Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Writer boht alaw

    Comment


    • #62
      bohat accha likh rhy hein

      Comment


      • #63
        اچھی سٹوری ہے

        Comment


        • #64
          میں واپس گھر آیا تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سامنے سے میری دوسری بیٹی جویریہ نے دروازہ کھولا جویریہ دروازے پر دوپٹے کے بغیر کھڑی تھی اس نے ایک کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جس میں اس کے اٹھے تھن ہوا میں تن کر اکڑ کر کھڑے مجھے سلامی دے رہے تھے میں نے ایک گہری نظر اپنی بیٹی جویریہ کے تن کر کھڑے مموں پر ڈالی تو وہ برا کے بغیر تھی جس سے جویریہ کے موٹے تنے مموں کے اکڑے نپلز جسم سے جھانک رہے تھے جویریہ کا جسم نصرت کی طرح ہی بھرا بھرا اور کسا ہوا بدن تھا اس کا قد بھی کافی لمبا تھا جس سے جویریہ بھی ستھری گھوڑی کی طرح لگ رہی تھی میں اندر گیٹ میں داخل ہوا میں نے غور کیا تو جویریہ کا بھرا بھرا بدن کسے قمیض میں جھانک رہا تھا میں نے ایک نظر مموں پر ڈالی تو جویریہ کے مموں کی لکیر کافی گہرائی تک نظر آ رہی تھی جویریہ مجھے اپنے ممے تاڑتے دیکھ کر اپنی گت اٹھائی اور اپنے مموں پر ایک ادا سے پھینک دی میں نے نظر اٹھا کر جویریہ کو دیکھا تو وہ خمار بھری گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہوئی شرارتی انداز میں مسکراتی مجھے دیکھ رہی تھی جویریہ کے انداز پر میں بھی مسکرا دیا جویریہ کے بالوں کی ایک لٹ الگ ہوکر جویریہ کے چہرے پر گر رہی تھی جو قیامت ڈھا رہی تھی میں تو جویریہ پر فدا ہی ہو رہا تھا جویریہ بھی میری بیٹی تھی پر نصرت کے ساتھ بننے والے تعلق سے اب یہ بیٹیاں کم اور جوان لڑکیاں زیادہ نظر آرہی تھیں جویریہ مجھے یوں دیکھ کر بولی ابو لگدا نصرت توں پہلے میرا کم ہو جانا اور کھلکھلا کر ہنس دی میں بھی ہنس دیا اور بولا میری دھی لگدا تے انج ہی ہے جویریہ بولی کیوں ابو نصرت نالو میں ڈھیر سوہنی آں میں ہنس دیا تسی دوویں ہکو دوئی تو ودھ ہو جویریہ مسکرا دی میں اپنی بیٹی جویریہ کے تنے تھن دیکھ کر مچل رہا تھا جس پر جویریہ مسکرا کر بولا ابو لگدا میرے تھن کجھ ڈھیر ہی چنگے لگ رہے میں جویریہ کو کھلتا دیکھ کر مچل گیا اور بولا ہائے میری دھی تیرے تھن تے آگ رہا رہے دل کر رہیا ایتھے ہی چوس دیاں جویریہ سسک کر بولی ہائے میں صدقے جاواں ابو تے چوس لوو میں کوئی روکیا ہویا میں مسکرا دیا اور بولا تیری بھین آگے رہی پئی اے میرے تے جے ویکھ تیرے نال ویکھ لیا تے جان کڈھ لیسی جویریہ مسکرا کر بولی ابو تسی تے ہنے نال ہی اپنی سوانی تو ڈرن لگ پئے ہو میں بولا میری جان سوانی سوہنی تے گرم جوان ہووے تے وت ڈرنا ہی ہوندا۔ سوہنی سوانی دے نخرے تے اٹھانے چاہی دے جوریہ مسکرا دی اور اپنی چہرے پر پڑی لٹ کو پکڑ کر مروڑتی بولی اچھا جی پتا نہیں ساڈے نخرے کدو اٹھیسو گئے اسی تے انتظار اچ مر جاساں گئے میں جویریہ کی بے تابی دیکھ کر مسکرا دیا اور بولا میری سوہنی دھی میں تینوں نہیں کرنا دیندا کیوں فکر کر دی ہیں جویریہ سسک کر بولی ہائے میں مر جاواں ابو کی سہی آکھ رہے ہو میں نے جویریہ کا ہاتھ پکڑ کر دبا لیا اور سسک کر بولا تیری قسم اگلی وار تینوں اپنی سوانی بنانا اے جویریہ سسک کر بولی اففف میں صدقے جاواں ابو اے گل کرکے تے تساں میری جان ہی لئے کئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مسلتی ہوئی اٹھا کر اپنے سینے میں مموں کے درمیان دل پر دبا دیا اور مدہوش آنکھوں مجھے دیکھ کر بولی ویسے ابو نصرت کیوں تپی ہوئی اے میں مسکرا دیا اور بولا تیری بھین بڑی عجیب خواہشاں کردی اے جویریہ مسکرا کر بولی ابو کے گرم جوانیاں دا سواد لینڑا اے تے وت اوہناں دی خواہش تھی پوری کرنی ہوسی میں ہنس دیا اور بولا اچھا جی جویریہ بولی ویسے ابو کی خواہش کیتی نصرت میں مسکرا کر بولا نصرت آکھدی اے میں بچہ وی پیدا کرنا اے بلکہ بچہ نہیں بچے پیدا کرنے ہینڑ جویریہ یہ سن کر چونک گئی اور مسکرا کر بولی ویسے ابو نصرت دا بچہ جمنا بنڑدا تے ہے میں بولا توں وی اس دے نال رل جا جویریہ بولی ابو جی وت کی ہویا جے اس دا دل ہے بچے جمن تے تے جمن دیو تھواڈا کی جاندا میں بولا میری دھی کے باہر پتا لگا تے کی ہوسی وہ بولی کی ہوسی ابو کجھ نہیں ہوندا نصرت دا دل ہے تے اس نوں حاملہ کردیو ویسے وی جے اے کم کرو ہی ہاں تے وت اے تے ساڈا حق ہے نا میں اسے دیکھ کر بولا تیرا وی دل اے حاملہ ہونٹ تے جویریہ ہنس دی اور بولی تے ہور کی نصرت ہوسگدی تے مینوں کی میں ہنس دیا۔ اتنے میں اندر سے مدیحہ نکلی اور سامنے جوریہ کو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے میں دبا کر مجھ سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا دیکھ کر مسکرا دی میں بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا مدیحہ بھی بغیر دوپٹے کے ایک کسے ہوئے لباس میں تھی جس میں اس کا انگ انگ نظر آرہا تھا وہ چلتی ہوئی پاس آئی اور بولی ابو جی پہلے نصرت دا مکو تے ٹھپ لیو وت اسی ایتھے ہی ہاں میں بولا پہلے اسدا ہی ٹھپنا اے پر اس توں ہٹ کے وی تے کسے ہور نال تعلق بنانا چاہیدا جویریہ ہنس کر بولی مدیحہ نا پریشان ہو تیری واری وی آسی گئی پر میرے تو بعد میں ہنس دیا اور بولا نصرت کدے ہے اس نوں منا ہوئیے مدیحہ بولی اندر کی ن اچ ہونی میں اندر گیا تو نصرت چولہے پر بیٹھی تھی پاس عارفہ بھی بیٹھی تھی نصرت مجھے نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر نظر جھکا گئی نصرت کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے میں اندر جا کر پاس ہی بیٹھ گیا نصرت نے وہی کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس میں نصرت کا انگ انگ نظر آرہا تھا نصرت کے کسے لباس سے نصرت کا جسم جھانک رہا تھا نصرت کے اٹھے تنے مموں کے نپلز نظر آرہے تھے نصرت کے ناک میں کوکا چمک رہا تھا جبکہ نصرت کے گلے میں لاکٹ پر میرے نال کا لکٹ چمک راہ تھا جس ر بنا دل اور اس میں لکھا این نصرت کے مموں کی لکیر میں گھسا ہوا تھا نصرت بہر ہی پیاری لگ رہی تھی اس نے مجھے نہیں دیکھا اور کام میں مشغول رہی وہ مجھ سے ناراض تھی میں بولا جان من ناراض ہی رہسو ہنڑ عارفہ بولی دیمی توں تے ہوئے نال ہی میری دھی نوں ناراض کرن لگ پیا ایں تے اگاں کی بنسی میں مسکرا دیا اور بولا میں تے کوئی نہیں ناراض کیتی بس اس دی خواہش ہی ایسی عارفہ بولی دیمی تیری دھی نصرت جے اگر تیرے نال سین کے حاملہ ہونا چاہندی تے تینوں کی اعتراض اے او وی چھویر اے اسدی خواہش ہے بال جمن تے توں جمن دے میں بولا عارفہ اعتراض کوئی نہیں پر جدو اے بال جمسی تے باہر پتا لگ جاسی کہ نصرت حاملہ ہے تے کی جواب دیساں گئے عارفہ بولی وے پہلی گل تے اے ہے میں پتا لگنڑ ہی