Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    بہت اچھے دوست، بہت اچھے لکھاری، لکھاری کی محنت کو سلام

    Comment


    • #42
      بہترین۔۔۔۔ماموں کی بھانجیاں تو بہت بڑے دل والی ہیں ماموں کے ہتھیار کی طرح۔۔۔ لاجواب سٹوری ھے جناب۔چڑھتی جوانیوں پہ بار بار چڑھتا ماموں ۔۔۔۔کمال

      Comment


      • #43
        اس کہانی کو جتنا پڑھو اتنا مزہ آتا ہے

        Comment


        • #44
          Boht zabardast kahani is hi tarhan jari rakhian

          Comment


          • #45
            مہوش کا کھاتہ بھی جلد کھل جاے گا

            Comment


            • #46
              قسط نمبر 15

              میں نے سائقہ کے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا کہ شام کو یہاں سے نکلیں گے اور آپ رات ادھر ہی گزارو گے ۔۔۔ میں نے کہا شام کو کیوں نکلنا بولی میں گاڑی چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا کہ تمھیں گاڑی چلانے سے نہیں روک رہا دن کو بھی چلا سکتی ہو اور میں سنڈے کی لاہور سے نکل کر بہت صبح آپ کے پاس آ جاؤں گا اور آپ کو وقت پر کالج پہنچا دوں گا ۔۔۔ اس نے کال بند کر دی اور میں بہت دیر تک سر جھکائے بیٹھا سوچتا رہا میرا لاہور جانا بہت ضروری تھا سو میں نے سائقہ کو کال ملا دی کال کو آخری لمحے میں اٹینڈ کر لیا گیا تھا ۔۔۔ اور مہوش نے ہیلو کہا ۔۔ میں نے پوچھا سائقہ سے بات کراؤ ۔۔۔ بولی رو رہی ہے ۔۔۔ میں نے مہوش سے کہا کہ موبائل اس کے کان سے لگا دو۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا سائقہ کے الجھے سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا ۔۔۔ سائقہ بات سنو ۔۔۔۔ لیکن اس نے گہری اکھڑی سانس لے لی میں نے ایک دم بولا ۔۔سقی ۔۔۔۔۔۔ تو وہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔۔ اور ساتھ کال منقطع ہو گئی اور اگلے لمحے اس نے کال کر لی ۔۔۔ میں نے کال پک کر کے گہرا سانس لے لیا ۔۔۔ بولو مانوں ۔۔۔۔ میں نے کہا کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔۔ بولی پتا نہیں کیا ہو رہا ۔۔۔دو مہینے ہو گئے ۔۔۔ بسسسس۔ ۔۔ میں نے کہا سقی کبھی آپ کی بات کو رد کیا ؟؟؟ نہیں مجھے اس لئے افسوس ہوا ۔۔۔ میں نے کہا میری مجبوری نہیں سمجھو گی بولی بس ٹھیک ہے جس ٹائم بولو گے ہم تیار ہونگی ۔۔۔ میں نے تھینکس بولا اور کہا چھٹی کے بعد نکل جائیں گے آپ سکون سے گاڑی چلا لینا اور میں شام سے پہلے واپس آ کر لاہور چلا جاؤں گا بولی ۔۔۔ٹھیک ہے پر گاڑی میں نہیں چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا مطب ناراضگی قائم ہے بولی نہیں ناراضگی بھی ختم ہو گئی سقی کی ۔۔۔ میں نے کہا تو گاڑی کیوں نہیں چلاؤ گی بولی دن کو اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔ بولی مجھے ایسے گاڑی چلانا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ ویسے اچھا لگتا ۔۔ میں نے کہا ۔۔مطلب ؟؟؟۔ بولی تکیہ نہیں ہو گا بس ۔۔۔۔ میں بات سمجھ چکا تھا ۔۔ میں نے اسے کہا اوکے چھٹی کے بعد ہاسٹل آ جانا میں کال کر لوں گا شام سے کچھ پہلے اور بستی جا کر رات گزارنے کا ضدِ نہیں کرو گی ۔۔۔۔۔ وہ بہت دیر ہنستی رہی پھر بولی اوکے نہیں کرونگی ۔ آپ چلے جانا ۔۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کال بند کر دو بولی آپ کر دو ۔۔۔ میں نے کہا اوکے مہوش کو دے دو ۔۔۔ بولی ہاں یہ آسان کام ہے ۔۔۔ مہوش سے پوچھا پڑھائی کیسی چل رہی بولی پڑھائی کو چھوڑو۔۔ یہ بتاؤ اس پر جادو کونسا کیا ۔۔۔ میں نے کہا کالا جادو۔۔۔ بولی یہ تو کالے جادو سے بھی کچھ بڑا لگ رہا ۔۔ ساتھ سائقہ کی آواز گونجی ۔۔۔۔ یہ اتنا بڑا ہے ۔۔۔۔ سائقہ کے ابھرتے قہقہے کے ساتھ کال منقطع ہو گئی ۔۔۔۔۔ شام سے کچھ قبل سائقہ مہوش کو پیچھے بٹھاتے ہوئے بولی ۔۔ بس تھوڑی دیر ادھر بیٹھوں پھر آگے آ جانا وہ مسکراتے ہو پیچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے مجھے سلام کیا میں نے اس کی طرف ہات بڑھا لیا مہوش نے ہنس کر اپنا سر جھکایا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا لیا میں نے اس کے ہاتھ کو چوم کر مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ کو آرام سے اس کے گھٹنے پر رکھ دیا سائقہ بولی آرام سے ایسے رکھ رہے ہو جیسے کانچ کی گڑیا ٹوٹنے لگی ہو ۔۔۔ لالچی مانوں ۔۔۔ میں نے گاڑی مسکراتے ہوئے آگے بڑھا دی ۔۔۔ گاڑی نے جیسے ہی شہر کے آخری چوک سے مین روڈ پر ٹرن لیا سائقہ نے برقعہ اتار کر پیچھلی سیٹ پر پھینک دیا شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے میں نے گاڑی کی لائٹس جلا لیں مہوش نے نقاب اتار لیا تھا لیکن برقعہ پہنے ہوئے تھی ۔۔۔ میرے موبائل پر سائقہ کی امی نے مس کال دی تھی ۔۔ میں نے کال ملا کر موبائل سائقہ کی طرف بڑھا دیا سائقہ نے ہیلو کہا اور اپنی امی کی بات سننے لگی ۔۔۔ پھر بولی امی ماموں کا کوئی ضروری کام تھا یہ ابھی ہاسٹل کے باہر پہنچے ھیں بس مہوش سامان اٹھا کر آ رہی ہے تو تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں ۔۔۔ پھر والے خاموشی سے امی کی بات سننے کے بعد بولی امی گھر آنا ہے ناں بس پہنچ جائیں گے ۔۔ آپ مہوش کی امی کو بتا دو ۔۔۔اور پھر کال بند۔کر کے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مہوش کو بولا برقعہ تو اتار دو یارررر۔۔۔ اور آگے آ جاؤ۔۔۔ میں ابھی آپ کو کمال دکھاتی ہوں ۔۔۔ مہوش بولی کمال کس چیز کا سرکس لگی ہے کیا ۔۔۔ سائقہ اپنے ہاتھوں کو اسٹیرنگ کی طرح گھماتے ہوئے بولی ہاں میں ابھی جہاز پر بیٹھ کر گاڑی چلاؤں گی ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے سائقہ کو دیکھا اور گاڑی کی سپیڈ کم کرنے لگا مہوش سائقہ کی سیٹ سے سر ٹکا کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر روک دی اور اندر جلتی لائٹ کو آف کر دیا سائقہ نے اٹھ کر میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور مجھے کسنگ کرنے لگی میں نے بھی اس کے گالوں کا مزہ لیا اور اس کے ہپس کو پکڑتے ہوئے بولا جلدی کرو لیٹ ہو جائیں گے مہوش اپنا سر جھکائے مسکرا رہی تھی ۔۔ سائقہ میری گود میں بیٹھتے ہوئے مہوش کو سر پر تھپڑ مار کے بولی ۔۔۔۔ آگے آ جاؤں سائقہ نے اپنے ریشمی ہپس سے میری گود کو بھر لیا تھا ۔۔۔ مہوش فرنٹ سیٹ پر آ گئی تھی اور سر جھکائے ترچھی نظروں سے سائقہ کے ہپس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ گیئر لیور پر ہاتھ رکھ کر مہوش سے کہنے لگی ۔۔۔ کالا جادو دیکھو گی ؟؟؟؟ مہوش نے مسکراتے ہوئے اپنے چہرہ لفٹ سائیڈ پر پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم دیکھو ۔۔ مجھے معاف رکھو۔۔۔۔ سائقہ نے محتاط انداز میں آگے پیچھے دیکھتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی وہ آج مہارت سے گیئر بدل کر گاڑی کو نارمل پوزیشن پر لے آئی میں اس کے نگرانی کرتے اس سے سپید بڑھانے کو بول رہا تھا اور آج وہ پہلی بار سے قدرے بہتر سپیڈ میں چلانے لگی تھی گاڑی کا اسٹیرنگ سائقہ کے ہاتھوں میں بہت پیارا لگنے لگتا تھا روڈ پر اتنا رش نہیں تھا اور میں اس کی سپیڈ 50 پلس کر چکا تھا اور اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ایزی کر لیا تھا تاکہ میں کسی بھی صورت میں گاڑی کا فوری کنٹرول سنھبال سکوں روڈ پر آگے جانے والی چنگ چی اور دیگر گاڑیوں کے کراس کے وقت میں اپنے ہاتھ اسٹیرنگ پر جما لیتا تھا لیکن سائقہ مہارت سے کنٹرول کرتی جا رہی تھی ہم مہوش کی بستی جانے والے روڈ پر پہنچ گئے تھے مہوش پیچھلی سیٹ پر چلی گئی تھی اور برقعہ پہننے کے ساتھ اپنا سامان سنبھالنے لگی تھی اس کچے رستے پر جمپ لگنے سے سائقہ گاڑی کنٹرول کرنے میں تھوڑی ڈسٹرب ہو رہی تھی میں نے کنٹرول سنھبال لیا وہ مجھے کسنگ کرتے پیچھے جانے لگی تھی ۔۔۔۔ مہوش کے گیٹ کے پاس میں ان دونوں کو اتار کر گاڑی کو گلی میں آگے لے جا کر ٹرن کرنے لگا سائقہ بھی مہوش کے ساتھ اس کے گھر میں جا چکے تھی اور صرف دو مںٹ میں ہی برقعے میں مٹکتی واپس آ گئی تھی ۔۔۔ مہوش کی امی نے اپنے گیٹ میں کھڑے ہو کر رسمی کلمات ادا کئے اور میری بلائیں لیتی ہوئی بولی کبھی وقت پر نکل کر ہمارے گھر بھی آ جانا ۔۔۔ سائقہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی اور میں مہوش کی امی کو سلام کرتے گاڑی آگے بڑھا گیا سائقہ برقعہ اتار کر میری گود میں آ گئی تھی اور کچے رستے پر گاڑی کو بڑھتا غور سے دیکھ کر اپنے ہاتھ جمانے لگی تھی مین روڈ پر آتے ہی میں نے گاڑی مکمل طور پر اس کے حوالے کر دی ۔۔۔۔ شاکرہ کی کال آنے لگی پوچھا کہاں تک پہنچے میں نے اسے لاہور روٹ کی ایک سٹاپ سے پہلے کا بتا دیا ۔۔ سائقہ لوگوں کا پوچھا تو میں نے کہا کہ انکو اگلے ہفتے انہیں بھیجنے کا بولا کہ پندرہ دن کے بعد کی روٹین بناتے ہیں ان کی اس نے مجھے محتاط ڈرائیونگ کی مختصر ہدایات جاری کیں اور کال منقطع کر دی ۔۔۔ ہم 10:15 بجے سائقہ کی بستی کے پاس پہنچ گئے سائقہ پچھلی دیٹ پر چلی گئی اور برقعہ پہننے کے بعد اپنا سامان سنبھالتے ہوئے کہنے لگی گندہ مانوں ۔۔۔ اپنی سقی کو تڑپتا چھوڑ کر جا رہا ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی تیری تڑپ جلدی بند کر دوں گا ۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے اترنے لگی میں گاڑی کا سوئچ آف کئے اتر چکا تھا سائقہ کی امی اور زینت کی گیٹ پر۔