Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    کہانی کا پلاٹ اچھا ہے ایک کاما تین جوانیاں ساتھ میں دو بونس .
    اب دیکھتے ہیں کون پہلے آتی ھےنیچے.....

    Comment


    • #22
      Hamesha ki tara bohat achi story hai apka har story ka script bohat acha hota hai

      Comment


      • #23
        Kahani ka agaz buhat acha Desi tarka Mily ga

        Comment


        • #24
          Khani bohat achii hy.open form pr any ka boht shukrya

          Comment


          • #25
            Kahani ka aaghaz bhot shandar ha mujha to.lgta aunty betion sa phle maza kr jaye gi

            Comment


            • #26
              میں صبح جاگا دودھ دوہ کر رکھا آج بہزاد نہیں آیا تھا اس لیے مجھے ہی دودھ دینے جانا پڑا میں دودھ لے کر پہنچا تو نصرت اور سونیا وہاں سے تیار ہوکر نکل رہی تھیں دونوں نے خود کو اچھی طرح سے ڈھانپ رکھا تھا دونوں نے نقاب کیا ہوا تھا نصرت اور سونیا گھر میں فری ہوتی تھیں اس لیے وقت گزارنے کےلیے گاؤں میں کھلے پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھیں دونوں اب پڑھانے جا رہی تھی سعدیہ اور چھوٹی فاریہ بھی جا چکی تھی گھر میں اسوقت کوئی نہیں تھا نصرت نے گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور جاتے ہوئے مسکرا دی میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آنٹی رفعت باہر نکلی مجھے دیکھ کر ہنس دی آنٹی اسوقت بھی کسے ہوائے لباس میں تھی میں نے ایک نظر آنٹی رفعت کے تنے ہوئے مموں پر ڈالی تو آنٹی کے تنے مموں کے موٹے نپلز قمیض میں سے نظر آ رہے تھے میں یہ دیکھ کر چونک گیا آنٹی رفعت نے برا نہیں پہن رکھی تھی میں نے چونک کر نظر اوپر آنٹی رفعت کے منہ پر ڈالی تو آنٹی گہری آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہوئی ہلکا سا مسکرا رہی تھی آنٹی کی بھری ہوئی گالوں پر لالی اتر آئی تھی آنکھوں میں نشہ تھا مجھ سے نظر ملتے ہی آنٹی بولی وے تینوں آکھیا اے کہ اے تیرا اپنا گھر دروازہ نا کھڑکایا کر آدھا اندر یا کر یہ سن کر میرے ذہن میں نصیبو کا گانا بجا بوا نا کھڑکا سوہنیا آدھا اندر آ میں یہ سوچ کر ہنس کر گہری نظر سے آنٹی کو دیکھ آنٹی مسکرا کر بولی کالو سمجھ گیا ہیں نا میرا رنگ تھوڑا کالا تھا جس سے لوگ مجھے کالو ہی بولتے تھے آنٹی بھی سمجھ گئی تھی کہ میرے ذہن میں وہی گانا بجا ہے میں بولا جی سمجھ گیا وہ میرے ہاتھ سے دودھ لے کر بولی تے وت اگاں آجا۔ سارے روٹی کھا کے وگ گئے ہینڑ ہنڑ صرف توں رہندا ایں یہ کہ کر آنٹی میرے آگے چل پڑی آنٹی رفعت کی چوڑی موٹی گانڈ پر آنٹی کی لمبی گت ہلتی ہوئی دھمال ڈال رہی تھی میرا لن تو مستیاں کرنے لگا تھا میں خود کو روک نہیں پا رہا تھا آنٹی اندر کیچن میں چلی گئی میں صحن میں رک گیا آنٹی کی ن کے دروازے پر جا کر رکی اور بولی کالو اندر ہی آجا ایتھے کیچن اچ ہی بہ کے روٹی کھا لئے میں سمجھ گیا کہ آج کالو تیری خیر کوئی نہیں یہ سوچ کر میں مسکرا دیا آنٹی مجھے ہی دیکھ رہی تھی آنٹی میری مسکراہٹ کی وجہ سمجھ گئی تھی آنٹی بھی اسی انداز سے مسکرا کر اندر چلی گئی میں بھی پیچھے اندر چلا گیا آنٹی رفعت سنک پر کھڑی ہو کر کام کر رہی تھی آنٹی رفعت کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی قیامت ڈھا رہی تھی رفعت مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا کر بولی اندر آجا میں بلوا میں ہتھ دھو لوا آنٹی بولی ایتھے ہی دھو لئے آگے سنک پر بیان لگا تھا برتن دھونے والا میں اندر داخل ہوا اور آنٹی کے پیچھے سے گزرتے ہوئے آنٹی کی باہر کو نکلی گانڈ پر ہلکا سا ہاتھ ٹچ ہو گیا میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا پر ہوگیا تھا جس سے آنٹی تھوڑی سی آگے ہو کر مڑی اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں تھوڑا گھبرایا پر آنٹی کو مسکراتا دیکھ کر میں مطمئن ہوگیا کہ سب اچھا ہے میں ہاتھ دھو کر مڑا تو آنٹی شاید روٹی بنانی تھی میں آنٹی سے بولا آنٹی لسی دا گلاس ملسی آنٹی نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی کیوں نہیں لسی تیری محنت نال ہی نکلدی بے جھجھک منگ لئی کر اور پاس پڑے جگ سے گلاس میں ڈال کر مڑی اور میری طرف آئی میں نیچے پیڑھی پر بیٹھا تھا آنٹی میرے قریب آئی اور میرے سامنے کھل کر گلاس میری طرف بڑھا دیا آنٹی رفعت کے جھکنے سے آنٹی کے موٹے تھن نیچے لٹک گئے جس سے رفعت کے سینے کا گلہ کھل گیا اور آنٹی رفعت کے موٹے تنے ہوئے گورے ممے میرے سامنے وضع ہو گئے میں آنٹی کے موٹے ممے دیکھ کر مچل سا گیا میری گہری نظر آنٹی کی مموں کے اندر تھی میں اتنا مگن تھا کہ مجھے لسی کا خیال ہی نہیں تھا آنٹی بھی مجھے اپنے مموں کو دیکھتی ہوئی گلاس میرے سامنے کیے جھکی رہی آنٹی رفعت نے کوئی حرکت نہیں کی وہ میری آنکھوں میں گہری آنکھیں ڈالے دیکھتی ہوئی اپنے مموں کا نظارہ مجھے کرواتی رہی ایک منٹ بعد مجھے احساس ہوا میں نے جلدی سے نظر چرا کر آنٹی ہو دیکھا تو آنٹی گہری مست نظروں سے مجھے غورتی ہوئی مسکرا دی میں نے جلدی سے گلاس پکڑ لیا آنٹی رفعت میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی سیدھی ہوکر واپس اپنے کام میں مگن تھی میں نے گلاس منہ کو لگایا اور نظر اٹھا کر آنٹی کے جسم کا نظارہ کیا تو میری نظر سامنے آنٹی رفعت کی کمر پر پڑی جہاں آنٹی کے اونچے چاک سے آنٹی رفعت کا گورا بدن جھانک رہا تھا آنٹی نے اپنی شلوار بھی کافی نیچے باندھ رکھی تھی جس سے آنٹی رفعت کے چڈے کا اوپر والا حصہ صاف نظر آرہا تھا میں تو یہ دیکھ کر بوکھلا سا گیا تھا میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اب آنٹی کیوں کر رہی ہے میرا لن انگڑائی لے کر تن گیا میرے کان گرم ہونے لگا آنٹی رفعت نے ایک لاکٹ بھی پیٹ کے گرد ڈال رکھا تھا جسکی لٹکی ہوئی جھانجریں ننگے چاک سے نظر آرہی تھیں مجھ سے تو رہا نہیں جا رہا تھا میں نے بات بدلنے کےلیے کہا آنٹی بہزاد تے ندیم کدے ہینڑ آنٹی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولی پتا نہیں کدے ہینڑ۔ اپنی زندگیاں اچ مست ہینڑ کدی کدی گھر دا راہ ویکھ لونڑ تے اجاندے ہینڑ ۔مین بولا آنٹی توں تے آوارہ کر دتے ہینڑ آنٹی ہنس دی اور بولی چلو اپنی زندگی ہے اوہناں دی مرضی نال کی پینٹ میں کدی روک ٹوک نہیں کیتی میں مسکرا کر آنٹی کے ننگے چاک کو دیکھ رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا تھا آنٹی بولی انڈے نال کھاسی یا دہی ناک میں بولا آنٹی دہی ہی سہی اے اگے گرمی بڑی اے آنٹی رفعت نے مسکرا کر گہری نشیلی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی انڈے اچ تے طاقت وی ہوندی اے تے تیرے جئے مرد نوں تے طاقت دی لوڑ اے یہ کہ رفعت نے ایک نگاہ میرے جسم پر پھیری میں مسکرا دیا اور بولا آگے بڑی طاقت ہے طاقت دی کمی نے آنٹی رفعت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی اچھا جی ویسے لگ وی رہیا اے توں تے چنگا بھلا صحت مند ہیں میں بولا ہاں جی میں اپنا خیال رکھنا اں آنٹی بولی اچھا جی وت تیری صحت دا امتحان لئے کے چیک کرئیے میں آنٹی کے کھلے انداز سے چونک کر ہنس دیا آنٹی بولی اچھا فر فریج ابو اپنے واسطے دہی لئے آ میں اٹھا اور باہر فریج سے دہی لے کر آیا آنٹی وہیں کھڑی تھی آنٹی رفعت کی باتوں اور انداز سے میرا حوصلہ بھی بڑھ چکا تھا میرا لن پہلے ہی سر اٹھا کر کھڑا تھا میں نے آنٹی کے پیچھے آکر اپنے لن کو آنٹی کی گانڈ کے چیر میں سیٹ کرکے ہلکا سا پش کرکے اپنا وزن آگے بڑھا کر آنٹی کے آگے دہی رکھ دی آنٹی کی ملائم گانڈ میں ٹوپہ چبھتے ہی آٹنی رفعت بھی کانپ کر چونک گئی آنٹی نے ہلکی سی سسکاری بھری اور اپنی گانڈ میری طرف دبا کر کھول کر مجھے دیکھا میں اپنے دھیان میں ہی رہا اور دہی آگے رکھدی آنٹی رفعت نے بھی اپنی گانڈ میری طرف دبا جس سے میرے لن کا ٹوپہ آنٹی کی گانڈ میں گھس گیا میں آنٹی کی گانڈ میں ٹوپہ گھستے ہی سسک گیا اور دہی رکھ کر پیچھے مڑے لگا تو آنٹی نے اپنی گانڈ دبا کر میرے لن کے ٹوپے کو دبوچ لیا میں آنٹی رفعت کی گانڈ میں لن کو دبا محسوس کرکے کانپ کر رک سا گیا آنٹی بھی رک کر اپنے ہاتھ سنک پر رکھ کر اپنی کمر آگے کو جھکا کر اپنی موٹی گانڈ باہر نکال کر کھول کر میرے لن کو اپنی گانڈ میں مزید دبوچ لیا آنٹی کے جسم سے آگ کے بھانبھڑ اٹھ رہے تھے جس کو محسوس کرکے میں مچل کر کراہ گیا آنٹی رفعت کی گانڈ میں آگ لگی تھی جو میرے لن کو جلا کر میری شہوت بڑھا رہی تھی میں مزے سے کانپ گیا آنٹی رفعت نے میرے لن کو گانڈ میں دبوچ رکھا تھا آنٹی بھی ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے بے اختیار ہاتھ اٹھا کر آنٹی رفعت کے کاندھوں پر رکھ کر دبا دئیے جس سے آنٹی رفعت سسک کر اوپر ہوئی اور ہانپتی ہوئی پیچھے میرے سینے سے آلگی آنٹی رفعت نے بے اختیار اپنا سر میرے کاندھے پر رکھ دیا میں آنٹی کے کندھے مسلتا ہوا منہ نیچے کیا اور آنٹی رفعت کی پھولی ہوئی موٹی نرم گال کو چوم لیا آنٹی سسک کر آپ بھر کر رہ گئی آنٹی رفعت کے اندر بھی آگ لگی تھی میں نے ہونٹ کھول کر آنٹی رفعت کی گال کو منہ میں بھر کر دبا لیا اور ہاتھ نیچے پیٹ پر لے جا کر آنٹی رفعت کو اپنے ساتھ لگا کر اپنی باہو میں بھر لیا آنٹی رفعت کا نرم جسم میرے ساتھ لگ کر میرے اندر آگ لگا چکا تھا میں آنٹی رفعت کے جسم کو