Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    ایک کالو اور چار پنجاب مٹیاریں ۔۔ بہت مزہ۔ آے گا

    Comment


    • #72
      میں صبح اٹھا دودھ دوہ کر رکھا تو بہزاد آگیا بہزاد دودھ کے کر چلا گیا میں مایوس سا ہو گیا میں سوچ رہا تھا کہ میں دودھ دینے جاؤں گا تو آنٹی رفعت سے مل بھی لوں گا میرا رات کا پروگرام بھی ٹھپ ہو گیا تھا بہزاد کی وجہ سے میں چپ کرکے کام کرنے لگا دل ہی دل میں بہزاد پر غصہ بھی تھا اس کے ہوتے ہوئے اس کی ماں بہنوں سے ملنا مشکل تھا میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ گھنٹے ڈیڑھ بعد گیٹ کھلا اور بہزاد اور اس کی بہن نصرت اندر آگئیں میں نصرت کو دیکھ کر چونک گیا ڈیرہ گاؤں سے تھوڑا باہر تھا اس لیے بائیک پر ہی وہ لوگ آتے تھے نصرت نے چادر میں خود کو ڈھانپ رکھا تھا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی وہ پرانے سے کام کرنے والے کپڑوں میں تھی نصرت کے ہاتھ میں کھانا بھی تھا بہزاد قریب آیا اور مجھے کھانا پکڑا کر بولا کالو کھانا کھا لئے میں ہاتھ دو کر کھانا کھانے لگا بہزاد پاس ہی بیٹھ گیا نصرت دور ڈنگروں کو دیکھ رہی تھی وہ ڈنگروں میں بے جھجھک پھر کر چیک کر رہی تھی میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا ورنہ لڑکیاں تو دور سے ڈنگر دیکھ لے تو ڈر کے مارے بھاگ جاتی تھیں بہزاد مجھے حیرانی سے نصرت کو دیکھتا پا کر بولا کالو کی ویکھ رہیا آہیں میناس بات چونک کر ڈر سا گیا بہزاد ہنس دیا اور بولا کالو انج پچھیا اے مینوں پتا ہے تیرا امی تیرے بارے سارا کجھ دس دتا اے تیرے ابے نال امی اوراں دی بھائی بہن دا رشتہ ہے اے تے چنگا ہویا کہ توں اپنا بندہ نکلیا ایں تیرے ابے تے میرے ابے دا بڑا اچھا وقت نبھیا اے دونوں بھائی بنے ہوئے ہانڑ تے ہنڑ توں وی اے اپنا گھر سمجھنا اے کسی قسم دی کوئی پریشانی نہیں لینی میں بہزاد کی بات کر بولا جی ٹھیک اے میں دل میں ہنس گیا کہ آنٹی اور ابا جس طرح کے بہن بھائی تھے مجھے پتا ہے بہزاد بولا کالو آگے ہنڑ تک اساں بندہ کوئی نہیں رکھیا ڈیرے دا سارا کم امی تے نصرت تے میں مل کے سنبھالیا ہویا ہا امی تے نصرت باڑے دا کم کر لیندیاں ہانڑ تے میں زمین دا کردا ہاس نصرت کافی عرصے تو ڈنگراں اچ رہ رہی اے اس توں اس دا ڈر لتھا ہویا اے میں مسکرا کر بولا میں وی اے ہی ویکھ رہیا ہاس کہ باجی بے جھجھک پھر رہی ہے نہیں تے اہناں دی تے جان جاندی اے بہزاد بھی ہنس دیا اور بولا نکے ہوندیاں تو نصرت امی نال مل کے ڈنگراں دے کم کر رہی اے اے سارے کم کر لیندی اے میں ہنس دیا اور ایک نظر نصرت کو دیکھا تو نصرت بالکل دہیاتی لڑکیوں کی طرح سادہ سی لڑکی تھی کوئی خاص فیشن نہیں کرتی تھی نصرت کا رنگ قدرتی ہی گورا تھا میں کھانا کھا کر برتن رکھے تو بہزاد بولا کالو نصرت کم کرن ہلی ہوئی اے جدو دا توں کم سنبھالیا اے اے ویلی ہو گئی اے تے تینوں پتا کم کرن آلا بندہ وہلا ہو جاوے تے بعد ہوجاندا اس تو اگر تینوں اعتراض ناں ہووے تے اے ڈیرے تے آ کے کجھ کم شم کر سگدی اے میں مسکرا کر بولا مینوں کی اعتراض ہونا ڈیرہ تھواڈا اپنا اے میں تے ملازم ہاں بہزاد ہنس کر بولا نہیں کالو توں ملازم نہیں توں اس نوں اپنا ڈیرہ ہی سمجھ تیرے ساڈے وچ نوکر مالک آلی گل نہیں ہونی چاہیدی امی سختی نال مینوں آکھیا اے کہ توں اسدے بھرا دا پتر ہیں سکا نا سہی پر وقت چنگا گزریا ہویا اے اوہناں دا توں مصلی ہیں تے کی ہویا بندے دا حیا ہوندا اے تے تیرے آلوں کوئی شکائیت نا ملے میں اس توں پچھ رہیا کہ توں اے ناں سمجھیں کہ باجی اس تیرے دھیان واسطے ڈیرے تے آندی کہ توں کوئی نقصان نا کریں میں اس بات پر ہنس دیا اور بولا بھائی ابے وی مینوں اے ہی گل کیتی ہا کہ اے گھر انج ہی سمجھ جیویں تیرا اپنا اے تے کوئی شکائیت نا ملے اس واسطے تسی بے فکر ہوجاؤ شکائیت ناں ملسی باقی باجی نصرت دا جیویں دل کرے او کرے تے کم دی فکر نا کرو میں اس تو کم نہیں کرویندا بہزاد ہنس دیا اور بولا نہیں کالو کم دی اس نوں فکر نہیں او آگے وی کردی آئی اے اتنے میں نصرت بھی ہماری طرف آگئی اور بہزاد کی بات سن کر بولی بھائی اس نوں دس میں ایتھے باڑے دا کم کر کر کے ہی وڈی ہوئی ہاں بہزاد بولا میں اوہ ہی دس رہیا آں نصرت قریب آگئی اور بہزاد کے پیچھے کھڑی ہوکر مجھے گہری آنکھیں بھر کر دیکھا اور مسکرا کر بولی کالو میں وی ایتھے ہی ہوناں اے تینوں کوئی پریشانی تے نا ہوسی میرے ایتھے ہونڑ نال میں بولا نہیں باجی تھواڈا اپنا ڈیرہ اے تسی جیویں مرضی آؤ جاؤ نصرت کی گہری آنکھیں مجھے ہی غور رہی تھیں میں نصرت کو دیکھ کر نصرت کی گہری آنکھوں کی تاب نہیں لا پا رہا تھا نصرت کے چہرے کا گورا رنگ جسم ہلکا سا بھرا ہوا نصرت کی گالیں ہلکے سے ماس سے بھری ہوئی بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھیں نصرت مستی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں نے اسے اپنے اپنے میں دیکھ کر نیچے دیکھا تو بہزاد موبائل میں گم تھا میں نے نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو وہ مسکرا دی میں بھی مسکراتا مسکراتا رک گیا اور بہزاد کو