نہیں دیندی تے دوجی گل اے کہ توں دھی دی شادی تے کتی نہیں ہنڑ آپ ہی اسدی آگ بجھاؤ ایں تے اتنا ہک تے اسدا حق بنڑدا اے اس نوں حاملہ کر دے بے شک میں سنبھال لیساں گئی نا پریشان ہو میں اسے دیکھا تو نصرت مجھے غور رہی تھی میں بولا اچھا کجھ سوچدے آں اور کھانا کھانے لگا کھانا کھا کر مجھے باہر جانا تھا میں کسی کام چلا گیا واپس آیا تو عارفہ نے دروازہ کھولا میں نے اس سے نصرت کا پوچھا تو وہ بولی کیچن اچ اے میں کیچن میں گیا تو نصرت کھڑی برتن رکھ رہی تھی دھونے کےلیے نصرت کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت کے موٹے چتڑوں پر اوپر پتلی کمر اور اوپر چوڑا سینہ نصرت کو پورا سیکس بمب بنارہا تھا میں قریب گیا اور نصرت کے پیچھے کھڑا ہو گیا نصرت کے جسم سے گرمائش کے ہلے اٹھ رہے تھے جس سے میں سمجھ گیا کہ میری بیٹی نصرت کے اندر آگ لگی ہے میں نصرت کے قریب ہوا اور نصرت کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر دبا دیے جا سے نصرت چونک سی گئی اور جلدی سے مڑ کر دیکھا تو میں تھا نصرت سیدھی ہو گئیا ور بولی کچھ نہیں وہ ابھی تک ناراض تھی میں نصرت کے پیچھے سے بالکل ساتھ لگ گیا نصرت کا جسم میرے جسم سے ٹچ ہوگیا جس پر ہم دونوں کی سسکی نکلی میری بیٹی کے جسم کی آگ میرے اندر تک اتر گئی تھی نصرت کے جسم سے بھانبڑ نکل رہے تھے نصرت نے مجھے کچھ نہیں کہا میرا لن نصرت کی گرمی سے بے قابو ہوتا تننے لگا اور میری بیٹی نصرت کی گانڈ میں چپھنے لگا نصرت میرے ساتھ لگی کھڑی رہی میں نے اپنی بیٹی نصرت کے کندھے دبا کر نصرت کا جسم اپنے ساتھ چپکا دیا اور منہ آگے کرکے اپنی بیٹی نصرت کی گال کو چوم کر بولا میری دھی ہلے تک ناراض ہے میرے نال نصرت میرے گال چومنے پر سسک گئی میں نصرت کے کندھے چھوڑ کر اپنے ہاتھ اپنی بیٹی کی کمر پر ڈالے اور اپنی بیٹی نصرت کی کمر مسلتا ہوا نصرت کی گال کو چومنے لگا میری بیٹی کی نرم بھربھری گال میرے اندر آگ لگا رہی تھی مزے کی ایک لہر میری روح تک اتر گئی میں نے کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی بیٹی نصرت کے پیٹ پر رکھ کر نصرت کو اپنے ساتھ بھینچ لیا اور نصرت کی نرم گال کو چوس کر مزہ لینے لگا میرا لن فل تن کر نصرت کے گانڈ میں چبھ گیا تھا جو میں اپنی بیٹی نصرت کی گانڈ کے ساتھ نسل رہا تھا نصرت نا تو مجھے روک رہی تھی نا میرا ساتھ دے رہی تھی میں بولا نصرت میری دھی ناراض ہی رہنا اے وہ کچھ نا بولی اور آنکھوں بند کیے سسک رہی تھی میں بولا نصرت میری دھی کتنے بال جمسی میرے اچو نصرت میری بات پر چونک گئی اور میری طرف دیکھا میں بولا ہاں سچی میں تیار آں اپنی دھی نوں بچہ دیون تے نصرت سسک کر بولی اففف ابو سچی آکھ رہے ہو میں بولا میری دھی تیری قسم نصرت نے میری آنکھوں میں دیکھا نصرت کی آنکھوں میں بلا کی ہوس اور آگ بھری وحشت اتری تھی نصرت نے ہانپتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے جوڑ کر دبا کر چوسنے لگی اپنی میں+ سگی بیٹی کے ہونٹوں کا لمس مجھے نڈھال کر گیا میں تڑپ کر کراہ گیا اور اپنی بیٹی نصرت کے ہونٹ دبا کر چوسنے لگا جس سے نصرت بھی سسک گئی نصرت میرے ہونٹ کھینچ کر میری زبان اپنے اندر کھینچ کر چوستی ہوئی اپنی گانڈ میرے لن پر خود ہی رگڑنے لگی اپنی سگی بیٹی کے منہ کا ذادیا ئقہ میرے اندر آگ لگا رہا تھا مجھے سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار ہاتھ اوپر کیے اور اپنی سگی بیٹی نصرت کے موٹے تھن دونوں ہاتھوں میں پکڑ رک دبا کر مسل دئیے جس سے نصرت دوہری ہوکر کرلا کر میرے ہونٹ چھوڑ کر بولی افففف اببببوووووو میں مر گئی نصرت نے پہلی بار کسی مرد کے ہاتھوں میں اپنے ممے محسوس کیے تھے یہ احساس اسکی جان کے گیا تھا میں اپنی بیٹی نصرت کے نرم گداز ممے دبا کر مچل سا گیا اور نصرت کے مموں کو کس کر پکڑ کر دباتے ہوئے اپنی بیٹی کے مموں کے نپلز انگھوٹے سے مسلنے لگا جس سے نصرت کراہتی ہوئی تڑپ کر کراہنے لگی نصرت کا جسم زور سے کانپنے لگا اور وہ بے اختیار دوہری ہوکر آگے کو گرتی ہوئی کرا گئی نصرت میرے ہاتھوں کی گرفت سے اپنے ممے دبواتی نڈھال ہو گئی نصرت کے ممے کسی نے پہلی بار مسلے تھے نصرت مرد کے جسم کا لمس وہ نا پائی اور ایک لمحے میں ہی میری بیٹی نصرت کی پھدی پانی چھوڑ گئی نصرت کانپتی ہوئی پانی چھوڑتی دوہری ہوگئی اور پھر کانپتی ہوئی آہیں بھرتی مرا ساتھ دینے گئی میں نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا ہوا چاٹنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی ہوئی مجھے چوسنے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا تھا میں نصرت کے ہونٹ چھوڑ کر نصرت کی گال کو چوسنے لگا اسی لمحے جویریہ میری دوستی بیٹی اندر کیچن میں اخل ہوئی کہ اٹھا کر اور نصرت کو پیچھے سے دبوچ کر چومتو دیکھ کر رک سی گئی اسی لمحے میں نصرت سے بولا میری دھی ہنڑ انتظار نہیں ہوندا پیا ہن ہور نا تڑپا نصرت سسک کر بولی اففف ابو میں تے آپ مسیں ودی آں آج سہاگ رات منا لوئیے وت میں تے آپ ہنڑ کاہلی ہاں تیرے ہیٹھ جاونڑ کانڑ اتنے میں جویریہ پاس آئی اور کپ رکھ کر بولی لیلی مجنوں جاؤ مناؤ سہاگ رات یا ایتھے ہی چوما چاٹی کرتے رہسو یہ سن کر میں چونکا اور ہنس کر نصرت کے ہونٹ چوس کر چومنے لگا نصرت اپنی بہن جویریہ کو دیکھ کر بولی ہنڑ ٹائم آگیا اے ہنڑ توں مینوں اپنا لئے میں بولا میری جان حاضر میں۔ نصرت مجھے چھوڑ کر پیچھے ہوئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچتی ہوئی کیچن سے باہر نکلی جویریہ بھی ہمارے پیچھے تھی نصرت جویریہ سے بولی جویرو امی تے مدیحہ نوں وی سد لئے جویریہ نے عارفہ اور مدیحہ کو بلایا تو نصرت بولی امی میں آج ہی ابو نال نکاہ کرو ہاں تے تسی اس نکاہ دے گواہ بنو عارفہ بولی میری دھی اے تے چنگاہ کرو ہیں اسی گواہ ہوں تھواڈے یہ کہ کر نصرت میرے سینے سے لگی اور میری آنکھوں میں دیکھتی میرے قریب ہو کر نصرت بولی ابو تینوں نصرت ولد ندیم تینوں اپنے نکاہ اچ قبول اے میں بولا قبول اے نصرت پھر بولی ابو تینوں نصرت ولد ندیم اپنے نکال اچ قبول اے میں بولا قبول اے وہ بولی نصرت والد ندیم تینوں اپنے نکاہ اچ قبول اے میں بولا قبول اے نصرت بولی ابو ہنڑ توں وی مینوں نکاہ اچ لئے لئے میں بولا نصرت تینوں ندیم اپنے نکاہ اچ قبول اے نصرت بولی قبول اے میں نے دو مرتبہ دہرایا میری سگی بیٹی نصرت نے مجھے اپنے نکاہ میں قبول کرلیا میری سگی بیٹی اب میرے نکاہ میں آچکی تھی اور میری بیوی بن چکی تھی نصرت میرے ہونٹوں کو چوم کر بولی ابو ہنڑ میں تیرے نکاہ اب آگئی آں تے میں تیری بیوی بن گئی آں امی جویریہ تے مدیحہ اس گل دے گواہ ہینڑ عارفہ آگے آئی اور نصرت کا ماتھا چوم کر بولی میری دھی شادی مبارک ہووی نصرت بولی امی خیر مبارک اور میرا ماتھا بھی