پارٹ نمبر پانچ
ادھر ضیاء کی زندگی زوال پذیر ہو رہی تھی کہ وہ اس کو چا ہ کر بھی سہی نہیں کر پا رہا تھا ایک دن وه دونوں بازار سے واپس لوٹے تو اس کے گھر پر چور گھس آیا تھا
اس نے شازیہ کو پکڑ کر کن پٹی پر پستول رکھا اور ضیاء سے کہا کہ وہ گھر میں موجود قیمتی سامان نکال کر لے آئے مگر ضیاء نے انکار کردیا تو اس نے چاقو نکالا اور شازیہ کی قمیض فرنٹ سے چیر دی جس وجہ سے وه برا اور پینٹی پہنے ہوئے تھی جسے دیکھ کر ضیاء اور عدیل کے لن کھڑے ہو گئے تھے عدیل نے دوبارہ کہا مگر ضیاء نے کہا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے عدیل نے چاقو سے شازیہ کی پینٹی چیر دی تھی ضیاء کو اپنا لن پھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا آخری بار پوچھنے پر جب انکار ملا تو اس نے برا بھی چیر دی جس سے شازیہ مکمل ننگی ہو گئی تھی
اور شازیہ کو گھوڑی بنا کر ضیاء کو اسکی گانڈ مارنے کہا ضیاء نے اس کی بات مان لی اور اس نے اپنے لن پر باڈی لوشن لگایا اور لن کو چکنا کیا اور شازیہ کی گانڈ میں لن گھسا کر جھٹکے مارنے لگا عدیل نے اس سین کی وجہ سے اپنا لوڑا نکال کر مٹھ مارنے لگا تھا جب اسکا لن تناؤ میں آیا تو اس نے ضیاء کو شازیہ کی چوت مارنے کا کہا اور خود اس کی گانڈ مارنے لگا شازیہ دو لنوں کی وجہ اور گرم ہو گئی تھی اس کی چوت پانی چھوڑ رہی تھی کہ شازیہ کا جسم اکڑنے لگا اور اس کی کمر اٹھنے لگی تھی اور وه چھوٹنے والی تھی کہ اس نے ضیاء کو زور دار جھٹکے مارنے کا کہا اور میں چھوٹنے والی ہوں ضیاء بھی چھوٹنے والا تھا کہ وہ دونوں چھوٹ گئے تھے اور عدیل نے لن کی مٹھ لگا کر منی شازیہ کے مموں پر نکال دی تھی جسے اس نے چاٹ لیا تھا عدیل واپس چلا گیا تھا
فہد عندلیب اور نسیم نسیم کے بھانجے کی شادی پر لاہور سے حاصل پور چلے گئے تھے وہاں موجود سب نے پرزور استقبال کیا اور انھیں ریسٹ کرنے کے لئےایک الگ پورشن دیا گیا جو کہ نسیم کے نام پر تھا شام کو سب چائے پر اکھٹے ہو کر گپ شپ لگا رہے تھے
اس کے بعد وه سونے چلے گئے تھے رات گئے نسیم باہر نکل کر کر حویلی کی پچھلی طرف جانے لگی جس کا راستہ عندلیب والے کمرے کے سامنے سے گزرتا تھا نسیم کو جاتا دیکھ کر عندلیب بھی اس کے پیچھے چل پڑی جسے ہی وه بھا نے کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ساس كالو مالشی کا موٹا لوڑا چوس رہی تھی وه حیرت میں ڈوب گئی تھی خیر نسیم كالو کا لوڑا منہ میں لے کر چوس رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی شلوار قمیض بھی اتار دی اور مموں کو ہاتھ سے مسل رہی تھی یہ دیکھ کر عندلیب کی چوت سے پانی رس رہا تھا کہ کچھ دیر تک دونوں چھوٹ گئی تھی خیر وه اپنے کمرے میں واپس آگئی اور دروازہ بند کر دیا تھا شلوار اتار کر دوبارہ چوت مسلنے لگی فل مزے سے پانی نکالا اور پھر سو گئی تھی اگلے دن شام میں سب لوگ مہندی کا فنکشن کے لئے تیار ہونے لگے تھے عندلیب بھی آج ساڑی پہنننے کا فیصلہ کیا نہا کر باہر نکلی اور تو سامنے اسکی ساس نسیم بھی بلاؤز بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس سے نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر اس نے ساس کی مدد کی اور بلاؤز بند کر دیا مگر اس دوران اس کے نسیم کے مموں سے ٹچ ہو گئے تھے اور اس کی سسكی نکل گئی تھی عندلیب نے کہا کہ رات تو فل مزے سے لن لے رہی تھی اب کیا ہوا ہے یہ بات سن کر نسیم حیران رہ گئی تھی
