی بھی نکال گیا،
    دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش لیٹے رہے
    مرے برا حال تھا اور میں برابر مہت مارنے میں لگا ہو تھا۔تھوڑی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا اور کمرے کے پردوں سے اپنا لنڈ صاف کیا اور پھر امی اور انکل جمال کا تماشا دیکھنے واپس آگیا
    انکل جمال ابھی تک امی کے اوپر تھے اور امی الٹی لیتی ہویں تھیں،جب انکل جمال نے امی کی چوت میں سے اپنا لنڈ نکالا تو وو امی کی منی اور ان کی منی سے لت پٹ تھا۔ جیسے امی نے اپنے ہونٹوں سے صاف کیا۔

    رات کے دو بج چکے تھے۔امی اور انکل جمال ننگےھی لیٹے ہووے تھے۔امی کا سر انکل جمال گود میں تھے اور انکل جمال کے ہاتھ امی کے سینے پر رکھے ہووے تھے اور وہ امی کی چوچیوں کو دبا رہے تھے۔مجھے یوں لگ رہا تھا کے امی اور انکل جمال ایک دفع اور چدوائیی کرنے کے موڈ میں ہیں،امی اب سمٹ کر انکل کے سینے تک آگیئیں تھیں اور انھوں نے انکل جمال کا ایک ہاتھ پکڑ اپنی گندی چوت پر رکھ لیا اور ان کے ہاتھ کی ایک انگلی کو اپنی چوت کے اندر اور باہر کر رہی تھیں،اور اپنے دوسرے ہاتھ سے انکل جمال کا لنڈ ہلا رہی تھیں۔
    انکل جمال بولے؛؛؛؛ جانی ایسا مت کرو ، اب یہ کھڑا نہیں ہوگا
    امی بولیں؛؛؛ جمال میرا دل ایک دفع اور کرنے کو دل چاہ رہا ہے
    انکل جمال ؛؛؛ یار اب نہیں کھڑا ہو گا میرا لنڈ ،میں نے مورننگ میں کورٹ جانا ہے ، اب مت کرو
    یہ کہ کر انکل جمال اٹھ گیے اور امی کو پیار کیا اور اپنے کپڑے بدلے اور اپنے روم میں اوپر چلے گیے۔امی کچھ دیر تک یوہیں
    لیتی رہیں پھر اٹھ کر نہایا اور اکے بستر پر سو گیئیں۔
    میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے اور پھر میں بھی بستر پر جا کر سو گیا۔
    صوبھ میری آنکہ فرح کے جگانے سے کھلی ،اور سامنے گھڑی پر نظر پڑی تو نو بج رہے تھے اور فرح اسکول جانے کے لیا تیار تھی۔ میں نے ابھی ناشتہ بھی کرنا تھا اور انکل جمال کو کورٹ جانے کے لیا دیر ہو رہی تھی، اوپر سے امی ابھی تک سو رہیں تھیں۔سو میں نے فرح کو کہا کے آج میں اسکول نہیں جاؤں گا۔
    فرح بولی؛ خالد امی ابھی تک سو رہیں ہیں اور انکل جمال میرا انتظار کر رہے ہیں۔مجھے آج اسکول میں دیر تک روکنا ہے ۔ میری دو کلاسس ہیں ، اور تم امی کو بتا دناکے انکل جمال مجھے کورٹ سے واپس اتے ہووے اسکول سے لے لیں گے۔
    میں بولا ؛؛؛ فرح تم فکر نا کرو
    پھر فرح انکل جمال کے ساتھ اسکول چلی گیئی
    میں نے ناشتہ کیا اور امی کے کمرے میں آیا تو امی بیسوده سو رہیں تھیں
    میں نہانے چلا گیا ۔ جب میں نہ رہا تھا تو مجھے گھنٹی کی آواز آی، میں نے دروازہ سے جھانکا تو مجھے جواد نظر آیا ، میں نے اس کو کہا کے وہ روکے ،میں کپڑے بدل کر اتا ہوں
    جب میں غسل خانے سے باہر آیا تو جواد بھائیی صحن میں تھے اور امی کے روم کا دروازہ کھٹکا رہے تھے ، مجھے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سے گےا اور بولا ۔؛؛ خالد تم آج اسکول نہیں جو گے کیا
    میں بولا ؛؛؛ جواد بھائیی اجج میں دیر سے اٹھا ہوں اس لیہ اسکول نا جا سکا
    میری بات سن کر وہ کچھ پریشاں سے ہو گیے
    اتنے میں امی بھی اٹھ کر باہر صحن میں آگیئیں
    جواد بھائیی نے امی کو سلام کیا ؛؛ کیا حال ہے آنٹی
    امی بولیں؛؛ جواد میں ٹھیکہ ہوں بیٹا
    پھر امی نے مجھ سے پوچھا؛؛تم اسکول کیوں نہیں گیے
    میں نے ان کو وجہ بتادی
    وو غصّے سے بولیں ۔ تم رات دیر تک جاگتے ہو اور پھر اسکول نہیں جاتے
    جواد بھائیی جلدی سے بولے ؛؛؛ کوئیی بات نہیں آنٹی ، آپ فکر نا کریں میں خالد کو سمجھا لوں گا۔
    پھر امی نہانے چلی گیئیں اور میں غصّے سے اوپر انکل جمال کے روم میں چلا گیا۔
    مرے پیچھے پیچھے جواد بھائیی بھی اوپر آگے اور بولے؛؛؛
    خالد کیا تم نے فیضان سے کل گانڈ ماروی تھی
    میں یہ سن کر ہکہ بکہ رہ گیا ،،
    جواد بھائیی بولے؛؛ تم تو پکّے گانڈو ہو ،مجھے فیضان سب بتا دیا ہے اور میں یہ سب تمھارے ابا کو،امی کو اور انکل جمال کو اور اسکول میں سب کو بتا دوں گا۔
    میں نادامی سے رونے لگا تو جواد بھائیی مرے پاس اکر بولے؛؛ گانڈو پہلے گانڈ مرواتا ہے پھر روتا ہے
    پھر بولے ؛؛ ایک شرط اگر تم پوری کرو تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
    میں بولا ؛؛ آپ جو بھی کہیں میں مان لوں گا ، مگر اپ کسی کو یہ بات نہیں بتانا
    جواد بھائیی نے مجھے گندی گندی گالیاں دیں اور بولے؛مادر چود، تیری بہن کی چوُت میں لنڈ ماروں۔۔تو خاموشی سے انکل جمال کے روم میں رہنا ،، مجھے تیری رنڈی امی سے کام ہے۔ تم نیچے مت انا جب میں نا کہوں
    میں بولا ؛؛ اچھا جواد بھائیی
    میں انکل کے روم میں چلا گیا اور جواد بھائیی نیچے چلے گیے
    سیڑیوں پر ایک روشندان تھا جو بیک وقت صحن اور امی کے روم میں کھلتا تھا
    جواد بھائیی کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا کے امی اور جواد بھائیی اب کیا کریں گے ۔ میں جواد بھائیی سے بوہت ڈرتا تھا میں کے سارا موحلہ کی ہی ان سے گانڈ پھٹتی تھی۔ میں نے حوصلہ کیا اور روشندان کے پاس چلا گیا ۔ امی اور جواد بھائیی صحن میں بھیٹھے ہووے باتیں کر رہے تھے۔
    جواد بھائیی ایک مظبوط جسم اور اونچا قد کے ملک تھے اور بوڈی بلڈر بھی تھے۔اس وقت جواد بھائیی نے پتلوں/جینس اور بغیر آستینوں کی
    ٹی قمیض پہنی هوئی تھی، امی ٹیبل پر ناشتہ کر رہیں تھیں اور ساتھ والی کرسی جواد بھائیی تگین پھیلا کر بیٹھے ہووے تھے۔
    امی نے سفید رنگ کا ململ کا کرتا اور ململ کا اسی رنگ کا چست پاجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔اور اپنے گیلے بالوں کو تولیہ میں لپٹایا ہوا تھا ۔ میں نے ایک اور چیز نوٹ کی کے امی نے بریزیر نہیں پہنا ہوا تھا اور کے گلے کے بٹن بھی کہولے ہووے تھے
