Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سرفروش۔۔۔۔۔۔از قلم ہارڈ ٹارگٹ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Spy Fiction سرفروش۔۔۔۔۔۔از قلم ہارڈ ٹارگٹ



    قسط نمبر 1۔۔۔۔

    میں اس وقت ائر پورٹ کےوی آئی پی ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔ بورڈنگ کارڈ اور پاسپورٹ میرے ہاتھ میں تھا ۔۔جبکہ ساتھ ہی ایک چھوٹا بریف کیس رکھا ہوا تھا ۔۔۔تھری پیس سوٹ میں کافی سوبر اور
    وجیہہ لگ رہا تھا ۔۔مختلف نظریں مجھ پر پڑتی اور تحسین بھرے انداز سے لوٹ جاتیں ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا کہ اناؤنسر کی آواز گونجی۔۔۔۔میری ہی فلائٹ کا نمبر بتا کر گیٹ نمبر بتایا جا رہا تھا ۔۔میں نے بریف کیس سمبھالا اور اس گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔ بزنس کلاس کی وجہ سے ہماری لائن الگ تھی ۔۔۔ جلد ہی میں جہاز کے اندر تھا ۔۔۔یہ اتحاد ائیر کا جہاز تھا اور میرے لئے خصوصی سیٹ ریزرو تھی ۔۔جہاز کے اندر داخل ہوتی ہی عربی اور یورپی ائیر ہوسٹس نے استقبال کیا ، جن کی مسکراہٹ ہر آنے والے کے لئے یکساں تھی ۔۔۔۔اپنے کیبن میں پہنچ کر جائزہ لیا۔۔۔۔چھوٹے فلیٹ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے میں نے اپنا بریف کیس سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔۔شوز کھولتے ہوئے پیر میں نے سامنے پھیلا دیئے ۔۔جلد ہی ایک ائیر ہوسٹس اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میرے پاس آئی ۔۔۔اسے آرڈر دینے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں بند کر دی ۔۔۔۔۔۔۔پچھلے مشن کی پوری ریل میرے ذہن میں گھومنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔عمران کو دیکھنے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔۔۔اور ہوش رانا ہاؤس میں آیا تھا ۔۔۔۔جہاں عمران نےخود میرا آپریشن کر کے ایک ڈاکٹر کو ڈریسنگ پر معمور کر دیا تھا ۔۔۔۔مگر جوزف نے اسے منع کر کے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔۔۔۔اور ساتھ ہی اپنے وچ ڈاکٹر والے خصوصی نسخے مجھے پر آزمانے لگا۔۔۔۔ہر روزانہ میں اٹھتے ساتھ ہی ایک کڑوا سا محلول اپنے حلق سے اتارتا ۔۔۔اور پھر دوپہر اور شام کو یہ عمل دہرایا جاتا ۔۔وہ عجیب و غریب جڑی بوٹیاں لاتا اور بڑے شوق سے میرے لئے یہ قہوہ بناتا ۔۔۔۔جوزف کی محنت رنگ لائی ۔۔اور ہفتوں کا زخم دنوں میں ٹھیک ہو ا۔۔۔ساتھ ہی میرے اسٹیمنا اور انرجی میں بھی پہلے سے کافی اضافہ ہو اتھا ۔۔۔۔کچھ دنوں بعد میں نے گھر کا چکر لگایا ۔۔۔۔جہاں ثناء میرے لئے آنکھیں بچھائے انتظار تھی ۔۔۔۔کچھ دن گھر والوں کے ساتھ رہا تھا ۔۔۔۔کہ عمران صاحب کی کال ملی ۔۔۔۔مجھے ٹریننگ سیکشن کے لئے شہر بلایا گیا تھا ۔۔میں نے بھی خوشی خوشی سامان باندھا ، اور رانا ہاؤس پہنچا ۔جہاں عمران نے مجھے مزید فولاد بنانے کے لئے ایک فیلڈ تیار کی ہوئی تھی ۔۔۔۔ذہنی اور جسمانی ایکسرسائز کی آمیزش نے مجھے کچھ ہی ہفتے میں ایک نئے روپ میں ڈھال دیا ۔۔۔۔فلائنگ اور پیراٹروپنگ کی مشقوں کا اضافہ تھا ۔۔ساتھ ہی میک اپ اور دوسر ی کئی چیزیں بھی سکھا ئی گئیں تھی ۔۔۔۔اور اس کے بعد پہلی مرتبہ میں عمران کے فلیٹ گیا جہاں سلیمان کے ہاتھ کی چائے اور ان کی نونک جھونک سے لطف اندوز ہوا ۔۔۔عمران نے مجھے مشن سمجھا دیا تھا ۔مجھے خصوصی موبائل دیا گیا جو دانش منزل سے ہر وقت ٹریک کیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔اور موجودہ حالات میں جب انڈیا کے ساتھ حالات اور سرحدی معاملات اسقدر بدتر ہو چکے تھے کہ اس مشن کے لئے انہیں ایک نئے چہرے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔جس کے لئے عمران نے مجھے بلایا ۔۔۔۔۔۔مشن کی مکمل بریفنگ کے بعد مجھ پر ایک درمیانی عمر کے ڈاکٹر کا میک اپ کیا گیا تھا ۔۔۔کنپٹی کے قریب ہلکے سفید بال لئے میرے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی تھی ۔۔جس میں بھی سفید بال تھے ۔۔۔نئے چہرے کے لحاظ سے ہی میرا پاسپورٹ تھا ۔اورمیرا نیا نام پروفیسر جان اور میری نئی شہریت جرمنی کی تھی ۔۔۔نیلی آنکھوں کے ساتھ میں چالیس سالہ خوش شکل ڈاکٹر کے میک اپ میں تھا ۔۔۔جو ایک میڈیکل کی کانفرنس کے لئے نیپال جا رہا تھا ۔۔یہ ڈاکٹر پاکستان میں کسی کام سے رکا تھا جہاں عمران نے اسے روک کر اس کا میک اپ مجھ پر کر دیا تھا ۔۔۔۔۔کانفرنس میں مجھے ایک مقالہ پڑھنا تھا ۔۔جو عمران نے ہی مجھے لکھ کر دیا تھا ۔۔۔اور پوری تیار ی بھی کروا دی تھی ۔۔۔۔۔یہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی جو تین دن جاری رہنی تھی ۔۔۔اور پھر دو دن کی سیر و تفریح کے بعد تمام اراکین اپنے ملک لوٹ جانے تھے ۔۔نیپال سے مجھے انڈیا بارڈر تک چھوڑنے کی ذمہ داری وہاں کے فارن ایجنٹ کی تھی ۔۔۔جو مجھے وہیں ملنا تھا ۔۔۔۔اور اس کے بعد میں اب اس جہاز پر سوار تھا ۔۔۔
    میرے نتھنے سے خوشبو کا ایک جھونکا ٹکرا یا تو میں نے آنکھیں کھول دی ، ائیر ہوسٹس میرے سامنے تھی ۔۔۔مشروب اور گلاس رکھتے ہوئے اس نے ایک نظر میری طرف ڈالی اور کچھ اور پوچھتی ہوئی واپس چلی گئی۔۔۔
    اس کی نظریں صاف کہہ رہی تھی کہ کچھ اور میں اور کیا کیا شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔۔جہاز ہوا میں اڑ چکا تھا اور اب ہموار تیرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے سیٹ بیلٹ کھول لی تھی ۔۔۔۔اور اب آنے والے واقعات کے لئے خود کو تیا ر کر رہا تھا۔۔۔۔اور انہی سوچوں کے درمیان میں نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔دو گھنٹے کی نیند کے بعد مجھے ہوش آیا تھا ۔۔۔۔ائر ہوسٹس شاید کئی بار چکر لگا چکی تھی اور اب مجھے اٹھتا دیکھ کر کھانے کی ٹرے لا چکی تھی ۔۔۔۔۔کھانا کھا کر میں نے چائے کا کہا اور پھر چائے لئے بزنس کلاس میں ہی بنے ایک چھوٹے سے لاؤنج میں آ گیا جہاں چند لوگ بیٹھے بات چیت کرر ہے تھے ۔۔میں چائے لئے ان کے درمیان جا بیٹھا ۔۔اس فلائٹ کا دوحہ میں 4گھنٹے کا وقفہ تھا ۔۔اس لئے کچھ عربی بھی نظر آرہے تھے ۔۔۔۔ایک طرف کچھ غیر ملکی آدمی اورعورت نظر آرہی تھی ۔ اورآپس کی گفتگو میں مصروف تھے ۔۔۔۔میں بھی خاموشی سے چائے پینے لگا۔۔۔۔کہ ایک مترنم ہیلو کی آواز گونجی ۔۔میں نے سر اٹھایا تو ایک بلیک بیوٹی کو پایا جو میرے ساتھ بیٹھنے کی اجازت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔میں سر ہلاتے ہوئے تھوڑا کھسک گیا اور اسے بیٹھنے کی جگہ دی ۔۔۔25 سالہ یہ سینیٹا میری بھی اسی کانفرس میں نیپال جا رہی تھی ۔۔اس نے میری تصویر اس کانفرنس کے اشتہار میں دیکھ لی تھی ۔۔۔۔اس لئے میرے پاس آ بیٹھی ۔۔۔۔سینیٹا ڈاکٹر تھی اور اپنی فیلڈ میں اسپیشلائزیشن کر رہی تھی ۔۔اور اس کانفرنس میں اپنے پروفیسر کی طرف سے پیش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھ سے میری جاب اور ریسرچ کے حوالے سےسوال پوچھا جسے میں نے بڑی خوبصورتی سےواپس اس کی طرف موڑ دیا ۔۔۔میرےسوال اس کی جاب اور شادی کے بارے میں تھے ۔۔اوراس کا جواب سن کر میں حیران ہو گیا تھا ۔۔وہ پچھلے سال ہی مس یونیورس کے لئے منتخب ہوئی تھی ۔اور تاحال مس جمائیکہ تھی ۔۔۔۔اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کا جائزہ لیا ۔۔۔بلاشبہ وہ کالی رنگت میں کافی حسین تھی ۔۔۔بڑی بڑی چمک دار سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔پتلے نقوش کے ساتھ بہت ہی متوازن جسم کی مالک تھی ۔۔لمبے چٹیوں میں بٹے ہوئے سیاہ بال ۔۔۔۔مسکراتا ہوا چہرہ اسے منفرد بنا رہا تھا ۔بلاشبہ اس کا پورا جسم باتیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔سینیٹا اپنی شوخیوں میں مجھ سے جلد ہی فری ہو چکی تھی ۔۔میں بھی ٹھہرے ٹھہرے انداز میں اس کے سوالا ت کا جواب دیتا رہا ۔۔۔اور اس کی ہنستی مسکراتی آواز کو اپنی مسکراہٹ سے سمبھالتا رہا ۔۔۔کچھ دیر میں وہ مجھےاپنے بارے میں کافی کچھ بتا چکی تھی ۔۔کافی دیر اس سے بات چیت ہوتی رہی ۔۔وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی کافی تھی ۔وہ مجھ سے اور میری ریسرچ سے کافی متاثر تھی اور میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کیوں نہ خواہش مند نہ ہوتی ۔میں جرمنی کے سب سے بڑے میڈیکل انسٹیٹیوٹ کا ڈائیریکٹر تھا ۔ ۔۔سال میں کئ بار ہزاروں درخواست میرے پاس آتی تھیں کہ ہم آپ کے انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ ورک کرنا چاہتے ہیں ۔مگر چند ایک لوگ ہی منتخب ہو پاتے تھے ۔۔۔۔اور سینیٹا اس موقع سے فائد ہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اور میں نے اسے پورا موقع بھی دیا ۔۔میرے بازو کو تھامتے ہوئے وہ اپنے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔اپنے اونچے خواب اور آگے بڑھنے کی لگن۔۔اتنے میں دوحہ میں وقفے کا اعلان ہو ا تھا ۔۔میں اٹھ کر اپنی سیٹ پر آنے لگا ۔۔۔مگر سینیٹا مجھے اکیلے چھوڑنے پر راضی نہیں تھی ۔۔جلد ہی جہاز رن وے پر اتر گیا ۔۔بیگ لئے میں بھی باہر آ گیا ۔۔یہ بیگ خصوصی بنا ہوا تھا ۔۔۔اور عمران صاحب نے ہی مجھے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔فلائٹ کی طرف سے ہمیں ائیر پورٹ پر ہی ہوٹل دیا گیا ۔۔۔میں کاؤنٹر پر پہنچا تو سینیٹا میرے ساتھ ہی تھی ۔۔۔اس نے کاؤنٹر پر میرے ساتھ ہی روم کی ریکوئسٹ کی ۔۔۔میرے بازو تھامے ہوئی وہ ایسے تاثر دے رہی تھی جیسے ہم کافی عرصے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں ۔۔بہت سی نظریں ہماری طرف تعریفانہ انداز میں اٹھتی ۔۔۔۔۔سینیٹا کی خوبصورتی ایسی ہی تھی ۔۔۔۔میرے ساتھ وہ بڑے نازک اندام انداز سے قدم اٹھا رہی تھی ۔۔۔اور ہر شخص مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنے کو مجبو ر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ہم اپنے کمرے میں پہنچ گئے ۔۔۔۔۔سینیٹا نے بڑی ادا سے مجھے سے کھانے کو پوچھا تھا ۔۔۔۔میں نے ہلکا پھلکا بتا دیا ۔۔۔اس نے فون اٹھا کر آرڈر کیا ۔۔۔۔
    سینیٹا ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی ۔۔ٹی شرٹ کےاوپر ڈینم کی جیکٹ تھی ۔۔۔۔وہ بڑے انداز سے مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مجھے سے شاور کا پوچھنے لگی ۔۔۔۔میں نے اسے پہلے جانے کا کہا ۔۔۔جیکٹ اتار کر بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔باتھ اٹیچ ہی تھا ۔۔۔۔اور جب اس نے باتھ کے دروازے پر جا کر مجھے دیکھا اور اندر داخل ہو گئی ۔۔۔۔اب مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کیا چاہ رہی ہے ۔۔۔۔اور زیادہ دیر کرنا بھی میرے اصول کے خلاف تھا۔۔۔۔علاج کے دوران جوزف نے مجھے ان سب چیزوں سے دور رکھا تھا ۔۔اور اب سینیٹا مستقل بلا رہی تھی ۔۔مجھے جگا رہی تھی۔۔۔اس کے خیال میں میں ادھیڑ عمر ڈاکٹر تھا ۔۔جو جلد ہی اس کے حسن کے جال میں پھنسنے والا تھا ۔۔۔۔اوروہی ہوا تھا ۔۔۔میں نے پھنسنے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔پینٹ کوٹ سے نجات حاصل کرنے میں مجھے دو منٹ بھی نہیں لگے تھے ۔۔۔میں نے کوٹ ہینگر کرتے ہوئے خود کو شیشے میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔عمران صاحب کی کروائی گئی ورزشوں کے بعد میں اور نکھر گیا تھا ۔۔۔۔بازوؤں میں بجلیاں سی کوند آئیں تھیں ۔۔۔اور سینہ پہلے سے زیادہ کشادہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔انڈروئیر جسم پر چھوڑ کر میں اندر باتھ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔حسب توقع دروازہ لاک نہیں تھا ۔۔۔اندر بھاپ پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔اور ایک کونےمیں سینیٹا اپنے شاور کے نیچے کھڑی ہوئی بالوں کو سمیٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے قدم آگے بڑھا دئے ۔۔۔۔اس کے حسن کو خراج پیش کرنے کا ٹائم آ گیا تھا ۔۔۔۔۔بڑی سی آنکھیں بند تھی ۔۔اور نیچے پتلی نازک سی گردن سے اترتے ہوئے ۔۔۔چھوٹے مگر گول اور سخت ممے تھے ۔۔۔۔نپلز بھی چھوٹے اور اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔اور نیچے نہ ہونے کے برابر پیٹ ۔۔۔پتلی کمر اور بالکل گول شیپ چوتڑ تھے ۔۔۔۔۔جو اس کے جسم میں شاید سب سے زیادہ گولائی میں تھے ۔۔۔۔۔۔میرے قد م اس کے قریب جا کر رکے تھے ۔۔اس نے بھی محسوس کر کے رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔۔میری طرف پشت کر کھڑی سینیٹا کے اوپر سے پانی پھسلتا ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے پیچھے سے جا کر اسے تھام لیا ۔۔۔ہاتھ اس کے پیٹ پر جا کر باندھ دیئے ۔۔۔اس کے ہاتھ بھی میرے ہاتھوں پر آ کر ٹِک گئے ۔۔۔۔۔پانی ہم دونوں پر گررہا تھا ۔۔۔۔میں تھوڑا سا آگے ہوا تھا ۔۔۔۔سینیٹا بھی اسی انتظار میں تھی ۔۔اس نے مجھ سے ٹیک لگا لی تھی ۔۔۔۔میرے جسم میں اک آگ سی بھڑکی تھی ۔۔۔۔۔اس کےجسم کا لمس بہت ہیجان خیز تھا ۔۔۔۔۔مجھے حیرت ہوئی کہ جب جہاز میں وہ میرے ساتھ تھی ۔۔مجھے تب کیوں محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کو پیٹ سے اوپر بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔اور آہستگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا اوپر آتا گیا ۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نےگول گول ممے محسوس کر لیے تھے ۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ اٹھ کر میرے سر پر آیا تھا۔۔۔۔اور نتیجے میں مجھے پوری من مانی کی اجازت مل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھوں کو مموں پر گول گول پھیرنا شروع کر دیا ۔۔چھوٹے چھوٹے سنگترے جیسے ممے میرے ہاتھو ں میں سمائے جا رہے تھے ۔۔۔اور میں ہلکی ٹچ کے ساتھ مساج کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کے چوتڑ میرے اگلے حصے کے ساتھ ٹچ تھے ۔۔۔۔اور ہتھیار کو جگانے کی کوششوں میں تھے ۔۔۔۔میں نے اپنے چہرے سے سینیٹا کی بالوں کی لٹو ںکو سائیڈ پر کیا اور گردن کو چومنے لگا۔۔۔اس نے بھی سر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔میں گردن چومتے ہوئے اس کے کندھے پر آیا ۔۔۔۔۔اور پھر اس کو اپنی طرف موڑ دیا ۔۔۔سانولی رنگت میں تراشیدہ بد ن میرے سامنےتھے ۔۔۔۔۔اور اوپر گلابی ہونٹ دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے بھی اسی کی گردن میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹ ملا دیا ۔۔۔نرم ہونٹوں کی ملاقات جاری تھی ۔۔۔کہ زبان نے بھی اپنی ضرورت محسوس کروا دی ۔۔۔۔مگر یہ شرارت پر آمادہ تھیں ۔۔۔۔اور لڑنے کا پورا ارادہ تھا ۔۔۔۔میں نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔یہ لڑائی ایسے ہی جاری رہی۔۔۔جب میرے ہاتھوں نے اس کی کمر کو چھوا۔ اور پھر نیچے آتے ہوئے اس کے چوتڑ پرہتھیلی کا زور ڈالا ۔۔۔۔سختی اور بھرپور گولائی سے جمے ہوئے تھے ۔۔۔۔سینیٹا تھوڑی سی کھسک کر اور قریب آئی تھی ۔۔۔۔اس کے نپلز میرے سینے کو چھونے لگے ۔۔۔اپنی سختی بتانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں نے کمر پر زور دے کر اور خود سے لگا دیا ۔۔۔ایسے ملے ہوئے تھے کہ گرتا ہوا پانی سائیڈوں سے نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار میں جنبش ہوئی تھی ۔۔میرے دونوں پاؤں کے اوپر اس کے پیر تھے ملے ہوئے ۔۔میرے پیروں پر کھڑی ابھی بھی ہماری زبانوں کی لڑائی جاری تھی ۔۔۔۔تبھی میں نے چوتڑ کو دباتے ہوئے اسے اوپر کھینچا تھا ۔۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔اور اچھلتی ہوئی میری کمر کے گرد ٹانگیں لپیٹ لی۔۔۔اس کی شدت سے بھرپور کسنگ اب بھی جاری تھی ۔۔میں نے شاور کو بند کیا اور باہر چلا آیا ۔۔۔باتھ سے باہر نکل کر اسے بیڈ پر اچھالا ۔۔۔۔۔۔۔وہ حیرت بھری نگاہوں سے میرا جسم دیکھنے لگی ۔۔۔جس پر شاید وقت کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔۔بھر پور جوانی کی علامت تھا ۔۔۔میں چلتا ہوابیڈ پر پہنچا تو وہ بھی مجھے لپٹنے لگی ۔۔۔ابھی تک اس کا خیال تھاکہ میں کوئی ادھیڑ عمر آدمی ہوں ۔۔۔مگر جسم دیکھنے کے بعد اس کا خیال تبدیل ہو نے لگا تھا ۔۔۔۔اور کچھ ہی مکمل بدلنے والا تھا۔۔۔میرے لیٹتے ہی وہ اوپر آئی تھی ۔۔اور پاؤں دائیں بائیں رکھتے ہوئے سوار جیسی پوزیشن بنا لی ۔۔نیچے سے اس کی چوت میرے پیٹ پر ٹچ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔پیچھے سے کمر کو اندر اور چوتڑ کو باہر نکال کر وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔چہر ہ کو چومتی ہوئی نیچے کو آئی ۔۔۔۔اور پھر سینے پر آتی ہوئی پانی کے قطرے صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔میرے بد ن میں لذت کی لہریں گردش کر نے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ممے تھام لیے ۔۔۔اور ہاتھوں میں دبوچ کر دبانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔وہ نیچے کو ہوتی ہوئی میرے ہتھیار پر آ بیٹھی ۔۔۔۔اور پھر اورنیچے کو ہونے لگی ۔۔۔ناف تک پہنچی تو میں نے اسے اوپر کھینچا اور ساتھ ہی کروٹ لے لی ۔۔اب میں اس کا عمل دہر ا رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہونٹوں نے اس کے مموں کو چھوا تو وہ ہل سی گئی ۔۔۔۔میں نے مموں کوچوستے ہوئے نپلز کھینچنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔سینیٹا میرے سر پر ہاتھ رکھے شاباش دئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت پر رکھا اور درمیانی انگلی اس کے لبوں پر رکھی ۔۔۔لب کچھ باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے ۔۔۔میں اس پر انگلی پھیرتا ہوا اس کے دانے کو مسلنے لگا۔۔۔سینیٹا کی سسکاری بھی اسی کی طرح نازک اور دلکش تھی ۔۔۔کسی بلیک بیوٹی سے میرا پہلی مرتبہ واسطہ پڑا تھا ۔۔۔اور اب تک میں نے اس کی شدت میں کمی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔یہ بڑھتی ہوئی شدت میری وحشت کو بھی جگارہی تھی ۔۔میں نے سینیٹا کے دائیں بائیں کہنی جما کر اوپر اٹھا اور انڈر وئیر کو نیچے دھکیل دیا۔۔۔۔ایک بھاری بھرکم اور گرم وجود سینیٹا کی ٹانگوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں اشتیاق او ر پیاس بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔تبھی میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی ٹانگوں میں ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا اور ٹانگوں کو اٹھا دیا ۔۔۔ساتھ ہی اپنے پاؤں کے پنجے پر وزن ڈال کر آگے کو جھک گیا ۔۔۔۔چوت گیلی ہوچکی تھی ۔۔اور لبوں پر پانی چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر دیکھااور پھر ہتھیار کے ٹوپے کو چوت کے لبوں پرر کھ دیا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چھپا لیا تھا ۔۔۔۔۔مین نے ٹوپے پر دباؤ بڑھایا ۔۔۔۔۔چوت بہت پھنسی ہوی اور تنگ تھی ۔۔۔۔۔سینیٹا کا ہاتھ حرکت میں آیا تھا ۔۔۔اس نے چوت کے دانے کو مسلتے ہوئے مجھے اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔میں نے تیز پریشر دیتے ہوئے ٹوپے کو راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کے لبوں کو چیرا تھا اور اند ر جا پھنسا ۔۔۔۔سینیٹا کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔۔اس نے ہونٹوں کو آپس میں دباتے ہوئے مجھے دیکھا تھا ۔۔میں نے تھوڑا اور دباؤ بڑھایا ۔۔۔ہتھیار پھنسا ہوا اندر جانے لگا۔۔۔۔سینیٹا نے سانس روک لی تھی ۔۔اور آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔۔۔۔ ایک ہاتھ سینے پر آ کر مجھے روکنے کی کوشش میں تھا ۔۔اور دوسرا ہاتھ کی انگلیاں میری رانوں پر لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے منہ کے تاثرات عجیب سے تھے ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا ۔۔۔۔سنینٹا نے منہ اٹھاتے ہوئے سانس چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر نیچے دیکھنے لگی ۔۔جہاں آدھے ابھی کچھ حصہ ہی اندر گیا تھا ۔۔باقی باہر انتظار میں تھا ۔۔۔میں نے پھر دباؤ بڑھا یا اور آدھا ہتھیار اندر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔سینیٹا کے چہرے کے نقش کچھ اور تبدیل ہوئے تھے ۔۔ہونٹ کچھ اور بھنچے تھے ۔۔۔۔۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے روک سا دیا تھا۔۔۔میں نے واپس نکالتے ہوئے دوبارہ سے دھکا دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا کے چہرہ ایک دم اوپر کو اٹھا ۔۔۔چیخ نما سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ہتھیار کو اسی انداز میں رواں کر تا رہا ۔۔۔۔۔اور سینیٹا اسی طرح سسکاریاں بھرتی رہی ۔۔۔بار بار مجھے آہستہ ہونے کا کہتی رہی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگوں کو دائیں بائیں پھیلا دیا۔۔۔۔۔اور پھر تیز دھکے مارنے شروع کئے ۔۔۔۔۔۔۔سینیٹا کی منہ سے بے اختیار کراہیں نکلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔میں نے تین چار دھکے اور مارے ہوں گے کہ اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔میں نے پھر بھی دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔مگر اس نے روک دیا ۔۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔سامنے ہی ہتھیار اس کے پانی سے چمک رہا تھا۔۔۔۔۔سینیٹا نے مجھے اور ہتھیار دونوں کوحیرت سے دیکھا ۔۔۔۔اور پھر تھامنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھوں میں آتا ہوا یہ ہتھیار ابھی بھی سخت اورتنا ہوا تھا۔۔۔ سینیٹا اسے منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔اور ناکامی پر چاروں طرف سے چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ٹائم کم تھا ۔۔۔کم از کم ایک گھنٹے پہلے ائیرپورٹ کی گاڑی آ جانی تھی اور ہمیں چیک ان کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ دیر سینیٹا کو ہتھیار چوسنے دیا ۔۔اور پھر گھوڑی بنادیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنے کے بل بیڈ پر تھی ۔۔۔۔میں نے پوزیشن لیتے ہوئے ٹوپے کو چوت پر ٹکا یا۔۔۔۔۔اور سینیٹا کے کمر کو تھامتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔ٹوپے پھر پھنستا ہوا گھسا تھا ۔۔۔۔۔چوت ابھی بھی اندر سے پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے پاؤں جماتے ہوئے دھکے دینے لگا ۔۔اور ساتھ ہی ہلکا ہلکا سا آگے ہونے لگا۔۔۔۔اب ہتھیار ہر جھٹکے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اندر جا رہا تھا۔۔۔ سینیٹا کے منہ سے کراہیں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔میں نے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔۔۔آدھے سے زیادہ ہتھیار اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔ اور اب دھکے کے ساتھ سینیٹا کی کمر بھی اوپر کو اچھلتی ۔۔۔۔۔۔اس کی سسکاری اور آہیں بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔میرا پہلے موقع تھا کہ کسی بلیک بیوٹی کی سسکاریاں سننے کا۔۔۔اور یہ سسکاریں ایسی تھی کہ میرا جوش اور بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔کبھی او مائی گوڈ ۔۔۔۔اور کبھی سریلی آواز میں ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ۔۔تھی ۔۔میں دھکے دیتا ہوا جھٹکوں پر آیا ۔۔۔۔۔گہرے اور پاور فل اسٹروک تھے ۔۔۔۔جو بیڈ کو بھی ہلا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور سینیٹا کو بھی آگے کھسکا رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کو چوت ابھی بھی پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔جو اس کی ٹانگوں پر نشان بناتا ہوا نیچے جا رہا تھا ۔۔۔۔سینیٹا اس پوزیشن میں تھکنے لگی تھی ۔۔میں پیچھے ہٹتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا ۔۔۔اور کھینچ کر اسے کنارے پر لے آیا ۔۔۔۔۔۔اس کی ٹانگوں کو ملا کر اوپر اٹھا دیا ۔۔۔۔اور پھر ٹوپے کو نشانے پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔۔۔۔اس کی منہ سے پھر سسکاری نکلی ۔۔۔۔میں نے جھٹکے بڑھانے شروع کر دیا ۔۔۔۔۔سینیٹا ابھی بھی آگے کو کھسکتی ۔۔اور میں اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا دیتا ۔۔۔۔۔اس کی اوہ ہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔جاری تھی ۔۔۔۔اگلے تین منٹ تک میں نے درمیانی اسپیڈ کے دھکے مارے تھے ۔۔۔۔اور اس نے پھر پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔اب کی بار میں رکا نہیں ۔۔۔نہ ہی اس کی چیخوں پر غور کیا۔۔۔۔دھکے مارتا ہوا اسے اوپر دھکیلنے لگا۔۔۔۔۔۔تھوڑی آگے دھکیلنے کے بعد اتنی جگہ بن گئی کہ میں خود بھی اوپر آ گیا ۔۔اس کی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر میں اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔میرے ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔نیچے بیڈ والا اسپرنگ تھا ۔۔۔میں اپنےپورے وزن کے ساتھ نیچے دھکا دیتا ۔۔۔۔اور سینیٹا بیڈ کے اسپرنگ پر دبتی ہوئی دوبارہ اچھل کر باہر آتی ۔۔اور اگلا دھکا پہلے سے زیادہ اسے اندر پہنچاتا ۔۔۔۔سینیٹا کی چیخیں اور بلند ہونے لگی تھی ۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اوہ مائی گوڈ ۔۔۔۔اوہ مائی گوڈ کی آوازیں تھی ۔۔۔۔میں رکے بغیر دھکے بڑھا تا ۔۔۔۔۔اسپیڈ درمیانی سے اور تیز ہوئی تھی ۔۔۔اسپرنگ بھی پوری قوت سے دبتے اور سینیٹا کو اچھالتے ۔۔۔۔۔۔بیڈ کی چوں چوں کے ساتھ سینیٹا کی ہائے ۔ہائے ۔۔۔کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جھٹکے اور تیز کیے تھے ۔۔۔۔میرا ٹائم بھی قریب تھا ۔۔۔۔دھکے اور طوفانی ہوتے گئے ۔۔۔سینیٹا کا چِلانا بڑھ چکا تھا ۔۔ ۔۔وہ انگلش بھول چکی تھی ۔۔اور اپنی زبان میں رکنے کا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے منہ سے غراہٹ نکلی ۔۔۔اس کا چلانا کچھ دیر کے لئے بند ہوا تھا۔۔۔۔مگر طوفانی دھکوں نے دوبارہ اس کا منہ کھول دیا۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اپنے آخری جھٹکے مارے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تیسری مرتبہ سینیٹا نے پانی چھوڑا ۔۔۔۔۔۔میری بھی آمد تھی ۔۔۔۔۔میں نے آخری جھٹکا مارتے ہوئے ہتھیار باہر نکال کر سینیٹا کےپیٹ پر رکھا ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر تھاما اور ہلانے لگی ۔۔۔۔پہلا فوارہ اس کے منہ پر گرا تھا ۔۔۔۔اور پھر اس کے ہلانے کےساتھ ساتھ پانی نکلتا رہا ۔۔۔۔اس کا پورا پیٹ پانی سے بھر چکا تھا ۔۔۔اور پانی دونوں طرف سے نیچے بہنے لگا۔۔۔۔۔وہ پھر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔میں اس کے برابر میں لیٹا اور سانس برابر کرنےلگا۔۔۔۔سینیٹا کچھ دیر منہ چومنے کے بعد اٹھی ۔۔۔اور شاور کے لئے چلی گئی ۔۔۔۔اس کے بعد میں بھی تیار ہونےلگا۔۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    قسط نمبر 2۔۔۔۔۔
    ہم واپس جہاز میں آگئے تھے ۔۔سینیٹا اپنی سیٹ پر چلی گئی ۔۔اور نیپال میں مجھے سے ملنے کا وعدہ لے کر گئی ۔۔۔۔۔
    میں بھی اپنے کیبن میں واپس آیا۔۔۔۔اورائیر ہوسٹس کو کچھ اور آڈر دینے لگا۔۔۔اس کے بعد مزید سوچ میں گم ہو گیا ۔آنےوالے حالات اور گزرے ہوئے واقعات ۔۔۔۔میرے خیالوں میں ثناء چلی آئی ۔۔۔اپنی اداس اور گیلی آنکھوں کے ساتھ یہی پیغام دے رہی تھی کہ جلد ی لوٹ آئیے گا۔۔۔۔۔انہیں سوچوں میں ایک گھنٹا مزید گزر گیا ۔۔۔ کہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلا ن ہونے لگا۔۔میں نے سیٹ بیلٹ باندھ لی اور انتظار کرنے لگا۔۔جلد ہی میں کھٹمنڈو ائیرپورٹ کےارائیول ہال سے نکل رہا تھا ۔۔سامنےہی بہت سے لوگ کارڈ اٹھائے ہوئے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔ایک میں میرا نام بھی تھا ۔۔میں اسی طرف بڑھ گیا ۔۔۔یہ کوئی ڈرائیور تھا ۔۔میرے آگے جھکتا ہوا مجھے لے کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔کار کےساتھ ہی ایک خاتون میرا انتظار کر رہی تھیں ۔۔اپنے ہاتھ جوڑتی ہوئی وہ تھوڑی سی جھکی تھی ۔۔ویلکم ٹو نیپال۔۔۔۔ہلکی نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے۔قدرے بھرے ہوئے جسم کی مالک۔۔۔ماتھے پر ٹیکہ لگائے ہوئے اس خاتون کا ۔۔۔مینا کماری نام تھا ۔۔۔سانولے گول چہرے پر سیاہ بڑی سی آنکھیں ۔۔۔۔میں بھی اپنا نام بتاتے ہوئے قدرے جھک گیا۔۔۔میرے دراز قد کے مقابل میرے کندھے تک آ رہی تھی ۔۔۔اچھی لہجے کی انگلش بولتی ہوئی کہنے لگی ۔چلیں پروفیسر صاحب ۔۔۔میں کار میں بیٹھنے لگا تو میں نے سینیٹا کو دیکھا اسے بھی کوئی ریسیو کرنے آیا ہوا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر مینا کماری یہاں کی ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن میں تھیں اور اس کانفرنس کو منعقد کروانے میں ان کی کافی کوشش تھی ۔۔۔ہم دونوں کار کے پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور ڈرائیور نے اگلی سیٹ سمبھال لی ۔۔مینا کماری میرے قریب ہی بیٹھی تھی اور میں با آسانی اس کے پرفیوم کی مہک محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
    پروفیسرصاحب سفر کیسا گذرا آپ ۔۔۔مینا کماری مجھ سے پوچھنے لگی ۔۔
    اچھا سفر گذرا ،سفر میں کانفرنس کے بھی کچھ ڈاکٹرز مل گئے تھے ۔۔۔۔میں نے بتایا ۔۔۔
    پروفیسر صاحب کانفرنس کے لئے تمام افراد کو فائیو اسٹار ہوٹل میں روم دئے گئے ہیں ۔۔۔آج شام سے کانفرنس کا پہلا دن شروع ہے ۔۔۔
    اس کے علاوہ کچھ خصوصی مہمانوں کے لئے میزبانی ہم نے خود رکھی ہے ۔۔۔اور آپ بھی انہیں میں سے ایک ہیں ۔۔تو آپ چاہیں تو میرے ہاں بھی رک سکتے ہیں ، اور کانفرنس کے بعد یہاں کی سیر بھی کروانا میری ذمہ داری ہو گی ۔۔
    مینا کماری نے مجھے پورا پروگرام بتا دیا ۔۔۔
    مس مینا میں بھی زیادہ بھیڑ بھاڑ پسند نہیں کرتا ۔۔۔اس لئے میرا خیال ہے ہے کہ آپ کا گھر بہتر رہے گا۔۔۔۔میں نے بھی اپنا اراداہ بتا دیا ۔۔۔
    مینا کماری نے ڈرائیور کو گھر جانے کا کہا ۔۔راستے میں مینا کماری وہاں کی مشہور عمارتوں اور روڈ کا تعارف کروانےلگی ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔جلد ہی ہم مینا کماری کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔پوش علاقے میں یہ گھر بڑی خوبصورتی سے بنا ہوا تھا ۔۔جلد ہی اندر داخل ہو کر مینا کماری نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اندر کی طرف چلی ۔۔مشروب کی تواضع کے ساتھ ہی اس نے سوال جواب کاسلسلہ شروع کردیا ۔۔۔میں بھی سوال پوچھتا رہا ۔۔مینا کماری کے شوہر کا کئی سال پہلےایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا ۔۔اور اب ایک لڑکا اور لڑکی کے ساتھ رہتی تھی ۔۔دونوںکالج اسٹوڈنٹ تھے اور ابھی بھی وہیں تھے ۔۔۔مشروب کے ختم ہوتےہی مینا کماری اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی پروفیسر جان مجھے واپس انسٹیوٹ جانا ہے ۔۔شام میں آپ سے ملاقات ہو گی ۔۔۔ابھی کچھ دیر میں وجے اور انجلی آ جائیں گے ۔۔وہ آپ کو کمپنی دیں گے ۔۔میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے بچوں کی بات کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اٹھتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔
    میں اپنے روم میں جا کر سو گیا تھا ۔۔۔اور شام کو ہی میری آنکھ کھلی تھی ۔۔۔روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک17 سال کے آس پاس ایک لڑکا کھڑا تھا ۔۔مجھے سے گرم جوشی سے ہیلو ہائے کی اورکہنے لگا کہ مما بلا رہی ہیں آپ کو ۔۔۔۔میں فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں رات کا کھانا لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں نے انجلی کو بھی دیکھ لیا تھا ۔۔وہ اپنی ماں کی کاپی تھی ۔۔۔بس جسامت کا فرق تھا ۔۔باقی وہی نقش تھے ۔۔۔۔وہ بھی میری طرف بڑھی اور ہاتھ ملاتے ہوئے ہیلو ہائے کرنے لگی ۔۔میں جواب دیتے ہوئے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھرکھانےکے ساتھ ہی انجلی اور وجے کے آپس میں شوخی اور چھیڑ چھاڑ شروع تھی ۔۔۔۔۔دونوں میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ تھی ۔۔۔۔کھانے کے بعد دونوں میرے دائیں بائیں آ بیٹھے اور پھر سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔۔۔وہ بے تکلفی سے مجھے انکل کہہ رہے تھے اور میں بھی مسکر ا رہا تھا ۔۔اگر میک اپ ہٹا دیا جائے تو ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔۔۔
    مگر ابھی میں ان کا انکل بنا ہوا تھا ۔۔۔۔انجلی بے فکر ی سے مجھ سے چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور وجے بھی ساتھ لگا ہواتھا ۔۔میری شادی اور بچوں کی فکر ان دونوں کو زیادہ تھی ۔۔میں نے خود کو کنواراہ بتا یا تھا ۔۔۔
    انکل آپ اتنے ہینڈ سم ہیں پھر بھی شادی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔انجلی چہکی تھی ۔۔۔۔
    بس ریسرچ اور کام میں اتنا مصروف ہوتا ہوں کہ اس طرف خیال ہی نہیں آیا ۔۔میں نے جواب دیا ۔۔
    انجلی میرے اور قریب آئی تھی ۔۔۔ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئے وہ میری بازو پکڑے ہوئے بیٹھی ہوئی ۔۔وجے اس سے ایک سال چھوٹا تھا ۔۔۔
    میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر مینا کماری نے مجھے آ کر اس امتحان سے نکالا ۔۔۔۔۔چلو جاؤ آرام کرو ۔۔صبح کالج جانا ہے تمہارے انکل تین دن یہیں ہیں ۔۔۔باقی کل پوچھتے رہنا ۔۔۔
    انہوں نے آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے سیاہ آنکھوں سے مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔
    نہیں ۔۔!۔۔آپ کے بچے بہت اچھے ہیں ۔۔ہنستے مسکراتے اور ایکدوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ۔۔۔انجلی اور وجے اپنی ماما کو منہ چڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئے ۔۔۔
    چلیں آپ باہر چلتے ہیں ۔۔۔مینا کماری خاصی رنگ ڈھنگ سے تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔بلیک کلر کی ساڑھی پر گولڈن کناری تھی ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑی سی جیولری نے اسے سجا دیا تھا۔۔تھوڑی سی لمبے قد کے ساتھ۔۔۔تنگ بلاؤز نے کلیویج کو ظاہر کر دیا تھا۔۔۔سانولی رنگت کےساتھ بھرا ہوا جسم ۔۔۔اور سامنے کو بڑے سے ابھار۔۔پیٹ نہ ہونے کے برابر ۔۔۔اور پیچھے کی طرف لپٹی ہوئی ساڑھی اسے اور پرکشش بنا رہی تھی ۔وہ اپنی عمر سے بہت کمر نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے اس کا بھرپور جائزہ لیا اورآگے چلنےکا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
    مینا کماری مجھے اپنے ساتھ باہر لے آئی ۔۔۔۔گیراج سے کار نکال کر ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بٹھا دیا ۔۔رات سر پر آ چکی تھی ۔۔۔۔۔نیپال کا یہ دارالحکومت کافی سجا ہوا تھا ۔۔۔اور شام کے وقت جگمگا کر منور ہو رہاتھا ۔۔۔..۔۔مینا کماری مجھے گائیڈ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔پہلے ہم پشوپتی ناتھ مندر پہنچے ۔۔۔یہ باگمتی دریا کے کنارے پر ہے۔۔۔اور یہاں کے سے پرانے مندر میں شمار ہوتا ہے۔۔۔مینا کماری مجھے بڑے شوق سے یہاں کی ہر چیز کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔باگمتی دریا کے ایک طرف کھٹمنڈو شہر اور دوسری طرف پتن شہر تھا۔۔۔۔یہ دریا ہمالین دریاؤں میں شمار ہو تا تھا ۔۔۔اور یہاں سے گذرتا ہوا انڈیا میں داخل ہوتا ہے ۔۔۔۔ہم کافی دیر تک دریا کے کنارے گھومتے رہے ۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس پر گارڈن آف ڈریم پہنچے جو دس منٹ کے فاصلے پر ہی تھا ۔۔۔مینا کماری کی کمینٹری جاری تھی ۔۔۔۔یہاں کچھ ٹائم گزار کر ہم ہاؤس آف میوزک پہنچے تھے ۔۔۔۔۔آدھی رات ہونےوالی تھی ۔۔۔۔مگر یہاں اس کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا ۔۔۔یہاں میں نے غیر ملکی بھی دیکھے جو خاص طور پر یہاں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔اندر پہنچتے ہی میں روشنیوں میں گم ہو گیا ۔۔۔۔ایک طرف لائیو میوزک ہو رہا تھا ۔۔۔جبکہ سامنے کی طرف بار بنا ہواتھا ۔۔۔
    اور سامنے ہی کافی لوگ میوزک کے دھنوں پر رقص کر رہے تھے ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تو بیٹھا مگر مینا کماری نے مجھے جلد ہی گھسیٹ لیا ۔۔میرے ساتھ وہ بھی اپنے قدم تھرکا رہی تھی ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں مجھ پر گڑی باتیں کر رہی تھی ۔۔میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔۔کئی بار وہ گھومتی ہوئی میرے سینے لگتی تو میرے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ۔۔۔۔میں نے بھی اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ دو چار اسٹیپ کرنے کے بعد ہم ٹیبل پر جا بیٹھے ۔۔یہاں فاسٹ فوڈ کا زبردست انتظام تھا ۔۔۔۔میں نے محسوس کیا تھا کہ مینا کماری بھی میرے ساتھ کافی انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔اسے بھی کافی ٹائم کے بعد ان سب کا وقت ملاتھا ۔۔۔اس کے بعد مینا کماری بار کی طرف گئی اور ڈرنک اٹھا لائی ۔۔۔۔۔۔میں نے بچنے کی بڑی کوشش کی تھی ۔۔مگر مینا کماری بضد تھی ۔۔۔جوزف اور عمران صاحب نے اس معاملے میں بھی مجھے کافی ٹرین کیا تھا ۔۔۔میں نے مینا کماری کا ساتھ دینے کی کوشش کی ۔۔مگر وہ ایک کے بعد ایک چڑھانے لگی ۔۔۔ٹائم زیادہ ہو چکا تھا ۔۔۔اور بار بھی خالی ہونے لگا تھا ۔۔۔میں نے اسے اٹھنے کا کہا اور باہر آگئے ۔۔۔کار تھوڑی دور پارکنگ لاٹ میں تھی ۔۔ہم کار کے طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔مینا کے قد م ہلکے ہلکے سے بہک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں ساتھ سہار ا دیتا ہوا پارکنگ کی طرف چلنے لگا۔۔۔مینا کماری کے بدن کی نرمی مجھ پر اثر انداز ہو رہی تھی ۔۔۔۔سنسنی کی لہر دوڑنے لگی تھی ۔اس کی ساڑھی کا پلو بار بار ڈھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔میں بار بار اس کی ساڑھی کا پلو سمبھال کر اسے ڈھانپتا ۔۔۔مگر وہ بار بار گرتا ۔۔۔اور اس کی گہری کلیویج ظاہر ہوتی ۔۔۔۔۔اسی طرح ہم پارکنگ کے پاس پہنچے ۔۔۔۔۔کار کے قریب پہنچے تو مینا کماری کی آواز آئی ۔۔۔۔۔میرا پرس اندر رہ گیا ہے ۔۔۔۔میں نے کوفت ذدہ انداز میں اسے دیکھا اور کار میں بیٹھنے کا اشارہ کرکے تیز قدموں سے اندر چل پڑا ۔۔۔۔۔۔پرس اسی سیٹ پر رکھا تھا ۔۔۔۔میں پرس لے کر واپس پہنچا تو عجیب منظر سامنے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں نے اپنی کار کے سامنے پانچ سے چھ بائک دیکھیں تھی ۔۔جو ایک دائر ے میں گھوم رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔جبکہ ان سب کےدرمیاں میناکماری ڈری سہمی ہوئی کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وہ لوگ ہوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔اور قریب گھومتے ہوئے ساڑھی کھینچنے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔میں نے پرس کار کے اندر پھینکا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے انگڑائی لی ۔۔۔اور پھر بائک کے درمیان سے ہوتا ہوامینا کے پاس پہنچا تھا ۔۔وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی ۔۔بائک والے میری طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔بائک رک چکی تھی ۔۔۔۔اور اب لائٹ آن کئے وہ اترنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔مجھے وہ کوئی بوڑھا غیر ملکی سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔اور اسی غلط فہمی میں ایک آدمی چاقو لے کر قریب آیا تھا ۔۔۔شاید ڈرا کر بھگانا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ میں چاقو گھماتے ہوئے سامنے آ کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔میرے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔۔۔اور پھر وہ طیش میں آ کر میری طرف جھپٹا۔۔۔پیٹ کی طرف آتے ہوئے چاقو کو میں نے تھوڑی دور روکا تھا ۔۔۔اور ہاتھ کوپکڑکر مڑتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔اس کا ہاتھ میرے کندھے سے ایسے گذر ا تھا کہ کہنی میرے کندھے کے عین اوپر تھی ۔۔۔۔اور پھر ایک آواز آئی تھی ۔کہنی کا جوڑ ڈس لوکیٹ ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ کو نیچے جھٹکا دیا تھا ۔۔۔چاقو میرے سامنے ہی گرا تھا ۔۔۔اور کہنی کی طرف سے ہاتھ دوسری طرف مڑ گیا تھا ۔۔۔میں واپس اٹھتا ہوا سیدھا ہوا اور فرنٹ کک سے دور اچھا ل دیا ۔۔۔۔میں نے چاقو کو پاؤں مارتے ہوئے دور پھینک دیا ۔۔۔۔اب کی بار دو سورماؤں نے ہمت کی تھی ۔۔ایک سامنے سے آیا اور دوسرا پیچھے سے آنے لگا۔۔میں مطمئن انداز سے کھڑا ان کی حرکت دیکھ رہا تھا ۔۔سائیڈ پر کھڑی مینا بھی حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔اس کا نشہ اتر چکا تھا ۔۔۔سامنے والا مجھے سے دو قدم کے فاصلے پر پہنچا تو میں نے ایک نظر پیچھے ڈالی ۔۔۔دوسرا بھی اتنا ہی نزدیک تھا۔۔۔۔سامنے والا نے جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھا یا تھا ۔۔اور پھر بجلی سی کوندی ۔۔۔میں آگے کو جھپٹا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھوں آگے کی طرف مکے کے انداز میں تھے ۔۔۔۔اس نے چہرے کے سامنے ہاتھ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔مگر یہ صرف ڈاج تھا ۔۔میرا نشانہ اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔۔۔وہ چیخ مار کر بیٹھا تھا ۔۔۔میرےبڑھے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر جا رکے تھے ۔۔۔۔اور پھراس کے کندھے پر زور ڈالتے ہوئے اپنے پاؤں پیچھے اچھالے تھے۔۔۔۔پیچھے والا مجھے دبوچنے کے لئے لپکا تھا ۔۔۔مگر دونوں ٹانگوں کی چہرے پر پڑنے والی ٹھوکر اسے الٹا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ناک لہولہان تھی ۔۔وہ لوٹ پوٹ ہونے لگا ۔۔باقی دو ہی بچے تھے ۔۔مگر ان میں ہمت نہیں تھی ۔۔وہ بائک پر واپس جا بیٹھے تھے ۔۔اچانک سے شروع ہونے والی لڑائی دو منٹ سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
    میں نے حیران پریشان مینا کماری کا ہاتھ تھاما اور کار کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر تیز رفتاری سے واپس پہنچا ۔۔۔راستہ مجھے یاد ہی تھا ۔۔بس ایک جگہ مینا کماری کو بتانا پڑا تھا ۔۔۔گیراج میں کار کھڑی کر کے ہم اندر آئے تھے ۔۔۔۔مینا کماری ابھی بھی شاک میں ہی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر وہ باہر گئی تھی ۔۔۔واپس پر اس کے ہاتھ میں چائے تھی ۔۔۔۔۔وہ میرے بیڈ پر ہی بیٹھی تھی ۔۔۔اور حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔۔پروفیسر صاحب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا ۔۔اتنی پھرتی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔آپ تو بالکل جوان آدمی لگ رہے تھے ۔
    بس سب اچانک سے ہو گیا ۔۔مجھے بھی سمجھ نہیں آیا ۔۔۔۔میں نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی ۔
    وہ لوگ جرائم پیشہ تھے ۔۔۔اتنی آسانی سے آپ کیسے انہیں بھگا سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔مینا کماری پھر پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
    میں نے اسے مطمئن کیا کہ میں کچھ عرصے سیلف ڈیفنس سیکھتا رہا تھا ۔۔۔بس وہی کام آیا ہے ۔۔۔۔۔
    میں نے چائے پی کر ساتھ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔۔اور مینا کماری کو دیکھا ۔۔۔جس کی آنکھوں میں چمک کے ساتھ امید بھی تھی ۔۔۔۔وہ میرے قرب کی خواہش مند تھی ۔۔۔اور کہنے سے ہچکچا بھی رہی تھی ۔۔میں کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر خود پر گھسیٹ لیا ۔۔۔۔نرم گرم جسم میرے ہاتھ سے کھنچتا ہوا مجھ پر آیا تھا ۔۔۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری نے میرے چہرے پر بوسوں کی بارش کر دی ۔۔۔۔۔۔۔اس کے بوسوں میں غضب کی گرمی اورشدت تھی ۔۔۔۔کچھ دیر تو میں رک سا گیا ۔۔۔۔وہ اپنا زور مارنے لگی ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی کمر پر رکھ دیے ۔۔۔اور اٹھاتے ہوئے بالکل اپنے اوپر لے آیا ۔۔۔۔میرے پورے جسم میں بجلی سی کوند گئی ۔۔۔مینا کماری کےجسم کے لمس نے مجھے چونکا دیا تھا۔۔۔سینے کے بڑے سے ابھار میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔ساڑھی کا پلو کہیں دور رہ گیا تھا ۔۔۔اور سینے کے دودھ بلاؤز سے باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔۔۔۔میں نے اپنے اور لیٹی مینا کماری کے گرد ٹانگیں لپیٹ دی اور جوابی بوسے دینے لگا۔۔۔۔۔سیاہ ریشمی بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔جن سے کوکونٹ جیسی سمیل نکل کر میرے نتھنوں میں گھس رہی تھی ۔۔۔مینا کماری کے بوسوں میں برسوں کی پیاس تھی ۔۔۔۔۔جھکی جھکی آنکھوں کے ساتھ وہ بوسوں میں مصروف تھی ۔۔۔اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں بھی جوا بی بوسے سے اس کی ہمت بڑھا تا ۔۔۔میرا چہرہ گیلا ہونا شروع ہو چکا تھا ۔۔میں نے کروٹ لی اور مینا کماری کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔نیچے دلکش نظارہ تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے آدھے سے زیادہ ممے بلاؤز باہر آئے ہوئے تھے ۔۔اور اپنے پورے سائز کا اندازہ کر وا رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ہاتھ بلاؤز رکھتے ہوئےچہرے پر جھک گیا ۔۔اور ہونٹوں کو چومتے ہوئے کھینچنے لگا۔۔۔۔مینا کماری کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔۔۔۔میں نے جواب دیتے ہوئے اس سے زیادہ شدت کا مظاہر ہ کیا تھا ۔۔۔اس کے منہ کو چومتے ہوئے میں نیچے آیا ۔۔۔آدھے باہر نکلے ہوئے ممے سامنے تھے ۔۔ان کے اوپر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔بے تحاشہ گرم تھے ۔۔۔میں ہونٹوں کو جگہ جگہ رکھتے ہوئے نشان بناتا گیا ۔۔۔مینا کماری کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔سینے کی دھڑکن تیز ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لیتے ہوئے اس کی سائیڈ پر آیا ۔۔اور اسے کھینچتے ہوئے خود پر گھسیٹ لیا ۔۔دونوں ہاتھ کمر پر لے گیا ۔۔جہاں بلاؤز کی ڈوری میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔ڈوریاں کھینچنے کے بعد کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے لے جانے لگا۔۔۔جہاں بڑے سے چوتڑ لہنگے میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔میں نے اوپر ہتھیلی رکھتے ہوئے زور دے دبایا ۔۔۔مینا کماری سسکی بھرتی ہوئی میرے ہونٹ چومنے لگی ۔۔۔میں کچھ دیر چوتڑ اوپر سے دباتا رہا ۔۔۔۔اور پھر۔۔لہنگے کے اندر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔گرم گوشت سے بھرے ہوئے گول چوتڑمیرے ہاتھ کے نیچے تھے ۔۔میں ہلکی پکڑ کے ساتھ دباؤ دینے لگا۔۔۔۔اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر کو آتا اور چوتڑ وں کو بھینچ کر دبانے لگتا۔۔۔۔۔مینا کماری کے گیلے گیلے بوسے ابھی بھی جاری تھے ۔۔۔۔جن کے درمیان سے گرم گرم سسکی بھی نکل جاتی ۔۔بلاؤز کی ڈوریاں کھلنے کے بعد وہ آہستگی سے اترتا جا رہا تھا ۔۔اور دو چار بار میرے سینے پرمیناکماری کے رگڑ کھانے کے بعد اب وہی رہ گیا تھا ۔۔گول مٹول سے ممے سامنے تھے ۔۔۔اور نپلز ۔۔۔۔میرے آج تک دیکھے گئے نپلز میں سب سے زیادہ لمبے تھے ۔۔۔۔ہلکے براؤن کلر کے نپلز پوری لمبائی کے ساتھ اکڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے مینا کماری کے لہنگے کو نیچے کی طرف کھسکا دیا ۔۔۔۔اور جہاں تک ہاتھ جاتا نیچے لیتا گیا ۔۔۔اور پھر کروٹ لیتے ہوئے اس نیچے لٹا کر اس کے اوپر آیا ۔۔۔۔بھاری بھرکم ممے مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں نے اس کے دائیں بائیں گھٹنے رکھتے ہوئے اس کے اوپر سوار ہوا۔۔۔اور جھک کر مموں اپنے منہ میں بھرنے لگا۔۔۔یہ بڑے سے ممے منہ میں آنے سے قاصر تھے ۔۔۔پھر بھی میں کوشش کرتا رہا ۔۔۔اور نپلز کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نپلز لمبے تھے ۔۔اور میرا انداز بھی بے صبرا تھا ۔۔نتیجہ چس چس۔۔ کی آواز کی صورت میں نکلا تھا ۔۔۔۔میں دونوں نپلز کو باری باری چوستا۔۔۔میناکماری پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھے جاتی اور سر پر ہاتھ پھیرتی ۔۔۔۔میں پورے ممے کو دبوچ کر منہ میں پہنچاتا اورہونٹوں سے اندر پہنچانے کی کوشش کرتا۔۔۔مگر نپلز ہی آخر میں رہ جاتے جو ہونٹوں میں دبے رہتے ۔۔۔۔۔ممے آہستہ آہستہ گیلے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔تبھی مینا کماری نے ہاتھ بڑھا کرمیری شرٹ اتارنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔میں سیدھا ہو گیا ۔۔اورااس نے ایک ایک کر بٹن کھولے ۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں نے سائیڈ پر پھینکی تھی ۔۔۔۔میرا کشادہ سینا دیکھ کر مینا کماری کے آنکھوں میں حیرانی آئی تھی ۔۔۔اس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے سختی کا اندازہ لگا لیا تھا ۔۔۔اب وہ میری پینٹ کے بٹن کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔بٹن کھولنے کے بعد میں سائیڈ پر آگیا ۔۔۔۔۔اور پہلے اس کا کہ لہنگا اور پینٹی مکمل طور پر اتاری ۔۔اور پھر خود کی پینٹ اور انڈروئیر بھی اتار دیا ۔۔۔اور ساتھ ہی مینا کماری کو خود سے لپٹا لیا ۔۔۔ہم دونوں مکمل ننگے ہو چکےتھے ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں مل رہے تھے ۔۔۔۔میں کروٹیں بدلتا ہوا گھومتا جا رہا تھا ۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے بھی پکار دے دی تھی ۔۔۔۔۔وہ سخت اور لمبائی میں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور مینا کماری کی چوت سے ٹچ ہوتا ہوا پیچھے کو نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی کروٹ بدلتا رہا ۔۔۔۔ہم دونوں کے بدن ایکدوسرے سے ٹکرا کر عجیب سی لذ ت محسوس کر رہے تھے ۔۔۔۔اس کی ٹانگیں آپس میں جڑتی ہوئی میرے ہتھیار کو دبوچنے کی کوشش کرنے لگتی ۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے بیڈ کے درمیان آ گیا۔۔۔اور اٹھتے ہوئے اس کی چوت کو دیکھا ۔۔۔پانی باہر چمک رہا تھا ۔۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینےسے لگائی تھی ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کی ٹانگوں کی گرفت نے ہتھیار کی چوڑائی بھانپ لی تھی ۔۔۔۔۔تبھی اس نے ہلکے سے کہا کہ پلیز اسٹارٹ سلو ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے اوپر رگڑتے ہوئے مینا کماری کو دیکھا تھا ۔۔وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے زور دیتے ہوئے ٹوپے کودھکا دیا ۔۔۔چوت کے لبوں کے درمیان سے ٹوپا اوپر کو سلپ ہوا تھا ۔۔۔۔۔چوت کافی تنگ تھی ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ٹوپے کو چوت پر رکھتے ہوئے دھکا دیا ۔میرا دوسرا ہاتھ چوت کے اوپری حصے کا تیزی سے مساج کر رہا تھا ۔۔چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جاپھنسا ۔۔۔۔۔مینا کے منہ سے ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔اوئی ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا دباؤ اور بڑھایا اور ٹوپے کے ساتھ دو انچ اندر ہو گیا ۔۔۔۔ہتھیار کی چوڑائی کے مطابق چوت جتنی دائیں بائیں سے پھنسی ہوئی تھی ۔۔اتنی ہی موٹائی نے بھی اوپر اور نیچے کی طرف زور ڈالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔مینا کماری کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔سس ۔۔۔آہ۔۔۔سس۔۔میں نے دوبارہ دباؤ بڑھا اور آدھےہتھیار کو اندر پہنچا دیا ۔۔۔۔مینا کماری ایکدم سی چیخی تھی ۔۔۔۔۔۔اور مجھے رکنے کا کہا تھا۔۔۔اس نے سر اٹھا کر ہتھیار دیکھا جو ابھی بھی آدھا باہر تھا۔۔۔۔اور جڑ کے قریب کی موٹائی اس سے بھی زیادہ تھی ۔۔۔۔میناکماری نے اپنے ہونٹ پر زبان پھیری اور سر نیچے رکھ دیا۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ہلنا شرو ع کر دیا ۔۔۔باہر نکال کر دوبارہ اندر کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت تحاشا پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔میں آدھے ہتھیار کو ہی آگے پیچھے دھکیلنے لگا ۔۔۔میناکماری کی کراہیں ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔آنکھیں بند کئے ہوئے اس کے ہونٹ اب بھی سس۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔کی دلکش آوازیں نکال رہے تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی ہلکے دھکے دیتا رہا ۔۔۔مینا کے ممے بھی باؤنس ہونے میں دیر نہیں لگا رہے تھے ۔۔دھکوں کے ساتھ ردھم میں تھے ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگوں کے درمیان سے اٹھتے ہوئے آگے کو جھکنے لگاتھا ۔اس کی ٹانگوں کو کھینچ کر اور اوپر سینے سے لگا دیا ۔۔اس طرح اس کو چوتڑ بھی بیڈ سے اوپراٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔اور اب جھٹکے پیچھے سے آگے نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف لگ رہے تھے ۔۔میں ہاتھ اس کے دائیں بائیں رکھ کر گہرے اسٹروک مار رہا تھا ۔۔۔۔۔اور انہیں جھٹکوںمیں ہتھیار نے مزید اندر گھس کر تباہی مچائی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اس وقت پتا چلا جب مینا کماری تیز آواز میں چیخی۔۔۔آہ۔۔۔اوئی بھگوان۔۔۔۔۔آہ۔۔مرگئی ۔۔۔۔میں تھوڑا رک کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔وہ کچھ شانت ہوئی تو دوبارہ سے سواری شروع کی ۔۔۔اگلے دو منٹ میں اس نے ہار مان لی تھی ۔۔۔اور پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔میں نے دو چار جھٹکے اور مار ے ۔۔پھر اس نے مجھے روک دیا ۔۔۔میں سائیڈ پر کروٹ لئے لیٹا تھا ۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک ویسے ہی تنا ہو اتھا۔۔۔۔۔۔مینا کماری اٹھتی ہوئی میرے اوپر آئی ۔۔۔اورہتھیار کو آگے کرتی ہوئی میری ٹانگوں پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔میرے چہرے کو چومنے کے بعد نیچے متوجہ ہوئی جہاں ہتھیار اس کے مموں سے ٹکرا رہا تھا۔۔۔۔ایک طرف نرم گول ممے تھے ۔۔۔دوسری طرف سختی سے تنا ہوا ایک مضبوط راڈ تھا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے اسے اپنے مموں کے درمیاں دبانے کی کوشش کی ۔۔۔اور مموں کو اس پر اوپر نیچے حرکت کرنے لگی ۔۔۔میں دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے اس دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر ایسے کرنے کے بعد اس نےہتھیار کو چاٹا تھا ۔۔چاروں طرف سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد وہ اٹھی ۔۔اور ہتھیار کی سیدھ میں آتے ہوئے بیٹھنے لگی ۔۔۔۔دونوں پیر میرے دائیں بائیں جمے ہوئےتھے ۔۔اور وہ آہستگی سے بیٹھتی ہوئی نیچے آنے لگی ۔۔۔۔میں نے بھی پیر بیڈ پر رکھ کر گھٹنے اٹھا دیئے تھے ۔۔۔۔۔وہ ٹوپے کی نوک پر آ کر تھوڑی رکی اور پھر بیٹھی ۔۔۔ٹوپے بغیر رکاوٹ کے اندر گھسا تھا ۔۔۔۔مینا کماری کے چہرے کے نقش تبدیل ہوئے تھے ۔۔۔اس کے ایک ہاتھ ہتھیار کی شافٹ پر تھا ۔۔۔جسے آہستہ آہستہ وہ نیچے لے جاتی ہوئی ہتھیار کو اندر لے رہی تھی ۔۔۔میں سکون سے لیٹا اس کی حرکت دیکھ رہاتھا۔۔۔۔آدھے ہتھیار لینے کے بعد اس نے گہرا سانس لیا ۔۔۔مجھے دیکھا اور اٹھتی ہوئی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ہلنے کے بعد آگے کو آئی میرے پیٹ پر بیٹھتی ہوئی آگے کو جھکی تھی ۔۔۔۔پیچھے سے اس کے چوتڑ فل گولائی میں آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میرے منہ کو چومتی ہوئی کہنی میرے دائی بائیں ٹکائی تھی ۔۔نرم اور گرم ممے میرے سینے سے ٹکرائے ۔۔۔۔اور پھر صرف اپنی کمر کو حرکت دینےلگی ۔۔۔۔گھٹنے اس نے پہلے ہی بیڈ پر ٹکا دیے تھے ۔۔۔۔۔پیچھے اس کی صحت مند رانیں اور چوتڑ آہستگی سے اوپر نیچے ہو نے لگے ۔۔۔اور گول مٹول سے ممے سینے پر دبنے لگے تھے ۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری کے نرم ہونٹ میرے ہونٹ سےٹکرا نے لگے ۔۔میں نے اس کے چوتڑ پر ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے بیٹھنے میں مدد کرنے لگا۔۔اس کی نرم نرم اور گیلی سسکاریاں میرے منہ پر چھوٹ رہی تھی ۔۔۔میں نے پیر جما کر کمر کو اچھالا تھا ۔۔۔ہتھیار اپنی پور ی طاقت سے اندر گھسا تھا ۔۔۔مینا کماری پھر سے چیخی ۔۔۔اور مجھ پر ڈھے گئی ۔۔۔اس کے بعد میں دھکے پر دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔وہ میرے اوپر اچھلتی رہی ۔۔۔وہ اٹھ کر کھڑی سی ہونے لگی تھی ۔۔میں نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود سے چمٹا دیا۔۔نیچے سے دھکے ویسی تیزی سے جاری تھے ۔۔۔۔۔میناکماری کی سسکاری اور آہیں پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹ کو چومنے کی کوشش کی ۔۔مینا کماری یہ دیکھ کر جھکی اور ہونٹ کو تیزی سے چوسنے لگی ۔۔۔۔اس کے چوسنا کاٹنے کے برابر تھا۔۔۔۔میرے چہرے پر گیلا پن بڑھتا جار ہا تھا ۔۔جو اسی کے تھوک کا تھا ۔۔۔۔۔ہونٹ چومنے کے ساتھ وہ پورے چہرے کو بھی چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔میرا دھکے تیز ہوئے ۔۔۔اس کی آہ ۔۔۔او ہ۔۔۔۔اف۔۔۔سس ۔۔بھی بڑھنے لگی ۔۔۔نیچے سے بیڈ کی دھپ دھپ بھی جاری تھی ۔۔پورا ہتھیار اس کے اندر سمایا ہوا تھا ۔۔۔آدھے کے قریب باہر آتا اور پھر بجلی کی تیزی سے اندر لپکتا ۔۔۔۔۔میں نے اگلے تین چار منٹ تیز دھکے مارے تھے ۔۔۔۔مینا کماری کے کس بل ڈھیلے ہو گئے تھے ۔۔میں نے اپنا بازو کھولا تو وہ میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر سیدھی ہوئی ۔۔۔ممے قید سے چھوڑ کر تیزی سے اوپر نیچے اچھلے ۔۔۔میں نے آہستہ سے اسپیڈ کم کرتے ہوئے رک گیا ۔۔۔۔بیڈ کے درمیان تین چار تکیے رکھتے ہوئے اسے اوندھا لٹا دیا ۔۔تکئے اس کے پیٹ اور چوت کی طرف تھے ۔۔۔اور اسے کافی اونچا اٹھا دیا تھا ۔۔اس کی ٹانگیں جڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور گول مٹول چوتڑ آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔سر اور اگلا حصہ نیچے بیڈ پر تھے ۔۔میں پیچھے سے آیا تھا ۔۔کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ٹوپے کو اندر بھیجا ۔۔۔۔چوت پر ٹکنے کے بعد دھکا پڑا تھا ۔۔۔مینا کماری کا جسم آگے کو لپکا تھا ۔۔میں نے سمبھال کر واپس کھینچا اور دوسرا دھکے نے ہتھیار کو پورا اندر پہنچا دیا ۔۔۔میناکماری چلائی تھی ۔۔۔آہ ۔۔۔آئی۔۔۔۔سس۔۔۔میں نے ان سنی کرتے ہوئے تھے جھٹکے تیز کر دیئے ۔۔۔میرا ٹوکن ٹائم شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔جھٹکے تیز ہوئے تھے ۔۔۔اور پھر اور تیز ۔۔۔مینا کماری اوندھی ہوئی کراہتی اور سسکیاں لیتی رہی تھی ۔۔کمرے میں میری دھپ دھپ کے ساتھ اس کی آہ۔۔اوہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔گونج رہی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے اورتیز ہوئے تھے ۔۔۔۔اور اگلی اسپیڈ طوفانی تھی۔۔۔مینا کماری کا پورا جسم لرزنے لگا تھا ۔۔سر سے لے کر پیر تک جسم کی ہر چیز حرکت میں آگئی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر میری غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔ہتھیار اور اسپیڈ پکڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔سسکیاں اور آہیں اور تیز گونجنے لگی ۔۔۔۔مینا کماری پھر سے چھوٹنے والی تھی ۔۔۔اور پھر ایک تیز غراہٹ کیساتھ میرا فوارہ چھوٹا تھا۔۔۔۔جو سیدھا اس کی چوت میں بھاگتا گیا ۔۔اور واپس مینا کماری کے پانی کے ساتھ آیا ۔۔۔۔۔اس کی چوت میں پانی کاطوفان بھرنے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے اگلے جھٹکوں میں پانی کا آخری قطرہ بھی اندر ہی نکالا ۔۔۔مینا کماری گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔میں کروٹ لے کر سائیڈ پر گرا تو اس کا چہرہ لال سرخ اور پسینے میں شرابور تھا ۔۔۔تکیہ سائیڈ پر نکالتی ہوئی وہ میرے برابر میں لیٹی ۔۔۔۔اور پھر مجھ سے لپٹتی چلی گئی ۔۔۔۔رات آدھی سے زیادہ ہو چلی تھی ۔۔۔۔میناکماری نے کہا کہ یہیں سو جاؤ ۔۔۔اور کچھ دیر میں ہم نیند کی وادیوں میں چلے گئے ۔۔۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

