Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جوانی لے ڈوبی زہر بن کر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    Originally posted by Billu Bhai View Post
    جناب آپ کی سٹوری اچھی چل رہے ہے۔ اور ایک زبردست طریقے سے آپ اس کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پلیز بس ایک ریکوئسٹ ہے کہ سٹوری کو مکمل کیجیے گا تاکہ کسی ممبر کی بھی تشنگی باقی نہ رہے۔ بہت شکریہ جناب
    جی بالکل میں اس کو کمپلیٹ کروں گا اور ہوسکتا ہے کہ ابھی تھوڑی دیر تک اپڈیٹ بھی کر دو

    Comment


    • #22
      achi ha jnb. dakhtay ha kia hota ha nateja

      Comment


      • #23
        Bahi bohat hi acha age bhi likhain

        Comment


        • #24
          دوستو آپ ابھی رات کے 2 بجے اپڈیٹ کمپلیٹ کی ہے مزے کرو
          Update-:3
          ‏پچھلی اپڈیٹ میں آپ نے پڑھا کہ میں نے ہاں کر دی اور سو گئی۔صج أٹھ کر تیار ہوئی ناشتہ کیا موبائل چیک کیا تو گڈ مارننگ کا میسج آیا ہوا تھا میں نے رپلائی تو نہیں کیا کیونکہ امی نے پوچھنا تھا کہ کس سے لگی ہو اتنی صبح تو اس وجہ سے جلدی سے کالج کے لیے نکل گئی اور دل میں یہی سوچ رہی تھی کہ جب وہ مجھے کس کرے گا تو کیسا محسوس ہوگا کیا میرے ساتھ اس سے بھی آگے کچھ کرے گا اگر میں اس سے خود کچھ کرنے کا کہوں تو بس یہی سوچ میرے ذہن میں چل رہی تھی اور مجھے انتظار تھا کہ میں جلدی سے گھر پہنچوں اسی سوچ میں کالج پہنچی. کالج سے واپسی پر گھر پہنچ کر کھانا کھایا پھر مدثر کو ہیلو کا میسج کیا فورن سے اس کا رپلائی آگیا ساتھ میرے سے پوچھا کہ آپ نے مجھے گڈمارننگ کا جواب کیوں نہیں دیا تھا تو میں بولی کے میں کالج چلی گئی تھی اس وجہ سے ریپلائی نہیں کر سکی مدثر نے کہا چھت پر آئیں میں نے اوکے کا رپلائی کیا کمرے سے نکل کر آرام سے دبے پاؤں اوپر چھت کی طرف جانے لگی کیونکہ امی نیچے اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی جب چھت پر پہنچی دروازہ بند کیا تو مدثر نے مجھے اشارہ کیا اور میں آہستہ سے دیوار کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی تو میں نے پوچھا مجھے کیوں بلایا تو مدثر بولا کل رات والی بات کو پورا کرنا ہے تو میں نے تھوڑی شرمندگی سے پوچھا کون سی بات؟ پتا تو مجھے بھی تھا لیکن میں اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی وہ بولا کہ کس والی بات اس کا جواب سن کر میں نے اپنی نظریں نیچے جھکا لی اور کوئی جواب نہ دیا تو مدثر بھی خاموش ہوگیا وہ میرے جواب کا منتظر تھا لیکن میں چاہتی تھی کہ مجھے کچھ بولنا نا پڑے اور جو کرے وہ خود کرے مجھے خاموش دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ میری طرف سے ہاں ہے اور آہستہ آہستہ میرے قریب آنے لگا جیسے جیسے وہ میرے قریب آ رہا تھا میرا جسم لرز لا رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا ہمت کر میں بول پڑی اپنے کانپتے ہونٹوں سے کے ابھی نہیں وہ بولا کیوں میں نے کہا کہ کوئی دیکھ لے گا اتنا کہہ کر میں خاموشی ہوئی تھی کہ جلدی سے مدثر بول پڑا پھر کب؟تو میں نے جواب دیا مجھے نہیں پتا اور جلدی سے دیوار والی سائیڈ سے پیچھے کی طرف ہوگی دروازے کی کنڈی کھولی اور چھت سے نیچے آگئی ابھی میں نیچے اتر رہی تھی کہ موبائل پر میسج آ گیا کہ آپ نے بتایا نہیں پھر کب میں نے سوچا کہ اس کو کیا جواب دوں تو میں نے بھی لکھ دیا رات کو اور اپنے کمرے میں آ کر موبائل سائیڈ پر رکھ کر سوچنے لگی کہ میں نے تو رات کا بول دیا اب جاؤ کہ نہیں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ امی آ گئیں اور پوچھا کہ نور کیا کر رہی ہو میں نے جواب دیا کچھ نہیں تو امی بولی میرے ساتھ آؤ باہر سے کچھ سامان لانا ہے تو فورا اٹھ کر تیار ہوئی اور امی کے ساتھ بازار چلی گئی اور واپس گھر تقریبا شام سات بجے تک پہنچ گئی تھی تو مجھے موبائل پر مدثر کا میسج آیا کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔اس کا یہ میسج دیکھ کر میں شرم سے لال ہو گئی اتنی دیر میں ایک اور میسج آیا کہ اوپر آئیں نہ تو میں صحن میں داخل ہوئی دیکھا تو امی کھانا بنانے کی تیاری میں مصروف ہیں تو میں اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ چھت پر پہنچی اوپر اندھیرا تھا مجھے اپنی چھت پر کوئی کھڑا نظر آیا پہلے تو میں ڈر گئی اور ہمت کرکے ہلکی سی آواز میں پوچھا کہ کون تو اس طرف سے آواز آئی میں مدثر میرے دل کو تھوڑا سا سکون ملا پھر میں نے چھت کا دروازہ بند کر دیا میں آرام سے چلتی چلتی قریب پہنچ گئی تو مدثر بولا کے کیا آپ تیار ہیں میں نے کوئی بھی جواب نہ دیا مدثر میرے قریب آیا اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں کے قریب کیا جیسے ہی أس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ٹچ ہوئے میری آنکھیں اپنے آپ ھی بند ہونے شروع ہوگی اور میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا مدثر نے میرے نیچے والے ہونٹ کو چوسنا شروع کر دیا ابھی کچھ ہی سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ مجھے اپنی ٹانگوں کے درمیان پھدی کے اندر میٹھی میٹھی سی گدگدی محسوس ہوئی اور میرے پورے جسم میں ایک بھرپور مزے کی لہر دوڑ اٹھی اور کچھ ہی پل میں اس نے میرے اوپر والے ہونٹ پر حملہ کر دیا میں اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن میری آنکھیں کھل ہی نہیں رہی تھی کبھی وہ میرے اوپر والے ہونٹ پر حملہ کرتا تھا تو کبھی میرے نیچے والے پر مجھے بہت مزہ آ رہا تھا کہ یکدم مدثر نے اپنے ہونٹ ایک دم مجھ سے الگ کر لیے تو میری بھی آنکھیں جھٹکے سے کھل گئی اور میری آنکھوں میں سوال تھا کے چومنا کیوں بند کر دیا مجھے نہیں پتا کہ اس کو یہ سوال سمجھ آیا کہ نہیں ساتھ ہی مدثر بولا کہ آپ میرا ساتھ نہیں دے رہی اس کا یہ سوال سن کر میں نے دل میں سوچا کہ جس نے پہلی بار اپنے ہونٹ کسی کو چوسنے کے لئے دیئے ہوں اس کو کیا پتا کے ساتھ کس طرح دیا جاتا ہے کوئی نہ جواب دے کر پھر سے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور پھر دوبارہ سے مدثر نے میرے ہونٹوں کو چومہ تو جواب میں نے بھی اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دیا وہ پہلی دفعہ تھاکہ مجھے پہلے کی نسبت دوگنا مزا آیا آہستہ آہستہ میں اس کا ساتھ دیتی گی پہلے وہ میرے نیچے والے ہونٹ کو چوستا پھر میں اس کے جواب میں اس کا نیچے والا ھونٹ چوستی میری پھدی نے بھی اپنا رس نکالنا شروع کر دیا تھا ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مدثر نے اپنی زبان میرے منہ ڈال دی جیسے ہی اس کی زبان میری زبان سے ٹکرائی یہ وار میں برداشت نہ کر سکی میرا جسم خود بخود ہی ڈھیلا پڑ گیا اور میرے ہونٹوں کی گرفت مدثر کے ہونٹوں پر ڈھیلی پڑ گئی میرے کندھے نیچے کو جھک گئے اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری پھدی سے بہت تیزی سے سے کوئی چیز نکل رہی ہے جی ہاں میں فارغ ہو چکی تھی ابھی میں اس مزے کو محسوس کر رہی تھی کے میرے کانوں میں آواز آئی کیا ہوا نور یہ أواز مدثر کی تھی میں نے ایک بار نظر اٹھا کر مدثر کی طرف دیکھا لیکن پھر سے فارغ ہونے کا مزہ لینے لگی جب مزہ پورا ہو گیا تو مدثر میرے قریب آنے لگا تو میں أس سے دور ہو گئی اور اس کو بولا بس اب اور نہیں جاؤ یہاں سے اور خود واش روم کی طرف چل پڑی اور ایک دفعہ بھی پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا یہ خاص مدثر کیلئے رائٹر کی طرف سے (یہ تو وہی بات ہو گی جب اپنا کام پوار تو ماں چدوائے نورا) واش روم میں داخل ہوتے ہی فورا ہی لائٹ والا بٹن آن کیا اور جلدی سے شلوار نیچے کی تو دیکھا کہ میری پھدی پوری گیلی تھی ساتھ میں چڈے پانی سے بھرے ہوئے تھے چند قطرے ٹانگوں تک بھی آئے ہوئے تھے میں نے جلدی سے ٹوٹی کھولی خود کو پانی سے صاف کیا ابھی میں شلوار پہننے ہی لگی تھی کہ زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز سنائی دی میری تو جان ہی نکل گئی تھی کہ کہیں مدثر چھت پے ہی نہ ہو تو میں نے جلدی سے ہی گیلی شلوار ہی پہن لی واش روم سے باہر نکلی تو دیکھا مدثر موجود نہیں ہیں تو میری جان میں جان آئی دروازہ کھولا سامنے امی ہی کھڑی تھی پوچھنے لگی