Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    Bohat khuoob janab bohat achy achi story hy

    Comment


    • #22
      Agaz sy hi bohat garam story hye kya khoob

      Comment


      • #23
        Bht behtreen start ha easy hi jari rakhiye

        Comment


        • #24
          سویرے میری آنکھ کھلی تو میری بیٹی نصرت میرے اپر جھکی مجھے جگا رہی تھی میں آنکھ کھول کر دیکھا تو سامنے نصرت میرے اوپر جھکی تھی نصرت نے اپنا سینہ دوپٹے سیےچھپا رکھا تھا میں نیے ایک نظر اپنی بیٹی نصرت کے جسم پر ڈالی تو مجے رات والی عارفہ کی بات یاد آگئی میں چونک سا گیا نصرت بولی ابو ہلے تک ستا ہی پیا ہیں جاگ جا میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا اور بولا اٹھدا پیا ہاں میری دھیے نصرت ہنس دی اور بولی جلدی آ جو اور مڑ کر واپس جانے لگی میں نصرت کو پیچھے سے دیکھنے لگا نصرت نے کسا ہوا لباس پہنا تھا جس سے نصرت کی موٹی گانڈ کسی ہوئی نظر آ ری تھی نصرت نے دوپٹہ صرف آگے مموں پر ہی لیا ہوا تھا جس سی نصرت کا پچھواڑہ نظر آ رہا تھا نصرت کی لمبی گت نیچے گانڈ تک لٹکی ہوئی تھی جو نصرت کی ہلتی گند پر ہلتی ہوئی بہت سیکسی لگ ری تھی میں نصرت کو دیکھ کر مچل سا گیا تھا نصرت گانڈ مٹکاتی ہوئی چلتی ہوئی نکل گئی نصرت کی چوڑی کمر اور پھیلی گاند پر لٹکی ہوئی گت قیامت لگ ری تھی اپنی سگی بیٹی کی سیکسی جسامت دیکھ کر میرا لن تن ک کھڑا ہو چکا تھا نصرت مٹکتی ہوئی باہر نکل گئی میں تو سسک کر کرہ سا گیا مجے ندامت تو ہوئی کہ یہ میری سگی بیٹی ہے میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں لیکن رات کو عارفہ نے میرا ذھن ایسا بھر دیا تھا کہ میں بھی اپنی بیٹی میں اب بازاری عورت دیکھنے لگا تھا میں سوچ رہا تھا کہ نصرت میری سگی بیٹی ہے تو کیا ہوا میں سوچ رہا تھا کہ اب یہی طریقہ ہے کہ میں پنی بیٹی کو خود چود کر ٹھنڈا کر دوں یہ سوچ کر میرا انگ انگ کھڑا ہو گیا میں مچل سا گیا پر میں اس سی بھی خوفزدہ تھا کہ نصرت مانے گی بھی کہ نہی لیکن عارفہ مطمین تھی اس لی میں بھی اٹھا اور واشروم چلا گیا واشروم سے نکلا اور میں کچن میں آ گیا کچن میں آیا تو نصرت اور جویریہ اسکول جا ری تھیں مدیحہ یونیورسٹی جا چکی تھی نصرت اور مدیحہ دونوں برقے میں تھیں میں اندر ناشتہ کرنے لگا نصرت لوگ چلے گے کھانا کھاتے ھوے عارفہ نے مجھ سی پوچھا وت کی سوچا ہی میں نے اسے دیکھا اور بولا سوچنا کی ہے کج تے کرنا پوسی عارفہ مسکرائی اور بولی میں آج تسلی نال گل کرساں تے منا لسان گئی میں مسکرا دیا اور بولا ویکھیں کدایں باہر گل نکلی تے رولا نہ پے جے عارفہ بولی فکر نہ کر کجھ نہیں ہوندا اسی کہڑا علان کرنا میں ہنس دیا اور کھانا کھا کر دوکان پر چلا گیا میرے اندر ہی اندر مجے خوشی بھی ہو ری تھی پر دل ڈرا ہوا بھی تھا میں دوکان پر تھا کہ اتنے میں میرا دوست آسو آیا آسو کو دوسرے شہر کوئی کم تھا میں اس کی ساتھ کم چلا گیا وہاں جا کر کام کے سلسلے میں وہیں رکنا پڑا میں نے گھر فون کر کے بتا دیا کہ آج نہ آوں گا اگلے دن میں کام کر کے واپس آیا مجے دوکان کھولنی تھی میں آیا تو بہزاد دوکان کھول ک بیٹھا تھا اتنے میں عارفہ کا بھی فون آیا کہ آئے نہیں میں نے کہا آ گیا ہوں وہ بولی تو گھر کا چکر ہی لگا جاؤ میں ہنس دیا اور بولا خیر ہہے وہ بولی آ تو سی میں سمجھ گیا میں نے بہزاد سی کہا کہ میں گھر جا رہا ہوں آرام کرنے میں وہاں سی نکلا اور سیدھا گھر چلا یا میں نے دروازہ کھولا تو سامنے مجھے عارفہ نظر ای میں اس ک پاسس جا کر بیٹھ گیا وہ مجے دیکھ کر مسکرا دی اور مجھ سی پوچنے لگی کہ میں کہاں غائب رہا میں نے اسے بتایا اتنے میں مدیحہ پانی لائی میں پانی پی کر اس کو سوالیہ نظروں سی دیکھا پچھلا وقت تھا اس وقت بچے پڑھنے آتے تھے نصرت اور جویریہ بچوں کو پڑھا ہا رہی تھیں میں نی عارفہ سی پوچھا فر کی گل بنی وہ ہنس دی اور بولی تیرا جانے د فائدہ ہی ہوی ہ میں بولا وہ کی وہ بولی میں بڑی تسلی نال نصرت نو گل سمجھائی ہے میں نے بیقراری سے پوچھا فر اس کی اکھیا عارفہ میری بیقراری دیکھ کر ہنس دی اور بولی آپے پچھ لیں میں اس بات پر تھوڑا تنگ سا ہو کر بولا میں کی پچسن گیا عارفع ہنس دی اور بولی ہں تک زنانیاں نو کنج پھسیندا ری ہیں انج آر اپنی ڈھی نوں وی پھسا لے میں چونک کر بولا اوہ تے بازاری عورتاں ہوندیاں اہنا نو پھسانہ مشکل نہیں وہ بولی تے توں نصرت نوں اپنی دھی نہ سمجھے اس نال اپنا اوہ ہی کر جو توں باہر دیں نال کردہ میں کچھ نہ سمجھا اور بولا عارفہ سمجھ نہیں آ رہی نصرت نو کنج پھساواںوہ ہنس دی اور بولی انج ہی جیون باہر کردہ ہیں میں سوچ میں پر گیا مجے سوچ میں دیکھ کر عارفہ بولی دیمی نصرت جوان تے آج دی نسل ہ آج دی نسل دی نویں نویں شوق ہوندے میں نی اسے دیکھا وہ بولی نصرت نال میں تے گل کیتی اس نو آکھیا ا ہ کہ جدو تک تیری شادی نہیں ہندی توں اپنے پیو دا سہارا لیل لے جنس نال ساڈی عزت و ی محفوظ رحسیں تے دوجا تیرا وی کم ہو جسی میں بولا کی آخدی وہ بولی اس اکھا کہ میں سوچ کے دساں گی فر ہلے تک تے سوچ ہی ری ہے میں بولا تو وی چووائر نو سوچ اچ پا دیتا وہ بولی مینو امید ہے نصرت من جاسی گئی کیوں کہ اگر اس ناہں کرنی ہوندی تے اس ٹائم ہی کردیندی اتنا سوچدی نان میں بولا چلو ویخدے ان یہ سوچ کر میں واشرروم چلا گیا نکلا تو عارفہ نی چاے بنا کر مجھے میں چے پی کر دوکان پر آگیا کابہزادکل سے دوکان پر تھا میرے آتے ہہی وہ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ نکل گیا بہزاد تو واپس نہ آیا میں آج دوکان جلدی بند کر ک آ گیا کیوں کہ میں دو دن سی سفر میں تھا تو تھکا ہوا تھا اس لی میں گھر آ گیا میں نے گھر آ کر دروازہ خٹکایا تو’میری بڑی بیٹی نصرت نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر نصرت چونک گئی نصرت اس وقت دوپٹے ک بغیر تھی نصرت کا چوڑا ابھرا ہوا سینہ اور ہوا میں تن کر کھڑے ممے صاف نظر آ رہے تھے میں اپنی بیٹی نصرت کے تنے ہوۓ موٹے مموں کو ایک نظر بھر کر دیکھا تو نصرت کا گورا سینہ صاف نظر آ رہا تھا نصرت نے مجے اپنا سینہ تاڑتے دیکھ کر سمجھ گئی اور ہلکا سا مسکرا کر مجے دیکھا نصرت کے چہرے پر ہلکی سی لالی اتر ای تھی شرم سے میں اس کو شرماتا دیکھ کر سمجھ گیا نصرت مجھے دیکھ کر مر گئی اور جلدی سے چلتی ہو کچن میں جانے لگی نصرت نے وہی کس ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس میں نصرت کا انگ انگ صف نظر آ رہا تھا نصرت کی کسی ہوئی موتی گاند باہر کو نکلی نصرت ک چلنے سی مٹک رہی تھی نصرت کے بالوں کی لمبی گت نصرت کی گانڈ پر ہلتی ہوئی بہت ہی خوبصورت منظر بنا ری تھی میں تکتی باندھے اپنی بیٹی نصرت کا پچھواڑہ دیکھ کر مچل رہا