Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

    1اپڈیٹ







    یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو مادر وطن کے لیے جان دینے کو ہر پل تیار رہتا تھا۔۔۔

    جس کے لیے سب سے پہلی ترجیح ملک و ملت کا تحفظ تھا۔۔۔

    (کہانی کے کردار صرف خیالاتی ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ صرف مصنف کے دماغ کی اختراع ہے۔۔)



    رات کے وقت سارا آسمان کالے دھوئیں سے

    بھر گیا تھا………… ایندھن کے جلنے کی

    بدبو فلائٹ لیفٹیننٹ شمشیر قدوائی کی ناک میں آ رہی تھی…………..

    وہ اپنے پیراشوٹ کے سہارے اس انجانی سرزمین پر اتر رہا تھا………….

    دھڑاممممم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ……………………!!!

    اس سے پہلے کی اس کے پاؤں زمین کی سطح سے ٹکراتے ………. نیچے کہیں تیز

    دھماکا ہوا………

    وہ سمجھ گیا کہ اس کا raf b17 لڑاکا طیارہ ٹکڑے- ٹکڑے ہو گیا ہو گا………

    جو آخری بات اس کو یاد تھی وہ یہ تھی اس کے فائٹر جیٹ کے بائیں حصے میں ایک

    دھماکا ہوا تھا اس کے بعد اس کو آگ کا آلارم سنائی دیا تھا جس سے اس کو پتہ چل گیا کہ یہ آگ جو الگ چکی ہے یہ جلدی ہی انجن تک جا پہنچے گی …

    وہ اپنے ٹرینر کی دی ہوئی ہدایات کو اچھے سے سمجھتا تھا اس نے فوراً ایمرجنسی ایگزٹ کا بٹن دبا دیا تھا…….

    نیچے کو گرتے ہوئے وہ یہی امید کر رہا تھا کہ جلدی ہی وہ دشمنوں کے ہاتھ میں ہوگا

    ………….. یا پھر نیچے گرتے ہی اسے گولیوں سے بھون دیا جائے گا……

    لیکن جو وہ سوچ رہا تھا ویسا کچھ بھی نہ ہوا وہ سنبھلتے سنبھلتے اس سر زمین پر اتر گیا اتنا سنبھل سنبھل کر اترنے کے باوجود بھی اس کے پورے جسم میں درد کی تیز لہر دوڑ گئی……….. ایک دو لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد وہ بڑی پھرتی سے

    اٹھا…..

    اپنے پیراشوٹ کو اپنے جسم سے

    الگ کیا………… اب تک اس کی آنکھیں

    اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہو

    چکی تھیں…….

    جہاں پر وہ کھڑا تھا جو ایک جنگل کا علاقہ لگ رہا تھا……. بالکل سنسان………. لیکن وہ جانتا تھا کہ جلدی ہی کوئی نہ کوئی اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں آ جائے گا……

    اسنے اندھیرے میں ہی اندھا دھند ایک طرف کو دوڑنا شروع کر دیا………..کوئی 10 منٹ تک وہ بے تحاشہ بھاگتا رہا اس کے

    بعد اسے دور کچھ روشنی سی نظر آنے لگی

    لیکن اب اس جسم اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا …….…………ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسے قریب ہی ایک غار سا نظر آیا ….

    وہ تیزی سے اس کے اندر چلا گیا…… اور اندر گھستے ہی زمین پر گر سا گیا…….. دھیرے-دھیرے ایک بیہوشی اس پر چھانے لگی اور وہ ہوش سے بیگانہ ہوتا گیا………

    پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ بے ہوش رہا… دھیرے-دھیرے وہ ہوش میں واپس لوٹنے لگا ۔۔۔۔

    اسکا دماڑ ہوش میں آ چکا تھا لیکن اس جسم ابھی بھی آدھی بہوشی کی حالت میں تھا…..بہت زیادہ تھکن اور درد کی وجہ سے اس کے دماغ کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا.. اسنے پچھلے کچھ گھنٹوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا….

    یہ 1999 کا وقت تھا………….کارگل

    جنگ کا دور تھا…….وہ پاکستانی فضائیہ

    میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے فرائض سر انجام دے رہا تھا اور لڑتے لڑتے دشمن کی سرحد میں پہنچ گیا تھا…. جب اس کے فائٹر جیٹ پر حملہ ہوا تھا اس وقت وہ دشمن کی سرحد کے اندر لگ بھگ 25_20 کلومیٹر اور تک آ چکا تھا….اسکا مطلب ابھی بھی

    وہ سرحد سے تقریباً 20 کلومیٹر دور

    ہیلو….

    یہ سوچتے ہی اس کے اندر ایک نیا جوش سا بھر گیا… اس نے اپنی کمر پر سے اپنے کٹ بیگ کو اتارا اور اپنا سامان چیک

    کیا…. ایک ریوالور، کچھ

    چاکلیٹ، خشک میوہ جات، ایک فلاسک جس کے اندر کچھ جوس تھا اور کچھ اور سائنسی آلات .... ساتھ میں ابتدائی طبی امداد کا کچھ سامان……

    پہلی بار اس نے اپنے آپ پر دھیان دیا، اُس کے بائیں پاؤں کی پنڈلی میں درد ہو رہی تھی ….شاید جب وہ زمین پر گرا تھا تب یہ چوٹ لگی ہو گی.......

    اس نے بیگ میں سے ڈیٹول اور کاٹن نکالی

    اور کاٹن کو پوری طرح ڈیٹول میں بھگو لیا ….. پھر اس کاٹن کو اپنی پنڈلی پر جہاں چوٹ لگی ہوئی تھی دھیرے دھیرے سے پھیرنے لگا خون صاف ہوتے ہی اسے دکھائی دیا کہ اسکی پنڈلی میں ایک گہرا گھاؤ ہو چکا ہے……

    دھات کا ایک ٹکڑا اندر دھنسا ہوا تھا…..اور شاید کافی خون بھی بہہ چکا تھا……

    وہ تو حیران ہو رہا تھا کہ ابھی تک اس نے یہ برداشت کیسے کر لیا… پھر اس کے اندر سے ہی جواب بھی آیا….شاید جان کا خوف،

    درد پر بھاری پڑ گیا تھا…

    اس نے دھات کے ٹکڑے کے سرے کو پکڑا اور اپنی آنکھ بند کر کے، پورا زور لگا کر، ایک جھٹکے سے باہر کھینچ دیا....

    اس نے اپنی خود کی ہی درد بھی آہ سنی اس سے تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی....

    اس کو ایسا لگا کہ وہ پھر سے بے ہوش ہو جائے گا ......

    اس نے پھر سے ڈیٹول سے بھیگی ہوئی کاٹن کو اپنے زخم پر زور سے دبا دیا…..

    کچھ دیر تک لمبی لمبی سانسیں لے کر اس نے پھر اپنی طاقت کو اکٹھا کیا……

    اس نے فلاسک کو نکالا اور اور جوس کا ایک بڑا سا گھونٹ اپنے گلے سے نیچے اتارا………طاقت کی ایک لہر اس کے سارے وجود میں دوڑ گئی……… پر کچھ ہی پل بعد اسے محسوس ہوا کہ ایک نئی جہت اس کے وجود میں آ گئی ہے…

    غار میں اب ہلکی سی روشنی ہونے لگی تھی…….. "شاید صبح ہو گئی ہے!!"

    اس نے اپنے آپ سے کہا…

    وہ دھیرے سے اٹھ کر باہر آیا……..درد کی وجہ سے اب اس کے ایک پاؤں میں لنگڑاہٹ

    تھی……..پر اس آنجان جگہ پر بھی تو بہت دیر تک نہیں رکا جا سکتا تھا….

    اس نے اپنے بیگ میں سے کمپاس نکالا اور سمتوں کو چیک کیا…..اگر اسے جلدی ہی واپس پہنچنا تھا تو اس کو (مشرق کی سمت) میں چلنا تھا …….. اس نے آخری بار

    چاروں طرف دیکھا اور مشرق کی سمت چلنا شروع کر دیا……..

    پہلے دھیرے دھیرے اور پھر تیزی کے ساتھ وہ اپنے قدم بڑھا رہا تھا… اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رکھ رہا تھا کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آ جائے……اپنی وردی کی وجہ سے وہ آرام سے پہچانا جا سکتا تھا……

    گھنے جنگل میں چلتے چلتے اب قریب 2 گھنٹے ہو چکے تھے ………… پیاس کی وجہ اس کے ہونٹ اور گلا بالکل خشک ہو چکے تھے اور گلے میں کانٹے چبھ رہے تھے ………..اور تبھی جو اسے دکھائی دیا وہ مانو اس کے لیے زندگی کے مترادف تھا………..

    اس نے پانی کے بہنے کی آواز سنی شاید قریب ہی کہیں پہاڑی ندی (دریا) بہ رہی تھی………….وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا ندی تک پہنچ گیا ………….قریب 10 میٹر چوڑی اور 2-3 فٹ گہری ندی تھی ……….. ندی کے پاس آکر وہ اندھا دھند ندی میں کُود گیا… 2-3 ڈبکی لگانے کے بعد اس نے جی بھر کر پانی پیا اور پھر کچھ پلوں کے لیے پانی میں ہی لیٹ گیا…………..

    اب وہ اپنے آپ کو پھر سے تازہ دم محسوس کر رہا تھا………. اس نے اپنے بیگ میں سے نکال کر کچھ چاکلیٹ کھائیں اور پیٹ میں دوڑتے چوہوں کو بھی کچھ سکون شانت کرنے کی کوشش کی….

    ندی کو پار کرنے کے بعد وہ دوسرے کنارے پر آ گیا ……..آگے جو اس نے دیکھا وہ ایک

    پہاڑی علاقہ تھا…….دور اونچے اونچے پہاڑ دکھائی دے رہے تھے….انکے آگے گھنے جنگل

    ….اور کہیں کہیں ایک دو مکان……….جو مکان اسے سب سے نزدیک دکھائی دیا وہ بھی وہاں سے تقریباً 1-1.5 کلومیٹر دور تھا………….

    کون جانتا تھا کہ وہ ایل او سی (انڈین مقبوضہ کشمیر) میں ہے .... اور دن کی روشنی میں وہ خطرے میں رہے گا….. اس نے پھر شام ہونے تک ہی انتظار کرنے کا فیصلہ کیا….اور درختوں کے بیچ میں چھپ کر بیٹھ گیا....

    شمشیر کو پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ نیند کی وادی میں اترتا چلا گیا…. درختوں کی گھنی چھاؤں اور چاروں طرف سے لگ رہی ٹھنڈی ہوا نے اس کو نیند کہ گود میں پہنچا دیا……….

    آنکھ کھلنے پر اس نے وقت دیکھا…………..4.00 بجے کا وقت ہو رہا تھا……..اب اس کے پاؤں میں پھر سے درد ہونے لگی تھی اور اوپر سے اسے خود کو چھپانے کے لیے بھی کسی جگہ کا انتظام اسے کرنا تھا……………

    جو ایک گھر اسے سب سے نزدیک دکھائی دے رہا تھا وہ خود کی طاقت مجتمع کر کے اس طرف چل پڑا… پہاڑی راستے اس کو 1-1.5 کلومیٹر کی کا فاصلہ طے کرنے میں بھی اس کو قریباً 1 گھنٹہ لگ گیا………….

    وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا……….گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کھلا میدان اور قریب 50 میٹر دور ایک جھونپڑی نما طبیلا…………..گھر کے دونوں طرف پیڑ تھے اور پیڑوں کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑ گھر کے ایک طرف کا میدان خالی تھا اور اُدھر سے ایک پگڈنڈی کہیں دور کو جا

    رہی تھی…………..شاید اس راستے کا استعمال گھر میں رہنے والے اپنے آنے جانے کے لیے کرتے تھے۔۔۔۔

    شمشیر قدوائی جانتا تھا کہ وہ ایل او سی کے علاقے میں ہے اور یہ اسکی امید کی ایک وجہ تھی…….وہ جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ مانتے ہیں

    اور شاید اسکی مدد بھی کریں……

    گھر اور طبیلے کے بیچ میں جو خالی میدان تھا، اس کے ایک طرف جہاں پہاڑ تھا وہیں پیڑوں کے آگے جھاڑیوں کا ایک بڑا سا جھرمٹ تھا…………. شمشیر دبے پاؤں جھونپڑی کے پیچھے سے ہوتا ہوا ان جھاڑیوں کے سامنے پہنچ گیا اور وہیں چھپ کر انتظار کرنے لگا…………..

    دھیرے دھیرے اندھیرا چھانے لگا تھا… اور پھر گھر کے 1-2 کمروں میں روشنی آن ہو

    گئی …………….پر ابھی تک گھر کے اندر سے کسی بھی انسان کی صورت اس کو دکھائی نہیں دی تھی …

    (کھڑکی کا شیشہ) سے اندر کا نظارہ شمشیر کو دکھائی دے رہا تھا……… وہ گھر کا کچن تھا……….. جو کمروں میں سب سے آگے بنا ہوا تھا....کچن کے اندر ایک لڑکی کام کر رہی تھی ……….. دور سے شمشیر کو اس کی صورت تو نہیں دکھائی دی پر جسم سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ تقریباً 30 سال کی ہوگی…..پتلا جسم……….کالے لمبے بال اور کشمیری لباس زیب تن کیے ہوئے تھی……

    میں (شمشیر قدوائی) کافی دیر تک وہیں پر چھپ کر بیٹھا رہا …………..وہ لڑکی ابھی بھی کچن میں کام کر رہی تھی………… بیچ بیچ میں وہ گھر کے اندر کے کمروں میں جاتی اور پھر لوٹ کر کچن میں آ جاتی تھی….

    سورج اب چھپنے لگا تھا اور آسمان کا رنگ لال ہونے لگا تھا……….بھوک، درد اور تھکان سے میرا برا حال تھا اور من ہی من میں میں دعا کر رہا تھا جو بھی لعگ اس گھر میں رہتے ہیں وہ مجھے یہاں چھپنے کی جگہ دینے کو تیار ہو جائیں گے……….

    تبھی گھر کا دروازہ کھلا…….اور جو لڑکی کچن میں کام کر رہی تھی وہ باہر آگئی…. اسکے ہاتھ میں ایک بالٹی تھی………وہ سیدھی وہاں بنے ہوئے طبیلے میں چلی گئی.5-10 منٹ بعد ہی وہ واپس آئی، اور گھر کے سامنے کھڑے ہوکر آواز لگائی…

    "شازیہ... شازیہ..."

    اگے پھر اس نے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا …………… شاید اس علاقے کی مقامی زبان تھی………….

    اب وہ لڑکی ٹھیک میرے سامنے کھڑی تھی…قریب 20-25 میٹر دور……..یہاں سے اسکا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا… گھر کے باہر لگے بلب کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی…………گورا رنگ…. قد لگ بھگ 3"5 کے آس پاس………..چہرے پر ایک عجیب سی سختی تھی……..

    "شازیہ ……………………… اس نے پھر سے آواز لگائی ………..

    اس بار گھر کا دروازہ کھلا، ایک اور لڑکی گھر سے باہر نکلی………… اس کے ہاتھ میں 2 بالٹیاں تھیں…………….

    پھر میرے سامنے سے ہوتی ہوئی دونوں طبیلے میں چلی گئیں……….. جتنی دیر میں وہ دونوں طبیلے تک پہنچیں ……….میں نے اس دوسری لڑکی کا بھی معائنہ کر لیا….وہ پہلے والی سے عمر میں چھوٹی تھی ….یہی کوئی 20-22 سال کی…….لمبی اس سے 1-2 انچ ذیادہ ہی تھی………….جسم نہ زیادہ فربہ نہ پتلا تھا……….اور چال میں الہڑپن سا تھا……۔۔

    یہ شاید صحیح وقت تھا میرے اگلے ایکشن کا…..جہاں میں چھپا کھڑا تھا وہ جگہ مکان کے بائیں طرف تھی…….. اس کی دائیں طرف مکان کے پیچھے گھنے درخت اور پھر کچھ اور پیچھے پہاڑ تھا….یعنی کسی کے دور سے دیکھے جانے کی امید بہت کم تھی………

    میں نے مکان کی دیور کے ساتھ ساتھ اپنی دائیں طرف میں بڑھنا شروع کیا………. میں جھکتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا تاکہ اگر کوئی مکان کے اندر ہو تو مجھے نہ دیکھ سکے.... ساتھ ہی ساتھ میں وقفے وقفے سے کھڑکی سے گھر کےاندر بھی جھانک رہا تھا………. مکان کا پورا چکر کاٹ کر میں پھر مکان

    کے دائیں طرف پہنچ گیا…….پر مجھے اندر کوئی بھی دکھائی نہ دیا اسکا مطلب تھا کہ اس وقت ان دو لڑکیوں کے علاوہ اس گھر میں کوئی اور نہیں تھا… یہ بات میرے لیے سود مند تھی…

    مکان کی دائیں طرف صرف ایک ہی دیوار تھی……….اسکے اندر جب میں جھانکا

    تو اندر گھپ اندھیرا ہی دکھائی دیا…….. میں دھیرگ دھیرے دبے پاؤں اگے بڑھ رہا تھا…..اپنا ریوالور میں نے بیگ میں سے نکل کر اپنی کمر پر بیلٹ کے اندر پھنسا لیا تھا..

    میں لگ بھگ بھاگتا ہوا، لیکن پاؤں کو دبا کر رکھتا ہوا … گھر کے سامنے والے کھلے حصے میں آ گیا ………..وہاں ایک چھوٹا سا پودا لگا ہوا تھا جو مکان اور طبیلے کے بیچوں بیچ تھا……….اس کے آڑ میں کھڑا

    ہوکر میں ان دونوں لڑکیوں کا انتظار کرنے

    لگا ……………

    مکان کے باہر لگے ہوئے بلب کی ہلکی روشنی پورے صحن میں پھیل رہی تھی….

    اچانک آہٹ ہوئی اور پھر طبیلے سے ایک لڑکی باہر نکلی……یہ چھوٹی والی

    لڑکی تھی …شاید شازیہ نام تھا اسکا…….. اس نے اپنے ہاتھ میں ایک بالٹی پکڑی ہوئی تھی…….

    جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچی … میں پودے کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آ گیا۔۔۔۔۔

    "باجی ………………!!!!" وہ بہت زور سے چلائی …اسکے ہاتھ سے بالٹی چھوٹ گئی…… ایک دو پل کے لیے اس نے مجھے دیکھا…. اور پھر وہ مکان کی طرف بھاگی………

    میں بھی اسے پکڑنے کے لیے لپکا………..آگے بڑھ کر میں نے اس کلائی پکڑ لی اور جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا………..وہ سیدھی میرے سینے سے آکر ٹکرائی… اس نے پھر سے چیخنے کے لیے منہ کھولا پر تب تک میرا ایک ہاتھ اس نہ پر جا چکا تھا میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا جس سے اس کی چیخ منہ میں ہی دب گئی……..

    اب وہ بلکل میری نزدیک تھی… اس کی باہوں کو مروڑ کر میں نے اس کی کمر پر لگا دیا تھا……..وہ بول نہیں پا رہی تھی پر خوف کی وجہ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں…….

    اسکا چہرا میرے چہرے سے کچھ ہی انچ دور تھا ………..ایک عجب سی معصومیت

    تھی اسکی آنکھوں میں ………… ان آنکھوں کو دیکھنے پر کچھ پل کے لیے میں بھول ہی گیا کہ میں کیا اور کیوں کر رہا ہوں……اور جب یاد آیا تب تک دیر ہو چکی تھی…….

    دھننننننننن ………… میرے سر پر لکڑی سے وار کیا گیا تھا……….جو میرے کندھے پر پڑا… کچھ پل کے لیے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور پھر میں زمین پر گر گیا………گرتے ہی میں پلٹا ہے اور دیکھا کہ پھر میرے اوپر وار کیا جار آہا ہے…….میں نے بچنے کے لیے اپنی بائیں ٹانگ

    اوپر کی اور اگلا وار سیدھا میری پنڈلی پر پڑا……….وہ جہاں پہلے سے ہی چوٹ لگی ہوئی تھی…….یہ وار میرے ہوش اُڑانے کے لیا کافی تھا اور میں اپنی ٹانگ کو پکڑ کر زمین پر دوہرا ہو گیا…. ,

    اس سے پہلے کہ اگلا وار ہوتا ہے…..میرا ہاتھ اپنی کمر پر لگے ریوالور پر پہنچ گیا………میں نے ریوالور نکالی اور لیٹے لیٹے ہی ان پر تان دی...

    "رک جاؤ!!!………………………….اب اگر مارا تو میں گولی چلا دوں گا…"

    میں پورے زور سے چیخ کر بولا۔

    اور اس کا فوری اثر ہوا…………..شازیہ اس بڑی والی لڑکی کے پیچھے دبک سی گئی…..اور اس لڑکی کا ہاتھ بھی ہوا میں ہی رک گیا………اس کے ہاتھ میں ایک موت سا لکڑی کا ڈنڈا تھا…………… دھیرے دھیرے اسکا ہاتھ نیچے کو آ گیا ………

    مجھے اس وقت پتہ چلا کہ وار کرنے والی دوسری لڑکی تھی جو شازیہ کی چیخ سن کر باہر آئی تھی۔۔۔

    میں نے اپنی پوری طاقت لگائی پھر کہیں جا کر کھڑا ہو پایا … درد کی وجہ سے مجھ سے صحیح طرح کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا لیکن میں ان پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا

    تھا………

    ’’کیا تم لوگوں کو اردو سمجھ میں آتی ہے‘‘۔ " میں اپنی ریوالور نیچے کرتے ہوئے میں کچھ نرمی سے بولا….

    اُس بڑی والی لڑکی کے چہرے پر بات سمجھنے کے آثار نظر آئے………..

    "بتاؤ ،.... کیا آپ لوگ اردو سمجھ سکتے ہو؟ "میں نے پھر اپنا سوال دوہرایا اب کی بار اس بڑی لڑکی کا سر ہاں میں ہلا………

    "اچھا ………………. ڈرو مت میں آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا………………..” میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اب ان کے چہرے سے ڈر کے اثرات ہونے ہونے لگے… اور اب ڈر کی جگہ ایک الجھن ڈی دکھائی دے رہی تھی…….. شازیہ، جو ابھی تک اسی دوسری لڑکی کے

    پیچھے چھپی ہوئی تھی …………..تھوڑا سا باہر نکل کر آ گئی تھی اور اس نے بڑی لڑکی کے کندھے کو پکڑا ہوا تھا اور میری طرف دیکھ رہی تھی..

    میرا نام شمشیر ہے……میرا جہاز کل رات وہاں….

    میں بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ

    "تمہارے پاؤں سے خون نکل رہا ہے" "میری بات بیچ میں ہی کاٹ کر شازیہ بولی اور پھر اُس دُوسری لڑکی کی طرف دیکھا………

    میں نے بھی اب غور کیا کہ میرے زخم میں سے لگاتار خون بہ رہا تھا اور زمین پر گرتا جا رہا تھا………

    شازیہ ………………………

    اس بڑی لڑکی نے شازیہ سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا اور وہ تیزی سے گھر کے اندر چلی گئی....