  • #2
    قسط نمبر 3 ۔۔۔
    میرا نیپال میں دوسرا دن تھا ۔صبح سویرے میں اٹھا تو دھوپ نکل چکی تھی ۔۔۔۔مینا کماری وجے اور انجلی کو ناشتہ دے کر کالج بھیج چکی تھی ۔۔۔اور اب نکھری نکھری مجھے آواز دے رہی تھی ۔۔۔میں اٹھ کر باتھ روم گھس گیا ۔۔باہر آیا تو ناشتہ انتظار میں تھا ۔میرے منہ میں کھانا ڈالتی ہوئی مینا کماری بہت خوش تھی ۔۔۔۔۔۔اورپہلے سے زیادہ حسین اور نکھر سی گئی تھی ۔۔۔چمکتا ہوا چہراہ جس پر مسکراہٹ چار چاند لگا رہی تھی ۔۔ایسے ہی مسکراتے ہوئے میں نے ناشتہ ختم کیا ۔۔اور مینا کماری کی کار میں انسٹیٹوٹ پہنچے ۔۔۔۔آج کی کانفرنس میں میرا مقالہ پڑھا جانا تھا ۔۔۔میں کچھ ہچکچا رہا تھا ۔۔میں اسٹیج کے سامنے پہلی قطار میں بیٹھا تھا ۔۔۔اسٹیج پر پروفیسر جان کی کاوشوں اور میڈیکل کی فیلڈ میں کارنوموں پر روشنی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر ڈائس پر سے پروفیسر جان کا نام پکار ا گیا ۔۔۔۔میں اٹھا اور درمیانی قدموں سے بڑھتا ہوا اسٹیج پرپہنچ گیا۔۔یہ مقالہ عمران صاحب نے خود لکھا تھا ۔۔اس لئے میں مطمئن تھا ۔۔ایبولا وائرس پر لکھی گئی یہ تحقیق اور ایشیاء میں اس کے خدشات اور حل بتائے گئےتھے ۔۔۔۔چار صفحات کی یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد میں نے بات ختم کی ۔۔۔۔تالیوں کی اک گونج تھی ۔۔۔۔جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔میں گونجتی تالیوں میں واپس آ کر بیٹھا اور دل ہی دل میں اصل پروفیسر تک شکریہ پہنچا دیا ۔۔۔۔اس کا اصل مقالہ کسی مغربی ملک کی بیماری کے بارے میں تھا ۔۔۔اور عمراں صاحب نے اس مقالے میں ایشیاء میں اس کی موجودگی کا ذکر کیا تھا ۔۔اور امید تھی کہ اس خطے میں اس سے ریسرچ اور کم خرچ ویکسین کی درآمد شروع ہو جائے گی ۔۔۔۔میں واپس آ کر بیٹھا ۔۔۔میری سیٹ مینا کماری کے ساتھ ہی تھی ۔دوپہر تک ہم وہیں کانفرنس میں رہے۔۔پھر وقفہ ہوا تو۔۔ ہم واپس گھر کی طرف چلے ۔راستے میں کار میں ۔۔میناکماری اشتیاق سے پوچھنے لگی ۔۔۔۔جان کل کانفرنس کا آخری دن ہے ۔۔اس کے بعد ہمارے انسٹیوٹ کی طرف سے دو دن کی نیپال میں سیر ہے ۔۔۔اگر تم چاہو تو ہم آج ہی نکل سکتے ہیں ۔میں سوچتا رہا ۔۔۔۔ہم گھر پہنچے تو انجلی اور وجے ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔اور جب ہم کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تو میں نے مینا کماری کو فائنل کر دیا کہ اگر اسے چھٹی مل سکتی ہے تو ہم آج نکل جاتے ہیں ۔۔انجلی اور وجے نےشور مچا دیا تھا ۔۔۔کہ ہم نے بھی ساتھ چلنا ہے ۔۔۔کھانا ختم کرکے ہم بیٹھے تو وہ دونوں میرے برابر میں آ کر بیٹھے اورضد پکڑ لی ۔۔میرا ہاتھ کھینچے ہوئے وہ زور لگا رہے تھے ۔۔دونوں مجھے کھینچتے ہوئے منانے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔انکل آپ ماما کو کہیں کہ ہمیں بھی لے کر جائیں ۔۔ہم کالج سے چھٹی لے لیں گے ۔۔ایک طرف انجلی اور دوسر ی طرف وجے تھا۔۔۔۔انجلی اپنی بے لگا م جوانی سے بالکل بے خبر تھی ۔۔تنگ ٹی شرٹ میں اس کا گریبان کافی کشادہ تھا جس میں سے چھوٹے لیموں سائز کے ممے ابھی بڑھوتری کے عمل میں تھے۔۔۔۔میں نگاہیں چراتا ہوامینا کماری کو دیکھنے لگا۔۔۔آخر وہ میری طرف آئی اور انہیں اٹھا کر تیاری کرنے کا کہا تھا ۔۔۔۔۔وہ دونوں خوشی سے چیخیں مارتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگے ۔۔۔۔۔مینا کماری میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔اور تین چار مقامات کا نام بتا کر پوچھنے لگی کہ کہاں جاؤ گے ۔۔۔۔۔میں نے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کی طرف ارادہ بتایا۔۔۔اس نے تین چارماؤنٹین کے نام لیے تو میں نے سمی کوٹ کا نام لیا ، جو میری مطلوبہ منزل کے قریب ہی تھا ۔۔اور عمراں صاحب نے بھی مجھے یہیں کا کہا تھا ۔۔مینا کماری نے ہامی بھر لی ۔۔۔کل رات سے اب تک وہ میرے آگے بچھی جارہی تھی ۔۔اور ہر بات میں میری بات کی مرضی پوچھ رہی تھی ۔۔۔