دیکھا جو وہیں موبائل میں گم تھا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میں کھانا کھا چکا تھا بہزاد بولا کالو کھانا کھا لیا ہے میں بولا جی بھائی نصرت جو مجھے ہی دیکھ رہی تھی بولی کالو وت انج کر توں پٹھے وڈھ لیا میں باڑے دے باقی کم ویکھ لیندی آں میں بولا اچھا میں ریڑھی لے کر نکلا اور پٹھے لینے آگیا کچھ دیر میں نے پٹھے وڈھ کر ریڑھی پر لادے اور ڈیرے پر آگیا میں نے دیکھا تو بہزاد اور ندیم دونوں کے بیٹھک پر مہمان آئے ہوئے تھے میں نے دیکھا تو نصرت دوپٹہ اتار کر پھوڑا مار کر ڈنگروں کے نیچے سے گوبر صاف کر رہی تھی میں نے نصرت کو پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا میں تو دیکھتا ہی رہ گیا نصرت کا جسم تو قیامت خیز تھا نصرت ہلکے سے کسے ہوئے لباس میں تھی جس سے نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں کھڑے ممے قیامت لگ رہے تھے میں تو نصرت کا ایسا سیکسی جسم دیکھ کر چونک گیا میری نظر نصرت کے جسم پر ہی گھوم رہی تھی نصرت کا قمیض تو تھوڑا کھلا تھا پر اس کے ممے اتنے تھڑے اور موٹے تھے کہ نصرت کو سینے پر قمیض پھنس کر آیا ہوا تھا جس سے نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے ممے صاف واضع ہو رہے تھے نصرت کق گلا کافی کھلا تھا جس سے نصرت کا گورا سینہ صاف جھانک رہا تھا جبکہ کام کے دوران اوپر نیچے ہونے سے نصرت کی برا کی بلیک پٹیاں بھی قمیض سے باہر نکل کر جھانک رہی تھی وہاں تو پورا سیکسی ماحول بنا ہوا تھا نصرت کے جھکنے سے نصرت کے کھلے گلے میں سے مموں کی لکیر بھی ہلکی سی نظر آ رہی تھی میں نے اوپر نظر نصرت کے چہرے پر ڈالی تو نصرت گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا سی گئی میں تھوڑا شرما سا گیا میرے ذہن میں بہزاد کی بات تھی میں نے نظر چرا لی میں چارے والے کمرے کے سامنے ریڑھی روک دی اور پٹھے اتارنے لگا اتنے میں نصرت بھی وہیں آگئی اور وہ بھی پٹھے اتارنے لگی نصرت کو اپنے شانی بشانہ کام کرتا دیکھ کر میں حیران تو ہوا لیکن میں نے سوچا کہ اچھا نہیں ہے میں نصرت کو بازو میں پٹھے بھر کر اٹھاتا دیکھا تو نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے دبا کر واضح ہو گئے اتنے صحت مند موٹے ممے دیکھ کر میرے تو منہ میں پانی بھر آیا تھا میں گھونٹ بھر نصرت کو دیکھا اور بولا باجی تسی رہن دیو میں کر لیندا آں نصرت ہنس دی اور بولی کجھ نہیں ہوندا وے میں آگے وی کردی رہیندی آں نا فکر کر میں بولا باجی میرے رکھنے دا فایدہ وت نصرت مسکرا دی اور بولی وے تینوں اس واسطے تے نہیں رکھیا کہ سارا کم ہی تیرے تو کروائیے میں بولا باجی ملازم تے اس کم کانڑ ہی ہوندا نصرت ہنس دی اور بولی وے بس کر توں ملازم نہوں ساڈے واسطے توں اپنا ہی ہیں اور مسکرا کر بولی ہنڑ اگاں سارے کم اسی تک کے ہی کرساں گئے میں بولا باجی بہزاد ویکھ لیا تے کی آکھسی نصرت ہنس دی اور بولی اس نوں پتا اے میں آگے وی اے کم کردی رہندی آں میں چپ ہوگیا اور پٹھے اتارنے لگا نصرت میرے ساتھ پٹھے اتار رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا بھی رہی تھی وہ میرے بالکل قریب آنا چاہ رہی تھی پر میں جھجھک رہا تھا اسی وجہ اس کے بھائی بہزاد اور ندیم وہیں موجود تھے نصرت اور میں بس ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے ہم دونوں میں سے اس پر بات کوئی بھی نہیں کر رہا تھا نصرت بھی بات کرنے سے جھجھک رہی تھی ہم نے پٹھے اتارے اور میں کھوتے سے ریڑھی کھولنے لگا کھوتے کا منہ نصرت کی طرف تھا اور سامنے نصرت کھڑی تھی کھوتا نصرت کو دیکھ کر زور سے ہینگنے لگا میں نے کھوتے کو ہینگتے دیکھا تو کھوتا فل ہوشیار ہوکر اپنا بازو کے ا لن نکال کر جھٹکے مارتا نصرت کی طرف دیکھ رہا تھا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت مستی سے کھوتے کے لن کو دیکھ کر گھونٹ بھرتی دیکھ رہی تھی میں نصرت کو کھوتے کے لن کو دیکھ کر حیران سا ہو گیا نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا نصرت اور میری آنکھیں ٹکرائی تو نصرت کی آنکھوں ہلکی سی لالی اتری ہوئی تھی نصرت ے مجھے دیکھا اور گہری نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر ہنس دی اور گھونٹ بھر کر کھوتے کے لن کو دیکھ کر مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی میں نصرت کی بے قراری کھوتے کو نصرت کی طرف دیکھ کر ہوشیاری پکڑتا دیکھ کر میرے ذہن میں آوارہ سا خیال آیا کہ کہیں نصرت اور کھوتے کا چکر تو نہیں یہ سوچ کر میرے لوں کھڑے ہو گئے میں نے بے اختیار نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو وہ کھوتے کے لن کو ہی دیکھ رہی تھی کھوتے کی بے قراری میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور ہنس کر گھوم گئی کھوتا نصرت کو دیکھ کر مسلسل ہینگ ہی رہا تھا عموماً کھوتا دو سے تین منٹ تک ہوشیار رہتا پھر نارممل ہو جاتا تھا پر یہ کھوتا تو نصرت کو دیکھ کر مسلسل بڑھنے لگا تھا اور لن کے جھٹکے لگانے لگا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھ سے نظر ملا کر شرارتی انداز میں