مسل کر آنٹی رفعت کے موٹے مموں کو ہاتھوں میں بھر کر دبا کر مسلتا ہوا آنٹی کے مموں سے کھیلتا ہوا آنٹی کی گال کو چوس کر پینے لگا مٹی رفعت اپنے مموں کو میری گرفت میں پا کر مچل کر کرلا کر تڑپی اور منہ اوپر کرکے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے جوڑ کر دبا کر چوسنے لگی میں بھی آنٹی کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا آنٹی رفعت کے موٹے ممے دبا کر مسلنے لگا آنٹی رفعت کے موٹے نرم ہونٹوں میں عجیب نشہ اور رس تھا جو میرے اندر اتر کر آگ لگا تھا آنٹی رفعت میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی تیز تیز سانس لیتی ہانپ رہی تھی آنٹی کے ہانپنے سے کیچن گونج رہی تھی آنٹی نے میرے ہونٹ داب کر میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر دبا کر چوس لی آنٹی رفعت کے گرم منہ میں میری زبان جل سی گئی آنٹی رفعت دبا کر میری زبان کو چتھ کر چوسنے لگی میں آنٹی کے موٹے مموں کو دبا کر مسلتا ہوا آنٹی رفعت کے ہونٹ دبا کر چوس رہا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا ہوا چکا میں نے اوپر شرٹ ڈالی ہوئی تھی جو میں نے ہاتھ ڈال کر اتار کر کھینچ دی جس سے آنٹی رفعت مجھ سے الگ ہوئی اور میرے کالے ننگے جسم کر دیکھ کر مچل کر سیدھی ہو کر میری طرف گھوم آئی اور میرے ساتھ لگ کر میرے ننگے سینے پر اپنا ہاتھ پھیر کر سسک کر بولی سسسسیییی افففففف کالوووو تیرا جسم وی تیرے پیو آر بہوں سوہنا اے قسمیں اور آگے منہ کرکے میرے سینے کو چوم لیا میں آنٹی رفعت کے انداز پر مر مٹا تھا آنٹی میں بہت شہوت تھی آنٹی نے میرے سینے کو چومتے ہوئے زبان نکالی اور میرے سینے کو چومتی ہوئی چاٹتی ہوئی ہانپ کر کراہنے لگی آنٹی رفعت کا جسم کانپ رہا تھا اور آنٹی اونچی اونچی کراہیں بھر کر میرا جسم چاٹ رہی تھی آنٹی کے ہوا میں تن کر کھڑے مموں کو چھپا دیکھ کر مجھ سے رہا نا گیا میں نے قمیض کو ہاتھ ڈالا اور آنٹی کا قمیض کھینچا تو آنٹی نے خود ہی اپنا قمیض طکڑ کر اتار دیا آنٹی رفعت کا گورا بھرا ہوا سیکسی بدن میرے سامنے ننگا ہوا گیا آنٹی رفعت کے تن کر ہوا میں اکڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے اتنے موٹے اور بڑے ممے آج تک نہیں دیکھ تھے آنٹی رفعت نے دونوں مموں کے نپلز کو چھدوا کر ان میں چھلے ڈلوا رکھے تھے جن کے ساتھ چھوٹی چھوٹی زنجیریں لٹک رہی تھیں میں آنٹی رفعت کے چھدے ہوئے نپلز دیکھ کر مچل گیا اور آنٹی کے مموں کو دبا کر مسلنے لگا آنٹی کراہ کر مچل رہی تھی میں منہ آگے کرکے آنٹی کے ممے دبا کر مسلتا ہوا چوم کر چوسنے لگا آنٹی مزے سے کانپتی ہوئی کراہنے لگی تھی میرے کھردرے ہاتھ آنٹی کے مموں کی جان نکال رہے تھے آنٹی مزے سے اونچا اونچا کرلانے لگی تھی آنٹی نے میری شلوار کے نالے کو کھینچ کر میری شلوار میں ہاتھ ڈال کر میرا لن کھینچ لیا آنٹی رفعت کے نرم ہاتھ کا لمس میرے لن کا سانس ہی بند کرگیا میں تڑپ کر کراہ گیا آنٹی نے میرے لن کی جڑ پر ہاتھ رکھا اور دبا کر مسلتی ہوئی ٹوپے تک آنے لگی آنٹی میرے سر کو اپنے مموں پر دبا کر کرہا رہی تھی میرا لن اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا آنٹی نے جیسے ہی ہاتھ سے میرے لن کی لمبائی محسوس کی تو آنٹی چونک کر پیچھے ہوئی اور میرا سر اپنے مموں سے ہٹا کر میرے لن کی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر پھٹی آنکھوں سے میرے لن کو دیکھ کر ہانپ رہی تھی میں آنٹی کو حیرانی سے اپنا لن دیکھتا ہوا ہانپ رہا تھا آنٹی ایک لمحے بعد حیرانی سے بولی وے کالو میں مر جاواں اے تیرا ہی لن ہے میں نے ہاں میں سر ہلا آنٹی رفعت بولی وے رڑا ہو جاویں مار گھتیا ہئ اور میرے لن کو مسلتی ہوئی میرے کے سامنے جا بیٹھ اور غور سے دیکھ کر مسلتی ہوئی بولی وے کالو حرامدیا اے کیڈی بلا لئی ودا ایں نی مر جاواں اور آگے ہوکر میرے لن کے اوپر والے حصے کو چوم کر بولی نی میں صدقے جاواں ایڈا لن تے اج تک نہیں ویکھیا کالو وے ہنڑ تک کدے رہیا ایں تینوں پتا نہیں میں تے ایدے لن لونڑ کانڑ مر رہی آں میں سسک رہا تھا آنٹی اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلتی ہوئی میرے لن کو چوم کر میرے لن کے صدقے واری جا رہی تھی آنٹی نے سارا لن دبا کر اپنے سارے منہ پر مسلا اور سسکتی ہوئی بولی افففف کالو میں تے تیری دیوانی ہو گئی آں آنٹی بولی کالو اے جیدا لن اے اور پھر خود ہی پیچھے ہو لن ماپنے کے لیے اپنا بازو آگے کیا اور میرے لن کو بازو سے ماپنے لگی آنٹی رفعت کے قد کے حساب سے آنٹی رفعت کا بازو بھی کافی لمبا تھا پر پھر بھی میرا لن آنٹی کے بازو سے بھی بڑا تھا آنٹی یہ دیکھ کر حیران رہی گئی اور وے کالو میں صدقے جاواں تیرے لن تو تیرا لن تے تیرے پیو دے لن نالو دو گنا وڈا اے اس نوں کی کھویا ہئی آنٹی رفعت میرے لن کو دنوں ہاتھوں میں دبا کر ۔مسلتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسل کر سسک رہی تھی آنٹی رفعت کے لمس نے میری جان نکال دی تھی میں مچل کر کراہ رہا تھا آنٹی میرے لن کو دبا کر مسلتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو دبا کر لن پر پھیرتی ہوئی منہ کھولا اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا آنٹی کے گرم میں کو لن پر محسوس کرکے میری کراہ نکل گئی آنٹی نے مستی بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے لن کو دبا کر ہونٹوں میں چوستی ہوئی اپنی زبان میرے لن پر پھیرنے لگی آنٹی کی زبان نے میرے لن کو مسل کر میری جان نکال دی میں کراہ کر مچل گیا آنٹی مدہوشی سے مجھے دیکھتی ہوئی میرے لن کا ٹوپہ چتھ کر چوستی ہوئی داب کر چوس کر اس پر زبان پھیرتی ہوئی ہانپ رہی تھی آنٹی کی کراہیں بھی غوں غوں میں بدل رہی تھیں میں کراہ کر مچل رہا تھا آنٹی کا منہ میری جان کھینچ رہا تھا آنٹی نے میرے لن پر ہونٹ دبا کر میرے پٹ دبا کر پکڑے اور زور لگا رج لن کو مزید اندر منہ میں لے گئی آنٹی کے منہ کا دہانہ کافی کھلا تھا جس سے لن آسانی سے آنٹی رفعت کے گلے تک اتر گیا آنٹی نے کراہ کر ہونٹ لن پر دبا کر کھینچ کر چوپا مارا اور رکے بغیر لن کو دبا کر چوستی ہوئی کس کر چوپے مارنے لگی آنٹی رفعت کے موٹے نرم ہونٹ میرے لن کی چمڑی کو رگڑ کر مسلتے ہوئے میری جان نکالنے لگے میں کرلا کر بکا گیا اور تڑپ گیا آنٹی کے گرم منہ کے چوپے میری جان کھینچ لی میں تڑپتا ہوا کانپنے لگا چار پانچ چوپوں پر ہی میری ٹانگیں کانپ گئی اور میں کرلا کر دوہرہ ہوگیا آنٹی سمجھ گئی اور رک کر میرے لن کو چتھنے لگی جس سے میں بکا گیا مجھے لگا کہ میری ٹانگوں سے جان نکل کر لن کی طرف بہ رہی ہے جس سے میری ٹانگیں کانپ گئی اور میں گرتے گرتے سنک کا سہارہ لے کر دوہری ہوکر تڑپ کر کراہ ے لگا ساتھ ہے میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی موٹی دھار نکل کر سیدھی آنٹی رفعت کے گلے کو بھر گئی ساتھ ہی میں مزے سے چیخ گیا آنٹی کا گلا اور میری گاڑھی منی سے بھر گیا آنٹی نے کانپتے ست سے مجھے دیکھا اور گھونٹ بھر کر ساری منی پیٹ میں اتار لی گھونٹ بھرتے ہوئی آنٹی رفعت کے گلے گھرگٹ کی آواز کے ساتھ میری ساری منی آنٹی رفعت کے پیٹ میں چلی گئی ساتھ میں نے تڑپ کر دوسری دھار ماری جس سے آنٹی نچوڑ کر پی گئی میں کراہ کر تڑپتا ہوا آنٹی رفعت کے گلے میں فارغ ہوتا ہوا کراہ گیا ایک بار تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا تھا آج تک مجھے کسی عورت نے نہیں تھکایا تھا میں تو آنٹی رفعت کے منہ کے سامنے ہی ڈھیر ہو گیا تھا پھدی تو ابھی دور تھی آنٹی نے میری دبا کر نچوڑ کر پی اور میرے لن کو دبا کر مسلتی ہوئی چوسنے لگی میرا لن ہلکا سا سر جھکا گیا تھا آنٹی لن پچ کی آواز سے چھوڑ کر ہانپ کر بولی ہالنی میں مر جاواں کالو تیری منی کیڈی سوادی اے آج تک ایو جہیا سواد نہیں آیا منی دا پر تیری ٹائمنگ بڑی کم اے میں کانپتی از میں بولا سوہنیے ٹائمنگ تے بڑی اے پر تیرے اندر وی تے آگ بڑی اے آنٹی رفعت ہانپ کر میرے لن کو دونوں ہاتھوں سے مسلتی ہوئی بولی کالو ہنڑ میری آگ وی مٹھی ہو جاسی سہوں آلی گل اے کالو اے باہں جیڈا لن میرے سفھ تک کہ جاسی گیا اور آگے ہوکر میرے لن کا ٹوپہ چوم کر ہونٹوں میں پھر کر دبا کر چوسنے لگی میں سسسک کراہ گیا آنٹی نے میرے ٹوپے کی نوک کو ہونٹوں میں بھرا اور زبان سے چاٹ کر بولی کالو آگے وی کسے نوں اے لن جڑ تک منڈیا ہئی میں بولا سوہنیے اے آدھی تو اگاں کسے نہیں کیا نا میں کوشش کیتی آنٹی رفعت سسک کر کراہ گئی اور میرے لن کو مسل کر سسکار کر بولی ااافففف سسسسی کالووو تینوں میری سہوں اے اے آج سارا میرے سنگھ تک ٹپا دے میں تے آگ نال موئی پئی آں تیرے لن ہی میری آگ بجھانے اے یہ کہ کر آنٹی اوپر ہوئی اور بولی چل اندر چلیے میں نے آنٹی کو باہوں میں بھر کر اٹھا لیا آنٹی میرے اوپر چڑھ آئی اور میری کمر کو ٹانگوں سے دبوچ کر میری کمر کے گرد ٹانگیں کس کر دبا لیں میں آنٹی رفعت کو اٹھا کر اندر لایا میں فل ننگا تھا میں نے آنٹی کو بیڈ پر لٹا دیا آنٹی نے آپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر کھڑی کر لیں جس سے میں نے آنٹی رفعت کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور کھینچ کر اتار دی آنٹی نے آپنی ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی میرے سامنے کھول دی آنٹی رفعت ہانپتی ہوئی مدہوشی سے مجھے دیکھ رہی تھی آنٹی رفعت کی موٹے ہونٹوں والی