Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

Seema Naazکُھلی زپ۔۔۔۔۔۔۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Seema Naazکُھلی زپ۔۔۔۔۔۔۔

    ۔افغانستان سے تعلق رکھنے والی یاسمین ہم سے ایک بلاک دور رہتی تھی ۔ یاسمین سے میری ملاقات ایک شاپنگ سنٹر میں ہوئی تھی ۔ ہم دونوں نے شاید ایک دوسرے میں کشش محسوس کی کیونکہ ہم جلد ہی ایک دوسرےکی دوست بن گئیں ۔ آپ کو بھی ایسا اتفاق ہوا ہوگا کہ ایک اجنبی سے مل کے یوں محسوس ہوا ہو کہ اس سے مدت سے آشنائی ہے یہی ہمارے ساتھ ہوا ۔ أس کو کسی ملنے والے کے لئے گفٹ خریدنا تھا اور شاید فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ کونسا بہتر رہے گا ۔ مجھے دیسی سمجھ کر اس نے اپنی الجھن بتائی تو میں نے موقع محل کے مطابق أسے اپنی رائے دی اور وہ بہت خوش ہوئی کہ میں نے بھی أسے وہی بتایا جو اسے بھی پسند تھا ۔ میں تو شاپنگ کرچکی تھی اس لئے ادائیگی کے لئے لائن میں لگ گئی ۔ کچھ دیر بعد یاسمین بھی آگئی اور میرے پیچھے کھڑی ہو گئی ۔ لائن بڑی تھی ۔ ہم دونوں باتیں کرنے میں لگ گیئں ۔ میں نے محسوس کیا کہ یاسمین سے باتیں کرتے ہوئے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا اور وہ بھی مجھ سے مل کرخوش نظر آرھی تھی ۔ اپنی باری پر ادائیگی کر کے ہم باھر آئیں تو میں نے یاسمین سے کہا کہ ایک کوفی ہوجائے وہ میری آفر پر میرے ساتھ قریبی کورنر پر کوفی شاپ میں داخل ہوئی ۔ ہم دونوں کوفی اور سنیکس لے کر ایک ٹیبل پر براجمان ہو گئں اور ایک دوسرے کے بارے میں جاننا شروع کردیا یعنی تفصیلی تعارف ۔ اس کے بعد پھر ملاقات کے وعہدے پر ہم اپنے اپنے گھر چلی آئیں ۔ اس طرح ہم میں ایک تعلق سا پیدا ہوگیا ہماری طبیعت خیالات کافی ملتے جلتے تھے جس کی وجہ سے ہم میں جلد ہی پکی دوستی ہوگئی ۔ شروع میں ہفتہ میں ایک بار پھر دوبار ملنا شروع ہوگیا اور جلد ہی ہم روزانہ ملنا شروع ہو گئیں چونکہ ایک ہی بلاک دور تھے ایک دوسرے سے تو کئی بار دن میں ایک سے زیادہ بار بھی ملاقات ہوجاتی ۔ اب شاپنگ پر جاناہو یا پکنک پر ہم دونوں اکٹھے ہی جاتیں اور ہماری دوستی کی بدولت ہمارے خاوند بھی ایک دوسرے سے نہ صرف متعارف ہوئے بلکہ أن دونوں میں بھی دوستی ہوگئی ۔ اکثر اوقات ہم ڈنر ایک دوسرے کے ہاں کرتے ۔ اب دونوں فیملیز میں کافی انڈر سٹینڈنگ ہوگئی
    یاسمین مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی میں أس وقت تقریبا تیس سےکچھ اوپر ہونگی۔ میچور ہو کر بھی ہم دونوں کی طبیت سے بچپنا نہ گیا تھا بعض اوقات تو ہم دونوں ٹین ایجرز کی طرح حرکتیں کر گذرتیں تھیں ۔ وہ مجھے آپا یا آپی کہتی تھی ۔ اور میں أسے یاسمین ہی کہ کر مخاطب کرتی ۔ ہم ایک دوسرے کی رازدار بن چکی تھیں ۔ ہم پسند ناپسند فینٹا سیس اور خواہشات شئیر کرلیتی تھیں اور ہم مل کر کئی بارکسی نہ کسی کو مذاق کا نشانہ بنانے سے بھی نہ چوکتیں ۔ کسی ہینڈ سم مردانہ وجاہت کے حامل فرد کو دیکھ کر جب دل دھڑکنا بھول جاتا اور ٹانگیں بے جان محسوس ہونے لگتیں تب بھی ہم مذاق کرنے سے باز نہ آتیں ۔ یاسمین اگر تم کو چانس ملے تو کیا کروگی ، میں یاسمین سے پوچھتی ، ارے آپی یہ تو بس دیکھنے کی چیز ہے اس کو دیکھ دیکھ کر بھیگتی اور گیلی ہوتی رہتی ۔ آنکھیں اس کی بلائیں لیتی رہتیں ۔ سچی مچی ، ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ ۔ یاسمین ایک ٹھنڈی آہ بھر کر ایک ہی سانس میں کہہ جاتی ، میں قہقہہ لگا کر کہتی ارے یاسمین دیکھنے کی چیز تو اس نے چھپارکھی ہے تو یاسمین شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتی۔ آپی تم بھی نا ۔ خیر اسی طرح ہمارا مذاق اور نوک جھونک چلتی رہتی ۔

    ایک بار ہم دونوں ہسپتال گئی ہوئی تھیں یاسمین کی اپوائمنٹ تھی ابھی اس کا ڈاکٹر ایمرجنسی میٹنگ میں تھا اور ہم دونوں وارڈ کے دروازے کے باھر ایک بنچ پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور اچھے جُولی موڈ میں تھیں ۔ اچانک یاسمین بولی أف آپی دیکھ اس خوبصورت جوڑے کو، میں نے أس طرف گردن گُھما کر دیکھا جدھر وہ دیکھ رہی تھی ۔ مین گیٹ کی طرف سے ایک پاکستانی جوڑا آرہا تھا اور اتنی خوبصورت جوڑی تھی کہ نظر لگنے کا خطرہ تھا أسے ۔ میرے زہن میں فورا ایک شرارت آئی اور یاسمین سے بولی کہ دیکھ اس بانکے کو نروس کرتی ہوں ، یاسمین بولی ۔ آپی اس کی بیوی ساتھ ہے ، میں نے ان سُنی کرتے ہوئے مرد کو اشارا کیا ، جلدی جلدی چلتے ہوئےپاس آ کر أس نے استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ۔ اس کی بیوی پیچھے رہ گئی تھی ۔ میں شرگوشیانہ انداز میں بولی سر آپکی زپ کُھلی ہوئی ہے ۔ اتنے تک اس کی وائف بھی قریب آگئی تھی ۔ أس کے چہرے کے تاثرات بدلے جیسےکچھ سوچ رہا ہو مگر أس نے کوئی بات نہیں کی اور وارڈ کے دروازے پر جاکر اس نے وائف کے لئے دروازہ کھولا اور جب وہ اندر داخل ہوگئی تو اندر جاتےہوئے اس نے اپنی زپ پر ہاتھ لگا کر چیک کیا وہ تو بند تھی ، اس نے ہماری طرف دیکھا اور خجالت بھری مسکراھٹ مسکرا کر اندر بیوی کے پیچھے چلا گیا ۔ ہم دونوں نے ایک قہقہہ ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ہوے لگایا ۔ یہ مذاق ہم عموما کرتی تھیں ۔ ہر آدمی کا رد عمل مختلف ہوتا کئی تو وہیں چیک کرنے لگ جاتے ۔ بس یونہی دل لگی کرتے رہتے یاسمین کی باری آنے میں ابھی کافی ٹائم تھا ۔ اس کےڈاکٹر کی میٹنگ کی وجہ سے شیڈول ہی لیٹ ہو گیا تھا ۔ ابھی پندرہ منٹ نہیں گذرے تھے کہ وہی بھلے مانس اکیلے ہی باہر نکلے اور سیدھا ہماری طرف آئے اورمجھے کہنے لگے کہ جی غلطی سے آج زپ بھی بند نہیں کرسکا اور انڈر وئیر پہننا بھی بھول گیا ۔اتنا سنتے ہی میری نظر بے ساختہ اس کی زپ پر پڑی جو کھلی ہوئی تھی اور أس کا نیم ایستادہ براؤن کوبرا نظر آیا میرے تو خجالت سے پسینے چُھوٹ گئے اور نظریں جھک گئیں اس نے ایک وزٹنگ کارڈ یاسمین کو دیا کہ میں بیرسٹر ایٹ لاء ہوں کبھی ضرورت ہو تو میری خدمات حاضر ہیں ۔ یاسمین کے ہاتھ سے وہ کارڈ میں نے لےکر پھینک دیا ۔ اس نے کوئی اور بات نہ کی زپ بند کرتے ہوئے واپس وارڈ میں چلا گیا یاسمین بولی آپی نہلے پر دھلا اس کو کہتے ہیں اور جھک کر اس کا کارڈ أٹھا لیا
    میں خجالت اور شرمندگی سے سر جُھکائے خاموش رہی ۔ مُذاق میں بات کافی بڑھ گئی تھی اور میرا جی چاہتا تھا کہ میں وہاں سے بھاگ جاؤں ۔ کچھ سُجھ نہیں رہا تھا کہ کہاں جا مروں ۔ غلطی میری اپنی تھی پہل میری طرف سے ہوئی تھی اس کا ردِ عمل غیر متوقع ضرور تھا مگر میں اس کو بلیم نہیں کرسکتی تھی ۔ یاسمین نے میرا موڈ خراب دیکھ کر لطیفے وغیرہ سنانے کی کوشش کی مگر مجھے کچھ بھی تو اچھا نہیں لگ رہا تھا اتنے میں یاسمین کی ٹرن آگئی اس کا نام پکارے جانے کے ساتھ ہی ہم دونوں وارڈ کے اندر چلی گئیں وہ ڈاکٹر آفس میں داخل ہوئی اور میں باھر ویٹنگ روم میں بیٹھ گئی ۔ اچانک مجھے خیال آیا وہ بھی یہیں ہوگا ۔ میں نے چور آنکھوں سے ادھرأدھر نظر دوڑائی وہ مجھے نظر نہیں آیا میں نے سکون کا سانس لیا اب میں اس کی حرکت پر حیران ہو رہی تھی ۔ کُھلی زپ کے ساتھ وہ باھر نکلا اور بنا انڈر وئیر پہنے وہ چل کے ہمارے پاس آیا ۔ اگر کوئی دیکھ لیتا تو وہ اندر بھی ہوسکتا تھا بلا کی خوداعتمادی کا أس نے مظاھرکیا تھا مگر کیا وہ سچ مچ انڈر وئیر نہیں پہن کر آیا تھا یا وہ پہنتا ہی نہیں تھا ۔ را ئٹ سائیڈ دیکھا تو بیت الخلا تھا ۔ مجھے خیال آیا ۔ أس مرد شریف نے بیت الخلا میں جاکر انڈر وئیر اتارا ہوگا اور پھر باھر ہماری طرف گیا ہوگا ۔ اب چونکہ اکیلی تھی اس لئے خیالات کی یلغار تھی اور میں تھی ۔ ۔ اچانک پنٹ کی کھلی زپ کے اندر جو جھلک دیکھ پائی وہ میرے سامنے آگئی ۔ ایک أچٹتی ہوئی نظر ہی أس پر ڈالی تھی جس کا تاثر کوئی بُرا نہ تھا اب جو اس کے بارے خیال کیا تواقرار کرنے پر مجبور ہوں کہ واقعی جیسے اس کی پرسنلیٹی غضب کی تھی ۔ چھ فیٹ قد چوڑے شانے گورا چٹا رنگ نیلگوں آنکھیں اور چھوٹی چھوٹی مونچھیں اس کی شخصیت چھا جانے والی تھی، اسی طرح اس کا نیم ایستادہ کوبرا بھی اپنا جواب آپ ہی تھا ۔ درحقیقت وہ بہت ہی پیارا دکھا مجھے ۔ یہ سوچ کر میں شرما کے مُسکرادی ۔
    ،، آپی کیا بات ہے
    شکر ہے آپ کا مُوڈ تو ٹھیک ہوا ۔ یاسمین ڈاکٹر کو دکھا کر آچکی تھی ۔ میں نے کہا میرے موڈ کو کیا ہونا تھا ، سچ بولو اب کیا سوچ ری تھیں آپ ، یاسمین نے سوال داغا ، ارے کچھ نہیں یوں ہی جو ہوا اچھ نہیں ہوا میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا ، اوہ میں نے سمجھا شاید آپ کُھلی زپ کے بارے میں سوچ رہی تھیں ، یاسمین نے چُٹکی لی،۔
    چل ہٹ میں کیوں سوچنے لگی اس کے بارے ، میرا لہجہ خود میرے جھوٹے ہونے کی گواہی تھا جسے ہو سکتا ہے یاسمین نے بھی محسوس کیا ہو ۔ وہ بولی ، کچھ بھی کہیں میں نے بھی
    دیکھا ہے چیز تو زبردست تھی ابھی تک گُدگُدی ہو رہی اس نے نیچے ٹانگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تومیں مُسکرادی۔ اب ہم قریبی فارمیسی پر میڈیسن لینے کو رُکے اور لے کر پلٹے تو دیکھا تو وہ میاں بیوی بھی کار پارک کرچکے تھےاور اتر کر ہماری طرف ہی
    بڑھے آ رہے تھے ۔​
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