مسکرائی اور اپنی بھنویں اٹھا کر پوچھا کہ کیا ہے میں نصرت کے اشارے کو کوئی جواب نا دے سکا میرے چہرے پر بھی ایک لالی سی اتر آئی تھی نصرت مجھے دیکھتی ہوئی ہٹ گئی اور کھجوروں کی نظروں سے اوجھل ہوکر جانوروں میں چلی گئی نصرت کے جانے کے ایک منٹ بعد کھوتا بھی نارمل ہو گیا میں یہ دیکھ کر چونک گیا اور سوچا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے میرے ذہن میں عجیب سے سوال اٹھ رہے تھے لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ نصرت تو اچھی بجلی سنبھلی ہوئی لڑکی لگتی ہے یہ کچھ بات پلے نہیں پڑ رہی تھی میں سارا دن یہ ہی سوچ رہا تھا اور گدھا باندھ کر میں اندر چلا گیا میں کررہے کرنے لگا اب نصرت نہیں آئی تھی شاید اسے بھی اب میرا سامنا نہیں ہو رہا تھا میں ایسے ہی خود سے ہی سوال بنا کے خود ہی جواب گھڑ رہا تھا میں چارہ کتر کر نکلا تو بہزاد اندر آیا اور بولا کالو میں کم جا رہیا آں وت خیال رکھیں میں بولا ٹھیک اے بہزاد چلا گیا نصرت بولی کالو ڈنگراں نوں پٹھے پا میں بولا جی اچھا اور کترہ چادر پر جوڑنے لگا اتنے میں نصرت بھی اندر آگئی میں نے اسے دیکھا تو وہ مسکرا دی میری نظر اس کے اٹھے مموں پر گئی وہ مسکرا دی اور نیچے جھک کر چادر کی نہریں پکڑ لیں نصرت کے جھکنے سے نصرت کے موٹے ممے لٹک گئے اور نصرت کی گہری مموں کی لکیر اندر تک واضع ہوگئی میں اسے دیکھ کر مچل گیا اور نظر بھر کر نصرت کے سینے کو دیکھ کر گھونٹ بھرا نصرت نے اوپر مجھے دیکھا تو میں اسکے مموں کو دیکھ رہا تھا نصرت کے دیکھنے پر میں نے نظر چرا کر اس کے چہرے پر ڈالی تو نصرت مسکرا دی اور نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی کالو پہلے کررہے گھر لئے وت ویکھ لئیں یہ سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا ندامت سے میرا رنگ اڑ گیا میں نے نیچے جھک کر چادر اٹھائی اور اپنی نظر نہ ی کرکے چادر اٹھائی نصرت نے مجھے کردہ اٹھوایا اور میں کترہ ڈالنے چلا گیا نصرت کی بات میرے ذہن میں گونج رہی تھی میں ندامت سے شرمندہ سا ہو گیا لیکن مجھے یاد نہیں تھا کہ لفٹ تو نصرت خود بھی کروا رہی تھی میں کترہ ڈالا اور واپس اندر آیا تو نصرت کترہ جوڑ رہی تھی نصرت کے جھکنے سے نصرت کی موٹی پھیلی ہوئی گانڈ باہر کو نکل ہوئی تھی نصرت کی لمبی پراندے والی گت سیدھی نصرت کی گانڈ کی لکیر کے درمیان اس طرح پڑی تھی جیسے نصرت نے خود رکھی ہو میں ایک لمحے کےلئے نصرت کی موٹی گانڈ میں کھو سا گیا گانڈ پر پڑی گت بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی میں نصرت کی گانڈ دیکھ رہا تھا کہ نصرت جھکی ہوئے میرے آنے کا پتا لگ گیا پر وہ جھکی رہی میں نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی اور نظر ہٹا لی نصرت پیچھے ہوئی اور مجھے دیکھا میری نظر اب نیچے ہی تھی ہم نے چارہ ڈالا۔ پھر پانی پلایا اب کوئی اور کام نہیں تھا میں کام کرنے لگا کچھ اور کام کرکے میں فری ہو گیا میں کچھ دیر وہیں صحن میں آرام کرنے لگا میں سمجھا کہ نصرت چلی گئی ہو گی اس لیے میں نے قمیض اتارا جو پسینے سے بھرا ہوا تھا میں قمیض اتار کر لیٹ گیا نصرت بیٹھک میں گئی تھی میں لیٹا تھا کہ نصرت واپس آگئی میں نصرت کو دیکھ کر بیٹھ گیا نصرت میرے ننگے بدن کو دیکھ کر مسکرا گئی میں تھوڑا جھجھک سا گیا نصرت پاس آئی مسکرا کر مجھے دیکھ کر پاس ہی بیٹھ گئی میں بھی اٹھ کر بیٹھا تھا نصرت بولی کالو کیوں شرما رہیا ایں میں بولا کوئی نہیں بس ایویں ہی نصرت ایویں کیوں میں شرما گیا نصرت نے نظر اٹھا کر میرے بدن پر گھمائی اور بولی وے ہک گل تے دس میں بولا جی وہ بولی وے تیری شادی ہوئی نہیں ہوئی ہوئی میں چونک گیا وہ مجھے چونکا دیکھ کر ہنس دی اور بولی نا شرما دس تے سہی میں بولا ہلے کوئی نہیں ہوئی نصرت ہنس دی اور بولی کیوں میں بولا بس مصروف ہی رہا نصرت بولی مصروف رہیا یا کسے تے دل نہیں آیا میں بولا بس انج ہی سمجھو نصرت ہنس دی اور میرے جسم کو دیکھ کر بولی وت گزارہ کنج ہوندا ہئی میں نصرت کی اس بات پر چونک گیا اور نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا نصرت مسکرا دی میں بولا بس ہو جاندا اے نصرت ہنس دی اور بولی ویسے اگر توں چاہویں تے میری نظر اب ہک دو رشتے ہینڑ تو آکھ تے میں گل کراں میں بولا جی نصرت مسکرا دی اور بولی کالو ہنڑ توں اپنے گھر دا بندہ ایں تیرا اچھا بھلا ساڈے ذمے ہے توں دس موڈ ہے تے گل کروں میں بولا اے تے ابے نوں پتا اے نصرت ہنس دی اور بولی مینوں گل تے کرن دے توں دس تیرا دل ہے تے میں تینوں وکھا دیندی آں اس دیاں تصویراں میں بولا وکھا دیو میں ابے نوں وکھا گل کرساں نصرت نے ہنس کر مجھے ایک نظر دیکھا اور بولی اپنا نمبر دے میں سینڈ کرساں گئی میں نصرت کو دیکھا اور اپنا نمبر نصرت کو دے دیا نصرت کے پاس ٹچ موبائل تھا اس نے میرا نمبر سیو کر لیا اس دوران میں نے اپنی نظر قابو میں رکھی اور نصرت کے جسم پر ایک بار بھی نہیں ڈالی نصرت میرے سامنے دوپٹے کے بغیر ہی تھی نصرت مجھے غور کر بولی کالو ہک گل دس تسی رشتے داراں توں باہر کر لیندے ہو مطلب کہ اگر او ہور ذات دے ہوون