    ناستا کرنے کے بعد امی نے جواد بھائیی کو کہا کے یہاں تو بوہت گرمی ہے چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔دونوں اندراگیعے
    امی جب اٹھیں تب میں نے دیکھا کے ان کی قمیض چھوٹی اور بڑے چک والی تھی اور ان کا پاجامہ بھی بوہت ٹائیٹ تھا۔
    جب وو اندر کمرے میں گیے تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں آگیا اور امی کر کمرے کی ساتھ والی کھڑکی پر کھڑا ہو گیا ، جہاں سے میں امی کے روم میں دیکھ سکتا تھا۔ امی قالین پے صوفے کے سہارے بیٹھ گیئیں اور جواد بھائیی بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گیے
    امی بولیں؛؛ جواد خالد کہاں ہے
    جواد بھائیی بولے؛؛؛ وو فیضان کے گھر گیا ہے
    امی اطمنان سے بولیں ؛؛ یہ تو اچھا کیا اس نے ،، جواد میں خالد کی طرف سے بوہت پریشان ہوں۔، اس کے دوست اچھے نہیں ہیں
    جواد بھائیی بولے ؛؛؛ پروین ، میں دیکھ لوں گا اس کے دوستوں کو ،آپ فکر نا کریں ،، تم یہ بتاؤ کے تم نے مجھے کیوں بولیا ہے۔
    امی بولیں ؛؛ ہاں لیکن تم پہلے باہر کا اور سیڑیوں کا دروازہ بند کر کے او،وگرنہ بللی آجاتی ہے۔
    جواد بھائیی دروازہ بند کرنے گیے تو امی صحن مین میں کھلنے والی کھڑکی پر جا کر کھڑی ہو گیئیں۔کھڑکی تھوڑا سا نیچے بنی هوئی تھی اور ایمی اس کے چوکھٹ پر کھونیاں ٹیک کر اور کافی جھک کر کھڑی تھیں اور اس ترہان ان کے چوتر باہر کی طرف نکل گیے۔ امی کے ٹائیٹ پاجامہ میں سے ان کی گانڈ صاف نومیان ہو گی تھی۔ اب امی کی پشت میری طرف تھی۔
    جب جواد بھائیی کمرے میں واپس ایے تو امی کو کھڑکی کے کھڑا دیکھ کر وہ بھی ان کے پاس ہی کھڑے ہو گیے اور امی سے پوچھے لگے کے ان کو کیوں بولوایا ہے ۔
    امی بولیں ؛؛ تم قمر کو جانتے ہو ، وہ جو ہمارے پڑوس میں رہتا ہے
    جواد بھائیی؛؛؛ہاں جانتا ہوں
    امی بولیں ؛؛ وہ فرح کو تنگ کرتا ہے
    جواد بھائیی ؛؛؛ میں اس کے سرے خاندان کو جانتا ہوں ؛؛ خاص طور پر اس کی بہن ریحانہ کو ، جس کا سرے موحلے سے چکّر ہے اور اس کی ماں بلقیس کو بھی جانتا ہوں ، اور تم پرواہ نا کرو میں سب ٹھیکہ کر دوں گا ، بس تم اتنا کرنا کے فرح کو کہنا کے جب قمر اس کو تنگ کرے تو وو مجھے فون کر دے ۔۔
    امی بولیں ؛؛ نہیں جواد میں فرح کو کچھ نہیں کہوں گی سارا کام تم ہی نے کرنا ہے۔
    میں نے اندازہ لگایا کے جواد بھائیی کی نظریں امی کے گریبان پر تھیں جس کے بٹن کھلے ہووے تھے۔ امی نے پھر اپنی گانڈ پر ہاتھ پہرا اور کھاج کی جواد کو دکھاتے ہووے۔جواد بھائیی نے اپنے لنڈ پر ہاتھ پہرا اور امی کی طرف اپنا رخ کر لیہ ۔ امی بدستور اپنی اپنی گانڈ کھجانے میں مصروف تھیں۔
    آج مورننگ سے ہی مطلع ابرآلود تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چاھے ہووے تھے ۔پھر ایک دم بارش شروع ہو گیی۔
    امی بولیں ؛؛ جواد دیکھو بارش شروع ہو گیی
    جواد بھائیی امی کے پیچھے آکر اور امی کے ساتھ اپنا جسم لگا کر کھڑے ہو گیے ۔ ان کا لنڈ امی کی گانڈ پر اور ان کے ہاتھ امی کی کمر پر تھے۔ امی کی خاموشی ان کی زبان بن گیی اور جواد بھی نے اس خاموشی کو امی کا اقرار سمجھ لیہ
    پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کی کرتا ہٹایا اور اپنی انگلی سے امی کے چوتروں میں انگلی کرنے لگے ، شاید امی یہی چھتیں تھیں اسلئیے انہوں نے جواد بھائیی کو روکنے کی کوئیی کوشش نہیں کی بلکے اپنی کمر میں اور خم کر لیہ۔
    جواد بھائیی کی ہمّت اور بڑھ گیی اور انہوں نے اپنا لنڈ اپنی پتلون سے نکالا اور امی کے پاجامے کے اوپر سے ان کی گانڈ کے جھید پر رکھ کے کافی زوردار دھکے لگاے۔ اور امی کو بالوں سے پکڑ لیہ۔جواد بھائیی بڑے ہی بےغیرت اور بدتمیز لڑکے تھے ،ان کی زبان بوہت گندی تھی اور کسی کا خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اس لیہ سب کی ان سے گانڈ پہتی تھی۔
    جواد بھائیی نے امی کو سیدھا کیا اور اپنے سینے سے لپٹا لیہ ،امی بھی بیتاب ہو کر ان سے لپٹ گیئیں اور جواد بھائیی نے امی کے ہونٹ چوسنے اور کاٹنے شروع کر دیے۔ امی نے مست ہو جواد بھائیی کے لنڈ کو پکڑ لیہ جو بلا موغلبہ دس انچ کا تھا۔
    میں نے آج تک اتنا لمبا لنڈ نہیں دیکھا تھا ۔ میرا دل دھڑکنے لگا اور میں حیران ہو گیا کے میری اپنی امی اس ترہان کی حرکتیں کرتی ہیں جب ابا گھر پر نہیں ہوتے۔ اور یا سب کچھ نجانے کب سے ہو رہا ہے۔
    اور مرے ذهن میں امی کی حرکتوں کی ایک ریل سی میری آنکھوں میں گھومنے لگی اور وہ ساری باتیں یاد انے لگیں جو اس وقت میں سمجھ نا سکا تھا۔وہ امی کا بازار جانا ، اور مختلف دوکانداروں سے ادھارگھر کا سامان خریدنا اور ان کے پیسے واپس نا کرنا ۔اور بوہت سی باتیں جن کا ذکر اگر اپ لوگ چاہو گے تو پھر کسی کہانی اور میں کروں گا، اس وقت تو جواد بھائیی امی کی چوُت کے مزے لے رہے تھے؛
    امی ابھی تک جواد بھائیی سے لپٹی هوئی تھیں ایر جواد بھائیی ممی کے مممے چوس رہے تھے اور ان کا ایک امی کی گانڈ میں گھسا ہوا تھا ۔
    کبھی کبھی جواد بھائیی امی کی چھوت میں بھی اپنی انگلی ڈالتے تھے اور امی ان کی اس حرکت سے بوہت لطف اندوز ہوتی تھیں۔ اس ترہان کرتے کرتے جواد بھائیی نے امی کا پاجامہ ان کی گانڈ سے نیچے اتار دیا اور امی کی گانڈ اپنی طرف کر لی؛ اب انہوں نے امی کی ننگی گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان رکھ کر امی کی گانڈ چاٹنا شروع کر دی ،
    امی کا برا حال ہو گیا ،ان کے مؤ سے سسکاریاں نکال رہی تھیں اور جب ان کو اس گانڈ چاٹنے میں زیادہ مزہ انے لگا تو انہوں نے اپنے دونوں چوتر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو اور کھول دیا تاکے جواد بھائیی کی زبان امی کے گانڈ کے سوراخ کے اندر تک چلی جایے۔یہ عمل کوئیی دس منت تک جاری رہا ،پھر امی سے مزید ضبط نا ہو سکا اور انہوں نے کہا ؛؛؛
    امی ؛؛ جواد تم مجھے زیادہ مت ترپاؤ، اپنی لنڈ میری گانڈ میں ڈال دو