  • #2
    واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ مز۔۔۔مز۔۔۔مزہ آگیا جناب ۔۔۔ من موجی بھائی کیا ہی بات ھے آپ کی ۔۔۔ نہلے پے دہلا ۔۔ اب دیکھتے ہیں کون وکیل کی وکالت کا ٹیسٹ لیتی ھے۔۔۔ الفاظ جان لیوا ہیں ۔۔۔ لاجواب ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست ۔۔۔

    Comment


    • #3
      bht aala zabardast story

      Comment


      • #4
        دیکھتے ہیں اب کون پہلے اپنے ہاتھ سے زپ کھولتی...

        Comment


        • #5
          Kia baat hai

          Comment


          • #6
            اب ہم قریبی فارمیسی پر میڈیسن لینے کو رُکے اور لے کر پلٹے تو دیکھا تو وہ میاں بیوی بھی کار پارک کرچکے تھےاور اتر کر ہماری طرف ہی
            بڑھے آ رہے تھے ۔

            اب کوئی چارہ کار نہ تھا أنہوں نے بھی میڈیسن لینی ہوگی ۔ وہ صاحب سیدھا ہمارے پاس آکر رُکے ہائے ، مجھے جاوید کہتے ہیں اور یہ میری وائف شمیم جاوید ہیں ۔
            ہم نے بھی ہائے بول کے شمیم سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا،
            جی میں سیما ناز ہوں اور یہ میری دوست یاسمین سکندر ہیں ۔
            جاوید نے شاید بیوی کی تسلی کے لئے بات بنائی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ صبح جس کیس کا آپ نے اشارہ کیا تھا وہ فکس ہوجائیگا۔ اصل میں صبح جب میں نے ان
            سے کُھلی زپ کی بات کی تھی تو أن کی وائف تھوڑا دور ہونے کی وجہ سے جان نہ پائی تھیں کہ بات کیا ہوئی تھی ۔
            ۔ اوہ تھینک یو جاوید صاحب ، میں نے نظریں چُراتے ہوئےجواب دیا
            اور شمیم سے کہا ، آپ سےمل کر بڑی خوشی ہوئی ۔ ہم تھوڑا جلدی میں ہیں اس لئے ہم چلتے ہیں اجازت دیں ۔ اور ان کا جواب سُنے بنا جلدی سے گاڑی میں جاکر سانس لی ۔ میرا تو سانس پھول گیا تھا جیسے میلوں بھاگ کر آ رہی ہوں ۔ یاسمین ڈرائیونگ کر رہی تھی اور میرا بغورجائزہ لے رہی تھی ۔ گھر کے قریب ہم لوگ کافی شاپ میں گپ شپ لگاتے تھے أس نے گاڑی اس کے سامنے پارک کی تو میں نے کہا یاسمین اندر نہیں جاتے یہیں کافی لے آؤ، وہ اندر جاکے د و کوفی مگ لے آئی ۔ کہنے لگی کیا خیال ہے ، میں نے حیرانگی سے پوچھا ، کس بارے میں ؟، ارے جاوید صاحب کو کیس دیں کہ نہیں وہ آنکھ مینچتے ہوئے بولی ۔ ارے چھوڑ یار ، وہ در اصل میرا عندیہ لینےکی کوشش میں تھی ۔ یوں ہی ہلکی پھلکی بات چیت کے بعد یاسمین نے مجھے گھر ڈراپ کیا اور جانے سے پہلے مجھے جاوید کا وزٹنگ کارڈ دیا ۔ میں نے کہا یاسمین تم خود اسے اپنےپاس رکھو مجھے ضرورت نہیں ۔ اورگھر کے اندر داخل ہو گئی ۔ کافی اپ سیٹ تھی میں ۔ سیدھا غسل لینے کے لئے باتھ روم گئی ٹب میں نیم گرم پانی فل کیا اور اس میں دراز ہوگئی میں کافی سُبکی محسوس کر رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ اکیلے میں خوب رودوں ۔ میرا تجربہ ہے جب بھی ایسی صورت حال ہو کہ سر بھاری اور دل اداس اور بوجھل ہوتو رولینے سے کافی سے زیادہ شانتی محسوس کرتی ہوں ۔ سو جیسے جیسے آج کے واقعے پر غور کرتی اتنا ہی اپنی نادانی اور پریشانی پر آنسو نکلتے ۔ کافی دیر کے بعد جسم کا تناؤ کچھ کم ہوا ۔ ایک تو گرم گرم آنسو اور ٹب کا نیم گرم پانی تریاق ثابت ہوا ۔ میں نے گرم شاور لیا اور باھر آ کر
            کچن میں گئی اور جُوس لے کر ٹی وی لگایا اور انجوائے کرنے لگی ۔ ٹی وی کے
            ایک چینل پر بیسک انسٹنکٹ مل گئی ۔ میری پسندیدہ مووی تھی ایک دو بار پہلے بھی دیکھ چکی تھی ایک بار تو مووی تھیٹر میں یاسمین کے ساتھ دیکھی تھی ۔ پھر بھی اسی کو دیکھنے لگی ۔ مووی دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیوں نہ رضا کو فون کروں تاکہ آتے ہوئے ڈنر کے لئے پارسل ہی لیتے آئیں کہ میرا من کچھ کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ میرے میاں رضا آبھی گئے ۔ میں نے جلدی جلدی ڈنر تیار کیا اورڈنر کرنے کے بعد پھر ٹی وی دیکھنے لگ گئے ۔ کیا بات ہے جانم ، کچھ پریشان نظر آرہی ہو تم ۔ رضا نے تشویش بھرے لہجہ میں پوچھا ،
            نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں جانی ، آج ھسپتال گئی یاسمین کے ساتھ اور بور ہوتی رہی
            ہوں اس لئے تھوڑی تھکاوٹ محسوس کر ری ہوں میں جماہی لیتے ہوئے بولی ،
            میں واقعی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی ، تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ، رضا ڈارلنگ
            میں تو بیڈ روم میں جارہی ہوں ۔ شب بخیر ۔ ،
            ٹھیک ہے میں بھی آتا ہوں خبروں کودیکھ کے
            میں پیٹی برا میں سوتی ہوں لائٹ آف کی کھڑکی سے چاند کی چاندنی نے ہمارے بیڈ کو روشنی کے ہالہ میں لے رکھا تھا ، میں بیڈ پر دراز ہوگئی اور لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی ۔
            کچھ دیر گذری ہوگی کہ رضا آئے اور بیڈ پر لیٹ گئے ۔ میں ابھی پوری طرح سو نہیں پائی تھی اس لئےسوتے میں محسوس کررہی تھی ۔ میں پہلو کے بل لیٹی ہوئی تھی رضا نے مجھے
            پیچھے سے لپٹا لیا ۔ میں نے کسمساتے ہوئے کہا ، رضا میں تھکی ہوئی ہوں جانی ،،
            تم کو بھی آج ہی تھکنا تھا ، تم کو پتا تو ہے کہ آج کونسی رات ہے ،، اور میرے ہاتھ پکڑ
            کر اپنے اکڑے ہوئے پر رکھ دیا ۔ میں نے أسے آہستہ سے دبا کر پوچھا ،،کونسی رات ہے آج ،، جب انہوں نے کہا چاند کی چودھویں رات ہے ،، تو فوری أٹھ گئی اور رضا سے بولی
            سوری رضا مجھے صبح یادتھا کہ آج تماری رات ہےاور میں نے سوچا یاسمین کے ساتھ
            ہسپتال سے ہو کر آونگی تو تمہری ڈش صاف کر رکھوں گی اور سچ جانی پھر زہن سے
            نکل گیا ۔ در اصل چاند کی چودھویں اور پندرھویں دو راتوں کو رضا اپنے آپ میں نہ رہتے
            تھے ۔ چونکہ معمول سے ہٹ کر ان میں وحشیانہ پن آجاتا تھا وہ طبیعت میں گرانی اور بے چینی محسوس کرتے اور شروع شروع میں تو مارنے مرنے پر بھی تُل جاتے پھر میں نےسیکس کرنے کی ٹرائی تو آہستہ آہیستہ بہتر ہوتے گئے سیکس وحشیانہ مجھے بھی اچھا لگن لگا ہے ۔ آج شام جب وہ آئے تھے تو ان کی نظروں میں وحشت تو میں نے محسوس کی تھی مگر اپنے خیالوں میں ایسی گم تھی اس طرف خیال ہی نہ گیا ۔ اب انہوں نے مجھے گلے سے لگا کر بھینچا اورمیرے پورے جسم پر ہاتھوں کو ہولے ہولے پھیرنے لگ گئے ۔ میں نے ان کا ہاتھ میں لے رکھا تھا اسے مساج کرنے کے ساتھ ساتھ ہولے ہولے دبا رہی تھی ۔ شروع میں تو میری طبیعت اس طرف مائل نہ تھی مگر رضا کی جو حالت ہوتی اس کا احساس کرکے اس کا ستھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ مگر
            جب ان کا ہاتھ میں لیا تو جاوید کی کھلی زپ کے اندر کی جھلک کی طرف خیال چلا گیا
            میں نے فوری جُھک کر اس کے دوتین بوسے لئے ۔ ادھر رضا نے بھی میری طرح بے صبری دکھائی اور پینٹی کے اوپر سے ہی رانی کو کُجھانے لگے ۔ میں نے ٹانگیں زرا کھول
            دیں اور ان کے ہونٹ ہونٹوں میں لے کر چبانے لگی ۔ رضاکے پتلے پتلے ہونٹ میری
            کمزوری ہیں ۔ رضا نے میری پینٹی کو کھینچا تو میں نے تھوڑا اوپر أٹھ کر ان کا اپنی پینٹی
            أتارنا آسان کردیا انہوں نے گھٹنوں تک پینٹی اتاری تو میں نے پاؤں کی مدد سے اتار کے
            نیچے پھینک دی ۔ اب أنہوں نے برہنہ رانی پر ہاتھ سے مساج کرنا شروع کر دیا اور درمیانی أنگلی پر دباؤ بھی ڈالتے ۔ میرے ہاتھ میں ان کا فولادی ہتھیار تھا اور میں اس وقت اپنے
            آپ کو خوش قسمت ترین سمجھ رہی تھی جیسے جیسے چاند اوپر آتا جار رہاتھا جاوید کی حالت بدلتی جا رہی ۔ أس کے ہاتھوں میں سختی آرہی تھی

