Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جوانی لے ڈوبی زہر بن کر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت ہی بہترین کہانی۔
    اب اس بات کا انتظار ہے نور کا کھاتہ سب سے پہلے کون کھولے گا۔
    بہت گرم کہانی۔

    Comment


    • Boh at achi story aur updates haan

      Comment


      • اپ ڈیٹ-:
        تھوڑی بہت املا کی غطی ہوتی سکتی ہے
        اب آگے
        میں نور کے آنے کا انتظار کرنے لگا.
        اور یہ سوچنے لگا کے نور کو کس طرح اس لڑکے سے دور رکھا جائے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی -میں بھی اٹھ کر باہر آ گیا بھابی نے دروازہ کھولا سامنے نور کھڑی تھی اندر داخل ہوتے ہی نور نے سلام کیا میرا جواب سننے سے پہلے ہی جلدی سے بولی چاچو موبائل ٹھیک ہوا کہ نہیں نور کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا کے؟ (اس کو کتنی جلدی ہے اپنے یار سے بات کرنی کی) میں نے بھی جلدی میں بول دیا کے نہیں ابھی ٹھیک نہیں ہوا دکان والا بول رہا تھا کے کل مل جاۓ گا-میری یہ بات سن کر نور کا چہرا ہی اتر گیا بھابی غصے میں بولی کے کیا آتے ساتھ ہی موبائل کا پوچھنے شروع ہو گی ہو تمھیں کوئی شرم حیا ہی نہیں ہے ہر وقت موبائل ہی موبائل کرتی رہتی ہو جلدی اندر جاؤ اپنا بیگ رکھو کپٹرۓ بدلو میرۓ ساتھ کام کرواؤ بھابی کی یہ بات سن کر تو نور کو غشی کا دورا ہی پڑھ گیا اور سا تھ ہی نور بولی کے امی میں تو ابھی کالج سے آئی ہوں بہت تھکی ہوں اس سے پہلے کہ بھابی کچھ بولتی میں بولا کہ بھابی چھوڑؤ نور تھکی ہوئی ہے آج یہ پہلا دن تھا کہ میں نور کہ لیے بولا تھا میرا اس طرح نور کہ حق میں بولنا۔نور کہ چہرے پر ایک پیاری سی مسکان لے آیا بھابی میری بات سن کر بوئی کہ تم نے اور تمہارے بھائی نے اس کو سر پہ سوار کر لیا ہے زاہد دل میں بولا کہ بھابی سر پر تو آپ کے شوہر نےسوار کیا ہوا ہے میں اپنی بھتیجی کو اپنے لن پہ سوار کرؤ گا بہت جلد ہی اور ساتھ ہی مسکرا پڑھا۔ غصے میں بھابی وہاں سے چلی گئی اُن کہ جانے کہ بعد نور جلدی سے بولی چاچو شکریہ امی سے جان بچانے کے لیے۔ خوشی سے اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔میں پھر سے اپنی سوچوں میں گم ہو گیا کہ اس لڑکے کا کیا کرؤ اور نور کو کس طرح اپنے جال میں پھنسایاجائے۔میرے دماغ میں خیال آیا (جوانی میں انسان زیادہ نہی سوچتا جوش میں ہر کام کر جاتا ہے ویسا بھی جوان لوگوں پہ تو شیطان سوار رہتا ہے ) میں بھی ویسا ہی کام کرنے کا سوچا اور اپنے منصوبے کو انجام دینے کا سوچا۔پھر اپنے دوست کی طرف چل پڑھا کیوں کہ اس کام کے لیے مجھے اپنے دوست کی ضرورت تھی دوست کے پاس جا کر اس سے اپنا مسئلہ بیان کیا جن لفظوں کی مجھے امید تھی وہ ہی سن کر میں خوش ہو کر گھر کی طرف واپس آ گیا۔رات میں ایسی کوئئ خاص بات نہیں ہوئی جس کا ذکر کیا جاۓ۔صج اٹھ کر ناشتہ کیا اٹھ کر باہر آگیا اپنے شکار کا انتظار کرنے لگا میرا انتظار تب ختم ہوا جب وہ لڑکا مجھے بائیک پر آتا نظر آیا اُس کو دیکھ کر میرے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ أس نے بائیک گھر کے سامنے لگی دی میں بھی جلدی ہی اُس کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اُس کو سلام کیا اُس نے سلام کا جواب دیا تو میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ کو پہلے کبھی نے دیکھا تو اُس نے جواب دیا جی میں تو روزانہ ہی آتا ہو یہ گھر ہمارا ہی ہے ابھی تعمیر کر رہے ہیں تو میں جلدی میں ہی بولا کہ کیا آپ ادھر شفٹ ہو رہے ہیں کیا تو وہ بولا نہیں جی ہم تو گھر بنا کر سیل کرتے ہیں۔