Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سرفروش 4 ۔ مشن چائنا ۔۔ از قلم ہارڈ ٹارگٹ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت اعلیٰ انتہائی گرم اور شہوت انگیز مزہ آ گیا ایکشن اور سیکس کا مزہ آگیا

    Comment


    • آگ لگا دی سکس سینز نے جسم میں

      Comment


      • سرفروش 4۔ آخری قسط



        حصہ اول







        شیانگ کو اچھے سے سیر یاب کر کے میں اٹھ کھڑا ہوا ۔۔شیانگ نے مجھ سے ملنے کے وعدے ۔۔محبت کے دعوے ۔۔۔چاہت کی ساری قسمیں کھائیں ۔۔۔اور ہمیشہ ساتھ رہنے اور وفادار رہنے کی آرزو ۔۔۔میں کچھ دیر اسے سنتا رہا ۔۔۔عور ت اس کائنات کا حقیقی حسن ہے ۔۔۔۔بےشمار دولت ، طاقت ہونے کے بعد بھی اس کی ایک اچھے ہمسفر کے ساتھ باقی ماندہ عمر گذارنے کی خواہش زندہ تھی ۔۔جو اس خدائی نعمت کی سادہ دلی اور خوب سیرتی کی دلیل تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر اس کے حسین جسم سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔۔۔اور پھر اپنے اگلے مشن کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔

        ایک بار پھر باتھ لے کر فریش ہوگیا۔۔۔۔میرے بعد شیانگ بھی تیار ہونے چلی گئی ۔۔۔۔۔میں گھر والے حصے سے نکل کر کلب والے ایریا میں چلا گیا۔۔۔جہاں سان چی اور نورین اس گینگ لیڈر سے مزید تفتیش کررہے تھے ۔۔۔نورین نے اس کے موبائل سے وہ نمبر ز نکال لیے تھے ۔۔۔جہاں سے ہوٹل ڈریگن پر حملے کی معلومات اور کنفرمیشن لی گئی تھی ۔۔۔یہ وہی کپل تھا جو یہاں وانگ سے مل کر اسے میرا ٹارگٹ دینے آیا تھا۔۔۔

        میں نے کچھ سوچا ۔۔۔اور پھرسان چی سے پوچھا کہ اگر میں وانگ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔

        ۔"باس کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔زندہ بولو تو زندہ لے جاؤ ۔۔۔۔ورنہ اس کی لاش جہاں بولو گے پہنچ جائے گی ۔۔۔۔سان چی نے دانت نکالے ۔۔

        میں نے نورین سے کہا کہ فریش ہونا چاہو تو ہو جاؤ ۔۔۔۔ہم عنقریب یہاں سے نکلنے والے ہیں ۔۔۔۔ میں نے سان چی سے کہہ کر کافی منگوائی ۔۔۔۔اور چینگڈو میں آفندی سے رپورٹ لینے لگا۔۔۔

        قریب ایک گھنٹے بعدنورین فریش ہو کر آگئی ۔۔۔اس نے بھی باتھ لے کر اپنا لباس تبدیل کر لیا تھا۔۔۔۔

        ہم کلب کے اوپر مادام شیانگ کے آفس میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔تبھی نیچے ہنگامہ اور شور کی آواز آئی ۔۔۔میں جلدی سے باہر نکلا۔۔۔تو دیکھا نیچے وہی فائٹر تھا۔۔۔جس سے فائنل میں میری ملاقات ہوئی تھی ۔۔۔۔اس نے کاؤنٹر پر ہنگامہ مچا رکھا تھا۔۔۔اور بلند آواز میں میرا نام پکار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔فائٹنگ میں میرا نام پکارا گیا تھا ۔۔وہیں سے اسے پتا چل گیا ہوگا۔۔

        میں نیچے اترنے لگا ۔۔۔تو سان چی نے مجھے روک لیا۔۔۔۔باس آپ یہیں رکیں ۔۔۔میں ابھی اسے باہر پھینکواتا ہوں۔۔۔۔

        میں نے اسے کندھے پر تھپکی دی اوربولا۔۔۔جب اسے باہر پھینکوا سکتے تھے تو فائٹنگ رنگ میں خود مقابلے پر کیوں نہیں اترے ۔۔۔میں دیکھتا ہوں ۔۔۔

        میں اتر کرنیچے کلب کے کاؤنٹر پر آیا۔۔۔ہوٹل کا اسٹاف مجھے دیکھ کر مودب ہوگیا۔۔وکٹر کا اندازکافی جارحانہ تھا۔آنکھیں سرخ تھی۔۔مگر میں نے اس کے قریب پہنچ کر کندھے پر تھپکی دی۔۔۔وکٹر تیزی سی پلٹا ۔۔۔۔اور مجھے دیکھنے کے بعد اس کے چہر ے پر زلزلے کے آثار نمودارہوگئے ۔۔۔۔۔مجھے دیکھ کر وہ ایکدم سے جھکا ۔۔۔اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔اور بولا ۔۔۔"باس آج تک مجھے کسی نے نہیں ہرا یا۔۔۔۔اور اب ہارا ہوں تو آپ کےساتھ رہوں گا ۔۔۔آپ کی مرضی ہے ۔۔۔مجھے اپنے ساتھ رکھیں یا جان سے ماردیں ۔۔۔میں اب اور کہیں نہی جاؤں گا۔۔۔"۔

        میں نے اسے اٹھا تےہوئے کہا۔۔۔۔۔تم اچھے فائٹر ہو ۔۔۔۔بطور فائٹر اپنا کیرئیر جاری رکھ سکتے ہو۔۔۔۔۔میں صرف ایک مسافر ہوں ۔۔۔آج یہاں ہوں ۔۔۔تو کل کہیں اور ہونگا۔۔۔

        مگر وکٹر جو تھوڑا نشے میں بھی لگ رہا تھا۔۔۔پھر سے گڑ گڑانے لگا۔۔۔کہ باس آپ نے میری جان بخشی کی تھی ۔۔۔آپ چاہتے تو میری جان بھی لے سکتے تھے ۔۔۔۔اب یہ جان صرف آپ کے لئے ہی باقی ہے ۔۔۔اگر آپ مجھے اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے تو ۔۔۔میں اپنی جان لے لوں گا۔۔۔۔

        وکٹر کے ارادے خطرناک لگ رہا تھا۔۔۔وہ اس وقت نشے میں فل اموشنل ہوچکاتھا ۔۔۔اور بعید نہیں کہ اپنی جان لینے کی کوشش کر ڈالتا ہے ۔۔۔میں نے اسے اٹھا یا ۔۔۔۔اور گلے سے لگا کر بولا ۔۔۔کہ مجھے اپنا باس سمجھتے ہو تو۔۔۔۔۔پھر میری بات مانو ۔۔۔۔۔ مجھے سفر میں جانا ہے ۔۔۔اور میری جگہ تم اس کلب کے گارڈ کی حیشیت سے یہاں جگہ سمبھالو۔۔۔جب تک میں واپس نہیں آتا ۔۔۔تمہاری ضرورت کی ہر چیز تمہیں یہاں سے ملے گی ۔۔۔

        میری بات پر وکٹر تھوڑا متفق نظر آیا۔۔۔۔میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور کہا کہ جب یہ زندگی میرے نام کرنا چاہ رہے ہو تو اب میری بات بھی رکھو ۔۔۔اور مجھے شرمند ہ نہ کرو ۔۔۔۔

        وکٹر ایک پھر سے گڑگڑایا۔۔۔۔باس میں کیسے آپ کو شرمندہ کرسکتا ہوں ۔۔۔۔۔جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔۔۔۔

        اتنے میں پیچھے سے مادام شیانگ بھی آگئی ۔۔۔اس نے بھی آخری کی ہماری باتیں سنیں ۔۔۔اس کے چہرے پر بھی حیرانگی کے آثار تھے ۔۔۔کہ اتنا خونخوار فائٹر ۔۔۔۔۔اور کس طرح بچوں کی طرح رو رہا ہے ۔۔لیکن شراب نے اسے بہکا رکھا تھا۔۔

        میری بات سن کر وکٹر جو میری بات پر راضی ہوچکا تھا۔۔۔۔اس نے مادام شیانگ کے سامنے جھک کر پوری طرح اپنی اطاعت کایقین دلایا ۔۔۔۔یہ یہاں کے گینگ کا کوئی طریقہ تھا کہ لیڈر کے سامنے جھک کر اسے تعظیم دیں ۔۔۔اور پھر تا عمر اسے پورا کرے ۔۔۔۔۔

        وکٹر کو سان چی اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔۔۔اسے اس کے رہنے کی جگہ دکھائی ۔۔۔اور اسے آرام کر نے کا کہا ۔۔۔۔کہ ابھی آرام کر و ۔۔۔کل سے اپنی ڈیوٹی اسٹارٹ کرنا ۔۔۔۔اسے اب مادام شیانگ کے باڈی گارڈ کی حیثیت سےرہنا تھا۔۔۔اور مجھے امید تھی کہ وہ اپنی ذمہ داری اچھے سے پوری کرے گا۔۔۔۔

        اس چھوٹے سےڈرامے کے بعد ہم اوپر اپنے آفس میں آگئے ۔۔۔۔۔۔شیانگ مجھ سے مزید رہنے کی ضد کررہی تھی ۔۔۔لیکن میں نے اسے مختصر بتادیا کہ چینگڈو میں ایک بہت ہی اہم کام ہے ۔۔۔۔۔وہ لازمی کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس کے بعد دیکھتے ہیں تقدیر کہاں لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔شیانگ نے مجھ سے وعدہ لیا کہ کام ختم ہونے کے بعد ہم ضرور ملیں گے ۔۔۔۔۔

        اتنے میں نورین بھی تیار ہوکر آگئی۔۔۔۔۔۔۔بلٹ پروف جیکٹ اور سامان حرب اتار کر اب وہ ایک حسین دوشیز ہ کے روپ میں تھی ۔۔۔اور سفر کے لئے تیار۔۔۔۔۔

        اتنے میں شیانگ نے کہا کہ آئے اپنے طریقے سے تھے ۔۔۔۔مگر یہاں سے میری مرضی کے مطابق جانا ہے ۔۔۔میں کچھ سمجھا نہیں تھا ۔۔۔اتنے میں شیانگ نے کال کرکے کسی کو کچھ کہا ۔۔۔۔میں نے نورین سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ شیانگ نے اپنا پرائیوٹ جیٹ تیار کرنے کا کہا ۔۔۔میں نے شیانگ کو منع کیا ۔۔کہ اسکی ضرورت نہیں ہے ۔۔ہم جیسے بلٹ ٹرین میں آئے تھے ۔۔۔ویسے ہی چلے جائیں گے ۔۔۔۔مگر شیانگ نہ مانی ۔۔۔۔اس نے نہ صرف پرائیوٹ جیٹ تیار کروایا ۔۔۔بلکہ سان چی کو بھی کہا کہ تم اپنی ٹیم کے ساتھ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ میرے منع کرنے پر سان چی بھی ساتھ ہی شروع ہوگیا کہ باس میں نے آپ کے ساتھ جانا ہے ۔۔۔آپ منع نہ کرو ۔۔۔

        اگلے ڈیڑھ گھنٹے میں ہم پرائیوٹ جیٹ میں بیٹھے چینگڈو کے لئے اڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے میرا پرائیوٹ جیٹ میں بیٹھنے کا تجربہ نہیں تھا۔۔مگر یہ الگ ہی ایکسپیرئنس تھا۔۔۔ ایسے جہاز پر بیٹھنا جہا ں آپ اکیلے ہی مہمان ہو ۔۔۔جہاں پائلٹ جہاز اڑانے سے پہلے آپ سے ملے اور اجاز ت طلب کرے ۔۔۔جہاں ائیر ہوسٹس صرف آپ کی ہی میزبانی کر رہی ہو ۔۔جیسے آپ ہی اس جہاز کے مالک ہو۔۔ وطن کے لئے کام کرتے ہوئے یہ کیفیت بھی میں نے پہلی بار محسوس کی ۔۔۔۔۔کیونکہ ہماری کام کی نوعیت ایسی ہی تھی ۔۔۔کبھی فرش پر تو کبھی عرش پر ۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی قید تو کبھی آزادی ۔۔۔۔کبھی صحت تو کبھی زخمی ہونا ۔۔۔۔وطن کے لئے لڑنا ۔۔۔ایک ایسا نشہ تھا جس کے سارے نشے ہیچ تھے ۔۔۔۔

        نورین اور سان چی اپنی باتوں میں لگے ۔۔۔۔اور میں نے ہلکی سی نیند کا سوچا ۔۔۔۔اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنی سیٹ کو دراز کر چھوٹے بیڈ کی شکل دی ۔۔۔۔اورکچھ دیر کے لئے سو گیا۔۔۔




        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




        میری آنکھ نورین کے اٹھانے پر کھلی ۔۔۔ہم چینگڈو ائر پورٹ پر موجود تھے ۔۔۔یہ ڈومیسٹک فلائٹ والا ٹرمینل تھا۔۔جہاں اس وقت اور کوئی جہا ز موجود نہیں تھا ۔۔۔نیچے اترے تو سامنے ہی آفندی موجود تھا۔۔۔۔میرے ساتھ پوری ٹیم اترتے دیکھ کر وہ تھوڑا حیران ہوا ۔۔۔۔۔باہر لینڈ کروزر ٹائپ کی تین گاڑیوں اور کھڑی تھیں ۔۔۔جو شایدشیانگ نےبھجوائی تھی ۔۔۔

        میں آفندی کے ساتھ اس کی مرسڈیز میں بیٹھا ۔۔۔۔اور ہمارا قافلہ اس کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔سان چی اپنے گروپ کے ساتھ تھا۔سان چی اور اس کی ٹیم مکمل مسلح تھی ۔۔۔۔اور کسی بھی ایکشن میں ہمیں افرادی قوت پہنچا سکتی تھی ۔۔۔۔اسے فی الحال اپنے اندرونی معاملات میں نہیں بٹھایا جاسکتا تھا۔۔۔البتہ نورین ہماری ساتھ ہی تھی ۔۔۔قیدی کو سان چی کی ٹیم نے سمبھال رکھا تھا۔۔۔

        کچھ دیر میں ہم آفندی کے گھر پہنچے ۔۔۔۔۔۔باقی سب کے رہنے کی سیٹنگ کر نے کے بعد آفندی اور میں اس کے بیڈروم کے اندر خفیہ آفس میں آگئے ۔۔۔چائے کے گرما گرم کپ ہمارے ساتھ تھے ۔۔۔۔دنیا میں جہاں بھی چائے پی ۔۔۔اپنی پاکستانی چائے کی ٹکر کی کوئی چیز نہ ملی ۔۔۔اس کی ضرورت ہمیشہ اپنی جگہ محسوس ہوتی رہی ۔۔۔۔

        چائے پیتے ہوئے آفندی نے اپنی تین دن کی مکمل کارگردگی سنادی ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر سمیرا کے موبائل سے ملی ہوئی تصویر کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔۔۔ہریش کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔کہ وہ بھی چینگڈو میں موجود ہے ۔۔۔اور یقینا وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ہی ہوگا۔۔۔۔۔اس کے علاوہ ایک یورپین کپل بھی چینگڈو میں موجود ہے ۔۔جو سو فیصد اسرائیلی ایجنٹس ہیں ۔۔۔

        ابھی ہم انہیں بات چیت میں تھے کہ پتا چلا کہ انسپکٹر لیون اور سب انسپکٹر نینسی بھی آگئے ہیں ۔۔انہیں ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھنے کا کہا۔۔۔اور۔

        میں نے آفندی سے پوچھا کہ آنے والے مہمانوں کی کیا خبر ہے ۔۔۔؟

        ۔"راجہ صاحب ۔۔۔چیف آف آرمی اسٹاف ، ۔۔چیف آف ائیر اسٹاف دونوں آج شام پہنچ جائیں گے ۔۔۔۔ان کے ساتھ ملٹری انٹیلی جنس کے لوگ اور اسٹاف کے لوگ ہوں گے ۔۔۔۔۔جو ان کی حفاظت کے لئے ساتھ رہیں گے ۔۔۔اس کے علاوہ چائینز ہائی کمانڈ کے تمام لوگ کل اس آزمائشی پرواز میں مہمان ہوں گے ۔۔۔۔۔۔یہ ملٹری ائیر بیس میں نئے فائٹر جیٹ کی تقریب میں شامل ہوں گے ۔۔۔ائیر بیس کی تمام سیکورٹی چائینز ملٹری انٹیلی جنس دیکھ ہی رہی ہے ۔۔ان کے چیف کرنل شاؤ ہم سے رابطے میں رہیں گے ۔۔سیکورٹی کے معاملات کو ہم ڈسکس کر سکتے ہیں ۔۔۔آفندی نے مکمل تفصیل بتائی ۔

        اور پاکیشیا سیکرٹ سروس سے بھی کوئی آرہا ہے ۔۔۔۔۔؟ میں نے آفند ی سے پوچھا۔۔

        ۔" راجہ صاحب پاکیشیا سیکرٹ سروس کی طرف سے بھی کوئی نہ کوئ مہمان آرہا ہے ۔۔۔۔۔مگر اس کا ٹریولنگ پلان اور تمام تفصیل انتہائی خفیہ ہے ۔۔۔ابھی تک نہ مجھے کوئی اطلاع دی گئی ہے ۔۔اور نہ ہی آفیشل طریقے سے کچھ بتایا گیا ہے ۔۔۔آفندی نے کہا۔

        ہمم ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔اور سوچ میں پڑ گیا۔۔ہمارے پاس آج کی رات تھی ۔۔۔اور دشمن فی الحال ہم سے دور تھے ۔۔لیکن جال بچھ چکا تھا۔۔۔اب بس شکار پر حملہ کرنا تھا۔۔آفندی نے بتایا کہ اس نے لیب کے باہر بھی ایک بندہ پہرے پر لگایا تھا۔۔۔مگر وہاں سے کلئیرنس مل گئی ہے ۔۔۔۔ڈاکٹر سمیرا کا کسی بندے کے ساتھ رابطہ نہیں تھا۔۔۔۔

        میں اور آفندی باہر آگئے جہاں ڈرائنگ روم میں ایک دلچسپ صورتحال ہماری منتظر تھی ۔۔۔

        ایک طرف صوفے پر نورین اور سان چی بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ان کے سامنے انسپکٹر لیون اور نینسی بیٹھے تھے ۔۔۔۔مضحکہ خیز صورتحال یہ تھی کہ سان چی اور انسپکٹر لیون ایکدوسرے کو بیٹھے طیش بھری نظروں سے گھور رہےتھے۔۔۔۔ظاہر سی بات تھی ۔۔۔ایک قانون تھا۔۔۔اور ایک جرم ۔۔۔۔۔ایک چو ر ۔۔۔اور ایک سپاہی ۔۔۔

        ہم ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے تو انسپکٹر لیون کافی گرم جوشی سے ملا ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر حیرت کےآثار تھے ۔مکاؤ کے سب سے بڑے گینگ مادام شیانگ کا سیکنڈ ہینڈ اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔اور مجھے باس کی طرح کی تعظیم دے رہاتھا۔۔۔ لیون اور نینسی سے ہاتھ ملا کر میں وہیں بیٹھ گیا۔۔۔نینسی کی نگاہوں میں آفندی کو دیکھ کر مٹھا س سی آگئی ۔۔۔لگتا ہے کہ دونوں کوئی میدان مار چکے تھے ۔۔۔

        سان چی مجھے بیٹھتا دیکھ کرپیچھے مودب انداز میں کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ڈرائنگ روم میں بھی وہ مسلح تھا۔۔۔۔

        مکاؤ جانے کا فیصلہ میرا اور آفندی کااپنا تھا۔۔۔لیون کو اس کے بارے میں بعد میں پتا چلا تھا۔۔۔اور وہ اس وزٹ کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔۔مگر میں نے پہلے ہی بات گھما کر اس سے اس کی مہم پوچھ لی۔۔۔اس نے میرے سامنے ایک فائل کھول لی ۔۔۔اس میں غیر قانون طریقے سے چینگڈو میں داخل ہونے والے وہ تمام لوگوں کی تصویریں تھیں ۔۔۔۔ان میں سے دو تو ہوٹل ڈریگن میں آفندی کی اسنائپر سے مارے گئے تھے ۔۔۔۔باقی میں سے ایک پر آفندی نے انگلی رکھی کہ یہ ہریش ہے ۔۔۔انڈین سیکرٹ سروس کا بدنام زمانہ ایجنٹ ۔۔۔۔بہت ہی اسپیشل مشن پر اسے بھیجا جاتا ہے ۔۔۔۔

        انسپکٹر لیون نے واقعی میں کارنامہ سر انجام دیا تھا۔۔۔۔اس نے ہمارے مشکل کام کو آسان کر دیاتھا۔۔۔۔۔ میں نے اس فائل میں سے یہ تصویریں سیو کیں۔۔۔۔۔اور لیون سے پوچھا کہ یہ تمام پکچرز وہ ٹریفک پولیس کے آئی ٹی ڈپار ٹ بھجوا دے ۔۔۔۔تاکہ ان لوگوں پر مزید نظر رکھی جاسکے ۔۔۔اس کے علاوہ جتنی بھی آن لائن ٹیکسی سروسز جو اوبر کی طرح کام کرتی تھیں ۔۔۔وہاں بھی یہ تفصیلات بھیجی جاسکے ۔۔۔

        ابھی ہم بات چیت میں ہی تھے کہ انسپکٹر لیون کے موبائل کی بیل بجی ۔۔۔اس نے اسکرین دیکھی ۔۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے کال ریسیو کرلی ۔۔۔۔اگلی طرف جو بھی خبر تھی ۔۔۔اس نے انسپکٹر لیون کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایا ں کردئے ۔۔۔۔۔بات سن کر اس نے بیس منٹ میں پہنچنے کا کہا ۔۔۔۔۔اور فون بند کر کے سرسراتے لہجے میں کہا۔۔۔"راجہ صاحب یہاں سے کچھ دور پہلے ایک میٹرو اسٹیشن کو کچھ لوگوں نے ہائی جیک کر لیا ہے ۔۔۔۔میٹرو اسٹیشن میں اس وقت تین سو سے زائد لوگ اور اسٹیشن پر ایک میٹرو ٹرین بھی موجود ہے ۔۔۔جو ان لوگوں نے بند کر کے اندر لوگوں کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے ۔۔۔

        کھیل شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔پہلا وار انہوں نے کر دیا تھا۔۔۔اور اب کاری ضرب لگانے کی باری تھی ۔۔۔۔۔میں نے انسپکٹر لیون سے کہا ۔۔۔کہ آپ اور آفندی وہاں پہنچیں اور جلدی اپ ڈیٹ دیں۔۔۔ ۔۔میں سان چی اور اس کی ٹیم کے ساتھ پہنچتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

        انسپکٹر لیون اور نینسی کھڑے ہوگئے ۔۔۔ان کے ساتھ آفندی بھی کھڑا ہوگیا۔۔۔۔وہ نکلنے لگے تو میں نے انسپکٹر سے کہا ۔۔۔"انسپکٹر ۔۔۔ایک فیور مل سکتی ہے ۔۔۔۔؟

        جی راجہ صاحب ۔۔۔بتائیں ۔۔۔۔انسپکٹر نے پوچھا۔۔۔

        ۔"مجھے جو اندازہ ہے ۔۔۔وہ یہ کہ ہاسٹیج بنانے کی یہ کوشش کل ہونے والی خفیہ طیارے کی ٹیسٹنگ کو بدنام کرنے کی کوشش ہے ۔۔اس کے علاوہ یہ ایک اچھا ڈائیورجنٹ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔کہ ہماری توجہ یہیں پر رہے ۔۔۔اور اصل حملہ لیب پر یا ائیر بیس پر کیا جائے ۔۔۔۔اسلئے میں چاہتا ہو کہ اس ہوسٹیج کنڈیشن کو کو مکمل طور پر میڈیا سے بلیک آوٹ رکھا جائے ۔۔۔تمام چینل اور سوشل میڈیا کو اس معاملے کی بھنک نہ مل سکے ۔۔۔۔۔میں نے انسپکٹر لیون سے کہا۔۔

        ۔"راجہ صاحب آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں ۔۔۔یہ واقعہ آپ کے ساتھ ساتھ ہماری لئے بھی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔اس لئے میڈیا کو بالکل بھی سائیڈ رکھوا دیتا ہوں ۔۔ویسے بھی ہمارا میڈیا گورنمنٹ کنٹرولڈ ہے ۔۔۔ہماری پرمیشن کے بغیر کوئی اطلاع باہر نہیں جائے گی ۔۔۔۔انسپکٹر نے کہا۔۔۔

        آفندی انسپکٹر لیون کے ساتھ باہر نکلا ۔۔۔مگر فورا ہی واپس آگیا۔۔اورکہنے لگا ۔۔راجہ صاحب میں نے کل یہاں مقامی یونورسٹیز میں پاکستانی اسٹوڈنٹس کو بھی ایکٹو تھا۔۔۔اور ابھی ان میں سے ایک لڑکے ذیشان کی کال آئی ہے ۔۔۔وہ یورپین جوڑاانٹرنیشل اسٹوڈنٹ کے ہاسٹل میں مقیم ہے ۔۔۔میں نے انہیں آپ کا بتا دیا ہے۔۔۔وہ آپ کا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔

        ۔"ٹھیک ہے ۔۔میں دیکھ لیتا ہوں ۔۔۔تم ایک کام کر و ۔۔۔۔مجھے میٹرو اسٹیشن کا میپ بھیج دو ۔۔اور جو اسٹیشن ہائی جیک ہوا ہے ۔۔اس کانام بھی ۔۔۔۔میں نے آفندی سے کہا۔۔۔

        اور وہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے باہر چلا گیا۔۔۔۔کچھ دیر میں نورین کے موبائل میں نقشہ آگیا ۔۔۔۔یہ خواشینگ نامی میٹرو اسٹیشن تھا۔۔۔اور ہائی جیکر نے جان بوجھ کر وہ اسٹیشن منتخب کیا تھا۔۔۔جو ائر پورٹ کے قریب اور دو مختلف لائنز کا سینٹر تھا۔۔۔یہاں بلیو اور یلو لائنس کا کراس اوور تھا۔۔۔اور نارمل میٹر و اسٹیشن کی نسبت زیادہ مصروف تھا۔۔۔

        میں نے نورین اور سان چی سے یونیورسٹی کی طرف نکلنے کا کہا۔۔۔مادام شیانگ کی طرف سے بھیجی گئی گاڑیا ں ہمارے پاس موجود تھیں ۔۔۔اور ویسے بھی آفندی کے گیرا ج میں ہماری ضرورت کی گاڑی بھی موجود تھیں ۔۔۔لیکن میں نے سان چی والی گاڑی ہی پسند کی ۔۔۔یہ ایس یو وی تھی ۔۔انجن کافی طاقت ور تھا۔۔اور خاص بات اس پر گینگ کا مشہور اسٹیکر تھا۔۔۔جس سے عام جرائم پیشہ اور پولیس ویسے ہی دور بھاگتی تھی ۔۔۔قیدی کو میں نے آفندی کے گھر میں گارڈ کی نگرانی میں رکھوایا۔۔۔

        اور پھر روڈ پر آگئے ۔۔رات کے 12 بج رہے تھے ۔۔اورآدھے سے زیادہ چائنا سو رہا تھا۔۔۔۔۔میں حسب سابق ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔۔۔اور سائیڈ میں نورین بیٹھی تھی ۔۔۔اس نے ایک مشہور زمانہ نائن ایم ایم گلاک کا نیا ماڈل جی 17 اپنے کپڑوںمیں چھپارکھا تھا۔۔۔میں فی الحال مسلح نہیں تھا۔۔۔سان چی پیچھے بیٹھا راستہ بتا رہا تھا۔۔۔۔

        قریب بیس منٹ کے سفر کے بعد ہم یونیورسٹی کے باہر پہنچ گئی ۔۔۔۔یہ ایک انٹر نیشل اور بڑی عالیشان بلڈنگز پر مشتمل یونیورسٹی تھی ۔۔۔۔ایک طرف ہاسٹل بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔جس کے گیٹ پر ذیشان ہمارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔میں نے سان چی کو اپنے ہتھیار چھپا نے کا کہا۔۔۔اور باقی ٹیم کو یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر رکنے کا کہا۔۔۔

        میں نہیں چاہتا تھا کہ ذیشان کسی طرح خوف ذدہ ہو ۔۔۔۔۔گیٹ سے اندر ہوتے ہی ذیشان ہمارے پاس آگیا۔۔۔اسے آفندی نے ہماری گاڑی بتادی تھی ۔۔۔۔۔میں نے گاڑی سائیڈ پر لگائی ۔۔۔اور ذیشان کو پچھلی طرف سان چی کے ساتھ بیٹھنے کا کہا۔۔۔

        اوراس سے پوچھا کہ اس نے ان لوگوں کو کیسے دیکھا ۔۔

        ۔"سر ۔۔۔جب آفند ی صاحب نے ہمیں اس کپل کی تصویر دکھائی ۔۔۔توہم نے اپنے موبائل میں سیو کر لی تھی ۔۔۔ہمیں لگا کہ ہمارے سامنے کونسا یہ کپل آجانا ہے ۔۔۔۔۔ہمارے زہن سے بات ہی نکل گئی ۔۔۔مگر آج رات ہم بار سے واپس آرہے تھے ۔۔۔تبھی اس کپل کو ہم نےدیکھا ۔۔۔اور جب تصویر سے کنفرم کیا ۔تو بالکل یہی لوگ تھے ۔۔۔۔اور یہ ہاسٹل میں ٹیچرز کی بلڈنگ میں ہیں ۔۔۔۔۔ہم ان لوگوں کے پیچھے آئے ۔۔۔جب یہ اپنے فلیٹ میں داخل ہوئے تو ۔۔میں نے صارم کو وہیں پر ویٹ کرنے کا کہہ کر فورا آفندی صاحب کو فون کیا ۔۔۔ذیشان نے پوری تفصیل سنا دی ۔۔۔

        ۔۔ہمم ۔۔چلو راستہ بتا ؤ ۔۔۔۔۔۔میں نے ذیشان سے کہا ۔۔اور اس کی بتائی ہوئی بلڈنگ کے نیچے گاڑی کھڑی کردی ۔۔۔ذیشان کو گاڑی میں ہی بیٹھنے کا کہا۔۔اور نورین سے کہا کہ باہرکا ایک جائزہ لے آ ؤ ۔۔۔۔نورین اتری اور باہر کا جائز ہ لیکر واپس آگئی۔۔۔۔

        قریب تین منٹ میں نورین پورا جائزہ لے کر آگئی ۔۔۔۔"۔راجہ صاحب مین راستہ ایک یہی ہے ۔۔۔باقی فلیٹ چونکہ دوسرے فلیٹ پر ہے ۔۔۔اسلئے پیچھے کی کھڑکی سے بھی کودا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔۔۔

        میں نے ذیشان سے کہا ۔۔۔آپ صارم کو لے کر کچھ فاصلے پر چلے جاؤ ۔۔۔اگر اپنے ہاسٹل جانا چاہو تو سب سے بہتر ہے ۔۔۔ورنہ فاصلے پر رہو ۔۔ذیشان گاڑی سے اترا ۔۔۔اور صارم کو لے کر کچھ فاصلے پر چلا گیا۔۔۔یہ لوگ اسٹوڈنٹس تھے ۔۔۔میں نہیں چاہتا تھاکہ یہ بعد میں کسی مسئلے میں پڑیں ۔۔۔۔

        سان چی کو میں نے فلیٹ کے پچھلی طرف بھیج دیا۔۔۔اور اسے کہا کہ کوشش کرنا کہ اسلحہ کسی کے سامنے نہ آئے ۔۔۔اور فائر اشد ضرورت پڑنے پر ہی کرنا ہے ۔۔۔اس نے ایک چھوٹی سب مشین گن چھپائی ہوئی تھی ۔۔۔۔

        گاڑی سائیڈ پر لگا کر میں نے چابی اسکے اندر ہی چھوڑ دی ۔۔۔۔۔۔اور پھر نورین کے ساتھ فلیٹ کے داخلی دروازے سے اوپر چڑھنے لگا۔۔۔ہر فلور پر دو فلیٹ آمنے سامنے تھے ۔۔۔۔۔۔۔مطلوبہ فلیٹ کے سامنے پہنچ کر میں نے نورین سے پسٹل لے کرسیفٹی لاک ہٹایا اور اپنی اوٹ میں رکھ لی ۔۔۔اور نورین سے دستک دینے کا کہا ۔۔پہلی دستک کے جواب میں کچھ دیر تک کوئی نہ آیا ۔۔۔دوسری دستک تھوڑی تیز ہوئی ۔۔۔اورپھر دروازے کے پیچھے آہٹ ہوئی ۔۔اور دروازہ کھل گیا۔۔۔

        دروازہ کھولنے والا ۔۔۔ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا۔۔۔۔نورین کو دیکھ کراس نے مجھے دیکھا ۔۔۔چہرے پر سوالیہ انداز تھا۔۔۔

        اور پھر ہم دونوں کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔اسٹوڈنٹس یہ وقت ڈسکشن کا نہیں ہے ۔۔۔کل کسی وقت آسکتے ہو ۔؟۔۔۔۔وہ شایدہمیں اسٹوڈنٹ سمجھ رہا تھا۔۔۔

        مگر نورین نےکہا۔۔۔ہم آپ کے اسٹوڈنٹس نہیں ہے ۔۔۔اور بیٹھ کر بات کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ادھیڑ عمر پروفیسر نے ہمیں دیکھ کر کہا ۔۔۔کہ ابھی بات نہیں ہوسکتی ہے ۔۔۔۔اس کے ہاں کچھ مہمان آئے ہوئے ۔۔۔۔۔اور گیٹ بند کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔مگر اس سے پہلے ہی نورین نے اپنا پاؤں دروازے میں پھنسا دیا۔۔۔۔

        یہ ایک بڑا ہی کوئیک ری ایکشن تھا۔۔۔اور لمحوں میں لیا گیا فیصلہ تھا۔۔۔پاؤں پھنساتے ہی نورین نے ایک ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔۔اور اندر داخل ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔نورین کے پیچھے میں بھی اندر آگیا۔۔اور دروازہ بند کردیا۔۔۔

        دروازہ بند کر تے ہی اپنا پسٹل میں نے پروفیسر پر تان لیا۔۔۔۔۔جو اپنے چہرے پر دیکھتے ہی اس کا چہر ہ تاریک ہو گیا۔میں نے گونجتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔۔انٹیلی جنس۔۔۔۔۔۔ وہ بری طرح گھگھیایا ۔۔۔اور کہا۔۔۔میں یہاں پر صرف استاد ہوں ۔۔۔۔وہ میر ے مہمان ہیں ۔۔۔۔"۔

        یہ دو کمرے اور لاؤنج پر مشتمل ایک چھوٹا فلیٹ تھا۔۔۔۔نورین نے تیزی سے پہلے کمرے میں جھانکا۔۔۔۔اور مٹھی بند کر کے ہاتھ کا اشارہ کیا کہ اس میں کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔اور دوسرے کمرے میں جھانکنے لگی ۔۔۔۔۔مگر ۔۔

        اس کا یہ جھانکنا اس چھوٹے سے فلیٹ میں زلزلہ لے آیا۔۔۔۔۔۔اندر سے ایک چیختی ہوئی نسوانی آواز آئی ۔۔۔اورایک نسوانی وجود کسی توپ کے گولے کی طرح آکر نورین سے ٹکرایا۔۔۔۔اور وہ اچھل کر پیچھے لاؤنج پر آن گری ۔۔۔۔۔اس کے پیچھے ہی وہ لڑکی چھلانگ لگاتی ہوئی لاونج میں آئی ۔۔۔۔قریب چھ فیٹ کی دبلی پتلی دوشیزہ اس وقت مرنے اور مارنے کی کیفیت میں تھیں ۔۔۔چہرہ سرخ ۔۔۔جسم تنا ہوا۔۔۔۔اور ہاتھ کراٹے فائٹرز کی طرح اپنے سینے کے سامنے پوزیشن لئے ہوئے ۔۔۔۔اس نے ایک نظر اٹھتی ہوئی نورین کو دیکھا ۔۔اور پھر دوسری چھلانگ میری طرف لگائی ۔۔اس کے منہ سے ایک چیختی ہوئی چیخ نکلی۔۔۔میرے ہاتھ میں موجود پسٹل کو اس نے کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔۔۔۔۔

        میں نے نہایت اطمینا ن سے اس کی کک کو بلاک کیا۔۔۔اور واپس نورین کی طرف اچھال دیا۔۔۔اور کہا کہ نورین یہ تمہارا شکار ہے ۔۔۔۔۔اس کی طبیعیت صاف کر و۔۔۔