    اگلے کچھ سیکنڈ ہمارے بیچ خاموشی سی چھائی رہی………………. پھر اس لڑکی نے

    ہی بات شروع کی....

    "کیا تم پاکستانی ہو...؟ "جیسے

    کہیں کسی گہرے کنویں میں سے کوئی آواز آئی ہو……

    "ہان"

    "فوجی ہو؟ " اس نے پھر سے پوچھا۔۔۔

    " ہاں ………………..پاکستانی ائیر فورس میں ہوں " میں نے جواب دیا ۔

    اُسکے چہرے پر ایک سوال سا اُبھرا………… جیسے میری بات اس کی سمجھ میں نہ آئی ہو………….

    تب تک شازیہ اندر سے باہر آ گئی تھی……اس کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا، ہارڈ بورڈ کا بنا ہوا پرانا سا ڈبہ….

    "میں ہوائی جہاز اڑاتا ہوں …………… پاکستانی فوج کے"

    میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی

    "آو چلو، گھر کے اندر آ جاؤ"

    اس نے سوالیہ سی نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھے کہا…

    شازیہ کا سر بھی ہاں میں ہلا اور پھر ہم تینوں گھر کے اندر آئے....

    انکا گھر کافی صاف ستھرا تھا ………جیسا عام طور پر پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں لکڑی اور کنکریٹ سے بنا ہوا………….ایک برآمدے سے ہوتے ہوئے وہ دونوں مجھے گھر کے دائیں طرف بنے ایک کمرے میں لے گئیں………

    کمرے میں گھستے ہی درد کی وجہ سے میرے قدم پھر سے لڑکھڑا گئے اور

    سہارے کے لیے میں نے شازیہ کے کندھے کو تھام لیا………اس کی بری حالت میں بھی اس کشمیری لڑکی کے جسم کو چھوتے ہی میرے پورے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تبھی اس بڑی والی لڑکی نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر مجھے سہارا دیا اور

    شازیہ سے کچھ کہا……شازیہ پھر وہاں سے باہر چلی گئی……اُس لڑکی نے مجھے سہارا دیتے ہوئے ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھا دیا………وہ ایک لمبی سی آرام دہ کرسی تھی جس پر میں ڈھ سا گیا……..

    وہ میرے سامنے زمین پر بیٹھ گئی اور مجھے دیکھتے ہوئے پھر سے بات شروع کی…

    ’’کیا چاہتے ہو تم ہم لوگوں سے……‘‘ اس نے اردو میں ہی سوال کیا تھا لیکن اس کا لہجہ کشمیری تھا….

    "سب سے پہلے تو چھپنے کے لیے جگہ اور کچھ کھانے کے لیے ………." میں نے

    آنکھیں بند کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔

    "کب تک چھپنا چاہتے ہو......؟"

    "معلوم نہیں …….وہ لوگ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے اور مجھے جلد از جلد سرحد کے پار واپس جانا ہے...." اس بار میں نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

    "وہ لوگ کون؟ انڈین فوج؟ وہ میرے پاؤں کی طرف نگاہ کر کے بولی…

    "ہاں.."

    "کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر ایک لمبی سانس لیکر وہ پھر بولی"

    ٹھیک ہے ……… ہم تمہیں چھپنے کی جگہ دی گے لیکن اس گھر میں نہیں …..ساتھ ہی تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم ہم لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے جیسے یہ ہندوستانی فوجی آئے روز یہاں کی عورتوں کے ساتھ کرتے ہیں ویسے نہیں کریں گے… "

    "مجھ پر یقین کیجئے ………. اور ایک بات سمجھ لیں میں پاکستانی فوجی ہوں عورتوں کی عزت کے رکھوالے ہیں ہم کشمیری ہمارے اپنے ہیں ہم ان کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے اس لیے آپ فکر رہیں میں کوئی بھی حرکت ایسی نہیں کروں گا جس سے آپ کو کوئی پریشانی ہو ………..” اب کی بار میں نے یہ سب اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا...

    اچانک وہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ ۔ ۔ ۔

    کچھ ہی سیکنڈ بعد دونوں لڑکیاں ایک ساتھ اندر آئیں……….شازیہ کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جس میں سے بھاپ نکل رہی تھی …………. دونوں میرے سامنے زمین پر بیٹھ گئیں …………..پھر بڑی لڑکی نے ہی بات شروع کی….

    "میرا نام حنا ہے اور یہ میری چھوٹی بہن شازیہ ہے ………..ہم دونوں

    یہیں اس گھر میں اکیلی رہتی ہیں……..”

    میرے پاؤں کو اٹھا کر ایک لکڑی کے چھوٹے سے اسٹول پر رکھ دیا……..میری پینٹ کے

    پائنچوں کو اس نے دھیرے سے اوپر کیا… میرے زخم کو دیکھتے ہی اس چہرے پر درد کی لہر سی لہرا گئی……..زخم سے ابھی بھی خون رس رہا تھا………اس نے ایک کپڑے کو برتن میں ڈالا اور پھر دھیرے سے میرے زخم پر رکھ دیا …………

    درد کی ایک لہر میرے سارے وجود میں سرایت کر گئی………… کچھ دیر تک رکنے

    کے بعد اس نے دھیرے دھیرے کپڑے سے زخم کو صاف کرنا شروع کر دیا……..

    اس کے بعد اس نے ایک چھوٹی سی شیشی کو ڈبے میں سے نکالا اور کھول کر بڑے آرام سے میرے زخم کے اوپر الٹا کر دیا………شیشی میں سے مائع کی کچھ بوندیں زخم

    کے اوپر گریں اور پھر زخم چننے کا احساس ہوا……… میں نے کچھ پل کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو دیکھا کہ اب وہ زخم پر پٹی باندھ رہی ہے....

    میں نے پہلی بار ان دونوں کے چہروں کو غور سے دیکھا، حنا کے چہرے پر ایک

    عجیب سی سختی اور روکھا پن تھا پر اس وقت ہماری آنکھوں میں مجھے گہری سوچ نظر آ رہی تھی …………..جبکہ شازیہ کے چہرے پر ایک نرماہٹ اور معصومیت سی تھی………… حنا کی آنکھیں اور بال کالے جبکی شازیہ کی آنکھیں گہری نیلی اور بال ہلکے سنہری تھے…………دونوں بہنوں کا رنگ گورا تھا اور چھریرا بدن تھا۔۔۔۔

    اچانک شازیہ نے …….جو ابھی تک اپنی بہن کو دیکھ رہی تھی میری طرف دیکھا اور ایک پیاری سی مسکان سے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی……یقین مانیے اس کی ایک مسکان نے میرے آدھے درد کو غائب کر

    دیا تھا....

    ڈریسنگ کر دینے کے بعد حنا نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا اور پھر اسی سخت سے لہجے میں کہا “زخم زیادہ گہرا نہیں ہے…. اب 2-3 دن تک زیادہ چلنا پھرنا نہیں..."

    میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اسکا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی ....پر اسے

    چہرے پر کوئی بھی تاثر نہ ابھرا ….

    پھر دونوں بہنیں مجھے اسی کمرے میں چھوڑ کر باہر چلی گئیں…….میں انتظار کرتا رہا کہ اب وہ لوگ کیا کرنی والی ہیں.... 10-15 منٹ باد شازیہ ہاتھ میں ایک ڈش لے کر آئی اور میرے سامنے پڑی ایک چھوٹی سی میز پر رکھ دیا………..”کھانا کھا لِجیے……”اسنے کہا اور میں بنا دیر کیے اُس کھانے پر ٹوٹ سا پڑا………..

    کھانا کھانے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے ایک نئی زندگی مل گئی ہو……..کچھ دیر کے لیے میں یہ بھی بھول گیا کہ میں کہاں ہوں اور کس حالت میں ہوں۔۔۔۔

    کچھ ہی دیر کے بعد حنا کمرے میں واپس لوٹی اور بولی “آو…….

    تمہیں تمہارے رہنے کی جگہ دکھا دیتی ہوں"

    میں بڑے آرام سے سنبھل کر اٹھا اور اس کے ساتھ چل دیا … میرے پاؤں میں اب درد

    کم تھا اور میں تقریباً صحیح چل پا رہا تھا… وہ میرے آگے آگے چلتے ہوئے مجھے راستہ دکھا رہی تھی………….گھر سے باہر آکر ہم لوگ طبیلے کی طرف چل دیے……باہر کا موسم اب ٹھنڈا ہو گیا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بارش آنے والی ہو………وہ طبیلے کے اندر داخل ہوئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے اندر آ گیا….

    طبیلہ کافی بڑا تھا………..اسکے بائیں والے حصے میں ایک طرف جانوروں کے

    لیے باڑا سا بنا ہوا تھا اور کچھ جانور بندھے ہوئے تھے ………اسی کے اندر دائیں طرف میں تقسیم کر کے کمرے کا سا با دیا گیا تھا……. طبیلے کی چھت کچی تھی پر چاروں دیواریں پکی تھیں اور ان میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سوراخ بنے ہوئے تھے……… حنا نے اس چھوٹے سے سٹور نما کمرے کی طرف اشارا کیا "تم یہاں پر رہ سکتے ہو"

    میں اس سٹور نما کمرے میں داخل ہوا… ایک چھوٹا سا کمرہ…………..جو ابھی فلحال بھوسے سے بھرا ہوا تھا……“ تم یہیں رکو، میں تمہارے لیے سونے کے بستر کا انتظام کرتی ہوں…” حنا نے

    کہا اور پھر طبیلے سے باہر نکل گئی ………

    میں وہیں بھوسے کے ڈھیر پر بیٹھ گیا اور اپنی گھڑی میں دیکھا……..رات

    کے 10.30 کا وقت ہو گیا تھا……………باہر اب بونداباندی شروع ہو گئی تھی… اور سردی بھی بڑھتی سی جا رہی تھی………

    حنا واپس آئی تو اس کے پیچھے پیچھے شازیہ بھی تھی……………… انکے ہاتھ سے

    میں کچھ کپڑے …………..بستر اور رضائی تھی……..

    دونوں نے کپڑوں کو وہیں زمین پر رکھ دیا اور دونوں مل کر اس چھوٹے کمرے کی صفائی کرنے لگیں………………

    میں وہیں ایک دیوار کے سہارے بیٹھا دیکھ رہا تھا…………. تقریباً 10 منٹ کی محنت کے بعد دونوں بہنوں نے اس سٹور کو میرے رہنے والے لائق کر دیا، کچھ بھوسا کمرے سے نکال کے باہر طبیلے میں رکھ دیا اور باقی کو فرش پر بچھا کر بستر کا روپ دے دیا تھا……..کچھ کپڑے ڈال کر اب وہ ایک آرام دہ بستر بن چکا تھا………..اور 2-3 کمبل میرے اوڑھنے کے لیے رکھ دئیے…۔۔​
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

  • #2
    Kashmir k mozu par zabardast kahani..
    aik ticket main do mazay..

    ​​​​​​Zabardast kahani hai

    Comment


    • #3
      آغاز بہت اچھا ہے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے

      Comment


      • #4
        kia classical start hai story ka agy dekhy hota hai kai

        Comment


        • #5
          ’اب تم چاہو تو سو سکتے ہو………‘‘ حنا اپنے سپاٹ سے لہجے میں بولی اور

          باہر کی طرف چل دی ……… پھر دوبارہ پلٹی اور بولی “ پر مجھ سے پوچھے

          بغیر اس کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرنا"

          وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور اس کے پیچھے پیچھے شازیہ بھی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے شازیہ پھر پلٹی، میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور پھر بہار نکل گئی ………..