ہلکی سی براؤن پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی آنٹی کی پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھلا تھا جبکہ آنٹی نے اوپر پھدی کے دانے کو چھدوا کر موٹا سا چھلا ڈال رکھا تھا جس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی پتلی زنجیریں لٹک رہی تھی میں یہ دیکھ کر مچل سا گیا تھا آنٹی رفعت ہانپتی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں نے لن مسلا اور اوپر بیڈ کے اوپر آکر آنٹی رفعت کی ٹانگیں دبا کر کندھوں سے لگا کر رفعت کے چڈے فل کھول دیے پھدی کھل کر میرے سامنے تھی میں پاؤں بھار اوپر ہوا تو آنٹی رفعت نے میرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے دہانے پر ایڈجسٹ کیا تو میں نے ہلکا سا دھکا مار کر لن کا ٹوپہ آنٹی رفعت کی پھدی میں اتار دیا لن پچ کی آواز سے اندر اتر گیا آنٹی رفعت کی پھدی میں تو آگ لگی تھی میں تڑپ گیا آنٹی رفعت بھی ہانپ کر کانپ گئی میرا بازوجتنا لمبا لن آنٹی رفعت کے اندر جانے کو تیار تھا میں نے لن کھینچا اور گانڈ کو اٹھا کر جھسا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو کھول کر کافی سارا اندر گھس گیا جس سے آنٹی رفعت تڑپ کر کراہ کر اچھلی اور کرلا کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی میں رک گیا آنٹی رفعت کی پھدی میں لن آدھے کم ہی گیا تھا آنٹی کا جسم کانپنے لگا اور آنٹی کراہنے لگی میں تو انتی کے اندر لگی آگ سے کراہ گیا اور لن کھینچ کر جھسا مارا جس سے میرا آدھا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کی بچہ دانی کو کھول کر اوپر آنٹی رفعت کے ہاں میں گھس گیا جس سے آنٹی تڑپ کر اچھلی اور زوردار بکاٹ مار کر کر چیلا کر دھاڑی اور میرے سینے پر ہاتھ کر مجھے روک کر بولی اوئے ہالیوئے اممممااااااں میں مر گئی اوئے ہالنی امممماااں میں آنٹی کے جسم کو پھڑکتا دیکھ کر رک سا گیا آنٹی میرے سینے کو دبا کر بولی اوئے ہالیوئے کالوووووو میں مر گئی میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی اور بچہ دانی چیر کر آنٹی رفعت کے ہاں میں گھس چکا تھا آنٹی بوکھلا کر بولی اوئے ہالیوئے کالو تیرے پیو دے لن تا ایتھو تک مینوں آگے ہی چیر کے کھولیا ہویا اے ایتھو تک تے میں برداشت کر گئی آں میں سمجھ گیا کہ ابے کا لن آنٹی رفعت ہاں تک لے چکی ہے اس لیے میرا لن آسانی سے اندر گھس گیا تھا آنٹی تڑپتی ہوئی پھڑک کر کرلا رہی تھی میں ایک منٹ رہا اور لن کھینچ کر ہلکے ہلکے دھکے مار کر آنٹی کو چودنے لگا آنٹی کرلا کر کراہتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے کالو ماردا پیا ایں وے ظالما آج میری آگ بجھا دے ساری جہڑا تیرا پیو وی نہیں بجھا آگیا آنٹی رفعت کی آگ میرے لن کو جلا رہی تھی میں تڑپ کر کراہ رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میرا دل کر رہا تھا کہ سارا لن جڑ تک آنٹی رفعت کے اندر گھسا دوں یہ سوچ کر میں نے گانڈ اٹھا کر اپنا سارا زور جمع کیا اور لن کھینچ کر پوری طاقت سے جھسا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کے ہاں کو چیر کر درمیان والے حصے کو کھولتا ہوا آنٹی رفعت کے سینے میں آنٹی رفعت کی چھاتیوں تک اتر گیا جس سے میرے لن کی جرک نے آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے سینے میں گھس آیا تھا میں نے زور ہی اتنا لگایا تھا کہ میرا لن اتنا ہی گھس سکا آگے میرا زور ٹوٹ گیا آنٹی رفعت کے سی ے تک پہلی بار لن اتر تھا جس سے آنٹی رفعت درد سے نڈھال ہوکر تڑپ کر اچھلی اور پوری شدت سے منہ کھول کر پورا زور لگا کر چیختی ہوئی میرے سینے کو پیچھے دبا کر اتنا زورا سے ارڑاتی ہوئی بکاٹ مارا کہ کمرہ ہل گیا آنٹی رفعت میرے لن کو اپنے سینے میں محسوس کرکے درد سے تڑپ کر دوہری ہوکر پھڑکتی ہوئی منہ کھول کر چیختی ہوئی ارڑا ارڑا کر حال حال کرتی ہوئی میرا سینہ پیچھے دبا کر مجھے خود سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی آنٹی رفعت کے سینے تک اترا میرا لن آنٹی رفعت کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا آنٹی رفعت مسلسل تڑپتی ہوئی ارڑا کر حال حال کرتی باااااااااااں باااااااااں باااااااااں کرتی مجھے اپنے اوپر سے دھکیلتی ہوئی پھڑک رہی تھی میں بھی پہلی بار پورا لن کسی عورت کی پھدی میں اتار رہا تھا جو آنٹی رفعت کے سینے میں کبھ چکا تھا میں بھی مزے سے مچل کر کراہ سا گیا اور کرلا کر تڑپنے لگا تھا آنٹی رفعت کے سینے تک لن اتار کر عجیب سا سرور اندر اتر رہا تھا آنٹی تڑپ تڑپ کر بااااں باااااں بااااں کرتی حال حال کرتی ہوئی اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی انٹی رفعت