            -------------------------------



            رضا نے ایک بار کہا تھا کہ چوودھویں رات کو بالکل صاف اور کلین ہو میں ہمیشہ
            کلین رکھتی ہوں ہر ہفتہ میں صفائی مگر اس رات کے لئے تو میں خصوصی اہتمام کرتی تھی
            مگر آج مجھ سے کوتاہی ہوگئی اور اب رضا جب ہاتھ سے اسے مساج کر رہے ہیں تو مجھے خود بال محسوس ہوتے اور گُد گُدی سی ہوتی ہے ۔ ان کی درمیانیی انگلی بار بار لکییر پر
            دباؤ ڈالتی اور کسی وقت وہ أسے اپنی مُٹھی میں بھی بھر لیتے میری رانی کے لپس بھرے بھرے سے ہیں مگر سموتھ ہیں جب وہ ہاتھ میں لے لیں تو ان کا ہاتھ بھر جاتا ان کو شاید
            اچھا لگتا ہو تبھی وہ مییرے بوسے لینے لگتے میں بھی ان کے ہونٹ چوسنے کا مزہ لیتی
            انہوں نے ساتھ ساتھ میرے مموں پر برابر توجہ رکھی برا تومیں نے پینٹی کے أترتےہی أتار دی تھی ۔ میرے نپل تن گئے ۔ ادھر انہوں نے نچے چوت پر مساج جاری رکھا تھا اب أنگلی کا
            دباؤ ڈالتے تو لکیر کُھل سی جاتی اور أنگلی چوت کے گیلا پن سے خود بھی گیلی ہوجاتی
            اب چوت کا رس اس کے منہ پرآپہنچا تھا اوررضا کا ہاتھ اس کو تھپک رہا تھا جس کی
            آواز بھی آرہی تھی ۔ میں مست ہوتی جارہی تھی رضا کے لن سے مجھے کُھلی زپ کا
            خیال آرہا تھا ۔ میں نے اس کے اکڑے ہوئے کو بوسے دئیے پھر اوپر نچے چاٹا ۔ جس سے
            رضا برانگیختہ ہو کر چوت پپر زوز زور کی تھپکی لگاتا میں نے لن کو منہ ڈال لیا
            اور چوپا لگانے لگی ۔ رضا لیٹ گئے اور میری ٹانگیں اپنی طرف کر لیں میں سمجھ گئی اب
            جانی اسے کاٹ کھائے گا اس کا منہ چوت کے قریب آیا اور سُونگھنےلگا تو اس کی گرم سانسیں محسوس کر کے میں کانپ أٹھی ۔ اس نے انگلی ڈال کے رس نکال کے چکھا اور پھر
            اس نے چوت کے لپس پر بوسہ دیا اور پھر چوسنے لگا میں چوپا لگا رہی تھی اور مزے سے
            دوھری ہوئی جارہی تھی ۔ رضا جانتا تھا کہ میں زیادہ دیر نہیں نکال پاؤں گی چوت کے دانے
            پر ہلکے ہلکے بائٹ کرتا اور پھر چوسنے لگتا ساتھ ساتھ انگلی بھی کرتا میں نے دو تین
            چار جھٹکے لئے اور جھڑ گئی سارا رس رضا نے پی لیا چوت بہنے کے باوجود چمنی
            ہئی تھی ایک آگ لگی ہوئی تھی اس میں ، میں رضا کے لن کو چوس رہی تھی کہ رضا
            نے میرے بال پکڑ کراوپر آنے کا اشارہ کیا میں تو یہی مانگ رہی تھی رضا سیدھا ہوکر
            لیٹے تو میں ان کے اوپر بیٹھنے لگی تو رضا نے ساتھ پڑے ہوئے کپڑے سے میری چوت صاف کی او رانگلی پر کپڑا لپیٹ کر اندرسے بھی خشک کی پھر میں نے لن کو پکڑ کر چوت کے اوپر مسلا جس سے چوت اسے اندر لینے کو تیار ہوگئی میں نے لن کی ٹوپی پر چوت
            کے منہ کو رکھا اور ایکدم بیٹھ گئی اکڑا ہوا لن غڑاپ سے سب کچھ چیرتا ہوا اندر جا ٹکرایا میں مستی میں سر پٹختی اوپر نیچے ہونے لگی کبھی پیچھے کی جانب ہوتی تو کبھی آگے ہو کررضا کے ہونٹ کاٹنے لگتی ۔ میں مدھوشی میں ألٹی سیدھی حرکتیں کرتی رضا میرے مموں کو پکڑے ان کو دباتا کبھی سر أٹھا کر ان کو چومتا ایک مستی کا عالم تھا اور ہم تھے اچانک رضا نیچے سے ہلنے لگا میں نے اس کا ساتھ دیا اس کے جواب میں میں بھی اوپر نیچے ہوتی رضا نے جلد ہی ہتھیا ڈالدئیے اور وہیں لیٹے لیٹے ہی ایک پچکاری ماری چوت کی ساری دیواریں مزے سے دعائیں لگیں کیونکہ پچکاری بار بار نکلی جس سے چوت کے اندر کی آگ ٹھنڈی ہو گئی

            میں رضا کے اوپر ہی گر گئی اور اس کا لن آہستہ آہستہ باھر کا راستہ دیکھنے لگا
            تھڑی ہی دیر بعد چوت نے لن کا سارا رس پی لیا اور لن سُکڑ کے باھر آگیا ۔ رضا
            میرے بالوں ہاتھ پھیرنے لگے میں ان کے چھاتی کے بالوں پر اپنے گال رگڑنےلگی
            اور ان کے نپل کو چوسنے لگی ۔ چاند کے جوبن میں آنے میں تھوژا وقت رہ گیا تھا
            ادھر رضا بے چینی محسوس کرنے لگے میں یونہی برہنہ کچن میں جار تھنڈا دودھ لے
            آئی ۔ اور رضا کو پینے کو دیا وہ گھونٹ گھونٹ پیتے رہے اور میں انکی بلائیں لیتی
            رہی ۔ آج کی چُدائی کا بڑا مزہ آیا تھا اور ابھی تو چاند نے کامل ہونا تھا ۔ میں نے رضا سے کہا ،، رضا تم لیٹ جاؤ،، وہ لیٹ گئے تو میں ان کا جسم دبانے لگی ان کا جسم اتنا گرم تھا
            جیسے ایک سو چار کا بُخار ہو ۔ مگر میں جانتی تھی یہ بخار نہیں چاند کے ساتھ ساتھ یہ
            بھی نیچے ہوتا جا ئے گا ۔ جب میں رضا کی رانوں کو دبانے لگی تو دیکھا کہ اس کا لن
            پھ سر أٹھا رہا ہے میں اسے پیار کرنے سے اپنے آپ کو باز نہ رکھ سکی اور وہ مچل أٹھا
            میں پیار سے أسے سہلانے لگی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ کھلی زپ سے باھر نکل
            آیا ہو میں نے اسے منہ میں ڈال لیا اور اپنی زبان کی نوک سے اس کی ٹوپی کو کُجھانے لگی ، رضا کو مزہ ملا تو أس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے بالوں سے پکڑکر اپنی طرف کھیچ کر ساتھ لٹا لیا اور مجھےگلے لگا کر اتنی زور سے بھینچا کہ میں سمجھی کہ میری کوئی
            ایک آدھ پسلی ٹوٹ جائے گی اب میں نے اسے سنبھالنا تھا کیونکہ چاندجوبن پر آنے والا تھا
            میں نےاسے چومتے ہوئے بٹھایا اور خود اس کے سامنے لیٹ گئی وہ میری طرف دیکھ رہا تھا
            کچھ جانی پہچانی کچھ اجنبی نظروں سے ۔ میرے جسم ک وہ بڑے غور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔

            وہ میرے اوپر جُھک گیا پہلے اس نے میرے گال چُھوئے اور پھر
            میرے ہونٹوں کو مسلنے لگا
            اور پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چوما اور پھر گردن کو چومتے ہوئے میرے مموں کو ہاتھ میں لے کر مساج کرتا رہا ۔ ۔ اس نے نپلز منہ میں لےکر چوسے او بڑے پیار سے مسلے
            پھر وہ پیٹ کو چومتا میری ناف کو بڑے غور سے دیکھتا رہا میری ناف زرا گہری ہے
            اس میں پہلے انگلی گھماتا پھر اپنی زبان ڈال کر چاٹتا رہا ۔ میں اس کی عجیب وغریب حرکتیں
            دیکھتی رہی مگر اب میں خود گرم ہونے لگی تھی ۔ میری چوت نئے سرے سے پھدکنے لگی تھی ۔ رضا میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھا میری چوت کو تاڑ رہا تھا ۔ اور دانےکو مسل رہا تھا
            میں نے أس کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اوپر کی جانب کھینچا اور ٹانگوں سے اس کی پیٹھ
            کو جکڑ لیا اور ہاتھ سے اس کے لن کو پکڑ کر اپنی چوت پر ٹکا دیا اور دونوں ہاتھوں کا دباؤ
            اس کے کولہوں پر ڈال کر آگے کی طرف دبایا اور خود اپنے چوتڑ کچھ اوپر کئے تو لن پھسلتا
            ہوا اندر ہو گیا ۔ رضا سے بولی جانی مجھے چودو زور زور سے چودو ۔اور رضا نے ایک زوردار دھکا لگایا اور میرا انجر پنجر ہل گیا۔ رضا اب ایک مشین کی طرح شروع ہوگیا میں نے کچھ دیر تو اپنی ٹانگوں میں جکڑے رکھا مگر کب تک۔ أس نے میری ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ لیں او زور دار جھٹکے لگانے لگا ۔اس کا ہر جھٹکا مجھے مزے کے کنارے
            پہنچا دیتا میں مست ہو کر رضا کو چومتی اور کاٹتی ۔ مجھے ایسا سرؤر مل رہا تھا جس کی خواہش ہر لڑکی عورت چودواتے ہوئے کرتی ہے ۔ میں چُد رہی تھی اور رضا ظالموں کی طرح مجھے ہٹ ہٹ کر چود رہا تھا وہ لن کو چوت کے منہ تک لے آتا اور پھر ایک زور دار دھکا لگاتا ۔ میں اب پوزیشن بدلنا چاہتی تھی کہ پیٹھ بل جھٹکے کھا کھا کر کمر دھری ہوئی جارہی تھی ۔ میں نے رضا سے کہا ، جانی میں گھوڑی بن جاؤں تم سواری کرنا بڑا مزہ آئے
            گا ۔رضا کچھ بولا نہیں مگر میں نے ٹانگیں اس کےشانوں سے نیچے اتار کر گھوڑی کی
            طرح کھڑی ہوگئی ۔ رضا نے پیچھے سے لن ٹکرایا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں غلط دروازے میں نہ داخل ہو جائے میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور اس دو زانو بنا کر اس
            کے لن پر چوت ٹکادی اورر اوپر سے زور لگا کر اندر کرلیا اور آہستہ آہستہ گھوڑی کی
            پوزیشن میں آگئی ۔ اب میں نے رضا کے دونوں ہاتھوں میں اپنے ممے دے دئیے اور خود
            پیچھےاور آگے ہوئی ۔ رضا نےمیرا جواب دیا اور پھر شروع ہوگیا پتہ نہیں کتنے ہارس پاور
            کا دھکا ہوگا ۔ میرا تو اندر باھر ہل کر رہ گیا مگر میں ایک ایک جھٹکے پر رضاکی بلائیں
            لیتی ۔ میں پھر فارغ ہوچکی تھی چاند اپنے عروج پر جاکر آگے نکل چکا تھا ، رضا اب بھی
            مستی میں تھا ۔ میں نے رضا کو کہا تھوڑا رکو اور اس کے نیچے سے نکل کر اس کے سامنے آکر اس کی ٹانگیں سامنے کی طرف سیدھی کرکے بٹھایا او ر اسے پیار کرنے لگی اس نے بے اختیار مجھے لپٹا لیا میں اسکی طرف منہ کر کے اسکی رانوں پر بیٹھی ہوئی تھی اس کا کھڑا لن میری ناف سے ٹکرا رہا تھا ۔ میں نے کپڑے سے اپنی چوت کا پانی خشک کیا او اس کے لن کے اوپر بیٹھ کر رضا کو چودنے لگی ۔ وہ بھی ساتھ دے رہاتھا میری چوت سُوج چکی تھی اب رضا کو فارغ ہونا تھا کچھ دیر تو اسی طرح رہے اور پھر اچانک رضا نے مجھے لٹادیا او میرےساتھ لیٹ گیا اس نے میری ٹانگ أٹھا کر لن میری چوت میں ڈالدیا یہ رضا کی پسندیدہ پوزیشن تھی کہ میں پیٹھ بل لیٹی ہوتی اور رضا پہلو بل لیٹ کر میری ٹانگ اٹھاکر اپنا لن ڈال دیتا اس طرح دونوں لیٹ کر کرتے۔ میں سمجھ گئی اس کی وحشت کم ہوگئی ہے وہ بڑے رومانٹک انداز میں چود رہا تھا میں نے تو آج رات بہت سواد لیا تھا ۔ دو چار سوادی جھٹکے لگا کر رضا بھی فارغ ہو گئے اور ہم دونوں اسی طرح ایک دوسرے سے چمٹ کر سوگئے ۔ رضاکی حرارت کافی کم ہوگئی تھی ۔ صبح رضا کے جگانے پر میریی آنکھ کھلی رضا کافی لئے کھڑا تھا ۔ میں نےکافی لیتے ہوئے اسکی طرف جو دیکھا تو ہنسی نہ روک سکی ۔ رضا کی گالوں پر میرے دانتوں کے نشاں صاف نظر آرہے تھے ۔ اس کی گردن اور سینہ پر نشان تھے ۔ رضا بولے رات کو تم کچھ زیادہ ہی مزہ دے رہی تھی ، رضا تم ہو بھی مزے دار ، اب اسے کیا بولتی کہ رات کو تمہارے ساتھ ساتھ کوئی او بھی ہمارے ساتھ تھا
            زپ کھول کے ۔۔۔
            میں نے رضا سے کہا جانی میں تو سونے لگی ہوں ناشتہ اٹھ کرکر لوں گی ،
            اوکے جانم تم ارام کرو اور میرے لپس چوم کر ہنستے ہوئےبولے آج رات کا کیاپروگرام ہے ،
            اوہ رضا رات کو تم نےمیری پُھدی کا پُھدا بنا دیا ہے اب ایک ہفتہ تو اسکے قریب
            بھی نہ آنا ۔ ،میں اسے پھدی دکھاتے ہوئے بولی ۔ رات کو پینٹی پہنے بنا ہی سو گئی تھی ، رضا پھدی دیکھ کے کہنے لگے ارے یہ تو پہلے سے بھی سوہنی لگ رہی ہے اور ہاتھ سے اسے تھپکا ، مجھے تھوڑا سا درد محسوس ہوا، رضا نے مجھے گدگدیاں کرنی شروع کردیں ۔ میں بستر پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی کہ رضا نے میری ٹانگوں کو قابو میں کیا اور اپنے ہونٹ میری چوت پر رکھ دئیے أف رضا کیا کرنے لگے ہو وہ کچھ نہ بولے بس چومتے رہے میرے سانس بھی بھاری ہونے لگے رضا نے چو م کر مجھے کہا اس کا شکریہ توادا کرنا تھا اور باھر نکل گئے ۔ مجھے مایوسی ہوئی تھوڑی دیر پہلے جو میں ایک ہفتہ تک ہاتھ نہ لگانے کا کہ رہی تھی اس کے ہونٹ لگتے ہی من چاہ رہا ابھی ایک راؤنڈ ہوجائے ۔
            میں ٹیلیفون کی گھنٹیی پر أٹھ گئی اور ہیلو کہا تو یاسمین تھی
            آپی ابھی تک سو ری ہو ،، یاسمین نے پوچھا
            ہاں کیا ٹائم ہوا ہے ، میں نے پوچھا
            آپی ایک بج گیا ہے ، اب تو ظہر ہونے کو ہے یاسمین نے بتایا
            کیوں آپی رات کس کے خیال نے سونے نہیں دیا ، یاسمین چہکی،،
            کسی کی یاد نے نہیں رضا نے جگائے رکھا ۔
            اوہ آئی سی ، پر آپی اب أس کا کیا کرنا ہے
            کس کی بات کر رہی ہویاسمین ، میں نے پوچھا
            آپی آپ بھی ناں کل جس نے اپنا کارڈ دیا تھا جاوید ، بھول گئی کیا آپ
            نہیں یاسمین تم خود ہی اس کو برت لو میرا بالکل من نہیں ہے ۔ میں نے تھوڑا ریزرو
            ہونے کی کوشش کی ۔ یاسمین فورا بولی ایسےکیسے ہوسکتا آپی جب تک آپ ساتھ نہ
            دیں تو کچھ بھی نہ کرپاؤنگی ۔ تو پھر تم کیاچاہتی ہو میں نے پوچھا ،
            آپی آپ میرے ہاں آجائیں اس کو فون کرتے ہیں ۔ یاسمین نےتجویز دی ۔
            ایسا کرو اسے فون کرلو بات آگے بڑھی تو میں پھر ہی کچھ سوچوں گی ۔
            اچھا آپی اگر آپ ہہی چاہتی ہیں تو ایسے ہی کرتی ہوں ۔
            ٹھیک ہے یاسمین آج تو تھکی ہوئی ہوں ، تم بات کرلو کل میں تمہارے ہآں آ جاونگی
            پھر کچھ سوچتے ہیں کچھ کرنا ہے یا نہیں ۔ لگتا ہے یاسمین سچ مچ اس سے چدوانے
            کے بے قرار ہے ۔ جاوید ہے ہی اتنا ینڈسم کہ یاسمین یا میرے جیسی کبھیی کھائے بنا نہ
            رہے
            جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
            ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