          میں ایک بار اٹھ کر باہر طبیلے میں آیا……باہر اب تیز بارش ہو رہی تھی…………طبیلے میں نظر گھما کر میں وہاں کا جائزہ لیا…..کل 3گائے، 2-3 خچر اور 3-4 بکری مجھے وہاں دکھائی دیں…………..سردی

          کی وجہ سے سارے جانور سمٹ سے گئے۔۔۔

          "تو آپ لوگ ہو میرے روم میٹس ……….." میں نے آہستہ سے ان جانوروں کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر اپنی ہی بات پر ہنس دیا……………….

          میں واپس کمرے میں آیا… اپنے جوتے اتارے اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا………….آنکھیں بند کر کے میں پچھلے کچھ گھنٹوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا……

          کیا انڈین فوج کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں آس پاس چھپا ہوں……..اگر ہاں تو وہ مجھے ڈھونڈ ضرور رہے ہوں گے………اسکا

          مطلب وہ لوگ یہاں پر بھی پہنچ سکتے ہیں ……………..میرے گھر پر ضرور پلین کریش کی خبر پہنچ گئی ہوگی................کیا بیتی ہوگی گھر والوں پر ………………یہی سوچتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کر لیں اور آنکھیں بند کرتے ہی مجھے دکھائی دی وہ نیلی آنکھیں ………..شازیہ کی آنکھیں

          اور اسکی وہ معصوم سی مسکراہٹ

          ………….جیسے مجھے تسلی دے رہی

          ہو………

          مجھے اس کے بارے میں سوچتے سوچتے بہت گہری نیند آ گئی………..صبح آنکھ کھلی تو میں اپنی عادت کے مطابق گھڑی میں وقت دیکھا …..7.45 بج رہے ہیں ………… میں اٹھا اور اس طبیلے کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی …………..مجھے بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ رات کو جب میں سویا تھا تب تو دروازہ کھلا تھا………

          میں نے ایک دو بار کوشش کی پھر مجھے محسوس ہوا کہ دروازہ باہر سے بند تھا………..میں واپس اپنے بستر پر آکر بیٹھ گیا…..میرے من میں عجیب عجیب سے سوال آ رہے تھے…….

          کیا یہ لوگ مجھے بھارتی فوج کے حوالے کرنے والے ہیں؟ شاید اسی لیے باہر سے دروازہ بند کیا گیا ہو، اور شاید دونوں لڑکیوں میں سے کوئی پولیس یا فوج کو خبر کرنے گئی ہو؟

          ایک عجیب سی بے چینی مجھے ہو رہی تھی، میں نے جلدی سے اپنے بیگ کو چیک

          کیا… میری ریوالور کی میگزین بھری ہوئی تھی………….. اور 3 اضافی میگزین بھی میرے پاس میں تھیں ………." کم سے کم 5-6 کو تو ساتھ لیکر مارونگا"

          میں من ہی من سوچا...

          اچانک آہٹ ہوئی ………….کوئی باہر سے دروازے کو کھول رہا تھا ………… میں

          جلدی سے ریوالور ہاتھ میں تھام لیا اور دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا……….

          دروازہ کھلا اندر لڑکی داخل ہوئی۔۔۔

          وہ حنا تھی …………..ہاتھ میں چائے کا کپ لے کر کھڑی تھی………..اس کے چہرے پر غصے اور حیرانی کے تاثرات تھے، جیسے وہ یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ "یہ کیا حرکت ہے"

          "اوہ... آپ ہو!! مجھے لگا شاید………” اپنی بات بیچ میں ہی ادھوری چھوڑ کر میں واپس بستر پر بیت گیا……….

          "تمہیں کیا لگا …… وہ لوگ تمہیں پکڑنے آ گئے ہیں؟ تمہیں پکڑوانا ہی ہوتا تو کل تمہارے زخم پر پٹی نہ کی ہوتی۔۔۔

          وہ عجیب سے لہجے میں بولی اور چائے کا کپ میری طرف بڑھا دیا۔۔۔۔

          میں نے چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے لیا اور بولا "شکریہ ………….. مجھے باہر سے بند کیوں کر دیا تھا؟ ,

          "ابھی تم ہمارے لیے انجان ہو، اتنی جلدی کسی پر بھروسہ کیسے کر لیں؟"

          پھر میں نے اسے اسی کے لہجے میں جواب دیا…

          "میں نے بھی تو آپ لوگوں پر بھروسہ کیا ہے...... اور آپ بھی تو میرے لیے انجان ہیں "پہلی بار میں اسکی نگاہوں سے نگاہیں ملا کر بولا"

          وہ شاید میری نگاہوں کا سامنا نہیں کر پائی …… کچھ ہی پلوں میں اس نے اپنی نظریں نیچے جھکا لیں……

          میں نے اسے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا……شاید ابھی نہا کر آئی تھی کیونکہ اسکے کالے بال جو کچھ کچھ گھنگرالے تھے… ان کی ایک دو لیٹیں اس کے چہرے پر آ رہی تھیں اور ان میں پانی کی بوندیں بھی دکھائی دے رہی تھی ……….. پانی کی بوندیں اس کے چہرے پر گر کر اس کے ناراض حسن کو دہکا رہی تھیں۔۔۔۔

          میں ذیادہ دیر اسے نہیں دیکھ سکا اپنی نظر اس کے چاہرے سے ہٹا لی….

          اس نے چاے کا کپ (جو اب تک خالی ہو چکا تھا) میرے ہاتھ سے لیا… اور

          بولی "یہ دروازہ اب کھلا ہوا ہے، تم چاہو تو کہیں بھی جا سکتے ہو……..پر جہاں تک میں سمجھتی ہوں، تم یہاں پر زیادہ محفوظ ہو باہر کی نسبت وہ دھیرے سے مسکرائی اور باہر نکل گئی ………..

          رات سے اب تک میں نے اس کی چہرے پر یہ پہلی مسکراہٹ کی رمق دیکھی تھی۔۔۔۔

          میں کچھ دیر اُسکو جاتے ہوئے دیکھتے رہا جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میں نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا……….

          یہ لڑکی ابھی تک میرے لیے ایک

          پہیلی بنی ہوئی تھی……… یہ ایسی کیوں ہے ؟..... مجھے نہیں لگتا کہ دل سے بھی

          اتنی کٹھور ہوگی، پھر کیوں ایسا نقاب اوڑے رہتی ہے ہمیشہ؟

          میں طبیلے کے دروازے پر آکر کھڑا ہو گیا……….رات بہت تیز بارش

          ہوئی تھی اور ابھی بھی موسم ویسا ہی بنا ہوا تھا……

          گھر کا دروازہ میرے سامنے تھا وہ کھلا اور شازیہ باہر نکلی ……اسکے ہاتھ سے

          میں ایک بالٹی تھی جس میں شاید کچھ کپڑے تھے …..میرے بائیں طرف اگی ہوئی جھاڑیوں کے پاس گئی اور گیلے کپڑوں کو بالٹی سے نکال کر سوکھانے کے لیے جھاڑیوں پر ڈالنے لگی……….

          اس وقت وہ کسی قیامت سے کم نہیں لگ رہی تھی …………میں تھوڑا سا پیچھے ہو گیا اور دیوار کی آڑ میں ہوکر، چھپ کر اسے دیکھنے لگا…..وہ بھی ابھی نہا کر ہی نکلی تھی……..بال گیلے تھے اور اسکی کمر تک

          آ رہے تھے………….کل رات کی طرح اب وہ گرم کپڑوں میں نہیں تھی بلکہ ایک

          سوتی کپڑے کا شلوار سوٹ اسے پہنا ہوا تھا…….. پانی کی بوندین اسکی پوری بیک

          سائیڈ کو گیلا کر رہی تھیں ………..اور مجھے ان گیلے کپڑوں میں سے اسے پورے

          جسم کا احساس ہو رہا تھا…………..ایک عجیب سی خوہاش میرے اوپر حاوی ہونے لگی ……….. ابھی تک میں نے اس لڑکی کے جسم کو صرف دور سے ہی دیکھا تھا پر ناجانے کیوں ایسا لگنے لگا کہ وہ میرے بہت پاس آ جائے………….

          اُسے دیکھتے دیکھتے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب پیچھے پلٹ گئی اور اب میری طرف ہی آ رہی تھی، …….. جیسے ہی میری نظر اس سے ملی، ایسا لگا کہ جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو…اسکے چہرے پر وہی پیاری سی مسکان تھی……….وہ سیدھی چلتی ہوئی میرے پاس آ گئی…..اور پوچھا "کیسے ہیں آپ؟...... آپ کا گھاؤ اب کیسا ہے؟

          "پہلے سے کافی بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          آپ کا شکریہ "میں نے کہا، میں اس سے نظرے ملانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا….پر میرے اپنے من میں چور ہونے کی وجہ

          سے میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا……

          میری نگاہیں اس کے چہرے سے نیچے کی طرف بڑھیں اور پھر میری سانس رُک سی گئی ………..اسکے بالوں سے گرتی پانی کی بوندوں نے اُسکے کُرتے کے اوپر والے حصے کو بھی بھگو دیا تھا………….کپڑا پتلا تھا اور اس کے نیچے اس نے برا جیسی کوئی چیز نہیں پہنی تھی………….اس کے مموں کے ابھار اور نپل، دونوں صاف نظر آ رہے تھے ………

          "کیا ہوا… آپکی طبیعت ابھی صحیح نہیں ہوئی کیا؟ "وہ پھر سے مسکراتی ہوئی

          بولی، میں نے پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھا…..وہاں پر وہی معصوم سی مسکراہٹ تھی اس کو تو شاید احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں……

          "نہیں، میں اب صحیح ہوں" میں نے بات بدلتے ہوئے کہا "لگتا ہے بارش پھر"

          ہونے والی ہے۔۔۔۔ میں نے پھر کہا۔۔۔

          "بارش نہیں برف………شام تک برف ضرور گر جائے گی" وہ اوپرنآسمان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب حنا بھی ہمارے پاس آ گئی….اور

          مجھ سے بولی "کیا تم نہانے جاؤ گے؟ ,

          "ضرور ………… پر میرے پاس بدلنے کے لیے کپڑے نہیں ہیں" میں نے اسکی طرف دیکھ کر جواب دیا۔۔۔۔

          "اسکا انتظام ہو جائے گا…….تم اندر جاو، میں ابھی تمھیں بلاتی ہوں"

          وہ یہ کہہ کر پلٹی اور اس کے پیچھے پیچھے شازیہ بھی چلی گئی…….

          میں ان دونوں کو جاتا ہوا دیکھتے رہا.. میرے من میں ایک عجیب سی پیاس

          سر اٹھارہی تھی…………. شازیہ، جو اب تک ایک معصوم سی بچی لگ رہی تھی اب ایک دم سیکس بم نظر آنے لگی تھی………..