اِس کی یہ بات سن کر میرے دل کو تھوڑا حوصلہ ہوا میں نے اپنے سر پر ہاتھ مرا کر پوچھا میں نے تو آپ کا نام ہی نہیں پوچھا تو اُس نے اپنا نام بتایا کہ میرا نام مدثر ہے پھر میں نے اپنا نام بتایا۔میں نے بولا بہت اچھا لگا آپ سے بات کر کہ پھر میں بولا کہ یار میں بھی إدھر ہی رہتا ہوں سارا دن گھر میں بور ہوتا رہتا ہوں اَگر مدثر تمہیں برُا نہ لگے تو کیا دن کو میں تمھیں ملنے کو آ سکتا ہوں تو وہ بولا ہاں ہاں کیوں نہیں یار آ جانا میرا بھی دن ایسا ہی گزار رہا ہے-میں بولا اچھا ٹھیک ہے ابھی میں کام جا رہا ہوں دن کو ملتا ہوں پھر وہاں سے گھر کی طرف آ گیا میں نے اپنا کھیل شروع کر دیا تھا اب مجھے دن کا بے صبری سے انتظار تھا
        جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے گھر میں نور نظر آئی میں نے نور سے پوچھا کہ آج کالج نہیں گئی تم تو نور بولی وہ چاچو طبیعت نہیں ٹھیک ہے تو میں بولا کیا ہو گیا تمہیں کل تک تو ٹھیک تھی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں اگر زیادہ ہی مؔسلہ ہے تو نہیں چاچو اب ٹھیک ہوں-پھر مجھے نور کی آنکھوں میں سوال نظر آیا مجھے صاف صاف پتہ تھا کہ نور کو کیا چاہیے۔میں نے جب کوئی جواب نہیں دیا تو خود ہی بولُ پڑی چاچو وہ موبائل کا کیا ہوا میں نے نور کو تنگ کرنے کے لیے بولا میں تو گیا ہی نہیں دکان پہ میرا جواب سن کر نور نے چھوٹا سا منہ بنایا اُس کا یوں منہ دیکھ کر مجھے اُس پہ ہنسائی آ گی میں نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر نور کو دیا نور مسکرا کر بولی شکریہ چاچو میں بولا شکریہ سے کام نہیں چلے گا-مجھے تم سے کچھ اور چاہیے تو نور بولی چاچو آپ کو کیا چاہیے پہلے وعدہ کرو جو مانگوں وہ دو گئی میرا یوں وعدے والا لفظ سن کر نور خاموش ہو گئی نور کو خاموش دیکھ کر میں نے پوچھا کہ نور کیا ہو گیا خاموش کیوں ہو گئی ہو تو وہ بولی چاچو یہ وعدہ کس چیز کا کروا رہے ہو تو میں بولا کہ ابھی نہیں بتانے والاشام کو ہی بتاؤں گا یہ سن کر نور نے اس کو زیادہ سیریس نہیں لیا اور ہاں کر کے وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی-نور کو کیا پتہ تھا کہ زاہد اُس سے ایسا کچھ مانگ لے گا جس کو سن کر نور کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گئے۔میں بھی اپنے کمرے میں آ گیا اور آگے کے بارے میں سوچنے لگا جلدی ہی میں نے سوچا لیا کہ کیا کرنا ہے۔ (نوٹ میں آپ لوگوں کو بتاتا دوں کہ میں نے زیادہ تر سٹوری میں پڑھاہے کہ اس طرح اُس طرح کر کے میں نے مان لیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیا اتنا ہی آسان ہوتا ہے کہ آپ کی ماں بہن یا اور کوئی قریب کی رشتے والی مان جاۓ اس لیے میں بتا دوں کہ میں نے کھول کر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیوں کہ میرے پاس نور کا راز تھا اور اُس کے ثبوت بھی موجود تھے مجھے کوئی ڈر نہیں تھا کیوں کہ میرا ایسا کوئی راز یا ثبوت نہیں تھا جو کہ میرے خلاف ہو )