چوم کر بولی دیمی میری دھی نوں کوئی شکائیت نا ہووے میں ہنس کر بولا پہلے میری دھی ہے بعد اچ میری بیگم ہے مینوں وی پتا اے کوئی شکائیت نا اسی نصرت ہسن کر مسکرا دی جویریہ آگے بڑھی اور بولی نصرت ابو دا ساتھ مبارک ہووی اور قریب ہوکر نصرت کا گال چوم لیا جویریہ کے موٹے تنے ممے اکڑے نظر آرہے تھے میں نے بے اختیار ہاتھ آگے کیاا ور جویریہ کے تنے ممے پر چٹکی کاٹتے ہوئے بولا میری جان اپنے بہنوئی نوں مبارک نہیں دینی میرا ہاتھ بڑھا رہا تھا تو جویریہ پیچھے ہورہی تھی جس سے میری چٹکی سیدھی جویریہ کے ممے کے نپل پر گئی اور میری بیٹی جویریہ کا موٹا نپل میری چٹکی میں آگیا جس سے میں نے بے دھیانی میں چٹکی جویریہ کے نپل پر کاٹ دی جس سے جویریہ تڑپ کر کراہ گئی اور بے اختیار پیچھے دوہری سی ہو کر بولی ہالنی اماں میں مر گئی اور بے اختیار اپنا ہتھ اپنے ممے پر رکھ کر مسل کر کراہ سی گئی میں اس بے دھیانی سے چونک کر گھبرا سا گیا نصرت بھی میرے سینے سے لگی دیکھ رہی تھی جویریہ کو درد سے کراہ دوہرا ہوتا دیکھ کر نصرت کھلکھلا کر ہنس دی امی اور مدیحہ بھی یہ دیکھ کر ہنس دیں جویریہ سسک کر اپنے ممے اور نپل کو مسلتی ہوئی بولی صبر تے کریں ہا تینوں وی مبارک دیو ہاس نصرت ہنس دی اور بولی ہنڑ ٹھہو ٹھہو مبارک دے کئیس نہیں تے کجھ ہور کردا ہئی جویریہ بولا جیجو جی بہت بہت مبارک سادی بھین تے اسدا خیال رکھنا میں بولا اچھا جی اسدا خیال تے میں رکھساں میرا کون رکھسی جویریہ ہنس دی اور بولی تیرا وی تیری بیگم خیال رکھسی میں بولا تے تھواڈا سالیاں دا فائیدہ کے سارا خیال بیگم کی رکھنا کیوں نصرت نصرت میری بات پر ہنس دی اور بولی صحیح گل اے جویرو سالی وی آدھے گھر آلی ہوندی اسدا وی حق بنڑدا بہنوئی دا خیال رکھے یہ سن کر جویریہ بولی باجی اسی تے خیال رکھساں گئیاں پر تینوں اعتراض نا ہووے نصرت ہنس دی اور بولی مینوں کی اعتراض ہونا میرا تے بوجھ کم ہوسی نہیں تے جیڈی ابو اچ گرمی اس تے مینوں تھکا دینا اے اس واسطے تھواڈا وی حق بنڑدا اے میرا ساہ کڈھانا ابو تے مینوں ساہ کڈھن نہیں دینا جویریہ یہ سن کر ہنس دی اور بولی لئو جی جیجا جی ہنڑ تھوانوں اجازت مل گئی ہنڑ تسی کجھ بوجھ ساتھے وی پا سگدے ہو میں ہنس کر بولا نصرت جان چھڈسی تے میں تھواڈے آل اساں ویسے وی اے تے ایتھے آکھ رہی اوتھے پتا نہیں مینوں بنھ لیسی یہ کہ میں ہسن دیا نصرت بولی جی نہیں میں کہڑا بنھ کے رکھنا نالے میں تے اگے آکھیا کہ تسی بے شک اپنی موج اچ رہو کوئی پابندی نہیں ویسے وی جدو میں حاملہ ہونا اودو تھواڈے کولو تے رہینا ہی نہیں اس واسطے اوہنا دناں دا میں بندو بست کردتا اے گھر اچ ہی جویریہ وی ہے مدیحہ وی اے کیوں مدیحہ مدیحہ پاس کھڑی تھی وہ مسکرا کر ہنس دی جی باجی سانوں تے کوئی اعتراض نہیں میں بولا توں مبارک نہیں دینی وہ بولی میں تے سکی مبارک نہیں دینی منہ وی مٹھا کرنا اے میں بولا تے کر کیوں جناب وہ آگے ہوئی اور میرے قریب آکر میرے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر کس کر دبا کر چوستی ہوئی چومنے لگی میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ہونٹوں کا لمس اور تھوک محسوس کرکے تڑپتا ہوا کراہ گیا مدیحہ مجھے ایک منٹ چومتی ہوئی چھوڑ کر بولی بہت بہت مبارک ہووے جاؤ ہنڑ سہاگ رات مناؤ عارفہ بولی جاؤ ہنڑ سہاگ رات مناؤ اپنی
          نصرت بولی ابو چل مینوں لئے چل اپنے کمرے اچ تے اج کڈھ دے میرے کڑاکے تے مسل دے میری گرم جوانی نصرت بے قابو ہو رہی تھی میں اپنی بیٹی نصرت کو اپنی باہوں میں بھر کر اٹھا لیا اور کمرے میں لے کر آیا نصرت نے اندر آتے ہی اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا میں بھی قمیض اتار دیا میری بیٹی نصرت کے تن کر کھڑے اکڑے ممے ننگے ہوکر لہرانے لگے میں اپنی سگی بیٹی کو اپنے سامنے ننگا دیکھ کر مچل گیا نصرت نے قمیض اتار کر جھٹ سے سیدھی میرے سے آلگی اور مجھے باہوں میں دبوچ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی میری بیٹی نصرت کے تن کر کھڑے ممے میرے سینے میں چبھ گئے نصرت مجھے دبوچ کر اپنے ممے میرے سینے میں مسلنے لگی جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا نصرت کراہتی ہوئی ہانپتی میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی ہانپتی ہوئی کراہنے لگی میں نصرت کو سینے میں دبوچ کر نصرت کی کمر کو مسلتا ہوا نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوس رہا تھا جس سے نصرت سسکتی ہوئی آہیں بھرتی ہانپنے لگی میری بیٹی نصرت مرد کے لمس کےلئے مر رہی تھی میری سگی بیٹی نصرت میرے سینے سے ننگے لگی اپنی چاہ اتار رہی تھی میری بیٹی کے ننگے ممے میرے سینے میں دبے تھے نصرت کا سر میں نے پکڑا اور اپنے سے علیحدہ کرکے نصرت ہانپتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی اففف ابوووو میں مر گئی ابو مینوں الگ نا کر اپنے آپ تو میں نصرت ہونٹوں کو کس کر چوسا اپنی بیٹی کے اکڑے ہوئے ممے پکڑ کر مسلنے لگا نصرت مزے سے آہیں بھرتی میرے ہونٹ کو چوستی ہوئی آہیں بھرتی کراہنے لگی میں نصرت کے ممے مسلتے ہوا نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر نیچے ہوا اور منہ کھول کر اپنی بیٹی کا ایک مما دبا کر منہ میں بھر کر چوس لیا جس سے نصرت کی کراہ نکلی اور نصرت مزے سے کانپ گئی اپنی سگی بیٹی کا مما منہ میں محسوس کرکے میرے اندر آگ سی لگ گئی میں کراہ کر اپنی بیٹی نصرت کے نپل کو ہونٹوں میں دبا کر چوس کر اس کو زبان سے مسلا سے نصرت کراہ کر تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی میرا سر دبانے لگی نصرت کے مموں کی تھوک چوس کر میں نڈھال ہو رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی کانپنے لگی میں دبا کر مما چوستا ہوا نچوڑ رہا تھا جس سے نصرت تاب نا کر کر دوہری ہوکر میرے اوپر جھکتی ہوئی تھر تھر کانپتی ہوئی ایک لمبی کرلاٹ ماری اور نصرت کی پھدی پانی چھوڑ گئی میری نظر نیچے گئی تو نصرت کی شلوار آگے سے گیلی ہوچکی تھی نصرت آہیں بھرتی ابووو ۔۔ ابووو۔ ابووو۔ اففففف امااااں میں مر گئی ابووو۔ ابووو۔ تیرے اچ تے بہوں جادو ہے کوئی یہ کہ کر میں نصرت کو چومنے نصرت میرے سینے سے لگ کر کانپتی ہوئی آہیں بھرتی میری کمر مسلتی بولی ابو مینوں لگدا توں مینوں آج ہی نچوڑ دیسیں گیا میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چوم ے لگا نصرت نے ہاتھ نیچے کیا اور میرا نالا کھول کر میرا کہنی جتنا لمبا اور موٹا لن پکڑ کر کھینچ لیا اپنی سگی بیٹی کا نرم ہاتھ اپنے لن پر محسوس کرکے میں تڑپ کر کراہ سا گیا نصرت پیچھے ہوئی اور مسکرا کر بولی ابو کی بنیا میں بولا میری دھی تیرے تے ہتھ اچ ہی جان نکل رہی نصرت مسکرا کر بولی ابو حوصلہ کرو میرے ہتھ اچ جان نہیں دینی میرے اندر جان دینی اے اور میرا لن مسلتی ہوئی میرے ہونٹ چومنے لگی میں نصرت کو چومتا ہوا بولا نصرت اپنے پیو دے لن نوں پیار تے کر نصرت نے گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولی ابو میں اپنے پیو نوں اپنا گھر آلا بنا لیا اے تے میں اپنے گھر آلے دی ہر شئے نوں یار کرساں یہ کہ کر نصرت میری آنکھوں میں دیکھتی نیچے میرے لن کے سامنے بیٹھ گئی میری بیٹی کی موٹی گیری آنکھوں سے شہوت اور وحشت کی آگ چھلک رہی تھی میری سگی بیٹی نصرت کے منہ کے سامنے میرا تگڑا کہنی جتنا لمبا موٹا لن لہرا رہا تھا نصرت نے ایک نظر اپنے باپ کے موٹے لن پر ڈالی اور سسک بولی افففففف ابووووو میں صدقے جاواں اپنے یار توں اور ہونٹ آگے کرکے میرے لن کے ٹوپے پر رکھ کر میرے لن کے ٹوپے کا دبا کر چما لے لیا اپنی سگی بیٹی نصرت کے ہونٹوں کو اپنے پر محسوس کرکے میری تو کراہ ہی نکل گئی میرا کہنی جتنا لمبا موٹا نصرت مسل کر ہانپتی ہوئی دیکھتی جا رہی تھی میرے لن کی موٹائی اتنی تھی کہ میری بیٹی نصرت کے ہاتھ کی ہتھیلی میں مشکل سے آرہا تھا نصرت کی مٹھ میں لن پورا نہیں آتی تھا نصرت سسکتی ہوئی لن کو مسلتی ہوئی آگے ہوئی اور میرے لن کو سائیڈ سے چوم کر بولی اففففف ابوووو اتنا لما تے موٹا لن۔۔ میں تے مر جاساں گئی ابووو توں تے میری جان کڈھ لیسیں گیا ایڈا لما لن کدی سوچیا وی ناہ اور زبان نکال کر میرے لن کو چاٹنے لگی اپنی بیٹی کی زبان کا لمس لن پر محسوس کرکے میری توں جان منہ آگئی جس سے میں تڑپ کر سسک گیا میں کراہ کر بولا میری دھی فکر نا کر توں جتنا لئے سگسیں اتنا ہی دیساں زیادہ نہیں دیندا تیری پھدی اچ نصرت سسک کر بولی کیوں ابو اے ہنڑ سارا ہی میرا اے تے میں اے سارا لینڑا اے میں بولا میری دھی تیرا ہی اے نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی چاٹتی ہوئی اپنے منہ پر مل رہی تھی نصرت نے پہلی بار لن قریب سے دیکھا تھا اس لیے وہ لن پر صدقے واری ہورہی تھی میں بھی اپنی بیٹی نصرت کی آگ سے نڈھال ہوکر تڑپ رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں سسک کر بولا نصصصررتتت میری دھی منہ اچ لئے کے چوس ہنڑ میں مسیں کھلا آں یہ سن کر نصرت نے گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرا لن مٹھی میں دبا کر پیچھے کی طرف مسلا اور اپنا منہ کھول کر میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا اپنی سگی بیٹی نصرت کے گرم منہ میں اپنا لن جاتے ہی میں تڑپ کر کراہ گیا بے اختیار میرے اندر سے کرلاٹ نکلی اور میں اونچی آہ بھر کر کانپنے لگا میرا جسم آج پہلی بار تھر تھر کانپنے لگا تھا آج تک بہت سی خوبصورت اور جوان لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارا تھا لیکن اس طرح کی کیفیت مجھ پر کبھی طاری نہیں شاید یہ اس لیے تھا کہ اس بار میرا لن چوستی میری سگی بیٹی تھی جس کی آگ کی تاب میں نہیں لا پا رہا تھا نصرت نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میرے لن کو دبا کر چوستے ہوئے اپنا منہ میرے لن پر دبا دیا جس سے میرا لن ٹوپے سے تھوڑا آگے تک ہی میری بیٹی کے منہ میں جا سکا اس سے آگے میرے لن کی موٹائی زیادہ ہوگئی اور نصرت کے منہ کا دہانہ چھوٹا تھا جس ے لن آگے نا جاسکا نصرت میرے لن پر ہونٹ کو دبا کر کس لیا اور میرے لن کو چوستی ہوئی اپنی زبان میرے لن کی نوک پر پھیری جس سے میں تڑپ کر کرلا سا گیا میری کرلاٹ کمرے میں گونج گئی اور میرا جسم تھر تھر کانپنے لگا مجھے ایسا لگا کہ نصرت کے منہ کی چوس میرے سینے تک میری جان کو کھینچ رہی ہو جس سے بے اختیار میرا جسم کانپنے لگا تھا میں نے گانڈ بھینچ لیا نصرت ہانپنتی ہوئی مجھے دیکھتی ہوئی میرے لن کو مسل کر میرے لن کو منہ کے اندر باہر کرتی کس کس کر چوپے مارنے لگی میری بیٹی نصرت کے نرم ہونٹوں کی میرے لن پر رگڑ میری جان کھینچ رہی تھی نصرت بھی مزے سے بے اختیار ہانپ رہی تھی جس سے نصرت کے نتھنے فل کھل کر تیز ی سے سانس اندر باہر کے رہے تھے میری بیٹی کے ناک کے
          نتھنے میں اچھلتا کوکا مجھے نڈھال کر رہا تھا نصرت کا تیز گرم سانس بھی میرے لن پر محسوس ہوکر میری جان جو کھینچ رہا تھا جس سے میں تڑپ رہا تھا نصرت بے اختیار میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو اپنے باپ کے لن پر دبا کر کس کر چوپے لگا رہی تھی نصرت کے منہ کی آگ اور زبردست چوپوں نے ایک منٹ کے اندر میرا کام تمام کردیا میرے بے اختیار کرلاٹ نکی اور مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی ہوئی لن کی طرف تیزی سے دوڑنے لگی جس سے میری ٹانگیں تیزی سے کانپنے لگی بے اختیار میرے ہاتھ میری بیٹی نصرت کے سر پر جا ٹھہرے میں نے کراہ کر اپنی بیٹی کا سر دبا کر پکڑ لیا کہ نصرت چھڑوا ے نا پائے میں اپنی بیٹی نصرت کے منہ میں ہی فارغ ہونا چاہتا تھا نصرت بھی شاید سمجھ گئی اس لیے نصرت نے میرا لن چھوڑا اور لن کو منہ میں دبا کر اپنے ہونٹوں کی گرفت میں کس کر اپنے ہاتھ اٹھا کر میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر میری آنکھوں میں مستی سے دیکھنے لگی مجھے لگا کہ شاید نصرت چھڑوانے چا رہی ہے اس لیے میں نے ہاتھ نصرت کے سر پر مزید دبا دیے جس سے میرا لن تھوڑا اور نصرت کے منہ میں سرک گیا اسی لمحے نصرت نے مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھ کر اپنی زبان میرے لن کی موری پر پھیری جس سے میں تڑپ کر کرلا کر سر اوپر کر کے پیروں کی سیڑھیاں اٹھا کر اپنی گاڑھی سفید منی کہ ایک زور دار دھار اپنی سگی بیٹی نصرت کے منہ میں مار کر فارغ ہوگیا میری کراہ اتنی لمبی اور اونچی تھی کہ کمرہ گونج گیا میرے لن کی منی کی دھار سیدھی میری بیٹی نصرت کے گلے میں لگی جس سے نصرت کی گھٹی گھٹی کراہ نکل اونہوں۔ ساتھ ہی میرے لن کی لمبی کی دھار نے میری بیٹی کا منہ بھر دیا نصرت میری منی کو منہ میں کے کر تڑپ کر کراہ گئی جس سے میری بیٹی کا سر بے اختیار کانپنے لگا اور نصرت نے رکے بغیر اغغھ کی آواز سے گھونٹ بھر کر ساری منی پیٹ میں اتار کر پی گئی چیست ہی نصرت کے پیٹ میں منی اتری نصرت کی مزے سے بکاٹ سی نکلی اور مزے سے بھر پور اونہغووووووووں کی لمبی اور اونچی آواز نصرت کے اندر سینے سے نکل کر کمرے میں گونج گئی نصرت کا سر کانپنے لگا اور نصرت کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا میرا لن تو لگامیں توڑ کر بے اختیار جھٹکے پہ جھٹکے مارتا میری سگی بیٹی کے منہ کو بھر رہا تھا نصرت بھی رکے بغیر اغغھووووں اغغھووووں کرتی اپنے باپ کے لن کو نچوڑ کر منی پی رہی تھی اسی لمحے عارفہ اندر داخل ہوئی اور سامنے بیٹی کے منہ میں باپ کے لن کو منی چھوڑتے دیکھ کر رک سی گئی ہم دنوں جو کراہتا وہا دیکھ کر عارفہ آگے بڑھی اور نصرت کے ہونٹوں میں کسے لن کو نصرت کے منہ میں منی چھوڑتے دیکھ کر بولی میں صدقے جاواں اپنی دھی تو نصرت اپنے پیو نوں چنگی طرح نچوڑ کے پی جا تے اپنی آگ ٹھنڈی کر میں صدقے جاواں اور آگے ہوکر نصرت کا ماتھا چوم لیا اور کھڑی ہوکر میرا منہ ہاتھوں میں پکڑ کر بولی دیمی اپنی دھی نوں شکائیت دا موقع نا دیویں اور میرے ہونٹ چوم کر نکل گئی نصرت کے منہ کی آگ نے ایک منٹ میں میرا لن نچوڑ کر خالی کر دیا میں آہیں بھرتا اپنی بیٹی کی اگ کے آگے ہمت ہار سا گیا تھا جس سے میں تڑپتا ہوا دوہرا ہوکر نصرت کے اوپر گرنے لگا میرے ٹٹے اچھلتے ہوئے میرے لن کی منی میری بیٹی کے منہ میں پھینک رہے تھے جس سے میں تڑپ کر کراہ رہا تھا نصرت میری منی نچوڑ کر پی گئی تھی نصرت نے ہونٹ دبا کر کس کر چوپا مارا اور لن چھوڑ کر بولی افففف ابوووو میں صدقے جاواں منی ایڈی سوادی ہوندی اے آج پہلی واری پتا لگا ابو میں مرجاواں میں تیرے صدقے جاواں ابو میں تے تیری عاشق ہو گئی میں نے نیچے ہوکر اپنی بیٹی کا ماتھا چوم لیا اور بولا نصرت مری جان تیری آگ تے آج مینوں ہلا کے رکھ دتا اے آج تک جتنی زنانیاں تے چھوریں یدھیاں آج آر کسے نہیں نچوڑیا جیویں آج توں نچوڑ لیا اے نصرت میرے لن جے ساتھ کھیلتی ہوئی بولی ابو میں وی تیری دھی آں کوئی تھوڑی گل نہیں میں ہنس دیا نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی چوستی جا رہی تھی اور لن کو مسل کر اپنے منہ پر بھی مسل رہی تھی نصرت کے منہ کی آگ نے میرے لن کو پہلے سے بھی زیادہ سختی سے تن کر کھڑا کر دیا تھا میرے اندر تو نصرت نے آگ بھر دی تھی نصرت میرے لن کو چوستی جا رہی تھی میں نصرت کو گت سے پکڑ کر اوپر کھینچ لیا نصرت سسکتی ہوئی اوپر اٹھی اور میرے سینے سے آلگی میں بولا نصرت کی خیال اے لن نوں تیری پھدی دی سیر کروائیے نصرت سسک گئی اور میرا لن مسلتی بولی ابو ہنڑ میں تیری بیوی آں تے میرے تے فرض اے کہ میں تیری تے توں میری ہر خواہش پوری کرنی ہے تے ہنڑ تینوں پچھنڑے دی وی ضرورت نہیں بس تیرے دل جدو کرے مینوں پھد کے یہ دے میں ہسن کر نصرت کو چومتا ہوا نصرت کو پیچھے بیڈ پر گرا دیا نصرت بیڈ پر گر کر لیتی چلی گئی اور اپنی ٹانگیں اوپر اٹھانے لگی میں آگے ہوا اور اپنی سگی بیٹی کی شلوار کو ہاتھ ڈال کر شلوار کھینچ کر اتار دی نصرت نے اپنی ٹانگیں اپنے پیٹ سے لگا لیں جس سے میری سگی بیٹی کی سیل پیک پھدی میری آنکھوں کے سامنے آگئی میری بیٹی کی پھدی کے ہونٹ آپس میں جڑے تھے نصرت کی پھدی کا گلابی دہانہ بے اختیار پچ پچ کرتا کھلتا بند ہوتا پانی چھوڑ رہا تھا نصرت ہانپتی ہوئی بے قراری سے مجھے دیکھ رہی تھی نصرت کی پھدی سے پانی کی ایک لکیر سی بہ رہی تھی جس سے لگ رہا تھا کہ نصرت مرد کےلیے مری جا رہی ہے میں نے نصرت کی ٹانگیں پاؤں کے پاس سے پکڑیں اور دبا کر اپنی بیٹی نصرت کے سینے سے لگا دیں جس سے نصرت کے چڈے کھل گئے اور گانڈ اوپر کو اٹھے گئی چڈے کھلنے سے میری بیٹی کی پھدی مزید کھل کر میرے سامنے آگئی نصرت کی ٹانگیں سینے سے لگانے سے نصرت بے اختیار کراہ کر بولی افففف ابووووو میں مر گئی نصرت کی گانڈ مزے تھر تھر کانپنے لگی نصرت کی سینے سے لگی ٹانگیں بھی کانپنے لگیں تھیں بے قراری سے نصرت کا پورا جسم کانپ رہا تھا نصرت کو پتا چل چکا تھا کہ اب اسے کے باپ کا لن اس کی پھدی میں جانے لگا ہے جس سے نصرت کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی اور نصرت بے قرار ہوکر مچلتی ہوئی آہیں بھرنے لگی نصرت سے اب ایک لمحہ بھی انتظار نہیں ہو پا رہا تھا نصرت بے قراری سے تڑپ کر اپنا سر ادھر ادھر مارتی ہوئی کراہ کر بولی افففف ابووووو رک کیوں گئے ہو نصرت کی پھدی بھی بے قراری سے تیز تیز کھلتی کھلتی بند ہوتی پڑچ پڑچ کرتی پانی کی دھاریں مارنے لگی تھی میں سمجھ گیا کہ نصرت سے اب نہیں رہا جارہا میں اوپر ہواتو نصرت نے ہاتھ آگے کرکے میرا لن اپنی پھدی کے دہانے پر سیٹ کر اپنی گانڈ اٹھا کر خود ہی لن پھدی میں لینے کی کوشش کرتی بولی افففف ابوووو اتنا اتنظارررر۔ لن پھدی پر محسوس کرکے نصرت کی کراہ نکل گئی اور نصرت مزے سے آہیں بھرتی ہاپنے لگی نصرت کی گرم پھدی سے میرا لن ٹکرا کر میں بھی تڑپ سا گیا نصرت بےا اختیار بولی ابووووو میری جان نکل رہی تے مینوں مزہ دیسو میں بے اختیار اوپر آیا لن پہلے ہی نصرت نے خود اپنی پھدی کے دہانے پر سیٹ کر رکھا تھا میں نے اپنی بیٹی نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر اپنی گانڈ کھینچ کر بے اختیار ایک ہلکا دھکا سا مارا جس سے میرا لن میری سگی بیٹی نصرت کی پھدی کو کھول کر پڑچ کی آواز سے اندر داخل ہوگیا میرے لن کا موٹا ٹوپہ نصرت کی پھدی کے اندر جاتے ہی نصرت تڑپ کر اچھلی اور ایک اونچی چیخ مار کر تڑپ کر کرلا کر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر چیخی اااااااعععععہہہہہہرررررررڑڑڑڑ۔ نصرت کی چیخ سن کر میں رک سا گیا نصرت تھر تھر کانپتی ہوئی سر ادھر ادھر مارتی چیخ کر بولی افففففف ابببببوووووووو ابووووووووو میں مر جاواں نصرت تڑپتی ہوئی کراہ رہی تھی میرا ٹوپے سے زیادہ لن نصرت کی پھدی میں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ نصرت کی پھدی میں آگ لگی ہوئی ہے میں تو تڑپ سا گیا نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا نصرت کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں نصرت کے اندر لگی آگ میرا لن جلا کر میرے لن کو کھینچ رہی تھی نصرت تڑپتی ہوئی بولی اففففف ابووووو رک نہیں سارا پیل دے اففف ابو نصرت میری کمر کو مسلتی ہوئی سسک رہی تھی اپنی سگی بیٹی نصرت کی گرم پھدی میں اپنا لن اترا محسوس کرکے میں تڑپ رہا تھا نصرت کی تنگ پھدی میرا لن دبوچ رہی تھی مجھ سے رہا نا گیا میرا دل کیا ایک ہی ہلے میں پورا لن منڈ دوں یہ سوچ کر میں تڑپ کر وحشی سا ہوگیا میں نصرت کے اوپر جھکا اور نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا اپنی گانڈ کھینچ کر پوری طاقت سے دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا موٹا لمبا لن ایک ہی دھکے میں یک لخت پورا جڑ تک اپنی سگی بیٹی نصرت کی پھدی کے پار کردیا میرا کہنی جتنا لن میری بیٹی نصرت کی پھدی کو چیر کر رگڑتا ہوا میری بیٹی کی پھدی کو پھاڑ کر نصرت کی بچہ دانی پار کرکے نصرت کے ہاں سے جا لگا جس سے نصرت بے اختیار ہوا میں اچھلی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر بے اختیار دبا کر پوری قوت سے چیختی ہو دھاڑی اور دھاڑتی ہوئی تڑپ تڑپ بکاتی چلی گئی نصرت ایک ہی سانس میں اتنا لمبا بجائی کہ نصرت کا سانس ٹوٹ گیا اور نصرت کی آواز بند ہوگئی اسی لمحے نصرت نے پھر میرے سینے پر ہتھ رکھ کر پوری شدت سے دھاڑ کر چلائی اوئئئئئئئے ہاللللیوووووئئئئے ابووووووووووووووو میں مر گئی اوئے ہال ہوئے ابو میں مر گئی نصرت تڑپتی