تے میں بولا باجی او کون ہینڑ وہ بولی دس تے سہی میں بولا اگر لڑکیاں اچھیاں ہینڑ تے وت کوئی اعتراض نہیں جو وی ہونڑ اسی آپ کہڑے کوئی بڑی اچی ذات ہاں اسی وی کمی ہی ہاں اور ہنس دیا نصرت بھی ہنس دی اور بولی کالو ذاتاں اچ کجھ نہیں پیا بندے دے دل نوں ویکھنا چاہی دا میں بولا ایو جئے لوگ بڑے گھٹ ہوندے نصرت بولا ساڈے پنڈ اب ہینڑ میں بولا کونڑ نصرت ہنس دی اور بولی صبر کر جا گھر جا کے وکھا دیساں اور ہنس دی میں بھی ہنس دیا نصرت اور کچھ دیر باتیں کرتے رہے میری بھی جھجھک اتر گئی تھی اس کی تو پہلے ہی اتری تھی اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا نصرت چلی گئی اور مجھ سے بولی کہ آکے کھانا کھا جانا میں بولا اچھا جی میں نے کچھ دیر کام کیا اور پھر کھانے کے وقت گھر چلا گیا میں گھر پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا تو آنٹی رفعت نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی آنٹی رفعت کا منہ گلابی سا ہو رہا تھا آنٹی رفعت سسک کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں میرا سائیں آیا ہے میری جان اور مجھے باہوں میں بھر کر اپنے گلے سے لگا کر دبا لیا میں چونک گیا کہ آنٹی یہ کیا کر رہی ہے کوئی گھر میں ہوا تو آنٹی مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کر بولی میری جان کل دا ملیا ہی نہیں جپھی گھٹ کے پا کے مینوں مل گھر اچ کوئی نہیں نا گھبرا میں یہ سن کر مطمئن ہو گیا اور آنٹی رفعت کو دونوں بازوؤں میں دبوچ کر کس کر سینے سے لگا لیا رفعت کے جسم کا لمس محسوس کرکے میرا انگ انگ ناچنے لگا میرا لن تن کر رفعت کے چڈوں میں گھس گیا رفعت کے تن کر کھڑے ممے میرے سینے میں دب گئے اور رفعت میرے لن کو چڈوں میں دبوچ کر مجھے دبا کر چوستی ہوئی بولی نی میں صدقے جاواں میرا شہزادہ میرے واسطے اودریا ودا میں اپنی جان واسطے حاضر ہاں ہم دونوں وہی دروازے پر کھڑے ہوکر ہی ایک دوسرے کو چومنے لگے رفعت میری زبان دبا کر کس کر چوستی ہوئی سسکنے لگی میں رفعت کی گانڈ دبا کر مسل رہا تھا رفعت میرے ہونٹ چھوڑ کر بولی وے کالو کل میرے سگھ تک لن لاہ دتا ہئی تے وت ہٹ کے میرا پتا ہی نہوں کیتا میں بولا میری جان کل دا ویلا ہی نہیں ہویا شامی دل ہا تیرے نال کھٹ گزارن تے میرا دل ہا تینوں نال لئے جاواں ہاس ڈیرے تے پر تیرے پتر آگئے رفعت ہنس دی اور بولی وے میں صدقے جاواں کالو تیرے توں توں مینوں اکھیں ہاہ تے میں اجاواں ہاس میں بولا توں کنج آویں ہا وہ بولی میری جان میں تیرے پیو دی پرانی مشوق ہاں اپنے مرد کولو اٹھ کے تیرے پیو کول جا کے ساری ساری رات تیرے پیو دا لن لیندی ہاس تے اس نوں پتا نہیں لگا تے اے میرے پتر کی ہینڑ میں ہنس دیا اور رفعت کو جپھی میں دبا کر اٹھا کر بولا واہ میری گشتیے توں تے پوری آگ ہیں اور اٹھا کر اندر چل دیا رفعت بولی کالو ہاس تے میں آگ پر تیرے لن میری سہی آگ بجھائی اے کل میں ہنس دیا اور رفعت کو وہیں صحن میں چارپائی پر لٹا کر اوپر چڑھ کر چومتا ہوا بولا میری جان کیوں کہ بنیا رفعت بولی وے سوہنیا نا پچھ کی بنیا میں بولا وت وی رفعت بولی کالو تیرے لن سگھ تک کہ ہے انگ انگ چیر گیا میں ہنس دیا رفعت نے مجھے گھما کر اپنے نیچے کر لیا اور اوپر ہو کر میرا نالا کھول کر میرا لن کھینچ کر باہر نکال لیا میرا بازو جتنا لن رفعت دیکھ کر سسک کر ہانپ گئی اور اپنے ہاتھ میں دبا کر مسلتی ہوئی سسک کر بولی اوئے ہالنی اماں میں صدقے جاواں اپنی جان توں اور منہ آگے کرکے میرے لن کے ٹوپے کو چوم لیا میں سسک کر کراہ گیا رفعت زبان نکال کر میرے لن کو چاروں طرف سے چاٹتی ہوئی کراہنے گی رفعت کے ہانپنے سے گرم سانس میرے لن کو بے حال کر رہا تھا میں سسک رہا تھا رفعت اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلتی ہوئی۔ چوس رہی تھی رفعت سسک کر بولی افففف میرا شہزادہ میرے دل دا جانی رفعت میرے لن کو مسل کر دبا کر چوستی ہوئی بولی کالو اس لن نوں میں ہور لما کرنا اے اے سگھ تک جاندا اے میرے سگھ اچو لگھ کے میرے منہ آلو نکل آسی گیا میں بولا اسدا کی فائدہ رفعت ہنس کر بولی بس ایویں شوق اے اور میرے لن کا ٹوپہ دبا کر چوستی ہوئی دبا کر مسلنے لگی رفعت کے گرم منہ نے میری جان ہی نکال لی تھی میں کراہ کر تڑپ سا گیا رفعت ہونٹ دبا کر میرے لن کو گلے تک اتار کر ہونٹ لن پر دبا کر مسلتی ہوئی میرے لن کو چوس کر ہانپنے لگی رفعت کے منہ کا دہانہ کافی کھلا تھا اس لیے میرا موٹا لن رفعت دبا کر چوس رہی تھی میرا بازو جتنا لن رفعت کے سر تک تن کر کھڑا تھا رفعت جو جس سے کھلنا نہیں پڑ رہا تھا رفعت بیٹھ کر ہی منہ میں دبا کر چوس رہی تھی رفعت تیز تیز سر میرے لن پر مارتی میرے لن کے چوپے مارتی کراہ رہی تھی میرا لن رفعت کے گلے تک اتر رہا تھا میں مزے سے مچل کر کراہ رہا تھا رفعت نے میرے لن کو دبا کر اپنے گلے میں اتار کر رک کر اپنا سر میرے لن پر دبا کر میرے لن کو اپنے گلے میں دبانے لگی رفعت اپنے گھٹنوں کے بل کھڑی ہوئی اور میرے لن کے اوپر آکر اپنا پورا زور لگا کر میرا لن گلے کے اندر دبا دیا جس سے زور لگنے سے میرے لن کا ٹوپہ رفعت کے گلے میں اتر کر رفعت کا گلہ کھول کر اندر اتر گیا ساتھ ہی رفعت میرے لن کو گلے میں اتار کر تڑپ کر کراہ گئی اور تڑپ کر زور سے ہینگ کر پھنکار گئی رفعت کے گلے سے بھاں بھاں کی آوازیں نکلنے لگی رفعت کا سر کانپنے لگا اور منہ کا سرخ ہوگیا رفعت کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور رفعت کی سرخ آنکھیں مدہوشی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی لن رفعت کے گلے میں محسوس کرکے میں مزے سے تڑپ کر بوکھلا سا گیا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی چیز نے دبا کر مسل دیا ہو میں کراہ کر تڑپ سا گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے ٹانگیں اٹھا کر رفعت کے کانپتے سر پر رکھ کر پوری شدت سے رفعت کا سر اپنے لن پر دبا دیا جس سے میرے زور لگانے پر میرا لن رفعت کا گلہ کھول کر رفعت کے سینے میں اترنے لگا جس سے رفعت تڑپ کر اچھل کر پھڑکی اور بکا کر زور سے ہینگ ہینگ کر پھنکارتی ہوئی تڑپ کر اپنے ہاتھ سے میری ٹانگیں دبا کر سر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر میں لن رفعت کے سینے میں اتار کر مزے سے تڑپ کر کرلا گیا رفعت پھنکارتی ہوئی بھاں بھوں کرنے لگی میں تو مزے سے جنونی ہو کر تڑپ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ لن کسی تندور میں اتر رہا ہو میں رکے بغیر لن دباتا ہوا مزے سے مچل رہا تھا لیکن ایک حد تک لن جا کر رک گیا ساتھ ہی رفعت پھڑکنے لگی میرا دل تھا کہ لن سارا جڑ تک رفعت کے اندر کر دوں پر آگے لن نا جا سکا میں رفعت کی حالت دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا اور لن واپس کھینچ لیا جس سے لن نکلتے ہی رفعت تڑپ کر اچھلی اور ہانپتی ہوئی پیچھے کر گری اور اپنا گلی دبا کر دوہری ہوکر تیز تیز سانس لیتی اپنا سانس بحال کرنے لگی رفعت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا رفعت کھانسی ہوئی سانس بحال کر رہی تھی میں تھوڑا گھبرا پر رفعت کچھ دیر میں سنبھل گئی میں رفعت کو چوم کر بولا سوری میری جان تینوں زیادہ ہی تنگ کر گیا رفعت بولی وے لعنتیا مینوں چھڈیا کیوں ہئی میں رفعت کی بات پر چونک گیا کہ یہ آنٹی تو کچھ اور ہی چیز ہے وہ اٹھ کر بولی آج سارا لن میرے منہ آلو منڈ کے میرے پھدی آلو کڈھ دینا ہویا میں بولا اس ٹائم تے پھڑک رہی ہائیں وہ ہنس دی اور بولی وے توں اپنا سواد لئے میری فکر نا کر مینوں کجھ نہیں ہوندا رفعت کی بات سن کر میرے دل نے انگڑائی کی اور میں سوچا کہ اگر لن سارا ہی آنٹی رفعت کے منہ میں ڈال کر آنٹی کی پھڈی سے باہر کردوں تو مزہ آ جائے یہ سوچ کر میں مچل سا گیا اور بولا رفعت کی خیال ہے پورا لن لئے لیسین رفعت ہنس کر بولی میری جان تیرا دل ہے تے میں کوشش کردی ہاں میں ہنس دیا اور بولا نصرت اوری کدے وہ بولی او اپنی ماسی نال گئی اے بازار تک باقی سونیا سکول پڑھانڑ گئی اے سعدیہ یونیورسٹی تے صدف کالج گئی اے میں بولا وت تے کھلا ٹائم اے رفعت اٹھی اور بولی چل اندر چلیے میں رفعت کے پیچھے اندر چلا گیا اندر بیڈ پر پہنچ کر رفعت نے اپنا قمیض اتار دیا اور اپنے موٹے ممے ننگے کرکے میرے بیٹھ گئی میں بھی قمیض اتار کر فل ننگا ہوگیا رفعت نے اپنے مموں کے درمیان کی لکیر میں ایک بڑی سی تھوک پھینک کر لکیر گیلی کی اور میرا لن مموں کے درمیان رکھ کر دبا کر مسلتی ہوئی لن کو چاٹنے لگی رفعت کے انداز سے میں مچل گیا اور سسکنے لگا رفعت نے اچھی طرح لن مسلا اور اٹھ کر اپنی شلوار بھی اتار دیا رفعت نے اپنے تھوک سے لن سہی گیا کر دیا تھا اور اٹھ کر بیڈ پر لیٹ کر اپنا منہ بیڈ سے نیچے پیچھے کی طرف لٹکا کر میرے لن کے سامنے کھول دیا میں رفعت کو پن کے سامنے لیٹا دیکھ کر لن رفعت کے منہ میں سیٹ کیا اور ہلکا سا دھکا مار کر لن گلے تک اتار دیا میں نے آگے بیڈ پر ہاتھ رکھ کر گانڈ دبا کر زور سے گھسا مارا جس سے لن رفعت کا گلہ کھول کر سینے میں اتر کر پہلے والی جگہ تک پہنچ گیا جس ساتھ ہی رفعت کرلا کر بکا گئی اور ہینگتی ہوئی پھنکار گئی رفعت کی ٹانگیں بے اختیار اٹھ گئیں اور گھٹنے پیٹ سے لگ گئے رفعت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور رفعت بکانے لگی رفعت کے گلے سے گھوں گھوں کی آواز نکلنے لگی میں مزے تڑپ کر کانپ گیا میرا لن اندر رفعت نے دبوچ رکھا تھا لن رفعت کے سینے تک اترا تھا میں نے گانڈ اٹھا کر زور سے دھکا مارا جس سے لن نیچے آنٹی رفعت کے سینے سے ہاں میں اتر کر اسی رستے پر پر اتر گیا جو میرا لن نے پھدی سے گھس کر کل بنایا تھا رفعت نے اپنا زور اکھٹا کر پوری شدت سے دھاڑی اور پھڑکتی ہوئی بااااں باااااں کرتی پھڑکنے لگی رفعت کا جسم مچھی کی طرح پھڑک ے لگا میں تو مزے سے جنونی ہوکر تڑپنے لگا تھا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا آنٹی رفعت بھی بھاں بھوں کرتی ہوئی تڑپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور کراہ کر کس کر دھکا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کے ہاں کو کھول کر آنٹی رفعت کی بچہ دانی کے اندر اتر گیا جس کے ساتھ ہی میرے لن کے موٹے حصے نے