            Comment


            • #7
              فون رکھ کر میں نے ایک بھرپور انگڑائی لی سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا رضانے میرے کس بل نکال دئیے تھے میں کرسی پر تھوڑا ریلیکس کے لئے دراز ہوگئی اور جاوید کے بارے سوچنے گی ۔ یاسمین کی بے چینی کا خیال آتے ہی میں مسکراتے ہوئے باتھ روم میں گئی اورتازہ پانی سے ٹب کو بھر دیا پھر ضروریات سے فارغ ہوکر میں گرم گرم پانی میں لیٹ گئی ۔ اپنے جسم کو آہستہ آہستہ مساج بھی کرتی رہی کہ میرے ہاتھ رانوں کے سنگم پر جا پہنچے وہاں تھوڑا سامساج کیا تو ہیئر ریمونگ کا خیال آگیا میں ٹب سے نکلی اور باتھ ٹاول سے اپنے آپ کو خشک کرتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھولی ۔
              بال صفا کریم لگا کر وہیں پڑے میگزین کو دیکھنے لگی ۔ رضاکو عادت ہے جب حاجت سے فارغ ہونے کو آتے ہیں تو کچھ نہ کچھ پڑھتے ہیں چایے نیوز پیپر ہی کیوں نہ ہو تومیں نے دس منٹ کے بعد صفائی کی اور ٹب خالی کرکے پھر اسے بھرا اورببل باتھ لیا اور کچھ دیر شاور کے نیچے کھڑی رہی ۔ ٹاول گاؤن لے کے میں کچن کی طرف آئی اور فرج سے اورنج جوس اور ایک سینڈوچ لے کر میں لیونگ روم میں آکر آہست آہستہ لنچ کرنے گی ۔ ٹی وی کو آن کر کے آل مائی چلڈرن دیکھنے لگی یہ شو کبھی مس نہیں کیا آٹو ریکارڈ ہوجاتا تھا اس لئے جس وقت ٹائم ملتا دیکھتی تھی ۔ سینڈوچ ختم کرکے جوس کی سپ لے رہی تھی کہ فون بجنے لگا ۔
              ہیلو ۔ اوہ تم ، یاسمین کیا چل رہا ہے
              یاسمین ۔ آپی آپ أٹھ گئی ہوا

              میں ۔ ہاں ابھی ابھی لنچ کیا ہے بولو بڑی ایکسائٹڈ لگ رہی ہو
              یاسمین ۔ آپی جاوید کو فون کیا تھا ۔ بڑی اچھی طرح بات کی جب میں نے أسے یاددلایا
              ہماری ملاقت ہسپتال میں ہوئی تھی تو آپی اس نے فورا پوچھا ارے آپ وی ہیں ناں کھلی زپ
              والی ۔
              میں ۔ پھر تم نے کیا کہا
              یاسمین ۔ آپی میں نے انہیں بتایا ، نہیں میں یاسمین ہوں وہ سیما آپی ہیں
              تو پھر ، میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
              یاسمین ۔ آپی جاوید نے کئی بار تو آپ کا نام دھرایا سیما ، سیما ، سیما یوں لگ رہا
              آپ کا نام وہ بےخودی میں لے رہا ہے ۔ یاسمین حسب عادت چیزہ لے رہی تھی
              میں ۔ یاسمین چھوڑو اب اصل بات پر آؤ کب مل رہی ہو جاوید سے
              یاسمین ۔ کچھ بھی ڈن نہیں ہوا جاوید تو آپ کے بارے ہی پوچھتا رہا اور ملاقات کا بھی
              اسے یہی عندیہ دیا کہ دو چار دن کے لئے وہ دوسری سٹیٹ جارہا ہے واپسی پر وہ
              چاہتا ہے کہ اس کے آفس میں کسی شام سنیکس ار کافی کےلئے آئیں اور کچھ گپ شپ
              بی ہوجئیگی
              میں ۔ نہیں یاسمین ہم اس کے آفس نہیں جائیں گے ، کہیں اور ملنےکا پروگرام رکھیں گے
              یاسمین ٹھیک ہے آپی جیسا آپ کہیں ، اس نے آپ کا نمبر مانگا تھا ، ہوسکتا ہے وہ آپ کو
              فون کرے ،
              میں ۔ چلو اچھا ہے مجھے بھی اس کا نمبر لکھوا دو ۔ یاسمین نے اس کا نمبر لکھوایا
              ہم کچھ دیر جاوید کے بارے ہی گپ شپ کرتی رہییں اور پھر فون بند کردیا ، میں ٹی وی
              دیکھنے لگ گئی مگر ٹی وی میں کوئی دلچسپی کا پروگرام نہ تھا تو میں نے رضا کو فون کیا
              ہیلو رضا سپیکنگ، رضا ریسیو أٹھاتے ہوا بولا
              مسز رضا ازہیئر ڈارلنگ
              ڈارلنگ کیا بات ہے رضا نے پوچھا
              کچھ خاص نہیں بس بوررہی تھی سوچا تمہیں بھی بور کروں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا
              یہ میرا کام تم نے کب سے اپنے ذمہ لے لیا رضا قہقہہ لگا کے بولے
              کونسا کام جانی میں نے نہ سمجھتے ہوئے کہا
              ارے بورنگ کرنا میرا کام ہے شاید وہ چیزہ لے کر بولا اور میں اسکی اس بات پر ہنس دی
              رضا ڈارلنگ آج کیا بناؤں ڈنر کے لئے ۔ میں نے پوچھا
              ہنی اگر تمہارا فون نہ آتا تو میں کرنے والاتھا ۔ آج کیوں نہ شام کا شو دیکھیں اینیمل انسٹکٹ
              سنا ہے بڑی ہاٹ مووی ہے ۔ رضا نے پوچھا ، جانی اٹ از گریٹ آئیڈیا ۔ یاسمین لوگوں سے
              پوچھ لینا چاہئیے کمپنی رہے گی میں نے لقمہ دیا ۔ ٹھیک ہے ہنی ڈنر وہیں کریں گے رضا نے
              میں نے یاسمین کو کال کی کہ رضا نے

              Animal Instincts
              اینیمل انسٹنکٹ دیکھنے کا پروگرام بنایا ہےآج
              شام کوتم لوگ بھی چلو سنا ہے بڑی ہاٹ ہے مووی میں نے اشتیاق سے کہا او یس
              بہت کچھ سُنا اور پڑھا ہے یاسمین نے معلومات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ مین کردار ·
              Shannon Whirry
              نے تو سُنا ہے بہت ہی بولڈ سین پکچرائز کرائے ہیں ویسے بھی بولڈ
              ایکٹریس ہے ۔ اچھا پھر کیا خیال ہے چل رہی ہو کھانا بھی وہیں ہوجائیگا میں نے تصدیق کرنا
              چاہی ۔ چلو یی سمجھ لو میں ان سے بات کرتی ہوں اگر ان کا کوئی پروگرام نہ ہوا تو پھر
              ضرور جائیں گے یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اور میں شام کے لئے کوئی ہلکا سا لباس
              دیکھنے لگی ۔کہتے ہوئے ریسیور رکھ دیا



              جب رضا گھر پہنچے تو میں تیار تھی رضا بھی تبدیل کرکے باھر آئے تو ہم سیدھے مووی تھیٹر جا پہنچے سیٹس رضا نے ٹیلیفون پر ہی بک کرالی تھیں ہمارے پہچنے کی تھوڑی
              دیر بعد یاسمین اپنے ان کے ساتھ وھیں کیفیتیریا میں آگئی ۔ ھیلو ھائے کے بعد کچھ چپس اور سنیکس کولڈڈرنک لےکر مووی دیکھنے کو اندر داخل ہو گئے ۔ ہم دونوں کیوں کہ مووی دیکھتے ہوئے کُھسر پُسر کرنے کی عادی ہیں اس لئے ہم دونوں درمیان میں تشریف فرما ہوئیں میری رائٹ سائڈ پر رضا اور یاسمین کی لیفٹ سائیڈ اس کا ھبی تھا ۔ فلم شروع ہوتے
              ہی پیک پر چلی گئی اور مکالمے اور سینز قابل سنسر تھے ۔ اصل میں یہ نیویارک میں
              ایک سچا واقعہ جس کی کافی تشہیر ہوچکی تھی پر مبنی مووی بنائی گئی اور لوگوں کی
              أمیدوں کے پیش نظر کافی بولڈ بنائ گئی تھی ۔ ہاف ٹائم میں جب باھر کھلی ہوا میں نکلے
              تو تقریبا سب کے ہی پیشانی پسینہ سے شرابور ہی تھی ۔ ہم دونوں لیڈیز روم میں چلی
              گئیں اور فریش ہوکر نکلنے لگیں تو یاسمین نے میرے چُٹکی لی وہ چٹکی لینے کی
              عادت بد میں مبتلا ہے ھر وقت بے وقت بھی چُٹکی ، میں نےگُھور کر اسے دیکھا تو اس نے
              سامنے اشارا کیا جہاں ایک دیسی جوڑا ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے
              میں مگن تھا ، میں نے شانے أچک کر اگنور کرنے کا کہاتو یاسمین نے سرگوشی کرتے
              ہوئے بتایا یہ جاویدکی بیوی شمیم ہے ، میں تو حیران رہ گئی ارے کل تو جاوید نے اس کو بیوی کہہ کر ہمارے ساتھ تعارف کروایا تھا ، اتنے میں یاسمین لیڈیز روم کی طرف بڑھی اور ہم چونکہ باھر نکل رہے تھے تو آمنا سامنا تو ہونا ہی تھا۔ اس نے بھی ہمیں دیکھ لیا اور
              پاس آکر ھیلو ہائے کہنے کے ساتھ ہی یاسمین سے لپٹ گئی اور میں نے محسوس کیا
              یہ لپٹنا علت سے خالی نہ تھا فارمیسی کے سامنے ہماری ملاقات میں بھی شمیم جاوید
              بڑی پیار کی نگاہوں سے یاسمین کو دیکھ رہی تھی خیر اس کے بعد اس نےمجھ سے
              بھی گلےملنے کی رسم پوری کی اور حال احوال پوچھا اس نے بتایا کہ جاوید اندر مووی
              تھیٹر میں ہی ہے ۔ وہ لیڈیز روم کے اندر چلی گئی ہم تھوڑا آگے بڑھے تو جنٹس روم سے
              جاوید اپنی زپ بند کرتے ہوئےباھر نکل رہا تھا ہماری اس پر نظر پڑی تو ہم دونوں بے
              ساختہ ہنس دییں اس نے جب ہمای نظروں کا پیچھا کیا تو اپنے ہاتھوں کو زپ بند کرنے میں مصروف دیکھ کرجھینپ سا گیا اور پھر ہنس دیا ۔ ہم کیونکہ اپنے خاوندوں کے ساتھ تھیں
              اس لئے زیادہ کچھ نہیں صرف ہیلو ہیلو تک ہی رہے ہم دونوں آگے بڑھنے لگیں تو
              اس نے مجھے فون کرنے کا اشارہ کیا تو میں نے جوابا أسے فون کرنے کا اشارہ کر دیا ۔
              اور ہم دونوں اپنی اپنی سیٹس پر واپس آگئیں ، مووی شروع ہو چکی تھی مگر اب ہم دونوں
              کی اتنی توجہ مووی پر نہ تھی جتنی شمیم کے بارے تھی ۔ ایک تووہ اپنے خاوند کے ساتھ تھی اور ساتھ ساتھ میں دوسرے آدمی کے ساتھ بھی چپکی ہوئی تھی اس کے رویہ سے أس کے لزبین ہونے کا بھی شک ہوتاتھا ۔ مووی ختم ہوتے ہی ہم جلدی سے باھر نکل آئیں اور
              باھر ایک طرف ہوکر رضا وغیرہ کا انتظار کرنے لگیں ۔ وہ تینوں اکھٹے ہی نکلے اور
              ایک ہی کار میں تینوں یعنی مسز جاوید ، جاوید اور دوسرا آدمی روانہ ہوگئے رضا یاسمین
              کے خاوند کے ساتھ ہی آئے اورقریبی اٹالین ریسٹورنٹ میں جاکر ہم نے ڈنر کیا
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #8
                دوسرے دن دس بجے یاسمین کی کال نے بستر چھوڑنے پر مجبور کردیا میں نے
                جمائی لیتے ہوئے پوچھا ۔ بولو
                یاسمین ’’آپی ابھی ابھی شمیم کا فون آیا تھا‘‘
                ’’یہ شمیم کون ہے ‘‘میں نے جاننا چاہا
                ’’ارے آپی شمیم جاوید ۔ مسز جاوید‘‘ یاسمین نے بتایا
                ’’اوہ توکیوں فون کیا اس نے ‘‘میں نے پوچھا
                ’’آپی اس نے کہا تھا کہ کیا آپ آج عشائیہ ہمارے ہاں کرسکتے ہیں ‘‘ یاسمین نے کہا اور بات جاری رکھتے ہوئے بولی ’’میں نے معذرت کرلی کیونکہ شام کے بعد تو ہم اکیلی جا نہیں سکیں گی ‘‘
                ’’یہ تو اچھا کیا ورنہ مشکل ہوجاتی ‘‘ مین نے تسلی کا سانس لیا