    وجے اور انجلی کے ساتھ ساتھ مینا کماری بھی بہت خوش تھی ۔۔جلدی سے مجھے اٹھایا اور ہم باہر شاپنگ کے لئے نکل گئے ۔۔۔اس نے میرے لئے اور انجلی اوروجے کے لئے گرم کپڑے خریدے ۔۔میں نے پیسے ادا کرنے کی کوشش کی مگر اس نے ایک نہ چلنے دی ۔۔میرے لئے ایک گھڑی خریدی اور میرے ہاتھ میں باندھنے لگی۔۔۔شاپنگ کے دوران ہی اس نے سمی کوٹ کے لئے آن لائن فلائٹ بک کروا دی ۔۔۔فلائٹ شام کی تھی ۔۔ہم شاپنگ کر کے گھر پہنچے ۔۔انجلی اور وجے بھی تیار ی کے مراحل میں تھے ۔۔۔۔ان کو گرم کپڑے دیتے ہوئے مینا کماری بھی تیار ہونے لگی ۔۔۔اس کی مجھ میں بڑھتی ہوئی انسیت کو انجلی اور وجے بھی محسوس کر رہے تھے ۔۔۔مگر وہ بھی اپنی ماما کو اتنے عرصے بعد خوش دیکھ رہے تھے ۔۔۔اس لئے کچھ کہ نہیں رہے تھے ۔۔بس معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے رہتے ۔۔۔۔شام سے پہلے ہی ہم کھٹمنڈو ائیرپورٹ پر تھے ۔۔۔میرا بیگ اب تک میرے ساتھ ہی تھا ۔۔۔۔صرف ایک مرتبہ ہی کھولا تھا ۔۔۔باقی ویسے ہی بند تھا۔بورڈنگ کروا کر ہم جہاز میں سوار ہو چکے تھے۔۔۔۔۔مینا کماری کی سیٹ میرے ساتھ تھی ۔۔۔۔اورانجلی اور وجے کی ہمارے ساتھ دوسری لائن میں تھی ۔۔۔۔دونوں بے حد خوش تھے ۔۔۔کئی بار مجھے یہ دونوں بھی کچھ عجیب سے لگتے تھے ۔۔۔دونوں ایک ہی کمرے میں سوتےتھے ۔۔۔اور دن بھر ایک ساتھ ہی پائے جاتے تھے ۔۔۔اور شاید کالج میں بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔۔کئی بار میں نے ان کی آنکھوں میں بچپن کے بجائے جوانی کی چمک دیکھی جو ایک دوسرے کو دیکھ کر ابھرتی ۔۔۔مینا کماری مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر قریب ہوئی تھی ۔۔۔۔اس کی مہک مجھ سے ٹکرائی ۔۔۔میرا ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھو ں میں تھا ۔۔میں نے بھی اس کا ہاتھ دبا یا ۔اور سیٹ سے سر ٹکائے باتیں کرنے لگے ۔۔۔۔۔رات گئے تک ہم سمی کوٹ پہنچ گئے ۔۔۔مینا کماری نے ایک ٹورسٹ ایجنسی سے ہمارے ہوٹل بک کرو الئے تھے ۔۔۔اور کل کا سفر ہم نے ان کے گروپ کےساتھ ہی کرنا تھا۔۔۔۔
    ہوٹل پہنچ کر ہم روم پہنچے ۔۔۔۔ٹورسٹ کی بہت زیادہ آمد تھی ۔۔جس کی وجہ سے ہوٹل میں ہرملک کا شہر ی نظر آ رہا تھا ۔۔۔اور روم کی کمی بھی تھی ۔۔۔ہم تھکے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور کل مزید تھکنا تھا ۔۔۔ہم جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئے ۔۔۔صبح صبح ہمیں اٹھایا گیا ۔۔۔۔۔اور بھرپور ناشتے کے بعد ہم نے کچھ سامان وہیں چھوڑا ۔۔۔اور بیک پیک میں ضروری سامان بھرنے لگے ۔۔۔ٹورسٹ کمپنی کی طرف سے ہمیں سلیپنگ بیگ اور کیمپنگ کا سامان مل گیا تھا ۔۔۔سب نے اپنا وزن اٹھایا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کے بعد ہمیں جیپوں میں ایک بیس کیمپ میں لے جایا گیا ۔۔۔۔جہاں 5 اور غیر ملکی ہمارا نتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ہمیں یہاں سے ہلسا کی طرف ٹریکنگ کرنی تھی ۔۔۔۔۔ضروری ہدایات سننےکے بعد ہم روانہ ہو گئے ۔۔ہمارا انچارج ایک مقامی گائیڈ تھا ۔۔۔۔آگے آگے وہی جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اورپیچھے سب ایک لائن چل رہے تھے ۔۔۔۔میں سب سے آخر تھا ۔۔۔اور میرے آگے مینا کماری تھی ۔۔۔اس سے آگے انجلی اور وجے ۔۔۔۔۔ہمیں دو گھنٹے کے سفر کے بعد اوپر ایک اور کیمپ میں پہنچنا تھا ۔۔۔۔۔ہلکی سی ٹھنڈ اور اوپر کو چڑھتی ہوئی پہاڑی پر ہمار ا سفر جاری تھا ۔۔۔چاروں طرف برف لپیٹے ہوئے پہاڑیاں تھی ۔۔۔دو گھنٹے کے بعد ہم ایک کیمپ پہنچے تھے ۔۔جہاں آنے اور جانے والے رک رہےتھے ۔۔۔کچھ دیر سانس بحال کرنے کے بعد ہم پھر چل پڑے ۔۔۔۔۔۔ہماری پہاڑی پر بھی اب برف شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔جس کی تیار ی ہم پہلے سے کر چکے تھے ۔۔۔خصوصی قسم کے شوز اور ہاتھ میں اسٹک تھی ۔۔۔۔جن سے سہارا لیتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے ۔اس کے باوجود ہمارے شوز برف میں دھنس رہے تھے۔۔۔۔سردی بے پناہ بڑھنے لگی تھی ۔۔مینا کماری کچھ سال پہلے ہائیکنگ کر چکی تھی ۔۔۔جبکہ انجلی اور وجے نئے تھے ۔۔۔۔۔میرا بھی ایک تجربہ پہلے ہو چکا تھا۔۔۔۔شام تک ہم کافی اوپر آ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔تھکاوٹ سب پر تھی ۔۔۔مگر انچارج مستقل چلائے جار ہا تھا ۔۔۔۔۔آخر ہم چوٹی پر پہنچ ہی گئے ۔۔۔۔۔۔چاروں طرف مزید اتنے ہی اونچے پہاڑ تھے ۔۔۔۔اور ساتھ ہی ایک اور پہاڑ چڑھنے کے بعد کل ہمارا نیچے کا سفر شروع ہونا تھا ۔۔۔جو ہلسا تک جا پہنچتا ۔۔۔۔اور پھر وہاں سے ہماری کھٹمنڈو کی واپسی تھی ۔۔۔۔چوٹی پر پہنچ کر ہم نے کیمپ لگا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ہر کسی کااپنا ہی چھوٹا سا کیمپ تھا ۔۔جس کے اندر سلیپنگ بیگ اور روشنی کے لئے ایک چھوٹا الیکٹرونک لیمپ تھا ۔۔۔۔۔انجلی اور وجے کا ایک ہی کیمپ تھا ۔۔۔ہم سے کافی دور کیمپ لگایا تھا انہوں نے ۔۔۔۔خوشی اور مستی سے ان دونوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔۔ہم لوگ بھی خوشی سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔باقی گروپ نے بھی اپنا کیمپ سیٹ کر دیا تھا ۔۔۔اور اب چائے کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔۔۔ہمارے پاس سیل پیک کھانے تھے ۔۔۔جو ہم نے ہیڑ پر گرم کر کے کھائے ۔۔۔۔تین کیمپ کو جوڑ کر ہم اکھٹے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔کھانا کھا کرسب اپنے کیمپ کی طرف چلے گئے ۔۔وجے مینا کماری کی طرف گیا تھا ۔۔اور انجلی اپنے کیمپ کی طرف گئی ۔۔۔۔۔۔
    اندھیرا سا چھانے لگا تھا ۔۔۔سیاہ آسمان تاروں سے چمک رہا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر انچارج سے باتیں کرتا رہا ۔۔۔۔۔مینا کماری اپنے کیمپ میں تھی ۔۔۔۔۔اور وجے کے ساتھ کسی بات میں مصروف تھی ۔۔۔
    مجھے انچارج سے کچھ باتیں کرنی تھی ۔میں اس سے اس علاقے کے آس پاس کی خیر خبر لے رہا تھا۔۔۔۔۔وکرم نامی یہ آدمی کافی عرصے سے اس علاقے میں گائیڈ تھا ۔۔۔وکرم کافی باتونی تھا ۔۔وہ اپنا بیگ اور سامان کھولتے ہوئے اپنے قصے کہانی سنانے میں مصروف ہو گیا ۔اس کے بیگ میں خصوصی آلات بھی تھے ۔۔۔۔ایک گن تھی جس کے سرے پر ایک نوکیلا کنڈا سا بنا تھا ۔۔۔اورساتھ ہی ایک کیبل کا رول تھا ۔۔۔خصوصی نائیلوں کی رسی اور کنڈے تھے ۔۔۔جو برف میں گاڑ کے اوپر چڑھنے کے کام آتے تھے ۔۔۔میں حیرت سے یہ سب آلات دیکھ کر اس کا استعمال پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔تبھی میں نے اس کے ٹرانسمیٹر پر سگنل سنے۔۔اس نے جلدی سے انٹینا کھینچا اور ہیلو ہیلو کرنے لگا۔۔۔۔۔نیچے بیس کیمپ سے کال تھی ۔۔۔اور وہ اس کی لوکیش پوچھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔اس کی گھبرائی ہوئی آواز نے مجھے بھی چوکنا کر دیا تھا ۔۔۔اور جب وکرم نے اپنی لوکیشن بتائی ۔۔۔تو سامنے والی کی آواز نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔اوپر کے پہاڑ پر سلائیڈنگ ہوئی تھی ۔۔۔اور کوئی تودہ نیچے کی طرف سلپ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے جلدی سے کیمپ لپیٹ کر کسی اوٹ میں ہونے کا کہا تھا ۔۔۔تبھی میں نے گڑ گڑاہٹ کی تیز آواز سنی ۔۔۔اور باہر بھا گا۔۔۔۔وکرم میرے پیچھے ہی آیا تھا ۔۔۔۔میں نے پہا ڑ کی اس چوٹی کو لرزتے ہوئے محسوس کیا ۔ایک طرف ہم سب کے کیمپ تھے ۔۔۔۔۔اور دوسری طرف الگ تھلگ انجلی کا کیمپ تھا۔۔۔۔۔باقی لوگ بھی گرگراہٹ سنتے ہوئے باہر آئے تھے ۔۔۔ میں نے پہاڑ کی چوڑی سے برف کا ایک ڈھیر گرتے ہوئے دیکھا۔۔۔تیزی سی گرتا ہوا برف کا ایک طوفان تھا ۔۔۔جو تیز گڑگڑاہٹ کی آواز کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔یہ برف کا تودہ انجلی کے کیمپ کے عین اوپر تھا۔۔۔۔۔۔اس کی شدت سے ہماری چوٹی بھی لرز رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔تبھی میں نے مینا کماری کی چیخ سنی ۔۔وہ انجلی کی طرف دیکھ کر چلائی تھی ۔۔۔۔۔میں نے مینا کماری کو دیکھا ۔۔وجے کے ساتھ کھڑی اس کا منہ پیلا پڑ چکا تھا ۔۔اور پھرتیزی سے سامنے دیکھا ۔۔۔۔۔انجلی اپنے کیمپ سے ابھی ابھی باہر آئی تھی ۔۔۔۔اور ٹھیک اس کے اوپر برف کا سمندرپھسلتا ہوا آرہا تھا ۔۔۔مینا کماری اسے تیزی سے اس طرف بھاگنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔مگر وہ پیچھے کومڑی برف کے گرتے ہوئے طوفان کو دیکھتی ہوئی ساکت ہو چکی تھی ۔۔میں بھاگتے ہوئے انجلی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔اور ساتھ ہی ایک تیز چڑچڑاہٹ کی آواز سے میں نے اپنی سائیڈ کی برف کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ۔۔۔ہمارے درمیان سے برف پھٹتی گئی تھی ۔۔۔یہ خلا پھیلتا ہوا اچھا خاصا بنتاگیا ۔۔۔پیچھے ہٹتی ہوئی زمین نے مجھے پیچھے دھکیل دیا ۔۔۔۔سب ہی نے کسی بت کی طرح یہ منظر دیکھا تھا ۔۔۔زمیں پھٹنے کی یہ آواز انجلی نے بھی سنی تھی ۔۔۔وہ تیزی سے آگے کو بھاگی تھی ۔۔مگر اب یہ خلا عبور کرنا مشکل ہو چکا تھا ۔۔۔اور برف کاطوفان اس کے سر پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
    میں بجلی کی سی تیزی سے واپس بھا گا ۔۔۔وکرم کے کیمپ میں گھس کر روپ گن اٹھا ئی ۔۔۔۔اور بھاگتا ہواواپس آیا ۔۔۔۔میکنزم زیادہ مشکل نہیں تھا ۔۔۔میں نے سامنے لگی برفانی پہاڑ کی دیوار کی طرف رخ کر بٹن دبا دیا ۔۔۔۔سرسراہٹ کی آواز کے ساتھ ہی کیبل کھنچتی ہوئی گئی تھی ۔۔اور جا کر اٹک گئی ۔۔۔۔۔۔وکرم جا کر وہ کلپ لے کر آ گیا تھا ۔۔۔۔اس نے کیبل کے گرد کلپ لگا کر میری طرف بڑھا دیا ۔۔۔۔میں نے کیبل اس کے کیمپ میں لگے کھونٹے سے جاکر باندھی ۔۔۔۔اور تیزی سے واپس آیا ۔۔۔۔۔کلپ میرے ہاتھوں میں تھا ۔۔۔میں اپنی فل اسپیڈ سے بھاگتے ہوئے آیا تھا ۔۔اور کیبل سے پھسلتا ہوا اس پار آ گر ا۔۔۔۔۔ برف کے کئی ٹکڑے میرے چہرے سے ٹکرائے ۔۔۔۔سامنے ہی بت بنی انجلی میرے سامنے تھی ۔۔۔۔اور اس کے عین پیچھےبرف کے زرات کی بارش تھی ۔۔۔۔میں نےبھاگتے ہوئے انجلی کواٹھایا تھا ۔۔۔اور اس کے کیمپ میں پھینکا۔۔۔۔ساتھ ہی کیبل کا کنڈا کھینچا۔۔۔۔برف کے زرات کیمپ کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھنے لگے تھے۔۔۔۔اور کیمپ خلا کی طرف پھسلتا ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں تیزی سے واپس بھاگا۔۔۔۔۔۔برف کا ریلا مجھے پھینکتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔۔۔یہ صرف پہلی لہر تھی ۔۔۔اس کے پیچھے خوفناک آواز کے ساتھ ایک اونچی لہر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اڑتا ہوا کیمپ کے قریب پہنچا اور کیبل کے کنڈے کوکیمپ کے اوپر لگے ہک سے اٹکا کر کیمپ کے اندر پہنچا ۔۔۔۔۔۔ایک تیز جھٹکا لگا تھا ۔۔اور کیمپ اچھلتا ہوا نیچے خلا میں گرا۔۔میں اندر گڈ مڈ ہو گیا ۔۔۔۔۔خود کو سمببھالتے ہوئے جلدی سے کیمپ کی زپ بند کردی ۔۔۔۔۔کیمپ تیزی سے نیچے گرتا جا رہا تھا ۔۔انجلی تیزی سے مجھ پر گری تھی ۔۔۔۔ہم ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے ۔ادھر ادھر گر رہے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ایک جھٹکے سے کیمپ رکا تھا ۔۔برف کے گرنے کی لرزہ خیز آوازیں اب تک گونج رہی تھیں۔۔۔۔۔برف کا ریلا ابھی بھی ہمارے اوپر گر رہا تھا۔۔۔اگلے تین منٹ تک یہ ریلا باآواز ایسے ہی گرتا رہا ۔۔۔اس کے بعد کچھ سکون ہوا ۔۔۔اور ہوش بحال ہوئے ۔۔۔۔۔میں نیچے تھا ۔۔۔اور انجلی میرے سینے سے لگی ہوئی مجھ سے لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اس کا جسم ہولے ہولے سے کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں اسے تسلی دے رہا تھا ۔۔۔اور وہ انکل انکل کئے میرے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے اسے اٹھایا ۔۔اور ہم کیمپ میں اٹھ بیٹھے ۔۔۔میں نے جائزہ لیا ۔۔۔۔ایک سلیپنگ بیگ اندر ہی تھا۔۔ساتھ ہی ایک چھوٹی پورٹیبل لائٹ تھی ۔۔جو پتا نہیں کام کرتی یا نہیں۔۔۔کھانے پینے کے ڈبے اور پانی کی ایک بوتل ۔۔۔کیمپ مضبوط پیرا شوٹ کا بنا تھا ۔۔اس لئے ابھی تک ہمارا وزن سہار ا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے زپ کھولے ہوئے باہر جھانکنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔کیمپ ہل رہا تھا ۔۔۔اور میرے سائیڈ پر ہوتے ہی اور زور سے ہلنے لگے ۔انجلی پھر سے چلانے لگی ۔۔انکل رک جائیں ۔۔۔ہم گر جائیں گے ۔۔۔۔
    میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور شانت رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا ۔۔۔میرا ارادہ کیمپ کے اوپر کیبل کے سہارے اوپر چڑھنے کا تھا ۔۔۔۔۔۔اتنے میں کیمپ کے اوپر لگی ہوئی کیبل میں ہلچل ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید وہ لوگ اسے کھینچنے کی کوشش میں تھی ۔۔۔۔میں نے انجلی کو درمیان میں آنے کو کہ کر اس کے قریب ہی آ گیا ۔۔۔کیمپ تھوڑا سا اوپر کو اٹھا تھا۔۔۔کچھ سیکنڈ کے بعد ایک جھٹکا اور لگا۔۔۔۔۔تھوڑا سا اور اٹھا ۔۔ساتھ ہی ڈگمگا گیا ۔۔۔۔۔ہم بری طرح سے ہلے تھے ۔۔۔اور تبھی شاید کیبل کا ہک نکلا تھا ۔۔کیمپ تیزی سے نیچے کوگررہا تھا ۔۔۔انجلی نے کئی خوفناک چیخیں ایک ساتھ ماری۔۔۔۔۔۔۔ہم بے وزنی کی کیفیت میں نیچے گرنے لگے تھے ۔انجلی کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی تھی ۔۔۔اس نے میری طرف لپکنے کی کوشش کی۔۔۔۔اور چند سیکنڈ کے بعد ایک زور دار آواز سے ہماراکیمپ کسی چیز سےٹکرایا تھا۔۔۔۔۔ہم اندازا دس فیٹ نیچے جا گرے تھے ۔۔۔اور اب کیمپ کسی فلیٹ جگہ پر گرا تھا ۔۔۔۔انجلی مجھے سےلپٹی ہوئی تھی ۔۔اور میں اپنی کمر کے بل نیچے گرا تھا ۔۔۔۔۔۔درد سے میری کراہ نکلی ۔۔۔۔۔۔پوری کمرمیں درد کی ایک تیز لہر دوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے سائیڈ پر کیا اور اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔۔ہاتھ ٹٹول کر جائزہ لیا کہاں تک ٹھوس ہے ۔۔۔اور پھر زپ کھول کر باہر جھانکنے لگا۔۔۔چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔۔۔۔میں نے لائٹ آن کی اور دیکھنے لگا۔۔۔۔یہ پھٹی ہوئی دیوار کا ایک چھجا سا بنا ہوا تھا۔ ۔۔۔جو چار سے پانچ فٹ لمبی اور چوڑی تھی ۔۔۔اگر ہم کچھ اور سائیڈپر ہوتے تو سیدھا ہزاروں فیٹ نیچے جا گرتے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے انجلی کوباہر آنے کا کہا ۔۔۔۔وہ ابھی تک کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے کیمپ کو ٹھیک سے سیٹ کیا ۔۔۔اور انجلی کو دوبار ہ اندر بھیج دیا۔۔۔۔اوپر سے آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ چیخ کر ہمیں پوچھ رہے تھے ۔۔۔۔میں نے بھی جوابی آواز دے کر انہیں بتایا۔۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں کیبل سے لپٹا ہوا ایک نائیلوں کا بیگ اترنے لگا ۔۔۔اس میں ایک ریڈیو ۔۔کچھ کھانے پینے کا سامان اورہیٹر تھا ۔۔۔۔۔میں نے ریڈیو آن کیا ۔۔۔۔تو وکرم کی آواز آئی ۔۔صاحب آپ خیریت سے تو ہو ۔۔۔میں نے اپنی خیریت بتائی ۔۔۔پھر اس نے کہاکہ صاحب ابھی اٹھا نا مشکل ہے ۔۔اندھیر ا بہت ہے ۔کسی طرح رات گزار لو ۔۔۔صبح تمہیں اٹھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے رات گزار لیں گے ۔۔۔اتنے میں شاید مینا کماری نے ریڈیو لےلیا تھا ۔اس کی پریشان کن آواز آئی تھی ۔۔۔۔اس نے بھی انجلی سے بات کی اور اپنی تسلی کی ۔۔۔۔اس کے بعد ہم واپس آ کر کیمپ میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔انجلی نے گرم کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔۔۔مگر کپکپاہٹ ابھی تک جاری تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پورٹیبل ہیٹر آن کیا ۔۔اور کیمپ کی زپ بند کر دی ۔۔۔آہستہ آہستہ کیمپ گرم ہوتا جا رہا تھا۔کھانے پینے کا سامان دیکھا۔۔۔۔جیم اور کریم کے ساتھ ڈبل روٹی کے سلائیس تھے ۔۔کریم ٹیوب کی شکل میں تھی ۔۔ہم نے ڈبل روٹی کے کچھ سلائس کھائے ۔۔انجلی سے کھایا نہیں جار ہاتھا ۔ ڈانٹ کر اسے دو سلائیس کھلائے ۔۔۔اور سامان سائیڈ پر رکھنے کے بعد۔۔۔۔میں نے سلیپنگ بیگ کھولتے ہوئے انجلی کو اس میں لیٹنے کا کہا۔۔۔۔۔۔یہ بیگ دو سائیڈ سے بند تھا۔۔۔اور دو سائیڈ پر زپ لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔انجلی اندر جا کر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔میں باہر ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔جب انجلی نے مجھے کہا انکل آپ اندر ہی آ جائیں ۔۔۔۔میں نے ایک مرتبہ منع کیا ، مگر وہ اصرار کرنےلگی ۔۔۔۔سردی بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔مجبورا میں اٹھا اور اندر جا گھسا ۔۔۔۔۔سلیپنگ بیگ ایک بندے کے لئے تھا ۔۔اور میرے اندر آنے سے اب تنگ پڑنے لگا ۔۔۔تھا ۔۔۔میں نے دوسر ی سائیڈ سے زپ بند کر دی ۔۔۔۔ہم دونوں ایک دوسر ے کی سائیڈ میں لیٹے ہوئے تھے ۔۔کچھ ہی دیر میں اس کا خوف دور ہوگیا ۔۔۔اور ہمارے جسموں میں سنسناہٹ دوڑنے لگی ۔۔۔۔ہیٹر کی گرمی سے زیادہ ہمارے اندر سے حرارت نکلنے لگی ۔۔۔۔۔تبھی انجلی کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔انکل آ پ کے آنے سے ماما بہت خوش ہیں ۔۔۔۔آپ کا بہت شکریہ کہ آپ ہمارے گھر آئے ۔۔۔اور ہم نے ماما کو پھر سے خوش دیکھا ۔۔۔۔میں کیا کہتا ۔۔۔۔خاموش ہی رہا ۔۔۔۔تبھی انجلی نے میری طرف کروٹ لی تھی ۔۔۔۔۔میں نےا س کی طرف چہرہ گھمایا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی ۔۔۔۔۔میری زبان بند تھی ۔۔۔جب اس کا ہاتھ اٹھا اور میرے چہرے کو اپنی طرف گھماتے ہوئے میرے ہونٹوں پر ایک بوسہ دیا ۔۔۔۔انکل یہ سب ماما کو خوش کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔اور پھر دوسر ی بار ہونٹوں پر بوسہ ۔۔۔یہ ہمیں اپنے ساتھ یہاں لانے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تیسرا بوسہ ۔۔۔میری جان بچانے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔اگلا بوسہ کافی طویل تھا۔۔۔ساتھ ہی وہ اٹھتی ہوئی میرے اوپر سی آئی تھی ۔۔۔گرم جیکٹ میں اس کا گدا ز اور ہلکا پھلکا بد ن میرے اوپر چپکا تھا ۔۔۔۔اس کے بوسوں کے جواب میں میں اب تک چپ ہی رہا تھا ۔۔۔کچھ عجیب سا لگ رہا تھا ۔۔۔وہ عمر میں کم تھی ۔۔اور شاید ان سب سے انجان بھی ۔۔۔۔پچھلی رات میں اس کی ما ما کے ساتھ ۔۔اور آج وہ خود میرے برابر میں لیٹی تھی ۔۔۔۔۔وہ تو مجھے انکل کہ رہی تھی ۔۔۔اور اب ۔۔۔میں انہیں سوچوں میں گم ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ادھر انجلی کی حرکتیں بڑھتی جار ہی تھی ۔۔۔میرے سائیڈ پر کروٹ لیتے ہوئے غیر محسوس انداز وہ میرے بدن پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔اس کی ایک ٹانگ مجھ سے لگی ہوئی تھی ۔۔اور جب غلطی سے اس کا ہاتھ میری رانوں پر لگا تو میں اچھل پڑا ۔۔۔۔۔۔
    انجلی شاید مجھےکوئی بوڑھا سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔۔جس کو جگانے اور سیڈیوس کرنے کی ضرورت تھی ۔۔۔اوروہ اپنے بچپنے میں اس انداز میں کررہی تھی ۔۔مگر میرے رکنے کی وجہ کچھ اور تھی ۔۔۔۔
    انکل آپ کب تک ہمارے ساتھ رہیں گے ۔۔۔انجلی کی سرگوشی میرے کانوں میں آئی تھی ۔
    بس باقی دو دن بچے ہیں ۔۔اس کے بعدواپس جرمنی چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔میں نے اسے بتایا ۔
    آپ کو ہماری یاد آئے گی ۔۔۔انجلی نے پھر پوچھا تھا ۔۔
    ہاں واپس جاؤں گا تو کچھ عرصے تک یاد آئی گی ۔۔۔پھر اگر تم چاہو تو جرمنی کا وزٹ کر سکتی ہو۔میں نے اس حل بتا دیا۔
    انجلی کی اب آواز سرگوشی کے ساتھ معنی خیز بھی تھی ۔۔انکل آپ کو ماما کی بھی یاد آئے گی ۔؟؟
    میں چونک پڑا ۔۔۔۔کیوں جب تم لوگوں کی یاد آئے گی تو تمہاری ماما کی بھی آ ئے گی ۔۔
    مجھے اب شک ہونے لگاتھا ۔۔میں نے اس کی طرف کروٹ بدلی ۔۔اس کی آنکھوں میں شرارت کےساتھ اور بہت کچھ تھا۔۔۔۔سینے کا زیرو بم تیزی سے حرکت کر رہا تھا ۔۔
    تو پچھلی رات تم نے مجھے ماما کے کمرے میں دیکھ لیا تھا ۔۔۔انجلی نے نظریں چرائی تھی ۔۔۔مطلب صاف تھا ۔۔۔۔
    اب میری باری تھی ۔۔۔میں نے پوچھا کہ وجےکے ساتھ یہ سب کب سے چل رہا ہے ۔۔۔۔
    انجلی ایک دم ہکلا گئی ۔۔کیا مطلب ۔۔۔۔کیا سب ۔۔۔ ایسا تو کچھ نہیں ہے ۔۔۔
    بیٹا مجھے پتا چل گیا تھا ۔تم اپنی ماما کو بے وقوف بنا سکتی ہو ۔۔مجھے نہیں ۔۔میں پہلی نظر میں تاڑ گیا تھا ۔۔۔
    انجلی کی ہوشیاری ہوا ہوچکی تھی ۔۔۔تبھی وہ ہلکے سے بولی انکل آپ ماما کو مت بتائیے گا۔۔۔۔یہ بولتے ہوئے وہ تھوڑی اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں التجا کے ساتھ آگے بڑھنے کا اشارہ بھی تھا ۔۔
    میں ابھی بھی کشمکش میں تھا ۔۔۔۔اس کا بچپنا اور نزاکت مجھے روک رہی تھی ۔۔۔۔
    تبھی اس نے خود پیش قدمی کا سوچا ۔۔۔میرا ہاتھ کو اٹھا کر اپنے اوپر رکھتی ہوئی اور آگے کو کھسکی تھی ۔۔۔۔۔انکل میں آپ کو کیسے لگتی ہوں ۔۔۔میرے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب وہ ٹی شرٹ میں میرا ہاتھ پکڑے کھینچ رہی تھی ۔۔۔اور ہلنے سے ٹی شرٹ میں اس کے چھوٹے چھوٹے سنگتر ے لرزتے ھتے۔۔۔۔۔اس نے برا پہننی نہیں شروع کی تھی ۔۔۔۔۔اور نپلز کی نوک تنگ ٹی شرٹ سے باہر جھلک رہی تھی ۔۔۔۔میں نے آنکھیں جھٹک کر اسکو پیچھے دھکیلا ۔۔اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا ۔۔
    مجھے اپنے پیچھے کھسر پھسر کی آوازیں سنائی دیں ۔۔مگر میں نے دھیان نہ دیا ۔۔۔۔۔اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
    آوازیں اب بھی آ رہی تھی ۔۔۔اور پھر ایک ہاتھ رینگتا ہوا میری ہاتھ کے نیچے سے میرے پیٹ پر آیا تھا ۔۔اور ہلکا پھلکا وجود میری کمر سے چپکا ۔۔۔میں غصے میں پلٹا تھا ۔۔۔اور پھر اپنے الفاظ بھول گیا ۔۔۔
    انجلی نے جیکٹ اور شرٹ اتار دی تھی ۔۔۔
    اس کے ہلکے سے ابھار والے ، سرخ نپلز میرے سامنےتھے ۔۔۔۔ابھی تک کچے اورچھوٹے سنگترے تھے ۔۔۔۔ممے ابھی بالکل نئے تھے ۔۔بلکہ مموں کی جگہ ایک ابھار سا تھا۔۔۔جس پر گلابی رنگ کے چھوٹے سے نپلز تھے ۔۔۔۔۔انجلی نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنے سینے پر رکھنے کی کوشش کی۔۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ایسے ماننی والی نہیں ہے ۔۔۔وجے کے ساتھ اس کا تعلق نے اسے عادی بنا دیا تھا ۔۔۔۔
    جویہاں بھی اسے مجبور کر رہا تھا ۔۔۔میرے ہاتھ اپنےسینے پر دبائے وہ پھیرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔مموں کی جگہ گوشت کو تھوڑا سا ابھار تھا ۔۔۔وہ اس حصے پر زور دیتی ہوئ میرا ہاتھ رگڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر اس کی گرمی مٹانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔
    کیمپ میں ہیٹر کی کافی گرمی ہو چکی تھی ۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ہیڑ بند کردیا ۔۔۔سلیپنگ بیگ کی زپ ایک سائیڈ سے کھولتے ہوئے جگہ بڑھا دی ۔۔۔۔۔پورٹیبل لائیٹ جل رہی تھی ۔۔۔۔جس کی روشنی میں انجلی میرے سامنےتھی ۔۔۔مجھے ہیٹر بند کرتے دیکھتی ہوئی وہ پینٹ بھی اتار چکی تھی ۔۔۔۔۔۔نیچے سرخ پینٹی اس کی ٹانگوں میں پھنسی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔بھری بھری اور صحت مند رانیں میرے سامنے تھے ۔۔اور پیچھے پتلی کمر کے ساتھ چھوٹے سے گول مٹول چوتڑ ۔۔۔۔۔۔۔وہ مجھے مستقل حیران کئے جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس عمر میں اتنی گرم لڑکی سے میرا پہلی بار واسطہ پڑا تھا ۔۔۔۔۔اپنے کپڑے اتارنے کے بعد وہ میرے کپڑے اتارنے کے درپے ہو گئی ۔۔۔۔اوپری بدن کے بعد نچلا بدن ۔۔۔۔۔۔۔اس نے خود سے زیادہ تیزی سے میرے کپڑے اتارے تھے ۔انڈروئیر اتارتے ہوئے وہ رکی اور۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے لپٹی چلی گئی ۔۔۔۔اس کے انداز نے میری وحشت کو بھی للکارا تھا ۔۔۔میں نے بھی اسے دبوچتے ہوئے خود سے لپٹا لیا۔۔۔۔ہم دونوں کے چہرے ایکدوسرے سے ٹکرا رہےتھے ۔۔۔۔۔۔ہونٹوں آپس میں رگڑتے اور آگ بھڑکاتے ۔۔۔نرم شبنمی ہونٹ ۔۔۔۔۔اور اس پر اس کی گرم گرم آہیں ۔۔۔۔۔
    میرا پورا جسم دہک اٹھا تھا ۔۔۔۔اور اس کے جسم کی حرارت بھی میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اس برف کے پہاڑ پر مجھ سے بھی زیادہ تپا ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ مجھے سے لپٹی مجھے چومے جارہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے منہ سے بے اختیار آہیں نکل رہی تھی ۔امم۔۔مم۔۔۔جن میں کبھی انکل جان کی آواز بھی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب ہی اس کی حالت تھی ۔۔۔۔۔میرے چہرے کو چومنے کے بعد وہ نیچے آئی ۔۔۔میرے سینے کو چومنے لگی ۔۔۔۔۔پورا سینہ چومتی ہوئی میرےنپلز پر اپنے ہونٹ پھیرنے لگی ۔۔۔میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر اس کے چوتڑ پر رکھا اور پوری قوت سے دبانے لگا۔۔۔۔۔۔۔اس کے منہ سے کراہ نکلی ۔۔۔اس نے آگے کو ہوتے ہوئے اپنا جسم مجھ میں دبایا۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے اچھل کر ملنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔خود پر لیٹی اس چھوٹی لڑکی کو میں نے سائیڈ پر لٹایا اور خود اوپر آیا ۔۔۔۔میرا وزن خود پر محسوس ہوتے ہی وہ سخت بے تاب ہوئی ۔۔اور اٹھتے ہوئے میرے چہرے پر لپکنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔میں نے بھی بھرپور جواب دیا ۔۔۔میرا ایک ہاتھ نیچے اس کی رانوں پر گھوم رہا تھا ۔۔اسے دبا رہا تھا ۔۔۔بھینچ رہا تھا ۔۔۔میں نے اس کی چوت پر ہاتھ لے جانے کی کوشش کی ۔۔۔انجلی نے ٹانگوں کو آپس میں بھینچا تھا ۔۔میں نے ہاتھ پینٹی میں لے جا کر اوپر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔۔دونوں لب آپس میں بالکل چپکےہوئے تھے ۔۔۔۔لب پر انگلی پھیرتے میں نے اندر لے جانے کی کوشش کی ۔۔۔۔مگر تنگ لبوں نے انگلی واپس دھکیلی تھی ۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھ میں گرم گرم سا پانی لگا تھا۔۔۔۔۔میں نے اب کی بار انگلی سیدھی کر کے اندر بھیجی تھی ۔۔۔تنگ چوت نے راستہ دے دیا ۔۔۔انگلی پھنستی ہوئی اندر گئی ۔۔۔۔اندر سے چوت مکمل گیلی تھی ۔۔۔میں نے انگلی کو اندر تک پہنچایا اور آگے پیچھے کرنے لگا۔۔۔۔۔انجلی کی سسکاری نکلنے لگی تھی ۔منہ کھولے گہر ے سانس لینے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی ٹانگوں کو حرکت دینے لگی ۔۔۔میں لیٹا ہوانیچے کو ہوتا گیا ۔اور پینٹی کو اتارنے لگا۔۔۔انجلی نے دونوں ٹانگیں اٹھاکر میری مدد کی ۔۔۔۔۔جلد ہی چھوٹی سیپ کی مانند چوت میرے سامنے آ گئی ۔۔بالوں سے پاک اور بالکل ننھی سی ۔۔۔اس کے لئے تو میری انگلی ہی کافی تھی ۔۔۔جو ابھی ابھی پھنستی ہوئی باہر آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر انجلی کے چہرے پر دیکھا ۔۔۔۔وہ بھی مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں نے کھانے کے سامان میں ہاتھ ڈالا اور کریم نکالی ۔۔۔ٹیوب کو اس کے اوپر لاتے ہوئے میں نے زور دیا تھا ۔۔نرم و ملائم کریم جھٹکے سے نکلی اور اس کے سینے پر گرتی چلی گئی ۔۔۔۔۔میں اوپر کو ہوتے ہوئے اسے صاف کرنے لگا۔۔۔۔اس کے ممے کے ابھار تھوڑے ہی بڑے تھے ۔۔تھوڑی دیر میں صاف ہو چکا تھا ۔۔میں نے اب کریم اس کی چوت پر انڈیلی تھی ۔۔۔۔پتلی سی چوت کے اوپر کریم کی ایک چھوٹی سی چوٹی بن گئی ۔۔۔۔میں نےہاتھ سے اس پوری چوت پر ملتے ہوئے مساج کرنے لگا۔۔۔کچھ کریم اندر بھی گئی ۔۔۔۔باقی میں نے اوپر سے چاٹ کر صاف کر دی ۔۔۔۔۔۔۔انجلی منہ کھولے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا ہاتھ نیچے لے جاکر اپنا انڈر وئیر اتار دیا ۔۔بند ہتھیار قید سے آزاد ہوتے ہی سختی پکڑنے لگا۔۔۔۔میں نے کریم وہا ں بھی لگا دی ۔۔۔۔ٹوپا اور زیادہ پھولنے لگا۔۔۔میں نے کچھ دیر اور انجلی کی چوت اوپر سے صاف کی تھی ۔۔۔اتنی دیر میں ہتھیار تن کر اپنی لمبائی میں آ چکا تھا ۔۔۔انجلی کی برداشت کا ٹائم شروع تھا ۔۔۔ابھی تک اس نے ہتھیار دیکھا نہیں تھا ۔۔۔۔مگر شاید اندازہ ہو گیا ہو۔۔۔
    میں اس کی دونوں ٹانگوں کو پھیلاتے ہوئے درمیان میں آیا ۔۔۔دونوں ٹانگیں میری رانوں کے اوپر سے ہوتی ہوئی پیچھے جار ہی تھیں۔۔۔۔۔اور ہتھیارکا ٹوپا چوت کے اوپر لہرا رہا تھا ۔۔۔میں نے انجلی کی ٹانگوں کو تھوڑا اور کھولتے ہوئے پیچھے کیا۔۔۔۔۔ٹوپا کریم سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔میں نےٹوپے کو چوت کے لبوں پر رگڑا ۔۔۔۔اوپر اس کے چہرے کو دیکھا۔۔وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے لب پر رکھ کر زور دیا ۔۔۔۔چوت نے راستہ دینے سے انکارکر دیا۔۔۔۔۔ٹوپا اوپر کو سلپ ہوا تھا ۔۔۔۔دوبارہ زور دیا تھا ۔۔اب کی بار میں نے واقعی زور لگایا تھا ۔۔ٹوپااندر جا گھسا تھا۔۔۔۔انجلی کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔وہ اوپر کو اچھلنے لگی ۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے ٹانگوں سے پکڑ کر اسے روکا ۔۔۔ٹوپا اندر بری طرح سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔میں نے تھوڑا سا آگے کوہوتا ہوا ٹوپا دھکیلا ۔۔۔۔انجلی کہنی رکھے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔اس کے منہ سے دبی ہوئی چیخیں اور ماما کی پکاریں تھی ۔۔مگر فی الحال اس کی ماما یہاں نہیں تھی۔۔۔۔۔اس کی نظروں نے ہتھیار دیکھ لیا تھا۔۔۔۔.انجلی کے آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں آہستہ آہستہ اس کی چوت کے دانے کو مسلنے لگا۔۔۔ ۔وہ ابھی بھی روئے جارہی تھی ۔۔۔۔انکل بس کردیں ۔۔۔انکل بس کردیں ۔۔۔میں نے اٹھ کر اسے چومنا چاہا ۔۔۔۔مگر انجلی نے راستے میں ہی روک دیا۔۔۔ہتھیار کے ہلنے سے اس کا درد بڑھ رہا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی چوت مسلتا رہا۔۔۔۔۔اور اس کے لیمو ں جیسے ممے کو پکڑ کر کھینچنے لگا۔۔۔۔۔۔وہ بھی دم سادھے سانس روکے لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔
    اس نے جس جن کو جگایا تھا ۔۔اسے برداشت بھی خود ہی کرنا تھا ۔۔۔۔مجھے پانچ منٹ سے اوپر ہو چکے تھے ۔۔۔ٹوپا ابھی تک اندر ہی جکڑا ہوا تھا ۔۔۔میں نے آہستگی سے حرکت کی تھی ۔۔۔۔۔۔انجلی کے منہ سے ا وئی ۔۔۔آئی ۔۔۔۔آہ۔۔کی آواز نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے چوت کے دانے کو مسلتے ہوئے ہتھیار کو آگےدھکیلا تھا ۔۔۔ہتھیار تھوڑا اور اندر گیا تھا ۔۔۔انجلی کہنی لٹا کر دوبارہ لیٹ گئی ۔۔۔وہ سلیپنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے درد برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔میں نے تھوڑا سا اور آگے کو بڑھایا تھا ۔۔۔۔وہ پھر سے چلائی ۔۔۔۔اوئی ۔۔آئی۔۔۔آہ۔۔۔سس ۔۔۔انکل پلیز سلو ۔۔۔۔میں روک کرویسے ہی بیٹھا رہا۔۔۔اور کریم لے کر چوت پر پھیرنے لگا۔۔۔۔اگلے تین منٹ تک ایسے ہی بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔پھر ہتھیار کو پیچھے کرتے ہوئے ہلانے لگا۔۔۔۔صرف ٹوپے کے ساتھ دو انچ ہی اندر تھا ۔۔۔مگر اس کے ہلنے سے انجلی کا پورا بد ن ہل رہا تھا ۔۔میں نے دونوں ہاتھ اس کی ٹانگوں پر ہی جمائے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس کی سسکیاں جاری تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہلتا رہا ۔۔۔ اور پھر ہتھیار باہر نکال کر کریم لگانے لگا۔۔۔۔۔انجلی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔اور حیرت سے اس ہتھیار کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔اس کا اگلا سوال ایسا تھا کہ میں اچھل پڑا ۔۔۔۔انکل ماما نے یہ پورا لیا تھا ۔۔۔۔۔ ؟ ۔ وہ لڑکی اپنا مقابلہ اپنی ماما سے کر رہی تھی ۔۔میں نے اس کو سوچ کو سلام کیا ۔۔۔۔اور ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔اس کا مطلب ہے یہ میں بھی لے سکتی ہوں ۔۔۔میں نے پھر ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔وہ شاید دل ہی دل میں خود کو تیار کرنے لگی ۔۔۔۔۔اور پھر آگے کو آتی ہوئی ہتھیار کو چھوا ۔۔۔۔۔مجھے ایسے لگا جیسے کسی چھوٹے بچے کا ہاتھ ہو ۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ سے ہتھیار کو پکڑے دیکھنے لگی ۔۔۔موٹائی میں آدھے سے زیادہ ہتھیار ابھی بھی اس کی مٹھی سے باہر تھا ۔۔۔۔۔ماما یہ کیسے لے سکتی ہیں ۔۔۔وہ بڑبڑائی تھی ۔۔۔۔
    میں نے اسے لٹایا ۔۔اور چہرے کوچومتے ہوئے نیچے آنے لگا۔۔۔کریم اس کی چوت پر پھر لگائی تھی ۔پہلےوالی پوزیشن میں آیا ۔۔۔۔اورٹوپے کو اوپر رکھ کر دھکیلا۔۔۔۔۔اس کی ٹانگیں ہلکی سی کانپی تھی ۔۔مگر وہ سمبھل گئی ۔۔۔میں دھکے بڑھاتے ہوئے پہلے مقام تک آیا ۔۔۔اس کے منہ سے دبی دبی کراہیں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔مگر چلانے کا سلسلہ بند ہو گیا ۔۔۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا آگے کو دھکیلا ۔۔۔۔ابھی آدھے سے کچھ کم ہی تھا۔۔۔کہ اس کی چیخ پھر نکلی ۔۔۔۔آئی۔۔۔اوئی۔۔۔سس ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔میں پھر سے رک گیاتھا ۔۔اور وہیں ہلکے سے ہلانے لگا۔۔۔اس کا منہ کھل کر عجیب سا بن چکا تھا ۔۔۔۔میں اب رکا نہیں تھا ۔۔بلکہ مستقل ہلکے سے وائیبریٹ کرتا رہا ۔۔۔جس کے ساتھ ا نجلی کا بدن بھی لرزش میں تھا۔۔۔۔میں دھکے دیتا ہوا تھوڑا آگے بھی ہو جاتا تو وہ ایک دم اوپر کو جھٹکا کھا جاتی ۔۔۔۔۔۔میرے مستقل ہلکے ہلکے سے دھکے جاری تھی ۔۔۔جب اس کی آواز آئی ۔۔۔انکل آئی ایم کمنگ۔آہ۔۔۔سس ۔۔۔۔میں نے جھٹکے تھوڑے اور لہرائے تھے ۔۔۔اس کی اونچی آواز گونجی۔۔۔اور پھر اس کا پورا جسم جھٹکے کھانے لگا۔۔۔وہ جھٹکے کھاتی ہوئی پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں آہستہ سے دھکے دیتا گیا ۔۔۔پانی اندر ہی گھومتا رہا۔۔۔۔میں نے ہلنا بند نہیں کیا تھا ۔۔۔وہ پانی چھوڑ کرسانس بحال کرنے میں لگی رہی ۔۔۔۔میں ہلکے سے ہلتا رہا ۔۔۔انجلی کی آنکھیں کھل چکی تھی ۔۔۔اور پھر سے خمار میں آتی جارہی تھی ۔۔۔۔ٹانگوں کو کھولتے ہوئےاس نے نیچے دیکھا ۔۔۔۔۔بلا ابھی تک باہر ہی تھی ۔۔۔۔۔میں نےتھوڑا زور دیتے ہوئے ٹوپے کو اور آگے دھکیلا ۔۔۔ انجلی اب قدرے ایڈجسٹ ہو چکی تھی ۔۔میں نے بھی جلد بازی نہیں کی تھی ۔۔۔ہلتے ہوئے اس نے مجھے دیکھا اور اوپر آنے کا اشارہ کیا ۔۔میں ہاتھ اس کے دائیں بائیں رکھتا ہوا اوپر آیا تھا ۔۔۔زور میرے بازو پر تھا ۔۔اس لئے نیچے کوئی زور نہیں پڑ ا تھا ۔۔۔انجلی کا گرم گرم بوسہ مجھ سے ٹکرایا تھا ۔۔۔۔جس میں میرے لئے تعریف بھی تھی ۔۔تحسین بھی ۔۔۔اور شکریہ بھی ۔۔۔۔
    میری کمر ویسے ہی ہلکی ہلکی وائیبریٹ ہو رہی تھی ۔۔۔جب انجلی نے میری کمر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔اور مجھے تھوڑا سا کھینچا تھا ۔۔۔۔میں نے کمر کو ہلا کر ہتھیار کو آگے دھکیلا تھا ۔۔۔انجلی کی درد بھری سسکاری نکلی تھی ۔۔۔اس نے نیچے ہاتھ بڑھا کر چوت پر رکھا اور مسلنے لگی ۔۔۔میرا وزن اب بھی میرے بازؤوں پر تھا ۔۔۔۔ انجلی نے کمر پر زور دیا ہوا تھا ۔۔جس کا مطلب رکنے کا تھا ۔۔میں کچھ دیر رکنے کے بعد ہلکا ہلکا ہلنے لگا۔۔۔۔انجلی کی کراہیں جاری تھی ۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔اوہ ۔۔۔سس ۔۔۔ کچھ منٹ ہلنے کے بعد انجلی کا دباؤ کمرپر سے کم ہوا ۔۔۔اور میں نے اور تھوڑا سا آگے بڑھا دیا ۔۔۔وہ پھر سے منہ کھول کر چیخی ۔۔۔آئی ۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔میں رک کر پھر آہستہ سے ہلنے لگا ۔۔۔اگلے دس منٹ میں ایسے ہی آدھا ہتھیار اندر پہنچانے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔۔۔۔انجلی کی نظریں مجھ سے کہ رہی تھی کہ انکل بس آج کے لئے اتنا کافی ہے ۔۔۔۔میں نے بھی آنکھوں میں ہی جواب دے دیا ۔۔۔۔اور کچھ دیر تیز ہلانے کے بعد ہتھیار باہر نکال دیا ۔۔۔۔۔انجلی کوا ٹھاتے ہوئے گھوڑی بننے کا کہا ۔۔۔وہ جلدی سے الٹی ہو گئی ۔۔ میں نے اس کے چوتڑ دیکھے ۔۔۔پتلی کمر کے نیچے گول سے چوتڑ تھے ۔۔۔میں نےٹوپے کو پھر گیلا کرتے ہوئے اس کے پیچھے آیا ۔۔۔چوت پر ٹوپے کو رکھا کہ وہ ایکدم سے بیٹھی گئی ۔۔۔۔مین اسے اٹھا کر پھر ٹوپا رکھا تووہ پھر سے بیٹھ گئی ۔۔۔اب میں نے اٹھانے کے بجائے وہیں لٹا دیا ۔۔۔اور چوتڑ کے اوپر دائیں بائیں گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔چوتڑ کھولتے ہوئے ٹوپے کو چوت پر رکھاتھا۔۔۔اور آہستگی سے اندر اتار دیا ۔۔۔۔۔اب کی باراینگل دوسر اتھا ۔۔۔اور ہتھیار اتنی آرام سے جانے کے بجائے تھوڑا تنگ کر رہا تھا ۔۔۔انجلی کے منہ سے کراہ نکلی تھی ۔۔۔میں آگے کو ہوتا ہوا اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔۔۔ہتھیار کچھ اور اندر گھسا تھا ۔۔۔وہ پھر سے چیخی تھی ۔۔میں نے گردن پر بوسہ دیتے ہوئے اسے سہلایا تھا۔۔۔۔اس کے کانوں کی لو کو چوستا ہوا ۔۔۔۔کندھے اور گردن کو چومتا ہوا ۔۔اس کی گردن کے پچھلے حصے کو چومتا رہا ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی رہا ۔۔۔اور پھر آہستہ سے ہلنا شروع کر دیا ۔۔۔میری اسپیڈ کچھ درمیانی ہوئی تھی ۔۔۔۔انجلی کی کراہیں بھی بلند ہونے لگیں۔۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔آہ۔۔۔سس ۔۔۔۔میں درمیانی اسپیڈ سے لگا رہا ۔۔۔۔اس کی سسکیاں بھی بلند ہوتی رہیں ۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی وہ پیچھے کو اٹھتی ۔۔۔۔میرا چہر ہ بھی اس پر جھکا ہوا تھا۔۔۔اس کے ہونٹ بھی پیاسے تھے ۔۔مگر میں صرف گال پر ہی بوسہ دے سکا ۔۔۔۔آگے ملنا مشکل تھا ۔۔۔وہ بھی پھر سر نیچے کر کے جھک گئی ۔۔۔میں نے ہلتے ہوئے جھٹکے اور تیز کرنے لگا۔۔۔انجلی نے اپنے دونوں ہاتھ بیگ پر رکھتی ہوئی اس پر اپنا منہ دبا کر لیٹ گئی ۔۔۔۔اس کی دبی دبی سسکیاں ابھی بھی نکل رہی تھی ۔۔۔میں نے جھٹکے تیز کئے تھے ۔۔۔اس اسپیڈ میں تو میں پوری رات فارغ نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایسے لگا رہا ۔۔۔پھر انجلی کو سیدھا کرتے ہوئے اس کی ٹانگیں اٹھادیں ۔۔ٹانگیں اٹھا کراس کے سینے سے لگائی تھی ۔۔۔۔چوت کے سوراخ پہلے سے لال ہو کر پھولا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے آگے بڑھ کر اس کے قریب آیا ۔۔۔اور ٹوپے کو اوپر رکھے کر دبانے لگا۔۔۔۔اب کی بار پھسلتا ہوا اندر گیا تھا ۔۔۔میں نے آدھے تک اس کو آرام سے پہنچایا اور پھر کھینچ کر دھکے دینے لگا۔۔۔۔۔یہ دھکے ہر منٹ کے بعد تیز ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔اور اسی اسپیڈ سے انجلی کا والیم بھی تیز ہوتا جار ہا تھا ۔۔۔اب کی بار مزےاور درد دونوں کی شدت برابر تھی ۔۔۔۔میں اپنی ٹانگوں کے زور پر ہتھیار ٹوپے تک باہر کھینچتا اور پھر اندر آدھے تک گھسا دیتا ۔۔۔۔انجلی منہ کھولے ہوئے آوازیں نکالنے میں مصروف تھی ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔آئی۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔میرے دھکے بڑھتے ہوئے جھٹکوں میں تبدیل ہوئے ۔۔۔۔انجلی کا جسم کانپ رہا تھا ۔۔۔۔نیچے کوئی آرام دہ بستر تو تھا نہیں ۔۔۔سخت پہاڑ کا فرش تھا ۔۔۔۔مگر وہ پھر حوصلے سے برداشت کرتی رہی ۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے تھے ۔۔۔ ۔۔طوفانی اسپیڈ انجلی فی الحال وہ برداشت کرنے کی حالت میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔میں بھی اسی اسپیڈ پر رہا ۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے پانی چھوڑنے والی ہو گئی تھی ۔۔۔اور اب شہوت بھری آواز میں مجھے بھی دعوت دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ میں نے جما کر جھٹکے مارے اور فوارے کو باہر کا راستہ دکھا دیا ۔۔۔۔۔انجلی بھی اس انتظار میں تھی ۔۔۔اس نے بھی پانی چھوڑ یا۔۔۔۔۔۔۔میں سانس بحال کرنے اس کے برابر میں لیٹا تھا ۔۔۔۔تبھی انجلی پھر میرے پاس آئی تھی ۔۔۔میرے سائیڈ پر لیٹتی ہوئی مجھے پر جھک سی گئی ۔۔۔۔میرے گال پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔۔اور پھر پوچھا ۔انکل ماما نے واقعی یہ پورا لیا تھا ۔۔۔۔
    میں نے اسےدیکھا اور خود سے لپٹا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    مینا کماری انجلی سے بات کرنے کے بعد اپنے کیمپ کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔۔۔پورا گروپ خوف کی حالت میں تھا ۔۔مگر اب نیچے سب خیر کی رپورٹ کے بعد سب واپس اپنے کیمپ میں جا چکے تھے ۔۔۔۔۔وجے اندر ہی تھا ۔۔۔اور ان سب سے بہت پریشان ہو چکاتھا ۔۔۔اس کے چہرہ بھی خوف سے زرد ہوا تھا۔۔۔۔۔کیمپ کی زپ بند کرتے ہوئے وہ وجے کی طرف بڑھی اور اسے خود سے لپٹا لیا۔۔۔۔۔دبلا پتلا وجے اپنی ماما کے سینے میں دبتا چلا گیا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد مینا نے اسے چھوڑا ۔۔۔اور پھر سلیپنگ بیگ کھولتی ہوئی اسے اندر لٹا دیا ۔۔۔۔۔وجے کا سلیپنگ بیگ بھی انجلی کے کیمپ میں رہ گیا تھا ۔۔۔۔اورسردی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔مینا کماری نے اپنا ہیٹر نیچے بھجوا دیا تھا ۔۔۔۔۔سردی بڑھنے لگی تو وہ بھی وجے کے ساتھ ہی اندر بیگ میں آگئی ۔۔۔وجے کی سردی دور ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اس نے اپنی ماما سے پوچھا ۔۔۔ماما کل صبح تک انجلی آ جائے گی اوپر ۔۔۔
    جی بیٹا ۔۔تمہارے انکل بہت ہمت والے ہیں ۔۔آج بھی انہوں نے انجلی کی جان بچائی ۔۔۔مجھے پوری امید ہے کل وہ ضرور اسے اوپر لانے میں کامیاب ہوں گے ۔۔۔وجے نے بھی سر ہلا دیا تھا ۔۔۔۔۔اسے پچھلی رات کا منظر یاد آ گیا تھا ۔۔۔جب انکل اور ان کی ماما ایک بیڈ پر تھے ۔۔۔اور انکل اس کی ماما کے اوپر چڑھے ہوئے تھے ۔۔انجلی اور وجے دونوں نےیہ منظر ایک ساتھ دیکھا تھا۔۔۔۔۔اس کے جسم میں سنسناہٹ بڑھنے لگی
    ۔۔۔وجے اور انجلی ایک ہی کالج میں تھے ۔۔ساتھ سوتےاور ساتھ رہتے تھے ۔۔۔۔دونوں بہن بھائی اس جدید دور میں جلد ہی باہر کی ہوا کی کھا چکے تھے ۔۔ساتھ ساتھ سوتے ہوئے وہ کب آپس کے لمس سے آشنا ہوئے تھے انہیں پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔ہنستے کھیلتے پہلے خود کو نہاتے ہوئے دیکھتے ۔۔۔اور پھر آپس میں سوتے سوتے کب بارود میں چنگاری لگی انہیں پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔۔پہل انجلی نے ہی کی تھی۔۔اس میں بے پناہ گرمی تھی ۔۔۔ ۔۔اور پھر وجے بھی اس کے رنگ میں رنگتا گیا ۔۔ان کی اکثر راتیں آپس میں لپٹے گزرتی تھی ۔۔۔۔۔۔پچھلی رات کا منظرپھر اس کی آنکھوںمیں گھوم گیا۔۔۔اس کی ماما اپنی دونوں ٹانگیں ہوا میں اٹھائے ہوئے لیٹی تھی ۔۔۔اور انکل ان کے بھاری بھرکم ممے پکڑے ہوئے جھکے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔اپنی ماما کی چیخیں ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔۔ایسی درد بھری چیخ اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔۔۔۔۔۔اور یہ سب سوچ کر اس کے لن میں حرکت شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔اس کی ماما کے بڑے بڑے سے ممے ابھی بھی اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔سانس کی حرکت کے ساتھ وہ بھی اور اوپر کو اٹھتے ۔۔۔۔ماما انکل کے آنے سے آپ اتنی خوش ہوگئیں ۔۔۔۔ایسا کیا ہوا ہے جو آپ اتنی خوش ہیں ۔۔۔وجے نے سوال پوچھا تھا ۔۔۔۔
    مینا کماری پہلے تو سوچنے لگی ۔۔۔وجے بچہ تھا ۔۔اسے کیسے سمجھاتی ۔۔۔پھر کہا کہ تمہار ے پاپا کے جانے کے بعد بہت اداس ہو گئی تھی ۔۔۔اور انکل جان بہت ہنس مکھ ہیں ۔۔ان کے آنے سے میں بہل گئی ہوں ۔۔۔۔
    وجے بچہ تو تھا نہیں ۔۔۔اگلا سوال کہ ماما ان کے جانے کے بعد پھر اداس ہو جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔مینا کماری سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔اور تبھی وجے اس سے لپٹا تھا ۔۔۔ماما ہم آپ کو اداس نہیں رہنے دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔جگہ کم تھی ۔۔۔وجے نے کروٹ لی تھی ۔۔۔اور پھر مینا کماری نے بھی کروٹ لے لی ۔۔۔۔تبھی اسے عجیب سے احساس ہوا تھا ۔۔۔کچھ سخت سا ابھار اسے نیچے کی طرف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔پہلے تو اس نے وہم سمجھا ۔۔۔مگر پھر وجے کا اسے بار بار دباؤ دینا ۔۔۔۔۔۔اس نے جلدی سےوجے کو دھکیلا ۔۔۔۔بیٹا اس طرف منہ کر کے سو جاؤ ۔۔مجھے بھی نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی مینا کماری نے بھی کروٹ لے لی ۔۔۔جگہ اتنی تو تھی نہیں ۔۔۔دونوں کی پشت ابھی بھی ملی ہوئی تھی ۔۔۔وجے کا ذہن کسی اور طرف جا رہا تھا ۔انکل کے جانے کے بعد ماما نے اداس ہو جانا تھا ۔۔اور وہ اسی اداسی کو دور کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے تھوڑی دیر بعد کروٹ لی اور پھر اپنی ماما کے پیچھے سے لپٹ گیا ۔۔ماما مجھے سردی لگ رہی ہے ۔۔۔مینا کماری بے بسی سے دوسری طرف منہ کر کے لیٹی رہی۔۔۔۔کچھ دیر بعد وجے کا ایک ہاتھ اٹھا ۔۔۔اور مینا کماری کی کمر پر آکر رکا تھا ۔۔۔۔بجلی کی ایک لہر مینا کے جسم میں ابھری ۔۔۔وہ غصے میں تیزی سے پلٹی تھی ۔۔۔۔اور وجے کو دھکا دینے لگی ۔۔۔۔دبلا پتلا وجے پیچھے کو لہرا یا تھا ۔۔۔اور پھر واپس اپنی ماما سے لپٹ گیا ۔۔۔ماما میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔آپ کو پیار کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔جیسے رات کو انکل آپ کو کر رہے تھے ۔۔۔۔میں نہیں چاہتاکہ آپ ان کے جانے کے بعد پھر اداس ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔مینا کماری ایک دم سن ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔وجے کے ہاتھ اس کے سینے پر بھاری بھرکم دودھ پر تھے ۔۔۔۔مگر مینا کماری کا ذہن کہیں اور تھا ۔۔۔۔وجے کی آواز اب تک اس کے کان میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔رات کو اس کے بیٹے نے اسے دیکھ لیا تھا ۔۔۔اس نے پھر دھکیلنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں تمہار ی ماں ہوں ۔۔۔تمہارے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔۔مگر وجے کسی جونک کی طرح لپٹا ہوا تھا ۔۔۔۔اس نے دودھ کو اور زور سے دبانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ماما کسی کو پتا نہیں چلے گا۔۔۔۔مینا کماری کی مزاحمت کی جاری تھی ۔۔۔۔مگر وجے رکنے میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔آخر میناکماری کے ذہن میں شادی کے ابتدائی دنوں کی بات یاد آ گئی۔۔۔۔اور اس نے مزاحمت کم کرنی شروع کر دی ۔۔۔وجے اور شیر ہوتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔وہ بڑے زور دار انداز میں دودھ کو دبائے جارہا تھا ۔۔جیسے کسی بچے کے ہاتھ میں پہلی بار کوئی کھلونا آ جائے ۔۔۔۔ساتھ ہی اس نے جیکٹ کی زپ کھول دی ۔۔۔سامنے ہی ایک کھلی سی ٹی شرٹ میں بے تحاشہ بڑے ممے اس کے سامنے تھے ۔۔۔ا س نے ٹی شرٹ کے اوپر سے ہی اسے چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔مینا کماری نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے ۔۔۔وجے اب اس پر لیٹا ہوا دودھ چوسنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔اس نے ٹی شرٹ آگے سے گیلی کر دی تھی ۔۔۔اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔۔۔ماما ٹی شرٹ اتاریں ۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے حیرت سے دیکھا ۔۔۔اور وجے کی آنکھیں سرخ ہو چلی تھی ۔۔۔اور منہ سے تھوک بہہ رہا تھا ۔۔وہ اس کا کوئی اور ہی انداز تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر وجے نے ہی اپنی ماما کی شرٹ کو اوپر کو کھینچا ۔۔اور ہاتھ اٹھوا کر شرٹ اتار دی ۔۔۔۔۔۔سرخ کلر کی برا کو اس نے ایسے ہی اوپر کھینچ دیا ۔۔۔۔۔۔سانولے کلر کے بڑے بڑے سے دودھ تیزی سے نیچے کو آئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور نپلز تو اچھے خاصے لمبے تھے ۔۔۔۔وجے تیزی سے ان پر لپکا تھا ۔۔۔اور تیزی سے چوسنے لگا۔۔۔۔۔وہ بہت ہی جنونی انداز میں دودھ چوسے جا رہا تھا ۔۔۔مینا کماری بھی اس کی بے صبری پر حیران تھی ۔۔۔اور پھراس نے نپلز کاٹنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کی سسکیاں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔مگر وجے پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔۔وہ اپنے دانت لمبے نپلز پر ایسے گاڑ رہا تھا کہ مینا کی کراہ نکل گئی۔۔۔۔۔بیٹا آرام سے ۔۔۔۔۔درد ہو رہی ہے ۔۔۔۔کچھ دیر بعد وجے اٹھا اور اپنی جیکٹ کھولتے ہوئے سلیپنگ بیگ سے باہر اچھال دی۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی شرٹ اور پینٹ بھی اتار دی ۔۔۔۔اس کے انداز بہت بے صبرا تھا ۔۔۔۔۔انڈروئیر تک اتار کر باہر پھینک دیا ۔۔سلیپنگ بیگ بند تھا ۔۔۔اور مینا کماری نیچے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔مگر پھر بھی جب وجے اس پر لیٹا تو گرم گوشت کا ٹکڑا اس کے پیٹ پر ٹکرا یا تھا۔۔۔وجے اب اپنی ماما کے چہرے پر آیا تھا ۔۔۔اور بے تحاشا چومے جار ہا تھا۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے منہ سے بہنے والا تھوک مینا کماری کے چہرے پر بھی گرتا جار ہا تھا ۔۔۔۔۔وجے پورا چہر ہ گیلا کرنے کے بعد زپ کو ایک سائیڈ سی تھوڑا سا کھول دیا ۔۔۔یہ ایک بوری کیطرح بیگ تھا۔۔۔جو صرف اوپر سے کھلا ہوا تھا ۔۔اور اب سائیڈ سے تھوڑی سی زپ اورکھلی گئی تھی ۔۔۔۔وجے نے تھوڑا سا باہر کو نکل کر اپنے پاؤں باہر نکا لے ۔۔۔اور دوبارہ بیگ میں گھس گیا ۔۔۔۔اب کی بار اس نے پاوں باہر رکھ کر سر پہلے اندر کیا تھا۔۔۔۔اور اسی طرح اندر گھستا چلا گیا ۔۔۔۔مینا کماری نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی ۔۔بیٹا باہر آؤ سانس رک جائے گی ۔۔۔۔مگر وجے اپنے ہوش میں کہاں تھا۔۔۔۔اس نے تیزی سے اپنی ماما کی جینز کے بٹن کھولے اور نیچے کو اتارنے لگا ۔۔۔۔ٹانگوں تک پینٹ گھسیٹ کر اس نے پینٹی بھی کھینچی اور پنڈلیوں تک پہنچا دی ۔۔۔اب وہ تھوڑا سا اوپر اٹھا اور سیدھ اپنی ماما کی چوت پر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔۔۔مینا کماری کی ایک تیز سسکاری نکلی تھی ۔۔۔یہ مزا اس کے لئے نیا تھا۔۔۔۔وجے کی زبان ، تھوک اور ہونٹ اسے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کاسانولا سا لن اس کے چہرے کے اوپر آیا ہوا تھا۔۔۔۔اس نے منہ کھول کر اسے اندر لینے کی کوشش کی ۔۔اور کامیاب بھی ہو گئی۔۔۔۔۔ادھر وجے نے اس کی چوت کو چوس کراپنی زبان اندر داخل کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔مینا کماری نے بھی تیزی سے اس کے لن کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔جو تیزی سے بڑا ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔اور جلد ہی اپنی موٹائی میں آکر منہ میں پھنسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وجے کی برداشت کم تھی ۔۔۔وہ اب ایسے ہی سلیپنگ بیگ سے باہر آیا ۔۔۔اور زپ ایک سائیڈ سی پوری کھول دی ۔۔اور واپس اندر چلا گیا۔۔۔۔۔
    اس نے اپنی ماما کی صحت مند رانیں تھامیں اور اٹھا دی۔۔۔نیچے سے اس کا لن تیار تھا ۔۔۔جو غڑاپ سے اندر گھسا تھا ۔۔۔۔۔۔کل کی دھواں دار چدائی کے بعدمینا کماری کی چوت سوجی ہوئی تھی ۔۔اور پچھلا درد ابھی بھی باقی تھا۔۔۔مگر وجے ان سے بے خبر دھکے دینے میں مصروف تھا۔۔۔لن پھنسا ہوا اندر جارہا تھا ۔۔مگر کماری کو بے تحاشہ درد ہو رہا تھا ۔۔اس کی سسکیاں بے اختیار بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اس نے ہاتھ منہ پر رکھ کر روکنے کی کوشش کی ۔۔۔
    نیچے سے وجے کے دھکے بھی طاقت ور ہوتے گئے ۔۔۔۔وہ اپنی پتلی ٹانگوں پربیٹھا ہو ا پوری طاقت سے گھسے ماررہا تھا ۔۔۔اس کے بس میں نہیں تھا کہ وہ پورا ندر گھس جاتا ۔۔۔۔اس کے طاقت ور دھکوں نے مینا کماری کی سسکاریاں نکال دی ۔۔۔وہ منہ کھولے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔جو خود بھی منہ کھولے دھکے ماری جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔مینا کماری کے ممے بھی اوپر کو اچھل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ سے ممے تھامے اور اپنے نپلز مسلنے لگی ۔۔۔وجے دھکے مارتے ہوئے آگے کو آیا اور اپنا چہرہ ماما کی طرف لانے لگا۔۔۔اور تقریبا لیٹتے ہوئے وہ مینا کماری کے چہرے تک پہنچا اور ہونٹوں کو چومنے لگا ۔۔۔مینا نے بھی کھل کر ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔۔وجے کے منہ سے تھوک گر رہا تھا ۔۔۔جو اس کی ما ما کے منہ میں شامل ہو رہا تھا۔۔۔وجے آگے کو جھکا ہوا دھکے ماری جا رہا تھا۔۔۔اور پھر اپنی ماما کو کروٹ پر لٹاتے ہوئے ٹانگیں موڑ دی۔۔۔اور سائیڈ سے لن دوبارہ اندر گھسا دیا ۔۔۔۔مینا کماری دوبارہ سے سسکنے لگی ۔۔۔اسے چوت کے اندر جلن سی مچ رہی تھی ۔۔۔مگر وجے کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھا ۔۔۔اس کے جھٹکے تیز ہونے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کو بھی لگا کہ وہ چھوٹنے والی ہے ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر وجے کابازو تھام لیا۔۔۔وجے نے دھکے تیز کیے اور چیختے ہوئے فارغ ہونے لگا۔۔۔
    فارغ ہونے کے بعد وہ اپنی ماما کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔۔اور ان کے ممے تھام کو ہلانے لگا۔۔۔جو حیرانگی سے وجے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔جسے وہ بچہ سمجھ رہی تھی ۔۔وہ انہیں کو چود چکا تھا۔۔۔وجے ایک بار پھر ماما سے لپٹ گیا ۔۔۔۔۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    اور تبھی کیمپ کی زپ کھلی تھی ۔۔۔۔۔اور وکرم اندر گھسا تھا ۔۔۔۔وہ شاید کافی دیر سے باہر تھا ۔۔۔۔اور ساری آوازیں سن چکا تھا ۔۔۔۔اس نے نجانے کسے طریقے سے باہر سے زپ کھولی تھی ۔۔۔اور اندر آ کر زپ بند کی اور ہیٹر رکھتے ہوئے ان کی طرف مڑا ۔۔۔جہاں ماں بیٹے سلیپنگ بیگ میں لپٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔وکرم کے چہرے پر شیطانیت مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔۔اس نے آتے ہی کہا کہ اچھا یہاں یہ سب چل رہا ہے اور میں باہر تیری بیٹی کی فکر میں جاگ رہا ہوں ۔۔۔۔۔مینا کماری نےوجے کو الگ کیا ۔۔۔اور پوچھا کہ تمہیں اندر آنے کی ہمت کیسی ہو ئی ۔۔۔۔۔ کیا چاہتےہو ۔۔۔۔۔۔۔
    جواب بڑا خوفنا ک تھا۔۔۔۔۔دیوی جی ۔۔ چاہنا تو تمکو ہے ۔۔اگر اپنی بیٹی کی زندگی چایئے تو ۔۔۔۔۔کل اگر میں رسی پھینک کر نہ کھینچوں تو کیا ہو گا۔۔وہ دونوں نیچے ہی رہیں گے ۔۔۔۔خود سوچ لو ۔کوئی اعتراض ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
    مینا کماری نے وجے کی طرف دیکھا ۔۔جو حیرت اورخوف کی ملی جلی کیفیت میں تھا ۔۔۔ان دونوں کے پاس کوئی حل نہیں تھا ۔دونوں ایکدوسرے کو دیکھتے رہے ۔۔۔۔جبھی وکرم چلتا ہوا قریب آیا تھا ۔۔۔۔اور اپنی جیکٹ اتارتا ہوا قریب آیا ۔۔۔۔اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی ۔۔۔۔اس نےوجے کو سلیپنگ بیگ پورا کھولنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور مینا کماری کو کہا کہ میری پینٹ اتارو۔۔۔۔
    مینا کماری بے چارگی کے عالم میں وجے کو دیکھتی ہوئی اٹھی ۔۔اور وکرم کیطرف بڑھی ۔۔۔اس کے جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا ۔۔۔پیچھے سے بڑے بڑے چوتڑ ہل رہے تھے ۔۔۔وکرم کی پینٹ اترتے ہی اس کا موٹا تازہ لن سامنے آیا تھا ۔۔۔جو کہ وجے سے دو گنا موٹا اور لمبا تھا ۔۔۔۔۔۔وکرم سیدھا آ کر سلیپنگ بیگ میں لیٹا ۔۔۔اور مینا کماری کو لن چوسنے کا کہا۔۔۔۔مینا کماری اس کی ٹانگوں کے پاس آ کر گھوڑی بنی اور اس کےلن کو چوسنے لگی ۔۔۔۔۔جو اس کے منہ کے تھوک اور حرارت لگتے ہی اور پھولنے اور لمبا ہونے لگا۔۔۔۔کیمپ کے اندر لگے ہوئے ہیٹر نے حدت اور گرمی بڑھا دی تھی ۔۔۔۔۔۔وجے اپنی ماما کو وکرم کا لن چوستے ہوئےدیکھ رہا تھا ۔۔اور پیچھے سے موٹی اور بھاری گوشت سے بھرے گول مٹول چوتڑ دیکھ کر اس کا بھی لن کھڑا ہونے لگا۔۔۔وکرم نےیہ دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔مگر بولا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ادھر چند ہی منٹ میں وکرم کا لن تن چکا تھا ۔۔۔۔مینا کماری کے تھوک نے اس چمکا دیا تھا ۔۔۔۔۔وکرم نے وجے کو لیٹنے کا کہا ۔۔۔۔وجے سیدھا لیٹ گیا ۔۔۔۔اور پھر اسنے مینا کماری کو الٹااس پر لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔مینا کماری کے بھاری بھرکم دودھ اپنے لمبے لمبے نپلز کے ساتھ اپنے بیٹے کے سینے پر گڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔وجے کی ٹانگیں سیدھی تھیں ۔۔۔جبکہ مینا کی ٹانگیں وکرم نے موڑ کر اس مینڈ ک کی شکل دے دی تھی ۔۔۔۔۔پیچھے سے وکرم نے اپنے موٹے تازے لن کو سمبھالا جو ہوا میں لہرا رہا تھا ۔۔اور پھر مینا کماری کی گانڈ کے نیچےسے چوت پر ٹکا دیا۔۔۔جو سوجی ہوئی حالت میں لال سرخ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر ایک جھٹکے میں آدھا اندرگھسا دیا ۔۔۔۔مینا کماری چلائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اوئی بھگوان مر گئی ۔۔۔۔۔ہائے ۔۔۔۔اف۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے دودھ بھی وجے کے سینے پررگڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔وجے نے اپنی ماما کی آنکھوں میں آنے والے آنسو دیکھے ۔۔۔۔جو ہونے والے کی درد کی نشانی تھے ۔۔۔۔مینا کماری ابھی بھی چلا رہی تھی ۔ہائے ۔۔۔اف۔۔۔سس ۔۔۔۔۔مگروکرم نے پورا لن اند ر گھسا دیا تھا ۔۔۔اور اب تیزی سے جھٹکے مارتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ مینا کماری کے آنسو وجے کے چہر ے پر گر رہے تھے ۔۔۔اس نے اٹھ کر ماما کے چہرے کو تسلی دینے کے لئے چومنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔مینا کماری بھی تھوڑی سی نیچے جھکی ۔۔۔۔اور پھر وجے کے ہونٹوں کے ساتھ اس کے ہونٹ پیوست ہو گئے ۔۔۔۔۔۔وجے کے جسم میں سنسنی سی دوڑنے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور نیچے سے ادھ موا لن بھی کھڑا ہونے لگا۔۔۔۔وجے نے اپنی ماما کے ساتھ کسنگ تیز کر دی تھی۔۔۔۔۔۔مینا کماری کے ممے اب بھی اس کے سینے پر رگڑ کھا رہےتھے ۔۔۔نرم نرم سے ممے وجے کو اور زیادہ مزے دے رہے تھے ۔۔۔اور اپنےاوپر رکھے وزن کا احساس بھی ختم کر رہے تھے ۔۔۔وجے سترہ اٹھار ہ سالہ لڑکا تھا ۔۔اور ابھی اپنی ماما کے نیچے بالکل چھپ سا گیا تھا ۔۔۔۔وکر م کے دھکے اسی طرح سے جاری تھی ۔۔۔مینا کماری کے چوتڑ پر ہاتھ مارتا ہوا وہ دھکے مارے جا رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر بعد مینا کماری کی تکلیف کم ہونے لگی تھی ۔۔۔جسےوجے نے بھی محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔۔تبھی مینا کماری نے وجے کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اٹھا ئے تھے ۔۔۔اور سسکاری بھری تھی ۔۔۔گرم گرم ۔۔۔اور شہوت سے بھرپور ۔۔۔اور وجے بھی پورا اندر سے ہل گیا ۔۔۔اس کے لن نے اچھل کر سلامی دی تھی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ماما کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔مینا کماری نے وجے کے دائیں بائیں گھٹنے ٹکائے ہوئے تھی ۔۔اب اٹھنے لگی ۔۔۔اوربیگ پر رکھے گھٹنے کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔۔۔پیچھے وکرم نے بھی گھٹنے ٹکا کر اس کے پیچھے جڑ گیا تھا۔۔۔۔مینا کماری بھی ہلکی سی وکرم سےٹیک لگائے ہوئے تھی ۔۔۔۔وجے اپنی ماما کے ممے اچھلتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ نیچے سے اس کالن بھی کھڑا تھا۔۔۔جو مینا کماری نے حیرت دیکھا۔۔۔۔۔اس کے بیٹے کو اپنی ماما کے درد کا بالکل بھی احساس نہیں تھا ۔۔۔۔آ خر مینا کماری نے بھی ہاتھ بڑھا اور وجے کے لن کو دیکھنے لگی ۔۔۔درمیانی موٹائی کا یہ لمبا لن تھا ۔۔۔۔ٹوپی تھوڑی سی موٹی تھی ۔۔اور رنگت سرخ و سفید ہوئی تھی ۔۔۔مینا کماری ایک ہاتھ سے تھامتی ہوئ اوپر نیچے کرنے لگی ۔۔۔پیچھے سے وکرم کے دھکے اور تیز ہوئے تھے ۔۔۔۔۔مینا کماری کی سسکاری بلند ہو کر پورے کیمپ میں گونجنے لگی ۔۔۔۔اور وجے کے اندر سے شہوت کا ایک طوفان امڈنے لگا۔۔اس کا لن تیزی سے اکڑ چکا تھا ۔۔۔۔وکرم یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ جھٹکے مارتا ہوا پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔۔اورسلیپنگ بیگ پر وجے کے ساتھ جا لیٹا ۔۔مینا کماری نے ایک ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیا ۔۔اور سختی کھونےوالے لن کو ہاتھ سے پکڑ کر ہلانے لگی ۔۔۔مینا کماری کے ایک ہاتھ میں وکرم کا لن اور دوسرے ہاتھ میں اپنے بیٹے کا لن تھا ۔۔وہ دونوں کو سہلا رہی تھی ۔۔دونوں ہی شہوت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔وکرم کا لن وجے سے کافی بڑا اور کالا تھا ۔۔۔جبکہ وجے ابھی بھی بڑھوتری کے عمل میں تھا۔۔۔۔اس لئے چھوٹا اور سرخ و سپید سا مگر لمبائی میں کچھ لمبا اور پتلا۔۔۔۔۔جلد ہی دونوں کے لن تن چکے تھے ۔۔۔۔وجے اٹھ کر پیچھے کیطر ف آیا تھا ۔۔۔۔اورآگے کو جھکی ہوئی ماماکے پیچھے گیا ۔۔اور پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔۔۔اور پیچھے سے ہی ہاتھ بڑھا کر ممے تھامنے لگا۔۔۔ممے اس کے چھوٹے ہاتھوں میں کہاں آتے ۔۔۔۔۔۔بار بار وہ دبوچ کر دباتا ۔۔۔۔۔پیچھے سے اس کا لن اس کی ماما کی کمر کو چھو رہا تھا۔۔۔وکرم نے اپنا لن تیار ہونے کے بعد مینا کماری کو آگے کی طرف کھینچا۔۔۔۔آو دیوی جی ۔۔۔۔۔ہماری بھی سوار ی کرو۔۔۔۔۔مینا کماری کھسکتی ہوئی آگے بڑھی اور وکرم کے لن کو پکڑتی ہوئی بیٹھنے لگی ۔۔۔پیچھے سے وجے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔اپنی ماما کے بڑے بڑے ہلتے ہوئے چوتڑ نے اس کے اندر ہلچل مچادی تھی ۔۔۔۔۔۔ادھر مینا کماری وکرم کے اوپر بیٹھ کر آگے کو جھک گئی تھی ۔۔۔۔۔ادھر وجے نے تھوک نکال کر اپنےہاتھ پر پھینکا اور اپنے لن کو گیلا کرنے لگا۔۔۔۔مینا کماری وکرم کے دائیں بائیں گھٹنے رکھے آگے کو جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔پیچھے سے چوتڑ فل گولائی میں مڑے ہوئے تھے ۔۔۔جب وجے اس کے پیچھے آیا ۔۔۔ایک نظر گانڈ کےسوراغ کو دیکھا تھا ۔۔۔۔یہ جگہ اب تک اس کے لئے ممنوع رہی تھی ۔۔۔انجلی نے کبھی چھونے نہیں دیا تھا۔۔مگر اس مرتبہ وہ ٹرائی کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔مینا کماری آگے کوہوئی سسکیاں بھر رہی تھی ۔۔۔اس کے بڑے سے ممے وکرم کے سینے پرتھے ۔۔۔۔جسے وہ ہاتھ نیچے لے جا کر کھینچا اور نپلز اور لمبے کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔۔۔ادھر وجے نے پھر تھوک پھینک کر اپنے لن کو گیلا کیا ۔۔۔اور گانڈ کے اندر انگلی کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔میناکماری ایک جھٹکے سے اچھلی تھی ۔۔۔۔۔وجے ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔ہٹو یہاں سے ۔۔۔مگر وجے کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔۔مینا کماری اٹھنے لگی تھی ۔۔مگر وجے نے دونوں ہاتھوں سے اسے واپس دبا دیا ۔۔۔وجے نے اپنا لن گانڈ پر رکھے ہوئے زور دینے لگا۔۔۔سوراخ تنگ تھا ۔۔۔مگر وجے کے دباؤ نے کھلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔مینا کماری بلبلا اٹھی تھی ۔۔۔۔۔اس کے جسم میں خاصی لرزش ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وجے کو بھی لن پر گرمی کااحساس ہوا ۔۔۔اس نے اپنی ماما کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر دھکے دینے لگا۔۔۔۔۔میناکماری ایک ایک دھکےکے ساتھ اٹھتی ۔۔۔اوراس کی کمر اندر کو ہوتی ۔۔۔۔منہ سے کراہیں نکلتی ۔۔۔مگر وجے ان سب سے بے خبر دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔نیچے سے وکرم نے بھی اچھال کر مینا کماری کو اپنے سہارے پر ہونے کا کہا۔۔۔وہ آگے کو ہو کر اپنے گھٹنے اور ہاتھ کے بل پر ہوگئی ۔۔۔مگر تھی ابھی بھی وکرم کے اوپر ۔۔۔نیچے سے وکرم نے بھی جھٹکا مارا تھا۔۔۔۔مینا کماری چلائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اب اس کی چوت اور گانڈ دونوں میں دھکے جاری تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔وکرم پہلے سے لگا ہوا تھا ۔۔۔وہ جلدی فارغ ہو گیا ۔۔۔۔۔اور نیچے سے نکلنے لگا۔۔۔۔۔۔میناکماری اب ٹھیک سے گھوڑی بن گئی ۔۔۔۔۔اور وجے اب تھوڑا اور آگے بڑھ آیا تھا ۔۔۔اپنی ماما کی بغل میں ہاتھ ڈالتے ہوئے تھوڑا سا اٹھا یا ۔۔۔اور مموں کو پکڑتے ہوئے دھکے دینے لگا۔۔۔۔۔مینا کماری تھوڑی سی اٹھی ہوئی دھکے کھا رہی تھی ۔۔۔۔گانڈ جیسے چر گئی تھی ۔۔۔۔اور دھکے کے ساتھ درد کی لہر بھی دوڑتی ۔۔۔۔وجے نے دھکے تیز کئے تھے ۔۔۔شاید فارغ ہونے والا تھا ۔۔۔۔اور پھر زور سے چلاتے ہوئے اس نے اندر پانی چھوڑا ۔۔۔۔۔میناکماری نے سکون کا سانس لیا ۔۔اور آگے کو ہو کر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔مگر پیچھے ہی ایک بھاری وزن آ کر اس کے چوتڑوں پر بیٹھا تھا۔۔۔یہ وکرم تھا ۔۔۔اور لن کو ہلاتے ہوئے گانڈ میں گھسانے لگا۔۔۔۔الیٹی لیٹی میناکماری درد سے چلانے لگی ۔اور ہٹنے کاکہنے لگی ۔۔مگرجب وجے نے اس کا احساس نہیں کیا تو وکرم کیسے کرتا ۔۔۔۔اس نے تھوک لگا کر لن اندر گھسا دیا۔۔۔مینا کماری کو اب صحیح کا درد ہونے لگا تھا ۔۔۔وہ رونے لگی ۔۔۔چلانے لگی ۔۔مگر وکرم ایسے ہی لگا رہا تھا ۔۔۔۔دونوں ہاتھ مینا کماری کی کمر پر دباتے ہوئے پیچھے سے دھکے مارتا رہا ۔۔۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ دھکے ایسے ہی جاری رہے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر وکرم نے پانی چھوڑا ۔۔۔۔پھر اٹھا اور اپنے کپڑے پہننے لگا۔۔۔۔۔میناکماری ویسے ہی بے سدھ لیٹی رہی تھی ۔۔شادی کے ابتدائی دنوں میں اس کی بہن کی فیملی کا ایک فضائی حادثے میں انتقال ہو گیا تھا ۔۔صرف اس کا بچہ ہی باقی تھا ۔جو اس سفر میں جانے کے بجائے مینا کماری کے پاس تھا ۔۔اور آج وہی وجے کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔۔
    وکرم نے کل صبح جانے کا بتا کر باہر چلا گیا ۔۔۔۔وجے اپنی ماما کے قریب آیا ۔۔سلیپنگ بیگ کے اندر گھسیٹ کر اوپر سے زپ بند کر دی ۔اور لپٹ کر سو گیا۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    رات انجلی نے میری بانہوں میں ہی گزاری۔۔۔میرے سینے پر سر رکھے وہ سو گئی تھی ۔۔۔میں بھی کچھ دیر بعد سو گیا ۔۔۔جب آنکھ کھلی تو۔۔۔صبح کی روشنی چھانے لگی تھی ۔۔۔اتنے میں ریڈیو ٹرانسمیٹر پر سگنل آنا شروع ہوئے ۔۔میں نے آن کیا تو وکرم تھا ۔۔ ۔۔پروفیسر صاحب ۔۔ ہم کیبل نیچے بھیج رہے ہیں ۔۔۔۔آپ لوگ تیاری کریں ۔۔۔ کچھ دیر میں ایک مضبوط کیبل نیچے لٹکتی ہوئی آئی۔۔۔۔ میں نے سلیپنگ بیگ کو لپیٹ کر اکھٹا کیا اور چوکور کرتے ہوئے کیبل کے سرے پر جھولا بنانے لگا۔۔۔اور سلیپنگ بیگ اس پر رکھتے ہوئے انجی کو اس پر بٹھا دیا ۔۔۔۔۔اس کا ڈر کے مارے برا حال تھا ۔۔۔۔میں نے کیبل کا ایک بل اس کی کمر کے گرد بھی دے دیا ۔۔۔۔اور وکرم کو ریڈیو پر کھینچنے کا کہا ۔۔۔۔۔کیبل آہستہ آہستہ اوپر کھنچنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔انجلی خوف ذدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔میں اسے نگاہوں میں تسلی دینے لگا۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد اسے میں نے کنارے کے قریب دیکھا ۔۔۔۔اور پھر اوپر سے اٹھے ہوئے دو تین ہاتھوں نے اسے کھینچ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔کیبل واپس نیچے آئی تھی ۔۔۔۔اب کی با ر میں کیمپ لپیٹ کر تیار بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔اور کیبل کے آتے ہی میں نے اس پرجھولے پر پیر رکھے اور وکرم نے مجھے کھینچنا شروع کر دیا ۔۔۔جلد ہی میں بھی اوپر تھا ۔۔۔۔۔۔۔کل رات کی تباہ کاری ختم ہوگئی تھی ۔۔اور اب سب کے چہروں پر سکون نظر آ رہا تھا ۔۔۔مینا کماری بھی عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کی بیٹی کی جان بچانے کے لئے ۔۔یا پھر کوئی اور وجہ تھی ۔۔۔۔وکرم نے بلند آواز سب کو تیار ہونے کا کہا کہ دس منٹ میں ہم روانہ ہورہے ہیں ۔۔میں مینا کماری کے کیمپ میں پہنچا جہاں چائے میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔چائے پی کر ہم باہر آئے اور سفر پھر شروع ہو گیا ۔۔۔۔ اب کی بار چڑھائی کم تھی ۔۔۔۔اور متوازن میدان میں سفر ہو رہا تھا ۔۔۔مگر جمی برف کے اوپر یہ سفر بھی خاصا مشکل تھا ۔۔۔۔۔۔راستے میں دو تین جگہ رکے ۔۔۔۔۔آخری مرتبہ اسٹاپ پر وکرم نے بتایا کہ یہ آخری اسٹاپ ہے ۔۔اگلی مرتبہ ہم ہلسا پر جا کر رکیں گے ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنا کیمپ کھولا ۔۔۔۔اور بیگ لئے اندر جا گھسا ۔۔۔۔۔عمران صاحب کا دیا بیگ کھولنے کا ٹائم آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خصوصی فون نکال کر اس پر ایک بٹن دبا دیا ۔۔۔۔اور بیگ کھولنے لگا۔۔۔۔۔۔اندر موجود تمام چیزیں میں نے اپنے جسم پر پہن لی ۔۔۔۔اور پھر پرانا لباس پہن کر جیکٹ چڑھالی۔۔۔۔بیگ کو لائٹر سے آگ لگا دی ۔۔۔کچھ دیر میں وہاں صرف راکھ پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔میں باہر آیا تو مینا کماری نے مجھے حیرانگی سے دیکھا تھا ۔۔۔۔مگر جیکٹ کی وجہ سےزیادہ محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔میں نے اب اپنی اسپیڈ تیز کر دی تھی ۔۔۔۔ہم 20000 فیٹ اونچی برفانی چوٹی پر سفر کر رہے تھے ۔۔۔میں وکرم کے ساتھ ہو گیا تھا ۔۔۔۔اورپیچھے ہماری لائن ویسے ہی چل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر ایک بڑی سی پہاڑ کے کنارے میں پہنچ کر وکرم نے بتایا کہ ہمارے دائیں طرف تبت کا علاقہ ہے ۔۔۔۔۔اور بائیں طرف انڈیا کا علاقہ ہے ۔۔انڈیا کا اتر کھنڈ کا علاقہ میرے سامنےہی تھا۔۔۔۔۔میں نےپیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔باقی لوگ کافی پیچھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیچے دور کہیں ہلسا گاؤں تھا ۔۔جہاں ابھی ہم نے اتر کر جانا تھا۔۔۔۔میں کنارے پر کھڑے وکرم کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔اور اس سے اشارے میں مختلف جگہ کے نام پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔کہ میرا پاؤں ڈگمگایا ۔۔۔۔وکرم لپک کر سہارا دینے آیا تھا ۔۔۔مگر دیر ہو گئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں ہاتھ پاؤں مارتا ہوں نیچے گرنے لگا۔۔۔۔۔وکرم کی چیخ میرے کانوں میں پڑی تھی ۔۔۔اور۔۔۔میں بادلوں کے درمیان سے گذرتا ہوا نیچے گرنےلگا۔۔​
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #3
      قسط نمبر4۔