    جواد بھائیی جو شاید نشے میں تھے امی کی بیقراری دیکھ کر بولے؛
    جواد بھائیی ؛؛ ماں کی لوڑی، تم سرے جہاں سے چدواتی ہے ، کٹیا ،رانڈ رنڈی ابھی جلدی کس بات کی ہے
    اور جواد بھائیی نے امی کی گانڈ میں اپنی زبان ڈالنا جاری رکھی،
    اور انہوں نے اپنی دو انگلیاں امی کی چھوت میں گسهردین۔ امی کا اب تو اور بھی برا حال ہو گیا ، انہوں نے کچھ اور برداشت کیا پھر جواد بھائیی سے التجا بھرے لہجے میں ان سے کہا
    امی؛ جواد میری گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال دو نا ، مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا۔
    جود بھائیی نے دیکھا کے امی کی گانڈ کا چھید سوکڑنے اور کھلنے لگا ہے تو وو کھڑے ہو گیے اور اپنا لنڈ امی کی تھوکوں بھری گانڈ پر رکھ دیا اور امی کو کندھوں سے پکڑ لیہ۔
    اور امی سے کہا ؛؛ پروین مرے لنڈ کو ٹھیک اپنی گانڈ کے چھید پر رکھ لے اور اچھی ترہان اپنی گانڈ پر تھوک لگا ۔
    انمی نے اپنی تھوک سے اپنی گانڈ گیلی کی اور اپنی گانڈ کو اور جھکا لیہ۔اور جواد بھائیی کے لنڈ کو اپنی گانڈ کے چھید پر ٹیک دیا
    جواد بھائیی نے جب دیکھا کے امی اب بلکل گرم اور سیٹ ہیں تو انہوں نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں گھسا دیا۔
    درد کے میرے امی کی چیخ نکل گیی اور انہوں نے جواد بھائیی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن جواد بھائیی نے امی کو اچھی ترہان قابو کیا ہوا تھا۔اور وہ پوری رفتار سے امی کی گانڈ مارنے میں مصروف رہے ،امی کی چیخیں اب ہلکی ہونے لگیں تھیں لیکن جواد بھائیی کے زوردار جھٹکے کام نہیں ہووے تھے ۔
    پہلے دس منت تو جواد بھائیی نے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں سے نکالا نہیں اور یونہی اپنے لنڈ کو باہر نکلے بغیر اندر ہی اندر دھکے لگاتے رہے۔پر جب امی کی گانڈ رواں ہو گیی تو جواد بھائیی اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں پورا باہر نکال کر اندر گھسنے لگے ،جواد بھائیی امی کے مممے دبا رہے تھے اور امی اب اپنی ہی چھوت میں انگلی کر رہیں تھیں،
    میں نے بھی اپنا لنڈ شلوار میں سے باہر نکال لیہ تھا۔ اور مٹہ مارنے لگا ، یہ سب دیکھ کر میرا دل یہی کرنا چاہ رہا تھا۔
    ادھار جواد بھائیی امی کی گانڈ مارنے میں مصروف تھے اور جہاں تک میرا اندازہ تھا کے امی کی چھوت نے پانی چھوڑ دیا تھا ،وہ اس لیہ کے امی اب جواد بھائیی کے جھٹکوں کے جواب میں وہ گرمجوشی سے نہیں دے رہی تھیں۔ مگر جواد بھائیی تو بس کچھ کھہ کر امی کی گانڈ مار رہے تھے تقریباں ایک گھنٹے سے اور وہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔بلآخر جواد بھائیی نے اپنی منی میری امی کی گانڈ میں چھوڑ دی اور کرسی پر بیٹھ گیے ۔ امی کی گانڈ منی اور غلاظت سے بھری هوئی تھی ، وہ اٹھیں اور جواد بھائیی کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے میں لے گیئیں اور کوئیی دس منت کے بعد وہ دونوں ننگے واپس کمرے میں اگیعے اور مسہری پر لیٹ گیے۔
    جواد بھائیی بولے ؛؛ پارو تیری گانڈ بوہت ٹائیٹ ہے ۔ کیا جمال تیری گانڈ نہیں مارتا
    امی بولیں ؛؛؛ پہلی دفع تم نے کیا ہے ، جمال نے کبھی نہیں ماری۔
    جواد بھائیی بولے؛؛؛ جھوٹ تو کیا قمر کے باپ سے تیرا آنکڑا فٹ نہیں ہے۔وہ تو پٹھان ہے اس کے تو مذہب میں لکھا ہوا ہے گانڈ مارنا اور مروانا ۔۔۔
    امی بولیں ؛؛ نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مرے ساتھ تم تو شک کرتے ہو
    جواد بھائیی ہنستے ہووے بولے ؛؛؛ ہاں ہاں تو تو بڑی معصوم ہے کٹیا تیرے تو جمال بھائیی ، قمر کا باپ ،بیکری والے بابا فضل اور وہ تمھارے بیٹے کے دوست کا بھائیی اور ابا وہ سب تو تجھے سلام کرنے اتے ہیں۔
    امی کچھ نہیں بولیں ۔۔۔ لیکن اندر اندر سے بوہت غصّے میں لگ رہیں تھیں، مگر جواد بھائیی سے سب کی گانڈ پہتی تھی اس لیہ ان کی بھی بولتی بند تھی
    جواد بھائیی نے امی کے پیت پر پیار اور چوسنا شروع کیا ، وہ کبھی کبھی امی کی چھوت کی اوپر والی جگہ پر اپنے دانت گھڑدیتے تھے کے امی کی چیخ نکل جاتی تھی۔ امی سیدھی لیتی ہویں تھیں اور ان کی تگین کھلی ہوئیی تھیں ۔ ان کے اوپر پیت پر جواد بھائیی کا موُن تھے اور جواد بھائیی امی سے خرمسٹیں کر رہے تھے۔امی کی چھوت میں انگلی کرنا ، ان کے مممو کو کاٹنا اورامی کی بڑی بڑی کالی چوچیوں کو اپنے دانتوں سے کاٹنا ،، یہ سب امی کو گرم کر دینے کے لیہ کافی تھا۔امی نے جواد بھائیی کا لنڈ پکڑ لیہ اور اسے ہاتھ سے ہلانے لگیں تو وہ ایک دم تن گیا۔
    امی پیار بھرے لہجے بولیں؛جواد تمہارا لنڈ پھر کھڑا ہو گیا ہے۔
    جواد بھائیی جو امی کی چھوت چاٹ رہے تھے بولے؛؛؛ جان یہ پھر تمحے چوودنے کے لیہ تیار ہے۔
    امی بولیں ؛؛ پھر انتظار کس بات کا ہے چود لو ورنہ کوئیی نا کوئیی آ جایے گا۔
    جواد بھائیی بولے؛؛؛ پارو آج تم مجھ کو یہ بتانا کے تم کو کس کس نے چودہ ہے۔
    امی مزے سے شرشار لہجے میں بولیں ؛؛؛ ہاں بتا دوں گی لیکن پہلے میری آگ تو ٹھنڈی کر دو ، میں تو بیتاب ہوں تمہارا لنڈ اپنی چھوت میں لینے کے لیہ۔
    جواد بھائیی ؛؛تو یہ لو ابھی تمہاری چھوت میں ڈال دیتے ہیں
    یہ کہ کر جواد بھائیی امی کی ٹاگوں کے درمیان آ گیے اور اپنا لنڈ امی کی گیلی گیلی چھوت میں گھسسہ دیا ۔۔
    امی کی آہ نکل گیی اور انہوں نے اپنی ٹاگوں کو جواد بھائیی کی کمر کے لپیٹ لیہ اور اپنی باہوں سے جواد بھائیی کی گردن کو کس کر پکڑ لیہ ۔ پھر انہوں نے جواد بھائیی کے گھسسوں کا جواب اپنے زوردار گھسسوں سے دیا۔دونوں ایک دوسرے کو پوری طاقت سے گھسصے لگا رہے تھے اور امی جواد بھائیی کے ہونٹوں کو چوس رہیں تھیں ۔