ہوئی دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بکا رہی تھی نصرت کی بکاٹ بھری دھاڑیں اتنی بلند تھیں کہ کمرہ گونج رہا تھا اور باہر تک سنائی دے رہی تھی اسی لمحے پیچھے سے کوئی آیا اور جلدی سے دروازہ کس کر بند کردیا میں سمجھ گیا کہ نصرت کی دھاڑوں کی آواز باہر تک جا رہی ہو گی میرا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اترا تھا نصرت بکاتی ہوئی حال حال کرتی جارہی تھی نصرت کی پھڈی میں لگی آگ میرے لن کو دبوچ کر جلا رہی تھی میں تڑپ کر کراہ رہا تھا نصرت تھر تھر کانپتی ہوئی پھڑکتی ہوئی سر ادھر ادھر مارتی حال حال کرتی بولی رہی تھی اوئے ہالیوئے ابو میں مر گئی اوئے ہالیوئے ابو میں مر گئی نصرت کا منہ لال سرخ تھا اور اس کی آنکھوں ے پانی بہ رہا تھا میں نصرت کی حالت دیکھ کر نصرت کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی نصرت میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہویا نا میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہوندا میری سوہنی دھی نا ناں بس بس میں نصرت کے آنسو پوچھ رہ نصرت کا سر پکڑ کر نصرت کے ہونٹوں کو چومنے لگا نصرت تڑپتی ہوئی کرلاتی ہوئی کراہ رہی تھی میں نصرت کے اوپر گر کر نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا نصرت کی کمر کو مسل رہا تھا نصرت کی پھڈی میں جڑ تک اترا میرا لن میری بیٹی نصرت کی پھدی دبوچ رہی تھی نصرت کے اندر لگی آگ مجھے جلا رہی تھی میں تڑپ کر کراہ رہا تھا میں نصرت کو چومتا ہوا مسل رہا تھا نصرت کو کچھ دیر تک درد سے آرام ملنے لگا میں اوپر ہوا اور نصرت کو چوم کر بولا نصرت میری دھی کجھ آرام بنیا نصرت بولی افففف ابوووو تیرا لن بہوں ظالم ہے ہک جھٹکے اب ہی میری ساری آگ بجھ گئی اے میں مسکرا کر بولا میری جان تیرے اندر تے ہلے وی آگ لگی میرا لن سڑدا پیا نصرت کراہتی ہوئی بولی ابو پر میری آگ تیرے لن بجھا دتی اے انج لگ رہیا کہ لن سینے تک لہ گیا ہووے قسمیں ابو میں تے موئی پئی آں میں بولا بس ایو کجھ ہا ہلے تک تے توں بال وی جمنے نصرت بولی ابو گنجائش تے بڑی ہا پر تیرا لن بہوں وڈا تے موٹا اے ظالم جان ہی کڈھ لئی ہے میں بولا ہنڑ ہمت ہے کہ میں کڈھ لوں لن نصرت بولی کیوں ابو ہنڑ ہک وار تے سواد دے نا میں یہ سن کر نصرت کی کانپتی ٹانگیں دبا کر اوپر ہوا اور اپنا لن آدھی تک کھینچ لیا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی میں رک گیا نصرت تڑپتی ہوئی کراہتی ہوئی آہیں۔ بھرنے لگی نے آہستہ آہستہ سے آدھا لن ہی اندر باہر کرتا اپنی بیٹی نصرت کی پھدی کو چودنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر ہاپنتی ہوئی بولی بولی اوئے ہالیوئے ابووووووو میں مرررررر گئئئئی میں آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرتا چود رہا تھا نصرت کی تنگ پھدی نے میرا لن دبوچ رکھا تھا جس سے میں بھی مچل کر کراہ رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی کراہ کر سر ادھر مارتی ہوئی حال حال کرتی ہوئی کراہ رہی تھی۔ میرے لن کی رگڑ نصرت کی پھدی کو کھول رہی تھی جس سے نصرت تڑپتی ہوئی کراہتی ہانپنے لگی نصرت کو بھی اب مزہ آنے لگا تھا جس سے نصرت اب سسکتی ہوئی کراہتی ہوئی میری کمر مسلنے لگی میں اب ل ٹوپے تک کھینچ اوور آہستہ آہستہ پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتارنے لگا جس سے نصرت بے اختیار تڑپی اور بکا کر میرے سینے کو دبا کر دھاڑ کر بولی اوئے ہالیوئے ابووووووو میں مر گئئئئئی میں نصرت کے چیلانے پر رک سا گیا نصرت کراہ کر بولی ابووو رک تے نہیں میں بولا تینوں درد نہیں ہو رہی میری جان نصرت بولی ابووو ہو تے رہی اے پر لن اگاں پچھاں کرن نال لن پھدی نوں کھول کے راستہ بنا کیسی تے وت پھدی مروان دا مزہ آسی یہ سن کر میں نے لن کھینچا اور آہستہ آہستہ لن ٹوپے تک نکال کر پورا جڑ تک اتارتا ہوا نصرت کو چودنے لگا جس سے دو منٹ میں میری بیٹی کی پھدی میں راستہ بن گیا ور لن آسانی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کو چودنے لگا جس سے نصرت بھی اب مزے سے آہیں بھرتی میرا ساتھ دینے لگی میں بھی اب مزے سے تھوڑی سپیڈ تیز کرکے لن کھینچ کھینچ کر مارتا ہوا چود رہا تھا میں اب مزید تھوڑی سپیڈ بڑھا کر لن ٹوپے تک کھینچ کر ہلکا سا کس کر دھکے مارتا لن یک لخت جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتارنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا جاتی اور ہلکا دھاڑ کر اوئے ہالیوئے ابوووو کرتی تڑپ کر بکا جاتی نصرت بھی مزے سے تڑپتی ہوئی ہانپنے لگی تھی نصرت کی پھدی میں تیزی سے لن اندر باہر کرتے ہوئے میرے لن کی کھردری چمڑی نصرت کی پھڈی کو مسل رہی تھی جس سے نصرت ہانپتی ہوئی کرلا رہی تھی جبکہ نصرت کی پھدی کے نرم ہونٹوں کی رگڑ سے میں مزے سے مچل رہا تھا نصرت کے ہانپنے سے نصرت کا کوکا نصرت کے ناک میں اچھل کر مجھے نڈھال کردیا تھا میں مزے سے تڑپ کر بے قابو ہونے لگا نصرت کی پھدی کی آگ مجھے تڑپا رہی تھی میں کوکے کو اچھلتا دیکھ کر تڑپ گیا جس سے میں بے اختیار نیچے ہوا اور اپنی بیٹی نصرت کے کوکے کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے میں مزے سے تڑپ کر کرہا گیا نصرت کے کوکے کا لمس مجھے نڈھال کر گیا اور میں بے اختیار کراہ کر رکہا سا گیا میں نے نصرت کا کوکا ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے میرے اندر وحشت سی اتر گئی اور میں جنونی سا ہونے لگا جس سے میں بے قابو ہو کر تڑپا اور اپنی گانڈ کھینچ کر بے اختیار لن ٹوپے تک نکال کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا کس کس کر کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی میں تیزی سے اتارتا نصرت کو پوری شدت سے چودنے لگا جس سے میرا لن تیزی سے جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتر کر نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر چیرتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی بچہ دانی کو چیرتا ہوا نصرت کے ہاں میں کھبنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر بے اختیار اچھلی اور میرا سینہ دبا کر چیختی ہوئی ارڑا کر دھاڑی اور دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئئئئے ہہہاااااللییووووئئئئے ابووووووووو میں مر گئیییییی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری پھدی پاٹ گئی میں نصرت کو ارڑتا دیکھ کر بے اختیار نصرت کو کوکا کھینچ کر چوستا ہوا جنونی ہو کر کھینچ کھینچ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا نصرت کی پھدی میں پن کھینچ کھینچ کر مارتا نصرت کو پوری شدت سے چودنے لگا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بکاتی ہوئی میرے نیچے ولیٹے کھانے لگی میرے لن کے طاقتور دھکوں سے میرے لن کی کھردری چمڑی میری بیٹی نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر چیرتا ہوا تیزی سے اندر ہوتا نصرت کے ہاں میں چبھتا نصرت کی کہ جان نکالنے لگا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکاٹی مارتی چیختی ہوئی تڑپتی ہوئی بکا کر حال حال کرتی جا رہی تھی میں نصرت کے کوکے کو کھینچ کر چوستا ہوا تڑپ کر کراہنے لگا نصرت کی تنگ پھدی کے ہونٹ میرے لن کو سنک کر مجھے نڈھال کر رہے تھے میں بھی نصرت کی آگ سے تڑپ کر کراہ کر نڈھال ہو رہا تھا جس سے بے اختیار میرے دھکے پیک پر پہنچ گئے تھے اور میرا لن نصرت کی پھڈی کے ہونٹ مسل کر رگڑتا ہوا کاٹنے لگا تھا جس سے نصرت چیختی ہوئی تڑپ تڑپ