کہ تم اوپر کیا کر رہی ہو میں بولی ویسے ہی ٹہلنے آئی تھی پر تم نے کنڈی کیوں لگائی اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اس وجہ سے خاموش ہی رہی تو امی بولیں اب چپ کیوں ہوگئی چلو نیچے دفع ہو تو میں سر نیچے پھینک کر چل پڑی نیچے کی طرف اور اپنے روم میں بھاگ گئی وہ تو اچھا ہوا کے میں نے چھت والی لائٹ آن نہیں کی تھی نہیں تو امی اگر میری گیلی شلوار دیکھ لیتی تو میں پکڑی جاتی اور جلدی سے کپڑے چینج کیے اور روم سے باہر آئی تو دیکھا امی ابھی نیچے آئی ہیں تھوڑی دیر میں ابو آ گئے سب نے مل کر کھانا کھایا اور اپنے روم کی طرف چلے گئے میں بھی اپنے روم میں آئی اور آج کے بارے میں سوچنے لگی میں آج بہت خوش تھی کیونکہ جو مزہ اور تسکین مجھے ملی تھی اس کو میں دوبارہ حاصل کرنا چاہتی تھی یا پھر یوں کہو ہوں کہ میں اور آگے بڑھنا چاہتی تھی ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی میرا موبائل وائبریٹ کیا دیکھا تو مدثر کا میسج تھا میرے لب خود بخود مسکرا پڑے- مدثراب آپ ٹھیک ہیں تو میں نے جواب دیا مجھے کیا ہونا ہے میں تو بالکل ٹھیک ہوں مجھے آپ نے جانے کے لیے کیوں بولا تھا وہ تو میں نے اس لئے بولا تھا کہ کوئی اوپر نہ آ جائے آپ جھوٹ کیوں بولتی ہیں یہ وجہ نہیں تھی یہی وجہ تھی مجھے تو نہیں لگتا لیکن اچھا اگر آپ کہہ رہی ہیں تو مان لیتا ہوں اچھا اگر میں آپ سے کچھ پوچھو تو سچ بتانا ہے ہاں جی پوچھیں سچ ہی بتاؤ گی جب میں نے آپ کو کس کیا تھا تو آپ کو مزہ آیا تھا یہ آپ کیسی گندی باتیں کر رہے ہیں اگر آپ نے اس طرح کی بات کرنی ہے تو میں نہیں کرتی آپ سے بات اچھا اس طرح دھمکی تو نہ لگائیں بتا دیں کچھ نہیں ہوتا میں نے سوچا اب اس راستے پر نکل پڑی ہوں تو کیوں نہ سچ ہی بولا جائے یو شرمانے سے کچھ نہیں ہوگا ہاں مجھے مزا آیا تھا مدثر کیا آپ میرے ساتھ پھر سے دوبارہ ٹرائی کریں گی جی ہاں کیوں نہیں جواب دے کر ساتھ ہی میں مسکرا پڑی میرا جی ہاں جواب سننے کے بعد مدثر نے مجھے پوچھا اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا آپ مجھے اپنے فگر کے بارے میں بتا سکتی ہیں 33-26-34 ساتھ ہی بائے بول کر میں سو گئی-صبح پھر وہی روٹین دن کو کھانا کھایا جیسے ہی میں چھت پر جانے لگی تو سامنے سے زاہد چاچو کو آتے ہوئے دیکھا ان کو سلام کیا اور چھت پر چلی گئی چھت پر پہنچی تو دیکھا مدثر نہیں تھا میں تھوڑی دیر اور اوپر رکی مایوس ہو کر واپس چلی گئی مدثر کو میسج کیا لیکن اس کا کوئی رپلائی نہیں آیا میں تھوڑا سا پریشان ہو گئی دل میں سوچنے لگی ہو سکتا ہے کہ کدھر بیزی ہو گا شام کو بھی نہیں آیا اور نہ ہی میسج کا رپلائی کیا تو تنگ آ کر میں نے بھی اس کو دوبارہ میسج نہیں کیا کھانا کھایا سو گئی اگلے دن سنڈے تھا کام سے فری ہونے کے بعد موبائل دیکھا تو مدثر کا میسج آیا ہوا تھا ساتھ میں سوری لکھا ہوا تھا میں نے رپلائی نہیں کیا پر دن کو میرا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں نے میسج کیا ہاں بولو کل کدھر تھے مدثر بولا کہ سوری میں کل آ نا سکا کل مجھے امی کے ساتھ ایمرجنسی گاؤں جانا پڑا تو میرے گاؤں میں سگنل کا مسئلہ ہے اس وجہ سے ریپلائی نہیں کر پایا ابھی گاؤں سے واپس آیا ہوں (یہاں پر میں اپنے دوستوں کو بتا دو کہ راولپنڈی میں کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں پر سگنل نہیں آتے) اس کی یہ بات سن کر مجھے یقین نہیں آیا تو میں بولی کے جھوٹ نہیں بولوں تو اس نے کہا میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا جب اس نے قسم کا بولا تو میں نے یقین کرلیا میں نے پوچھا کہ ابھی کدھر ہو تو بولا اپنے گھر شام کو آؤں گا گاؤں سے بھی لیٹ واپس آیا اس لیے ادھر نہ آ سکا آ کر کو میسج کروں گا پھر اس کے بعد کچھ خاص نہ ہوا شام کو مدثر کا میسج آیا تو باہر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا میں اپنے کمرے میں تھی باہر نکلی تو سامنے امی بیٹھی ہوئی تھی بولی کے میڈم کدھر جا رہی ہو میں بولی میں چھت پر جا رہی ہوں تھوڑی دیر ٹہلنے کے لئے تو امی بولیں آج کل تم چھت پر بہت ٹہلتی ہو خیر تو ہے نا جی