آنٹی رفعت کے منہ کو فل کھول لیا تھا جس سے رفعت تڑپ تڑپ کر پھڑکتی ہوئی غرانے لگی میرا لن رفعت کی آواز کو دبا رہا تھا لن بچی دانی میں گھستے ہی رفعت بکا گئی اور تڑپ کر ہینگنے لگی مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے کر دھکا مار اور اپنا بازو جتنا لن پورا جڑ تک آنٹی رفعت کے گلے تک اتار دیا جس سے میرا لن آنٹی کے منہ کو چیر رہا ہوا گلہ پھاڑ کر آنٹی رفعت کے سینے سے ہوتا بچہ دانی کھولتا ہوا آٹنی رفعت کی پھدی کے دہانے سے ٹکرایا جس سے آنٹی بکا کر اچھلی اور تڑپ کر پھڑکتی ہوئی پھنکارنے لگی میں کراہ کر آگے جھکا اور آنٹی رفعت کی پھدی کا جائزہ لیا کہ لن پھدی سے نکلا کہ نہیں لیکن مجھے لن آنٹی رفعت کی پھدی سے نکلا نظر نا آیا میں نے کراہ کر آنٹی رفعت کی پھدی کے ہونٹ دونوں ہاتھوں سے دبا کر کھول دیے جس سے مجھے آگے گہرائی میں اپنے لن کا ٹوپہ آنٹی کی پھدی سے نظر آگیا میں یہ دیکھ کر مچل گیا آنٹی پڑی پڑی پھڑک رہی تھی میرا لن اسی آواز دبا چکا تھا میں نے بے اختیار کراہ کر گانڈ کھینچ کر کس کر دو تین دھکے مارے جس سے میرا لن مزید آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی کی طرف اتر آیا جس سے میری بھی ہمت ٹوٹ گئی اور میں مزے سے تڑپ کر بکا گئی میری بکاٹ کمرے میں پھدی گئی ساتھی لن مزید اندر گھس کر آنٹی رفعت کی پھدی کے دہانے کے بالکل ساتھ لگ گیا جس سے میرے لن کے ٹوپے کی نوک آنٹی رفعت کی پھدی کے دہانے کو کھول کر اتنی باہر آگئی کی کہ میرے لن کی موری آنٹی رفعت کی پھدی کو کھول کر باہر نکل کر نظر آنے لگی اسی لمحے آنٹی ارڑا کر تڑپی اور آنٹی کی پھدی کھلتی بند ہوتی پچ پچ کرتی میرے لن کو دبوچنے لگی جس سے آنٹی رفعت کی پھدی کی گرمی میرے لن کو نچوڑنے لگی میرا بازو جتنا لمبا لن آج آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی سے نکل آیا تھا آنٹی کی پھدی تیز تیز سے پچ پچ کرتی میرے لن دبا کر نچوڑ گئی جس سے میں تڑپ کر رہا کر ایک لمبی منی کی گاڑھی منی دھار ماری کر فارغ ہوگیا آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر نکلے لن کی موری سے میری سفید منہ پھوارے مارتی ہوئی آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر گرنے لگی جس سے میں تڑپ کر کراہ کر مچل سا گیا اور آنٹی رفعت کے پیٹ پر منہ رکھ کر پھڑکتی پیٹ کو چومتا فارغ ہونے لگا میرا آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی سے باہر نکلے لن جو آنٹی دبوچ رہی تھی میں فارغ ہوکر نڈھال رفعت کے اوپر پڑا تھا میری ساری منی رفعہ کی پھدی سے باہر بہر بہ گئی میں تو حیراں تھا کہ آنٹی تو عجیب ہی چیز ہے لن منہ سے لے کر پھدی تک اتروا لیا اور تڑپتی ہوئی ایسے پڑی تھی کہ اس کےلیے کچھ بات نا تھی میں کراہ کر اٹھا اور لن رفعت کے منہ سے کھینچ کر نکال لیا رفعت پھڑکتی ہوئی اپنا گلا دبا کر مسلتی ہوئی کراہتی ہوئی سیدھی لیٹ کر سنبھلنے لگی رفعت کے گھنٹے سینے سے لگے تھے اور اسی کی پھدی ہلکی سی کھلتی بند ہوتی میری سفید منی چھوڑ رہی تھی میں رفعت کے اوپر ہوا اور اسے چوم کر واشروم میں چلا گیا واپس آیا تو رفعت آٹھ کر بیٹھی تھی مجھے دیکھ ہنس دی اور بولی کالو توں تے میرے منہ تو لے کے پھدی تک راہ بنا دتا اے ہن تے آرام نال سب کجھ لنگھ جاندا میں ہنس دیا اور بولا اے راہ تے اگے ابے ہی بنا دتا ہا رفعت ہنسدی اور بولی ہا اے تیری گل سچ اے اور ہنس کر بولی چل ہنڑ کجھ کم کر لواں چھوریں انڑ آلیاں ہوںیا اور کپڑے پہن کر نکل گئی میں بھی کپڑے پہن کر صحن میں آکر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد گیٹ کھلا اور نصرت اندر آ گئی نصرت کے ساتھ نذیراں بھی تھی مجھے دیکھ کر نصرت کھل سی گئی اور بولی واہ جی واہ کالو صاحب آوری تے گھر آئے بیٹھے ہینڑ میں ہنسدہا اور بولا جی ہاں روٹی کھاوںڑ آیا نصرت بولی وے تیرا اپنا گھر اے صرف روٹی کھاوںڑ نا آیا کر جس ویلے دل کری آ گیا کر میں ہنس کر بولا اچھا جی نذیراں بھی قریب آئی نذیراں درمیانہ عمر کی نا بڑی عورت لگتی تھی نا ہی لڑکی نذیراں بھر پور بھرے ہوئے جسامت کی عورت تھی نذیراں اور نصرت میں تھوڑا ہی فرق لگ رہا تھا نذیراں کا رنگ ہلکا سا سانولا تھا جو اس پر جب رہا تھا ہلکی سی پھولی ہوئی گالیں دل کر رہا تھا کہ گالوں کو دبا کر چوس لوں نذیراں بولی کالو دھیان کریں اے جوان چھوریں پینڑ تے بندہ کھا جاندیاں یہ سن کر میں چونکا نصرت نے اسے آنکھیں بھر کر دیکھا اور دونوں ہنس دی نصرت بولی اے ماسی ہر ویلے مذاق ہی کردی رہندی اے اور ہنس دیں میں بھی ہنس دیا پھر ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے میں بولا باجی ہنڑ تے میں توڑ ا گیا ہاں ہنڑ تے دس دے کون ہے او نصرت ہنس دی اور بولی صبر کر جا دس دیساں گئی ہلے اس نال گل تے کر لواں نذیراں بولی کون کس دی گل ہو رہی نصرت بولی ماسی میں سوچیا اے کہ کالو گھر دا بندہ اے ہنڑ تے اسدا کجھ بھلا ہی کر دیواں اس واسطے ہک رشتہ ویکھیا اے اس دی شادی کرواؤ آں یہ سن کر نذیراں بولی ہنی کون ہئی نصرت ہنس دی اور میری طرف ایک نظر ڈال کر بولی دس دیندی آں خیر تے ہے