        یہ سب سوچتے ہی دن کا وقت ہو گیا میں گھر سے نکل کر مدثر کے گھر کی طرف رواں ہو گیا اُس کے گھر کے نیچے جا کر میں نے مدثر کو آواز دی اپنا نام سن کر مدثر باہر آیا مجھے دیکھ کہ بولا کہ اندر آ جا۔(کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ زاہد اور مدثر اتنی آسانی سے پہلی ہی ملاقات میں دوست بن گئے لڑکوں کو تو اس بات کا پتہ ہے کہ زیادہ تر لڑکوں کی دوستی ایسے ہی ہوتی ہیں ہم لڑکے زیادہ نہیں سوچتے جلدی ہی گل مل جاتے ہیں) میں گھر کہ اندر داخل ہو گیا۔ میں نے مدثر سے پوچھا کہ اور سنوو کہ کیا کر رہے تھے وہ بولا تمھارے سامنے ہی ہے ان مزدورں کہ سر پہ کھڑے ہو کر دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ اپنا کام کریں اَگر ان لوگوں کہ سر پہ نہ ہو تو یہ لوگ کام میں ڈانڈی مارتے ہیں ہاں یہ تو بات ہے ہی کیا سارا دن ہی ہوتے ہو اِدھر ہاں اَدھر ہی ہوتا ہوں شام کو گھر جاتا ہوں-تو مدثر کھانے کا کیا کرتے ہو کیا کرنا ہے کبھی گھر سے سالن لے آتا ہوں کبھی باہر سے اور روٹی تندور سے لے کر کھا لیتا ہوں۔ابھی مجھ تم یہ بتاو کھانا کھایا کہ نہیں یار ابھی نہیں کھایا میں نے تھوڑی دیر تک کھانا ہے اچھا کھانا تو میں نے بھی نہیں کھایا کیوں نہ آج مل کر کھانا کھایا جائے کیوں نہیں یار میں سالن لے کر آیا ہوں میں نے بولا نہیں یار باہر جا کر کھاتے ہیں مدثر بولا نہیں یار ادھر ہی کھا لے گئے میں نے بولا کہ نہیں آج کا کھانا میری طرف سے ہے چل نہ میرے زیادہ بولنے سے وہ راضی ہو گیا اور بولا کہ ٹھیک ہے رک جا چلتے ہیں میں نے بولا ہے ہے کوئی مسلہ نہیں پھر اُس سے پوچھا کہ اِدھر واش روم ہے کیا وہ بولا ہاں ہے نہ کمرے سے باہر نکل کر بائیں ہو جا۔کمرے سے نکل کر میں واش روم میں داخل ہو گیا اپنا فون نکل کر فون کیا تین منٹ بات کر کے فون کاٹ دیا مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی آسانی سے میں اپنے پہلے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گا- جسے ہی میں باہر نکلا تو اندر سے مدثر بھی باہر آ رہا تھا مجھ دیکھ کر بولا کہ میں تیار ہوں چلو چلتے ہیں۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ مزدور بھی باہر ہی ہیں میں نے مدثر سے پوچھا کہ یہ کیوں باہر ہیں تو وہ بولا کہ یہ بھی جا رہے ہیں کھانا کھانے میرے منہ سے بے اختیار ہی نکل گیا کہ یہ بھی ساتھ چلے گئے کیا میرے اس سوال پہ مدثر مسکرا کہ بولا کہ نہیں یہ لوگ اپنا کھانا کھاتے ہیں تو میں جلدی بولا کہ جلدی کر بہت بھوک لگی ہے ۔(سٹوری کو مختصر کر رہا ہوں کیوں کہ اس طرح تو بہت لمبی ہو رہی ہے اور بور بھی) ہم لوگ موٹر سائیکل پہ ہوٹل پہنچ گئے کھانا کھایا واپسی پر میں نے مدثر کو بولا کہ کچھ سامان بھی لینا ہے پھر اُس کو راستہ بتایا وہ اُس پر موٹر سائیکل بھاگا رہا تھا جسے ہی ہم گلی میں داخل ہوئے آگے گلی میں چھے سات لڑکے کھڑے تھے اُن نے ہم کو روکنے کا اشارہ کیا مدثر رک گیا اُس سے پہلے کہ ہم کچھ بولتے ایک لڑکا بولا کہ تجھ پہلے بھی بولا تھا کہ اُس کہ پیچھے دوبارہ نہیں جانا مگر کتی کے بچے تجھ سمجھ میں نہی آیا اور گریبان سے پکڑ لیا میں نے اتنا ہی بولا کہ بھائی کون ہو تم ساتھ ہی ایک تپپڑ میرے منہ پر مارا اور بولا کہ مارو ان گشتی کہ بچوں کو مجھے دو لڑکوں نے مارنا