قسط نمبر 13
ہم ٹھیک 1:30 ڈاکٹر ارم کے کلینک میں پہنچ چکے تھے ڈاکٹر ارم نے کسی پیاسے مرد کی طرح سائقہ کو دیکھا زینت ڈاکٹر کے ساتھ سٹول پر بیٹھ گئے ڈاکٹر ارم نے زینت سے پہلے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا آپ اسی شہر کی ہؤ ہا کہیں باہر سے آئی ہو ۔۔؟ سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں میں ان کے رہ رہی ہوں اور اب یہیں پر کالج داخلہ بھی لے رہی ہوں ڈاکٹر بولی داخلہ ہو گیا سائقہ نے بتایا کہ ابھی رزلٹ آنے کے بعد ہو گا ڈاکٹر ارم نے میری طرف دیتے ہوئے بولا اگر کالج ٹائم کے بعد یہ یہاں پر جاب کرنا چاہیے تو میں اچھی پےمنٹ دے سکتی ہوں استقبالیہ پر کوئی خاص کا بھی نہیں ہوتا اور ساتھ میں کچھ سیکھ بھی لے گی ۔۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سائقہ کو استقبالیہ پر رکھ کے اپنے کلینک کو چار چاند لگانا چاہتی میں نے ڈاکٹر ارم کو یہ کہتے ہوئے اس کی توجہ زینت کی طرف دلائی کہ داخلہ لینے کے بعد دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ میڈیم ان کو چیک کر لیں ڈاکٹر ارم نے زینت کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کون ہے آپ کی میں نے کہا یہ میری بیوی ہے سائقہ نے دوسری طرف منہ پھیر کے اپنی ہنسی روکی ڈاکٹر زینت اور پھر مجھے دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی یہ تو کافی چھوٹی ہے ۔۔۔ میں نے کہا یہ میری دوسری شادی ہے سائقہ نے ٹیبل کہ نیچے ہاتھ کر۔کے تین انگلیوں کو۔لہرا دیا ڈاکٹر زینت کا چیک اپ کرتے ہوئے اس سے کچھ سوال کرتی جا رہی تھی پھر اس نے ٹیسٹ لکھ دیئے اور ہم ویٹنگ روم میں چلے گئے ڈاکٹر کے روم سے نکلتے ہوئے سائقہ نے ٹاہ ٹاہ ٹاہ کے ساتھ قہقہہ لگا دیا ۔۔۔ ویٹنگ روم میں سائقہ نے زینت بھرپور حملے کرتے ہوئے اسے چھوٹی بیگم سے مخاطب کر رہی تھی ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد ہم ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے ڈاکٹر ارم نے سائقہ کو باہر بھیج دیا اور بولی سر آپ کی بیگم کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہ اس وقت خطرے میں ہے میں میڈیسن تب لکھوں گی جب آپ بچہ ہونے تک یہ چار ماہ مکمل چھٹی کریں گے ۔۔۔ اور ساتھ اس نے یہ باقی عرصہ بیڈ پر لیٹ کر یا بیٹھ کر گزرانا ہے اور پانی کے گلاس اٹھانے برابر کام بھی نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا ۔۔۔۔ میڈیسن لینے کے بعد میں نے ایک فاسٹ فوڈ پر رک کر کچھ کھانا پیک کرا لیا گھر پہنچ کر میں نے سائقہ کو۔کھانا لگانے کا کہا زینت بہت زیادہ رنجیدہ ہو۔گئی تھی جسے سائقہ نے اپنی میٹھی باتوں سے چند منٹوں میں سیٹ کر دیا شام کے بعد زینت بولی آپ سائقہ کو گھمانے لے جاؤ اور گیٹ باہر سے لاک کر دو سائقہ بولی بس۔خیر ہے آپ بہتر ہو جائیگی تو کل چلے جائیں گے لیکن زینت نے کہا نہیں آپ جاؤ مجھے ویسے بھی مزہ نہیں آ۔رہا اور میں سو جاتی ہوں ۔۔۔ میں نے الماری سے ایک پرانا موبائل فون نکالا اور اس میں ایک سم ڈآل کر زینت کو دے دی اور کہا میں بس اس سے تھوڑی ڈرائیونگ کرا کے واپس آتا آپ موبائل اپنے پاس رکھ۔لو اس پر رابطے میں رہیں گے ۔۔زینت کو ٹی وی آن کر دیا اور اسے میڈیسن بھی کھلا دیں سائقہ کو صرف شرٹ بدلنے کا کہا ۔۔۔۔میں نے شہر کے ایک میدان کا انتخاب کر لیا تھا میں نے میدان میں پہنچنے کے بعد سائقہ کو گود میںٹا کر اسے پیار کیا پھر پچھلی سیٹ سے تکیہ اٹھا لیا جو گھر سے نکلتے ہوئے میں نے گاڑی میں رکھ دیا تھا میں فرنٹ سیٹ پر آ گیا اور سائقہ ہلکی سپیڈ میں اس گراؤنڈ کا ایک چکر لگا کر رک گئی اور بولی ۔۔مالوں ں ۔ مزا نہیں آ رہا ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا تم گاڑی چلانا چاہ رہی یا مزہ اٹھانا۔۔ بولی ۔۔ مزے کے ساتھ گاڑی چلانا پھر وہ نگاہیں ملا کر اٹھنے لگی اور تکیہ پچھلی سیٹ پر پھینک کر نیچی اتر گئی میرے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے بعد وہ بھی میری گود میں بیٹھ گئی سائقہ نے دو بار اپنے ہپس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ اب ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ بہت دیر تک گاڑی کو گھمانے کے بعد اس نے گاڑی کو سڑک کی طرف موڑ لیا میں نے پوچھا کہ بس تھک گئی ۔۔ بولی نہیں تھکی جلدی سے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔ اور آج تو پوری رات بس جہاز ہی چلانا ہے ۔۔۔ سائقہ۔میرے گھر کی گلی تک بہت خوبصورتی سے گاڑی ڈرائیو کر کے لائی تھی ہم رات دس بجے گھر پہنچ گئے اور زینت کے پاس چلے گئے اس کی طبیعت بہتر تھی ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے میں سائقہ کو ساتھ لے کر کچن چلا گیا اور کچھ کھانے پینے کی چیزوں کو اوون میں گرم کر کے لے آئے زینت نے بہت کم کھایا تھا لیکن سائقہ نے یہ کہتے ہوئے سب چیزوں کا صفایا کر دیا کہ مجھے تو اپنی باڈی بنانی ہے میں مانوں سے کشتی کروں گی ۔۔۔۔۔ سائقہ بار بار انگڑائیاں لے کر شرابی انداز میں مجھے مسکرا کر دیکھ رہی تھی زینت نے پوچھا رات اس نے جہاز چلایا تھا ۔۔۔۔ سائقہ نے جھٹ سے بولی نہیں چلایا تھا ۔۔۔ یہ گندے مانوں بن گئے اب ۔۔۔۔ میں نے بولا سائقہ تم زینت کے ساتھ سو جاؤ اور اس کا خیال رکھو۔۔۔ دوست ہے تمھاری ۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی۔گندے مانوں ۔۔۔ گندے مانوں ۔۔۔ ایک سقی بھی نہیں بول رہے اب ۔۔۔ سائقہ پینٹ میں جکڑے ہپس مٹکاتی باہر چلی گئی کچھ دیر بعد زینت لیٹتے ہوئے بولی آپ جاؤ میں بھی سوتی ہو۔۔۔۔ ٹی وی دیکھ کر بھی بور ہو گئی تھی ۔۔۔ ابھی وہ مسئلہ کچھ کم لگ رہا لیکن جسم میں بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔ میں نے اسے تسلی دی کہ ٹھیک ہو جاؤ گی ۔۔۔ میں اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا تھا سائقہ بیڈ کے کنارے پر الٹی لیٹی ہوئی اس کی شرٹ تھوڑی اوپر کو کھسک گئی تھی جس سے پتلی گول کمر اپنی چمکتی جلد کے ساتھ باہر جھانک رہی تھی اور اس کے اوپر دو نیلے پہاڑوں جیسے جینز میں جکڑے ہپس مجھے دعوت دے رہے تھے کے آؤ اور میری دلنشین وادیوں میں اتر جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولا سقی سائیڈ پر ہو ۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں مجھے سونے دو سائقہ نے بازوؤں میں لپٹے اپنے چہرے کو اوپر اٹھایا اور کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی زینت کے پاس سو جاؤ۔۔۔ وہ بیگم ہے تمھاری اس کا خیال رکھو۔۔۔ اور دوبارہ میرے روم میں نہیں آنا ۔۔۔میں نے اس کی کمر پر کسنگ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ سوری سقی ۔۔۔ تم میری جان ہو یارر پلیز مجھے ادھر سونے دو ۔۔۔ بولی ادھر صوفے پر سو جاؤ۔۔۔ میں نہیں سونے دیتی میں بہت دیر تک بیڈ کے ساتھ کارپٹ پر بیٹھا اس مسکرا کے دیکھتا رہا وہ اپنے بازو کو تھوڑا ہٹا کر مسکراتی نظروں سے دیکھتی اور پھر اپنا چہرہ چھپا لیتی میں اٹھ کر سقی کے نرم ریشمی ہپس پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔ اور کمر پر ہاتھ پھیرتے اس کی شرٹ کو اوپر کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4:35 بج چکے تھے جب میں نے اس کاغذ کے خاکی لفافے میں دوسرا کنڈوم ڈال کر موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تھا سقی لمبی سانسوں کے ساتھ نیند کے مست جھونکوں کے ساتھ میرے سینے میں سمٹتی ہلکی سی کنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ زینت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی آپ کے موبائل پر بار بار کالز آ رہی ہیں ۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے موبائل لیکر سکرین پر آئے پھٹے پھٹے الفاظ کے ساتھ شو ہونے والے نام کو آنکھیں مل کر دیکھنے لگا اور پھر کال ریسیو کر لی ۔۔۔۔ شاکرہ بولی آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔۔۔۔میں نے کہا ہاں رات دانت میں درد تھا صبح سویا تھا بولی اوکے ۔۔۔۔۔ فریش ہو کر مجھے کال کر لینا ۔۔۔۔۔ دوپہر کے 12:30 بج گئے تھے میں نے موبائل کو سائید پر رکھتے ہوئے انگڑائی لی اور زینت کو مسکرا کے دیکھا اس نے شہد کی آدھی سے کم بوتل لہراتے ہوئے کہا لگتا آج شہد کا نشہ زیادہ چڑھا ہوا ۔۔۔ اتنا زیادہ پی لیا میں نے سر اٹھا کر اپنی رائٹ سائیڈ ر چپکی سقی کے گال کو اپنے ہونٹوں میں بھرا اور کچھ دیر چوسنے کے بعد بولا مکھن پر شہد ڈال کر کھا لیا تھا ۔۔۔ زینت بولی یہ زندہ بھی ہے یا گزر گئی میں نے اس کے بوبز کے بیچ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔ دل تو پوری آب و تاب سے دھڑک رہا ۔۔۔ زینت اس کے ساتھ لیٹتی ہولی بولی مجھے تو لگتا اب یہ بستی کبھی نہیں جائے گی ۔۔۔۔۔میں نے زینت سے اس کی طبیعت کا پوچھا تو بولی بہت بہتر ہوں پھر وہ محبت سے دیکھتے ہوئے بولی بہت شکریہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا شکریہ کس بات کا آپ میری دوسری بیگم ہو ۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی ۔۔ ہاں کوئی شک نہیں لیکن اب اس تیسری کا سوچو۔۔۔۔ زینت نے اس کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولی اوووو ننگی لیلیٰ اٹھ بھی جاؤ ۔۔۔ میرے صاحب کو نچوڑ لیا تم نے وہ اب اٹھ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ سائقہ بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے بولی سونے بھی دو کیا ہے ۔۔۔۔۔ زینت بولی نشئی لڑکی ٹائم دیکھو ایک بج چکا ہے۔۔۔ سقی اٹھ کر میرے سینے پر الٹی لیٹی بولی چار بھی بج جائیں ہمیں کرنا کیا ہے یہ بتاؤ۔۔۔زینت اٹھ کر جانے لگی اور بولی اس۔لڑکی کی آگ کبھی نہیں بجھے گی اور مجھے جان سے مار دے گی ۔۔۔میں نے کہا سقی اٹھ جاؤ اب اور نہا لو ۔۔۔ وہ میرے سینے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی اکٹھے نہائیں گے نا ۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے ھممم کہہ کر اس کے ریشمی ہپس کو پکڑا اور اٹھ گیا اور اسی طرح اسے اٹھا کر باتھ روم چلا گیا اور شاور کھول کر اس کے گیلے چمکتے ریشمی بدن کو کسنگ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جوس کا گلاس تھامے ان دونوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے شاکرہ کا نمبر ڈائل کر لیا ۔۔۔ شاکرہ نے مجھ سے دانت درد کا پوچھا تو میں نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ دو بار لی تھی میڈیسن ۔۔ اب بہتر ہوں بولی ڈاکٹر کو بھی دکھا لو اور ان بچیوں کو کال کر دی تھی میں نے کہا کہ ہاں کہہ دیا تھا بولی آپ صبح صبح خود چلے جانا اور ان کو لے آنا جہاں اچھا شغل لگا ہے وہ خوش ہو جائیں گی میرے پوچھنے پر شاکرہ نے بتایا کہ ان دونوں کے لئے اس نے دو دو ریڈی میٹ سوٹ لے لئیے ہیں باقی آئیں گی تو تو انکے ساتھ جا کر ان کے جوتے بھی لے لوں گی میں نے اوکے کہہ کو کال منقطع کر دی ۔۔۔ سائقہ کال کے دوران میرے پاس صوفے پر آ بیٹھی تھی اور اپنا کان موبائل کے پاس لگا کے شاکرہ کی باتیں سن رہی تھی ۔۔ سائقہ نےکال بند ہوتے ہی قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے کہنے لگی اس بولو یہاں بھی بہت اچھا شغل لگا ہوا ہے اور بچیاں بہت خوش ہیں ۔۔۔ ادھر نہیں آتی ۔۔۔ زینت بولی۔ کل مجھے پہنچا دینا اور اس کو اپنے پاس رکھنا ۔۔۔ سائقہ فٹ سے بولی میں تو نہیں جاؤں گی شادی وادی پر ۔۔میں اپنے مانوں کے ساتھ رہوں گی ۔۔۔۔۔ آج ہم چار بجے ہی نکل پڑے تھے مین روڈ پر آتے ہی میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر تکیہ رکھا اور گاڑی سائقہ کے حوالے کر دی اس نے اپنے اوپر لپیٹی بڑی چادر سے نقاب بنا لیا اور گاڑی آگے بڑھا دی شام سے کچھ پہلے ہم دریا کے قریب اس جھیل پر پہنچ گئے جہاں پہلے سے ہجوم لگا تھا دوپٹے سے نقاب اوڑھے ٹائٹ پینٹ شرث میں ملبوس یہ دونوں لڑکیاں لوگوں کے دلوں پر تیر برسانے لگیں لڑکے سائقہ کے مٹکتے ہپس کو دیکھ کر ہائے کی آواز نکالتے کشتی پر جھیل کی سیر کرنے تک کافی اندھیرا چھا چکا تھا کھانے پینے کے بعد ہم وہاں سے نکل پڑے تھے سائقہ کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بہت سے منچلے نوجوان ہماری گاڑی کے آس پاس منڈلانے لگے میں نے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر بھیج کر گاڑی کو دومنٹ میں ان منچلوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا اور سائقہ کو اپنی گود میں بھر کر اسٹیرنگ اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔۔۔۔۔۔ شہر میں آنے کے بعد میں نے سائقہ کی۔پسندیدہ بریانی پیک کرا لی گھر پہچنے کے بعد زینت نے میڈیسن کھائیں اور ہم تینوں ایک بیڈ پر لیٹ کر باتیں کرتے رہے زینت کی طبیعت بہت بہتر تھی ہم سونے لگے تھے سائقہ نے نیند کے لئے میرے سینے کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔ہم صبح نو بجے اٹھ گئے تھے ناشتہ کرنے کے بعد شاکرہ کی کال آ گئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نکل رہا ہوں ان کو لینے کے لئے شاکرہ بولی ہاں تین بجے تک ان کو جہاں پہنچا دینا میں نے اوکے کر دیا زینت سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری صحت کی خرابی کا آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اکیلے مزے لوٹے ۔۔۔ سقی بولی آپ کا دل تو اس وقت جلے گا جب میں کالج میں داخلہ لے کر دن رات مانوں کے مزے لوٹوں گی ۔۔۔ زینت بولی مانوں کے یا ببلو کے ۔۔۔سائقہ بی مانوں کا ببلو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے زینت بولی پھر صرف ببلو بولا کرو تمہیں صرف اسی سے غرض ہے ۔۔۔ سقی بولی نہیں مانوں زیادہ اچھا لگتا ہے سوری ۔۔۔۔ باتوں باتوں میں زینت نے ٹراؤزر کے اوپر سے ببلو کو پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولا آج آخری دن ہے جہاں کا ۔۔میںصرف چوکبار کھاؤں گی میں نے اوکے کر دیا زینت ببلو کو باہر نکال کر چوستے ہوئے اسے جگانے لگی تھی اور میں نے سائقہ کو باہوں میں بھر لیا بہت دیر بعد میں نے سائقہ کے ایک پاؤں میں جھولتی پینٹ کو الگ کر کے اسے اپنے نیچے دبا لیا ۔۔۔۔۔ سقی اس وقت میرے اوپر بیٹھی مست سے جھٹکے لگا کر اپنا پانی دوسری بار گرانے کو آگے بڑھ رہی تھی زینت میرے رائٹ سائیڈ پر سوئی تڑپ رہی تھی سائقہ رک گئی تھی اور جسم کو اکڑانے کے کچھ لمحے بعد سائیڈ پر لڑکھڑاتی میری لفٹ سائیڈ کے پاس اوندھے منہ لیٹ گئی میں نے زینت کو دوسری طرف پھیر کر اس کے ہپس اپنی طرف پھیر لئے اور ببلو کو عجلت میں اس کے ہپس کے درمیان ہول پر رکھ کر اسے آگے بڑھانے لگا اور اپنی ایک انگلی اس کی ببلی کے منہ میں ڈال کر ہلکے جھٹکے دینے لگا ادھا ببلو پیچھے لینے کے بعد زینت درد سے کڑاہ رہی تھی سائقہ اپنا سر اوپر اٹھا کر ہنسنے لگی تھی اور زینت کی ببلی کے پانی چھوڑنے کے بعد میرا ببلو بھی زینت کے پیچھے پچکاری مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں زینت کے ہپس پر ہاتھ رکھ کر سیدھا لیٹ گیا اور سقی کو اپنے سینے پر کھینچ لیا ۔۔۔۔۔۔۔اگلے روز شاکرہ نے مجھے کال کرکے بتایا کہ زینت پھسل خر گری ہے اور اس کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ کہو تو میں اسے ڈاکٹر ارم کے پاس لے۔جاؤں میں نے ڈاکٹر ارم کے اناڑی پن کو گالیوں سے نوازا اور اسے ڈاکٹر صباء کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا شاکرہ اوکے ب کو کال منقطع کر گئی ۔۔۔ شادی کے اگلے روز میں اور شاکرہ ان کو پہنچانے چلے گئے زینت کو اس کے گھر پہنچایا اور شاکرہ نے نعمت کو بولا کہ اسے۔مکمل آرام دینا ہے کام کے لئے کسی کو بلوا لو ۔۔۔ ہم سائقہ کو لیکر جب اس کی بستی کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ میری بیگم سے باتیں کرتی مجھے الفاظ کی چٹکیاں مارتی جا رہی تھی سائقہ نے اس چھوٹی سڑک کی طرف اشارہ کیا جہاں میں اس ٹیلوں والے میدان کی طرف اس کو اور زھرا کو لیکر گیا تھا ۔۔سائقہ بولی باجی اس طرف بہت مزے کا پارک ہے ماموں کو بولنا کبھی آپ کو لیکر جائے گا شاکرہ بولی۔اس طرف ۔۔۔ ادھر تو سارا جنگل لگ رہا ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں تھوڑا آگے جاؤ تو پھر آ جاتا ۔۔۔ شاکرہ نے میری طرف دیکھ کر بولا سچ ہے ۔۔؟؟؟ میں نے اپنا سر اس طرف گھما کر کہا کہ میں تو کبھی نہیں گیا ۔۔۔۔۔ پیچھے بیٹھی سائقہ۔مجھے آئینے میں دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔شاکرہ بولی ابھی تو ٹائم نہیں ہے پھر کبھی دیکھیں گے سائقہ کی بستی سے تھوڑا پہلے جب شام ہونے لگی تھی تو نعمت کی کال آ گئی بولا بستی پہنچ گئے ؟ میں نے کہا کہ ابھی پہنچنے لگے ہیں بولا میں نے زینت کے بھائی کو کال کر دی ہے وہ سونیا کو آپ لوگوں کے ساتھ بھیج دے گا واپسی اس یہاں چھوڑتے جانا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کو بتایا بولی اسے کہو بس جلدی سائقہ کے گھر آ جائے ہم فوراً واپس ہونگے شام ہو رہی مجھے اس علاقے میں ڈر لگتا ہے ۔۔۔ میں نے نعمت کو یہ بات کہہ کر کال منقطع کر دی ۔۔۔۔ واپسی پر ہم سونیا کو زینت کے پاس چھوڑ کر رات دس بجے گھر آ گئے تھے ۔۔۔ بیس دن بعد سائقہ کا رزلٹ آنے والا تھا اور میں اس روز سے ایک دن پہلے شاکرہ کو اس کی امی کے گھر چھوڑ کر سائقہ کی بستی کی طرف جا رہا تھا میں نے سائقہ کی فرمائش پر رات اسی کہ پاس گزارنی تھی اور اگلی صبح زرلٹ معلوم کرنے باجی اور سائقہ کے ساتھ شہر جانا تھا ۔۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا میں نے گاڑی کے شیشے نیچے گرا دئیے اور تیز میوزک کے ساتھ ٹھنڈی قدرتی ہوا کی مزے لے کر گاڑی ہلکی سپیڈ سے آگے بڑھا رہا تھا کہ سائقہ کی کال آ گئی اور اس نے مایوسی سے بتایا کہ تیز بارش ہو رہی اور آپ اس کچے رستے پر نہیں آ پاؤ گے ۔۔۔۔ میں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا اور گاڑی کو واپس موڑ لیا اور موسم کو انجوائے کرنے کے لئے اپنی زمینوں کا رخ کر لیا نعمت کا گھر میری ان زمینوں سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا میں اپنے ایک مزارع کو کال کر کے اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ جہاں بھی بارش شروع ہو گئی میں گاڑی میں بیٹھ گیا مزدور اس بارش میں نہیں آ سکتا تھا میں گاڑی میں بیٹھا پریشانی سے آس پاس کا جائزہ لینے لگا ان کچے راستے پر یر طرف کیچر بن گیا تھا اور گاڑی یہاں سے نکالنا نا ممکن تھا میں نے نعمت کو کال کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو زینت کی امی کے گھر پھنس گیا ہے بارش کی وجہ سے میں نے اسے اپنی صورتحال بتائی تو بولا گاڑی کو یہیں رہنے دو اور کسی طریقے میرے گھر تک پہنچ جاؤ۔۔۔ زینت اور سائقہ ویسے بھی اکیلی ڈر رہی ہیں وہاں بارش رک چکی تھی شام سے قبل اندھیرا ہونے لگا تھا درختوں سے ہوا کے جھونکوں سے اب بھی بارش کی طرح پانی ٹپک رہا تھا ہر طرف جل تھل تھی ان علاقوں کی مٹی چکنی تھی جس پر بارش کے بعد چلنا بہت مشکل کام ہے سامنے درختوں کے جھنڈ کے اس پار زینت کا گھر تھا میں کیچڑ بھری زمین کو دیکھتے ہوئے زینت کے گھر تک جانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد نعمت نے کال کر کے صورتحال معلوم کی اور بتایا کہ میں نے گھر بتا دیا ہے آپ کا کھانا تیار ہو رہا آپ گاڑی میں رہیں ایک بچہ بیل گاڑی لا رہا ہے وہ آپ کو میرے گھر تک پہنچا دے گا ۔۔۔۔ میری جان میں جان آ گئی میں اٹھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر چلا گیا اور سوٹ کیس سے بلیک شلوار قمیض نکال کر پینٹ شرٹ اتار دی اور سوٹ پہن کر بیل گاڑی والے کا انتظار کرنے لگا میں نے صرف ضروری سامان ایک شاپر میں ڈال رکھا تھا کوئی بیس منٹ بعد گاڑی کے پیچھے سے کچھ آوازیں آنے لگیں میں نے دیکھا تو بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا بیل کو ہانکتا ہوا گاڑی لے کر میرے قریب ہو رہا تھا لڑکے نے بیل گاڑی کو میری گاڑی کی لفٹ سائیڈ پر قریب کرتے ہوئے روک دیا میں شاپر اٹھا۔کر گاڑی کو لاک کرتا ہوا بیل گاڑی میں بیٹھ گیا میں لڑکے سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے ذہن میں رات کو رنگین بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا دراصل بیس دن بعد سائقہ کے پاس جا کر مکھن پر شہد ڈال کر کھانا چاہتا تھا لیکن بارش کے باعث سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا مجھے سائقہ سے عشق ہو گیا تھا اور ان دنوں میں صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا ۔۔۔ اس کیچڑ میں بیل کو گاڑی کھینچنے میں کافی مشکل پیش آ رہی تھی لیکن لڑکا اسے ہانکتے اور جھڑی سے کام لیکر بیل کو آگے چلنے پر مجبور کر رہا تھا درختوں کے اس جھنڈ کے پہنچنے سے پہلے بارش پھر سے شروع ہو گئی اور میرے کپڑے گیلے ہو گئے تھے ۔۔۔ میں نے شاپر میں اتاری گئی پینٹ شرٹ بھی ڈال دی تھی جس سے مجھے تسلی رہی دو فرلانگ کا فاصلہ بیل گاڑی پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا تھا تاریک رستے پر بیل گاڑی چلانے پر میں لڑکے کو دل میں داد دے رہا تھا میرے کپڑے بھیگ کر چپک گئے تھے اور بارش کے ساتھ ہوا چلنے سے اب مجھے سردی لگ رہی تھی میں نے اس بڑے شاپر میں ہاتھ ڈال کر پاور بینک والا چھوٹا شاپر خالی کر لیا اور پاور بینک کو اس بڑے شاپر میں کھلا چھوڑ دیا میں نے اسی شاپر میں ہزار روپے کا ایک نوٹ رکھ کر لڑکے کو دے دیا لڑکے بہت خوش ہو گیا اور مجھے اتارتے ہوئے کہنے لگا صاحب میری جس ٹائم ضرورت ہو نعمت کو کال کر دینا وہ میرے ابو کو بتا دے گا تو میں آپ کے پاس آ جاؤ گا ۔۔۔ میں نعمت کے گھر میں داخل ہو گیا اور احتیاط سے قدم اٹھاتا ان کے کچے کمرے میں چلا گیا زینت بستر پر ںیٹھی ہوئی اور سونیا اس کے ساتھ کھڑی اپنے دوپٹے کا پلو اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کمرے میں سو واٹ کا ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی مجھے سورج کے برابر لگ رہی تھی کیونکہ میں گپ اندھیرے سے یہاں آیا تھا زینت نے بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا آج کی بارش بہت لکی ہے جو آپ کو ہمارے گھر رہنے کےلئے زبردستی لے آئی ہے میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی طرف بڑھایا تو اس نے معمولی سی ہچکچاہٹ کے بعد سر نیچے جھکاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا میں نے اس کے گرم ہاتکو دبا کر پوچھا ۔۔۔ ٹھیک ہیں آپ ۔۔۔ وہ ایک لمحے بعد مدھم آواز میں بولی ۔جی۔۔۔۔۔ زینت بولی بارش نے آج اسے گم سم کر دیا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں ؟؟۔ بارش نے تو مجھے ڈسٹرب کرنا تھا ۔۔۔ زینت بولی آج اس کے شوہر نے آںا تھا نعمت کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ بھی بارش کی وجہ سے رک گیا تو ۔۔۔ اس پر چپ طاری ہو گئی ۔۔۔۔ زینت مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی میں نے کہا خیر ہے ایسا ہو جاتا لیکن کبھی کبھی اس سے بھی اچھا ہا جاتا زینت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو دبایا اور سر جھکا گئی ۔۔۔ زینت نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور اور مزے جیسی آنکھوں خو تھوڑا بند کرتے ہوئے مجھے کچھ اشارہ کیا گیلے کپڑوں کے چپکنے سے ببلو اپنی تگڑی پوزیشن واضح کر رہا تھا میں نے شاپر کھول کر اس سے پینٹ شرٹ کو نکال اور زینت سے بولا کپڑے کہاں بدلوں ؟؟۔ بولی چھوٹی کوٹھڑی میں سامان بھرا ہے اور اندھیرا بھی آپ ادھر ٹھہر کر بدل لیں ہم ادھر کو منہ کر لیتے سونیا چارپائی پر میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی میں نے اپنی انڈرویئر کو دوبارہ شاپر کی طرف اچھال دیا اور شلوار قمیض اتار دی زینت سونیا سے باتیں کرتی میری طرف توچھی نظروں سے دیکھ رہی تھی میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر پانی نچوڑا اور پینٹ شرٹ پہن کے سونیا کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا سونیا تھوڑی سے کھسک گئی ۔۔۔ زینت نے مسکراتے ہوئے پوچھا صاحب ہم نے تو سبزی بنائی ہوئی ہے مرغی ذبح کرنے والا کوئی نہیں تھا نعمت نے آپ کا پہلے ہی بتا دیا لیکن اس بارش میں ممکن نہیں تھا ۔۔۔ میں نے پوچھا مرغی دیسی ہے یا برائر ؟؟ بولی خالص دیسی ہے لیکن ٹائم نہیں تھا اتنا کچھ فوراً کرنے کو کوشش ہے پھر بھی کوئی طریقہ بن جائے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر کوئی طریقہ بن جائے تو احسان ہو گا آپ کا زینت بولی ۔۔نہیں احسان نہیں ہے ہمارا حق بنتا ہے آپ نے ہمارے گھر آ کر احسان کر دیا تو کوئی چیز آپ سے قیمتی نہیں ہے ۔۔۔ بولی میں بیمار نہ ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نے کہا اوکے فی الحال کچھ سبزی کھا لیتے ہیں میں نے گیلی قمیض سے اپنا سامان نکالا اور بٹوہ پینٹ کی جیب میں ڈالتے رک گیا اور دوہزار کے دو نوٹ نکال کر سونیا کی طرف بڑھا دیئے ۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پہلی بار بولی تھی نہیں صاحب آپ کے پہلے بھی شادی والے احسان باقی ہیں آپ نہیں دیں ۔۔۔ میں نے کہا خیر ہے لے لو جس دن دل کرے سارے احسان اتار دینا ۔۔۔ زینت بولی لے لو صاحب سے یہ بھی ہر کسی کو نہیں دیتے جو اچھا لگتا ہے اس پر اپنی عنایت کرتے ہیں سونیا نے مسکراتے ہوئے نوٹ لے کر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا زینت نے سائقہ کو کہا جا کر گلی کے دروازے کو تالا لگا دو اور کھانا لے آؤ۔۔۔ ارم جھم جاری تھی ایک چارپائی زینت کی چارپائی کے ساتھ ملی ہوئی تھی جس پر میں بیٹھا تھا اور ایک چارپائی اس کچے کمرے میں دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی جس پر صاف ستھرا بستر لگا ہوا تھا ۔۔۔ سونیا باہر نکلی تو زینت بولی ۔۔۔ میں بلب اتار کے سو جاؤں گی آپ اس کے ساتھ کھس جانا ۔۔۔۔ باقی کوئی طریقہ نہیں نظر آتا ۔۔۔۔ سونیا واپس آنے لگی تھی زینت بولی بیگم صاحبہ کیسی ہیں میں نے کہا ٹھیک ہیں آپ کے لئے فکر مند تھیں۔۔۔ بولی دوائیاں ختم ہو جائیں تو پھر نعمت کو بولوں گی ڈاکٹر کے پاس جانے کا ۔۔۔۔ میں نے کہا آپ مجھے کال کر دینا اور چنگ چی بسوں وغیرہ پر۔نہیں آنا ۔۔۔ پہلے سے بھی خراب ہو جاؤ گی ۔۔۔ زینت بولی ہاں پھر نعمت کو بتا دونگی اور آپ آئیں گے تو سونیا اور میں ساتھ آ جائیں گی چلو اسی بہانے ایک رات بیگم صاحبہ کے پاس گزار لیں گے سونیا کھانا لے۔کر آ گئی اور کھانے کے دوران ہماری باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں زینت کے ساتھ والی اس چھوٹی چارپائی پر لیٹ کر موبائل نکالا اور ڈیٹا آن کر کے فیسبک پر گردش کرنے لگا زینت سونیا سے قدرے آہستہ آواز میں ہماری تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی رات کے دس بج چکے تھے میں نے موبائل سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد زینت بولی صاحب کو تو ادھر ہی نیند آ گئی ہے ۔۔۔ پھر اس نے ایک بار مدھم آواز میں بولا صاحب آپ کا بستر ادھر لگا میں سویا رہا ۔۔۔ پھر وہ سونیا سے بولی۔آپ بلب بند کرکے ادھر ہی سو جاؤ بس اس کو نہیں جگاؤ۔۔۔۔ سونیا بولی۔لائٹ جلتی رہے تو ۔۔۔۔ زینت بولی نہیں یہ اندھیرے میں سوتے ہیں ۔۔۔بس بند کر دو اور سو جاؤ ۔۔۔مجھے بھی نیند آ رہی ۔۔رات صحیح سے نہیں سو سکی تھی ۔۔۔ پھر چند قدموں کی آہٹ کے بعد بٹن بند ہونے کی آواز آئی اور میں نے آنکھوں کھول کر دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا باہر سے آسمانی بجلی کی چمک کبھی کبھی کمرے کے دروازے سے اندر جھانک لیتی تقریباً بیس منٹ بعد چارپائیوں سے آنے والی چیں چیں کی ہلکی آوازیں بند ہو گئیں زینت کا ہاتھ میرے چہرے پر آ گیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس پر کسنگ شروع کر دی تھوڑی دیر بعد زینت نے میرے سینے پر تھپکی دی اور میں اٹھ گیا اور پینٹ۔کا بلٹ۔کھول کر اسی چارپائی پر رکھا اور شرٹ اتار کر سونیا کی چارپائی کی طرف بڑھ گیا میں قدموں کو بغیر آہٹ کے آگے بڑھاتا گیا سونیا کی لمبی سانسوں کی آواز آ رہی تھی میں چارپائی کی بازو پر بیٹھتے ہی سونیا کے ساتھ لیٹ کر اس۔پر اپنا بازو رکھ دیا وہ نیند میں تھی میں نے اس پر اپنی دائیں ٹانگ بھی رکھ دی اور اسے اپنے سینے کے قریب کھینچا تو وہ جاگ گئی ۔۔۔۔۔ وہ لرزتے جسم کے ساتھ کانپتی آواز میں بولی کو۔۔کون۔۔۔۔۔ میں نے اآہستہ سے کان میں بولا خاموش رہو زینت جاگ جائے گی اس دوران سونیا میرے چہرے پر ہاتھ پھیر چکی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اس کے نیند سے جاگنے پر جو اوسان خطا ھو گئے تھے وہ بحال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ میں نے اس کے ہپس کے ایک پنکھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کے لب چوسنے لگا سونیا میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے آہستہ سے بولی صاحب نہیں کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا اس موسم میں میں پیار کر ترس رہا تھا میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا جڑ لیا اور چوسنے لگا سونیا نے ایک بار پھر اپنے سر۔کر پیچھے کرکے بولا نہیں کروو۔۔۔ زینت جاگ جائے گی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں جاگے گی تم خاموش رہو ۔۔۔ میں نے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور کچھ نارمل ہونے کے ساتھ اپنا سر اٹھا۔کر بار بار اٹھا رہی تھی شاید وہ اندھیرے میں زینت کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی باہر رم جھم جاری تھی میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی قمیض کے اندر ڈالتے ہو بوبز کی طرف بڑھایا تو اس نے اففففف کے ساتھ کہا یہ نہیں کرو نا بس تھوڑا پیار کر لو میں نے اس کے نپلز کو مسلنے کے ساتھ اس کے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اس کی تیز سانسوں کے بیچ سسکیاں ابھرنے لگیں زینت ساخت پڑی تھی ۔۔۔۔ میں اس کو کسنگ کرتا اس کو سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا اور اس کی ٹانگوں کے بیچ جگہ بنانے لگا کسنگ کے دوران میں نے اس کے قمیض کو گلے کی طرف اوپر سرکا دیا اور اپنے ہونٹوں کو بوبز کے نپلز پر جوڑ دیا جس سے سونیا کی نہ صرف سسکیوں میں اضافہ ہو گیا بلکہ اس کی سانسیں بھی تیز ہو گئی میں اپنی پینٹ کو۔گھٹنوں تک سرکا چکا تھا اور اپنے اس ہاتھ کو سونیا کی کمر پر لے آیا میں نے نپلز پر دانتوں کا استعمال کرنے لگا جس سے سونیا مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اور میں غیر محسوس انداز میں اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈال کر اس کی شلوار کو گھٹنوں تک سرکا گیا سسکیوں کے بیچ اس نے پھر سرگوشی کی ۔۔۔اففففففف زینت جاگ جائے گی میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔۔ بولی جلدی کرووووو۔۔ میں نے اس کی لفٹ ٹانگ کو بازو کے اندر کر کے اس کے بوبز کو منہ میں بھرتے ہوئے ببلو کو اندھیرے رستے میں آگے بڑھا دیا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ پھسلتے ببلو کو محسوس کرتے سونیا بری طرح لرزی اور اپنا ہاتھ اپنے ہپس پر پھیرتے ہو قدرے زور سے بولی اوہ ہ ہ ہ نہیں ۔۔۔۔ سونیا کو پہلے علم نہیں تھا کہ میں اس کی شلوار کے ساتھ اپنی پینٹ بھی سرکا چکا ہوں ببلو بہت آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا اور تقریباً چھ انچ کے بعد اس کی ٹوپی تھوڑی ٹائٹ ہو گئی میں نے ادھر رک کر ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دئیے وہ ساکت پڑی تھی شاید وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اور صرف پیار کی امید پر تھی کہ میں بوبز چوسنے کے بعد چکا جاؤں گا کچھ دیر بعد اسے مزہ آنے لگا تھا اور تیز سانسوں میں بولی جلدی کرو۔۔۔میں نے اس کے ہپس کی حرکت سے محسوس کیا کہ اب وہ پورے مزے میں آ چکی ہے میں نے بیٹھ کر ببلو کو باہر نکال لیا اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اس کی شلوار اتار کے نیچے پھینک دی ۔۔۔بولی ساری تو نہ اتارو۔۔۔ میں نے ببلو کو کھلا چھوڑ دیا اور اندھیرے میں اپنی ببلی کو ڈھونڈ کر اس میں اترنے لگا مجھے معلوم ہو چکا تھا سونیا کی کپیسٹی بھی چھ انچ ہے سو میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا اور ببلو پر دباؤ بڑھا دیا اونہہہ اونہہہ کے ساتھ سونیا تڑپنے لگی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ببلو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا وہ میرے نیچے سے نکلے کی ناکام سی جستجو کو رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے اس لذت کے لمحوں میں دھکیلنے والا ببلو واقعی میں اتنا بڑا ہے یا کچھ اور میرے اندر جا رہا ۔۔۔۔سونیا نے اپنا سر جھٹک کے اپنے لبوں کو میرے ہونٹوں کی گرفت سے آزاد کیا اور ڈوبتے سانسوں کو گہری سانس لے کر بحال کیا اور ۔۔۔ لمبی سی آواز میں بولی۔۔ آآآ امی ی ی ۔۔۔۔ زینت کی مدھم ہنسی کے ساتھ آواز آئی ۔۔۔ سونیا کیا ہوا طبیعت خراب ہے یا ڈڑ رہی ہو ۔؟؟؟؟؟ سونیا خاموش اور ساکت ہو گئی میں نے اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھے تو وہ اپنے لب دانتوں تلے دبائے ھوئے تھی میں نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اور باہر رہنے والے ایک انچ کو جھٹکے سے ڈال کر ببلو کو ہلانا شروع کر دیا سونیا اپنے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر مجھے دھکیلنا چاہ رہی تھی میں نے ایک دم جھٹکوں میں تیزی بھر دی اور سونیا کی ایک بار پھر بے اختیار آواز نکلی ۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ زینت اٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کڑک کے ساتھ کمرہ روشن ہو گیا اور سونیا نے اپنی آنکھوں پر بازو لپیٹ لیا ۔۔۔