          بکاتی ہوئی ارڑا کر دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے ابووو میری جان نکل گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے ابووووووو میری جان نکل گئی ہئی ابووووووو بسسس کر دے میں مردی پئی اآؤں ابووووووووو میری پھدی پاٹ گئی اوئے ہالیوئے ابووووووو میری پھدی پاٹ گئی میرے دھکے پیک پر تھے لن تیزی سے اندر باہر ہونٹوں نصرت کی پھڈی کو چیر رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی مجھے دھکیل کر ہٹانے کی کوشش کرتی نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی بکا بکا کر دھاڑتی جارہی تھی میں مزے سے پیک پر تھا میرے لن کے دھکے نصر تکی جان کھینچ رہے تھے جس سے نصرت تڑپ تڑپ کر مرنے والی ہو رہی تھی نصرت کا منہ لال سرخ ہوکر سر کانپنے لگا اور نصرت کی آنکھوں ے مسلسل آنسو بہنے لگے تھے میں بھی تڑپ کر کرلا سا گیا اور کراہتا ہوا ایک لمبی کراہ بھر کر اپنا کہنی جتنا لمبا موٹا لن کلے کی طرح کھینچ کر اپنی بیٹی نصرت کی پھدی میں ٹھوک کر کرلا کر رک کر کرلا گیا اور ایک لمبی منی کی دھار کس کر نصرت کی پھدی میں مار کر فارغ ہوتا ہوا نصرت کے اوپر گر کر کراہنے لگا نصرت بھی میرے ساتھ فارغ ہوتی تڑپتی ہوئی بکانے لگی اتنے میں پیچھے سے عارفہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی سامنے میں نصرت کے اوپر پڑا کراہ کر ہانپ رہا تھا نصرت کا کوکا میرے منہ میں تھا کہ اور میرا جڑ تک اترا لن نصرت کی پھدی میں جھٹکے مارتا پانی چھوڑ رہا تھا میرے ٹٹے اچھل اچھل کر میری بیٹی نصرت کی پھدی میں بینک رہے تھے نصرت کی پھدی بھی میرا لن دبوچ کر نچوڑ رہی تھی عارفہ بیٹی کی پھدی میں جڑ تک اترے منی چھوڑتے لن کا کھیل دیکھ رہی تھی نصرت میرے نیچے پڑی تڑپ کر حال حال کرتی تھی عارفہ آگے آئی اور ہمار پاس آکر نصرت کا ہاتھ پکڑ کر بولی نی میں صدقے جاواں میری دھی سہاگ رات مبارک ہئی اور نیچے ہوکر نصرت کا ماتھا چوم لیا نصرت تڑپتی ہوئی دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری جان نکل رہی اے اماںںںںں میری پھدی پاٹ گئی امااااں ابو نوں آکھ بس کر میں مر جاساں گئی میں پڑا ہانپ رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی میرا لن نچوڑ گئی عارفہ بولی نا میری دھی کجھ نہیں ہویا میری جان ہمت کر کجھ وی نہیں ہویا میری دھی نصرت تڑپ رہی تھی وہ حال حال کرتی بولی اماں میں مر گئی آں اماں پھدی میری پاٹ گئی ہئی نصرت بولی میری دھی پہلی وار ہا نا کجھ نہیں ہوندا ہمت کر میری جان برداشت کر جا تیرے اندر فی آگ تے تینوں برداشت دے قابل بنا دیندی نصرت کی پھڈی میرا لن دبوچ رہی تھی میں تڑپ کر نصرت کو چوم رہا تھا عارفہ نصرت کی کمر مسل کر بولی دیمی کنجرا دھی دی پھدی تے پاڑ دتی ہئی کجھ تے ہولی کریں ہاں نصرت دیاں چیخوں تے دھاڑوں باہر تک سنیندیاں رہیا۔ ظالماں کجھ تے لحاظ کردا میں بولا افففف عارفوووو کجھ نا پچھ جیڈا سواد آج نصرت دتا آج تک کسی دی پھدی نہیں دتا عارفہ ہنس دی اور بولی میری جان دھی جے تیری ہے میں نڈھال ہوکر نصرت کے اوپر گر کر ہانپنے لگا اور نصرت کے ممے دبا کر چوسنے لگا نصرت کچھ دیر میں سنبھل کر آہیں بھرتی کراہنے لگی میں نصرت کے ہونٹوں کو چومتا ہوا سسکنے لگا نصرت بھی ہانتپی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی کچھ دیر تک ہم پڑے رہے میں اوپر ہوا تو نصرت ابھی تک کانپ رہی تھی میرے لن نے نصرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا نصرت کی پہلی بار تو تھی پر میرا لن بھی بہت ظالم تھا جس نے پھدی رگڑ کر رکھ دی تھی میں بولا سوری میری جان پہلی واری ہی ڈھیر مسل دتا ہے نصرت کانپتی آواز میں بولی نہیں ابو ٹھیک اے اتنا ہک تے ہونا چاہیدا میں بولا مزہ آیا نصرت بولی اففف ابوووو نا پچھ جتنا سواد آیا میں بولا اچھا جی میں بولا ہمت ہے کہ نہیں میرا دل تے کر رہیا ہک وار ہور ہو جائے نصرت تڑ پ کر بولی اففف ابوووو ہمت نہیں ہنڑ گنجائش ہی ساری مکا دتی تیرے لن ابو ہنڑ میرے اچ ہمت نہیں اے میں بولا میری جان اے تے زیادتی اے میں تے ہک وار تے رجدا ہی نہیں نصرت بولی ابو آج میری پہلی وار ہا تے ہنڑ میری ہمت نہیں ہور کرن دی آگے ہی تیرا لن سگھ تک اپڑایا پیا میں ہنس دیا اور نصرت کو چوم کر بولا پلیز میری جان ہک واری ہور ہنڑ آرام آرام نال کرساں نصرت بولی ابوووو قسمیں میں مر جاساں گئی میرے اب ہمت کوئی نہیں تیرا لن برداشت کرنے دی عارفہ بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا پیو جے آکھ رہیا ہئی تے من جا ہک وار ہور چدوا لئے کھاں نصرت بولی امی تینوں نہیں پتا ابو دا لن ہک تے بڑا سخت تے ٹھوس ہے پتھر آر تے دوجا ابو دے لن دی چمڑی بہوں کھروی ہے تے کھروی چمڑی دی رگڑ پھدی دے ہونٹ چھل کے رکھ دتی ہے میری پھدی لن دی رگڑ توں سڑی پئی ہے ہنڑ ہور جلن نہیں برداشت ہونی میں مر جاساں گئی عارفہ بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا ہنڑ دو واری تے سہاگ رات منا نا نصرت تھوڑا گھبرا سی گئی اور رونے والے انداز میں بولی امممییی کیوں مارو ہیں مینوں امیییی قسمیں میں مر جاساں گئی امی بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا برداشت یدس کر ہنڑ برداشت پیدا کرسی تے کجھ ہوسی نالے لن رگڑ کے اپنی جاہ بنیسی تے اگاں لن کینٹ تے سوکھی ہوسیں نصرت مجھے دیکھ کر بولی اچھا ابو جی لاہ لئو اپنی سدھر آج تھواڈے ہیٹھ جے پئی آں میں بولا نصرت توں تے ہنڑے نال ہی ہمت ہار گئی ں نصرت کا چہرہ اتر سا گیا تھا نصرت بولی ابو تھوانوں نہیں پتا تھواڈا لن کیڈا ظالم ہے میں بولا میرالی دھی جیڈا وی ظالم ہے لینڑا تے توں ہی ہے ہنڑ اور نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے اوپر جھکا تو نصرت کراہ کر سر ایک طرف کر گئی جیسے نصرت کا دل نا ہو نصرت بھی سچی تھی میرے کہنی جتنے موٹے لمبے لن کو لینا آسان تو نا تھا آج تک نصرت کی طرح کی کوئی جوان لڑکی پورا نہیں لے پائی تھی بڑی سے بڑی چدکڑ عورت