شروع کر دیا جب کہ مدثر کو چار لڑکوں نے مارنا شروع کر دیا ایک لڑکے نے پیپسی والی گلاس کی بوتل نکلی اور مدثر کے ناک پہ دی ماری تو مدثر کہ منہ سے ایک چیخ نکلی میں نے جب اُس طرف دیکھا تو مدثر کی ناک سے خون نکل رہا تھا اور ناک سوجھی گئی تھی چیخ کی آواز سن لوگ آ گئے لوگوں نے ہمیں اُن سے چھوڑیا لوگوں کہ آتے ہی وہ لوگ وہاں سے بھاگے گئے تھے ہمیں پاس کہ کلینکل لے گئے مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی مگر مدثر کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ڈاکڑ نے مدثر کی پٹی کی اور بتایا کہ ناک کی ہڈی کا آپریشن ہو گا۔ اس دوران ایک دفعہ بھی مدثر نے بات نہیں کی میں بولنے والا تھا کہ مدثر کا فون بجا مدثر نے کانپتے ہاتھوں سے فون اٹھا کر جی بھائی جی آواز آئی کہ کدھر ہو مدثر نے خوف کی آواز میں جواب دیا کہ بھائی بس راستے میں ہوں ابھی آیا اور مجھے بولا جلدی چل مدثر کو یوں گھبرایا دیکھ کر میری بھی گانڈ پھٹنی لگی میں بھی خوف میں بولا کہ مدثر گھبرا کیوں رہا ہے بولا کہ میرا بھائی مجھے مارا دے اُس کی یہ بات سن کر میں بولا تو پاگل تو نہیں ہے وہ بولا تو نہیں سمجھے گیا اور موٹر سائیکل کو گھر کی طرف بھاگا دیا جلدی ہی گھر کے سامنے آگئے دیکھا کہ مزدور سامنے کھڑے ہیں مدثر کو دیکھ کر وہ حیرت میں آ گئے تھے اُن نے پوچھا کہ کیا ہوا مدثر نے کوئی جواب نہیں دیا بس پوچھا کہ بھائی تو نہیں آیا نہ تو وہ بولے کہ ہم نے فون کیا تھا کہ آپ کھانا کھانے گئے ابھی تک واپس نہیں آئے مدثر نے شکر ادا کیا پھر میری طرف دیکھا کر بولا کہ کون تھے وہ لوگ میں نے بولا مجھے نہیں پتہ میں تو جانتا ہی نہیں وہ کون تھے مدثر بولا کہ کوئی بھی ایسے کسی کو نہیں مارتا اور تیری وجہ سے میری کیا حالت ہو گئی ہے میں نے قسم کھا کے بولا کہ مجھے نہیں پتہ میری بات سن کر وہ خاموش ہو گیا۔پھر میرے فون پہ کال آئی کال گھر سے تھی میں نے بولا کہ آتا ہوں میں نے مدثر کو بول کے میں گھر سے ہو کر آیا مدثر سے اُس کا نمبر لے کر گھر کی طرف آ گیا-(آپ لوگ بھی بول رہے ہو گئے کہ سٹوری کو مختصر کرنے کا بولا ہے پھر بھی اتنی زیادہ لکھ دی مگر یہ ضروری تھی اس کو نہیں لکھتا تو سٹوری مکمل نہیں ہوتی) جب گھر آیا تو آج بھائی بھی گھر آئے ہوئے تھے مجھے گھر میں دیکھ کر بولے اور بھئ کدھر ہوتے ہو میرے پاس آ کر بولے جب اُن کی نظر مجھے پہ پڑئی تو بولے کہ زاہد یہ تمھارے چہرے پہ نشان کیوں ہیں کسی سے لڑالی کی ہے کیا میں بولا نہیں بھائی وہ ؤاسے ہی مذاق میں ناخون لگ گئے ہیں اور غصے میں بولے اگر دوبار اسی حرکت کی تو واپس گاؤں بجھے دوں گا میں نے جی میں سر ہلایا پھر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا-شام کے پانچ کا ٹائم تھاُ مجھے یاد آیا کہ آج تو شام کو نور کو ملنا بھی ہے۔چھے بج گئے تھے کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو باہر نہ تو بھابی تھی نہ ہی بھائی پھر نور کے کمرے کی طرف جا کر دروازہ پہ دستک دی اندر سے آواز آئی کون میں بولا میں ہوں زاہد نور بولی چاچو ایک منٹ کھولتی ہوں کچھ ٹائم بعد نور نے دروازہ کھولا تو نور نے کپڑے بدلے ہوئے تھے میں نے نور کو اچھی طرح دیکھا پھر بولا کہ نور آج صج تم نے وعدہ کیا تھا بھول گئی ہو نہ ہ سوری چاچو یاد نہیں رہا آپ بولو کیا چاہیں آپ کو میں بولا نہیں ادھر نہیں اوپر چھت پہ آؤ پھر بتاؤں گا چاچو ادھر ہی بتا دو نہ اوپر کیا کرنے جانا ہے نہیں اوپر آؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں یہ بول کر میں اوپر کی طرف جانے لگا۔چھت پہ اس ٹائم اندھیر تھا پھر بھی آگے پچھے دیکھا کوئی بھی نہیں تھا ۲۰ منٹ ہو گئے تھے مگر نور اوپر نہیں آئی مجھے غصہ آنے لگا تھا کوئی ۱۰ منٹ بعد نور اوپر آئی میں نے اُس سے پوچھا دیر کیوں کر دی اتنی بولی امی نے بولا لیا تھا- پھر میں بولا ادھر جو بھی بات ہو کسی کو نہیں باتانا وعدہ کرو نور میری یہ بات سن کر گھبرا گئی وہ ڈر کر بولی چاچو ایسی کون سی بات ہے جس کے لئے آپ وعدے کا بول رہے ہیں۔میں نے پھر بول کہ نور پہلے وعدہ کرو نور نے اپنی گردن نہ میں ہلا کر جواب دیا میرے اندر غصے کی لہر دوڑ گئی مگر میں اپنے غصے پر قابو کیا نور کے پاس ہو کر اُس کے چہرے پر ہاتھ ر کھا کر پیار سے بولا نور تم مجھے بڑی اچھی لگتی ہو نور میرا مطلب سمجھ گئی تھی آگ بگولا ہو کر بولنے کے لئے اپنے ہونٹ ابھی کھول ہی تھے کہ میں نے اپنی انگلی اُس کہ پیارے ہونٹوں پر رکھا کر بولا خاموش پہلے میری بات پوری سنو پھر جو دل کرے کرنا پھر بولا کہ تم بہت سیکسی بھی ہوا میرا دل کرتا ہے کہ میں تمھیں پیار کراؤں تمہارے جسم کی خوشبو کو سُونگْھو تمہارے جسم کہ ایک ایک حصے کو چوموں ابھی اس سے آگے میں کچھ بولتا نور نے مجھے زور سے دھکا دیا مجھ سے الگی ہو گئی اور چیختے ہوئے بولی کہ یہ کیا بکواس کر رہے ہو تمھیں شرم نہیں آئی کہ میں تمہارے بھائی کی بیٹی ہوں تم دوب کر مرے نہیں ایسے گندے لفظ بولتے ہوئے کتے انسان گندی نسل کہ جانور میرا دل کر رہا ہے کہ تجھے جان سے ہی مر دوں —— پتہ نہیں کیا کیا نہی بولا نور نے مجھے میں خاموشی سے سب سنا رہا تھا دوبارہ میرے کانوں میں نور کی آواز آئی اسی لئے بول رہے تھے کہ وعدہ کرو گشتی کے بچے روک ابھی اپنے باپ سے تیری گندی زبان کٹواتی ہوں میرے باپ نے تیرے جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دنے ہیں جیسے ہی نور نے اپنے قدم واپس جانے کہ لئے موڑے میری آواز آئی کہ ساتھ میں یہ بھی بتانا کہ تم خود مدثر کے ساتھ کیا کیا کرتی رہی ہو میری یہ بات سنتے ہی نور کے قدم وہاں ہی روک گئے میرا چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی نور بولی یہ کیا بگواس کر رہے ہو -میں بولا میری جان یہ بگواس نہی سچ ہے اگر یہ جھوٹ ہوتا تو کیا تم روکتی نور جلدی سے بولی تم جھوٹ بول رہے ہو میرے اوپر الزم لگے رہے ہو اگر نہیں يقين تو یہ لو خود دیکھ لو میں نے اپنا موبائل کھول کر نور کہ ہاتھ میں رکھ دیا جیسے ہی نور نے اپنی اور مدثر کی چیٹ دیکھی نور سن ہی ہو گئی یوں لگا کے صدامے میں چلی گئی ہو میں نے نور کا ہاتھ پکڑا کر نور کو آواز دی نور کو ہوش آیا تو میں بولا کہ اِگر ابھی بھی يقين نہیں ہے تو میرے پاس ویڈیو بھی ہے -جس میں تم میرا اتنا بولتے ہی مجھے نور کے رونے کی آواز آئی میں نے نور کو اپنے گلے سے لگا کر بولا میری جان کیوں رو رہی ہو چپ ہو جاؤ مگر نور چپ ہی نہیں کر رہی تھی تو میں نے بولا کہ اَگر تم چپ نہیں ہوئی تو میں ابھی جا کر بھائی کو بتاتا دوں اپنے ابو کا سن کر اور رونے لگی میں بولا اچھا چپ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گا۔

