Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دل پہ لگے زخم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    Buhat khoob, kahani har update kay sath aur ziyada mazeydar hoti ja rahi hai.

    Comment


    • #42
      اففف یہ حرام خور تو پچھلے ہی پڑ گیا ہے زارا کے۔۔ دیکھتے ہیں اب زبیر دونوں کو ساتھ دیکھ کر کیا ریکشن دیتا ہے۔۔۔ اور کیا زیان بھی زارا سے مل پائے گا۔۔۔ انتظار رہے گا دیکھتے ہیں اب آگے کیا ہوتا ہے۔۔

      Comment


      • #43
        Bohot umda aur haqeqat ke qreeb tar kahani he

        Comment


        • #44
          zabardast kahani maza agya.
          ​​​​​​zayan ki entry kafi dilchasp hony wali hai.

          Comment


          • #45
            بہت اچھی سٹوری کا پلاٹ ہے
            ذپردست انداز میں لکھی ہے
            شاندار

            Comment


            • #46
              Boht zabardast update zara ki khala or czn ko zara ki shadi ka pata chal gya deakhte han ka wo ab zara ko is mushkil sa nikalte han ka nhi

              Comment


              • #47


                دل پہ لگے زخم



                قسط: 06



                ایک بار میری بات تو سُن لو اتنا ہائپر کیوں ہو رہی ہو؟“ وہ اس کے چلانے سے بد مزہ ہوا ۔

                ” تم نے سنا نہیں مجھے کچھ نہیں سننا، جاؤ یہاں سے۔“ اس کی ڈھٹائی دیکھ کر وہ حلق کے بل چیخی تو یوں محسوس ہوا کہ حلق میں خراش آگئی ہو ۔

                ” کیا تم زبیر کو دیکھ دیکھ کر بور نہیں ہوتی۔ بڑا عجیب بندہ ہے ویسے.... چپ چاپ شادی کرلی اور بتایا بھی نہیں۔“

                وہ اس کی بات کو خاطر میں لائے بغیر خباثت سے ہنستے ہوئے اس کے قریب چلا آیا۔

                ”دور... دور رہو مجھ سے ورنہ.... ورنہ میں چلاؤں گی۔ “ وہ اسے تنبیہ کر رہی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ اس شور میں اس کی آواز اس روم سے باہر نہیں جائے گی۔

                ”تو چلاؤ.... میں بھی دیکھتا ہو تمہارے چلانے سے کتنے لوگ آتے ہیں ۔“ وہ ذرا آگے کو آیا تو زارا کے نتھنوں سے جانی پہچانی بو ٹکرائی اور یکدم اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا۔

                اس بُو سے اسے کافی شناسائی تھی ۔اکثر زبیر نشے کی حالت میں جب گھر لوٹتا تو اس کے منہ سے بھی بالکل اسی طرح بو آتی تھی۔

                وہ نشے میں تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکا دیا اور اپنے کپڑے سنبھالتی دروازے کی سمت بڑھی ۔ وہ لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچا۔ زارا نے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ زبیر اندر داخل ہوا ۔

                جمشید کو وہاں دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگوار لکیریں ابھریں اور اس نے غصّے سے زارا کو دیکھا ۔

                اس سے پہلے وہ کچھ کہتی زبیر کو دیکھتے ہی جمشید نے اپنا پینترا بدل لیا۔

                ”زبیر تم کہاں تھے یار ۔ تمہاری بیوی نے مجھے یہاں بُلایا مجھے لگا تم ساتھ ہو ۔یہاں آکر دیکھا تو تم تھے ہی نہیں تو سوچا بھابھی سے ہی بات کر لیتا ہوں ویسے زارا بھابھی بہت مذاق کرتی ہیں ۔کیوں زارا بھابھی؟“

                وہ شاطرانہ انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو زارا اس کی خباثت دیکھ کر روہانسی ہوگئی۔اس کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔

                ”تمہیں ولیمے کی بہت مبارک باد یار، چلو اب میں چلتا ہوں تم دونوں انجوائے کرو۔“

                اس نے مسکراتے ہوئے زبیر کے شانوں کو تھپک کر کہا اور باہر نکل گیا ۔اس نے اپنی بھرپور اداکاری سے پورا معاملہ ہی پلٹ دیا ۔ زارا اس مکار آدمی کی چال بازی دیکھ کر دنگ رہ گئی ۔وہ تو چلا گیا تھا لیکن وہ زبیر کی آنکھوں میں آیا غصّہ دیکھ سکتی تھی۔ زبیر اس سے کسی بھی قسم کی گفتگو کیے بغیر اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اسٹیج تک لے آیا۔ اس وقت سب کے سامنے اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا مگر زبیر کا ردِ عمل کا سوچ کر ہی اس کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔

                مہمان ڈنر کے بعد اپنے گھر روانہ ہوتے ہی وہ دونوں بھی گھر چلے آئے ۔شزا بھی اپنی کزن کے ساتھ ماموں کے گھر چلی گئی تھی ۔

                ★★★★★

                “تم.... تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس جمشید سے بات کرنے کی؟“

                گھر پہنچتے ہی زبیر اس پر برس پڑا تھا۔

                ”آ.... آپ میری بات کا یقین کریں زبیر ۔میں نے اُسے نہیں بلایا تھا میں تو....“

                وہ بولتے بولتے رو دی تھی۔

                زبیر کو آپے سے باہر دیکھ کر اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔پچھلے کچھ دنوں سے زبیر میں آئے بدلاؤ کو دیکھ کر وہ کتنی خوش تھی لیکن آج زبیر کو دوبارہ سے پرانے روپ میں دیکھ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔

                ” بس اب آگے ایک لفظ بھی مت کہنا تم۔ “ اس کے لہجے کی تلخی برقرار تھی زارا ہنوز نظریں جھکائے

                روتی رہی۔

                ”تم بھی سب عورتوں جیسی نکلی۔ میری غلطی ہے جو میں نے سوچا تم ان سے مختلف ہو، معصوم ہو..... میں اپنے کیے پر پیشمان تھا مجھے لگا میں نے تم پر بہت ظلم کیے، تمہارے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں

                لیکن آج تمہاری اس حرکت نے ثابت کر دیا کہ میں کتنا غلط تھا تم اس کی حق دار ہو۔“

                زبیر کی باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں وہ اس کا موازانہ کس سے کر رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔

                ” زبیر آپ میری بات کا یقین کریں مجھے لگا آپ نے بلایا ہے۔اس بچے نے مجھے یہی بتایا تھا کہ آپ ٹرائل روم میں ہیں ۔“

                زارا دائیں ہاتھ سے آنسو پونچھے ہوئے اپنی صفائی دینے لگی ۔ یہ جانتے ہوئے کہ زبیر کو کسی قسم کی صفائی سے وہ نہ کبھی قائل کر پائی تھی اور نہ آج کر پاتی ۔

                ” جھوٹ.....جھوٹ مت بولو ، کونسا بچہ؟ میں نے کسی بچے کو نہیں بھیجا۔ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔ ہٹو یہاں سے ۔“

                وہ غصے سے کہتا وہاں سے جانے لگا تو زارا نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑ کے اسے روکنا چاہا لیکن زبیر بے دردی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھ گیا تھا۔

                وہ نہیں چاہتی تھی کہ زبیر پھر سے اسے غلط سمجھے ایک مشرقی بیوی کی طرح وہ ہر حال میں اپنا رشتہ بچانا چاہتی تھی۔

                اس لیے اپنے دھتکارے جانے پر بھی وہ دوڑتی ہوئی کے سامنے راستہ روک کر کھڑی تھی

                "زبیر پلیز میری بات کا یقین کریں میں بے قصور ہوں۔“ زارا کے چہرے پر نقش سچائی دیکھنے کی بجائے زبیر نے طیش میں آکر اسے دھکا دیا ۔زارا اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور میز کے کونے سے جا ٹکرائی ۔میز سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کے ماتھے پر گہرا زخم لگا اور اس میں سے خون رسنے لگا تھا۔ تکلیف کی شدت سے وہ کراہ کر رہ گئی ۔

                اوپر جاتے ہوئے جب زبیر کی نظر فرش پر بیٹھی کراہتی زارا پر پڑی تو وہ الٹے پاؤں واپس آیا ۔اس کے ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر وہ وہیں دو زانو بیٹھ گیا۔

                ادھر اُدھر نظر دوڑانے کے بعد جب کچھ نہیں ملا تو اس نے اپنے پینٹ کی جیب سے ایک نیپکین نکال کر اس کے زخم پر رکھ دیے تاکہ خون رک جائے۔ پھر اسے پکڑے رہنے کا حکم دیتا کمرے کی اور بھاگا ۔وہ نیپکین کی مدد سے خون روکے لب بھینچے خاموشی سے ساری کاروائی دیکھتی رہی۔

                کچھ دیر بعد وہ ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس لیے واپس لوٹا تھا ۔

                کتنا عجیب تھا وہ خود ہی زخم دے کر اب مرہم بھی خود ہی رکھ رہا تھا۔

                جب اسے یقین ہونے لگا تھا کہ زبیر کے پاس دل نہیں گویا پتھر ہے تب اس کے بدلتے رویے نے اسے جھوٹا ثابت کر دیا تھا اس کے اس بھیانک چہرے کے پیچھے کون سا راز تھا وہ اس بات سے بے خبر تھی

                وہ ایسا کیوں ہے ؟ اس تلخی کی ایسی کونسی وجہ تھی جاننے کی چاہ رکھنے کے باوجود بھی کبھی پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکی تھی ۔

                درد کی ایک ٹیس سی اٹھی تھی اس نے دانتوں کو سختی سے دبائے درد پر قابو پانے کی کوشش کی اور پھر سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو اس کی معمولی زخم پر دوائی لگانے کے بعد اس زخم پر پٹی کرنے میں مصروف تھا۔

                میز پر ایڈ باکس رکھنے کے بعد وہ اس کے برابر میں وہیں زمین پر بیٹھ گیا تھا۔

                زارا خاموشی سے اس کے آگے کا ردعمل دیکھنے کا انتظار کرنے لگی ۔ ان کے درمیان کتنے ہی لمحے خاموشی کے بیت گئے پھر زبیر نے بولنا شروع کیا۔

                ”مم.... میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچاؤں لیکن....“ اس کی آواز میں تھکن نمایاں تھی۔

                وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی۔

                اُس نے زارا کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر پھر سے اپنا سلسلہ کلام جوڑا۔

                "لیکن میں چاہ کر بھی اپنے اس بھیانک ماضی سے نکل نہیں پا رہا۔ جس نے عورتوں کے ایسے روپ دکھائے ہیں کہ مجھے لگتا ہے دُنیا کی ساری عورتیں ایک جیسی ہیں ۔خود غرض ، دھوکے باز، اور یہی وجہ ہے میرا دماغ مجھے تمہارے خلاف ورغلاتا ہے۔

                وہ درد سے چور لہجے میں بول رہا تھا زارا اس انکشاف پر حیران ہوئی۔

                ”وہ اسے اپنی ماضی سے جُڑی حقیقت بتا رہا تھا جس کے متعلق پوچھنے کی کبھی اس کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔

                ” ماں کا وجود تو سراپائے محبت ہوتا ہے لیکن میری ماں کو بھی مجھ سے محبت نہیں تھی۔

                بچپن میں دوسرے بچّوں کی طرح میں بھی چاہتا تھا کہ میں باہر جاکر کھیلوں ، نئے نئے دوست بناؤں ۔

                لیکن ان کی وجہ سے محلے کے سارے بچے مجھ سے دور بھاگتے تھے کوئی مجھ سے دوستی نہیں رکھنا چاہتا تھا۔

                ماں اپنی اولاد کے لیے اپنی محفوظ ڈھال ہوتی ہے جس کے آغوش میں جاتے ہی بچہ ہر خوف سے آزاد ہو کر پر سکون ہو جاتا ہے۔

                مائیں اپنے بچّوں کی خوشی کے لیے دنیا سے لڑ جاتی ہے لیکن ناجانے میری ماں کیسی تھی جس نے مجھے جنم تو دیا لیکن اس دنیا کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا ۔

                اور میرے باپ نے بھی ہمیشہ مجھے دھتکارا جیسے اس دنیا میں آکر میں نے کوئی غلطی کر دی ہو۔

                دوسرے بچوں کی مائیں جب انھیں اپنے سینے سے لگائے گھومتیں ،انھیں پیار کرتیں تو مجھے ماں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ میں نے اپنے باپ سے اپنی ماں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میری ماں مر چکی ہے۔

                میں رب سے شکوہ کرتا کہ اس نے میری ماں کو اپنے پاس کیوں بلا لیا مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتی۔

                میری دادی جان نے بھی کبھی مجھے پیار سے گلے نہیں لگایا ۔

                وہ مجھ سے شدید نفرت کرتی تھیں ۔اتنی نفرت کہ دن رات میرے مرنے کی دعائیں کرتیں ۔انھیں لگتا تھا میں اپنی آوارہ ماں پر گیا ہوں اور میں اس آوارہ لفظ پر ٹھٹھک جاتا۔

                پھر ایک روز میرے باپ نے دوسری شادی کرلی ۔میں خوش تھا۔میں ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا تھا ۔بھاگ بھاگ کر ان کی خدمت کرتا کہ کہیں وہ بھی مجھے چھوڑ کر نہ چلی جائے۔ امی جان کہتے میری زبان نہیں تھکتی تھی۔

                لیکن مجھ پر جانثاری کرتی ماں نے ایک دن اپنا رنگ و روپ بدل لیا۔ اس دن جب انھوں نے مجھے گالیاں دیں تو میں حیران رہ گیا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے جو ان کا رویہ بدل گیا۔

                پھر میں نے خود کو جھوٹے دلاسے دینا شروع کر دیا کہ ماں بس ذرا پریشان رہتی ہے اس لیے ورنہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے ۔



                گرمی کے دنوں مجھے نیند نہیں آتی تھی میں صحن میں ٹہلنے نکلا تھا کہ اچانک مجھے دادی جان کے کمرے سے آوازیں آنے لگیں ۔ میں نے رک کر ان کے درمیان ہوئی گفتگو کو سننے کی کوشش کی ۔میرے بابا ، امی جان اور دادی جان آپس میں کچھ بات کر رہے تھے ۔

                ” اماں جی! آپ اس منحوس کو گھر میں رکھنا چاہتی ہیں تو میں اس گھر سے چلی جاؤں گی۔“ یہ کہنے والی میری سوتیلی ماں تھی جسے میں نے دل سے اپنی ماں تسلیم کیا تھا۔

                اُس دن میں ساری رات میں سو نہیں پایا تھا۔

                میں اس وقت اپنے اور سوتیلے میں فرق نہیں جانتا تھا لیکن جب دادی میری ماں کو گالیاں دے رہی تھیں اور مجھے برا بھلا کہہ رہی تھیں تو مجھے احساس ہوا کہ رشتوں میں بھی اپنے پرائے ہوتے ہیں ۔



                جب کبھی میں گھر سے باہر کھیلنے نکلتا لوگ مجھ پر ہنستے اور بار بار کہتے میری ماں بہت بُری تھی تبھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔

                اور میں یہ سوچ کے پریشان رہتا کہ وہ تو مر گئی تھی پھر بری کیسے تھی ۔وہ تمام لوگ جو مر جاتے ہیں کیا وہ سب کے سب برے ہوتے ہیں ۔میرا ذہن ان جملوں اور سوالوں کے گرد بھٹکا رہتا۔

                ایک دن میری سوتیلی ماں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا اور حیرانی کی بات یہ تھی سچ جاننے کے باوجود بھی دادی نے بھی ان کا اس جھوٹ میں ساتھ دیا اور مجھے بہت مارا پیٹا۔

                اُسی دن مجھ پر انکشاف ہوا کہ میری ماں میرے باپ کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور مجھے ان کے درمیان مرنے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔

                لڑکی کے گھر چھوڑ جانے پر جو بدنامی ان کے گھر والوں کو اٹھانی پڑتی ہے وہ کسی بیوی اور ماں کے اسی اقدام پر ان کی اولاد کو اٹھانی پڑتی ہے۔ زمانہ ایسی اولادوں کو کبھی قبول نہیں کرتا۔

                ہر انسان کا اپنا کردار ہوتا ہے نا لیکن وہ پہچانا دوسروں کی زبان سے ادا کیے فقروں سے جاتا ہے۔ میرا تعارف بھی اسی طرح کیا جانے لگا۔ اس وقت مجھے ان تین عورتوں سے نہ صرف شدید نفرت محسوس ہوئی تھی بلکہ لوگوں سے ہی اعتبار اٹھ گیا تھا۔

                سوتیلی ماں نے مجھ پر الزام لگایا کیوں کہ وہ سوتیلی تھی لیکن میرا باپ وہ تو میرا اپنا تھا۔ اُس نے مجھ پر یقین کیوں نہیں کیا؟ "

                " بتاؤ زارا..... کیوں نہیں کیا؟" وہ بھرائی ہوئی آواز میں زارا سے پوچھ رہا تھا ۔ وہ کیسے بتاتی کیوں نہیں کیا، شاید جب رشتوں میں یقین نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے اپنے بھی آپ کا یقین نہیں کرتے ہیں وہ سوچ کے رہ گئی ۔آج اس نے بھی تو اس پر یقین نہ کرکے یہی کیا تھا۔

                وہ کچھ بھی نہیں بول پائی ۔جواب نہ ملنے پر زبیر نے دوبارہ سے کہنا شروع کیا۔

                کاش انھوں نے میرا یقین کیا ہوتا ۔ میں اپنے بابا کو اس آس کے ساتھ دیکھتا رہا کہ وہ میری حمایت کریں گے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ مجھے مار پیٹ کر اسی وقت گھر سے نکال دیا۔

                میں ان کی فریاد کرتا رہا اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا لیکن اس دن اس گھر کے دروازے مجھ پر بند کردیے گئے تھے۔



                اس کے بعد میں گلی محلے میں بھٹکتا ، لوگوں کی گالیاں سننا میرا مقدر بن گیا ۔میں بھوک پیاس سے بلکتا رہا لیکن میرا باپ مجھے ڈھونڈنے تک نہیں آیا۔اسے اپنی اولاد سے کوئی غرض نہیں تھا کیوں کہ مجھے گھر سے بھاگی ہوئی عورت نے جنم دیا تھا۔ اس عورت نے میری روح کو زخمی کردیا اگر وہ میری باپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی تو اسے شادی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی اور اگر شادی کرلی تھی تو کم از کم ایک ان چاہی اولاد کو پیدا کرکے یوں زمانے میں رلنے کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا لیکن اس عورت نے نہ ماں باپ کی لاج رکھی ، نہ ایک اچھی بیوی بن سکی نہ اچھی ماں ۔ساری زندگی یہ سچائی میرے ساتھ چمٹی رہی کہ میں ایک آوارہ ماں کی اولاد ہوں اور اس اذیت نے مجھ سے میری خود اعتمادی چھین لی۔میں آج بھی خود کو اپنے بچپن میں کھڑا سسکتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔

                میں نے وہ شہر بھی چھوڑ دیا لیکن یہ تلخ ماضی اب بھی کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا کرتی ہے ۔ایسا لگتا ہے آج بھی لوگ مجھ پر ہنس رہے ہیں میری بے بسی پر قہقہہ لگا رہے ہیں ۔

                اس نے کرب سے آنکھیں موندلیں اور آنسوؤں کو حلق کے اندر اترنے دیا۔

                خود کو سنبھالتے ہوئے اس نے زارا کے ہاتھ کو تھام لیا۔

                ”کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی؟ “ زارا جو سکتے کی حالت میں تھی اس کے استفسار پر چونک گئی۔

                ”تو کیا اسے اب بھی لگتا تھا کہ وہ اُسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔“ اس نے افسوس سے اس کی جانب دیکھا۔

                ”بولو..... میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں۔

                کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ جس طرح سب چھوڑ گئے؟ "

                ” نن....نہیں “ زارا نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔

                ★★★★



                صبح جب اُس کی آنکھ کھلی تو زبیر کمرے میں نہیں تھا۔ اُس کے سر میں عجیب سا درد محسوس ہورہا تھا ۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ سُست روی سے اُٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔

                اب آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنا جائزہ لینے لگی اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔اکثر رونے کے بعد ایسا ہوتا آیا تھا ۔اس نے اپنے چہرے پر بے شمار پانی کے چھینٹے مارے تاکہ کچھ افاقہ ہو ۔

                کچھ لوگ قسمت کے مارے ہوتے ہیں درد جب ان کی زندگی کا حصّہ بنتا ہے تو لاکھ سر پھوڑ لے وہ ان کے وجود سے چمٹ جاتا ہے ۔پھر ان کے پاس کمپرومائیز کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ بہت سے لوگ کہیں نہ کہیں اپنی زندگی کے بہت سے معاملات میں کمپرومائیز کرتے آئے ہیں وہ بھی کم عمری میں ہی اس کی اہمیت سمجھ گئی تھی ۔



                وہ اکثر سوچتی تھی کہ اگر اس کے بابا زندہ ہوتے تو کیا تب بھی وہ اسی طرح زندگی میں کمپرومائیز کرتی ۔پھر خود ہی اپنی سُوچ کی نفی کردیتی ۔

                کیوں کہ اس کے بابا نے اسے پلکوں پر بیٹھا کر رکھا تھا۔ اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ اس کی فرمائش کرنے سے پہلے ہی اس کی من پسند چیزیں اس کے سامنے ہوتی تھیں ۔

                اور سب سے بڑھ کر اُن کی آنکھوں میں اپنے لیے بے پناہ محبت دیکھ کر ہی مسرور ہوجایا کرتی تھی۔

                یہاں بھی اُسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن پیار دینے والا کوئی نہیں تھا ۔اس کی آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھ کر تڑپ جانے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اس کے افسردہ ہونے پر کوئی اداس ہوتا تھا۔

                وہ اکثر کہتے تھے کہ میری شہزادی کی زندگی میں کوئی شہزادہ ہی آئے گا جو اسے مجھ سے بھی زیادہ پیار کرے گا۔

                اگرآج وہ حیات رہتے اس کی یہ حالت دیکھ کر ٹوٹ جاتے۔ ان کی روح بھی تو دیکھ کر غمگین ہوتی ہوگی ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے لیے ہزاروں خواب دیکھتا ہے ضروری تو نہیں وہ ساری کی ساری پوری ہو جائیں۔ اُن کی باتوں کو یاد کر کے وہ افسردہ ہو جایا کرتی تھی شاید جو لاڈلے ہوتے ہیں ان کا نصیب ہی ان کے لیے امتحان بن جاتی ہے۔

                پانی گرنے کی آواز نے اس کی سوچ کے تسلسل توڑ دیا اس نے فورًا وضو کیا اور نماز پڑھ وہ سیدھا نیچے آئی۔

                زبیر نیچے بھی نہیں تھا وہ اسے پورے گھر میں ڈھونڈ چکی تھی لیکن وہ اُسے کہیں نہیں ملا شاید وہ آفس جا چکا تھا۔

                رات وہ اُسے اپنی زندگی کی ایک تلخ حقیقت بتاچکا تھا۔

                زارا اُسے دیکھ کر اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ اُسے اس پر یقین ہے بھی یا نہیں۔

                لیکن وہ گھر میں تھا ہی نہیں۔

                وہ معمول کے مطابق گھر کے کاموں میں لگ گئی۔

                زبیر رات میں آیا تھا اسے بنا کچھ کہے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔

                کھانے کا پوچھنے پر اُس نے صاف منع کردیا اور پھر یہ روز ہی ہونے لگا ۔اُس دن کے بعد سے زبیر نے اُسے مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا۔

                وہ روزانہ صبح وقت پر اُٹھ کر اس کے لیے ناشتہ بتاتی اور خاموشی سے اس کے تمام کام کرتی ۔رات کے کھانے پر اس کا گھنٹوں انتظار کرتی تھی۔ وہ جس دن کھانا باہر سے کھا کے آتا تھا ان کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوتا تھا۔

                ناجانے اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ وہ سوچ کے پریشان رہنے لگی تھی۔