        اور پروفیسر کےکالر کو پکڑا ۔۔۔۔اور گھسیٹتے ہوئے اسی کمرے میں لے گیا۔۔۔جہاں سے وہ لڑکی بر آمد ہوئی تھی ۔۔۔۔وہاں اس کا ساتھی پچھلی کھڑکی کھول کر نکلنے کی کوشش میں تھا۔۔۔میں نے پروفیسر کو ویسے ہی گھسیٹتے ہوئے بیڈ پر پھینکا ۔۔۔۔۔نیچے اترتے کی کوشش کرنے والے بندہ مجھے دیکھ کر رک گیا۔۔۔اور پھرفائٹنگ پوز بنانے لگا۔۔۔۔۔مگر میرے پاس فائٹنگ اسکل دکھانے کا کوئی وقت نہیں تھا۔۔۔

        ۔"میں ایک سیکنڈ کا انتظار کئے بغیر تمہاری کھوپڑی میں سوراخ کردوں گا۔۔۔۔میں نے سرد آواز میں کہ کر پسٹل اس کی طرف تان لیا۔۔۔اور اسے زمین پر الٹا لیٹنے کا کہا۔۔۔اس نے میری آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔جہاں نرمی یا رحم کے کوئی آثار نہیں تھے ۔۔۔۔۔اور پھر خاموشی سے گھٹنے کے بل بیٹھا اور لیٹ گیا۔۔۔۔میں نے کھڑکی سے پردہ کھینچ کر اتارا۔۔۔اور اسکے ہاتھ باندھنے لگے ۔۔۔۔

        بوڑھا پروفیسر مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔جنٹلمین ۔۔مجھے تم سے اس قدر وحشیانہ سلوک کی توقع نہیں تھی ۔۔"۔میں تمہیں بتا چکا ہوں ۔۔۔۔کہ میں یہاں پروفیسر ہوں۔۔۔۔

        ۔میں نے اس آدمی کے ہاتھ نہایت سختی سے باندھے ۔۔۔اور پھر اسے اٹھوا کر کرسی میں بٹھایا۔۔۔اور پھر کرسی کے ساتھ بھی اس کے ہاتھ باندھ دئے ۔۔۔اب وہ کرسی اٹھائے بغیر نہیں اٹھ سکتا تھا۔۔۔اور پھر پروفیسر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ جس کے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔

        ۔"مائی ڈئیر پروفیسر ۔۔۔آپ کے مہمان یہاں پر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔۔۔اور آپ اچھی طرف جانتے ہیں کہ یہاں پر ملک دشمن لوگوں کی صرف ایک سزا ہے ۔۔۔اور وہ موت کی سز اہے ۔۔تم اپنی خیر مناؤ ۔تم کیسے بچتے ہو۔۔۔"۔میں نے پروفیسر سے کہا۔۔

        میری بات سن کر اس پروفیسرپر کپکپی طاری ہوگئی ۔۔۔۔اس نے اپنی جیب سے یونیورسٹی کارڈ نکالا ۔۔۔اور کہا ۔۔دیکھو میں پچھلے بیس سالوں سے یہاں پر استاد ہوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کسی دوست کے ریفرنس سے آئے تھے ۔۔اور مہمان کی طرف رہ رے تھے ۔۔انہوں نے ایک اچھی رقم کی آفر کی ۔۔او ر میں لالچ میں آگیا۔۔

        میں نے پروفیسر کا کارڈ دیکھا ۔۔۔وہ واقعی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔۔۔۔میں نے اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

        اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔یہاں پر بیگ پیک تھے ۔۔۔اور شاید یہ یہاں سے روانہ ہونے والے تھے ۔۔۔اور پھر ایک جگہ مجھے ان کے پاسپورٹ بھی نظر آگئے ۔۔۔جو فرانس کے بنے ہوئے تھے ۔۔۔اور آج صبح چار بجے کی ان کی ٹکٹ تھی ۔۔

        باہر سے دھینگا مشتی کی زبردست آوازیں آرہی تھی ۔۔۔میں کمرے کے دروازے پر پہنچا ۔۔۔اور اس طرح کھڑا ہوا کہ کمرے کے اندر اور باہر بیک وقت دیکھ سکوں۔۔۔

        دونوں خونخوار بلیوں کی طرح لڑ رہی تھیں ۔۔۔نورین کی فائٹنگ میں مکاؤ میں دیکھ چکاتھا۔۔۔جہاں سان چی اور نورین نے تلوار کے زریعے زبردست جنگ کی تھی ۔۔۔اور یہاں میں نے اسکی ہینڈ ٹو ہینڈ کومبیٹ بھی دیکھ لی ۔۔۔۔اس نے اس ایجنٹ کی بینڈ بجا دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔نورین نے پہلے تو اس کی پٹائی کی ۔۔۔اور اب اس کی تنگ شرٹ اٹھا کر اس کے سرپر ایسے باندھ دی کہ اس ایجنٹ کے بازو اس شرٹ میں پھنسے رہے گئے ۔۔۔اور اسکا چہر ہ بھی چھپا لیا۔۔۔۔یہ ایسی کنڈیشن تھی۔۔۔جیسے کوئی شرٹ اتارنے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔او روہ اسے پھنس گئی ہو۔۔

        میں نے تعریفی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔اور مکمل طریقےسے باندھنے کا کہا۔۔۔۔تینوں افراد کو ایک کمرے میں پہنچا کر میں نے نورین کو پسٹل دے کر نگرانی پر کھڑا کیا ۔۔۔اور پھر پورے فلیٹ اور ان کے سامان کی تلاشی لینے لگا۔۔۔۔

        پورا فلیٹ چھان لینے کے بعد مجھے کچھ کام کی چیز نظر نہیں آئی ۔۔آخر میں واش روم میں داخل ہوا۔۔اندر داخل ہوتے ہی مجھے جلی ہوئی بو آئی ۔۔۔اور سامنے کموڈ میں جلے ہوئے کاغذ نظر آئے ۔۔۔۔۔جب ہم نے دستک دی ۔۔۔وہ آدمی شاید اسی کام میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔

        میں نے کھڑکی سے سان چی کو اشارہ کیا۔۔۔اورفلیٹ آنے کاکہا۔۔کچھ دیر میں وہ فلیٹ پر آگیا ۔۔۔اور اس آدمی اور عورت کو اپنی گاڑی میں شفٹ کیا۔۔۔۔میں نے بوڑھے پروفیسر کی تصویر لے لی ۔۔اور اسے بغیر اجازت سفر کرنے کا منع کردیا۔۔۔اس نے جھٹ ہامی بھر لی۔۔۔اور ہم واپس روانہ ہوگئے ۔۔۔ذیشان اور صارم کا میں نے شکریہ ادا کیا۔۔۔اور اس سے ایک بار پھر پروفیسر کی تصویر دکھا کر تصدیق کی ۔۔ذیشان نے بتایا کہ یہ ہماری یونیورسٹی کا پروفیسر تو ہے ۔۔۔لیکن انجینئرنگ ڈپارٹ کا ہے ۔۔۔ہمیں بس اتنا پتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے یہاں پروفیسر ہے ۔۔۔۔ذیشان کی بات سے میں مطمئن ہوگیا۔۔

        اور واپس آفندی کے گھر پہنچے ۔۔۔میں نے گارڈ سے ان قیدیوں کواسٹور روم میں پہنچانے کا کہا۔۔اتنے میں آفندی کا فون آگیا۔۔۔۔۔"۔باس ہوسکتا ہے ۔۔۔آپکو یہاں آنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔آفندی نے کہا۔۔

        ۔"کیا اپڈیٹ ہے آفندی ۔۔۔۔یورپین جوڑا پکڑاگیاہے ۔۔۔اور میں اس سے تفتیش کرنے لگا ہوں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔

        ۔

        ۔"باس یہاں پر دس کے قریب لوگ ہیں ۔۔۔اور اسالٹ رائفلز اور ہینڈ گرنیڈ سے لیس ہیں ۔۔۔۔۔۔قریب سو کے قریب لوگ میٹرو ٹرین میں یرغمال بنے ہوئے ۔۔۔۔یہ آج رات کی آخری ٹرین تھی ۔۔۔جس میں رش تھوڑا کم ہوتاہے ۔۔۔"اور باقی اسٹیشن پرڈیڑھ سو کے قریب لوگ ہیں ۔۔۔وہ بھی یرغمالی بنے ہوئے ہیں ۔۔۔"۔آفندی نے کہا۔

        ۔" حملہ آور وں کی شناخت ہوئی ہے ۔۔۔۔۔کون لوگ ہیں یہ ۔۔۔۔"۔ میں نے پوچھا ۔

        ۔"راجہ صاحب اس میں دو انڈینز کو تو میں فوٹیج میں پہچان چکا ہوں ۔۔۔یہ ہریش کے ساتھی ہیں ۔۔۔۔۔۔انسپکٹر لیون کی فوٹیج سے بھی یہ میچ ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔باقی قریب آٹھ لوگ مقامی جرائم پیشہ ہیں ۔۔۔اور ہائر کئے گئے ہیں ۔۔۔"آفندی نے کہا۔

        ۔"اور آفندی ۔۔۔حملہ آوروں نے اپنی کوئی ڈیمانڈز پیش کیں ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ پوچھا۔

        ۔" باس ابھی تک سینئر قیاد ت نہیں پہنچی ہے ۔۔۔۔۔ رات زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے آنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔۔۔۔باقی ان کے جو میں نے انتظامات دیکھے ہیں ۔۔۔۔حملہ آورورں کو کوئی جلدی نہیں ہے ۔۔ان کے انداز سے ۔۔مجھے ایسا لگ رہا کہ انہوں نے لمبا کھیلنا ہے ۔۔۔۔۔یہ دو چار دن بھی چل سکتا ہے ۔۔۔ظاہر سی بات ہے ۔۔۔انہوں نے کل ہونے والی خفیہ ٹرائل پر بھی اثر ڈالنا ہے ۔۔۔۔انہوں نے بہت چن کر یہ ٹائم اور دن سیٹ کیا ہے ۔۔۔۔آفندی نے کہا۔

        ۔" ٹھیک میں اور نورین یہاں سے نکل رہے ہیں ۔۔۔اگر یہاں کوئی ایسا بندہ جو ان یورپین ایجنٹس سے تفتیش کر سکے تو وہ کروالو۔۔۔یہ بھی بہت اہم ہے ۔۔۔ہمیں کوئی اچھی ٹپ مل سکتی ہے ۔۔باقی تم جب تک لیون سے مدد لے کر میٹرو اسٹیشن کےبلیو پرنٹس نکلوا لو ۔۔۔۔" میں نے آفندی سے کہا۔

        سان چی انسپکٹر لیون سے ہونے والی ہماری میٹنگ میں موجود تھا۔۔۔اور ہماری ساری بات چیت سن چکا تھا۔۔۔اور اب آفندی کے فون آنے کے بعد اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم خواشینگ اسٹیشن کی طرف روانہ ہونے والے تو کافی پرجوش ہوگیا۔۔۔اور بولا۔۔۔" باس آپ کےساتھ رہنے کا الگ ہی مزہ ہے ۔۔۔۔جب سے آپ ملے ہو ایک کے بعد ایک ایکشن مل رہا ہے ۔۔۔ویسے تو ہم سالوں تک بیکار ہی بیٹھے رہے ۔۔۔"

        ۔"مزے تو مل رہے ہیں ۔۔۔مگر جب جسم میں گولیوں کے چھید ہوں گے اور مہینوں بستر پر لیٹنا پڑے گا تو پتا چلے گا۔۔میں نے سان چی سے کہا۔

        ۔"باس ایسی خوفناک بات نہ کرو ۔۔۔ویسے بھی اگر آپ جیسے جی دار بندے کے ساتھ کام کرنا ہو تو گولیاں بھی قبول ہیں ۔۔سان چی نے دوبارہ سے دانت نکالے ۔۔۔"

        میں نے سان چی سے کہا ۔۔۔کل کی صبح میرے لئے بہت اہم ہے ۔۔میرے ملک کی عزت و وقار داؤ پر لگی ہے ۔۔۔ان لوگوں کو جلد از جلد ڈاؤن کرنا ہوگا۔۔تاکہ کل جیٹ فائٹر کی تقریب میں بھی شامل ہوسکوں ۔۔۔۔

        میں نے نورین کو آفندی کے بلاوے کا بتایا ۔۔۔۔اور ہم سان چی کے ساتھ میٹرو اسٹیشن روانہ ہوگئے ۔۔۔۔۔اس وقت رات کے تین بج رہے تھے ۔۔۔۔۔صبح 7 بجے جیٹ فائٹر کی آزمائشی تقریب تھی ۔۔۔۔۔جہاں دونوں ہمسایہ ملک کے ہائی کمانڈ ملٹری آفیشلز آرہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

        قریب آدھے گھنٹے تیز رفتاری سے سفر کرنےکے بعد ہم مطلوبہ اسٹیشن کے باہر پہنچ گئے ۔۔۔۔۔جہاں اس وقت بے تحاشہ پولیس کی گاڑیاں اور بڑے ٹرک کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔جگہ جگہ راستے بند کئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔لیکن انسپکٹر لیون کی مہربانی سے ہم میٹرو اسٹیشن کی مین انٹرینس کے سامنے پہنچ گئے ۔۔۔۔جہاں آفندی اور انسپکٹر لیون ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔میرے اترتے ہی انسپکٹر لیون میرے پاس آیا ۔۔۔اور بولا۔۔۔"راجہ صاحب پلیزسان چی اور اس کے لوگوں کو گاڑیوں میں ہی رکنے کا کہیں ۔۔۔۔یہاں پورے شہر کی پولیس اکھٹی ہے ۔۔۔۔اور ہمارا تاثر بہت خراب لیا جائے گا۔۔۔میں اس کی بات سمجھ گیا۔۔۔اور سان چی کو گاڑی میں ہی رکنے کا کہا۔۔۔

        اتنے میں آفندی مجھے لئے ایک بڑے ٹرک میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔یہ کنٹرول سینٹر بنا ہوا تھا۔۔۔۔جہاں پر کیمرے کی اسکرین اور اندر کی فوٹیج چل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ایک اسکرین میں دونوں انڈین ایجنٹس کی بھی تصاویر تھی ۔۔۔ یہ لوگ نقاب پوش اور ہر طرح کے اسلحے سے لیس نظر آرہے تھے ۔۔۔۔۔باقی لوگوں کے بارے میں آفندی نے بتایا تھا کہ یہ مقامی ہیں ۔۔۔

        میں نے ایک نظر جائزہ لیا۔۔۔۔اور باہر آگیا۔۔۔آفندی بھی میرے ساتھ ہی باہر آگیا ۔۔۔اور اشارہ کیا کہ تھوڑا سائیڈ ہوں ۔۔۔اور بات سنیں ۔۔۔

        میں تھوڑا سائیڈ ہوگیا۔۔۔اور آفندی میرے قریب آکر سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔راجہ صاحب ۔۔ہمیں صبح تقریب شروع ہونے سے پہلے پہلے یہ سین کلئیر کرنا ہوگا۔۔۔۔۔میں چائینز پولیس اور ان کے اسپیشل یونٹ کو اچھے طریقے سے جانتا ہوں ۔۔۔۔۔یہ لوگ اپنے لوگوں کی جان کی پرواہ کرتے ہیں ۔۔۔۔اور اس کے لئے ان حملہ آوروں کی ہر بات مانیں گے ۔۔۔چاہیں وہ ان سےکوئی بھی رقم مانگیں ۔۔۔یہاں تک کہ یہ اگر یہاں سے چارٹر فلائٹ لے کر ایشیا میں کسی بھی غریب ملک نیپال ، وغیرہ میں اترنا چاہیں تو چائینز گورنمنٹ یہ بھی مان سکتی ہے ۔۔۔اور عنقریب یہاں پر آفیشل سینیئر لوگ پہنچ گئے تو بھی حملہ آوروں کی ڈیمانڈز پر بات چیت شروع ہوجائے گی ۔۔۔۔۔

        میں آفندی کی پوری بات سمجھ چکا تھا۔۔۔اور اس کے آگے کی گہرائی بھی ماپ چکا تھا۔۔۔۔۔آفندی اور میں دونوں کی سوچ یہی تھی کہ اندر ہی ان انڈینز کو نشانہ بنایا جائے ۔۔۔یا زندہ پکڑا جائے ۔۔۔۔۔۔۔مگر چائینز پولیس اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔اور یہ ہماری مرضی نہیں تھی ۔۔۔

        میں نے آفندی سے پوچھا کہ بلیو پرنٹس ملے ۔؟۔۔۔۔

        آفندی نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔کہ کنٹرول سینٹر میں رکھے ہیں ۔۔

        میں نے اسے وہاں سے ان کی تصویر لے کر اپنی گاڑی میں آنے کا کہا ۔۔۔اور اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔۔

        نورین اور سان چی کےسامنے پوری بات رکھ دی ۔۔۔۔تاکہ وہ دونوں بھی ذہنی طور پر تیار ہو جائیں ۔۔۔۔۔

        ۔" باس آپ ان پولیس والوں کو کسی طرح واپس بھیجو ۔۔۔ہم اندر گھستے ہیں ۔۔۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔۔" سان چی نے تیز لہجے میں کہا۔

        ۔" سان چی ۔۔۔مسئلہ اندر گھسنے کا نہیں ہے ۔۔۔۔بلکہ اندر چائینز لوگوں کی جان بچاتے ہوئے ان انڈینز کو نشانہ بنانا ہے ۔۔۔میں نے سان چی کو گھورا ۔۔۔

        اتنے میں آفندی بھی آگیا ۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر نورین جلدی سے اتری اور پچھلی سیٹ پر چلی گئی ۔۔۔اور آفندی میرے ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک لیپ ٹاپ تھا۔۔۔۔جس میں بلیو پرنٹس موجود تھے ۔۔۔۔یہ اس میٹرو اسٹیشن کے تمام انٹرنس اور ایگزیٹ پوائنٹس تھے ۔۔۔۔۔اس کے علاوہ زیر زمین بھی انٹریز ، سیوریج لائن ۔۔۔ الیکٹرک سپلائی جوزیر زمین دی جارہی تھی ۔۔۔ان سب کے نقشے اس لیپ ٹاپ مین موجود تھے ۔۔۔۔میں کافی دیر تک بلیو پرنٹس کو اپنے ذہن میں بٹھاتا رہا ۔۔۔۔۔