ہاں امی خیر ہی ہے اور ویسے بھی میں کونسا میرا اتنا باہر جاتی ہوں بس کچھ دیر کے لئے ہی تو چھت پر جاتی ہوں امی بولی اچھا ٹھیک ہے جاؤ میں جیسے ہی اوپر چڑھنے لگی ابھی تو پیچھے سے آواز آئی آج کنڈی مت لگانا میں ایک منٹ سیڑھیوں پر رکی ہاں بول کر اوپر چلی گئی ایک دفعہ نیچے جھانک کر دیکھا کہ امی میرے پیچھے تو نہیں آئی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا تو مجھے تھوڑا اطمینان ہوا سامنے ہی مدثر کھڑا تھا اپنی چھت پر مجھے دیکھ کر بولا کہ جلدی آئیں میں اس کے پاس پہنچی بولی میں ایسا ویسا آج کچھ نہیں کروں گی مدثر بھلا یہ کیا بات ہوئی میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی میں نے بتایا کہ امی مجھ پر شک کرتی ہیں اس لئے میں ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گی جو میرے لئے خطرناک ثابت ہو میری یہ بات سن کر مدثر خاموش ہوگیا لیکن پھر بھی وہ ضد کرنے لگا کہ نہیں آتا کوئی بھی اگر کوئی آئے گا تو مجھے نظر آ جائے گا کچھ نہیں ہوتا میں نے ایک بار اور انکار کیا مگر جیسے ہی مدثر میں میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبایا ساتھ میرے ہاتھ کو سہلاتا رہا میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا کہ کوئی اوپر تو نہیں آیا أس کے ہاتھ سہلانے سے میں بھی گرم ہوگی جوانی کی آگ نے مجھے پر قابو کر لیا اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ رہا جو کہ میں نے سب سے بڑی غلطی کر دی تھی اور ساتھ میں مدثر نے میں آج حد ہی کر دی تھی ویسے بھی جب آپ کوئی غلط کام کر رہے ہوتے ہیں یا آپ اپنی جوانی کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہوتے ہیں جب بھی دل میں ڈر ہوتا ہے وہ کام کرنے میں آپ کو زیادہ مزہ آتا ہے سو اس جوانی کی آگ نے بھی میرے دماغ پر پردے ڈال دیے تھے۔مدثر کا ہاتھ سہلانا میرے اندر آگ ڈالنے کے برابر کام کر گیا پھر کیا تھا بس میں بھی بھول گئی ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں سے ٹکرائے ان ہونٹوں کے ٹکرانے سے ہم ایک دوسرے میں گلتے چلے گئے
          مدثر کے ہونٹوں نے جیسے ہی میرے ہونٹوں کو چومنا میں بھی پاگلوں کی طرح اس کے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی کبھی ایک دوسرے کے منہ میں زبان داخل کی تو کبھی وہ میری زبان کو چوستا اسی دوران مدثر کا ایک ہاتھ میرے مموں سے ٹکرایا تو میں نے اس کا ہاتھ دور کردیا کچھ دیر ہی گزری تھی اس کا ہاتھ میرے مموں کے اوپر آ گیا اس دفعہ میں نے اس کا ہاتھ سائیڈ پے نہیں کیا جب اس نے میرے ممے کو دبایا مجھ پر تو مزے کی غشی طاری ہو گئی اس نے مجھے کھینچ کر اپنی اور قریب کر لیا تو مجھے اپنی ٹانگوں کے درمیان پھدی کے بالکل سامنے اس کا سخت سا لن محسوس ہوا جس نے مجھے تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا میں نے بھی مدثر کو اپنی باہوں میں جھکڑ لیا اس کا لن بھی میری پھدی کے ساتھ اس طرح جڑ گیا جس طرح دو مقناطیس آپس میں جوڑتے ہیں اسی مزے کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی زبان مدثر کے منہ میں داخل کر دے گی بھوکوں کی طرح زبان اس کے منہ
          میں چلانے لگیں ساتھ میں اس کے تھوک کو بھی چاٹنے لگی مدثر کا دوسرے ہاتھ بھی میری بونڈ پر چلنے لگا اب چاروں طرف سے میرے پر حملہ ہو گیا تھا جس میں میں زخموں کی طرز نہ لاتے ہوئے مدثر کے لن پر ڈھیر ہو گئی تھوڑی دیر اس کے ساتھ جڑی رہی پھر علیحدہ ہو گئی اس حملے کے دوران میں تو بھول ہی گئی تھی کہ دروازہ بھی کھلا ہے جلدی سے میں میں دروازے والی سائیڈ پر گی پر وہاں کوئی نہیں تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ کہیں امی اوپر ہی نہ آ جائے تو میں نے مدثر کو جانے کا اشارہ کیا خود نیچے آگئی پر نور کو کیا پتا تھا کہ اس کو دو آنکھیں دیکھ چکی ہیں؟؟؟؟ نوٹ اب ہی کچھ کہانی مدثر کی زبانی جو کہ بہت ضروری ہے
          (جاری ہے)
          اپنی رائے دے کے بتائے گا کہ کیسی لگی کیا آج کی اپڈیٹ
          برو
          (?AR)​
          Last edited by Man moji; 01-04-2023, 04:00 PM.