                ★★★★★



                زیان کو گئے دو دن ہوگئے تھے ۔

                اتنے کم عرصے میں ہی لائبہ اور ظفر کو اُس کی اتنی عادت ہوگئی تھی اس کے جاتے ہی وہ اسے مس کرنے لگے تھے۔ زیان کے آنے سے انھیں ان کا بڑا بھائی مل گیا جب تک وہ ان کے ساتھ رہا وہ دونوں اپنا ہر کام اس سے پوچھ کر کرتے تھے وہ انھیں بہترین مشورہ دیتا اور کامیابی پر دونوں خوشی سے اس سے لپٹ جاتے۔جبکہ اس کی اپنی بہن عائشہ نے کبھی بھی انھیں سراہا نہیں تھا۔



                عائشہ کو وہ دونوں کم ہی مخاطب کیا کرتے تھے ۔وہ خود بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ کوئی اسے تنگ کرے۔

                آج جب لائبہ اسکول سے آئی تو ضد کرنے لگی کہ اُسے زیان سے بات کرنی ہے ۔

                اس کے بے حد اصرار پر ندا خاتون نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ شام میں ان کی بات کروا دیں گی اور دونوں خوشی کے مارے چہک اٹھے تھے۔

                شام میں وہ دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے جب ندا خاتون کمرے میں داخل ہوئیں ۔

                ”مما آپ!“

                ظفر اپنی کتابیں بیگ میں ڈال رہا تھا ان پر نظر پڑتے ہی بولا۔

                ”کیوں میں نہیں آ سکتی ؟“ وہ اس کی بات کا بُرا مان گئیں۔

                ”آسکتی ہیں مما! ، میں نے تو بس ایسے ہی......“

                ظفر خجل سا وضاحت دینے لگا۔

                ”ہممم.... زیان کی کال ہے تم دونوں بات کرنا چاہتے تھے نا! “

                انھوں نے کہتے ہوئے اسے موبائل تھمایا اور وہاں سے چلی گئیں۔

                زیان کا نام سن کر ڈرائنگ کرتی لائبہ اٹھ کے اس کے پاس چلی آئی تھی ۔وہ لوگ ادھر اُدھر کی بات کرتے رہے۔

                ”زیان بھائی! میں نے آپ کو بہت مس کیا۔ آپ پھر کب آئیں گے؟ “

                لائبہ نے آخری جملہ افسردگی کے ساتھ ادا کیا۔

                موبائل لاؤڈ اسپکیر پر تھا کال کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔

                ”ابھی تو کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن جیسے ہی میں کراچی شفٹ ہوجاؤں گا ۔تم دونوں سے روز ملنے آیا کروں گا ۔“ اس کی بات سن کر وہ دونوں خوشی سے اچھل پڑے تھے۔



                ★★★★★



                آج آفس کی چھٹی تھی زبیر ناشتے کے بعد لاؤنج میں بیٹھا ٹی دیکھ رہا تھا جبکہ زارا کچن میں کھڑی اس کے لیے کیک بنا رہی تھی ۔

                آج زبیر کی سالگرہ تھی اس کی شادی کو چند ماہ ہوئے تھے جب وہ اس گھر میں آئی تھی تو وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا شوہر کیسا ہے ، کس مزاج کا ہے ؟

                لیکن آہستہ آہستہ وہ اس کے مزاج سے آشنا ہوتی گئی ۔وہ ہر اُس کام سے اجتناب کرتی جو زبیر کی ناراضی کا باعث بنتا مگر اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی وہ اس پر غصّہ نکالتا یہاں تک کہ کئی بار وہ اُس پر ہاتھ بھی اُٹھا چکا تھا۔



                اس کی پسند ناپسند کا اسے لبنٰی چاچی سے پتا چلا تھا اور اس کے سالگرہ کا بھی اسے انھوں نے ہی بتایا تھا۔

                وہ زارا کے چہرے پر سجی مسکراہٹ کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا اسے اس طرح دیکھ کر اُسے خوش ہونا چاہیے لیکن وہ خوش نہیں تھا۔

                دو دن پہلے جب وہ آفس کے لیے گھر سے نکلا تھا ۔اس کی گاڑی خراب تھی جس کی وجہ سے اس نے ٹیکسی لینا پڑتی وہ بس اسٹاپ پر پہنچنے کے ارادے سے نکلا تو اچانک کسی کے پکارنے پر چونک کے پلٹا۔ سامنے ایک لڑکا اس کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔

                اس کے رکتے ہی وہ اس کے قریب چلا آیا اور خوش دلی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے کیا تو زبیر نے اس کا ارادہ بھاپ کر اس سے ہاتھ ملا لیا ۔

                ”آپ اس گھر میں رہتے ہیں نا؟ “

                آنے والے نے انگلی کے اشارے سے اُس کے گھر کی جانب اشارہ کرکے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

                ”معاف کیجیے گا لیکن میں نے آپ کو پہچانا نہیں “

                وہ اس شخص کو یہاں پہلی بار ہی دیکھ رہا تھا اس لیے معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔

                ”جی! میں چند ہفتے پہلے ہی یہاں سامنے والے گھر میں رہنے آیا ہوں اور خوش قسمتی سے آپ کے ہمسائے ہونے کا شرف حاصل کر چکا ہوں ۔“

                اس لڑکے کی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

                ”اوہ اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ دراصل میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا تو مجھے پتا نہیں چلا ۔“ اس نے بھی جوابی مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت دی۔

                ”جی! آپ کی وائف سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔

                ایک دو بار گھر پر بھی گیا تھا شاید آپ اُس وقت نہیں تھے اس لیے انھوں نے مجھے گیٹ سے ہی واپس بھیج دیا۔“

                ”کون......زارا سے؟“ زبیر نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔

                ” جی ان سے ہی۔ آپ اتنے سوئیٹ ہیں جبکہ آپ کی وائف بالکل جگھڑالو قسم کی ہیں۔“

                زبیر کی تعریف کرتے ہوئے اس نے زارا کے ساتھ اپنی لڑائی کو یاد کرتے ہوئے کہا تو زبیر کے چہرے پر ناگواری در آئی ۔اس نے ضروری کام کا بتا کے وہاں سے نکل جانا چاہا۔

                ” ایکسیوز می مسٹر زبیر! میں نے دیکھا آپ کی کار بند پڑ گئی ہے۔ میں بھی باہر ہی جا رہا تھا تو سوچا کیوں نہ آپ کو لفٹ دے دوں۔“

                اس لڑکے کی آفر کو وہ قبول نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس دن نا چاہتے ہوئے بھی اس کے اصرار کرنے پر اسے اس کی مدد لینی پڑی تھی۔

                ٹی وی پر چلتی بریکنگ نیوز کی تیز آواز اسے حال میں کھینچ لائی تھی۔

                وہ تب سے یہی سوچ رہا تھا کہ زارا نے یہ بات اس سے کیوں چُھپائی تھی۔

                پھر یکدم اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔ وہ ٹی وی بند کرکے صوفے سے اٹھا اور کچن میں کام کرتی زارا پر نظر ڈال کر بنا کچھ بتائے گھر سے نکل گیا۔

                زارا نے اون سے کیک نکال کے اسے ڈیکوریٹ کیا اور باقی لوازمات تیار کرکے جب وہ لاؤنج میں آئی تو وہ وہاں سے غائب دیکھا۔

                دن سے شام اور شام سے رات ہوگئی تھی لیکن زبیر کا کوئی آتا پتا نہیں تھا۔

                آج وہ خاص اس کے لیے تیار ہوئی تھی۔ وہ پہلے ہی خوبصورت تھی ہلکے پھلکے میک اپ کے بعد وہ اور حسین لگ رہی تھی۔

                اس کے انتظار میں وہ لاونج کے چکر کاٹتی رسٹ واچ پر بار بار نگاہ ڈال رہی تھی۔ ٹھیک آٹھ بجتے ہی دروازے پر بیل ہوئی تو اس نے بنا پوچھے ہی دروازہ کھول دیا۔ اسے لگا تھا کہ زبیر ہوگا۔

                ”ہائے مس زارا! کیسی ہیں؟“

                سامنے زبیر کے بجائے جمیشد کو دیکھ کے اس نے دروازہ بند کر دیا جو اسے دیکھتے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے گویا ہوا تھا۔

                ”مس زارا دروازہ کھولیں۔ میں زبیر کو سالگرہ وش کر نے آیا ہوں۔“

                جمشید نے ہاتھ میں پکڑے باکس کو دیکھتے بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے اندر موجود زارا سے کہا۔

                جب بار بار کہنے پر بھی دروازہ نہیں کھولا گیا تو وہ وہاں سے چلا گیا۔

                کچھ دیر بعد زبیر گھر میں داخل ہوا ۔

                اچانک دروازہ کھولنے کی آواز سے زارا ڈر گئی تھی لیکن سامنے زبیر کو دیکھ کر اس نے پرسکون سانس لیا۔پر اس کے لڑکھڑاتے قدم دیکھ کے وہ افسردہ ہوگئی۔

                وہ آج پھر نشے کی حالت میں گھر آیا تھا۔

                کہتے ہیں کہ کسی کی فطرت کبھی نہیں بدلتی اگر فطرت میں برائی ہو تو وہ کسی مہلک بیماری کی طرح خون میں پھیل جاتی ہے۔

                زبیر کو نشے کی بُری لت تھی جسے وہ کبھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

                وہ چلتے ہوئے پھر سے لڑکھڑانے لگا تو زارا نے آگے بڑھ کے اسے سہارا دینا چاہا لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے قریب آنے سے روک دیا۔

                ”وہیں رُک جاؤ تم! ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا ۔سمجھی! “

                وہ اتنی زور سے چیخا تھا کہ زارا اپنی جگہ پر ساعت کھڑی رہ گئی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے اس نے زارا کو مخاطب کرنا چھوڑ دیا تھا۔اس کی خاموشی اسے چبھنے لگی تھی لیکن آج وہ اس کا پرانا روپ دیکھ رہی تھی۔

                ”زبیر......آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ؟ “

                اس نے اس کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ کے پوچھا۔حالانکہ وہ جانتی تھی کوئی بات تو ضرور ہے جس کی وجہ سے وہ پھر سے اس حالت میں گھر لوٹا تھا۔

                ”وہ جمشید یہاں کیا کر رہا تھا بولو! ، ہے کوئی جواب تمہارے پاس؟ “

                پہلے ہی وہ کچھ دونوں سے اس لڑکے سے ہوئی ملاقات اور اس کی باتیں سوچ کر اندر ہی اندر پیج و تاب کھا رہا تھا اور ابھی آتے وقت جمشید کو گھر کے باہر دیکھ کر وہ بھڑک گیا۔

                ”ز....زبیر..... و....وہ یہاں آیا تھا! لیکن.......“

                وہ منمنائی۔

                ”لیکن کیا؟ ہاں.... اُس دن تو بڑی قسمیں کھا رہی تھی کہ تم بے قصور ہو تو پھر آج وہ یہاں کیا کر رہا تھا؟“

                اس نے حقارت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

                ” نن...... نہیں! آپ غلط سمجھ رہے ہیں زبیر!“ وہ نفی میں گردن ہلاتے ہوئے اس کے قریب چلی آئی۔



                جاری ہے​
                .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. ...............................



                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط:07



                ” اوہ! تو تم اُس آدمی کے لیے تیار بیٹھی تھی۔“

                زبیر نے اس کے سراپے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے استزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا۔ اس کی ہنسی پورے لاونج میں گونج رہی تھی۔

                زارا نے خود پر نظر ڈالتے ہوئے اس کے الفاظ پر غور کیا تو اسے اپنا آپ زمین میں ڈھستا ہوا محسوس ہوا ۔اسے زبیر کی سوچ سے گھن آنے لگی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زبیر اتنا گر سکتا ہے۔

                ” یہ کیا بول رہے ہیں آپ زبیر، مم...یہ سب میں نے آپ کے لیے کیا۔ “ اس وقت اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

                وہ اس کا شوہر ہوکر اس پر اتنا گٹھیا الزام لگا رہا تھا۔ اس نے دکھ اور غصے کے ملے جلے کیفیت میں گھرے اس کی طرف دیکھا۔

                ”اب تو تم یہی کہو گی۔ تمہاری چوری جو پکڑی گئی ہے۔ بہت اچھا بہانا بنایا تم نے ، میرے لیے.....ہنہ ۔“

                اس نے حقارت آمیز لہجے میں طنز کیا۔

                ”ناجانے کتنوں سے ملتی رہی ہو ، دھوکے باز لڑکی!

                دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔ “

                اس نے آگے بڑھ کے اسے بازوؤں سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر کر دیا اور دروازہ بند کرکے بڑبڑانے کے انداز میں اسے بُرا بھلا کہتا صوفے پر گر سا گیا۔

                ” زبیر....... پلیز دروازہ کھولیں! ،میری بات سنیں! میں کہاں جاؤں گی اس وقت۔ مجھ پر رحم کھائیں زبیر....زبیر!!“

                وہ دروازہ پیٹتی رہی، روتی رہی۔اس کی منتیں کرتی رہی لیکن اس بےحس انسان نے اُس کی ایک نہ سنی اور نہ ہی دروازہ کھولنے پر آمادہ ہوا۔ اندر بیٹھا شخص واقعی پتھر تھا۔

                وہ اُس کا مجازی خدا تھا لیکن شاید وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا۔ درحقیقت وہ تو انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں تھا۔ رات کے اس وقت کون کسی کو یوں بے گھر کرتا ہے؟ وہ اس کی عزت تھی ، اُس کے لیے اپنا آپ مار ڈالا تھا اور بدلے میں چاہتی ہی کیا تھی۔ اُس کا ساتھ ، اس کے دل میں اپنے لیے تھوڑی سی جگہ اور محبت ۔

                سارے جہانوں کا مالک اپنے بندوں کو موقع پر موقع دیتا ہے، گناہگار سے گناہگار بندوں کے لیے بھی اپنا در بند نہیں کرتا ۔بس ایک بار رجوع کرنے کی دیری ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر اسے تھام لیتا ہے ۔اس کے در پر اتنی رعایت ہے تو پھر یہ ادنٰی سا انسان کس بنا پر اسے نا کردہ غلطی کی سزا دے رہا تھا۔

                کیا اس کا خلوص بے معنی تھا یا اس کی قسمت میں عمر بھر صبر کرنا لکھا تھا۔ اس کے خلوص پر شک کیا گیا تھا اور اس پر گھٹیا الزام لگانے والا اور کوئی نہیں اس کا مجازی خدا تھا لیکن وہ خود کو خدا تصور کر بیٹھا تھا تبھی خود کو سارے اختیار کا مالک سمجھ رہا تھا۔

                ” زبیر احمد! تم میرے خدا نہیں ہو ،

                تم انسان ہو اور نچلے درجے کے انسان ہی رہوں گے جس کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں

                دیکھ لینا ایک دن تم اپنے کیے پر بہت پچھتاؤں گے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی

                تمہارا یہ ظلم تمہیں کبھی چین سے جینے نہیں دے گا

                میں تمہیں بد دعا نہیں دے رہی لیکن میرا رب تمہارے کیے کی سزا ضرور دے گا۔

                وہ روتے روتے خاموش ہوگئی تھی ۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی زارا کسی احساس کے ساتھ اپنے آنسو صاف کرتی وہاں سے اٹھ گئی ۔ اب آگے کا سفر اُسے اکیلے ہی طے کرنا تھا۔

                کہاں جانا ہے ، کس کے پاس رہنا ہے وہ نہیں جانتی تھی لیکن اس تذلیل کے بعد وہ اس شخص کے ساتھ ہرگز نہیں رہ سکتی تھی۔ جس نے بنا سوچے سمجھے اس کی ذات پر نہ صرف کیچڑ اُچھالا تھا بلکہ اسے آدھی رات کو بے آسرا کرکے چھوڑ دیا تھا ۔وہ اس کے شکی مزاج کو فراموش کرکے اتنے عرصے اس کے ظلم و ستم کو سہہ رہی تھی لیکن زبیر کو نہ بدلنا تھا سو وہ نہ بدلا۔ اس کے ساتھ گزارے دن و رات کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے تھے، وہ بوجھل قدموں سے چلتی بہت آگے نکل آئی تھی۔ مسلسل رونے کے باعث اس کا حلق خشک ہوگیا تھا اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں البتہ آنسو تھم گئے تھے مگر چہرے پر اب بھی اس کے نقش باقی تھے۔

                وہ ماؤف دماغ کے ساتھ چلتی سڑک عبور کرنے کے لیے آگے بڑھی تھی کہ اچانک سے ایک گاڑی اس کے عین قریب آکے رُک گئی ۔غالبًا گاڑی کے مالک کی مہربانی تھی جس نے وقت پر بریک لگا کر اسے حادثے سے بچا لیا تھا ۔

                ہیڈ لائٹ کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا سی گئیں اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

                ” نظر نہیں آتا ہے کیا؟ خود کشی کرنے کے لیے میری گاڑی ملی تھی۔“

                اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتی گاڑی کا مالک بڑ بڑاتے ہوئے کار کا فرنٹ سیٹ کھول کے باہر نکلا اور اس پر نظر پڑتے ہی وہ لمحے بھر کو خاموش ہوگیا۔اسے پہچاننے میں چند سیکنڈ ہی لگے تھے۔

                "آپ......آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟ مس زارا! “

                لیکن اُس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔وہ گم صم سے کھڑی رہی جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو ۔

                ” ایکسیوز می... زارا ۔ آپ اتنی رات گئے اس طرح سُننان سڑک پر اکیلی کیا کر رہی ہیں؟ “

                اس کی خاموشی کا نوٹس لیتے اس نے دوبارہ پوچھا ۔

                وہ اس کے استفسار پر چونک گئی تھی پھر خود پر قابو پاتے وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی ۔اس کی اس حرکت پر مقابل کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔

                اگر وہ اُس سے کبھی ملا نہیں ہوتا تو ضرور اسے پاگل سمجھتا لیکن وہ اس لڑکی سے واقف تھا ۔ وہ یوں چُپ چاپ نہیں رہتی تھی۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس نے چپ چاپ کتنی تکالیف سہی ہیں تو وہ اس وقت ایسے اندازے سے پرہیز کرتا۔

                ”ہیلو!! رُکو کہاں جا رہی ہو؟“

                وہ ہوا میں ہاتھ بلند کرکے آواز لگانے لگا جب اس نے پلٹنے یا رکنے کی کوشش نہیں کی تو وہ دوڑتا ہوا اس کے پیچھے چلا آیا۔

                ”آپ کہاں جا رہی ہیں؟ چلیں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔“

                اس کے قریب آتے ہی اس نے آفر کی۔

                ”گھر؟“ سپاٹ سے انداز میں اس نے گھر پر زور دیا۔

                ”جی..... آپ کے گھر! آپ کے شوہر آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔کچھ دن پہلے میری اُن سے ملاقات ہوئی تھی ان کی کار خراب تھی تو میں نے ہی انھیں آفس ڈراپ کیا تھا۔“

                وہ اسے زبیر اور اپنی ملاقات کے متعلق بنا رہا تھا ۔

                ”نہیں مجھے کہیں نہیں جانا۔ ہٹیں یہاں سے اور دوبارہ مجھے روکنے کی کوشش مت کیجیے گا ۔ “

                اس کی گھٹی گھٹی آواز سنائی تھی۔

                زبیر کا ذکر سنتے ہی اس کا دم گھٹنے لگا تھا ۔اس نے آنسوؤں کو حلق کے نیچے اُتارتے ضبط کے ساتھ تلخی سے کہا اور سامنے سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔

                ”عجیب لڑکی ہے ایک تو میں نے اسے بچایا بھائے شکریہ ادا کرنے کے مجھے ہی سُنا گئی۔ خیر! کہیں بھی جائے میری بلا سے۔ کونسا یہ میری ذمہ داری ہے ۔“

                وہ کندھے اُچکاتے ہوئے واپس آکے کار میں بیٹھ گیا۔

                کچھ دیر مرر میں اسے جاتا دیکھنے کے بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

                زارا ابھی چند قدم آگے آئی تھی کہ دو چار لڑکے نے اسے دیکھتے ہی قطار میں کھڑے ہوگئے۔

                ”کہاں جا رہی ہیں میڈم! کہیں تو ہم چھوڑ دیں۔“

                ان کے بلند و بانگ قہقہے سن کر اس کے چلتے قدم رُک گئے ۔اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے انھیں نظر انداز کرتی وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے ان کے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ اچانک اس افتاد پر وہ وہاں سے بھاگ جانے کے ارادے سے پلٹی تو وہ کار اسی جگہ کھڑی دیکھ کر اس کو کچھ حوصلہ ملا ۔ شاید وہ اسے تنہا چھوڑ کے جانے پر آمادہ نہیں تھا یا کسی وجہ سے اب تک اُسی جگہ پر موجود تھا اسے خود کو ان لڑکوں سے بچانے کے لیے اس کی اور بھاگنا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ قریب آتے لڑکوں پر ایک نگاہ ڈالتے وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اُس کار کی جانب دوڑ پڑی تھی۔

                ”در......دروازہ کھولو پلیز! “

                اس نے پھولی ہوئی سانس کے درمیان اسے دروازہ کھولنے کو کہا تو

                اُس نے فورًا ہاتھ بڑھا کے دروازہ کھولا۔ زارا ایک لمحے کی دیری کیے بغیر اندر بیٹھ گئی اس نے کار سے اتر کر ایک جھٹکے سے دروازہ بند کیا اور پھر واپس اپنی سیٹ سنبھالتے گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔ اسے دیکھ کر وہ لڑکے جیسے آئے تھے ویسے ہی الٹے پاؤں واپس چلے گئے تھے۔

                وہ زارا کے عجیب رویے سے پیچ و تاب کھاتا گاڑی اسٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ ان لڑکوں پر اس کی نظر پڑ گئی اور وہ اس کے تلخ جملوں کو نظر انداز کرکے وہی بیٹھے اس کے واپس لوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔



                زارا کے کار میں بیٹھے ہی وہ زن سے کار کی اسپیڈ بڑھا چکا تھا اور اب اُس جگہ سے بہت دور نکل آئے تھے۔

                اس نے پر سکون انداز میں ڈرائیو کرتے زارا کو مخاطب کیا۔

                ”مجھے نہیں لگا تھا آئندہ کبھی آپ سے ملاقات ہو پائے گی لیکن قسمت میں ہمارا ملنا لکھا تھا۔

                آپ اپنے گھر نہیں جا رہی تو پھر آپ نے کہاں جانا ہے؟ “

                گم صم بیٹھی زارا سے اس نے پوچھا پر کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے پیچھے مڑ کر اسے ایک مرتبہ پھر مخاطب کیا پتا نہیں وہ اُسے سن بھی رہی تھی یا نہیں ۔اس کے پکارنے پر وہ ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی ۔

                ”آپ ٹھیک ہیں؟ “

                ”جی! “ وہ مختصرًا بولی۔

                ”تو بتائیں میں نے ابھی کیا پوچھا تھا!“

                ”کک..... کیا؟ کیا پوچھ رہے تھے آپ ؟“

                اس کی مدھم اور کھوئی کھوئی سی آواز گاڑی میں سنائی دی ۔



                ”آپ کو کہاں جانا ہے؟ “ اس بار وہ حیران ہوا تھا

                ”کہیں بھی! ، بس میں یہاں سے دور چلی جانا چاہتی ہوں۔“

                اُس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ جس نے اسے مزید کچھ پوچھنے سے روک دیا تھا اور ایسا دوسری مرتبہ ہوا تھا پہلی بار جب وہ اس سے آخری بار ملا تھا تب اور ابھی اس کار میں۔

                جواب ملتے ہی اس نے کار کی اسپیڈ بڑھا لی اس کے بعد کار میں مکمل خاموشی تھی ۔

                وہ اس جگہ سے کافی دور آچکے تھے راستے میں وہ کئی بار گاڑی روک کر رات کے وقت کھلی دُکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتا اور اسے بھی پیش کرتا لیکن وہ ہر بار یہ کہہ کر انکار کر دیتی کہ اسے بھوک نہیں ہے اور وہ کندھے اچکاتے اس سے بھرپور انصاف کرتا اگر وہ اکیلا ہوتا تو کسی جگہ پر گاڑی روک کر کچھ دیر آرام کرلیتا پر اس کی موجودگی میں وہ جلد از جلد کراچی پہنچنا چاہتا تھا ۔