تھا نصرت چلتی ہوئی مڑ کر اندر کیچن میں چلی گئی میں نے اندازہ لگایا گھر میں کوئی نہ تھا ہلکا سا اندھیرا پھیل چکا تھا میں بھی اندر کچن میں چلا گیا میں اندر گیا تو نصرت سنک پر کھڑی ہو کر برتن رکھ ری تھی میں نے اس ک جسم کو ایک نظر بھر کر دیکھا نصرت کا جسم کیا ہی سیکس تھا نصرت پوری سیکس بمب تھی آج تک جتنی لڑکیاں میں نے چودی تھیں آج تک کسی کا ایسا جسم نہ دیکھا تھا نصرت کا قد بھی تھوڑا لمبا تھا اور جسم ہلک سا بھرا ہوا تھا جس سے نصرت اتھری گھوڑی لگ ری تھی نصرت کا انگ انگ کسے لباس میں واضح ہو رہا تھا میں اپنی بیٹی ک جسم کو دیکھتا ہوا اندر چلا گیا اور کولر سی پانی نکل کر پینے لگا پانی پی کر میں مرا تو نصرت منہ نیچے کی کھڑی کام کر ری تھی میں اس ک چہرے کی لالی دیکھ کر بولا نصرت ماں کدے گئی ہے وہ منہ نیچے کی بولی امی ہمسائی آل گئی ہے میں بولا خیر نال نصرت بولی ویسے وہ بیمار ہ اس واسطے گئی میں بولا جویریہ وری نصرت بولی اوہ و نال گیاں میں ہ سن ک مچل گیا کہ نصرت اکیلی ہ لیکن میرا دل دار بھی رہا تھا مجھ سے ہمت نہ ہو ری تھی ہوتی بھی کیسے آخر نصر میری سگی بیٹی تھی اس ک ساتھ سونے والی با کرنا آسان تو نہ تھا بیٹی کے ساتھ باپ سونے کا سوچ بھی نہ سکتا تھا پر میری مجبوری تھی اپنی عزت کو محفوظ کرنے کلے میں ہر حد توڑنے کو تیار تھا میرا دل کر رہا تھا کہ نصرت سی بات کروں لیکن دل دار بھی رہا تھا کہ کہیں نصرت ناراض نہ ہو جے نصرت مونہہ نیچے کی کھڑی تھی نصرت مجے چپ کھڑا دیکھ کر منہ اٹھا کر مجے دیکھا ور بولی ابو کی بنا کیوں چپ خلے ہو نصرت ایسے ظاہر کر ری تھی جسے سب نارمل ہو اس کا رویہ دیکھ کر مجے بھی ہمت ہوئی اور میں مسکرا کر بولا کجھ نہیں وہ مسکرا کر بولی وت انج کی ویکھ رہے ہو کدی بندا نہ وکھا اس کا انداز مذاق کرنے والا تھا میں ہنس دیا اور اس کو اپنے ساتھ کھلتے دیکھ کر بولا بندہ تے وکھا ہوی ہ میں ے ویکھ ری ہان کہ میری دھی تے جوان ہو گئی نصرت اس پر شرمانے کی بجاے ہنس دی اور بولی بڑی جلدی تھوانو وی پتا لگ گیا کہ دھی جوان ہو گئی میں اس بت پرر ہنس دیا اور بولا بس دھیان ہی ہوں پیا ہے نصرت میری بات سمجھ گئی اور اپنی آنکھیں اٹھا کر نشیلے انداز سی مجے دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ سی مجے ایک لمحے تک دیکھا اور نظر جھکا کر کام کرتی ہویو بولی تھوڈا دھیان بازاری لڑکیاں تو ہٹتے تے تسی گھر تے دھیان دو اور شرارتی انداز میں ہنس دی میں بھی نصرت کی بات پر ہنس دیا اور بولا ہنر دھیان گھر تے ہی رحسی گیا نصرت ہنس دی میں نصرت کو دیکھ کر بولا نصرت وت کی سوچا ہے نصرت بولی کس بارے اچ میں مسکرا کر بولا تیری ماں تنوع کجھ اکھا ہ نصرت مسکرا کر شرما سی گئی اور جہت سی بولی ابو توں تے امی ویلے ہو تھوونو ہور کوئی کم نہیں میں نصرت کے اس انداز سی گھبرا سا گیا نصرت یہ بات کہتی ہوئی ہٹ گئی اور چولھے پر جا کر پیڑھی پر بیٹھ کر ہانڈی کو دیکھنے لگی میں اسے دیکھا تو نصرت ک بیٹھنے سے نصرت کے کسے ہوۓ لباس میں سے نصرت کے موٹے چتر کسی ہوئی شلوار میں پھنس کر باہر کو نکلے نظر آنے لگے نصرت کی چپٹی ہوی پتلی کمر کی ساتھ کسا ہووا قمیض سی نصرت کی کمر جھانک ری تھی نصرت کی بیٹھنے سے نصرت ک ہوا میں تن کر کھڑے موٹے ممے گھٹنو کے ساتھ دب س گے جس سے نصرت کے ممے دب کر مموں کی ہللکی سی لکیر واضح ہو گئی میں ایک نظر بھر کر نصرت کو دیکھا اور پاسس ہی جا کر بیٹھ گیا نصرت کا منہ لال تھا اور وہ چپ سی ہو کر بیٹھی تھی ایک با تو تھی کہ نصرت نے پہلے کی ترہ دوپٹہ نہ لیا ہوا تھا جس سی مجے بھی حوصلہ ہوا کہ کچھ تو نصرت کا بھی دل ہ میں بولا ویکھ میری ڈھی اس اچ کوئی حرج نہیں جادو تک تیری شادی نہ ہندی توں اپنی خواہش پوری کردی رو مینو تیری ماں دسیا ہ کہ توں ہنر کنٹرول تو باہر ہوئی وادی ہیں مینو اس قاسو مسللی الی گل دس دیتی ہے نصرت اسی بڑی کوسش کیتی کہ تری شادی دی پر کوئی رشتہ کم د نہ ملیا جہڑے کم دے ہنر وہ ڈیمانڈاں رکھدے ہنر میری دھی مینو پتا ہے تینو ہنر مرد دی طلب بہت زیادہ ہوندی ہے مینو در ہے کہ جی توں کوئی برا قدم چایاساڈی عزت رول جانی نصرت اس نالو بہتر ہ توں اس بارے سوچ ے کوئی غلط نہ ترا کم وی ہو جسی تی ساڈی عزت وی محفوظ رحسی گئی نصرت مونہ نیچے کی بیٹھی تھی اس کا شرم سی مونہ لال سرخ ہو چکا تھا مجے چپ دیکھ کر نصرت بولی ابو توں میرا سکا پیو ہیں میں بھلا ترے نال کنج کرسن تے ابو جی باہر لوگن نو پتا لگ گیا تے فر کی بنسی میں بولی میری دھی توں مینو اپنا پیو دی جگہ تے اوہ سماج جو تنوع چنگا لگدا ہہے نصرت مجے غور ک دیکھا اور مسکرا دی میں بولا نصرت ری گل تے باہر کس دسنا ہ ے صدی گھر دی گل ہ گھر اچ ہی رسی گئی نصرت ایک لمحے کیلئے چپ ہو گئی اور منہ نیچے کر کے بولی ابو تھوانو پتا نہیں میرے دل دے کجھ ارمان ہنر جہڑرے ہر لڑکی دے ہوندے ہنر مرا دل دی ارمانا د کی بنسی میں ہنس دیا اور ہاتھ آگے بڑھا کر نصرت کا ہاتھ تھام کر بولا میری جان توں فکر کیوں کردی ہیں توں اپنا آپ مینو سونپ کے تے ویکھ ترے سرے ارمان میں پورے کرسان گیاں اپنی بیٹی نصرت کی نرم ہاتھ کا لمس محسوس کر کے میں مچل سا گیا میں نصرت کے ہاتھ کو دبا کر محسوس کر کے مچلنی لگا تھا میرا دل کیا کہ میں ابھی نصرت کو دبوچ کر اپنے سینے سی لگا کر مثل دوں لیکن میں جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا میں نصرت ک قریب ہی بیٹھا تھا میں نی نصرت کا ہاتھ دبا کر اپنی طرف کھینچ کر نصرت کو اپنے قریب لآیا نصرت خود بھی مزاحمت کی میرے قریب ہوئی اور میری آنکھوں میں مدہوشی سے دیکھ کر آنکہ بند کر لیں جسی وہ سماج گئی کہ میں کیا کرنا چا رہا ہوں میں نی نصرت ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر نصرت کے ہونٹ چوم لیا نصرت میرے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے مچل کر کنپٹی ہوئی سسک گئی نصرت کا سانس تیز ہو گیا اور نصرت ہانپتی ہوئی کانپنے لگی میں نصرت کے ہونٹوں سی ہونٹ جوڑے نصرت کے ہونٹ دبا کے چوستا ہوا مزے کی بلندیوں پر تھا اپنی سگی بیٹی کے ہوں چومتا ہوا میں تو ہوش کھو بیٹھا نصرت بھی اپنے باپ کی ہونٹوں کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے ہانپ رہی تھی نصرت تیز سانس لیتی ہانپنے لگی جس سی نصرت کی گرم سانس میری سانسوںسی مل کر مجے بےحال کر ری تھی میرا لن جھٹکے مارتا پھڑک رہا تھا میری بیٹی کا جسم تھر تھر کانپنے لگا میں بے قراری سے نصرت کی ہونٹ دبا کر چوسے لگ نصرت بھی بے قابو ہو کر میرے ہونٹوں کو اپنو ہونٹوں میں بھر کر چوس لیا اپنی بیٹی کو اپنا ساتھ دیتا دیکھ کر میری تو کراہ نکل گئی نصرت نی دبا کر میرے ہونٹ چوس لی اسی وقت گیٹ کھڑکا اور ہم چوک کر جلدی سی ایک دوسرے کو چھوڑ کر الگ ہو گے نصرت