میں بولا خیر ہنڑ کی ہونی ہنڑ تے ویکھو دے نذیراں بولی ویکھو دے بیچارے دس دل کڑھتا پیا ہئی اور ہنس دی میری جھجھک بھی اب ختم ہوگئی تھی میں کھل کر بات کر رہا تھا وہ بولی شانی تینوں ویکھیاں گئی اتنے میں آنٹی رفعت کھانا لائی اور مجھے دیا میں کھانا کھا کر واپس ڈیر پر آگیا کچھ دیر آرام کیا پھر کچھ کام کیا اتنے میں شام ہونے لگی تو دودھ دوہ کر رکھا بہزاد اتنے میں ڈیرے پر آگیا اور دودھ لے کر چلا گیا شام کو وہ میرے لیے کھانا لایا میں کھان کھا کر نصرت کی بات پر غور کرنے لگا تو مجھے لگا کہ نصرت ایسے ہی مجھے چھڑ رہی تھی جان بوجھ کر تنگ کر رہی تھی کہاں رشتہ کروانا اس نے میرا میں جو خوش ہو رہا تھا نصرت کے ہاتھوں پاگل بننے پر ہنس دیا اور آٹھ کر کچھ کام کیا رات کافی ہو چکی تھی میں سمجھ گیا تھا کہ نصرت میرے ساتھ بس مذاق ہی کر رہی تھی میں ایسے ہی پاگل بن گیا اور لیٹ کر سونے لگا اتنے میں میرے فون پر بیل بجی میں نے دیکھا تو کوئی نیا نمبر تھا یہ دیکھ کر میں چونک سا گیا میں نے کال اٹھائی تو آگے سے کوئی لڑکی بولی جناب اور جاگ رہے ہینڑ میں پہلے تو کچھ نا سمجھا پھر سمجھ آئی کہ نصرت تھی میرا تو دل ہی لڑھک گیا میں ہنس دیا اور بولا کیا تھواڈا ہی انتظار کر رہیا ہاس وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور بولی کویں میرا انظار کیوں کر رہیا شرم نہیں آندی میں ہنس دیا اور بولا آپ تے آکھیا ہایا وہ ہنس دی اور بولی ہاں جی مینوں پتا اے تو بڑا بے صبرا ہیں میں بولا بے صبرا تے ہونا ہی ہا نا وہ بولی حوصلہ کر کالو کے لڑکی تیوں بے صبرا ویکھ کے ہتھو نکل گئی تے فر کی کرسیں میں بولا بہتیاں گلاں نا کر وکھا کے وکھانی ہئی تے وہ بولی ہا وے کالو کجھ سانوں وی گل کرن دے میں بولا تیرے نال ہی کر رہیا ایں وہ ہنس دی اور بولی بہوں بے شرم ہیں میں بولا ہنڑ توں آپ ہی کیتا اے میرے نال فری ہوکے وہ بولی چلو ساڈا ہی قصور سہی ہنڑ راضی میں اچھا جی معاف کر دے وہ بولی وے نہیں وے میں بولا فر نصرت ایک لمحہ چپ ہوئی اور بولی میری گل ہوئی اے اس نال او تے آپ بڑی بے صبری تیرے واسطے میں یہ بات سن کر کھل کر ہنسا اور بولا اچھا جی میرے اچ ایسی کی گل ویکھی کہ میرے واسطے ہی بے صبری ہوئی پئی نصرت ہنس دی کالو اس تیرے اچ اوہ ویکھ لیا اے جس دا اوہ سالاں توں انتظار کر رہی ہا میں بولا مثلاً وہ بولی مثلاً دا مینوں نہیں پتا پر توں اس نوں پسند بڑا آیا ہیں میرے تو دل میں لڈو سے پھٹ گئے پر مجھے لگا کہ کہیں مذاق نا کر رہی ہو میں بولا باجی سچی سچی دسیں مذاق تے نہیں کر رہی نصرت کھلکھلا کر ہنس دی مجھے لگا کہ واقعی میری بات ٹھیک تھی وہ مذاق ہی کر رہی تھی میں مایوس سا ہوا وہ بولا وے بدھو انسان میں بھلا کیوں تیرے نال مذاق کر نا سچ بول رہی آں میں بولا ہلا فر وکھا وہ بولی کی وکھاواں میں بولا جس نال میری گل چلائی ہئی نصرت بولی کالو ویسے ہنڑ تینوں وکھا ہی دینی ہاں پھر نصرت بولی ہلا اے دس تصویر گھلاں کہ گل کرواں میں یہ سن کر چونک گیا اور بولا باجی سچی دس مذاق تے نہیں وہ بولی وے تینوں میری گل تے یقین کیوں نہیں آ رہیا میں بولا س واسطے کہ میرے کالے تے کس مرنا اے نا میری شکل ہے نا رنگ وہ بولی وے نہیں وے اے تینوں لگدا اے سارا کجھ رنگ شکل ہی نہیں ہوندا ہور وی بڑا کجھ ہوندا تیری رنگ شکل تے نہیں اور تیرے کجھ ہور تے موئی ودی اے ہے ہنڑ مسیں ودی آکھ رہی کہ میرا دل کر رہیا اے کہ میں اس کے کالو کول وگ جاواں نصرت کی اس بات پر میں ہنس دیا نصرت بولی ہلا ہنڑ دس تصویراں ویکھنیاں کہ گل کرنی میں بولا جو تھوانوں بہتر لگے وہ بولی ہلا میں ویڈیو کال کردی آں توں اس نوں ویکھ وی لئے تے گل وی کر لئے میں اس بات پر مچل سا گیا اور بولا اے سہی اے وہ بولی ہلا میں کردی ںاں اور کال کاٹ دی دو تین منٹ بعد نصرت کی پھر ویڈیو کال آگئی میں نے اٹینڈ کی تو سامنے کیمرے کے نصرت کی تصویر ابھی نصرت دوپٹے کے بغیر تھی نصرت ہلکا سا میک اپ کر کے لال سرخی لگائے ناک میں کوکا ڈالے سامنے نظر آ رہی تھی نصرت کے ناک میں کوکا کہر ڈھا رہا تھا میں تو ایک بار نصرت کو دیکھتا ہی رہ گیا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی کالو تیاری پھڑ لئے ہنڑ میں بولا ویکھاؤ وہ بولی ہلا اکھاں بند کر میں ہنس دیا اور بولا کی کراؤ ہیں وہ بولی بند تے کر میں اس نوں کیندے دے سامنے کراں جس ویلے میں اکھاں اس ویلے کھولیں میں نے آنکھیں بند کر لیں اور تھوڑے ہی لمحے بعد نصرت بولی وے ہن کھول میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے نصرت نے کیمرہ بالکل اپنے چہرے پر فوکس کیا ہوا تھا نصرت کے چہرے کی تصویر نظر آ رہی تھی نصرت کی نظر جھکی تھی میں چونک گیا مجھے لگا نصرت نے مذاق کیا ہے میں بولا باجی مذاق کیتا ہئی نا نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی کالو ویکھ تے سہی سامنے او ہی لڑکی بیٹھی ہے جہڑی تینوں پسند کردی اے میں ہکا بکا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت گہری آنکھوں سے ٹھوڑی ہاتھ پر رکھ کر مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں باجی توں ہی