                ”کراچی میں آپ کا کوئی ہے ، میرا مطلب کوئی رشتے دار ، بہن ، بھائی ؟“

                ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے اُسے مخاطب کیا تھا۔

                ”دیکھیں بُرا مت مانیے گا، میں یہ صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کیوں کہ مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ آخر وہاں پہنچ کر آپ کو کہاں چھوڑنا ہے۔“

                اس کا سپاٹ اور الجھا ہوا چہرہ دیکھ کے وہ وضاحت دینے لگا۔

                ” آپ مجھے وہاں کسی ہوٹل میں چھوڑ دیجیے گا“

                اس نے کچھ دیر سوچتے ہوئے ایک جملے میں بات ختم کر دی تھی۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے وہ رات گئے اس طرح اکیلی گھر سے باہر تھی لیکن اس وقت اُس سے پوچھنا مناسب نہیں تھا۔ کار میں ایک بار پھر سے گہری خاموشی چھا گئی تھی۔

                وہ طویل سفر کے دوران گانے سننے کا عادی تھا پر صرف اس وجہ سے سوانڈ پلئیر آن کرنے سے گریز کر رہا تھا کہ کہیں وہ اس کا غلط مطلب نہ نکال لے ۔ وہ میوزک آن کرنے سے پہلے اس سے اجازت لینے کے لیے پیچھے موڑا تو زارا کار کے دروازے سے لگی سو رہی تھی۔

                اگر وہ ایک سو بیس یا ایک سو بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی گاڑی چلاتا تب بھی اُسے لاہور سے کراچی پہنچنے میں گیارہ سے بارہ گھنٹے لگ جاتے اور خاموشی سے ڈرائیو کرتے آنکھ لگنے کی صورت میں اس کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو سکتا تھا۔

                اس لیے وہ وقفے وقفے سے راستے میں موجود کیفے یا ڈھابے سے کافی یا چائے پی رہا تھا لیکن کچھ آگے نکل آنے کے بعد اس سنسان علاقے میں سفر کرتے ہوئے اسے کوئی ہوٹل یا دکان نظر نہیں آ رہی تھی ۔ رات کے اس وقت یہاں کے مکین ہوش و خروش سے بیگانے نیند کے مزے لے رہے تھے ۔اس لیے میوزک کے ذریعے وہ خود کو جگائے رکھنا چاہتا تھا لیکن اس کی نیند ڈسٹرب نہ ہوجائے اس لیے وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے اس کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔

                وہ لوگ رات کے دس بجے نکلے تھے اور اب رات کے دو بج رہے تھے یعنی اب بھی چھ سے سات گھنٹے کا سفر طے کرنا رہتا تھا۔

                اس کی بد قسمتی تھی کہ کچھ آگے جاتے ہی ایک سنسان سڑک پر گاڑی ایک جھٹکے کے بند پڑ گئی۔

                جھٹکا لگنے سے زارا کی آنکھ کھل گئی اور وہ اسے کار کی مدھم روشنی میں اپنا سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا نظر آیا ۔

                ”کیا ہوا، آپ نے گاڑی کیوں روک دی؟ “ اس سے پوچھا۔

                ” کار از اوٹ آف فیول! “ اس نے غصے سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے بتایا۔

                ”آپ پریشان نہ ہوں ، میں دیکھتا ہوں ۔“ اس کے چہرے پر پریشانی نوٹ کرتے اس نے کہا اور اپنا موبائل لیے کار سے نیچے اترتے ہی ٹارچ آن کرکے پیچھے ڈگی کی جانب بڑھ گیا۔

                وہ خاموشی سے بیٹھی محتیاط انداز میں ساری کاروائی دیکھتی خود کو آنکھ لگ جانے پر ڈپٹ رہی تھی ۔وہ ایک انجان شخص پر بھروسہ کرنے کی غلطی نہیں کرسکتی تھی ۔اس نے اس کی مدد بھی مجبوری میں لی تھی اور اب اسے ہوشیار رہنا تھا۔ اچانک اسے جمشید والا واقعہ یاد آیا تو اس کے رگوں میں ایک سرسراہٹ دوڑ گئی۔

                وہ کب واپس آکے سیٹ پر بیٹھا اور کب کار اسٹارٹ ہوئی اسے کچھ پتا نہیں چلا ۔

                ” شکر ہے آپ اٹھ گئیں۔“ اسے گم صم دیکھ کر اس نے اُسے مخاطب کیا۔

                اس کے اُٹھنے سے ایک فائدہ ہوا تھا کہ وہ اب میوزک سُن سکتا تھا تاکہ اپنی نیند پر قابو پا سکے۔

                وہ دونوں تقریبًا صبح ساڑھے نو بجے کے قریب کراچی کے احاطے میں داخل ہوئے تھے ۔

                پھر مسلسل ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایک خوبصورت سے گھر کے باہر کار رک گئی تھی۔

                ” آپ نیچے اتر جائیں!“ اس نے پیچھے بیٹھی زارا کو مخاطب کیا تو خاموشی سے نیچے اتر گئی۔

                اس کے اترتے ہی وہ کار پورچ میں کھڑی کرکے اس کی طرف آیا تھا۔”چلیں! “

                ” ایکسیوز مسٹر! یہ آپ کہاں لے آئے ہیں مجھے؟ میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ مجھے کسی ہوٹل میں چھوڑ دیں۔ “

                وہ پریشانی اور غصے کی ملے جلے تاثرات لیے بلند آواز میں اس سے بولی تھی۔

                ” یہ میرا گھر ہے! اندر آجائیں اور دیکھیں آپ پریشان مت ہوں کچھ دیر کے لیے آرام کر لیں ۔ پھر آپ جہاں کہیں گی میں چھوڑ دوں گا۔“ اس نے مدد کی نیت سے اس سے کہا اور ساتھ ہی دائیں ہاتھ سے اپنی پیشانی کو ملتے ہوئے سر درد کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی ۔

                ”نہیں....مجھے اندر نہیں جانا۔“

                اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

                ” تو آپ کیا چاہتی ہیں کہ میں آپ کو ابھی کسی ہوٹل میں چھوڑ آؤں۔ یہ جانتے ہوئے کہ آپ کے پاس اس وقت ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں۔ ہوٹل والے فری میں تو آپ کو روم دینے سے رہیں۔“

                وہ نا چاہ کر بھی تلخ ہوا تھا ساری رات جاگنے اور ڈرائیونگ کی تھکاوٹ کی وجہ سے اس کا سر میں درد سے پھٹ رہا تھا اور وہ اس وقت دھوپ میں کھڑی اس سے بحث کر رہی تھی ۔اس کی وضاحت کے بعد بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تھی اس کا دل کیا وہ اپنا سر پیٹ لے ۔

                ”ٹھیک ہے۔ آپ کو اندر نہیں آنا تو مت آئیں ۔آپ کی مرضی ہے وہ رہا دروازہ آپ جہاں چاہیں جا سکتی ہیں۔“

                انگلی کے اشارے سے وہ دروازے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے بولا اور آگے بڑھ گیا۔

                ” اور یاد رہے ایک انجان شہر میں اس وقت اس حالت میں کہیں بھی جانا خطرے سے خالی نہیں۔ اگر تم میں ذرا بھی عقل ہو تو اس بات کو سمجھ جاؤ گی۔“

                وہ اس پر ایک چھبتی ہوئی نگاہ ڈالنے کے بعد آگے بڑھ کر سامنے کھڑے ایک بزرگ سے ہاتھ ملا رہا تھا جو کب سے گیٹ پر کھڑے اس کے منتظر تھے ۔ شاید وہ گھر کے ملازم تھے اور ان کی آمد سے باخبر تھے۔

                زارا نے اپنے سراپے پر نظر ڈالی اور لب بھینچے ان دونوں کو آگے جاتا دیکھتی رہی۔ وہ ٹھیک تو کہہ رہا تھا وہ جس حالت میں گھر سے نکالی گئی تھی اس کے پاس زہر کھانے تک کے پیسے نہیں تھے۔اگر وہ کسی ہوٹل میں ٹھہرتی تب بھی اسے رقم چاہیے تھیں جو اس وقت اس کے پاس نہیں تھیں۔

                ” پتا نہیں زندگی مجھ سے اور کیا چاہتی ہے ۔ جو بھی ہو میں اس شخص کے بھروسے یہاں نہیں رہ سکتی مجھے جلد از جلد یہاں سے نکالنا پڑے گا۔ “

                اس نے دل میں سوچا اور شکستہ قدموں سے چلتی اس کے پیچھے چلی آئی۔



                جاری ہے

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط: 08



                پورا گارڈن مختلف اقسام کے پھولوں سے بھرا پڑا تھا، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ جسے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

                ابراہیم خان اس گھر کے مالی تھے ملک صاحب کے یو ایس جانے کے بعد وہ اور ان کی بہن فہمیدہ اس گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

                وہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے چلتے ہوئے اب دروازہ پار کر چکے تھے۔

                ” فہمیدہ آنٹی کہاں ہیں؟“ اس نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔

                ” اندر ہی ہے آپ کا کمرہ ٹھیک کر رہی تھی ، آئیں نا! ۔“ ابراہیم نے بتایا ۔

                ” چھوٹے بابا! یہ کون ہے ؟“

                ابراہیم چاچا نے پیچھے مڑ کر انگلی کے اشارہ کرتے پوچھا تو وہ رک گیا۔ پیچھے مڑتے ہی ایک بار پھر سے اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔وہ تو سوچ رہا تھا کہ زارا وہاں سے چلی گئی ہے لیکن وہ یہیں تھی۔

                ”یہ زارا ہیں۔ ہماری مہمان...... کچھ دن یہیں ہمارے ساتھ رہیں گی آپ فہمیدہ آنٹی کو کہہ کر ان کا کمرہ تیار کروا دیں ۔“

                زارا کی نظر جب ان دونوں پر پڑی تو وہ ان کی طرف چلی آئی ۔یہ شہر انجان نہیں تھا لیکن اسے انجان لوگوں کے درمیان ہر منظر اجنبی لگ رہا تھا وہ انھیں سلام کا جواب دینے کے بعد وہیں کھڑی اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹکانے لگی۔

                ” چلیں!“ زیان کے مخاطب کرتے ہی وہ ان دونوں کے پیچھے چلنے لگے۔ تینوں اس وقت لاؤنج میں چلے آئے تھے ۔

                اس کا گھر جتنا باہر سے خوبصورت تھا اندر سے اتنا ہی شاندار اور آرائش کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ تمام چیزیں نفاست اور سلیقے سے رکھی تھیں ۔دیواروں پر آویزاں بیش قیمتیں پینٹنگز پر اس کی نظریں ٹھہر گئیں۔ اس نے دل میں ذوق کو سراہا۔

                ایسا لگتا تھا حال ہی میں اس گھر کی تعمیر ہوئی تھی ۔

                ”مس زارا! “ اسے گم صم دیکھ کے زیان نے اُسے پکارا تو اس کی محویت ٹوٹ گئی اور وہ شرمندہ نظر آنے لگی۔

                ” گھر کے ملازم میری فیملی جیسے ہیں میں نے انھیں آپ کو اپنا مہمان کہہ کر متعارف کروایا ہے۔

                آپ جب تک یہاں ہیں میری مہمان ہیں اور جتنے دن چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں اور اگر یہاں رہنے میں کوئی پریشانی ہے تو آپ مجھے اپنے کسی رشتے دار کا پتا بتا دیں میں آپ کو وہاں چھوڑ آؤں گا لیکن ابھی مجھے بہت نیند آ رہی ہے یقینًا آپ بھی تھک گئی ہوں گی تو آرام کر لیں۔

                ”فہمیدہ آنٹی! آپ انھیں کمرہ دکھا دیں ۔“ اس نے لاؤنج میں داخل ہوتی فہمیدہ خاتون کو دیکھتے ہی مخاطب کیا۔

                ” سنیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلاجھجک بتا دیجیے گا۔ “ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا اور

                فہمیدہ خاتون اسے کمرے میں چھوڑنے کے بعد وہاں سے چلی گئی تھیں اور کچھ دیر بعد وہ اس کے لیے جوس دے گئی تھیں ۔

                کمرہ بہت زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن اس کے وسط میں درمیانہ سائز کا خوبصورت سا بیڈ تھا، کمرے میں لائٹ رنگ کے پردے لگے تھے اور ایک اسٹڈی ٹیبل جس پر چند کتابیں سلیقے سے رکھی تھیں۔

                وہ اب بھی رات والے ڈریس میں تھی دوپٹے کو سر پر ٹھیک سے لپٹ رکھا تھا۔ اس وقت اس کے پاس پہننے کے لیے اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ کوئی بھی سامان لے کر نہیں آئی تھی ۔اُسے موقع ہی کہاں ملا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کچھ لے آتی بلکہ اُسے رات میں بے یار و مددگار گھر سے نکال دیا گیا تھا ۔



                کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھی اور کمرے کے ساتھ بنے واش روم میں گھسں گئی۔اس نے ہاتھ منہ دھویا اور دوپٹے کو دوبارہ سے اپنے گرد لپیٹا اور باہر آگئی۔



                ★★★★★



                جب زبیر کی آنکھ کھلی تو اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ کل رات حد سے زیادہ نشہ کرنے کے باعث وہ دوپہر تک سوتا رہا۔ اس کی آنکھ کھلی تو وہ زارا کو آواز لگانے لگا۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ کل رات اس نے کس طرح اسے دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دیا تھا صرف یہی نہیں اس پر گھٹیا الزام بھی لگایا تھا اور اس کے چلانے اور رونے کے باوجود بھی اس نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔

                کیک اپنی ناقدری پر بین کر رہا تھا جو کل زارا نے اس کے لیے بنایا تھا۔

                اس نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ اسے پورے گھر میں ڈھونڈا جب وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی تو اسی حالت میں وہ کار لے کر باہر نکل گیا۔ اُجڑے بال ، ادھ فولڈ آستین اور جوتوں سے بے نیاز وہاں کی سڑکوں پر کئی گھنٹے تک گاڑی دوڑانے کے بعد بھی اُسے مایوسی ملی تھی۔

                وہ تھک ہار کر مایوس سا جب گھر لوٹا تو وہ کہیں سے بھی کل رات والا زبیر نہیں لگ رہا تھا۔

                بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی خیال آرہا تھا

                کہ کیا وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ہر بار وہ اپنی سوچ کی نفی کر دیتا پر سچ تو یہی تھا وہ جاچکی تھی اور وہ اسی کے لائق تھا ۔

                ”تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتی “

                نہیں جاسکتی تم مجھے چھوڑ کر!

                سنا تم نے......

                میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا۔“

                پورا دن خوار ہونے کے بعد وہ اپنے بالوں کو مُٹھی میں لیے دیوانہ وار چیخ رہا تھا۔

                ★★★★★

                عائشہ اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ کال کٹتے ہی موبائل کو بیڈ پر اچھال کے کمرے سے نکلی اور سیدھا لاؤنج میں چلی آئی جہاں ندا خاتون بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔

                ” مما مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔“ وہصوفے پر پڑا کشن اُٹھا کر اسے گود میں رکھتے ہوئے بنا کسی تمہید کے بولی تو ندا خاتون نے ایک گھونٹ بھرنے کے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا۔

                ”ہاں بولو!“ وہ اس کی طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔

                ” میں کسی کو پسند کرتی ہوں مما اور ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کچھ دن میں اپنی ممی پاپا کو ہمارے گھر رشتے کے لیے بھیج رہا ہے۔ “

                عائشہ ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے لیے رکی تھی ۔اس کی بات سن کر ندا خاتون کو شدید جھٹکا لگا ۔

                ”یہ تم کیا کہہ رہی عائشہ! تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا! انھوں نے غصے سے ہنکارا ۔

                ”اس میں غلط کیا ہے مما! ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتے ہیں ۔نانا ابو کو آپ اور بابا پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو پھر آپ اتنا حیران کیوں ہو رہی ہیں۔ “

                اس نے ماں کی حیرانی پر ان کے اور نعیم کی شادی کا تذکرہ کیا تو وہ چلانے لگیں۔

                ” چپ ہو جاؤ عائشہ۔ آگے ایک لفظ نہ کہنا تم ۔

                تم اس قدر بدتمیز ہوگئی ہو کہ بڑوں کا لحاظ تک بھول گئی۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔ “

                انھوں نے غصے سے کہا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

                ”مما! آپ میرے ساتھ ایسے نہیں کرسکتیں۔“

                عائشہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی ۔

                ” میں کسی بھی ایرے غیرے سے تمہاری شادی ہر گز نہیں کروں گی عائشہ! یہ بات کان کھول کر سن لو تم! اور بہتر ہوگا یہ خیال اپنے دل سے نکال دو تو اچھا ہے۔“

                انھوں تنبیہ انداز میں کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھایا جو اب ٹھنڈی ہوگئی تھی اور وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔عائشہ انھیں پیچھے سے آواز دیتی رہی لیکن انھوں نے مڑ کے بھی نہیں دیکھا۔

                اُس رات جب ندا خاتون نعیم صاحب کو عائشہ کی پسندیدگی کے متعلق آگاہ کیا تو انھوں نے یہی کہا کہ انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر وہ لڑکا واقعی اچھا ہوا تو وہ اس رشتے کے بارے میں سوچیں گے۔ ندا خاتون ہر چیز میں اپنی من مانی کرنے کی عادی تھی لیکن بچوں کے معاملے میں نعیم صاحب کی مرضی بھی اہمیت کی حامل تھی ۔نعیم صاحب کا عائشہ کی طرف جھکاؤ دیکھ کر انھیں اپنا سالوں سے دیکھا خواب بکھر جانے کا اندیشہ ہوا ۔ اس پریشانی میں انھوں نے ساری رات کروٹیں بدلتے گزار دی۔



                ★★★★★

                رات میں اس کی کئی بار آنکھ کھلی تھی۔نئے جگہ پر وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔

                بھوک کے باعث اس کے پیٹ میں چوہے کود رہے تھے مگر وہ خود میں اتنا ہمت نہیں کر پائی تھی کہ جاکے اس گھر کے مقیم سے کھانے کے لیے کچھ مانگ سکے ۔

                فجر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ بیٹھی سوچتی رہی کہ آگے کیا کرنا ہے ، کہاں جانا ہے ۔ زبیر کے اس رویے کے بعد وہ کبھی واپس جانے کو تیار نہیں تھی بلکہ یہی رہ کر اپنی بڑی پھوپھی کا پتا کروانا چاہتی تھی لیکن اس کے پاس نہ تو ان کا فون نمبر تھا اور نہ ہی کوئی ایڈریس اور نشانی۔ اس نے انھیں بچپن میں دیکھا تھا اور اب تو ان کے نقوش گڈ مڈ ہوچکے تھے ۔

                جب فہمیدہ خاتون اسے ناشتے کے لیے بلانے آئیں تو اس نے اپنا من بنا لیا تھا کہ جب تک اسے کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں مل جاتا وہ یہیں رہے گی۔

                وہ فہمیدہ خاتون کے ساتھ ڈائنگ ٹیبل پر پہنچی تو وہ وہاں بیٹھا بڑے انہماک سے اپنی پلیٹ پر جھکا آملیٹ کی ٹکڑے کاٹ کاٹ کر منہ میں رکھ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی اس پر نظر پڑی اس نے مسکرا سر کو جنبش دے کر سلام کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کرکے گلاس میں جوس انڈیلنے لگا ۔

                ”فہمیدہ آنٹی زارا کے لیے جوس لے آئیں ۔“ اس نے سامنے کھڑی فہمیدہ خاتون کو مخاطب کیا۔

                وہ خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی ۔ جب تک وہ ناشتہ کرتی رہی وہ وہیں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔

                اس نے دو ٹوسٹ لیے تھے ۔اسے کھانے سے ہاتھ کھینچتے دیکھ کر اس نے اپنے جوس کا گلاس زارا کی جانب بڑھا دیا تھا۔

                ”تو پھر کیا سوچا آپ نے ؟“

                جب وہ ناشتے سے فارغ ہوئی تو اس نے پوچھا۔

                ”میں چند دنوں میں یہاں چلی جاؤں گی ۔جب تک مجھے کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں مل جاتا مجھے یہاں رکنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“ اس نے جھکی نظروں کے ساتھ اپنا فیصلہ سنایا تو وہ پرسکون سا ہوگیا۔ اس نے اُس کے فیصلے کو سراہا تھا ورنہ کل وہ جس طرح بے وقوفانہ باتیں کر رہی تھیں وہ اسے اس کی کم عقلی ہی سمجھ رہا تھا۔

                وہ جان گیا تھا کہ کم از کم اس شہر میں اس کا اپنا کوئی نہیں ہے تبھی وہ اسے کسی ہوٹل میں چھوڑنے کا کہہ رہی تھی ۔اس لیے کل رات اس نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ زارا خود ہی فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے۔

                فہمیدہ خاتون تب تک جوس کا گلاس لے آئی تھیں زارا کمرے میں جانے کے ارادے سے وہاں سے اٹھی تو بے دھیانی میں فہمیدہ خاتون سے ٹکرا گئی ۔اس ٹکراؤ سے فہمیدہ خاتون کے ہاتھ سے جوس کا گلاس چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا۔

                وہ پیچھے ہٹتی تب تک جوس کے چند قطرے اس کے کپڑے پر گر گئے تھے ۔

                ”اوو نو! “ اپنے کرتے کی یہ حالت دیکھ کر وہ روہانسی ہوگئی۔ اس وقت اس کے پاس پہنے کےلیے سوائے اس جوڑے کے کچھ نہیں تھا۔

                ”اوہ سوری بیٹا!،“

                اس کی پریشان صورت دیکھ کر اپنے غلطی نہ ہونے کے باوجود فہمیدہ خاتون معذرت گواہ لہجے میں کہا تو زارا کو شرمندگی نے گھیر لیا۔

                ”نہیں...نہیں... پلیز آپ مجھ سے معافی مت مانگیں ۔مجھے دیکھ کر چلنا چاہیے تھا۔“

                اصل میں غلطی بھی اس کی اپنی تھی وہ بنا پیچھے دیکھے اچانک سے اُٹھی تھی اور فہمیدہ خاتون سے ٹکرا گئی تھی۔

                وہ اپنی کرسی چھوڑ چکا تھا جبکہ فہمیدہ خاتون وہاں سے کانچ کے ٹکڑے اُٹھا کر جاچکی تھیں۔

                ”آپ ٹھیک ہیں؟“ اس نے زارا کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔

                ”جی! “ اس نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھ کر بتایا ۔

                ” لیکن آپ کے کپڑے تو پورے خراب ہوگئے ہیں ۔

                میں شام تک کچھ خرید لاؤں گا جب تک آپ چاہیں تو میرے کپڑے پہن سکتی ہیں۔

                فہمیدہ خالہ آپ انھیں....