موجود تھیں ۔۔۔ میں نے ان سے تھوڑی گفتگو کی اور اجازت لیکر نکل پڑا میں نے یہاں سے لاہور کے کچھ شارٹ کٹ روٹ ذہن میں بٹھا رکھے تھے جن پر مجھے کچھ سہولت دستیاب ہوئی میں صبح چھ بجے بھاٹی گیٹ کے پاس ایک ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے روم چلا گیا اور دس بجے کا الارم لگا کر سو گیا تقریب گیارہ بجے سٹارٹ ہونی تھی ۔۔۔۔۔ میں اس تقریب سے چھ بجے شام کو فری ہو گیا اور واپس اسی ہوٹل میں آ کر سو گیا تین گھنٹے کی نیند کے بعد میں کافی حد تک فریش ہو گیا تھا میں رات گیا بجے لاہور سے واپس نکل پڑا مہوش کو اس کا ابو شام سے کچھ پہلے اسے سائقہ کے گھر چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ میں نے گاڑی کی سپیڈ بھی گزشتہ رات سے بڑھا رکھی تھی اور پہلے والے کچھ انجانے رستوں سے بھی واقف ہو چکا تھا میں نے صبح پانچ بجے سائقہ کے گھر کے سامنے گاڑی روک رہا تھا اور وہاں ایک گلاس دودھ پینے کے بعد سائقہ اور مہوش کی لیکر نکل پڑا تھا دن کی روشنی میں سائقہ میری گود میں نہیں بیٹھ سکتی تھی اور ایسے وہ چلانا نہیں چاہتی تھی میں نے ان کو کالج ٹائم سے 45 منٹ پہلے ہاسٹل کے گیٹ پر اتار دیا تھا اور ہاسٹل انتظامیہ سے بات کر کے گھر آ کر سو گیا ۔۔۔۔۔ میں شام کو شاکرہ کو گھر لے آیا۔۔۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں میں نے ان دونوں کی روٹین لکھا دی تھی کہ وہ ہفتے کے روز کالج کی چھٹی کے بعد گھر چلی جائیں گی اور اتوار کی شام یا سوموار کو ہاسٹل آئیں گی جبکہ دوسری طرف سائقہ کی امی اور شاکرہ کو پندرہ روزہ پلان بتا دیا تھا ۔۔۔۔ انتظار کا یہ ہفتہ بہت طویل ہو گیا تھا اور اسی ہفتے میں نے ایک دوست کے ساتھ مشترکہ کاروبار بھی شروع کر دیا تھا میرے ذہن میں یہی تھا کہ اس سے ہونے والے پرافٹ کو سائقہ اور مہوش کے اخراجات پر صرف کرونگا ہفتے کے روز میں نے شاکرہ سے کہا کہ ان کے چھٹی کے بعد ان کو بستی چھوڑنے جائیں گے ۔۔۔ بولی اگر آپ کو برا نہ لگے تو آپ چلے جاؤں اور مجھے امی کے پاس چھوڑ دو میں تھک جاتی پھر کبھی چلی جاؤں گی ۔۔۔ شاکرہ کی امی یعنی میری ساس بھی سائقہ کی امی کی طرح شوگر پیشنٹ تھی اور شاکرہ کوشش کرتی تھی کہ فرصت کے لمحات اپنی امی کی خدمت میں گزار لے ۔۔۔۔ میں نے شاکرہ کو اوکے کہہ دیا اور اسے بولا کہ اپنی تیاری کر لو میں بھی کچھ وقت آپ کی امی کے۔ساتھ گزار لوں گا شاکرہ کی امی بھی مجھے سب دامادوں سے عزیز رکھتی تھی اور روز اول سے ہی اس نے مجھے بہت پیار دیا تھا ۔۔۔۔ میں کالج کی چھٹی سے دس منٹ۔پہلے کالج کے گیٹ پر پہنچ چکا تھا اور بزرگ چنگ چی والے کو چھٹی دے دی ۔۔۔ سائقہ اور مہوش چھٹی ہونے پر سب سے پہلے گرلز کے گروپ کے ساتھ باہر آ گئی تھی اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں میں نے مارکیٹ کا رخ کر لیا اور ان کی پسند کے دو دو سوٹ خرید لئے سائقہ نے اپنے جیسی ایک جینز اور کچھ شرٹس مہوش کے لئے بھی لے لیں اور دیگر کچھ سامان کی خریداری کے بعد ہم گاڑی میں واپس آ گئے اور میں نے گاڑی کو ایک قدرے کم رش والے روڈ پر ڈال خر ان کو سوٹ پہننے کا کہا وہ پیچھے بیٹھے بیٹھے سوٹ بدل چکی تھی اور اپنی کالج یونیفارم اتار کر شاپر میں ڈال لیں سائقہ ویسے بھی ہر سوٹ اچھا لگتا تھا اور اس کہ جسم پر کپڑے کی اہمیت بڑھ جاتی تھی اور ساتھ مہوش بھی بہت پیالگ رہی تھی ۔۔۔ اور آج وہ کچھ خاموش بھی تھی اور کچھ الجھی ہوئی بھی تھی ۔۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا آج مہوش کو گاڑی چلانا سکھاتے ہیں ۔۔۔ سائقہ بولی آج مہوش کو پائلٹ بنائیں گے ۔۔۔ آج یہ جہاز اڑائے گی ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے مہوش سے پوچھا۔۔۔۔ سائقہ کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔ سچ میں آپ کو جہاز اڑانا آتا ہے ؟؟؟ مہوش بولی یہ بکواس کرتی ہے ۔۔۔ خود اڑائے گی جہاز ۔۔۔سائقہ بولی میں تو بہت ماہر پائلٹ ہوں ۔۔۔۔ اور آج اپنی کزن کو بھی سکھا دوں گی ۔۔۔۔ وہ شرماتے ہوئے بولی مجھے نہیں سیکھنا تم بس کافی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی اوکے مجھے دیکھتی رہنا ۔۔۔۔ مہوش بولی مجھے دیکھنا بھی نہیں ہے ۔۔۔ میں نے ایک فوڈ پوائنٹ پر گاڑی روک دی ۔۔دہی بلے اور کولڈرنکس پینے بعد ہم پانچ بجے دوسرے سٹی کے اس بڑے کی جانب بڑھ گئے سائقہ بولی شکریہ مانوں آج میں تو آپ کے سارے احسان ایک رات میں اتار دونگی ۔۔۔۔ اب اس۔کنجوس کو دیکھتے ہیں کیسی اتارتی آپ کے احسان اپنے سے ۔۔۔۔ میں نے کہا یہ مجھے اپنے سے اتارے گی تو پھر بھی نہیں اتروں گا۔۔.۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے کہنے لگی شہر کے کالج میں داخلہ اتنا آسان نہیں ہے قربانی دینی پڑتی ہے خون بہانا پڑتا ہے مہوش سر جھکائے مسکرا رہی تھی اور اب بات کا جواب دینے کے بجائے ہر بات پر سائقہ کی ران پر مکے مارنے لگی تھی ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سقی ٹم بہت بدتمیز ہے کیوں ڈرا رہی ہو بچی کو۔۔۔۔ سائقہ بولی بس جتنے تک بچی ہے بچی ہے ۔۔۔ سمجھو آج نہیں بچی ہے ۔۔۔ میں نے کہا مہوش یہ تمھیں خوامخواہ ڈرا رہی ہے ۔۔۔۔ سائقہ بولی ہاں مانوں تمھیں تو کچھ نہیں ہونے والا لیکن اففففف آج جو اس کی نازک جنڈ کے ساتھ ہونے والا ہے ناں اففففففففف ۔۔۔۔ سائقہ تالی بجاتی ہنستے ہوئے گٹھڑی بن رہی تھی ۔۔۔۔ پارک میں بھی سائقہ نے مہوش کو بہت تنگ کیا ۔۔۔ سنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔کزن اپنی آخری خواہش بتا دو ۔۔۔ جہاز سے پہلے کس جھولے پر بیٹھو گی ۔(جاری ہے )

              Comment


              • #47
                ایک اور بھانجی جہاز پپ چڑھنے والی

                Comment


                • #48
                  بہت عمدہ انداز میں کردرار بیان کیے ہیں رائٹر نے

                  Comment


                  • #49
                    جہاز کے سامنے جھولوں کی کوئی وقعت نہیں۔ خون خرابہ ہونے کا امکان ہے

                    Comment


                    • #50
                      بہت اعلی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X