Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

لرزہ خیز قتل کا معمہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    کتنے مراحل

    Comment


    • #12
      انعم راشد علی کے ساتھ پھدی کے چکر میں آئی تھی کہ راشد اسے اوپر سے نیچے تک پیار کرے گا۔۔۔ راشد تو شیطان کا بھی باپ نکلا ۔۔۔ کمینہ انعم پر ظلم پر ظلم کر رھا ھے ۔۔۔ انعم بھی کہ رھی ھو گی راشد علی ۔۔۔ توبہ ۔۔۔توبہ کرا دیتی توں ظالماں ۔۔۔ ھا۔۔۔ھا۔۔۔ھا۔۔۔۔لاجواب ۔۔۔عمدہ ۔۔۔بہترین ۔۔۔زبردست ۔۔۔

      Comment


      • #13
        Rashid ali bohat zalim police wala hai jis ko dard deney kai siwa kuch ata hi nahi isy saza milni chahiye

        Comment


        • #14
          Bhai Bhut khoob kya bat ha ...plz is story ko yaha e continue kijye....

          Comment


          • #15
            واہ کیا بات ہے زبردست

            Comment


            • #16
              سسپنس اور سیکس کا خوبصورت امتزاج ہے۔

              Comment


              • #17
                زبردست، اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کی انتہا کس جیتے گی اور قاتل کون ہوگا۔

                Comment


                • #18
                  Wah moji g, munfarid kahani ha, maza aa gya

                  Comment


                  • #19


                    اس کے بعد راشد نے اٹھ کے اپنے کپڑے اتارے اور اپنے پاؤں انعم کی ٹانگوں کے اطراف رکھ کے کرسی پہ چڑھ گیا۔ اس طرح کرنے سے اس کا لن انعم کے منہ کے عین سامنے آ گیا۔ انعم نے صورتحال کے مطابق اس کا لن منہ میں لے لیا اور چوسنے لگ گئی۔ راشد نے تھوڑا دباؤ بڑھا کے انعم کا سر کرسی کی بیک کے ساتھ لگایا اور لن کو اس کے گلے تک دھکیلنا شروع کر دیا۔ اب انعم کی پوزیشن یہ تھی کہ اس کی گردن پیچھے کو ڈھلکی ہوئی تھی اور منہ چھت کی طرف تھا جبکہ راشد اس کے اوپر چڑھ کے لن اس کے حلق تک اتار رہا تھا۔ اس کے منہ سے تھوک نکل کے اس کی گردن تک جا رہا تھا۔ کافی دیر تک راشد اسی طرح اس کے منہ کو چودتا رہا۔ پھر اس نے نیچے اتر کے انعم کو کرسی پہ ہی گھٹنوں کے بل گھوڑی بنایا اور لن اس کی پھدی پہ سیٹ کر کے زور دار دھکے سے اندر اتار دیا۔ دھکے کی وجہ سے انعم کا جسم آگے کی طرف گیا تو راشد نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے بال پکڑ کے اسے پیچھے کی طرف کھینچا۔ اب اس نے اسی طرح بال پکڑ کے اسے چودنا شروع کردیا۔ ساتھ اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں فلوگر جسے ہم چھانٹا یا کوڑا بھی کہہ سکتے ہیں، پکڑا اور انعم کی کمر پہ برسانا شروع کر دیا۔ انعم اب سیکس کو انجوائے کرنے یا درد سے چیخنے کی بجائے جلد از جلد اس عذاب کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور دو تین منٹ بعد ہی راشد اس کے اندر ہی چھوٹ گیا۔ چھوٹتے وقت اس نے انعم کے بالوں کو پوری طاقت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا اور اپنے دانت اس کی گردن میں گاڑ دیے۔ جب اس کی حالت تھوڑی سمبھلی تو وہ انعم سے الگ ہوا اور الماری کی طرف چل پڑا۔ انعم ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ یہ اب کیا کرنے والا ہے کہ اس کی نظر راشد کے موبائل پہ پڑی۔ اس نے اپنا موبائل الماری کے اوپر اس طرح سیٹ کیا ہوا تھا کہ اب تک کی ساری کاروائی کیمرے میں محفوظ ہو چکی تھی۔ انعم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ویڈیوز ڈیلیٹ کروانے کے چکر میں میں وہ ایک اور ویڈیو بنوا چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی راشد بولا: میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ میرا شوق ہے اور میں یہ ویڈیوز اپنے لیے بناتا ہوں اس لیے ان کو لے کے تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اگر تم نے ادھر رکنا ہے تو ساتھ والا کمرہ میرا بیڈ روم ہے، تم صبح تک وہاں رہ سکتی ہو۔ انعم نے رکنے کی بجائے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس نےکہا: نہیں میں بس نہا کے نکلتی ہوں۔ راشد نے اسے ساتھ والا کمرہ کھول کے دیا اور وہ نہا کے وہاں سے نکل گئی۔ راشد نے جاتے ہوئے اس سے کہا کہ دوبارہ بلاؤں تو چپ چاپ چلی آنا۔ انعم نے اثبات میں سر ہلایا اور چلی گئی۔