      بادلوں کی اوٹ آتے ہی میں سیدھا ہو گیا ۔۔خود کو بیلنس کرتے ہوئے میں نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیا ۔۔کپڑے اترنے کے بعد ہوا میں اڑتے ہوئے دور دور جانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔کپڑے اتارنے کے بعد اپنا میک اپ بھی اتارنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر کا پاسپورٹ میں اوپر بیگ کے ساتھ جلا کرآیا تھا ۔۔۔اور اب وہ شخصیت بھی ختم ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔نیچے میرا دوسرا لباس تھا۔۔۔۔جس کے ساتھ گلائیڈر اور خصوصی پیراشوٹ بندھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔یہ گلائیڈ بازو سے لے کر نیچے تک اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ایک پردے کے صورت میں تھا ۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور ٹانگوں کو پھیلایا تو یہ کھلتےگئے ۔۔اور میں تیزی سے آگے کی طرف تیرنے لگا۔۔۔۔۔۔انڈیا کی سمت میرے سامنےتھی ۔۔۔۔اور میں تیزی سے تیرتے ہوئے اس طرف جانے لگا۔۔۔۔۔اونچائی تیزی سے کم ہوتی جارہی تھی ۔۔۔۔نیچے کی زمیں اور روڈ مجھے نظر آرہا تھا ۔۔۔۔شام کےدھندلکے پھیلنے لگے تھے ۔۔۔۔۔قریب پہنچ کر مجھے ایک جیپ اور اس کے ساتھ ہی سرخ رنگ کا دھواں اٹھتا ہوا نظرآنے لگا۔۔جیب مین روڈ سے ہٹ کر کھڑی تھی ۔۔۔اور ساتھ کھڑے ایک آدمی کاخاکہ ابھر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے آنکھیں سکیڑ کر نیچے دیکھااور پیرا شوٹ کھینچ دیا ۔۔۔اوزون نامی یہ پیرا شوٹ چھوٹا اور ایک آدمی کے لئے بہترین تھا ۔۔۔ میں جیپ سےبیس قدم کے فاصلے پر اترا تھا۔۔۔پاؤں زمیں پر لگتے ہی میں نے دوڑنا شروع کیا ۔۔۔اور کچھ قدم بھاگ کر مڑا اور پیرا شوٹ کو کھینچ کر اتارنے لگا۔۔۔۔۔۔پیراشوٹ کو لپیٹ کر میں نے پھر لائٹر نکالا اور آگ دکھا دی ۔گلائیڈ ر اتار کر ووہ بھی ساتھ ہی ڈال دیا ۔۔اب میں ایک چست ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں تھا۔۔۔۔۔جیپ کا سوار میرے پیچھے آ چکا تھا۔۔۔میں مڑا اور ساتھ ہی ایک خوش شکل نوجوان مجھے بغل گیر ہوا تھا ۔۔۔۔اندا ز میں گرم جوشی تھی ۔۔۔۔۔اور الگ ہوتے ہوئے بولا مجھے عاصم علی خان کہتے ہیں ۔۔۔۔انڈیا کی سرزمیں پر خوش آمدید ۔۔۔۔میں نے بھی خوش دلی سے اس کو جواب دیا ۔۔۔عمراں صاحب نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہاں مجھے دوست ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں دوبارہ سے پیراشوٹ کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔۔۔جو جل کر راکھ ہو چکا تھا ۔۔۔اتنے میں عاصم کی آواز آئی ۔۔آؤ دوست چلیں اب ۔۔ہمیں کل تک منزل تک پہنچنا ہے ۔۔۔۔عاصم نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی تھی ۔پیچھے سے عاصم نے جیکٹ بڑھا دی کہ پہن لو ۔۔۔۔۔جلد ہی ہمار ا سفر شروع ہوگیا ۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ۔۔عاصم ایک ہنس مکھ اور جذباتی نوجوان تھا ۔۔۔۔بات بات پر قہقہ لگانے والا۔اور ہر قسم کی سچوئیشن کو ہینڈ ل کرنے والا۔۔چمکتی ہوئی آنکھوں والا یہ نوجوان اپنے وطن سے محبت میں اتنا دور آیا ہوا تھا ۔۔۔۔کئی سال پہلے پاکستان سے آنے کے بعد صرف رپورٹنگ کر رہا تھا ۔۔مگر اب عمراں صاحب سے ضد کے بعد اسے میرے ساتھ ایکشن میں شامل ہونے کی اجازت مل گئی تھی ۔۔۔۔۔عاصم نے پچھلے کئی برسوں میں کئی بہترین راز بھجوائے تھے۔۔۔یہاں تک انڈین پارلیمنٹ ہاؤس کی خفیہ ریکارڈنگ بھی وہ بھیجتا رہا تھا۔۔۔۔۔یہ مشن بھی اسی کی رپورٹ پر ترتیب دیا گیا ۔۔۔۔انڈیا نے اسرائیل کی مدد سے شملہ میں ایک ڈرون طیاروں کا ہیڈکوارڈر بنایا تھا ۔جس کی تنصیب سے لے ٹریننگ تک سب اسرائیلی ایجنٹ نے آ کر دی تھی ۔۔۔۔۔یہاں سے ڈرون اڑ کر وادی کاشمیر کی جدوجہد آزادی کی فضائی نگرانی کرتے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ لگنے والی لاہور اور سیالکوٹ سے لے کر مظفر آباد تک پورے بارڈر بھی ان کے رینج میں تھے ۔۔۔۔پاکستان ان کے کئی ڈرون تباہ کر چکا تھا ۔۔۔مگر اصل جڑ یہی ہیڈ کواٹر تھا ۔۔۔۔۔اور موجودہ حالات میں فضائی نگرانی کر کے کشمیری قیادت اور عوام کو محصور کرنے کا ذمہ دار بھی یہی ہیڈ کواٹر تھا ۔۔۔۔۔جو اب کسی بھی قیمت پر تباہ کرنا ہمارا مقصد تھا ۔۔۔
      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
      ہم جیپ پر مستقل سفر کررہے تھے ۔۔۔۔رات سر پر آچکی تھی مگر ہمیں قیام گاہ پر پہنچنے کی جلدی تھی ۔۔۔۔عاصم نے مجھے ڈرائیونگ کرنے کا کہا ۔۔۔۔اور میں نے اسٹیرنگ سمبھال لیا۔۔ہم گونجی کا علاقہ کراس کر چکے تھے ۔۔۔اور پیھلام کی طرف جانے والے روڈ پر سفر کر رہے تھے ۔۔۔چاروں طرف بلند بالا برف سے بھرے پہاڑ تھے ۔۔۔جن کے درمیان پتلی سی ناگن نما سڑک پر ہمارا سفر جاری تھی ۔۔۔۔۔۔آدھی رات تک ہم پیھلا م پہنچ چکے تھے ۔۔۔سڑک کنارے ایک ہوٹل میں ہم نے چائے پی ۔۔فیول بھروانے کے بعد۔پھر عاصم نے دوبارہ سے ڈرائیونگ سمبھال لی ۔عاصم کے پاس یہاں کا شناختی کارڈ بھی تھا ۔۔اور بہترین کور بھی ۔۔۔ساتھ ہی جیپ کے کاغذات بھی پورے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔عاصم نے اچھے ایجنٹ کی طرح یہاں اونچے حکام سے تعلقات بنا رکھے تھے ۔۔۔اس لئے ہمارا سفر بغیر کسی رکاوٹ اور دشواری کے جاری تھا۔۔۔۔۔اب ہماری منزل منسیاری تھی ۔۔۔۔عاصم نے جیپ کی اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔۔۔جب ہم منسیاری گاؤں میں داخل ہوئے صبح ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔مگر ہمارا سفر ایسے ہی جاری تھا۔۔۔گیارہ بجے ہم کاشی پور پہنے ۔۔عاصم نے ایک اچھے ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی ۔۔۔فریش ہو کر کھانا کھایااور پھر ڈرائیونگ میرے پاس آ گئی ۔۔۔۔۔عاصم مجھے گائیڈکرنے لگا ۔۔۔ہم دس منٹ بعد ہی اگلی منزل پر پہنچے تھے ۔۔یہ کوئی رہائش علاقہ تھا ۔۔۔ہم وہاں جیپ کو لاک کر کے اترے ۔۔پیچھے سے عاصم نے سیٹ کے نیچے سے اپنا بیگ نکالا ۔۔اور ہم اندر گلیوں میں بڑھ گئے ۔۔۔اور پھر ایک پرانے سے مکان کے سامنے پہنچ کر عاصم نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔اندر سے بوڑھی کھانستی ہوئی آواز آئی ۔۔۔اور پھر دروازہ کھلا ۔۔ہم اندر داخل ہوگئے ۔۔بوڑھی عورت واپس اندر اپنے کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔عاصم ایک اور کمرے کی طرف بڑھا ۔۔چابی سے کھولتے ہوئے اس نے مجھے اندر آنے کا کہا ۔۔۔لائٹ آن کی اور دروازہ بند کرکے پلٹا ۔۔۔کمرے میں ایک بیڈ ، الماری دوسرا ہلکا پھلکا ساما ن تھا ۔۔۔۔۔اب وہ الماری کے طر ف گیا اور دروازہ کھول کر اندر کوئی ہک گھمایا تھا ۔۔۔الماری کے اندر سے راستہ نمودار ہوا تھا ۔۔۔عاصم مجھے لئے ہوئے اندر گھسا تھا ۔۔نیچے سیڑھیا ں جا رہی تھی ۔۔۔۔۔جلد ہی ہم ایک بیس منٹ میں تھے ۔۔یہاں ایک طرف ٹیبل ، لیپ ٹاپ ، اور ڈیجیٹل کیمرہ رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔راجہ صاحب آپ کے چہرے پر میک اپ کرنا ہے ۔۔اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو ۔۔۔۔۔میں نے ہاں میں سر ہلادیا ۔۔اس نے ساتھ لائے بیگ کو کھولا اور سامان پھیلانے شروع کر دیے ۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے پر اس کا کام شروع ہوا ۔۔۔طرح طرح کی ٹیوب اور کریمیں لگانے کے بعد اس نے ایک مونچھیں تیار کی تھی ۔۔۔۔اور پھر چہرے پر لگانے کے بعد میرے سامنے آئینہ کر دیا ۔۔۔میں سانولی رنگت کے نوجوان میں تبدیل ہو چکا تھا۔۔۔۔اور پھر کیمرے کے سامنے بٹھا کر میری تصویر نکالی ۔۔پرنٹر سے پرنٹ آوٹ نکالنے کے بعد اب وہ میرا شناختی کارڈ بنا رہا تھا ۔اس کے بیگ میں کافی ساری کارڈ پہلےہی تھے ۔۔وہ بس تصویر کو احتیاط سے تبدیل کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے آدھے گھنٹے میں میرا کارڈ میرے سامنے تھا ۔۔۔۔میرا نام راجہ سے راجو ہو گیا تھا ۔۔۔۔اس کے بعد عاصم نے مجھے ایک ایڈریس اورعلاقہ یاد کروادیا جو میرا آبائی گاؤں تھا ۔۔۔۔اگر کوئی میری انکوائر ی کرتا تو اس ایڈریس سے اوکے کی رپورٹ ملتی ۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک ڈریسنگ الماری سے میرے لئے تین چار سوٹ اور ایک بیگ منتخب کر کے میرا سفری بیگ بھی تیار تھا ۔۔۔اب میں عاصم کے گاؤں کا کوئی نوجوان تھا جو روزگار کی تلاش میں اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔اس کے بعد ہم واپس جیپ تک پہنچے تھے ۔۔عاصم نے بتایا کہ شملہ میں غیرملکی بڑی تعداد میں آتے ہیں ۔اس لئے چیکنگ سخت ہوتی ہے۔۔۔اس لئے یہ سب ضروری ہے ۔۔۔ورنہ میں خود تو بغیر کسی شناخت کے آدھا ہندوستان گھوم چکا ہوں ۔۔۔۔ڈرائیونگ سیٹ میرے حوالے تھی ۔۔۔ہائی وے تک عاصم نے مجھے راستہ بتا یا ۔۔۔ہائی وے پر چڑھتے ہی میں نے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔آگے راستہ آسان تھا ۔۔سائن بورڈ ہر طرف لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔ ۔میں نے جیپ کو ٹاپ گئیر لگا دیا۔۔عاصم پچھلی سیٹ پر چلا گیا اور سونے لگا۔۔۔۔۔میں نے ریس پر پاؤں جمائے رکھا ۔۔راستے میں آنے والے سائن بورڈ میں پڑھتا رہا ۔۔ہم ہماچل پردیش میں داخل ہو چکے تھے اور منزل راج گڑ ھ تھی ۔۔جو کہ شملہ سے دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔۔۔۔راج گڑھ جب قریب پہنچا تو میں نے عاصم کو آواز دی ۔۔۔وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ۔۔اور روڈ دیکھ کر حیران ہوا ۔۔۔۔۔بڑی اسپیڈ ماری ہے شہزادے ۔۔۔۔۔آگے عاصم نے گائیڈ کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ہم راج گڑھ کی ایک رہائش علاقے میں داخل ہوئے ۔۔۔ایک خوبصورت سے بنگلے کے سامنے جیپ رکی تھی ۔۔۔۔۔۔جیپ روک کر میں اترا ۔۔۔عاصم پیچھے سے سامان اٹھا نے لگا۔۔میں بنگلے کے مین گیٹ کی طرف جانے لگا۔۔۔تو پیچھے سے عاصم کی آواز کی آئی ۔۔راجہ صاحب اس طرف ۔۔۔۔میں نے مڑ کر دیکھا تو سامنے عام سا بنا ایک چھوٹا سا مکان تھا۔۔۔۔میں تھوڑا شرمندہ ہوا ۔۔۔اور پھر عاصم کے پیچھے چلتا ہوا مکان میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔یہ تین کمرے اور ایک کچن پر مشتمل گھر تھا ۔۔۔۔عاصم نے مجھے ایک کمرے میں بٹھایا ۔۔۔۔۔کمر ے کا وہی حال تھا جو پردیسی مسافروں کا ہو سکتا تھا ۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں عاصم چائے بنا کر لے آیا ۔۔۔۔۔ہم آمنے سامنے بیٹھے ایکدوسر ے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔وطن سے دور ملنے والے ہم وطن ایسے ہی ایک دوسرے کو دیکھا کر تے تھے ۔۔۔۔ پھر عاصم نے بتایا کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی وہ یہاں شفٹ ہوا ہے ۔۔اور وہ جیپ سامنے والے بنگلے والوں کی ہے ۔۔۔بیٹا کسی اچھی کمپنی میں کام کرتا ہے ۔۔اور بوڑھے والدین یہاں اکیلے رہتے ہیں ۔۔عاصم بھی ان کے کام آتا رہتا ہے ۔۔اس لئے آنے جانے کے لئے جیپ مل جاتی تھی ۔۔۔۔عاصم خود یہاں انشورنس ایجنٹ کا کام کر رہا تھا ۔۔ہر دو مہینے بعد اس کے کام بھی بدل جاتے تھے ۔۔۔اسے صبح ہوتے ہی کام میں نکلنا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنے ہاتھ سے اسپیشل کڑاہی بنائی ۔۔اور کھانے کے دوران اس کی خوش کلامی اور لطیفے ایسے ہی جاری تھے ۔۔۔۔۔کھانے کے بعدعاصم کے ساتھ باہر گشت پر نکل گئے ۔۔سامنے والے انکل سے بھی ملے ۔۔۔۔عاصم مجھے لہجے اور الفاظ کی پریکٹس کروا رہا تھا ۔۔۔راستے میں ہم مختلف لوگوں سے ملے ۔۔۔عاصم یہاں کافی مقبول تھا ۔۔۔سب کے کام آنا اور خوش اخلاقی سے بات کرنا ۔۔۔یہ اس کی مخصوص عادت تھی ۔۔۔ایک گھنٹے بعد ہم واپس ہوئے ۔۔اور سونے کے لئے چلے گئے ۔۔۔۔
      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
      اگلی صبح عاصم نے مجھے اٹھا یا تھا ۔۔۔۔سگھڑ بیوی کی طرح ناشتہ تیار کرلیا تھا ۔۔۔۔خود بھی تیار ہو چکا تھا ۔۔ایک چابی مجھے پھینکی کی ، یہ میری کھٹارا بائک ہے ۔۔۔۔پچھلی سائیڈ پر کھڑی ہے ۔۔۔باہر جاؤ تو اسے استعمال کرلینا ۔۔۔اور یہ تمہار ا موبائل ۔۔اور یہ پرس میں پیسے رکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔موبائل میں میرا نمبر سیو ہے ۔۔۔کوئی مسئلہ ہو تو کال کر لینا ۔۔۔میں آفس جا رہا ہوں ۔شام تک آؤں گا۔۔۔میں نے اوکے کی آواز لگائی اور دوبارہ سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔ایک گھنٹے بعد میں اٹھ گیا ۔۔۔۔شاور لینے کے بعد باہر نکلا ۔۔۔ناشتہ میں سینڈوچ اور آملیٹ تھے ۔۔ناشتہ کر کے کپڑے چینج کئے اور پرس اور بائک کی چابی اٹھائے باہر آگیا ۔۔۔گھر کے باہر ہی ایک بائک کھڑی تھی ۔۔اور عاصم کے بتائے ہوئے کھٹارا سے کہیں زیادہ حالت خراب تھی ۔۔۔میں لاک کھول کر بائک سڑک پر لے آیا ۔۔۔انجن اچھی حالت میں تھا ۔۔۔پہلی کک میں ہی بائک کی آواز گونجی تھی ۔۔میں نے بائک آگے بڑھا دی ۔۔۔اسپیڈ آہستہ رکھی ۔۔اور شہر گھومنے لگا۔۔۔راج گڑھ ایک چھوٹی وادی نما علاقہ تھا ۔۔۔چاروں طرف ہریالی اور مخصوص طرز کے مکان بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔یہاں کی آبادی تو کم تھی مگر پھر بھی روزانہ سینکڑوں مسافر یہاں آتے تھے ۔۔اس کی وجہ رادھا کشن کا مشہور مندر تھا ۔۔۔میں بھی گھومتا گھامتا رادھا کشن مندر جا پہنچا ۔۔۔۔سڑک پر ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔۔۔آنےجانے والے عقیدت مندوں کا رش تھا ۔۔۔۔باہر سے گشت کرتے ہوئے میں نے چاروں طرف کا چکر لگایا ۔۔اور پھر آگے بڑھ گیا ۔۔۔یہاں کی دوسر ی مشہور جگہ برّو صاحب کا گردوارہ تھا ۔۔۔جہاں بھی سکھ برادری کا ایسا ہی ہجوم تھا۔۔۔۔کچھ ٹائم وہاں گذار کر شیو مندر چلا آیا ۔۔۔۔یہاں بھی وہی رش تھا ۔۔۔ہر بھگوان کے اپنے چاہنے والے تھے ۔۔جو اسی سے امید لگائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔میں اگلے ایک گھنٹے تک پورا علاقہ گھومتا رہا تھا ۔۔۔۔ایک ہی مین روڈ تھا جو ہائی وے بھی تھا ۔۔جس سے اندر کی طرف مختلف راستے نکلتے تھے ۔۔۔۔۔دوپہر ہونے لگی ۔۔۔تو میں واپس رادھا کشن مندر جا پہنچا ۔۔یہاں سب سے زیادہ رش تھا ۔۔۔۔سامنے ایک بڑی سی جھیل تھی ۔۔اورمندر کے دائیں بائیں عقیدت مندوں کے درمیان مختلف ٹھیلے والے بھی تھے ۔۔۔۔میں بھی ایک کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔اور پیٹ کی آگ بجھانے لگا۔۔۔تبھی ایک گاڑیوں کی لائن میرے سامنے سے گذری تھی ۔۔۔آگے پیچھے تین تین ایمبیسیڈر کار کے درمیان ایک سرمئی ٹیوٹا فارچونر ۔۔رکی تھی ۔۔۔۔پیچھے کار میں سے گارڈ بھاگتے ہوئے آیا ۔اور ٹیوٹا کا دروازہ کھولا۔۔ایک خوبصورت عورت سفید ساڑھی میں اتری تھی ۔۔جس کے ہاتھ میں بڑی سے ٹرے تھی جس پر کپڑا ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔باقی گارڈ بھی آ کر دائیں بائیں کھڑے ہو چکے تھے ۔۔۔میں نے ٹھیلے والے سے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔۔اس نے بتایا کہ یہ کسی سرکاری ادارے کے افسر کی بیوی ہے ۔۔ہر ہفتے بڑے پجاری سے ملنے آتی ہے ۔۔۔مگر وہ کسی بڑی پوجا میں مصروف ہیں ۔۔اس لئے ایسے ہی واپس چلی جاتی ہے ۔۔۔۔مجھے اس پجاری پر حیرت ہوئی کہ کیوں اس خوبصورت عورت کو پریشان کر رہا تھا ۔۔۔شاید اسی طرح اس کی دکانداری چلتی تھی ۔۔۔۔اور دوسرے لوگ بھی راغب ہوتے تھے ۔۔۔۔وہ عورت اندر کی طرف بڑھنے لگی ۔۔گارڈ بھی ساتھ ہی تھے۔۔۔میں بھی مناسب فاصلے رکھے اندر چل پڑا ۔۔۔۔سامنے ہی رادھا کشن کا دیو قامت بت بنے ہوئے تھے ۔۔۔ایک طرف بھجن گائے جائے رہے تھے ۔۔۔بت کے سامنے نیچے پجاری جی بیٹھے تھے ۔۔۔جو لوگ آتے وہ بت کو چھوتے اور کچھ پیسے زیور وغیرہ اس کے قدموں میں ڈالتے اور پجاری ان کو پرشاد اور ٹیکہ لگاتا ۔۔اور دوسرے راستے سے واپس ہو جاتے ۔۔۔میں یہ سب منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔وہ عورت بت کے پیچھے بنے ہوئے ایک کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے پیچھے جانا چاہا تو روک دیا گیا ۔۔۔پتا چلا کہ یہ وی آئی پی کے لئے مخصوص جگہ ہے ۔۔۔۔میں واپس آیا ۔۔مندر میں ہر طرف مختلف پجاری پیلے رنگ کے کپڑوں میں پھر رہے تھے ۔۔میں ایک پجاری کو لئے سائیڈ پر گیا ۔۔ہزار کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھوں میں پکڑا دیا ۔۔اور بڑی لجاجت سے بڑے پجاری سے ملاقات کروانے کا کہا ۔۔۔پجاری پیسےدیکھ کر چونکا ۔۔پھر اپنی دھوتی میں پیسے اٹکاتے ہوئے بولا ۔۔بالک بڑے پجاری مصروف ہیں ۔۔کام بتاؤ کیا کام ہے ، کیوں ملنا ہے ۔۔۔میں نے مزید بے چارگی سے کہا کہ بہنوں کی شادی ہے ۔۔۔روزگار نہیں ہے ۔۔۔۔خودکشی پر آگیا ہوں ۔۔اب وہی سہار ا ہیں ۔۔۔۔
      پجاری مجھے دیکھ کر کچھ ہلکا ہوا اور بولا کہ بڑے پجاری سے تو کوئی نہیں مل سکتا۔۔۔ان سے چھوٹے پجاری اندر ہیں وہاں پہنچا دیتا ہوں ۔۔۔وہ پرشاد دیں گے ۔۔گھر میں سب کو کھلا دینا ۔۔۔سب مشکلیں ٹل جائیں گیں۔۔۔میں نے جلدی سے ہامی بھر لی ۔۔۔اور یہ پجاری مجھے لے کر آگے بڑھ گیا ۔۔ایک میلا سا پردہ اٹھا کر اندر گیا ۔۔اندر ایک گلی تھی ۔۔جس کا دائیں بائیں مختلف کمرے اور ہال تھے ۔۔۔میں راستہ یاد کرتے ہوئے بڑھنے لگا۔۔اور جلد ہی اسی وی آئی پی ہال کے اندر تھا ۔۔اب کی بار راستہ اندر سے تھا ۔۔۔۔میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔یہاں تمام اونچے خاندانوں کی عورتیں بیٹھی تھی ۔۔ایک سے بڑھ کر ایک حسین ۔۔۔یہاں بھی چھوٹا بت تھا ۔۔جس کے سامنے کوئی داسی اپنا رقص پیش کر رہی تھی ۔۔۔۔ایک طر ف کچھ داسیاں بھجن گا رہی تھی ۔۔۔۔بھجن کے ساتھ مختلف لوگ اٹھتے ۔۔پرشاد لے کر جاتے رہے ۔۔۔مگر وہ سفید ساڑھی والی عورت ایسے ہی بیٹھی رہی ۔۔۔بھجن ختم ہو چکا تھا ۔۔تب بھی وہ نہیں ہلی ۔۔۔آ خر میں اٹھا اور پجاری کے قدموں میں جا کربیٹھ گیا ۔۔مسئلہ بتایا اور پرشاد لئے باہر آگیا ۔۔۔اس سے زیادہ رکنا خطرناک تھا ۔۔۔میں واپس اس پجار ی کے پاس پہنچا تھا ۔۔۔اور اس سے پھر التجا کی کہ اگر بڑے پجاری کی کوئی تصویر ہے تو مجھے دیکھا دے۔۔میں روز اس کا دیدار کروں گا تو کام جلدی ہو جائیں گے ۔۔۔۔وہ پجار ی مجھے کوئی زیادہ ہی عقیدت مند سمجھا تھا ۔۔۔اس کا ہاتھ پھر سے اپنی دھوتی میں گیا تھا ۔۔۔اب کی بارآئی فون باہر آیا ۔۔۔اس نے مجھے بڑے پجاری کی تصویر دکھا دی تھی ۔۔۔یہ کوئی جوان پجاری تھا جو باہر کے ملک سے پی ایچ ڈی بھی کرکے آیا تھا ۔۔۔۔تصویر کے بعد میں نے اسے کہا کہ مجھے بڑے پجاری کی رہائش کی سمت بھی بتا دے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے پرشاد کھا نا چاہتا ہوں ۔۔۔اس نے پھر مندر کی اوپری سمت اشارہ کر دیا ۔۔میں نے اس کی طرف دیکھ کرپرشاد منہ میں ڈالا۔پجاری کچھ حیران تھا ۔ایسی عقیدت شاید پہلے دکھنے میں نہیں آئی تھی ۔۔۔۔میں پجاری کے ہاتھ میں ایک اور بڑا نوٹ رکھتے ہوئے باہر آگیا ۔۔۔۔میرا کام ہو گیاتھا ۔۔۔
      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
      باہر آ کر میں نے بائک اسٹارٹ کی اور عاصم کے گھر کی طرف چلا ۔۔اسپیڈ تیز تھی ۔۔دس منٹ میں گھر کے سامنے تھا ۔۔۔بائک باہر روک کر اندر گھس گیا ۔۔عاصم اب تک نہیں آیا ۔۔۔۔رات جس کمرے میں سویا تھا ۔۔اسے چھوڑ کر باقی کمروں کی تلاشی لینے لگا۔۔۔اور حسب توقع ایک خفیہ خانہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا ۔۔میری مرضی کے مطابق سامان بھی موجود تھا ۔۔۔میں نےجلدی سے سامان اٹھا کر ایک بیگ میں بھرا ۔۔۔ہتھیار کے نام پر ایک شکاری چاقو ملا اسے بھی ٹانگ سے باندھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔بھاگتا ہوا باہر آیا ۔۔۔اور بائک لے کر مندر کی طرف چل پڑا۔۔۔بائک مندر سے کچھ دور چھوڑ کر پیدل آگے بڑھ گیا۔۔اور تیز قدموں سے چلتا ہوا مندر کے پیچھے پہنچ گیا ۔۔ایک بڑا درخت یہاں موجود تھا ۔۔میں نے دائیں بائیں دیکھا اور تیزی سے اوپر چڑھتا گیا ۔۔۔۔بیگ میری پشت سے بندھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں درخت کی آخری اونچائی پر پہنچ گیاتھا ۔۔مندر کی تیسری منزل تھی ۔۔جب میں کود کر مندر کی چھت پر پہنچا تھا ۔۔۔لیٹے لیٹے میں آگے بڑھنے لگا۔۔یہ سرخی مال ٹائل ٹائلوں سے بنی ہوئی چھت تھی ۔۔جو دو سائیڈوں ترچھی بنی ہوئی تھی ۔۔۔جلد ہی میں حصے پر پہنچ چکا تھا جہاں لالچی پجاری نے مجھے اشارہ کیا تھا ۔۔۔میں لیٹے لیٹے اس چھت کا جائزہ لینے لگا۔۔ایک ٹائل مجھے کچھ اکھڑی ہوئی لگی تھی ۔۔۔۔میں کھسکتا ہوا قریب گیا ۔اور اسے آہستگی سے اٹھانے لگا۔۔میں نے ٹائل آہستہ سے اٹھا کر اندر آنکھ لگانے کی کوشش کی ۔۔۔اور کامیاب بھی ہوا ۔۔۔اندر بڑا پجاری ایک ٹانگ پر کھڑا پوجا میں مصروف تھا ۔۔۔۔
      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
      پجاری کا ایک پاؤں بیڈ پر تھا ۔۔دوسرا زمیں پر ٹکا ہوا تھا ۔۔اگلے حصےمیں دھوتی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور بیڈ پر گھوڑی بنی ایک لڑکی آہیں بھر رہی تھی ۔۔۔اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔چوتڑ خوب نمایاں اور گول تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر دیکھتا رہا پھر ٹائل کے نیچے ایک پتھر رکھ کر سیدھ ہو گیا ۔۔اب یہ لڑکی کوئی داسی تھی یا عقید ت مندوں میں سےتھی ۔۔۔۔پجاری کی تصویر دیکھ جس جسم کا میں نے اندازہ لگایا تھا۔۔۔یہ پجاری ویسا ہی تھا۔۔۔میں آدھے گھنٹےتک ایسے ہی لیٹا رہا تھا ۔۔۔کہ مجھے دروازہ کھلنے بند ہونے کی آواز آئی ۔۔۔ٹائل کھلی ہوئی تھی۔۔۔میں نے دو تین ٹائلیں اسی طرح اور اکھاڑی اور پہلے بیگ پھینکا ۔۔ساتھ ہی خود ہی کود پڑا۔۔۔12 سے 15 فیٹ کی یہ اونچائی زیادہ نہیں تھی ۔۔۔جمپ کے ساتھ ہی میں قلابازی کھاتا ہوا پجاری کے بیڈ کی طرف گیا تھا ۔۔جو حیرانگی سے بیگ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔قلابازی کھاتے ہوئے میں چاقو نکال چکا تھا ۔۔اور اب یہ چاقو پجاری کے گلے پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔کوئی آواز نہیں ۔۔۔۔میری سرد آواز نکلی تھی ۔۔نام کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔
      وشنو سرکار ۔پجاری گھگیارا تھا ۔۔۔اب پتا نہیں سرکار نام کا حصہ تھا یامجھے کہ رہا تھا۔۔
      خاموش رہو گے تو جان بچی رہے گی ۔۔۔ورنہ اسی چاقو سے گلہ کاٹ کر تمہار ی بھینٹ چڑھاؤں گا۔۔۔میں نےجلدی سےساتھ رکھا پرانا کپڑا اٹھا یا ۔۔جس سے پجاری نے گند صاف کیا تھا ۔۔اور اس کے منہ میں ٹھونس دیا ۔۔۔بیگ سے رسی لے کر میں اسے باندھنے لگا۔۔۔اور بیگ لئے آئینہ کے سامنے آ بیٹھا ۔۔۔۔۔میک اپ کا سامان میرے سامنے تھا ۔چہرے کے ساتھ میں نے پیڈنگ کی مد د سے اپنے جسم کے مختلف حصوں کو بھی بھاری بنایا ۔۔۔یہ سب مجھے عاصم کے گھر سے سامان ملا تھا ۔۔۔۔۔ ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے چل رہے تھے ۔۔۔میک اپ سے فارغ ہو کر پجاری کے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔اس کا رخ دیوار کی طرف کر کے میں نے اس کے کپڑے پہن لئے ۔۔۔دھوتی کے اوپر ایک گیروے رنگ کی چادر تھی ۔ ۔۔منکے اور مالائیں اتار کر پہنی ۔۔۔ہاتھ میں بڑی بڑی انگوٹھی پہن کر میں ویسا ہی دکھ رہا تھا ۔۔آنکھوں میں گہرے سرمے کی تہہ جمائی ۔۔۔۔۔۔اور آئینہ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔میک اپ مکمل تھا ۔۔۔۔اس کے بعد ایک بڑے اسٹول کو گھسیٹا۔۔۔الماری کو قریب لا کر ٹائل کے نیچے کیا ۔۔۔اور ٹائلز برابر کر کے رکھ دیں ۔۔۔۔وشنو سرکار سے مزید معلومات لینے کے بعد اسے بیڈ کے نیچے شفٹ کر دیا ۔۔۔۔۔اس کا آئی فون برابر میں رکھا تھا ۔۔۔جس میں مختلف بلیو پرنٹ مویز کے ساتھ بھجن اور اشلوک کی ریکارڈنگز تھی ۔۔۔میں نے وہ سنی اور بھاری آواز بنا کر پریکٹس کرنے لگا۔۔۔۔اتنے میں دروازے پر دستک دی ۔۔میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اورزور سے کھنکارا ۔۔۔۔۔میری آنکھیں بند تھیں اور میں مراقبہ کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔
      دروازہ کھلا اور وی آئی پی والا پجاری داخل ہوا۔۔یہی شاید میرا اسٹنٹ تھا یہاں پر ۔۔۔۔سرکار آج کی جتنی بھینٹ جمع ہوئی ہے وہ تجوری میں ڈال دی ہے ۔۔۔یہ چابی ہے ۔۔اور وہ جیوتی دیوی پھر سے آئی ہوئی ہے ۔۔۔آپ سے ملنے کو بے تاب ہے ۔۔۔پچھلے ایک مہینےسے ٹالا جار ہا ہے ۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ کہیں اور چلی جائیں ۔۔۔آج تو وہ اپنے سارے زیور بھی لے آئیں ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔سمجھ تو میں گیا تھا کہ یہ اسی عورت کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔
      میں نے وشنو کی آواز بناتے ہوئے کہا کہ آج رات اسے یہیں رکنے کا کہو اور بولو کہ پجاری اس کی وجہ سے اپنی پوجا کو روک رہے ہیں ۔۔اور آج اس سے ملاقات کریں گے۔۔۔میں نے آنکھیں کھول دی تھیں ۔۔۔چھوٹا پجاری بھی مسکرانے لگا۔۔۔مجھے اندازہ ہو ا کہ اسے بھی سارے کھیل کا پتا ہے ۔۔۔۔۔۔سرکار ٹھیک ہے میں رات ہوتے ہی انہیں بھجوادیتا ہوں ۔۔۔۔اور دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
      میں نے پجاری کا موبائل اٹھا لیا ۔۔۔اس میں کافی ساری اس کی اپنی ویڈیوز بھی تھی ۔۔جن کو وہ شاید بلیک میلنگ کے لئے استعمال کررہا تھا ۔۔۔میں نے تجوی کی چابی اٹھائی اور کمرے میں سرچ کرنے لگا۔۔۔دیوار میں لگی ایک الماری کے اندر ہی تجوری تھی ۔۔جس کا ایک رخ دوسری طرف سے بھی تھا ۔۔۔سونے کے بسکٹ اور زیورات سے لیکر نوٹوں کی گڈیاں۔۔سب اوپر تک بھری ہوئی تھی ۔۔۔میں نے الماری بند کی اوربیڈ پر لیٹ کر سوچنے لگا۔۔۔عاصم کو میں نے میسج کیا تھا کہ میں باہر ہوں ۔۔۔۔رات باہر ہی رکوں گا ۔۔اس نے بھی زیادہ نہیں پوچھا تھا۔۔۔۔پجاری کا موبائل دوبارہ سے چیک کرنے لگا ۔۔مندر میں لگے کیمروں کا کنٹرول بھی اسی میں تھا ۔۔۔پورے مندر میں 30 سے زائد کیمرے لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں سب کیمروں کا جائزہ لیتا رہا ۔۔ایک کیمرہ پچھلی سائیڈ پر بھی تھا ۔۔میں چونک پڑا ۔۔اگرپجاری اس داسی کے ساتھ مصروف نہیں ہوتا تو وہ مجھے پہلے ہی چیک کر چکاہوتا ۔۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔اسی غلطی نے اسے بیڈ کے نیچے پہنچا دیا تھا ۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں رات سر پر آگئی تھی ۔۔
      میں نے اوپر ی منزل کی طرف کا کیمرہ کھولا تو چھوٹا پجاری جیوتی کے ساتھ اوپر آ رہا تھا ۔۔۔اسے داسی والا سفید لباس دیا گیا تھا۔۔۔اور کھانے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھی ۔۔میں دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔۔
      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
      میں نے موبائل سائیڈ پر رکھ کر پھر سے کھنکھا را ۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا اورجیوتی اندر داخل ہوئی ۔۔پیچھے سے چھوٹے پجاری کی آواز آئی تھی ۔۔جاؤ بالک۔۔سرکار کی خدمت کرو ۔۔۔اگر یہ خوش ہو گئے تو تمہاری درگھٹنادور ہو جائے گی۔۔اور دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
      جیوتی جھجکتی ہوئی میرے سامنے آئی تھی ۔۔۔۔۔سفید لباس میں اس کا شادابی رنگ۔۔۔۔خوبصورت چہرہ ۔۔۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ۔۔۔سرخ ہونٹ ۔۔۔بھرے بھرے گال۔۔۔۔بلاؤز سے نکلتے ہوئے گورے گورے بازو ۔۔۔۔۔ایک مرتبہ تو میرا دل بھی دھڑک گیا ۔۔۔۔جتنا صحت مند سینہ تھا ۔۔۔۔۔اتنا ہی اندر اس کا پیٹ تھا ۔۔سپاٹ سا پیٹ جس پر گول ناف کا گھیرا ۔۔۔کمرپر مناسب بھرا ہواگوشت اور نیچے کی طرف کَرو بناتے ہوئے اس کے چوتڑ ۔۔۔۔۔۔لمبے قد کی جیوتی میرے بیڈ کے قریب نیچے جا بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔سفید بلاؤز چھوٹا تھا ۔۔ یا پھر جیوتی ہی صحت مند تھی ۔۔۔بلاؤز سے اس کے گورے گورے ممے پھنسے باہر نکلنے کو بے تاب تھے ۔۔ٹرے سائیڈ پر رکھ کر وہ میری ٹانگوں پر جھکی اور ماتھا ٹیکنے لگی ۔۔۔۔۔میں آلتی پالتی مارے ہوئے بیڈ پر بیٹھا تھا ۔۔۔اور میرے سامنے جیوتی جھکی میرے پیروں پرپہلےہاتھ رکھ کر اس کے درمیاں ماتھا ٹیک رہی تھی ۔۔۔۔اس کے ہاتھوں کا لمس میرے اندر سنسنی جگانے کو کافی تھا ۔۔میں نیم وا آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔منکے میرے ہاتھوں میں گردش کر رہے تھے ۔۔ کمرے میں صرف ایک کارنر والی لائٹ آن تھی ۔۔جو میرے پاس پہنچتے پہنچتے کم ہوتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔ایک طرف خوشبودار لکڑی جلتے ہوئے اپنی خوشبو بکھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔یہ سب آنے والے کو خود بخود ٹرانس میں لے آیا تھا ۔۔۔جب میری بھاری آواز گونجی تھی ۔۔۔۔
      کیا کھٹنا تھی اے سندر ناری جو اس پجاری کو اپنی تپیسا روکنے پر مجبور کیا ۔۔
      مہاراج آپ تو سب جانتے ہیں ۔۔۔۔میری زندگی میں اب کوئی خوشی باقی نہیں رہی ۔۔۔میں جنم دینے کی صلاحیت سے محروم ہوں ۔۔پتی دیو بھی اس لئے دور جا چکے ہیں ۔۔۔۔مہاراج میری سہائتا کرو ۔۔۔۔
      بس اولاد کی منوکامنا ہے ۔۔۔وہ پوری کر دو ۔۔۔جیوتی جھکے ہوئےسسکتی جار ہی تھی ۔۔۔۔۔۔
      کنیا ۔۔اپنے پتی دیو کے بارے میں کچھ بتاؤ ۔۔میں نے اس کا سر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔اس کے بعد اس نے جوبتایا اس کا خلاصہ یہ تھا ۔۔میجر راجیش انٹیلی جنس کا قابل آفیسر تھا ۔۔اور جیوتی اس کی پتنی ۔۔شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے ۔۔۔مگر راجیش گھر میں رہنے کے بجائے ڈیوٹی پر ہی رہتا تھا ۔۔۔ایک دوسال تو راجیش گھر رہا ۔۔اولاد کی کچھ امید تھی ۔۔مگر دو سال کی بعد بعد یہ امید ختم ہوتی گئی ۔۔۔۔مگر اس کے بعد راجیش نے گھر آنا بھی کم کر دیا تھا ۔۔۔میں مسئلہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔
      اور میرا تیر بھی نشانے پر لگ چکا تھا ۔۔کل ٹھیلے والے کے ساتھ پیٹ پوجا کرتے ہوئے میں نے جیوتی کے ساتھ جو گارڈ دیکھی تھی ۔۔۔وہ کوئی عام نہیں بلکہ بلیک کیٹ کمانڈوز تھے ۔۔۔۔اور جس شخصیت کو و ہ پروٹیکٹ کر رہے تھے وہ یہاں کے لوکل انٹیلی جنس چیف کی بیوی تھی ۔۔۔اور اسی پر ہاتھ ڈالنے کےلئے مجھے اتنی تیزی دکھانا پڑی ۔۔۔اب بیڈ کے نیچے پڑا ہوا پجاری اس کا کیا حل نکالتا ۔مجھے پتا نہیں تھا ۔۔مگر میرا حل تو وہی تھا ۔۔۔جو آپ لوگ بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔
      اور میں اسی کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے نرم ملائم بازو میں نے پکڑے اور اپنے قریب بٹھادیا ۔۔۔۔پراتھنا اور جاپ کرنے کے بہانے کپڑے اتارنے کے بہت سے طریقے میرے ذہن میں آ رہے تھے ۔۔۔مگر ایک تو میری ہندی اتنی رواں نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔اور دوسر ی جیوتی کی آنکھوں میں دکھنے والی پیاس مجھے جلدی پر مجبور کر رہی تھی ۔زیادہ دیرمناسب نہیں تھی ۔۔۔۔اس کے جسم سے نکلنے والی لہروں نے مجھے جکڑنا شروع کر دیا تھا ۔۔
      میں نے پھر بھاری انداز میں کہا ۔تم جانتی ہو یہ کام کتنا کٹھن ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہےتمہیں اپنی قیمتی چیز سے محروم بھی ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔مگر جیوتی ہر بھینٹ دینے کو تیار تھی ۔۔۔میں نے اسے علاج کے مرحلے بتا دیے ۔۔کل رات یہاں سے جانے کے بعد اسے تین مہینے تک انتظار کرنا تھا ۔۔۔اتنے ٹائم تک میں ہر رات اس کے لئے خصوصی جاپ کروں گا۔۔۔۔اور پھر چیک اپ میں میری محنت سامنے آنی تھی ۔۔۔وہ تیار ہو گئ ۔۔۔میں نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے تھوڑا اور قریب کیا تھا ۔۔۔۔خوبصورت کالی آنکھوں میں کچھ حیرت آئی تھی ۔۔۔۔وہ سمٹی تھی ۔۔۔اورساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے وہ منمنائی تھی ۔۔مہاراج میری خواہش پوری تو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اس کا جواب دینے کے لئے مجھے حرکت میں آنا پڑا تھا۔۔۔آلتی پالتی کا انداز ختم کر کے میں نے ٹانگیں سیدھی کیں اور بیڈ سے لٹکا دی۔۔ہتھیار ابھی سے تننے لگا ۔۔۔۔اور میں اسے سمبھالنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔۔۔۔میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔چھوٹے پجاری نے تو آنا نہیں تھا ۔۔۔مگر لائٹ ہمارے درمیاں پردہ تھی ۔۔۔جیوتی اگر تھوڑی سی بھی عقل مند ہوتی تو ہتھیار دیکھ کر سمجھ جاتی کہ پجاری تو کیا میں ہندو بھی نہیں ہوں ۔۔قریب ہی ایک چراغ پڑا تھا ۔۔نجانے مہاراج اس سے کیا کام لیتے تھے ۔۔میں نے چراغ جلایا اور لائٹ بند کرتے ہوئے واپس آیا ۔۔بیڈ اچھا خاصا بڑے سائز کا تھا ۔۔۔۔۔میں نے چراغ تھوڑے فاصلے پر رکھا تھا ۔۔۔۔روشنی بیڈ پر پڑ رہی تھی ۔۔۔اور ہمارے سائے سائیڈ کی دیوار پر بننے لگےتھے ۔۔۔۔میں ویسے ہی بیڈ کی سائیڈ پر آ کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے چہرے پر سرخی بڑھ گئی تھی یا پھر چراغ کی روشنی کااثر تھا ۔۔میرے پاؤں بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے ۔۔۔میں نے جیوتی کی بغل میں ہاتھ ڈال کر اسے خود پر لے آیا ۔۔۔۔میرے دائیں بائیں ٹانگ رکھتی ہوئی اس نے پاؤں پچھلی سائیڈ پر نکال دیئے ۔۔اب وہ میری رانوں پر بیٹھی تھی ۔۔نرم اور گرم چوتڑوں کا وزن میری رانوں پر پڑا تو سنسنی اور بڑھ گئی ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے بدن کی دلکش مہک مجھے سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔تنگ بلاؤز میں پھنسے ہوئے ممے میرے سینے سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے ۔۔۔۔سانس کے زیرو بم مموں کو میرے قریب اور دور کر رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے ایک نظرا ن گہری گھاٹیوں پر ڈالی اور گلابی ہونٹوں کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ہلکے سے لرزتے ہوئے یہ ہونٹ ۔بڑی سی غزال آنکھیں جھکی جھکی سی تھیں۔۔۔لمبی گھنیر پلکیں ۔۔۔۔۔میں بازو سہلاتے ہوئے کمر پر ہاتھ لے جانے لگا۔۔۔۔۔۔جیوتی کا گورا بدن ریشم کی طرح ملائم تھا۔۔۔اور میرے لمس سے گرمی پکڑ رہا تھا ۔۔۔میں بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے ہاتھ تک آیا ۔۔۔نرم ناز ک ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں کو پکڑتے ہوئے میں نے اپنے منہ میں ڈالا تھا ۔۔۔۔۔اور ہونٹوں میں دباتے ہوئے چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کچھ ہلی تھی ۔۔۔میرا دوسرا ہاتھ ابھی بھی اس کی کمر کو پر گردش کر رہا تھا ۔۔۔۔جو کندھوں کے درمیان سے ہوتا ہوا نیچے کمرتک پہنچتا۔۔ساتھ ہی میں کمر کی سائیڈ کے نرم گوشت کو ہلکا سا دباتا ۔میں نے جیوتی کا ہاتھ اپنے منہ سے نکالا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے اپنے کندھے پر رکھ دیئے ۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر رکھتے ہوئے اسے تھوڑا آگے دھکیلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے وہ پھسلتی ہوئی آگے کھسک آئی تھی ۔۔۔دونوں بدن کے لمس کی چنگاری نے آگ سی بھڑکائی تھی ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے زور مارا تھا ۔۔۔۔جیوتی کو بھی شاید محسوس ہوا تھا ۔۔۔وہ ہلکی سی اٹھی تھی ۔۔۔۔پھسلتی ہوئی جیوتی آگے آئی تو میرے ہونٹ اس کے انتظار میں تھے ۔۔۔۔میں نے لب سے لب ٹکرائے تھے ۔۔وہ ہلکی سی پھر ہلی ۔۔میں نے ہونٹ چھوڑ کر پورے چہرے کو چوما ۔۔۔۔بند آنکھوں کے اوپر ہونٹ رکھے ۔۔۔۔۔اور پھر ٹھوڑی کو چومتے ہوئے واپس لبوں پر آیا ۔۔۔
      اب کی بار لب قدرے کھلے اور میرے ہونٹوں نے گرفت میں لے لیا۔۔نرم نرم پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لگی تھی ۔۔۔میں نے ہلکے سے دباتے ہوئے کھینچا تھا ۔۔۔اور پھر واپس ہونٹ پکڑے ۔۔۔۔۔وہ اسی طرح بند آنکھوں بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ پیچھے بالوں میں لےجا کر بالوں میں گھمانے لگا۔۔۔ساتھ بال کھینچتے ہوئے تھوڑا سر پیچھے اٹھایا ۔۔۔۔۔اور ہونٹو ں کو ہونٹ سے تھام کر چوسنے لگا۔۔۔۔میرا تھوک نکل کر اس کے ہونٹوں پر چمکنے لگاتھا۔۔۔جیوتی اب تک ایسے ہی بیٹھی تھی ۔۔۔بس اس کے ہونٹوں سے گرماہٹ مجھ میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ہونٹ چوستے ہوئے شدت بڑھائی تھی ۔۔۔۔۔۔میرے کندھے پر رکھے اس کے ہاتھوں کے دباؤ بڑھا یاتھا۔۔۔۔۔میں نے ہونٹ چوستے ہوئے زبان اندر گھسانے کی کوشش کی ۔۔تھوڑی سی مزاحمت ہوئی مگر پھر اجازت مل گئی ۔۔ اور میں نے من مانی شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔اپنا تھوک میں اس کے منہ میں گرا تا جا رہا تھا ۔۔۔جو منہ سے بہتا ہواگردن سے نیچے جانے لگا۔۔۔ایک مرتبہ جیوتی نے آنکھ کھول کر مجھے دیکھا۔۔۔لال ہوئی آنکھیں شراب کی طرح مدہوش تھیں ۔۔۔۔اور پھر آنکھیں بند کردی ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے بھرپور انگڑائی لے کر اپنی موجودگی کا احساس دلا یا تھا ۔۔۔۔۔اور تھی بھی دھوتی ۔۔۔۔۔میں نے جیوتی کی ساڑھی کا پلو کھینچ کر اتارا تھا ۔۔۔۔۔ایک تراشا ہوا بھرپور جسم میرے سامنے تھے ۔۔۔۔جو تنگ سے بلاؤز سے پھٹا پڑ رہا تھا۔۔۔نیچے بھی ایسا ہی حال تھا ۔۔۔۔۔پیٹی کوٹ اس کے چوتڑ پر فکس ہوتے ہوئےابھار کو اور واضح کر رہا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے بالوں میں گردش کر تا ہوا ہاتھ نیچے اترا تھا ۔۔۔۔۔اور بلاؤز کی ڈوریاں کھلنے لگا۔۔۔۔۔جیوتی کے جسم میں لرزش بڑھنے لگی ۔۔۔جیسے کوئی قیمتی چیز ظاہر ہونے جا رہی ہو۔۔۔اور جو سامنےآیا تھا وہ شاید انمول ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلاؤز کسی بیکار چیز کی طرح میری گود میں گرا تھا ۔۔۔۔۔۔اور شان سے اٹھے ہوئے دود ھ کے دو جام میرے منتظر تھے ۔۔۔۔میں نے جیوتی کو دیکھا ۔۔۔آنکھیں اب بھی بند تھیں ۔۔۔۔۔۔مجھے لگا جیسے بند آنکھوں سے چیلنج کیا جارہا ہے ۔۔۔فتح کرنے کا ۔۔۔تسخیر کرنے کا ۔۔اور اپنے جھنڈا گاڑنے کا ۔۔۔۔۔۔میں اپنے ہاتھ نیچے لے کر اس کے چوتڑ پر رکھتے ہوئے اسے اوپر اٹھا دیا ۔۔۔دودھ کے جام اچھل کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔۔وہ میرے اوپر بیٹھنے کے بجائے گھٹنے پر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔پینے کی دعوت دی گئی تھی اور جام ساقی نےسجائے رکھے تھے ۔۔۔۔میں نے ہاتھ چوتڑ پر ہی رکھے ۔۔اور ہونٹ جام پر رکھ دئیے ۔۔۔۔۔اپنے پورے ہونٹ کھول کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ۔۔اوروہ دائیں بائیں اوپر نیچے گھوم کر کہتے کہ پکڑ کر دکھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بھی آگے کی طرف زور دے کر قابو کرنے لگا ۔۔۔اور ایک دودھ کے جام کے نپلز کو پکڑ ہی لیا ۔۔۔ہونٹوں میں دبوچ کر کھینچا تھا ۔۔۔۔تھوڑے سے کھینچ کر منہ سے چھوٹ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اب دوسرے جام پر زور آزمائی کی تھی ۔۔۔۔اس کے نپل بھی کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔سختی سے تنے ہوئے دونوں اپنی جگہ پر ہی باؤنس ہوتے اور میں کوشش کر کے ہونٹوں سے نپلز دبوچنے کی کوشش کرتا ۔۔۔ہاتھ لگانے کی اجازت شاید نہیں ملی تھی ۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی میری کوشش جاری رہی تھی ۔۔ دودھ کے جام شاید لبالب بھرے ہوئے تھے ۔۔گرنے کا خطرہ تھا ۔۔جبھی جیوتی آگے کو زور دیتی ہوئی اسے میرے منہ سے لگانے لگی ۔۔۔۔۔۔میں نے بھی خالی نہیں لوٹایا ۔۔۔اور پوری دلجمعی سے پینے لگا۔۔۔وہ اپنی مرضی سے باری باری دونوں جام میرے منہ سے لگاتی ۔۔۔۔اور میں اپنی پیاس بجھانے لگا۔۔۔میرے صبر کا جام بھی لبریز ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔سکون رخصت ہو کر وحشت کو دعوت دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے جیوتی کے چوتڑ پر زوردے کر اسے خود سے چپکا دیا ۔۔اور کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔نیچے سے دھوتی بھی آگے کو نکلی ہوئی تھی ۔۔۔سامنے کی طرف تمبو کھڑا ہوا تھا ۔۔۔جیوتی کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے میں اوپر جھک گیا ۔۔۔۔۔۔دودھ کے پیالے ہاتھوں میں تھامے تھے۔۔کیا گول مٹول سے تھے ۔۔۔۔۔سخت اور تنے ہوئے ۔۔۔۔ہلکے سے براؤن نپل ۔۔۔جن کے برابر میں چھوٹا سا تل ۔۔۔۔میں دوبارہ سے جھک گیا ۔۔۔اور جی بھر کے دودھ پینےلگا۔۔۔۔دونوں ہاتھ جیوتی کے پیٹ پر پھرتے ہوئے ناف کے اندر گھومنے لگے ۔۔۔اور پھر نیچے کا راستہ ملتے ہی نیچے لپکے ۔۔۔۔۔پیٹی کوٹ کو سامنے سے اٹھاتے ہوئے نیچے اترے ۔۔۔۔۔۔جہاں مخملی سی سیپی اپنے لب کھولے انتظار میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ نے بے اختیار اسے دبوچتے ہوئے پکڑا تھا ۔۔۔سیپی غصے ہو کر پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔دباؤ کا سلسلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔۔۔انگلی پھرتے ہوئے اندر چلی گئی تھی ۔۔۔۔جہاں گرم گرم دیواریں انگلی پر اپنازور لگانے لگیں ۔۔۔۔انگلی نے آگے پیچھے ہو کر غصہ ٹھنڈا کرنے کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔کچھ اور پانی نکلا تھا ۔۔۔۔مگر سیپی کو کچھ اور چاہیئے تھا ۔۔۔میں نے پیٹی کوٹ اتار کر راستہ آسان کیا۔۔
      ادھر ہتھیار اکڑ کر دھوتی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈے لگا۔۔۔۔۔میں نے دھوتی کے بل کھول دیئے تھے ۔۔۔۔گرم سخت راڈ باہر اچھلتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے جسم کی لرزش اور بڑھنے لگی ۔۔۔اس کی خوبصورت رانیں پھیل سکڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے نیچے ہو کر جیوتی کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر دیں ۔۔۔۔اس نے ایک نظراٹھا کر مجھے دیکھا اور دوبارہ سے آنکھیں بند کردیں ۔۔۔ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینے سے لگائی ۔۔۔اور بیچ میں آ کر پوزیشن لے لی ۔پاؤں کے بل بیٹھتا ہوا میرے ہاتھ میں ہتھیار لہرا رہا تھا ۔۔۔۔۔ٹوپا چوت کے لبوں پر مسلا ۔۔۔اور پھر اوپر رکھتے ہوئے دباؤ دیا ۔۔۔گیلی چوت نے راستہ دیا تھا۔۔۔ٹوپا اندر جا پھنسا تھا ۔۔۔۔۔جیوتی کا منہ ایکدم سے کھلا تھا ۔۔۔۔گرم سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔میں دباؤ بڑھاتے ہوئے آدھے ہتھیار کو اندر لیتا گیا ۔۔۔اب کی بار خاموشی سے کام نہیں چلا تھا ۔۔۔جیوتی گرم سسکاری کے ساتھ بلند آواز پکاری تھی ۔۔۔آہ ہ ۔۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔۔سس۔۔ میں نے ہتھیار کو باہر کھینچے ہوئے دوبارہ اندر بڑھایا تھا ۔۔۔۔۔پہلے جیسی ہی آواز تھی ۔۔۔آ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔سس ۔۔۔منہ پورا کھل کر دوبارہ بند ہوا تھا ۔۔۔۔آنکھ کے کنارے پر ایک آنسو چمکا تھا ۔۔میں کچھ دیر آہستگی سے ہلاتا رہا ۔۔۔چوت پانی چھوڑے جا رہی تھی ۔۔مگر ہتھیار اندر چاروں طرف سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔۔جیوتی کی گر م گرم سسکاری نکلی جا رہی تھی ۔۔۔۔آنکھیں اور بہہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک قد م پیچھے ہٹ کر گھٹنے ٹیکے تھے ۔۔۔اور پھر اس کے اوپر لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔جیوتی کی ٹانگیں پہلے ہی اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔ان کے درمیان اپنی جگہ بناتے ہوئے میں اس کے چہر ے تک پہنچا تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے شاید ہتھیار بھی اپنی پوری لمبائی کے ساتھ اندر سما گیا ۔۔۔۔جیوتی کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھلی تھی ۔۔پورا جسم ایک دم لرز گیا تھا۔۔۔۔۔میں نے درد کو جیوتی کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے صاف دیکھا ۔۔۔ہونٹوں کے لب کھلےتھے ۔۔۔۔مگر میرے ہونٹوں نے بروقت سمبھال لیا ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو بند کرتے ہوئے دائیں بائیں ہاتھ رکھے تھے ۔۔۔پھر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے میں نے صاف دیکھے تھے ۔۔۔میں نے کمر کو تھوڑا سا پیچھے ہٹایا ۔۔اور ایک بھرپور جھٹکا دے مارا ۔۔۔۔جیوتی پھر ہلی تھی ۔۔۔کانپی تھی ۔۔۔لرزی تھی ۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر دودھ کے پیالوں پر رکھے اور اپنے پورے وزن سے اس کے اوپر لیٹا تھا ۔۔۔۔ٹانگیں اس کی ابھی بھی اوپر ہی تھی ۔۔۔جس کا درد بھی وہ برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔کھلی آنکھوں میں شکوے بھی تھے ۔۔۔شکایت بھی ۔۔۔۔اسے لگا تھا کہ میں نے بے قدری کی ہے ۔۔مگر یہ بے قدری تھی یا نہیں ؟۔۔اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں ۔۔۔
      کچھ دیرمیں اس کےاوپر سوار رہا تھا۔۔ابھی ہلنے جلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ جیوتی کا جسم ایک مرتبہ پھر کانپا ۔۔۔۔اور چوت میں پانی بہنے لگا۔۔۔۔جیوتی کی چوت ہار مان چکی تھی ۔۔۔میں نے ہتھیار باہر کھینچا اور ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔۔جیوتی میرےساتھ ہی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔آنکھیں پھر بند ہو گئی تھی ۔۔۔مگر اب گہر ا سکون تھا ۔۔۔سالوں کی پیاس بجھ چکی تھی ۔۔۔۔
      ابھی لیٹے ہوئے ایک منٹ ہی گذرا تھا کہ جیوتی کے بدن میں حرکت ہوئی ۔۔۔وہ کروٹ بدل کر مجھ پر جھکی تھی ۔۔۔سیاہ گھٹاؤں جیسے بال مجھ پر گرے تھے ۔۔۔ان سب کے درمیان جیوتی کا چہرہ میرے چہرے پرتھا ۔۔اس کے آنسو اب بھی گر رہے تھے ۔۔۔مگر یہ خوشی کے آنسو تھے ۔۔۔وہ روتی ہوئی مجھے چوم رہی تھی ۔۔۔میرے چہرے کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا جو اس نے نہ چوما ہو ۔۔۔اس کی شرم چلی گئی تھی ۔۔۔۔اور احسان مندی آ چکی تھی ۔۔۔وہ اپنا برہنہ پن بھول چکی تھی ۔۔۔اور اب مجھے میں سمانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بھی موقع دیا۔۔۔اور اسے خود میں سمیٹ لیا ۔۔۔۔اس کے سختی سے تنے ہوئے ممے پہلی مرتبہ میرے سینے سے ٹکرائے تھے ۔۔میرے اوپر وہ سوار تھی ۔۔۔۔میں نے ٹانگوں موڑ کر اسے قابو کیا تھا۔۔۔نیچے سے ہتھیار بھی ہم دونوں کے درمیان تھا ۔۔۔مگر اس کاخیال ہم دونوں کو نہیں تھا ۔۔ابھی وحشتوں کاٹکراؤ ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے اسے دبوچے ہوئے کئی کروٹ لی تھی ۔۔۔وہ مجھے سے چمٹی ہوئے چومے جا رہی تھی ۔۔۔میں کروٹ لیتے ہوئے اس کے اوپر آیا تھا ۔۔۔اس کے اوپر لیٹے ہوئے اس کے چہرہ پر جھکا ااور تمام آنسوؤں کوچومنے لگا۔۔۔۔۔وہ یک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی ۔۔جیسے مجھ میں موجود اصل کو ڈھونڈنے کی کوشش ہو ۔۔۔۔۔میں نے اس کے سارے آنسو چوم لئے تھے ۔۔۔جیوتی مجھ سائیڈ پر دھکیلتے ہوئی اٹھی ۔۔۔اور مجھے پر سوار ہو گئی ۔۔۔اب کی بار پہلے سے زیادہ شدت اور گرم بوسے تھے ۔۔۔۔گیلے گیلے یہ بوسے میرے چہرے کو بھی گیلا کرتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔چومتے ہوئے جیوتی مجھے پر لیٹی آگے پیچھے ہل بھی رہی تھی ۔۔۔۔اوپر کی طرف ممے بھی رگڑ کھا رہے تھے ۔۔۔اور نیچے کی طرف ہتھیار ہم دونوں کے درمیاں تھا ۔۔۔جیوتی اس پر رگڑ کھا رہی تھی ۔۔۔۔ وہ میرا چہر ہ چومتی ہوئی نیچے کو آئی ۔۔۔سینے پر بوسے دئے ۔اور نیچے جانے لگی مگر میں نے روک دیا ۔۔جیوتی ایک سیکنڈ کے لئے رکی۔۔۔اور پھر میرے سینے پر سر رکھے کر لیٹ گئی ۔۔۔میں اس کا یہ رنگ و روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔میرے سینے پر سر رکھے وہ کچھ دیر لیٹی رہی ۔۔۔۔کشادہ سینہ اس کے کالے بالوں سے بھر گیا تھا ۔۔۔جو میرے پورے سینے پر بکھرا ہوا تھا ۔۔۔نیچے ہتھیار پتا نہیں اس کے جسم کے کس کس حصے سے ٹکر کھا رہا تھا۔۔۔۔۔پہلے وہ الٹی لیٹی ہوئی تھی ۔۔پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میرے اوپر سیدھی لیٹنے لگی۔۔۔۔تھوڑا سا اوپر کھینچا تھا خود کو ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے کے پاس آ کرچہرے سے چہرہ ملا لیا۔۔۔نیچے اس کا نرم گداز بدن میرے اوپر ہی تھا ۔۔۔نرم گرم چوتڑ میرے پیٹ پر تھے ۔۔۔۔میں حیرانگی سے اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میرا جسم بھی گرمی کھا رہا تھا۔۔۔اس کی محبت بھری یہ حرکتیں مجھے بھی پگھلائے جارہی تھی ۔۔۔۔اس کا اگلا قدم اور حیران کن تھا ۔۔۔سینےسے کھسکتی ہوئی وہ نیچے اتری اور الٹی لیٹ گئی تھی ۔۔۔۔پیچھے سےگورے گورے چوتڑ اپنی پوری گولائی کے ساتھ باہر کو ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس نے جس انداز سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ۔۔میرے ہوش سے اڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔وہ مجھے لپٹنے کا کہ رہی تھی ۔۔۔۔میں بھی کروٹ لے کر اس کے اوپر سوار ہو گیا ۔۔۔۔سر میری طرف کئے وہ مجھے دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔تبھی میں نے نیچے سے ہتھیار کو پکڑا تھا ۔اور اس کے اوپر سوار ہوتے ہوئے چوتڑ پر بیٹھ گیا ۔۔نر م نرم چوتڑ میرا وزن اٹھانے کو تیار تھے ۔۔۔۔مگر میں نے دائیں بائیں گھٹنے رکھتے ہوئے وزن اس پر منتقل کیا ۔۔۔۔ٹوپے کو چوتڑ کے درمیان سے گذارتے ہوئے چوت کے لبوں پر رکھا ۔اورآگے کو لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔اس کےاوپر لیٹے ہوئے ہتھیار آدھے اندر جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔جیوتی نے سرا ٹھا دیا ۔۔۔گرم گرم سسکی چھوڑی تھی ۔۔۔۔میں نے لیٹے لیٹے گھٹنے دائیں بائیں رکھتے ہوئے کمر کو تھوڑا اوپر اٹھا لیا ۔۔۔۔اور پہلا دھکا مارا تھا ۔۔۔ہتھیار پھسلتا ہوا گہرائی میں اترتا گیا ۔۔۔۔۔جیوتی کی آہ نکلی ۔۔۔آہ ہ۔۔۔سس۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کے گرد اپنے گھٹنے سکیڑ کر اس کی ٹانگیں جوڑی ۔۔۔۔اور دوسرا دھکامارا۔۔۔۔یہ پہلےسے زیادہ گہرائی میں اترا تھا ۔۔۔۔جیوتی کی بے اختیار آ ہ نکلی تھی ۔۔۔اس نے سر اٹھا یا اور دوسری طرف رکھ دیا ۔۔۔اس کے بعد میں نے گہرے گہرے دھکے مارنے شروع کر دیے ۔۔۔۔۔۔جیوتی بھی کبھی سسکی بھرتی ۔۔۔کبھی آہ بھرتی ۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اس کے چوتڑ بھی لرزش کھاتے ۔۔۔۔۔باؤنس ہوتے ۔۔اتنے میں اگلا دھکا پڑتا ۔۔۔۔میں نے اگلے چار سے پانچ منٹ رک رک کر اور گہر ے دھکے مارے تھے ۔۔۔اور پھر اس کے اوپر سے کروٹ لے کر سائیڈ پر ہوا ۔۔۔۔جیوتی سیدھی ہو گئی تھی ۔۔جیسے اس کو پتا ہو کہ اگلا اسٹیپ کیا ہوگا۔۔۔بیڈ سے اس کے دودھ کے پیالے رگڑ کھا کر لال ہو گئے تھے ۔۔میں نے جیوتی کی ایک ٹانگ اٹھا کر اوپر کی طرف اٹھا دی ۔۔۔دوسر ی ٹانگ نیچے ہی تھی ۔۔۔۔اٹھی ہوئی ٹانگ جتنی اٹھ سکتی تھی ۔۔میں نے اٹھا کر رکھی ۔۔۔۔۔اور پھر چوت کے سامنے آ گیا۔۔۔ٹوپے کو رکھتے ہوئے دھکا دیا تھا ۔۔۔۔چوت کچھ تنگ سی لگی تھی ۔۔۔اور بغیر رکے اگلا دھکا ۔۔۔۔اس کا منہ کھل کر بند ہو ا۔۔۔۔اس کے بعد دھکے پر دھکا دیتا گیا ۔۔۔۔جیوتی منہ کھول کر آہیں بھرتی ۔۔۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اس کے دودھ کے پیالے بھی اچھلتے ۔۔۔۔۔۔آہ نکلتی ۔۔۔سسکیاں نکلتی ۔۔میں نے چار سے پانچ منٹ درمیانی دھکے مارے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنے پسندیدہ انداز میں آ گیا ۔۔۔۔یہ گھوڑی اسٹائل تھا ۔۔۔جیوتی آگے کو جھکی ہوئی ہاتھ جما کر گھوڑی بنی تھی ۔۔۔۔اور میں پیچھے سے گھوڑا سمبھالے آیا تھا ۔۔ہتھیار ابھی بھی پھنستا ہوا اندر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔بس اس کے بعد پہلا جھٹکا پڑا تھا ۔۔۔جیوتی بے اختیار آگے کو گری ۔۔۔سمبھل کر پھر واپس آئی تھی ۔۔۔دوسرا جھٹکا پہلے سے زیادہ زوردار تھا۔۔۔۔وہ آگے کو کھسکی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے تیز جھٹکے مارنے شروع کر دئے ۔۔۔جیوتی کی برداشت نے جواب دے دیا تھا ۔۔۔اب وہ ہر جھٹکے کے ساتھ چلاتی ۔۔۔جہاں اسے تسکین ملتی وہیں مجھے اگلا جھٹکا اور تیز مارنے کے لئے ایڑ بھی لگتی ۔۔۔۔۔جیوتی کی آہوں نے کمرے کو گرما دیا ۔۔۔۔۔۔نیچے پجاری جی بھی شاید سن رہے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ بیڈ کے ہلتے ہوئے اسپرنگ انہیں جھٹکوں کی شدت بھی بتا رہے تھے ۔۔۔۔۔میرے جھٹکے اب اور تیز ہوئے تھے ۔۔۔جیوتی کی آہیں بھی بلند ہونے لگیں۔۔۔آہ ہ۔۔۔سس۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔وہ برے طریقے سے لرز رہی تھی ۔۔۔۔ممے اچھلے جا رہے تھے ۔۔۔میں نے بھی آگے کو جھکتے ہوئے انہیں تھام لیا ۔۔دھکے اور تیز ہو کر طوفانی ہوئے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جیوتی آگے کو گرنے لگتی ۔۔مگرمیں نے ممے اچھے سے پکڑ رکھے تھے ۔۔۔۔جیوتی اور بلند آواز سے چلانے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔شاید وہ بھی چھوٹنے والی تھی ۔۔۔۔۔۔اورپھر میرے منہ سے بھی غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔جو راجہ کی پہچان تھی ۔۔۔۔جیوتی کی چیخ ایکدم سے رکی تھی ۔۔۔اس نے مڑ کی دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔مگرطوفانی جھٹکے اسے سمبھلنے نہیں دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔انہیں جھٹکوں میں وہ آگے کو گری تھی ۔۔۔۔۔میں بھی پیچھے سے اس پر گرا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک فوارہ سا چھوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔جس نے جیوتی کو ہلادیا تھا ۔۔۔۔اس کا بھی پانی چھوٹا ۔۔۔پہلے بیڈ پر وہ الٹی لیٹی تھی ۔۔اس کے اوپر میں تھا ۔۔۔۔۔پانی ابھی بھی چھوٹے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔سانسیں ابھی بھی برہم تھیں ۔۔۔۔۔۔۔جنوں سرد ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔اور پھر میں کروٹ بدل کر لیٹا ۔۔۔جیوتی کی ساڑھی اوڑھ کر ہم دونوں لپٹ چکے تھے ۔۔کھانا کب کا ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔چراغ جلتے جلتے بھڑکا تھا اور بجھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • #4