کے چہرے کا رنگ لال سرخ تھا اور آنٹی میرے نیچے پڑی لن سینے تک کے کر تڑپ رہی تھی آنٹی حال کرتی بولی اوئئئئے ہہہاااااللییووووئئئئے کاووووووو میں مر گئی آؤں اوئے ہالیوئے میرا سینہ چیردا پیاں ایں میرا لن ابھی آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر تھا میں کراہ کر کانپتا ہوا اوپر ہوا مچل کر اپنا سارا زور جمع کرکے پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا سارا لن جڑ تک آنٹی رفعت کی پھدی کے پار کردیا میرا بازو جتنا لن پورا جڑ تک اتر گیا جرک لگتے ہی میرا بازوجتنا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر جڑ تک اتر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے گلے میں اتر گیا جس سے آنٹی رفعت کی ایک چیخ نکلی اور میرے لن نے آنٹی رفعت کی آواز دبا لی آنٹی رفعت پھڑکتی ہوئی دوہری ہوکر سمٹ سی گئی اور زور زور سے چیخنے کی کوشش کرتی میرے سینے کو دبا کر مجھے خود سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی جس سے آنٹی رفعت کی سینے سے نکلتی آواز آنٹی رفعت کے گلے میں اترے لن پر دب کر غوں غوں میں بدل رہی تھی درد سے آنٹی رفعت کا چہرہ لال سرخ ہو کر تڑپ رہا تھا میں کراہ کر مچل گیا آج پہلی بار اپنا پورا لن جڑ تک کسی عورت کے اندر اتارا تھا جو آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کے سینے کو کھول کر دوسری طرف سے گلے تک گھس چکا تھا آنٹی پھڑکتی ہوئی میرے سینے کو دبا کر خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی پر میں کہاں چھوڑنے والا تھا میں نے لن کھینچا اور آنٹی کے اوپر آکر آنٹی کو دبوچ کر آنٹی کے کاندھوں میں ہاتھ ڈال کر دبا کر پن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے لن آنٹی رفعت کی پھدی میں اتارنے لگا میرا لن آدھی تک نکل کر پوری شدت واپس آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے گلے تک اترنے لگا جس سے آنٹی رفعت تڑپ کر اچھلی اور بکا کر ہینگتی ہوئی باااااں باااااااں بااااااں کرتی میرے نیچے پھڑک ے لگی میں آہیں بھرتا مزے سے پوری شدت سے آنٹی رفعت کی پھدی میں لن آدھی تک نکال کر تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا آنٹی کے اندر لگی آگ میری جان نکال رہی تھی میں تڑپ کر پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر لن گلے تک اتار رہا تھا میرا لن تیزی سے آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر گلے تک اتر کر اندر باہر ہورہا تھا آنٹی رفعت کے گلے میں اندر باہر ہوتا میرا لن صاف نظر آرہا تھا آنٹی رفعت بکا کر تڑپتی ہوئی پھڑک ے لگی تھی میرا لن آنٹی رفعت کو چیر کر پھدی سے اتر کر سینہ چیر کر گلے تک راستہ بنا چکا تھا آنٹی کا جسم پھڑک رہا تھا اور آنٹی پورا زور لگا کر پھڑہکتی ہوئی بااااااں بااااااں باااااااں کرتی چیخ رہی تھی میرے لن میں آواز دب کر گلے میں دب رہی تھی تین سے چار منٹ کے دھکوں سے میری ہمت ٹوٹ گئی اور میں لن کھینچ کر جر مار کر لن آنٹی رفعت کی پھدی میں جڑ تک اتار آنٹی رفعت کے گلے تک آگیا تھا جس سے میں تڑپ کر کرلا کر ایک لمبی کی دھار مار کر اتنی رفعت کے گلے میں فارغ ہونے لگا میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا آنٹی کے گلی میں لن فارغ ہونے سے آنٹی کا منہ منہ سے بھر گیا اور آنٹی کی باچھوں سے منی بہنے لگی آنٹی رفعت ہینگتی ہوئی میرے نیچے پڑی پھڑک رہی تھی آنٹی زور لگا کر سانس کھینچ کھینچ کر پورے زور سے بھاااااں بھاااااااں بھاااااااااں کرتی پھڑکنے لگی تھی آنٹی رفعت اصلی میں بکا رہی تھی جو کہ میرے لن پر آوازیں دب کر بھااااں بھاااااں میں بدل رہی تھی آنٹی کا جسم پھڑک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ آنٹی کی آواز نکل رہی ہوں آنٹی رفعت کی آواز گلے میں دب رہی تھی میں نڈھال ہوکر آنٹی کے سینے میں پڑا تھا آنٹی کا دل پھڑک کر باہر آرہیا تھا میں آنٹی کے ممے مسل کر چوس رہا تھا آج جو مزہ آنٹی رفعت کی پھدی میں جڑ تک لن اتارنے کا ملا تھا کہیں نہیں ملا تھا میں کرلا کر کراہ کر ممے چوس رہا تھا آنٹی آنکھیں بند کیے منہ کھول کر پڑی پھڑکتی ہوئی ہینگ رہی تھی آنٹی رفعت کا سر ابھی تک پھڑک رہا تھا میں تڑپتا ہوا کراہ رہا تھا آنٹی کی آگ نے میری ساری آگ ٹھنڈی کر دی تھی میں اوپر ہوا تو آنٹی بے سدھ پڑی پھڑک رہی تھی آنٹی کا سینہ اوپر کو اٹھا تھا آنٹی نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کانپتے سر کے ساتھ پھڑکتی ہوئی بکانے لگی آنٹی کا پورا جسم تڑپ رہا تھا میں نے پیچھے ہو کر لن آنٹی رفعت کی کی پھدی سے کھینچ لیا جس سے آنٹی رفعت کے گلے میں اترا لن پچ کی آواز سے گلے سے نکل کر