    پھر جواد بھائیی نے امی کی ٹاگین اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور امی کے چوتروں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا اور امی کے اوپر آکر امی کو چودنے لگے ،اس ترہان چودائیی سے امی کے گھوٹنے امی کی گردن کے پاس تک گیے۔ اور جواد بھائیی کا لنڈ امی کی چھوت میں پورا آ جا رہا تھا ۔۔ کوئیی دس منت کی چودائیی میں امی تو فارغ ہو گیئیں لیکن جواد بھائیی کا مست لنڈ امی کی پھددی کو پڑھتا رہا ۔۔ پھر جواد بھی نکلنے کے قریب ہو گیے ،تو انہوں نے اپنا اپنا لنڈ امی کی چھوت سے نکل لیہ اور امی کے مون میں ڈال دیا اور امی کے مون میں چوٹ گیے ۔ اپنی اک کی منی کا ایک ایک قطرہ پی گیئیں ۔
    جواد بھائیی تھک کر امی کے ساتھ ہی لیت گیے اور امی بھی ان کے ساتھ لیت گیئیں۔
    فرح کے اسکول سے واپس انے کا ٹائیم ہو گیا تھا ۔ امی نے اٹھ کر ووہی لباس پہن لیہ اور جواد بھائیی نے بھی کپڑے پہن لیہ ۔دونوں باہر صحن میں اکر بیٹھ گیے۔
    آسمان پر پھر گہرے بادلوں سے بھر گیا تھا،
    امی بولیں ؛؛؛ جواد اگر بارش ہو گی تو فرح کیسے گھر یہی گی۔وہ تو چھتری بھی نہیں لے کر گیی ہے۔
    جواد بولے ؛؛ انکل جمال تو ہیں اس کے لیہ وہ اس کو چھوڑ جائییں گے؛
    اتنے میں تیز بارش شروع ہو گیی ۔ وہ دونوں اندر اگیعے۔
    جواد بھائیی نے امی کو پھر پکڑ لیہ ،
    امی؛؛ جواد اب نا تنگ کرو، فرح انے والی ہو گی
    جواد؛؛ تو کیا ہوا ، کیا تم سمجھتی ہو کے فرح کو تمھارے کرتوت کا علم نہیں ہو گا۔
    امی؛؛ پھر بھی میں اس کے سامنے کچھ نہیں کرتی۔
    جواد ؛؛ ہاں وہ بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں کرتی ہو گی۔
    امی؛ کیا بکواس کر رہے ہو تم ، وہ میری بیتی ہے؛
    جواد بھائیی بولے ؛؛ کیا پتا کس کی ہے وہ
    امی غصّے سے بولیں ؛؛ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے مجھے
    جواد بھائیی ہنستے ہووے بولے؛؛؛رنڈی
    امی بولیں؛؛ اپنے گھر کی بھی تم کو کوئیی خبر ہے ؛؛
    اب جواد بھائیی بھی غصّے میں بولے؛؛کٹیا تو اپنے گھر میں کیا کیا کرتی ہے مجھ کو سب معلوم ہے۔قمے کے باپ ، بابا فضل ، خالد کے دوست کا بھائیی اور اس کے ابا ،رمضان دودھ والا ، اور پتا نہیں کون کون ہیں انکل جمال کے علاوہ جو تجھ کو چود چکے ہیں۔اوپر سے فرح بھی کوئیی کم رنڈی نہیں ہے ،محلے کے دسیوں مردوں سے مزے لیتی ہے۔
    امی نے اب کوئیی جواب نہیں دیا اور خاموش رہیں۔
    میں یہ سب سن کے حیران ہو گیا ۔ فرح بھی ایسی ہے یہ مجھ کو آج پتا چلا ۔۔جواد بھائیی جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
    بارش تیز ہو گیی تھی، اتنے میں گھنٹی بجی ، جواد بھائیی نے دروازہ کھولا تو فرح بھاگتی هوئی اندر آگیی۔ وہ پوری ترہان بھیگی هوئی تھی ۔
    فرح ؛؛ جواد بھائیی سلام
    جواد بھائیی نے جواب دیا مگر ان کی نظریں فرح کے جسم کا تعف کر رہیں تھیں
    فرح نے اپنا دوپٹتا اتار کر امی کے بستر پر پھینک دیا تو اسکے سفید رنگ کے چست لباس میں سے اس کا سارا بدن نظر انے لگا۔
    امی بولیں ؛؛ فرح تم باورچی خانے میں جا کر کھانا گرم کر کے کھا لو اور خالد کو بھی بولالینا۔
    پھر امی نے جواد بھائیی سے کہا؛ جواد ہم اوپر جمال کے کمرے میں چلتے ہیں
    میں ڈر گیا کے اوپر اگر جواد بھائیی نے مجھے نا پایا تو مجھ کو مارین
    گے۔ میں نے دیکھا کے جب فرح آی تھی تو جواد بھائیی نے باہر کا دروازہ بند نہیں کیا تھا ، میں موقعہ دیکھ کر باہر آیا اور پھر واپس گھر میں آگیا ۔ اور پھر امی کے کمرے میں آگیا
    جواد بھائیی مجھ کے دیکھ کر بولے ؛؛ لو خالد بھی آگیا ہے اور میں اب اوپر جا رہا ہوں اور انٹی آپ فرح کو که دو کے مرے لیہ بھی کھانا بنا لے۔
    امی نے فرح کو کہا ؛؛ فرح آج خالد کا دوست بھی کھانا یہیں کھاۓ گا
    ہمارا کچن برآمدے میں تھا ایک باہر کی دیوار تھی،دوسری طرف غسل خانے کی دیوار اور تیسری طرف میرا اور فرح کے کمرے کی دیوار تھی ۔ اور ایک طرف کوئیی دیوار نہیں تھی اس لیہ جو بھی کچن میں ہوتا تھا سب کو نظر اتا تھا۔
    فرح کچن میں جا کر روٹیاں پکانے لگی موھڑے پر بیٹھ کر ،انہوں نے اپنی آستینوں کو چڑھا لیہ تھا اور اپنی شلوار کے پوہچوں کو بھی گھوٹنوں تک چڑھا لیہ تھا۔۔ کم گھیرکی شلوار ،چھوٹی قمیض ،کھلا دامن میں فرح کے مممے اور چوتر بوہت نومیان ہو رہے تھے ،اس کے جسم کا ہر حصّہ کسی کو بھی پاگل کر دینے کے لیہ کافی تھا۔
    امی غسل خانے میں چلیں گیئیں ،امی کے جانے کے بعد جواد بھائیی برآمدے میں اکر کھڑے ہو گیے اور فرح سے ہلکی آواز میں باتیں کرنے لگے۔۔ میں صرف اتنا ہی سن سکا جو فرح نے جواد بھائیی کو کہا کے آپ جب امی سے بات کرلیں تو مجھے اشارہ کر دینا ۔۔ یہ موبائیل پر بل دیدینا ۔پھر جب میری امی نیچے اجایں گی تو میں اوپر آجاؤں گی۔
    امی نہانے کے بعد غسل خانے سے نکلیں تو جواد بھائیی نے ان کو اوپر چلنے کا اشارہ کیا جس پر امی نے سر ہلا دیا تو جواد بھائیی اوپر جمال انکل کے کمرے میں چلے گیے
    پھر امی بولیں ؛؛ خالد جب فرح کھانا بنا لے تو تم اوپر اکر دیدینا
    اور خود اوپر چلی گیں۔ میں فرح کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔
    میں بولا؛؛ فرح تم کو جواد بھائیی کیسے لگتے ہیں
    فرح بولی؛؛ مجھے تو ٹھیکہ لگتے ہیں اور تم یہ کیوں پوچ رہے ہو؛
    میں گڑبڑا گیا اور بولا؛؛ کچھ نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں، کیوں کے یہ تو انکل جمال کے دوست ہیں پھر جب انکل گھر پر نہیں ہوتے تو وہ کیوں اتے ہیں ، اور امی ان کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہیں
    اور دیکھو کے اب امی نے اپنے بالوں پر تولیہ لپیٹا ہوا تھا اور دریسسنگ گوں پہنا ہوا تھا اور وو اسی لباس میں اوپر چلیں گیئیں۔
    فرح بولی ؛؛ تم تو پاگل ہو ، کچھ نہیں ہوتا امی کے اوپر جانے میں ، جواد بھائیی امی سے بوہت چھوٹے ہیں۔ اور تم اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔

    میں چپ چاپ فرح کی باتیں سنتا رہا
    فرح بولی؛؛ تم دو منت یہاں بیٹھو میں کپڑے بادل کر اتی ہوں ، پھر تم کھانا اوپر دے انا۔
    جب وو واپس آی تو اس نے باریک لوں کی قمیض اور کپری پہنی هوئی تھی ،جس میں سے اس کی کالی برا اور لال جانگیا صاف نظر آرہا تھا۔
    فرح نے مجھے کھانا دے انے کو کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کے امی کو جلدی نیچے لے انا
    میں جلدی سے اوپر چلا گیا اور انکل جمال کے روم میں جا کر جواد بھائیی کا کھانا ان کے دے دیا۔امی اور جواد بھائیی باتیں کر رہے تھے ؛ امی صوفے پربیٹھی تھیں اور جواد بھائیی ان کے ساتھ قالین پر نیچے بیٹھے تھے، امی کے پاؤں میز پر تہے اور جواد بھائیی اس میز کے ساتھ تھے ۔
    میں نے امی کو کہا کے فرح اپ کو بولا رہی ہے ، امی نے کہا ٹھیکہ ہے تم چلو میں اتی ہوں
    جواد بھائیی بولے ؛؛ انٹی تم نے جانا ہے تو جاؤ، میں اب سونے لگا ہوں ،بس کھانا کہ کر آرام کر لوں گا
    امی اٹھیں اور مرے ساتھ نیچے آگیئیں اور اپنے بستر لیت گیئیں ،وہ رات کو بھی اچھی ترہان نہیں سوی تھیں اور دن کو بھی آرام نہیں کیا تھا،بسترپر لیتے ہی ان کو نیند آگیی
    فرح بار بار اپنے موبایل کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر ایک گھنٹی بجی
    فرح نے میری طرف دیکھا اور کہا ؛؛ خالد میں نے انکل جمال کے کومپوترپر اسکول کا کام کرنا ہے۔تم ادھر ہی رہنا
    میں سمجھ رہا تھا کے اب میری بہن کی باری ہے
    فرح کے اوپر جانے کے کچھ ہی دیر کے بعد جواد بھائیی نیچے ایے
    اور مجھ سے کہا ؛؛ خالد تم اوپر مت انا
    میں بولا ؛؛ اچھا
    پھر وہ اوپر چلے گیے
    میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر میں بھی اوپر چلا گیا اور دیکھا کے
    فرح انکل کے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔ جواد بھائیی اس کے پاس کھڑے تھے
    پھر فرح کھڑی ہو گیی اور جواد بھائیی سے بولی؛؛ جواد تم میرا ایک کم کر دو گے؛؛
    جواد بھائیی نے پوچھا کیا ؛؛
    فرح ؛؛ قمر مجھے تنگ کرتا ہے ۔ میرا باہر جانا مشکل ہو گیا ہے
    جواد بھائیی نے شیخی ماری اور بولے ؛؛ فرح جی اس مادر چود کو میں تمھارے سامنے ماروں گا ، اسکی بہن ماریہ کی سب سے سامنے بے عزتی کر دوں گا ۔ تم فکر نا کرو ، بس تم ایک دفع میرا اس سے ٹاکرا کروا دو پھر دیکھو میں تمھارے لیہ کیا کیا کر سکتا ہوں
    فرح بولی؛؛ مجھے معلوم ہے کے تم نڈر ہو
    جواد بھائیی بولے؛؛ تم مرے ساتھ رہو میں سب ٹھیک کر دوں گا
    فرح ؛؛ جواد میں تمھارے ساتھ ہوں ، بس تم میرا یہ کم کر دو ، ہم دونوں اچھے دوست ثابت ہوں گے
    جواد بھائیی بولے ؛؛ قسم سے ،، اور فرح کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگے
    فرح نے کسی قسم کے غصّے کا اظہار نہیں کیا بلکے جواد بھائیی کو بڑھاوا دیتی رہیں ۔
    فرح نے جواد بھائیی کو بولا ؛؛ جواد تمہاری باڈی بوہت ورزشی ہے ، کیا تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو
    جواد بھائیی بولے ؛؛ ہاں میں نے جم جوئییں کیا ہوا ہے
    جواد بھائیی بولے؛؛ فرح تم بھی بوہت خوبصورت جسم کی مالک ہو
    اور تماری باڈی کسی موڈل سے کم اچھی نہیں ہے
    فرح ؛؛ مجھے موڈل بنے کا بوہت شوق ہے اور میں روز اپنےآپ کو شیشے میں دیکھتی ہوں اور اداکاری کرتی ہوں جیسے کوئیی موڈل کرتی ہے
    جواد بھائیی بولے ؛؛ فرح میرا ایک فوٹوگرافر جاننے والا ہے ، اور اس کا ایک سٹوڈیو بھی ہے۔ اگر تو چاہو تو میں اس سے بات کر لیتا ہوں ،وہ تمہارا فوٹو سیشن کر لے گا ۔
    فرح ؛؛ پر امی نہیں مانے گیں
    جواد بھائیی ؛؛ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا
    فرح بولی ؛؛ وہ کیسے
    جواد بھائیی ؛؛ تم اسکول سے واپس اتے ہووے ،ہر روز ایک گھنٹہ اس کے سٹوڈیو میں آجایا کرو۔ اور امی کو کہ دینا کے اسکول میں زیادہ کلاسس ہوتیں ہیں
    فرح بولی ؛؛ اسکول میں خالد بھی ہوتا ہے ،وہ امی کو بتا دے گا
    جواد بھائیی بولے؛؛ خالد کی تم فکر نا کرو میں اس کو دیکھ لوں گا
    اور اگر وہ نا مانہ تو ایک اور راستہ ہے مرے پاس مگر اس کے لیہ تم کو تھوڑا بہادر بانہ ہو گا
    فرح بولی ؛؛ وہ کیا راستہ ہے جواد
    جواد بھائیی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ؛؛؛ تم سن نہیں سکو گی ،تمہری امی کے مطالق ہے ، اور تم شاید اسے جھوٹ سمجھو۔
    اگر تم ہمت کرو تو تمہاری امی ایک سکنڈ میں ماں جیئیں گی
    فرح بولی ؛؛ جواد صاف صاف بات کرو ، میں موڈل بننے کے لیہ کچھ بھی کر سکتی ہوں
    جواد بھائیی فرح کو پکّا کر رہے تھے ۔ان کی خواہشوں کو ہوا دے رہے تھے
    جواد بولے ؛؛ یار تم ایک موکمّل موڈل ہو اور تم میں ہر وو بات ہے جو ایک اچھی موڈل میں ہو سکتی ہے
    فرح بوہت خوش هوئی جواد بھائیی کی باتیں سن کر اور وہ کھڑی ہو گیی
    اور بولی ؛؛ جواد تم کتنے اچھے ہو ، گھر میں تو سب مجھ کو پاگل سمجھتے ہیں۔لیکن ان کیا پتا میں اس دنیا میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
    فرح اور جواد بھائیی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور فرح اس دوران جواد بھائیی سے بڑی پیار سے باتیں اور ان کے ساتھ چپٹی رہی جواد بھائیی بولے ؛؛ کل تمہاری امی نے بازار جانا ہے ، وہ انکل جمال کے ساتھ جایں گیں ، کیا تم بھی جاؤ گی
    فرح بولی ؛؛ نہیں وہ جب بازار جاتیں ہیں تو مجھ کو نہیں لیکر جاتیں
    جواد بھی بولے ؛ پھر کل دوپہر کو میں آجاؤں گا۔ میرا دوست ہے ایک جس کے پاس کیمرہ ہے ۔ اس سے تمہاری فوٹو کھچوں گا
    فرح بولی ؛؛ ٹھیک ہے ۔اب میں نیچے جا رہی ہوں
    جواد بھائیی کھڑے ہو کر بولے ۔۔اچھا
    اور فرح کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ،فرح نے بھی ان کے ہاتھ کو دبا دیا
    جواد بھائیی بولے ؛؛ فرح تم بوہت خوبصورت ہو اور تمہارا جسم بھی
    فرح مسکراتے ہووے بولی ؛؛؛ کل جب تم میری تصویریں بناؤ گے تو میں دیکھون گی کے میں کیسی ہوں
    مجھے یوں لگتا تھا کے فرح نے جواد بھائیی کو قابو کر لیہ ہے اور وہ ان سے کوئیی خاص کم لینا چھتیں ہیں،اور جواد بھائیی یہ تو الو بن رہے ہیں یا وہ امی کی ترہان فرح کی چھوت کے مزے لینا چاہتے ہیں ۔
    میں نیچے چلا آیا اور امی کے روم جھانکا تو امی الٹی لیتے ہووے اپنے چوتر دبا رہیں تھیں
    میں نے امی سے پوچھا؛؛ امی جان اپ کو کیا ہوا ہے
    امی بولیں ؛؛خالد میری کمر میں درد ہو رہا ہے۔ میں غسل خانے میں پسل گیی تھی۔
    میں بولا؛؛ کیا میں دبا دوں
    امی بولیں ؛؛ نہیں ، بس تو مجھے کھڑا ہونے میں مدد کر دے
    میں نے فورن امی کو ان کے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اس عمل میں میرا بیٹھا ہوا امی کے چوتروں کو لگا تو مرے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا ۔ امی اٹھ کر چلیں تو وہ اپنی ٹاگین کھول کر چل رہیں تھیں، اتنے میں فرح بھی خوش خوش کمرے میں آگیی
    امی فرح کو بولیں ؛؛ تو کہاں سے آرہی ہے بن ٹھن کے
    فرح غصّے سے بولی ؛؛ امی میں نے کبھی آپکو پوچھا ہے کے اپ کیا کیا کرتیں ہیں
    امی بولیں ؛؛ کیا بول رہی ہے تو ، تیری زبان بوہت چلنے لگی ہے ، مجھ کو سب معلوم ہیں تیرے کرتوت
    فرح بولی ؛؛ میں بھی جانتیں ہوں سب کچھ اپ کے بارے میں ، میرا مونہ مت کھولویں تو اچھا ہے۔
    امی غصّے سے بولیں ؛؛ الینے دے تیرے باپ کو ، میں ان سے تیری تھوکائیی کرواتی ہوں اور تیرے یاروں کی بھی
    فرح بولی؛؛ ہاں ہاں آپ بھی بتانا اور میں بھی بتاؤں گی آپکے لچھن اور اپ کے کرتوت جو اپ کرتی ہو
    امی اب ٹھنڈی آواز میں بولیں؛؛ فرح شرم کرو کوئیی بیٹی اپنی ماں سے ایسے بولتی ہے۔ اچھا مجھے معاف کر دے ،تو تو بوہت سونی لڑکی ہے ۔
    پھر امی نے مجھے باہر جانے کو کہا اور میں کمرے سے نکل گیا
    امی مرے نکلتے ہی فرح پر برس پڑیں اور اسے کہا کے خالد کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو
    فرح غصّے میں اپنے کمرے آگیی ۔
    شام ہو چکی تھی امی بھی کپڑے بدل کر باہر صحن میں اکر بیٹھ گیئیں۔
    امی نے صحن کا دروازہ کھلا رکھا تھا اور وو کسی کا انتظار کر رہی تھیں ۔ اتنے میں ماریہ باجی جن کی عمر کوئیی تیس سال کی ہو گی ہمارے گھر میں آگیئیں۔ ماریہ باجی امی کی خاص دوست تھیں۔ اور امی سے کافی بے تکلّف تھیں۔ وہ اپنے بھائیی نظام اور اپنی بھابی شانی کے ساتھ ہمارے محلے میں ہی رہتیں ہیں۔ان کا کردار کوئیی اچھا نا تھا۔ ان کی شادی نہیں هوئی تھی مگر ان کے چرچے اسلام آباد میں بھی مشور تھے ۔کو ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھیں۔ اور وہ ہزارہ کی رہنے ولین تھیں۔
    خیر وہ امی کے پاس اکر بیٹھ گیئیں اور بولیں ؛؛ پروین کیا بات ہے بڑی خوش نظر آرہی ہو کیا بھائیی صاحب اگائییں ہیں۔
    امی بولیں ؛؛ نہیں ماریہ ایسی کوئیی بات نہیں
    ماریہ باجی بولیں ؛؛یا کھلے کھلے سے گیسو یہ اڑی اڑی سی رنگت
    امی بولیں ؛؛ کچھ نیا نہیں ہوا ہے۔ تم بتاؤ تمھارے عاشق الطاف کا کیا حال ہے۔
    ماریہ باجی بولیں ؛؛ وہیں سے آرہی ہوں ، مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور میں نے اس سے لیں ہیں۔
    امی نے کہا ؛؛ کتنے لئیے
    ماریہ باجی بولیں ؛؛ پانچ ہزار، اچھا تم نے فلم دیکھنے چلنا ہے