          میں پھر سے کمرے کے اندر آ گیا اور اپنے بستر پر جاکر بیٹھ گیا……میرے دماغ کی سکرین پر ان سب لڑکیوں کے چہرے چلنے لگے جن سے میں ابھ تک اپنی زندگی میں ملا تھا……….کچھ صرف دوست تھیں، کچھ کے ساتھ میں نے سیکس بھی کیا تھا… پر ایسی معصومیت شاید کسی میں بھی نہیں تھی …………یہ کہیں اسکا ملمع شدہ چہرا تو نہیں۔۔؟؟

          کچھ دیر بعد حنا واپس آ گئی اور بولی "آو میرے ساتھ"،

          میں اٹھا اور اس کے پیچھے چل دیا۔۔۔

          طبیلے سے باہر نکل کر وہ دائیں طرف میں چل دی………..اس طرف کچھ جھاڑیاں اور ایک پہاڑ تھا……….ہم دونوں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل دیے……….ایک پتلی سی پگڈنڈی پہاڑ کے ساتھ چل رہی تھی………شاید وہ لوگ اس راستے کا اکثر استمال کرتے ہوں گے…..پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ راستہ بائیں طرف میں مڑ گیا….کوئی 200- 250 میٹر چلنے کے بعد ہم جہاں پہنچے وہ جگہ دو پہاڑوں کے درمیان

          کا حصہ تھا…….ایک پانی کی ندی دونوں پہاڑوں کے درمیان میں سے گرتی ہوئی وہاں تک آ رہی تھی…………..اور آگے نکل رہی تھی……………

          حنا اپنے ساتھ ایک بالتی لائی تھی…………اس نے کہا “تم یہاں پر نہا سکتے ہو، میں ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہوں "اور وہ تیزی سے ایک طرف چلی گئی ……………

          میں کچھ دیر اس جگہ کی خوبصورتی میں ڈوب گیا………. پیچھے پہاڑوں سے گرتا ہوا پانی …………..اور سامنے ایک بڑا سا گھاس کا میدان جیسے سبزے کا قالین بچھا ہوا ہو اور ہریالی آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہی تھی ایک سکون سا تھا ………اس کے بعد جھاڑیاں اور گھنا جنگل…………میں نے بائیں طرف میں دیکھا ……….. وہاں آگے ایک ڈھلان سی دکھائی دی …………تھوڑا سا آگے بڑھا تو پتہ چلا کہ جس جگہ پر ہم تھے یہ بھی ایک پہاڑ کی چوٹی ہے…..یہاں سے دور تک ڈھلوان تھی اور نیچے ایک ندی بہتی دکھائی دے رہی تھی…………….شاید وہی ندی تھی جس کو پار کر کے میں اس گھر تک پہنچا تھا………………….

          "کیا دیکھ رہا ہو ہے؟ "اچانک میرے پیچھے سے آواز آئی… میں نے دیکھا حنا ہاتھ میں کچھ کپڑے لے کر کھڑی تھی ” کچھ نہیں ہے یہاں؟

          میں نے اسکی بات کا جواب نہ دیتے ہوئے الٹا سوال کیا "یہ ندی جو نیچے نظر آ رہی ہے، کہاں جاتی ہے"

          "پاکستان!! یہاں سے آگے جاکر یہ گہری ہو جاتی ہے اور ایک دوسری بڑی ندی میں مل جاتی ہے "اسی ندی کی طرف ہی دیکھتے ہوئے اس نے کہا" وہ دیکھ رہے ہو،سامنے جو پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں، وہ پاکستان میں ہیں "

          آہ ہمارا خواب پتہ نہیں کب پورا ہوگا جب یہاں تک ہم بغیر کسی خوف کے آ جا سکیں گے کب ہم پر سے بھارتی فوج کے خوف کے سائے غائب ہوں گے۔۔۔

          اس کی آواز میں گہرا دکھ پنہاں تھا وہ جیسے کسی گہری کھائی میں بول رہی تھی اس کے اندر کا دکھ اس کے چہرے پر دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

          میں نے اس کے اندر چھپے دکھ کو نہ سمجھتے ہوئے ندی کی سمت دیکھا۔۔۔

          میں نے دیکھا، ندی آگے جا کر دو پہاڑوں کے درمیان میں گم ہو گئی تھی" وہ پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے جن کے بارے میں حنا بتا رہی تھی…

          کافی دور اور بہت چھوٹے چھوٹے دِکھائی دے رہے تھے، مجھے معلوم تھا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے اگر میں سڑک سے ہوکر جاؤں گا تو قریب50-60 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑے گا۔۔۔

          حنا نے بھی شاید محسوس کر لیا تھا کہ میں اس کی بات نہیں سن رہا اس لیے اس نے کہا"اب جلدی سے نہا لو، میں وہاں پیچھے بیٹھ جاتی ہوں" نہانے کے بعد یہ

          کپڑے بدل لینا "اس نے کپڑے وہاں ایک پتھر پر رکھ دئیے، اور کچھ دور جاکر بیٹھ گئی.....

          میں نے اپنے کپڑے اتارے اور صرف انڈرویئر پہن کر نہانا شروع کر دیا، میں نے حنا کی طرف دیکھا، وہ دوسری اور منہ کیئے بیٹھی تھی……

          میں نے بالٹی میں پانی بھرکر نہانا شروع کر دیا………….ٹھنڈے پانی نے جسم میں ایک ٹھنڈک سی بھر دی تھی.. پر تازگی کا بھی احساس کروا دیا تھا………

          نہاتے نہاتے میں یہاں سے نکلنے کے بارے میں سوچ رہا تھا……….ایک دو بار جب میری نگاہ حنا پر پڑی تو مجھے ایسا لگا کہ وہ چور نگاہوں سے میری طرف ہی دیکھ رہی ہے……..کیا اس کی دلچسپی مجھ میں تھی یا میرے جسم میں؟……. مجھے دوسری بات ہی صحیح لگی….

          سوچ کر مجھے ایک عجیب سی رومانیت کا احساس ہوا ………..ایک جوان لڑکی مجھے

          نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھی، اور میرے جسم کو نزدیک سے دیکھنا چاہ رہی تھی………. مجھے بھی اس کھیل میں مزہ آنے لگا…. تھوڑا سے پہلے کو ہوگا ……… مانو اپنے آپ کو اس کے سامنے کرنے کی کوشیش کرنے لگا………..پر مجھے ملوم تھا کہ وہ مجھے وہاں سے بھی دیکھ سکتی تھی……..جو ایک اخری کپڑا میرے جسم پر تھا (انڈرویئر) میں نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس پر کوئی توجہ نہ ہو اور میں نے وہ بھی میں اتار دیا………

          اب میں بلکل ننگا ہو کر نہا رہا تھا…تھوڑا سا پانی اور ڈال کر میں کھڑا ہوگیا.کچھ تو موسم کا اثر اور کچھ یہ سوچ کر کہ

          حنا کی نگاہ میرے اوپر ہی ہے……….میرا لن بھی اب دھیرے دھیرے سخت ہونے لگا تھا……………

          میں ننگا ہی وہاں تک پہنچا، جہاں کپڑے رکھے ہوئے تھے وہاں پہنچ کرنے میں ایک چھوٹے سے کپڑے سے جو کہ تولیہ نما تھا اپنا اپنا پونچھا اور پھر آرام سے کپڑے پہن لیے…………..میں نے پورا دھیان رکھا تھا کہ جو چیز حنا دیکھنا چاہ رہی ہے، وہ اس اچھے سے نظر آ جائے ؟

          کپڑے پہنے کے بعد میں نے اپنے اتارے ہوئے کپڑے بالٹی میں ڈالے اور حنا کے پاس پہنچ گیا………….اور بولا “چلیں…….؟ ,

          وہ اُٹھ کھڑی ہوئی…………ایک دو پل کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر گھر کی طرف

          چل دی………….اسکے گال اس سرد موسم میں بھی لال ہو رہے اور چہرے پر بےچینی صاف دکھائی دے رہی تھی……..

          جو کپڑے اس نے مجھے پہنے کے لیے دیے تھے وہ عام کشمیری لباس تھا…..لمبا سا چوغا اور ایک جیکٹ………

          میں تیزی سے چلتا ہوا اسے پاس پہنچا اور کہا "یہ کپڑے جس کے بھی ہیں وہ شخص لگ بھگ میرے ہی جیسا ہوگا، بس کچھ دبلا ہوگا کیونکہ کپڑے تھوڑے سے تنگ ہیں………… ویسی کس کے ہیں یہ کپڑے؟ ,

          ’’میرے شوہر کے……‘‘

          کہتے ہوئے اس کی نگاہ گھر کی طرف ہی تھی

          "آپ کے شوہر !!!" یہ میرے لیے دھماکے جیسی خبر تھی “کہاں ہیں وہ"

          "معلوم نہیں" وہ دھیرے سے بولی ……..اور میرے ہاتھ سے کپڑوں کی بالٹی لے لی "لاؤ، میں ان کپڑوں کو صاف کر کے چھپا دونگی"

          بالٹی لے کر وہ گھر کی طرف چل پڑی..میں میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔ میں ان دونوں کے بارے میں سوچتا رہا….یہ دونوں لڑکیاں ایک عجیب سے پہیلی کی طرح بنتی جا رہی تھیں………

          بوندیں گرنے لگی تھیں اور پھر ہلکی ہلکی برف باری شروع ہو گئی……….آسمان پر ایسے لگ رہا تھا جیسے روئی کے گولے اُڑ رہے اور زمین پر سفید چادر بچھ رہی تھی۔۔۔

          ہم چلتے ہوئے ان کے گھر پہنچ گئے وہ گھر میں چلی گئی اور مجھے اپنے کمرے مطلب طبیلے کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔۔۔

          میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا اپنے کمرے میں آ گیا....

          دوپہر کے 2.30 کا وقت ہو رہا تھا…..شازیہ بیچ میں ایک بار آ کر کھانا دے گئی تھی اور پھر ابھی ابھی برتن واپس لے کر گئی تھی ………… میرے دماغ میں پچھلے 2 دنوں میں ہوئے واقعات گھوم رہے تھے.جب سے میں یہاں آیا تھا……….تب تو میں اپنی باہر نکلنے کی طرف سنجیدگی سے دھیان نہیں دیا تھا……….کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارتی فوج مجھے ڈھونڈ رہی ہو اور میں یہاں چھپ کر ان کا کام آسان کر دوں۔۔۔

          باہر طبیلے میں کچھ آہٹ سی ہوئی..میں اٹھ کر کمرے سے باہر آیا ………..یہ حنا تھی……….. جانوروں کو چار ڈالنے آئی تھی……..میں کچھ کہنے ہی والا تھی کہ دروازے پر کسی گاڑی کی آواز آئی … آواز حنا نے بھی سن لی تھی………….وہ پھرتی سے میرے پاس آئی…………….میرے پاس آئے اور مجھے لگ بھگ دھکیلتے ہوئے کامرے میں لے آئی…………..

          ”جلدی سے چھپ جاو، باہر مت نکلنا…….وہ لوگ تمہیں ڈھونڈھنے آ گئے ہیں….” کہہ کر اسے میرے کمرے کے کونے میں دھکیلا اور جلدی سے سارا سوکھی گھاس میرے اوپر ڈالنا شروع کر دی……….….. میں بھی صورتحال کو سمجھ گیا تھا… اور کچھ ہی سیکنڈ میں کمرہ گھاس پھوس سے بھر گیا تھا………….

          میں سانس روک کر گھاس پھوس کے ڈھیر کے نیچے چھپا ہوا تھا ……… میرا دل اس

          وقت گھڑی کی ٹک ٹک سے بھی تیز دھڑک رہا تھا………باہر سے کچھ لوگوں کے بولنے کی آواز آ رہی تھی، زبان کیوں کہ اجنبی تھی اس لیے میری سمجھ سے باہر تھی.بیچ بیچ میں حنا کی آواز بھی آ رہی تھی….پھر کچھ پلوں کے لیے آواز تیز ہو گئی ایسا لگا جیسے وہ لوگ لوگ بات کرتے کرتے نزدیک آ گئے ہوں……………

          ان کے کچھ الفاظ میری سمجھ میں آئے جو بھی تھا بولنے والا اس کے لہجے سے پتہ چل رہا تھا وہ کوئی آرمی آفیسر ہے۔۔۔

          وہ کہہ رہا تھا اف یو سی اینی ون انفارم اس ہی از آور اینی می فرام انڈین ائرفورس آئی ہوپ یو ول ہیلپ اس ۔۔۔

          حنا نے بھی جواب میں اپنی زبان میں ہی کچھ کہا۔۔۔۔

          پھر کچھ دیر خاموشی سی رہی.اور پھر دوبارہ گاڑی کے جانے کی آواز میرے کانوں میں پڑی…………….گاڑی جانے کے 5 منٹ بعد تک بھی میں ایسے ہی پڑا رہا اور انتظار کرتا رہا ………………….