کانپتی ہوئی پیچھے ہوئی اور تیز تیز سانس لیتی خود کو سنبھالنے لگگی نصرت کا منہ لال سرخ تھا میں بھی ہاؤس بھال کرتا تھوڑا پیچھے ہو گیا نصرت اپنے کم میں مگن ہو کر مونہ جھکا کر بیٹھ گئی اتنے میں اندر مدیحہ داخل ہوئی اور سامنے مجے اپنی بہ نصرت ک پاسس دکھے روک سی گئی مدیحہ جو آتی ہوئی بٹن کر ری تھی کچن میں داخل ہتھے ہی چپ سی ہو گئی جسی اسے کچھ شاک سا لگا ہو میں نصرت کی طرف مونہ کر کے بیٹھا تھا اس لی اس کی تاثرات میں نہ جن سکا لیکن اس کے انداز سی لگ ر تھا اسے شاک لگا ہے میں نی اسے چپ دیکھ کر نظر اٹھا نصرت کو دیکھا تو نصرت دروازے میں کھڑی اپنی بہن مدیحہ کو گہری آنکھوں سے دیکھ ری تھی نصرت کی آنکھوں میں لال دورے صف نظر آ رہے تھے نصرت اور مدیحہ دونو آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ بآتیں کر ری تھیں میں نی نصرت کی آنکھوں میں دیکھا تو نصرت مدیحہ کو آنکھوں سے کچھ بتا ری تھی میرے دیکھنے پر اس نے آنکھیں چرا کر مجے دیکھا میں نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت دیکھتا پا کر شرما کر نظر جھکا گئی میں سمجھ گیا کہ دونو کچھ بات کر ری تھیں مجھے کچھ شک ہوا ک اسی لمہے جویریہ اور عارفہ بھی آ گیں مجے دیکھ کر جویریہ بولی وہ ابو آج تے ٹائم نال آ گی میں ہنس دیا نصرت کو یوں میرے سامنے بغیر دوپٹے بغیر اپنا جسم دکھاتے ھوے کسی نی نوٹس نہ کیا یا شائد جن بوجھ کر اگنور کر دیا میں سب ک انے پی اب ریلکس ہو گیا اور سب سی بٹن کرنے لگا اس دوران عارفہ اور نصرت نے کھانا بنایا سب نے کھانا کھائی اور کچ در تو دیکھ کر سب سونے چلے گی عارفہ میرے پاس لیٹ کر بولی سنو جناب کوی دھی لفٹ کروائی ک نہ میں ہنس کر اسے بآہوں میں بھر کر دبوچ لیا اور بولا گل بات چل ری ہے گل بن ہی جسی اور اسے چوم لیا وہ ہنس دی اور بولی کوشش کرو ہوں اس نو ہی اپنی سوانی بناؤ اور مج سی الگ ہو گئی میں اس کی بات سمجھ کر ہنس دیا عارفہ بولی پتا ہ تیری دھی دی کی خواہش ہ میں بولا کی وہ بولی وہ اکہ ری ہ کہ ابو نو اکھ مینوں پھسا لوے جنج باہر دیں زنزنیاں پھسیندہ ہے میں اسکی بات سن کر چونک گیا اور بولا اس د ا مطلب نصرت دا دل ہے ہوہ بولی ے ترے ٹی ہے ہوں میں اسکی بات سن کر مسکرا دیا عارفہ بولی دیمی نصرت آج دی جوان لڑکی ہے اس دآ وی شوق ہ کہ کوئی مرد اس نون وی پھسا کے لے جاے میں اسکی اس بات پر ہنس دیا عارفہ بولی ندیمیا آج تو انج دی کوشش کر جویں باہر دیں چھوریں نوں پھسیندہ ہیں نصرت ترے قابو ا جسی میں اسکی اس با ت پر سوچ میں پڑھ گیا اور سوچتا سوچا سو گیا رات سری مرے خابوں میں نصرت ہی رہی صبح پھر میری آنکھ کھلی تو مجے نصرت جگا ری تھی نصرت دوپٹے کی بغیر تھی نصرت ک موٹے ممے قضیہ نظر آ رہے تھے میری سیدھی نظر وہیں گئی نصرت نے مسکرا کر مجے دکھا اور بولی جناب اٹھ جو ستے ہی رہسو میں اسے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا جناب اوسان جگہ دت ہ ہوں اسی اٹھ جاندے ان نصرت نی مسکراکر اوپر ہوئی اور ایک ترچھی نظر میرے تنے ہوئے لن پر ڈالی اور مسکراتی ہوئی مجے مدہوش نظروں سی دیکھ کر جانے لگی میں نصرت کی نظر کا پیچھا کیا تو مجہے اپنا کہنی جتنا تنا لن ہوا میں جھولتا نظر آیا میں یہ دیکھ کر مچل گیا کے میری بیٹی نصرت میرے لن کو دیکھ کر کہہ ہوئی میں ی نصرت کو دیکھا تو اسکی مٹکتی گانڈ مجھے بےقرارکر گئی نصرت دروازے سے گھوم کر نکلتے ھوے مرے لن پر نگاہ دال کر مجے دکھ کر ہنس کر چلی گئی میرے دل میں لڈو پھوٹ گئے میرا دل کیا کہ ایک جاندار مٹھ لگاؤں اپنی بیٹی کے نام کی پر میں نےسوچا کہ اب سارا مال اپنی بیٹی کے اندر ہی ڈالو گا یہ سوچ کر اٹھا اور نہا کر کھانا کھائی سب بیٹیاں جا چکی تھیں میں بھی کھانا کھا کر دوکان پر چلا گیا میں دکان سے دوپہر کو کھانا کھانے واپس آیا راستے میں ایک منیاری کی دکان تھی اس سے گزرتے ہوئے مجھے نصرت کا خیال آیا میں نے سوچا اس کےلیے کچھ خرید لوں میں اندر چلا گیا اور اندر جا کر دیکھنے لگا کچھ لاکٹ پر میری نظر پڑی میں نے لاکٹ لینے کا سوچا ایسے میں میری نظر ایک لاکٹ پر پڑی جس کی چین تھوڑی موٹی تھی اس میں ایک دل بنا تھا جس پر این لکھا تھا جس کا مطلب میری نظر میں نصرت ندیم بنتا تھا میں یہ دیکھ کر مچل سا گیا میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی میں نے ایک وہ لاکٹ خرید لیا ساتھ میں مجھے پاؤں میں ڈالنے والے بینڈز اور دھاگے نظر آ ہے میں نے سوچا کہ یہ تو نصرت کے گورے پاؤں میں بہت خوبصورت لگیں گے میں یہ سوچ کر وہ بھی لے لیے اور ایک پائیل بھی لے لی میں نکلنے لگا تو میری نظر وہاں پڑے کوے ہر پڑی جسے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ یہ کوکا تو نصرت پر بہت حسین لگے گا یہ سوچ کر میں نے کوکا بھی لے لیا میں لے کر گھر آگیا گھر آیا تو سب لوگ موجود تھے نصرت بھی موجود تھی مجھے دیکھ کر نصرت مسکرا گئی کھانا کھا کر مدیحہ اور جوریہ سونے چلی گئیں جبکہ عارفہ کہیں نکل گئی نصرت اندر برتن دھونے چلی گئی میں نے موقع دیکھا اور اندر چلا گیا نصرت سنک پر برتن دھو رہی تھی مجھے دیکھ کر نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا میں اندر جا کر نصرت کے پاس ہی کھڑی ہوگیا نصرت اپنے کام میں مگن تھی نصرت کے تن کر کھڑے موٹے ممے نصرت کے کام کرنے سے ہل رہے تھے میں نصرت کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا سی دی اور بولی ابو کی ویکھ رہے ہو میں ہنس دیا اور بولا ویکھ رہیا ہاں کہ میری دھی کیڈی سوہنی اے نصرت شرما کر مسکرا دی اور بولی بس کرو ابو نا مکھن لاؤ میں مسکرا دیا اور بولا میری جان مکھن تے باہر لائی دے ہینڑ اپنے گھر دیاں نال سچ بولی دا اے نصرت نے گہری مدہوش نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی واقعی ابو میں سوہنی آں میں ہنس دیا اور بولا میری دھی اب کوئی کمی نہیں اور نصرت کے جسم پر ایک نظر گھما کر بولا میری دھی ہر پاسو سوہنی اے نصرت میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی مجھے اپنے جسم کی تعریف کرتا دیکھ کر نصرت پھولی نا سما سکی اور میری آنکھوں میں مدہوشی سے دیکھنے لگی میں بھی اسے پیار بھرے انداز میں دیکھنے لگا نصرت کے جسم کا انگ انگ بہت ہی خوبصورت اور سیکسی تھا ہوا میں تن کر کھڑے موٹے ممے باہر کو نکلی گانڈ گانڈ پر پڑی لمبی گت قیامت لگتی تھی ہلکی سی پتلی کمر کمان کی طرح تنی ہوئی کمر میری بیٹی نصرت کا انگ انگ نوخیز کھلی تھا نصرت کا چوڑا سینہ اور اوپر ہوا میں ہر وقت تن کر کھڑے رہنے والے موٹے ممے تو قیامت تھے کسی بھی مرد کےلیے نصرت کا جسامت تباہی تھا نصرت ہمیشہ پردے میں رہتی تھی اس کی خواہش تو رہتی تھی کہ اس کا جسم لوگ دیکھ کر تعریف کریں ہر لڑکی کی طرح اس کے بھی ارمان تھے اپنے جسم