Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Kaya jadu bhar diya hai story ma

    Comment


    • قسط نمبر 24

      شاکرہ پچھلے ایک دو روز سے بہت مصروف ہو گئی تھی زینت کے جانے کے بعد وہ اگلے دو روز تک سائقہ کے میڈیکل کالج جانے کے بعد گھر کی اضافی کاموں میں مصروف رہتی اور ساتھ والے روم پر خصوصی توجہ دے رہی تھی صبح اتوار تھی اور کو کھانا کھانے کے بعد وہ مجھ سے پوچھنے لگی زائد کل سقی کی چھٹی ہے اگر آپ آکیلے گزارا کر سکیں تو ہم بازار جائیں گے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا خیریت ؟؟؟ شاکرہ مسکرا کے بولی خیریت تو نہیں ہے ناں۔۔۔ آپ دونوں لیلیٰ مجنوں کا میں بہت برا حال کرنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔ سائقہ بولی مانوں آپ دونوں کی ایک ہی عادت ہے بات بتاتے نہیں ۔۔۔ آخر تک تڑپاتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاکرہ مسکرا کے اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر بولی اسی میں تو مزہ ہوتا ۔۔۔۔ ہم سونے لگے تھے شاکرہ نے لیٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ زاہد جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ پھر وہ سائقہ کی ران پر تھپڑ مارتے بولی اس پچاس کلو کی گٹھڑی کا وزن پوری رات مجھ سے نہیں اٹھایا جاتا اب۔۔۔۔۔ سقی بولی مانوں ٹھیک بھی ہو جائے تو بھی کیا کریں گے اس مسئلے کا ۔۔۔۔ شاکرہ بولی پھر تیرا بوجھ وہ اٹھائیں گے۔۔۔۔ سائقہ بولی ۔وہ کیوں اٹھائیں گے ؟؟؟ شاکرہ نے اپنی انگلیوں سے اس کی گال کھینچتے ہوئے کہا کہ تم ان کے کام آنے والی چےز ہو۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور بولی کیسے ۔۔۔ شاکرہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ تم بہت بڑی بدمعاش ہو۔۔۔۔اور پھر شاکرہ اسے اپنے اوپر لیٹا کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے کچھ ضروری اہتمام کر کے وہ 9:45 بجے نکل گئی تھیں ۔۔۔۔ میں ٹی دیکھنے کے ساتھ محبت کی گھٹن داستانوں پر غور کر رہا تھا سائقہ کی امی اور ابو نے محبت کی شادی کی تھی اور زندگی بھر اپنے خاندان سے کٹ کر محروم دلوں کے ساتھ رخصت ہو گئے تھے ۔۔۔۔ میں شاکرہ کے بھیجے پیغام پر اپنی کزن کے گھر اسے دیکھنے گیا اور شاکرہ کو دیکھنے کے بعد خود پر رشک کرتے اپنے حوصلے بڑھا گیا اور اپنے خاندان سے ٹکراتے سب سے کٹ کر رہ گیا ۔۔۔ شاکرہ نے بھی اپنے خاندان کو چھوڑ دیا تھا اور اس کی امی کے علاوہ کوئی قابل بھروسہ سہارا نہیں تھا ۔شاکرہ کی دونوں بہنیں اپنے گھروں کی ہو چکی تھی ۔۔ ۔۔۔ سائقہ کا ہمارے گھر کے علاوہ کہیں ٹھکانہ نہیں تھا اور اس کے ساتھ ہم دونوں بھی اپنے اس گھر کی زندگی تک محدود ہو چکے تھے اور شاکرہ بھی سب سمجھ چکی تھی اور سائقہ کے آنے کے بعد اس کی ساری اداسیاں ختم ھو گئیں تھی اس نے نہ صرف اپنی امی کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا بلکہ اب ناول بھی نہیں پڑھتی تھی ۔۔۔ تقریباً دو بجے کے قریب وہ دونوں گھر میں آ چکی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ گاڑی سے سامان نکال رہی ہیں ۔۔۔۔ وہ باتیں کرتی ہنس رہی تھی میں ان کی باتوں کو تو نہیں سمجھ پا رہا تھا لیکن ان کے بار بار ہنسنے پر میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ روم میں آ گئیں اور اپنے لپیٹی چادریں اتارتے ھوئے میری خیریت دریافت کر رہی تھیں ۔۔ سائقہ بولی سوری مانوں آج شکی نے صبح منع کیا تھا کہ مانوں کو کوئی خوراک دے کے نہیں جانا۔۔۔ ان دنوں نعمتوں کی فون کالز کچھ زیادہ آ رہی تھی اور وہ بولتا باجی سے زینت ملنا چاہتی ہے اور شاکرہ زینت سے باتیں کرتی دوسرے روم چلی جاتی تھی ۔۔ اور ہماری شادی کے بعد سے اب تک یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے الگ جا کر کسی سے بات کر رہی تھی ۔۔۔۔ اس وقت بھی زینت سے باتیں کرتی وہ دوسرے روم میں چلی گئی تھی ۔۔۔ سائقہ نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ شاکرہ نے بہت سے کپڑوں کے سوٹ کے علاوہ کچھ دیگر چیزیں خریدی تھیں ۔۔۔ سائقہ کے بتائے فگر پر مجھے حیران ہوکے سوچ رہا تھا کہ وہ اتنے سارے سوٹ کیا کرنے جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد شاکرہ ہمارا کھانا لے کر آئی تو سائقہ بولی شکی مجھے بتا دیا کرو اب مجھے دیکھ کر شرم آتی ہے میں خود کام کر لوں گی ۔۔۔ شاکرہ نے کھانا میرے قریب رکھتے ہوئے بولی سقی ابھی آپ کا ایک امتحان شروع ہونے والا ہے ۔۔۔ اس میں پاس ہو جاؤ پہلے پھر باقی کام بھی کر لینا ۔۔۔ سائقہ بولی۔میں پہلے فرسٹ آئی ہوں ناں اب بھی فرسٹ آؤں گی دیکھ لینا۔۔۔۔۔ شاکرہ بولی پگلی وہ امتحان اور ہوتا یہ اور ہے ۔۔ سائقہ بولی ۔اور مطلب ؟؟؟؟ شاکرہ ہنستے ہوئے بولی اس امتحان میں بہت درد ہوتا افففففففف ۔۔۔ سائقہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ قدرے سنجیدہ ھوتے ہوئے بولی امتحان میں درد ؟؟؟۔ آپ نے امتحان دیا ؟؟ شاکرہ ہنستے ہوئے مجھے دیکھ کر بولی ہاں دیا ہے۔۔۔۔۔ سائقہ بولی پھر ۔؟؟؟؟ شاکرہ ہنسی میں لت پت سر جھکائے ٹوٹتے الفاظ کے ساتھ بولی ۔۔۔ بے ہوش ہو کر پاس ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ میں پہلی بار شاکرہ کو دیکھتے ہو کھلکھلا کر ہنس رہا تھا سائقہ بھی اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کے ہنس رہی تھی ۔۔۔ تین دن بعد شاکرہ کی ایک بہن امی کے گھر آئی ہوئی تھی شاکرہ نے اسے کال کر کے بولا کہ میں 12 بجے آؤں گی میرے ساتھ بازار چلی جانا کچھ سامان لینا ہے میں نے ۔۔۔۔ اور پھر سائقہ کو کہا جاتا کالج سے آ کر۔مجھے امی کے گھر چھوڑ آنا۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ اوکے کرتی مجھے آنکھ مار کے چلی گئی ۔۔۔ سائقہ آج ذرا جلدی آ گئی تھی اور شاکرہ کو بولا دیر تو نہیں آپ کو ۔۔۔۔ شاکرہ بولی نہیں بس مجھے پیسے لا دو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں چلی گئی اور سائقہ اسے امی کے گھر چھوڑ کر کچھ ہی دیر میں آ گئی اور میرے ساتھ لیٹ کر پیار کرتے باتیں کرنے لگی تھی وہ یہاں بہت خوش تھی اور وہ اس خوشی میں اور پیاری ہو گئی تھی ۔۔۔ میں نے کہا سقی بہت دن ہو گئے ۔۔۔۔۔ بہت دل چاہتا ہے اب۔۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کے مجھے دیکھنے کے کہنے ۔۔۔۔ سچ بتاؤں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں مجھے صرف سچ بتایا کرو۔۔۔ بولی آپ نے پہلے بھی میرا جھوٹ نڑپخڑا ھو گا اور آئندہ کی بھی گارنٹی ہے۔۔۔۔۔ میں مسکرا دیا اور پوچھا ۔۔۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی تم ۔۔۔۔۔ بولی میں آپ سے بھی زیادہ بےتاب ہو چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے لگتا شکی ہمیں ملانے جا رہی ؟؟؟ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہاں ایسا ہے ۔۔۔ لیکن وہ پروگرام کیا بنا رہی مجھے معلوم نہیں ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ ہونہہ بتا بھی نہیں رہے گی ۔۔۔۔ پھر سائقہ میرے گال پر ہلکے تھپڑ مارتے بولی ۔۔۔۔ گندے مانوں ۔۔ تم نے اس معصوم پر بہت ظلم کئے ۔۔ میں بدلے لوں گی اب ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ کیسے لو گی بدلہ ۔۔۔۔۔ بولی جیسے تم میرے ساتھ کرتے تھے ناں۔ ۔۔۔ میں اب تیرے ساتھ ویسا کرونگی ۔۔۔ پھر وہ قہقہے لگانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ پانچ بجے اپنی بہن کے ساتھ واپس آ گئی تھی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور کوئی سامان لے کر واپس اس کمرے میں آ گئیں تھی ۔۔ سائقہ منہ پھیلا کر صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ میں نے شاکرہ کی بہن سے رسمی کلمات کے بعد میں نے سائقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاکرہ سے پوچھا ۔۔۔اسے کیا ہوا؟؟۔ شاکرہ بولی مسکرا کر بولی یہ پاگل ہے ۔۔۔ جب ہم بازار سے فارءہو گئے تو چنگ چی پکڑ کر آ گئے اس میں کیا ہے ابھی اس کو کال کرتے اور ۔۔۔ گھنٹہ لوگوں کے سامنے تماشہ بنے کھڑے رہتے ۔۔۔۔۔ شاہدہ (شاکرہ کی بہن ) بولی بھائی آپ بہت لکی ہیں ۔۔۔ (وہ سائقہ کو دیکھ کر بولی تھی ) پھر کہا میں دعا کرتی ہوں اللّٰہ آپ کی خواہشیں پوری کرے ۔۔۔ اور شاکرہ آپ کے لئے بہت بڑی قر۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ رونے لگی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نم آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا گئی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ سائقہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی میں نے ساتھ پڑا رومال اپنے چہرے پر کھینچ لیا تھا اس ان کی ہونے والی گفتگو سے بےنیاز ہو چکا تھا ۔۔۔۔ بہت دیر بعد شاہدہ نے میرے چہرے سے رومال ہٹا دو اور بولی سوری بھائی میں نے۔۔۔۔۔ وہ اپنے گلے سے کچھ اتارنے لگ گئی میں نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا ۔۔۔۔ شاکرہ سائقہ کا سر اپنی گود میں رکھے بغیر آنکھیں جھپکائے ۔ بہت دور دیکھتی کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔ کچھ دیر بعد شاہدہ کا ہسبنڈ آ گیا تھا اور چائے وغیرہ پینے کے بعد وہ ڈاہد کو لیکر چلا گیا ۔۔۔۔ ان کے جاتے ہی شاکرہ نے گیٹ لاک کیا اور سائقہ کے پاس بیٹھ گئی کچن دیر خاموش رہنے کے بعد شاکرہ نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ سقی تمھیں کیا ہوا تھا ۔۔۔ سائقہ خاموش رہی ۔۔ شاکرہ بولی سقی آئندہ ایسے نہیں کرنا رونا تو مجھے چاہیئے تھے ۔۔۔ اور توں بلکنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ نے سر جھکائے ۔۔۔ سوری بولا ۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے چار روز تک شاکرہ کی مصروفیت زیادہ رہیں اور وہ دن میں دو تین بار زینت سے رابطہ کرتی تھی اور دوسرے روم میں جاکر اس سے دیر تک باتیں کرتی رہتی ۔۔۔ جمعہ کے روز زینت اور نعمت آ گئے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد ہی جانے لگے تھے شاکرہ جو خریداری پچھلے چند دنوں سے کرتی رہی تھی وہ سارا سامان زینت اور نعمت اپنے ساتھ لے گئے تھے سائقہ ہفتے کے روز کالج جانے لگی تو شاکرہ نے اس سے کہا کہ منڈے کو کالج کی چھٹی ہوگی آپ کی ۔۔۔ سائقہ نے پوچھا جانا ہے کہیں ۔۔۔؟؟؟ شاکرہ مسکراتے بولی کل جانا ہے کہیں ۔۔۔ پرسوں آپ کا ریسٹ ہو گا۔۔۔ ۔۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد شاکرہ نے مجھے زیتون آئل کی مالش کی اور بولی ۔۔۔ جلدی سو جاؤ۔۔۔۔ کل سائقہ کی بستی چلیں گے ۔۔۔۔ سائقہ کچھ گھبرا گئی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کے کہا اب ٹینشن نہیں لینی ۔۔۔۔ دیکھتی جاؤ میں کیا کرتی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا کوئی بڑا پروگرام ہے کیا ۔۔۔ شاکرہ بولی کبھی میں نے پوچھا آپ سے کہ کہاں کیوں جا رہے ۔۔۔۔ سائقہ خاموش تھی ۔۔۔ شاکرہ لیٹتے ہوئے بولی سقی آج بہت تھکی ہوئی ہوں ۔۔۔ سائقہ مسکرائی اور شاکرہ کی ٹانگیں دبانے لگ گئی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن پھر رک گئی ۔۔۔۔۔وششششششش سقی تیرے ہاتھوں بہت سکون ہے ۔۔۔۔ چلو دبا دو ۔۔ کلتم تھک جاؤ گی تو میں دبا دونگی ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کی شاکرہ کو دیکھا اور بولا ۔۔ میں دبا دؤں۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کر کمرے کی چھت دیکھتے ہوئے کہا تم کل اپنی سقی کو دبا دینا ۔۔۔۔۔دومنٹ بعد ہی شاکرہ نے اس کے ہاتھوں خو پکڑ کر سائقہ کو اپنے اوپر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح چھ بجے کے قریب شاکرہ کی آواز پر میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔ وہ سائقہ کو جگا رہی تھی ۔۔۔ سقی اٹھ جاؤ تمھارے نیند کے دن پورے ہو گئے ۔ اب جاگنے کے دن آ گئے تمھارے ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ایک نیا سوٹ نکال کر سائقہ کو دیا اور بولی نہا کر تیار ہو جاؤ۔۔ میں تیرے مانوں کی ہلپ کرتی ہوں ۔۔۔ آج سات ماہ بعد شاکرہ مجھے پینٹ شرٹ پہنا رہی تھی ۔۔۔۔ ناشتے کے فوراََ شاکرہ اٹھ گئی تھی اور باھر سے اس کے قدموں کی آوازیں بتا رہی تھی کہ وہ گاڑی کی طرف بار بار آ جا رہی ہے ۔۔۔ شاہد کوئی سامان کمرے سے اٹھا کر گاڑی میں رکھ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ بہت دیر سے سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔ اس نے ایک بار میری طرف دیکھا اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ کچھ کہتے کہتے رک گئی ۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔ بولو سقی۔۔۔ کچھ لمحے بعد دروازے کی طرف دیکھ کر مدھم آواز میں بولی مجھے ڈر لگ رہا ۔۔۔ ۔۔ میں نے پوچھا کس سے ؟؟ بولی شفقتتتتت ۔میں نے ایک جگہ اپنی نظریں ٹکائیں اور بولا سقی آج ویسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سقی میرا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کے پاس لے گئیں شاکرہ نے کپڑوں سے بھرا ایک شاپر میں سر کے نیچے رکھ کر پچھلی سیٹ پر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے ڑیڈ کلر کے ایک رومال سے نقاب بنا رکھا تھا اور نیچے عربی برقعے والا سیاہ کوٹ پہنے ڈرائیونگ کر رہی تھی شاکرہ مجھے نظر نہیں آ رہی تھی آج 18 اکتوبر 2020 کا دن تھا گاڑی میں خاموشی طاری تھی ۔۔ شہر سے نکل کر مین روڈ پر آتے وقت شاکرہ بولی ۔۔۔ زاہد تیار ہو۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے کچھ بولنے سے پہلے خود ہی کہنے لگی ۔۔ آج میں تمھیں کچھ نیا دکھانے جا رہی ہوں ۔۔۔ جو پہلے تم لوگوں نے نہ تو دیکھا اور شاید کبھی سنا بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اللّٰہ خیر کرے ۔ شاکرہ بولی ۔۔ ہاں ں ں اللّٰہ خیر کرے گا ۔۔۔ بولی زاہد کبھی میرا ڈاںس دیکھا ۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے کہا آپ نے کبھی دکھایا ہی نہیں ۔۔۔ بولی موقعہ بھی نہیں ملا ۔ کوئی جنگ لڑتے تیرہ برس بیت گئے ۔۔۔۔ کچھ لمحے بعد بولی زاہد ایک تو آج میں آپ کو ڈاںس دیکھاتی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ شاید اور بھی بہت کچھ ۔۔۔۔ سائقہ سارے رستے تقریباً خاموش رہی تھی اور شاکرہ بھی آج کچھ زیادہ سنجیدہ تھی ہم دس بجے کے قریب بستی میں داخل ہونے لگے تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔۔ ڈاکومنٹس کہاں رکھے تھے ؟؟؟؟ سائقہ بولی کانپتی آواز میں بولی ۔۔ امی کے بکسے میں تھے ۔۔۔۔۔ شاکرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی یزید نے جلا نہ لئے ہوں ۔۔؟ ۔۔۔۔۔ بھاری ہارن۔۔۔۔۔۔بریک کی لمبی آواز ۔۔۔۔ سائقہ کی آآآآآآآآآآ آآآآآآآآآآ آآآآآآآآ کی کلیجہ چھلنی کر دینے والی چیخیں کے ساتھ روشنی کے گولے کی طرح دور جاتا بکھرے بالوں کے ساتھ چہرہ ۔۔۔۔ میں نم آنکھوں کے ساتھ شاکرہ کی سیٹ کو پکڑتا کسی طور نم آنکھوں کے ساتھ اپنا سر کچھ اوپر اٹھا چکا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی آپ لیٹے رہو زاہد ۔۔۔۔۔ میں خاموش رہا ۔۔۔ شاکرہ نے سائقہ سے اس کے گھر کے آگے گاڑی روکنے کا بولا زینت کی امی کے گھر کے آگے کچھ کا ہجوم لگا تھا ۔۔۔ ہم وہاں سے گزر چکے تھے ۔۔۔۔۔ گاڑی سائقہ نے اپنے گیٹ کے سامنے روک دی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ سقی گیٹ بجاؤ اور اندر نہیں جاؤ ۔۔۔ میں بھی اتر رہی ۔۔۔۔۔ سائقہ کانپتی گیٹ کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔ شاکرہ بولی زاہد ادھر ہی رہنا آپ چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔۔ سائقہ کے گیٹ کے پاس پہنچنے سے پہلے شفقت باہر آ گیا اور سائقہ کی طرف آہستہ قدم اٹھاتا آگے بڑھتے دانت پیستے بولنے لگا ۔۔۔۔ رنڈی تو کیوں آئی ۔۔۔ توں تو یار کیلئے ماں کی موت پر ہی بھاگ گئی تھی سائقہ اپنے قدم پیچھے ہٹاتی نم آنکھوں سے شفقت کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔ میں نے جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی درد کی لہروں نے مجھے جکڑ کے رکھ دیا شاکرہ چیختے ہوئے یہ۔کہتی اتر گئی نی اٹھو زاہد ۔۔۔۔ اس دوران شفقت نے سائقہ کے گال پر تھپڑ مار دیا تھا ۔۔۔ شاکرہ کھلے منہ پر ہاتھ رکھ کر رکی اور پھر اپنے سر کو جھٹکا دے کر آہستہ قدم اٹھاتے آگے بڑھنے لگی اس کا چادر سے کیا نقاب اتر چکا تھا وہ شفقت کے سامنے جا کر بولی تم نے بہن پر ہاتھ اٹھایا ۔۔؟؟؟؟ تم نے میری سقی کو مارا۔۔۔۔ تم نے میری ۔۔۔۔۔۔ اور کسی بپھری شیرنی کی طرح اچھل اچھل کر شفقت کا چہرہ ادھیڑتی جا رہی تھی میں درد میں جکڑا بیٹھا ۔۔۔ شاکرہ کا وہ روپ دیکھ رہا تھا جو دیکھا تو اپنی جگہ لیکن کبھی سنا بھی نہیں تھا شفقت اپنے چہرے کے آگے ہاتھ لانے کی کوشش کرتا پیچھے ہٹنے لگا اور اس کچی دیوار سے لگ گیا شاکرہ کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی گلی میں بچوں کے ساتھ ایک دو مرد بھی آ گئے تھے لیکن وہ تماشا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے شفقت کا چہرہ لال ہو چکا تھا اور تیل سے خوب چکنے بال الجھ گئے تھے مجھے اس کے حال پر رحم آنے لگا تھا میں شاکرہ کو روکنا چاہتا تھا لیکن درد کی شدت سے میری آواز نہیں نکل رہی تھی شاکرہ مسلسل بولتے ہوئے اپنا ہاتھ چلاتی جا رہی تھی ۔۔۔ یہ ماں کی موت پر چلی گئی تھی ۔۔۔ توں نے ماں کو قتل کیا ۔۔۔ توں نے گھر کو برباد کیا ۔۔۔ تمھیں کوئی روکنے والا نہیں ۔۔۔۔ توں نے سقی کو مارا ۔۔۔ تو نے۔۔۔۔ نعمت بھاگتا کہیں سے آ گیا تھا اور کچھ فاصلے پر کھڑا ۔۔۔ باجی ۔۔۔۔ باجی ۔۔ باجی بسس باجی ۔۔۔ اس دوران شاکرہ ایک بار فرنٹ پر پڑے اپنے پرس کی طرف لپکی لیکن پھر رک گئی اور آگے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ صرف تیرا گھر نہیں ہے ۔۔۔ یہ سقی کا گھر بھی گھر ہے یہ آئے گی اور توں مرد کا بچہ بن کر اس صرف آنکھ اٹھا کے دیکھ لینا ۔۔۔۔ آؤ سقی شاکرہ نے سائقہ کی کلائی پکڑی اور اسے کھینچتے ہوئے گھر کے گیٹ اندر جاتے ہوئے بولی جا رہی ہے سقی اپنے گھر آؤ اور روک کے دکھا دو۔۔۔ زینت کی امی گاڑی کے قریب سے گزرتی شفقت سے بول رہی تھی لے لی ناں عزت ۔۔ بہت سمجھایا تمھیں تم ایسے لوگوں کے ہاتھوں سمجھنے والے ہو۔۔ زینت کی امی نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ وہ شفقت سے بات کرتی سائقہ لوگوں کے پیچھے گھر چلی گئی اس کے پیچھے کچھ دیگر خواتین زینت اور بچے بھی اس کے گھر میں داخل ہو گئے ۔۔۔۔ شفقت دیوار سے ٹیک لگ کے نیچے بیٹھ گیا ۔اور اور اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا ایک بزرگ اس کو پکڑ کر کچھ باتیں کرتا گلی میں آگے لے جا رہا تھا میں مسلسل اس پر نظر رکھے ہوئے تھا نعمت میرے پاس آ گیا اور میرے بازو پر ہاتھ رکھے میری خیریت دریافت کر رہا تھا میں بول نہیں سکا ۔۔۔ اور نعمت کو اشارہ کیا کہ وہ مجھے صحیح سے بٹھا دے۔۔۔ نعمت کھڑکی کھول کر سیدھا بٹھانے لگا میں نے اپنی دائیں ٹانگ گیئر لیور کی طرف سیدھی کر لی۔۔۔ کچھ دیر بعد زینت چادر لپیٹے میرے پاس آئی اور بولی بیگم صاحبہ کہہ رہی ہے کہ کاغذ نہیں مل رہے ہم آتے ہیں ۔۔آپ وہیں بیٹھے رہو۔۔۔ زینت کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی اور وہ گلی میں کچھ فاصلے پر لوگوں میں تماشا بنے کھڑے شفقت کو دیکھتے گھر چلی گئی ۔۔۔۔ نعمت مجھ سے باتیں کر رہا تھا وہ بہت خوش تھا کہ شفقت کے ساتھ بہت اچھا ہوا ۔۔۔۔ اور پھر مسکراتے ہوئے بولا ویسے مجھے آج باجی سے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ نعمت پانی کی بوتل لایا تھا اور مجھے گلاس بھر کے دیا ۔۔۔اس دوران شاکرہ اور سائقہ کے پیچھے دیگر خواتین اور بچے بھی باہر آ گئے ۔۔۔ سائقہ کے ہاتھ میں شاپر تھا ۔۔۔ نعمت گاڑی سے دور ا گیا سائقہ کی آنکھوں میں سکون اور حوصلے کے اثرات موجود تھے ۔۔۔ میرے چہرے پر درد کی لکیریں دیکھ کر وہ دونوں کھڑکی پر جھک گئیں ۔۔ سائقہ بولی۔۔۔ درد ہو رہا ۔۔؟؟؟ میرے بولنے کی کوشش میں شاکرہ بولی جھٹکے لے کے اٹھ رہا تھا ناں۔۔۔۔ منع کر رہی تھی آپ کو۔۔۔۔ ۔۔ شاکرہ نے سائقہ سے بولا ادھر پیچھے لے آؤ۔۔۔ سائقہ گاڑی کو ریورس کرتے جا رہی تھی اور شاکرہ ساتھ پیدل چل رہی تھی ۔۔ بستی کی خواتین اور بچے منہ میں انگلیاں ڈالے حیرت سے سائقہ کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔ زینت کی امی کے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے سائقہ اتر گئی شاکرہ اور سائقہ سامان نکال کر زینت کو دے رہی تھی اور وہ اپنی امی کے علاوہ ایک اور خاتون کو تھماتی جا رہی تھی ۔۔ وہ سامان لیکر چلی گئیں ۔۔ اور یہ دونوں مجھے اتارنے لگیں ۔۔۔ شاکرہ سنجیدہ تھی لیکن سائقہ کی آنکھوں میں چمک تھی شاید وہ سرخ رومال کے پیچھے مسکرا رہی تھی ۔۔۔ میرے کیفیت کو بھانپتے ہوئے شاکرہ نے نعمت کو اشارہ کیا وہ آتے ہی بولا جی باجی۔۔۔ نعمت اس احتیاط سے گھر لے آؤ ۔۔ میں نعمت کا سہارا لے کر جیسے گھر میں داخل ہوا تو وہاں لگے دو شامیانے لگے تھے اور گھر میں خواتین کا میلہ لگا تھا ۔۔ ۔۔میں پچھلے دس دنوں کی شاکرہ کی مصروفیت کو سمجھتے ہوئے پروگرام سمجھ چکا تھا ۔۔ اور پیچھے گھوم کر شاکرہ کو محبت سے دیکھا درد کے باوجود مہوش لی لمبی اور بلند آواز میں ہوووووووووو پر میں مسکرا دیا وہ بہت خوبصورت لباس میں گڑیا بنی ہوئی تھی ۔۔ نعمت مجھے سونیا کے روم میں لے میں بیڈ پر۔لیٹ گیا روم کا دروازہ بند کرکے شاکرہ نے اپنے پرس سے پین کلر نکالیں سونیا پانی لیکر آئی تھی ۔۔ میں ٹیبلیٹس حلق سے اتار کر پھر۔لیٹ گیا زینت نے آکر شاکرہ سے پوچھا باجی وہ نعمت پوچھ رہا کہ دیگیں کس ٹائم منگوانی ہیں ؟؟؟ شاکرہ نے موبائل پر ٹائم دیکھا اور بولی ایک بجے کا بول دو۔۔۔ اور باقی سامان آ گیا ؟؟ زینت بولی جی باجی ۔۔۔ شاکرہ بولی اوکے کوئی گانے وغیرہ لگا دو ہم آتے ہیں ۔۔۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور نخرے سے تھوڑی سائیڈ پر ہوکے سرخ رومال سے اپنے آدھے چہرے کو نقاب میں چھپا لیا شاکرہ قہقہہ لگا کر اسے دروازے کی طرف دھکیل کے بولیجاؤ تم دوسرے روم میں ابھی پردہ ہے تمھارا ۔۔۔۔ شاکرہ نے اسے باہر نکال کے کنڈی لگا دی ۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے پیچھے گھومی اور بولی ۔۔ اب بتاؤ۔۔ بڑے عاشق بنے ہوئے ہو۔۔ ۔۔ مجھے تم بھی شفقت لگنے لگے ہو۔۔۔ وہ مجھ پر جھک کر کسنگ کرتے ہوئے بولی زاہد کیسا لگ رہا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اسے کس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ میں تھینکس نہیں بولوں گا۔۔۔۔ کیونکہ یہ بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔ میں نے اس کی پیشانی پر صرف ایک بوسہ دیا ۔۔۔ شاکرہ مجھے یہ بول کر باہر چلی گئی میں واپس آتی ہوں درد کم ہو جائے پھر آپ کی تیاری کراتی ہوں ۔وہ باہر چلی گئی تھی اور ۔۔۔باہر سے اونچی آواز میں ۔۔اللہ میڈا میں تاں ڈاڈھی لوکاں دے منہ وچ آئی آں۔۔ سوہنڑے ڈھولے نال میکوں پائی آں منہگیاں شنائیاں۔۔۔۔میں کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اسی روم میں سائقہ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ سکول کی یونیفارم میں آئی تھی اور محبت سے مجھے دیکھتے ہوئے خاموش کھڑی تھی ۔۔۔ میں شاکرہ سے آج کھل کے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا کیونکہ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو کر رنگینیوں کی دنیا میں بہت آگے نکل گیا تھا میں آج اس کی محبت میں ہار چکا تھی شاکرہ جیت گئی تھی زینت سے شروع ہونے والی کہانی سائقہ ۔ زہرا۔ مہوش ۔ سونیا اور سعدیہ سے ہوتی ہوئی آج شاکرہ کے ہاتھوں محبت کے اس اظہار کے ساتھ سائقہ تک محدود ہو چکا تھا جو آج کے اس دور میں میں نے کہانیوں میں بھی نہیں پڑھا تھا ۔۔۔۔ میں اپنی گیلی آنکھوں کے کناڑصاف کرتا اس وقت بھی شرمندہ تھا کہ میں نے شاکرہ سے سائقہ کی اصل حقیقت چھپا گیا تھا میں اپنے عشق کے حصول کے لئے اس سے چھپا گیا تھا کہ سائقہ کا کوئی مسئلہ ہے اور بچے مشکل ہیں ۔۔۔۔ شاکرہ میری محبت میں میری محرومی کے لئے اپنی انا کو آخری حد تک مار گئی تھی اور آج اس نے سائقہ کے ایک تھپڑ کے بدلے شفقت کے ساتھ جو کیا تھا وہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ میرے عشق میں سائقہ کو بھی بہت پیار کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور شاکرہ نے اندر آ کر پوچھا ۔۔ درد ختم ہوا ؟؟؟ میں نے جسم کو حرکت دی اور بولا ۔۔۔ ہاں کچھ کم ہو گیا ہے اس نے میڈیسن والے شاپر کو اٹھایا اور بولی ایک گولی اور لے۔لو خیر ہے۔۔۔ اس نے مجھے ٹیبلیٹ کھلائی اور دروازے کی کنڈی لگا کر شاپر سے میرا سوٹ نکال لیا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کا نگاہوں میں شکریہ ادا کیا وہ مجھے دولہا بنانے کا سارا انتظام کر کے لائی تھی ۔۔۔ وہ مجھے ڈریس پہنانے لگی ۔۔ میں نے پوچھا سائقہ کہاں ہے۔۔۔ مسکرا کے بولی اس کا پردہ آ گیا تم سے ۔۔۔۔۔۔ کیوں عشق جوش میں آ گیا ۔۔۔ ؟؟ میں مسکرا دیا وہ مجھے ڈریس پہنا کے ایک بار پھر عجلت میں روم سے نکل گئی ۔۔۔۔ آج پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ شاکرہ جاتے ہوئے اپنا پرس اٹھا کے لے جاتی تھی ۔۔۔ وہ بہت دیر بعد آئی زینت اور مہوش بھی اس کے ساتھ تھی ۔۔۔ اندر آ کے شاکرہ بولی آ جائیں بڈھے دولہا ۔۔۔۔ شاکرہ کے ساتھ زینت اور مہوش بھی ہنسنے لگی تھیں ۔۔۔ شاکرہ مجھے پکڑ کر روم سے باہر لانے لگی دوازے کے قریب ہی ایک بڑا صوفہ لگا ہوا تھا ۔۔ ٹیبل کو اٹھا لیا گیا اور میرے بیٹھنے کے بعد ٹیبل رکھ کے اس پر گلدستے سجا دئیے گئے تھے ۔۔ مہوش ساؤنڈ پر بجتے گانوں کے ساتھ ھوووووو کی صدا لگاتی بہت پرجوش تھی ۔۔۔۔ گانوں پر کچھ دیر ڈانس ہوتا رہا ۔۔۔۔۔۔شاکرہ اور زینت میرے پاس بیٹھی رہیں ۔۔۔ مہوش دور کھڑی محبت اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہی تھی سائقہ کے بعد میں نے سب سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارا تھا ۔۔مہوش ۔کی جہاں شادی ہوئی تھی وہ اس جگہ خوش نہیں تھی لیکن وہ اب گزارنے لگی تھی ۔۔۔خواتین اور لڑکیوں میں چہہ مگوئیاں جاری تھی آج ان کے لئے سائقہ کی شادی کے بعد نعمت کی کی پٹائی بڑا موضوع تھا ۔۔۔ کچھ دیر میں نعمت نے زینت کو آواز دی ۔۔اور اس سے کچھ بات کرکے واپس گیٹ کی طرف چلا گیا زینت نے شاکرہ کو کوئی بات بتائی اور شاکرہ مجھے ساتھ لیکر مین گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹی کوٹھڑی کی طرف چلی گئی جہاں دو چٹائیاں بچھی ہوئی تھی ۔۔۔ شاکرہ نے پرس سے ہاتھ نکال کر کچھ پیسے میری جیب میں بھر دئیے مولوی صاحب کے ساتھ زینت کا ابو اور ایک اور بزرگ کے ساتھ نعمت بھی آ گیا ۔۔۔ مولوی صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگ گئے اور باقی تینوں ایک اور کچے کمرے کی طرف چلے گئے ۔۔۔ لڑکیوں کے شور شرابے کے بعد یہ تینوں واپس آ کر مولوی صاحب کو گواہی دیکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ۔۔۔۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔ میرے لئے پہاڑ جیسا بڑا مسئلہ شاکرہ نے تھوڑے عرصے میں ایسا سنبھالا کہ یہ سب حیران کن بھی تھا اور عشق کی انتہا بھی میں بہت پہلے سے شاکرہ سے دوسری شادی کا ذکر کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی رضا میں اپنی انا کو مار چکا تھا لیکن شاکرہ میری محرومی کو دل سے محسوس کرتے ہوئے اپنی انا کو اپنے پیروں تلے رونڈ ڈالا تھا اور عشق کو انمول کر ڈالا تھا ۔۔ آج سے تیرہ برس پہلے شاکرہ سے میری شادی ہوئی تھی جب میری عمر 25 اور شاکرہ اس وقت 21 برس کی تھی ۔۔ آج میری عمر 38 برس شاکرہ کی 34 برس اور سائقہ 20 سال کی عمر میں میری دوسری بیوی بن گئی تھی ۔۔۔۔۔ میں اس چھوٹی کوٹھڑی سے باہر آتے آسمان کی طرف دیکھتے دوبارہ صوفے کی طرف آ رہا تھا ۔۔ شاکرہ نے مجھے صوفے پر بٹھایا ۔۔ زینت مہوش اور چند دوسری لڑکیاں ہنسی مزاق کرتی شاکرہ کے ساتھ اس کچے کمرے میں چلی گئیں اور واپس پر لڑکیوں کے بلند نعروں میں سائقہ کو ادھر لانے لگیں تھی ۔۔۔۔ سائقہ دلہن کے روپ ایسی نکھر گئی تھی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔ ایک بزرگ خاتون نے ٹیبل پر جھکتے ہوئے میرے اور شاکرہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی آپ کمال لوگ ہو ۔۔۔ منہ بولی اس بہن سے وفا نبھا لی۔جس سے اپنا سگا بیٹا وفا نہیں کر سکا۔۔۔۔۔ بولی آج آپ نے اس کی بچی کو بستی میں جو عزت دے دی وہ جہاں ایک مثال رہے گی ۔۔۔ وہ سائقہ کا۔