        اتنے میں آفندی نے ایک اور ویڈیو کھولی ۔۔۔۔۔یہ اس میٹرو اسٹیشن کی کچھ دیر پہلے کی ڈرون فوٹیج تھی ۔۔۔۔۔میٹرو اسٹیشن کے باہر چار ایگزٹ پوائنٹ تھے ۔۔۔اے ، بی ، سی اور ڈی ۔۔۔اور چاروں ایگزیٹ کے گیٹ بند کر کے سی فور چارجز لگائے گئے تھے ۔۔۔۔جیسے ہی دروازہ کھلے ۔۔۔۔۔دھماکے سے اڑ جائیں ۔۔۔۔

        اس کے علاوہ میٹرو اسٹیشن کے اندر کی ویڈیو ۔۔۔۔جو اندر کے کیمروں کو ہیک کر کے آٖفندی نے نکالی تھی ۔۔یہ ویڈیو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ دونوں انڈینز اس وقت میٹرو اسٹیشن کے اندرونی حصوں میں ہیں ۔۔۔اور سو کے قریب لوگ یرغمالی بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔اور آفندی کی بات ٹھیک تھی ۔۔۔انہیں جلدی کوئی نہیں تھی ۔۔وہ پہرہ دیتے ہوئے کھا پی رہے تھے ۔۔۔اس کے مطلب انہیں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا۔۔۔دونوں انڈینز اندرونی ہال میں یرغمالیوں پر پہرہ دے رہے تھے ۔۔پھر باہر بڑے ایریا میں تین سے چار لوگ ۔۔۔اور باقی لوگ میٹرو ٹرین میں ۔۔۔

        ۔" آفندی ان لوگوں کی رہائش کا پتا چل سکتا ہے ۔۔۔۔انسپکٹر لیون کی لائی ہوئی فوٹیج سے ان کی رہائش کا کوئی کلیو ملا ۔۔۔؟ میں نے آفندی سے پوچھا ۔۔۔

        ۔" باس میں اپڈیٹ لے کر بتاتا ہوں۔۔۔۔۔آفندی نے کہا ۔۔اور دروازہ کھول باہر چلا گیا۔۔۔اور میں اس کے لیپ ٹاپ پر بلیو پرنٹس دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔یہ پورے پرنٹس لئیر وائز تھے ۔۔۔۔زیر زمین جتنا بھی سسٹم لگا ہوا تھا۔۔۔۔وہ پوری ڈیزائننگ ایک ڈرائنگ میں تھی ۔۔۔۔زمین کے اوپر کی ڈرائنگ ایک تھی ۔۔۔اور پھر چھت کے اوپرکی ڈرائنگ ایک تھی ۔۔۔پورا میٹرو اسٹیشن سینٹرلائزڈ ائیر کنڈیشنڈ تھا۔۔۔۔۔اور پھر ایک ڈرائنگ دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک منصوبہ بننے لگا۔۔۔۔۔






        سرفروش چہارم ۔۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط ۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔





        میں نے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔۔اور اسٹیرنگ موڑتے ہوئے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دی۔۔۔۔۔۔۔گاڑی ایک زناٹے دار آواز سے مڑی اور بھاگنے لگی ۔۔۔میں نے نورین سے کہا کہ آفندی کو کال کر کے بولوکہ میں دس منٹ تک آرہا ہوں ۔اور کہو۔۔جلدی سے ان لوگوں کی رہائش کا ایڈریس نکالو ۔۔۔۔یہ بہت ضروری ہے ۔۔۔۔اور گھر میں فون کر کے پتا کرو کہ ان یورپین ایجنٹس کا منہ کھلا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں ان کے پلان کی اور مزید جانکاری نکالنی ہے ۔۔۔ہریش اب تک غائب تھا۔۔۔۔۔اور اس پوری شطرنج کی بازی کا وہ آخری مہرہ تھا۔۔۔۔۔جو اس وقت پوری طرح سے خود کو چھپانے میں کامیاب رہا تھا۔۔۔

        میں نے میٹرو اسٹیشن آتے ہوئے ایک بڑے ہسپتا ل کا بورڈ دیکھا تھا۔۔۔۔۔اور اس وقت میں تیزی سے اسی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔۔سان چی کے ساتھیوں کی گاڑیاں وہیں پر کھڑی تھی ۔۔۔۔میں جلد ہی ہسپتا ل کے مین گیٹ سے انٹر ہو ا۔۔۔۔۔میں نے ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹرز سے گذارش کی کہ مجھے یہاں پر کسی بے ہوشی کے ڈاکٹرز سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔ڈیوٹی والے ڈاکٹرز نے پس وہ پیش کی ۔۔۔۔مگریہاں حیرت انگیز طور پر سان چی آگے آیا ۔۔۔اور ہسپتال کے ایڈمن کو کال ملانے کا کہا۔۔ڈاکٹر نے ایڈمن کو کال ملائی ۔۔۔اور سان چی سے بات کروائی ۔۔۔۔سان چی کے مادام شیانگ کا حوالہ دینے کے بعد ہاسپٹل کا عملہ ایک دم مودب ہوگیا۔۔۔۔کچھ ہی منٹوں میں ایک سینئر اینستھیزیا کا ڈاکٹر میرے سامنے موجود تھے ۔۔۔۔میں نے اس سے نیستھیزیا میں مریضوں کے بے ہوش کرنے والی گیسوں کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔اس نے مجھے پانچ مشہور گیس کے نام بتائے ۔۔۔اس میں سب سے فاسٹ ایکٹنگ گیس سیو و فلورین تھی ۔۔۔۔۔اسے آگ بھی نہیں پکڑتی تھی ۔۔۔اور فاسٹ ایکٹنگ

        تھی ۔۔۔میں نے ڈاکٹر سے اس کے دو سے تین سلنڈر ۔۔۔۔ماسک منگوائے ۔۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے ساتھ آکسیجن گیس کی کچھ مقدار بھی ایڈ کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔اس لئے وہ اپنے حساب سے ہمیں مطلوبہ گیس کے سلنڈر تیار کروادے گا۔۔۔۔۔

        میں نے ڈاکٹر سے دوبارہ پوچھا کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ گیس کمرے میں چلتے ہوئےلوگوں پر جلدی اثر کرے ۔۔۔۔اور زمین پر لیٹےہوئے لوگوں پر اس کا اثر نہ ہو ۔۔۔یا بہت ہی کم ہو ۔۔۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ممکن ہے ۔۔۔۔میں نے یہ اسلئے پوچھا ۔۔۔کہ یرغمالی جتنے بھی تھے ۔۔۔۔وہ سب زمین پر لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔

        کچھ ہی دیر میں ہمارا مطلوبہ سامان آگیا ۔۔۔۔۔۔میں نے احتیاط کے طور پر ان سے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم اور ایمبولنس بھی بیک اپ میں میٹرو اسٹیشن کے سامنے پہنچنے کا کہہ دیا۔۔۔

        اور پھر ہم واپس میٹرو اسٹیشن کے سامنے آگئے ۔۔۔۔پیچھے ایمبولنس اور ڈاکٹرز کی ٹیم بھی تھیں ۔۔۔جنہیں میں نے محفوظ فاصلے پر کھڑا کردیاتھا۔۔۔۔واپسی پر سان چی نے بتایا کہ مادام شیانگ کے چائنا کے تمام بڑے شہروں میں ہاسپٹل کی چین ہے ۔۔۔اور نان پروفٹ ایبل این جی او کے تحت کام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔مادام ان سب کا بجٹ اپنے کلب اور کیسینو ز سے ادا کرتی ہے ۔۔۔یہ ایک اچھی بات تھی ۔۔میں نے سان چی کو اپنے لباس چینج کرنے کا کہا ۔۔۔اور تیار ی کابھی ۔۔۔

        میٹرو کے سامنے پہنچے تو آفندی ہمارا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے اسے اپنا پلان بتایا۔۔۔جو ہمارے بس میں تھا۔۔وہ ہم کرنے جارہے تھے ۔۔۔۔۔۔اسیٹشن کے جتنے بھی داخلی دروازے تھے ۔۔۔وہاں اندرونی سائیڈ پر سی فور چارجز تھے ۔۔۔اگر ایک بار ہم اندر چلے جاتے تو ان چارجز کو ہٹا بھی سکتے تھے ۔۔۔۔۔

        ۔"راجہ صاحب ۔۔۔اسٹیشن کے اندر تو ہم پہنچ جائیں گے ۔۔۔۔۔مگر جو میٹرو ٹرین کے اندر لوگ ہیں ۔۔۔انکا کیا کریں گے ۔۔۔آفندی نے پوچھا ۔

        ۔: اس پر کافی سوچا ہے ۔۔۔۔ ابھی کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ۔۔۔یہ دونوں انڈینز ایجنٹ اگر ہٹ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔تو ہمارا مقصد

        حل ہوجائے گا۔۔۔۔باقی لوگوں کی جو بھی ڈیمانڈز ہوں گیں ۔۔۔وہ پوری ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔میں نے کہا۔۔

        اور وہ ان ایجنٹ کی لوکیشن ٹریس ہوئی ۔۔۔۔میں نے آفندی سے پوچھا ۔۔

        جی راجہ صاحب ۔۔۔ابھی کچھ دیر اوبر کمپنی نے لوکیشن سینڈ کی ہے ۔۔۔جہاں سے انہیں پک کیا گیا ہے ۔۔۔اور کچھ دن پہلے یہیں سے ان لوگوں نے کئی بار اوبر کمپنی اور دوسری ٹیکسی کمپنی نے پک اینڈ ڈراپ کیا ہے ۔۔۔میری کراس چیکنگ بھی مکمل ہوگئی ہے ۔۔۔آفندی نے کہا۔

        پھر ایک کام کرو ۔۔۔۔نورین کو لے کر وہاں جاؤ ۔۔۔اگر کوئ وہاںموجود ہے تو اسے ڈاؤن کرو ۔۔۔ اور اگر مکمل چیکنگ کر کے مجھے اطلاع کرو ۔۔۔۔میں نے کہا۔

        ۔"راجہ صاحب یہاں پر میری ضرورت پڑ سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔اگر رک جاؤں تو ۔۔؟ ۔۔"آفندی نے کہا۔

        ۔" میں یہاں کا معاملہ دیکھ لوں گا ۔۔میرے پاس سان چی کی ٹیم ہے ۔۔۔۔۔بس تم انسپکٹر لیون کو بتا دو کہ ان ایجنٹ کی رہائش پر جا رہے ہو ۔۔۔۔اور نورین کا موبائل مجھے دے ۔۔۔اور جو بھی اپ ڈیٹ ہو ۔۔۔مجھے دیتے رہنا۔۔۔۔"میں نے آفندی سے کہا۔۔

        آفندی نے اچھا میں سرہلایا ۔۔۔اور روانہ ہوگیا۔۔۔۔آفندی کو دور بھیجنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سیکرٹ سروس کا آفیشل بندہ تھا۔۔۔اگر اس کارووائی میں کوئی بھی نقصان ہوتا ہے ۔۔۔۔تو وہ اس برائی سے دور رہے گا۔۔۔اور آسانی سے بری الزمہ ہوسکتا ہے ۔۔۔اور اس پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔۔انسپکٹر لیون گواہی دے گا کہ آفندی وہاں موجود نہیں تھا۔

        آفندی اور نورین اس لوکیشن پر روانہ ہوگئے ۔۔۔وہ یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھی ۔۔۔۔ میں نے آفندی سے وہ عمارت کی ویڈیولے لی تھی ۔۔۔۔اور اسے ایک بار پھر دیکھا ۔۔۔ایک بار اندر پہنچ کر اگر انڈینز قابو میں آجاتے ہیں ۔۔۔تو ہم اسلحہ کا بھی استعمال کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔اور کسی قسم کی گوریلا کارووائی بھی ۔۔۔۔

        اتنے میں سان چی مطلوبہ سامان لے کر آگیا ۔۔۔اور میں ایکشن کے لئے تیار ہونے لگا۔۔۔میں نے سانچی سے بلڈنگ کے اندر ہوئے رنگ سے مشابہہ چست ٹروازر منگوائے تھے ۔۔۔اس سے ہمیں کیمو فلاج ہونے میں مدد مل سکتی تھی ۔۔۔ کچھ دیر میں سان چی اور میں تیار ہوگئے ۔۔۔ہماری کمر پر دو سلنڈر بندھے ہوئے تھے ۔۔ جن سے تیزی سے پھیلنے والے گیس پھینک سکتے تھے ۔۔۔۔اور ماسک سے خود کو محفوظ رکھ سکتے تھے ۔۔۔

        سان چی کی ٹیم میں سے چار لوگوں میں سے دو کو اگلے میٹرو اسٹیشن سے اس اسٹیشن کی طرف آنے کا کہا۔۔۔اور دو کو پچھلے میٹرو اسٹیشن سے اس اسٹیشن کی طرف آنے کا کہا ۔۔۔اور خاص تاکید تھی خود کو چھپا کر آئیں۔۔۔اور بغیر اجازت کوئی فائر نہیں کرے گا۔۔۔۔۔باقی بچے ہوئے لوگ میٹرو اسٹیشن کے آس پاس پوزیشن لے کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔

        ان تمام تیاریوں میں صبح کی روشنی نمودار ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور قریب چھ بجے کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔سان چی کے لائے گئے سامان میں روپ گن بھی تھی ۔۔۔۔ہم نے خود کو مسلح کیا۔۔۔۔اورقریبی بلڈنگ پر پہنچ گئے ۔۔۔وہاں سے روپ گن سے فائر کر کے رسی میٹرو اسٹیشن کی چھت پر باندھی ۔۔۔اور اس پر کود گئے ۔۔۔۔۔۔ہماری پاس ایکسٹر ا رسی بھی موجود تھی ۔۔جو آگے کام آنے والی تھی ۔۔۔۔

        سان چی کو میں نے اس کے جانے کا راستہ سمجھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔میٹرو اسٹیشن کی چھت سے نیچے جانے والا سیڑھیوں والا راستہ مکمل بند تھا۔۔۔اور شاید وہاں بھی اندر کی طرف سی فور چارجز لگائے گئے ہوں۔۔۔۔۔مگر ہماری توجہ اوپر چھت پر اوپن ہونے والی ائیر کنڈیشنڈ کی ڈک تھی ۔۔۔جن سے ہم نے انٹر ہونا تھا۔۔۔

        ڈک کے اوپر والے کور کو پیچ کس کی مدد سے کھول کر ہم اندر اتر گئے ۔۔۔۔۔۔ یہ پوری ڈک سلور کی چادر کی بنی ہوئی تھی۔۔۔اور مجھے امید تھی کہ ہمارا وزن اٹھا لے گی ۔۔۔میں اندر اترا۔۔۔۔اورآگے جاتی ہوئی ڈک میں نہایت آہستگی سے کرالنگ شروع کردی ۔۔۔۔ آگے جا کر یہ ڈک دو حصوں میں تقسیم ہورہی تھی ۔۔۔۔ایک طرف میں نے جانا تھا۔۔۔دوسری طرف سان چی نے ۔۔۔ جب میں اپنے والے حصے میں پہنچا تو۔سان چی بھی ڈک میں اتر ا۔۔۔۔اور اسی طرح رینگتے ہوئے آتا رہا۔۔۔اور دوسری سمت میں سفر شروع کردیا۔۔۔۔

        ہمارا فاصلہ ایک جیسا ہی تھا۔۔۔اسی لئے ہمیں اندازہ تھا کہ ایک ساتھ ہی ہم اپنی مطلوبہ جگہ پہنچیں گے۔۔۔۔ڈک کافی تنگ تھی ۔۔۔مگر آکسیجن کی کافی مقدار تھی ۔۔۔اسی لئے ہمیں گھٹن محسوس نہیں ہوئی۔۔۔قریب دس منٹ نہایت آہستگی سے کرالنگ کرتےہوئے میں اس ایریامیں پہنچ گیا۔۔۔۔۔جویرغمالیوں والے ہال کے عین اوپر تھی ۔۔۔۔میں تھوڑا سا مزید آگے تو مجھے ڈک کا نیچے کی طرف جالی دار کھڑکی نظر آئی ۔۔میں نے اس کے سوراخ میں سے جھانکا۔۔۔۔نیچے دونوں ایجنٹ موجود تھے ۔۔۔۔ایک ہال کے ایک طرف کرسی رکھے سامنے پاوں پھیلائے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔جبکہ دوسرا ایجنٹ ہال کی دوسری طرف تھا۔۔۔جہاں پر سان چی نے اترنا تھا۔۔۔میں نےپیچ کس نکالا ۔۔۔اور کھڑکی کے پیچ کھولنے لگا۔۔۔۔میں نے پیچ بالکل نہیں کھولے ۔۔۔۔صرف ہلکے سے لوز کئے ۔۔۔۔ پیچ کھڑکی کی ایک طرف تھے ۔۔۔جو کھلتی تھی ۔۔۔۔ دوسری سائیڈ فکس تھی ۔۔اور وہیں سےکھڑکی نیچے کیطرف کھلتی تھی ۔۔۔پیچ لوز کرنے کے بعد میں نے رسی اپنی سائیڈ کی کھڑی میں پھنسا کر سیٹ کی ۔۔۔

        اورسلنڈر کے آگے لگ ہوئے ربر کے پائپ کوکھڑکی سے نیچے کی طر ف نکال کر گیس کھول دی ۔۔۔میں نے پریشر ہلکا رکھا کہ شوں شوں کی آواز نہ آئے ۔۔۔۔۔

        اتنے میں نیچےایک تیزآواز آئی ۔۔۔۔۔میں نے جلدی سے نیچے دیکھا ۔۔۔دوسری سائیڈ والا ایجنٹ لڑکھڑا کر نیچے گرا تھا۔۔۔

        سان چی کی اسپیڈ مجھ سے کچھ تیز نکلی تھی ۔۔۔۔۔اور اس نے اپنا کام دکھا دیا۔۔۔۔اتنے میں میری طرف والا ایجنٹ بھی ہوشیار ہوگیا۔۔اس نے تیز آواز میں چلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔رمیش ۔کیا ہوا ہے ۔۔۔۔اور اپنی گن اٹھا کراس کی طرف چلنے لگا۔۔۔

        میرے پاس ٹائم کم تھا۔۔اور یہ ایجنٹ دوسری طرف چلا جاتا ۔۔تو اس طرف والی گیس سے وہ شاید بے ہوش نہیں ہوپاتا۔۔۔

        میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا ۔۔۔اور گیس بند کر کے پائپ واپس کھینچ لیا۔۔۔