کی مجھ سے تعریف سن کر نصرت بھی بے قراری سے مجھے دیکھ رہی تھی نصرت میری آنکھوں میں مدہوشی سے پیار بھرے انداز میں دیکھ رہی تھی اس دوران نصرت پلیٹیں دھو رہی تھی ساتھ میں وہ بھی دھوتی رہی اور مجھے بھی مدہوش آنکھوں سے دیکھتی رہی میں اس کو پیار بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا میں نے اسے دیکھتے ہوئے شاپر میں بند اس کےلیے لایا ہوا سامان اس کے سامنے رکھ دیا جسے دیکھ کر وہ بولی ابو اے کی اے میں مسکرا کر بولا اے تیرے واسطے گفٹ اے نصرت گفٹ کا سن کر مدہوش انداز میں مجھے دیکھ کر مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی میں بھی اسے پیار بھرے انداز سے دیکھنے لگا ہم باپ بیٹی ایک دوسرے کو مدہوش نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں عارفہ اندر آگئی اور ہم باپ بیٹی کو پیار بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے ایک لمحے کےلیے رک گئی ہم باپ بیٹی نے چونک کر نظریں چرا لیں نصرت جلدی سے نظر چرا کر منہ نیچے کر لیا میں نے عارفہ کو دیکھا تو ہلکی سی مسکرا دی اور کچھ کہے بغیر ہی واپس مڑ گئی میں نے نصرت کو دیکھا تو وہ ہلکی سی شرما چکی تھی نصرت کا گلابی چہرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا عارفہ کے آنے پر مجھے کل مدیحہ یاد آگئی میرے ذہن میں شک سا تھا کہ نصرت اور میری بات شاید اسے بھی پتا ہے میں نے سوچا یہ بات کنفرم کر لوں میں بولا نصرت ہک گل تے دس نصرت بولی جی ابو میں بولا تیری میری اس گال دا تیری بھیناں نوں وی پتا اے نصرت شرما رہی تھی ابھی اس کی جھجھک اتری نہیں تھی وہ بولی ابو امی اے گل ساریاں دے سامنے ہی کیتی ہا اس توں اوہناں نوں وی پتا اے میں یہ سن کر چونک گیا تھا میں بولا تیری ماں وی پاگل اے اس اوہناں کول کیوں کہتی نصرت بولی پتا نہیں وہ منہ نیچے ہی کیے رہی مجھے تھوڑا اچھا نہیں لگا تھا پھر میں نے سوچا چلو اچھا ہی ان کو بھی پتا ہے شد س تبھی اسی لیے ان کے سامنے بات کی ہو میں نے اس سے پوچھا اے دس تیری بھیناں تے کوئی اعتراض نہیں کیتا کہ ساڈا پیو ہے پیو نال دھی دا اے تعلق ٹھیک ہے کہ نہیں نصرت بولی ابو اعتراض تے کوئی نہیں کیتا پر سانوں اے گل بڑی عجیب لگی ہے کہ اپنے ہی پیو نال دھیاں اگر اے تعلق بنا لونڑ تے گل کجھ جڑ نہیں رہی نصرت تھوڑی سی سیریس ہو گئی تھی جیسے وہ اب بھی بیچ میں کھڑی تھی کہ اپنے باپ کے ساتھ تعلق بنائے کہ نہیں میں اسے سمجھاتے ہوا بولا ویکھ نصرت توں اپنے دل نوں مطمئن کر باہر منہ مارن نالو تے بہتر ہے گھر اچ میرے نال تعلق بنا لئے ہک تے عزت بچ جاسی دوا دوجا میری دھی میرا فایدہ کی اے کہ میرے ہوندیاں میری دھیاں مرد واسطے لوسدیاں رہون تھوڈا وی بندوبست ہوجاسی تے جہڑا میں باہر منہ ماردا آں میرا وی گھر ا۔ دل لگ جاسی نصرت منہ نیچے کھڑی تھی وہ کچھ نا بولی میں بولا نصرت کی خیال اے وت نصرت بولی ابو مینوں تھوڑا ٹائم دیو میں ذہنی طور تے اس تے سوچ لواں وت دیساں گئی کہ کی کرنا اے پر پہلی گل تے اے ہی میں کرساں کہ تسی میرے واسطے کوئی رشتہ ڈھونڈو جیویں دا وی ہووے مینوں منظور ہے اے تے تھوانوں پتا لگ گیا اے کہ میرا ہنڑ گزارہ مشکل ہے مرد تو بغیر نصرت میرے سامنے اپنی دل کی بات رکھ کر مزید کچھ نا بول سکی ظاہر بات ہے وہ میری بیٹی تھی کوئی بیٹی اپنے منہ سے تو اپنے باپ کو یہ نہیں کہ سکتی کہ مجھے مرد چاہئیے نصرت اتنا کچھ بول کے شرم سے لال ہو گئی
          اس سے مزید وہاں نا ٹھہرا گیا اور مڑ کر بھاگتی ہوئی کیچن سے نکل کر اندر چلی گئی میں نے اسے پیچھے سے آواز دی پر اس نے سنی ان سنی کر دی اور بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی میں باہر نکا تو عارفہ دروازے پر کھڑی نصرت کو بھاگتا دیکھ رہی تھی میں نے اسے بلانا چاہا پر میں عارفہ کو
          دیکھ کر رک گیا عارفہ نکلی اور میری طرف چل دی عارفہ اندر آئی میں بولا عارفہ تیری دھی بڑی پکی اے اے قابو نہیں آندی عارفہ بولی توں ہیں ہی کوئی نہوں باہر تے زنانیاں انج پھسیندا ایں جویں تیری چیچی دا کم تے تیرے کولو ہک تیری دھی نہیں پھس رہی میں ایڈی محنت کرکے اس نوں تیار کردہ ہاں پتا نہیں توں کی گل کردا ایں کہ اوہ تیرے قابو نہیں ا رہی میں عارفہ کو دیکھ رہا تھا واقعی اسکی بات سچ تھی باہر کی عورتیں اور لڑکیاں تو خودبخود ہی میری جھولی میں ابھرتی تھیں پر نصرت تو قابو ہی نہیں ا رہی تھی شاید میری سگی بیٹی تھی اس کے میرے درمیان ایک حد قائم تھی جو قائم رہنی تھی مجھے یہ حد توڑنا تھی جو ٹوٹ نہیں رہی تھی میں یہ سوچ رہا تھا عارفہ بولی ہلا جا ہنڑ میں کجھ کردی ہاں میں تھوڑا مایوس سا ہو گیا تھا عارفہ سنک پر پڑے شاپر کو دیکھ کر بولی اے کی اے میں بولا اے نصرت واسطے لئے آیا ہاس اس نے شاپر اٹھا اور دیکھنے لگی عارفہ لاکٹ نکال کر دیکھا تو اس پر ان لکھا دیکھ کر بولی واہ ندیم صاحب اپنی دھی نوں اپنے نام دی نشانی دے رہے ہو میں ہنس دیا عارفہ نصرت کےلیے لایا ہوا کوکا پائیل اور پاؤں میں ڈالنے والے دھاگے اور بیڈ دیکھ کر بولی وت اے اپنی دھی نوں دتے نی میں بولا دتے تے ہینڑ پر اوہ تے ہے بغیر ہی وگ گئی عارفہ شاپر میں ڈال کر بولی میں کوشش کردہی ہاں نصرت آج ہی تیرے لائے ہوئے گفٹ قبول کر لوے تے بس وت میری فکر مکے میں ہنس دیا اور بولا اے دس توں اے گل جویریہ تے مدیحہ دے سامنے وی کر دتی وہ بولی تے وت کی ہویا چنگا ہے اوہنا نوں وی پتا ہووے ویسے جو حالات لگ رہے ہینڑ مینوں لگدا اپنی باقی دوویں دھیاں نوں وی نتھ توں ہی پاونی میں بولا عارفہ پہلے ہک نوں تے پا لینڑ دے او تے قابو آ نہیں رہی عارفہ بولی آ جاسی گئی میں اس نوں سمجھیندی آں تینوں پتا تے ہے نصرت بڑی پیڈی چھویر ہے اس معاملے وچ قرآن صبر آئی ہے 20 سال تک جہڑی چھویر مرد توں بغیر صبر کر جاوے او بڑی پیڈی ہوندی ہنڑ تے اس اپنے آپ تے ظلم کرنا جے تیرے ہیٹھ نا آئی تے میں اس کی بات سے چونک گیا اتنے میں بہزاد کی کال ائی کہ ابو دکان تے اؤ بہزاد اپنے کم تے جانا ہا اپنے آوارہ دوستوں نال میں عارفہ کو چھوڑ کر وہاں سے دکان چلا گیا دکان سے تھوڑا لیٹ فارغ ہوا کیونکہ بہزاد نہیں آیا تھا دکان سے فارغ ہوا تو کچھ دوست آگئے ان کے ساتھ ہی باہر سے کھانا کھانے چلا گیا عارفہ کو بتا دیا تھا کہ لیٹ آؤں گا کھانا کھا کر کھانا کھا کر گپ شپ میں پتا ہی نا چلا کافی ٹائم ہو گیا میں بہت لیٹ گھر آیا تو سب سو چکے تھے میں بھی اندر گیا تو عارفہ سو رہی تھی عارفہ مجھ سے بولی جناب ہنڑ جلدی گھر یا کرو میں بولا کیوں ہنڑ خیر اے وہ بولی ہنڑ تیرے واسطے گھر اچ ہی منو رنجن تیار ہو رہیا اے توں ہنڑ ڈھیر تو ڈھیر ٹائم نصرت نوں دتا کر تا کہ او تیرے نال سون تے راضی ہووے میں بولا کجھ گل بنی کہ نہیں وہ مسکرا دی اور بولی میں تے محنت کر رہی