    امی بولیں ؛؛ ہاں چلو میں تیار ہوں
    میرا دل بھی چاہ رہا تھا فلم دیکھنے کو ۔میں نے امی کو کہا کے مجھے بھی ساتھ لے چلیں ۔امی نے منہا کر دیا مگر ماریہ باجی نے کہا ۔پروین لے لو خالد کو بھی اپنے ساتھ ،وو بھی دیکھ لے گا۔
    پھر ہم رکشا پکڑ کر صدر اگیعے ۔ ماریہ باجی نے ٹکٹ لیہ ۔ہال تقریباں خالی تھا۔ہم گلیری میں جا کر بیٹھ گیے ،ابھی فلم شروع نہیں هوئی تھی۔ہال میں بوہت سیٹ خالی تین ۔ہماری والی لین تو بلکل خالی تھی۔امی پہلے پھر ماریہ باجی اور پھر میں بیٹھا تھا۔ ہم ایک کونے میں بیٹھے تھے ۔
    ماریہ باجی نے ٹکٹ خریدے نہیں تھے ان ایک بڑی بڑی موچھوں والے ایک آدمی نے ٹکٹ دیے تھے ۔
    امی نے ماریہ باجی سے پوچھا ؛؛ ماریہ یہ آدمی کون تھا جس نے تم کو ٹکٹ دییں ہیں۔
    ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین یہ میرا ایک دوست ہیں جو میری موحبّت
    میں پاگل ہے ۔اور یہ مرے بھائیی کا دوست بھی ہے اور ہمارے گھر اس کا انا جانا ہے۔ ایک شادی شدہ آدمی ہے لیکن اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے۔اس لیہ میں اس کا بوہت خیال کرتی ہوں اور یہ میرا بھی اتنا ہی خیال رکھتا ہے۔(اور پھر امی کے کان کے پاس ،ہلکی آواز میں بولیں کے یہ بھی ہمارے ساتھ فلم دیکھے گا۔)
    امی بولیں ؛؛ ٹھیکہ ہے ، کیا یہ مال دار آدمی ہے
    ماریہ باجی بولیں ؛؛؛ ہاں بوہت مال دار ہے ۔ اس کی ایک مارکٹ ، اور چار گھر ہیں اور یہ سینما بھی اس کا ہے ۔ تم کو ابھی پتا چل جایے گا جب وہ ہماری خاطر اور مدارات کرے گا۔
    سنیما ہال میں بوہت کم لوگ تھے ،ہمارے آگے اور پیچھے کی دو دو لینن خالی تھیں۔
    اتنے میں ایک آدمی اکر ہممے کھانے پینے کی چیزیں دے گیا۔
    پھر فلم شروع ہو گیی اور ہم سب کھاتے ہووے فلم دیکھنے لگے
    مجھے فلم نظر نہیں آرہی تھی اس لیہ میں امی اور ماریہ باجی کے درمیان والی سیٹ پر آگیا
    امی اور ماریہ باجی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھ لیں تھیں
    پھر وو آدمی جس نے ماریہ باجی کو ٹکٹ دیے تھے آیا اور امی اور ماریہ باجی کو سلام کیا اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔
    ماریہ باجی نے ہمارا تعارف کروایا ۔ اس کا نام شاہ صاحب تھا اور ماریہ ان کو شاہ جی که کر موخاطب کر رہیں تھیں
    ماریا اور شاہ جی باتیں کرتے رہے اور ان کی باتوں سے میں ڈسٹرب ہو رہا تھا۔ میں نے ماریہ باجی سے کہا کے اپ امی کے ساتھ بیٹھ جائییں اور انہوں نے فورن اٹھ کر اپنی سیٹ بدل لی ،اب میں امی کے ساتھ اور شاہ جی امی اور ماریہ باجی کے درمیان میں تھے ۔ امی اور ماریہ باجی نے بدستور اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھیں هوئی تھیں اور شلواروں کے پونچھے ان کے گھوٹنوں تک ننگے تھے ۔
    تھوڑی سے فلم دیکھنے کے بعد میں نے ماریہ باجی کی طرف چھوڑ نظروں سے دیکھا تو وہ شاہ جی کو پیار کر رہیں تھیں
    اور امی کن انکھیوں سے ان کو دیکھ رہیں تھیں
    امی بولیں ؛؛ ماریہ ذرا خیال سے خالد ساتھ ہے
    ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین تم ذرا اپنی کمر ہماری طرف کر لو تاکے خالد کو کچھ نظر نا ایے
    امی نے اپنا مونہ میری طرف موڑ لیہ اور اپنی پشت شاہ جی کی طرف کرلی اور سیٹوں کے درمیان جو ہاتھ رکھنے والی جگہ (ہنڈہولڈر ) اس کو بھی ہٹا دیا اور اس طرح امی کی سیٹ اور شاہ جی کی سیٹ ایک ہی ہو گیی۔ ادھار شاہ جی نے بھی ماریہ باجی والی سیٹ کا ہنڈ ہولڈر ہٹا دیا ۔ ماریہ باجی اور شاہ جی دونوں اپنی اپنی ٹانگیں سیٹ کر اوپر کر کے بیٹھ گیے۔
    میں اور امی فلم دیکھنے میں مگن تھے ۔ شاہ جی اور ماریہ باجی اندھیرے کا فائیدہ اٹھاتے رہے۔
    میں اب ان کو صاف نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکے امی بیچ میں تھیں اور میں کوشش کے باوجود ان دونوں کو دیکھنے میں ناکام رہا۔ بس ان کے باتیں کرنے ،ہسنے کی یہ پھر ماریہ باجی کی ہلکی ہلکی سسکاریاں اور چوما چاٹی کی آوازیں آرہیں تھیں۔
    میرے پاس چپس ختم ہو گیے تو میں نے امی سے کو کہا
    امی بولیں تم میرے چپس میں سے لےلو
    امی نے چپس کا بڑا لفافہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے بیٹھے بھیٹھے اپنا ہاتھ بڑھا کر چپس لیتا رہا۔اندھیرے کی وجہ سے میرا ہاتھ ہر دفع امی کے پیٹ یہ رانوں سے ٹکراتا رہا
    اور لفافے میں سے چپس لے کر کھاتا رہا۔
    پھر فلم اتنی اچھی تھی کے میرا پورا دایھاں فلم پر ہی مذکور رہا ۔
    پھر انٹرول ہوا تو روشنی میں میں نے سب کو دیکھا ، ماریہ باجی ،شاہ جی اور امی ٹھیکہ طرح بیٹھے ہوا نظر ایے
    شاہ جی نے بیرے کو آواز دی تو اس کھانے کی کچھ اور چیزیں ہم کو لا کر دین۔ امی شاہ جی سے بوہت متاثر نظر آتیں تھیں۔
    انٹرول ختم ہو اور میں دیکھا امی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹ پر رکھ لیں اور اپنے چوتر سیٹ سے آگے کر لیہ۔ وہ اب فلم کم دیکھ رہیں تھیں بس ان کی نظریں شاہ جی اور ماریہ باجی پر گھڑی ہوئییں تھیں۔ میں نے بھی ان کو دیکھنے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی وجہ سے کچھ دکھائیی نا دیا ۔