        ایجنٹ چلتا ہوا میری کھڑکی کے قریب آن پہنچا تھا۔۔۔میں نے ایک ہاتھ میں رسی تھامی ۔۔۔۔اورکہنی کی ایک تیز ضرب کھڑکی پر لگائی ۔۔۔۔۔کھڑکی ایک زوردار کھڑک کی آواز سے کھلی ۔۔۔۔اور میں رسی کے سہارے اندر کود کیا۔۔۔۔

        نیچے والے ایجنٹ نے بوکھلا کراوپر دیکھا۔۔۔اور اسکی گن اوپر کی طرف سیدھی ہونے لگی ۔۔۔میں نے یہ دیکھا تو رسی کو چھوڑا ۔۔۔اور اپنے پورے وزن سے اس کے اوپر چھلانگ لگائی ۔۔۔میں نے اپنے مڑے ہوئے گھٹنے سے اس کے چہرے کو نشانہ بنایا تھا۔۔۔۔فائر کرنے کی اس کی حسرت اسکے دل میں ہی رہی ۔۔۔۔۔۔ایک کرب ناک چیخ مارتاہوا وہ پیچھے گرا ۔۔۔۔۔میں اس کے اوپر ہی تھا۔۔۔۔

        دوسری طرف سان چی بھی رسی کے سہار ے اترنے لگا۔۔۔اس نے بھی اترتے ہی بے ہوش رمیش کو باندھا۔۔۔اور وہیں پرالٹا لیٹ گیا۔۔۔ہمارے درمیان یہی طے تھا ۔۔۔۔کیونکہ اسی ہال کے باہر چا ر سے پانچ لوگوں کا پہرا تھا۔۔۔

        میں نے اپنی طرف والے ایجنٹ کو لیٹے لیٹے نیک لاک لگایا ۔۔۔اور بے ہوش کردیا۔۔۔۔بے ہوش ہوتے ہی اس کے بھی ہاتھ پیر باندھے دیا۔۔۔اور ہال کے مین گیٹ کی طرف کرالنگ شروع کی۔۔سان چی بھی میری طرف آنے گا۔۔۔

        گیٹ پر پہنچ کر میں رکا ۔۔۔اور سان چی کا ویٹ کرنے لگا۔۔۔سان چی میرے قریب پہنچا۔۔۔تو اسے اس کے لوگوں سے بات کرنے کا کہا کہ وہ میٹرو ٹرین کے گرد پوزیشن لے چکے ہیں یا نہیں ۔۔

        یرغمالی ہمیں دیکھ کر پر جوش تھے ۔۔۔۔مگر ہم نے انہیں اسی طرح خاموش رہنے کا کہا۔۔۔وہ خاموشی سے اسیطرح لیٹے رہے ۔۔۔انہیں پتا تھاکہ ان دو کے علاوہ بھی کافی لوگ وہاںموجود ہیں ۔۔۔۔میں نے اور سان چی نے سلنڈر اتار دئے تھے ۔۔۔اور ہاتھوں میں پسٹل لے کرتیار ہوگئے ۔۔۔۔یہ پسٹل سائیلنسر لگے ہوئے تھے ۔۔۔اور ہمیں پوری امید تھی ۔۔۔کہ یہاں والی کارروائی کچھ دور کھڑی میٹرو ٹرین تک نہیں جائے گی ۔۔۔۔

        میں نے ہال کی کھڑکیوں سے باہر چوری چھپے دیکھا۔۔۔۔یہاں چار لوگ الرٹ حالت میں ٹہل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔میں نے چار انگلیوں کی مدد سے سان چی کو اشارہ دیا۔۔۔اور دو لوگوں کو اسکو نشانہ بنانے کا کہا۔۔۔۔سان چی کو میں نے قریب والے لوگ دئے ۔۔۔مجھے امید تھی وہ نشانہ بنالے گا۔۔۔

        دور والے لوگ میں نے اپنے لئے رکھے ۔۔۔سان چی میری بات سمجھ گیا۔۔۔ اس کے بات سمجھتے ہی میں نے دروازہ کھولا ۔۔اور باہرفرنٹ جمپ کرتے رول ہوا۔۔۔۔میرے پیچھے ہی سان چی تھا۔۔۔۔وہ بھی کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھے بیٹھے ہی رول ہوا اور باہر والے ایریا میں پہنچا ۔۔۔۔میری پسٹل فائر اگلنے کو بے تاب تھی ۔۔۔میں نے سانس روکی ۔۔اور اپنے پہلے ٹارگٹ کے ہیڈ کا نشانہ لیتے ہوئےدو فائر کئے ۔۔۔۔اور پھر اگلے ہی لمحہ پسٹل کی نال کی سمت دوسرے ٹارگٹ پر رکھ کر دوبارہ ڈبل فائر کردیا۔۔۔

        سان چی نے بھی میری پیروی کی ۔۔۔۔ اور اپنے دونوں ٹارگٹ کو نشانہ بنا دیا۔۔۔

        ہم اسی طرح رینگتے ہوئے اپنے ٹارگٹ پر پہنچے ۔۔۔۔انہیں کنفرم کیا۔۔۔۔اور پھر انہیں گھسیٹتے ہوئے اسی ہال میں لے آئے ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد رینگتے ہوئےہم اندرونی طرف لگے ہوئے تمام سی فور چارجز اتارنے لگے ۔۔۔۔۔قریب آدھے گھنٹے میں ہم نے میٹرو اسٹیشن کے اندر لگے ہوئے تمام سی فور چارجز اتار کرانہیں ایک محفوظ جگہ رکھ دیا۔۔۔اور پھراسی طرح رینگتے ہوئے ئے میٹرو ٹرین کی طر ف اترنے لگے ۔۔۔۔

        ابھی ہم جاہی رہے تھے ۔۔۔۔کہ نورین والے فون کی وائیبریشن ہونے لگی ۔۔۔میں نے سان چی کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔۔اور فون اٹھاتے ہوئے ٹائم دیکھا ۔۔۔۔۔ہمیں اسی پورے ایکشن سے ایک گھنٹے سے زائد کا وقت ہوگیا۔۔۔میں نے فون اٹھا یا ۔۔توآگے آفندی تھا۔۔۔۔

        باس ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔اور چیکنگ بھی کر لی ہے ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔آفندی نے کہا۔

        مگر کیا۔۔۔۔؟ میں نے آفندی سے پوچھا ۔۔

        باس نورین تھوڑی زخمی ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔ یہاں ان کمینوں نے دروازے کے پیچھے ایک بم سیٹ کیا ہواتھا۔۔۔۔نورین نے مالک مکان سے گھر کی چابی لے کر دروازہ کھولا تو ایک دھماکہ ہوا۔۔۔۔شکرہے کہ دروازہ بڑی اچھی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔۔۔اور اس نے دھماکے کے کافی اثرات کو برداشت کرلیا۔۔۔۔لیکن نورین کے دونوں بازو اور سینے کا کچھ حصہ جھلس گیا ہے ۔۔۔آفندی نے افسردہ لہجے میں کہا۔

        ۔"چلو نورین کو قریب ہاسپٹل بھیجو ۔۔۔اور چیکنگ کی ہے ۔۔۔۔وہاں سے کیا ملا ہے ۔۔۔؟ میں نے آفندی سے کہا۔

        ۔" باس میں نے کافی باریک بینی سے چیکنگ کی ہے ۔۔۔۔ان لوگوں نے کافی مواد جلا کر ڈسٹ بن میں ڈال ہوا تھا۔۔مجھے کچھ ٹکڑے ملے ہیں ۔۔۔۔۔ان کو ملانے پر اندازہ ہوا ہے کہ کسی نقشے کے جلے ہوئے ٹکڑے ہیں ۔۔۔۔"۔آفندی نے کہا۔

        ۔"کس قسم کا نقشہ ہے ۔۔۔۔مزید کوئی تفصیل بتاؤ۔۔۔۔۔"میں نے کہا

        ۔" باس یہ چینگڈو کا ہی نقشہ ہے ۔۔۔لیکن یہ کافی ڈیٹیلڈ میپ ہے ۔۔۔جیسے عام طور پر فلائٹ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔۔۔ان میں مشہور فلائٹ روٹ وغیر ہ بھی مینشن ہوتے ہیں ۔۔۔۔" آفندی کی آواز آتے ہی میرے ذہن میں سنسنی بڑھ گئی ۔۔۔ایک تیز ٹھنڈ ک سی میرےپورے وجود میں طاری ہونے لگی ۔۔۔آفندی کچھ اور بھی کہہ رہا تھا۔۔۔مگر میرے کان بند ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ۔"راجہ صاحب آپ سن رہے ہیں میری آواز ۔۔۔۔۔۔آفندی نے اب تیز آواز میں کہا۔۔۔اس نے شاید میری خاموشی محسوس کر لی تھی ۔۔۔اوروہ کرنل شاؤ کی ابھی کال آئی ہے ۔۔۔۔اس نے کہا ہے کہ تقریب شروع ہوگئی ہے ۔۔۔آپ کہاں پر ہیں ۔؟

        میں نے اپنی حالت پر قابو پایا ۔۔۔۔اور آفندی کو کہا مجھے جلدی سے تقریب والےائیربیس کی لوکیش بھیجو ۔۔۔۔اور فون بند کردیا۔۔۔۔سان چی میری طبیعیت میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اور پوچھنے لگا۔۔کہ باس کیا ہوا ہے ۔۔۔؟

        مگر میرے پاس کسی بات کا جواب نہیں تھا۔۔

        ۔سان چی یہ ٹرین کتنی دیر میں کلئیر کرسکتے ہو ۔۔۔۔۔میری سرد آواز نے سان چی کو کپکپا دیا تھا۔۔

        ۔"باس مجھے دس منٹ چاہئے ۔۔۔۔۔۔" سان چی مودب لہجے میں جواب دیا ۔۔۔

        ۔" ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔مجھے یہ اسٹیشن بالکل کلئیر چاہئے ہے ۔۔۔۔اور دونوں قیدیوں کو لے کر آفندی کے گھر پہنچا دینا ۔۔۔"۔۔۔یہ کہہ کر میں نے باہر دوڑ لگادی ۔۔۔۔




        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



        میرے پاؤں کے نیچے پر لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔رستے میں آنے والی رکاوٹ پر پاؤں رکھتے ہوئے میں اونچی جمپ لگاتا ہوا سامنے کی انٹرنس سےباہر نکلا ۔۔۔۔گیٹ کلئیر ہوچکا تھا۔۔۔دروازہ ایک دھماکے سے کھولتے ہوئے میں باہر نکلا ۔۔۔۔سامنے ہی پولیس کی پوری لائن کھڑی تھی ۔۔۔۔انسپکٹر لیون اور نینسی نے مجھے حیرت سے دیکھا۔۔۔۔۔چائینیز گورنمنٹ کےآفیشل پہنچ چکے تھے۔۔۔۔۔۔مگر میں انہیں پوری طرح سے نظر انداز کرتے ہوئے سان چی کی گاڑی کی طرف بھاگا۔۔۔

        لینڈ کروزرٹائپ کی اس گاڑی کے ٹائر چلائے۔۔۔۔میں نے گاڑی گئیر میں ڈال کر پوری قوت سے ایکسیلیٹر دبا دیا۔۔۔۔اور گاڑی بھگاتا لے گیا۔۔۔۔۔موبائل پر لوکیشن کھول کر میں نے جگہ دیکھی ۔۔۔یہاں سے کچھ فاصلے پر تھی ۔۔۔۔

        ٹریفک ابھی شروع ہورہا تھا۔۔۔میں دانت بھینچتے ہوئے گاڑی کواڑاتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔میرے دماغ میں چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں ۔۔۔۔۔

        جلد ہی میں ائیر بیس کے گیٹ پر تھا ۔۔۔۔۔اپنا لیب والا کارڈ دکھا کر میں اندر داخل ہوگیا۔۔۔۔یہ کارڈ صرف ہائی ٖآفیشل کو ہی الاؤ تھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے پار کنگ کی طرف بھیجا گیا۔۔پارکنگ میں جانے والی گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔مگر میں کچھ اور ہی موڈ میں تھا۔۔میرے ایک طرف ائیر بیس کا رن وے مجھے نظر آرہا تھا۔۔۔جس میں اس وقت ایک دیوہیکل جیٹ فائٹر اپنی پوری آن بان سے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔

        ایک طرف سبز ہلالی پرچم اور دوسری چائنا کا سرخ جھنڈے سے سجا ہوا یہ جیٹ جہازٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والا تھا۔۔۔۔اور تبھی میں جیٹ جہاز کے پائلٹ کو دھیمے قدموں سے جہاز کی طرف آتے دیکھا۔۔۔۔

        میرے پاس وقت کم تھا۔۔۔۔میرےدل کی دھڑکن مجھے اپنےکانوں میں ڈھول بچاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔۔میں نے آگے پارکنگ میں جاتی ہوئی گاڑی کو زوردار ٹکر رسید کی ۔۔۔۔۔اور بیک گئیر لگا کر ایکسیلیٹر دبا دیا۔۔۔۔میری گاڑی پوری قوت سے پہلے آگے ٹکرائی ۔۔۔اور پھر پیچھے والی گاڑی سے ایک دھماکے سے ٹکرائی ۔۔۔۔میں نےاسٹیرنگ گھمایا ۔۔۔۔اور گاڑی کا رخ رن وے کی طرف کردیا۔۔۔۔۔۔طاقت ور انجن پوری قوت سے غرایا ۔۔۔۔۔۔اور گاڑی راکٹ کی طرف رن وے کیجار طرف لپکی ۔۔۔ ۔۔۔رن وے پارکنگ ایریا سے کچھ نیچے تھا ۔۔۔قریب چھ سے ساتھ فیٹ نیچے فاصلہ تھا۔۔۔مگر میں نے رکے بغیر اسے تیز رفتاری سے جمپ کیا ۔۔۔گاڑی نے ایک جمپ لی اور آگے کی طرف لہراتی ہوئی گری ۔۔۔۔۔میں الٹنے سے بال بال بچا تھا۔۔۔۔گاڑی سمبھالی ۔۔۔۔اور پھر آگے بڑھا دی۔۔۔۔۔میرا رخ تیزی سے جیٹ فائٹر پر تھا۔۔۔۔۔میرے ارد گرد سیٹیوں کی آوازیں ۔۔۔۔۔۔۔الارمنگ ہوٹرز بج رہےتھے۔۔۔۔میرے بائیں طرف پوری مہمانوں کی لائن تھے ۔۔۔جو اس کنڈیشن میں بے اختیار کھڑے ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔مگر مجھےصرف اس وقت اپنا جیٹ فائٹر نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔۔

        گاڑی جیٹ فائٹر کے بالکل سامنے تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے دیکھ کر پائلٹ تیزی سے جہاز کی طرف بھاگا ۔۔۔۔۔مگر اس کی اسپیڈ میری گاڑی سے تیز نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔میں چند سیکنڈوں میں اسکے سر پر پہنچ گیاتھا۔۔۔ گاڑی کا کلچ دبا کر میں نے ہینڈ بریک کھینچی اور اسٹیرنگ گھمادیا ۔۔۔۔۔۔

        طاقت ور گاڑی کسی پنکھے کے پر کی طرح گھومی ۔۔۔۔اور اس کی سائیڈ بھاگتے ہوئے پائلٹ سے پوری قوت سے ٹکرائی ۔۔۔۔اور اسے دس فیٹ دور اچھال پھینکا ۔۔۔۔۔میں نے گاڑی کو جیٹ فائٹر سے دور لے جاکر پائلٹ کے قریب روکا۔۔۔اور جمپ کرتا ہوا اتر گیا۔۔۔۔پائلٹ مجھے دیکھ کراترنے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔

        یہ پائلٹ کوئی اور نہیں تھا۔۔۔۔انڈین ایجنٹ ہریش تھا۔۔۔۔۔ابھی میں رکا ہی تھا۔۔کہ سیکورٹی کی گاڑیاں ہمارے ارد گرد آن کھڑی ہوئی ۔۔۔۔اور دھڑا دھڑ فورس اترنےلگی ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھ اوپر کر دئے ۔۔۔۔ہریش نے بھی میری پیروی کردی ۔۔۔۔

        مہمانوں کے ارد گردان کی سیکورٹی فورس آکر ان کو گھیرے میں لے چکی تھی ۔۔۔اور تبھی میں نے ایک حوصلے کی آواز سنی ۔۔۔جو مہمانوں کو سکون سے بیٹھنے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر مہمانوں کے ایریا میں پینٹ کوٹ پہنے ایک شان دار شخصیت موجود تھی ۔۔۔۔ان کی آواز کا سکون اور حوصلہ سب کو شانت کر رہا تھا۔۔۔۔۔جو اس وقت تمام مہمانوں کو بیٹھنے کا کہ رہی تھی ۔۔اس کے عقب میں دو دیوہیکل حبشی جوزف اور جوانا موجود تھے ۔۔۔۔

        تمام لوگ کو سکون سے بٹھا کر وہ شخصیت میری طرف آنے لگی۔۔۔۔۔۔۔جو میرے استاد اور پاکیشیا سیکرٹ سروس کے چیف علی عمران ڈی ایچ ایم ایس سی آکسن تھی ۔۔۔ان کے عقب میں جوز ف اور جوانا لہراتے ہوئےآرہے تھے ۔۔۔میرے قریب آنے کے بعد انہوں نے چائیز فورسز کو ریلیکس ہونے کا کہا ۔۔۔اور اردو میں کہا۔۔" تم لوگ بھی ہماری پولیس کی طرح ہمیشہ دیر سے ہی آیا کرو۔۔اب تو کھیل ختم ہوگیا ہے۔۔۔" ۔

        اور پھر مجھےدیکھ کر کہنے لگے ۔۔۔۔" مجھے پتا تھاکہ تمہاری جو حرکتیں ہیں ۔۔۔یہ جہاز تم مجھ سے ہی اڑواؤگے ۔۔۔

        اور پھر مجھے مہمانوں والے ایریا میں جانے کا کہا۔۔۔۔فورسز نے ہریش کو قابو میں کرلیا۔۔۔اور اسے لے کر اپنی گاڑی میں روانہ ہوگئے ۔۔۔

        میں جوزف اور جوانا کے ساتھ مہمانوں والےایریا میں آن بیٹھا ۔۔۔یہاں کرنل شاؤ مجھ سے ملا ۔۔مہمانوں سے کچھ دور لیب کے سائنٹسٹ بھی نظر آئے ۔۔انکے لئے الگ جگہ تھی۔۔۔ڈاکٹر سمیرا نے مجھے تیز نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔اتنے میں ایک تیز آواز کے ساتھ جیٹ فائٹر نے اسپیڈ پکڑی اور رن وے پر بھاگنا شروع کیا۔۔۔