                    اگلی صبح فون کی گھنٹی سے راشد کی آنکھ کھلی۔ اس نے نیند میں ہی کال اٹینڈ کر کے ہیلو کہا تو آگے سے اسے صائمہ کی آواز سننے کو ملی۔ اس نے سخت بے زاری سے کہا: اتنی صبح کیا مصیبت آن پڑی جو مجھے نیند سے جگا دیا۔ صائمہ نے کہا: وہ میں کچھ دنوں کے لیے امی کے گھر جا رہی تھی۔ راشد بولا: تو جاؤ، میں نے کب روکا ہے تمہیں؟ وہ بولی: دراصل میرے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے تو اگر آپ کچھ پیسے دے دیتے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ راشد اس کی بات کاٹ کے بولا: ابھی کچھ دن پہلے تو تمہیں پیسے دیے تھے، ابھی نہیں ہیں میرے پاس، اپنی ماں سے لے لینا، اتنا کہہ کہ اس نے کال کاٹ دی۔ صائمہ سے اس نے واجبی سا تعلق رکھا ہوا تھا۔ گھر بھی وہ تب ہی جاتا تھا جب اس کو سیکس کے لیے کوئی اور لڑکی میسر نہیں ہوتی تھی۔ خرچے کے لیے پیسے بھی اتنے کم دیتا تھا کہ وہ بمشکل گزارہ کر پاتی۔ جب وہ اس زندگی سے زیادہ اکتا جاتی تھی تو کچھ دن اپنی ماں کے گھر رہنے چلی جاتی۔

                    گھر سے نکل کے رکشہ لے کے وہ گڑھی شاہو پہنچی جہاں اس کے ماں باپ کا گھر تھا۔ رکشے والے کو اس نے سٹاپ پہ ہی اتارنے کا کہا کیونکہ اسے میڈیکل سٹور سے اپنے لیے کچھ دوائیاں خریدنی تھیں جو شمائلہ نے اسے لکھ کہ دی تھیں۔ دوائیاں لے کے جیسے ہی وہ سٹور سے باہر نکلی اس کی آنکھوں کے سامنے یکدم اندھیرا چھا گیا اور وہ لہرا کے سڑک کے درمیان ایک گاڑی کے آگے گر پڑی۔ گاڑی والے کی رفتار چوک کی وجہ سے کم ہی تھی لیکن پھر بھی اس نے گاڑی کو بمشکل روک کے اسے نیچے آنے سے بچایا۔ گاڑی چلانے والا ایک خوش شکل نوجوان تھا جو فوراً گاڑی سے اتر کے انعم کی طرف بھاگا۔ انعم کے پاس پہنچ کہ اس پہ انکشاف ہوا کہ وہ بے ہوش ہو چکی ہے۔ اس نے اس کے پاس بیٹھ کے اس کے گال تھپتھپائے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہوش میں نہ آئی۔ ارد گرد لوگ جمع ہو گئے جن میں سے اکثر انعم کے بے ترتیب کپڑوں میں سے نظر آنے والے جسم سے آنکھیں سیکنے میں مصروف تھے۔ گاڑی والے نوجوان نے لوگوں کی نظروں کو بھانپ لیا تھا اس لیے اس نے انعم کو ہوش میں لانے کی کوشش ترک کردی۔ اس نے بھیڑ میں موجود ایک کم عمر لڑکے کو اشارہ کیا اور اس کی مدد سے انعم کو اٹھا کہ گاڑی میں ڈالا۔ دوائیوں والا لفافہ بھی اٹھا کے گاڑی میں رکھا اور اسے قریبی پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔ اس نے انعم کو ایمرجنسی میں ڈاکٹرز کے حوالے کیا اور خود ویٹنگ ایریا میں بیٹھ گیا۔ آدھے پونے گھنٹے بعد ڈاکٹر نے آ کے اسے اس کے نام سے مخاطب جو اس نے پرچی کاؤنٹر پہ لکھوایا تھا۔ ڈاکٹر بولا: وقاص صاحب آپ نے مریض کا نام کیوں نہیں لکھوایا؟ وقاص نے بتایا: میں ان خاتون کو نہیں جانتا، یہ سڑک پہ بے ہوش ہو گئی تھیں تو میں اخلاقاً انہیں یہاں لے آیا۔ آپ یہ بتائیں کہ ان کی حالت اب کیسی ہے؟ ہوش میں آ گئی ہیں وہ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا؛ جی وہ ہوش میں تو آ گئی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کیس میں پولیس کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ وقاص نے حیرت سے پوچھا! وہ کیوں؟ ڈاکٹر نے کہا؛ ان کی حالت سے لگتا ہے کہ انہیں کسی نے حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا۔ ان پہ تشدد بھی کیا گیا ہے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ان کے جسم میں نقاہت بھی بہت ہے۔ وقاص نے اسے کہا کہ اس خاتون نے آپ کو کچھ نہیں بتایا؟ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ شاید کسی دباؤ کی وجہ سے کچھ بتا نہیں رہی۔ وہ بس یہاں سے جانا چاہتی ہے۔ وقاص نے کہا؛ اگر آپ اجازت دیں تو میں بات کر کے دیکھتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا؛ میرے خیال میں ہمیں پولیس کو بلانا چاہیے، وہ اس کی مدد بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔

                    جاری ہے​
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #20
                      واہ۔۔واہ۔۔۔ مزہ آ گیا جناب ۔۔۔ راشد علی نے تو انعم کو منہ اور پھدی میں انعام دے دیا۔۔۔ انعم نے پہلے کار میں مزے لیے پھر راشد کے فلیٹ میں انعام حاصل کیا۔۔۔ اب وقاص کے ساتھ کیا گل کھلاتی ھے۔۔۔ بہت ھی اعلی درجے کی تحریر ہے ۔۔۔ لاجواب ۔۔۔عمدہ ۔۔۔بہترین ۔۔۔زبردست ۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X