          "باہر آ جاو……..وہ لوگ چلے گئے ہیں" حنا کی آواز میرے کانوں آئی اور میں گھاس پھوس کو ہٹا کر باہر نکل آیا …………… باہر برف پڑ رہی تھی اور میں پھر سے سے بھیگ گیا تھا …………………..

          باہر آ کر میں لمبی لمبی سانسیں لینے لگا… حنا میرے سامنے ہی کھڑی تھی اور مجھے ہی دیکھ رہی تھی ……….اسکا چہرہ لال ہو رہا تھا…. کچھ دیر کے بعد جب اسے لگا کہ مین اب نارمل ہو گیا ہوں، تب اس نے بات

          شروع کی "وہ لوگ تمہیں ہی ڈھونڈھتے ہوئے آئے تھے"

          "کون لوگ تھے وہ؟ بھارتی فوجی؟

          میں نے لمبی لمبی سانسے لیتے ہوئے کہتے ہیں۔

          اس نے ہاں میں سر ہلایا…………. اس کی آنکھوں میں ابھی تک خوف تھا اور

          چہرے پر پریشانی سی دکھائی نظر آ رہی تھی…………..

          "میجر سکھی رام یہاں کا ایریا کمانڈر ہے وہ ……….. خود تمہیں ڈھونڈھنے آیا تھا اس کے سپاہی تمہیں پورے علاقے میں ڈھونڈ رہے ہیں……………….ان کو پتہ چل گیا ہے کی پاکستانی فضائیہ کا ایک

          جہاز اس ایریا میں گرا ہے اور اسکا پائلٹ ابھی زندہ ہے……“ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی…………….میں حیران تھا کی وہ انگریزی کے الفاظ بھی اتنے اچھے بول رہے ہیں ……..

          اس نے یہ سب الفاظ بڑے شسستہ لہجے میں ادا کیے تھے۔۔۔۔۔

          کچھ دیر تک ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر وہ میری آنکھوں سے آنکھیں نہ ملائے رکھ سکی ……………..اور آنکھیں جھکا کر باہر نکل گئی……….

          میں بھی اٹھا گیا اور اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا باہر نکل آیا…………….. ہلکی ہلکی برف اب بھی ہو رہی تھی…………..باہر کھلے صحن میں سفید چادر سی بچھ گئی تھی….

          اب ایک دو دن تک وہ شاید نہیں آئے گا … لیکن سکھی رام بڑا کمینہ آدمی ہے اس کو مطمئن کرنا بہت مشکل کام ہے”

          اس کے لہجے میں جو نفرت تھی وہ مجھ سے چھپی نہ رہ سکی ۔۔۔

          جو کچھ یہاں کی عورتوں کے ساتھ بھارتی فوجی کر رہے تھے وہ دنیا سے چھپا نہیں تھا ۔۔۔

          ہم تک تو گنے چکے واقعات پہنچتے تھے حقیقت میں وہ لوگ کس قدر گری ہوئی حرکات کرتے تھے اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔

          اس حوالے سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے اعداد و شمار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔۔۔

          ایک تنظیم کی سربراہ نے جب اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حالات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا تھا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی تھی اور زار و قطار رونے لگ گئی نا صرف وہ بلکہ وہاں موجود ہر وہ شخص جو درد دل رکھتا تھا اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکا تھا۔۔۔

          جہاں تک بھارتی افواج کا تعلق ہے تو وہ دنیا کی وہ گھٹیا فوج جس کے دستوں کو جب افریقہ میں اقوام متحدہ کے امن دستے کے ساتھ بھیجا گیا تو اس نے جو وہاں کی عورتوں کے گند رچایا تھا اس پر بھی دنیا نے ان پر تھو تھو کی تھی۔۔۔۔

          اس نے باہر دیکھتے ہوئے کہا……

          میں اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا…….اس وقت وہ مخصوص کشمیری لباس زیب تن کیے ہوئے تھی…………..لمبا سا کرتا، بند گلے کا…… شلوار اور سر پر ایک کپڑا بندہ ہوا تھا ……….کل ملا کر اسکا صرف چہرہ ہی کپڑوں سے باہر تھا …………..باہر سے ہلکی ہلکی بوندیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں اور اس کے چہرے کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہی تھیں………… نکھرتے حسن پر پانی کی بوندیں چمکتے موتیوں کی سی لگ رہی تھیں۔۔۔۔ پانی کے قطرے اس کے چہرے کی گلابی رنگت سے گلابی لگ رہے تھے۔۔۔

          ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے گلاب پر پھول پر پانی کی پھوار ڈال دی ہو۔۔۔۔

          سامنے گھر کا دروازہ کھلا اور شازیہ باہر نکل کر آئی …………..دھیرے دھیرے چلتے ہوئے وہ ہم دونوں کے نزدیک آ گئی…..اور اپنی بہن سے کچھ بات کرنے لگی…………..اپنی مقامی زبان میں….اب میں شازیہ کو دیکھ رہا تھا …….اس کا لباس بھی بالکل حنا جیسا تھا…………پر جب میں دونوں کا موازنہ کرتا تو مجھے شازیہ زیادہ پرکشش لگتی تھی….شاید اس کی وجہ اس کی کم عمر تھی یا اس کے چہرے سے امنڈتی معصومیت ………

          کچھ دیر بات کرنے کے بعد دونوں بہنیں گھر کے اندر چلی گئیں………میں وہیں کھڑا موسم کا مزہ لے رہا تھا……..قریب 5 منٹ کے بعد حنا گھر سے باہر نکلی …………..اب اس نے ایک شال اوڑی ہوئی تھی………..اور

          ایک چھتری بھی اس کے ہاتھ میں تھی..وہ تیزی سے گھر سے بائیں طرف والی پگڈندی پر چل دی…….جس طرف سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی گاڑی آئی تھی …………. میں اس وقت سے دیکھتا رہا جب تک وہ مجھے دکھائی دیتی رہی ………… پھر میں اندر آکر کمرے میں بیٹھ گیا.....

          میں کمرے میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا جب باہر کچھ آواز آئی…… یہ شازیہ تھی، وہ کمرے کے اندر آئی، اس کے ہاتھ میں

          چائے کے دو کپ تھے… ایک کپ اس نے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا “چائے پی لیجیے”

          میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور چائے کا کپ اس سے پکڑ لیا….وہ اپنا کپ لیکر کمرے سے باہر نکل گئی……….میں نے چائے کے کپ میں سے ایک گھونٹ بھرا اور پھر اٹھ کر کام سے باہر آ گیا……….وہ طبیلے کی ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی ……… باہر ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی اور وہ ادھر ہی دیکھ رہی تھی……

          میں اس سے کچھ دور دیور سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا……..اور چائے پینے لگا…… پھر اس نے ہی بات شروع کی …

          آپ یہاں تک کیسے پہنچ گئے؟

          "اسکے چہرے پر وہی معصوم سی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

          "میں بتایا تھا کک میں پاکستانی ایئر فورس میں پائلٹ ہوں... میں اپنی فوج"

          کے لیے کچھ سامان لے کر کارگل جا رہا تھا پر ریڈیو کی تکنیکی خرابی کی وجہ سے غلط پیغامات وصول ہوئے جس کی وجہ سے راستہ بھٹک گیا……….میرا طیارہ انڈین بارڈر کے اندر چلا گیا اور ان لوگوں نے اینٹی ایئر کرافٹ میزائل سے مجھ پر حملہ کر دیا جس سے جہاز میں آگ لگ گئی اور مجھے کودنا پڑ گیا “

          میں اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا اس کو اپنی بات سمجھانے کی کشش کر رہا تھا…

          "اور یہ چوٹ کیسے لگ گئی آپ کو؟ "اس نے میری پنڈلی کی طرف اشارا کرتے ہوئے

          کہا۔۔۔۔۔

          "معلوم نہیں کب، پر جب میں زمین پر گرا تب ہی کوئی لوہے لی چیز اس میں"

          گھس گئی تھی " میں مسکراتے بولا ۔۔۔۔۔ اس نے ایسے منہ بنایا جیسے میرے زخم سے اس کو درد محسوس ہو رہا ہو۔۔۔۔

          "تم بہت بہادر ہو......" وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی۔۔۔۔۔

          کچھ پلوں کے لیے ہم ایک دوسرے کو ہی دیکھتے رہے پھر اس نے ہی نظریں پھیریں۔۔۔

          تمھارے گھر میں اور کون کون

          ہے ……..” وہ باہر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔

          "میرے علاوہ امی ابا اور ایک چھوٹی بہن، بس"

          "اور تمہاری بیوی؟"

          "میں نے ابھی شادی نہیں کی" میں آہستہ سے ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔

          اس نے میری طرف دیکھا اور پھر مسکرا دی ………اسکی یہ مسکراہٹ میرے سارے وجود میں ہلچل سی مچا دیتی تھی۔۔۔۔

          "اور تمہارے گھر میں کون کون ہے؟ "اب میں نے اس سے سوال کیا"

          "میں؟" وہ چونک کر بولی "میں اور باجی، بس"

          "اور تمھارے امی ابا ………. تمھارے جیجا، میرا مطلب حنا کے شوہر وہ کہاں ہیں"

          "ہمارے والد صاحب تب بھی فوت ہو گئے تھے جب میں 8 سال کی تھی، مجھے زیادہ یاد نہیں ………… بس اتنا ہی یاد ہے کہ وہ تاجر تھے سرحد پر جاتے رہتے تھے ایک دن خبر آئی اور گھر میں سبھی لوگ رونے لگے…………..ان کی لاش تک نہیں ملی تھی جب میں ہوش سنبھالا کچھ سمجھنے کے قابل ہوئی تو میں نے امی سے سنا کہ ان کو بھارتی فوجی اٹھا کر لے گئے تھے دہشت گرد کہہ کر مار دیا تھا …………

          "وہ اس وقت صحن میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی، اسکی آنکھوں میں پانی نظر آ رہا تھا جو باہر چھلکنے کو تیار تھا۔۔۔۔

          "اور تمہاری امّی؟"

          میں نے آگے پوچھنا جاری رکھا۔۔۔

          "ابا کے انتقال کے بعد، امی ہم تینوں کو لیکر نانی کے گھر کپواڑہ" چلی گئی تھی……… “وہ میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی۔

          "تینوں کون؟ "میں نے پھر سے سوال کیا

          "ہم دو بہنیں اور بھائی جان……"

          "تمہارا بھائی؟ , تمھارا کوئی بھائی بھی ہے، مجھے نہیں معلوم تھا"

          میرے لیے ایک اور نئی جانکاری تھی، وہ جتنا بتا رہی تھی، میرے دماغ میں اُتنے ہی نئے سوال اٹھ رہے تھے۔۔۔۔

          "ہے نہیں تھا…………..اب وہ بھی اس دنیا میں نہیں ہے"

          اس نے پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا…

          "کچھ سال ہم لوگ وہاں رہتے رہے، پھر باجی کا نکاح ہو گیا اور باجی یہاں"

          آ گئی…….تب تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، بھائی جان مجھ سے تقریباً 4 سال بڑے تھے…

          وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی…….اس کی آنکھوں میں اب آنسووں کی جھڑی لگ گئی تھی اور وہ اپنے گھٹنوں میں منہ چھپا کر سسکنے لگی….