        عام طور پر جیٹ جہاز کے پائلٹ کے لئےہیلمٹ لازمی ہوتا ہے ۔۔۔کیونکہ جب جہاز 25 ہزار کی بلندی سےاوپر جاتا ہے تو پھر بغیر ہیلمٹ کے مشکل شروع ہوجاتی ہے ۔۔۔۔مگر یہ عمران صاحب تھے ۔۔۔۔جو کسی بھی ناممکن کام کو ممکن بنا سکتے ہیں ۔۔۔

        جیٹ فائٹر نے ایک گونجتی ہوئی آواز کے ساتھ رن وے چھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔اور ہوا میں لہراتا ہوا اوپر اٹھنے لگا۔۔۔۔۔۔جیٹ فائٹر کی اوپر اٹھنے کی اسپیڈ خطرناک حد زیادہ تھی ۔۔۔۔مگر عمران صاحب اس جیٹ کو سیدھا اوپر لیتے گئے ۔۔۔۔جیٹ فائٹر ایک خاص بلند ی پر رکا ۔۔۔۔اور پورے ائیر بیس کا ایک دائرے میں چکر لگایا۔۔۔۔۔بہت ہی تیز اسپیڈ میں انہوں نے کم دائرے میں جہاز کو گھمایا ۔۔۔اور پھر درمیان میں آتے ہی رخ سیدھا اوپر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاز ایک تیز دھماکے دار آواز سے سیدھا آسمان کی بلندیوںمیں غائب ہوگیا۔۔۔۔

        ایک طرف جدید ترین کیمرے اور مشینیں اس پورے منظر کو ریکارڈ کر رہی تھی۔۔اور سامنے بڑی اسکرین پر دکھا رہی تھی۔۔۔دوسری طرف ریڈار ا س کی اسپیڈ کو بھی ماپ رہاتھا۔۔۔۔۔وہاں موجود اسٹاف تمام لوگوں کو جہاز کی اسپیڈ اور اس کے اسٹنٹ کے بارے میں گائیڈ کر رہے تھے ۔۔۔۔اتنے میں اسکرین پر اوپر جاتا ہوا جیٹ ایک لمحے کے لئے رکا۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس پوری قوت سے گرنے لگا۔۔۔جہاز کا رخ الٹا تھا۔۔۔اور وہ تیزی سے واپسی کی طرف گر رہا تھا۔۔۔۔۔گائیڈ کرنے والے اسٹاف نے بتایا کہ جہاز کے پیچھے ایگزاسٹ بند ہوچکا ہے ۔۔۔اسکا مطلب ہے کہ عمران صاحب نے جہاز کو انجن بند کر دیا ہے ۔۔۔۔اور جہاز اپنے پورے وزن سے نیچے گر رہا تھا۔۔۔۔دیکھنے والے تمام لوگ ملٹر ی اور ائرفورس سے متعلق تھے ۔۔۔۔۔مگر اس منظر نے سب میں سنسنی دوڑا دی تھی ۔۔۔۔۔۔ایکدوسرے کو پرجوش انداز میں بتاتے ہوئے وہ اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔

        گرتا ہوا جہاز رن وے کے درمیانی حصے کی طرف گرتا چلا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔اور چند سو فیٹ پر جہاز کے ایگزاسٹ چلنے کی دھماکے دار آواز آئی ۔۔۔جہاز رکا۔۔۔۔۔سیدھا ہوا ۔۔۔۔اور شوں کی آواز کرتا ایک بار پھرنظروں سے غائب ہوگیا۔۔۔اب جیٹ فائٹ نے ایک بڑاسا دائرہ بنایا ۔۔۔۔۔۔اور اسی دائرے میں رہتے ہوئے اپنی اسپیڈ بڑھانے لگا۔۔۔۔۔یہ اسپیڈ انتہائی تیزی سے بڑھی چلی جارہی تھی ۔۔۔۔عام طور پر جیٹ فائٹر کی اسپیڈ 2 سے 3 ماک تک ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔مگر اس جیٹ فائٹر کی اسپیڈ 3 ماک سےاوپر چلی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ جب اسپیڈ 5 سے آگے جانے لگی ۔۔۔تو ایک بار مہمانوں میں کھلبلی مچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔دونوں ملکوں کے ائیر مارشل ایکساتھ بیٹھے تھے ۔۔۔۔اور ان کے چہروں پر سنسنی اور جوش نمایا ں بڑھتا جارہا تھا۔۔۔

        مگر عمران صاحب نےجہاز کو فل تھروٹل پر رکھا ہوا تھا۔۔۔اسپیڈاب 7 ماک سے بڑھتی ہوئی 10 ماک تک جاپہنچی ۔۔۔جہاز سپر سونک اسپیڈ سے بڑھ کر ہائپر اسپیڈ تک جان پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔اور یہ ائیر فورس کی تاریخ کی سب سے تیز ترین اسپیڈ تھی ۔۔۔۔اور پھر یکدم ماحول میں چیخنے کی آواز آئی ۔۔۔۔۔جیٹ فائٹر ریڈار سے غائب ہوچکا تھا۔۔۔۔

        ایک عجیب سا ہیجان آمیز منظر تھا۔۔۔۔تمام لوگوں کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے ۔۔جیسے کچھ بچے پہلی بار جادوگر کو جادو دکھاتا ہوا دیکھ رہے ہوں۔۔۔۔۔۔میں نے لیب والو ں کی طرف دیکھا۔۔۔ڈاکٹر سمیرا بھی خوش تھی۔۔۔پوری ٹیم چہچہا رہی تھی ۔۔۔۔ان کی محنت کا پھل ان کا سامنے تھا۔

        جیٹ فائٹر اب نظروں سے غائب ۔۔۔۔اور اس کی آواز بہت ہی کم چکی تھی ۔۔۔۔۔اسٹیلتھ ٹیکنالوجی نے اسے ریڈار سے غائب کردیاتھا۔۔۔۔۔عمران صاحب وقفے وقفے سے اسموک پھینک کر اپنی موجودگی بتا رہے تھے ۔۔۔

        اور پھر کچھ دیر بعد عمران صاحب نے اپنی اسپیڈ کم کرنا شروع کی ۔۔۔۔۔اور جیٹ فائٹر کو واپس نارمل اسپیڈ پر لانے لگا۔۔۔۔اور پھر انہوں نے جہاز کوائیر بیس کےاوپر مہمانوں کے ایریا کے سامنے لا کر دوبارہ انجن بند کیا ۔۔۔۔۔۔جہاز ایک دم سے نیچے گرا۔۔۔۔چند فیٹ کے فاصلے پر انجن آن کر جہاز کو پھر سمبھالا ۔۔۔اور دوبارہ انجن بند کردیا۔۔۔جہاز ایکدم نیچے گرا ۔۔۔۔۔۔اور کچھ فیٹ کے بعدپھر انجن آن کردیا۔۔۔۔۔اسطرح جیٹ کی اونچائی کم کرتے ہوئے وہ جیٹ فائٹر کو سیدھا نیچے لارہے تھے ۔۔۔۔۔یہ ایک نہایت خطرناک اسٹنٹ تھا۔۔۔مگر پائلٹ سیٹ پر اس وقت عمران صاحب موجود تھے ۔۔۔جن کی مہارت اس آزمائشی تقریب میں ایک نیا ریکارڈ بنا رہی تھی ۔۔۔۔۔ماحول میں ایک بار پھر سنسنی پھیل گئی تھی ۔۔۔۔تمام مہمان اپنی آنکھوں کے سامنےجیٹ فائٹر کو کسی ہیلی کاپٹر کی طرح اترتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ایک چھوٹی سی غلطی یا جلد بازی جیٹ فائٹر کو آگ کے شعلوں میں بدل سکتی ہے ۔۔۔۔مگر عمران صاحب نے کمال مہارت سے اس جیٹ فائٹر کو رن وے پر اتارا۔۔۔۔اور پھر جیٹ فائٹر سے اتر آئے ۔۔۔۔۔تمام مہمان خوشی سے نہال تھے ۔۔۔۔اور ایکدوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے ۔۔۔۔






        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





        سرفروش چہارم ۔۔۔۔ آخری قسط ۔۔۔۔آخری حصہ۔۔۔





        عمران صاحب مسکراتے ہوئے مہمانوں کےایریا میں آئے ۔۔۔تمام چائینز مہمانوں نے انہیں چاروں طرف سےگھیر لیا۔۔۔اور ایسے ملنے لگے جیسے مافوق الفطرت شخص سے مل رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ فائٹر جیٹ سے اترتے ہی جوزف اور جوانا ان کے گرد پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔۔عمران صاحب سب سے ملے ۔۔۔مبارک باد دی ۔۔ڈاکٹر سمیرا اور ان کی ٹیم کو بھی مبارک باد د ی۔۔۔اور آخر میں کہا ۔۔۔کہ ایک غیر ملکی ایجنٹ کی طرف سے ہمارے فائٹر طیارے کو اغوا کر کے اپنے ملک لے جانے کی کوشش تھی ۔۔۔جسے ہمارے اس ایجنٹ نے عین وقت میں ناکام بنا دیا۔۔اس کے لئے آپ سب ان کا بھی شکریہ ادا کریں ۔۔۔۔۔

        عمران صاحب کے اشارے کے ساتھ ہی سب کے چہرے میری طرف مڑ گئے ۔۔۔۔اور تمام لوگ مجھ سے بھی ہاتھ ملانے لگے ۔۔۔ میرا حلیہ ایسا ہورہا تھا۔۔۔جیسے کوئی مزدور دیہاڑی لگا کر ابھی ابھی فارغ ہو گیا ہو۔۔

        ان سب کے ملنے کے دوران مہمانوں والے ایریا کے سامنے مختلف آفیسرز کی گاڑیاں آنے لگیں ۔۔۔اور وہ بیٹھ کر جانے لگے ۔۔۔۔۔آخر میں کرنل شاؤ اور عمران صاحب ہی رہ گئے ۔۔۔میں ان سے کچھ فاصلے پر تھا ۔۔وہ دونو ں آپس میں بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔ عمران صاحب ان کو ہریش والے معاملے کے بارے میں بتا رہے تھے ۔۔۔۔کچھ دیر بعد کرنل شاؤ بھی چلے گئے ۔۔۔اور ایک گاڑی آن رکی ۔۔۔جو یقینا عمران صاحب کے لئے تھی۔۔۔عمران صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ کر نل شاؤ کی رہائش گاہ میں مہمان ہیں ۔۔اور میں اپنا کام ختم کر کے وہاں ملوں ۔۔۔

        یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی کیطرف جانے لگے ۔۔۔تو میں جلدی سے ان کے پیچھے گیا ۔۔۔اور کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کو ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔۔

        ۔" تم نہیں رکو گے ۔۔۔مجھے پتا تھا۔۔۔چلو آجاؤ ۔۔۔۔ویسے تمہاری گاڑی تو اب بیٹھنے کے قابل نہیں ہے ۔۔عمران صاحب مسکرائے ۔۔

        میں آگے چلتے ہوئے ان کی کار کےقریب پہنچا۔۔۔۔۔یہ مرسڈیز کمپنی کی ماڈییفائی گاڑی تھی ۔۔۔جس کے نمبر پلیٹ خاص تھے ۔۔۔اور کار کے بونٹ پر سنہری عقاب بنا ہوا تھا۔۔۔۔میں نے ڈرائیور سے گاڑی کی چابی لے لی ۔۔اور اسے خود سے آنے کاکہا۔۔۔عمران صاحب میرے ساتھ آگے بیٹھ گئے ۔۔۔اور جوزف جوانا پچھلی سیٹ پر ۔۔۔۔

        میں نے کار اسٹارٹ کی اور آگے بڑھادی ۔۔۔

        ائیر بیس سے نکلتے ہی میں نے وہ سوال کر دیا ۔۔جس کے جواب کے لئے میں ان کے ساتھ آنے پر ضد کر رہا تھا۔۔۔

        ۔"عمران صاحب آپ کو کیسے پتا چلا کہ جہاز کا پائلٹ غدار ہے ۔۔۔۔اور آپ کو جہاز چلانا پڑے گا۔۔۔میں نے پوچھا۔۔

        ۔" بھائی میں تو یہاں مہمان بن کر آیا تھا ۔۔۔کہ چلو آفیشل چکر لگ جائے گا ۔۔اور ایکسٹو سے کوئی بھاری بھرکم چیک مل جائے گا ۔۔جس میں سلیمان کاکچھ قرض اتار سکوں گا۔۔۔۔۔مگر جب آفندی کے گھر سرپرائز دینے پہنچا تو پتا چلا کہ پوری کمپنی تو غائب ہے ۔۔۔۔مجھے آفندی کا گارڈ جو انٹیلی جنس کا ہے ۔۔۔۔۔اس نے پوری تفصیل بتا دی ۔قیدی وہاں موجود تھے ۔۔۔۔۔میں نے پہلی فرصت میں ان اسرائیلی ایجنٹ کے منہ کھلوائے ۔۔۔۔کوشش تو انہوں نے بہت کی ۔۔۔مگر جوزف اور جوانا کے آگے ان کی کچھ نہ چلی ۔۔۔اور پلان یہی تھا کہ ہریش نے فائٹر جیٹ اڑا نا تھا۔۔۔۔اور پھر سیدھا اسے سرحد پار لے جانا تھا۔۔۔۔۔وہاں جہاز کی ٹیکنالوجی بھی ان کے ہاتھ لگ جاتی ۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ ہم لوگوں کی سبکی بھی ہوتی ۔۔عمران صاحب نے تفصیل سے جواب دیا۔

        تو عمران صاحب اگر میں عین وقت پر نہ پہنچتا تو ہریش تو یہ جہاز اڑا کر لےجاتا ۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ پوچھا۔۔

        ۔"ارے گھونچو ۔۔۔۔جب کوئی پوری دل جمعی سے کام کرتا ہے ۔۔۔۔تو اوپر والا بھی اسکا ساتھ دیتا ہے ۔۔۔اور وطن کی خاطر لڑنے والوں کو کبھی کبھی ایسے چانس ملتے ہیں کہ عام لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔۔میں نے اسرائیلی ایجنٹ کا منہ کھلواتے ہی ڈاکٹر سمیرا سے رابطہ کیا۔۔۔اور اس نے جہاز کی فائنل چیکنگ کے بہانے جہاز کے سیکورٹی کوڈ بدل دئے تھے ۔۔۔۔۔ہریش کبھی وہ جہاز اڑ ا ہی نہ پاتا ۔۔۔۔۔اسی لئے میں مطمئن انداز میں وہاں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔آخر تم پر بھی تو میں نے اپنا خون جلا کر محنت کی ۔۔۔عمران صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔۔۔

        ۔" اب تم جلدی سے اس کیس کو آخر تک پہنچا ؤ ۔۔۔۔مجھے یہاں کرنل شاؤ کے ساتھ ہائی پروفائل لوگوں کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے ۔۔۔تمام چیزیں فائنل کر کے مجھ سے رابطہ کرلینا۔۔ہوسکتا ہے ۔۔واپسی ساتھ ہو ۔۔۔ہوسکتا ہے تمہیں الگ بھیجنا پڑے ۔

        ائیر بیس سے مین روڈ پر آتے ہی بے تحاشہ ٹریفک تھا۔۔۔مگر پہلے سگنل پر ہی ہماری کار دیکھتے ہی ٹریفک سارجنٹ نے ہمیں سلوٹ کیا۔۔۔اور پھر ریڈیو پر میسج چلا دیا۔۔۔۔ایک تو ہمیں اپنی لائن کا ٹریفک بالکل کلئیر ملا ۔۔۔۔دوسرا پھر سگنل پر رکنا نہیں پڑا ۔۔۔۔۔ہر سگنل پر ٹریفک سارجنٹ نے بار بار سلیوٹ پیش کئے ۔۔۔۔یہ شاید اس خاص نمبر والی کار کا پروٹوکول تھا۔۔۔

        میں نے عمران صاحب کو کرنل شاؤ کے ہاں ڈراپ کیا۔۔۔۔۔اور سان چی کو فون کیا۔۔۔

        اس نے وہاں پورا میدان کلئیر کردیا تھا۔۔۔آفندی بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔۔وہاں کا مکمل کریڈٹ اس نے انسپکٹر لیون اور انسپکٹر نینسی کو دے دیا۔۔۔جس سے ایک دم ان کی واہ واہ ہوگئی ۔۔۔سان چی کو میں نے آنے کا کہا ۔۔۔وہ کچھ دیر میں اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ گیا۔۔۔اور ہم وہاں سے سیدھا ہاسپٹل پہنچے ۔۔۔جہاں پر نورین زخمی حالت میں تھی ۔۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر طبیعیت خوش ہوگئی ۔۔۔کیونکہ نہایت ہی معمولی چوٹیں تھیں ۔۔۔۔۔ وہاں میں نےآفندی اور نورین کو ساری کہانی بتائی کہ کیسے جب آفندی نے مجھے فلائٹ میپ کا بتایا ۔۔۔تو فورا ذہن میں آیا کہ ان کا پلان جیٹ فائٹر کےاغوا کا ہے۔۔اور میں پوری اسپیڈ سے ائیر بیس پہنچا۔۔۔۔کیونکہ یہ میپ صرف پائلٹ کی ضرورت ہوتے ہیں۔۔۔۔اسرائیلی ایجنٹ کا بھی بتا دیا کہ عمران صاحب نے ان کا منہ کھلوا کر ہم سے پہلے اس پلان تک پہنچ گئے تھے ۔۔۔



        آفندی بھی عمران صاحب کی آمد کا سن کر خوش ہوا ۔۔نورین بھی خوش ہوئی اور پوچھنے لگی ۔۔۔باس میری کارگردگی آپ کو کیسے لگی ۔۔۔۔ اب میں آپ لوگوں کے ملک جاسکتی ہوں ۔۔۔۔۔

        میں نے مسکرا کر اسے تھپکی دی اور کہا۔۔۔اب وہ تمہار ا بھی ملک ہے ۔۔۔۔اور ملک کی خاطر لڑنے والوں کو ہم دل جو جان سے قبول کرتے ہیں ۔۔۔۔مجھے سو فیصد امید ہے کہ عمران صاحب تمہارے لئے چائینز آفیشلز سے بات کر کے تمہیں لے جانے کی اجاز ت لے لیں گے ۔۔۔