ادھر ضیاء کی زندگی زوال پذیر ہو رہی تھی کہ وہ اس کو چا ہ کر بھی سہی نہیں کر پا رہا تھا ایک دن وه دونوں بازار سے واپس لوٹے تو اس کے گھر پر چور گھس آیا تھا
اس نے شازیہ کو پکڑ کر کن پٹی پر پستول رکھا اور ضیاء سے کہا کہ وہ گھر میں موجود قیمتی سامان نکال کر لے آئے مگر ضیاء نے انکار کردیا تو اس نے چاقو نکالا اور شازیہ کی قمیض فرنٹ سے چیر دی جس وجہ سے وه برا اور پینٹی پہنے ہوئے تھی جسے دیکھ کر ضیاء اور عدیل کے لن کھڑے ہو گئے تھے عدیل نے دوبارہ کہا مگر ضیاء نے کہا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے عدیل نے چاقو سے شازیہ کی پینٹی چیر دی تھی ضیاء کو اپنا لن پھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا آخری بار پوچھنے پر جب انکار ملا تو اس نے برا بھی چیر دی جس سے شازیہ مکمل ننگی ہو گئی تھی
اور شازیہ کو گھوڑی بنا کر ضیاء کو اسکی گانڈ مارنے کہا ضیاء نے اس کی بات مان لی اور اس نے اپنے لن پر باڈی لوشن لگایا اور لن کو چکنا کیا اور شازیہ کی گانڈ میں لن گھسا کر جھٹکے مارنے لگا عدیل نے اس سین کی وجہ سے اپنا لوڑا نکال کر مٹھ مارنے لگا تھا جب اسکا لن تناؤ میں آیا تو اس نے ضیاء کو شازیہ کی چوت مارنے کا کہا اور خود اس کی گانڈ مارنے لگا شازیہ دو لنوں کی وجہ اور گرم ہو گئی تھی اس کی چوت پانی چھوڑ رہی تھی کہ شازیہ کا جسم اکڑنے لگا اور اس کی کمر اٹھنے لگی تھی اور وه چھوٹنے والی تھی کہ اس نے ضیاء کو زور دار جھٹکے مارنے کا کہا اور میں چھوٹنے والی ہوں ضیاء بھی چھوٹنے والا تھا کہ وہ دونوں چھوٹ گئے تھے اور عدیل نے لن کی مٹھ لگا کر منی شازیہ کے مموں پر نکال دی تھی جسے اس نے چاٹ لیا تھا عدیل واپس چلا گیا تھا
فہد عندلیب اور نسیم نسیم کے بھانجے کی شادی پر لاہور سے حاصل پور چلے گئے تھے وہاں موجود سب نے پرزور استقبال کیا اور انھیں ریسٹ کرنے کے لئےایک الگ پورشن دیا گیا جو کہ نسیم کے نام پر تھا شام کو سب چائے پر اکھٹے ہو کر گپ شپ لگا رہے تھے
اس کے بعد وه سونے چلے گئے تھے رات گئے نسیم باہر نکل کر کر حویلی کی پچھلی طرف جانے لگی جس کا راستہ عندلیب والے کمرے کے سامنے سے گزرتا تھا نسیم کو جاتا دیکھ کر عندلیب بھی اس کے پیچھے چل پڑی جسے ہی وه بھا نے کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ساس كالو مالشی کا موٹا لوڑا چوس رہی تھی وه حیرت میں ڈوب گئی تھی خیر نسیم كالو کا لوڑا منہ میں لے کر چوس رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی شلوار قمیض بھی اتار دی اور مموں کو ہاتھ سے مسل رہی تھی یہ دیکھ کر عندلیب کی چوت سے پانی رس رہا تھا کہ کچھ دیر تک دونوں چھوٹ گئی تھی خیر وه اپنے کمرے میں واپس آگئی اور دروازہ بند کر دیا تھا شلوار اتار کر دوبارہ چوت مسلنے لگی فل مزے سے پانی نکالا اور پھر سو گئی تھی اگلے دن شام میں سب لوگ مہندی کا فنکشن کے لئے تیار ہونے لگے تھے عندلیب بھی آج ساڑی پہنننے کا فیصلہ کیا نہا کر باہر نکلی اور تو سامنے اسکی ساس نسیم بھی بلاؤز بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس سے نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر اس نے ساس کی مدد کی اور بلاؤز بند کر دیا مگر اس دوران اس کے نسیم کے مموں سے ٹچ ہو گئے تھے اور اس کی سسكی نکل گئی تھی عندلیب نے کہا کہ رات تو فل مزے سے لن لے رہی تھی اب کیا ہوا ہے یہ بات سن کر نسیم حیران رہ گئی تھی
Comment