                یاسمین نے کہا ’’آپی کل میرے میاں کی سالانہ میٹنگ ہے وہ رات کو دیر سے آئیں گے
                تو میں شمیم سے کہا اگر ممکن ہو تو کل لنچ ہمارے ساتھ کریں میں نے وضاحت کردی تھی
                کہ صرف میں اور آپی سیما ہونگی ۔ ‘‘ یاسمین نے کہا اور میں نے پوچھا’’ پھر اس نے کیا
                بولا‘‘ ’’اس نے بولا تھا میں جاوید سے بات کرکے فون کرتی ہوں یاسمین نے کہہ کر بتایا
                کہ اس کے فون کی انتظار ہے اب ‘‘ ’’ ٹھیک ہے کل کا اگر ہوجائے تو میں بھی فارغ
                ہونگی‘‘ میں بولی اور پھر شمیم کے ہی بارے باتیں کرنے لگے کہ وہ دوسرا آدمی کون
                ہوسکتا ہے اور شمیم کی خصوصی توجہ کی مرکزیاسمین کا ہونا بھی زیر بحث رہا خیر
                یاسمین مخالف جنس میں انٹرسٹیڈ نہیں شمیم کی دال گلنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
                یاسمین نے کہا کہ’’ آپی کوئی دوسری لائن پر ہے ہولڈ کریں ‘‘
                دومنٹ کے بعد یاسمین نے ھیلو کہا تو میں نے یس کہہ کر اپنی موجودگی کا اظہار کیا
                آپی شیم کا ہی فون تھا اس نے دعوت پر کل دوپہر بارہ بجے آنے کا کہا ہے ۔ مسزاور مسٹر جاوید دونوں ہونگے ۔ یاسمین نےانفارم کیا ۔ ٹھیک ہے کل میں بھی پہنچ جاونگی تمہاری
                ھیلپ کے لئے میں نے اپناارادہ ظاھر کیا تو یاسمین بولی’’ مرا خیال ہے آرڈر ہی کرلیں گے مگر آپ پہلے آئیں گی تو پروگرام کے بارے ڈسکس کر لیں گی ‘‘۔ میں نے کہا ٹھیک ہے بنو ۔
                اور باتھ روم کی طرف بڑھ گئی ۔
                دوسرے دن میں بارہ بجے سے پہلے ہی یاسمین کے ہاں تھی ۔ ڈسکس یہی تھی کہ
                شمیم بھی ساتھ ہوگی جاوید کے۔ خیر پہلی ہی ملاقات میں سب کچھ کر جانا ناممکن اور
                غیرمہذبانہ بھی لگتا ۔ اس لئے ہم دونوں اس ملاقات کو ایک عام سی دعوت پر بے تکلف
                ہونے کا زریعہ جان کر مطمئین ہو گئیں ۔ صحیح بارہ بجے جاوید اپنی بیوی کے ساتھ
                آئے ۔ ہم دونوں نے ان کا استقبال کیا اور ڈرائنگ روم میں لے آئیں ۔ بات چیت شروع
                ہوئی مگر بے کلفی نہ ہونے پائی تھی کہ فون کی بیل ہوئی ۔ یاسمین نے فون أٹھایا
                اور بات کی ۔ دوسری طرف اس کا ہسبنڈ تھا ، یاسمین نے ریسیور رکھ کر بتایا کہ
                اس کے ھسبنڈ کی سالانہ میٹنگ ہے اوراس نےرپورٹ پیش کرنی تھی مگر وہ رپورٹ
                ھر ہی بھول گیا ہے اب میٹنگ میں ایک گھنٹہ رہ گیا ہے اور اس کا آفس آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے اگر وہ اب آتا تو اسے ایک گھنٹہ آنےجانے میں لگ سکتا ہے اس نے مجھےرپورٹ لانے کا بولا ہے ۔ اس لئے سوری میں ایک گھنٹہ کے بعد آپکے ساتھ شریک
                ہو جاؤنگی ۔ جاوید بولا نو پرابلم ہم بھی جاتے ہیں مگر یاسمین نے کہ نہیں ایسے کیسے ہو
                سکتا ہے مجبوری ہے مجھے جانا ہے کھانا ابھی ڈیلیور نہیں ہوا ۔ آپ لوگ گپ شپ
                لگائیں میں آتی ہوں میں نے یہی مناسب سمجھا کہ جاوید لوگ رک جائیں ۔ مگر شمیم بولی
                اوہ آپ اس سائیڈ پرجا رہی ہیں تو مجھے سٹی سے نکلتے ہی فلاں جگہ ڈراپ کر دیں ۔
                جاوید نے شمیم کی تائید کی اس کا پروگرام تو تھا ۔ شمیم یاسمین کے ساتھ نکل گئی
                اب میں اور جاوید رہ گئے اور موضوع توکوئی تھا نہیں یوں ہی ادھر ادھر کی ہانکنے
                لگے ۔ ’’کیا آپ مجھے باتھ روم کا بتائیں گی کہ کس جانب ہے‘‘ جاید نے پوچھا تو میں نے
                اسے بتایا اوروہ أٹھ کر ادھر کو گیا میں نے أٹھ کر کولڈ ڈرنک لیا اور پھرصوفہ پر آبیٹھی
                اتنےمیں جاوید آگیا وہ زیرِ لب مسکرا رہا تھا ، میں نے اسے دیکھا پھر اس کی شرارت بھری
                مسکراھٹ کو دیکھ کرمیں نےاس کے سراپے پر نظر دوڑائی تو اس کی پنٹ کی زپ
                کو کھلا پایا اور اس نےانڈر ویئر بھی نہیں پہنا ہوا تھا ، دیکھ کر میں جھینپ گئی
                میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جاوید صاحب وہ ایک مذاق تھا تو وہ ہنستے
                ہوئےکہنے لگا ’’کہ مذاق کو حقیقت میں تبدیل کر دیتے ہیں‘‘ ۔ تو میں نے کہا نہیں یہ ناممکن ہے
                جاوید ابھی تک بیٹھا نہیں کھڑا تھا میں نے پھر اس کی زپ کی طرف دیکھا تواس کا نیم ایستادہ دیکھ کر
                میرے منہ میں پانی آگیا میں بے خیالی میں زپ کی طرف ہی دیکھے جاری تھی اور
                سوچ رہی تھی یہ اگر کھڑا ہو جائے تو نہ جانے کیا کر بیٹھے میں ان ہی خیالوں میں تھی
                کہ معلوم ہی نہ ہوا وہ کب میرے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا اور اس کا موٹا تازہ
                صاف نظر آنے لگا بے شک خوبصوت چیز تھی مگر ابھی وہ سر جھکائے کھڑا تھا
                جاوید نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور زپ کے اندر رکھ کر بولا دیکھ تو لیا آپ نے اب چھو
                کر بھی دیکھو ، جاوید صاب یہ تو زیادتی ہے یہ کہتے ہوئے میں ہاتھ نکالنے لگی تو جاوید نے میرا ہاتتھ پکڑ لیا اور وہیں دبائے رکھا ۔ اس کے گرم گرم ہتھیار سے جب ہاتھ لگا تو ایک کرنٹ میرے پورے جسم میں
                دوڑ گیا میں نے ہولےسے انگلیوں سےٹٹولا اور پھر ہاتھ میں لے لیا
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #9


                  جاوید نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور زپ کے اندر رکھ کر بولا دیکھ تو لیا آپ نے اب چھو
                  کر بھی دیکھو ، جاوید صاب یہ تو زیادتی ہے یہ کہتے ہوئے میں ہاتھ نکالنے لگی تو جاوید نے میرا ہاتتھ پکڑ لیا اور وہیں دبائے رکھا ۔ اس کے گرم گرم ہتھیار سے جب ہاتھ لگا تو ایک کرنٹ میرے پورے جسم میں دوڑ گیا میں نے ہولےسے انگلیوں سےٹٹولا اور پھر ہاتھ میں لے لیا
                  اب آگے پڑھیں