آنٹی رفعت کے سینے سے پیچھے ہٹتا ہوا باہر نکلنے لگا جس سے آنٹی رفعت بکا کر ہینگ گئی آر تڑپتی ہوئی اپنا منہ کھول کر ارڑا کر ہینگنے لگی میں نے اپنا بازو جتنا لن کھینچ کر رفعت کے اندر سے نکال لیا رفعت تڑپتی ہوئی بکا کر پھڑکتی ہوئی دوہری ہوکر اکھٹی ہونے لگی میرے لن نے رفعت کو پھدی سے گلے تک اتر کر چیر کر رکھ دیا تھا جو رفعت کی برداشت سے باہر تھا رفعت گھٹنے سینے سے جوڑ کر بکاتی ہوئی اکھٹی ہو کر اپنا سینہ اور کمر دبا کر چیلا رہی تھی میں بھی آگے ہوکر رفعت کو دبانے لگا کچھ دیر تک رفعت چیلا کر بکاتی رہی اور پھر تڑپتی ہوئی سنبھلنے لگی کچھ دیر بعد رفعت سنبھل تو گئی پر اس کا جسم پھڑک رہا تھا میں نے اس کی کمر کو مسل اور اس کے قریب ہوکر بولا سوری میری جان تیرے نال ڈھیر ہی کم کر دتا دفعت نے سر ہلایا پر وہ بولا نا کچھ سکی میرے لن نے پھدی سے گلے تک اسے چیر کر رکھ دیا تھا میں بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا رفعت کانپتی ہوئی ڈاکار رہی تھی میں اٹھا اور واشروم چلا گیا میں نہا کر نکلا اور اندر گیا تو رفعت ایسے ہی دوہری ہوکر پڑی تھی میں اس کے اوپر جھکا اور بولا جناب رہے ہوکے نہیں رفعت کراہتی ہوئی بولی افف کالو آج تے مار دتا ہئی میں تے موئی پئی آں میں بولا چس آئی تے نہیں رفعت بولی حرامدیا تیرا لن میرا چیر کے میرے سفھ تک لگھ گیا سواد کدو آنا ہا آج تے مار دتا ہئی میں ہنس دیا اور بولا آرام کر میں کیچن میں آکر کھانا کھایا اور اور اندر چلا گیا تو رفعت ایسے ہی پڑی کانپتی ہوئی کراہ رہی تھی رفعت کی ٹانگیں سینے سے لگی تھیں اور وہ اپنا سینہ دبا رہی تھی رفعت کو پھر سے درد ہونے لگا تھا رفعت کی درد بھری آہیں سن کر میں نے اسے سنبھالا تو رفعت بولی کالو بڑا ظلم کیتا ہئی انج پیالگدا اے جیوں سینہ چیر دتا ہے تیرے لن رفعت کا چہرہ اترا ہوا تھا آنکھیں باہر آچکی تھی ظاہر بات ہے یہ سب تو ہونا تھا بازو جتنا لن پھدی سے لے کر گلے تک برداشت کرنا کوئی آسان تو نہیں تھا رفعت میرا لن کے کر ٹوٹی پڑی تھی میں اس کی کمر دبا رہا تھا وہ آہیں بھرتی بولی کالو اے تیرے وس دا روگ نہیں جا نذیراں نوں آکھ مینوں سنبھالے میں گھبرا سا گیا کہ اسے کیا کہوں گا وہ میری گھبراہٹ دیکھ کر بولی مینوں کجھ نہیں ہوندا نذیراں نوں وی نہیں دسدی نا پریشان جا جلدی اس نوں گھل میں نکلا نذیراں کا گھر پاس ہی تھا میں وہاں گیا دروازہ کھٹکایا تو اندر سے نذیراں نکلی مجھے دیکھ کر چہک کر بولی آؤ جی جناب آج ساڈے گھر کیویں انڑ دا دل کیتا میں اسوقت تھوڑا گھبرایا ہوا تھا وہ میرے حواس دیکھ کر بولی خیر تے ہے کی ہویا میں بولا کجھ نہیں تینوں آنٹی رفعت سددی پئی او آکھ رہی جلدی آ نذیراں میرے چہرے کو غور کر سب سمجھ گئی تھی ظاہر بات ہے پہلے بھی ان کی باتیں ساکھ ہوتی تھی دونوں بہنیں ہی رنڈیاں تھیں وہ اپنے ہاتھ اپنے تن کر کھڑے مموں کے نیچے باندھ کر ہلکے سے ممے اٹھا کر بولی سچی سچی دس کی کیتا ہئی میری بھین نال میں اس بات پر گھبرا سا گیا اور گھبرا کر اسے دیکھا رفعت کی حالت بڑی خراب تھی میرا دل کیا اسے بتا دوں تاکہ وہ جلدی سے اسے سنبھال لے پر مجھ میں ہمت نا ہوئی وہ بولی دس وی آپ آیا ہیں کجھ کرکے یا اس گھلیا ہئی۔ میں گھونٹ بھر کے بولا میں کجھ نہیں کیتا اس بات پر وہ ہنس دی اور بولی اسدا مطلب کجھ کیتا ہئی میں پھنس گیا تھا میں جلدی سے بولا نذیراں اے گلاں بعد اچ کریں پہلے جا کے رفعت نوں سنبھال اس پر وہ بھی چونک گئی اور پھر ہنس کر بولی مینوں پتا ہا توں وی رحموں دا پتر ہیں پیو آر تیرا وی ہوں نہیں رہیا ہونا رفعت نوں ویکھ کے اور ہنس کر باہر نکلی اور بغیر دوپٹے کے ہی اپنے گھر کو کنڈی لگا کر باہر نکل آئی دو گر چھوڑ کے ہی اس کا گھر تھا رفعت کے گھر پہنچ کر وہ اندر چلی گئی میں دروازے میں کھڑا ہوکر بولا میں ڈیرے تے جاؤ ہاں توں سنبھال لیسیں وہ مڑ کر مجھے دیکھ کر ہنس کر بولی کالو آگے تیرا پیو وی ساڈا دوواں بھیناں دا حشر نشر کرکے سانوں چھوڑ کے وگ جاندا ہا توں وی جانا تے وگ جا اسی ہک دوجے نوں سنبھال لیندیاں ہاں میں بولا او ابے آلی گل ہور ہا پر ہنڑ کجھ ہور ہے وہ ہنس دی اور بولی وے ایو کجھ ہی گل ہونی توں جوان تے ترکڑا ہیں تیری طاقت باجی نوں زیادہ تو زیادہ بے ہوش کر دتا ہوان میں سنبھال لیساں توں جا میں یہ سن کر مطمئن ہوگیا اور نکل کر ڈیرے پر آگیا میں کام کرنے لگا پر میرا دل ڈرا ہوا بھی تھا کہ رفعت کو کچھ ہو نا جائے اگر اسے کچھ ہوگیا تو ندیم اور بہزاد تو میرا حشر نشر کرد یں گے کہ میں نے ان کی ماں کی پھدی میں بازو جتنا پورا لن اتار دیا میں گھبرا رہا تھا کہ پتا نہیں کیا ہوگا اسی کشمکش میں شام ہو گئی کوئی خبر نا ملی میں دودھ دوہ کر گھر ڈرتے ڈرتے پہنچا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو سامنے صدف کھڑی تھی وہ بھی دوپٹے کے بغیر تھی میں نے اس کے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے بھی کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا اس کے جسم کا انگ انگ واضح ہو رہا تھا ہلکے سے تنے ہوئے موٹے ممے پتلی کمر چوڑی گانڈ صدف بھی بھرپور جوان تھی صدف نے اپنی گت آگے مموں پر ڈال رکھی تھی اس کے ہاتھ میں کتاب تھی اس نے مجھے غورا اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر چھت کی طرف چلی گئی میں اندر داخل ہوا اسوقت گھر میں بچے پڑھنے آتے تھے جن کو چاروں بہنیں چھت پر پڑھاتی تھیں میں اندر داخل ہوا اور کیچن کی طرف چل دیا میں کیچن میں داخل ہوا تو سامنے رفعت کیچن میں کھڑی کام کر رہی تھی ایک ہاتھ اس نے کمر پر رکھا ہوا تھا اور دوسرے سے برتن رکھ رہی تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیاا ور میری سان میں سانس آئی اس نے گھوم کر مجھے دیکھا اور سامنے مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا دی اور میری طرف مڑ کر بولی آؤ جی میرے سرتاج صاحب آگئے اور چلتی ہوئی میری طرف بڑی اور میرے قریب ہوکر میرے ساتھ لگ کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر دبا کر میرے کاندھوں کو پکڑ کر دبا کر میرے قریب ہوکر اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے لگا کر چوم کر میرا ماتھا چوم کر مجھے اپنی باہوں میں بھر کر بولی کالو توں آج تو کالو نہیں میرا سائیں ہیں میں آج تو تیری رکھیل آں توں میرے نال جو مرضی کر میں تیری خادم توں میرا مالک میرے سر دا سائیں رفعت کا جسم ہلکا ہلکا سا کانپ رہا تھا میں اس کی گال کو چوم کر بولا رفعت میں تے آپ تیرا دیوانہ ہوگیا آں توں اے دس ہنڑ ٹھیک تے ہیں نا رفعت ہنس کر مجھے سینے سے لگا کر بولی میں تے ٹھیک ہاں مینوں کی ہونا میں بولا اچھا جی ویسے رفعت تیری آگ تے آج مینوں ہلا کے رکھ دتا رفعت بولی وے آج تیرے لن وی مینوں چیر کے رکھ دتا سارا دن ہوش ہی نہیں آیا اے ہنڑ سنبھلی آں کجھ تے اٹھی ودی آں ویسے تیرے لن میری آگ سہی بجھائی اے میں تے تیری رکھیل بن کے رہساں میں بولا ہلا ہنڑ اگاں لن پورا منڈا کے آدھا رفعت ہنس دی اور بولی ویسے تینوں ہک گل دساں تیرا لن ہلے وی نکا اے میں رفعت کی اس بات پر چونک گیا میں بولا اے لن لئے کے توں سارا دن پھڑکدی رہی ہیں تے ہلے اے نکلا رفعت ہنس دی اور بولی وے نکا ہی ہے میں بولا کیوں وہ بولی تیرا باہں جیڈا لن میرا سینہ چیر کے سگھ تک تے آگیا ہا جے اگر تھوڑا ہور وڈا ہونا تے میرے سفھ اچو پار ہوکے میرے منہ آلو نکل آندا تے سواد اجاندا میں رفعت کی بات پر ہنس کر بولا واہ رنڈیے تیرے شوق رفعت ہنس دی اور بولی تے ہور کی ہنڑ میں لن گلے تک تے لئے لیا اے اگلا ٹارگٹ لن پھدی آلو لئے کے منہ آلو کڈھوانا اے۔۔ میں بولا وت کوئی بندہ لبھدا جس دا میرے نالوں وی وڈا ہووے وہ ہنس دی اور بولی لبھنے دی لوڑ ہے میں اے ہی وڈا کرساں گئی میں بولا اور کنج وہ بولی مینوں پتا اے میرا ہک حکیم جانو ہے میں ہنس کر اسے سینے سے لگا کر چومنے لگا رفعت بھی مجھے باہوں میں بھر کر چومنے لگی میں بولا رفعت کے تیرے پتراں ندیم تے بہزاد نوں پتا لگ گیا کہ توں میرے نال سیٹ ایں تے وت رفعت ہنس دی اور بولی ہنڑ تک تیرے پیو کولو پھدی مروائی اے تے اوہناں نوں پتا نہیں لگا تیرا وی نہیں لگدا۔ ویسے و اکثر غائب ہی رہندے ہین ناں فکر کر توں بس میری آگ ٹھنڈی کر اور مجھے چومنے لگی میں سسک کر اسے چوم رہا تھا اتنے میں چھت سے بچوں کو چھٹی ہوگئی ہم الگ ہو گئے میں باہر نکل کر بیٹھ میں آگیا اتنے میں بہزاد اور ندیم دونوں آگئے میں بڑا مایوس ہوا میرا دل تھا رفعت کو ڈیرے پر لے جا کر ساری رات لن اسکی پھدی میں پیلنے کا پر سارا پلان چوپٹ ہوگیا میں کھانا کھا کر وہاں سے نکلا اور ڈیرے پر آکر سو گیا

              Comment


              • #27
                بہت اچھی کہانی ہے

                Comment


                • #28
                  یہ بہت شاندار کہانی
                  اس کا کوئی جواب نہیں​

                  Comment


                  • #29
                    Uff kya bat ek or behtareen or shehwat sa bharpor shahkar apne hero na to rifat ki sahe aag thandi ki ab jaldi rifhat ki behan or betiyon ki bari b aane wali ha

                    Comment


                    • #30
                      آگ ہی آگ
                      سیکس اور شہوت سے بھرپور تحریر

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X