        قسط نمبر 5 ۔۔۔۔

        اگلی صبح بڑی دلکش تھی ۔۔۔میں بڑے اطمینا ن سے اٹھا ۔۔آنکھ کھلی تو کچھ عجیب سامنظر لگا۔۔۔۔پھر یاد آیا کہ میں مندر میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔جیوتی میرے برابر میں اب تک تھی ۔۔۔۔۔۔۔جسم پر سفید چادر پڑی تھی جس سے دلکش ابھار جھلک رہے تھے ۔۔۔میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی پجاری والی حالت میں واپس آگیا ۔۔۔۔آئی فون میں کیم سوفٹ وئیر کھولا ۔۔۔۔مندر کے معمولات ویسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کی آنکھ کھلی ۔۔مجھے قریب دیکھ آنکھوں میں نشہ سا آیا تھا۔۔۔۔خود کو چادر میں دیکھ کر کچھ سمٹی ، شرمائی اور اٹھ کر ساڑھی پہننے لگی ۔ساڑی پہن کر وہ بیڈ پر بیٹھی ۔۔اور کہنے لگی کہ مہاراج ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کی داسی بن کر یہیں رہ لوں ۔۔۔اب واپس جانے کا من نہیں ہوتا ۔۔۔آپ کا ہر کام اور سیوا کروں گی ۔۔۔بس اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں ۔۔۔میں نے ایک نظر اس حسن کی دیوی کو دیکھا ۔۔۔اور کہا اچھا پہلے ناشتے کا بندوبست کریئے ۔۔۔رات کا بھوجن بھی نہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کو تیار ہونے کا کہہ کرمیں نے گھنٹی بجا ئی ۔۔ ۔۔۔چھوٹا پجاری انتظار میں تھا ۔دوسرے فلور کے کمرے سے نکل کر وہ اوپر آنے لگا۔۔۔اس کا بستر بھی خالی نہیں تھا ۔۔ایک نسوانی وجود وہاں بھی لیٹا ہوا تھا ۔۔پجاری جیوتی کو لے کر چلا گیا۔۔۔میں نے عاصم کوکال کی کہ ۔۔کہ حلیہ تبدیل کر کے رادھا کشن مند ر چلے آؤ ۔۔اور بڑے پجاری سے ملنے کا بولو۔۔وہ کچھ حیران تو ہو ا مگر سوال پوچھے بغیر بیس منٹ میں پہنچنے کا کہا ۔۔میں نے چھوٹے پجاری کو بتا دیا کہ آنے والے کو کمرہ میں پہنچا دیا جائے ۔۔۔۔
        آدھے گھنٹے بعد عاصم میرے سامنے تھا ۔۔۔وہ مجھے پہلی نظر میں پہچان گیا تھا ۔۔۔۔لپٹ کر بولا سرکار بہت تیز جا رہے ہو۔۔۔کل تک ہمارا غریب خانہ ۔۔۔اور آج اس عالیشان کمرے میں ۔۔۔۔
        میں نے اسے پوری صورتحال سمجھا دی ۔۔اور آگے کو پوچھا ۔۔وہ بھی سیریس ہو گیا ۔۔
        راجہ صاحب ۔۔آپ نے آتے ہی اسپیڈ ماری ہے ۔۔اب تک پورا پلان میرے دماغ میں تھا ۔اس لئے کہیں نوٹ نہیں کیا تھا ۔۔اب ضرورت پڑی ہے تو بتاتا ہوں ۔۔۔۔
        اس نے ایک کاغذ اٹھا اورمیرے سامنے بیٹھ گیا ۔۔اور پینسل سے ڈرائنگ بنانے لگا۔۔۔۔یہ راج گڑھ سے شملہ تک کا روڈ ہے ۔۔۔۔شملہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی دائیں طرف ایک روڈ نکل رہا ہے ۔۔جو کانگرا کی طرف نکل رہا ہے ۔۔۔اس روڈ پر ہی انڈر گراؤنڈ وہ ہیڈ کوارٹر بنا گیا ہے ۔۔۔۔جس کی میں نے رپورٹ دی تھی ۔۔یہ ہیڈ کوارٹر مکمل طور پر انڈرگراؤنڈ ہے ۔یہاں صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔باقی ڈرون طیارےشملہ کے ہی ایک آرمی بیس میں خفیہ طور پر رکھے ہیں ۔۔وہ وہیں سے ہی اڑتے ہیں ۔۔دوسرا اسٹاپ پٹھان کوٹ ائیر بیس میں ہے ۔۔ان دونوں جگہ پر ڈرون طیارے رکھے گئے ہیں ۔۔۔۔اب یہ شملہ والے ہیڈ کوارٹر میں۔سامنے مین انٹرنیس ہے ۔۔۔اسٹاف بھی اندر رہتا ہے ۔۔ایک مہینے بعد اسٹاف تبدیل ہوتا ہے ۔۔جب اسٹاف آتا ہے تو اندر بیٹھے ہوئے لوگ کیمرہ میں دیکھ کرانٹرنیس کھولتے ہیں ۔۔اور اب تک کی معلومات کے مطابق فیس ڈیٹکٹ کرنے کے علاوہ ریٹینا اسکینر بھی لگائے گئے ہیں ۔۔غلط بندہ اندر داخل کرنا مشکل ہے ۔اور پیچھے والی انٹرنس ایمر جنسی حالت میں کھولی جاتی ہے۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کے کئی کلو میٹر تک فضائی نگرانی اور زمینی نگرانی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
        عاصم نقشے کے ساتھ بتاتا بھی جار ہا تھا ۔۔۔۔۔آخر میں بات ختم کرکے وہ رکا۔۔۔۔اور سر اٹھایا ۔۔
        ایک مہینے تک جو اسٹاف اندر رہتا ہے ۔۔اس کا کھانا پینا اور دوسری چیزیں کیسے پوری ہوتی ہیں ؟میں نے پوچھا ۔
        عاصم مسکرایا ۔۔میں اسی سوال کی آپ سے توقع کر رہا تھا ۔۔یہاں راج گڑھ میں آرمی کا سپلائی سنٹر ہے ۔۔۔ہر دس دن بعد یہاں سے فروزن فوڈ ، اور دوسری چیزیں یہاں سے اسپیشل ٹرک سے بھیجے جاتے ہیں ۔ٹرک کا اپنا مخصوص روٹ ہے ۔۔۔۔اور اس ٹرک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ٹریک کیا جاتا ہے ۔۔۔راستے میں کہیں بھی رک جائے تو فورا ہی چیکنگ کرتے ہیں ۔۔کسی بھی مشکل میں یہ ٹرک پورا خودہی بلاسٹ ہو جاتا ہے ۔یہ ٹرک پچھلی انٹرنس سے ہر دس دن بعد اندر داخل ہوتا ہے ۔۔۔اور اندر کا کوڑا کچرا لئے باہر آتا ہے ۔۔۔۔۔اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گاکہ میں یہاں راج گڑھ میں کیا کر رہا ہوں ۔۔۔
        اس ہیڈ کوارٹر کی سیکورٹی میجر راجیش کے ذمے ہے ۔۔یہ آرمی کی اسپیشل فورس سے انٹیلی جنس میں ٹرانسفر ہوا تھا ۔۔۔اور ٹرک لینے یہ خود آتا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ بلیک کیٹ کمانڈوز کا دس رکنی دستہ ہے جن کو ہر قسم کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔۔۔
        میں یہ سب معلومات سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔اب تک پلان بنانے کاکچھ خاص تجربہ نہیں تھا ۔۔بس فوری ایکشن میں ہی میرا دماغ تیز چلتا تھا۔۔۔۔مجھے سوچ میں دیکھ کر عاصم بولا ۔۔۔۔راجہ صاحب میں خوش قسمتی سے سپلائی سینٹر میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔آفیسر رینک کے کچھ لوگ ہیں ۔۔۔اب صرف اس ٹرک کے ڈرائیور کو ٹریس کرنے میں لگا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔اگلی سپلائی کل ہی جانے والی ہے ۔۔آج رات یہ میجر راجیش راج گڑھ آئے گا اور صبح چار بجے ٹرک لے کر شملہ پہنچے گا۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔۔
        میں نے عاصم سے پوچھا ۔۔۔اگر ہیڈکوارٹر سے میجر راجیش نہ آئے تب ٹرک کی چیکنگ کی کیا صورتحال ہو گی ۔۔۔۔۔۔
        پھر کافی آسانی ہے ہم ٹرک میں اپنے لئے جگہ بنا لیں گے ۔۔۔سپلائی آفیسر ہی اپنا بندہ ہے ۔۔۔انہیں بھی میجر راجیش کا ہی ڈر ہوتا ہے۔۔ورنہ یہ تو اس میں بھی اپنے کھانچے نکا ل لیں ۔۔عاصم نے پرجوش آواز میں کہا۔
        تو پھر سمجھو کہ اس مرتبہ میجر سپلائی لینے نہیں آئے گا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
        عاصم اچھل ہی پڑا تھا ۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔الہ دین کا چراغ تو آپ کو نہیں مل گیا ۔۔۔
        الہ دین کا چراغ تو نہیں ملا مگر میجر راجیش کی بیوی ضرور مل گئی ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ راجیش کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔۔۔میں نے پچھلی رات کی کہانی عاصم کو سنا دی ۔۔وہ بھی ہنسنے لگا۔
        اور پھر کہا کہ راجہ صاحب پلان بالکل واضح ہے ۔۔آپ راجیش کو کسی طرح رکوا دیں ۔۔۔سپلائی سینٹر والا اپنا بندہ ہے ۔۔۔۔اس سے ملنے کے بہانے جائیں گے اورٹرک کے نیچے ہی جگہ بناتے ہیں ۔۔۔میں دو چار بیلٹ کا انتظام کر لیتا ہوں جس سے ہم ٹرک کے نیچے خود کو باندھ سکیں ۔۔۔ایک مرتبہ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو جائیں تو پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔میں نے بھی ہامی بھر لی ۔عاصم کو تجوری دکھائی کہ اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا آپ کی دولت ہے ۔۔آپ جانیں آپ کا کام ۔۔ہم تو پرندوں کی طرح ہیں ۔۔آج یہاں تو کل وہا ں ۔۔۔۔میں نے بیل بجا کرچھوٹے پجاری کو بلوا لیا۔۔وہ عاصم کو باہر چھوڑ کر آ گیا ۔۔۔
        جیوتی بھی فریش ہو کر آ گئی تھی ۔۔۔اس کے گالوں کی سرخی پہلے سے بڑھی ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ میرے لئے ناشتہ لے آئی تھی ۔۔۔ کل جب میں نےدیکھا تھا تو چہرے پر اداسی تھی ۔۔مگر آج وہ اداسی دور ہو چکی تھی ۔۔۔۔جیوتی کے انداز بھی تبدیل ہو چکےتھے ۔۔وہ راجیش کو چھوڑنے کو تیار تھی ۔۔۔اور ناشتہ کے دوران وہ کئی بار اس کا اظہار بھی کر گئی ۔۔۔۔۔۔میں خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔۔ناشتے کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے ۔۔اس نے بتایا کہ راج گڑھ میں وہ ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے ۔۔جبکہ شملہ میں اس کا اپنا بھی ایک گھر ہے ۔۔۔میں نے ایڈریس اور نمبر لے لیا ۔۔اور پھر تجوری کی طرف بڑھا ۔۔۔۔زیورات کا ایک خوبصورت سیٹ نکال کر جیوتی کو دیا ۔۔۔۔۔اس نے انکار کیا کہ مہاراج ان چیزوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔میں نے کہاکہ یہ میری نشانی سمجھ کر رکھو ۔۔۔وہ خوش ہو گئی ۔اور وہیں پہن کر دکھانے لگی ۔۔۔اتنے میں میں نے ایک چادر اٹھا کر بیڈ پر بچھا دی ۔۔۔اور تجوری نکال کر خالی کرنے لگا۔جیوتی اتنی دولت دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔۔میں نے ساری دولت اٹھا کر باندھ دی ۔۔اور جیوتی سے کہا کہ اب غور سے میری بات سنو ۔۔۔تم ابھی یہاں سے اپنے گھر جا رہی ہو ۔۔یہ دولت اپنے ساتھ لے جاکر چھپا کررکھنی ہے ۔۔۔میں تمہیں فون کروں گا ۔تو تم یہ لے کرآؤ گی ۔۔۔اس دولت سے تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں تم پر کتنا بھروسہ کرتا ہوں ۔یہاں مندر پر مجھے کسی پر بھروسہ نہیں ہے ۔۔یہ لوگ مجھے مار کر چھوٹے پجاری کو آگے لانا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔سیاہ آنکھیں مجھ پر جمائے جیوتی غور سے پوری بات سن رہی تھی ۔۔۔۔اب کرنے والا کام سنو ۔۔۔۔۔آج رات کو تمہار ا پتی راج گڑھ آ رہا ہے ۔۔۔صبح وہ شملہ کے لئے نکلے گا۔۔تم کچھ بھی کرو ۔۔اسے کل ناشتے تک اپنے پاس روک لو ۔۔آنے والی رات اس کے لئے بہت اشبھ ہے ۔۔۔۔ اگر کل وہ جانا چاہے تو خیر ہے جانے دینا ۔۔۔جیوتی کا ذہن کچھ کنفیوژ ہوا تھا کہ مجھے کیسے پتا راجیش نے آج رات آنا ہے ۔۔مگر وہ اسے بھی میری کوئی کرامت سمجھی اور سر ہلاتے ہوئے راضی ہو گئی ۔۔۔۔جاتے ہوئے جیوتی پھر لپٹنے لگی ۔۔۔مہاراج میں آپ کے فون کا انتظار کروں گی ۔۔اس کے گارڈ مندر میں ہی تھے ۔۔اور مجھے یقین تھا کہ حفاظت سے یہ دولت لے جائےگی ۔۔۔۔۔۔جیوتی کو رخصت کرنے کے بعد میں نےپجاری کو کھینچ کر باہر نکالا۔وہ مجھے اپنی جگہ پر براجمان بیٹھا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کی حالت پتلی ہوئی وی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ کھول کر دوسر اس کے پیروں سے باندھ دیا اور رات کا باسی کھانا کھانے کو دیا۔۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے میں اسے دیکھ رہا تھا۔۔ایک رات کی قید نے اس کی اکڑ ختم کر دی تھی ۔۔۔۔سالہا سال کی ہڈ حرامی نے اسےکام چور اور نکھٹا بنا دیا تھا ۔۔۔اور بزدل تو یہ قوم ہمیشہ سے ہے ۔۔۔کھانا کے بعد میں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔میرے جانے کے بعد کوئی شورشرابہ نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔ورنہ دوبار آ کر جان سے ماروں گا ۔۔اسے اچھے سے سمجھا کر میں نے ا س کا آئی فون اٹھایا اور ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں ۔۔۔پھر خیال آیا تو موبائل ہی نیچے مار کو توڑ دیا ۔۔۔میں نے اس کے منکے اور انگوٹھی اتار کے اس کے حوالے کی ۔۔۔اور اپنے پہلےوالے حلیئے میں آ گیا۔عاصم کو مندر کے پیچھے آنے کا کہ میں۔۔بیگ لے کر باہر آیا ۔۔۔۔موبائل ٹوٹنے کیوجہ سے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔میں نے اس کے کمرے کی چھت سے باہر نکلتی ہوئی ٹائل کو پکڑ کر جھولا اور اوپر چڑ ھ گیا ۔۔بیٹھے بیٹھے میں درخت تک پہنچا ۔۔۔اور درخت سے ہوتا ہو ا نیچے آ گیا ۔۔۔۔۔عاصم پہنچ چکا تھا ۔۔اس کے ساتھ بائک پر بیٹھا اور واپس گھر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ چائے کی شدت سے طلب تھی ۔۔اور ہم دونوں میں بھی یہ مشترک بات تھی ۔۔۔عاصم کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔اور کچھ دیر بعد چائے لے کر آیا ۔۔۔چائے کے بعد میں نے عاصم سے ایکسپلوزو کے بارے میں پوچھا کہ ریموٹ کنٹرول اور دوسرے طرح کے مل جائیں گے ۔۔۔اس نے کہا راجہ صاحب آپ بالکل فکر نہ کریں ۔۔جس سپلائی سنٹر سے کل مال جا رہا ہے ۔۔اسی میں اپنی سیٹنگ ہے ۔۔۔۔میں نے سامان کی لسٹ بنانی شروع کر دی ۔۔۔چائے پی کر آرام کرنے لیٹ گیا ۔۔پچھلی رات بھی سکون سے نہیں گذری اور اگلی رات کا کچھ پتا نہیں تھا ۔۔۔عاصم لسٹ لے کر فون کے ساتھ مصروف ہو گیا ۔۔۔شام کو میری آنکھ کھلی تھی ۔۔عاصم باہر گیا ہوا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ آ گیا ۔۔ایک بیگ میں مطلوبہ سامان تھا۔۔۔۔۔عاصم بیگ میرے سامنے رکھتے ہوئے بولا ۔۔سرکار سامان حاضر ہے ۔۔۔میں بیگ کھولا اور دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔یہ سی فور چارجز تھے ۔۔۔جو ایک انچ کی مقدار میں ایک ہزار انچ کی تباہی مچاتے تھے ۔مختلف قسم کے ڈیٹو نیٹرز تھے ۔۔آٹو ٹائمر اور دوسرے ریموٹ کنٹرولڈ۔۔۔ساتھ ہی مشین پسٹل ، سائلنسر اور ایمونیشن وغیرہ تھے ۔۔
        میں نے مسکراتے ہوئے کہ ہیڈکوارٹر کی بارات کا مکمل انتظار کر کے لائے ہو ۔۔۔۔۔۔شام ہو چکی تھی ۔۔۔اور عاصم کی معلوما ت کے مطابق راجیش رات کو ہی راج گڑھ آتا ہے ۔۔اور صبح 3بجے فکس یہاں سے نکلتا ہے ۔۔۔۔اوراگرجیوتی راجیش کو اپنے پاس روکتی ہے ۔۔تب کیا سیٹنگ بنتی ہے اس کا کچھ نہیں پتا تھا ۔۔۔عاصم نے ایک بندہ اس کام پر لگا دیا تھا ۔۔۔رات کا کھانا ہم نے گھر میں ہی کھایا تھا ۔۔۔اس کے بعد چائے کا دور چلا ۔۔۔۔رات 1 بجے میں اور عاصم باہر نکلے تھے ۔۔۔۔ہم آرمی والوں کی سپلائی سینٹر پہنچے تھے ۔۔عاصم مین گیٹ سے اندر گیا ۔۔۔اور کچھ دیر بعد ایک پچھلا گیٹ کھلوا کر مجھے اندر لے گیا ۔۔یہ چور راستہ تھا ۔۔۔شراب و شباب کی انٹرنیس کے لئے یہاں سے راستہ نکالا تھا ۔۔۔۔ایک بڑے سے اسٹوریج ہال میں عاصم مجھے چھوڑ کر دوبارہ اندر گیا ۔۔۔۔۔۔یہ ایک گھنٹہ میں نے ایسے ہی گذارا تھا ۔۔۔۔۔اس وقت ٹرک شاید لوڈ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے لے جا کر دور سے ٹرک دکھادیا۔۔۔کچھ بیلٹ لا کر دیں کہ آپ نیچے جا کر جگہ بنائیں ۔۔۔۔۔میں ان کے سامنے مین گیٹ سے جا کر پچھلے گیٹ سے واپس آؤں گا۔۔۔۔میں بیلٹ لئے ٹرک کے نیچے گھس گیا ۔۔۔۔ٹرک بڑا اور جدید تھا ۔۔۔میں نے آسانی سے بیلٹو ں کی مدد سے دو جھولے بنا لیے ۔۔۔اور بیگ کو رکھ کر ایک جھولے پر نیم دراز ہو گیا ۔۔۔کچھ دیر میں عاصم بھی چھپتا چھپاتا آ گیا ۔۔۔ایک جھولا اس نے سمبھال لیا۔۔۔تین بجنے میں دس منٹ ہی باقی تھے ۔۔۔۔کچھ دیر میں ہمیں قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔۔اور پھر ٹرک اسٹارٹ ہو گیا۔۔۔