                  اس کا ہاتھ میں لینا اچھا لگا ، ’’اسے باھر نکال لیں آپ ‘‘ جاوید نے کہا تو میں اسے باھر
                  نکال کر دیکھنے لگی اگر کھڑا ہوتا تو سات انچ سے کم نہ تھا مجھے اس کے ٹوپے نے
                  متاثر کیا جو اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئےپوریے پائپ پر حاوی دکھائی دیتا تھا
                  تین انچ کی سموتھ گولائی کے اوپرایک بڑی سی خوبصورت آنکھ بہت بھلی لگ رہی تھی
                  میرا خیال تھا کہ میرے چھونے سے صاحب انگڑائی لے کر أٹھ جائیں گے مگر اس پر تو
                  کوئی اثر ہی نہ ہوا یوں ہی نہ کھڑا نہ بیٹھا نہ سویا نہ جاگا کی کیفیت میں پڑا رہا ۔ میں
                  نے اس کو چوما اور پھر منہ میں لے کرچوسا بھی مگر اس نے شاید قسم کھائی ہوئی
                  تھی ۔ میں نے جاوید کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا ’’لگتا ہے آپ کچھ نروس
                  ہو‘‘۔ جی جی ابھی ٹھیک ہوجائیگا ۔ وہ اعتماد سے بولا ، میں گیلی ہوچکی تھی اور چاہتی
                  تھی کہ یاسمین لوگوں کے آنے سے پہلے کچھ ٹھنڈی ہوجاؤں ۔ یہی سوچ کر میں نے جاوید
                  کا ہاتھ پکڑا اور بیڈ روم کے ساتھ والے روم میں لے آئی جس میں نئی چادر بچھا ہوا بیڈ
                  ہماری انتظارکر رہاتھا ۔ کمرے میں داخل ہوکر میں نے دروازہ لاک کردیا مگر اس کا ایک
                  دروازہ بیڈروم میں بھی کھلتا تھا جس میں کوئی کنڈا یا لاک سسٹم نہ تھاچنانچہ اسے یوں ہی
                  بند کرکے آئی توچونکہ جاوید نروس لگ رہا تھا اسلئے اس کی ٹائی کے ساتھ شرٹ کو بھی
                  اتار دیا اور پھر بیٹھ کراس کی پینٹ بھی اتار دی اب اس کا لن میرے سامنے اورمنہ کے
                  قریب تھا میں نے اسے پکڑ کے اس کی ٹوپی کے بوسے لئے اور پھر چوپا لگایا مگر لن
                  تھا کہ جیسے کوئی مُردہ اس میں کوئی حرکت ہی نہ ہورہی تھی ۔ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں
                  ہوا تھا ۔ سوچا ننگی ہوجاؤں شاید میرا جسم دیکھ اس میں جان آجائے ۔ میں نے بڑی ادا سے
                  اپنے آپ کو ایک ایک کپڑے سے آذاد کیا اور ایک مست سی چال چلتے ہوئے کپڑے ایک طرف
                  جا کر رکھ دئیے میرا خیال تھا میری مٹکتے کولہے اور لچک کھاتی کمر دیکھ کر لن جاگ کر
                  لہرائے گا مگر نہیں ، یوں لگتا تھا کہ مجھ میں کوئی کشش نہیں رہی یا میں کسی مردے کے
                  ساتھ بند کردی گئی ہوں ، پھر بھی میں نا امید نہ تھی میں نے جاوید کا ہاتھ پکڑا اور اسے بیڈ پر لے آئی اور اسے اپنے ساتھ لٹا لیا ۔ میں نے ایک ہاتھ سے اسکے نیم جان لوڑے کو مٹھانا
                  شروع کردیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے سینہ کے بالوں سے کھیلنے لگی ۔ میں اسے
                  یہ تاثر نہ دینا چاہتی کہ میں اس میں کوئی کمی ہے مرد کو اپنی مردانگی پر ضرورت سے
                  زیادہ بڑھ کر مان ہوتا ہے اگر اسے اس خوش فہمی کے خلاف احساس دلایا جائے تو خطرناک
                  درندہ بھی بن جاتا ہے اور میں کسی خطرہ سے دوچار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔
                  یہی خطرہ اور خدشہ کافی تھا کہ کیاری کی آبیاری نہ ہوسکے گی اور میرا خود اپنے پر جومان
                  تھا اس کو ٹھیس لگتی کیونکہ میں تو سمجھتی تھی کہ اگر میرا جسم کوئی بوڑھا بھی دیکھ
                  لے تو وقتی طور پرجوان ہو جائے کوئی خصی دیکھ لے تو اس کا بھی کھڑا ہوجائے اب
                  میرا اور جاوید دونوں کا مان داؤ پر لگا ہوا تھا ابھی تک جاوید نےکوئی پیش قدمی نہ کی
                  تھی میں نے اس کا ہاتھ پر بوسہ دیا اور اسے اپنے ممے پر رکھ دیا اس نے تھوڑا سا دبایا
                  اور پھر نپل کو دبانے لگا اس نے میرے لبوں پر بوسہ دیا میں ایک ہاتھ سے برابر اس کے
                  لن کو دبا اور مٹھا رہی تھی مگر وہ اسی حالت میں نیم مردہ پڑا رہا جاوید نے میرے دوسرے
                  ہاتھ پر بوسہ دیا اور درمیانی أنگلی کو چُوسنے لگا انگلی اچھی طرح چوس چوس کے وہ میرا ہاتھ اپنے پیچھے لے گیا اور آہستہ سے میری گیلی أنگلی اپنے پچھلے سوراخ پر ٹکا کر
                  وہاں مساج کروانے لگا ، اس سوراخ کو میری انگلی چھوتی گئی تو میں نے اپنے دوسرے ہاتھ
                  میں تحریک محسوس کی اس کے لن نے تھوڑی سے انگڑائی لینے کی کوشش کی تھی اور
                  میں حیران رہ گئی کہ اسکے پشٹن کا چور سوئچ اس کی پیچھے تھا اسی خیال میں تھی کہ
                  مجھے شک گذرا کہ بیڈ روم میں کوئی ہے کونکہ بھڑے ہوئے دروازے میں دڑاڑ آگئی تھی اور اسکی کھلنےکی آواز بھی آئی تھی مگر کمروں میں اندھیرا تھا کچھ دیکھنے سے قاصر رہی
                  میں نے اس کے سوراخ پر انگلی سے مساج کرتے ہوئے تھوڑا سا دبایا تو أنگلی اندر دھنس
                  گئی اور ادھر اس کا پشٹن پوری طرح رانوں سے ٹکرانے لگا ۔ اب جاوید میں خود اعتمادی
                  آگئی تھی اس نے مجھے اپنے بالوں بھرے سینہ سے بھینچ لیا اس کی چھاتی کے بال میرے
                  مموں کو گدگدانے لگے اور میں برابر اس کی گانڈ میں أنگلی کرتی رہی جس سے اس کے
                  پشٹن کی بیٹری چارج ہوتی رہی ۔ وہ مست ہو کر شرارتوں پر آمادہ ہوچکا تھا مگر مجھے ڈر
                  تھا کہ اگر انگلی نکالی تو وہ کہیں پھر نہ روٹھ جائے ۔ میں أٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کا ہتھیار
                  دیکھنے لگی اس کی أٹھان اور سختی دیکھ کر میری چوت میں پانی آرہا تھا میں جلدی سے
                  جاوید کے اوپر آگئی اور لن پر بیٹھ گئ موٹا ٹوپا اندر جاتے ہوئے سواد دے گیا جیسےجیسے
                  وہ اندر جاتا گیا غار کی دیواروں سے ٹکراتا رہا پھسلتا پھسلتا جا کر جب منزل کو چُھو
                  چکا تو چوت نے میزبان کی حیشیت سے اسے بھینچ کرخوش آمدید کہا​
                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #10
                    جب پوری طرح اندر لےچکی تو اس کے
                    اوپر ٹک گئی اور جاوید پرجھک کر اسے چومنے لگی جاوید میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا رہا
                    پھر میں نے کھیل شروع کرنے کی ٹھانی اور اوپر کو أٹھ کر زور سے نیچے ہوئی دوچاربار
                    ایسا کرنے سے میری چوت کی دیواروں نے تھوڑا تھوڑا رس چھوڑا اور پھسلن سی ہوگئی
                    مگر یہ کیا لن ڈھیلا ہو گیا اس میں وہ اکڑ نہ رہی جو مجھے شاد کرسکتی میں مایوس سی
                    ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی اور جاوید کی طرف دیکھا جو مجھے اب زہر لگ رہا تھا دل کرتا تھا
                    اسکا کاٹ کر اسی کے ہاتھ میں دے دوں یا گانڈوکی گانڈ میں ٹھونس دوں ۔ اس پر کچھ ظاھر
                    نہ ہونے دیا مگر اسے احساس اور شرمندگی تو تھی ہی ۔ وہ کھسیانا سا ہو کر بولاکہ یہ میری
                    کمزوری ہے میں نے آپ کو بولڈ پایا تو سوچا آپ سمجھ جائیں گی اس لئے موقع سے فائدہ
                    اٹھانا چاہا ، کوئی بات نہیں جاوید ایسا ہوتا ہے میں نے اس کی دلجوئی کی ، مگر شمیم کے
                    ساتھ تو کوئی ایسا پرابلم نہیں ہوتا ہوگا میں نے اس سے پوچھا میرے زہن میں مووی تھیٹر میں
                    شمیم کا دوسرے آدمی کا لپٹنا گھوم گیا تھا ۔ ’’شروع میں توکچھ پرابلم ہوئی تھی کیونک یہ ارینجذ
                    میرج تھی اور وہ اس کو سمجھ نہ پا رہی تھی مگر جب وہ یہاں آئی تومیں نے أسے اپن بوائے فرینڈ سے ملوایا اوراپنا پرابلم بتایا تب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ برضا ہوئی
                    شروع میں تو میرے بوائے فرینڈ کے ساتھ کرنے نہ صرف وہ جھجھکی بلکہ شدید
                    احتججاج بھی کیا ۔ مگرہم نے اسے ترغیب دی کہ جب میرا بوائے فرینڈ میرےساتھ کرےتو وہ دیکھتی رہے ، وہ اس شرط پر راضی ہوئی کہ وہ چھپ کر دیکھے گی ، ہمیں کیا اعتراض تھا
                    ایک رات میرا بوائے ہمارے گھر ہی سویا میں نے شمیم کو بولا وہ بے شک دوسرے کمرے
                    میں چلی جائے اور دیکھے پھر میرے بوائے فرینڈ نےمجھے لگایا اور شمیم دیکھتی رہی
                    جب ہم فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر بعد شمیم کمرے میں اکر میرے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹ گئی
                    أس نے کچھ نہ پہنا تھا شاید کپژے دوسرے کمرے میں ہی أتار آئی تھی اس نے میرا اکڑا
                    ہوا لن ہاتھ میں لے لیا اور مجھے پیار کرنےلگی میں نے أسے پیار کرتے ہوئے اس کی
                    چوت پر ہاتھ پھیرا تو اتنی گرم تھی جیسے کوئ چمنی ہو میں اس کے اوپر آگیا اور اس کی
                    ٹانگوں میں بیٹھ کر لن اس کی چمنی پر رکھ اندر جلنے کو ڈالدیا ۔ میرا بوائے فرینڈ کب پیچھے
                    رہنے والا تھا اس نے اپنا میری گانڈ میں ڈال کرمجھے دھکے مارنے لگا جتنا زور سے وہ
                    دھکا لگاتا اتنے زور سے میرا بھی شمیم کے اندر چوٹ لگا تا۔ شمیم میرے بوائے فرینڈ سے
                    کہتی زور سے اس کی گانڈ مارو اتنی ہی زور سے وہ مجھے دھکا لگاتا اور میرا لن شمیم کی چوت مییں ایسی ہوئی کاروائی کرتا اس طرح شمیم کے ساتھ اب کوئی پرابلم نہیں ۔ جس وقت مرا بوائے فرینڈ نہ ہومیں نے گھر میں مختلف قسم کے ڈلڈو جمع کئے ہوئے ہیں ۔ میں بڑی توجہ سے
                    سنتی رہی میں خود بہت گرم ہوچکی تھی ۔ میں نے جاویدسے پوچھا کیاتمہارا بوائے فرینڈ
                    شمیم کا بھی بوائے فرینڈ ہے مجھے پھر شمیم کا مووی تھیٹر میں کسی کےساتھ گلے ملنا
                    یاد آگیا ۔ اوہ نہیں أن کی اب اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے بس ۔ وہ پُر اعتماد لہجے میں بولا میں نے
                    پھر ایک سوال کردیا کہ تمہیں یقین ہے کہ وہ دونوں تمہاری غیر موجودگی کا فائدہ نہیں أٹھاتے ہونگے ۔ تو وہ بولا وہ دونوں بہت اچھے ہیں مجھ سے دونوں بے وفائی نہ کریں گے اگر وہ
                    کچھ کرتے بھی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ان دونوں کی خوشی مجھے عزیزہے
                    میرے ذھن میں پھر سوال أٹھا تو میں نے پؤچھا کیا شمیم تمارے ساتھ خوش ہے ہو بولا ’’ دکھنے میں تو خوش ہے مگراس کے اندر کیا ہے کیسے کہہ سکتا ہوں
                    اب وہ ادھردھر دیکھنے لگا میں نے پوچھا کیا دیکھ رہے ہو تو اس نے کہا کہ کوئی چیز مل جائے
                    موم بتی یا کوئی ڈلڈو ٹائپ ، تو میں سمجھ گئی اور أٹھ کر ادھر ادھر دیکھا پھر بڑھ کر کمرے کے کونے میں پڑے سنگھار میزکی درازوں کوچیک کیا تو اتفاقا ایک موم بتی جو کافی موٹی
                    تھی مل گئی میں وہ لے کر پلٹی تو پھر مجھے ایسا لگا کہ کوئی بیڈ روم میں ہے ۔ کون ہوسکتا
                    ہے آخر یاسمین اتنی جلدی تو نہیں آسکتی تھی ۔ میں بیڈ پر آئی اور جاوید کو گھٹنوں پر بیھٹنے
                    کوکہا اور تھوک لگا کر موم بتی اس کی گانڈ میں دے ڈالی ساتھ میں اسکا لن ہاتھ میں لے لیا جو
                    جلدہی مونسٹر کی طرح بپھرنے لگا میں نے اس کا بوسہ لیا اور بیڈ پر لیٹ گئی اور جاوید
                    کو اپنے اوپر کھینچ لیا اس نے میری ٹانگوں میں بیٹھ کر اپنا ٹوپا میری ننھی منی گڑیا پر
                    رکھا تو گڑیا اس کے اشتیاق اور ڈر سے کانپنے لگی ، اس کو اندر لینے کے لئے بے تاب تھی
                    اور اسے یہ بھی ڈر تھا کہ پتہ نہیں اند کتنا نقصان کر کے آئے میں نے اپنی ٹانگیں اسکی
                    پیٹھ پر جکڑ لیں اور وہ ھٹ ھٹ کر چوٹیں لگانے لگا پہلی دو چارچوٹوں کےبعد چوت کو ہر چوٹ پر انوکھا سواد ملتا میں نے ایک پاؤں اسکی گانڈ میں پڑی موم بتی پر رکھ دیا اور جب وہ مجھے دھکالگاتا تو میرا پاؤں موم بتی پر دباؤ بژھاتا ، مجھے بڑا مزا آنے لگا ابتک جو ہوا بھول گئی تھی اور اب صرف چدوا رہی تھی بڑے شوق سے ۔ جاوید کے کرار ے دھکے جلد ہی میری ندی کے بہنےکا موجب بنے ادھر جاوید نے بھی اپنے حوض سے نہر پھر بھر دی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لپٹ گئے اور ایک دوسرے کو بوسے دینے لگے ۔ اب مجھے یاسمین کا خیال آیا تو جلدی سےکپڑے پہن لئے اور جاوید نے میری پیروی کی ۔ لائٹ آن کی تو بیڈ روم سے یاسمین اور شمیم برآمد ہوئیں ہم حیران رہ گئے اور پوچھا تم کب آئیں تو انہوں نے بتایا جب تم اس کمرے آئے اس کے تھوڑی دیر بعد ۔