(جاری ہے)
ہم ٹھیک 1:30 ڈاکٹر ارم کے کلینک میں پہنچ چکے تھے ڈاکٹر ارم نے کسی پیاسے مرد کی طرح سائقہ کو دیکھا زینت ڈاکٹر کے ساتھ سٹول پر بیٹھ گئے ڈاکٹر ارم نے زینت سے پہلے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا آپ اسی شہر کی ہؤ ہا کہیں باہر سے آئی ہو ۔۔؟ سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں میں ان کے رہ رہی ہوں اور اب یہیں پر کالج داخلہ بھی لے رہی ہوں ڈاکٹر بولی داخلہ ہو گیا سائقہ نے بتایا کہ ابھی رزلٹ آنے کے بعد ہو گا ڈاکٹر ارم نے میری طرف دیتے ہوئے بولا اگر کالج ٹائم کے بعد یہ یہاں پر جاب کرنا چاہیے تو میں اچھی پےمنٹ دے سکتی ہوں استقبالیہ پر کوئی خاص کا بھی نہیں ہوتا اور ساتھ میں کچھ سیکھ بھی لے گی ۔۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سائقہ کو استقبالیہ پر رکھ کے اپنے کلینک کو چار چاند لگانا چاہتی میں نے ڈاکٹر ارم کو یہ کہتے ہوئے اس کی توجہ زینت کی طرف دلائی کہ داخلہ لینے کے بعد دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ میڈیم ان کو چیک کر لیں ڈاکٹر ارم نے زینت کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کون ہے آپ کی میں نے کہا یہ میری بیوی ہے سائقہ نے دوسری طرف منہ پھیر کے اپنی ہنسی روکی ڈاکٹر زینت اور پھر مجھے دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی یہ تو کافی چھوٹی ہے ۔۔۔ میں نے کہا یہ میری دوسری شادی ہے سائقہ نے ٹیبل کہ نیچے ہاتھ کر۔کے تین انگلیوں کو۔لہرا دیا ڈاکٹر زینت کا چیک اپ کرتے ہوئے اس سے کچھ سوال کرتی جا رہی تھی پھر اس نے ٹیسٹ لکھ دیئے اور ہم ویٹنگ روم میں چلے گئے ڈاکٹر کے روم سے نکلتے ہوئے سائقہ نے ٹاہ ٹاہ ٹاہ کے ساتھ قہقہہ لگا دیا ۔۔۔ ویٹنگ روم میں سائقہ نے زینت بھرپور حملے کرتے ہوئے اسے چھوٹی بیگم سے مخاطب کر رہی تھی ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد ہم ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے ڈاکٹر ارم نے سائقہ کو باہر بھیج دیا اور بولی سر آپ کی بیگم کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہ اس وقت خطرے میں ہے میں میڈیسن تب لکھوں گی جب آپ بچہ ہونے تک یہ چار ماہ مکمل چھٹی کریں گے ۔۔۔ اور ساتھ اس نے یہ باقی عرصہ بیڈ پر لیٹ کر یا بیٹھ کر گزرانا ہے اور پانی کے گلاس اٹھانے برابر کام بھی نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا ۔۔۔۔ میڈیسن لینے کے بعد میں نے ایک فاسٹ فوڈ پر رک کر کچھ کھانا پیک کرا لیا گھر پہنچ کر میں نے سائقہ کو۔کھانا لگانے کا کہا زینت بہت زیادہ رنجیدہ ہو۔گئی تھی جسے سائقہ نے اپنی میٹھی باتوں سے چند منٹوں میں سیٹ کر دیا شام کے بعد زینت بولی آپ سائقہ کو گھمانے لے جاؤ اور گیٹ باہر سے لاک کر دو سائقہ بولی بس۔خیر ہے آپ بہتر ہو جائیگی تو کل چلے جائیں گے لیکن زینت نے کہا نہیں آپ جاؤ مجھے ویسے بھی مزہ نہیں آ۔رہا اور میں سو جاتی ہوں ۔۔۔ میں نے الماری سے ایک پرانا موبائل فون نکالا اور اس میں ایک سم ڈآل کر زینت کو دے دی اور کہا میں بس اس سے تھوڑی ڈرائیونگ کرا کے واپس آتا آپ موبائل اپنے پاس رکھ۔لو اس پر رابطے میں رہیں گے ۔۔زینت کو ٹی وی آن کر دیا اور اسے میڈیسن بھی کھلا دیں سائقہ کو صرف شرٹ بدلنے کا کہا ۔۔۔۔میں نے شہر کے ایک میدان کا انتخاب کر لیا تھا میں نے میدان میں پہنچنے کے بعد سائقہ کو گود میںٹا کر اسے پیار کیا پھر پچھلی سیٹ سے تکیہ اٹھا لیا جو گھر سے نکلتے ہوئے میں نے گاڑی میں رکھ دیا تھا میں فرنٹ سیٹ پر آ گیا اور سائقہ ہلکی سپیڈ میں اس گراؤنڈ کا ایک چکر لگا کر رک گئی اور بولی ۔۔مالوں ں ۔ مزا نہیں آ رہا ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا تم گاڑی چلانا چاہ رہی یا مزہ اٹھانا۔۔ بولی ۔۔ مزے کے ساتھ گاڑی چلانا پھر وہ نگاہیں ملا کر اٹھنے لگی اور تکیہ پچھلی سیٹ پر پھینک کر نیچی اتر گئی میرے ڈرائیونگ سیٹ پر آنے بعد وہ بھی میری گود میں بیٹھ گئی سائقہ نے دو بار اپنے ہپس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ اب ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ بہت دیر تک گاڑی کو گھمانے کے بعد اس نے گاڑی کو سڑک کی طرف موڑ لیا میں نے پوچھا کہ بس تھک گئی ۔۔ بولی نہیں تھکی جلدی سے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔ اور آج تو پوری رات بس جہاز ہی چلانا ہے ۔۔۔ سائقہ۔میرے گھر کی گلی تک بہت خوبصورتی سے گاڑی ڈرائیو کر کے لائی تھی ہم رات دس بجے گھر پہنچ گئے اور زینت کے پاس چلے گئے اس کی طبیعت بہتر تھی ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے میں سائقہ کو ساتھ لے کر کچن چلا گیا اور کچھ کھانے پینے کی چیزوں کو اوون میں گرم کر کے لے آئے زینت نے بہت کم کھایا تھا لیکن سائقہ نے یہ کہتے ہوئے سب چیزوں کا صفایا کر دیا کہ مجھے تو اپنی باڈی بنانی ہے میں مانوں سے کشتی کروں گی ۔۔۔۔۔ سائقہ بار بار انگڑائیاں لے کر شرابی انداز میں مجھے مسکرا کر دیکھ رہی تھی زینت نے پوچھا رات اس نے جہاز چلایا تھا ۔۔۔۔ سائقہ نے جھٹ سے بولی نہیں چلایا تھا ۔۔۔ یہ گندے مانوں بن گئے اب ۔۔۔۔ میں نے بولا سائقہ تم زینت کے ساتھ سو جاؤ اور اس کا خیال رکھو۔۔۔ دوست ہے تمھاری ۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی۔گندے مانوں ۔۔۔ گندے مانوں ۔۔۔ ایک سقی بھی نہیں بول رہے اب ۔۔۔ سائقہ پینٹ میں جکڑے ہپس مٹکاتی باہر چلی گئی کچھ دیر بعد زینت لیٹتے ہوئے بولی آپ جاؤ میں بھی سوتی ہو۔۔۔۔ ٹی وی دیکھ کر بھی بور ہو گئی تھی ۔۔۔ ابھی وہ مسئلہ کچھ کم لگ رہا لیکن جسم میں بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔ میں نے اسے تسلی دی کہ ٹھیک ہو جاؤ گی ۔۔۔ میں اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا تھا سائقہ بیڈ کے کنارے پر الٹی لیٹی ہوئی اس کی شرٹ تھوڑی اوپر کو کھسک گئی تھی جس سے پتلی گول کمر اپنی چمکتی جلد کے ساتھ باہر جھانک رہی تھی اور اس کے اوپر دو نیلے پہاڑوں جیسے جینز میں جکڑے ہپس مجھے دعوت دے رہے تھے کے آؤ اور میری دلنشین وادیوں میں اتر جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولا سقی سائیڈ پر ہو ۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں مجھے سونے دو سائقہ نے بازوؤں میں لپٹے اپنے چہرے کو اوپر اٹھایا اور کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی زینت کے پاس سو جاؤ۔۔۔ وہ بیگم ہے تمھاری اس کا خیال رکھو۔۔۔ اور دوبارہ میرے روم میں نہیں آنا ۔۔۔میں نے اس کی کمر پر کسنگ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ سوری سقی ۔۔۔ تم میری جان ہو یارر پلیز مجھے ادھر سونے دو ۔۔۔ بولی ادھر صوفے پر سو جاؤ۔۔۔ میں نہیں سونے دیتی میں بہت دیر تک بیڈ کے ساتھ کارپٹ پر بیٹھا اس مسکرا کے دیکھتا رہا وہ اپنے بازو کو تھوڑا ہٹا کر مسکراتی نظروں سے دیکھتی اور پھر اپنا چہرہ چھپا لیتی میں اٹھ کر سقی کے نرم ریشمی ہپس پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔ اور کمر پر ہاتھ پھیرتے اس کی شرٹ کو اوپر کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4:35 بج چکے تھے جب میں نے اس کاغذ کے خاکی لفافے میں دوسرا کنڈوم ڈال کر موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تھا سقی لمبی سانسوں کے ساتھ نیند کے مست جھونکوں کے ساتھ میرے سینے میں سمٹتی ہلکی سی کنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ زینت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی آپ کے موبائل پر بار بار کالز آ رہی ہیں ۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے موبائل لیکر سکرین پر آئے پھٹے پھٹے الفاظ کے ساتھ شو ہونے والے نام کو آنکھیں مل کر دیکھنے لگا اور پھر کال ریسیو کر لی ۔۔۔۔ شاکرہ بولی آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔۔۔۔میں نے کہا ہاں رات دانت میں درد تھا صبح سویا تھا بولی اوکے ۔۔۔۔۔ فریش ہو کر مجھے کال کر لینا ۔۔۔۔۔ دوپہر کے 12:30 بج گئے تھے میں نے موبائل کو سائید پر رکھتے ہوئے انگڑائی لی اور زینت کو مسکرا کے دیکھا اس نے شہد کی آدھی سے کم بوتل لہراتے ہوئے کہا لگتا آج شہد کا نشہ زیادہ چڑھا ہوا ۔۔۔ اتنا زیادہ پی لیا میں نے سر اٹھا کر اپنی رائٹ سائیڈ ر چپکی سقی کے گال کو اپنے ہونٹوں میں بھرا اور کچھ دیر چوسنے کے بعد بولا مکھن پر شہد ڈال کر کھا لیا تھا ۔۔۔ زینت بولی یہ زندہ بھی ہے یا گزر گئی میں نے اس کے بوبز کے بیچ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔ دل تو پوری آب و تاب سے دھڑک رہا ۔۔۔ زینت اس کے ساتھ لیٹتی ہولی بولی مجھے تو لگتا اب یہ بستی کبھی نہیں جائے گی ۔۔۔۔۔میں نے زینت سے اس کی طبیعت کا پوچھا تو بولی بہت بہتر ہوں پھر وہ محبت سے دیکھتے ہوئے بولی بہت شکریہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا شکریہ کس بات کا آپ میری دوسری بیگم ہو ۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی ۔۔ ہاں کوئی شک نہیں لیکن اب اس تیسری کا سوچو۔۔۔۔ زینت نے اس کے ہپس پر تھپڑ مارا اور بولی اوووو ننگی لیلیٰ اٹھ بھی جاؤ ۔۔۔ میرے صاحب کو نچوڑ لیا تم نے وہ اب اٹھ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ سائقہ بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے بولی سونے بھی دو کیا ہے ۔۔۔۔۔ زینت بولی نشئی لڑکی ٹائم دیکھو ایک بج چکا ہے۔۔۔ سقی اٹھ کر میرے سینے پر الٹی لیٹی بولی چار بھی بج جائیں ہمیں کرنا کیا ہے یہ بتاؤ۔۔۔زینت اٹھ کر جانے لگی اور بولی اس۔لڑکی کی آگ کبھی نہیں بجھے گی اور مجھے جان سے مار دے گی ۔۔۔میں نے کہا سقی اٹھ جاؤ اب اور نہا لو ۔۔۔ وہ میرے سینے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی اکٹھے نہائیں گے نا ۔۔۔۔۔؟؟؟ میں نے ھممم کہہ کر اس کے ریشمی ہپس کو پکڑا اور اٹھ گیا اور اسی طرح اسے اٹھا کر باتھ روم چلا گیا اور شاور کھول کر اس کے گیلے چمکتے ریشمی بدن کو کسنگ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ جوس کا گلاس تھامے ان دونوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے شاکرہ کا نمبر ڈائل کر لیا ۔۔۔ شاکرہ نے مجھ سے دانت درد کا پوچھا تو میں نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ دو بار لی تھی میڈیسن ۔۔ اب بہتر ہوں بولی ڈاکٹر کو بھی دکھا لو اور ان بچیوں کو کال کر دی تھی میں نے کہا کہ ہاں کہہ دیا تھا بولی آپ صبح صبح خود چلے جانا اور ان کو لے آنا جہاں اچھا شغل لگا ہے وہ خوش ہو جائیں گی میرے پوچھنے پر شاکرہ نے بتایا کہ ان دونوں کے لئے اس نے دو دو ریڈی میٹ سوٹ لے لئیے ہیں باقی آئیں گی تو تو انکے ساتھ جا کر ان کے جوتے بھی لے لوں گی میں نے اوکے کہہ کو کال منقطع کر دی ۔۔۔ سائقہ کال کے دوران میرے پاس صوفے پر آ بیٹھی تھی اور اپنا کان موبائل کے پاس لگا کے شاکرہ کی باتیں سن رہی تھی ۔۔ سائقہ نےکال بند ہوتے ہی قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے کہنے لگی اس بولو یہاں بھی بہت اچھا شغل لگا ہوا ہے اور بچیاں بہت خوش ہیں ۔۔۔ ادھر نہیں آتی ۔۔۔ زینت بولی۔ کل مجھے پہنچا دینا اور اس کو اپنے پاس رکھنا ۔۔۔ سائقہ فٹ سے بولی میں تو نہیں جاؤں گی شادی وادی پر ۔۔میں اپنے مانوں کے ساتھ رہوں گی ۔۔۔۔۔ آج ہم چار بجے ہی نکل پڑے تھے مین روڈ پر آتے ہی میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر تکیہ رکھا اور گاڑی سائقہ کے حوالے کر دی اس نے اپنے اوپر لپیٹی بڑی چادر سے نقاب بنا لیا اور گاڑی آگے بڑھا دی شام سے کچھ پہلے ہم دریا کے قریب اس جھیل پر پہنچ گئے جہاں پہلے سے ہجوم لگا تھا دوپٹے سے نقاب اوڑھے ٹائٹ پینٹ شرث میں ملبوس یہ دونوں لڑکیاں لوگوں کے دلوں پر تیر برسانے لگیں لڑکے سائقہ کے مٹکتے ہپس کو دیکھ کر ہائے کی آواز نکالتے کشتی پر جھیل کی سیر کرنے تک کافی اندھیرا چھا چکا تھا کھانے پینے کے بعد ہم وہاں سے نکل پڑے تھے سائقہ کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بہت سے منچلے نوجوان ہماری گاڑی کے آس پاس منڈلانے لگے میں نے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر بھیج کر گاڑی کو دومنٹ میں ان منچلوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا اور سائقہ کو اپنی گود میں بھر کر اسٹیرنگ اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔۔۔۔۔۔ شہر میں آنے کے بعد میں نے سائقہ کی۔پسندیدہ بریانی پیک کرا لی گھر پہچنے کے بعد زینت نے میڈیسن کھائیں اور ہم تینوں ایک بیڈ پر لیٹ کر باتیں کرتے رہے زینت کی طبیعت بہت بہتر تھی ہم سونے لگے تھے سائقہ نے نیند کے لئے میرے سینے کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔ہم صبح نو بجے اٹھ گئے تھے ناشتہ کرنے کے بعد شاکرہ کی کال آ گئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نکل رہا ہوں ان کو لینے کے لئے شاکرہ بولی ہاں تین بجے تک ان کو جہاں پہنچا دینا میں نے اوکے کر دیا زینت سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری صحت کی خرابی کا آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اکیلے مزے لوٹے ۔۔۔ سقی بولی آپ کا دل تو اس وقت جلے گا جب میں کالج میں داخلہ لے کر دن رات مانوں کے مزے لوٹوں گی ۔۔۔ زینت بولی مانوں کے یا ببلو کے ۔۔۔سائقہ بی مانوں کا ببلو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے زینت بولی پھر صرف ببلو بولا کرو تمہیں صرف اسی سے غرض ہے ۔۔۔ سقی بولی نہیں مانوں زیادہ اچھا لگتا ہے سوری ۔۔۔۔ باتوں باتوں میں زینت نے ٹراؤزر کے اوپر سے ببلو کو پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولا آج آخری دن ہے جہاں کا ۔۔میںصرف چوکبار کھاؤں گی میں نے اوکے کر دیا زینت ببلو کو باہر نکال کر چوستے ہوئے اسے جگانے لگی تھی اور میں نے سائقہ کو باہوں میں بھر لیا بہت دیر بعد میں نے سائقہ کے ایک پاؤں میں جھولتی پینٹ کو الگ کر کے اسے اپنے نیچے دبا لیا ۔۔۔۔۔ سقی اس وقت میرے اوپر بیٹھی مست سے جھٹکے لگا کر اپنا پانی دوسری بار گرانے کو آگے بڑھ رہی تھی زینت میرے رائٹ سائیڈ پر سوئی تڑپ رہی تھی سائقہ رک گئی تھی اور جسم کو اکڑانے کے کچھ لمحے بعد سائیڈ پر لڑکھڑاتی میری لفٹ سائیڈ کے پاس اوندھے منہ لیٹ گئی میں نے زینت کو دوسری طرف پھیر کر اس کے ہپس اپنی طرف پھیر لئے اور ببلو کو عجلت میں اس کے ہپس کے درمیان ہول پر رکھ کر اسے آگے بڑھانے لگا اور اپنی ایک انگلی اس کی ببلی کے منہ میں ڈال کر ہلکے جھٹکے دینے لگا ادھا ببلو پیچھے لینے کے بعد زینت درد سے کڑاہ رہی تھی سائقہ اپنا سر اوپر اٹھا کر ہنسنے لگی تھی اور زینت کی ببلی کے پانی چھوڑنے کے بعد میرا ببلو بھی زینت کے پیچھے پچکاری مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں زینت کے ہپس پر ہاتھ رکھ کر سیدھا لیٹ گیا اور سقی کو اپنے سینے پر کھینچ لیا ۔۔۔۔۔۔۔اگلے روز شاکرہ نے مجھے کال کرکے بتایا کہ زینت پھسل خر گری ہے اور اس کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ کہو تو میں اسے ڈاکٹر ارم کے پاس لے۔جاؤں میں نے ڈاکٹر ارم کے اناڑی پن کو گالیوں سے نوازا اور اسے ڈاکٹر صباء کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا شاکرہ اوکے ب کو کال منقطع کر گئی ۔۔۔ شادی کے اگلے روز میں اور شاکرہ ان کو پہنچانے چلے گئے زینت کو اس کے گھر پہنچایا اور شاکرہ نے نعمت کو بولا کہ اسے۔مکمل آرام دینا ہے کام کے لئے کسی کو بلوا لو ۔۔۔ ہم سائقہ کو لیکر جب اس کی بستی کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ میری بیگم سے باتیں کرتی مجھے الفاظ کی چٹکیاں مارتی جا رہی تھی سائقہ نے اس چھوٹی سڑک کی طرف اشارہ کیا جہاں میں اس ٹیلوں والے میدان کی طرف اس کو اور زھرا کو لیکر گیا تھا ۔۔سائقہ بولی باجی اس طرف بہت مزے کا پارک ہے ماموں کو بولنا کبھی آپ کو لیکر جائے گا شاکرہ بولی۔اس طرف ۔۔۔ ادھر تو سارا جنگل لگ رہا ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں تھوڑا آگے جاؤ تو پھر آ جاتا ۔۔۔ شاکرہ نے میری طرف دیکھ کر بولا سچ ہے ۔۔؟؟؟ میں نے اپنا سر اس طرف گھما کر کہا کہ میں تو کبھی نہیں گیا ۔۔۔۔۔ پیچھے بیٹھی سائقہ۔مجھے آئینے میں دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔شاکرہ بولی ابھی تو ٹائم نہیں ہے پھر کبھی دیکھیں گے سائقہ کی بستی سے تھوڑا پہلے جب شام ہونے لگی تھی تو نعمت کی کال آ گئی بولا بستی پہنچ گئے ؟ میں نے کہا کہ ابھی پہنچنے لگے ہیں بولا میں نے زینت کے بھائی کو کال کر دی ہے وہ سونیا کو آپ لوگوں کے ساتھ بھیج دے گا واپسی اس یہاں چھوڑتے جانا ۔۔۔ میں نے شاکرہ کو بتایا بولی اسے کہو بس جلدی سائقہ کے گھر آ جائے ہم فوراً واپس ہونگے شام ہو رہی مجھے اس علاقے میں ڈر لگتا ہے ۔۔۔ میں نے نعمت کو یہ بات کہہ کر کال منقطع کر دی ۔۔۔۔ واپسی پر ہم سونیا کو زینت کے پاس چھوڑ کر رات دس بجے گھر آ گئے تھے ۔۔۔ بیس دن بعد سائقہ کا رزلٹ آنے والا تھا اور میں اس روز سے ایک دن پہلے شاکرہ کو اس کی امی کے گھر چھوڑ کر سائقہ کی بستی کی طرف جا رہا تھا میں نے سائقہ کی فرمائش پر رات اسی کہ پاس گزارنی تھی اور اگلی صبح زرلٹ معلوم کرنے باجی اور سائقہ کے ساتھ شہر جانا تھا ۔۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا میں نے گاڑی کے شیشے نیچے گرا دئیے اور تیز میوزک کے ساتھ ٹھنڈی قدرتی ہوا کی مزے لے کر گاڑی ہلکی سپیڈ سے آگے بڑھا رہا تھا کہ سائقہ کی کال آ گئی اور اس نے مایوسی سے بتایا کہ تیز بارش ہو رہی اور آپ اس کچے رستے پر نہیں آ پاؤ گے ۔۔۔۔ میں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا اور گاڑی کو واپس موڑ لیا اور موسم کو انجوائے کرنے کے لئے اپنی زمینوں کا رخ کر لیا نعمت کا گھر میری ان زمینوں سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا میں اپنے ایک مزارع کو کال کر کے اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ جہاں بھی بارش شروع ہو گئی میں گاڑی میں بیٹھ گیا مزدور اس بارش میں نہیں آ سکتا تھا میں گاڑی میں بیٹھا پریشانی سے آس پاس کا جائزہ لینے لگا ان کچے راستے پر یر طرف کیچر بن گیا تھا اور گاڑی یہاں سے نکالنا نا ممکن تھا میں نے نعمت کو کال کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو زینت کی امی کے گھر پھنس گیا ہے بارش کی وجہ سے میں نے اسے اپنی صورتحال بتائی تو بولا گاڑی کو یہیں رہنے دو اور کسی طریقے میرے گھر تک پہنچ جاؤ۔۔۔ زینت اور سائقہ ویسے بھی اکیلی ڈر رہی ہیں وہاں بارش رک چکی تھی شام سے قبل اندھیرا ہونے لگا تھا درختوں سے ہوا کے جھونکوں سے اب بھی بارش کی طرح پانی ٹپک رہا تھا ہر طرف جل تھل تھی ان علاقوں کی مٹی چکنی تھی جس پر بارش کے بعد چلنا بہت مشکل کام ہے سامنے درختوں کے جھنڈ کے اس پار زینت کا گھر تھا میں کیچڑ بھری زمین کو دیکھتے ہوئے زینت کے گھر تک جانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد نعمت نے کال کر کے صورتحال معلوم کی اور بتایا کہ میں نے گھر بتا دیا ہے آپ کا کھانا تیار ہو رہا آپ گاڑی میں رہیں ایک بچہ بیل گاڑی لا رہا ہے وہ آپ کو میرے گھر تک پہنچا دے گا ۔۔۔۔ میری جان میں جان آ گئی میں اٹھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر چلا گیا اور سوٹ کیس سے بلیک شلوار قمیض نکال کر پینٹ شرٹ اتار دی اور سوٹ پہن کر بیل گاڑی والے کا انتظار کرنے لگا میں نے صرف ضروری سامان ایک شاپر میں ڈال رکھا تھا کوئی بیس منٹ بعد گاڑی کے پیچھے سے کچھ آوازیں آنے لگیں میں نے دیکھا تو بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا بیل کو ہانکتا ہوا گاڑی لے کر میرے قریب ہو رہا تھا لڑکے نے بیل گاڑی کو میری گاڑی کی لفٹ سائیڈ پر قریب کرتے ہوئے روک دیا میں شاپر اٹھا۔کر گاڑی کو لاک کرتا ہوا بیل گاڑی میں بیٹھ گیا میں لڑکے سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے ذہن میں رات کو رنگین بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا دراصل بیس دن بعد سائقہ کے پاس جا کر مکھن پر شہد ڈال کر کھانا چاہتا تھا لیکن بارش کے باعث سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا مجھے سائقہ سے عشق ہو گیا تھا اور ان دنوں میں صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا ۔۔۔ اس کیچڑ میں بیل کو گاڑی کھینچنے میں کافی مشکل پیش آ رہی تھی لیکن لڑکا اسے ہانکتے اور جھڑی سے کام لیکر بیل کو آگے چلنے پر مجبور کر رہا تھا درختوں کے اس جھنڈ کے پہنچنے سے پہلے بارش پھر سے شروع ہو گئی اور میرے کپڑے گیلے ہو گئے تھے ۔۔۔ میں نے شاپر میں اتاری گئی پینٹ شرٹ بھی ڈال دی تھی جس سے مجھے تسلی رہی دو فرلانگ کا فاصلہ بیل گاڑی پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا تھا تاریک رستے پر بیل گاڑی چلانے پر میں لڑکے کو دل میں داد دے رہا تھا میرے کپڑے بھیگ کر چپک گئے تھے اور بارش کے ساتھ ہوا چلنے سے اب مجھے سردی لگ رہی تھی میں نے اس بڑے شاپر میں ہاتھ ڈال کر پاور بینک والا چھوٹا شاپر خالی کر لیا اور پاور بینک کو اس بڑے شاپر میں کھلا چھوڑ دیا میں نے اسی شاپر میں ہزار روپے کا ایک نوٹ رکھ کر لڑکے کو دے دیا لڑکے بہت خوش ہو گیا اور مجھے اتارتے ہوئے کہنے لگا صاحب میری جس ٹائم ضرورت ہو نعمت کو کال کر دینا وہ میرے ابو کو بتا دے گا تو میں آپ کے پاس آ جاؤ گا ۔۔۔ میں نعمت کے گھر میں داخل ہو گیا اور احتیاط سے قدم اٹھاتا ان کے کچے کمرے میں چلا گیا زینت بستر پر ںیٹھی ہوئی اور سونیا اس کے ساتھ کھڑی اپنے دوپٹے کا پلو اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کمرے میں سو واٹ کا ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی مجھے سورج کے برابر لگ رہی تھی کیونکہ میں گپ اندھیرے سے یہاں آیا تھا زینت نے بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا آج کی بارش بہت لکی ہے جو آپ کو ہمارے گھر رہنے کےلئے زبردستی لے آئی ہے میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی طرف بڑھایا تو اس نے معمولی سی ہچکچاہٹ کے بعد سر نیچے جھکاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا میں نے اس کے گرم ہاتکو دبا کر پوچھا ۔۔۔ ٹھیک ہیں آپ ۔۔۔ وہ ایک لمحے بعد مدھم آواز میں بولی ۔جی۔۔۔۔۔ زینت بولی بارش نے آج اسے گم سم کر دیا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں ؟؟۔ بارش نے تو مجھے ڈسٹرب کرنا تھا ۔۔۔ زینت بولی آج اس کے شوہر نے آںا تھا نعمت کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ بھی بارش کی وجہ سے رک گیا تو ۔۔۔ اس پر چپ طاری ہو گئی ۔۔۔۔ زینت مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی میں نے کہا خیر ہے ایسا ہو جاتا لیکن کبھی کبھی اس سے بھی اچھا ہا جاتا زینت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو دبایا اور سر جھکا گئی ۔۔۔ زینت نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور اور مزے جیسی آنکھوں خو تھوڑا بند کرتے ہوئے مجھے کچھ اشارہ کیا گیلے کپڑوں کے چپکنے سے ببلو اپنی تگڑی پوزیشن واضح کر رہا تھا میں نے شاپر کھول کر اس سے پینٹ شرٹ کو نکال اور زینت سے بولا کپڑے کہاں بدلوں ؟؟۔ بولی چھوٹی کوٹھڑی میں سامان بھرا ہے اور اندھیرا بھی آپ ادھر ٹھہر کر بدل لیں ہم ادھر کو منہ کر لیتے سونیا چارپائی پر میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی میں نے اپنی انڈرویئر کو دوبارہ شاپر کی طرف اچھال دیا اور شلوار قمیض اتار دی زینت سونیا سے باتیں کرتی میری طرف توچھی نظروں سے دیکھ رہی تھی میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر پانی نچوڑا اور پینٹ شرٹ پہن کے سونیا کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا سونیا تھوڑی سے کھسک گئی ۔۔۔ زینت نے مسکراتے ہوئے پوچھا صاحب ہم نے تو سبزی بنائی ہوئی ہے مرغی ذبح کرنے والا کوئی نہیں تھا نعمت نے آپ کا پہلے ہی بتا دیا لیکن اس بارش میں ممکن نہیں تھا ۔۔۔ میں نے پوچھا مرغی دیسی ہے یا برائر ؟؟ بولی خالص دیسی ہے لیکن ٹائم نہیں تھا اتنا کچھ فوراً کرنے کو کوشش ہے پھر بھی کوئی طریقہ بن جائے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر کوئی طریقہ بن جائے تو احسان ہو گا آپ کا زینت بولی ۔۔نہیں احسان نہیں ہے ہمارا حق بنتا ہے آپ نے ہمارے گھر آ کر احسان کر دیا تو کوئی چیز آپ سے قیمتی نہیں ہے ۔۔۔ بولی میں بیمار نہ ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نے کہا اوکے فی الحال کچھ سبزی کھا لیتے ہیں میں نے گیلی قمیض سے اپنا سامان نکالا اور بٹوہ پینٹ کی جیب میں ڈالتے رک گیا اور دوہزار کے دو نوٹ نکال کر سونیا کی طرف بڑھا دیئے ۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پہلی بار بولی تھی نہیں صاحب آپ کے پہلے بھی شادی والے احسان باقی ہیں آپ نہیں دیں ۔۔۔ میں نے کہا خیر ہے لے لو جس دن دل کرے سارے احسان اتار دینا ۔۔۔ زینت بولی لے لو صاحب سے یہ بھی ہر کسی کو نہیں دیتے جو اچھا لگتا ہے اس پر اپنی عنایت کرتے ہیں سونیا نے مسکراتے ہوئے نوٹ لے کر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا زینت نے سائقہ کو کہا جا کر گلی کے دروازے کو تالا لگا دو اور کھانا لے آؤ۔۔۔ ارم جھم جاری تھی ایک چارپائی زینت کی چارپائی کے ساتھ ملی ہوئی تھی جس پر میں بیٹھا تھا اور ایک چارپائی اس کچے کمرے میں دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی جس پر صاف ستھرا بستر لگا ہوا تھا ۔۔۔ سونیا باہر نکلی تو زینت بولی ۔۔۔ میں بلب اتار کے سو جاؤں گی آپ اس کے ساتھ کھس جانا ۔۔۔۔ باقی کوئی طریقہ نہیں نظر آتا ۔۔۔۔ سونیا واپس آنے لگی تھی زینت بولی بیگم صاحبہ کیسی ہیں میں نے کہا ٹھیک ہیں آپ کے لئے فکر مند تھیں۔۔۔ بولی دوائیاں ختم ہو جائیں تو پھر نعمت کو بولوں گی ڈاکٹر کے پاس جانے کا ۔۔۔۔ میں نے کہا آپ مجھے کال کر دینا اور چنگ چی بسوں وغیرہ پر۔نہیں آنا ۔۔۔ پہلے سے بھی خراب ہو جاؤ گی ۔۔۔ زینت بولی ہاں پھر نعمت کو بتا دونگی اور آپ آئیں گے تو سونیا اور میں ساتھ آ جائیں گی چلو اسی بہانے ایک رات بیگم صاحبہ کے پاس گزار لیں گے سونیا کھانا لے۔کر آ گئی اور کھانے کے دوران ہماری باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں زینت کے ساتھ والی اس چھوٹی چارپائی پر لیٹ کر موبائل نکالا اور ڈیٹا آن کر کے فیسبک پر گردش کرنے لگا زینت سونیا سے قدرے آہستہ آواز میں ہماری تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی رات کے دس بج چکے تھے میں نے موبائل سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد زینت بولی صاحب کو تو ادھر ہی نیند آ گئی ہے ۔۔۔ پھر اس نے ایک بار مدھم آواز میں بولا صاحب آپ کا بستر ادھر لگا میں سویا رہا ۔۔۔ پھر وہ سونیا سے بولی۔آپ بلب بند کرکے ادھر ہی سو جاؤ بس اس کو نہیں جگاؤ۔۔۔۔ سونیا بولی۔لائٹ جلتی رہے تو ۔۔۔۔ زینت بولی نہیں یہ اندھیرے میں سوتے ہیں ۔۔۔بس بند کر دو اور سو جاؤ ۔۔۔مجھے بھی نیند آ رہی ۔۔رات صحیح سے نہیں سو سکی تھی ۔۔۔ پھر چند قدموں کی آہٹ کے بعد بٹن بند ہونے کی آواز آئی اور میں نے آنکھوں کھول کر دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا باہر سے آسمانی بجلی کی چمک کبھی کبھی کمرے کے دروازے سے اندر جھانک لیتی تقریباً بیس منٹ بعد چارپائیوں سے آنے والی چیں چیں کی ہلکی آوازیں بند ہو گئیں زینت کا ہاتھ میرے چہرے پر آ گیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس پر کسنگ شروع کر دی تھوڑی دیر بعد زینت نے میرے سینے پر تھپکی دی اور میں اٹھ گیا اور پینٹ۔کا بلٹ۔کھول کر اسی چارپائی پر رکھا اور شرٹ اتار کر سونیا کی چارپائی کی طرف بڑھ گیا میں قدموں کو بغیر آہٹ کے آگے بڑھاتا گیا سونیا کی لمبی سانسوں کی آواز آ رہی تھی میں چارپائی کی بازو پر بیٹھتے ہی سونیا کے ساتھ لیٹ کر اس۔پر اپنا بازو رکھ دیا وہ نیند میں تھی میں نے اس پر اپنی دائیں ٹانگ بھی رکھ دی اور اسے اپنے سینے کے قریب کھینچا تو وہ جاگ گئی ۔۔۔۔۔ وہ لرزتے جسم کے ساتھ کانپتی آواز میں بولی کو۔۔کون۔۔۔۔۔ میں نے اآہستہ سے کان میں بولا خاموش رہو زینت جاگ جائے گی اس دوران سونیا میرے چہرے پر ہاتھ پھیر چکی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اس کے نیند سے جاگنے پر جو اوسان خطا ھو گئے تھے وہ بحال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ میں نے اس کے ہپس کے ایک پنکھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کے لب چوسنے لگا سونیا میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے آہستہ سے بولی صاحب نہیں کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا اس موسم میں میں پیار کر ترس رہا تھا میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا جڑ لیا اور چوسنے لگا سونیا نے ایک بار پھر اپنے سر۔کر پیچھے کرکے بولا نہیں کروو۔۔۔ زینت جاگ جائے گی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں جاگے گی تم خاموش رہو ۔۔۔ میں نے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور کچھ نارمل ہونے کے ساتھ اپنا سر اٹھا۔کر بار بار اٹھا رہی تھی شاید وہ اندھیرے میں زینت کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی باہر رم جھم جاری تھی میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی قمیض کے اندر ڈالتے ہو بوبز کی طرف بڑھایا تو اس نے اففففف کے ساتھ کہا یہ نہیں کرو نا بس تھوڑا پیار کر لو میں نے اس کے نپلز کو مسلنے کے ساتھ اس کے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اس کی تیز سانسوں کے بیچ سسکیاں ابھرنے لگیں زینت ساخت پڑی تھی ۔۔۔۔ میں اس کو کسنگ کرتا اس کو سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا اور اس کی ٹانگوں کے بیچ جگہ بنانے لگا کسنگ کے دوران میں نے اس کے قمیض کو گلے کی طرف اوپر سرکا دیا اور اپنے ہونٹوں کو بوبز کے نپلز پر جوڑ دیا جس سے سونیا کی نہ صرف سسکیوں میں اضافہ ہو گیا بلکہ اس کی سانسیں بھی تیز ہو گئی میں اپنی پینٹ کو۔گھٹنوں تک سرکا چکا تھا اور اپنے اس ہاتھ کو سونیا کی کمر پر لے آیا میں نے نپلز پر دانتوں کا استعمال کرنے لگا جس سے سونیا مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اور میں غیر محسوس انداز میں اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈال کر اس کی شلوار کو گھٹنوں تک سرکا گیا سسکیوں کے بیچ اس نے پھر سرگوشی کی ۔۔۔اففففففف زینت جاگ جائے گی میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔۔ بولی جلدی کرووووو۔۔ میں نے اس کی لفٹ ٹانگ کو بازو کے اندر کر کے اس کے بوبز کو منہ میں بھرتے ہوئے ببلو کو اندھیرے رستے میں آگے بڑھا دیا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ پھسلتے ببلو کو محسوس کرتے سونیا بری طرح لرزی اور اپنا ہاتھ اپنے ہپس پر پھیرتے ہو قدرے زور سے بولی اوہ ہ ہ ہ نہیں ۔۔۔۔ سونیا کو پہلے علم نہیں تھا کہ میں اس کی شلوار کے ساتھ اپنی پینٹ بھی سرکا چکا ہوں ببلو بہت آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا اور تقریباً چھ انچ کے بعد اس کی ٹوپی تھوڑی ٹائٹ ہو گئی میں نے ادھر رک کر ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دئیے وہ ساکت پڑی تھی شاید وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اور صرف پیار کی امید پر تھی کہ میں بوبز چوسنے کے بعد چکا جاؤں گا کچھ دیر بعد اسے مزہ آنے لگا تھا اور تیز سانسوں میں بولی جلدی کرو۔۔۔میں نے اس کے ہپس کی حرکت سے محسوس کیا کہ اب وہ پورے مزے میں آ چکی ہے میں نے بیٹھ کر ببلو کو باہر نکال لیا اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اس کی شلوار اتار کے نیچے پھینک دی ۔۔۔بولی ساری تو نہ اتارو۔۔۔ میں نے ببلو کو کھلا چھوڑ دیا اور اندھیرے میں اپنی ببلی کو ڈھونڈ کر اس میں اترنے لگا مجھے معلوم ہو چکا تھا سونیا کی کپیسٹی بھی چھ انچ ہے سو میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا اور ببلو پر دباؤ بڑھا دیا اونہہہ اونہہہ کے ساتھ سونیا تڑپنے لگی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ببلو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا وہ میرے نیچے سے نکلے کی ناکام سی جستجو کو رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے اس لذت کے لمحوں میں دھکیلنے والا ببلو واقعی میں اتنا بڑا ہے یا کچھ اور میرے اندر جا رہا ۔۔۔۔سونیا نے اپنا سر جھٹک کے اپنے لبوں کو میرے ہونٹوں کی گرفت سے آزاد کیا اور ڈوبتے سانسوں کو گہری سانس لے کر بحال کیا اور ۔۔۔ لمبی سی آواز میں بولی۔۔ آآآ امی ی ی ۔۔۔۔ زینت کی مدھم ہنسی کے ساتھ آواز آئی ۔۔۔ سونیا کیا ہوا طبیعت خراب ہے یا ڈڑ رہی ہو ۔؟؟؟؟؟ سونیا خاموش اور ساکت ہو گئی میں نے اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھے تو وہ اپنے لب دانتوں تلے دبائے ھوئے تھی میں نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اور باہر رہنے والے ایک انچ کو جھٹکے سے ڈال کر ببلو کو ہلانا شروع کر دیا سونیا اپنے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر مجھے دھکیلنا چاہ رہی تھی میں نے ایک دم جھٹکوں میں تیزی بھر دی اور سونیا کی ایک بار پھر بے اختیار آواز نکلی ۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ زینت اٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کڑک کے ساتھ کمرہ روشن ہو گیا اور سونیا نے اپنی آنکھوں پر بازو لپیٹ لیا ۔۔۔
(جاری ہے)
Comment