ہاں پر تیرے توں کجھ نہیں ہو رہیا میں بولا میرے حصے دا وی توں کردے وہ ہنس دی اور بولی کہ کل نصرت نوں پورا ٹائم دے عورت مرد دے وقت دی محتاج ہوندی اے نصرت دا دل تیرے نال لگن لگ پیا اے میں بولا عارفہ توں سچی ایں پر اے وی تے سوچ او میری دھی ہے اس دے ذہن اچ میرا تصور پیو آلا اے تے اس ددے ذہن اچ اے حد قائم ہے او میرے قریب ہوون دی کوشش کردی ہے تے اے حد آجاندی جدو او اے حد توڑ کے مینوں اپنا پیو سمجھنے دی بجائے اپنا مرد سمجھنے لگ پئی او آپے ہی میرے نیڑے ہو جاسی عارفہ بولی میں کوشش کر تے رہی ہاں تیریاں دوہاں دھیاں تے فل تیار ہینڑ پتا نہیں نصرت تے بڑی پیڈی اے میں یہ سن کر ہنس دیا میرا دل اپنی دوسری بیٹیوں جوریہ اور مدیحہ کو اپنے قریب آتا سوچ کر مچل سا گیا پر میں پہلے اپنی بڑی بیٹی نصرت کو اپنے قریب کر ا چاہتا تھا میں بولا عارفہ پر میں پہلے نصرت دا سواد چکھنا اے او کی آکھدی اے کیوں نہیں من رہی وہ بولی پتا نہیں چپ کرکے میری گلاں سنندی رہندی اے تے وت اکھدی اے کہ سوچ کے دساں گئی ناہں اوہ نہیں کردی پر ہاں وی نہیں کر رہی۔ میں عارفہ کے پاس ہی لیٹ کر سو گیا صبح میری آنکھ خود ہی کھل گئی میں نے محسوس کیا کہ میرا لن تن کر کھڑا ہوا ہے میں آج قمیض اتار کر سویا ہوا تھا میرا کہنی جتنا لن شلوار میں تن کر کھڑا تھا میں سیدھا ہو کر لیٹ کر لن کو مسلا میرے ذہن میں نصرت کا سیکسی جسم دوڑ گیا جس سے میرا لن جھٹکے مارتا میرے بس سے باہر ہونے لگا تھا میں آنکھیں بند کیے نصرت کو سوچ رہا تھا کہ اسی لمحے نصرت بھی اندر داخل ہوئی مجھے جگانے آئی تھی نصرت سامنے میرے ہوا میں کہنی جتنے تن کر کھڑے لن کو دیکھ کر رک سی گئی میں لیٹا ہوا ایسے تھا کہ میں سو رہا ہوں میں قدموں کی چاپ سن کر سمجھ گیا کہ نصرت ہی آئی ہو گی اس لیے میں اپنا لن اپنی بیٹی نصرت کو دکھانے کےلیے ایسے ہی ظاہر کیا کہ میں سو رہا ہوں نمی۔ نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور میرا منہ دروازے کی طرف ہی تھا میں نے ہلکی سے آنکھ کھول کر انگلیوں کے درمیان سے دیکھا تو نصرت دروازے میں سہمی کھڑی آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا چکی تھی نصرت کا منہ گلابی ہوچکا تھا اور آنکھیں میرے لن پر ہی ٹکی تھیں مجھ سے رہا نا گیا اپنی بیٹی نصرت کو اپنا لن آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا پا کر میں بے قابو ہوگیا میرا لن بے اختیار میری بیٹی نصرت کے سامنے ہی جھٹکے مارنے لگا نصرت اپنے باپ کے لن کو جھٹکے مارتا دیکھ کر بے قراری سے ہونٹوں پر زبان پھیر کر میرے لن کو دیکھا جا رہی تھی نصرت نے پھر کانپتی آواز میں مجھے پکارا۔۔ ابووو۔۔ میں نے سن تو لیا لیکن خود کو سویا ہوا ظاہر کیا نصرت نے مجھے دو تین بار پکارا میں نے کوئی جواب نا دیا تو نصرت چلتی ہوئی میرے قریب آگئی نصرت اپنی انگلیاں مروڑتی ہوئی میرے لن کو دیکھتی ہوئی گھونٹ بھرتی جا رہی تھی نصرت اپنی آنکھوں سے میرے سارے جسم کو غور کر دیکھ رہی تھی میں سمجھ گیا تھا کہ میری بیٹی نصرت بھی میرے لیے بےقرار ہے پر اس کے اندر باہر بیٹی والی حد ابھی تک قائم تھا جس کی وجہ سے وہ رکی ہوئی تھی ایک لمحے تک تو میرے لن کو جھٹکے مارتا دیکھتی رہی اور پھر نصرت میرے ننگے بدن کو غورتی ہوئی گھونٹ بھر کر اپنے ہونٹ دانتوں میں دبا کر ہانپنے لگی میں نصرت کی بے قراری سمجھ گیا تھا میں خود بھی بے قابو ہو رہا تھا نصرت مجھ پر سب کچھ وارنا چاہتی تھی پر وہ خود کو روک بھی رہی تھی اسی کمی اس نے مجھے دو بار پھر پکارا ابو ابو میں جان بوجھ کر چپ رہا کہ یہ اب آگے کیا کرتی نصرت خود کو روک نہیں پا رہی تھی نصرت نے بے اختیار اپنا ہاتھ آگے کیا اور میرے ننگے سینے پر گھنے بالوں پر رکھ کر میرے بالوں کو محسوس کرنے لگی اپنی بیٹی نصرت کا نرم ہاتھ لگتے ہی میں مزے سے بے قابو ہوکر حواس کھو بیٹھا اور بے اختیار میرے آہ نکل گئی نصرت نے ڈر کر ہاتھ ہٹا لیا مجھ سے اب برداشت نہیں ہوا میں نے انگڑائی لیتے ہوئے اٹھنے والا انداز بنایا کہ نصرت کو یہ نا لگے کہ اس کا میرے سینے پر ہاتھ پھیرنا میں سمجھ گیا ہوں نصرت مجھے اٹھتا دیکھ کر خود کو سنبھال کر بولی ابو اٹھ جاؤ کافی ٹائم ہو گیا اور مڑ کر واپس نکل گئی میں تو مزے سے مچل گیا میرا دل خوشی سے ناچنے لگا کہ میری بیٹی مجھے دیکھ کر سہ نہیں پائی میں خود کو نارمل کرکے اٹھا اور واشروم چلا گیا میں واپس آیا تو سب جا چکیں تھیں میں بھی کھانا کھا کر دکان پر آگیا میں دوپہر تک دکان پر رہا میرا دل آج بہت ہی مچل رہا تھا نصرت کےلیے صبح والا سین مجھے بے قرار کر رہا تھا میرا لن نیچے بیٹھنے کا نام ہی نہیں کے رہا تھا دوپہر کا میں بے صبری سے انتظار کرنے لگا تھا دوپہر کا وقت ہوا تو بہزاد آوارہ گردی سے آگیا وہ دوپہر تک دوستوں کے ساتھ ہی رہتا کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا تھا اس لیے وہ دوپہر کو آیا تو میں کھانا کھانے کےلیے گھر کی طرف چلا آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو جویریہ نے دروازہ کھولا میں اندر آیا تو میری نظر جویریہ پر پڑی جو کہ اس وقت دوپٹے کے بغیر تھی جویریہ نے بھی کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس سے جویریہ کے تن کر ہوا میں کھڑے ممے صاف نظر آ رہے تھے جوریہ کے چوڑے سینے کا گورا حصہ ننگا ہوکر مجھے نڈھال کر رہا تھا نصرت اور جویریہ دونوں ایک جیسی تھیں دونوں کا جسم بھی ایک جیسا ہی تھا میں نے سامنے جویریہ کے جسم کو دیکھا تو جویریہ کے مموں کی ہلکی سی لکیر نظر آ رہی تھی میں نے پورے جسم کا جائزہ لے کر اوپر جویریہ کو دیکھا تو جویریہ بھی مجھے ہی مدہوشی سے غور رہی تھی میری نظر جوریہ سے ٹکرائی تو اس نے بجائے شرمانے کے اپنی گت اٹھا کر اپنے مموں پر رکھی اور مجھ سے نظریں ملائے رکھیں میں بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتا گیا جویریہ برابر بغیر جھجھکے میرے ساتھ نظریں ملائے ہوئے مجھے جواب دے رہی تھی میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایک یہ بیٹی ہے جو باپ پر مری جا رہی ہے ایک بیٹی نصرت ہے جو پگھل ہی نہیں رہی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جوہری مسکرا کر بولی ابو اندر آجاؤ میں دروازہ بند کرنا ہے میں اس کی بات پر چونک گیا تو وہ مسکرا کر مدہوشی سے مجھے دیکھ رہی تھی میں آگے اندر گیا جویریہ نے دروازہ بند کردیا میں چلتا ہوا آگے صحن میں آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرے تو پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکلنے لگی سامنے میری بڑی بیٹی نصرت بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی اس نے بھی وہی کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس سے اس