        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
        سیدھے روڈ پر ٹرک کاسفر جاری تھا ۔۔عاصم کی معلومات کے مطابق ٹرک کے اندرونی اسکیننگ کا کوئی سسٹم نہیں تھا ۔۔مرسڈیز کمپنی کا یہ ٹرک پہلے ہی آرمرڈ تھا ۔۔۔اور سپلائی بھی آرمی ہاؤس سے ہوتی تھی ۔۔۔اور درمیان میں کہیں رکنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ۔۔اس لئے ہم بے فکری سے ٹرک کے نیچے بیلٹ سے بندھے ہوئے سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔عاصم نے بیگ بھی ایک بیلٹ سے اٹکا دیا تھا ۔۔۔اس کے چہرے پر جوش کے آثار تھے ۔۔جو یقینا بہادری کی علامت تھی ۔۔۔۔۔۔میری گھڑی میں ٹائم کے ساتھ اسپیڈو میٹر بھی تھا ۔۔۔اور ٹرک اس وقت سو کلو میٹر کی اسپیڈ سے بھاگ رہا تھا ۔صبح کے اجالے پھیل رہے تھے ۔۔۔۔۔بیس منٹ کا سفر رہ چکا تھا ۔۔۔عاصم نے لیٹے لیٹے ہی بیگ کی زپ کھولی اورایک سائیلنسر لگا پسٹل نکال کر مجھے پکڑا دیا ۔۔۔میں نے میگزین نکال کر چیک کیا ۔۔۔۔اور پھر سائیڈ ہولسٹر میں اٹکا دی ۔۔۔۔ٹرک کی اسپیڈ کچھ آہستہ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے چاروں طرف باڑ لگے ہوئے ایریے کو دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور پھر ایک گیٹ سے اندر جا کرٹرک رک گیا تھا ۔۔۔۔ڈرائیور اتر کرباہر آیا ۔۔ ۔۔اور کچھ قدم آگے جا کر رک گیا ۔۔۔۔اور پھر واپس آ کر ٹرک میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔میں نے ہائیڈرولک سسٹم کی مخصوص آواز سنی ۔۔۔۔۔اور ٹرک کے سامنے سے ایک روڈ کا ایک ٹکڑا اندر کی طرف جھکتا چلا گیا۔۔۔۔۔اس پورے ایریئے کو زبردست طریقے سے کیمو فلاج کیا گیاتھا ۔۔۔۔ٹرک آگے بڑھا۔۔۔میں نے دماغ میں کیلکولیشن کر لی ۔ہم زمیں پر رگڑے بغیر اندر پہنچ سکتے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ٹرک اندر ایک بڑے سے گیراج میں جاکر رکا ۔۔۔اگلی سیٹ سے ڈرائیور اترا ۔۔اور پھر تیز قدموں سے ایک طرف بڑھتا چلا گیا ۔۔۔عاصم نے کہا کہ یہ حاضری اور سامان کی لسٹ دینے گیا ہو گا۔۔۔۔۔اترنے کی کریں ۔۔۔۔۔
        میں نے بیلٹ میں پھنسے ہوئے پیر نکالے ۔۔۔اور ہاتھوں کے بل پر نیچے لیٹتا گیا ۔۔۔اور کروٹ لے کر سیدھ ہوا ۔۔۔چاروں طرف کا جائز ہ لیا ۔قریب ہی کچھ اور گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔۔۔میں ایک گاڑی کے پیچھے جا کراس کی اوٹ میں ہو گیا ۔آس پاس کیمرے نہیں لگے تھے۔پچھلی سائیڈ پر ایک گیٹ تھا۔۔۔۔۔۔عاصم بھی میرے پاس آ پہنچا ۔۔اس کے ہاتھ میں بھی پسٹل تھی۔۔۔۔جوگرجنے کے بجائے برسنے کے لئےتیار تھی ۔۔۔عاصم مجھے روک کر آگے بڑھا ۔۔جس طر ف ڈرائیور گیا تھا ۔۔۔اور میں گاڑیوں کا جائزہ لینےلگا ۔۔۔یہ مخصوص اندا ز کی آرمرڈ جیپ تھیں ۔۔۔اور شاید میجر راجیش کی ٹیم کی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے جیپ سے چھیڑ چھاڑ کا ارادہ موخر کر دیا ۔۔۔۔۔الارم سسٹم اور دوسری چیزیں کی موجودگی کا خطرہ تھا۔۔۔۔عاصم تھوڑی ہی دیر میں واپس آیا تھا ۔۔۔اور بات کرنے کے بجائے دبک کر وہیں بیٹھ گیا ۔۔۔۔میں بھی چپ رہا ۔۔۔اتنے میں قدموں کی چاپ ابھری ۔۔۔۔یہ ٹرک کا ڈرائیور تھا ۔۔۔کوئی فائل اندر ٹرک میں پھینک کر ہماری طرف آیا ۔۔۔ہم اور زیادہ دبک گئے ۔۔۔۔ڈرائیور ہمارے برابر سے ہوتا ہوا پچھلی طرف ایک گیٹ کی طرف گیا تھا ۔۔۔گیٹ پر اسکیننگ مشین تھی ۔۔وہاں اپنا کارڈ سوئیپ کرتا ہوا کھڑا ہی تھا کہ ہم اس کے سر پر پہنچے ۔۔۔ادھر اس نے کارڈ جیب میں ڈالا ادھر میں نے اس کی گردن ناپ لی تھی ۔۔۔مخصوص تکنیک تھی ۔۔۔اس کا آواز اور سانس بھی دب چکی تھی ۔۔۔۔عاصم نے گیٹ کھولااور اندر داخل ہوا۔۔۔اور پھر اوکے کا اشارہ کرتےہوئےہاتھ ہلایا۔۔۔میں نے ڈرائیور کی گردن کو دباتے ہوئے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ڈرائیور بھی شاید کمانڈو ۔ہی تھا ۔۔۔اس نے دروازے کے درمیاں پہنچتے ہی تیزی سے جھک کر مجھے اچھالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اگر وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اچھلتا ہوا سامنے جا گرتا تو یہ اس کی بھول تھی ۔۔۔۔میں اسی تیزی سے اپنے پاؤں اٹھا کر اس کی گردن سے جھول چکا تھا ۔جھولتے ہوئے میں نیچے بیٹھا تھے ۔اور اسے بھی اپنی گود میں گھسیٹ لیا تھا۔۔۔۔میرے وزن نے اس کے جھٹکے کو بھی برابر کرتے ہوئے اسے پیچھے کھینچا تھا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں باہر آئیں تھیں ۔ہاتھ مارنے کی پوری کوشش کی تھی ۔۔مگر۔اگلے تیس سیکنڈ میں وہ بے ہوشی کی نیند سو چکا تھا ۔۔۔۔۔میں نے اٹھتے ہوئے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔۔یہ ایک رہائشی حصہ تھا ۔۔یہاں ایک مہینے جو لوگ رہتے تھے ۔۔وہ یہاں پر آرام کرتے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعدعاصم نے الماری اور دوسری چیزوں کی تلاشی لینی شروع کر دی ۔۔۔۔۔سیکورٹی کارڈ وہ اپنی جیب میں ڈال چکا تھا ۔۔۔اس کے بعد ہم اگلے کمرے میں پہنچے ۔۔یہ بھی فرنش کمرے کی طرح سجا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح اگلے کمرے میں ۔۔۔یہ کل چھ کمرے تھے ۔۔۔عاصم تیزی سے تلاشی لیتا ہوا بڑھ رہا تھا ۔۔اور آخری کمرے کی الماری کی تلاشی لیتے ہوئے وہ ٹھٹکا تھا ۔۔راجہ صاحب یہ دیکھیں ۔۔۔میں اس کے قریب پہنچا یہ ایک اسرائیلی پاسپورٹ تھا ۔۔۔اور ایسے تین اور پاسپورٹ ملے ۔۔اس کا مطلب اس بلڈنگ میں ابھی بھی تین اسرائیلی موجود تھے ۔۔۔میرے خون نے جوش مارا تھا ۔۔انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا سنا تھا ۔۔آج پہلی بار دیکھ بھی لیا۔۔۔
        یہ ٹوٹل چھ کمرے تھے ۔۔۔اور کمرے میں دو دو بیڈ تھے ۔۔صرف آخری کمرے میں تین بیڈ تھے ۔۔ اس کا مطلب 13 بندے اس وقت بندے موجود تھے ۔۔باقی رہی میجر راجیش کی ساتھ کی سیکورٹی کی وہ دس کے قریب اسپیشل کمانڈوز تھے ۔۔۔۔
        میں نے عاصم سے ڈرائیور کو ہوش میں لانے کا کہا اور پیچھے اس کی طرف چل پڑے ۔۔۔اس کو ہوش میں لانے کے بعد عاصم نے کچھ ڈوز دی اور وہ منہ کھولنے پر تیار ہو گیا ۔۔۔اور اس سے ہمارے اندازے کی تصدیق بھی ہو گئی تھی ۔۔۔یہاں13 کے قریب بندے تھے ۔۔جب کہ کمانڈوز پانچ تھے ۔۔باقی پانچ راجیش کے ساتھ تھے ۔۔جو کسی بھی وقت پہنچنے والے تھے ۔۔ڈرائیور نے آرام کر کے دوپہر تک واپس جانا تھا ۔۔۔۔۔۔اور بلڈنگ کا اس نے بتایا کہ جیسے چھ کمرے یہ ہیں ۔۔ویسے ہی آفس کے اس طرف ایک بڑا ہال اور دو چھوٹے کمرے ہیں ۔جبکہ باقی ہال اسٹوریج اور پاور سپلائی کے کام آتے تھے ۔۔۔۔۔میرے ذہن میں پلان بننے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکال لی۔۔ڈرائیور کی کنپٹی پر پڑنے والی ضربوں نے اسے پھر سے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا ۔۔میں نے تیزی سے اس کے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ڈرائیور زمین پر ننگا پڑا تھا ۔۔میں کمرے کے شیشے کی طرف بڑھا اور اس کے کپڑے پہننے لگا۔۔اس کا لباس مجھے کچھ تنگ تھا۔۔۔ایک کمرے سے مجھےآرمی ٹوپی ملی ۔۔وہ پہن کر میں تیار تھا ۔۔۔عاصم کو میں نے کور دینے کا کہا اور آفس کی طرف جانے کے لئے تیار ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپی قدرے جھکی ہوئی تھی ۔۔۔میں سر جھکا کر چلنے لگا۔۔۔گیراج کراس کر کے آگے آیا ۔۔سامنے ہی ایک کمرہ تھا ۔میں آہستہ قدموں سے سر جھکائے چلا جا رہا تھا۔۔۔کہ میری نظر بائیں طرف پڑی ۔۔۔ بائیں طرف سے ایک بڑے ہال کر دروازہ دکھ رہا تھا ۔۔۔اور کوئی بھی مجھے دیکھ سکتا تھا ۔۔اب واپس تو جا یا نہیں سکتا تھا ۔۔میں تیز قدموں سے آفس میں داخل ہو گیا ۔۔۔کمرے میں ایل سی ڈی کے سامنے بیٹھے شخص نے ایک نظر مجھے دیکھ کر کہا ۔۔کیا ہوا دوبارہ کیوں آ گئے ہو ۔۔اور پھر اسکرین دیکھنے لگا۔۔۔۔اسے کچھ تبدیلی کا احساس ہوا تھا ۔۔مگر دیر ہو چکی تھی ۔۔میں لپک کر اس کے پیچھے پہنچا تھا ۔۔۔۔گردن شکنجے میں آگئی۔۔۔اس نے ٹانگ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے کرسی سمیت اسے پیچھے گھسیٹا تھا ۔۔مگروہ آتے آتے بھی ایل سی ڈی گرا چکا تھا۔۔ دھڑام کی آواز سے ایل سی ڈی پیچھے گری تھی ۔۔۔۔میں نے گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے کرسی سے اٹھا یا اور نیچے پٹخ دیا ۔اس کی کمر پر سوار ہوتے ہوئے۔گردن کو مخصوص انداز میں مروڑا ۔۔کڑاک کی آواز کے ساتھ اس کی گردن مڑتی چلی گئی ۔۔۔میں اٹھ کر مڑا اور ساکت ہو گیا ۔۔سامنے ہی ایک کمانڈو میرے سامنے گن تانے کھڑا تھا ۔ہالٹ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا دیئے ۔۔۔۔وہ ایک قدم آگے بڑھا تھا ۔۔تیز نظروں سے آفس کا جائز ہ لے رہاتھا ۔۔مگر موت اس کی پیچھے تھی ۔۔عاصم کا چہر ہ نمودار ہوا تھا ۔۔پسٹل اس کے سر کے پیچھے تھے ۔۔۔ہلکی سی چوں کی آواز آئی۔گولی اس کا ہیلمٹ توڑی ہوئی آگے نکلی تھی ۔۔۔۔میں تیزی سے آگے آیا ۔اور اسے پکڑ کر زمیں پر لٹا دیا ۔بلٹ پروف جیکٹ اورہیلمٹ پہنے یہ کمانڈو اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے کان سے مائکرو فون نکالتا ہوا کان سے لگایا۔۔۔انگلش میں کوئی بولا تھا ۔۔ہیلو راکیش ۔۔ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔مجھے خطرے کی بو آئی۔۔۔وہ لوگ ہوشیار ہو گئے تھے۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی انساس اٹھا لی ۔ ۔۔جی تھری گن میں شمار یہ گن انڈیا کی اپنی میڈ تھی ۔۔۔میں نے رائفل اٹھا کر کاندھے سے لگائی ۔۔اور آفس کے دروازے سے ٹیک لگا لی ۔۔۔مائکرو فون ابھی بھی میرے کان میں تھا ۔۔۔جہاں ہیلو ہیلو کے بعد اب خاموشی تھی ۔۔۔۔عاصم میرے پیچھے تیار تھا ۔۔۔۔میں نے باہر بائیں طرف جھانکا ۔۔۔ہال کے دروازے کی دونوں سائیڈ پر کمانڈوز آچکے تھے ۔۔۔۔میں تیزی سے پیچھے ہوا۔اور۔گن باہر نکال کر میں نے برسٹ چلا یا تھا ۔۔۔۔گن کی گرج کے ساتھ بارود کی بو پھیلنے لگی ۔۔۔۔میں نے پھر جھانکا ۔۔۔۔کمانڈوز اوٹ لے چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے ایک چھوٹا برسٹ اور چلایا تھا ۔۔۔تبھی عاصم میرے برابر سے بھاگتا ہوانکلا ۔۔آفس سے نکل کر وہ گیراج کی سائیڈ پر گیا تھا ۔۔جہاں اسے اوٹ میسر تھی ۔۔اب ہم دو سائیڈ سے مقابلہ کر سکتے تھے ۔۔اتنے میں دو رائفل ایک ساتھ گرجیں تھی ۔۔۔دو لمبے برسٹ آئے تھے ۔۔۔آفس کی اس دیوار پر سےبہت سا پلستر اکھڑا ۔۔میں تیزی سے اندر اوٹ میں ہو گیا ۔۔۔تبھی ایک اسموک گرینیڈ میرے سامنے آ گر ا۔۔۔۔اور کثیف سا دھواں پھیلنے لگا۔۔۔میں نے گن نکال کر ایک برسٹ اور مار ا۔۔۔یہ دھواں تیزی سے پھیلا تھا ۔۔اور باہر راہداری اور آفس کے اندر بھرنے لگا۔۔۔مجھے کھانسی آئی تھی ۔۔۔۔میں منہ پر ہاتھ رکھے تیزی سے دروازے کی اوٹ میں ہو گیا ۔۔قدموں کی آہٹ آئی ۔۔۔۔تبھی میں نے مائکرو فون میں ون ٹو ۔۔کی آواز سنی ۔۔۔تھری کی آواز کے ساتھ ہی گیس ماسک پہنےایک کمانڈو دروازے سے اندر داخل ہوا ۔۔۔رائفل اس کی میرے برابر سے گزر رہی تھی۔۔ ۔۔میں نے اپنی رائفل رکھتے ہوئے پسٹل نکالی اور اس کی رائفل پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔رائفل کی نال میری ہاتھ کے زور سے اوپر اٹھی تھی ۔۔۔کمانڈو نے ٹانگ مارتے ہوئے مجھےا چھالنے کی کوشش کی مگر پسٹل کی گولی اس سے تیز تھی ۔۔پہلی گولی اس کے گھٹنے پر پڑی تھی ۔۔اور دوسر ی چہرے کو پھاڑتی ہوئی پیچھے نکلی ۔۔۔تبھی سامنے سے ایک برسٹ آیا ۔۔مگر ادھورا تھا۔۔۔عاصم نے بیک وقت فائر کرتے ہوئے پیچھے ون ٹو کہنے اور برسٹ مارنے والے کمانڈو کو خاموش کر وادایا تھا ۔۔۔تین کمانڈوز شکار ہو چکے تھے ۔۔میں نے باہر جھانکا میدان صاف تھا۔۔۔۔میگزین تبدیل کرتے ہوئے میں راہداری میں آیا اور آگے بڑھنے لگا ۔۔۔دوسرے شکار کے پاؤچ سے مجھے ہینڈ گرنیڈ مل چکا تھا ۔۔۔۔میں تیزی سے دیوار کی سائیڈ لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔۔۔۔۔قریب پہنچ کر میں نے پن کھینچی اور اندر پھینک دیا ۔۔فرش پر دھاتی گرنیڈ کے گرنے کی ٹن ٹن گونجی تھی ۔۔ساتھ ہی میں نےدوڑنے کی کچھ آواز سنی ۔۔۔۔میں دروازے کے اندر آچکا تھا ۔۔۔سائیڈ کونے پر ٹیبل کے ساتھ کور لئے کمانڈو نے گن سیدھی کرنے کی کوشش کی ۔۔۔برسٹ اس کے چہرے پر پڑا ۔۔۔وہ پیچھے کو گرا ۔۔۔۔میں تیزی سے دوسری طر ف مڑا ۔۔آخری کمانڈو اپنے ہی ایک بندے کی اوٹ میں لئے ہوئے فائر کرنے کو تیار تھا ۔۔میں نے تیزی سے لوٹ لگائی۔۔اور اوٹ میں گیا ۔۔عاصم پیچھے پہنچ گیا تھا۔۔۔اس نے پسٹل کا پورا میگزین اس طرف خالی کیا ۔۔۔۔وہ دونوں ریت کی بوری کی طرح گرے تھے ۔۔۔۔میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور جائز ہ لینے لگا۔۔۔کشادہ ہال میں مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ دس کے قریب بڑی اسکرین لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔جن کے سامنے ہینڈل اور بٹن لگے ہوئے ایک بڑا سا کنٹرول پینل تھا ۔۔۔۔دوسری طرف ایکدوسرے کی اوٹ لیتے ہوئے لوگ تھے ۔۔۔یہ کسی رحم کے محتاج تو تھے نہیں ۔۔۔۔۔عاصم نے کمانڈو کی گن اٹھا ئے ہوئے سب صفایا کردیا ۔۔اسرائیلی ایجنٹ بھی انہی کے درمیان تھے ۔۔۔۔میں مین فریم کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں یہ ہال اجڑ چکا تھا۔فائرنگ اور بارود کی بو پھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔ہم نے ہال کا ایک چکر اور لگایا ۔۔۔اور پھر نکلنے لگے ۔۔۔۔گیراج کی طرف آئے ۔عاصم نے ایکسپلوز نکال کر بلڈنگ میں فکس کرنے لگا ۔۔۔ٹائم بیس منٹ بعد کا رکھا ۔
        اس کے بعد میں آرمرڈ جیپ کی طرف بڑھا ۔۔۔اتنے میں عاصم اندر رہائشی علاقے کی طرف گیا ۔۔۔۔واپس آ کر بتا یا کہ ڈرائیور کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے ۔۔۔میں نے جیپ کھولی اندر چابیاں نہیں تھی ۔۔عاصم آگے آیا اوراسٹیرنگ کے نیچے ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا ۔۔۔اس کے ہاتھ تیزی سے تاروں کو ٹٹول رہے تھے ۔۔۔اور پھر دو تاروں کو توڑتے ہوئے اس نے آپس میں اسپارک کرنا شروع کیا ۔۔۔گاڑی کا انجن جاگ گیا ۔۔۔عاصم نے مجھے کارڈ دے کر گیراج کا گیٹ کھولنے کا کہا ۔۔۔میں سیکورٹی کارڈ لئے گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔سرر کی آواز کے ساتھ فرش نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔عاصم جیپ آگے بڑھاتا گیا ۔۔۔میں بھی جیپ میں سوار ہو گیا۔۔ہمارا واپس کا سفر شروع ہو گیا ۔صبح اچھے سے پھیل چکی تھی ۔۔۔جیوتی نے اپنا کام کر دکھایا تھا ۔۔۔۔راجیش اب تک منظر سے غائب تھا ۔۔اور جب وہ ہیڈ کوارٹر پہنچتا ۔۔وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہوتی ۔۔۔۔۔عاصم ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ہم دو کلو میٹر دور آ کر شملہ ہائی وے پر پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے بلندآوازدھماکے کی آواز آئی تھی ۔۔۔عاصم نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ اور گاڑی۔۔راج گڑھ کی طرف جانے کے بجائے لدھیانہ کی طرف گاڑی موڑ دی ۔شاید اس کی چھٹی حس نے بروقت اشارہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی وقت تھا کہ میں نے راج گڑھ والے روڈ سے ایک ایسی ہی آرمرڈ جیپ آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھی ۔۔۔۔عاصم نے بھی دیکھ لیا تھا ۔۔ہوشیار کی آواز لگاتے ہوئے اس نے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔پچھلی جیپ ہمارے پیچھے ہی آئی تھی ۔۔۔۔اور پھر تعاقب شروع ہوگیا ۔۔۔عاصم نے بھی تیزرفتاری کے سارے ریکارڈ توڑے ۔۔۔مگر ایک تو سیدھا روڈ تھا ۔۔۔دوسر ا پچھلا ڈرائیور بھی مشاق تھا۔۔۔۔۔پچھلی گاڑی قریب آتی جارہی تھی ۔۔اور پھر فائرنگ کے برسٹ کی آواز گونجی ۔۔۔پچھلی گاڑی سے دو گنیں گنگنائیں تھیں ۔۔۔۔ٹائروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔عاصم نے اور اسپیڈ تیز کر دی ۔۔۔۔فائرنگ ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکالتے ہوئے پیچھے فائر کیے۔۔۔مگر اس کا کوئی فائد ہ نہیں تھا ۔۔آرمرڈ جیپ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔عاصم پوری اسپیڈ پر گاڑی کو بھگائے جار ہا تھا۔۔۔خالی روڈ پر عام گاڑی اس اسپیڈ پر نہیں جا سکتی تھی اور وہ ٹریفک میں اس اسپیڈ پر جا رہاتھا ۔۔۔۔میں نے میٹر دیکھا۔۔۔جیپ 160 کلومیٹر سے اوپر کی اسپیڈ پر تھی ۔۔۔۔۔۔تبھی عاصم نے مجھے کہا راجہ صاحب ہم لدھیانے کے قریب ہیں ۔۔۔۔میں تیزی سے کچھ موڑ کاٹتے ہوئے آپ کو اتاروں گا۔۔۔۔آپ اوٹ لے لیں ۔۔جب تک میں ان کو ٹھکانے لگاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔آپ لدھیانے پہنچ کر اس نمبر پر کال کیجئے گا۔۔۔عاصم تیز لہجے میں نمبر بتانے لگا۔۔۔میں اسے روکتا ہی رہا ۔۔مگر وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔۔۔۔اور پھر اس نے تیزی سے گاڑی ایک کچے میں اتاری ۔۔اور اسپیڈ دیتا گیا۔۔۔۔ناہموار رستے پر بھی گاڑی کا سسپنش کمال کا تھا ۔۔۔۔ایک چھوٹے رہائشی علاقے کی طرف گاڑی مڑی ۔۔۔۔یہ ایک رہائش علاقہ تھا ۔۔۔۔عاصم نے تین چار روڈوں پر گاڑی تیزی سے گھمائی اور پھر ایک چوک پر گھماتے ہوئے مجھے اترنے کا کہا۔۔۔میں جیپ کے دروازے سے باہر کو نکلا تھا ۔۔۔اور پیر ٹکاتے ہوئے بھاگتے ہوئے اترا ۔۔یہ کوئی بازار ٹائپ کا علاقہ تھا ۔۔۔ایکطرف لوگوں کو رش تھا ۔۔میں بھاگتے ہوئے ان میں شامل ہونے لگا۔۔۔۔عاصم کی جیپ نے اسپیڈ ماری تھی ۔۔۔اور سیدھی اڑتی چلی تھی ۔۔۔پچھلی جیپ بھی اسی طرح چوک گھوم کر اسکے پیچھے چلی گئی ۔۔میں نے گہری سانس کھینچی اورروڈ کے کنارے چلنے لگا۔۔۔تبھی ایک شخص چلتا ہوا میرےپیچھے آیا ۔۔۔بھاری چادر اوڑھے ہوئے اس شخص کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تھا جس کی نوک میری کمر سےلگی تھی ۔۔۔قریب آ کر وہ تیز لہجے میں بولا۔سیدھا چلتا رہ ۔۔۔ورنہ ادھر ہی سوراخ کر دوں گا۔۔۔۔میں قدم بڑھتا گیا ۔۔۔۔وہ مجھے لیتا ہو ا کچھ گلیوں میں گھسا اور ایک دروازے کے سامنے کھٹکھٹانے کو کہا ۔۔۔دروازہ کھلا اور ہم اندر پہنچ گئے ۔۔۔گھر کچا بنا ہوا تھا ۔۔سامنے مٹی کا فرش اور تین کمرے تھے ۔۔جبکہ باہرصحن تھا چھوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اندر 3 افراد مزید تھے ۔۔۔پگڑیاں پہنے ہوئے یہ نوجوان ہتھیار بند بیٹھے تھے۔۔۔۔اوئے بلبیرے اے کنوں چک لایاجے ۔۔۔۔۔۔آگے بیٹھے نوجوان نے آواز لگائی تھی ۔۔پیچھے والا بلبیرے نے مجھے آگے کو دھکا دیا تھا ۔۔۔۔یہ اس راجیش کی گاڑی سے اترا تھا ۔۔اسی کا بندہ ہے ۔۔۔۔۔میں سمجھ گیا کہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔مگر بندے ٹھیک ہیں ۔۔میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے ۔۔۔ایک سکھ اندر سے رسی لے آیا اورمیرے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دیئے ۔۔۔
        اوئے بلبیرے تو جس کام سے گیا تو وہ کیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔پیلی پگڑی والےنے پھر ہانک لگائی تھی ۔۔
        ہاں شیر سنگھ کام ہو گیا ہے ۔۔۔گاڑی ا پنی کلدیپ لا رہی ہے ۔۔میں اسے دیکھ کر رستے میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔بس آتی ہی ہو گی
        میر ی سمجھ میں یہی آ رہا تھا کہ یہ سکھ خالصوں کا کوئی گروپ ہے ۔۔۔اور شاید راجیش سے ہی ان کا آنکڑہ چل رہا ہے ۔۔۔تبھی باہر گاڑی کے ہارن کی آواز گونجی تھی ۔۔۔اور میں نے ایک بجلی سی اندر آتے دیکھی ۔۔سرخ و سپید رنگت میں یہ پنجاب کی ووہٹی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ کور بڑی سے چادر کے اندر لپیٹے اندر آئی ۔اس کے چلنے میں بے حد پھرتی تھی ۔۔۔۔۔چادر اتار کر سائیڈ پررکھی تو نیچے گولیوں کے میگزیں کے ساتھ پسٹل بھی لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس نے پھر مجھ سے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی ۔کہ میرا ۔راجیش سے کیا تعلق ہے ۔۔۔۔۔مگر میرا تو اس کی بیوی سے تعلق تھا ۔۔راجیش کو تو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔تبھی اندر سے بلبیر چار رائفلیں لے کر آیا ۔۔ایک کلدیپ کو دیتے ہوئے باقی تینوں نے بانٹ لی ۔۔یہ شاید کہیں جانے کی تیار ی میں تھے ۔۔۔میں اطمینان سے بیٹھا انہیں دیکھنے لگا۔۔۔یہ چلےجاتے تو میں سکون سےنکل کر عاصم کے نمبر پر فون کر سکتا تھا ۔۔۔تبھی جاتے جاتے کلدیپ مڑی ۔۔۔اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔؟ ۔۔۔اور بلبیرے کے جواب نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔
        اس نے بڑے سکون سے میرا سکون غارت کیا تھا ۔۔انوں وی اٌتھے لے چلدے نیں۔۔۔۔۔راجیش نال ہری سنگھ دا سودا کراں گے۔۔۔۔۔اور پھرمجھے بندوق کے زور پر اٹھاتے ہوئے باہر کھڑی جیپ میں بٹھا دیا ۔۔بلبیر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا ۔۔اور کلدیپ اس کے برابر میں ۔۔شیر سنگھ اور دو جوان پیچھےآ گئے ۔۔ ۔۔اور میں درمیان میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ ۔۔۔
        بلبیر فون پر کسی سے رابطہ کر رہا تھا ۔۔۔اور پھر فون بند کرتے ہوئے پرجوش آواز میں بولا ۔دس منٹ میں راجیش مین ہائی وے سے گذرے گا۔۔۔۔اس کی سیکورٹی ساتھ نہیں ہے ۔۔وہ راج گڑھ سے گھنٹا پہلے نکلا ہے ۔۔۔۔
        پیچھے بیٹھے سکھ نے بھی راجیش کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ اس سے آج نبٹ ہی لیتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد بلبیر نے جیپ اڑانی شروع کی ۔۔اور پھر جیپ لیتے ہوئے وہیں پہنچا جہاں سے کچھ دیر پہلے ہم گذر چکے تھے ۔۔۔میں ان لوگوں کی مخبری پر حیران تھا ۔ا ن کو صحیح اطلا ع دی گئی تھی ۔۔۔۔عاصم کے پیچھے جوگاڑی گئی تھی اس میں صرف کمانڈو زتھے ۔۔۔اور راجیش پیچھے آ رہا تھا ۔۔۔مین ہائی وے پر پہنچنے کے بعد جیپ ایک سائیڈ پر روکتے ہوئے بلبیر اتر گیا تھا ۔۔۔و ہ فون پر پھر کسی سے بات کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کور بھی اپنی رائفل گود میں رکھے تیار بیٹھی تھی ۔۔۔اور پیچھے والے تینوں نوجوان مجھے گھورنے میں مصروف تھے ۔۔۔بڑی سے چادروں میں لپٹے یہ رائفل اندر چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔بلبیر نے تیزی سے فون بند کیا اور پھرجیپ کی طرف لپکا ۔۔۔۔۔کالی گاڑی ہے ۔۔۔وہ پہنچنے والے ہیں ۔۔۔۔بلبیر کہتا ہواجیپ کا انجن اسٹار ٹ کرچکا تھا ۔جیپ ایک جھٹکے سے اٹھی اور مین روڈ پر آئی ۔۔ ۔۔۔میں نے بریک کے چیخنے کی اونچی آوا ز سنی ۔۔۔۔اور بے اختیار جیپ سے پیچھے دیکھا۔۔۔بلیک رنگ کی لینڈ کروزر جو شاید انتہائی تیز آ رہی تھی ۔۔۔۔جیپ کی وجہ سے ڈرائیور نے ایکدم بریک مارے تھے ۔۔اور اب یہ لینڈ کروزر گھسٹتی ہوئی ہماری طرف آرہی تھی ۔۔۔آہستہ ہوتی ہوئی ہمارے۔قریب آ کر اس کے ڈرائیور نے گاڑی لہرائی ۔۔اور سائیڈ سے نکالتا ہوا آگے جانے لگا۔۔۔اس کے خیال میں شاید غلطی سے کوئی اچانک آیا ہے ۔۔۔مگر یہ لہراتی ہوئی لینڈ کروزر جب بلبیرے کی جیپ کے سامنے آئی تھی تو اس نے تیزی سے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا ۔۔۔جیپ کا انجن جاندار تھا ۔۔توپ کے نکلے ہوئے گولے کی طرف وہ لینڈ کروزر کے درمیانی حصے سے ٹکرائی اور گھسیٹتے ہوئے روڈ سے نیچے اتار دیا ۔۔۔۔ہماری جیپ کو بھی دھکالگا ۔۔میں آگے کو گیا تھا ۔۔تبھی بلبیر نے جیپ کو ریورس کیا ۔۔اور شاید دوبارہ ٹکر مارنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔لینڈ کروزر کے گیٹ کھلے ۔۔۔۔سامنے والے گیٹ سے کمانڈو کود ا تھا ۔۔اس نے آتے ہی برسٹ مارا ۔۔۔۔گولی جیپ کی ونڈ اسکرین توڑتی ہوئی نکلیں ۔۔۔دو سے تین گولیوں نے بلبیر کی قمیض کو رنگیں کر دیا تھا ۔۔۔کلدیپ بھی نیچے جھکی تھی ۔۔۔اور میں بھی ۔۔۔۔پیچھے بیٹھے ہوئے تینوں جوان بھی اتر کر جیپ کے پیچھے پوزیشن سمبھالنے لگا۔۔۔دو طرفہ فائرنگ شروع ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تینوں رائفل ایک ساتھ گرجیں تو سامنے والے کمانڈو گولیاں کھا کر گرا تھا۔۔۔۔۔یہ تینوں تیزی سے آگے بڑھ کر لینڈ کروزر کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔۔میں نے سر اٹھایا ۔۔۔انہیں رکنے کی آواز دی مگر وہ کسی اور موج میں تھے۔۔۔ادھر کلدیپ جیپ سے اتر کر پیچھے کی طرف پوزیشن لے کر کور دینےلگی۔۔۔میں نے لینڈ کروزر کے نیچے حرکت کرتے ہوئے پاؤں دیکھ لیے تھے ۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھا عقل مند تھا۔۔۔لینڈ کروزر کےنیچے سے اس نے تینوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلائی تھی ۔۔۔اور گرنے کے بعد ایک لمبا برسٹ چلا یا۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے تک ہنستے کھیلنے والے اب اپنے ہی خون میں تھے ۔۔
        کلدیپ غصے سے گالی دے کر چلائی ۔۔۔اور گن سیدھی کر کے برسٹ چلا دیا۔۔۔۔گن کچھ دیر تک گرجتی رہی اور پھر خاموش ہو گئی ۔۔کلدیپ پر ہیجان کی کیفیت طاری تھی ۔۔۔گن خالی ہونے پر پھینکی اور پسٹل نکال لی۔۔۔ادھر میں نے اس کمانڈو کو باہر آتے ہوئے دیکھا ۔۔۔اور ا س کے پیچھے میں نے راجیش کو اترتے ہوئے دیکھا ۔۔چھ فیٹ ہائیٹ کے ساتھ ہاف شرٹ پہنے وہ کسی ہیرو کی طرح اترا تھا ۔کمانڈو اس کے آگے چلتا ہوا آگے آرہا تھا۔۔۔۔ راجیش نے تیز نظروں سے چاروں طرف جائزہ لیا ۔اور پھر جیپ کے پچھلی سیٹ پر دبکے ہوئے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ میرے پیچھے آئی اور پسٹل میرے سر پر رکھ کر مجھے اتارنے لگی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ پیچھے بندھے تھے ۔۔۔۔کالر کو پکڑے ہوئے میرے سر سے پسٹل لگائے وہ مجھے آگے لائی ۔۔۔۔۔کمانڈو نے گن سیدھی کی مگر راجیش نے اسے روکا۔۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ مجھے دھکا دیتے ہوئے آگے لے جانےلگی ۔۔۔۔قریب جاتے ہوئے اس نے راجیش کو گالی دی ۔اور کہنے لگی ہری سنگھ کو چھوڑ دو ۔۔۔۔ورنہ اس کو مار دوں گی ۔۔۔۔۔راجیش حیرت سے مجھے دیکھ رہا۔۔۔۔اس پورے فریم میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔یہ کون ہے ۔۔؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔یہ ہمار ا ساتھی نہیں ہے ۔۔تم اسے شوق سے گولی مار سکتی ہو۔۔۔۔۔
        کلدیپ نے پسٹل میرے سر پرلگاتے ہوئے دھکا دیا ۔۔مار دوں گی اس کو ۔۔۔۔۔میرا بھائی چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        اگر ہری سنگھ تمہار ا بھائی تھا تو وہ مر چکا ہے ۔۔۔میں نےکل ہی اسے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا ۔۔۔اور رہی بات اس کی تو ۔۔تو اسے ہم جانتے نہیں ہیں۔۔۔تم ماردو یا ہم خود مار دیں گے ۔۔۔راجیش نے کمانڈو کو شاید اشارہ کیا تھا۔۔۔
        کلدیپ کا دماغ شاید گھوم گیا تھا۔۔۔۔فضاء میں اچانک فائر کی آوا ز گونجی اور پھر متواتر فائر ہوئے ۔۔۔۔
        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
        کلدیپ نے کمانڈو کی طرف پسٹل کرتے ہوئے ٹریگر دبا یا۔۔اور پھر فائر کرتی چلی گئی ۔۔۔۔یہاں تک کہ پسٹل خالی ہونے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔کمانڈو کے گرتے ہی راجیش تیزی سے کلدیپ پر جھپٹا تھا۔۔۔۔۔اس کا اٹھا ہوا ہاتھ میرے پیچھے حیران و ششدر کھڑی کلدیپ پر پڑنے والا تھا ۔۔۔۔وہ لپکتا ہوا میرے سامنے آیا تھا ۔اور یہی وقت تھا جب میں نے حرکت میں آنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔میں نے بندھے ہاتھوں کے ساتھ خود کو اکڑایا ۔اورریلیکس کرتے ہوئے فرنٹ کک اچھالی تھی ۔۔۔اس کک کے ساتھ میرا وزن اور طاقت دونوں شامل تھے۔۔۔۔۔راجیش اچھلتا ہوا پیچھے گرا تھا۔۔جلدی سےاٹھتے ہوئے بیٹھا ۔۔۔۔۔سینے پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے وہ کینہ توز نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہاتھ ابھی بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس کی سلگتی ہوئی آواز آئی تھی ۔۔۔۔۔کون ہو تم ۔۔۔۔میں نے جواب نہیں دیا ۔۔۔وہ دوبارہ آیا تھا ۔۔اس مرتبہ ہوشیار تھا ۔۔۔۔۔میری قریب آتے ہوئے وہ لہرایا تھا ۔میں ڈوج میں آ گیا ۔۔۔۔میری کک ہوا میں جھول کر رہ گئی ۔۔۔اس کا آہنی مکہ میرے جبڑ ے پر پڑا تھا ۔۔۔میں نیچے جھکا تھا۔۔۔خون کا ذائقہ میرے منہ میں محسوس ہوا ۔دوسرا مکہ میرے پیٹ میں پڑا میں مزید جھک گیا۔۔اس نے پیٹ پر کئی مکے مارے ۔۔۔ایک لات میرے کندھے پر پڑی اور میں پیچھے گرا ۔۔۔خون تھوکتا ہوا میں اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔راجیش پھر میری طرف لپک رہا تھا ۔۔۔میں دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پوری طاقت سے اچھلا تھا ۔۔اچھل کر راؤنڈ ہارس کک گھومی تھی ۔۔تیزی سے قریب آتے ہوئے راجیش کے چہر ے پر پڑی وہ تیورا کر گرا تھا۔۔۔۔۔وہ پھر اٹھا ۔۔اس کے چہرے پر خون کی بوندیں نمودار ہو گئیں تھیں۔۔۔میرے قریب آ کر اس نے میرا وار خالی کیا ۔۔اور اچھل کرکک مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔نشانہ میرا چہرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرح لہراتے ہوئے خود کو گھمایا تھا ۔۔۔۔راجیش کی کک ہوا میں اچھلی تھی ۔۔۔۔اس کے پیر کے زمیں پر رکھنے سے پہلے میں گھومتا ہوا اس کے عقب پر پہنچا تھا ۔۔راجیش نےمڑتے ہوئے دوبارہ سے مکہ گھمانے کی کوشش کی تھی ۔مگر۔۔۔میرے سر کی طوفانی ٹکر اس کی ناک پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔وہ ناک پر ہاتھ رکھے پیچھے کو گرا تھا ۔۔۔۔۔ناک سے خون بہنا شرو ع ہو گیا۔۔۔کلدیپ حیرانگی سے کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
        میری گونجدار آواز نکلی تھی ۔۔۔۔میں وہی ہوں جو تمہار ا ہیڈ کوارٹر تباہ کر کے وہاں سے نکلا ہوں ۔۔۔۔۔۔راجیش ایکدم چونکا تھا ۔۔۔۔اس کے منہ سے پاک۔۔۔نکلتے نکلتے رہ گیا ۔۔۔اب کی بار وہ غضبناک ہوتے ہوئے آیا تھا ۔۔۔منہ سے گالیاں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔غصے نے اس کی عقل ضبط کر لی تھی ۔۔۔۔۔اسے میرے ہاتھوں سے کوئی ڈر نہیں تھا ۔۔۔۔وہ تیزی سے قریب آیا اور ڈاج دیتے ہوئے چہرے پر مارنے آیا تھا ۔۔میں بیک فٹ پر گیا تھا ۔۔۔مکہ ہوا میں گھوما ۔۔۔اگلا لمحہ اس کے لئے اذیت ناک تھا ۔۔۔۔ٹانگوں کے درمیان پڑنے والی ضرب نے اسے گرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔چیخ مارتا ہوا وہ نیچے گرا تھا ۔۔۔ہاتھ دونوں ٹانگوں کے درمیان تھے ۔۔۔۔اور چہرے پر کرب کے آثار ۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ اس کے اٹھنے کے انتظار کرنے لگا۔۔۔مگر اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔وہ زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔۔۔کلدیپ آگے آئی تھی ۔۔اور کمانڈو کی رائفل اٹھاتے ہوئے راجیش پر خالی کر دی ۔۔۔۔میرے ہونٹوں سے بھی خون بہہ رہا تھا ۔ناک سے بھی خون بہا تھا۔۔۔۔۔کلدیپ گن پھینکتی ہوئی میری طرف آئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر اب سکون کے تاثرات تھے ۔۔اس نے اپنے بھائی کا انتقام لے لیا تھا ۔۔۔اور میرے بارے میں بھی شاید رائے ٹھیک ہو گئی تھی ۔۔اگر میں راجیش کا دشمن تھا تو ان کا دوست بھی تھا۔۔۔۔کلدیپ میری طرف بڑھ رہی تھی کہ میں ایک مرتبہ پھر اچھلا تھا۔۔۔میرے پاؤں جڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور اچھلنے کے ساتھ ہی میرےہاتھ نیچے سے ہوتے ہوئے سامنے آئے تھے ۔۔۔۔۔آدھی گانٹھ میں اچھلتے ہوئے کھول چکا تھا۔۔۔۔ہاتھ کے سامنے آتے ہی ایک سیکنڈ لگا اور میرے ہاتھ آزا د تھے ۔۔۔۔۔۔بند ہاتھوں سے لڑنے کا الگ ہی مزہ تھا۔۔۔کلدیپ میرے قریب پہنچ چکی تھی ۔۔اس کی نظریں میرے خون آلود چہرے پر تھی ۔۔۔میرے قریب آ کر میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔جیپ صحیح سلامت تھی ۔ آس پاس روڈ کی گاڑیاں دور کھڑی تھی ۔۔۔حیرت تھی کہ اب تک پولیس نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔۔اب کی بار منزل کوئی اور تھی۔۔میں نے ٹائم دیکھا ۔ دوپہر ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
        راستے میں کلدیپ نے جیپ چھوڑ کر رکشہ لیا ۔۔۔۔اور دو تین گاڑیاں بدلنے کے بعد ہم ایک گھر کے سامنے تھی ۔۔ یہ بھی کچا مکان تھا ۔۔کلدیپ نے لکڑی کے دروازے کی درز میں پھنسی چابی نکالی اور اندر داخل ہو گئی ۔چھوٹا صحن تھا ۔۔اور دو کمرے ۔۔دیواریں مٹی کی بنی ہوئی ۔۔کمرے میں ایک تخت اور چارپائی بچھی ہوئی ۔۔۔۔۔مجھے چارپائی پر لیٹنے کا کہہ کر ۔۔۔۔۔کلدیپ کور پانی گرم کر کے لائی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی چادر تو پہلے ہی کہیں گر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔نسوانی خطوط واضح ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔کچے آموں جیسی مہک اس کے بدن سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرا زخم صاف کرنے لگی ۔۔میری نظروں کی گرمی اسے محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔وہ اگنور کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اس کے اندر کی نسوانیت بیدار ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔سختی اور انتقام کے جذبات ختم ہوتے جار ہے تھے ۔۔اور اندر سے وہی ارمان انگڑائیاں لے رہےتھے ۔۔۔۔کلدیپ کور بالکل ویسے ہی تھی جیسے پنجاب کی ووہٹی ہوتی ہے ۔۔۔۔دودھ ملائی جیسے رنگت والی رنگت ۔۔۔۔بھرا ہوا جسم ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں ۔۔۔ٹھوڑی کے نیچے بنتا ہوا گڑھا۔۔۔ستواں پر غرور ناک ۔۔۔۔۔ جو ابھی لاج سے لال ہوئی جارہی تھی ۔۔۔۔اس کے اندر کی شوخی بھی باہر کو امڈنے لگی تھی ۔۔۔۔اور آنکھیں کسی پریشان غزال کی مانند چوکنی ہوئی وی تھی ۔۔۔۔میری ہلکی سی جنبش پر وہ چونکے جار ہی تھی ۔۔۔۔زخم صاف کر کے اس نے بتایا کہ وہ کھانے کا سامان لینے باہر جا رہی ہے ۔۔۔آدھے گھنٹے تک آئی گی ۔۔۔میں نے آنکھ سے اشارہ کر دیا اور آنکھیں بند کر دیں ۔۔۔۔۔۔میرے ذہن میں عاصم کا خیال آیا تھا۔۔۔۔وہ نہ جانے کہاں تھا ۔۔کلدیپ آ جائے تو فون کا پوچھوں اور کال کروں۔۔۔کلدیپ جلدی ہی واپس آگئی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ میں کھانے کا سامان اور دوسرے میں فروٹ بھرے ہوئے تھے۔۔۔کھانا کھلا کر کلدیپ نے مجھے سونے پر مجبور کیا ۔۔۔۔پچھلی رات میری سپلائی سنٹر کے اسٹور میں گذری تھی ۔۔۔میں بھی سو گیا ۔۔۔۔رات شروع ہو چکی تھی جب ۔۔۔میرے منہ سے کراہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھنے لگا۔۔کلدیپ کور تیزی سے قریب آئی تھی ۔۔۔وہ ساتھ والے تخت پر لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔کھانے پینے کا پوچھنے لگی ۔۔میں نے منع کر دیا ۔فروٹ لے کر وہ قریب آئی ۔۔اچھا یہ لے لیں ۔۔۔۔۔۔وہ چارپائی پر میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔۔اس کے چہرے پر بہت سے سوالات تھے ۔۔جو وہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہی تھی میرے بارے میں۔۔میں نے اسے کہا کہ یہ تعارف وغیرہ کل پر رکھتے ہیں ۔بس نام ہی کافی ہے ۔۔۔راجہ نام ہے ۔۔۔۔۔وہ شکریہ ادا کرنے لگی کہ ہم نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔۔پھر بھی میں نے اس کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔میں کیا کہتا خاموش ہی رہا ۔۔۔مگر میری آنکھیں اسی پر جمی ہوئی تھی ۔۔جوچیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی سمجھ لیا تھا ۔۔۔تبھی شوخی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔آپ آرام کریں کل بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ تخت کی طرف جانے لگی تھی ۔۔جب میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔۔نرم نرم ہاتھوں کا مقناطیسی لمس مجھ سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ چھڑاوانے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ہلکے لہجے میں بس یہ کہا کہ ابھی آپ کی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔
        طبیعیت بتانے کا ایکدوسرا طریقہ بھی تھا ۔۔۔اور میں نے وہی کیا تھا ۔اٹھتے ہوئے میں اس کے قریب پہنچا اور جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔۔۔۔کلدیپ نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ چھپایا تھا ۔۔۔۔میں اسے اٹھائے تخت پر آیا تھا ۔۔یہاں ایک گدا بچھا ہوا تھا ۔۔۔۔تخت پر اسے لٹانے کے بعد میں بھی ساتھ ہی لیٹا تھا ۔۔۔کلدیپ تخت پر نیچے کی طرف منہ کیے لیٹی ہوئی تھی ۔۔میں نےایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو سہلایا تھا ۔۔۔۔سلجھے ہووؤں کو پھیلایا تھا ۔۔۔بال کھولتے ہوئے میں پھیلانے لگا۔۔۔یہ گھنے ہلکے سے براؤن بال تھے ۔۔۔۔۔پھیلنےکے بعد کمر تک آئے تھے ۔۔۔۔میں نے ٹھوڑی پکڑتے ہوئے اوپر اٹھائی ۔۔۔۔ناک میں سجی ہوئی لونگ چمکی تھی ۔۔۔میں بھی نیچے کو کھسکا تھا ۔۔۔۔اب جتنا اس کا چہرہ نیچےتھا ۔۔میرا چہرہ اس سے بھی نیچے تھے ۔۔۔اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولتے ہوئے مجھے دیکھا اور دوبارہ بند کردی ۔۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومتا ہوا ہونٹوں پر آیا ۔۔۔۔میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے چہر ہ اوپر کیا ۔۔۔اور ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کردیئے ۔۔۔۔۔نرم نرم ہونٹوں کا ملاپ ہو ا تھا ۔۔۔کلدیپ کی آنکھیں بند تھی۔۔۔۔جھکی جھکی سے لرزتی پلکیں ۔۔۔۔۔میں ہاتھ بڑھاتا ہوا کمر پر لایا تھا ۔۔۔جسم قدرے بھرا ہوا اور نرم تھا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہیں کلدیپ کے جسم میں حرکت ہوئی تھی ۔وہ تھوڑی اور نیچے کو جھکی ۔۔سمٹنے لگی ۔۔۔میں نے کلدیپ کی سانسوں کا اتار چڑھا ؤ دیکھ لیا تھا۔۔۔سانسیں تیزاور دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔مجھے اس پر بے پناہ پیار آ یا۔۔۔۔۔۔صبح والے روپ میں وہ کسی آتش فشاں کی طرح تھی ۔۔۔دھاڑرہی تھی ۔۔۔غصے کی حدت سے چہرہ بھی سرخ ۔۔مرنے اور مارنے کی بات کرنے والی ۔۔۔۔۔۔اور اب شرم سے سمٹنے والی کلدیپ کوئی اور تھی ۔۔۔میرے ہونٹ اب بھی اس کے ہونٹ پر تھے ۔۔ایک مرتبہ اس نےمیرے ہونٹ پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر پھر رک گئی ۔۔میں نے غور سے دیکھاتو وہ میرے زخم کی وجہ سے رکی تھی ۔۔میں نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی ۔۔۔۔یہ ہونٹ میرے لئے مر ہم کا کام دے رہیں ہیں ۔۔۔۔اسے نہ روکو ۔۔۔۔کلدیپ پہلے تو جھجکی ۔۔۔۔مگر میں مستقل ہونٹ دباتے ہوئے رکتا اور اس کو جواب دینے کا کہتا ۔۔ دو تین بار ایسا کرنے کے بعد وہ بھی شروع ہو ئی ۔۔۔۔۔۔نرم پنکھڑی جیسے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے تھے ۔۔۔دبایا تھا ۔۔۔۔کبھی اوپر ہونٹ ۔۔۔کبھی نچلے ہونٹ ۔۔۔۔۔۔ناک سے سانس نکالتے ہوئے کلدیپ میرے ہونٹو ں کو چومنے میں لگی تھی ۔۔۔۔میں نے اس کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس خود پر لانے لگا۔۔۔۔میرے سیدھے جسم پر وہ اپنے بے حد نرم وجود کیساتھ آئی تھی ۔۔اس کے جسم سے اٹھنے والی کچے آموں والی مہک نے مجھے خوشحال کر دیا تھا ۔۔۔۔۔سینے کے ابھار اپنے نرمی اور گولائیوں کے ساتھ میرے سینے پر دبے تھے ۔۔۔اور آنے کے بعد کلدیپ کچھ رکی تھی ۔۔مگر میں نے ہونٹ چومنے کی پہلی کی تو وہ بھی شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ اس کی کمر پر پہنچے ۔۔۔۔۔اور کمر پر گول دائرے بناتے ہوئے نیچے پہنچے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پھر رک گئی تھی ۔۔۔شاید میرے انگلیوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔جو بےحد نرم اور موٹے گول چوتڑ پر پہنچے ۔۔۔میں نے ہلکا سا دباؤ ڈالا ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے کہ رہی ہو کہ یہ کر نا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے دونوں سائیڈوں پر دباؤ دے کر جواب دیا کہ بہت ہی ضروری ہے ۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیارنے بھی جوش مارتے ہوئے اچھلنے کی کوشش کی ۔۔۔کلدیپ پھر رکی ۔۔اور شرارتی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی پھر میرے لبوں پر مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوتڑوں پر دباؤ بڑھا یا اور نیچے جہاں تک ہاتھ جاتا وہاں تک اس کی سڈول اور صحت مند رانوں سے بھی فیض یاب ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کے منہ سے گرم گرم سسکیاں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔۔سانسیں اور بے ترتیب اور تیز ہوئیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے بیٹھنے کا کہا ۔۔۔۔۔وہ میرے اوپر بیٹھنے لگی ۔۔۔ٹانگیں لٹائے ہوئے پیچھے کی طرف تھیں ۔۔۔۔۔۔میرے سینے پر ہاتھ رکھتےہوئے ہی وہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔میری نظر قمیض سے اندر کی طرف گئی تھیں ۔۔جہاں سفید گوری گوری دودھ ملائی جیسے ممے گہری لائنیں بنائے ہوئے تھے ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے جھانکا تانی کرتے ہوئے دیکھا لیا۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھی تھی ۔۔۔جیسے اپنے جسم کی تعریف سننا چاہ رہی ہو ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ بھی جان چکے تھے ۔۔۔اور بڑھ کر تھامنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔نرم نرم سے یہ ممے ہاتھ لگتے ہی سمٹنے لگے تھے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سانس لی ۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نے مموں کی پیمائش شروع کی ۔۔۔ایک ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی تو ہتھیلی میں کچھ سمایا اور کچھ باہر کی طرف امڈ آیا ۔۔قمیض کچھ ٹائٹ تھی ۔۔۔جس کی وجہ سے ابھار بھی اوپر سے باہر کی طرف جھلکا تھا۔۔۔۔میں نے قمیض کے اندر سے دوسری مرتبہ ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔اور سیدھا اوپر لیتا گیا ۔۔۔برا کے اوپر سے دباؤ ڈالا تھا ۔۔۔۔مموں کا نرم نرم لمس مجھے چھوا تھا ۔۔۔۔کلدیپ نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دئے تھے ۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند سی ہوئیں۔۔۔۔۔۔اور ہونٹوں سے گرم گرم سی سسکی نکلی ۔۔۔۔۔میں ہلکا ہلکا سے دباتا ہوا نپلز ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔اور پھر تھوڑے نیچے کی طرف ہی نپلز تھے ۔۔۔میں نے نپلز پکڑ کر اوپر کی طرف کئے ۔۔اور انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے مساج کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کا دباؤ میرے ہاتھ پر بڑھا تھا ۔۔۔سسکی سی نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے مساج جاری رکھا۔۔برا درمیاں میں آنے لگی تو اسے کھینچ کر اوپر کر دیا ۔۔نیچےسے اب پورے ممے میرے ہاتھوں میں تھے ۔۔نرم نرم سے اون کے گولے تھے ۔۔۔میں بھی آم کی طرح دباتا گیا ۔۔۔رس جو پینا تھا ۔۔۔۔کلدیپ بھی سسکاریاں بھرنے میں لگی رہی ۔۔۔میرے ہاتھ کو جن ہاتھوں سے اس نے دبایا تھا ۔۔۔اب وہ اسی پر ہاتھ پھیرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔بازو پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ نیچے کو آئی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھے کر تھوڑی جھک گئی ۔۔۔۔۔اس کے جسم سے گرمی کی لہریں نکل رہی تھی ۔۔۔میرے اوپر اس کے جسم کا جو حصہ تھا۔۔۔وہ بھی بے حد گرم تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے ہتھیار کو مسلسل سینک رہا تھا۔۔۔۔میں نے کلدیپ کے سینے سے ہاتھ اٹھائے اور باہر نکال دیا ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے دیکھا جیسے وجہ پوچھ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔میں قمیض کو اٹھانے لگا۔۔۔۔کلدیپ سمجھ گئی ۔۔۔اورمیری مدد کرنے لگی ۔۔۔۔۔قمیض اتر گئی ۔۔۔۔۔اسکن کلر کی برا میں قید ممے سامنے تھے ۔۔۔رنگ تو اوپر سے دکھ گئی تھی ۔۔۔۔مگر نپلز بھی کم خوبصور ت نہیں تھے ۔۔۔چھوٹے سے گلابی رنگت میں ۔۔۔۔۔۔میرے مساج سے ہوشیار ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مموں کو دیکھا اورکلدیپ کی طرف دیکھا ۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔۔اور پیچھے ہاتھ لے جا کر بر ا کھولنے لگی ۔۔۔۔اور پھر ممے اپنی پورے سائز اور گولائی کے ساتھ سامنے آئے ۔۔۔۔۔زیادہ اٹھے ہوئے نہیں تھے ۔تھوڑے سے نیچے کی طرف مگر موٹے موٹے سے ۔۔۔میں نے اس کے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے تھے ۔۔جیسے ناپ لے رہا ہوں ۔۔۔انگلیاں پھیلی ہوئی تھی ۔۔انگوٹھے ناف کے اوپر اور چھوٹی انگلی کمر کی طرف جاتی ہوئی ۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھوں کو اوپر لاتے ہوئے میں نے مموں کو پکڑا تھا ۔۔۔میراہاتھوں کے لمس سے وہ مچل اٹھے ۔۔۔۔اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں بھی تیزی سے ہاتھ اوپر لے گیا اوراوپری طرف سے بھی پکڑ لیا۔۔۔۔۔اب میری مٹھی میں سے صرف نوک نکلی تھی ۔۔جس میں گلابی نپلز جھانک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مٹھی کھول کر دونوں مموں کی سائیڈ پر رکھ کر انہیں آپس میں جوڑنے لگا۔۔اور مموں کو آپس میں ہلکا سا رگڑنے لگا۔۔۔کلدیپ حیرت میری حرکت دیکھ رہی تھی ۔۔رگڑتے ہوئے نپلز بھی آپس ملانے کی کوشش کرتا ۔۔مگر وہ پھر دور ہٹ جاتے ۔۔کچھ دیر ایسے ہی کرتا رہا۔۔۔کلدیپ کے جسم میں بھی بےچینی بڑھی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر اس سائیڈ پر لٹانے لگے ۔۔۔۔۔ممے بھی خوش ہو کر ہلنے لگے ۔۔۔دودھ پینے کا ٹائم آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لٹا کر میں کلدیپ کے اوپر جھکا۔۔۔۔اور دودھ کے ان چشموں کی طرف چہرہ لے گیا ۔۔۔۔جو میرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔دائیں ممے کو پکڑ کے منہ میں ڈالا اور بائیں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔پہلے ممے کو پورےہونٹ کھولتے ہوئے اندر بھرتا ۔۔اور پھر ہونٹ بند کرنے لگتا ۔۔۔آخر میں نپل ہی قابو میں آ پاتا۔۔۔جسے میں اچھے سے زبان کی نوک سے مسلتا ۔۔۔۔۔اور پھر دوبارہ سے پورے ممے کو ہونٹوں میں بھرتا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں دوسرے ممے کی طرف آیا ۔۔۔اور اس کے نپل کو ہونٹ میں پکڑ کے کھینچنے کی کوشش کر تا۔۔۔کلدیپ میرے سر پر ہاتھ رکھے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اسی طرح دونوں مموں کا رس پینے لگا۔۔۔اس کے بعد سیدھا ہوا۔۔۔شرٹ کے بٹن کھولے ۔۔۔۔کلدیپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کندھے پر ہلکا سا نیل کا نشان بھی پڑ گیا تھا۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں کلدیپ کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹا ۔۔۔اور آدھے جسم کو خود پر لٹا دیا ۔۔۔۔کلدیپ کا بھی اوپر جسم ننگا تھا ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرے چہرے کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ادھر کلدیپ چہرے کو چومنے میں مصروف ہوئی ۔۔اور میں ہاتھ اس کی کمر پر پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا ۔۔۔شلوار کے پاس رکا اور شلوار کو نیچے گھسیٹ دیا ۔۔۔چوتڑ سے نیچے جا کر شلوار رک گئی ۔۔۔آگے میرا ہاتھ نیچے نہیں جا رہ تھا ۔۔ پینٹی کو بھی یہیں تک پہنچا دیا ۔۔۔جس سے عجیب سے مہک اٹھ رہی تھی ۔۔۔کلدیپ میرے چہرے پر جھکی تھی ۔۔۔۔میں اپنے ہاتھوں سے اس کے چوتڑ کے درشن کر رہا تھا ۔۔۔۔۔مگر یہ نظارہ بھی کم خوبصورت نہیں تھا ۔۔ نرم نرم اور گول سے چوتڑ تھے ۔۔میں نےدونوں ہاتھ اوپر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر چوتڑ وں تک آتا ۔۔۔۔ایک ہاتھ دونوں چوتڑ وں کے درمیان لے گیا ۔۔۔۔گرم گرم ٹانگوں کے درمیان سے انگلی نکل کراگلی طرف پہنچی ۔۔۔۔۔اور چوت کے نچلے حصے کو لگی تھی ۔۔۔کلدیپ کچھ اچھلی سی ۔۔۔۔۔۔اور پھرمیرے اوپر ہی لیٹ گئی ۔۔۔میں نے دونو ں ہاتھ اس کے چوتڑ رکھے ۔۔۔۔میری انگلیاں اس کے چوتڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی آگے تک آتی ۔۔۔جہاں چوت کے نچلے حصے پر لگتی ہوئی نیچے آتی ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا تھا ۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سسکی بھری تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ روکتے ہوئے اوپر کمر پر پھیرنے لگا۔۔۔اور دوسرے ہاتھ انگلیوں کو چوتڑوں کے درمیان سے آگے پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت کے لب کے نچلے حصےپر انگلی لگی تھی ۔۔۔جہاں سے گیلا گیلا پن محسوس ہو رہات تھا ۔۔۔میں نے ہاتھ اور آگے بڑھا نے کی کوشش کی ۔۔اب کی بار چوت کے لبوں کے درمیان تک پہنچا تھا۔۔۔میں ہاتھ کھینچ کر اوپر لے آیا۔۔۔۔اور کلدیپ کو سیدھا ہونے کا کہا ۔۔۔۔کلدیپ نے ہاتھ سائیڈ پر ہو کر سیدھی ہونے کی کوشش کی ۔۔میں نے بھی مدد کی ۔۔۔ساتھ ہی اسے خود پر تھوڑا اوپر کر لیا۔۔۔اب وہ میرے اوپر سیدھی لیٹی تھی ۔۔۔۔سینے سے اوپر سے وہ کچھ ترچھی تھی ۔۔۔۔جس سے ہمارے چہرے آپس میں ملنے لگے تھے۔۔اس نے پہلے کی طرح چومنا جاری رکھا۔۔۔۔اور میرے دونوں ہاتھ نیچے گئے ۔۔۔اس کی رانوں کو دباتے ہوئے اوپر سے نیچے آنے لگا۔۔۔۔کچھ دیر ایسا ہی کیا ۔۔پھر ایک ہاتھ اوپر لے آیا ۔۔۔اوردوسرا ہاتھ ویسے ہی چوت کے لبوں پر گھوم رہا تھا۔۔۔اوپر حصے پر چھوٹا سا دانہ تھا ۔۔جہاں میری انگلی لگی ۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی جسم نے لرزش کھائی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر دانے کو رگڑتا ہوا ۔۔انگلی چوت کے اندر داخل کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ نے ٹانگیں بھینچنے کی کوشش کی ۔۔انگلی اس کے پانی میں بھیگتی ہوئی اندر گئی تھی ۔۔اوپر والا ہاتھ اس کے مموں کو باری باری ٹٹول رہا تھا۔۔۔۔میری طرف چہرہ کیے اس کی آنکھیں مجھ سے تین انچ کے فاصلے پر تھی ۔۔۔۔مجھے اس کی آنکھوں میں لذت اور شہوت کی چمک دکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے چہرے پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔نیچے انگلی کی گستاخیاں ایسے ہی جاری تھیں ۔۔۔۔۔انگوٹھا دانے کو مسل رہا تھا ۔۔اور انگلی اندر کی طرف ہلچل مچا رہی تھی ۔۔دونوں ممے بھی میرے ہاتھوں میں خوش تھے ۔۔۔کلدیپ کا چہرہ میرے پاس ہی تھا ۔۔جس سے سسکاریں باہر کو ابل رہی تھی ۔۔۔سس۔سس کی آوازیں مجھے بھی للچا رہی تھی ۔۔۔میں اگلے تین منٹ تک منٹ اپنی انگلی کو حرکت دیتا رہا ۔۔۔پہلی والی کے ساتھ دوسری انگلی بھی شامل ہو چکی تھی ۔۔۔۔کلدیپ بھی مچلنے لگی تھی ۔اس کا ہاتھ میرے ہاتھ پر آگیا۔۔۔۔شاید انگلی تیز کرنے کا اشارہ تھا ۔۔۔میں نے بھی دونوں انگلیا ں جوڑتے ہوئے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔کچھ ہی دیر میں چوت نے پانی چھوڑا تھا ۔۔۔۔جو میری انگلی کو گیلا کرتا ہوا باہر کو لپکا۔۔۔۔۔کلدیپ کا جسم جھٹکے کھاتے ہوئے رکا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر وہ سانس ٹھیک کرتی رہی ۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے کو چومتی ہوئی سائیڈ پراتری ۔۔۔۔میں نے لیٹے لیٹے اپنی پینٹ سرکائی ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی آدھی اتری ہوئی شلوار نیچے کر دی ۔۔۔۔اور ٹانگوں سے پھینک دی ۔۔۔میرا ہتھیار انڈروئیر میں ہی قید تھا ۔۔۔میں اٹھا ہوا کلدیپ کی ٹانگوں کے درمیان آیا ۔۔۔اور اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔اس کے چہر ے پر جاتے ہوئے میں نے انڈروئیر نیچے کر دیا ۔۔۔۔اسپرنگ سا کھلا ۔۔۔اور ہتھیار جان پکڑنے لگا۔۔۔۔چند ہی سیکنڈوں میں درمیانہ اور پھر فل تننے لگا۔۔۔۔۔میں دونوں ہاتھوں کوا وپر لے گیا ۔۔۔۔نیچے سے ٹوپے نے کلدیپ کی چوت پر دستک دی ۔۔۔گرم گرم ٹوپے نے کلدیپ کو چونکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔چوت پہلے ہی کافی گیلی تھی ۔۔۔۔ماحول سازگار تھا ۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اپنی رانوں پر رکھیں ۔۔پیر پیچھے کی طرف چلے گئے ۔۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے لبوں پر رگڑے ہوئے کچھ گیلا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ۔۔۔۔موٹے اور پھولے ہوئے ٹوپے کی صرف نوک پر ہی کچھ پانی لگ پایا ۔۔۔۔میں نے شافٹ کو پکڑا جو موٹائی میں میرے ہاتھوں میں بھی نہیں آ رہی تھی ۔۔اور ٹوپے کو اورچوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔کلدیپ سانسیں روکی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو لبوں پر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔چوت پر ٹوپا کچھ دیر رکا ۔۔۔پیچھے سے دباؤ اور آیا۔۔اوپر سے کراہ کی آواز میں نے سنی ۔۔۔کلدیپ کی درد والی صدا تھی ۔۔۔۔۔۔ٹوپے نے اور زیادہ زور لبوں پر ڈالا۔۔۔۔لب کھلے ۔۔۔۔اور کھلے ۔۔۔ٹوپا پھنستے ہوئے اندر پہنچا ۔۔۔کلدیپ کا منہ ایک دم سے کھلا تھا ۔۔۔۔۔سانس تیزی سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔ٹوپے کے پیچھے شافٹ اور زیادہ موٹی اور چوڑی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو ہلاتے ہوئے اور آگے دھکیلا ۔۔۔۔۔ایک انچ کے قریب ہتھیار اندر گیا تھا ۔۔۔چوت کے لب اور چیر چکے تھے ۔۔۔کلدیپ اب کی بار چلائی تھی ۔۔۔۔اس کی ٹانگوں نے بھی لرزش کی ۔۔۔کلدیپ کے ہاتھ نیچے کی طر ف آنے لگے ۔۔۔۔مگر میں نے راستے میں روکے اور واپس اوپر لے گیا ۔۔اس کے ہاتھوں کے اوپر ہاتھ رکھے ۔۔۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔کلدیپ کی اس مرتبہ چیخ نکلی تھی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔آہ۔۔۔منہ سے کھلا تھا۔۔۔۔ہتھیار کچھ اور اندر پہنچ چکا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی رہا ۔۔۔۔اور پھر سے آگے کو جھکا۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔اوہ ہ ۔۔کی آواز کمرے میں گونج گئی ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ٹھہرنے کا کہنے لگی ۔۔۔میں رک گیا تھا ۔۔اور واپس کھینچتا ہوا پھر آگے لایا ۔۔۔اور کچھ دیر مزید ہلاتا رہا ۔۔۔۔ہتھیار کی موٹی اور چوڑی شافٹ باہر آنے پر فل سائز پردکھتی ۔۔۔مگر اندر جاتے ہی ایسے غائب سی ہو جاتی ۔۔۔۔وہ توکلدیپ کی آہیں ہی بتاتی کہ اندر جا کر کیا درد دے رہا تھا ۔میں نے کلدیپ کے ہاتھ پکڑ رکھے ۔۔۔۔آگے کو ہوا اور اس کے سینے کے مموں پر منہ رکھنے لگا۔۔۔شاید کچھ آگے آیا تھا ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار اندر لپکا تھا ۔۔۔کلدیپ کی منہ سے اوئی ۔۔۔۔کی ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔تھی ۔۔۔۔وہ پیچھے کو کھسکنے لگی ۔۔۔میں نے مموں پر منہ رکھے انہیں چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نیچے ہتھیار ایسے ہی پھنسا ہوا ۔۔۔۔دونوں مموں کو باری باری چوستا رہا ۔۔اور پھر اٹھتے ہوئے پیچھے آیا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی ٹانگیں اپنی رانوں سے اٹھا کر اوپر کر دی ۔۔اور پیروں کے بل پر ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپے کو کھینچا اور دوبارہ سے اندر دھکیلا ۔۔ابھی تک آدھے سے کچھ کم ہی اندر تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی پھر سے آہ نکلی ۔۔۔۔۔وہ نیچے دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔مگر ٹانگیں اٹھی ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں دیکھ سکی ۔میں نے دوسرا دھکے کچھ اور تیزی سے دیا ۔۔۔۔۔۔اس کی پھر سے آہیں نکلی۔۔۔۔میں نے مموں پر دونوں ہاتھ رکھے اور ہلنے لگا ۔۔۔یہ ہلنا وائیبریشن کی طرح تھا ۔۔۔۔میں مستقل کچھ دیر ہلتا رہا ۔۔۔اور پھر دھکے دیتے ہوئے آدھے ہتھیار کو اندر کر دیا ۔۔۔۔کلدیپ پھر سے چلائی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔ہائے ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔میں کچھ دیر رک کر پھر ہلنا شرو ع ہو گیا ۔۔۔کلدیپ کی چوت کا پانی جھاگ کی صورت شافٹ پر اکھٹا ہو رہا تھا ۔۔۔ جو رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔میں پانچ سے چھ منٹ تک ایسے ہی ہلتا رہا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایسے لگا کہ کلدیپ چھوٹنے والی ہے تو میں رک گیا ۔۔۔اور ہتھیار باہر نکال دیا ۔۔۔۔میں نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی چھوٹے ۔۔۔۔کچھ دیر رکنے کے بعدمیں نے اسے الٹا کر دیا ۔۔۔گھوڑی بنانے کے بجائے میں اس کے چوتڑوں کے اوپر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔اور ٹوپے کو نیچے کا راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپ سیدھا تباہی مچاتا ہوا اندر گھسا تھا ۔۔۔۔کلدیپ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔میں نے گھٹنے دائیں بائیں رکھے ۔۔۔۔اور اس پر لیٹ گیا ۔۔۔اب میرا اوپر ی وزن بھی کلدیپ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے بال میں نے پھیلا کر دائیں بائیں کر دیا ۔۔۔گردن کا پچھلا حصہ میں چوم رہا تھا۔۔۔۔جب میری کمر اٹھی ۔۔اور دوبارہ سے ہتھیار اندر لپکا ۔۔۔کلدیپ کے جسم پھر سے لرزہ تھا ۔۔۔اس کے بعد میں کچھ دیر رکتے ہوئے گہرے گہرے جھٹکے مارنے لگا۔۔۔۔کلدیپ ہر جھٹکے پر بری طرح ہلتی ۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔سس کی سریلی آواز گونجتی ۔۔۔۔۔مستقل جھٹکے اس لئے نہیں مار رہا تھا کہ پھر سے اس کےپانی چھوڑنے کا خطرہ تھا ۔۔۔۔میں وقفے وقفے سے جھٹکے مارتا اور گہرائی میں مارتا۔۔۔۔۔کلدیپ بےحال ہو گئی تھی ۔۔۔دو تین بار ایسا ہوا کہ اس کاپانی نکلنے والا تھا اور میں رک جاتا ۔۔۔۔اس مرتبہ بھی وہ بے چین ہونے لگی ۔۔۔۔اور میں رک گیا ۔۔۔اب کی بار میں بھی قریب ہی لگ رہا تھا ۔۔۔میں نے کلدیپ کو سیدھا کیا ۔۔اور ٹانگیں اٹھا کر اوپر کی ۔۔۔جتنی اوپر ہو سکتی تھی ۔۔اوپر کی ۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے اسے اٹھاتے ہوئے اور موڑا تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ اب ٹانگیں اوپر کرنے کے ساتھ کمر کی طرف سے مڑی ہوئی تھی ۔۔۔میں اوپر آیا تھا ۔۔اور نیچے بیٹھتے ہوئے ہتھیار کو واپس پھنسایا تھا ۔۔۔چوت کے لب اب ٹوپے کے اچھے سے پہچان چکے تھے ۔۔۔مگر راستہ ویسے ہی پھنستے ہوئے ملا۔۔۔۔۔میں نے بیٹھتےہوئے ہتھیار کو اندر اتارا ۔۔۔کلدیپ بھی ہتھیار کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جمبو سائز کا یہ ہتھیار اس کی چوت میں جا کیسے رہا تھا ۔۔۔۔آدھے ہتھیار اندر پہنچانے کے بعد میں نے واپس کھینچا اور دھکے دیتے ہوئے اندر پہنچا یا ۔۔۔۔کلدیپ ہونٹ بھینچتی ہوئی درد برداشت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے اب کی بار دھکے متوازی رکھے ۔۔۔۔اور رفتہ رفتہ تیز کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی مرتبہ لرزی ۔۔۔۔۔پھر کانپی ۔۔اور مستقل ہلنے لگی ۔۔۔ہتھیا ر میرے وزن کے ساتھ نیچے گھستا تھا ۔۔۔جس کا دباؤ کلدیپ کے جسم پر بھی زور ڈالتا ۔۔۔۔اس کا پورا جسم ہلنے لگا ۔۔تھا ۔۔۔وہ اپنی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اسپیڈ تیز ہوئی اور درد اس کی برداشت سے باہر ۔۔۔۔اس کی بےاختیار آہ نکلی ۔۔۔۔اور پھر سسکاری نکلی ۔۔۔پھر کراہ نکلی ۔۔۔۔مستقل دھکوں کے ساتھ کراہوں کا سلسلہ جاری ۔۔۔۔۔اس کے چہرے کے نقش و نگار بھی ایسے ہی تبدیل ہوتے ۔۔۔۔ٹوپا جب داخل ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔تھوڑا ااور اندر آتا تو الگ ۔۔۔اور جب آدھا ہتھیار گھس کر واپس ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔۔میں نے دھکوں کو جھٹکوں میں تبدیل کر دیا ۔۔اس کی آوازیں بھی اور اونچی ہوئیں ۔۔۔۔آہ۔۔۔کے ساتھ ۔۔اووئی ۔۔کا اضافہ ہو ا۔۔۔۔آہ۔۔اووئی ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔آآئی ئی۔۔۔۔۔ کی آواز اس وقت آئی جب اپنے وزن کے زور میں کچھ اور زیادہ ہی بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ٹوپے کی رگیں پھولنے لگی تھی ۔۔۔میرا وقت بھی قریب ہی تھا ۔۔۔جھٹکے درمیانے سے تیز ہونے لگے۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی ہی کافی حد تک مڑی تھی ۔۔زیادہ اس کے لئے خطرناک بھی تھا۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں سیدھی کر دیں ۔۔۔اور سیدھی ٹانگوں کےاوپر بیٹھے گیا ۔۔۔۔اوپر بیٹھے بیٹھے ہی ٹوپے کو چوت پر رکھے ہوئے آگے کو دھکا دیا ۔۔۔۔اینگل نیا تھا ۔۔۔درد اور مزے بھی نیا ملا ۔۔۔۔میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے کمر ہلکی سی اٹھا دی ۔۔اور جھٹکوں سے اسے ہلانے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ کی سسکاریاں ایسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔۔اس کا بدن ویسے ہی ہل رہا تھا ۔۔۔۔وہ بھی پانی چھوڑ نے والی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے ۔۔۔۔۔ابھی طوفانی ہونا باقی تھے ۔۔۔مگر پھر سے کلدیپ کا خیال آیا ۔۔۔نیچے تخت تھا ۔۔۔اور گدا زیادہ موٹا بھی نہیں ۔۔۔۔۔اس رگڑ بھی پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسپیڈ اتنی ہی رکھی ۔۔۔۔کلدیپ کی آہیں جاری تھی ۔۔۔۔اووئی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔میں نے مموں پر رکھے ہاتھوں کو اس کے کندھے پر رکھ کر تھوڑا اور اٹھا ۔۔۔اور کچھ اور دھکے جمائے ۔۔۔۔کلدیپ کی چوت نے ہار مانی اور پانی چھوڑ دیا ۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کردی ۔۔اور اگلے تیس سیکنڈ کی طوفانی اسپیڈ نے فوارہ چھوڑدیا ۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی چوت سے پانی باہر گرنے لگا۔۔۔۔میں نے ہتھیار نکالا اور ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔کلدیپ نے بھی کچھ دیر اپنی سانس بحال کی ۔۔۔مجھے چومنے لگی ۔۔۔میں نے ساتھ پڑی چادر اٹھائی اور خود پر ڈال دی ۔۔۔کچھ دیر باتیں کی اور پھر سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #5