                وہ کہتے کہتے رکا اس کے چہرے پر آیا غصہ دیکھنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا تو وہ اپنا سر کھجانے لگا۔وہ دونوں کوئی گہرے دوست نہیں تھے اور نہ ہی کوئی رشتے دار تب بھی کسی لڑکی کو اس طرح کہنا نامناسب تھا۔

                زارا غصہ آنے کے باوجود بھی خاموش کھڑی تھی کیوں کہ ابھی وہ اس کے رحم و کرم پر تھی اگر اس کی کسی بات کا بُرا مان کر وہ اسے گھر سے نکال دیتا جیسے زبیر نے نکالا تھا تو وہ کہاں جاتی اس کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے تک کے پیسے بھی نہیں تھے۔ لیکن وہ ایک غلطی بار بار نہیں کرسکتی تھی۔ انسانوں پر بھروسہ کرنے کی غلطی اور ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کی غلطی..... جس نے آج اسے اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا ۔

                ” میں شام میں کپڑے لے آؤں گا۔ “ ماحول کو ٹھیک کرنے کے لیے اس نے کہا۔

                ”اس کی ضرورت نہیں ہے ۔“

                وہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی آئی تھی اور ان کپڑوں کو اچھے سے صاف کر لیا تھا لیکن وہ شام میں اس کے لیے چند ڈریس لے آیا تھا ۔تنہائی سے اکتا کر وہ کچن کی چلی آئی تھی جہاں فہمیدہ خاتون کام کر رہی تھیں ۔ وہ وہیں کھڑی انھیں کام کرتا دیکھ رہی تھی جب وہ کچن میں داخل ہوا ۔

                ” اچھا ہوا مجھے آپ یہاں مل گئیں ۔یہ رہے آپ کی امانت ۔“

                وہ شاپنگ بیگز اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

                ”میں نے آج سے پہلے کبھی لڑکیوں والے کپڑے نہیں خریدے اس لیے شاید یہ آپ کو پسند نہ آئیں ۔“

                وہ شانے اُچکاتے ہوئے بڑے مزے سے اپنے نئے تجربے سے اُسے آگاہ کر رہا تھا۔

                ” یہ میں نہیں لے سکتی“ اس نے صاف انکار کر دیا ۔ ان بیگز کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔

                ”کیوں نہیں لے سکتی ہیں؟ یہ میں آپ کے لیے ہی لے کر آیا ہوں ۔“

                وہ پورے دو گھنٹے لگا کر دوکانوں میں گھومنے کے بعد اس کے لیے چند کپڑے خرید پایا تھا ۔اس کے انکار کرنے پر وہ حیران ہوا ۔

                ”میں پہلے ہی یہاں رہ رہی ہوں اور یہ سب!“ اس نے وضاحت کی۔

                ”اچھا تو یہ بات ہے، مجھے معلوم ہے آپ کافی خوددار ہیں۔ اگر مجھ سے کچھ بھی لینے سے آپ کی خودداری کو ٹھیس پہنچے تو آپ بعد میں مجھے اس کے پیسے ادا کر دییجیے گا۔“



                وہ بڑی آسانی سے اس کی نہ کو ہاں میں بدل چکا تھا۔

                جبکہ زارا حیران ہو رہی تھی کہ کوئی بنا رکے اتنی روانی میں کیسے بول سکتا کیوں کہ جب کبھی وہ بولنا شروع کرتا تو بولتا ہی چلا جاتا اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا وہ پہلی ملاقات میں ہی جان گئی تھی کہ یہ بولے بغیر نہیں رہ سکتا۔

                ”اب میں اتنا بھی نہیں بولتا۔“

                اسے گُم صم دیکھ کر وہ شرارتی انداز میں بولا تو بالکل درست اندازہ لگانے پر وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔ اسے فکر ہوئی کہ وہ کہیں اس کا دماغ تو پڑھ رہا تھا۔

                ”اب آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں وہ کیا ہے نا اکثر لوگ مجھ سے مل کر یہی کہتے ہیں کہ میں بولتا بہت ہوں تو مجھے لگا شاید آپ بھی یہی سوچ رہی ہوں گی ۔دراصل میں ایک وکیل ہوں اور اس لحاظ سے بولنا میرے پیشے کا اولین حصّہ ہے۔ ویسے بچپن سے ہی۔“

                ” میں یہ رکھ دیتی ہوں۔“

                اسے نان اسٹاپ بولتا دیکھ کر وہ معذرت کرتی ان بیگز سمیٹ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اس سے یا اس کی زندگی سے جُڑی کسی بھی کہانی سُننے میں زارا کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

                ★★★★★



                جاری ہے

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط:09



                وہ کمرے میں آئی تو ان بیگز کو کھول کر دیکھا جس میں چند نفیس سے سوٹ تھے جسے دیکھ کر اسے عباس صاحب بے اختیار یاد آئے تھے۔ ایسے کپڑے اس کے بابا بھی اس کے لیے لایا کرتے تھے۔

                ” کاش بابا آپ مجھے یوں چھوڑ کر نہ جاتے تو آج میرا یہ حال نہ ہوتا ۔“ اس نے خود پر نظر ڈالتے ہوئے دکھی دل سے سوچا اور ان میں سے ایک سوٹ اٹھا کر چینج کرنے چلی گئی۔ ہر گزرتا وقت اسے باپ کی کمی کا احساس دلاتا اور وہ ٹوٹ سی جاتی۔

                آج بھی اسے رہ رہ کر ان کی کمی ستا رہی تھی۔

                وہ یہ تو جان گئی تھی کہ یہاں کے مکینوں کے دل کشادہ تھے لیکن وہ کب تک ان کے ساتھ رہ سکتی تھی ۔کبھی نہ کبھی تو اسے یہاں سے جانا ہی تھا۔

                ★★★★★



                وہ ناشتے کرکے گھر سے نکلتا تو پھر رات میں کھانے کی ٹیبل پر ہی نظر آتا تھا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا تھا کہ اسے کمرے میں بند نہیں رہنا پڑتا اور وہ کچن میں فہمیدہ خاتون کا ہاتھ بٹا دیا کرتی۔اس طرح ان کا بھی دل بہل جاتا تھا اور وہ بھی اس سے بات کر لیتی تھیں۔ فہمیدہ خاتون کی دو بیٹیاں تھیں جن کی اب شادی ہوچکی تھی۔ دونوں بھائی بہن اسی گھر کے احاطے میں بنے کوارٹر میں رہتے تھے۔

                آج صبح جب وہ ناشتے کی ٹیبل پہ پہنچی تو وہ اسے ناشتے کی ٹیبل پر نظر نہیں آیا۔

                ” آسُود بابا بیگم صاحبہ کو لینے ائیر پورٹ گئے ہیں۔ “

                اتنے دنوں میں اسے فہمیدہ خاتون کے ساتھ کی عادت ہوگئی تھی۔ انھوں نے زارا کے لیے جوس کا گلاس نکالتے ہوئے بتایا ۔ وہ کل رات ہی ان کی آمد کے متعلق بتا چکا تھا۔

                ان کے لہجے میں خوشگواریت کا احساس بسا تھا لیکن وہ عجیب سی گھبراہٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ پتا نہیں وہ اسے اپنے گھر میں دیکھ کر کیا سوچتیں۔

                اسی لیے بے دلی سے ناشتے کرکے وہ کمرے میں آگئی ۔

                اس کا دل کیا کہ وہ بنا بتائے یہاں سے چلی جائے مگر اس کے پاس رہنے کے لیے دوسرا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس کی ایک ہی دوست تھی جو شادی کے بعد بیرون ملک سیٹل ہوگئی تھی ۔عباس صاحب کے انتقال کے بعد وہ ندا پھوپھو کے زیر سایہ رہی تو اس سے بھی رابطہ کٹ کے رہ گیا۔ ندا خاتون کے پاس واپس جانا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ ہی اس کی اس حالت کا ذمہ دار تھیں۔ اس لیے ناشتے کے بعد سے اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا ۔ نہ وہ اس کی والدہ سے ملی تھی اور نہ ہی لنچ ٹائم میں کچھ کھایا تھا ۔جب فہمیدہ خاتون اسے بلانے آئیں تو اس نے طبعیت خرابی کا بہا کر ٹال دیا اور چپ چاپ کمرے میں پڑی رہی۔ فہمیدہ خاتون خود ہی ایک دو بار اس کی طبعیت پوچھنے آئی تھیں اور اسے سوپ دے گئی تھیں۔

                شام کے وقت وہ نماز سے فارغ ہوئی تو دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے دروازہ کھولا تو سامنے نفیس سی خاتون کھڑی تھیں۔

                اس نے انھیں دیکھ کر سلام کیا پر اسے دیکھ کر ان کے چہرے پر عجیب سی حیرانی ابھری تھی جسے اس نے محسوس کرلیا تھا ۔ وہ ان کی جانب دیکھ کر اپنے لب کاٹ رہی تھی۔

                وہ کچھ دیر یونہی اسے دیکھتی رہیں پھر سر جھٹک دیا۔

                زارا کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائیں ۔

                ” اب تمہاری طبعیت کیسی ہے بیٹا! “

                ”جی ، ٹھیک ہوں آنٹی۔“ وہ اس سے اس کی طبعیت پوچھنے آئی تھیں۔ زارا کو شرمندگی نے گھیر لیا۔

                ” تمہیں اس طرح پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا! میرے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا ہے۔ تم بے فکر ہوکے جب تک چاہو یہاں رہ سکتی ہو ۔اس نے بہت اچھا کیا کہ تمہیں یہاں لے آیا میں بھی اس کی جگہ ہوتی تو یہی کرتی ۔“

                انھوں نے اسے پریشان دیکھ کر کہا۔

                ” بیٹھو! “ اسے بیٹھنے کا کہتیں وہ خود بھی بیٹھ گئی تھیں ۔

                ” طبعیت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔“ اسے خاموش دیکھ کر انھوں نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

                ” نہیں آنٹی میں ٹھیک ہوں ، بس تھوڑا سر درد ہے ۔ دوائی لی ہے ٹھیک ہوجائے گا۔“ سر درد کی وہ دوا لے چکی تھی اور اب کافی آرام آیا تھا۔

                ” تمہیں پتا ہے میری بھتیجی بھی تمہاری عمر کی ہے ۔تمہیں دیکھ کر لگا جیسے وہ میرے سامنے کھڑی ہو۔

                بہت پیاری بچی ہے لیکن افسوس میں اس سے مل نہیں سکی کیوں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا میں ہے اور دیکھو اتفاق سے اس کا نام بھی زارا ہے۔“ وہ جذباتی انداز میں اسے بتا رہی تھیں اور وہ خاموشی سے انھیں سن رہی تھی۔

                ” میں نے تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا نا؟“ اسے چپ چاپ نظر جھکائے بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھتی پایا تو انھوں نے پوچھا ۔

                ” نن.... نہیں ایسی بات نہیں ہے آنٹی!“ زارا نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

                ” اچھا چلو! اب تم آرام کرو ۔ میں نے فہمیدہ کو کہا ہے کہ تمہارے لیے کچھ نرم غذا بنا دے ۔وہ لاتی ہوگی اور تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک بتانا۔ “ انھوں نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور اٹھ گئیں۔

                ★★★★★



                اسے یہاں آئے دو ہفتے سے زیادہ عرصہ ہوگیا تھا ۔آسُود اور اس کی مما نے اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔

                اس کی اپنائیت اور رویہ دیکھ کر اسے یقین ہوگیا کہ دنیا میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کا احساس کرتے ہیں ورنہ ندا پھوپھو اور زبیر کے رویے نے اسے سب سے سے بد ظن کر دیا تھا۔

                آج ان کے بے حد اصرار پر وہ ان کے ساتھ شاپنگ مال آئی تھی ۔

                وہ اس کے منع کرنے کے باوجود اس کے لیے ڈریس اور ضروریات کی دوسری چیزیں خرید رہی تھیں۔

                شاپنگ کے بعد ادائیگی کے لیے کاؤنٹر کی طرف بڑھی تو اس نے کہا کہ وہ ان کا انتظار کرے گی۔ وہ عباس صاحب کے ساتھ یہاں آیا کرتی تھی اور آج اتنے دنوں بعد وہ یہاں اسی جگہ موجود تھی۔ اسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب آخری مرتبہ وہ ان کے ساتھ یہاں فار ویل پارٹی میں پہننے کے لیے ڈریس لینے آئی تھی اور پورے مال کا چکر لگوانے کے باوجود اسے وہ ڈریس نہیں ملا تھا جس کی اسے تلاش تھی۔

                ” تمہیں کچھ اور لینا ہے زارا؟“ عباس صاحب بیگ اٹھائے اس کے ساتھ چل رہے تھے۔

                ” نہیں بابا! بس اب ہم گھر جائیں گے ۔ میں بہت تھک گئی ہوں۔“ اس نے پیروں پر زور ڈالتے ہوئے کہا تو وہ بے ساختہ مسکرا اٹھے تھے۔

                ” تم صرف نہیں تھکی بلکہ اپنے ساتھ مجھے بھی تھکا دیا تم نے ۔“ انھوں نے شرارت سے کہا۔

                ” بابا....“ اس نے چڑ کے انھیں پکارا تو وہ ہنسنے لگے ۔

                " میرا تو بھوک سے بُرا حال ہو رہا ہے ۔چلو کچھ کھاتے ہیں۔“ آفس کی چھٹی تھی اور وہ اٹھتے ہی اس کی فرمائش پوری کرنے ناشتہ کیے بغیر ہی اس کے ساتھ یہاں چلے آئے تھے۔

                ” ٹھیک ہے پر ہم آئس کریم بھی کھائیں گے۔“

                ” وہ تو ہم کھائیں گے میری جان!“ انھوں نے اس کی بات کی تائید کی اور اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ خیالوں میں گم کافی آگے نکل آئی تھی۔ اچانک سے کسی سے ٹکرانے کی وجہ سے وہ ماضی کے جھروکوں سے باہر نکل آئی اور ادھر اُدھر انھیں تلاشنے لگی۔

                ” زارا بھابھی! آپ یہاں؟ “ تبھی کسی نے اسے پکارا تھا۔

                وہ ہڑ بڑا کر پلٹی سامنے زبیر کے دوست عاصم اور اس کی بیوی پر اس کی نظر پڑی تو اس نے تھوک نگلا۔

                ”کہیں زبیر اس کا پیچھا کرتے یہاں تو نہیں آگیا ۔“

                اس نے سوچا۔ وہ ان دونوں سے پہلے پارٹی اور ولیمے پر مل چکی تھی۔

                ” زبیر نے بتایا ہی نہیں وہ کراچی آ رہا ہے۔ کہاں ہے وہ؟ “ اس نے تلاشتی نگاہوں سے آس پاس دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ گھبرا گئی۔

                ” کیا ہوا بھابھی جی؟“ زارا کی گھبراہٹ دیکھ کر عاصم کی بیوی اور اس نے نظروں کا تبادلہ کیا تبھی حلیمہ خاتون اسے پکارتی ہوئی اس کے قریب چلی آئیں۔

                ”زارا کہاں چلے گئی تھی بیٹا! میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔“ وہ واپس آئیں تو زارا کو نہ پا کر وہ پریشان ہوگئی اور اسے تلاشنے لگیں ۔تبھی وہ انھیں کچھ فاصلے پر کھڑی کسی سے بات کرتی نظر آئی تو اس کی طرف چلی آئیں۔

                ” کچھ نہیں آنٹی۔ چلیں! “

                حلیمہ خاتون کو وہاں دیکھ کر اس نے شکر ادا کیا۔

                ” ہاں چلو! ڈرائیور ہمارا انتظار کر رہا ہے ۔“ انھوں نے بتایا اور اسے اپنے ساتھ لیے آگے بڑھ گئیں۔

                ” تم انھیں جانتی ہو؟“ انھوں نے پیچھے کھڑے جوڑے کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ جلد از جلد یہاں سے غائب ہو جانا چاہتی تھی ۔

                وقت واقعی بہت تیزی سے گزرتا ہے اور وقت کے ساتھ لوگ بھی بدل جاتے ہیں وہ بھی تو بدل گئی تھی اُسے جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا لیکن زبیر کے ساتھ نے اسے جھوٹا بنا دیا تھا۔

                ”انھیں کیا ہوگیا ہے.... کچھ بتایا بھی نہیں۔

                چلو نازیہ! میں خود ہی پوچھ لوں گا زبیر سے ۔ اگر کراچی آنا تھا تو مجھے بتانا تھا کم از کم مجھ سے ملاقات ہو جاتی۔“

                وہ اپنی بیوی کو ساتھ لیے آگے بڑھ گیا تھا۔

                ★★★★★



                زارا وہاں سے آنے کے بعد بالکل خاموش ہوگئی تھی ۔اسے ڈر تھا کہ کہیں عاصم زبیر کو اس کے کراچی میں ہونے کا نہ بتا دیا۔

                اگر وہ اسے ڈھونڈتا یہاں آگیا تو وہ کیا کرے گی؟

                لیکن وہ اسے ڈھونڈے گا ہی کیوں؟

                بے شمار سوچ میں گھری بے چینی سے وہ کمرے میں ٹہلتی رہی۔

                پھر اپنی ان سوچوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے وضو کیا اور نماز کے لیے بیٹھ گئی۔ وہ کتنی دیر تک یونہی بیٹھی دعا کرتی رہی اور چہرے پر ہاتھ پھیر کے جائے نماز تہہ کرنے لگی تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

                دروازے پر فہمیدہ خاتون تھیں۔

                ” آنٹی آپ؟ “ اس نے دوپٹے کو کھول کر شانے پر پھیلاتے ہوئے کہا۔

                ” جی باجی صاحبہ آپ کو اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں ؟“ انھوں نے آتے ہی اطلاع دی۔

                ” ٹھیک ہے آپ جائیں میں آتی ہوں ۔“ اس نے کچھ دیر میں آنے کا بتایا تو وہ واپس چلی گئیں۔

                ” آخر ایسی کون سی بات ہے جو آنٹی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔“ ان کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دل میں سوچا۔

                ” میں اندر آ جاؤں؟“ دروازہ کھلا تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھیں۔

                اسے دیکھ کر انھوں نے کتاب سے نظر ہٹائی اسے اندر آنے کو کہا اور پھر کتاب بند کرکے اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

                ” آؤ بیٹھو! تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہو نا ؟“ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور ساتھ ہی استفسار کیا۔ ان کا لہجہ تشویش سے بھر پور تھا ۔وہ جب سے آئی تھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی۔

                ” جی آنٹی ۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ وہ ان کے قریب بیٹھے ہوئے بولی۔

                ” کوئی پریشانی ہے ؟“ انھوں نے پوچھا تو اس نے ان کا چہرہ دیکھا پھر بولی ۔

                ” ایسی کوئی بات نہیں ہے آنٹی!“

                ” تو پھر کیا بات ہے زارا۔ اتنے دنوں میں ہم میں اتنا تعلق تو بن ہی گیا ہے کہ تم اپنی پریشانی مجھ سے شیئر کر سکو۔“

                حلیمہ خاتون نے اپنائیت بھرے انداز میں کہا تو اس کا دل کیا وہ سب کچھ ان کو بتا کے اپنا دل ہلکا کر لے۔

                دیکھو زارا! میرے بیٹے نے مجھے بتایا ہے کہ تم شادی شدہ ہو ، وہ لاہور سے جب کراچی کے لیے نکلا تھا تو تم اسے راستے میں ملی تھی۔ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ تمہیں اتنی رات گئے گھر سے نکلنا پڑا ۔“

                اتنے دنوں سے اسے جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا اور آج انھوں نے وہ بات چھیڑ ہی دی جسے وہ بھول جانا چاہتی تھی۔ اس نے فق ہوتے چہرے کے ساتھ ان کی جانب دیکھا۔

                ” ایسا نہیں ہے کہ مجھے تم پر کوئی شک ہے۔میری کوئی بیٹی نہیں ہے لیکن میں نے تمہیں دل سے اپنی بیٹی مانا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تم بھی مجھے ماں سمجھ کر اپنی پریشانی شیئر کرو شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں۔“

                وہ اسے اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے بولیں۔

                ان کی بات سن کر زارا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کا سارا ضبط ٹوٹ گیا۔

                حلیمہ خاتون اسے روتا دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ ان کا مقصد اسے رُلانا نہیں تھا وہ بس اس کی تکلیف کو کم کرنا چاہتی تھیں۔

                ” پلیز رو مت! کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے۔“ انھوں نے اسے خود سے لگاتے ہوئے پوچھا ۔

                وہ کچھ دیر یونہی روتی رہی پھر انھیں اپنے رشتےداروں کی خود غرضی اور زبیر کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ کچھ چیزیں اب بھی ان سے پوشیدہ تھیں۔

                زبیر کی سچائی کا پتا چلا تو انھیں زارا کے لیے بہت برا لگا۔ اتنی کم عمر میں اس بچی نے بہت کچھ سہا تھا۔

                دل کا بوجھ تھوڑا کم ہوا تو وہ روتے روتے وہی سو گئی۔ انھوں نے بھی اسے جگایا نہیں۔ کتنی دیر تک وہ وہاں بیٹھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں۔

                زیان اُنھیں پکارتا کمرے میں داخل ہوا لیکن زارا کو ان کے ساتھ دیکھ کر وہیں سے پلٹ گیا۔

                ”میں آپ سے ڈائننگ ٹیبل پر ملتا ہوں ۔“

                ” مما! آپ کا موبائل کہاں تھا۔ ندا خالہ نے آپ کو کال کی تھی آپ نے نہیں اٹھایا تو مجھے کال کی انھوں نے ۔ کل عائشہ کی ڈیٹ فکس ہے ۔“

                کھانے سے فارغ ہوکر نیپکین سے ہاتھ صاف کرتا انھیں بتارہا تھا ۔وہ کچھ دیر قبل اس بات کی اطلاع دینے ان کے کمرے میں گیا تھا مگر وہاں زارا کو دیکھ کر واپس لوٹ آیا تھا۔

                ” ندا نے عائشہ کی منگنی کر دی اور ہمیں بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا اور کل ڈیٹ فکس ہے اور آج بتا رہی ہے۔“

                اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے میں سخت پریشان ہوں جب سب کچھ خود ہی کرنا ہے تو اب بھی نہ بلاتی ہمیں ۔“

                انھیں اپنی بہن ندا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ انھوں نے ان کے علم میں لائے بغیر زارا کی شادی کر دی تھی اور اب بنا بتائے عائشہ کی منگنی کے بعد انھیں بتا رہی تھیں۔

                ”تمہیں تو پتا ہے کل تمہارے بابا کی رات کی فلائٹ ہے۔“

                انھوں نے گہرا سانس خارج کرتے کچھ توقف کے بعد کہا۔

                ” اوہ ہاں میرے ذہن سے نکل گیا تھا ۔آپ کہیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں وہاں آپ کو۔ بابا کو میں پک کر لوں گا۔“ اس نے جیسے حل نکالا۔



                ” زیان تم چلے جاؤ! میں یہیں رکوں گی ۔ زارا کی بھی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے اس طرح چھوڑ کر جانا اچھا نہیں ہوگا۔ تمہارے بابا آجائیں تو ہم ساتھ چلے گی خالہ کی طرف ۔ابھی تم ہو آؤ۔“

                انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔



                ”چلیں ٹھیک ہے مما! جیسا آپ کہیں ۔کیا ہوا ہے زارا کو؟ “

                اس نے ہامی بھرتے کہا اور ساتھ زارا کے متعلق پوچھا تو انھوں نے ساری بات اسے بتا دی ۔



                ” میں اس سے ملا ہوں ۔باہر سے شریف نظر آنے والا شخص اندر سے اس قدر گھٹیا انسان ہوگا میں نے سوچا نہیں تھا۔ “

                اسے زبیر اور اس کی ملاقات یاد آئی ۔زبیر سے مل کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی ان دونوں کی عمر میں بہت فرق تھا۔

                ”مجھے تو حیرت ہے کہ اُس انسان کو اس پھول سی بچی کا ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کہاں جائے گی۔ اُسے اتنی رات کو گھر سے نکال دیا۔ اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا تو.....