کا انگ انگ چھلک کر مجھے دیوانہ بنا رہا تھا میری نظر نصرت کے پاؤں پر پڑی تو نصرت کی گوری پنڈلیاں اوپر تک نظر آرہی تھیں نصرت کی ایک گوری پنڈلی میں نصرت میری لائی ہوئی پائیل ڈال رکھی تھی جبکہ دوسری گوری پنڈلی میں نصرت نے میرا لایا ہوا بیڈ ڈال رکھا تھا اور ساتھ میں پنڈلی پر کالا دھاگہ بھی باندھ رکھا تھا نصرت کی گوری پنڈلی پر ہلکا سا کسا ہوا کالا دھاگہ بندھا تھا جو نصرت کی گوری پنڈلی پر قیامت ڈھا رہا تھا میں ہکا بکا یہ دیکھ کر مچل رہا تھا میرا دل یہ دیکھ کر خوشی سے ناچ رہا تھا کہ میری بیٹی میرے لائے ہوئے تحفے قبول کر چکی تھی میں نے بےقراری سے اوپر دیکھا تو مجھے نصرت کا گلا خالی نظر آیا نصرت کے مموں کی گہری لکیر میں ایک کال تک چمک رہا تھا جو نصرت کے گورے مموں کے حسن پر قیامت بن کر برس رہا تھا میں اس کالے تل میں کھو کر ایک بار تو لاکٹ بھول گیا پھر میری نظر اوپر نصرت کے ناک میں پڑی جہاں نصرت کے خوبصورت ناک میں میرا لایا ہوا کوکا چمک رہا تھا نصرت آٹا گوندھتی ہوئی مست آنکھوں سے مجھے غورتی ہوئی مسکرا رہی تھی نصرت کی گہری مدہوش آنکھوں میں میں ڈوب رہا تھا نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے باہر کو نکلے ہوئے قیامت ڈھا رہے تھے میں نصرت کے جسم میں مست تھا اتنے میں عارفہ باہر نکلی اور مجھے اور نصرت کو ایک دوسرے کو مستی سے دیکھتی دیکھ کر مسکرا دی میں بھی نظر چرا کر اندر واشروم چک گیا میرا لن تو بے قابو ہو رہا تھا دل کر رہا تھا کہ ابھی نصرت کو پکڑ کر لٹا دی پر ابھی مجھے انتظار کرنا تھا میں واشروم سے نکلا تو نصرت اندر جا چکی تھی کچھ دیر میں کھانا پک گیا لڑکیاں بھی اندر تھیں میری ہمت نا ہوئی کہ میں اندر جا سکوں عارفہ میرے لیے کھانا لائی نصرت لوگ بھی باہر آکر کھانے لگے اس دوران نصرت جویریہ اور مدیحہ نارمل تھیں کوئی کسی قسم کی جھجھک یا شرم نہیں تھی سب لوگ بڑے اعتماد سے باتیں کر رہے تھے نصرت بیچ میں مجھے مدہوشی سے دیکھ لیتی مدیحہ اور جویریہ تو زیادہ ہی فرینک ہو چکی تھیں بیچ میں ہمیں ٹانٹ مار لیتی تھیں پھر ہنس کر کام بربر کر دیتیں کھانا کھا کر وہ دنوں اندر چلی گئی نصرت برتن دھونے اندر چلی گئی عارفہ بولی اتنا تے میں نصرت نوں منا لیا اگاں ہنڑ توں وی کوشش کر امید ہے ہنڑ من جاسی میں ہنس دیا اور آٹھ کر اندر کیچن میں چلا گیا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی اؤ جی میں ہنس کر نصرت کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا نصرت کے جسم سے آگ کی تپش مجھے محسوس ہو رہی تھی میں سمجھ گیا کہ نصرت کے اندر آگ لگی اے میں نصرت کے ناک میں چمکتے کوکے میں کھو سا گیا جو نصرت کے گورے چہرے پر قیامت ڈھا رہا تھا نصرت مجھے غورتا دیکھ کر مسکرا دی میں بولا چشم بدور میری دھی نوں نظر نا لگ جائے نصرت میرے بات پر کھل سی گئی اور مدہوش نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی اپنیاں دی نظر نہیں لگدی ناں پریشان ہوو میں اس کی بات پر مچل کر ہنس دیا اور بولا اچھا جی تسی سانوں اپنا لیا ہے اس دا مطلب نصرت ہنس کر مجھے مدہوشی سے دیکھتی ہوئی بولی بنایا تے نہیں بس بناوںڑ دا سوچ رہی آں اور نظر گھما کر نیچی کر لی ابھی بھی نصرت میں تھوڑا حیا اور جھجھک تھی میں ہنس کر بولا نصرت ہنڑ سوچنا کی اے نصرت بولی ابو میں تھواڈے کولو ٹائم منگیا ہویا ہے نا تسی وی صبر کر جاؤ۔ میں وی تے صبر کر رہی آں ناں میں بولا میری دھی ہنڑ صبر ہی تے نہیں ہوندا میں نصرت کے اٹھے تک کر اکڑے مموں کی طرف اشارہ کرکے بولا میری دھی تیری اے نوخیز جوانی ہنڑ صبر نہیں کرن دی دی پئی نصرت اپنی تعریف پر کھل سی گئی اور ایک گہری پیار بھری نظر بھر کر مجھے دیکھا میں بھی اسے پیار بھرے انداز سے دیکھنے لگا ہم باپ بیٹی کی گہری نشیلی آنکھیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھی میں بولا نصرت ہنڑ مینوں اپنا بنا کے اپنے قریب آونڑ دے نصرت بولی ابو واقعی میری جوانی تینوں پسند آئی اے یا بس میرا دل رکھنے کا ڑ آکھدا ایں میں ہنس کر بولا میری کملی دھی میں تے کھرا بندہ ہاں دل اچ جہڑی گل ہووے میں کر دیندا آں نصرت ہنس دی اور بولی ابو تیرے لیئے ہوئے گفٹ میں قبول کرکے تینوں اپنا تے سمجھ لیا ہے میں بولا نصرت پر توں لاکٹ کیوں نہیں پایا اوہ ہی تے میں تیرے واسطے بڑے پیار نال آندا ہا نصرت ہنس کر مدہوشی سے مجھے دیکھا اور بولی ابو جی او وی پتا ہے مینوں بس اوہ میں کسے خاص موقعے تے پیساں گئی کیوں پریشان ہوئے ہو میں بولا او خاص موقع کدو آ سی نصرت ہنس دی اور اور بولی میری جان بس جلدی ہی آجاسی میں بولا نصرت ہنڑ رہیا نہیں جا رہیا ہنڑ تے تیرے بغیر رات وی نہیں لنگھدی نصرت ہنس دی اور بولی اوہ تے میں صبح ویکھ لیا ہا تھواڈی رات واری ہی نہیں لگدھی میں بولا فر نصرت دور دور کیوں ہیں نصرت چہرہ نیچے کرکے بولی ابو سچی گل دساں ہنڑ تھوانوں میں بولا دس نصرت بولی ابو تھوانوں پتا تے ہے میرا وی ارمان ہا کہ کوئی میرا منگیتر بنے میں اس نال اپنا وقت گزاراں اس نال اپنے دل دیاں گلاں کراں میں اسی دوویں منگیتراں آلے چاہ پورے کریے مڑ او مینوں پرنا کے لئے جائے پر اے تے ارمان ہی رہے ابو سچی گل تے اے ہے کہ میں چاہندی آں کہ میں تھواڈے نال کجھ وقت تھواڈی منگ بن کے گزاراں یہ سن کر میرا دل دھڑکنے لگا نصرت کے دل کی بات سن کر میں مچل گیا اور ہنس دیا نصرت بولی ابو تسی ہی ہنڑ میرے سر دے سائیں ہو پر میں نہیں چاہندی کہ میں اپنے ارمان پورے کیتے بغیر ہی تھواڈے قریب ہوواں تسی میرے چاہ تے پورے کر سگدے ہو ناں میں نصرت کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا میری جان تیرے سارے ارمان پورے کرساں اور نصرت کا ہاتھ پکڑ کر دبا لیا نصرت مسکرا کر بولی ابو وت اسی طرح تسی میرا رشتہ منگن آؤ جس طرح لڑکی دا رشتہ منگن آئی دا میں ہنس کر بولا میری جان میں آج ہی رشتہ منگ لیندا آں اپنی دھی دا آکھ تے اج ہی پرنا کے لئے جاواں نصرت ہنس دی اور بولی ابو جی اتنی جلدی پہلے منگ دے چاہ پورے کراؤ میں ہنس دیا اور بولا ٹھیک ہے میری جان ہور کوئی شرط نصرت ہنس دی اور بولی بس ہک واری میرا رشتہ امی تے میری بھیناں توں منگو اگلی گل فر ہوسی ویسے وی ہنڑ مدیحہ تے جویریہ نوں سارا پتا ہے اوہناں توں شرمانا نہیں ہنڑ تسی اوہنا دے بہنوئی بننا اے تے سالیاں توں شرمندہ نہیں ہوویندا میں ہنس دیا نصرت بھی اب بہت کچھ کہ کر شرم سے لال تھی اور وہ جلدی سے نکل کر بھاگ گئی میں اس کے پیچھے باہر نکل کر ہنس دیا عارفہ باہر ہی بیٹھی تھی ہمیں مسکراتا دیکھ کر ہنس دی اس نے مجھے اشارہ کیا کہ کیا بنا میں مسکراتا ہوا چل کر اس کے پاس پہنچ گیا ور اس کو ساری بات بتائی کہ تیری بیٹی پہلے میری منگ بن کر اپنے ارمان پورے کرنا چاہتی ہے عارفہ ہنس کر بولی