          میں آہستہ سے اٹھ کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا …………… میں نے ایک ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا اور اُسے دلاسہ دینے کی کوشش کرنے لگا……. 2-3 منٹ تک رونے کے بعد اس نے اپنا چہرہ اوپر کیا اور اپنے آنسو پوچھنے لگی…

          مجھے معاف کر دو…………… مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوگی، نہیں تو میں ایسے سوال کبھی نہیں پوچھتا "میں نے اس کے کندھے"

          کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

          "کوئی بات نہیں……..بہت دنوں بعد کسی کو بتا رہی ہوں ناں، اس لیے شاید ایسا ہو گیا "اس نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا...

          ’’بھائی جان، جہادیوں کے ساتھ کام کرنے لگ گئے تھے ایک تنظیم میں شامل ہو گئے تھے اور چھاپہ مار گروہ میں تھے..ایک دن خبر آئی کہ پلوامہ میں ایک چھڑپ کے دوران ہندوستانی فوج نے انکو شہید کر دیا ہے……… امی بھی ان کی موت برداشت نہیں کر پائی، انہوں نے چارپائی پکڑ لی اور پھر 2-3 مہینوں میں ہی وہ بھی گُزر گئی" وہ پھر سامنے زمین پر دیکھتے ہوئے بتا رہی تھی "اسکے بعد باجی مجھے بھی اپنے

          ساتھ لے آئے، تقریباً 4 سال سے میں یہاں ہوں"

          "اور تمھارے جیجا، وہ اب کہاں ہیں؟ "میں اپنی سوالات ابھی تک روک نہیں پا رہا تھا۔۔۔.

          "معلوم نہیں" جو پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

          "مطلب!!! , ,

          وہ پھر کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی ………..کہیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو …..کچھ ہی سیکنڈ بعد اس نے بولنا شروع کیا … “انکاں سیب کا کاروبار تھا، جس کے لیے وہ اکثر سرحد کے اس پار پاکستان جاتے رہتے تھے……….. ہندوستانی فوج کو ان پر شک ہو گیا کہ وہ جاسوسی کرتے ہیں ..کئی بار انکو پوچھ گچھ کے لیے بلایا……ایک بار جب وہ پاکستان سے واپس لوٹے، تبھی فوجی گاڑی بھی انکے پیچھے پیچھے ہی آ گئی………….وہ ان کو ساتھ لے جانے لگے

          ………….منع کرنے پر وہ لوگ ان کو مارنے لگے،…وہ بار بار کہتے رہے کہ وہ بے قصور ہیں ………………… باجی نے بھی بہت کوشش کی پر وہ لوگ نہیں مانے… باجی نے تو اُنکے پاؤں بھی پکٹ لیے… پر ان میں سے ایک کمینے نے اسے لات مار کے الگ کر دیا، اور انکو ساتھ لے گئے………” کہتے کہتے

          اس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے "اسکے بعد وہ کبھی واپس نہیں

          لوٹے، شاید ان لوگوں نے انہیں بھی مار دیا……….."

          اس بار میں اس کے اور پاس چلا گیا، میں اس کے سر کو دھیرے دھیرے سے سہلانے

          لگا ……….اسکی ہچکیاں پھر سے دھیمی پڑنے لگیں ……..اس نے میری طرف

          دیکھا اور اچانک میرے سینے سے آلگی اور اپنا سر میرے سینے میں چھپا لیا اور پھر زاروقطار رونے لگی ………

          میرے لیے یہ بڑا عجیب تھا…………. میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی تھی کہ کتنا دکھ سہہا ہے ان دونوں بہنوں نہیں، بھارتی فوج پر بھی غصہ تو فطری بات تھی۔۔۔۔

          لیکن اس سب کے باوجود ایک رومانوی جذبات بھی پیدا ہو رہے تھے کیوں کہ وہ اس وقت میرے سینے سے لگی ہوئی تھی………………

          2-3 منٹ بعد وہ چپ ہو گئی ....لیکن اب اس نے اپنا سر میرے کندھے پر ٹِکا رکھ

          تھا…………….میں پھر بات شورو کی۔۔۔۔

          "واقعی ………….بہت برا وقت دیکھا ہے تم لوگوں نہیں… خاص طور پر حنا

          نے اس نے اپنے شوہر کو بھی کھو دیا"

          ’’اور ساتھ میں اپنے بچے کو بھی………‘‘ اس نے جیسے ایک اور دھماکا سا کیا

          "بچے کو!!!!!!!! کیا اسکا بچہ بھی تھا؟ " میں تو پھٹ پڑا تھا میرے اندر اس کی بات سن کر بھونچال سا آگیا تھا کیا کچھ سوچنے لگا ان درندہ صفت فوجیوں کے بارے میں۔۔۔۔

          "تھا نہیں، ہونے والا تھا…………… وہ اس وقت امید سے تھی….جب اُس کمینے نے اُن کے لات ماری، بیچاری بیہوش ہو گئی تھی

          ………………….اور پھر اگلے ہی دن”آگے وہ کہہ نہ سکی، لیکن میں پوری بات سمجھ چکا تھا ………………….

          میں نے اس کے گرد اپنا ایک بازو لپیٹ دیا………….وہ اور پاس آ گئی اور

          اپنا چہرا پھر سے میرے سینے میں چھپا لیا……………………….

          قریب پانچ منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی بیٹھے رہے…………..اسکی کہانی سن کر مجھے ایسا لگا رہا تھا کہ پہلے ہی ان کی زندگی میں اتنی پریشانیاں تھیں

          میں نے آکر ایک اور بڑا دی………….اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ ان لوگوں نے مجھے پناہ دی ہے تو جانے کیا کیا ظلم کریں گے ان پر………… میں من ہی من میں فیصلہ کیا کہ اب میں ایسے یہاں سے نہیں جاؤں گا…………..کچھ نہ کچھ تو ان کے لیے کرنا ہی پڑے گا………….کیا، یہ ابھی مجھے نہیں

          معلوم تھا، پر امید تھی کہ کچھ تو ہو ہی سکتا ہے……………

          میں نے دیکھا، شازیہ ابھی تک میرے پہلو میں سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی……….وہ وقت کھلے صحن میں کہیں دیکھ رہی تھی…………..میں نے پھر اس سے

          پوچھا …………” حنا ابھی کہاں گئی ہے “

          "باغ تک..." اس نے ایک نظر میری طرف دیکھ کر کہا اور پھر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی

          "باغ؟؟ کیسے باغ؟ ,

          "بتایا تھا نہ کہ سیب کے باغ تھے ان کے شوہر کے………..انکے جانے کے بعد باجی ہی ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، یہیں گاؤں سے نیچے جاکر ہیں ہمارے باغ۔۔۔۔

          "ٹھیک ہے ……………… پر وہ ایک عورت ہوکر سارا کام خود کیسے کر لیتی ہے"

          “نہیں………….اکیلی نہیں ہے وہ…دو آدمی بھی ہیں باغ کی دیکھ بھال کے لیے…… باجی تو بس حساب کتاب دیکھتی ہے “اسں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا …………اس کی مسکراہٹ ایسی لگ رہی تھی جیسے بادلوں سے چاند نکل آیا ہوں۔۔۔۔ جیسے چاند کے سامنے سے اچانک بادلوں کا سایہ ہٹ گیا ہو…………… جی میں آیا آگے بڑھ کر اس کو چوم لونلں، لیکن میں نے فلحال اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہی ٹھیک سمجھا ………

          وہ اٹھ کھڑی ہوئی ……………ساتھ میں بھی …………

          "تمہاری باجی پڑھ لکھ لیتی ہیں؟" می نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا

          "جی ہاں باجی وہاں کپواڑہ میں نرس کا کام کرتی تھی …….."

          "اوہ ……… تبھی اتنی اچھی ڈریسنگ کی تھی میرے زخم پر…….. تم ابھی کچھ دیر پہلے مجھے بہادر کہ رہی تھی…….مجھ سے لگا ہے کہ تم لوگ مجھ سے زیادہ بہادر ہو.جو اتنی پریشانیوں کے بعد بھی ہمت سے

          سب کا سامنا کر رہی ہو……“

          کہتے ہوئے میں نے پھر اسں کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا………..وہ کچھ سیکنڈ

          میری آنکھوں میں دیکھتی رہی، پھر نظروں کو جھکا لیا، میں نے اسے اپنے قریب کیا.وہ بھی شاید میرے احساس کو سمجھ رہی تھی…..اس کی سانسیں اب بھاری ہونے لگی تھیں ………لیکن نظر زمین سے ہی چپکی ہوئی تھی ………….میں نے ہاتھ کاندھے سے ہٹایا اور اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا……………اس نے فوراً نظروں کو اٹھا کر مجھے دیکھا ایک عجب سا سوال تھا اس کے چہرے پر، جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ میرے من میں

          کیا ہے …………… میں نے اسے ہاتھ کو پکڑ کر آہستہ سے اپنی طرف کھینچا ….اور خود بھی ایک قدم اس کی طرف بڑھا دیا ………اسکی سانس اب بہت تیز چل رہی تھی……نظر میرے چہرے پر ہی جمی ہوئی

          تھی……. پھر وہ ایک قدم اور اگے بڑھی اور بالکل میرے کھڑی گئی …………….میری لمبائی اس سے 4-5 انچ زیادہ تھی، میں نے دوسرا ہاتھ اس کے سر کے پیچھے رکھا اور اس کے چہرے کو اپنے سینے سے لگا لیا….. اس کا ہاتھ چھوڑ کر میں نے ایک ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر گھیرا سا بنایا اور پھر دوسرے ہاتھ کو بھی وہیں لے جاکر اسے پوری طرح باہوں میں بھر لیا………

          اس نے ایک بار تو کسمسا کر مجھ سے الگ ہونے کی کوشش کی …………..پھر اس نے

          ہتھیار ڈال دیے اور اپنے دونوں بازو میری کمر پر لے جاکر مجھے جکڑ لیا………

          میں نے اس کے ماتھے پر ایک چھوٹی سی پاری کی……………… پھر اس کا چہرا اپنے

          ہاتھوں میں بھر کر اوپر اٹھایا………..اس کی نظروں میں ایک سوال……..شاید پوچھنا چاہ رہی تھی کہ ہمارے اس رشتے کا انجام کیا ہوگا ……………… میں نے پھر سے اس کے ماتھے کو چوما اور پھر بولا۔"آج کے بعد اپنے آپ کو اکیلا مت سمجھنا.میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں "کہہ کر میں نے اسے اپنی باہوں سے آزاد کر" دیا…….ناچاہتے ہوئے بھی…….وہ پیچھے کو ہٹی………… ایک بار پھر مجھے دیکھ کر مسکرائی اور پھر بھاگتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی..

          میں طبیلے کے گیٹ پر آکر کھڑا ہو گیا………باہر اب برف باری رک چکی تھی……..لیکن آسمان پر بادل اب بھی چھائے ہوئے تھے … پھر ایک آواز آنے لگی………….کسی موٹر سائیکل کی آواز تھی یہ، جو دھیرے دھیرے

          نزدیک آ رہی تھی......میں تھوڑا پیچے ہوکر آڑ میں ہو گیا……………یہاں سے میں سب

          کچھ دیکھ سکتا تھا پر مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا………………………

          آواز نزدیک آتی جا رہی تھی………….پھر گھر کے سامنے ایک موٹر سائیکل آ کر

          رکی …….موٹرسائیکل پر آگے ایک لڑکا بیٹھا تھا اورپیچھے حنا…………….