          اگلے دن صبح کلدیپ نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا ۔۔۔۔۔میں ناشتہ لینے جارہی ہوں ۔۔اٹھ جاؤ ۔۔۔
          میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولی ۔۔۔کلدیپ نے چادر اوڑھ لی تھی ۔۔اور باہر نکل رہی تھی ۔۔۔۔میں بھی اٹھا اور باتھ لینے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔دس منٹ تک پانی کے نیچے کھڑا خود کو فریش کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔
          راجیش کل اپنی منزل کو پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔۔جیوتی کا رد عمل کیا ہوگا۔۔۔؟ مندر سے اٹھائی ہوئی دولت بھی اسی کے پاس تھی ۔۔۔۔۔۔اور عاصم سے رابطہ بھی کرنا تھا ۔۔۔۔
          میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کلدیپ کی آواز آئ۔۔۔وہ واپس آ چکی تھی ۔۔۔میں نے تولیہ اپنے جسم پر لپیٹا ۔۔۔اور باہر آگیا ۔۔۔کپڑے کے نام پرمیرے پاس وہی ایک سوٹ تھا جو کل سے میرا ساتھ دے رہا تھا ۔۔۔
          باہر آیا کلدیپ ناشتہ سجا کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔کوئی پہلوانوں والا ناشتہ تھا ۔۔۔۔میں بھی آ کر بیٹھا اور کافی عرصے بعد لسی اور مکھن کے مزے چکھے ۔۔۔۔۔۔۔چائے کی پابندی تھی ۔۔۔۔بقول کلدیپ پنجابیوں اور چائے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ ہریانہ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔۔اس کا بھائی اور وہ دونوں ساتھ ہی تھے ۔۔۔۔۔اس کے بھائی نے یونیورسٹی میں ہی سکھوں کی ایک اسٹوڈنٹ تنظیم میں شمولیت اختیار کی ۔۔۔جو خالصتان کی حامی تھی ۔۔۔اور آہستہ آہستہ اس تنظیم کا لیڈر بن گیا ۔۔۔۔۔مختلف مظاہروں اور پرنٹ میڈیاکے زریعہ وہ خالصتان تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھا ۔۔اور یہی کام اسے راجیش کے مقابل لے آیا تھا ۔۔۔کچھ دن پہلے راجیش نے اسے اغوا کیا تھا ۔۔۔اور پھر کلدیپ نے اسی تنظیم کے لڑکوں کے ساتھ مل کر اسے رہا کرنے کی کوشش شروع کی ۔۔۔کل مجھے بھی اسی سلسلے میں اٹھایا گیا تھا ۔۔۔میرے آنے سے پہلے وہ راج گڑھ میں راجیش کے گھر حملے کے لئے تیار تھے۔۔۔۔
          میں اس کی بات سنتے جا رہا تھا ۔۔۔اور ناشتے سے بھی بھرپور انصاف کر رہا تھا ۔۔۔اپنے بھائی کے بعد وہ خود تنظیم کی لیڈر بننا چاہ رہی تھی ۔۔۔اور اپنے بھائی کے کام کو جاری رکھنے کا عزم کر رہی تھی ۔۔۔اصولی طور پر تو میں بھی خالصتان کا ہی حامی تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے سے میرا پوچھا ۔۔۔۔۔میں نے اسی دوران اپنی کہانی بھی بنا لی ۔۔۔راجیش کو اپنی ذاتی دشمنی بتائی تھی ۔۔کہ کچھ عرصے پہلے اس نے بھی میرے دوست کو مارا تھا ۔۔اور میں نے بدلے کی قسم کھا ئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ تم میرا مزاج سمجھ چکی ہو گی ۔۔۔۔پابندیوں میں رہنا مشکل کام ہے ۔۔۔ساتھ ہی کسی ایک جگہ ٹکنا بھی مشکل ہے ۔۔۔پھر بھی اگر کوئی مشکل ہو تو تم مجھے کال کر سکتی ہو ۔۔۔۔۔اس کےعلاوہ پیسوں کی جتنی مدد چاہئے ہو میں حاضر ہوں ۔۔۔میں نے کلدیپ سے اچھے الفاظ میں معذرت کی ۔۔
          اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا۔۔۔۔مگر آپ تو میری مجبور ی سمجھتے تھے (ریڈرز حضرات)۔۔۔۔
          اچھا کوئی فون ہے تو دو میں نے اپنے ایک دوست کو فون کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ دوسرے کمرے سے اپنا پرس اٹھا لائی ۔۔۔اور اندر ہاتھ ڈالنے کے بعد فون نکالا اور میری طرف بڑھا دیا
          عاصم کا دیا ہوا نمبر میرےذہن میں محفوظ تھا۔۔۔دوسری بیل پر نمستے تکا رام اسپیکنگ کی آوازآئی تو میں ہڑبڑا گیا ۔۔۔۔نمبر غلط تھا یا میں بھول گیا تھا ۔۔میرے جسم میں بے چینی کی لہر دوڑی ۔۔
          اگلا بندہ ہیلو کرتا ہوا ۔۔۔کون ۔۔۔۔کون پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
          اور پھر شاید اس نے فون کسی اور کو دیا۔۔۔۔۔۔عاصم کی بھاری آواز میرےکانوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔ہو از اسپیکنگ ۔۔۔ ؟
          گمشدہ پرندہ ۔۔۔۔۔۔میں اطمینان میں آچکا تھا ۔۔نمبر ٹھیک ہی تھا ۔۔
          آپ کہاں ہیں راجہ صاحب ۔۔ہم کل سے آپ کے لئے پریشان تھے۔۔۔۔راجیش کی اطلاع مجھے مل گئی تھی ۔۔۔میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کا ہی کارنامہ ہے ۔۔۔۔عاصم کی خوشی سے بھرپور آواز مجھے سنائی دی ۔۔
          میں نے کلدیپ سے ایڈریس پوچھتے ہوئے بتا دیا ۔۔۔اس نے ابھی آیا کی آوا ز لگائی اور فون بند کر دیا۔۔۔
          کلدیپ ابھی بھی مجھے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے اسے قریب بلا لیا اور پھر سے سمجھانا شروع کر دیا۔۔۔
          میرے ابھی بہت سے دشمن باقی ہیں ۔۔وہ میرے خون کے پیاسے بھی ہیں ۔۔اور مجھےڈھونڈ بھی رہے ہیں ۔۔اگر میں کہیں رک گیا تو ان کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔۔اور تم مجھ سے الگ رہو گی تو میری مدد بھی کرسکو گی ۔۔۔۔
          کیسی مدد ۔۔۔۔کلدیپ نے نم آنکھوں سے پوچھا ۔۔
          تم اپنی اسٹوڈنٹ تنظیم کو منظم کر و ۔۔۔۔ جوشیلے جوانوں کو الگ کرو ۔۔انہیں تربیت دو ۔۔۔۔لڑنے کی بھی اور اپنی حفاظت کی بھی ۔۔۔اور یہاں کی مختلف یونیورسٹیز میں اپنے یونٹ بناؤ ۔۔۔۔ اورزیادہ سے زیادہ جوانوں کو ملا کر ہر سطح پر اپنی آواز اٹھانے کا بندوبست کرو ۔۔۔۔۔۔اس کے لئے جتنی مالی امداد کی ضرورت ہو ۔۔۔میں کرنے کو تیار ہوں ۔۔۔اس کے علاوہ تم جب چاہو گی میں تمہار ے پاس حاضر ہو جاؤں گا۔۔۔۔کلدیپ مجھ سے لپٹی خاموشی سے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔ بات اس کی سمجھ میں آرہی تھی ۔
          اور اگر میں تم سے ملنا چاہوں ۔۔۔اور خود آنا چاہوں تب ۔۔۔۔۔کلدیپ نے پھر سیاہ آنکھیں اٹھا کر مجھےدیکھا ۔
          تم جب چاہو میرے پاس آسکتی ہو۔۔۔۔اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔میں نے کہا۔
          کلدیپ کچھ مطمئن سی تھی ۔۔۔مجھے سے لپٹے ہوئے اس کے بوسے جار ی تھے ۔۔ جب میں نے ہارن کی آواز سنی ۔۔ساتھ ہی کلدیپ کا فون بجا ۔۔۔۔میں تیزی سےاٹھنے لگا۔۔۔کلدیپ نے مجھے لٹاتے ہوئے لپٹ گئی ۔۔۔ایک کے بعد ایک بوسے تھے ۔۔۔میں اسے جواب دیتا ہوا اٹھا ۔۔دروازہ کھولا۔۔۔۔۔عاصم تیزی سے اندر بڑھا تھا ۔۔۔گرم جوشی سے لپٹا تھا ۔۔۔راجہ صاحب کدھر گم ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
          میں بھی لپٹ گیا ۔۔۔دیار غیر میں وہ میرا بھائی تھا ۔۔غم گسار بھی تھا ۔۔ مشکلوں میں ساتھ نبھانے والا ۔۔۔ شانے سے شانے ملا کر چلنے والا ۔۔۔۔کلدیپ حیرانگی سے ہماری محبت کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔عاصم نے الگ ہوتے ہوئے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
          ادھر بھی لڑکی کا چکر ہے دوست ۔۔۔۔۔! ۔۔۔
          میں نے اس کی پیٹھ پر دھپ ماری اور کہا کہ یہی بات ہے پیارے ۔۔۔۔۔
          ہم الگ ہو گئے ۔۔۔۔میں نے کلدیپ کا تعار ف کروادیا ۔۔اور عاصم کا نمبر بھی دے دیا ۔۔اس کے بعد ہم رخصت ہوئے ۔۔کلدیپ دروازے پر کھڑی دیکھتی رہی اور پھر پلٹ گئی ۔۔اسے بھی بہت کام کرنے تھے ۔۔۔
          عاصم ایک جیپ لے کر آیا تھا ۔۔۔کچھ گلیوں سے گزرتے ہوئے میں روڈ پر آئے ۔۔۔جہاں کل کا معرکہ گرم تھا ۔۔۔۔میں کل کی کہانی عاصم کو سناتے جا رہا تھا ۔۔۔
          عاصم کی رہائش تھوڑی ہی دور تھی ۔۔۔۔ایک بڑی باؤنڈری کی عمارت تھی ۔۔۔جیپ دروازے پر رکی تو دروازہ کھلنے لگا۔۔۔سامنے ایک پرانی طرز کی عمارت تھی ۔۔۔۔جیپ روک کر عاصم اچھلتا ہوا باہر آیا ۔۔۔۔ادھر گیٹ کھولنے والا بھی عاصم کے پاس آگیا ۔۔۔۔یہ نوجوان بھی اسلحہ سجائے کھڑا تھا ۔۔۔۔راجہ صاحب مل گئے آپ کو ۔۔۔۔عاصم نے کہا ہاں یا ر مل ہی گئے ۔۔۔۔بڑی دوڑ لگوائی ہے انہوں نے ۔یہ رضوان ہے ۔۔۔۔عاصم نے مجھے بتایا کہ کل سے ان سب کی شامت آئی ہوئی ہے ۔۔۔۔سب گاڑیاں لے کر نکلے ہوئے تھے ۔۔۔۔یہ عاصم کا اپنا گروپ تھا۔۔۔۔یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے ۔۔مگر بے روزگاری نے انہیں چوری چکاری اور دوسرے غلط دھندے میں ملوث کر دیا تھا ۔۔۔۔ایسے ہی ایک کارووائی میں یہ عاصم سے ملے اور پھر اسی کے پاس رہ گئے ۔۔۔۔۔رضوان بھی مجھ سے گرم جوشی سے ملا۔۔۔
          ہم اندر پہنچے تو عاصم نے چائے کی آواز لگادی ۔۔۔۔مجھے بھی بڑی طلب تھی ۔۔۔
          اور پھر ایک سجے ہوئے کمرے میں پہنچے ۔۔۔۔چائے آئی اور پینے کے دوران میں نے بقیہ داستان سنا دی۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کی مکمل رپورٹ اس تک پہنچ چکی تھی ۔۔پورا ہیڈ کوارڈر ملیا میٹ ہوا تھا۔۔۔اور ساتھ ہی انڈین گورنمنٹ کو اسرائیل کی حکومت کو بھی جواب دینا تھا جس کے ایجنٹ وہاں مرے تھے ۔۔۔۔۔۔انڈین میڈیا نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا۔۔۔۔را اور انٹیلی جنس نے اپنا ایک اور آفیسر میدان میں اتارا تھا ۔۔۔۔عاصم نے اس کے پیچھے بندہ لگا دیا تھا۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی یہاں کے پولیس اسٹیشن میں بھی ہمارے بارے میں احکامات پہنچ چکے تھے ۔۔
          چائے لے کرآنے والا بھی ویسا ہی نوجوان تھا ۔۔۔۔اور چائے بھی مزے کی تھی۔۔۔۔ہم چسکیاں لینے لگے ۔۔۔۔
          آگے کا کیا پروگرام ہے راجہ صاحب ۔۔۔۔۔عاصم نے پوچھا۔
          بس کام مکمل کرنے کا ارادہ ہے ۔۔۔۔۔۔تم نے بتایا تھا کہ صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔جہاں ڈروں طیارے رکھے گئے ہیں وہ الگ جگہ ہیں ۔۔۔۔میں نے کہا۔
          جی راجہ صاحب ۔۔۔۔ایک ائیر بیس تو شملہ میں ہے ۔۔۔۔جبکہ دوسراپٹھان کوٹ میں تھا ۔۔۔۔۔اور خوشی کی بات یہ ہے کہ پٹھان کوٹ میں کچھ مہینے پہلے کشمیری فریڈم فائڑز نے اٹیک کیا تھا ۔۔۔۔اور میر ی معلومات کے مطابق وہ اس ڈرون طیارے کے ہینگر تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گئے تھے ۔۔۔۔بس انڈین میڈیا نے یہ بات چھپا لی تھی ۔۔۔
          تو پھر شملہ کی طرف روانگی پکڑتے ہیں ۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ۔۔
          راجہ صاحب تھوڑا دھیرج رکھیں ۔۔۔۔اسی کام پر بندہ لگا دیا ہے ۔۔۔۔وہ آتا ہی ہو گا۔۔عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          عاصم کا ذہن مجھ سے تیز چل رہا تھا ۔۔۔وہ موجودہ حالات کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اگلےآنے والے واقعات کے لئے بھی ماحول تیار کر رہا تھا ۔۔۔اور یہی ہوا تھا۔۔۔۔شام کو اس کا بندہ آ گیا تھا ۔۔۔نوید نامی یہ لڑکا بھی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ عمر کا ہی تھا ۔۔۔۔عاصم نے مجھے بلوا لیا۔۔۔۔
          اسی کمرے میں ہم بیٹھے ۔۔۔۔۔نوید مجھ سے پرتپاک انداز سے ملا۔۔۔اور پھر تفصیل بتانے لگا۔۔۔
          عاصم بھائی ۔۔۔پچھلے ہفتے ہی ٹورزم ایجنسی میں ایک غیر ملکی گروپ کی ریکوئسٹ آئی تھی ۔ ۔۔۔ ۔۔یہ آسٹریلیا اور جرمنی سے آئے ہوئے لوگ ہیں ۔۔چار لوگوں کا گروپ ہے ۔۔۔۔ایکدوسرے گائیڈ نے انہیں انڈیا کی سیر کروادی ہے ۔۔۔اب انہوں نے کل شملہ جانا ہے ۔۔۔میں نے انہوں بتا دیا ہے وہا ں کے لئے ہم گائیڈ تبدیل کر یں گے ۔اور وہ راضی بھی ہیں ۔۔۔۔اب آپ بتائیں کہ آپ لوگوں کا کیا پلان ہے ۔۔۔
          نوید پہلے عاصم کے پاس ہی کام کرتا تھا ۔۔عاصم نے ہی اسے اس ٹوررزم ایجنسی میں جاب لگوا کر دی تھی ۔۔۔۔اب وہ دو تنخواہیں لیتا تھا ۔۔۔ایک عاصم سے اور ایک ایجنسی سے ۔۔۔۔
          عاصم نے نوید سے پوچھا کہ ایک گائیڈ جائے گا یہ دو گائیڈ ۔۔۔۔۔
          عاصم بھائی یہ تو ہم پر ہے ۔۔۔گائیڈ ہمارا ہے وہ تو ایک کے پیسے دیں گے ۔۔۔مگر اگر دوسرا جائے تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔ظاہر ہے اس کے پیسے ایجنسی کے پلّے ہی سے جائیں گے ۔۔۔
          کیا ارادے ہیں پھر جگر ۔۔۔۔چلیں شملہ ۔۔عاصم مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔میں نے آنکھوں سے اشارہ کر دیا ۔۔
          عاصم نے نوید کو فائنل کر دیا ۔نوید نے جھجکتے ہوئے کہا کہ عاصم بھائی کاغذات کی سیٹنگ بنالیجئے گا۔۔آج کل سختی زیادہ ہے ۔۔۔۔عاصم نے اسے مطمئن کردیا ۔۔
          اگلے دن صبح روانگی تھی ۔۔۔۔شام کا کھانا ہم نے باہر کھایا ۔۔
          عاصم کو راج گڑھ میں دیکھ کر مجھے لگا یہ یہیں مشہور تھا ۔۔۔مگر یہاں لدھیانے میں وہ اس سے زیادہ معروف تھا۔۔۔جہاں سےگذرتا ۔۔لوگ عاصم بھائی کہتے ہوئے سلام کرتے ۔۔۔
          ہم ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔جہاں کا ساگ اور تندوری چکن مشہور تھا۔۔۔۔عاصم نے آرڈر دیا اور ۔۔تھوڑی ہی میں ساگ کے ساتھ لسی۔۔۔اور تندوری چکن تھے ۔۔۔پنجاب کا اپنا ہی ذائقہ تھا۔۔۔۔خوب سیر ہو کر کھایا ۔۔
          کھانے کے بعد عاصم نے پیسے دینے کے لیئے پرس نکالا ۔۔۔مگر ریسٹورنٹ کا مالک خود آیا اور منع کرنے لگا۔۔۔یہاں بھی عاصم کی فین فالونگ تھی ۔۔۔عاصم نے انکار کیا کہ پھر یہاں نہیں آؤں گا۔۔اور زبردستی اس کی جیب میں پیسے ڈال دئے ۔۔۔۔
          اور پھر اپنی جیپ کی طرف چل پڑا ۔۔۔میں ساتھ ہی تھا۔۔۔۔لسی پینے کے بعد سرور سا آنے لگا۔۔۔۔گھر واپس پہنچے تو عاصم مجھے اوپر اپنے کمرے میں گیا ۔۔۔اورالماری کہتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔راجہ صاحب میرا خیال ہے کہ ہمار ا ناپ ایک ہی ہے ۔۔۔۔آپ کل سفر کے لئے کپڑے منتخب کر لیں ۔۔۔میں جب تک باقی کام دیکھتا ہوں ۔۔۔کاغذات آج نوید کو دینے ہیں ۔۔وہ اپنی ایجنسی کی سائٹ پر ہمیں گائیڈ کے طور پررجسٹر کروادے گا۔۔پھر الماری کی درازکھول کر ایک موبائل میری طرف بڑھا دیا۔۔۔۔یہ موبائل رکھ لیں ۔۔۔۔سم ایکٹو ہے ۔۔بس آن کر لیں۔۔۔عاصم نے موبائل دیا اور نیچے چلا گیا۔
          میں موبائل ہاتھ میں پکڑا سوچتا رہا ۔۔جیوتی اور کلدیپ کا نمبر سیو کر لیا۔۔۔۔اور پھر نیند میں ڈوبتا چلاگیا۔۔۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          عاصم نے رات ہی ڈرائیونگ لائسنس سے لے کر ہر چیز تیار کرلی تھی ۔اور نوید کی مدد سے ہم گائیڈ کے طور پر رجسٹر ہو چکے تھے ۔۔میرا میک اپ عاصم نے ختم کر کے پہلے والی رنگت کر دی تھی ۔۔اور نئے کاغذات بھی نئی تصویر کے ساتھ تھے ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے صبح سویرے جگایا تھا۔۔۔ناشتے کے بعد تیار ہونے لگا۔۔۔میرا بیگ عاصم نے ہی پیک کیا تھا ۔۔۔اور پھر ہم جیپ پر بیٹھے نوید کی ایجنسی پہنچے ۔۔۔۔ورلڈ ٹوررزم کے نام کی یہ ایجنسی کافی بڑی اور مشہور لگ رہی تھی ۔۔عوام کے رش کے ساتھ اندر اسٹاف کے کافی لوگ فون کے ساتھ مصروف تھے ۔۔۔ہم اندر پہنچے تو نوید بھی آگیا۔۔۔۔اور اپنے آفس میں لے گیا ۔۔یہاں دو کپل بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ہنی مون کے لئے انڈیا آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور تاج محل دیکھتے ہوئے سدابہارمحبت کی قسمیں کھائی تھیں ۔۔۔نوید نے ہمار ا ان سے تعار ف کروایا ۔۔۔۔۔اور چائے منگوانے لگا۔۔۔دونوں جوڑے 25 سے 30 سال کی عمر کے درمیان تھے ۔۔۔جیمز اور اس کی مسز کرسٹینا کا تعلق آسٹریلیا سے تھا ۔۔۔۔یہ وہاں کمپیوٹر انجینئر تھے ۔۔۔۔۔۔۔جبکہ البرٹ اور اس کی مسز ہیلن جرمنی میں ٹیچرز تھے ۔۔۔۔۔۔دونوں کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت ان کا یہاں انڈیا میں پایاجانا تھا ۔۔۔۔دونوں جوڑے بالی وڈ موویز کے بھی فین تھے ۔۔۔ہم لوگ باتوں میں مصروف تھے ۔۔کہ نوید کی آواز آئی ۔۔۔عاصم بھائی میں نے اپنےباس سے دو گائیڈکی بات کر لی ہے ۔۔۔مگر ۔
          اس نے اپنے دوست کی بیٹی کو بھی ساتھ لے جانے کا کہا ہے ۔۔۔وہ بھی وہیں جاب کرتی ہے ۔۔اور باس نے اسے بھی وہیں چھوڑنے کاکہا ہے ۔۔۔۔۔
          کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ہو جائے گا۔۔۔اس کے بعد نوید نے تین دن ٹوورز کا پروگرام بتا دیا۔۔۔ایک دن شملہ میں رک کر اگلے رات منالی میں رکنا تھا ۔۔۔اور پھر جالندھر کے راستے واپسی ہونی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد نوید نے جیپوں میں سامان رکھوانا شروع کر دیا ۔۔ہمارا بیگ بھی ساتھ تھا۔۔۔۔ہم باہر آگئے تھے ۔۔۔اتنے میں نوید ایک اور لڑکی کو ساتھ لئے آیا ۔۔۔۔پوجا ڈکشٹ نامی یہ لڑکی فیشن ڈیزائنر اور میک اپ آرٹسٹ تھی ۔۔۔خود بھی کافی الٹرا ماڈرن لگ رہی تھی ۔۔۔۔بال اسٹریٹ اور نچلی طرف سے پنک کلر میں رنگے ہوئے تھے ۔۔۔بے فکری سے چشمہ چڑھائے چیونگم چبانے میں مصروف تھی ۔فگر اچھا تھا ۔۔اور لال رنگ کی لمبے سے کرتے اور جینز میں اور بھی اچھا لگ رہا تھا ۔لال رنگ کی یہ قمیض کے سائیڈ کافی اونچی تھی جس سے اس کی گوری رنگ جھانک رہی تھی ۔۔۔اور جینز تو چھپانے کے بجائے دکھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔مجھے خود پر دیکھتے ہوئے اس کے چہرے کا تاثرات کچھ ناگوار ہوئے ۔۔۔۔۔۔نوید میری جیپ میں اس کا بیگ رکھ رہا تھا ۔۔۔جب اس نے کہا کہ میرا بیگ اگلی جیپ پر رکھ دو ۔۔۔جہاں عاصم البرٹ اور ہیلن کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔۔میں بھی اسے گھورتا ہوا اپنی جیپ پر جابیٹھا ۔۔۔جیمز اور کرسٹینا میرے ساتھ تھے۔۔۔۔۔کرسٹینا کافی باتونی تھی ۔۔۔۔اور جیمز خاموش مزاج آدمی تھا۔۔۔۔وہ دونوں پیچھے جا بیٹھے اور باتوںمیں مصروف ہوگئے۔۔۔عاصم سارے راستے سے باخبر تھا۔۔۔۔۔اس نے جپ اسٹارٹ کی اور سفر شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔شملہ کا راستہ صرف پانچ گھنٹے کا تھا ۔۔۔۔مگر اصل کام انہیں وہاں پر گھمانا تھا۔۔۔۔جلد ہی دونوں جیپوں ہائی وے پر پہنچ کر دوڑنے لگی ۔۔۔
          جیمز اور کرسٹینا بھی باتیں کرنے میں مشغول تھے ۔ہمیں جیپ پر سفر کرتے ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے ۔سیدھے روڈ پر سیدھا سفر جاری تھا۔۔۔میں راستے پر بورڈ پڑھتا جا رہا تھا ۔۔شملہ کوئی ڈیڑھ سو کلو میڑ رہ گیا تھا ۔۔۔ہلکی سی چڑھائی شروع ہو رہی تھی ۔۔اور ٹھنڈ کا احساس بھی ۔۔آخری بورڈ دیکھا تو سو کلو میٹر کا سفر تھا۔۔۔۔ادھر عاصم نے بھی اسپیڈ بڑھا دی ۔وہ گاڑیوں کو کراس کرتے ہوئے تیزی سے نکلنے لگا۔۔۔۔۔میں نے بھی ریس پر پاؤں رکھ دیا ۔۔۔۔میٹر کا کانٹا 90 سے کراس ہو کر اوپر جا رہا تھا ۔۔۔۔جیمز نے چونک کر مجھے دیکھا ۔۔۔اور اسپیڈ کو ۔۔۔۔اور پھر اگلی جیپ کو۔۔۔۔میں جیپ کی اسپیڈ بڑھاتے جا رہا تھا ۔۔۔۔عاصم کی جیپ کے قریب پہنچا ۔۔اس نے اسپیڈ کم کی تھی ۔۔جیپ برابر میں لایا تو عاصم نے مجھے دیکھا ۔۔ریس ہو جائے ۔۔۔جگر ۔۔۔۔میں نے عاصم کے ساتھ بیٹھی ہوئی پوجا کو دیکھا تو سمجھ گیا ۔۔وہ شرارت بھرے انداز میں مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔یہ اس نے عاصم کو ہی بھڑکایا تھا ۔۔۔۔میں نے پیچھے دیکھا تو البرٹ اور ہیلن بھی اس ریس کو انجوائے کرنے کے موڈ میں تھے ۔۔۔اور ادھر کرسٹینا اور جیمز نے بھی اونچی آواز میں ابھارنا شروع کر دیا۔۔۔۔مجھے کیا پریشانی تھی ۔۔۔میں نے بھی اشارہ کرتے ہوئے ریس بڑھا دی ۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔ ہائی وے کا یہ روڈ ہمارے نیچے سے بھاگنے لگا۔۔۔۔۔۔ہم باقی ٹریفک کو خطرناک سائیڈ دیتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔دوسری ٹریفک بھی ہماری ریس دیکھ رہی تھی ۔۔۔ادھر کرسٹینا نے اپنا کیمرہ نکال کرویڈیو بنانی شرو ع کرد ی ۔۔۔۔۔دونوں کھلی جیپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے تھے۔۔اور آپس میں چیخ کر خوشی کا اظہار کر رہےتھے ۔۔۔ادھر بھی یہی صورتحال تھی۔۔۔۔البرٹ بھی ریس کی ویڈیو بناتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے کراس کر لیا تھا۔۔۔اور کچھ فیٹ کے فاصلے پر ہم یکساں رفتار سے بھاگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔کرسٹینا چیخ چیخ کر مجھے آگے نکلنے کا کہ رہی تھی ۔۔۔میں جس سائیڈ پر کراسنگ کے لئے آؤں ۔۔۔عاصم بھی جیپ اسی طرف کر دیتا ۔۔ہماری یہ کشمکش جاری تھی ۔۔عاصم نےاسپیڈ آہستہ کر لی۔۔۔روڈ اب گول گھومتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔۔۔کسی زگ زیگ کی طرح یہ روڈ اوپر چڑھ رہا تھا ۔۔عاصم ابھی بھی آگے تھا۔۔۔۔موڑ پر گاڑی کے ٹائر چرچراتے اور گاڑی گھومتی ہوئی پھر اسپیڈ پکڑتی ۔۔۔۔ایک موڑ پر میں نے اسپیڈ تیز کی ، اور اگلے موڑ سے پہلے عاصم کو پہنچنے کی کوشش کی ۔۔۔تبھی ایک اور جیپ میرے برابر میں تیزی سی آئی ۔۔۔۔۔میں نے چونک کر دیکھا ۔ہلا گلا کرتے ہوئے اور اونچی آواز میں گانے چلائے ہوئے پانچ کے قریب لوگ تھے ۔اور بگڑے ہوئے امیر زادے لگ رہے تھے۔۔۔چھٹا ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔۔۔اس نے مجھے سائیڈ دینے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے اسپیڈ کم کرتے ہوئے بچایا تھا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی گاڑی روڈ کی سائیڈ پر کی ۔۔۔۔دوبارہ روڈ پر آنے کے بعد اسپیڈ بڑھانے لگا۔۔۔۔مگر وہ جیپ مجھے راستہ دینے کو تیار نہیں تھی ۔۔۔۔بار بار سامنے آ کر بریک لگاتے ۔۔۔ پیچھے والے لڑکے مستقل ہوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جیمز اور کرسٹینا بھی پریشان ہو گئے ۔۔۔۔ایک نے شراب کی بوتل ہماری طرف اچھالی تھی ۔۔۔۔۔۔۔بوتل ونڈ اسکریں سے ٹکرانی تھی ۔۔۔مگر میں نےبر وقت بریک دبائی ۔۔۔اور بوتل سامنے بونٹ پر گری ۔۔۔۔میرا خون کھول رہا تھا ۔۔تبھی میرے فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔میں نے اسپیکر آن کرتے ہوئے جیمز کے ہاتھ میں پکڑا یا جو جھانکتا ہوا آگے صورتحال دیکھ رہا تھا۔۔
          اسپیڈ بڑھا کر آگے آئیں راجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔عاصم کی ٹھہر ی ہوئی آواز میر ے کانوں میں ٹکرائی۔۔۔۔۔۔
          میں نے اسپیڈ بڑھا ئی ۔۔۔۔اورتیزی سے ان کے برابر سے نکلا ۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔
          اگلےموڑ پرعاصم رکا دیکھ رہا تھا۔۔۔اس نے بھی متوازن اسپیڈ دےکر جیپ آگے بڑھا دی تھی ۔۔۔ساتھ ہی اس کی آواز آئی ۔۔
          راجہ صاحب مجھے کراس کرتے ہوئےآگے نکلیں ۔۔۔۔۔۔میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔۔۔پیچھے والے ابھی تک آ رہے تھے ۔۔۔۔اگلے موڑ مڑنے کے بعد میں نے اسپیڈ اور تیز کی۔۔۔۔۔پچھلی جیب نے عاصم کی جیپ کو کراس کر لیا تھا۔۔۔۔اور مجھے پکڑنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔عاصم کی جیپ تیر کی طرح ان کے پیچھے آئی تھی ۔۔۔۔۔میں اگلے موڑ تک پہنچا ۔۔۔اور گاڑی گھمائی ۔۔۔۔پیچھے والے نے مجھےسائیڈ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے ریس فل دبا دی ۔۔
          راجہ صاحب اگلے موڑ کے قریب ہی ایک گہر ا کھڈا ہے ۔۔وہاں ان کا بندوبست ہو گا۔۔۔آپ وہاں موڑ پر گاڑی آہستہ کر کے موڑ کاٹیں ۔۔عاصم کی آواز آئی۔۔۔
          میں نے اسپیڈ بڑھا ئی ۔اور اگلے موڑ کے قریب پہنچ کر بریک دباتے ہوئے اسٹیرنگ گھما دیا۔۔۔جیپ پھسلی اور گھومتی ہوئی موڑ کاٹنے لگی ۔۔۔۔۔پچھلی جیپ والا بھی اسپیڈ میں تھا ۔۔۔اس نے بھی یہی کام کیاتھا۔۔عاصم اسی کا منتظر تھا۔۔۔ادھر جیپ پھسلتے ہوئے گھومنے لگی ۔۔عاصم کی جیپ کا بونٹ اس کی سائیڈ سے ٹکرایا ۔اور روڈ سےگھسٹتے ہوئے اسے نیچے دھکیلا ۔۔روڈ کے کنارے ہی ایک گڑھا تھا ۔۔۔جیپ پھسلتی ہوئ نیچے جا گری ۔۔۔ایک زوردار آواز گونجی تھی ۔۔۔۔گڑھا زیادہ گہرائی میں نہیں تھا ۔اس لئے صرف زخمی ہونے کا امکان تھا۔۔۔۔ انہیں سبق مل گیاتھا۔۔۔
          اس کے بعد ہم اسی تیز رفتاری سے گیسٹ ہاؤس پہنچے جو ٹورزم ایجنسی کا ہی تھا ۔۔۔دوپہر ہوئی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد کھانا سرو ہو گیا۔۔میں نے دیکھا کہ پوجا اور عاصم میں اچھی بن رہی تھی ۔۔۔۔پوجا اپنی جاب پر جانےکے بجائے ایک دن اور عاصم کے ساتھ گذارنا چاہتی تھی ۔۔۔اور عاصم کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔۔
          کھانا کھا کر عاصم پوجا کو لئے باہر جانے لگا۔۔۔۔ساتھ جیمز اور کرسیٹینا بھی تیار ہوگئے ۔۔۔۔شام تک کا کہہ کر وہ چلے گئے ۔۔۔میں ملاز م کو چائے کہ کہہ کر ایک کمرے میں چلا گیا جہاں ہمارے بیگ رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔موبائل میرے ہاتھ میں تھا ۔۔۔پہلی کال جیوتی کو کی تھی ۔۔۔میرا خیال تھا کہ وہ اپنے پتی کی آخری رسومات میں مصروف ہو گی ۔۔۔اور شاید غمزدہ بھی ۔۔۔۔۔تیسری بیل پر کال ریسیو کی گئی تھی ۔۔ اور شاید رونے والی آواز ہی تھی ۔۔میں نے ہیلو کہا اور وہ میری آواز پہچان گئی ۔۔۔ایک منٹ ہولڈ کا کہہ کر خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد اس کی سمبھلی ہوئی آواز پھر آئی ۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ آپ کا اتنی جلدی فون آئے گا۔۔۔اس نے مجھ سے راجیش کی بات نہیں کی تو میں بھی انجان بن گیا ۔۔۔
          کہاں ہیں آپ ابھی ۔۔۔۔جیوتی نے پوچھا
          میں ابھی شملہ کیطرف ہوں ۔۔۔۔تم آنا چاہو تو آ جاؤ ۔۔۔۔مجھے پتا تھا کہ اگلے تین چار دن اس کا آنا ممکن تھا۔
          ابھی تو مشکل ہے ۔۔یہاں ایک پریشانی پڑ گئی ہے ۔۔۔میں فارغ ہوتے ہی کال کروں گی ۔۔جیوتی نے میری توقع کے مطابق جواب دیا ۔
          اچھا تمہیں ایک لڑکی کال کرے گی ۔کلدیپ نام کی ۔۔اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اگر اس کا فون آ جائے تو پچاس لاکھ دے دینا ۔میں نے تمہار ا نمبر دے دیا ۔
          جیوتی نے ہامی بھرلی ۔۔اور کہا کہ وہ رات میں پھر فون کرے گی ۔۔۔ابھی مہمان آئے ہوئے ہیں ۔۔۔فون بند ہو گیا
          اگلا فون میں نے کلدیپ کو کیا ۔اور اگلے ہفتے تک جیوتی سے رابطہ کرنے کا کہا۔میں نے جب رقم بتائی تو وہ گنگ رہ گئی۔۔۔۔راجہ پچاس لاکھ بہت زیادہ ہیں ۔ میری اپنی بھی زمینیں ہیں ۔۔۔میں وہ بیچ کر ارینج کر لوں گی ۔
          میں نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔ سنو کلدیپ تمہار ا کام بھی کم آسان نہیں ہے ۔۔۔۔کوشش کرو کہ اس رقم کا آدھا حصہ کسی اچھی جگہ انویسٹ کرو ۔ مستقل آمدنی کے زرائع بن جائیں گے تو ٹینشن کم ہوگی ۔
          کلدیپ کچھ چپ ہو گئی تو میں نے بتایا کہ اگلے ہفتے تک ہماری ملاقات متوقع ہے ۔۔میں لدھیانے میں آؤں گا۔۔وہ خوش ہوگئی ۔میں نے فون بند کر دیا۔
          اتنے میں ہیلن اندر آ گئی۔۔ اور ملازم بھی چائے لے آیا۔میں نے ہیلن سے پوچھا تو اس نے کافی کہا ۔۔میں نے ملازم کو کافی کا کہ دیا۔
          ہیلن میرے سامنے ہی بیٹھی تھی ۔۔میں نے البرٹ کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ سو رہا ہے ۔ ہیلن اور البرٹ دونوں استاد تھے ۔۔۔اور نئی جوائننگ ہوئی تھی ۔وہ آج کے واقعہ کی وجہ سے پریشان تھی ۔۔وہ عاصم کی گاڑی میں تھے اور اس جیپ کو اپنی آنکھوں سے گڑھے میں گرتے دیکھا تھا۔۔میں نے مطمئن کیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔اگر کوئی مسئلہ ہوتا بھی ہے ۔۔۔تو ہم دیکھ لیں گے ۔۔ہیلن مطمئن ہو گئی ۔اور اٹھ کر جانے لگی ۔۔۔کچھ دیر بعد البرٹ بھی آ دھمکا ۔۔۔ہیلن نے بتایا کہ وہ سورہا تھا مگر یہ تو جاگا ہوا تھا ۔۔البرٹ بھی مجھ سے آج کی بات کرنے کے بعد فری ہونے لگا ۔۔کچھ دیر بعد اس کا موضوع لڑکیوں کی طرف آگیا ۔۔وہ مجھ سے ایشین لڑکیوں کے مزاج اورپسند ناپسند پوچھنے لگا۔۔۔۔میرا ماتھا ٹھنکا۔۔۔اور کچھ دیر بعد اس نے پوجا کا نام لیا تو میں سمجھ گیا۔۔آج پوجا اور البرٹ لوگ عاصم کی جیپ میں تھے ۔۔۔اور ریس کی دوران پوجا نے مجھے چڑانے کے لئے کھڑے ہو کر ہوٹنگ اور آواز بھی ماری تھی ۔۔وہ اپنی شوخ طبیعیت کی وجہ سے البرٹ سے بھی فری ہوئی مگر البرٹ کچھ زیادہ ہی مائل ہو رہا تھا ۔۔۔اور ابھی اسے پانے کے لئے مجھ سے بات کرنے آیا تھا ۔اس کے خیال میں وہ تھوڑے سے پیسے خرچ کر کے اسے اپنے ساتھ سلا سکتا تھا۔۔۔میں نے اسے بتایاکہ وہ عاصم کی طرف جھکی ہوئی ہے ۔۔اس لئے میں کچھ نہیں کرسکتا ہوں۔۔۔۔ہاں اگر وہ خود تمہار ی طرف آئے تو تم جو کچھ چاہو کر سکتے ہوئے ۔۔۔۔میں نے البرٹ کو صاف جواب دے کر بھگا دیا ۔۔۔اور سونے لیٹ گیا ۔۔عاصم فی الحال باہر مزے کر رہا تھا۔
          شام کو مجھے عاصم نے ہی اٹھا یا ۔۔۔پوجا اس کے پیچھے کھڑی تھی ۔۔اس کے لہجہ ابھی بھی مجھ سے اکھڑا اکھڑا تھا ۔۔۔بلکہ عاصم کا میرا ساتھ رویہ دیکھ کر وہ اور جیلس سی ہوگئی ۔۔۔عاصم باہر سے کھانا پیک کروا کر آیا تھا ۔۔۔
          چلو جگر اٹھو ۔۔۔۔کھانا لایا ہوں ۔۔۔۔۔عاصم نے میرا ہاتھ پکڑ کھینچے ہوئے کہا ۔
          میں اٹھ کر فریش ہونے لگا۔۔اور باہر آیا ۔ڈائننگ ٹیبل پر خوب چہکار تھی ۔۔۔سب لوگ آئے ہوئے چہک رہے تھے ۔۔۔عاصم درمیان میں بیٹھا پوجا کو کھلا رہا تھا ۔۔۔میں بھی جا کر بیٹھ گیا ۔۔ پوجا مجھے دیکھ کر عاصم سے اور لپٹنے لگی ۔۔۔کھانا مزے کا تھا۔۔۔ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔۔۔۔۔اسپیشل ڈش تلی ہوئی فش تھی ۔۔جوپوری کی پوری مصالحہ بھر کے فرائی کی گئی تھی ۔۔کھانے کے بعد عاصم پوجا کے ساتھ ایک کمرے میں چلا گیا۔
          اس گیسٹ روم میں دو بڑے کمرے اور ایک لاؤنج تھا۔۔۔ایک کچن تھا جس کے سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل رکھی تھی ۔۔۔اور کام کے لئے ایک ملاز م رکھا ہوا تھا۔۔
          ہم نے سیٹنگ یہ بنائی تھی کہ ہیلن ، کرسٹینا اور پوجا کو ایک کمرہ دے دیا ۔۔۔جبکہ میں جیمز، عاصم اور البرٹ ایک کمرے میں تھے ۔۔جبکہ ملازم رات کو واپس اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
          میں کمرے میں آیا جیمز اور البرٹ میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔۔۔۔۔مجھے البرٹ سے الجھن محسوس ہونے لگی ۔۔۔کھانے کے دوران بھی وہ پوجا کی طرف حریص نگاہوں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
          میرے لئے چائے اور البرٹ ، اورجیمز کے لئے کافی آئی تھی ۔۔۔۔اتنے میں عاصم بھی میرے پاس آپہنچا ۔۔اپنی چائے وہ ساتھ ہی لے آیا تھا۔۔۔اتنے میں ملازم آیا اور جانے کی اجازت مانگی ۔عاصم نے جانے کا اشارہ کر دیا۔
          عاصم اور میں صوفے پر تھے ۔۔۔البرٹ اور جیمز سامنے بیڈ پر باتیں کررہے تھے ۔۔میں عاصم کو چھیڑ رہا تھا کہ وہ مجھے لڑکی کے طعنے دیتا تھا ۔اور اب خود لڑکی اس کے پیچھے پڑی ہے ۔۔وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا رہا ۔۔راجہ صاحب ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ہم نے چائے ختم کی اور پھر عاصم کہیں فون کرنے چلا گیا۔۔۔البرٹ پھر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عاصم سے بات کرو ۔تم جو چاہو میں وہ رقم تم کو دوں گا۔۔۔۔۔۔میں نے غصے بھری آنکھوں سے اسے گھورا اور جا کر دفع ہونے کا کہا۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کو فون آیا اور میں باتیں کرنے میں مصروف ہو گیا۔۔ہماری باتیں ایک گھنٹے تک ہوتی رہیں ۔۔۔۔اس کے بعد فون بند کیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔۔عاصم بھی آگیا۔۔۔اور ہم ایک ہی صوفے پر سونے لگا۔۔ٹانگیں ہم نے ایک دوسرے کی طرف کیں۔۔۔۔۔اور بے تکلف دوستوں کی طرح دراز ہو گئے ۔۔۔۔جیمز اور البرٹ ہماری طرف دیکھتے رہے ۔۔اور پھر خود بھی سو گئے ۔۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          رات کاآدھا پہر تھا ۔۔جب میرے کانوں میں کوئ آواز پڑی تھی ۔۔میں چونک کر اٹھا ۔عاصم کو دیکھا تو وہ سو رہا تھا ۔۔۔آج کا پورا دن اس نے بھاگ دوڑ میں گزارا تھا۔۔۔میں نے جیمز اور البرٹ کی طرف نظر گھمائی ۔۔۔وہ دونوں اپنے بستر پر نہیں تھے ۔۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔کچھ گڑ بڑ تھی ۔۔۔تیزی سے باہر آیا ۔۔دائیں بائیں دیکھا ۔۔لڑکیوں والے کمرے کی طرف سے آواز آئی تھی ۔۔کسی کے چیخنے کی آواز تھی ۔۔اور آدھی چیخ میں ہی کسی نے منہ دبو چا تھا۔۔۔میں بھاگتے ہوئےدروازے پر پہنچا۔۔ اور زور سے دستک دی ۔۔ کچھ خاموشی ہوئی ۔۔میں نے پھر دھڑ دھڑ دروازہ بجایا۔۔۔ جیمز کی آواز آئی ۔۔ہو از دس۔۔۔۔؟ میں نے پوچھا اندر کیا چل رہا ہے ۔۔۔
          اس کے جواب نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی ۔۔۔ تم جا کر سو جاؤ ۔۔تمہارا کوئی کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
          میں نے پھر دروازہ بجایا ۔۔۔۔۔مگر جیمز شاید واپس ہو گیا۔۔۔میں نے بھاگتے ہوئے پچھلی سائیڈ کا جائز ہ لیا۔۔۔کوئی کھڑکی نہیں تھی ۔واپس دروازے پر آیا تو گھٹی گھٹی چیخیں آ رہی تھیں ۔۔۔جو پوجا کی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
          آخر میں کمرے کی دروازے کی طرف آیا۔۔اور پورے زور سے بھاگتا ہوا آیا اور دروازے سے ٹکرایا۔۔۔۔۔لاک کچھ چر چرایا تھا ۔
          دوسری ٹکر میں بھاگتا ہوا آیا ۔۔۔۔اور کندھے کی زوردار ضرب لگائی ۔۔۔لاک تڑاخ کر کے ٹوٹا تھا ۔۔۔۔میں جھٹکے سے اندر داخل ہوا ۔۔۔
          سامنے ہی پوجا میرے سامنے اس طرح لیٹی تھی کہ اس کے ہاتھ ہیلن نے دبوچے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔اور کرسٹینا نے منہ دبوچا ہوا تھا ۔۔۔جیمز نے اس کی ٹانگیں پکڑ رکھی تھیں ۔۔۔۔البرٹ اس کی سرخ قمیض پھاڑ چکا تھا۔۔۔۔پینٹ کا اوپری بٹن اور زپ بھی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
          مجھے دیکھ کر البرٹ میری طرف آیا ۔۔۔مجھےدھمکی دیتے ہوئے جانے کا کہنے لگا۔۔۔۔وہ شاید کوئی عام گائیڈ سمجھا تھا۔۔قریب آ کر وہ مجھے دھکا دینے کی کوشش میں جھپٹا ۔۔۔۔۔۔میں نے سائیڈ پر ہوتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پررسید کیا۔۔۔وہ سائیڈ پر جا گرا ۔۔۔۔۔انگلیاں اس کے چہرے پر چھپ چکی تھیں۔۔۔۔اتنے میں جیمز بھی پوجا کی ٹانگیں چھوڑتے ہوئے میری طرف آیا ۔۔۔پیشہ ور باکسر کے انداز میں مکہ اٹھا کر تانے ہوئے تھے ۔۔۔ساتھ ہی پیروں پر اچھلتا ہوا آیا تھا۔۔۔۔۔قریب آ کر اس نے مکہ گھمایا ۔۔۔۔اس میں تیزی تھی ۔۔۔میں نے تیزی سے جھکتے ہوئے خود کو بچایا ۔۔جھکتے ساتھ ہی اس نے ہک مارنے کی کوشش کی ۔۔میں نے بمشکل ہاتھوں سے اسے روکا ۔۔۔۔جیمز بڑھتے ہوئے مکے چلا نے لگا۔۔۔۔میں پیچھے ہٹنے لگا۔۔۔مجھے دفاعی انداز اختیار کر تا دیکھ کر وہ کچھ جوش میں آیا ۔۔ایک مرتبہ اس کے مکہ میرے قریب سے گزر کر پیچھے گیا تو میں جھک گیا۔دونوں پیر اس کے کھینچ کر گھسیٹ لیے ۔۔۔۔وہ دھڑام سے پیچھے گرا تھا ۔۔۔ میں وقت ضائع کیے بغیر اس پر سوار ہوا تھا ۔۔ابھی میرے پنچ کی باری تھی۔۔۔۔۔اس کے منہ پر ہاتھ رکھنے سے پہلے میں اس کے منہ سوجا چکا تھا۔۔۔۔ہونٹ پھٹ چکے تھے ۔۔۔پیچھے سے البرٹ آیا اور گلے میں ہاتھ ڈالنے لگا۔۔۔میں نے پیچھے ہاتھ گھمایا اور اسے بھی کالر سے کھینچ لیا۔۔۔دو چار مکے اسے بھی ٹھیک سے جمائے ۔۔۔اس کامنہ بھی سوج گیا۔۔۔۔اتنے میں ہیلن اور کرسٹینا آئیں اور مجھے روکنے لگی ۔۔۔۔۔مجھے ان عورتوں پر بھی غصہ تھا ۔۔۔یہ اس فضول حرکت میں اپنے شوہر کا ساتھ دینے لگی ۔۔میں اٹھا ۔۔۔پوجا اٹھ چکی تھی ۔۔۔۔اور کپڑے سمبھال رہی تھی ۔۔۔۔اس کے چہرے پر نیل دیکھ کر مجھے پھر دورہ پڑا ۔۔۔میں نے گھومتے ہوئے جیمز اور البرٹ کو ٹھوکریں ماری ۔۔۔۔۔ہیلن پوجا کی طرف گئی اور اس سے مجھے روکنے کا کہا ۔۔۔پوجا نے بھی اسے کرارا جواب دیا۔۔۔۔۔آخر دونوں گوریا ں میرے پاؤں پڑی اور معافی مانگنے لگی ۔۔۔۔میں نے پوجا کی طرف دیکھا ۔۔وہ مطمئن ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے دونوں کو وہیں چھوڑا اور پوجا کو لئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔کمرہ میں نے اندر سے بند کر دیا۔۔۔۔بیڈ پر اسے لیٹنے کا اشارہ کر کے میں نے عاصم کوسوتے میں اٹھا یا ۔اور بیڈ پر لٹا دیا۔۔۔وہ اٹھنے لگا مگر میں نے پھر تھپکی دیتے ہوئے سلا دیا۔۔۔اور خود صوفے پر آ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔پوجا نے مجھے سے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔بس بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔میں بھی صوفے پر لیٹا اور کچھ دیر میں نیند میں چلا گیا۔۔۔۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭
          اگلی صبح مجھے عاصم نے ہی اٹھایا تھا ۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ پوجامیرے بیڈ پر کیسے آئی ۔۔۔میں نے انکار میں سر ہلا دیا ۔۔کہ مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔عاصم نے مجھے فریش ہونے کا بتایا اور بولا کہ راجہ صاحب تیار ہو جائیں کہیں چلنا ہے ۔۔۔۔میں جلدی سے تیار ہو گیا ۔۔۔گورے کے روم کی طرف خاموشی تھی ۔۔۔وہ ابھی تک سو رہے تھے۔۔۔ہم ایک جیپ لے کر روانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔عاصم نے فون پر کسی سے بات کی تھی ۔۔۔۔ایک چوک پر ہم کھڑےتھے ۔۔۔کہ بائک پر دوآدمی وہاں آئے تھے ۔۔۔عاصم کو سلام کرتے ہوئے ایک بیگ حوالے کیا ۔۔۔۔اور روانہ ہوگئے ۔۔۔عاصم مجھے لئے واپس آیا۔۔ ۔۔اور ایک جگہ بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ۔۔کچھ دیر بعد ایک اور آدمی وہاں آیا ۔۔۔عاصم اس سے کچھ بات کر رہا تھا ۔۔۔۔آدھے گھنٹے کی بات چیت کے بعد وہ آدمی بھی روانہ ہو گیا ۔۔۔۔عاصم کا پلان شروع تھا ۔۔ اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔جب پوچھا مسکراتے ہوئے کہا ۔۔جگر فکرنہ کرو ۔۔۔بس شام تک رک جاؤ ۔۔۔ساری بات سامنے آ جائے گی ۔۔عاصم کا موڈ خوشگوار تھا ۔۔۔میں نے اسے رات والی بات بتا دی ۔۔۔عاصم کا منہ سرخ ہونےلگا۔۔۔مجھے اندازہ تھا کہ عاصم کا یہی ردعمل ہو گا۔۔۔۔
          راجہ صاحب اس گورے کی تو ایسی کی تیسی ۔۔۔اس کی ہمت کیسی ہوئی ہے یہ کام کرنے کی۔۔۔اس کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔۔۔اور یہ ہیلن میرے ساتھ رومانس بھگارنے کی کوشش کر رہی تھی ۔کہہ رہی تھی کہ آئی وانٹ سم ایشین گائے۔۔۔اور اندر سے البرٹ جیسے کمینے کا ساتھ دے رہی ہے ۔۔۔اسی نے ہی اکسایا ہوگا۔۔۔۔۔
          میں نے عاصم سے کہا جیسے چاہو کرو ۔۔۔۔میں تمہار ے ساتھ ہوں ۔۔۔عاصم نے گیسٹ ہاؤس کے ملاز م کو فون کر کے آنے سے منع کردیا۔۔۔اور ایک بندے کو فون کیا ۔۔یہ بندہ دس منٹ میں پہنچ گیا ۔۔تھا ۔۔کرکٹ کی کٹ کے طرح ایک لمبا بیگ لیے یہ پہنچا تھا ۔۔۔۔عاصم نے بیگ پکڑا اور گیسٹ ہاؤس کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔جیپ اس نے کافی دور روکی تھی ۔۔۔ہم گیسٹ ہاؤس کے پچھلی سائیڈ سے داخل ہوئے تھے ۔۔۔بیگ عاصم کے ہاتھ میں ہی تھا۔۔۔عاصم نے بیگ کھولا اور کپڑوں کا ایک گھچا میری طرف پھینکا ۔۔میں سمجھ گیا ۔۔اور اپنے کپڑے تبدیل کر لیئے ۔۔۔۔ساتھ ہی ایک نقاب بھی تھا ۔۔نقا ب پہننے کے بعد ایک پسٹل اور ایک چاقو نکال کر پکڑایا ۔عاصم بھی تبدیل کر چکا تھا۔۔۔اور بیگ وہیں چھوڑ کرہم اندر پہنچے ۔۔۔۔۔عاصم مجھے رکنے کا کہہ کر پوجا کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔میں سمجھ گیا کہ بے ہوش کرنے جا رہا ہے ۔۔۔میں گیسٹ ہاؤس کے دروازے کی طرف گیا ۔۔اور چیک کر کے آگیا۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں عاصم بھی واپس آیا
          رات دروازے کا لاک میں نے توڑ دیا تھا ۔۔۔ابھی ویسے ہی بند تھا۔۔۔میں نے پسٹل سمبھالی اور عاصم نے چاقو ۔۔۔۔۔یہ چاقو تیز ہونے سے زیادہ خوفناک تھا ۔۔۔ایک سائیڈپر گراری اور دوسری طرف دھار بنی ہوئی تھی۔۔۔
          عاصم نے دروازے کو لات ماری تھی ۔۔اور اندد داخل ہو گیا۔۔۔آواز سن کر جیمز اٹھا ۔۔۔۔چہرے پر رات کے نیل پڑے ہوئے تھے ۔۔۔ہمیں دیکھ کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی ۔۔۔عاصم نے اسے لات مار کر واپس گرایا۔۔۔اور بدلی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔۔۔تم کیا سمجھتے تھے کہ ہم سے بھاگ جاؤ گے ۔۔۔۔اور وہ کہاں ہیں تمہارے ڈرائیور۔۔۔۔جو جیپ ڈرائیور کر رہے تھے ۔۔۔
          جیمز کی گھگی بند چکی تھی ۔۔۔۔ساری باکسنگ ہو ا میں اڑچکی تھی ۔۔۔۔اتنے میں البرٹ کے جسم میں حرکت ہوئی ۔۔۔وہ اٹھتے ساتھ ہی ساکت ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔عاصم نے جیمز کی گردن پر چاقو رکھتے ہوئے اسے اٹھایا۔۔۔اوراسے اپنی پینٹ اتارنے کا کہا ۔۔۔اور پھر انڈروئیر بھی اتروادی ۔۔۔جیمز کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔تبھی ہیلن اور کرسیٹینا چیخ مارتی ہوئی اٹھی ۔۔۔۔۔میں نے پستول کا رخ ادھر کیا اورآواز بھاری کر کے کہا ۔۔۔۔اسٹاپ ۔۔ڈونٹ ٹرائی ٹو موو۔۔۔۔وئیر از یور ڈرائیورز ۔۔۔۔۔۔۔ ہیلن کمینی نے ساتھ والے روم کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔دے آر سلیپنگ دئیر۔۔۔۔۔۔
          میں نے دوبارہ کہا ۔۔کہ روم خالی ہے ۔۔صرف ایک لڑکی سو رہی ہے ۔۔۔۔۔ہیلن مایوسی سے سر ہلاتی ہوئی چپ ہو گئی۔وہ سمجھے تھے کہ ہم وہی راستے میں جیپ والے ہیں ۔۔
          عاصم نے جیمز سے شرٹ بھی اتروا لی ۔۔۔۔اور اب البرٹ کی باری تھی ۔۔جیمز کو دیکھ کر اس کی ہمت بھی جواب دے گئی ۔۔وہ خاموشی سے روتا منہ بنا کر کپڑے اتارنے لگا۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں دونوں ننگے تھے ۔دونوں کو بٹھا کر۔۔۔عاصم نےالبرٹ کے ہاتھ اس کو جھکاتے ہوئے پاؤں پر رکھے اور اسی کی شرٹ سے باندھ دیا۔۔۔اگلی باری جیمز کی تھی ۔۔۔وہ دونوں اب زمیں پر بیٹھے آگے کو جھکے ہوئے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ادھر ہیلن اور کرسٹینا کی بھی حالت خراب تھی ۔۔۔۔اور پھر عاصم نے دونوں کے ہاتھ جوڑتےہوئے باندھ دیئے ۔۔۔جیمز اور البرٹ کو عاصم نے کھڑا ہونے کا کہا۔۔۔وہ گرتے پڑتے کھڑے ہونے لگے ۔۔۔دونوں رکوع کی حالت میں جھک کر کھڑے تھے ۔۔۔۔عاصم نےانہیں سائیڈ پر کھڑا کر دیا ۔اگر منہ سے آواز نکلی تو یہی چاقو اندر گھساؤں گا ۔۔۔۔عاصم کی بھاری آواز نے ان کے چھکے چھڑوا دئیے تھے ۔۔عاصم نے اس کے بعد چاقو سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور بیڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔ہیلن بیڈ پر پیر کھسکاتی ہوئی اوپر کو ہونے لگی۔۔۔۔۔،کرسٹینا پہلے ہی بیڈ کے کونے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔عاصم نے ہیلن کی ٹانگ پکڑی اور کھینچ کرگھسیٹ لیا۔۔۔۔۔ہیلن لمبے گولڈن بالوں والی لڑکی تھی ۔بڑی سی سیاہ آنکھیں تھی ۔۔۔بھرے گال اور تھوڑا لمبا چہرہ ۔۔۔۔جسم بھاری تھا ۔۔۔۔مگر عاصم کے ایک جھٹکے سے وہ اڑتی ہوئی اس کے سامنے آن گری ۔۔۔۔۔اس کی حالت پتلی تھی ۔۔۔معافی مانگتے ہوئے وہ سب گائیڈ پر الزام لگا رہی تھی ۔۔۔۔کہ یہ سب انہیں کی حرکت ہے ۔۔
          عاصم نے سیدھا اس کی شرٹ پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔بٹن ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے ۔۔۔ہیلن چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔مگر عاصم کی پکڑ اتنی ہلکی نہیں تھی ۔۔۔آخری بٹن ٹوٹتے ہی وہ سامنے سے ننگی ہوگئی۔۔۔۔۔کالے رنگ کی برا میں موٹے اور بھاری بھرکم ممے سامنے تھے ۔۔۔۔ہیلن عاصم کا ہاتھ ہٹتے ہی پھر اوپر بیڈ پر ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔عاصم نے پاؤں پکڑ کر پھر کھینچا ۔۔۔اب کی بار اس کی صحت مند رانوں پر چپکی ہوئی جینز کی باری تھی ۔۔۔۔عاصم نے ایک جھٹکے میں جینز میں ہاتھ ڈالا ۔۔اور مضبوط بٹن کڑاک کی آواز سے ٹوٹا۔۔۔۔ہیلن کا رونا دھونا شروع ہو گیاتھا ۔۔۔۔عاصم نے جینز کی زپ کھولی تو وہ الٹی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور خود کو بچانے لگی ۔۔الٹی ہو کر وہ آگے کی طرف رینگنے لگی ۔۔۔۔عاصم نےپیچھے سے جینز میں ہاتھ پھنسا دیا ۔۔۔۔ہیلن کے آگے جاتے ہوئے جینز بھی آہستگی سے اتر رہی تھی ۔۔جہاں گورے رنگ کے گول سے چوتڑ آہستہ آہستہ نمودار ہو نے لگے ۔۔۔۔ہیلن آدھے بیڈ تک پہنچی تو آدھی پینٹ بھی اتر چکی ۔۔۔۔بے بسی اس کے چہرے پرعیاں تھی ۔۔۔آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔۔چیخیں مارتی ہوئی وہ البرٹ کو پکار رہی تھی ۔۔۔۔۔
          کرسٹینا بیڈ کے کونے میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ گیا۔۔۔پسٹل میں نے سائیڈ پر رکھی ۔۔۔۔ویسے پسٹل خالی ہی تھی۔۔اگر ان میں سے کوئی اٹھا بھی لیتا تو ان کے کسی کام کا نہیں تھا ۔۔میں کرسٹینا کی طرف جانے لگا جو مجھے دیکھ کر سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ جوڑ کر روکنے کی کوشش تھی ۔جو پتا نہیں نمستے تھا یا معافی ۔۔۔۔ہمارے سیاہ نقابوں میں اسے چہرے کے تاثرات کیا نظر آتے ۔۔۔۔۔اس نے ترس بھری نگاہوں سے جیمز کو دیکھا ۔۔۔۔مگر وہ ہیلن کے ننگے جسم کی طرف دیکھنے میں مشغول تھا۔۔۔۔۔
          میں کرسٹینا کے قریب گیا۔۔۔۔اس نے لمبی اسکرٹ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ریشمی کپڑے جیسی یہ سرخ اسکرٹ میرے ہاتھ میں آئی تھی ۔۔میں نے اسکرٹ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور کرسٹینا پھسلتی ہوئی میرے قریب آئی ۔۔۔اس کا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا ۔۔۔۔اور نیلی آنکھوں میں خوف کے تاثرات تھے ۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں اسکرٹ تار تا ر گئی ۔۔۔۔۔۔کرسٹینا کی چیخیں ہیلن سے بھی بلند تھیں ۔۔۔۔ہیلن کی برا اور پینٹی اتر چکی تھی ۔۔۔اور عاصم نے ہیلن کی برا سے اس کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ د ئیے۔۔۔۔۔۔
          کر سٹیینا بھی کم خوبصورت نہیں تھی ۔۔۔بے حد گوری رنگت کے ساتھ سیاہ کالے بال ۔۔۔۔نیلی آنکھیں ۔۔پتلی کمر اور موٹے اور گول چوتڑ ۔۔۔۔۔رانیں بھی کافی صحت مند اور گوشت سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی بر ا میں نے درمیان سے پکڑی اورجھٹکے سے کھینچ دی ۔۔۔۔ادھر کریسٹینا کی چیخ نکلی ۔۔۔اور جیمز نے مجھےروکنے کا کہا۔۔۔۔عاصم ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا ۔۔قریب چاقو رکھا تھا ۔۔۔وہ لے کر جیمز کی طرف بڑھا ۔۔اس کی آنکھیں پھیل گئ ۔۔۔۔پیچھے جا کر عاصم نے اس کا دستہ اس کے پچھواڑے میں گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔جیمز چیخ مار کر آگے کو گرا۔۔۔۔۔۔دوبارہ بولا تو آگے سے چاقو گھساؤں گا۔۔۔۔۔جیمز چیخیں مارتا ہوا تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔اور البر ٹ کے پسینے بہہ نکلے ۔۔۔
          ہیلن اپنے پیچھے بندھے ہاتھوں کے ساتھ کریسٹینا سے لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔دونوں کے بدن کانپ رہے تھے ۔۔لرز رہے تھے ۔۔۔۔آپس میں لپٹی ہوئی خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔۔مگر وہ خود ابھی یہ محسوس کرنے کے قابل نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہیلن کریسٹینا سے کافی خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔۔ہیلن کا سینہ کافی ابھرا ہوا تھا ۔۔جو ہاتھ پیچھے ہونے کی وجہ سے اور باہر کو آگیا تھا۔۔۔۔۔بڑے سے گول ممے پوری اٹھا ن کے ساتھ تھے ۔۔۔بر ا کے بغیر بھی سیدھے کھڑے تھے ۔۔۔۔سختی سے تنے ہوئے تھے ۔اور ابھی یہی ممے کریسٹینا کے ممے سے چپکے ہوئے تھے۔جو تھوڑے کم اٹھے ہوئے مگر موٹے اور جھکے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور پیچھے چوتڑ بھی گول مٹول سے اور بھاری بھرکم تھے ۔۔۔کریسٹینا کا نچلا بدن ہیلن سے بھاری تھا۔۔۔
          عاصم نےہیلن کی ٹانگ پکڑی اور اپنی طرف کھینچا۔۔ہیلن ننگی حالت میں عاصم کے سامنے لیٹی ہاتھ جوڑے ہوئی تھی ۔۔کہ عاصم نے کہا۔۔۔۔میری پینٹ اتارو ۔۔۔۔ہیلن کچھ رکی تھی ۔۔ ۔۔۔ایک تھپڑ اس کے چہرے پر پڑا تھا ۔۔۔۔جو اس کے حساب کا ہی تھا ۔۔۔ہیلن کی پھر چیخ نکلی تھی ۔۔۔اور وہ جلدی سے عاصم کی طرف بڑھی اور کانپتے ہاتھوں سے پینٹ کھولنے لگی ۔۔۔
          جیمز کی چیخیں ابھی تک نکل رہی تھی ۔۔پچھواڑے میں گھسا ہوا چاقو کا دستہ اس کی اکڑ نکال چکا تھا۔۔
          ادھر کریسٹینا کے سیاہ بال بکھرے ہوئے آگے کی طرف آئے ہوئے تھے ۔۔اور اس کے سینے کے ابھاروں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔مگر پھر بھی اس کے موٹے اور گوشت سے لدے ہوئے ممے دکھ رہے تھے ۔۔۔۔ہلکے سے نیچے کی طرف جھکے ہوئے مگر موٹے اور بھاری بھرکم۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی کمر ہیلن سے پتلی تھی ۔۔۔۔اور چوتڑ اس سے زیادہ باہر کو نکلے ہوئے ۔۔۔اور رانیں بھی صحت مند اور بالوں سے پاک ۔۔۔۔۔۔ہیلن کو عاصم کی پینٹ اتارتے دیکھ کر وہ بھی آگے بڑھی اور میری پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔۔۔۔۔
          عاصم کی پینٹ اتر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔انڈروئیر کے اترتے ہی اسپرنگ کی طرح ایک موٹا سا لن سامنے آیا ۔۔۔جو تیزی سے اپنی اصل حالت میں آتا جا رہا تھا۔۔عاصم کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھی ہیلن کے سامنے لہرانے لگا۔۔۔۔ہیلن نے خوف ذدہ نظروں سے عاصم کو دیکھا ۔۔۔عاصم نے زیادہ موقع نہیں دیا ۔۔۔۔۔اور ہیلن کے بال پکڑ کر منہ کھولنے کا کہا۔۔۔اور اپنالن اندر گھسا دیا۔۔۔۔جو سیدھا کر اس کے حلق میں لگا۔ابھی آدھے سے زیادہ لن باہر ہی تھا۔۔۔۔اس کو کھانسی آنے لگی ۔۔مگر عاصم نے لن باہر نہیں نکالا ۔۔۔۔ہیلن کی آنکھیں باہر نکلنے کو ہو گئیں ۔۔۔۔عاصم نے بالوں سے پکڑتے ہوئے اس آگے پیچھے کرنا شروع کردیا۔۔۔موٹا لن غپ غپ کرتے ہوئے ہیلن کے منہ میں گھس رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
          کریسٹینا میری پینٹ اتارنے لگی ۔۔۔اسے پتا چل گیا تھا کہ بچاؤ نہیں ہونا ۔۔۔پیروں تک اس نے پینٹ اتاری تو میں نے باری باری ایک ٹانگ اٹھائی ۔۔اور پینٹ باہر نکال دی۔۔۔۔۔اس نے پینٹ اتار کر مجھے دیکھا ۔۔جیسے پوچھ رہی ہو کہ آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔
          میں نے عاصم کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ہیلن کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناک سے سانس کھینچتی ہوئی وہ اوپر کو ہوتی۔۔۔۔حلق تک عاصم کا موٹا لن پھنسا ہوا تھا ۔۔۔عاصم باقی لن کو بھی اندر گھسا رہا تھا ۔۔۔۔ہیلن کے پورے منہ سے تھوک بہہ رہا تھا ۔۔۔۔جو باہر کو بھی گرتا ہوا ۔۔۔نیچے اس کے مموں پر آ رہا تھا ۔۔۔۔ہیلن کی آنکھوں سے بہتا ہوا پانی بھی اسی میں شامل ہوتا۔۔۔۔ہیلن کے گولڈن بال عاصم کے ہاتھوں میں تھے ۔۔۔عاصم کھینچتے ہوئے اس کے چہر ے کو آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔گھٹنے کے بل بیٹھی ہیلن کے دونوں پاؤں پیچھے کو مڑے ہوئے تھے ۔۔۔
          کرسیٹینا ابھی بھی مجھے ترس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔آنسو اس کے بھی بہہ نکلے تھے ۔۔۔اس نے انڈروئیر کے پھولے ہوئے حصے کو دیکھا ۔۔جو رفتہ رفتہ بڑ اہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔اس کے گورے ہاتھ میرے انڈر وئیر پر تھے ۔۔۔اور نظریں میرے چہرے پر ۔۔۔کریسٹینا کو میں نے اپنی شرٹ اتارنے کا کہا۔۔۔وہ کھڑی ہوئی اور میری شرٹ اتارنےلگی ۔۔۔۔۔عاصم نے ہیلن کو بالوں سے پکڑے ہوئے اٹھایا ۔۔اور بیڈ پر لیٹنے کا کہا ۔۔۔وہ الٹی لیٹنے لگی ۔۔مگر عاصم نے اسے سیدھا لیٹنے کا کہا۔۔۔اور اس کے سر بیڈ کے کنارے سے نیچے جھکا دیا۔۔۔۔ہیلن کے پاؤں بیڈ پر اوپر کی طرف تھے ۔۔اور سر بیڈ کے کنارے سے نیچے جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔عاصم نے اس کا منہ کھولا اور اپنے موٹے لن کو اس کے منہ میں پھنسا دیا۔۔۔آدھےکے قریب گیا تھا کہ حلق سے جا ٹکرایا ۔۔عاصم نے اس کے منہ کو اور نیچے کی طرف موڑا۔۔اور اندر گھسیڑ دیا۔۔۔منہ نیچے کی طرف مڑنے کی وجہ سے اب وہ حلق پر نہیں ٹکرا رہا تھا ۔۔بلکہ سیدھا نیچے جا رہا تھا ۔۔۔ہیلن کی حالت غیر ہونے لگی ۔۔۔ایک تو اس کے بندھے ہوئے ہاتھ اس کی نیچے دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور اوپر سے یہ موٹا اور لمبا لن اس کی جان لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔بیڈ پر پڑ ا ہوا اس کا بدن مستقل کانپ رہا تھا۔۔۔۔لرز رہا تھا۔۔۔۔۔پیچھے کھڑاالبرٹ دیکھ کر پسینے چھوڑ رہا تھا۔۔۔