    میں مایوس ہو کر فلم دیکھنے لگا ۔ فلم میں اب مار دھاڑشروع ہو گیی جو مجھے پسند نہیں تھی ۔ یوں لگتا تھا کے فلم اب ختم ہونے والی ہے ۔
    میرا دل چپس کھانے کو چاہا تو میں امی کی گود میں پرے ہووے لفافے میں ہلکے سے ہاتھ ڈالا تو وہاں کسی اور کا ہاتھ تھا۔میں نے فورن اپنا ہاتھ کنچ لیہ ۔اور امی کی طرف آگے ہو کر دیکھا تو امی کی آنکھیں بند تھیں اور شاہ جی اپنے ہاتھ سے امی کی چھوت میں انگلی کر رہے تھے ۔میں نے غور سے دیکھا تو شاہ کا لنڈ ماریہ باجی چوس رہیں تھیں اور شاہ جی ان سے چھپا کر امی سے مستیاں کر رہے تھے۔ میرے اندازے میں شاہ جی کی منی نکل گیی ، کیوں کے اب وہ پورجوشی کا اظھار نہیں کر رہے تھے۔امی کی شلوار گھوٹنوں تک اتری هوئی تھی اور وہ ابھی فارغ نہیں ہوئییں تھیں اس لیہ انہوں نے شاہ جی کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا۔جب ماریہ باجی سیدھی ہویں تو شاہ جی نے اپنا ہاتھ امی کی چھوت پر سے اٹھا لیہ۔ تو میں نے جان کر اپنا ہاتھ امی کی گود میں ڈالا اور ظاہر یہ کیا کے میں چپس لے رہا ہوں۔ میرا ہاتھ سیدھا امی کی ننگے جسم سے ہوتا ہوا ان کی چھوت پر چلا گیا۔
    امی نے گھبرا کر میرا ہاتھ ہٹایا اور اپنی شلوار اوپر کر لی۔
    میں بولا؛؛ امی چپس کہاں ہیں
    امی نے چپ چاپ چپس کا لفافہ مجھے دے دیا ۔
    پھر گھنٹی بجی اور فلم ختم هوئی
    ہم باہر نکلے تو دس بج چکے تھے ، شاہ جی نے پہلے ماریہ باجی کو ان کے گھر چھوڑا پھر ہممے گھر اتارا۔
    گاڑی سے اترتے ہووے شاہ جی بولے ؛؛ کیا اپ کو فلم اچھی لگی
    امی ؛؛ ہاں شاہ جی بوحت مزہ آیا
    شاہ جی بولے ؛؛ اپ سے پھر کب ملاقات ہو گی
    امی مجھے دیکھتے ہووے بولیں ؛؛ کیوں کیا ماریہ آپ کے لیہ کافی نہیں ہے۔
    شاہ جی ۔ سوری ، آپ کو برا لگ کیا
    امی نے مجھے کہا ؛؛ خالد تم اندر جاؤ
    میرے جانے کے بعد امی نے شاہ جی سے کچھ کہا جو مجھے سونائیی نہیں دیا ۔ بس میں نے یہ دیکھا کے شا جی نے امی سے ہاتھ ملایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلے گیے۔
    میں نے چابی سے دروازہ کھولا اور میں اور امی گھر میں داخل ہووے تو فرح اور ہمارے ساتھ والے گھر کی پڑوسن کرن جو عمر میں فرح کے برابر تھی دونوں لوڈو کھیل رہے تھے۔
    فرح بولی ؛؛ آپ لوگوں نے بوحت دیر کر دی
    امی بولیں؛ فلم لمبی تھی ،سدس بجے تو ختم هوئی تھی
    فرح ؛؛ امی انکل جمال گوجر خان گیے ہیں ،وو آج گھر نہیں آییں گے ۔
    امی کے چہرے پر اداسی چاہ گیی۔۔ اچھا ، تم نے کھانا کھایا کیا ۔
    فرح ؛؛ جی
    میں بولا ؛؛ مجھے تو بھوک نہیں ہے
    امی بولیں ؛؛ میں نے بھی کھانا نہیں کھانا ہے۔
    فرح بولی ؛؛ امی کرن کے گھر آج اس کی امی اکیلی ہیں ، اور انہوں نے مجھے بولایا ہے کرن کے ساتھ سونے کو ۔ میں آج رات کو اس کے گھر جاؤں گی۔ اور یہ کہ کر فرح اور کرن چلیں گیئیں۔
    امی میرے ساتھ اپنے کمرے میں آگیئیں
    امی مجھ سے نظریں نہیں ملا رہی تھیں ۔ اور ان کا چہرہ بھی پیلا ہوگیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کے ایسا کیوں ہے ، میں نے ان کی چوری پکڑ لی تھی اور وہ میری طرف سے پریشاں تھیں
    میں اپنے کمرے چلا گیا اور کپڑے تبدیل کیے ۔ گرمیوں کے دن تھے اور حبس بھی ہو گیا تھا ۔ میں نے نیکر اور بنیان پہن لی اور برآمدے میں آگیا ۔ امی نے بھی کالے رنگ کی کوٹن کی باریک نائیٹی پہن لی تھی اور ٹی وی دیکھ رہیں تھیں۔ اتنے میں امی کے موبائیل کی بل بجی۔
    امی نے فون اٹھایا اور بولیں ؛؛اسسلام علیکم
    پھر بولیں ؛؛ شاہ جی کیا ہال ہیں-- اچھا آپ پونچھ گیے ہیں -- کیوں دل نہیں لگتا --- مجھ میں ایسا کیا ہے--- کیا ماریہ سے بھی زیادہ --- تو میں کیا کروں---- میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے ہیں---- تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کے میں صرف ایک دوست بناتی ہوں اور شراکت مجھے پسند نہیں ہے۔----- شاہ جی آپ مرہ بات کا برا نہیں ماننا --- میرے دیور میرے ساتھ رہتے ہیں ۔۔۔۔ جی---- آپ مجھے مجبور نا کریں------شاہ جی ابھی تو میں تھک گیی ہوں ،ہم کل بات کریں گے ۔۔۔ جی مورننگ میں میں گھر پر ہوتیں ہوں --- جی کل کر لیں کسی وقت بھی -- اوکے الله حافظ۔اور پیسوں کا شکریہ ۔
    ( یہ امی کی باتیں تھیں ، مجھے شاہ جی کی آواز نہیں آرہی تھی)
    پھر میں امی کے روم میں اکر ٹی وی دیکھنے لگا۔
    امی نے مجھے اپنے پاس بولایا اور کہا ؛؛ خالد تمہاری اسٹڈی کیسی چل رہی ہے۔
    میں بولا ؛؛ امی جان ٹھیک چل رہی ہے۔
    امی بولیں ؛؛ تم کو اب جیب خرچ کم پڑتا ہو گا
    میں بولا ؛؛ ہاں کم تو پڑتا ہے
    امی بولیں ؛؛؛ جا میرا الماری سے میرا پرس نکل لا
    میں امی کی الماری سے ان کا پرس کو نکل کر ان کو دیا ۔تو انہوں نے مجھے ایک ہزار روپے دئییے۔ میں نے خوسی سے وہ ان سے لے لیے۔
    پھر امی نے مجھے پیار کیا اور کہا ؛؛ تو میرا چاند بیٹا ہے ؛
    اور مجھے تجھ پر بڑا مان ہے۔ تو اپنی امی کا بوحت خیال رکھتا ہے۔ اور تجھے جب پیسوں کی ضرورت پڑے تو مجھ سے پوچھے بھغیر میرے پرس سے لے سکتا ہے۔