نصرت بولی ہا کالو میں ہی او لڑکی ہاں جہڑی تیرے نال پرنیناں چاہندی آں میں بولا باجی توں اے کی آکھ رہی ایں نصرت بولی کالو جو توں سن رہیا ایں میں بولا باجی سے کنج ہوسگدا اے وہ بولی کالو کیوں نہیں ہو سگدا میں بولا باجی تیرا میرا جوڑ کوئی نہیں تے ناں اے کسے ہونڑ دینا نصرت بولی کالو مینوں ہور کجھ پتا نہیں میں جدو دا تینوں ویکھیا اے میرے دل اچ توں وس گیا ایں مینوں تیرے نال پیار تے عشق ہو گیا اے مینوں اپنا بنا لئے میں تینوں او پیار دیساں گئیں جہڑا توں چاہندا ایں میں ہکا بکا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت کی گہری نشیلی آنکھیں مجھے ہی دیکھ رہی تھیں میں گھونٹ بھر کر رہ گیا اور بولا نصرت نصرت بولی جی میری جان میں بولا نصرت کے اے گل تیرے بھراواں ندیم تے بہزاد نوں پتا لگ گئی تے پتا ہے کی ہوسی نصرت بولی مینوں کوئی ڈر نہیں سوہنا دا کالو مینوں بس توں چاہیدا ایں نالے اوہناں نوں دسنا کس اے میں بولا نصرت کے اوہناں نوں پتا لگ گیا ناں تے خیر کوئی نہیں نصرت بولی کالو کے اوہناں نوں پتا گ گیا تے میں تیرے نال نس ویساں گئی توں مینوں جتھے مرضی دل کری لئے جاویں میں ہنڑ تیری ہاں تیرے نال نسنڑ کانڑ تیار ہاں میرا تو یہ سن کر گلہ ہی خشک ہوگیا تھا اس گھر کی سب سے خوبصورت لڑکی مجھ پر فدا ہو گئی تھی میں نے خواب میں بھی اتنی خوبصورت لڑکی نہیں سوچی تھی نصرت کسی لڑکی میرے ساتھ سونے کو تیار تھی میں بولا نصرت ویکھ لئے پر ساڈی شادی تے راضی ہوں ہوسی نصرت بولی کالو شادی تے لوگاں نوں وکھانڑ واسطے ہوندی اے اساں کہڑا کسے نوں وکھانڑا میں بولا مطلب کی شادی واسطے نکاہ تے ہو دا نا نصرت ہنس دی اور بولی کالو چھوڑ نکاہ نوں نکاہ ہنڑ کون کرے نصرت سسکار کر بولی آف کالو میں تے ہنڑ مسیں ودی آں میرے کولو ہنڑ رہیا نہیں جاندا توں اپنے ہیٹھ لئے کے مسل دے میں بولا نصرت کجھ لحاظ کر نصرت بولی میرا کسے لحاظ نہیں کیتا تے میں کیوں کراں میں جوانی آگ اچ سردی بلدی پئی آں مینوں وی حق اے اپنی آگ بجھاونڑ دا افففف کالووو تیرا کالا جسم کیڈا سوہنا اے قسمیں کالو میرا ہونا بہوں سواد دیساں گئی میں بولا نصرت ویکھ لئے مروا نا دیویں نصرت بولی کالو میرے تے یقین رکھ میں تینوں کجھ نہیں ہوونڑ دیندی میں تو خود نصرت کی باتوں سے پگھل گیا تھا مجھ سے بھی رہا نہیں جا رہا تھا پر بات بہت خطرے کی تھی نصرت بولی گل ہی کوئی نہیں توں بے فکر ہوجا کیوں پریشان ہوندا پیا ایں میں بولا نصرت پریشان تے کر دتا ہئی وہ بولی وے میرے دلدارا ناں پریشان ہو میں تیرے نال ہاں میں بولا اے بڑی اوکھی ذمہداری اے نصرت بولی کالو توں کجھ وی نہیں کرنا بس توں میری آگ ٹھنڈی کرنی اے تے بدلے اچ توں جو اکھسیں تینوں دیساں گئی میری جان ہنڑ من جا نا میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب نصرت کا کیا کروں مجھے صرف نصرت کے بھائیوں بہزاد اور ندیم کا ڈر تھا باقی دل تو میرا بھی تھا اتنی خوبصورت لڑکی میری جھولی میں خود ہی گر رہی تھی مجھے اور کیا چاہئیے تھا نصرت بولی کالو زیادہ سوچ نا بس ہاں کر دے توں نہوں جانندا میں کیڈی اوکھی بیٹھی آں میرا دل پیا کردا اے ہنڑ نکل کے تیرے کول اجاواں اففف کالو آکھ تے تینوں ننگی ہوکے اپنا سب کجھ وکھا دیواں تا کہ توں فیصلہ سوکھا کر کویں میں نصرت کی بات سے مچل سا گیا اتنے میں نصرت کا دروازہ کھٹکا نصرت قریب ہوکر جلدی سے بولی کالو رات ساری ہئی سوچ لئے صبح میں آکے پچھ لیندی آں اور کال کٹ گئی میرا دل تو خوشی سے ناچ بھی رہا تھا کہ نصرت خود ہی میری جھولی میں آگرہ اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں گر بڑ ہو گئی تو مسئلہ خراب ہو جائے گا یہی سوچتا ہوا میں نصرت کے ابھرے سوچتا سو گیا

      Comment


      • #73
        کمال ہے بھی جہاں تو نصرت خود ہی سب کچھ دے رہی ہے کالو کو

        Comment


        • #74
          بہت ہی زبردست اور شہوت انگیز- اپڈیٹ
          کیا بات ہے​

          Comment


          • #75
            Uffff inthai garam kahani
            kalo ke to mazy hogay

            Comment


            • #76
              Uff intehai garam update ek taraf maa kye sath khoob maze kye ab jald hi beti b chodne wali ha

              Comment


              • #77
                بہت ہی عمدہ

                Comment


                • #78
                  جتنی بھی سٹوریز آپ نے لکھی انتہائی لاجواب پرشہوت اور سیکس سے بھرپور لکھیں
                  بہت شاندار سٹوری ہے آپ کی
                  انتہا کی شہوت امڈ آتی ہے
                  ♥️♥️♥️

                  Comment


                  • #79
                    nusrat maza day kay rahay gi zabardast update hti

                    Comment


                    • #80
                      بہت خوب جناب کیا بات ہے مزہ آگیا اچھی اپڈیٹ ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 2 guests)

                      Working...
                      X