          کریسٹینا نے میری شرٹ اتار دی ۔۔اب آگے منتظر تھی ۔۔میں نے اپنے سینے کو چومنے کا کہا ۔۔میرے ساتھ کھڑی ہو کر وہ مجھ لپٹ گئی ۔۔۔اورآہستہ سے چومنے لگی ۔۔۔۔خوف کے مارے اس کا جسم بھی گرم ہو رہا تھا ۔۔۔اور آنسو بہتے ہوئے خشک ہو رہے تھے ۔۔۔اس کا تھوک بہتا ہوا میرے اوپر آ رہا تھا ۔۔۔جسے وہ دوبارہ سےچوس رہی تھی ۔۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں اب بھی خوف تھا ۔۔۔۔ہیلن کی چیخوں نے اسے ڈرا دیا تھا ۔۔۔اس لئے وہ بغیر رکھے ہوئے مجھے چومے جارہی تھی ۔۔۔کریسٹینا کا جسم بھی ہلکے ہلکے لرز رہا تھا۔۔۔
          ادھر عاصم نے ہیلن کے منہ میں لن گھسیڑے دھکے دینے شروع کی دئیے تھے ۔۔۔۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ ہیلن کا جسم بھی کانپ اٹھتا۔۔۔۔۔اس کے اوپر کو اٹھے ہوئے گول ممے بار بار اچھلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔عاصم نے آگے کو ہوتے ہوئے اس کے ممے پکڑے ۔۔۔۔پکڑے کیا تھا ۔۔۔دبوچے تھے ۔۔۔اور پوری قوت سے باہر کو کھینچے ۔۔۔ہیلن کے منہ سے غوں غوں کی آواز نکلی ۔۔۔اسے کافی درد ہوا۔۔۔۔عاصم نے ایک تھپڑ اس کے مموں پر مار ڈالا ۔۔ چٹاخ کی آواز آئی تھی ۔۔۔دونون ممے برے طریقے سے لرزے تھے ۔۔۔ہیلن کے منہ سے دوبارہ غوں غوں نکلنے لگی ۔درد کی وجہ سے اس کی ٹانگیں بھی اچھلتی۔۔۔۔۔۔البرٹ اپنی بیوی کی حالت دیکھ رہا تھا۔۔۔۔عاصم کا لن بھی چوس چوس کر خوب موٹا اور پھول کر کپا ہو گیاتھا۔۔۔
          کریسٹینا کانپتے ہاتھ میرے جسم پر پھیرتی ہوئی چومنے میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔میرا کشادہ سینہ گیلا ہو چکا تھا۔۔۔۔میں نے کریسٹینا کو انڈروئیر کی طرف اشارہ کیا ۔۔اس نے انڈرئیر نیچے کر دیا۔۔۔۔سویا ہواگھوڑا اٹھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔کریسیٹینا نے حیرت اور خوف سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا چیز ۔۔۔۔۔۔اور پھر آہستہ سے کھڑا ہوتا ہتھیار ۔۔۔اس کے سامنے بڑا ہوتا جا رہا تھا ۔۔ پہلےسامنے بیٹھی کریسیٹینا کے چہرے تک پہنچا اور پھر اور زیادہ اکڑنے لگا۔۔۔۔کریسیٹینا نے پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر پکڑنے سے پہلے وہ کچھ اور لمبا ہو چکا تھا۔۔۔۔کریسٹینا نے اپنے گورے ہاتھوں کو ٹوپے پر رکھا ۔۔پورے ہاتھ کوٹوپے کے گرد گھمائے ہوئے انگلیاں جوڑنے کی کوشش کی ۔۔مگر آدھے ٹوپے ہی اس کی مٹھی میں سمایا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے ٹوپے کے نیچے اپنا دوسرے ہاتھ رکھا۔۔۔۔اور پھر پہلے والے ہاتھ کو اٹھا کر اس کے نیچے ۔۔۔چار بار ایسا کرنے کےبعد بھی کچھ حصہ باہر تھا۔۔۔۔۔کریسٹینا کا منہ چوچی جیسا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔اس نے جیمز کی طرف دیکھا ۔۔جو خود بھی حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔اس کی للی کھڑی ہو چکی تھی ۔۔۔اور کریسیٹینا کبھی حیرانگی سے اسے دیکھتی اور کبھی ہتھیار کو ۔۔۔۔۔۔۔جو اس کی کلائی جتنا موٹا اور اتنا ہی لمبا بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          عاصم نے مجھے دیکھا ۔۔۔اور کہا جیو شیر ۔۔۔۔۔۔آپ ادھر آ جاؤ۔۔۔۔ہیلن تیار ہے آپ کے لئے ۔۔
          ہیلن بندے ہاتھوں کےساتھ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔منہ نیچے کی طرف تھا جہاں عاصم کا موٹا اور لمبا اس کے حلق سے بھی نیچے جا کر پھنسا ہوا تھا۔۔۔۔اسے شاید اندازہ ہو ا تھا ۔۔کہ کسی کو بلایا گیا ہے ۔۔۔۔۔اس نے ٹانگیں اٹھا کر خود کو اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔مگر میں بیڈ کے اوپر پاؤں رکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے پاؤں اچھالے تو عاصم نے پکڑ لیے ۔۔۔۔۔اور موڑتے ہوئے اسے بالکل ہیلن کے منہ سے لگا دیا ۔۔۔۔۔ میں اس کی ٹانگوں کے پاس پہنچا تھا ۔۔جہاں اس کا کانپتا ہوا جسم تڑپ رہا تھا ۔۔۔اس کی ٹانگیں مڑ کر اس کے چہرے سے بھی نیچے جا رہی تھی ۔۔۔اور اوپر سے عاصم کے ہاتھ کا بے پناہ وزن تھا۔۔۔۔۔جو اس کی ٹانگوں پر جما ہوا تھا۔۔۔۔
          میرا ہتھیار فل تنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کریسیٹینا نے پیچھے آ کر مجھے روکنے کی کوشش کی ۔۔۔۔میں نے اسے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔
          اور ہیلن کے درمیان تھوڑا سا جھک گیا ۔۔میں بالکل بیٹھا نہیں تھا ۔۔۔ٹوپا سامنے کو لہرا رہا تھا ۔۔۔۔اس کو موڑتے ہوئے نیچے کی طرف کر دیا۔۔۔جہاں اس کی نازک سی گوری چوت منتظر تھی ۔۔۔۔دونوں ہنی مون منانے آئے تھے۔اور سفر میں صحیح سے منانہیں سکے ۔۔۔مگر اب شاید صحیح سے ہونے جا رہاتھا۔۔۔
          میں نے ٹوپے کو چوت پر رکھا تو وہ بہت ہی گرم محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی چوت کے دونوں لب آپس میں چپکے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ٹوپا اوپر رکھاتو لب باہر کو کھلنے کے بجائے اندر کی طرف مڑنےلگا۔۔۔۔۔میں اپنے وزن کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔۔۔چوت کو کھلنا ہی تھا۔۔۔۔اور وہ کھلی کیا تھا ۔۔۔پھٹنے پر آئی تھی ۔۔۔۔ٹوپے تباہی مچاتا ہوااندر پہنچا ۔۔۔۔۔ہیلن کا پورا جسم لرز گیا ۔۔۔غوں غوں کی آواز اس کے منہ سے آ رہی تھی ۔۔۔۔۔کریسٹینا قریب آکر اسکے پاس بیٹھی اور سہار ا دینےلگی ۔۔۔۔۔۔مگر عاصم نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا اور ہیلن کے سینے پر بھیج دیا۔۔۔۔۔جہاں اٹھے ہوئے ممے لرزے جار ہے تھے ۔۔۔کانپے جارہے تھے ۔۔۔۔سہمے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ہیلن نے مموں کو پکڑ کر دبانی لگی ۔۔۔۔۔پیچھے سے عاصم نے اس کے موٹے چوتڑ پر تھپڑ دے مارا ۔۔۔۔چٹاخ کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی چیخ نکلی ۔۔۔گورے گورے چوتڑوں پر انگلیاں چھپ گئیں تھی ۔۔۔۔عاصم نے اسے سختی سے کرنے کا کہا ۔۔۔۔۔۔اس نے زور بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔ہیلن مستقل کانپے اور لرزے جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور منہ سے غوں غوں کی آواز نکل رہی تھی ۔
          میں نے ہیلن کی چوت میں ٹوپے کو پھنسا ہوا دیکھا اور دباؤ بڑھانے لگا۔۔۔۔۔۔شافٹ ٹوپے سے کہیں زیادہ موٹی اور چوڑی تھی ۔۔۔۔۔چوت راستہ نہیں دے پا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے زور دیا ۔۔۔۔۔تو شافٹ دو تین انچ اور جا کر پھنسی ۔۔۔۔۔۔میں اور زور دینے لگا۔۔۔۔۔۔ہیلن کا جسم مستقل کانپ رہا تھا ۔۔اور جھٹکے بھی لے رہا تھا۔۔اور شاید آنسو بھی بہنا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دور جا کر ہتھیار رکا تو میں نے واپس کھینچا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار سرخ ہو چکا تھا ۔۔ہیلن کی چوت سے لہو بہہ نکلا تھا ۔۔۔اور شافٹ کواور لال کر دیا تھا۔۔۔۔البرٹ کا لن بھی چھوٹا تھا۔۔اور چار سے پانچ انچ ہی تھا۔۔۔جس میں سے بھی کچھ باہر ہی رہ جاتا ہو گا۔۔۔۔اور ہتھیار تو پانچ انچ پر آدھا بھی نہیں ہوتا تھا۔۔۔اور موٹائی تو کریسٹینا اپنی کلائی سے لگا کر دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
          میں نے ہتھیار باہر نکالا تو ہیلن کچھ ہلکی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔کریسٹینا بھی ہلکی ہوئی تھی۔۔مگر عاصم کا تھپڑ اب دوسرے چوتڑ پر پڑا اور اسے بھی لال کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کریسٹینا پھر ہیلن کے مموں کو نوچنے اور کاٹنے میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔پیچھے سے اس کی پتلی کمر کے ساتھ گول چوتڑ بھی ہوا میں اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          عاصم نے ہیلن کے منہ سے لن نکال لیا۔۔۔۔۔۔تھوک سے نہاتا ہوا ایک لمبا راڈ باہر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ہیلن کے منہ سے ایک گہر ی سانس نکلی ۔۔۔۔۔۔اور پھر بے تحاشہ رونے لگی ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کسی جرم کی سزا ملی ہے ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے پھر اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ٹوپے کو ہیلن کی چوت پر رکھ دیا ۔۔ہیلن نے اپنا سر اٹھایا اور منت بھرے انداز میں رونے لگی ۔۔۔پلیز اسٹاپ ۔۔۔۔۔
          میں نے ٹوپے کو پھر سےگھسا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ہیلن کا اٹھا ہوا ایک سر سے پھر نیچے گیا ۔۔۔اور اونچی چیخ نکلی ۔آہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔اس کا پورا جسم کانپا تھا ۔۔۔۔ٹوپا وہیں جا کر پھر رکا تھا ۔۔۔میں نے ایک جھٹکا دیا ۔۔اور آدھے ہتھیار کو اندر پھنسا دیا ۔۔۔۔ہیلن کا سراٹھا اور ایک اور درد ناک چیخ نکلی ۔۔۔۔۔کریسٹینا پھر رکی تھی ۔۔۔اب کی بار عاصم تھپڑ کے بجائے موٹے اور لمبے لن کے ساتھ پیچھے آیا ۔اس نے ہیلن کی ٹانگیں چھوڑ دی تھیں ۔۔۔جو کچھ دیر وہیں رکی رہیں ۔۔اور پھر نیچے آئی ۔۔۔۔عاصم کا ۔لن پہلے ہی ہیلن کے تھوک میں نہا چکا تھا ۔۔۔کریسٹینا بے خبر ہیلن کے ممے نوچنے اور چوسنے کی کوشش کر رہی تھی ۔اور پیچھے سے اس کے گول گورے چوتڑ اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اس کے پیچھے آ کر عاصم نے نشانہ جما کر دھکا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی چیخ ہیلن سے کہیں بلند اور درد بھری تھی ۔۔عاصم کا موٹا اور توانا لن کریسٹینا کے گانڈ کے چھید میں گھس گیا تھا ۔۔۔کریسٹینا چیخ مارتی ہوئی ہیلن پر گری تو اسے اپنی چیخ بھول گئی۔۔۔۔۔۔دونوں ہاتھوں سے اپنے چوتڑ کودباتی اور پھیلاتی ہوئی کریسٹینا روئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔عاصم نے کریسٹینا کے کالے بال پکڑ کر کھینچے اور اس کا سر ہیلن کے پیٹ سے اوپر اٹھا لیا۔۔۔عاصم نے کریسٹینا کے بال اچھے خاصے کھینچے ہوئے تھے ۔۔۔اس کا چہرہ پیچھے کو کھنچا ہوا تھا۔۔۔اور جھکی کمر کے ساتھ ہی چوتڑ اوپر کو اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔جو عاصم کے تھپڑ کھانے کے بعد سرخ ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔عاصم نے بیڈ پر پاؤں رکھے اور اس کے اوپر سوار ہو گیا۔۔۔کریسٹینا اس کا وزن نہیں سہار سکی ۔۔۔۔اور دوبارہ نیچے گرتی ہوئی لیٹ گئی ۔۔۔عاصم کا موٹا لن جو ابھی صرف ٹوپے تک ہی گیا تھا ۔۔۔۔اور پیچھے کی موٹی شافٹ جو جڑ تک مزید موٹی ہوتی جا رہی تھی ۔۔وہ غڑاپ کر کے سیدھی اندر گھس گئی ۔۔۔الٹی گر ی ہوئی کریسٹینا تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔اس کے منہ سے پھر ایک چیخ نکلی ۔۔ہیلن اب پوری سہم چکی تھی ۔۔۔۔کریسٹینا کی چیخوں نے اس کی بولتی بند کر دی تھی ۔۔۔دوسرا میں بھی رکا ہوا کریسٹینا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔کریسٹینا کی چیخوں نے جیمز کو بھی دہلا دیا تھا ۔۔وہ اپنی پچھواڑے کا درد بھول کر اپنی بیوی کی چیخیں سننے لگا۔۔۔۔منہ اٹھا کر دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر عجیب تاثرات تھے۔۔۔۔۔
          عاصم نے کریسٹینا کے بال پکڑتے ہوئے اس پھر سے کھینچ دیا تھا ۔۔۔اس کے اٹھے ہوئے سر کمر کو اندر اور گانڈ کو اوپر اٹھا دیا تھا ۔۔۔۔۔
          میں نے اپنا ہتھیار دیکھا تو وہ آدھا پھنسا ہوا تھا۔۔۔یہاں یہ پہلے بھی جا کر رکا تھا ۔۔۔میں نے باہر کھینچ اور دوبارہ سے اندر گھسا دیا ۔۔۔۔خشک ہوئی چوت میں پھر سے ہل چل گیا ۔۔۔۔۔۔۔ہیلن کی پھر سے ہائے ہائے شروع ہوئی ۔۔۔۔اس کے قریب ہی عاصم کریسٹینا پر چڑھا ہوا تھا ۔۔۔اس نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر لگایا ۔۔۔۔۔ہیلن کے منہ گھوم گیا ۔۔۔۔دوسرا تھپڑ اس کے مموں پر پڑا تھا ۔۔۔۔۔اب کی بار اونچی چیخ نکلی تھی ۔۔۔۔عاصم نے اس کی پینٹی اور برا کا گولا بناتے ہوئے اس کے منہ میں ٹھونس دی ۔۔۔۔۔اور پھر سے ایک چپت جما دی ۔۔۔۔ہیلن کے گورے ممے اب لال سرخ ہو چکے تھے ۔۔۔۔موٹے موٹے اور سیدھے کھڑے ہوئے ممے ۔۔۔۔اور نپلز بھی پہلے سے زیادہ لال سرخ ۔۔۔۔۔منہ سے غوں غوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
          ادھر کریسٹینا کی آہ و بکا بھی جاری تھی ۔۔۔عاصم اس کے بال کھینچتا ہوا سواری کر رہا تھا ۔۔ساتھ ساتھ ہیلن کو بھی چپت جماتا رہتا۔۔۔۔کریسٹینا کے دونوں ہاتھ اپنی چوتڑ پر تھے ۔۔۔۔اور وہ آگے بیڈ پر گری ہوئی چیخے جا رہی تھی ۔۔۔۔موٹے لن اس کی گانڈ کے چھید میں پھنسا ہوا تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ پڑنے والے تھپڑ جو اس کی گانڈ پر پڑتے اور بال جو ہر دھکے کے ساتھ اوپر کو کھینچتے ۔۔۔۔نیلی آنکھوں سے پانی کی جھیل بہہ رہی تھی ۔۔۔۔عاصم نے لن باہر نکالا ۔۔جس پر بھی سرخی آ چکی تھی ۔۔۔کرسٹینا کی گانڈ نے خون بہا کر خراج پیش کیا تھا۔۔۔۔۔عاصم نے کرسٹینا کو سیدھا کر کے لٹا دیا۔۔۔۔۔اور اس کے سر کی طرف آ گیا۔۔۔۔کریسیٹینا کے چہرے پر اس کا موٹا اور لمبا لن لہرا رہا تھا ۔۔۔عاصم نے لن پکڑ کر اس کے منہ میں ڈالا ۔۔۔۔کریسٹینا کے منہ غپ غپ کی آواز نکلی ۔۔۔۔لن سیدھا جا کر حلق سے ٹکرایا ۔۔اسے کھانسی سی لگی ۔۔۔۔۔مگر عاصم نے گھسائے رکھا ۔۔۔۔کریسٹینا اپنی نیلی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی چوسنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔عاصم نے اس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنی طرف بینڈ کر دی ۔۔۔۔اب وہ ہیلن کی پہلی والی کنڈیشن میں آگئی تھی ۔۔آگے سے عاصم کا لن منہ میں۔۔۔۔۔اورٹانگیں بینڈ ہو کر عاصم کے ہاتھوں میں ۔۔۔۔گانڈ کا چھید اور چوت کی ملی ہوئ لائن صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔جس پر ہلکے سے گولڈن بال دکھ رہے تھے۔۔۔عاصم اس کی ٹانگیں موڑے ہوئے دائیں بائیں نظریں دوڑا رہا تھا ۔۔۔۔
          ہیلن کے منہ سے غوں غوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھی ۔۔۔۔منہ میں برا اور پینٹی پھنسی ہوئی تھی ۔۔۔اور نیچے سے ہتھیار ۔۔۔۔میں اس کے اوپر جھک کر اس کے کھڑے ہوئے دونوں مموں پر ہاتھ رکھ دئے ۔۔۔۔۔ہتھیار آدھا تو گھسا ہوا تھا۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو باہر کھینچا جو ابھی بھی پھنستا ہوا آیا تھا ۔۔۔اور واپس جما کر دھکا دیا ۔۔۔۔ٹوپا چنگھاڑتا ہوا واپس گھسا تھا ۔۔۔۔۔ہیلن کا جسم کانپا ۔۔۔۔اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں ۔۔دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں تڑپی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے ہتھیار واپس کھینچا اور دوبارہ گھسا دیا ۔۔۔۔۔ہیلن میرے نیچے دبی ہوئ مستقل ہلی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے تیسری بار جب ہتھیار کھینچا تو اس پر لگا خون صا ف دکھ رہا تھا ۔۔۔۔جو ابھی ابھی لگا تھا ۔۔۔۔ہیلن ترس بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور ہاتھ میرے ہاتھ کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔جو اس کے کھڑے ہوئے مموں کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ اس کی ٹانگیں بھی تڑپتی ہوئی پھیلتی ۔۔۔۔۔میں نے طاقتور اور گہرے جھٹکے مارے تھے۔۔۔
          ادھر عاصم کریسٹینا کے منہ میں لن گھسائے اسے دھکے دیا جارہا تھا۔۔۔۔اس کی ٹانگیں گھومتی ہوئی اس کے ہاتھ میں ہی تھی ۔۔جو عاصم نے مخالف سمتوں میں کھینچ رکھی تھی ۔۔۔۔۔کریسٹینا کے منہ سے پھنسی پھنسی ہوئی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔کریسٹینا کے منہ سے لن نکال کر عاصم نے اس الٹا کر دیا۔۔۔۔دونوں ہاتھ پیچھے کو لے آیا ۔۔۔اور اسی طرح دونوں پاؤں کو بھی موڑ کر پیچھے لے آیا ۔۔۔ہیلن کی سفید شرٹ قریب ہی پڑی تھی ۔۔عاصم نے کریسٹینا کے ہاتھ اور پاؤں قریب قریپ لاتے ہوئے باندھ دیے ۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کے منہ سے کراہیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھ فل پیچھے کو مڑے ہوئے تھے ۔۔۔اسی طرح پیر بھی گھٹنے سے مڑتے ہوئے پیچھے کو آکر ہاتھ سے بندھ چکے تھے ۔۔اور پھر کریسٹینا کو سیدھا کر دیا۔۔۔۔۔۔کرسٹینا کی گوری ٹانگیں اپنے آپ پھیل چکی تھی ۔۔اور درمیان میں چوت کی باریک لائن صاف دکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ اور پیر اپنے ہی وزن کے نیچے دبے ہوئے تھے ۔۔۔عاصم نے ایک زور دار چپت اس کے مموں پر ماری ۔۔۔۔اور دوسری چپت اس کی چوت پر ۔۔۔۔۔کرسٹینا چلائی تھی ۔۔۔۔
          میرے جھٹکے بڑھتے گئے تھے ۔۔۔۔میں نے ہیلن کے منہ سے برا اور پینٹی نکال دیں ۔۔۔۔۔اب اس کی چیخیں پورے کمرے میں گردش کر رہی تھی ۔۔۔میرے جاندار جھٹکے اس کی جان نکال رہے تھے ۔۔۔۔ممے میرےوزنی ہاتھ کے نیچے ۔۔۔اور چوت میرے طاقتور جھٹکوں کے نیچے پگھلی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے کوئی تین منٹ ہی دھکے مارے ہوں گے کہ اس نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔۔چوت میں پانی کے ساتھ ہی ہیلن اور زیادہ چلائی تھی ۔۔۔اسے اندر جلن مچی تھی ۔۔۔چوت کے اندر ہونے والے زخم پر پانی لگا تھا۔۔۔۔۔میں نے ہتھیار باہر کھینچ لیا۔۔۔۔پانی باہر پھسلتا ہوا آرہا تھا ۔۔۔جو سفید سے زیادہ لال رنگ کا تھا۔
          عاصم نے مجھے ہٹتے ہوئے دیکھا تو کرسٹینا کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔میں ادھر چلا گیا۔۔۔۔اور عاصم ہیلن کے پاس آگیا۔۔۔
          کرسٹینا عجیب انداز میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔اس کے ہاتھ اور پاؤں نیچے بندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اس کے موٹے موٹے اور نیچے کو ڈھلکے ہوئے ممے اب اٹھ کر اس کے چہرے کی طر ف گر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ٹانگیں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور چوت ہیلن سے بھی زیادہ ٹائٹ لگ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے قریب رکھی پینٹی سے ہتھیار کو صاف کیا جو لال ہوا تھا۔۔۔اور پھر کرسٹینا کی اٹھی ہوئی ٹانگوں کے پاس آیا۔۔۔۔جو پہلے ہی چوت کو باہر نکالے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔ٹوپا میں نے چوت پر رکھا تھا ۔۔۔اور نشانے پر رکھے ہوئے دھکا دیا۔۔۔چوت کے لب ایک جھٹکے سے کھلے ۔۔۔کرسٹینا کا منہ اس سے بھی زیادہ کھلا ۔۔۔۔اور بھرپور چیخ گونجی ۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔۔آئی ئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹوپا کسی چاقو کی طرح اندر گھسا تھا ۔۔۔میں ایک سیکنڈ کے لئے رکا اور پھر ایک جھٹکا مار دیا۔۔کرسٹینا آگے کوکھسکی تھی ۔۔۔اور ہتھیار تباہی مچاتا ہوا اندر ۔۔۔۔اس کا جسم بھی تڑپنے لگا ۔۔اور منہ سے آہیں ۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔ہاہ ہ۔۔۔۔۔میں نے مموں پر کھینچ کر زور دار تھپڑ مارے ۔۔۔اور اگلا جھٹکا دے دیا ۔ٹوپا پھنستا ہوا اندر جا پہنچا۔۔۔۔۔۔کرسٹینا کی چیخیں بلند ہوئ ۔۔۔۔ہتھیار پھر آدھے پر جا پھنسا تھا۔۔
          عاصم نے ہیلن کی ٹانگیں بھی اٹھا کر اس کے ہاتھوں سے ملائیں جو سیدھے ہوئے تھے ۔۔اور پیٹ کے اوپر لاتے ہوئے دونوں ہاتھ اور دونوں پیروں کو جوڑتے ہوئے باند ھ دیا۔۔۔۔۔۔ہیلن کی گول گانڈ بھی اب مزید گولائی میں آگئی تھی ۔۔۔۔اور ہاتھ آگے آئے تھے جن سے اس کے اٹھے ہوئے ممے اور زیادہ اٹھے ہوئے لگ رہے تھے ۔۔عاصم نے دائیں بائیں دیکھا ۔۔۔قریب ہی ایک الکوحل کی بوتل تھی ۔۔۔یہ کولڈ ڈرنک کی شیشے والی بوتل جیسی تھی ۔۔۔۔۔عاصم نے بیڈ سے اتر کر وہ اٹھائی اور ہیلن کے نچلی طرف آ گیا۔۔۔۔بوتل کا منہ چھوٹا تھا ۔۔۔مگر پیچھے آتے ہوئے وہ موٹی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔عاصم نے بوتل کا منہ ہیلن کی گانڈ کے چھید پر رکھااور زور دینے لگا۔۔۔ایک جھٹکے سے بوتل اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ہیلن کراہ اٹھی ۔ ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔ہائے ۔۔۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔۔۔عاصم نے بوتل کو پیچھے سے ایک دھکا اور دے دیا ۔۔۔۔ہیلن اوپر کو اچھلی ۔۔۔بوتل کچھ اور اندر گئی تھی ۔۔۔اور پھر آگے کو آتے ہوئے ہیلن کے منہ میں اپنا موٹا لن پھنسا دیا ۔۔۔۔۔اور دھکے دینے لگا۔۔۔۔
          کرسٹینا نے کسی طرح آدھے ہتھیار کو تو لے لیا تھا ۔۔مگر ابھی آدھا باقی تھا۔۔۔۔اس کے منہ سے کراہ نکل رہیں تھی ۔۔۔جھٹکوں کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگوں اور پیروں میں بھی درد تھا۔۔۔جو پیچھے کودبے ہوئے تھے ۔۔۔میں ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ عاصم آ گیا ۔۔۔ہیلن کی گانڈ میں بوتل گھسی ہوئی تھی ۔۔۔عاصم نے اسے دھکیل کر بیڈ کی سائیڈ پر کر دیا۔۔۔اس کا موٹا لن بھی تنا ہوا تیار تھا ۔۔وہ سیدھی لیٹی ہوئی کرسٹینا کے پاس گیا ۔۔اور اسے کروٹ کرتے ہوئے لٹا دیا۔۔۔۔ساتھ ہی عاصم نے مجھے بھی لیٹنے کا اشارہ کر دیا۔۔میں کرسٹینا کے سامنے تھا۔۔۔اور عاصم پچھلی طرف ۔۔جہاں اس کے ہاتھ پاؤں بھی مڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ان کے درمیان سے ان کو موٹا اور لمبا لن کرسٹینا کی گانڈ تک پہنچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے دیکھتے ہوئے ایک دھکا دیا ۔۔۔۔موٹا لن گانڈ پھاڑتا ہوا اندر گھسا تھا۔۔۔۔۔بے اختیار کرسٹینا آگے کو کھسکی تھی ۔۔۔جہاں میں تیار تھا ۔۔۔ہتھیار اپنے پورے جوبن کے ساتھ اس کی چوت میں داخل ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کرسٹینا کی بلند چیخ نکلی ۔۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔ہا ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے اور پیچھے دونوں سرحدوں پر حملہ ہوا تھا۔۔۔۔۔عاصم نے دوسرا جھٹکا مارا تھا۔۔۔۔کرسٹینا خود آگے آئی تھی میرے ہتھیار کو لینے کے لئے جو اس بھاری پڑا تھا ۔۔۔۔۔عاصم بھی کھسک کر اور آگے آیا۔۔۔اور تیسر ا دھکا دے مارا۔۔۔۔۔۔اب کی بار میں نے بھی دھکا دیا تھا ۔۔۔۔کرسٹینا ہم دونوں کے بیچ میں تڑپ کررہ گئی ۔۔۔۔۔۔اس کی آواز بیٹھ گئی تھی ۔۔۔عاصم نے ایک ہاتھ اس کے نیچے سے گزار کر اس کے ممے پکڑے ۔۔۔دوسر ا ہاتھ اوپر سے لا کر دوسرا مما پکڑا۔۔۔۔اور کرسٹینا سے چپک گیا۔۔۔۔اس کی کمر تیزی سے حرکت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔کسی بجلی کی سی تیزی سے ۔۔۔اورکرسٹینا بھی چیخے جارہی تھی ۔۔آہ ۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔ہا ہ ہ ۔۔۔۔مین نے بھی آگے کو کھسکتے ہوئے ایک ہاتھ گردن پر جمایا اور دوسرا اس کی کمر پر ۔۔۔۔اور آگے سے شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔
          ہیلن کن انکھیوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔بوتل ابھی بھی اسکی گانڈ میں پھنسی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
          میرے دھکے تیز تھے ۔۔۔۔جس نے کرسٹینا کے بدن ہلا ڈالا تھا ۔۔۔۔پیچھے سے عاصم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔۔کرسٹینا ہم دونوں کے بیچ میں کسی چڑیا کی طرح پھنسی ہوئ ۔۔۔کبھی آگے سے جھٹکا کھا کر پیچھے جاتی ۔۔۔اور کبھی عاصم کے جھٹکے سے مجھ پر آتی ۔۔۔۔۔ہتھیار پورا اس کی چوت میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔جو ہلکا سا بھی ہلتا تو اس کی جان نکل جاتی ۔۔۔ہمارے جھٹکوں کےدوران وہ دو مرتبہ فارغ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔مگر ہم ابھی تک کریز پر جمے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔ایک چھکا مارتا تو دوسر ا چوکا ۔۔۔۔دھکوں کی سینچری ختم ہوئی تو ہم نے جھٹکوں کی نئی اننگ اسٹارٹ کر دی ۔۔۔۔۔۔یہ جھٹکے دھکے سے زیادہ پاور فل اور اندر تک مار کرتے تھے ۔۔۔۔۔کرسٹینا تیسری مرتبہ فارغ ہوئی تھی ۔۔۔جھٹکو ں کی ہاف سنچری ہوئی تو عاصم تھوڑا اور آگے کو کھسکا ۔۔۔۔۔کرسٹینا اب غشی کی حالت میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔اور بے جان جسم کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ۔۔۔ہم دونوں کے طوفانی جھٹکے شروع ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔جس نے پورے بیڈ کو ہلا کررکھ دیا۔۔۔کرسٹینا کبھی کبھی چلاتی اور پھر سن ہو جاتی ۔۔۔۔۔اس کے بال اور چہرہ بکھر گیاتھا۔۔۔۔۔طوفانی جھٹکوں کی بھی نصف سنچری مکمل ہوئی ۔۔۔۔تو فوارے چھوٹے تھے ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کے جسم تڑپے تھے ۔۔اورپانی کا بہتا ہوا طوفان نکلا ۔۔۔ہم دونوں کچھ دیر تک اور ہلے اور الگ ہو گئے ۔۔کرسٹینا کو کچھ خبر نہیں تھی ۔۔۔۔۔وہ شاید بے ہوش ہو گئی تھی ۔
          عاصم اور میں نے ہتھیار نکال لیا تھا ۔۔۔۔ہیلن نے ہمیں آتا دیکھ کر ہلنا شروع کر دیا۔۔۔۔رونا شروع کر دیا تھا ۔۔چلانا شروع کر دیا تھا۔۔عاصم نے بوتل نکال کرپھینکی۔۔اور اپنے لن کو ہیلن کے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔اس نے چوس چوس کر کچھ ہی منٹ میں تیار کر دیا ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے بھی ہیلن کے منہ میں ڈالنے کا کہا مگروہ اس کے منہ میں جانے والا نہیں تھا۔۔۔۔اور ویسے بھی ہتھیار ابھی پھر سے تننے لگا تھا ۔۔
          مجھے عاصم نے نیچے لیٹنے کاکہا۔۔۔میں لیٹا تو عاصم نے ہیلن کو کھسکا کر میرے اوپر گھسیٹ دیا۔۔۔۔ہیلن میرے اوپر آن گری ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھ اور پیر ابھی بھی اوپر کی طرف بندھے ہوئے تھے ۔۔۔عاصم نے اس کی گانڈ اٹھائی اور میرے ٹوپے کو سیدھ میں لے آیا۔
          ٹوپا اس کی گانڈکے چھید پر رک کرہیلن کے وزن کو سمبھال رہا تھا۔۔۔کہ عاصم نے زوردار جھٹکے سے دبادیا۔۔۔۔ہیلن کے منہ سے چیخ نکلی ۔۔۔۔آہ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔ائی ئی۔۔۔۔۔ابھی اس کی چیخ کی باز گشت رکی نہ تھی کہ عاصم نے اس کی چو ت میں اپنے موٹے لن کو گھسا دیا جو پہلے ہی میرے ہتھیار کی وجہ سے زخمی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔عاصم پاؤں دائیں بائیں رکھ کر جم گیا تھا ۔۔۔۔۔اور دھکے پر دھکے شروع کر دیا ۔۔۔میں نے بھی کمر اچھال کر اسے اچھالنا شروع کر دیا۔۔۔ہیلن بری طرح سے چلا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اس کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کے بیچ میں اپنے ہاتھ ڈال کر ممے پکڑ لیے ۔۔۔۔۔جو شروع میں تو خوب گورے گورے تھے ۔۔۔مگر اب وہ لال سرخ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میرے ہتھیا رنے ہیلن کی گانڈ کو چیر دیا تھا ۔۔۔۔۔اور اس نے بھی لہو تھوکا تھا۔۔۔۔اوپر عاصم بھی لگا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ہیلن کی برداشت کرسٹینا سے زیادہ تھی ۔۔۔۔وہ آخر تک چیختی رہی ۔۔۔اور ہم بھی پلٹ پلٹ کر جھپٹے رہے ۔۔۔۔۔۔اگلے پندرہ منٹ میں ہم نے دو سے تین پوزیشن تبدیل کی ۔۔۔ہم بھی فارغ ہونے والے تھے ۔۔۔۔عاصم بھی نیچے تھا۔۔۔اورہیلن اس کے اوپر ۔۔۔۔جب عاصم نے مجھے کہاکہ ایک ہی چھید میں ڈالو۔۔۔۔۔۔عاصم کا موٹا لن بھی گانڈ میں پھنسا تھا ۔۔۔میں نے بھی اپنا ہتھیار گانڈ میں گھسانے لگا۔۔۔۔ہیلن کی آنکھیں باہر آئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔مگر میں نے کسی طرح گھسا دیا۔۔۔۔جھٹکے اسی طرح جاری تھے ۔۔۔اور ہیلن کا رونا اسی طرح جاری ۔۔۔۔۔اس نے بھی چیخ چیخ کر آواز بٹھا لی تھی ۔۔۔تبھی عاصم فارغ ہوا ۔۔۔۔۔اور پھر میں ۔۔۔ہم الگ ہوئے تھے ۔۔ہیلن بھی بے دم ہو کر نیچے جا گری ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ایک نظر جیمز اور البرٹ کو دیکھا ۔۔۔۔۔پسٹل اور چاقو اٹھائے ۔۔۔۔۔۔جیمز اور البرٹ نے شرافت سے ہمیں صاف کیا ۔۔۔۔کپڑے پہنائے ۔۔۔۔اور اپنی بیویوں کو سمبھالنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سیدھے باہر نکلتے چلے گئے ۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          باہر آ کر ہم جیپ کی طر ف پہنچے اور کپڑے چینچ کر کے سیدھاناشتے دکان پر پہنچے ۔۔۔.اچھا سا ناشتہ تیار کروایا ۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس گیسٹ ہاؤس آ گئے ۔۔ملازم کو آنے کا کہ دیا تھا۔۔۔۔وہ بھی آ گیا تھا۔۔۔دروازے سے اندر پہنچ کر عاصم نے آواز لگائی۔۔۔۔ناشتہ تیار ہے ۔۔سب لوگ تیار ہوجائیں۔۔۔۔۔گوروں کے روم کی طرف خاموشی تھی ۔۔۔۔ہم اپنے روم پہنچے ۔۔۔عاصم نے پوجا کو اٹھایا ۔۔تھوڑی محنت کرنے کے بعد اٹھ گئی ۔۔۔۔اس کے بعد تیار ہو کر ہم سب ڈائننگ ٹیبل پر گئے ۔۔۔ملازم کو کہا کہ گوروں کو بلا لاؤ ۔۔۔وہ گیا ۔۔اور واپس آ کر کہا صاحب وہ نہیں آ رہے ۔۔۔آپ لوگ کرلیں ناشتہ ۔۔۔۔ہم نے ہنستے مسکراتے ہوئے ناشتہ کیا ۔۔۔۔پوجا میری طرف دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کہ رات والا واقعہ تو نہیں بتایا ۔۔۔۔میں نے اسے بھی انکار کر دیا۔۔۔ناشتے کے بعد ہم سب باہر چلے گئے ۔۔۔۔۔شام تک ہم باہر رہے ۔پوجا ہمیں لے کر شملہ ہل اسٹیشن لے کر گئی جو کافی خوبصورت بنا ہوا تھا ۔۔ہر ملک کے لوگ یہاں نظر آ رہے تھے ۔۔۔اس کے بعد مال روڈ پر پہنچے ۔۔۔وہاں کچھ دیر گھومتے رہے ۔۔عاصم نے پوجا کو شاپنگ کروا کر دی ۔۔میرے ساتھ بھی اس کا رویہ ٹھیک ہو گیا تھا۔۔اس کے بعد جاکھو ٹیمپل جو کافی مشہور تھا ۔۔وہاں کچھ دیر رکے ۔اور۔۔۔۔کافی شاپ سے ہوتے ہوئے گھر واپس آئے ۔۔البرٹ باہر ہمارا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔مجھے دیکھ کر اس نے آنکھیں نیچے کر لیں ۔۔رات والی مار یاد آئی تھی ۔۔۔۔عاصم کو لے کر ایک سائیڈ پر لے گیا۔۔اور کہنے لگا مسڑعاصم ہم آپ لوگ کے ساتھ آگے سفر نہیں کر سکتے ۔۔۔آپ دوسرا گائیڈ ہمارے لئے ارینج کرو ۔۔۔۔عاصم نے مذاق میں پوچھا کہ کیا ہوا ہے ۔۔کیوں ۔۔۔کیا ہم سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔۔مگر وہ بس اصرار کرتا رہا ۔۔۔آخر عاصم نے نوید کو فون کیا ۔۔۔اس نے کہا کہ ہم رات تک اگلا ڈرائیور پہنچا دیں گے ۔انہیں بولیں کہ یہ گیسٹ ہاؤس میں ہی رکیں ۔۔۔۔۔پھر عاصم نے نوید سے کہا کہ یار ہم ایک جیپ لے رہے ہیں دوسری یہیں چھوڑ دیں گے ۔۔۔۔اور تین دن بعد یہ جیپ تمہیں آفس کے باہر مل جائے گی ۔۔نوید نے نو ٹینشن کا کہا اور فون بند کر دیا۔
          شام ہو چکی تھی ۔۔۔۔ہم سب ایک ہی کمرے میں تھے ۔۔عاصم نے پوچھا راجہ صاحب کبھی آپ کو فلم کی شوٹنگ دیکھنے کا موقع ملاہے ۔۔۔۔میں نےانکار میں سر ہلایا۔۔۔۔
          چلیں پھر آج آپ کو شوٹنگ دکھاتے ہیں ۔۔۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔۔۔چلتے ہیں ۔۔۔
          ہم تیار ہوگئے ۔۔اور گوروں کو الودا ع کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے ۔۔۔۔۔۔یہاں سے 20 کلو میٹر دور منجت نامی علاقہ تھا ۔۔۔جہاں یہ شوٹنگ ہو رہی تھی ۔۔۔پوجا راستہ بتانے لگی ۔۔۔اور ہم بیس منٹ میں پہنچ گئے ۔عاصم نے اپنا اور میرا بیگ اٹھا لیا۔ایک اور بیگ جو کل اس نے شملہ میں کسی سے لیا تھا۔۔ہم انٹرنیس کی طرف پہنچے ۔۔یہ الگ ہی دنیا لگ رہی تھی ۔۔۔ایک بڑے سے میدان میں بڑی بسیں اور گاڑیاں کھڑی تھی ۔۔اور ان کے درمیاں کیمپ لگائے ہوئے تھے ۔۔۔ہم قریب پہنچے تو ہمیں روکا گیا ۔۔۔پوجا آگے آئے اور کہنے لگی کہ یہ میرے ساتھ ہیں ۔۔۔۔گارڈ مؤدب ہو کر پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔۔۔ہم اندر پہنچے ۔۔۔پوجا ایک بس میں ہمیں لے گئی ۔۔اندر ایک طرف بیڈ ۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل اور ڈائننگ ٹیبل غرض پورا گھر ہی بنا ہوا تھا ۔۔۔۔یہ چھوٹا سا پوجا کا تھا ۔۔اس نے ہمیں بٹھا کر چائے منگوانے لگی ۔۔۔
          اس کے بعد ہم باہر آئے ۔۔۔پوجا ہمیں فلم کے بارے میں بتانے لگی ۔۔اور پھر کاسٹ کے بارے میں ۔۔خطروں کے کھلاڑی کے نام سے مشہور شخص مین ایکٹر تھا۔۔۔۔۔پوجا ہمیں اس کی گاڑی میں لے گئی ۔۔۔پوجا نے عاصم کا خصوصی تعارف کروایا تھا ۔۔۔وہ کافی اچھے سے ملا اور پھر ہم واپس آگئے ۔۔۔۔۔کھانے کے بعد عاصم اور پوجا واپس باہر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔میں اکیلے بور ہونے لگا تو جیوتی سے بات کرنے لگا۔۔۔وہ شملہ کو تیار تھی ۔مگر میں نے روک دیا ۔۔کہ دو تین دنوں تک میں خود پہنچ جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔
          کلدیپ کو فون کیا تو وہ اپنے کالج واپس پہنچ چکی تھی ۔۔اور اسٹوڈنٹ کو اکھٹے کرنے کا کام شروع کردیا ۔میں نے بات ختم کی۔۔۔۔۔اتنے میں عاصم بس میں داخل ہو ا۔۔۔۔۔۔
          مشہور آفاقی مسکراہٹ کے ساتھ مخصوص جملہ تھا۔۔۔اور جگر کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔اور پھر مجھے باہر لے آیا ۔۔ پوجا نے اس کا تعار ف سب سے کروا دیا تھا ۔۔اور اب وہ بڑی آسانی سے کہیں بھی جا سکتا تھا ۔۔۔۔ہم باہر آئے ۔اور جیپ لے کر تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑی پر جاپہنچے ۔۔۔جیپ کھڑی کی ۔اور ایک کونے پر اندھیرے پر جا بیٹھے ۔۔۔۔عاصم کا باتیں کرنے کا موڈ تھا۔۔۔۔وہ کافی دیر تک باتیں کرتا رہا ۔۔۔۔ اس نے مجھے پاکستان میں اپنی فیملی کے بارے میں بتایا۔۔۔اورکہا کہ جب واپس جاؤ تو رابطہ رکھنے کی کوشش کرنا ۔۔۔اس کا رویہ پراسرار سا تھا ۔۔۔مجھے کچھ حیرت ہوئی۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ یہ مشن مکمل کر کے ساتھ واپس چلتے ہیں ۔۔۔کچھ عرصہ رہ کر پھر واپس آ جانا۔۔۔
          نہیں یار ۔۔۔۔ابھی کچھ کام باقی ہیں یہاں پر ۔۔۔میں جس انداز میں یہاں سیٹ ہو چکا ہوں ۔۔نیا بندہ سیٹ ہونے میں پانچ سے سات سال لگائے گا۔۔۔اس سے بہتر ہے کہ میں ہی یہیں رہوں اور آنے والوں کی مدد کرتا رہوں ۔۔اسی میں ملک کا مفاد ہے ۔۔۔۔۔
          اور جو تمہارے گھر والے تمہارے لئے ترستے ہیں ملنے کو ۔۔اس کا کیا ۔۔۔۔میں جذباتی سا ہو گیا۔
          جگر ۔۔ہلکے ہو جاؤ ۔۔۔۔میرے گھر والے میرا پورا ملک ہے ۔۔۔آپ جیسے نوجوان ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھے یہاں آتے ہیں ۔۔اب ہماری اپنی کیا خواہش باقی ہے ۔۔۔عاصم نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا رہا تھا۔
          ہم کافی دیر بیٹھے رہے ۔۔آدھی رات ہو چکی تھی ۔۔۔عاصم نے پھر کہا ۔۔اور وہ کل جو میں نے آپ سے ریس لگائی ۔۔آپ نے برا تو نہیں منایا۔
          نہیں یار مجھے کیوں برا لگنا تھا ۔۔۔۔بلکہ بڑا مزہ آیا ۔۔۔۔۔کافی عرصے بعد کوئی اپنی ٹکر کا بندہ ملا ۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
          آپ کوکہیں یہ تو نہیں لگا کہ میں پوجا کی وجہ سے یہ سب کر رہا ہوں ۔۔۔۔عاصم نے پھر پوچھا ۔۔
          میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی ۔۔یارا ۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ۔نہ میرا اتنا چھوٹا دل ہے ۔۔۔۔اور ویسے بھی مجھے پتا تھا کہ اس میں بھی کوئی راز ہو گا۔۔
          عاصم کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔جگر پہچان گئے ہو مجھے ۔۔۔۔چلو کام شروع کرتے ہیں ۔۔
          عاصم نے اپنی جیکٹ میں ہاتھ ڈالا اور کاغذ کے رول نکال کر میرے سامنے پھیلا دیئے ۔۔۔۔۔۔۔ٹارچ نکال کر اس نے ہاتھ میں پکڑ لی ۔۔یہ کوئی نقشہ تھا ۔۔۔۔جگر یہ شملہ ائیر پورٹ کا نقشہ ہے ۔۔۔۔چھوٹا ائیر پورٹ ہے ۔۔۔۔۔کچھ عرصے پہلے نیا ائیر پورٹ بنایا گیاتھا ۔۔۔۔یہ نیا رن وے ہے ۔۔۔۔اور پرانا رن وے یہ پچھلی سائیڈ پر ہے ۔۔۔۔جو اب استعمال نہیں ہوتا ہے ۔۔۔
          اب سین یہ ہے کہ اسی ائیر پورٹ کی پچھلی سائیڈ پر یہ ڈرون کے ہینگرز بنائے گئے ہیں ۔۔۔۔۔ڈرون طیارے کو اڑنے کے لئے زیادہ لمبے رن وے کی ضرورت نہیں ۔۔یہ تھوڑے ہی فاصلے سے دوڑ کر اڑ جاتے ہیں ۔۔۔یہ پورا نقشہ اپنے ذہن میں بٹھا لیں ۔۔۔۔میں پھر سے سب بتا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔
          میں نے جلدی سے یاد کر نے لگا۔۔۔۔اتنے میں عاصم نے ایک جگہ انگلی رکھی ۔۔۔اور یہ جگہ ہے جہاں ابھی ہم بیٹھے ہیں ۔میں چونک گیا ۔۔ہم بالکل قریب تھے ۔۔۔میں نے نظریں دوڑائیں تو سامنے کی طرف ہی ائیر پورٹ کی لائٹس نظر آ گئیں ۔۔۔۔اس سے پہلے میرا دھیان نہیں گیا تھا۔
          ۔
          اس ائیرپورٹ کے پچھلی طرف جہاں پرانے اور ناکارہ طیارے رکھے جاتے تھے ۔۔۔وہاں آرمی نےخفیہ طور پر صفائی کروا کر ڈرون طیارے رکھے ہیں ۔ابھی تک میری معلومات کے مطابق یہ سو سے زائد طیارے ہیں ۔۔۔۔اور نظروں سے بچانے کے لئے سیکورٹی بھی کم ۔۔۔۔باقی تم دیکھ ہی رہےہو کہ آس پاس آبادی بہت کم ہے ۔۔۔۔صرف سیر کرنے لوگ آتے ہیں ۔۔انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔اس لئے اتنے ٹائم سے یہ اڈہ چھپا ہوا ہے ۔۔
          ابھی آتے ہیں پوجا کی طرف ۔۔۔۔جب ہم نے لدھیانے سے سفر شروع کیا ۔۔تو پوجا نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں فلم شوٹنگ کے لئے آ رہی ہے ۔۔۔ اور فلم بھی بڑی پیمانے کی ہے ۔۔ایکشن اور مار دھاڑ سے بھرپور ۔۔۔۔۔ہالی وڈ کی طرز پر بنائی گئی ہے ۔۔۔۔۔یہ شوٹنگ ایک ہفتہ پہلے ختم ہو جانی تھی ۔۔مگر ایک رکاوٹ آ گئی ۔۔۔۔فلم کا ڈائیکٹر کچھ سنکی آدمی ہے ۔۔۔۔اور ایکشن سین وہ کمپیوٹرائزڈ بنوانے کے بجائے اسٹنٹ سے خود کرواتا ہے ۔۔۔اب تو ہالی وڈ نے بھی کافی عرصے سے گرین اسکرین شروع کر دی ہے۔۔جن پر بعد میں پیچھے افیکٹ ڈالے جاتے ہیں ۔۔۔مگریہ ڈائریکٹر اسے اسٹنٹ مین سے کروانا چاہتا تھا۔۔اور یہ سین کافی مشکل ہے ۔۔کوئی بھی کرنے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔
          ویسے یہ سین ہے کیا اور اتنا مشکل کیوں ہے ۔۔۔۔میں نے بات کاٹی ۔
          جگر آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ دو بائیک ساتھ چلتی ہوئی آتی ہیں ۔بندے ڈرائیو کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔اور ان کے پچھلی سیٹ پر ایک ہیرو دونوں ٹانگیں کھولے کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔اگر بائک تھوڑی سی بھی دائیں بائیں ہو جائے ۔۔تو آدمی گر سکتا ہے ۔۔۔تو بس اسی قسم کا سین ہے ۔۔۔بس بائک کی جگہ دو طیارے استعمال ہو رہے ہیں ۔۔۔
          ۔۔اب ان کو یہ اسٹنٹ مین مل گیا ۔۔تو کل صبح شوٹنگ کا سین عکس بند ہوگا۔۔۔۔۔۔تو آپ کا کام شرو ع ہوتاہے کل صبح ۔۔۔۔جیسے ہی سین شروع ہو گا۔۔تمام لوگوں کی توجہ اس طرف ہو گی ۔۔۔۔ایکسپلوزو کا بیگ آپ کے پاس ہو گا۔۔اور ٹائم آپ کے پاس دس منٹ کا ہے ۔۔۔۔۔یہ دس منٹ میں طیارے اڑ کر واپس زمیں پر اتریں گیں ۔۔۔۔اس سے پہلے آپ نے کام ختم کر کے یہاں سے نکل جانا ہے ۔۔میں سمجھ گیا تھا ۔۔نقشہ میرے پاس تھا۔۔آپ جیپ لے کر سیدھے وہیں پہنچ جانا جہاں پر میں نے اس جیپ والے کو گرایا تھا ۔۔۔وہاں میرا بندہ آپ کو ملے گا۔
          اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا سوال تھا۔۔
          بس جگر ۔۔۔ پوجا سے دل لگ گیا ہے ۔۔کچھ ٹائم رہ کر میں بھی لدھیانے آتا ہوں ۔۔وہیں ملیں گے ۔
          میں مطمئن ہو چکا تھا ۔۔عاصم نے مجھے دیکھا اور گڈ لک کہتے ہوئے شانے پر تھپکی دی ۔۔وہ کچھ اداس سا ہو رہا تھا ۔
          ہم پھر واپس آگئے ۔۔۔پوجا نے اپنی گاڑی میں ہی ہمارے سونے کا بندوبست کیا ۔۔میں لیٹا اور سونے لگا۔۔عاصم اور پوجا آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          صبح کے چار بج رہے تھے ۔۔۔جب عاصم نے مجھے اٹھایا ۔۔جگر تیار ہو جاؤ ۔۔۔۔ائیر پورٹ کیطرف چلنا ہے ۔۔۔میں جلدی سے تیار ہوا اور باہر آیا ۔۔۔بڑی گاڑیاں اور کرینوں پر لگے کیمرہ میں حرکت کر رہے تھے ۔۔۔عاصم میرے پیچھے آ یا ۔۔اور جیپ لے کر ہم بھی ائیرپورٹ کی پچھلی طرف پہنچ گئے ۔۔یہاں ہر طرف کیمرے مین سیٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔ساتھ ہی ایک چھوٹا ہیلی کاپٹر تھا ۔۔جو اڑتا ہوا کیمرے سے شوٹ کرتا۔۔عاصم مجھے ایک جگہ پر بٹھا کر چلا گیا۔۔اس جگہ سے وہ اسٹور بیس قدم کے فاصلے پر تھا۔۔بیگ میرے پاس ہی تھا ۔۔عاصم نے ایک پسٹل بھی میری جیکٹ میں رکھوا دی تھی ۔۔بیگ میں نے پیچھے پہن لیا۔۔۔دونوں طیارے حرکت کرتے ہوئے رن وے پر آگئے ۔۔۔۔۔ میں نے ٹائم اور نقشہ دیکھا۔۔۔ہر چیز ٹھیک تھی ۔۔۔جیپ کی چابی میری جیب میں ۔۔اور جیپ پچھلی سائیڈ پر ۔۔۔بیس سے تیس منٹ کا ٹائم اگر ڈیٹو نیٹر پر فکس کرتا ہوں تو میں کافی دور نکل جاؤں گا۔۔۔میں نے ساری کیلکولیشن کر لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
          تبھی سامنے کی طرف سے ایک شور مچا ۔۔۔۔۔۔۔لوگ آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔۔۔پتا چلا کہ اسٹنٹ مین آگیا ہے ۔۔۔۔۔میری توجہ میرے مشن پر ہی تھی ۔۔۔۔اور تب میری نظر اسٹنٹ مین کے مخصوص لباس پہنے ہوئے آدمی پر پڑی تھی ۔۔۔۔۔میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔۔یہ عاصم تھا ۔۔۔میں نے بیگ اتار کر اپنی کرسی کے نیچے کیا اورپوری قوت سے بھاگا۔۔۔۔۔۔۔رات والی اس کی ساری باتیں میرے ذہن میں آگئی ۔۔۔۔وہ کیوں اپنے گھر والوں کا خیال کرنے کا کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔میرے پاؤں کے نیچے پر لگے تھے ۔۔اور میں اڑتا ہوا پہنچا ۔۔۔۔۔میں اس کے سامنے پہنچا تو وہ ڈائیریکٹر میرے سامنے اس سے سائن لے رہا تھا کہ اگر اسے کچھ ہوا تو وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔۔۔۔۔۔میں اس کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر گڑ بڑا گیا تھا ۔عاصم یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہکلا گیا
          یار ان لوگوں کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے ایسے ہی سائن لے رہے ہیں ۔۔انہیں بولو کہ میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جو کوئی بولے گا۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
          میں اس سے لپٹ گیا ۔۔یار یہ کیا ہے ۔۔۔ہم کچھ اور پلان کر لیتے ہیں ۔۔۔اس سب کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔چل نکل یہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں عاصم کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔۔۔مگروہ ہلنے پر تیار نہیں تھا ۔۔
          جگر ٹائم کم ہے ۔۔۔۔۔۔طیارے رن وے پر آگئے ہیں ۔۔۔آپ جاؤ ۔۔۔۔اور باقی کام سمبھالو ۔۔وہ بھی کم آسان نہیں ہے ۔
          میں اس سے لپٹ گیا۔۔۔۔آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔۔۔۔اتنے میں خطروں کا کھلاڑی ہمارے قریب آیا اور عاصم کو تھپکی دیتے ہوئے بولا۔۔۔ ویلڈن بوائے ۔۔۔۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے دیش میں ایسے بہادر لوگ بھی موجود ہے ۔۔۔وش یو گڈ لک ۔۔۔۔۔۔۔
          کل کو یہی سین اس ایکٹر کی طرف منسوب کیا جانا تھا۔۔۔۔۔۔عاصم نے مطمئن انداز میں اپنے شانے سے اس کا ہاتھ ہٹا یا ۔۔۔اور کہنے لگا اس دیش کا تو پتا نہیں ۔۔مگر پڑوس میں ایسے بہت سے بہادر موجود ہیں ۔۔اور یہ کہ کر آگے بڑھ گیا۔۔۔میں بھی اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔پاؤں من بھر کے ہو گئے ۔۔۔۔۔۔سیٹ پر آ کر بیٹھا ۔سامنے دیکھا تو۔طیارے کا انجن اسٹارٹ تھا ۔۔۔۔ایکشن کی آواز آئی اور طیارے رن وے پر چلنے لگا۔۔۔۔۔اس نے کچھ اسپیڈ پکڑی۔۔اور تیز ہوا ۔۔۔پیچھے سے عاصم دوڑتا ہوا آ رہا تھا ۔۔طیارے کا دروازہ کھلا تھا ۔۔۔۔طیارہ اور تیز ہوا تھا ۔۔۔اور جب اس نے اپنے ٹائر زمیں سے چھوڑے ۔۔۔۔عاصم نے اس کے قریب آتے ہوئے ایک لمبی جمپ ماری اور دروازے سے لٹک گیا ۔۔۔۔۔کیمرےساتھ ہی موو ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔طیارہ سیدھا اڑتا ہوا اوپر گیا۔۔۔۔نیچے سے دوسرا طیارہ بھی پیچھے اڑ گیا ۔۔۔عاصم نے لٹکتے ہوئے خود کو کھینچا ،دروازے پر کھڑا ہوا اور پھر پر کے اوپر چڑھنے لگا ۔۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          پہلے طیارہ کے اسپیڈ پکڑتے ہی میں حرکت میں آ گیا ۔۔اسٹاپ واچ پردس منٹ کا ٹائم سیٹ کر دیا ۔۔۔اور ۔۔اپنی سیٹ کے نیچے سے بیگ اٹھا کر پہنا اور تیز قدموں سے بڑھنے لگا۔۔۔سب کی نظریں اوپر ہی جمی ہوئی تھی ۔۔دونوں طیارے زیادہ اونچائی پر نہیں تھے ۔۔اس لئے ان کی کان شگاف آوازیں پورے ماحول میں گونج رہی تھی ۔۔۔تھوڑےفاصلے پر آ کر میں نے بھاگنا شروع کر دیا ۔۔۔پسٹل میری جیب میں محفوظ تھی ۔۔۔۔اسٹور روم کے دیوہیکل دروازے کے قریب پہنچا ۔۔۔۔یہاں لاک لگا ہوا تھا ۔۔۔۔جیب سے لاک پک نکال کرمیں نے 30 سیکنڈ لگائے ۔۔۔۔دروازہ کھل گیا ۔۔۔سیدھا اندر پہنچا ۔۔یہ بیسمنٹ ٹائپ جگہ تھی ۔۔۔۔اوپر ایک کمپیوٹر روم بنا ہوا تھا ۔۔۔میں سیڑھیاں لے کر اوپر پہنچا ۔۔۔۔ایک ہی آدمی تھا۔۔اسے ٹھکانے لگا کر نیچے جھانکا ۔۔۔ڈرون طیارے کسی شوکیس کی طرح سجے ہوئےتھے ۔۔ایک طرف ورکشاپ بنی ہوئی تھی ۔۔۔جبکہ انہیں طیاروں کے درمیان کمانڈوز پہرہ دیتے ہوئے دکھائی دئے ۔۔۔۔میرے پاس ٹائم کم تھا ۔۔میں نے بیگ کھول کر دیکھا ۔۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے میگنٹ نما بم تھے ۔۔۔ٹائمر لگاہوا تھا ۔۔۔میں نےسب پرٹائمر سیٹ کرنا شروع کرئے ۔۔۔۔ایک گھنٹے کا ٹائم رکھا ۔۔اس ٹائم تک شوٹنگ والے واپس چلے جاتے ۔۔۔۔۔۔۔ایک بم اپنے آس پاس پانچ سے چھ ڈرون کے لئے کافی تھا ۔۔
          اس کے بعد میں بیگ اٹھائے نیچے آ گیا ۔۔۔چار منٹ گزر چکے تھے اور پانچواں منٹ اسٹارٹ تھا۔۔۔میں نے ایک ہاتھ میں پسٹل تھا می اور بیسمنٹ کی دیوار کے ساتھ بھاگنا شروع کردیا۔۔۔میرے ایک طرف دیوار اور دوسری طرف طیارون کی لائن تھی ۔۔۔میں ہر پانچ ڈرون گنتا اور بم کو چپکا دیتا۔۔۔۔بھاگتے ہوئے ایک لائن پوری کی ۔۔اب دوسری لائن چھوڑ کی تیسری لائن پر آیا ۔۔۔۔اور ایسے ہی بھاگتےہوئے واپس آنے لگا۔۔۔۔تیسرے بم پر ہی سامنے ایک کمانڈو آیا تھا ۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید حیران ہوتا ۔۔ہیڈ شاٹ اسے لٹا چکا تھا ۔۔۔۔میں نے پھر بھاگنا شروع کردیا ۔۔۔۔ایسے ہی تین اور کمانڈو حیران پریشان ملے اور اپنی منزل کو پہنچتے گئے۔۔۔۔۔۔بھاگتے ہوئےمیری سانس پھول گئی تھی ۔۔۔آخری بم لگا کر ٹائم دیکھا تو 9 منٹ ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔میں نے بیگ اور پسٹل وہیں پھینکا اور باہر آیا ۔۔اسٹورروم کا گیٹ بند کیا اور واپس اپنی سیٹ پر پہنچا ۔۔۔۔۔
          میرے قریب ہی ایک کیمرہ میں زوم کئے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔اس کے قریب پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔اسکرین پر دونوں طیارے اڑتے ہوئے نظر آئے دونوں پروں کے درمیان کچھ فیٹ کا فاصلہ تھا۔۔۔جس میں عاصم اپنی ٹانگیں فل کھولے ہوئے تھے ۔۔دونوں پروں کے اوپر اس کا ایک ایک پیر تھا ۔۔۔۔اتنے میں نیچے سے ڈائریکٹر نے کچھ مائک پر کچھ کہا ۔۔۔طیارہ اور اونچائی پر جانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔طیارہ اوپر جاتے ہوئے چھوٹے ہورہے تھے ۔۔۔اور پھر مڑتے ہوئے انہوں نے اپنا ایک چکر مکمل کیا ۔۔۔۔اب انہوں نے نیچے کی طرف اترنا تھا ۔۔۔جیسے ہی وہ رن وے کی سیدھ میں آئے ۔اور ہلکے سے جھکے ۔۔۔میں نے عاصم کو ہلتے ہوئے دیکھا ۔۔ڈائریکٹر نے چیختے ہوئے کچھ کہا۔۔۔عاصم ایکدم پیچھے کو گرا ۔۔۔۔اور نیچے آنے لگا۔۔۔۔میرا دل دھک سے رہ گیا ۔۔۔۔نیچے سے سب لوگوں کی چیخیں نکلیں ۔۔۔۔۔سب ایک بڑی اسکریں پر یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا دس منٹ ہو چکے تھے ۔۔اور اپنے جگر کا حکم تھا کہ دس منٹ میں غائب ہونا ہے ۔۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا ۔۔کہ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔۔میں جیپ تک پہنچا اور جیپ ہوا میں اڑادی ۔۔۔۔
          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
          دس منٹ میں شملہ کے مین روڈ پر تھا۔۔۔اور واپس پر اس طرف جا رہا تھا ۔۔جہاں عاصم نے اس جیپ والے کو ٹکر ماری تھی ۔۔۔۔میں آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔۔ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا ۔۔میں جیپ ایک سائیڈ پر کھڑی کر کے انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔مجھے ایک گھنٹا ہو گیا تھا ۔۔۔۔لدھیانہ میں نوید کو فون کیا ۔۔مگر کسی نے نہیں اٹھایا ۔۔۔۔۔میں روڈ کے کنارے کھڑا پتھروں کو پاؤں مارتے ہوئے اچھال رہا تھا کہ ایک گاڑی میرے قریب آ کر رکی ۔۔۔کوئی لڑکی شملہ کا راستہ پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔میں راستہ بتا کر واپس آیا ۔۔۔اور آدھا گھنٹہ مزید رکا رہا ۔۔مجھے لگا کہ اب کوئی نہیں آئے گا۔۔لدھیانہ کا راستہ مجھے معلوم تھا ۔۔۔۔میں جیپ پر بیٹھا اوراسٹارٹ کرنے لگا۔۔۔تبھی مجھے پیچھے سے آواز آئی ۔۔۔۔جگر مجھے تو نہیں ڈھونڈ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے چونک کر پیچھے دیکھا۔۔۔۔۔۔کوئی چادراوڑھے عاصم پاؤں سیدھے کیے ہوئے لیٹا ہوا تھا ۔۔۔میں جیپ سے کود کر اترا ۔۔۔وہ بھی پیچھے سے اترا ۔۔۔۔۔پیٹ پر مکہ مارتے ہوئے میں نے اسے گلے لگایا ۔۔۔۔۔بس بس ۔۔اتناغصہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔وہ چادر پیراشوٹ تھا ۔۔۔اور عاصم اسی سے اترا تھا ۔۔۔اس نے پیرا شوٹ کافی نیچے آ کر کھولا تھا ۔۔شوٹنگ کے کیمرے نہیں دیکھ پائے تھے اسے ۔۔۔۔ ہم نے جیپ پکڑی اور واپس کی طرف دوڑا دی ۔۔۔۔۔میں نے عاصم کو بتایا کہ اب واپسی کی سیٹنگ بناؤ ۔۔۔۔۔۔
          جگر کچھ دن ہمارے مہمان بنو ۔۔پھر خود واپس چھوڑ کر آ جائیں گے ۔۔۔یہ پڑوس میں ہی تو جانا ۔۔۔۔۔ہے ۔۔۔۔۔۔فضاء میں ہم دونوں کے قہقہے گونج اٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          تھے معرکے ہمیں سے زندہ ۔۔۔سرفروش تھے ، جانباز تھے ۔
          جب رکے اک سمندر تھے ۔۔۔جب اٹھے تو اک طوفان تھے ۔
          ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #6
            Bohat umda shahkaar

            Comment


            • #7
              hamaarey watan kai janbaaz kesi kesi qurqurbani detey hain hamaraey liye

              Comment


              • #8
                Buhat hi aaala entry india main.
                zabardast
                Zabardast action. Zabardast kahani.
                Maza agaya

                Comment


                • #9
                  بہت اعلیٰ انتہائی گرم اور شہوت انگیز مزہ آ گیا زبردست ایکشن

                  Comment


                  • #10
                    سپر سے بھی اوپر ۔بوہت ہی زبردست ۔خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ہارڈ ٹارگٹ کو ۔اور من موجی جی آپ کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے ۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X