        نورین کی بینڈیج وغیر ہ کر کے ہم آفندی کے گھر پہنچے ۔۔۔۔۔۔جہاں پر زبردست سے کھانے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ہم سب نہا دھو کر فریش ہوئے ۔۔۔۔۔کھانا کھایا ۔۔۔ ۔۔۔اتنے میں انسپکٹر لیون اور نینسی بھی پہنچ گئے ۔۔۔ان کے چہرے بھی بے تحاشہ خوشی سے دمک رہے تھے ۔۔۔۔۔اور جب انہوں نے بتایا کہ ان دونوں کی پروموشن ہوگئی ہے ۔۔اور اب وہ سپرینٹنڈینٹ بن چکے ہیں ۔۔۔۔۔تو ہماری خوشی اور دوگنی ہوگئی ۔۔۔اس کیس پر تمام لوگوں نے بہت محنت کی ۔۔۔اور سرا ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اپنی کوششوں میں لگے رہے ۔۔۔جس کاصلہ ہمیں کامیابی کی صورت میں ملا۔۔۔۔اب بس ایک کام رہتا تھا ۔۔۔اور اس کے لئے ہمیں رات کا انتظار تھا۔۔۔

        رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔۔۔۔۔ ہم سب خوش گپیوں میں مگن تھے ۔۔۔۔۔۔کھانے پینے ، میٹھے کا دور مستقل چلتا رہا تھا۔۔۔۔سان چی اور نورین اب آگے ایک پکنک کی پلاننگ کر رہے تھے ۔۔۔۔کہ کامیاب مشن کے بعد ایک پکنک بنتی ہے ۔۔۔اور اس پکنک میں انسپکٹر لیون اور نینسی کو بھی شامل کیا جارہا تھا۔۔۔

        ہمیں ایک فون کا انتظار تھا۔۔۔اوراس فون کے آتے ہی ہم نکل پڑے ۔۔۔میں ، سان چی ، اور آفندی رات کی تاریکی میں نکلے تھے ۔۔۔۔۔اور سیدھا اپنی مطلوبہ منزل پر جان پہنچے ۔۔۔۔۔سان چی اور آفندی کو ان کی جگہ کھڑا کر کے میں پچھلی کھڑکی پر پہنچا ۔۔۔۔۔اور نہایت آرام سے کھڑکی کھولتے ہوئے اندر داخل ہوگیا۔۔۔کمرے میں کو ئی نہیں تھا۔۔۔۔میں دوسرے کمرے کے گیٹ پر آیا اور ہلکا سا پردہ ہلاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔

        اندر دو جوان جسم ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے تھے ۔۔کم روشنی میں ان کے سائے دیوار پر ایک دوسرے سے کشتی لڑ رہے تھے۔۔۔۔ان کی آواز نہایت شہوت انگیز اور جذبات سے پر تھیں ۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔اور ان کو مصروف دیکھ کر فلیٹ کا مین گیٹ کھول کر آگیا۔۔۔جس سے آفندی اور سان چی بھی اندر آگئے ۔۔۔

        اندر کا منظر دیکھ کر سان چی بولے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔" باس یہاں تو فل سین بنا ہوا ہے ۔۔۔۔۔"۔اور اپنا موبائل نکال کر ریکارڈنگ آن کردی ۔۔۔۔

        قریب دس منٹ تک وہ جوڑا اسی طریقے سے چلاتے ہوئے سیکس کرتا رہا ۔۔۔اندر موجود عورت بہت گرم اور بھری ہوئی تھی ۔۔۔اس نے بڑے دم دار طریقے سے آدمی پر سواری کی ۔۔۔۔جب دونوں تھک کر بیڈ پر گرے تو سان چی نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کردی ۔اس کے موبائل پر ریکارڈنگ ویسے ہی ہورہی تھی۔۔۔۔کمرے میں لائٹ جلتے ہی دونوں وجود کو کرنٹ لگ گیا۔۔۔۔ان کی آنکھیں پھیل کر پھٹنے والی ہوں گیں ۔۔۔

        اس آدمی کے منہ سے نکلا ۔۔۔جنٹلمین ۔۔۔تم ۔۔۔۔۔۔۔

        وہ آدمی کوئی اور نہیں بلکہ وہی پروفیسر تھا۔۔۔۔جسے پچھلی رات ہم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں چھوڑ کر گئے تھے ۔۔۔۔۔اور اس کے اوپر سواری کرنے والی جنرل فینگ کی بیوی تھی۔۔۔۔۔جنرل فینگ انسپکٹر لیون کا سینئر آفیسر تھا۔۔۔اور اسکی بیوی لیبارٹری کی سپروائزر تھی ۔۔۔۔جب انسپکٹر لیون اور آفندی مجھے لے کر جنرل فینگ سے ملوانے لے کر گئے تو وہ وہاں بس ایک بار سامنے آئی ۔۔۔۔۔اور پھر اوٹ میں رہی ۔۔۔۔۔اسی لئے جب آفندی نے ڈاکٹر سمیرا کے فون میں اسکی تصویر دیکھی توایک بار دیکھے ہونے کی وجہ سے مکمل پہچا ن نہیں سکا۔۔۔۔اورجنرل فینگ کی ہی بیوی نے مکاؤ میں اس ڈان کو گارنٹی دی تھی ۔۔۔۔لیبارٹری میں موجود ہونے کی وجہ سے لیبارٹری میں ہونے والی تمام کارگردگی اس کے زریعے باہر جاتی رہی۔۔۔

        میں نےجنرل فینگ کی بیوی کی طرف کپڑے پھینکے اور پہننے کا کہا۔۔۔اس کا چہرہ کا حسن پھیکا پڑ چکا تھا۔۔۔۔اسی کمرے میں دو بیگ اور تیار تھے ۔۔۔۔۔پروفیسر اور جنرل کی بیوی آج رات سیکس کے بعد پرواز کرنے والے تھے ۔۔۔

        دونوں کو لے کر ہم آفند ی کے گھر آگئے ۔۔۔۔جہان دونوں کو سان چی کے حوالے کیا۔۔۔۔کہ ان سے قبول و ایجاب کروایا جائے ۔۔۔۔۔اس نے تین گھنٹے بعد اوکے کی رپورٹ دے دی ۔۔اور پھر جو صورتحال سامنے آئی۔۔وہ اگلے دن صبح انسپکٹر لیو ن نے پولیس کی ایک اندرونی میٹنگ میں سب کے سامنے رکھے ۔۔۔نورین نے اس پوری رپورٹ میں مکاؤ کے ڈان کے فون سے ملنے والے موبائل نمبر ۔۔۔۔ اورآپس کے کنکشن کے تمام ثبوت ایک جگہ اکھٹے کر کے لیون کو دئے تھے ۔۔۔اور اس نے یہ میٹنگ میں پڑھ کر سنا دی۔۔

        پروفیسر کا اصل نام مارٹن تھا۔۔۔اور وہ یہاں پر انجینئرنگ یونیورسٹی میں ائیر و ناٹیکل ڈپارٹ کا ہیڈ آف دی ڈپارٹ تھا۔۔۔۔جنرل فینگ کی بیوی شاوئسے اس کی اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔۔۔شاوئسے ایک اچھی اور بریلینٹ اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔۔اور جلد ہی پروفیسر اور اس میں انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی ۔۔ساتھ جسمانی تعلقات بھی قائم ہوگئے۔۔۔انجینئر بننے کے بعد ہی جنرل فینگ سے اس کی ملاقات ہوئی ۔۔۔جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔۔۔۔اس نے شاوئسے کو لیبارٹری میں سپروائزر کی جاب لگوائی ۔۔۔۔اورساتھ ہی پروپوز بھی کردیا۔۔جنرل فینگ کی پہلی بیوی فوت ہوچکی تھی ۔۔اور یہ دوسری شادی تھی ۔۔۔شاوئسے نے پروفیسر مارٹن کی اجازت سے شادی کر لی ۔۔۔اور بعد میں اس سے بھی ملتی رہی ۔۔۔۔

        پروفیسر مارٹن اسرائیلی انٹیلی جنس کے لئے بھی کام کرتا تھا۔۔۔۔اور شاوئسے کے روپ میں اسے چائنا کی سب سے خفیہ ائیرکرافٹ لیب کے اندر کا راستہ مل گیا تھا۔۔۔جیسے ہی جیٹ فائٹر پر ڈاکٹر سمیرا کے ایکسپیرمنٹ کامیاب ہوئے ۔۔ شاوئسے نے یہ بات پروفیسر مارٹن کو بتائی اور اس نے اسرائیلی انٹیلی جنس کو کہلوا کر ٹیم منگوا لیا۔۔۔۔انڈین ایجنٹس کو اس لئے شامل کیا گیا کہ جیٹ فائٹر اڑا کرقریب ترین ملک انڈیا میں لے جایا جائے ۔۔۔ایک بار جیٹ فائٹر ہوا میں اڑ جاتا تو اسے پکڑنا یا ٹریس کرنا ناممکن تھا۔۔۔۔ہریش کو پائلٹ کی تربیت یہیں پر پروفیسر اور شاوئسے نے دلوائی ۔۔۔۔اور لاسٹ مومنٹ میں اسے پائلٹ کے لئے منتخب بھی کروایا۔۔۔

        آخر میں شاوئسے اور پروفیسر کے لئے باہریورپین ملک میں ایک عالیشان زندگی اور نہ ختم ہونے بینک بیلنس تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے ہی ان کی لائن کٹ گئی ۔اور وہ گرفتارہوگئے۔۔لیون نے نورین کی بنائی ہوئی مکمل رپورٹ میٹنگ میں پڑھ کر سنا دی ۔۔۔۔اس کے بعد میٹنگ میں موجود ملٹری انٹیلی جنس کے لوگ اپنی گاڑیوں میں آفندی کے گھر پہنچے اور تمام قیدیوں کو اپنے قبضے میں کیا۔۔۔

        نورین کی بنائی رپورٹ کی ایک کاپی کرنل شاؤ کو بھیج دی گئی ۔۔۔۔۔ جسے دیکھ کر عمران صاحب کی مجھے کال آئی کہ اب واقعی مشن مکمل ہوا ہے ۔۔۔۔وہ اسرائیلی ایجنٹ سے پہلے ہی شاوئسے اورپروفیسر کا نام اگلوا چکےتھے ۔۔۔مگر مجھے نہیں بتایا ۔۔عمران صاحب اگلے دن واپس چلےگئے ۔۔۔۔۔انہوں نے مجھے کچھ ریسٹ کے بعد اپنے ملک واپس آنے کا اشارہ دے دیا۔۔جو میرے لئے خوشی کا باعث تھا۔۔۔۔۔۔میں پچھلے تین سالوں میں اپنے ملک سے باہر تھا۔۔۔۔۔بس یاروں کی وفا کندھے پر رکھے ملک دشمن لوگوں سے لڑ رہے تھے ۔۔۔۔

        اب ہم لوگ آزاد تھے ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سمیرا بھی آفندی کے گھر آگئی تھی ۔۔۔۔۔پکنک کی تیاریاں زور شور سے جاری تھی ۔۔۔سان چی اس معاملے میں سب سے آگے تھے ۔۔۔۔ سب سامان تیار کر کے ہم پکنک پر نکل گئے ۔۔۔دو گاڑیوں میں آفندی ، نورین ، سان چی ، میں اور ڈاکٹر سمیرا تھی۔۔۔۔۔انسپکٹر لیون ثبوتوں کی فائل کو فائنل کرنے میں لگا تھا۔۔۔کیونکہ فائل مکمل فائل تیار کر کے ان تمام قیدیوں کو گولی سے ماردیا جانا تھا۔۔۔چائنا میں غداروں کی ایک ہی سزا ہے ۔۔اور وہ فوری موت ہے ۔۔۔۔

        البتہ نینسی ہمارے ساتھ تھی ۔۔۔میں دیکھ رہا تھا۔۔۔کہ اس کا جھکاؤ آفندی کی طرف ہے ۔۔۔۔میں اسکو اچھا سمجھ رہا تھا۔۔۔کیونکہ آفندی کو یہاں پولیس میں ہر طرح کی مدد مل جاتی ۔۔۔دوسری طرف نورین اور سان چی بھی بڑی جلدی ایکدوسرے کے قریب آئے ۔۔۔۔۔سان چی جوان عمر تھا۔۔۔اور ہنسنے ہنسانے والا بندہ تھا۔۔۔۔پچھلے کچھ دنوں میں اس نے اپنی وفاداری ثابت کی تھی ۔۔۔۔۔۔جبکہ نورین بھی نو جوان ، خوبصورت اور پرکشش تھی ۔۔۔اگر اس نے سان چی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ ٹھیک ہی تھا۔۔

        سفر میں ڈاکٹر سمیرا نے تمام لوگوں کو آپس میں سیٹ ہوتے دیکھا تو میری طرف آگئی ۔۔۔۔ہم دونوں ہی اکیلے باقی بچے تھے۔۔۔

        پکنک سمندر کنارے کی تھی۔۔۔۔۔۔ پرائیوٹ ہٹ بک کروائے گئے ۔۔۔ہم نے گاڑی سے سارا سامان اتار کر ہٹ میں رکھا۔۔۔۔۔ہٹ کافی بڑ ا تھا۔۔۔گراؤنڈ فلور پر تین بڑے بیڈ روم ۔۔۔اور اوپری منزل پر ڈائننگ ہال سجا تھا۔۔ہم نےکھانا کھایا۔۔۔کپڑے چینج ۔۔۔کافی دیر سمندر میں تیراکی کی ۔۔۔ایکدوسرے سے کھیل کود ، مذاق کرتے رہے ۔۔۔۔اور جب تھک گئے تو کمرے میں آکر سوگئے ۔۔۔۔ہم نے ایک ہی بیڈ روم مختص کیا تھا۔

        میں بستر پر گرتے ہی سوگیا۔۔۔۔۔ دو تین گھنٹے کی نیند کے بعد میری آنکھ کھلی ۔۔۔تو ایک نسوانی بوجھ میرے اوپر تھا ۔۔۔میں نے دیکھا تو یہ سمیرا تھی ۔۔۔جو اس وقت کپڑوں کے بغیر تھی ۔۔۔۔میرے چہرے کو چومے جارہی تھی ۔۔۔اس کے نرم گول ممے میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔سمیرا بڑے جذباتی انداز میں چومے جارہی تھی ۔۔۔میں نے ایک ہاتھ اس کے بھاری چوتڑوں پر رکھ دیا۔۔۔۔اور دبانے لگا۔۔۔

        تبھی مجھے کچھ اور بھی احساس ہوا ۔۔۔۔۔ میرے سامنے والے صوفے پر نینسی اس وقت نینسی آفندی کے اوپر سوار ہوئی گھڑسواری کر رہی تھی ۔۔۔۔اس کے منہ سے ہیجان آمیز آوازیں سسکیاں اور آہیں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔وہ بڑے وحشی انداز میں آفندی کے لن کی سواری کر رہی تھی ۔۔۔۔اس کے پستان بار بار اوپر کو اچھلتے ۔۔۔۔۔اور پھر نیچے گرتے ۔۔

        میں نے دوسری طر ف دیکھا ۔۔۔جہاں نورین اور سان چی لیٹے تھے ۔۔۔دونوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔۔۔۔۔صاف لگ رہا تھا کہ دونوں شرمارہے ہیں ۔۔۔۔میں نےلیٹے لیٹے سان چی کو ٹانگ ماری ۔۔۔۔یہ اشارہ تھا کہ اسے بھی اجازت ہے ۔۔۔سان چی نے اشارہ سمجھ لیا۔۔۔اور کروٹ لے کر نورین کی طرف ہوا ۔۔۔۔۔اور اس سے بغل گیر ہوگیا۔۔۔۔

        اس پورے سین نے میرے اندر کےطوفان کو جگا دیاتھا۔۔۔۔سمیرا پوری ننگی تھی ۔۔۔۔میں نے کروٹ لے کر اسے نیچے لٹایا۔۔۔اور خود اوپر آگیا۔۔۔۔اس کے بوسوں کا جواب دینے لگا۔۔۔۔۔سمیرا کے پستان کافی بڑے موٹے اور سخت تھے ۔۔۔انہیں مزے سے چوما۔۔۔۔چوسا۔۔۔۔۔اور پھر ناف تک زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔سمیرا نے میرے نیکر کو نیچے کھینچ دیا۔۔۔ میرے موٹے اور سخت ہتھیارنے بھرپور انگڑائی لی ۔۔۔اور اکڑ کر سیدھا ہونے لگا۔۔۔۔سمیرانے ایک نظر میرے ہتھیار کو دیکھا ۔۔۔۔اور پھر اسے تھام لیا۔۔۔۔جو اس وقت گرم اور لوہے کا راڈ بنا ہوا تھا۔۔۔۔سمیرا اسے دبا دبا کر اس کی سختی چیک کرنے لگی ۔۔۔۔لمبائی ماپنے لگی۔۔۔موٹائی سمجھنے لگی۔۔۔۔

        میں نے اس کے موٹے مموں کو اچھے سے چوما ۔۔۔۔اور پھر اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر سینے سے لگادی۔۔مجھے حرکت میں آتا دیکھ کر سمیرا نے سرگوشی کی ۔۔۔راجہ آرام سے شروع کرنا ۔۔۔میں نے یہ سائز کبھی نہ لیا۔۔ میں نے اسے تسلی دی ۔۔۔

        اور اسکی پھدی کے لبوں پر ہتھیار ٹکا کراندر دھکا دیا ۔۔۔۔سس ۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔اف۔۔۔۔۔سمیرا چلائی ۔۔۔

        ابھی وہ رکی ہی تھی کہ میں نے دوبارہ دھکا دے کر آدھا لن اندر پہنچادی ۔۔۔سمیرا کے منہ سے پھر اففف۔۔۔کی آواز نکلی ۔۔۔آ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔ہا ہ۔۔۔۔میں نے اس کے موٹے ممے تھامے ۔۔۔اور آہستہ آہستہ ہلنے لگا۔۔۔

        سان چی نے نورین کی برا اور پینٹی اتار دی ۔۔۔۔اور اس کے صحت مند آموں سے کھیلنے میں لگ گیا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے اس نے دبا دبا کر نورین کے آموں کا رس پیا ۔۔۔۔۔نورین کے لئے یہ مزہ اور لذت بہت عرصے بعد ملی تھی ۔۔۔ہائی اسکول میں اسکا ایک بوائے فرینڈ تھا۔۔۔اسکے بعد اس نے کسی مرد سے تعلق رکھا ہی نہیں۔۔اسلئے سان چی نے جب اس کے سینے کے ابھاروں کو پکڑ کر دبایا۔۔تو اسکے جسم میں بھی کرنٹ دوڑنے لگا۔۔۔۔ایک نشہ اور شہوت اس کی نس نس میں دوڑنے لگی۔۔