اے تے اس دا حق بنڑدا اے اے تے تینوں پورا کرنا پوسی وت توں ڈھل کیوں لا رہیا ایں رشتہ منگ نصرت دا تے منگنی کریے میں ہنس دیا اور بولا وت میں تے منگ رہیا آں رشتہ وہ ہنس دی اور بولی اے تے تیری سالیاں نال صلاح کر لواں یہ کہ کر اس نے اندر سے جویریہ اور مدیحہ کو بلایا اور بولی تھوانوں پتا تے ہے میں تھواڈے نال گل کیتی ہا کہ ندیم رشتہ منگ رہیا اے تھواڈی بھین نصرت دا یہ سن کر میری کن پٹی پسینے سے تر ہوکر کانپنے لگی پہلی بار ہو رہا تھا کہ ایک باپ اپنی ہی بیٹی کا رشتہ اپنی بیوی اور بیٹی سے مانگ رہا تھا جبکہ اس کی سگی بیٹی کی اس کی بیوی بننے جا رہی تھی اس کی بیوی اس کی ساس بن رہی تھی اور اس کی دوسری بیٹیاں اس کی سالیاں بن رہی تھی میرا دل ناچ رہا تھا مدیحہ بولی امی تھوانوں پتا فیصلہ تساں کرنا سانوں کوئی اعتراض نہیں جویریہ بولی امی بھائی ندیم گھر دا بندہ ہے ویکھیا پرکھیا ہویا اے کوئی اعتراض آلی گل تے نہیں تسی کھٹ منگنی پٹ بیاہ کرو سانوں منظور ہے میں اپنی بیٹی جویریہ کے منہ سے اپنا نام سن کر سمجھ گیا کہ یہاں تو پہلے سے ہی پلیننگ چل رہی تھی مجھے بس اب پتا چلا تھا یہ تو اپنے باپ کو اپنا بہنوئی بنا کے بیٹھی ہیں اور مجھے پتا ہی نہیں میں ہنس دیا عارفہ بولی دیمی ہنڑ توں سن کیا تیری سالیاں نوں وی کوئی اعتراض نہیں ہنڑ منگنی دا بندو بست کر اسی نصرت نوں تیار کردیاں ہاں میں یہ سن کر خوشی سے نکلا اور باہر آگیا میں مٹھائی کی دکان پر گیا مٹھائی کی اور پھر جیولر کے پاس گیا وہاں ایک سونے کی انگوٹھی کی اس پر میں نے بلیک کلر میں این لکھوایا این سے میرا نام بھی بنتا تھا اور نصرت کا بھی میں دو گھنٹے بعد واپس آیا تو سب تیار بیٹھیں تھیں میں نے سامان انہیں پکڑا دیا منگنی کا سارا سامان تھا میں نے اپنی بیٹیوں کےلیے جو اب میری سالیاں تھیں اور ساس جو میری بیوی تھی اسکے کپڑے اور جوتے لایا نصرت کےلیے بھی میں کپڑے جوتے لایا میں نے وہ سارا سامان کا کر رکھ دیا جویریہ اور مدیحہ بھی فل بمب لگ رہی تھیں دونوں نے اپنے اٹھے ہوئے مموں کو باہر نکال کر رکھا ہوا تھا خاص طور پر میرے لیے میں آیا تو عارفہ بولی کہ نصرت کو کے آؤ جویریہ اور مدیحہ نصرت کو کے کر آئیں نصرت کو انہوں نے فل تیار کیا ہوا تھا میں نصرت کو دیکھ کر چونک گیا نصرت ایک کسا ایک فل ٹائٹ کسے ہوئے لباس میں تھی جس میں نصرت کے تن کر کھڑے موٹے ممے کس کر پھنسے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے نصرت نے نیچے برا نہیں ڈالی ہوئی تھی جس سے نصرت کے موٹے مموں کے اکڑے موٹے نپلز باہر جھانک رہے تھے نصرت کے چپٹے پیٹ کا کافی حصہ نظر آ رہیا تھا میں تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا آج پہلی بار اپنی سگی بیٹی کو اس حالت میں اپنے سامنے دیکھ کر میری حالت خراب تھی انہوں نے صحن میں ایک صوفہ رکھا ہوا تھا رسم کےلیے انہوں نے نصرت کو اس پر بٹھا دیا نصرت فل دلہن کی طرح تیار تھی نصرت کے بالوں کی ایک لٹ نکال کر آگے چہرے پر ڈال رکھی تھی جو نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہی تھی میں یہ دیکھ کر مچل رہا تھا میرے حواس بے قابو ہو رہے تھے اپنی سگی بیٹی کو آپ ی منگ بنتا سوچ کر میں ہواؤں میں تھا نصرت کو بٹھا کر عارفہ بولی نصرت تیرا رشتہ ندیم ساڈے کولو منگیا اے تینوں ندیم قبول اے نصرت مسکرا کر منہ نیچے کرکے بولی امی تساں جو فیصلہ کر دتا مینوں قبول اے عارفہ ہنس کر بولی لئے دیمی مبارک ہئی نصرت تینوں مبارک ہووے نصرت مسکرا کر منہ نیچے کر گئی مدیحہ اور جویریہ بھی ہنس دیں اور بولیں بھائی ندیم بڑی بڑی مبارک ہووے میں اپنی بیٹیوں کو اپنی سالی سمجھ ہی نہیں پارہا تھا میں ہنس دیا عارفہ بولی ایتھے نصرت کول آکے بہو ہنڑ تے اس نوں مبنی دی انگوٹھی پوا میں اٹھا اور نصرت کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا نصرت میرے ساتھ لگ گئی میں نے انگوٹھی نکالی جس پر این لکھا تھا نصرت نے خود ہی اپنا ہاتھ آگے کردیا میں نے نصرت کو منگنی کی انگوٹھی ڈال دی جس کو پہن کر نصرت منہ نیچے کیا نصرت نے بھی اپنے پرس سے ایک بنڈ نکالا جس پر لکھا تھا این لوو این اور دل کے اندر ایک لڑکی اور لڑکا اولین دوسرے کو باہوں میں بھر کر چوم رہے تھے میری بیٹی نصرت نے مجھے وہ بیڈ ہاتھ پر پہنا دیا میں یہ دیکھ کر مچل گیا سب نے ہمیں مبارک دی میں بھی نصرت کو مبارک دی نصرت نے بھی مجھے مبارک دی پھر مدیحہ بولی ابو ہنڑ تسی تے باجی ہک دوجے دے منگ ہو دوویں پیار کرو ہک دوجے نال یہ سن کر میں نے نصرت کی گال کا بوسہ لیا جویریہ بولی انج نہیں ہونٹ نال ہونٹ لاؤ میں یہ سن کر مچل سا گیا اور نصرت کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر چوم لیا مدیحہ نے ہماری اس پوز کی تصویری بنالی ہم اب باپ بیٹی کے ساتھ ساتھ منگیتر بھی ہوگئے تھے کچھ دیر بیٹھے رہے پھر میں دکان پر آگیا میں آج ہواؤں میں تھا اپنی سگی بیٹی ہی اب میری منگ ہو چکی تھی مجھ سے تو اب رہا نہیں جا رہا تھا دل کر رہا تھا کہ بس اب نصرت اجازت دے دے شام کو بہزاد آچکا تھا میں دکان اس کے حوالے کرکے گھر کی طرف نکل آیا آتے ہوئے اپنی منگیتر بیٹی کےلیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں کے آیا گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو نصرت نے ہی دروازہ کھولا نصرت اسی لباس میں ہی تھی نصرت کے تن کر ہوا میں کھڑے مموں کے نظر آتے نپلز قیامت ڈھا رہے تھے میری نظر نصرت کے گورے سینے پر پڑی تو نصرت نے میرا لایا ہوا لاکٹ اب گلے میں ڈال رکھا تھا لاکٹ پر بنا دل جس میں این لکھا تھا وہ نیچے میری منگ بیٹی نصرت کے نظر آتے اکڑے مموں کی لکیر میں اترا ہوا قیامت ڈھا رہا تھا میں یہ دیکھ کر مزے سے مچل گیا تھا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں نے اسے سامان پھرایا میری نظر اس کے اٹھے مموں پر ہی تھی نصرت کے نظر آتے ممے آگ لگا رہے تھے میں نصرت کو سینے سے لگانا چاہتا تھا پر نصرت ابھی میری منگ تھی ابھی بیوی نہیں بنی تھی نصرت اندر کیچن میں چلی گئی میں واشروم گیا گھر میں کوئی تھا نہیں میں کیچن میں گیا تو نصرت ہانڈی بنا رہی تھی مجھے دیکھ کر نصرت مسکرا دی نصرت کے کسے لباس میں اس کا انگ انگ نظر آ رہا تھا میں پاس ہی بیٹھ گیا اور بولا سناؤ جناب ہن خوش ہو نا نصرت بولی ابو میں تے خوش ہاں تسی دسو تسی وی خوش میں بولا میری دھی میری سوانی بن جائے ہور کی چاہیدائے نصرت ہنس دی اور بولی سچ ابو اے سوچ کے تے الگ ہی مزہ تے احساس ہو رہیا اے کہ اپنے پیو نال ہی منگنی ہو گئی میری میں ہنس دیا اور بولا میری جان ہنڑ تے تیری منگ آلی خواہش پوری ہو گئی ہنڑ وت میری سوانی کدو بن رہی ہیں نصرت یہ سن کر ہنس دی اور بولی ابو ہلے تے اج منگنی ہوئی ہے ایڈی جلدی تے ہنڑ شادی نہیں کرنی میں میں بولا نصرت اے تے زیادتی اے نصرت ہنس کر شرارتی مسکراہٹ سے بولی ابو ہنڑ تے مطمئن ہو جاؤ میں تھواڈی منگیتر آں میں ہور کسے نال نہیں نسخے تیرے نال ہی شادی کرساں گئی پر ہک واری مینوں اپنی منگ ہوونڑ دا تے چاہ لاہ لینڑ دیو ہلے تے اسی دوواں دل کے اگلی پلیننگ کرنی ہے کہ شادی تو بعد کی کی کرنا۔ میں ہنس دیا اور بولا اچھا جناب وت کرو پلیننگ نصرت ہنسدی اور بولی ابو پہلے تے اے دسو کہ مینوں حاصل کرن توں بعد باہر منہ تے نا مارسو میں ہنس دیا اور بولی نصرت جسدی تیری کہہ سوہنی دھی ہی سوانی بن جائے میں باہر دیاں دا بیڑہ بوڑنا نصرت ہنس کر مجھے دیکھا نصرت کے گورے گلے میں لاکٹ چمک رہا تھا نیچے تک لاکٹ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا نصرت کے مموں کی لکیر میں لاکٹ کا این والا دل پھنسا ہوا تھا نصرت کا اب سارا شرم اور جھجھک اتر چکی تھی وہ بے جھجھک بات کر رہی تھی نصرت میری سن کر مجھے مستی سے دیکھا اور مجھے غور کر شرارتی انداز میں بولی جی نہیں میں تے تھوانوں فل اجازت دیساں گئی کہ بے شک باہر وی مشوقاں رکھو میں ہنس کر بولا کیوں توں کیوں ایڈی میرے تے انعام کر رہی ہیں نصرت بولی ابو کیونکہ میں آج صبح تھواڈا ہتھیار ویکھ لیا ہے تے میں سمجھ گئی آں کہ تھوانوں میں ہکلی برداشت نہیں کر سگدی تھواڈا تے بڑا طاقتور اے میری ہک ہکلی دے وس دا روگ نہیں تسی تے میری جان ہی کڈھ لیسو یہ کہ نصرت شرارتی انداز میں اونچا قہقہ مار کر ہنسی میں بھی ہنس دیا اور بولا میری جان توں تے آپ بڑی تگڑی ہیں توں مینوں برداشت کر جاسیں گئی نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی تھوانوں کنج اندازہ اے تساں اے کیویں اندازہ لگا لیا میں بولا بس میری دھی مینوں پتا اے تیری جہیاں جپڑیاں فل جوان تے جوانی دیاں پکیاں چھوریں ہوندیاں ہینڑ اوہ وڈے مرد مرد نچوڑ جاندیاں تے میں تیرے آگے کی آں نصرت ہنس کر مجھے شرارتی انداز سے دیکھ کر بولی بڑا تجربہ اے میں بولا میری دھی ہنڑ تک تیری کہہ چھوریں دی آگ نال کھیڈیا آں اندازے تے بڑے ہینڑ۔ نصرت ہنس دی اور بولی نہیں ابو سچی آکھ رہی ہاں ویسے وی جدوں مینوں تساں حاملہ کر دینا اے تے میرے پیٹ اچ جدو تھواڈا بچہ آجانا وت آخری دناں وچ جدوں ساڈا بچہ پیدا ہوونڑ آلا ہونا اودا تساں میرے نیڑے آ نہیں سگنا وت کیویں گزارہ کرسو۔ وت تے تھوانوں کوئی عورت چاہی دی ہونی اپنی آگ کڈھن واسطے یہ بات بھی نصرت بے جھجھک کر گئی اور بغیر کسی جھجھک اور شرم کے کرتا دیکھ کر میں نصرت سے چونک کر بولا۔۔ ہائیں کی مطلب۔ نصرت بولی ابو اے ہی مطلب جہڑا تسی سن رہے ہو۔ میں بولا نصرت توں پاگل ہو گئی ہیں توں کی بچہ وی پیدا کرنا اے نصرت بولی ابو تے ہور وت کی میں بولا نصرت اے توں کی اکھ رہی ہیں انج بچہ کیویں توں پیدا کرسیں گئی نصرت بھی سیریس ہو گئی اس بات پر اور بولی کی مطلب تسی بچہ نہیں پیدا کرنا میں نصرت کی بات سے گڑبڑا سا گیا تھا نصرت میری بیٹی تھی میں بھلا اسے حاملہ کیسے کر سکتا تھا اگر وہ حاملہ ہوگئی تو بات باہر نکل جانی تو بڑی بدنامی ہو گئی نصرت بولی ابو تسی کی سوچ رہے ہو میں بولا میری دھی گل نوں سمجھ چلو اسی پیو دھی اے تے کر لیساں گئے پر اے بچہ کیویں پیدا کرساں گئے جے اگر اے گل باہر نکل گئی تے وت تے بڑا رولا بنسی گیا نصرت میری اس بات پر سیریس ہو گئی اور بولی بس ابو اسدا مطلب۔ تھوانوں میرے نال پیار کوئی نہیں تسی بس اپنی حوس پوری کرن واسطے مینوں اپنا رہے ہو نصرت میری اس بات پر ناراض ہو گئی تھی میں بولا نہیں میری دھی میں تیرے نال پیار ہی کردا ہاں تان تیرے نال پرنیونڑ دی حامی بھری اے نصرت بولی ابو وت بچے پیدا کرنے اچ کی اعتراض اے ابو میری گل سن لوو میرے نال شادی کرنی نہے تے میں بال جمن آلو کھلا ہتھ رکھنا اے تھوانوں نہیں میرا سے ارمان ہے کہ میں ڈھیر سارے بچے پیدا کراں نصرت سیریس ہونے کے ساتھ تھوڑی سی سختی سے اپنی بات منوانے والے انداز میں بولی رہی تھی میں نصرت کی بات سے تھوڑا پریشان ہوگیا تھا یہ تو بڑا مشکل تھا ہم سگے باپ بیٹی تھے یہ تو ہونے سے رہا تھا میں اپنی بیٹی کو چودنے رہا تھا پر اس کو حاملہ کرکے بچہ بیدا کرنا رسکی کام تھا نصرت کی آنکھیں لال ہو گئیں اور وہ مجھے گہری آنکھوں سے دیکھ کر بولی ابو کے تھوانوں نہیں منظور تے وت دس دیو ٹائم نال ہی تسی پچھاں ہٹ جاؤ ہنڑ تسی جے میرے نال پرنیناں پی ہے تے وت پورا پرنیناں ہے ہک میاں بیوی آر رہنا اے تے اساں بچے وی پیدا کرنے نہیں تے مینوں ہن ہی چھوڑ دیو میں اس کی بات سے پریشان سا ہوگیا تھا نصرت تو ہر حد کراس کر رہی تھی پہلے وہ میرے ساتھ سونے کو تیار نہیں تھی اب وہ میرے ساتھ شادی کرکے میری بیوی کی طرح اپنا گھر بسانا چاہتی تھی اور بچے بھی پیدا کرنا چاہتی تھی مجھے اعتراض تو نہیں تھا پر باپ بیٹی پر معاشرتی حدود بھی تھیں جو کچھ تو ہم باپ بیٹی پہلے ہی توڑ کر ایک ہو رہے تھے اور اپنی ہوس بھاگنے کےلیے ہر حد توڑنے جا رہے تھے اب جو نصرت سوچ رہی تھی وہ تو ایک باپ اور بیٹی کےلیے بالکل ہی نئی بات تھی باپ اور بیٹی کا ایک ساتھ تعلق بھی ٹھیک تو نہ تھا لیکن یہ رشتہ مجبوری تھا اپنی عزت بچانے کا لیکن باپ بیٹی کا اس تعلق سے بچہ پیدا کرنا تو بالکل ٹھیک نا تھا کیونکہ اگر بات باہر نکلتی تو بہت بدنامی ہونی تھی مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ سو کر بچہ پیدا کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا پر مجھے معاشرتی قدغنوں سے ڈر تھا کہ اگر باہر پتا لگ گیا کہ میری بیٹی مجھ سے ہی تعلقات بنا کر بچے پیدا کر رہی ہے تو یہ بدنامی کی بات تھی نصرت میری بات سے بہت ہرٹ لگ رہی تھی اسے سمجھ آگئی تھی وہ چپ ہو گئی اور منہ نیچے کرکے اپنا کام کرنے لگی اتنے میں گیٹ کھڑکا میں باہر نکلا تو میرا ایک جاننے والا تھا میں اس کے ساتھ باہر نکل گیا

          Comment


          • #25
            بہت مزہ آیا پڑھ کر

            Comment


            • #26
              بہت خوب جناب بہت خوب

              Comment


              • #27
                Wah g boht aala update baap beti kye Beach pyar ka aghaz ho gya ab deakhna ha kab beti baap ko bahrpor pyar dati ha

                Comment


                • #28
                  Hamesha ki tara lazawal story

                  Comment


                  • #29
                    بہترین کیا بات ہے

                    Comment


                    • #30
                      بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ کہانی
                      لکھاری جی بہترین کہانی لکھ رہے ہو اپ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X