    میں نے امی کو کہا ؛؛ امی آپ بوحت اچھی ہیں ۔
    امی کے دل کو اب ذرا اطمنان ہو تھا ۔اور اب وہ آرام سے باتیں کر رہیں تھیں
    ختم شُد

  • #2
    Bohat hi behtreen aur shandar story hai continue rakhey

    Comment


    • #3
      بہترین اور شہوت انگیز تحریر

      Comment


      • #4
        انتہائی شہوت انگیز کہانی تھی جناب

        Comment


        • #5
          انتہائی گرم اور شہوت انگیز مزہ آ گیا زبردست اسٹوری ہے

          Comment


          • #6
            Bohat shandar story hy

            Comment


            • #7
              بہت ۔۔۔ بہت ۔۔۔ بہت گرم تحریر ہے۔۔۔ گھر کے سب افراد چدائی کا پورا مزہ دیتے اور لیتے ہیں ۔۔۔ اگر خالد کو بھی چدائی کا مزہ مل جاتا تو مز۔۔ مز۔۔ مزہ آ جاتا۔۔۔ لاجواب ۔۔۔ بہترین ۔۔۔ زبردست ۔۔۔ عمدہ ۔۔۔

              Comment


              • #8
                Bahut hi behtareen kahani thi maza aa geya parrh kar

                Comment


                • #9
                  بہت ہی جاندار کہانی تھی۔ کہانی کو یہاں ختم نہیں ہونا چاہیے۔فرح کو ماڈل بننا چاہیے اور اسکے بھی کو اُسکا دلال۔

                  Comment


                  • #10
                    Uff boht garam or shehwat sa bharpor kahani maa khoob garam ha or boht maze kar rahi ha

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X