                ایسے انسان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے جو عورتوں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں اتنے دنوں میں اُسے کبھی اس معصوم کا پیار نظر نہیں آیا ۔“

                ”لیکن مما! زارا کو بھی چُپ نہیں رہنا چاہیے تھا ، مانتا ہوں وہ اس کا شوہر ہے اور اس رشتے کو موقع دینا چاہتی تھی مگر ایک بار اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاتی تو شاید وہ آج اس حال میں نہ ہوتی ۔ وہ ان زیادتیوں پر خاموش رہی اس لیے اس انسان کی اتنی ہمت بڑھ گئی اور وہ اس کی کمزوری کا فائدہ اُٹھتا رہا ۔“

                وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ زارا کو یوں چُپ نہیں بیٹھنا چاہیے تھا ۔گھریلو تشدد کے خلاف ملک میں قانون نافذ ہے۔

                شکر ہے وہ اب اس زبیر کے پاس نہیں ہے ۔ اس رات وہ اسے باہر نہ نکالتا تو ناجانے اب تک وہ اس کے ساتھ کیا کچھ کر چکا ہوتا۔

                انھوں نے فکر مندی سے سوچا۔

                ” اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں ۔رات بہت ہوگئی ۔اب آپ سو جائیں۔ صبح مجھے نکلنا بھی ہے۔“



                اس نے آگے بڑھ کر ان کا ماتھا چوما اور انھیں کمرے میں چھوڑ کر اوپر چلا آیا۔

                ★★★★★

                جاری ہے



                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط نمبر 10



                صبح ناشتہ کرکے زیان کے نکلتے ہی وہ زارا کے کمرے کی طرف آئیں تو دروازہ کھلا تھا۔

                ” اچھا ہوا تم اٹھ گئی۔ میں نے فہمیدہ سے کہہ دیا ہے کہ وہ تمہارا ناشتہ لگا دے ۔“ انھوں نے اندر آتے ہی اسے جاگتا دیکھ کر کہا۔

                ” سوری آنٹی! میں نے آپ کو رات پریشان کر دیا۔“ انھیں دیکھتے ہی کمفرٹر کو پرے کرتے وہ اٹھ کر ٹھیک سے بیٹھ گئی تھی ۔ صبح فجر سے پہلے جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ بستر پر ایک کونے میں سمٹ کر سوئی ہوئی تھیں انھیں یوں بے آرام دیکھ کر اسے پیشمانی نے گھیر لیا ۔وہ یوں بے خبر نہیں سوتی تھی پر ناجانے رات اس کی آنکھ کیسے لگ گئی تھی۔

                ” ارے تم سوری کیوں بول رہی ہو؟ مجھے اچھا لگا تم نے مجھے اپنا سمجھا ۔“ وہ اب مسکراتے ہوئے اس کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔

                ” تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی۔“ اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر انھوں نے اندازہ لگایا پھر جھک کر اس کا ماتھا چھوا۔ وہ بخار سے تپ رہی تھی۔

                ” تمہیں تو تیز بخار ہے زارا ۔چلو کچھ کھالو پھر میں تمہیں دوائی دیتی ہوں ۔“

                فہمیدہ خاتون ناشتے کی ٹرے لیے اندر آئی تھیں تو انھوں نے فہمیدہ خاتون کو مخاطب کیا۔

                فہمیدہ بخار کی دوا لے آؤ ۔“

                ”جی باجی صاحبہ!“ وہ ناشتہ رکھ کر الٹے پیر دوائی لینے چلی گئیں۔

                پھر جب تک اس کا بخار کم نہیں ہوا وہ اس کے پاس ہی بیٹھی رہیں۔

                شام میں وہ نماز کے بعد پھر اس کے پاس چلی آئی تھیں۔ اس کا بخار اتر گیا تھا لیکن نقاہت کے باعث اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ انھوں نے سوچا تھا کہ اگر بخار کم نہیں ہوا تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گی۔

                وہ اس سے اس کی طبعیت پوچھ رہی تھیں جب ان کا موبائل بجنے لگا۔ موبائل اسکرین پر زیان کالنگ دیکھ کر انھوں نے کال ریسو کی وہ وہاں کی تیاریوں کے بارے میں انھیں بتا رہا تھا۔

                ملک صاحب مزید کچھ دن وہاں رکنے والے تھے انھوں نے کال کرکے انھیں بتا دیا تھا اس لیے وہ پرسکون ہوگئی تھیں۔

                وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اسے خود کو تکتا دیکھ کر انھیں اس پر بے اختیار پیار آیا۔

                ” کیا دیکھ رہی ہو؟ “

                ” کک.... کچھ نہیں! “ زارا ان کے استفسار پر گھبرا گئی۔

                ” ہاہاہا! تم بالکل میری بھتیجی کی طرح ہی پیاری سی گڑیا لگتی ہو۔ وہ بھی بچپن میں میرے پاس بیٹھ کر مجھے اس طرح دیکھا کرتی تھی۔ سچ بتاؤں تو تمہیں پہلی بار یہاں دیکھ کر مجھے شاکڈ لگا تھا ۔میں نے بچپن میں اسے دیکھا تھا پھر کچھ ایسے حالات بن گئے کہ نہ میں یہاں پاکستان آسکی اور نہ ہی کسی سے رابطہ رکھ پائی ۔“

                وہ اسے اپنی کیفیت سے آگاہ کر رہی تھیں اور وہ غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔

                ”کیا آپ کی پھر کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی؟“

                اس نے ان کے خاموش ہوتے ہی پوچھا۔

                ” نہیں! میرے ہسبیڈ کے دوست نے ان کے ساتھ فراڈ کیا تھا ہم اتنے سال اس میں ہی الجھے رہے۔ ہمارا سامان ضبط کرلیا گیا اور سارے کانٹیکٹ وغیرہ کھو گئے جس کے باعث ہمارا رابطہ ہی کٹ کے رہ گیا۔

                اتنے سال مجھے اپنوں کی یاد ستاتی رہی ۔ایک بہت بڑی آزمائش تھی جس سے ہم گزر رہے تھے۔ سچ کو لاکھ جھٹلایا جائے وہ سامنے آکے رہتا ہے ۔ہماری زندگی میں ایک معجزہ ہوا تھا ۔میرے ہسبیڈ کے دوست نے اپنی غلطی مان لی اور ہمارا سب کچھ جو ہم سے چھن گیا تھا ہمیں واپس مل گیا۔میں سوچتی ہوں امریکہ جیسے ملک میں جہاں حکومت فوری ایکشن لیتی ہے وہاں فراڈ کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن جب آپ کے اپنے خود ہی آپ کے دشمن بن جائیں تو پھر چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ ملک کیوں نہ ہو انسان اپنوں کے ہاتھ مار کھا ہی جاتا ہے۔

                اللہ نے ہمارا پاس رکھا اور ہماری کھوئی ہوئی عزت و وقار ہمیں لوٹا دی اور میں یہی کہوں گی جسے اللہ پر توکل ہو وہ کبھی نہیں ہار سکتا ۔ہم نے آخری سانس تک ہار نہیں مانی اور رب کے فیصلے کا انتظار کیا۔

                ” وہ بولتے بولتے آبدیدہ ہوگئیں۔ زارا نے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ یہ سچ ہی تھا کہ اپنوں کے دیے زخم چاہ کر بھی نہیں بھرتے بلکہ دن بہ دن گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں اس کے اپنوں نے بھی اس کی روح پر اتنے بُری طرح وار کیا تھا کہ وہ رشتوں کے نام سے بھی خوف کھانے لگی تھی۔

                ”جب ہمارا رابطہ ہوا تو میرے بھائی کی موت کی خبر نے ہمیں رنجیدہ کر دیا ۔ یہ زندگی کا دوسرا بڑا جھٹکا تھا جو اس کی موت پر لگا تھا۔ یہ عمر اس کے جانے کی نہیں تھی لیکن رب کو جو منظور ۔

                جب زیان کی فلائٹ تھی تو وہ بہت خوش تھا کہ زارا سے ملے گا لیکن یہاں پہنچ کے پتا چلا کہ اس کی شادی ہوگئی ہے اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہوگئی ہے۔“

                وہ خاموش ہوئیں تو زارا کا چہرہ آبرو آلود دیکھ کر گھبرا گئیں۔ وہ بے آواز رو رہی تھی۔

                ” تم رو رہی ہو؟ میں اتنی جذباتی ہوگئی اور اپنے ساتھ تمہیں بھی رلا دیا۔ بیتے کل جب بھی یاد آتے ہیں میرا خود پر اختیار ہی نہیں رہتا۔“

                انھوں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور اس کو گلے سے لگائے اس کا سر تھپکنے لگیں۔

                ان کے گلے لگتے ہی اس کو سکون ملا اور اس کے دل نے خواہش کی کہ وہ کبھی ان سے الگ نہ ہو۔ اتنے دن بعد تو وہ اسے ملی تھیں

                ان کا پیار دیکھ کر اُسے اس کے بابا یاد آئے تھے وہ بھی ان کی طرح نرم گفتار تھے ، اسی طرح شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے ان کی آنکھوں میں بھی یہی چمک ہوا کرتی تھی جو اس کے سامنے بیٹھی وجود کے آنکھوں میں وہ اپنے لیے دیکھ رہی تھی۔

                ”اب بس رونا بند کرو۔ چلو شاباش!

                میں تھوڑی جذباتی ہوگئی تھی ۔“ اس سے الگ ہوتے انھوں نے اس کے آنسو صاف کیے ۔

                زیان کو بولنے کی عادت بھی وارثت میں ملی تھی۔ دونوں ماں بیٹے جب ایک بار بولنا شروع کرتے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے۔ زارا یہ سوچ کر دھیرے سے مسکرائی تھی۔

                " گڈ گرل ! اچھا اب میں چلتی ہوں انھوں نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے کو چوما۔“

                ”یہ زیان کون ہے آنٹی؟“ وہ وہاں سے جاتیں اس سے پہلے اس نے استفسار کیا ۔

                ” جس کے ساتھ تم یہاں آئی ہو وہی میرا بیٹا زیان ہے کیا تمہیں اب تک اس نے اپنا نام نہیں بتایا" انھوں نے قدرے حیرانی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                ” لیکن فہمیدہ آنٹی تو اسے آسُود کہہ رہی تھیں؟“

                اس نے الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

                ” فہمیدہ اور زیان کے دوست اسے آسُود کہہ کر بلاتے ہیں۔زیان آسُود ملک میرا اکلوتا بیٹا ہے اور ماشاءاللہ سے پیشے سے وہ ایک وکیل ہے۔“ انھوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں خوش دلی سے بتایا۔

                ” اور آپ کا نام حلیمہ ہے؟“

                زارا اپنے احساسات چُھپاتے ہوئے بولی۔ وہ تصدیق کرنا چاہتی تھی۔

                ” ہاں لیکن تمہیں کس نے بتایا ؟“

                ” و....وہ مجھے...“ وہ کہتے کہتے رک گئی۔

                ”ارے گھبرا کیوں رہی ہو یقیناً فہمیدہ نے بتایا ہوگا۔“

                زارا کا دل کیا کہ وہ ان کے گلے لگ جائے پر اس نے ایسا نہیں کیا۔

                وہ اتنے دنوں سے اپنوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی انجان تھی ۔اس کی مدد کرنے والا اور کوئی نہیں اس کا کزن اور نفیس سی شخصیت رکھنے والی اس کی سگی پھوپھو تھیں جسے اس نے بہت یاد کیا تھا۔

                ان کے امریکہ چلے جانے اور پھر ان کی طرف سے مکمل لاتعلقی پر وہ عجیب سے کشمکشِ کا شکار تھی ۔ اس نے اپنے باپ کو ان کے بارے میں باتیں کرنے سنا تھا ۔ وہ اپنی بہن کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اس لیے اپنوں کا دور جانا اسے ہمیشہ سے بہت غمگین کر دیتا تھا جب اس کے بابا اُسے چھوڑ کر چلے گئے تو وہ اس بات کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا سچ میں ہوا ہے ۔پھر اس پر رشتوں کی تلخیوں کا ایک بہت بڑا طوفان ٹوٹا اور وہ اس بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی۔

                ایک بہادر اور پر اعتماد لڑکی کب اتنی بزدل اور کمزور بن گئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔

                ندا پھوپھو نے تو جیسے اسے اپنا مانا ہی نہیں تھا ۔اپنا مانتیں تو وہ کبھی اسے خود سے دور نہ کرتیں اور نہ ہی اس کے لیے زبیر جیسا ہمسفر چنتیں۔

                ان سے ملنے سے پہلے اسے شکایت تھی کہ وہ بابا کے آخری دیدار کے لیے کیوں نہیں آئیں۔وہ لوگ کہاں تھے جب ندا پھوپھو نے اس کی رضامندی جانے بغیر زبیر جیسے شخص کے ہاتھ میں اسے سونپ دیا تھا۔ وہ اس سے اتنے بے خبر کیوں رہے جب اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھے لیکن آج ان سے بات کرکے ساری شکایتیں دور ہوگئی تھیں۔

                وہ انھیں بتانا چاہتی تھی کہ جسے وہ دیکھنے کے لیے تڑپتی رہیں وہ ان کے سامنے بیٹھی ہے لیکن خوشی اور دکھ میں وہ بے آواز آنسو بہاتی رہی۔ ان کے لمس کو محسوس کرکے خوش ہوتی رہی۔

                ” تم نے پھر سے رونا شروع کر دیا؟“ انھوں نے اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر پوچھا۔

                " آپ کا پیار دیکھ کر مجھے بابا کی یاد آگئی ۔“ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے انھیں بتایا تو جواباً استفسار کیا گیا۔

                ” تمہارے بابا کہاں رہتے ہیں؟“

                ”میرے والدین اب اس دُنیا میں نہیں ہیں۔“

                ”اوہ! اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ تم ان کے لیے دعا کیا کرو۔ اولاد کی دعا والدین کی بخشش کا ذریعہ ہے اور خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا۔ میں ہوں نا ۔

                چلو اب تم آرام کروں میں چلتی ہوں ۔“ وہ اسے آرام کا کہہ کر کمرے سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی وہ دوائی لے لیٹ گئی تھی۔



                ★★★★★

                زیان کو دیکھتے ہی لائبہ اور ظفر کے چہرے خوشی سے کھل گئے وہ دونوں اس کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ۔ آج معمول سے ہٹ کر نعیم صاحب بھی اس سے گرم جوشی سے ملے تھے۔ ان کی خوشی کی وجہ عائشہ تھی جو اب ایک اچھے گھرانے میں بیاہ کر جا رہی تھی۔ کچھ روز قبل وہ اور ندا فاروق کے گھر ڈے ہو آئے تھے ۔وہ انھیں بہت پسند آیا تھا ۔اس کے والدین بھی بہت ملنسار تھے ۔

                ان کا خوش اخلاقی اور خوش مزاجی دیکھ کر انھیں یقین ہوگیا تھا کہ ان کی بیٹی وہاں جاکے بہت خوش رہے گی۔ جب انھیں عائشہ کی فاروقی کو لے کر پسندیدگی کا علم ہوا تھا انھوں نے تھان لیا تھا وہ اب ندا کی ایک نہیں چلنے دیں گے ۔ زارا کی شادی میں ان کی رضامندی شامل نہیں تھی لیکن ندا کی ضد نے انھیں خاموش کروا دیا تھا۔ اس وقت اگر وہ کوئی اسٹینڈ لے لیتے تو زارا کی شادی اس زبیر سے نہ ہوتی۔

                فاروق کے گھر بھی وہ ہی بولتے رہے تھے ندا خاتون خاموش بیٹھی تھیں اور گھر آکے بھی انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

                شام میں گھر پر ہی چند رشتے داروں کی موجودگی میں عائشہ کی شادی کی تاریخ کے لیے چھوٹا سا فنکشن تھا تو سارا دن تیاریوں کے نذر ہوگیا تھا۔ شام میں سبھی مہمانوں کی موجودگی میں شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی سب کے چہروں پر خوشی بکھر گئیں ۔

                عائشہ کے تو جیسے خوشی کے مارے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ آج اس کی سب سے بڑی خواہش جو پوری ہوگئی تھی اب بس اسے اُس دن کا انتظار تھا جب وہ فاروق کے ساتھ ازدواجی رشتے میں بندھ جاتی۔

                ★★★★★
                ​................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. ..........................
                ........................ .................................................. .... ........
                ............... .......................



                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط نمبر:11



                گڈ مارننگ مما!“ اس نے آتے ہی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے بے حد مصروف تھا۔ آج کام سے چھٹی تھی مگر نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ صبح صبح ناشتے کے لیے چلا آیا۔

                ” گڈ مارننگ! اچھا ہوا تم اٹھ گئے۔ آج تو تم گھر پر ہی ہو نا؟“ حلیمہ خاتون نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے اس سے پوچھا۔

                ” جی مما! نیند نہیں آ رہی تھی تو سوچا سب کے ساتھ ناشتہ کرلوں! “ اس نے ٹوسٹ پر جیم لگاتے ہوئے انھیں بتایا۔

                ” چلو اچھی بات ہے۔ ناشتہ ختم کرو۔ پھر تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ ملک صاحب نے آملیٹ کا ٹکڑا کاٹتے ہوئے اسے مخاطب کیا تو وہ سر ہلا کر جوس کے گھونٹ بھرنے لگا۔

                ملک صاحب کل صبح کی فلائٹ سے آئے تھے اور زیان کاموں میں اس قدر مصروف تھا کہ ان دونوں کے درمیان ٹھیک سے بات نہیں ہو پائی تھی۔

                ناشتے کے بعد وہ اور زیان لاونج میں بیٹھ کر پاکستان میں شروع کیے جانے والے بزنس کے متعلق بات کرتے رہے۔ زارا کمرے میں جاچکی تھی اور حلیمہ خاتون اپنی بہن ندا سے بات کرنے کے بعد سیدھا لاؤنج میں چلی آئیں ۔

                ” آپ دونوں شام میں فری ہیں؟“ انھوں نے بیٹے اور شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                ” آج کہیں باہر جانے کا پروگرام ہے کیا؟“ زیان نے ماں کے استفسار سے اندازہ لگایا تو ملک صاحب مسکرانے لگے۔

                ” ندا کی طرف جانا ہے اگر آپ دونوں مصروف نہیں ہیں تو میں سوچ رہی تھی کہ آج کیوں نہ اُس کی طرف چکر لگا لوں۔“ وہ جب سے یہاں آئی تھیں ندا خاتون سے صرف فون پر ہی بات ہوئی تھی ۔اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ جاکے مل آئیں۔

                ” لنچ کے بعد نکلتے ہیں پھر۔“ ملک صاحب نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے کہا تو انھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

                وہ لوگ دوپہر کے کھانے کے بعد ندا خاتون کی طرف نکل گئے تھے ۔ حلیمہ خاتون چاہتی تھیں کہ زارا بھی ان کے ساتھ چلے لیکن زارا آرام کرنا چاہتی تھی اس لیے انھوں نے زیادہ اصرار نہیں کیا۔

                وہاں پہنچ کر گئے دنوں کی یاد تازہ کرتے انھیں وقت کا پتا ہی نہیں چلا ۔ رات کا کھانا بڑے خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا۔ آج رات وہ یہاں رکنے والے تھے اس لیے رات کے اس وقت بھی گھر کے سبھی افراد جاگ رہے تھے۔



                ★★★★★



                صبح ناشتہ کرکے نعیم صاحب آفس کے لیے نکل گئے تھے اور ملک صاحب نیوز چینل سرچ کر رہے تھے جبکہ دونوں بہنیں باتوں میں اس قدر مگن تھیں جیسے گزرے دنوں کی کسر پوری کر رہی ہوں اور وہ دونوں بچے کے ساتھ بیٹھا پرانی البم دیکھ کر خوش ہو رہا تھا تبھی کلثوم بی نے آکر ندا خاتون کے کان میں سرگوشی کی اور وہ معذرت کرتیں وہاں سے اٹھ گئیں۔

                ” زیان بھائی اس میں زارا آپی بھی ہیں۔“ لائبہ نے ایک اور البم کھولتے اسے بتایا ۔اس البم میں اس وقت کی تصویریں تھیں جب وہ امریکہ میں تھا اور ان گزرے دنوں کا حصہ نہیں بن پایا تھا۔

                اس سے پہلے کہ وہ ساری تصاویر دیکھ پاتا اس کا موبائل بجنے لگا۔کال سننے کے ارادے سے وہ اٹھ کر لاونج سے باہر چلا آیا۔ اس کے ایک کلائنٹ کی کال تھی جس کے لیے وہ کچھ دنوں سے کام کر رہا تھا ۔وہ موبائل جیب میں اڑستا جیسے ہی آگے بڑھا تو اس کی نظر اس آدمی پر پڑی جس سے کچھ دیر پہلے ندا خالہ بات کر رہی تھیں۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا کیوں کہ اس کی طرف اس کی پشت تھی۔

                ” کون ہیں آپ ؟ رک جائیں! “ زیان نے دبے پاؤں اس کا پیچھا کرتے اسے آواز لگائی تو باہر جاتے زبیر کے قدم تھم گئے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بالکل قریب آگئے تھے ۔

                ”تم.....تم یہاں کر رہے ہو؟“ زبیر کو یہاں دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی۔

                ”کیا مطلب ہے تمہارا۔ ہٹو میرے راستے سے!“ زبیر نے عجلت میں وہاں سے نکلنا چاہا۔ اسے عاصم سے پتا چلا کہ زارا کراچی میں ہے اور اس کی تصدیق کے لیے اس نے فوراً ندا خاتون کو کئی بار کال ملائی لیکن اُن کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ بس اسی لیے وہ کراچی آیا تھا اور یہاں آکر بھی اسے مایوسی ہوئی تھی کیوں کہ زارا یہاں بھی اسے نہیں ملی تھی۔

                ” خالہ جان! مما! یہاں آئیں۔“ زبیر کو یہاں دیکھ کر حیرانی ہوئی اور اس نے سب کو راہ داری کی طرف بلایا ۔ ندا خاتون زیان کی آواز سن کے وہاں پہنچیں تو زبیر کو اپنے سامنے دیکھ کر یکدم پریشان ہوگئیں ۔انھیں لگا تھا وہ زبیر کو خاموشی سے بھگانے میں کامیاب ہوگئی ہیں لیکن وہ زیان کی نظروں میں آگیا تھا اور زیان دروازے کے قریب کھڑا اسے باہر جانے سے روکے کھڑا تھا۔

                ” آپ بتائیں خالہ جان! یہ آدمی یہاں کیا کر رہا ہے؟“ زیان کی آواز معمول سے تیز تھی۔ زبیر کو دیکھتے ہی اسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی اور یہی سوچ کر اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔

                ” مم.....میں نہیں جانتی یہ کون ہے ؟“ ندا خاتون نے ہکلاتے ہوئے صاف جھوٹ کہا۔ پریشانی سے ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔

                ” جھوٹی عورت! تم نہیں جانتی کہ میں کون ہوں؟ ہاہاہا۔“ وہ ندا خاتون کو پلٹتے دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔

                ” تمہاری بھیتجی بھی تم پر ہی گئی ہے ۔جھوٹ فریب تو تم لوگوں کی گھٹی میں ہے ۔پر میں اسے ڈھونڈ لوں گا سمجھ گئی تم!“ وہ باورانہ انداز میں کہتا زیان کو دھکا دے کر وہاں سے چلا گیا اور زیان زبیر کے کہے فقرے میں الجھ کر رہ گیا۔

                اس کا مطلب زارا کو دیکھ کر جو اسے شک ہوا تھا وہ کوئی شک نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ اس کی شکل میں مماثلت نہیں بلکہ وہ ہی اس کی کزن زارا عباس تھی۔

                ” اوہ میرے خدایا! یہ سب کیوں کیا آپ نے خالہ جان! ہم سب سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں کہا آپ نے؟“ پتھر کی مورت بنی ندا خاتون سے پوچھا ۔آج پہلی بار اسے معاملات کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔

                ”آپ نے ہمیں بتائے بغیر اس کی شادی کر دی تب بھی ہم مطمئن تھے کہ اس کا آپ سے خونی رشتہ ہے ۔آپ نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا وہ اس کے لیے بہتر ہی ہوگا۔ آپ ہمیں اس سے بات کروانے سے ٹالتی رہیں صرف اس لیے کہ وہ کینیڈا نہیں بلکہ یہیں پاکستان میں تھی۔“

                ” میرا یقین کرو میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا ۔وہ زبیر.....“ انھوں نے ہوش میں آتے ہی خود کو ڈیفینڈ کرنے کی کوشش کی۔

                ” کیا ہوا زیان! تم کس طرح بات کر رہے ہو تم اپنی خالہ سے؟“ حلیمہ خاتون اور باقی سب شور سن کر راہ داری کی طرف چلے آئے تھے اور زیان کو ندا خاتون سے بلند آواز میں بات کرتا دیکھ کر انھوں نے اسے ڈپٹا تھا۔

                ” مما آپ خود ہی پوچھیں ان سے کہ انھوں نے زارا کی زندگی کیوں برباد کی؟“

                ” یہ تم کیا کہہ رہے ہو زیان ؟ صاف صاف بتاؤ مجھے۔“ وہ اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھ پائیں۔

                ” زبیر آیا تھا زارا کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں ۔اگر آج میں اسے یہاں نہیں دیکھتا تو نجانے کب تک یہ ہم سے جھوٹ بولتیں“

                ” ندا کچھ بولو بھی ۔ زیان کیا کہہ رہا ہے؟“

                انھوں نے ندا کو خاموش دیکھ کر استفسار کیا۔

                ”زیان تم غلط سمجھ رہے ہو مجھے ۔میں ایسا کیوں کروں گی؟ میں اس کی سگی پھوپھی ہوں ۔“

                ندا خاتون کے اوسان خطا ہونے لگے تھے ۔وہ آج بری طرح اپنے ہی جال میں پھنس گئی تھیں۔

                ”اگر آپ سچ میں نہیں جانتی تھیں تو پھر آپ نے جھوٹ کیوں کہا کہ وہ کینیڈا میں ہے؟“ اس نے غصے سے پہلو بدلتے ہوئے کہا تو حلیمہ خاتون اپنی بہن کو دیکھ کر اس کی طرف لپکیں۔

                ” وہ بچی کس اذیت سے گزری ہے۔ تمہیں اندازہ بھی ہے ندا!

                تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ اس کا باپ مر گیا ہے تو تم اس کے ساتھ کچھ بھی کروں گی اور کوئی پوچھنے نہیں آئے گا۔ افسوس ہو رہا ہے مجھے تمہیں اپنی بہن کہتے ہوئے۔“ وہ انھیں دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے بول رہی تھیں ۔اپنی بہن کی خود غرضی کا انھیں شدید صدمہ پہنچا تھا ان کی سانس بولتے بولتے پھول گئی تھی۔

                ” آپا! میرا یقین کریں میں..... “ سچ کھل جانے کے باوجود اپنے کیے پر پشیمان ہونے کی بجائے وہ اب بھی اپنی بات پر ڈٹی تھیں۔

                حلیمہ خاتون نے آگے بڑھ کر انھیں تھپڑ مار دیا اور وہ سکتے کی حالت میں کھڑی انھیں دیکھے گئیں۔ان کی بہن نے آج سے پہلے کبھی ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

                ” گھر چلو زیان! اب ہم ایک منٹ بھی یہاں نہیں رکیں گے.“ انھوں نے اپنا فیصلہ سنایا اور شکستہ قدموں سے چلتے ہوئے باہر نکل گئیں۔

                ڈرائیونگ کرتے وہ زارا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے زارا سے پہلی ملاقات یاد آئی۔ وہ زبیر کے ڈر سے اس سے الجھنے سے ڈرتی تھی اور جب وہ کپ دینے کا بہانا کرکے اس کے پاس گیا تھا تاکہ اُس سے پوچھ سکے کہ وہ اتنی ڈری ہوئی کیوں ہے۔ اُس دن اس کا التجائی انداز دیکھ کر ہمت نہیں کر پایا کہ اس سے پوچھ سکے ،جب وہ لاہور سے کراچی آرہا تھا اسے تیار دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا کیوں کہ جب وہ صاعقہ آنٹی کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی تب اُس نے اچھی طرح چادر میں خود کو چُھپا رکھا تھا اور جب بھی وہ اسے مخاطب کرتا تو وہ گھبرا جاتی تھی ۔

                ایک بجے کے قریب وہ سب گھر پہنچے تھے اور آتے ہی حلیمہ خاتون نے فہمیدہ سے زارا کے متعلق پوچھا تھا۔

                ”باجی صاحبہ! وہ تو چلی گئیں۔“ جواب ملتے ہی وہ بے چین ہوگئی تھیں۔

                ” مما آپ بیٹھے میں بات کرتا ہوں ۔“ اس نے انھیں صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا۔

                ” وہ کہاں گئی ہے کچھ بتایا اس نے آپ کو؟“

                زیان نے پانی کا گلاس حلیمہ خاتون کو دیتے ہوئے فہمیدہ بی سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ زارا اپنے کسی دوست کے گھر گئی ہے۔

                ” تم نے اسے جانے کیوں دیا ؟“ حلیمہ خاتون کے لیے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔اسے یہاں نہ پا کر وہ رو پڑیں ۔

                ” مما! خود کو سنبھالیں۔“ زیان نے آگے بڑھ انھیں خود سے لگائے تسلی دی ۔

                ” وہ مل جائے گی حلیمہ! پرسکون ہو جاؤ ورنہ تمہاری طبعیت بگڑ جائے گی۔“ ملک صاحب کے سمجھانے پر بھی ان کے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

                ” میں تمہاری مما کے پاس ہوں ۔تم جاؤں زیان! دیکھو زارا کہاں ہے۔ “ ملک صاحب نے اس سے کہا تو وہ اسی وقت گھر سے باہر نکل گیا۔

                سڑک پر گاڑی دوڑاتے وہ تذبذب کا شکار تھا ۔وہ اسے ڈھونڈتے کافی آگے نکل آیا تھا ۔ یہ وقت آفس کی چھٹیوں کا ہوتا ہے اس لیے سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم تھا ۔جیسے ہی سگنل کھلنے پر وہ آگے بڑھا سڑک کے کنارے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اس نے گاڑی روک دی۔

                ” ایسکیوز می! یہاں کیا ہوا ہے؟“ اس نے ماتھے پر آئے پیسنے کو صاف کرتے ہوئے وہاں کھڑے ایک آدمی سے پوچھا۔

                ”کسی لڑکی کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ پتا نہیں کون ہے۔ خون بہت بہہ گیا ہے۔“ اس آدمی کی بات سن کر وہ گھبراہٹ کے مارے کچھ بول ہی نہیں پایا۔



                ” زارا تم کہاں ہو؟“ خود کو اس جگہ پر گھیسٹتے ہوئے لاتے اس کی حالت بگڑ رہی تھی ۔

                ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو ہٹاتا وہ اُس مقام پر پہنچا جہاں وہ لڑکی نیم مردہ حالت میں پڑی تھی ۔ اُس کا چہرہ دوپٹے سے چھپا ہوا تھا۔ ایمبولیس ابھی ابھی پہنچی تھی اور عملہ اسے وہاں سے اٹھا رہے تھے۔

                ” یہ زارا نہیں ہو سکتی۔“ وہ بڑ بڑاتے ہوئے اس نے پہلو بدلا تو وہ اسے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی نظر آئی ۔

                ”خدا کا شکر ہے زارا! تم ٹھیک ہو۔“وہ دل ہی دل میں خوش ہوا تھا پھر ہجوم کو چھانٹتے اس کی طرف بڑھتے ہی اسے آواز لگائی تو وہ چونک گئی۔

                ” تم! تم یہاں کیا کر رہے ہو!“ اس نے پوچھا۔

                " بہرحال یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے؟“

                وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا۔

                ” کیا مطلب؟“ اس نے ناسمجھی کا مظاہرہ کیا۔

                ” مطلب یہ کہ کسی کو بتائے بغیر تم اس طرح کہاں جا رہی ہو؟ “ اس نے مسکراہٹ دبائے کہا تو زارا نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ بتا کر جائے گی تو وہ لوگ اسے کہیں جانے نہیں دیں گے۔ اس لیے ان کی غیر موجودگی میں وہ گھر سے نکل آئی تھی ۔اس نے سوچا تھا کہ وہ یہاں سے سیدھا اپنی دوست کے گھر جائے گی اور کچھ دن وہاں رک کر اپنا مستقل ٹھکانہ ڈھونڈے گی لیکن چوکیدار سے پتا چلا تھا کہ وہ کسی رشتے دار کی شادی کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں۔

                ” کیا مجھے بتایا چاہیے تھا ؟ “ اس نے نظر چڑاتے ہوئے کہا۔

                ” ہاں بالکل! کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟“

                وہ دونوں اس بھیڑ سے نکل کر اب سڑک کے کنارے چلے آئے تھے۔

                ” کیا بات کرنی ہے تمہیں؟“ اسے سائے کی طرح ساتھ چلتا دیکھ کر وہ جھنجھلا گئی۔

                سچ معلوم ہونے کے باوجود اس نے وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ وہ زبیر سے اچھی طرح واقف تھی۔ وہ اپنی وجہ سے اپنوں کو کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔



                ”کہاں جا رہی ہو ؟“ اس نے پوچھا۔

                ”اپنی دوست کے گھر! “ وہ نظریں جھکائے آہستگی سے بولی ۔

                "چلو! میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔ اسی بہانے میری اُن سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہی آگے بڑھ گیا پر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تو اس نے اسے آواز لگائی۔



                " تم وہاں کیوں کھڑی ہو ۔ اب دیر نہیں ہو رہی تمہیں ؟“ زیان نے اسے بلایا تو غصے میں آگئی۔

                " آخر تم میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟“

                وہ اسے باور کرنا چاہ رہی تھی کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔



                "میں تمہارا پیچھا نہیں کر رہا ، بس تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔“

                اس پاگل لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا جیسے سامنے کھڑی اُس لڑکی کی بے وقوفی پر افسوس کر رہا ہو ۔

                ” تمہیں میری مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، میں خود ہی چلی جاؤں گی۔"

                وہ یہاں ضبط کیے کھڑی تھی مزید کچھ دیر یہاں رکتی تو اس کا ضبط ٹوٹ جاتا ، وہ رو پڑتی اور خود کو کمزور نہیں کرنا چاہتی تھی ۔

                "اور کتنے جھوٹ بولو گی زارا عباس!

                آخر تم یہ مان کیوں نہیں لیتی کہ جھوٹ بول بول کر تم تھک گئی ہو؟"



                اس نے زیان کی لفظوں پر غور کیا تو اس کے بڑھتے قدم یکدم تھم گئے ۔ وہ کیسے جانتا تھا کہ وہ زارا عباس ہے۔ اسے لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔

                ” کیا کہا تم نے؟“ اس نے تصدیق کے لیے پوچھا۔

                ” یوں بُت بنی کھڑی رہنے سے کچھ نہیں ہوگا مجھے جواب چاہیے۔ تمہیں کیا لگا تم ہم سب سے چھپاؤں گی تو ہمیں کچھ پتا نہیں چلے گا۔

                چلو مان لیا دوسروں سے جھوٹ بولنا تمہارے لیے بہت آسان ہے مگر کیا تم خود سے جھوٹ بول کر نہیں تھکتی؟

                وہ اسے چُپ دیکھ کر بلند آواز میں بولا۔ اس کی بے وقوفی پر اسے بہت غصہ آ رہا تھا۔

                ” تو اور کیا کرتی میں؟ بتاؤ کیا کرتی میں ۔ تنگ آچکی ہوں سب کے سامنے جھوٹا ناٹک کرکے ۔ تم سب بھی تو مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بابا بھی چلے گئے۔

                کون تھا میرا اپنا جس کے ساتھ میں اپنی تکلیف ، اپنا غم بانٹتی۔“ وہ غصے سے چیخ رہی تھی اور وہاں سے گزرتے لوگ ان دونوں کو مڑ مڑ کے دیکھ رہے تھے ۔

                ”زارا! میری بات سنو!“ اسے اس حالت میں دیکھ کر اس نے اسے چپ کروانا چاہا۔

                ” چھوڑو مجھے! تم لوگوں نے تو کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ میں یہاں زندہ بھی ہوں یا مر گئی۔“ وہ بولتے بولتے وہیں سڑک پر بیٹھ گئی تھی ۔ آنسو اس کے رخسار کو تر کر رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی بہت بڑی مسافت طے کر آئی ہوں ۔آنکھوں میں درد ہی درد تھا۔

                وہ اپنے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کو اس حال میں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وہ کیا کچھ دل میں چھپائے اکیلے ہی غم سہہ رہی تھی۔اُسے شکایت تھی کہ وہ کیوں نہیں آیا اور ہونی بھی چاہیے وہ لوگ اس سے ملنے نہیں آ سکے تھے۔

                "زارا! پلیز زارا چپ ہوجاؤ ۔مجھے معاف کر دو اور گھر چلو ،تمہیں جو بھی شکایتیں ہیں گھر چل کے کرنا یہاں لوگ دیکھ رہے ہیں۔ مما تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ بہت پریشان ہیں۔ پلیز چلو!“ وہ اسے وہاں سے اٹھا کر اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہہ رہا تھا۔

                حلیمہ خاتون کا سنتے ہی اسے نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ آنا پڑا۔ وہ زیان کے ساتھ گھر پہنچی تو اسے دیکھ کر حلیمہ خاتون اسے گلے لگائے روتی رہیں۔ اس سے بے خبر رہنے کی معافیاں مانگتی رہیں۔ زارا نے پہلے ہی انھیں معاف کر دیا تھا۔ انھیں دیکھ کر زارا نے سوچ لیا تھا کہ وہ پچھلی باتوں کو یاد کرکے اپنوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گی بلکہ وہ اب زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی تھی۔

                ★★★★★

                جاری ہے .......



                ..................................

                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                قسط:12



                زارا کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا اس سے وہ واقف تھیں اور کہیں نہ کہیں اس کی اس حالت کی ذمہ دار وہ خود کو سمجھ رہی تھیں۔ اگر وہ ندا پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرنے کی بجائے زارا سے خود ہی بات کرنے کو ترجیح دیتیں تو شاید آج یہ سب نہ ہوا ہوتا ۔

                انھیں اب سمجھ آ رہی تھی کہ اصرار کے باوجود زارا ان سے فون پر بات کرنے کے لیے راضی کیوں نہیں ہوتی تھی کیوں کہ ندا نے کبھی اسے بتایا ہی نہیں تھا۔ وہ وقت کو پیچھے نہیں موڑ سکتی تھیں لیکن اب جب زارا ان کے پاس تھی تو وہ چاہتی تھیں کہ وہ ان کے دامن کو پھولوں سے بھر دیں اور اس کے ساتھ خوشگوار یادیں بنائیں تاکہ اس کے لیے ماضی کو بھولنا آسان ہوجائے بس اسی لیے انھوں نے سوچا تھا کہ وہ اسے کہیں باہر گھومنے لے جائیں گی تاکہ تازہ اور کھلی فضا میں اس کے اندر کی بے چینی کم ہو سکے اور ماحول میں تبدیلی ہو تو وہ بہتر محسوس کرسکے۔ انھوں نے زیان کو گھر جلدی آنے کو کہہ دیا تھا۔

                گھر سے نکلنے سے پہلے وہ کچھ سامان گاڑی میں رکھوانے کے بعد زیان کا انتظار کر رہی تھیں۔ تب بھی زارا ان کے ساتھ ساتھ تھی۔

                "چلیں لیڈیز!! اگر مزید دیر کی تو ہم ٹریفک میں پھنس جائیں گے۔" تبھی عجلت میں سیڑھیاں اترتا وہ ریسٹ واچ کلائی میں باندھتے ہوئے بولا تو زارا نے اس کی اور دیکھا۔اس نے بیلو جینز بلیک ٹی شرٹ کے اوپر جیکٹ پہن رکھی تھی اور اب باہر جانے کے لیے تیار نظر آ رہا تھا۔ وہ آتے ہی تیار ہونے چلا گیا تھا تب سے وہ دونوں بیٹھی اس کا ہی انتظار کر رہی تھیں ۔

                ” ہم تو کب سے تیار بیٹھے ہیں۔ تم نے ہی تیار ہونے میں دیر لگا دی۔“

                حلیمہ خاتون نے بیٹے کی تیاری دیکھ کر شرارتی انداز میں کہا ۔انھیں بیٹے کی اس عادت سے چڑ تھی وہ لڑکیوں کی طرح تیار ہونے میں بہت وقت لگاتا تھا۔

                ” مما! “ وہ خفیف سا ہوکر بولا۔

                ” اب چلو بھی!“ انھوں نے اس کا چہرہ دیکھ کر محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔

                وہاں پہنچ کر وہ دونوں بیٹھیں قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ شام کا وقت تھا اور بہت سے افراد وہاں اپنی فیملی سمیت جمع تھے۔ زیان کار پارک کرکے اندر آیا تو ان دونوں کو آپس میں بات کرتا دیکھ کر مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔

                "ہیلو ۔۔لیڈیز! آپ تو میرے بغیر ہی انجوائے کر رہی ہیں ویسے یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے نا؟"

                اس نے انھیں مخاطب کرکے کہا۔ وہ بچپن میں بابا کے ساتھ یہاں آیا کرتا تھا اور آج اتنے سالوں بعد یہاں بہت سی چیزیں مختلف ہوگئی تھیں۔

                شام ہونے کی وجہ سے وہاں ستاروں کے مانند جگمگاتے فانوس لگے تھے ،جس سے پورے پارک کا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا جیسے دن کے اُجالے میں نظر آتا تھا۔

                وہاں بیٹھے لوگوں کو مزے کرتے دیکھتے اور پرانی یادیں تازہ کرتے انھیں وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔

                جب وہ لوگ واپسی کے لیے وہاں سے نکلے تو رات ہوگئی تھی۔ وہ راستے میں ہی تھے کہ اچانک ایک تیز رفتا گاڑی سامنے سے آتی دکھائی دی اور زیان کے بریک لگانے کے باوجود بھی کار کو ٹکر لگ گئی تھی۔

                اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے۔ مقابل گاڑی سے کوئی دروازہ کھول کر باہر نکلا اور نکلتے ہیں چیخ و پکار کرنے لگا ۔ زیان نے ان دونوں کو گاڑی میں ہی رکنے کا کہا اور خود بھی باہر نکل آیا۔ اندھیرے کے باعث وہ مقابل کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔

                ” دِکھتا نہیں ہے کیا؟ اندھوں کی طرح گاڑی چلا رہے ہو!“ اس نے زیان کو سامنے دیکھ کر اس کا کالر پکڑ کے بہت بدتمیزی سے کہا۔

                ”یہ کیا بدتمیزی ہے۔ چھوڑیں مجھے! غلطی سراسر آپ کی ہے جناب! یہ ون وے ہے اور آپ غلط راستے میں گُھس آئے ہیں۔“ مقابل کا یہ رویہ قابل مذمت تھا۔ زیان نے خود کو چھڑاتے ہوئے باورانہ انداز میں اسے اپنی غلطی کا احساس کروانا چاہا۔

                زیان اس شخص کی حرکت پر خوب حیران ہوا تھا۔غلط رستے میں گھس آنے کے باوجود وہ شخص اس پر ہی چلا رہا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کی چال سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس نے ڈرنک کر رکھی ہے ۔

                ” کیا بکواس کر رہے ہو۔ یو اڈیٹ..... تم جیسے بہت دیکھے ہیں میں نے۔ میرا جو بھی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی کرو ورنہ تمہیں پولیس بلواؤں گا۔ “ وہ ایک مرتبہ پھر سے اس کے گریبان کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے بولا تو فضا میں عجیب سی بُو پھیلی۔

                ” دور رہ کر بات کرو اور اپنی گاڑی سائیڈ لگاؤ۔ غلطی تمہاری ہے۔ تم کال کرو میں بھی دیکھتا ہوں پولیس کسے پکڑتی ہے ۔“ زیان اس کا ہاتھ جھٹک کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا شور سن کر زارا اور حلیمہ خاتون کار سے نکل گئیں۔

                ” کیا ہوا ہے زیان؟“ وہ بیٹے کی طرف فکر مندی سے بڑھیں۔

                ” کچھ نہیں مما! اس نے ڈرنک کر رکھی ہے۔ آپ دونوں اندر بیٹھیں ،میں آتا ہوں۔“ زیان نے انھیں تسلی دی۔ مقابل کسی کو فون ملا رہا تھا۔

                زیان کو اس آدمی کی آواز جانی پہچانی سی لگی اس نے موبائل نکال کر ٹارچ آن کیا اور جیسے ہی ٹارچ کی روشنی میں اس کا چہرہ دیکھا اس کا غصہ بڑھ گیا وہیں کچھ فاصلے پر کھڑی زارا کے چہرے کا رنگ پل میں اُڑا گیا تھا۔ وہ یقیناً اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آیا تھا ۔اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی ، بال بکھرے تھے ، آستین کے کف کھلے تھے اور وہ پہلے سے قدرے مختلف لگ رہا تھا۔

                ”زبیر.....! زیان نے سرگوشی کی۔

                ” مما آپ دونوں کار میں بیٹھیں! اس سے میں بات کر رہا ہوں۔“ زیان نے زبیر کو دیکھ کر حلیمہ خاتون سے کہا۔ اس سے پہلے وہ اسے لے کر کار میں بیٹھتیں۔

                ” زارا.... تت تم کہاں چلی گئی تھی؟ “ زبیر زارا کو دیکھ کر وہیں سے چلایا اور دوڑتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔

                ” زارا.... تم کہاں چلی گئی تھی مجھے چھوڑ کر۔ میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ بولو! کیوں چلی گئی تھی؟ “

                وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھرا اس کا ہاتھ تھامے کسی دیوانے کی طرح پوچھ رہا تھا۔ البتہ زارا یکدم خوف زدہ ہوگئی تھی۔ جو بات اسے اتنے دنوں سے کسی آسیب کی طرح ڈرا رہی تھی آج وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

                وہ اپنی وجہ سے اتنے سالوں بعد ملے اس رشتے کو کسی مصبیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

                ” زبیر چھوڑو اسے!“ زیان نے زارا کی حالت دیکھ کر زبیر کی گرفت سے اس کا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر زبیر نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی۔

                ” اب میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔ چلو میرے ساتھ، گھر چلو!“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے اپنے کار کی طرف بڑھا مگر زارا کے حلق سے ایک آواز نہ نکلی۔

                ” چھوڑو اسے ۔یہ تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی ۔“ حلیمہ خاتون نے زبیر کے گرفت سے زارا کے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔

                "کیوں..... کیوں نہیں جائے گی؟ زارا میری بیوی ہے اور تم لوگ ہوتے کون ہو اسے روکنے والے ؟“

                وہ زیان اور حلیمہ خاتون کو دیکھ کہر آلود لہجے میں بولا۔

                ”تم جیسے گھٹیا انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کرو کیوں کہ تمہاری بیوی ہے۔ “ زبیر جو پہلے ہی نشے کی حالت میں تھا زیان نے جیسے ہی اس کے منہ پر ایک گھوسہ مارا تو وہ لڑکھڑا کے گر گیا۔

                ” زارا تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔ اپنے اس غلیظ زبان سے میری بچی کا نام بھی مت لینا

                میں مزید اُسے اس جہنم میں نہیں رہنے دوں گی۔“ حلیمہ خاتون نے فوراً آگے بڑھ کر زارا کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔

                زارا کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح نکل کر رخسار پہ بہہ رہے تھے۔ آج پھر سے وہ اس شخص کے سامنے کھڑی تھی جس نے ہمیشہ اسے دھتکارا تھا

                جس نے اس کی پاک دامنی پر شک کیا تھا۔

                ” زارا میری بیوی ہے۔ سمجھے تم اسے میرے ساتھ جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔“ زبیر غیظ و غضب میں ایک بار پھر سے چیختا ہوا اٹھا اور اس سے پہلے وہ زارا تک پہنچتا زیان ان دونوں کی درمیان آ کھڑا ہوا ۔

                ” مما آپ زارا کو لے کر گاڑی میں بیٹھیں۔“ اس کے کہتے ہی وہ زارا کو اپنے ساتھ لیے کار میں بیٹھ گئی تھیں اور وہ زبیر کی دھمکی کو نظر انداز کرتا ان دونوں کو گھر لے آیا تھا لیکن کوشش کے باوجود وہ تینوں رات بھر سو نہیں پائے تھے۔



                ★★★★★



                صبح نماز کے بعد ان کی آنکھ لگی تھی۔ زارا حلیمہ خاتون کے پاس ہی سوگئی تھی۔ تقریبًا گیارہ بجے جب وہ دونوں اُٹھیں تو زیان نے فہمیدہ خاتون کو ناشتہ لگانے کا کہا مگر ناشتے کی ٹیبل پر بھی ان دونوں کو کچھ نہ کھاتا دیکھ کر زیان چُپ نہ رہ سکا اور ان دونوں کو مخاطب کیا۔