          حنا موٹرسائیکل سے اتری اور اُس لڑکے سے کچھ کہا، پھر وہ گھر کے اندر چلی گئی…………..لڑکا وہیں، موٹرسائیکل پر ہی بیٹھا رہا………….شاید حنا کے آنے کا انتظار کر رہا تھا………

          میں نے اس لڑکے پر غور کیا……..وہ لگ بھگ میری ہی عمر کا تھا…….میرے

          جیسا ہی سخت جسم ………….ایک اور چیز جو اس کو عام کشمیریوں سے الگ کرتی

          تھی، وہ تھا اُسکا کلین شیو چہرا ………… میں نے غور کیا تو اُسکی ناک بھی عجیب سی تھی جیسے اس پر کافی بار زخم آئے ہوں یا مکے لگے ہوں…………ایسا تو صرف پروفیشنل باکسر کے ساتھ ہو سکتا تھا یا کسی پروفیشنل لڑاکا کے ساتھ……….

          حنا کچھ دیر بعد باہرر آئی………..اسکے ہاتھ میں کچھ پیسے تھے ………..جو اس

          لڑکے کو دیے……….لڑکے نے پیسے اپنی جیب میں رکھے……….پھر اس نے حنا کے کان کے پاس منہ لے جاکر کچھ کہا….. وہ سن کر حنا دھیرے سے مسکرائی اور پھر اپنا سر ہاں میں ہلا دیا……..لڑکے نے موٹرسائیکل کو اسٹارٹ کیا………..واپس موڑا اور پھر وہاں سے چلا گیا……………….. میں اس کو تب تک دیکھتا رہا ہے جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو گیا ………… پھر میں اندر

          سے نکلتے ہوئے طبیلے کے دروازے پر آ گیا………… حنا نے ایک بار مجھےدیکھا…. خاموش نگاہوں سے اور پھر مڑ کر گھر کے اندر چلی گئی………..

          رات تک اور کچھ خاص بات نہیں ہوئی.. میں طبیلے کے اندر باہر ٹہلتا رہا …… اور بور ہوتا رہا ………… دونوں بہنیں اپنے گھر کے اندر ہی رہیں اور میں طبیلے میں….

          رات کے 8.30 بجے کے قریب شازیہ کھانا لے کر آئی اور چپ چاپ پلیٹ رکھ کر

          چلی گئی ……….میں نے بھی اس سے بات کرنے کی کوئی کوشش ن کی…….. میں چاہتا تھا کہ اب اگلا قدم اس کی طرف سے ہونا چاہئیے……….

          کھانا کھانے کے بعد میں تھوڑی دیر طبیلے کے اندر ٹہلتا رہا اور پھر آکر اپنے بستر پر لیٹ گیا ………

          ایک گھنٹء بعد آہٹ ہوئی…………….یہ حنا تھی………..اس نے دروازے پر دستک دی اور پھر کمرے کے اندر آ گئی ……اسکے ہاتھ میں پہلے فرسٹ ایڈ بکس تھا……….میں اسے دیکھ کر بیٹھ گیا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ اسے خوش آمدید کیا………

          "لاؤ، تمھاری چوٹ پر پٹی کر دوں"

          وہ میرے سامنے بیٹھ گئی……….میں نے اپنے پاؤں کو آگے بڑھا دیا……..اور اس سامنے کچھ اونچا کر کے رکھ دیا………

          ایک چیز جو میں نے محسوس کی وہ اس کا لباس تھا…………….

          اس اپنا ڈریس چینج کر لیا تھا ……… وہ ایک لمبا سا گاؤن ٹائپ کا لبادہ پہنے ہوئے تھی اور اوپر سے شال لی ہوئی تھی……. شال سے صرف کندھے ڈھکے ہوئے تھے اور سامنے سے لپیٹی ہوئی نہیں تھی …….. اسکے گاؤن کے سامنے والے حصے پر بٹن لگے ہوئے تھے ………… جو اس وقت لگ بھگ سارے کے سارے کھلے ہوئے تھے…………

          میری پنڈلی کو ہاتھ میں پکڑنے کے بعد جب وہ تھوڑا آگے کو سرک گئی اور پھر میرے پاؤں پر جھک گئی………….اب جو نظارہ میرے سامنے تھا وہ کسی بھی آدمی کا ایمان خراب کر سکتا تھا………… اس کے جھکتے ہی سینے پر سے دونوں پلے تھوڑا اور کھل گئے، اور جو فرق بن رہا تھا وہ اور بڑا ہو گیا ………

          اب اس کے دونوں ممے پوری طرح میری آنکھوں کے سامنے تھے جیسا میرا خیال تھا اس سے کچھ بڑے ہی تھء اور نپل بھی عام لڑکیوں سے تھوڑے بڑے ہی لگ رہے تھے…………. میری رگوں میں خون کی گردش اچانک بڑھ گئی اور اپنے آپ پر قابو پانا مشکل سا ہو رہا تھا………….پتا نہیں وہ اپنی حالت سے انجان تھی یا پھر یہ سب وہ مجھے جان بوجھ کر رہی تھی………. پر اس وقت وہ ان سب چیزوں سے انجان بنی ہوئی میرث زخم پر ڈریسنگ کر رہی تھی۔۔۔۔

          "کیا سوچ رہا ہے؟ "اسنے ڈریسنگ کرتے کرتے ہی پوچھا، اسکی نظر ابھی بھی نیچے ہی تھی

          " کچھ نہیں ………..تمہارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا " اس نے اوپر میری طرف دیکھا، اسکی آنکھوں میں ایک سوال تھا….

          "آج دن میں شازیہ سے بات ہوئی تھی………...اس نے بتایا تمہارے بارے میں"

          "کیا کیا بتا دیا اس نے آپکو؟ "اس نے نیچے کی طرف ہی دیکھتے ہوئے کہا" اس کے ہاتھ ابھی بھی ڈریسنگ میں ہی مصروف تھے..

          "سب کچھ………..تمہارے ماں باپ……تمہارے بھائی اور تمھارے شوہر کے بارے میں بھی …………بہت افسوس ہوا سن کر “میں اس کی طرف ہی دیکھتے ہوئے بولا……

          اس نے ایک بار میری طرف دیکھا……… پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ……….. پھر سر جھکا کر اپنے کام میں لگ گئی………

          "کیا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے تم یہاں سے نکل سکو؟…….شاید کسی بڑے شہر میں تم ایک اچھی زندگی جی سکوں۔”

          میں نے آگے کہا۔

          "شاید تم صحیح کہہ رہے ہو" وہ میری طرف دیکھ کر بولی…

          ڈریسنگ ہو چکی تھی…….فیر وہ تھوڑا پیچھے ہوکر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی …….. “پر کسی دوسرے شہر میں جا کر ہم روٹی کیسے کھائیں گے………….، یہاں تو ہمارے سب کے باغ بھی ہیں جن سے ہمارا

          گزر بسر ہو جاتا ہے.. اور یہ پاکستان نہیں ہے جہاں ہم سب کو ہر طرح کی آزادی مل جائے یہاں اکیلی عورت کے لیے زندگی بہت ہی مشکل ہوتی ہے"

          اگر یہاں سے ہم نکل جائیں تو یہ کتے ہندوستانی فوجی روز ہمیں اٹھانے آ جائیں گے ۔۔۔۔۔

          یہاں تو لوگ ہمیں جانتے ہیں فوجیوں کو بھی اتنا نہیں پتہ کہ ہم اکیلی رہتی ہیں بس چند ایک ہی ادھر آتے ہیں۔۔۔۔

          ورنہ یہ کمینے اتنے گھٹیا ہیں کہ مت پوچھو روز کسی نہ کسی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔۔۔۔

          "اگر میں تمھاری کوئی مدد کر سکوں؟ "میں اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا....

          "پہلے تم اپنے نکلنے کا بندوبست تو کر لو..." وہ ایک ہلکی سی ہنسی کے ساتھ بولی "اور تمھارے لیے ایک اچھی خبر ہے"

          "کیا؟"

          "وہ لوگ تمہی ڈھونڈ ضرور رہے ہیں پر انکو سچ معلوم نہیں ہے"

          کہ تم کون ہو اور کیسے دکھتے ہو.... انکو صرف یہ معلوم ہے کہ کوئی جہاز یہاں گرا ہے، اس میں کتنے لوگ تھے… یہ ان کو بھی نہیں معلوم… تم نے اپنا پیرا شوٹ وہیں ندی کنارے چھوڑ دیا تھا .... بس وہی ایک چیز ہے جس وے ان کو معلوم ہوا تھا کہ کوئی زندہ آدمی ابھی آس پاس چھپا ہوا ہے "وہ میری طرف دیکھ کر بولتی جا رہی تھی

          "پر تمہیں یہ سب باتیں کیسے معلوم؟" میں نے اسے دیکھتے ہیں۔۔۔۔کہا

          "حسن نہ بتائیں ………….حسن وہی تھا جو مجھے چھوڑنے یہاں آیا تھا……..وہ میرے باغ کی دیکھ بھال کرتا ہے…… اس کا ایک بھائی فوج کے دفتر میں کام کرتا ہے، اس سے ہی اسے یہ ساری بات پتہ چلی….وہ مجھے سمجھا رہا تھا کوئی اجنبی یہاں آس پاس چھپا ہوا ہے، اور میں اپنا دھیان رکھوں "آخری بات اس نے ہنستے ہوئے کہی تھی"

          پھر وہ کھڑی ہو گئی اور بولی "تمہارا زخم اب کافی ٹھیک ہو گیا"

          ہے………تم چاہو تو اب کہیں بھی جا سکتے ہو…”

          "مجھے لگتا ہے میں یہاں زیادہ محفوظ ہوں ….باقی جیسا تم کہو، چاہو تو میں ابھی چلا جاتا ہوں۔۔۔۔

          "نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا ……….پر تمہیں اپنے جانے کا بھی تو اننتظام کرنا ہے …….." وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی، ایک عجیب سا احساس اس کی آنکھوں میں دکھائی دے رہا تھا….

          پھر وہ کمرے سے باہر نکل گئی……..میں واپس اپنے بستر پر لیٹ گیا ………….5 منٹ ہی بیتے ہوں گے کہ پھر آہٹ ہوئی……… اس بار شازیہ تھی………..اسکے ہاتھ میں ایک گلاس تھا……….اس نے میری طرف گلاس

          بڑھایا اور بولی "یہ پی لجیئے، دوا ہے…. باجی نے بھیجی ہے، کہا ہے کہ آپکا زخم جلدی ٹھیک ہو جائے گا"

          میں نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیا، کالے رنگ کا کوئی مائع تھا گلاس میں……..میں نے ایک گھونٹ بھرا…………..اففف، بڑا ہی کڑوا تھا………. پھر میں نے ناک بند کی، گلاس کو منہ سے لگایا اور ایک ہی سانس میں خالی کر دیا… میری اس حرکت پر شازیہ کی ہنسی چھوٹ گئی………………..

          "کیا ہوا؟ کیوں ہنس رہی ہو؟"

          "کچھ نہیں، بلکل بچوں کی ترہ دوائی پی رہے وہ، اس لیے……" وہ ہنستے ہوئے بولی…

          "کتنی کڑوی ہے دوائی…… تم پی کر دیکھو" میں منہ بناتے ہوئے بولا "میں کیوں پئیوں... جو بیمار ہو، وہی پیے گا ناں" کہہ کر اس نے میرے ہاتھ سے گلاس لیا اور بولی "میں چلتی ہوں"۔۔​
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #6
            زبردست لاجواب اپڈیٹ

            Comment


            • #7
              زبردست لاجواب

              Comment


              • #8
                Abuhat khoob, aik nai mozoo per buhat achi shurowat ki hai. Aghaz tu buhat acha hai, lagtas hai keh yeh kahani agey aur ziyada mazedaar ho jai gi.

                Comment


                • #9
                  Pilot bhai sahi jahan chalayengay dabal seater.
                  mohabbat hasad aur eesar ki dastan sex aur actuon k tadkay k sath.

                  Comment


                  • #10
                    Behtareen aghaz kahani ka or plote boht zabardast lag raha ha kahani ka

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X