        ادھر آفندی نے نینسی کی ٹانگیں اٹھا کر اسکی دھلائی شروع کی ہوئی تھی ۔۔۔۔میں مکاؤ سے واپس آکر دونوں کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ دونوں نے بازی مار لی ہے ۔۔۔جس کا ثبوت انکی آج کی دھواں دار چدائی ہے ۔۔۔نینسی پہلے تو اپنی آواز وں کو کنٹرول کر ہی تھی ۔۔۔مگر جب سے ہم چاروں کو بھی اسی حال میں دیکھا تو اسکی شہوانی آوازیں اور بلند ہو گئیں۔۔۔۔کمرے میں اب سب سے تیز اسکی آوازیں تھیں ۔۔

        سمیرا اب میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔اس کے منہ سے گرم گرم سسکاریوں کا ایک طوفان تھا۔۔۔ آہ ۔۔۔۔سس ۔۔۔افف۔۔۔۔راجہ ۔۔۔میں نے اسکی ٹانگیں کھولیں اور اب لن کو گہرائی میں لے جانے لگا۔۔۔جس کے بعد سمیرا کے چہرے پر مزے کے ساتھ درد کے بھی آثار آنے لگے ۔۔۔موٹاہتھیار اس کی پھدی میں پھنس پھنس کر جا رہا تھا۔۔۔۔اور بچہ دانی پر ٹھوکر لگتی تو وہ چیخ مار کر اچھل جاتی ۔۔۔۔

        سان چی نے نورین کے آموں کا رس پینے کے بعد نیچے کا سفر کیا۔۔۔نورین کے گداز پیٹ کو چومتے ہوئے وہ نیچے پہنچا ۔۔۔ناف کے نیچے نورین کی نازک سیپی کو چوما۔۔۔۔اور اوپر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔اس کیفیت نے نورین کی چیخیں نکال دی ۔۔۔۔اب تک وہ شرم کی وجہ سے کنٹرول میں تھی ۔۔مگر یہ مزہ تو اسے ہلائے دے رہا تھا۔۔۔اسکی سریلی آہوں نے تو میرے جسم میں آگ بھڑکادی ۔۔۔۔۔۔۔۔بہت ہی شہوت انگیز اور لذت بھری آہیں تھیں۔۔۔آ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔آ ں ہ ہ ہ۔۔۔ہا ں۔۔۔۔۔

        آفندی نے نینسی کو گھوڑی بنا کر پیچھے سے اسکی پھدی کی گرمی بجھا رہا تھا۔۔۔۔ پیچھے سے جاتے ہوئے لن نے نینسی کی چیخیں نکلوا دی تھی ۔۔۔وہ مزے اور درد دونوں کو انجوائے کرتی ہوئی چلارہی تھی۔۔۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آفندی نے اسکی پھدی میں پانی چھوڑا اور دونوں صوفے پر گر کر سانسیں لینے لگے ۔۔۔۔

        ادھرسمیرا کی بھی بس ہوئی پڑی تھی ۔۔۔۔وہ ایک بار فارغ ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔اور اب ریسٹ کرنے کے موڈ میں تھی ۔۔میں نے بھی تھوڑا ریسٹ کرنا مناسب سمجھا اور لن نکال کر اسکے برابر لیٹ گیا۔۔۔۔

        اب ہم چاروں سان چی اور نورین پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے ۔۔۔۔سان چی پوری دلجمعی سے نورین کی پھدی چاٹ رہاتھا۔۔۔اور نورین ماہی بے آب کی طرح چلا رہی تھی ۔۔۔۔نورین کی آنکھیں بند اور منہ کھلا ہوا تھا۔۔۔۔اور آہ ہ ۔۔۔آ ہ ہ ہ کی آوازیں بھرپور طریقے سے نکل رہی تھی ۔۔۔سان چی نے ہم چاروں کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو ایک لمحہ کیلئے شرما گیا۔۔۔مگرہم نے اشارہ کیا کہ لگے رہو۔۔۔۔

        اتنے میں سان چی نے بھی اپنی نیکر اتار لی ۔۔۔۔اس کا لن ایوریج چھ انچ کے سائز کا تھا۔۔۔۔۔نیکر اتار کر اس نے نورین کی ٹانگیں اٹھا دیں۔۔۔۔اور لن اندر کرنےلگا۔۔۔نورین نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔اور پھر اس کی نظر بھی ہم پر پڑی ۔۔وہ بھی ایک دم شرمائی ۔۔۔۔اسی لمحے سان چی نے اپنا لن اس کی نازک چوت میں داخل کردی۔۔۔نورین بے اختیار چلا اٹھی ۔۔۔۔اس نے سان چی کے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔

        سان چی کچھ دیر رکا رہا ۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ ہلنے لگا۔۔۔۔نورین اپنی سریلی آواز میں اسے شاباشی دینے لگی۔۔۔اس کے لمبے سے آم ہل ہل کرخوشی سے جھومنےلگے۔۔۔سان چی نے اپنا پورا لن نورین کی چوت میں ڈال کر اب تیز دھکے دینے لگا۔۔۔۔۔ نورین اب بھرپور مزے سے چلارہی رہی تھی ۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔۔اف ۔۔۔۔افف۔۔۔۔۔اوہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔

        سان چی اپنی اسپیڈ تیز کرتے جارہا تھا۔۔۔ان کا سین دیکھ میر ا لن جھٹکے کھانے لگا۔۔۔۔سمیرا نے یہ دیکھ کر اسے تھام لیا۔۔۔اور بولی ۔۔۔کیا کھلا کر اسے اتنا بڑا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔اس نے تو بس کروادی ہے ۔۔۔۔میری۔۔۔۔۔بہت ظالم ہتھیار ہے ۔۔۔

        سمیرا کے ہاتھ ہتھیار کی موٹائی کو تھامنےمیں ناکام تھے ۔۔۔۔اور لمبائی ۔۔۔۔آدھا ہتھیار ہی اس کی دونوں مٹھیوں میں سما پاتا تھا۔۔۔۔میں نے سمیرا کی طرف دیکھا ۔۔۔اور اسکے دونوں مموں کو دبانے لگا ۔۔۔اگلے راؤنڈ میں میں وائلڈ ہونے والا تھا۔۔اور سمیرا کا فل تیار ہونا لازمی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں نینسی کو کیا سوجھی ۔۔۔وہ اٹھ کر سمیرا کےقریب آ کر لیٹ گئی ۔۔۔ایک طرف تو وہ نورین اور سان چی کے قریب ہو کر ان کی تیز چدائی دیکھنے لگی۔۔۔دوسری طرف اس نے سمیرا کو زور سے جھپی دے دی ۔۔۔اور ایکدوسرے کی صحت مند رانوں کو آپس میں ملا کر ایکدوسرے کی پھدی سے پھدی ملانے لگی ۔۔۔میں نے یہ منظر دیکھا تو تھوڑا پیچھےہو کر سمیرا کی کروٹ مکمل طور پر نینسی کی طرف کردی ۔۔۔دونوں اب ایک دوسرے سے صحیح سے ہگ کرکے پستانوں کو آپس میں ملا کر بوسہ دینے لگے ۔۔۔۔

        ادھر سان چی نے نورین کی چوت میں آخری جھٹکے مارے اور بے حال ہو کر وہیں لیٹ گیا۔۔نورین تیز سانسیں لینے لگی ۔۔۔۔اس کا جسم بھی پسینے میں شرابور تھا۔۔۔۔۔مگر سان چی کا حال زیادہ برا تھا۔۔۔چونکہ وہ اوپر تھا ۔۔اور زیادہ حرکت بھی وہی کر رہا تھا۔۔۔۔

        میں ادھر سمیرا ور نینسی کے جسم کا موازنہ کر رہاتھا۔۔۔۔نینسی کاجسم بالکل سفید میدے جیسا ۔۔۔اس کے پستان سمیرا سے چھوٹے ۔۔۔۔۔۔۔مگر چوتڑ بہت گول اور باہر کو ابھرے ہوئے ۔۔۔۔۔۔چلتے ہوئے قیامت برپا کرنے والے ۔۔۔۔

        اور سمیرا سانولی رنگ کی تھی ۔۔مگر جسم بھرا ہوا ۔۔۔اور اس کے پستان خوب موٹے ، اور سخت تھے ۔۔۔۔۔نینسی کے اس کے مقابلے میں آدھے پستان تھے ۔۔۔۔سمیرا کے چوتڑ بھی گول تھے ۔۔۔مگر زیادہ باہر کو نہیں تھے ۔۔۔

        اور نورین ان دونوں کے مقابلے مین نازک اسمارٹ تھی ۔۔۔اس کے پستان نینسی کی طرح چھوٹے مگر ان چھوئے ۔۔نپلز بالکل گلابی۔۔۔۔اور چوتڑ بھی چھوٹے مگر گول اور نہایت خوبصورت ۔۔۔

        نینسی سمیرا سےلپٹتے ہوئے اسے چوم رہی تھی ۔۔۔۔ایک دوسرے کو مموں کو دبا رہے تھے ۔۔۔۔سسک رہے تھے ۔۔۔تبھی نینسی کو کچھ خیال آیا ۔۔۔اورمیرا بازو پکڑ کر اس نے پیچھے سے مجھے ہگ کرنے کا اشارہ کیا۔۔۔میں نےکروٹ لی ۔۔اور نینسی کے بڑے چوتڑوں میں ہتھیار رکھ کر پیچھے سے اسے دبا دیا۔۔۔اب آگے سمیرا تھی ۔۔۔بیچ میں نینسی اور پھر میں ۔۔۔

        تبھی اچانک نینسی کا ہاتھ میرے ہتھیار پر پڑا ۔۔۔پہلے صرف ٹچ ہوا ۔۔۔اور پھر اس نے زور سے ہتھیار کو پکڑا اور ایک دم چھوڑدیا۔۔۔وہ سمیرا کو چھوڑ کرایک دم بیٹھ گئی ۔۔۔اور بڑ بڑائی ۔۔۔اف ۔۔یہ کیاہے ۔۔۔اور پھر اس نے میری رانوں کے درمیان لہراتے ہوئے اس بڑے سے ہتھیار کو دیکھا ۔۔اورحیران پریشان ہوگئی ۔۔۔

        یہ اسکے لئے ایک بڑا سرپرائز تھا۔۔۔۔۔ایک وقت تھا جب انسپکٹر لیون اسکی بس کرواتا تھا۔۔۔پھر آفندی اسے ملا جوایک نیا ایکسپیرنس اور لیون سے کافی طاقتور اور بھرپور مرد تھا۔۔۔اور پھر یہ تیسرا لن جو اس کے سامنے موٹائی اور لمبائی میں پچھلےسے بڑا اور صحت مند ۔۔۔۔۔۔ نینسی نےحیرت سے دیکھتے ہوئےاس موٹے ہتھیار کو تھاما۔۔۔۔اور سمیرا سےپوچھا کہ تم نے اس جن کو کیسے لے لیا۔۔۔۔۔۔

        نینسی اب کافی پرجوش ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔سمیرا کو چھوڑ کر اب اسکا پورا دھیان اس موٹے ہتھیار کو چومنے اور چاٹنے میں لگ گیا۔۔۔۔سمیرا اٹھ کر سان چی کے پاس گئی ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔جیسے تم نے نورین کی چوت چاٹی ہے ۔۔۔میری بھی چاٹو ۔۔۔سانچی نے سمیرا کے بھرے ہوئے سانولے بدن کو دیکھا۔۔۔اس کے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔سمیرا کو لٹا کر بولا ۔۔۔پہلے یہ موٹے دودھ تو پی لوں ۔۔۔۔پھر چوت بھی چاٹوں گا۔۔۔۔۔سان چی سمیرا کے دودھ پر پل پڑا ۔۔۔۔۔اور دونوں دودھ کا رس پینے لگا۔۔

        آفندی اٹھ کر نورین کے پاس آگیا۔۔۔نورین کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔اور وہ گہری سانسیں لے رہی تھیں ۔۔ آفندی اس کے قریب لیٹا ۔۔۔اور اسے خود سے لپٹا کر چومنے لگا۔۔۔۔نورین بھی اسکا ساتھ دینے لگی ۔۔۔اور دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں سے ہونٹ لگا کر چوسنے لگے۔۔۔۔۔۔

        نینسی نے میرے موٹے ہتھیار کو چوس چوس کر ایک بار پھر تیار کردیا ۔۔اور مجھے اپنے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔۔۔۔میں اس کے اوپر آیا۔۔۔ٹانگیں کھول کر ٹوپے کو اوپر ٹکا یا ۔۔اور اندر گھسادیا۔۔۔نینسی کے چہرے پر شہوت اور شوق دونوں نظر آرہا تھا۔۔۔میں نے رکے بغیر لن اندر دھکیل دیا۔۔۔۔نینسی کی چوت کافی تنگ اور اسوقت پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔لن اندر جاتے ہی اس کے منہ سے سسکاریا ں بلند ہوئی ۔۔۔

        ادھر نورین نے آفندی کے اوپر بیٹھ کر اس کی سواری شروع کردی ۔۔۔۔۔ آفندی کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اس کے لن پر اپنی کمرگھمارہی تھی ۔۔۔۔اور گرم گرم سسکاریاں نکالے جارہی تھی۔۔۔

        ادھر سمیرا کی آوازین سب سے تیز ۔۔۔۔۔سان چی اس کی پھدی کو چاٹ رہا تھا۔۔۔جس سےسمیرا بے حال ہوئے پڑی تھی ۔۔سمیراسے جب لذت اور شہوت برداشت نہ ہوئی تو اس نے بھی سان چی کو اوپر آ کر اپنا لن ڈالنے کو کہا۔۔۔

        میں نے نینسی کے اندر لن ڈالکر طوفانی دھکے شروع کردئے ۔۔۔۔وہ چلا رہی تھی آ ہ ہ ۔۔۔۔آ ں ں ۔۔۔اوںںں۔۔۔ مگر میں اسکی آوازوں کے بجائے اسوقت اسکی چوت کو کھولنے میں دھیان لگائے ہوا تھا۔۔۔اسکی ٹانگیں اس کے سینے سے لگ کر اوپر پورے وزن سے دھکے نے اس کے جسم کو لرزا کر رکھ دیا ۔۔۔۔اور ہر دھکے کے ساتھ اسکی چیخ اور آہ نکلتی ۔۔۔۔

        ادھر آفندی نے اپنےاوپربیٹھی نورین کو اٹھایا ۔۔۔اور سیدھا صوفے پر لے گیا۔۔۔صوفے پر گھوڑی بنا کر وہ پیچھےسے نورین کی چوت مارنے لگا۔۔۔۔نورین کے بال پیچھے سے پکڑ کر اسنے دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔نورین اپنی سریلی آواز میں گائے جارہی تھی ۔۔۔

        سان چی اپنے پورے زورسے سمیرا کی بینڈ بجا رہا تھا۔۔۔۔۔اس کی اسپیڈ بھی کم نہیں تھی ۔۔۔۔سمیرا نے اسے بھرپور انجوائے کیا۔۔۔۔۔

        نینسی میرے آگے کچھ دیر ہی ٹھہری ۔۔۔اور پھر اس کی پھدی نے بھی ہار مان لی ۔۔میں نے آخر میں اسکی مرضی کے بغیر اسکو چودا ۔۔۔ آخر مجھے بھی ڈسچارج کرنا تھا۔۔۔۔۔ وہ اب آرام کرنے کے موڈ میں تھی ۔۔۔موٹے ہتھیار نے اسکی پھدی اندر سے رگڑ رگڑ کر سرخ کردی تھی ۔۔۔۔۔۔​

        میں اٹھ کر باہر آگیا اور ایسے ہی سمندر کی لہروں میں نہانے لگا۔۔۔۔اور واپس آکر سوگیا۔

        اگلے دن ہم واپس آگئے ۔۔۔۔۔۔آفندی کے گھر میری آخری دعوت تھی ۔۔۔۔۔۔نورین کا پاسپورٹ بن رہا تھا۔۔۔اس نے اور سان چی نے ایک ساتھ پاکستان آنے کا ارادہ کیا تھا۔۔۔ہم نے کھانا کھایا ۔۔۔۔اور پھر ائیر پورٹ کے لئے نکل گئے ۔۔ڈاکٹر سمیرا بھی میری ہم سفر تھی ۔۔۔۔آفندی کے گھر سے نکلنے تک میری وہی کیفیت تھی ۔۔جو مسافروں کی تھی ۔۔۔سفر جیسا بھی ہو ۔۔۔۔۔آپ کو اداس کرہی دیتا ہے ۔۔۔۔منزل جیسی بھی ہو مگر اس میں ٹھہراؤ ہے ۔۔۔

        کچھ دیر میں امارات ائیر لائن کے جہاز میں بیٹھا بادلوں کے درمیان جہاز کو اڑتا دیکھ رہا ہے ۔۔۔میں کئی سالوں کے بعد اپنے وطن جا رہا تھا۔۔۔۔جہاں میری بیوی ثناء میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔میری فیملی تھی ۔۔

        میں سوچوں میں اپنا گھر اور اپنے وطن جاکر سکون کی زندگی سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔مگر کیا جانتا تھا۔۔۔کہ ۔۔۔۔ وہاں سے کچھ سو کلو میٹر دور میرے وطن کے دشمن میرے ہی وطن میں میرے قتل کی سازش بنا رہے تھے۔۔۔۔




        اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا

        اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتے رہنا



        ​​
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • bohat maza aaya

          Comment


          • BHot hi zabardat story or zabardast end hua hy raja sahab ny to kamal kr dia hy imran ki interyi surprise the.

            Comment


            • بہت ہی عمدہ اور لاجواب کہانی ہے ۔۔

              Comment


              • Wah kya zabardast update raja g ki to kya bat ha mission b muqamal kya phr khoob maza b or watan wapsi deakhte han ab agye kya hota ha

                Comment


                • Bohat hi zabardast, ek or mission kamyaab howa, ab dekhtay ha agaay kya hota ha, behtreen series ha

                  Comment


                  • Uffff maza agaya wah wah kia end tha or end m bharpor sex ???

                    Comment


                    • Buhat hi aala ikhtatam..
                      buhat hi zabardast story.miaaion china k bad daikhain ab konsa mission start hota hai

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X