          Comment


          • #25
            بہت کمال لکھ رہے ہو بھائی جی

            Comment


            • #26
              بہت زبردست اب دیکھتے ہیں کہ کس نے دیکھا ہے

              Comment


              • #27
                نور اور مدثر کی کس کی کیا خوبصورت منظر کشی کی ھے۔۔ مزے سے حالت خراب ھو رھی ھے ۔۔۔ آخر میں دو آنکھیں دیکھ رھی ھیں وہ یقین چاچو ھی ھو گا۔۔۔ مدثر سے پہلے چاچو مزہ دے گا نور کو۔۔۔اور نور یہ مزہ زندگی بھر یاد رکھیں گی۔۔۔لاجواب ۔۔۔بہترین ۔۔۔کمال ۔۔۔

                Comment


                • #28
                  کمال لکھتے ھوبھائی

                  Comment


                  • #29
                    Khoobsoorat update. AR? bhai ap ne kahani ka start to bohat khoobsoorti se baandha hy. Ab dekhiye aagy kiya kiya naye asraar ham per khultay hain. Waisay story Narrator ka change krna bhi mushkil kaam hy writer k liye. Har character k mehsoosat us k apnay hotay hain, jo koi doosra mehsoos nahi kar paata. Aap ki bohat hi umda kaavish ko meri taraf se aik bharpoor salaam.
                    Last edited by Man moji; 01-04-2023, 04:58 PM.

                    Comment


                    • #30
                      Bht hi garam update thi

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X