                    تم کب آئیں تو انہوں نے بتایا جب تم اس کمرے
                    آئے اس کے تھوڑی دیر بعد ۔ جاوید نے شمیم سے پوچھا تم نے تو جواد کوملنا تھا پھرواپس کیسے
                    آئی ہو ۔تو اس نے بڑی درستگی سے کہا کہ جاوید ہم تینوں کی کوشش سے تم پھنس چکے ہو
                    جس طرح تم نے مجھے ذلیل وخوار کیا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں تمہیں نہ صرف ذلیل و خوار
                    کروں بلکہ تمہاری ایک اک پائی بھی تم سے چھین لوں ۔ ، مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی تویاسمین بولی ۔ کہ مووی ٹھیٹر میں شمیم نے مجھے ایک کاغذ دیا تھا میں نے اسے پرس میں
                    رکھا اور بھول گئی میں یہی سمجھی تھی کہ شمیم لزبین ہے اور لو لیٹر لکھا ہوگا ۔ اس لئے
                    آپ سے بھی ذکر نہ کیا دوسرے دن یعنی کل میں نے پرس کھولا تو شمیم کا لیٹر ھی تھا
                    کھول کر دیکھا تو لکھا تھا میں مشکل میں ہوں مجھے اکیلے ملو یا اس فون پر بات کرو
                    یہ فون میرا پرائیویٹ ہےمگر صرف ان کمنگ ہے میں فون نہیں کرسکتی میں نے فون
                    کیا تو شمیم نے کہا پلیز ساتھ والے کیفتیریا میں ملو اور ہم نے آدھا گھنٹہ بعد ملاقات کی
                    اور شمیم نے وہاں مجھے جاویداور اسکے بوائے فرینڈ کے بارے بتایا ساری سٹوری
                    سن کر ہم دونوں نے ایک پروگرام بنایا کہ جاوید جیسے لوگوں کو سبق ضرور دینا چاہئیے
                    تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں اس کی آواز پُرجوش تھی ’’ مگرتم نے مجھےبھی ہوا نہ لگنے دی‘‘
                    میں نے رنجیدہ ہوکر کہا ۔ تو یاسمین بولی ’’ آپی مجھے معلوم تھا آپ سے اگر بات کی تو پورا پورا ساتھ دیں گی مگر پھر اس طرح حقیقت کا رنگ نہ بھراجاسکتا ممکن ہے آپ ایسا سوال کردیتیں جس سے یہ مشکوک ہوجاتا کیونکہ یہ ایک بیرسٹر ایٹ لاء ہے اور کافی مشہورہے
                    جاوید نے غصہ سے کہا تم عورتیں بڑا سیانا بنتی ہو عدالت کو ثبوت چاہئیے ہوتا ہے تم اگر
                    تینوں بھی مل کر میرے خلاف گواہی دو توبھی بنا ثبوت میرا بال بھی بیکا نہ کرسکوگی تو یاسمین بولی ۔ ہم نے تمہاری ساری گفتگو ٹیپ کرلی تھی جب تم نے موم بتی منگوائی اس وقت وہ ٹیپ ہم نے باھرجا کرچھپادی اس وقت پولیس شاید تمہارے گھر کی تلاشی لے کر ڈلڈوبرامد کرچکی ہوگی کیونکہ جب ہم باھر گئی تھیں تو پولیس اسٹیشن میں رپورٹ لکھوا آئی تھیں ، جاوید أٹھا اور غصہ سے شمیم کیطرف بڑھنے لگا مگر ڈور پر ناک ہونے کی بدولت اس کے قدم آگےنہ
                    بڑھ سکے ۔ دروازہ کھولکر دیکھا تو قریبی ریستوران سے کھانا ڈلیور کیا گیا تھا ۔ جاوید اسی وقت
                    گھر سےنکل گیا جاتے جاتے اسے دیکھا گیا وہ اپنی ذپ بند کرتا جا رہا تھا جو شاید اب کبھی
                    نہ کھل سکے گی ۔ ان دونوں نے مجھے گلے لگا لیا شمیم کے خوشی سے آنسو نکل رہے تھے
                    میں نے پوچھا’’ بات پولیس تک پہنچ چکی ہے اور میں بھی لپیٹ میں آسکتی ہوں ۔‘‘ نہیں آپی
                    یاسمین بولی ’’ پولیس والوں سے بات ہوچکی ہے کہ ایک خاتون جاوید کو پکڑوانے کے لئے کردارادا کررہی ہے اورنہ وہ پولیس کےسامنے ہوگی نہ اس کا نام آنا چاہئیے ‘‘ یاسمین نے پلیس کے مشورے سے جاوید اوراسکے بوائے فرینڈ سے تعاون کرتی رہی اور پولیس کوثبوت
                    کی ضرورت تھی کہ شمیم نے جو رپوٹ لکھوائی تھی جاوید کے خلاف تو پولیس کی رہنمائی
                    کی بدولت شمیم کو حوصلہ ہوا کیوں کہ جاوید ایک کامیاب بیرسٹر تھا اس پر پولیس کچ ہاتھ نہ ڈالا چاہتی تھی ۔’’ ٹھیک ہے اگر نام آبھی گیا تو رضا ایک پاکستانی کی ھیلپ کا جان کر یہ بات اگنور کردیں گے ۔ میں نے کہا تو یاسمین بولی ’’آپی فکر ہی نہ کریں پولیس اسکے پیچھے کب کی لگی ہوئی اور اسی لئے انہوں نے پرامز کیا ہے کہ خاتون کے لئے کوئی ایسا امکان نہ چھوڑیں گے
                    کہ اس کی خانگی زندگی میں کوئی خلل آئے ۔ جاوید کو گرفتار کرلیا گیا پولیس نے کیس کچھ اس طرح بنایا کہ سیما اور یاسمین کا نام تک نہ آیا ۔ شمیم کو جاوید کی ساری جائیداد مل گئی
                    جو کہ بلینز ڈالرز میں تھی ۔ جاوید سزا سننے کا انتظار کر رہا ہےجوکہ عمر قید تک ہو سکتی ہے ختم ُشد
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X