ماتھا چومتی اسے دعاؤں سے نوازتی نم آنکھوں کے ساتھ پیچھے جانے لگی ۔۔۔ شاکرہ نے ہمیں محبتیں بھی دی تھی اور اس بستی میں سائقہ کا وقا بڑھا دیا تھا ۔۔۔ سائقہ رنجیدہ تھی اسے اپنے والدین کے کھو جانے ۔۔ بھائی کے ظالمانہ روپے کے ساتھ بستی کی پرخلوص محبتوں کا غم بھی تھا اور میری محرومی پر پورا نہ اترنے کا غم بھی لیکن اس کا مجھ سے عشق آج امر ہو گیا تھا کچھ چھوٹی رسموں کے بعد آنے والے مہمانوں کو پرتکلف کھانا کھلایا گیا اور شاکرہ بچوں میں سو سو کے نوٹ بانتنے کے ساتھ سب خواتین میں سوٹ بانتے ہوئے اعلان کیا ۔۔۔ آپ دعا کرو گے اور سائقہ کی جھولی آباد ہو گی تو میں آپ کی بستی میں بہت بڑا جشن مناؤں گی۔۔۔۔ زینت کی امی کا گھر سائقہ کا میکا ہے اور وہ جہاں آتی رہے گی۔۔۔ ۔ مجھے اور سائقہ کو سونیا کے کمرے میں ایک ساتھ کھانا دیا گیا ۔۔۔ سائقہ مجھے روز ہی کھانا کھلاتی تھی لیکن آج کا مزہ ہی الگ تھا ۔۔۔ آج اس میں شرم بھر آئی تھی اور میں اس کے لئے بےقرار ہو رہا تھا شام سے کچھ قبل رخصتی ہونے لگی تھی ہم مین گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے کے میرے پیچھے بالکل قریب یکے بعد دیگر تین فائر ہو گئے ۔۔۔۔ میں ایک دم سے پیچھے مڑا اور مسکرا دیا ۔۔۔ شاکرہ میرا پسٹل اپنے پرس میں ساتھ لائی تھی ۔۔۔ اکثر عید کا چاند دیکھنے کے بعد میں چھت پر جاکر ہوائی فائرنگ کرتا تھا اور شاکرہ کو بھی سکھا دیا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ پسٹل ہاتھ میں لئے ہمارے پیچھے چل رہی تھی ۔۔ گیٹ۔کے پاس زینت اور مہوش پیچھے دیکھتے ہوئے بلند آواز سے بولنے لگیں اوےے سب آ جاؤ۔۔ دلہن گاڑی چلا کر دلہے کو لے جائے گی ۔۔۔۔ قہقہوں کے ساتھ سب بھاگ آئے تھے سائقہ بھی سر جھکائے ہنس رہی تھی ۔۔۔ زینت ۔ مہوش اور زینت کی امی سائقہ کو پکڑ کر گاڑی تک لائیں تھی ۔۔۔ زینت نے ہمارے ساتھ آنا تھا ۔۔ پچھلی سیٹ پر میں اپنوں سر شاکرہ کی گود میں رکھ کر کسی طرح لیٹ گیا ۔۔۔ زینت فرنٹ سیٹ پر اور جب سائقہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھانے لگی تو پیچھے سے آنے والے قہقہوں نے ،م سب کو ہنسا دیا ۔۔۔۔۔ سائقہ کو ایک کمرے میں بٹھانے کے بعد شاکرہ مجھے لیکر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور مجھے بہت سی محبتوں کے ساتھ زیتون آئل کی مالش کرتے ہوئے اپنی محبتیں اس دعائیں نچھاور کرتی رہی شاکرہ کے چہرے پر کبھی کبھی سنجیدگی آ جاتی تھی لیکن پھر وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیتی ۔۔۔ وہ سائقہ کے اس روم میں چلی گئی اور کچھ دیر بعد واپس آ کر بولی آ جائیں ۔۔۔ میں اٹھا تو۔مجھے پکڑ کر دروازے کی طرف لے جاتے ہوئی بولی زاہد تیری خوشیوں اور اس گھر کی رونقوں کے لئے بیٹھ کر دعا کرونگی ۔۔۔ اپنی صحت کے ساتھ سائقہ کا خیال کرنا ۔۔۔ وہ معصوم بچی ہے دروازے سے باہر۔نکلنے سے پہلے میں نے شاکرہ کو باہوں میں بھرا اور اسے کسنگ کرتے شاید رونے لگا تھا کہ شاکرہ کی بلند آواز آئی ۔۔۔ زاہد اںسان بنو۔۔۔ کیا کرنے لگے ۔۔۔۔ شاکرہ نے دروازہ کھولا اور مجھے اس کمرے میں میرا ہاتھ چوم کر چھوڑ دیا میں نے دروازہ کھولا اور زینت علجت میں باہر نکل گئی ۔۔(جاری ہے )

      Comment


      • انتہائی زبردست اور کمال کی اسٹوری ہیں شاکرہ کا ایکشن زبردست اور قابل تعریف ہے

        Comment


        • بہت خوب کہانی جوں جوں اختتام کی طرف گامزن ہے دل کی اداسی بڑھتی جا رہی ہے

          Comment


          • ، تعریف کے لیے الفاظ ڈھوڈنا مشکل،زبردست

            Comment


            • زبردست جناب، کمال لکھ رہے ہیں

              Comment


              • بہترین داستان آخر سائقہ اپنی عشق پہ حاکم ہو ہی گئی

                Comment


                • Zabardast kahani hai Ishaq jeet gaia

                  Comment


                  • انتہائی شاندار سٹوری ہے

                    Comment


                    • لاجواب اسٹوری زبردست

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X