                ” کیا ہوا مما! زارا!“

                "کیا آپ دونوں مجھے بھوکا مارنا چاہتی ہیں؟

                کل رات سے میں نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ اگر کچھ دیر مزید بھوکا رہا تو میں نے چکرا کر گر جانا ہے۔“

                اُس نے بے چارگی سے منہ بناتے ہوئے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی اور ان دونوں کا دھیان بھٹکانا چاہتا تھا۔

                اس کے اس انداز پر وہ دونوں بے ساختہ مسکرائی تھیں۔ واقعی اُس نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھا۔

                زارا پچھلے کچھ ہی عرصے میں یہ بات جان گئی تھی کہ اسے بھوک بالکل بھی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ ناشتے کے فورا بعد وہ اپنے کسی دوست سے ملنے چلا گیا اور دونوں پھوپھی بھتیجی لاؤنج میں چلی آئیں ۔ حلیمہ خاتون نے اخبار کو ہاتھ ہی لگایا کہ مالی بابا لاؤنج میں داخل ہوئے۔

                ” بی بی جی۔ آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔“ انھوں نے بتایا۔

                ” کون ہے ابراہیم بھائی۔“ انھوں نے اخبار واپس سے میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

                ” کوئی عورت ہے اور اس کے بچے ہیں۔ خود کو آپ کی جاننے والی بتاتی ہے۔“

                انھوں نے بتایا ۔

                ”آپ انھیں اندر لے آئیں ۔“ ان کے کہتے ہی وہ اثبات میں سر ہلاتے وہیں سے واپس لوٹ گئے۔

                "پھوپھو جان کون آیا ہے؟“ زارا نے استفسار کیا۔

                ” پتا نہیں بیٹا! شاید ملک صاحب کے کزن ہوں۔ انھوں نے فون کرکے بتایا تھا وہ لوگ آج آنے والی ہیں۔“ ملک صاحب کچھ دنوں کے لیے اپنے بزنس کے کچھ معاملات کو طے کرنے کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے۔

                ” تم ٹھیک ہو اگر تمہیں آرام کرنا ہے تو اپنے کمرے میں چلی جاو۔“ ان کے پوچھنے پر اس نے اپنے ٹھیک ہونے کا بتایا۔ وہ ان کے ساتھ ہی بات کرنا چاہتی تھی خود کو لوگوں میں مصروف رکھنا چاہتی تھی اس لیے وہیں بیٹھی رہی ۔چند منٹ بعد مالی بابا کے ہمراہ لاؤنج میں ندا خاتون داخل ہوئیں ان کے ساتھ لائبہ اور ظفر بھی آئے تھے۔

                ندا خاتون بہن کی ناراضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہاں معافی مانگنے کے ارادے سے آئی تھیں۔ حلیمہ خاتون نے آج انھیں پہلے کی طرح گرم جوشی سے گلے نہیں لگایا تھا بلکہ بس سلام کا جواب دیا تھا جبکہ زارا اتنے دنوں بعد لائبہ اور ظفر کو دیکھ کر بہت خوش تھی۔

                حلیمہ خاتون اُن سے ناراض ہونے کے باوجود بہن کی آمد پر بے رُخی دکھانے کی بجائے ایک میزبان ہونے کا فرض ادا کیا تھا۔

                زیان جب لوٹا تو انھیں اپنے گھر میں دیکھ کر حیران ہوا تھا لیکن اپنی ماں کی خاموشی اور زارا کو مطمئن دیکھ کے اس نے بھی خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ لائبہ اور ظفر کے ساتھ ادھر اُدھر کی بات کی اور پھر اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

                آج رات وہ ملک ہاوس میں ٹھہرنے والی تھیں۔ ندا خاتون یہاں اپنی بہن کی ناراضی دُور کرنے اور زارا سے بھی اپنے کیے کی معافی مانگنے آئی تھیں۔ انھوں نے زارا کے گھر کے کاغذات اس کے حوالے کر دیے تھے اور وہ عائشہ کی شادی کے بعد اپنے گھر میں شفٹ ہونے والی تھیں۔ انھیں اپنی غلطی کا بہت دیر سے احساس ہوا تھا وہ اس غلطی کو بدل تو نہیں سکتی تھیں لیکن اس کی معافی مانگ کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتی تھیں۔

                ” میں آ جاؤں؟“ ڈنر کے بعد حلیمہ خاتون سونے کی تیاری کر رہی تھیں تبھی ندا خاتون نے دروازے پر دستک دی۔

                انھوں نے اجازت دے دی تو ندا خاتون اندر چلی آئیں۔ کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی پھر انھوں نے بولنا شروع کیا۔

                ” آپ کو مجھ پر غصّہ ہے میں جانتی ہوں اور میری غلطی معافی کے لائق بھی نہیں ہے آپا! لیکن پھر بھی آپ مجھ سے یوں ناراض مت رہیں۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دیں۔“

                ”مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی ندا! کہ تم اس حد تک گر جاؤ گی کہ اپنے اس بھائی کی بیٹی کے ساتھ ظلم کرو گی جس نے ہمیشہ تمہاری خواہشوں کا احترام کیا۔ تم سے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنی ہر خواہش کو تم پر قربان کر دی کیوں کہ اسے تم عزیز تھی ۔ تم اپنی خود غرضی میں سب کچھ بھول گئی۔ اس کی سب سے پیاری چیز کو ایک ایسے انسان کے حوالے کر دیا جو نشی اور دماغی طور پر بیمار ہے۔تم یہ بھی بھول گئی کہ مکافات عمل نام کی بھی کوئی چیز ہے اگر کل کو یہ سب تمہاری اپنی بیٹی کے ساتھ ہو تو کیا تم برداشت کرلو گی؟“

                ندا خاتون جو کب سے نظریں جھکائے اپنی بہن کی باتیں سُن رہی تھیں اس طرح کہنے پر تڑپ اُٹھیں۔

                ” بے فکر رہو ندا! میں تمہیں کوئی بد دُعا نہیں دے رہی۔ جس طرح میں زارا مجھے عزیز ہے اُسی طرح عائشہ اور لائبہ دونوں ہی میری بچیاں ہیں۔ اللّٰہ نہ کرے کہ کبھی تمہارے کیے کی سزا انھیں ملے اور انھیں اس تکلیف سے گزرنا پڑے جس طرح زارا کو گزرنا پڑا لیکن وقت نکال کر سوچنا ضرور!!

                کہتے کہتے ان کی سانس بھول گئی تھی۔ ندا خاتون نے اپنی بہن کی طرف دیکھا وہ سچ ہی کہہ رہی تھیں ۔ان کا خون سفید ہوگیا تھا ۔لالچ نے ان کی عقل پر پتھر رکھ دیا تھا انھوں نے اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ زیادہ کی ہوس انسان کو کیسے گمراہ کر دیتی ہے کہ انسان اپنے سارے رشتے ناتے بھلا دیتا ہے۔

                ”مجھے احساس ہو گیا ہے آپا! آپ مجھے معاف کر دیں میں اپنی غلطی سدھارنا چاہتی ہوں۔ “

                انھوں نے نم لہجے میں کہا تو حلیمہ خاتون انھیں اس شرط پر معاف کرنے پر تیار ہوگئیں کہ اگر زارا انھیں معاف کر دے گی تو وہ بھی انھیں معاف کر دیں گی کیوں کہ اصل زیادتی اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ جانے سے پہلے انھوں نے زارا سے اپنے کیے کی معافی مانگ لی تھی اور زارا نے اپنی طبیعت کے پیشِ نظر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں معاف بھی کر دیا تھا۔

                ★★★★★

                ”کہاں تھے تم ، صبح سے کوئی اتا پتا نہیں ۔موبائل بھی بند جا رہا تھا تمہارا؟“

                وہ صبح سے گھر سے نکلا رات کے اس وقت گھر آیا تھا ۔وہ بیٹے کے لیے فکر مند تھیں اسے دیکھتے ہی پوچھا۔

                ”اپنے ایک دوست کے پاس گیا ہوا زارا کی خلع کے سلسلے میں۔ بس اسی میں دیر ہوگئی!“ اس نے بتایا ۔

                ” ہاں تو کیا ہوا پھر؟“ انھوں نے استفسار کیا۔

                ” وہ کہتا ہے کچھ وقت لگے گا لیکن فیصلہ زارا کے حق میں ہی آئے گا ۔“ وہ انھیں بتانے لگا۔

                ”تم نے اس بارے میں زارا سے دوبارہ بات کی ؟“ انھوں نے ذہن میں آنے والے سوال کے پیش نظر پوچھا۔ وہ زارا سے اس بارے میں بات کر چکی تھیں اور اس نے اس کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا تھا۔

                ”وہ کافی پریشان اور اُلجھی ہوئی ہے مما لیکن ہم اُسے اس آدمی کے ساتھ تو نہیں چھوڑ سکتے نا۔ وہ بدلنے والوں میں سے نہیں ہے اگر اُس شخص کو بدلنا ہوتا تو کب کا بدل چکا ہوتا ۔“ وہ جس ملک میں رہ کر آیا تھا وہاں اس قسم کی ڈومیسٹک وائلنس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا تھا۔

                پاکستان میں بھی اس کی سزا متعین ہے لیکن بہت سے لوگ اب بھی اسے میاں بیوی کا آپسی معاملہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔



                جاری ہے......

                ...................................

                دل پہ لگے زخم

                قسط:13

                ثمرین شاہد



                ”اس میں کوئی ایک برائی تو نہیں.... نشہ کرتا ہے ، عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور کسی کو ایک بار نشے کی لت لگ جائے بہت کم ہی ہوتے ہیں جو اس سے چھٹکارہ حاصل کر پاتے ہیں۔ عورت پر ہاتھ اُٹھانا بزدل اور گھٹیا مردوں کی نشانی ہے ،اوپر سے اُسے شک کی لاعلاج بیماری ہے۔ میرا تو یہ سوچ کر ہی کلیجہ کٹ سا جاتا ہے کہ میری بچی نے یہ سب کیسے برداشت کیا ہوگا۔“

                ان کی آنکھیں ایک بار پھر سے نم ہوگئی تھیں۔ انھیں لگا تھا اتنے سالوں سے وہ ہی آزمائش میں مبتلا تھیں ان کی فیملی نے دکھ جھیلے تھے لیکن زارا کی ساتھ ہوئی خونی رشتوں کی زیادتی نے انھیں غم زدہ کر دیا تھا۔

                "مما... سنبھالیں خود کو! اگر آپ یوں ہمت ہار جائیں گی تو زارا کو کون سنبھالے گا۔ اسے آگے بہت کچھ فیس کرنا ہے۔ اُسے آپ کی محبت اور ساتھ کی ضرورت ہے۔“

                وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے لیکن کہیں نہ کہیں دونوں ماں بیٹے زارا کی اس حالت کا ذمہ دار خود کو سمجھتے تھے۔

                رات کے کھانے کے بعد زیان سیدھا ٹیرس پر آگیا۔ اوپر آنے سے پہلے وہ فہمیدہ خاتون کو چائے کے لیے کہہ چکا تھا ۔یوں ٹیرس پر آنا کم ہی ہوتا تھا مگر اس وقت اُسے ٹھنڈی ہوا اور کُھلی جگہ پر سانس لینے کی اشد ضرورت تھی تاکہ اندر کا سارا غبار ہوا میں تحلیل ہوجائے اور وہ اپنے اندر سکون اُتار سکے ۔



                جس زارا سے وہ بچپن میں ملا تھا وہ بالکل شوخ ، زندہ دل اور زندگی سے بھرپور ہوا کرتی تھی لیکن اب جیسے وہ کہیں کھو سی گئی تھی اُس کا اس قدر سنجیدہ رہنا۔ بولتے بولتے چُپ ہو جانا اور ہر وقت گُم صم رہنا زیان کو بے چین کر رہا تھا۔

                بس یہی بات تھی کہ وہ پریشان رہنے لگا تھا۔ ماموں کو کھو دینے کا غم تو تھا ہی ان کی پیاری بیٹی کی زندگی میں آئی اس خَلشِ کو وہ ٹھیک کرنا چاہتا تھا۔

                وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا آسمان پر موجود مکمل چاند اور ہر سو پھیلی روشنی کو دیکھتے ہوئے کسی خیال میں گم تھا کہ فہمیدہ خاتون نے اسے پُکارا۔



                "آسود بیٹا! آپ کی چائے۔" اس نے مڑ کر انھیں دیکھا اور آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

                ” سوری اتنی رات گئے میں نے آپ کو پریشان کر دیا۔“ وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔



                "یہ کیا بات ہوئی بیٹا! ماں کبھی اپنے بچوں کے کام کرتی تھکتی ہے!“ اُس کے اس طرح کہنے پر وہ بُرا مان گئی تھیں اور یہ سچ تھا انھوں نے زیان کو کبھی اپنی اولاد سے کم نہیں سمجھا تھا ۔انھوں نے ایک ماں کی طرح ہی اس کا خیال رکھا تھا۔



                "بہت شکریہ آنٹی! آپ ہمیشہ مجھے لاجواب کر دیتی ہیں ۔اب آپ سو جائیں! رات بہت ہوگئی ہے ۔ میں بھی کچھ دیر میں سو جاؤں گا۔ شب بخیر!“ اس نے ان کا شکریہ ادا کیا اور چائے کی کپ اپنے ہونٹوں سے لگا لی۔

                جب بھی اسے کسی قسم کی پریشانی ہوتی وہ تنہائی میں بیٹھ کر اس کا حل ڈھونڈتا تھا لیکن آج باوجود کوشش کے اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا اور اس کی بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

                آسمان پر پورا چاند ہر طرف اپنی روشنی بکھیر رہا تھا کچھ دیر یونہی کھڑا رہنے کے بعد اس نے اپنے دوست کو کال ملائی۔ اس سے بات کرکے کچھ ہلکا پھلکا ہوا تو وہ یہ سوچ کر نیچے چلا آیا کہ اب سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اُسے خلع کے کاغذات کا انتظار تھا مگر اُس کے بعد آنے والی پریشانیوں سے وہ زارا کو کیسے بچائے گا ایسے بہت سے سوالات تھے جس سے وہ چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا تھا ۔



                ★★★★★



                زارا کچن میں چائے بنا رہی تھی جب زیان پانی پینے کے لیے کچن میں داخل ہوا۔ اُسے دیکھ کر سلام کرتے وہ فریج سے جُھک کر پانی کا بوتل نکالنے لگا ۔

                زارا اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ سکتی تھی ۔ایک گہرا سانس بھرتے اس آہستہ سے سلام کا جواب دیا اور کپوں میں چائے نکالنے لگی۔ پانی کی گلاس واپس رکھتے ہوئے اُس کی خاموشی کا نوٹس لیتے اس نے خود ہی اس کا حال و احوال جاننا چاہا اور ساتھ حلیمہ خاتون کے متعلق پوچھا۔

                ”کیسی ہو؟ مما اُٹھ گئی ہیں؟"

                ”میں ٹھیک ہوں اور پھوپھو جان اپنے کمرے میں ہیں ۔“

                اُسے زارا سے لاہور میں ہوئی پہلی ملاقات یاد آئی اس کا چڑ جانا ، لڑنا اور اسے دیکھتے ہی خوف کھانا ہر چیز جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلتی محسوس ہوئی۔



                ”کیا زارا زبیر کو پسند کرتی ہے؟ “ اس نے سوچا پھر خود ہی اس کی نفی کر دی کیوں کہ اگر اس کے دل میں زبیر کے لیے کوئی خاص جذبات ہوتے تو وہ اُس سے خلع لینے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔

                اور زبیر جیسا شخص تو بالکل بھی اُس کے لائق نہیں ہے ۔ اُس انسان کو تو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ۔“

                اس نے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائے اور دل ہی دل میں سوچا۔

                "تمہیں چائے پینی ہے ؟ “

                اچانک سے پوچھے جانے پر اُس کی سوچ کے بے لگام گھوڑے رُک گئے ۔

                وہ جو دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا محو سوچ تھا سیدھا کھڑا ہوگیا سر کو جنبش دے کر زارا کے ہاتھ سے چائے کی کپ تھام لی۔ زارا ٹرے لیے کمرے کی جانب بڑھ گئی جہاں حلیمہ خاتون اس کا انتظار کر رہی تھیں ۔

                ★★★★★



                جیسے ہی خلع کے کاغذات تیار ہوکر آئے زارا نے کسی بھی قسم کے تاثرات ظاہر کیے بغیر ہی خاموشی سے اس پر دستخط کر دیے ۔

                پل میں اس کی دُنیا بدل گئی تھی وہ ایک شادی شدہ لڑکی سے طلاق یافتہ بن گئی تھی ۔اسے لوگوں کی عجیب نظروں اور طرح طرح کی سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا کیوں کہ قصور کسی کا بھی ہو دُنیا عورت کو ہی غلط کہتی ہے۔

                اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس ان چاہے رشتے کو وہ پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کر رہی تھی اس رشتے کا اختتام بھی ہوگا۔

                دوسری طرف زیان جو بچپن سے ہی زارا کو پسند کرتا تھا یہ بات اب تک سب سے پوشیدہ تھی۔ وہ اس سے دور تھا لیکن وہ کبھی اس کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی تھی۔اس نے سوچا تھا پاکستان پہنچ کے سب سے پہلے اس سے اپنے جذبات کا اظہار کرے گا پھر حلیمہ خاتون سے بات کرے گا لیکن یہاں پہنچ کر جب اسے زارا کی شادی کا علم ہوا تو اسے شاک لگا پر اس نے خود کو سنبھال لیا تھا کیوں کہ اسے زارا کی خوشی عزیز تھی اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ زارا کی شادی ٹوٹ جائے اب جب ایسا ہوا تھا تو اسے چین نہیں مل رہا تھا ۔اس لیے زیان لاہور چلا گیا اور وہاں خود کو کام میں مصروف کرلیا تھا ۔ وہ جب بھی فارغ ہوتا اپنی مما کو فون کرکے ان کی طبعیت اور زارا کے بارے میں پوچھ لیتا تھا۔ جیسے تیسے دن گزر رہے تھے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا مگر اب بھی اُسے زارا کو لے کر پریشانی لگی رہتی تھی۔

                پورے چار ماہ بعد وہ کراچی واپس لوٹنے والا تھا اور اُس نے جیسے ہی اپنے آنے کی خبر حلیمہ خاتون کو دی وہ خوشی سے کھل اُٹھی تھیں لیکن اس نے انھیں نہیں بتایا تھا کہ وہ آج ہی پہنچنے والا ہے۔

                اسے اپنے پہلے کیس میں ہی بڑی زبردست کامیابی ملی تھی اُس کے بعد بھی وہ چند کیسز لڑ چکا تھا ۔ وہ پہلے ہی کراچی لوٹ جاتا مگر وہ زارا کی عدت پوری ہونے کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ وہ اس سے مل کر بات کرنا چاہتا تھا۔

                زارا اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی جب حلیمہ خاتون نے دروازے پر دستک دی ۔

                زارا نے انھیں دیکھ کر ہاتھ میں پکڑی کتاب سامنے میز پر رکھ دی۔

                السلام علیکم... پھوپھو جان!

                "آپ وہاں کیوں کھڑی ہیں ، پلیز اندر آئیں ۔" اس نے کہا تو حلیمہ خاتون اندر چلی آئیں ۔جواب دے کر وہ اس کے قریب آکر بیٹھ گئی تھیں ۔

                "میں اب بالکل ٹھیک ہوں بس کل ذرا سر میں درد تھا اس لیے آرام کر رہی تھی اور صبح بھی میری آنکھ زرا دیر سے کھلی ، فہمیدہ کہہ رہی تھی کہ تم مجھ سے ملنے میرے کمرے میں آئی تھی ؟"

                ”جی....بس آپ کے پاس بیٹھنے کا دل کیا تو سوچا آپ کے پاس چلی آؤ ۔“ اس نے انھیں بتایا ۔



                ”آج میرے ساتھ باہر چلو ، تمہیں اچھا لگے گا اتنے دنوں سے یوں گھر میں بیٹھی بور ہوگئی ہوگی ۔“

                انھوں نے کہا تو وہ بس خاموشی سے سر ہلا کر رہ گئی۔

                شام میں وہ اسے شاپنگ پر لے کر گئی تھیں اور وہاں حلیمہ خاتون کے اصرار کرنے پر زارا کو مجبورًا دو چار ڈریس اپنے لیے لینے پڑے تھے۔

                دو تین گھنٹے لگے تب جاکے وہ دونوں بہت سی چیزیں لینے میں کامیاب ہوئی تھیں ۔

                گھر پہنچ کر وہ دونوں باتیں کرتیں راہ داری سے چلتیں لاؤنج میں داخل ہوئیں تو سامنے زیان کو دیکھ کر حیران رہ گئیں وہ صوفے پر ایک ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مسکراتے ہوئے ملک صاحب سے بات کر رہا تھا۔

                ” لو یہ دونوں بھی آ گئیں!“

                ملک صاحب کی ان پر نظر پڑی تو انھوں نے کہا۔ زیان بھی انھیں دیکھ کر مسکرانے لگا پھر اُٹھ کر سلام کرتا حلیمہ خاتون کے گلے لگ گیا۔

                ”کیسی ہیں مما؟“ اس نے ان سے الگ ہوتے ہی پوچھا۔

                ” میں تو بالکل ٹھیک ہوں زیان! لیکن تم تو کل آنے والے تھے نا ؟“

                اسے یہاں اچانک دیکھ کر انھیں خوشی ہوئی تھی اور وہ حیران بھی تھیں کیوں کہ اس نے انھیں نہیں بتایا تھا کہ وہ آج ہی آ جائے گا۔

                ” میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا مما! کیا آپ کو اچھا نہیں لگا؟“ اس نے الٹا استفسار کیا۔ ماں کے پوچھنے پر اس کا پہلی والی ساری گرم جوشی مانند پڑ گئی تھی۔

                ” تمہیں یہاں دیکھ کر میں خوش نہیں ہوں گی؟ لیکن تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا میں تمہارے لیے کچھ خاص بناتی۔“ انھوں نے افسردگی سے کہا۔

                ” کھانا تو ہم آج باہر کھائیں گے، کیوں زارا؟“

                اس نے زارا جو مخاطب کیا تو اس نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

                " ٹھیک ہے میری جان!“

                حلیمہ خاتون اس کے گال تھپکتے ہوئے بولیں تو وہ کھل کر مسکرایا۔

                ”ہیلو زارا! کیسی ہو تم ؟“ وہ اس کی طرف بڑھا تھا ۔زارا حلیمہ خاتون کے پیچھے شاپنگ بیگ لیے کھڑی دونوں ماں بیٹے کے مابین ہونے والی گفتگو سن رہی تھی۔



                ” ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟“

                ” میں بالکل ٹھیک ٹھاک!“ اس نے پر مسرت انداز میں بتایا۔

                "ارے..... میں بھی یہیں کھڑا ہوں۔ تم ماں بیٹے کا میل ملاپ ہوگیا ہو تو کوئی مجھے بھی پوچھ لے۔“

                ملک صاحب خود کو نظر انداز ہوتا دیکھ انھیں یاد دلانے لگے تو سب کی ہنسی چوٹ گئی۔

                ملک ہاؤس کی در و دیوار میں ہنسی گونج رہی تھی ایسا لگتا تھا بہت عرصے بعد اس گھر کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔

                ★★★★★



                زیان باغیچے میں کھڑا پھولوں کی تراش خراش میں مالی بابا کی مدد کر رہا تھا۔وہ چلتی ہوئی اس تک آئی اور اس کی جانب چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا۔

                "تمہاری چائے؟“

                ” بہت شکریہ! مجھے یوں روز اچھی چائے پلانے کے لیے۔“ اُسے یہاں دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرایا اور اس کے ہاتھ سے چائے کی کپ لیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور چائے کی سپ بھرنے لگا۔

                ”زارا!“ وہ جانے کے لیے پلٹی تو اس نے اسے پکارا تو اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی اور دیکھا۔

                ”اگر تمہیں کوئی بھی پریشانی ہے تو مجھ سے مت چھپانا۔ تم بلا جھجھک مجھ سے بات کر سکتی ہو۔“

                اس نے زارا کی خاموشی کا نوٹس لیتے ہوئے اُسے اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔

                ”مجھے کوئی پریشانی کیوں ہوگی زیان؟“ وہ اس کے استفسار پر حیران ہوئی۔ وہ زبیر کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان کبھی ایسا کچھ تھا ہی نہیں جسے یاد کیا جاسکے۔

                ” تم اتنی خاموش کیوں ہوگئی ہو ؟“ اس نے چائے کی خالی کپ کو آگے بڑھ کر چار فٹ اونچی دیوار پر رکھا جو وہاں حال ہی میں اٹھائی گئی تھی۔

                ” مجھے خاموش رہنا اچھا لگتا ہے۔“ اس نے نارمل انداز میں بتایا۔

                ” پہلے تو تم ایسی نہیں تھی ۔ بچپن میں کوئی بمشکل ہی تمہیں چپ کروا سکتا تھا۔ وہ زارا کہیں کھو گئی ہے۔ میں اُسے مس کرتا ہوں۔ “

                اس نے ماضی میں جھانکتے ہوئے ہنستی مسکراتی زارا کو تصور میں لاتے ہوئے کہا۔

                ” وقت ایک سا نہیں رہتا زیان۔ وہ وقت بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ ان سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور شاید میں بھی۔ مجھے کبھی اپنی نظروں سے دور نہ کرنے والے بابا خود مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔“ اس نے اداسی سے کہا تو اس کے لہجے میں بسی اداسی نے زیان کے اندر دھواں سا بھر دیا۔

                ” سوری زارا... میں تمہیں دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔“ وہ بولتے بولتے رک گیا تاکہ اس کے تاثرات دیکھ سکے۔پر اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔

                ” میں خوش ہوں زیان! جو کچھ بھی ہوا میری قسمت میں لکھا تھا اس میں تمہارا یا پھوپھو جان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس لیے تم دونوں سوری نہ کیا کرو مجھ سے۔“

                وہ اپنی بات مکمل کرکے جا چکی تھی اور زیان سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا اسے زارا کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہئیں یا مزید انتظار کرنا چاہیے۔

                ان کے درمیان پھر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ اسے وقت دینا چاہتا تھا۔ زارا نے حلیمہ خاتون کے کہنے پر دوبارہ سے پڑھائی شروع کر دی تھی اور زیان اپنے کام میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ گھر آتے آتے بھی اسے رات ہو جاتی تھی۔

                وہ روز ناشتہ کیے بغیر ہی آفس کے لیے نکل جاتا اور رات دیر سے گھر واپس لوٹتا ۔آج اتوار تھا اور اس کی چھٹی تھی اسی لیے ناشتے کی ٹیبل پر سبھی ایک ساتھ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔

                ” ندا کا فون آیا تھا۔ کل سے عائشہ کی شادی کی تقریبات شروع ہو جائیں گی۔“ کل رات انھیں ندا خاتون کا فون آیا تھا اور وہ چاہتی تھیں کہ عائشہ کو وہ اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں۔

                ”زیان ہوسکے تو کچھ دنوں کے لیے اپنے کام سے چھٹی لے لو۔“ وہ زیان سے مخاطب ہوئیں ۔

                ” لیکن میرا جانا ضروری ہے کیا؟ “

                وہ جوس کا گلاس خالی کرتے ہوئے بولا۔

                ” ضروری ہے تبھی کہہ رہی ہوں کچھ دنوں کی چھٹی لے لو تم! اور مجھے کچھ نہیں سننا۔ کل ہم ندا کی طرف چل رہے ہیں۔ اس لیے نو مور ایسکیوزز۔“ انھوں نے غصے میں کہتے بات ہی ختم کر دی وہ چپ ہوگیا۔

                ”ایسے موقعے بار بار کہاں آتے ہیں۔ چلو مزہ آئے گا۔“ ملک نواز نیپکِن سے ہاتھ پونچھتے ہوئے بولے تو اس نے سر ہلا دیا۔

                ” اور تم اپنی روٹین ٹھیک کرو۔“ وہ اس کی پچھلے ایک ہفتے کی معمول کو دیکھ کر واقعی پریشان تھیں زیان صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور رات گئے واپس لوٹنا جب سب سُو چکے ہوتے۔ نہ ٹھیک سے کھاتا تھا۔ انھوں نے ناراضی سے کہا۔

                ” سوری مما! مجھے کسی کیس کے سلسلے میں ایسا کرنا پڑا۔ خیر اب سے میں جلدی آیا کروں گا پرامس.... ٹھیک ہے ۔"

                وہ انھیں جانچتی نظروں سے دیکھنے لگا آیا وہ اب بھی ناراض ہیں یا نہیں۔

                ” چلو اب اپنا کھانا ختم کرو۔“ انھوں نے کہا تو دل نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی پلیٹ خالی کرنے لگا کیونکہ انھیں دوبارہ ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

                دوسرے دن وہ سب جب وہاں پہنچے تو ان کا کھلے دل سے استقبال کیا گیا۔

                زیان اور زارا کو یہاں دیکھ کر لائبہ اور ظفر کا خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔ وہ دونوں ہی انھیں پسند تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سبھی اپنی اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔ کوئی پارلر تو کوئی مارکیٹ جاکر اپنی ضرورت کی اشیاء خرید رہا تھا۔

                جب شام ہوئی تو مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا زارا کی ضد پر عائشہ کا نکاح عباس وِلا میں ہو رہا تھا۔عائشہ خود بھی یہی چاہتی تھی آج عائشہ بھی ان دونوں سے بہت گرم جوشی سے ملی تھی۔

                لان کو رنگ برنگے برقی قمقوں سے سجایا گیا ان کی روشنی میں پورا عباس ویلا جگمگا رہا تھا اور سارے انتظامات نعیم صاحب اور زیان نے اپنی نگرانی میں کروائے تھے ۔

                سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے ان میں زارا بھی شامل تھی۔ عائشہ کو اس نے ہمیشہ اپنی بہن مانا تھا اور آج اس کی زندگی کا خوبصورت دن تھا۔ وہ اس کے لیے خوش تھی۔

                زیان کچھ فاصلے پر کھڑا کسی سے بات کر رہا تھا جب اس کی نظر زارا پر پڑی ۔اسے یوں مسکراتا دیکھ کر وہ بہت خوش تھا۔

                وہ ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا محویت سے زارا کو دیکھ رہا تھا جو کچھ فاصلے پر کھڑی لڑکیوں کے ساتھ کام کروا رہی تھی۔ وہ بلاشبہ ہنستی ہوئی بہت پیاری لگتی تھی۔

                ” کاش یہ مسکراہٹ یونہی تمہارے چہرے پر زینت بنی رہے ۔“ اس نے دل سے دعا کی ۔ لڑکے والوں کی آمد کا شور پھیلا تو وہ ان کے استقبال کے لیے ان کی جانب بڑھ گیا۔

                کھانے کے بعد کافی شور شرابا مستی مذاق کا سلسلہ جاری رہا پھر دھیرے دھیرے سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ چند رشتے دار ان کے گھر پر ہی ٹھہرے تھے ۔ جن میں ملک فیملی بھی شامل تھی ۔

                ★★★★★

                جاری ہے۔۔۔۔۔۔

                ..................................

                دل پہ لگے زخم

                ثمرین شاہد

                آخری قسط



                دوسرے دن کا آغاز افراتفری میں ہوا تھا ۔ہر کوئی ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ کوئی اپنے کپڑوں کے لیے پریشان تھا تو کسی کو اپنے میچنگ جیولری کی فکر تھی اور کسی کو مہمانوں کے اچھے سے استقبال کی فکر نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا۔زارا اور نمرہ سب کے لیے چائے بنا کر لاونج میں آئیں تو ہر کوئی اپنی فکر کا کھاتہ کھولے گم صم نظر آیا انھوں نے سب کو چائے تھمائی تاکہ سب کی تھکاوٹ اتر جائے۔

                بچّوں نے اسکول اور کالج سے پہلے ہی چٹھیاں لے لی تھیں اور دونوں اُٹھتے ہی زیان سے باہر گھومنے کی ضد کر رہے تھے۔ اُن کے ساتھ ان کے کزن بھی تھے۔ ندا نعیم کی ڈانٹ کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان کی مستقل مزاجی دیکھ کر زیان نے حامی بھرلی اور انھیں تیار ہونے کا کہہ کر خود بھی وہاں سے اٹھ گیا۔

                ”زیان... تمہیں انھیں منع کر دینا تھا! پہلے ہی تم اتنا سب کچھ دیکھ رہے ہو ، تھکے ہوئے ہو۔ “ ندا خاتون نے زیان کے تھکاوٹ زدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔

                "ارے خالہ جان! پلیز غصّہ نہ کریں۔ ہم جلدی لوٹ آئیں گے اور پھر میں چلا جاؤں گا تو بچّوں کو کہاں موقع ملے گا۔“ اس نے ان کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی اور بچوں کو لیے باہر چلا گیا۔ وہ لوگ ساحل سمندر پر کچھ وقت گزارنے کے بعد کھانا کھا کر لوٹے تھے لیکن اس میں بھی آدھا دن گزر گیا تھا۔

                زیان جیسے ہی اندر داخل ہوا حلیمہ خاتون نے پکارا۔

                ” آگئے تم! کافی دیر لگا دی تم لوگوں نے ؟"

                " جی مما! گھومتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ ہم نے دوپہر کا کھانا باہر ریسٹورنٹ میں ہی کھالیا ہے۔ آپ بتائیں کیا ہو رہا ہے؟“

                وہ ان کے برابر میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاکر بیٹھتے ہوئے بولا اور اپنا سر صوفے کی پُشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔

                ” نیند آرہی ہے تو سو جاؤ!“ انھوں نے اسے ٹیگ لگائے دیکھ کر کہا۔

                ” میں ٹھیک ہوں مما! “ اس نے آنکھیں بند کیے جواب دیا تو حلیمہ خاتون اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔

                ” اچھا سنو! تم نمرہ اور زارا کو پارلر لے جاؤ گے یا تمہارے ڈیڈ کو بول دوں؟“ ان کے پوچھنے پر اس نے آنکھیں کھول کر ان کی جانب دیکھا۔

                ” ڈیڈ کو رہنے دیں ۔میں لے جاؤں گا۔“ وہ سیدھا ہوکر بیٹھتے ہوئے بولا۔

                ”ٹھیک ہے میں انھیں تیار ہونے کا کہہ دیتی ہوں۔“ حلیمہ خاتون کہتی ہوئیں لاؤنج سے نکل گئیں۔

                وہ انھیں پارلر چھوڑ کر گھر واپس آگیا تھا ۔کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شاور لے کر وہ فریش ہونا چاہتا تھا ۔

                ہال پہنچتے پہنچتے بھی اندھیرا پھیل گیا تھا ۔ سب زرق برق سے تیار باراتیوں کا انتظار کر رہے تھے۔

                زارا اور نمرہ تھوڑی دیر پہلے ہی پارلر سے سیدھا وہیں پہنچی تھیں۔ انھیں لینے نعیم صاحب گئے تھے ۔وہ دونوں بھی باقی لڑکیوں کے ساتھ مہمانوں کے استقبال کےلیے پھول کی پتیاں لیے داخلی راستے پر کھڑی ہوگئی تھیں۔

                بڑی دھوم دھام اور شور شرابے کے ساتھ لڑکے والے آئے پھر سب سے ملنے ملانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اسٹیج پر بیٹھی عائشہ سُرخ رنگ کے عروسی لباس اور مہارت سے کیے گئے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔

                زارا حلیمہ خاتون کے ساتھ کھڑی تھی لڑکے والے کی طرف سے آئے مہمانوں سے مل رہی تھی۔

                "یہ کون ہے ،انھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا؟“

                فاروق کی والدہ کے ساتھ کھڑی ایک عورت نے پوچھا۔

                ”یہ عائشہ کی خالہ جان ہیں۔“ وہ ان سے چند دنوں پہلے ہی ملی تھیں۔

                ” ان کے ساتھ زارا ہے ، ندا کی بھتیجی۔“ وہ انھیں زارا کے بارے میں بتا رہی تھیں۔

                ” کتنی پیاری بچی ہے نا؟“ عائشہ کی ساس نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی خوبصورتی کو سراہا۔

                ” جی جانتی ہوں اسے۔ مل چکی اس سے۔ میں نے سنا ہے اسے طلاق ہوگئی ہے ۔“ اس عورت کی بات سن کر فاروق کی والدہ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔

                حلیمہ خاتون وہیں کھڑی سب سن رہی تھیں۔ پھر زارا کی طرف دیکھا جس کا چہرہ یکدم بجھ سا گیا تھا ۔

                ”تو کیا لوگ اب زارا کے متعلق بات کرنے لگے ہیں ۔

                انھوں نے دل میں سوچا پھر خود کو سنبھالتے ہوئے اس کی طرف آئیں۔

                ” آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟“ وہ اس عورت سے مخاطب ہوئیں۔

                ”ارے بہن ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں‘ اتنی کم عمری میں ایسا حادثہ تو انسان کو توڑ دیتا ہے پھر طلاق جس بھی وجہ سے ہوئی ہو ایک طلاق یافتہ عورت کو معاشرہ اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتا اور اگر کوئی اس پر ترس کھا بھی لے تو اسے وہ حیثیت نہیں ملتی جو باقی لڑکیوں کو ملتی ہے ۔میری کزن کی بیٹی کے ساتھ بھی یہی سب ہوا۔ “

                اس عورت نے بولنا شروع کیا تو بولتی ہی چلی گئی۔ یہ بھی ایک سچ تھا معاشرے کی تلخ رویوں کا بوجھ کسی عورت کا مقدر بنتا ہے تو وہ راکھ ہو جاتی ہے ۔ یہ سوچ کر ان کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔

                ” آپ فکر مت کریں۔ میری زارا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ بہت اچھی بچی ہے اور مجھے یقین ہے میرا رب اس کے ساتھ اور کچھ بُرا نہیں کرے گا۔“

                انھوں نے بگڑے تنفس کو بحال کرتے جبرا مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔

                عائشہ کے رخصتی اور وہاں سے لوٹتے تک بھی ان کے دماغ میں ان عورتوں کی باتیں چل رہی تھیں۔



                ★★★★★



                ”تم نے پھوپھو جان کو منع کیوں نہیں کیا؟ “

                وہ ٹیرس پر کھڑا اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا جب زارا اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچی ۔وہ اس کی آواز سن کر پلٹا۔ وہ رات کے اس وقت اُس کے سامنے کھڑی کافی غصے میں لگ رہی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے ان کا سامنا نہیں ہوا تھا وہ اپنے کام میں مصروف تھا اور وہ پڑھائی کا کہہ کے کمرے میں ہی گھسی رہتی تھی۔ اس نے کئی بار اس سے بات کرنے کا ارادہ کیا لیکن ہر بار اپنی سوچ کی نفی کر دی۔

                "کس بات سے؟“

                رات کے اس وقت اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ اس سے بڑھ کر حیرانی اس کی بات سن کر ہوئی تھی۔وہ کس حوالے سے بات کر رہی تھی۔



                ” تم اچھی طرح جانتے ہو ۔میں کیا پوچھ رہی ہوں زیان۔“ اس کی آنکھوں میں غصہ تھا۔وہ سمجھ گیا تھا وہ کس بارے میں پوچھ رہی ہے ۔عائشہ کے رخصتی سے واپس آنے کے بعد حلیمہ خاتون نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اور زارا دونوں ایک ہو جائیں اور اس بارے میں وہ اس سے بات کر چکی تھی۔ اس نے ہمیشہ سے زارا کو ہی چاہا تھا پھر انکار کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی لیکن سب سے بڑا مسئلہ زارا کی رضا مندی تھی۔ کیوں کہ وہ ایک ٹراما سے گزری تھی لیکن پرسوں ہی اسے حلیمہ خاتون نے بتایا تھا کہ زارا نے شادی کے لیے ہاں کر دی ہے۔

                ”تو تم کر دیتی!“

                وہ اس سے اس بے وقوفی کی امید نہیں رکھتا تھا۔اس لیے پُر سکون انداز میں بولا۔

                ” تم جانتے ہو میں پھوپھو کو منع نہیں کرسکتی تھی۔“وہ اپنا ہاتھ مسلتی ہوئے بولی۔ حلیمہ خاتون نے اپنے دل کی بات اس سے شیئر کی تھی اور فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا۔ اس نے بہت سوچا لیکن پھر بھی انھیں انکار نہ کرسکی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے وہ اندر ہی اندر زیان کے اقرار سے غصہ تھی۔ اسے لگتا تھا کہ زیان اس پر ترس کھا رہا ہے تبھی ہر طرح سے قابل ہونے کے باوجود اُس سے شادی کر رہا ہے اور اسی لیے وہ رات کے اس وقت ٹیرس پر کھڑی اس سے سوال جواب کر رہی تھی۔

                ” تم میری وجہ سے اپنی زندگی کیوں برباد کر رہے ہو زیان؟ تمہیں کوئی بھی لڑکی مل سکتی ہے پھر میرے لیے ہاں کرنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں۔“ اسے پر سکون دیکھ کر وہ تقریباً چلائی تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ ہاں کر بھی دے تو کیا ہوا زیان کی مرضی کے بغیر تو شادی نہیں ہوگی نا۔

                ”تمہیں کس نے کہا کہ میں اپنی زندگی برباد کر رہا ہوں؟“ اس کا انداز نارمل تھا۔ وہ تحمل سے اس سے پوچھ رہا تھا۔

                ” لیکن مجھ پر ترس کھا رہے ہو؟“ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی تھی۔

                ”تم...... تمہیں پتہ ہے تمہاری پروبلم کیا ہے؟

                تم احساس کمتری کا شکار ہو‘

                تمہیں لگتا ہے دنیا کا ہر انسان تم سے اچھا ہے اور تم خود کو حقیر سمجھتی ہو.....ایک بے چاری لڑکی!

                تبھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں تم سے ہمدردی کر رہا ہوں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ سچ بتاؤں تو تم سے خوبصورت لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ آج کے اس دور میں ایسا کون ہے جو خود سے پہلے دوسروں کا سوچتا ہے۔ خود چاہے تم جتنی بھی تکلیف میں ہو لیکن دوسروں کی تکلیف تم سے دیکھی نہیں جاتی ہے۔“

                وہ اُس کی بات سُن کر حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

                زیان نے آگے بڑھ کے اس کے نازک ہاتھوں کو تھام لیا۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھری رہی۔

                ”میں نے تمہیں کسی کی دباؤ میں آکر اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا ہے زارا بلکہ اپنی مرضی سے تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔“

                اُس نے اس کا جُھکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی جانب کیا اور اس کے آنسو صاف کرتے بولا۔

                ” تم نے جتنا رونا تھا تم نے رو لیا لیکن اب میں تمہیں روتا نہ دیکھوں۔ ماضی کو ہم بدل نہیں سکتے مگر اپنے حال کو بہتر بنانا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔تم نے جو کچھ سہا اس کا ازالہ بہت مشکل ہے لیکن جو زخم تمہارے دل پر لگے ہیں میں اپنی محبت سے اسے بھرنا چاہتا ہوں۔ تمہارے ساتھ اپنی زندگی کی آخری سانس تک جینا چاہتا ہوں۔ کیا تمہیں اب بھی لگتا ہے مجھے تم سے ہمدردی ہے؟ “ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔

                ”چاہو تو تم مجھ سے وعدہ لے لو۔ زندگی کے کسی موڑ پر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔“ وہ پرت در پرت اس پر کھل رہا ہے اور وہ بے یقینی میں گھری اس کی باتیں سن رہی تھی۔

                ” ایسی بات نہیں ہے۔“ اُس نے آہستگی سے کہا۔

                ” تو تم پھر الٹے سیدھے خیال اپنے دماغ سے نکال دو۔ جاؤ جاکر سو جاؤ رات بہت ہوگئی ہے۔“ اس نے کہا تو وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ زیان سے بات کرکے اس کی ساری غلط فہمیاں دور ہوگئی تھیں لیکن اس کے ساتھ ایک نئے رشتے میں بندھنے سے وہ ہچکچا رہی تھی۔

                وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے انکار کرنے پر دونوں ماں بیٹے پیچھے ہٹ جائیں گے پر کبھی نہ کبھی تو اسے ایک نئے رشتے میں بندھنے کو کہا جاتا اور اگر پھر سے کسی زبیر جیسے شخص کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ کیا کرتی اس لیے اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی اور اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔

                ★★★★★



                کچھ مہینوں بعد.....



                ” اور کتنا ٹائم لگے گا؟“ اسے چوڑیاں پہنتے دیکھ کر زیان نے اس سے سوال کیا۔ اُن کی بارہ بجے کی فلائٹ تھی۔ زیان کا پوچھنا تھا کہ زارا نے اسے گھوری سے نوازا۔ وہ پچھلے تیس منٹ سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بال بنانے میں مصروف تھا اور اپنا کام ختم ہوتے ہی اسے وقت کے نکلنے کا احساس دلا رہا تھا۔

                ” اب ایسے کیوں دیکھ رہی ہو یار۔ ہمیں نکلنا ہے۔ رستے میں بہت ٹریفک ہوگا۔“ زارا کو خود کو یوں گھورتے دیکھ کر اس نے اپنا دفاع کیا تو وہ بے ساختہ مسکرائی۔ زیان نے اسے اپنی شریک حیات کے روپ میں قبول کیا تھا تب سے وہ اس کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کا خیال رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ رہتے تو جیسے مسکراہٹ اس کے لبوں کی زینت بن گئی تھی۔

                جب وہ دونوں تیار ہوکر نیچے آئے تو حلیمہ خاتون اور ملک صاحب کو اپنا منتظر پایا۔

                وہ دونوں انھیں ائیر پورٹ چھوڑنے جانے والے تھے۔ زارا کے سمسٹر شروع ہونے میں وقت تھا اور زیان کو انھوں نے زبردستی چھٹی دلا دی تھی تاکہ وہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار سکیں اسی لیے شادی کے دو ماہ بعد وہ دونوں ایک ساتھ امریکہ جا رہے تھے۔

                ٹریفک سے نکلتے ہوئے وہ چاروں ائیر پورٹ پہنچے تو فلائٹ میں بیٹھنے سے پہلے بہت ساری دعاؤں اور نصیحتوں کے درمیان حلیمہ خاتون سے گلے ملتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا لیکن اتنے کم عرصے میں حلیمہ پھوپھو سے جتنی محبت ملی تھی ان سے دور جاتے ہوئے اس کا احساس ہو رہا تھا۔

                ” ساری محبت تم ہی لے لو گی یا اپنی ماں سے مجھے بھی ملنے دو گی۔“ زارا کو جذباتی ہوتا دیکھ کر زیان نے منہ پھلائے کہا تو وہ شرمندہ سی ان سے الگ ہوتے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔

                ” پورے ڈرامہ ہو تم زیان! “ حلیمہ خاتون نے اس کے کان کھینچتے ہوئے کہا تو اس نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔

                ” ہاں تو جب سے آئی ہے آپ پر پورا کا پورا قبضہ کرلیا ہے۔ تھوڑی بہت محبت میری لیے بھی چھوڑ دینا تھا نا اسے۔“

                اس کی بات سن کر حلیمہ خاتون کے ساتھ ملک صاحب بھی بیٹے کی نوٹنکی کو داد دی تھی اور زارا مسکراتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ زیان اس کی زندگی میں آزمائش کے بعد ملنے والا اللّہ کی طرف سے وہ تحفہ تھا جس کا شکر ادا کرتے اُسے اللّہ پر بہت پیار آتا تھا۔اس کے سارے زخم دھیرے دھیرے مٹتے جا رہے تھے کیوں کہ اسے ایک مہربان ساتھی سے نوازا گیا تھا۔



                ختم شدہ​

                Comment


                • #48
                  بہت کمال کا ناول ہے
                  مزہ آیا پڑھ کر

                  Comment


                  • #49
                    بہترین اور لاجوب کہانی ہے۔۔۔ایسی کہانی
                    جو واقعی میں دل کو چھو جاۓ۔۔۔۔

                    Comment


                    • #50
                      بہت اچھی اسٹوری تھی جناب شکریہ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X