        یہ سن کر نور خاموش ہو گئی تو میں بولا نور میری بات غور سے سنو جس وعدے کی میں بات کر رہا تھا وہ تمہارے لئے نہیں میرے لئے تھا کہ میں یہ بات کسی سے نہیں کہاؤں گا-سمجھو کہ بات ادھر ہی دفن ہو گئی ہے اور جو ویڈیو اور چیٹ ہیں وہ بھی ڈیلیٹ کر دوں گا-نور ساری بات آرام سے سن رہی تھی میں نے بولا مگر؟ نور نے میری طرف دیکھا جیسے پوچھا رہی ہو کہ مگر کیا نور کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر میں نے اپنا دائیں ہاتھ نور کے ممے پر رکھ دیا نپچے سے اپنا لن پھدی کہ ساتھ لگا دیا لن نے سکینڈ نہیں لگایا جوش میں فلل سخت ہو کر کھڑا ہو گیا جو نور بھی محسوس کر رہی تھی-پھر میں بولا اِس کی قیمت ادا کرنی ہو گئی اور کبھی کبھی تو میں نے اپنی انگلی نور کے ہوٹنوں پر رکھا کہ منہ کہ اندر دبا دی اپنے دوسرے ہاتھ کو اٹھا کر نور کی بنڈ پہ لے گیا نور کہ کولہوں پہ ہاتھ پھیر کر ایک انگلی نور کی بنڈ کی میں دبا دی جو کہ سیدھ جا کر نور کی بنڈ کی موری پر روک گئی اب نور کہ تینوں سوراخ پہ میرا قبضہ تھا یعنی کہ پھددی پہ لن منہ میں انگلی اور بنڈ کی موری پہ بھی انگلی یہ ہی ساری جگہیں تھی جدھر سے نور کو قیمت ادا کرنی تھی نور سمجھ گئی تھی مگر میں نے اپنا منہ نور کہ کان کہ پاس کر کے بولا کہ نور میری جان تیری پھددی منہ اور بنڈ میں نور کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پہ رکھ دیا اس کو ڈالناہے ساتھ اُس کا ہاتھ اپنے لن پہ دو دفعہ آگے پیچھے کر کے چھوڑا دیا اور بولا کہ میں تمہارے جواب کا منتظر رہوں گا اتنا بول کر میں نے کہاکہ تم نیچے جا سکتی ہو نور جلدی سے بھاگ گئی-​۔
        جاری ہے-

        Comment


        • Bht ala bht khoob shandar kahani he update dekh kr dil khush ho gya

          Comment


          • Wah boht hi dahmakedar update Noor to Pura sakte ma a gye bahi chacho na b pure sabot kye sath jal phekha ha Dekho ab Noor Kya jawab dyeti ha

            Comment


            • ویلکم اگین رائٹر صاحب۔
              اتنے عرصے بعد اپڈیٹ د ی ہے اور کیا کمال دی ہے۔
              کہانی کو مکمل کرنے کے لیے اپنا قیمتی وقت دینے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔

              Comment


              • کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا لگتا ہے اپ ڈیٹ پسند ہی نہ آئی لوگوں کو زیادہ سیکس پڑھنا ہی پسند ہے۔???

                Comment


                • ارے واہ، زاہد نے ایکدم صاف بات کہہ ڈالی، اور یہ مدثر کو شک ہو گیا ہے کیا

                  Comment


                  • wah zabardast update thi maza a gia

                    Comment


                    • اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X