بھی ایک سے دوسری بار پورا لن نہیں لے پاتی تھی عارفہ آج تک پورا لن نہیں لے پائی تھی پہلی رات تو صرف ٹوپے سے آگے تک کے پائی تھی اور ساری رات سسکتی رہی اگلے دو دن بخار سے تڑپتی رہی یہ تو نصرت کی ہمت تھی کہ پہلی بار میں پورا لن لے گئی میں سیدھا اور ہوا اور گانڈ اٹھا کر اپنا لن ٹوپے تک نکال لیا نصرت سمجھ گئی کہ ابو پہلی کی طرح پورا لن یک لخت جہنمی تک اتارے گا یہ دیکھ کر نصرت جلدی سے سیدھی ہوئی اور اوپر ہوکر میری کمر پر ہاتھ رکھ دبا کر مجھے روکتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے ابو نہیں انج ناں کریں میں مر جاساں گئی ابو تینوں واسطہ ہئی نا کریں پورا لن لینڑ دی میرے اچ ہمت نہیں عارفہ نصرت کے ہاتھ پکڑ کر بولی نصرت کملی نا بنڑ کی ہوگیا تینوں جاونڑ دے پورا لن نصرت کراہ کر بولی اوئے ہالنی اماں کیوں میری جان کڈھو ہو امی ابو لن ٹوپے تک کڈھ کے پورا جڑ تک یک لخت سٹ مار کے یہندا اے تے اے لن سیدھا میرے ہاں اب جا لگدا اے تے میں مر جاندی آں ابو دیاں سٹاں تے عارفہ بولی کجھ نہیں ہوندا اور نصرت کے ہاتھ پکڑ کر ہٹا لی اور بولی کجھ نہیں ہوندا دیمی توں وی ہولی کریں نصرت مسیں آگے لیا اے میں تو نصرت کی پھدی کی آگ سے تڑپ رہا تھا صبر مجھ میں نہیں تھا میں ہانپتا ہوا اوپر ہوا اور پوری طاقت سے کس کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لمبا موٹا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار کردیا چرکککک کی آواز سے لن نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا نصرت کے سینے میں کھب سا گیا جس سے نصرت تڑپ کر اچھلی اور ارڑا کر اپنا سینہ اٹھا کر پوری شدت سے بکاتی ہوئی دھاڑی اور دھاڑتی چلی گئی جس سے اس کا سانس ٹوٹ گیا یں رکے بغیر لن کھینچا اور ٹوپے تک نکال کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا اپنا کہنی جتنا لن ٹوپے تک نکال کر تیزی سے یک لخت پورا جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا نصرت کو نسل کر چودنے لگا جس سے میرا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کے اندر باہر ہونے لگا جس سے میرے سخت ٹھوس لن کی کھردری چمڑی میری بیٹی نصرت کی پھدی کے ہونٹ سختی سے نسل کر رگڑتی ہوئی اندر باہر ہوتی نصرت کی پھڈی کے ہونٹ کاٹ کر چیرنے لگی جس سے نصرت تڑپتی ہوئی سینہ اٹھا کر منہ کھول کر پوری شدت سے دھاڑتی ہوئی چیخ کر حال حال کرتی ارڑانے لگی عارفہ میرےدھکے دیکھ کر بولی ہالنی اماں میں مر جاواں دیمی وے دھی دس رڑا پیا کڈھدا ایں لعنتیا ہولی کر میں تو اسوقت مزے سے جنونی ہو رہا تھا نصرت کی پھدی کے ہونٹوں کی نرم رگڑ سے لن کو رگڑ کر مجھے جو سکون مل رہا تھا اس پر میں تڑپ رہا تھا میں رکے بغیر پوری شدت سے کس کس کر دھکے امرتا نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا میرا لن نصرت کی پھڈی کے ہونٹ تیزی سے رگڑ کر کاٹنے لگا تھا جس سے نصرت اپنا سر اٹھا اٹھا کر مارتی ہوئی حال حال کرتی تڑپ تڑپ کر بکاتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اماااااااں میں مر گئی امااااااااااااں اااممممااااااااں اممممااااااں مینوں چھڑوا اماااااااں ابووووووو مار گیا مینوں اوئئئئئے ہالللللییوووووئئئئئئئے ااااااامممممممااااااااں میں مر گئی ابووووووووو بسسسسس کررررر دے تینوں واسطہ ہئی بس کر دے اور میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے نصرت روتی ہوئی تڑپنے لگی عارفہ نصرت کی حالت دیکھ کر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دباتی ہوئی بولی وے ظالمااا بس کر نصرت مردی پئی ہئی وے ظالمااااں دھی تے ترس کھا مر گئی ہئی وے بس کر ظالما میں تو مزے سے کراہ رہا تھا نصرت بے اختیار تڑپنے لگی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرے لن کی رگڑ نصرت کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی جس سے نصرت تڑپ کر بکا بکا رک اپنا سینہ اٹھا اٹھا کر نیچے مارتی تڑپنے لگی تھی میں رکے بغیر بغیر دو تین منٹ تک پوری شدت سے نصرت کو چودتا نڈھال ہوگیا اور لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں کلے کی طرح ٹھوک کر نصرت کے اوپر گر کر ایک لمبی کراہ بھر کر اپنی بیٹی نصرت کی پھدی میں ایک لمبی منی کی دھار مارکر فارغ ہوگیا نصرت بھی کراہتی ہوئی فارغ ہوتی دھاڑیں مارتی ہوئی حال حال کرتی پھڑکنے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپتی جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا نصرت کی جان نکل رہی نصرت تڑپ تڑپ کر بکاتی ہوئی ابووووووو ابووووووووو میں مر گئی ابووووو آج توں مینوں مارررر دتا ابوووووو میں مر گئی میں اوپر پڑا ہانپ رہا تھا عارفہ میری کمر مسل کر بولی ہنڑ بس کر چا ہن تیری دھی دی ہمت ترٹ گئی اے نصرت کی پھدی میرا لن نچوڑ چکی تھی میں اوپر ہوا اور نصرت کے ہونٹ کو چومنے لگا نصرت کا سر تھر تھر کانپ رہا تھا اور نصرت کی آنکھیں بند ہورہی تھیں نصرت بولی ابووو میں مر گئی آج توں بہوں ظالم ہیں ابو توں میری جان کڈھ لئی اے میں تڑپ کر کراہتا ہوا تھک گیا تھا نصرت کو میرے لن نے مسل دیا تھا پر آج میرا بھی کام ہو گیا تھا نصرت کی آگ نے مجھے نچوڑ لیا تھا میں پیچھے ہوا اور اپنا لن نصرت کی پھدی سے کھینچ لیا میرا لن مرجھا گیا تھا جس سے میں تڑپ کر کراہ کر پیچھے ہوا تو پچ کی آواز سے لن نصرت کی پھدی سے نکل آیا نصرت کی پھدی کے آپس میں جکڑے ہونٹ کھل چکے تھے اور پھدی کا گلابی دہانہ کافی سارا کھل کر میرے لن کی رگڑ سے لال سرخ ہو رہا تھا میرے سخت ٹھوس لن کی کھردری چمڑی کی رگڑ نے میری بیٹی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر مسل کر چھیل دیے میرے لن کی رگڑ نے نصرت کی پھدی کے اندر کا گلابی ماسی بھی کھینچ لیا تھا جو نصرت کی سیل کے پھٹنے سے میرے لن کی رگڑ سے کٹ کر باہر نکل آیا تھا نصرت کی پھدی سے ہلکا ہلکا خون بہ رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر دھاڑتی ہوئی اونچی اونچی حال حال کرتی تڑپنے لگی نصرت کی حال حال کمرے میں گونجنے لگی نصرت تڑپتی ہوئی حال حال کرتی رونے لگی عارفہ اسے دلاسہ دیتی بولی بس میری دھی بس کجھ نہیں ہویا میری جان ہمت کر برداشت کر اے ضروری وی تے نصرت روتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں ابو میری جان کڈھ لئی عارفہ بولی بس کر میری جان اے ہے ہی ایڈا ظالم بس ہنڑ اساں اس دے نیڑے وی نہیں وینڑاں توں نا فکر کر میں کوئی رشتہ لبھدی ہاں اے تے بہوں ظالم اے میں یہ سن کر شرمندہ سا ہوگیا عارفہ نصرت کی شلوار سے نصرت کی پھدی صاف کر رہی تھی میں اٹھا اور بولا سوری میری جان میں واقعی بڑا ظلم کیتا تیرے تے میں سوری کردا ہاں نصرت تھوڑی ناراض ہوکر بولی ابو سوری کرن نال ہنڑ میرے زخموں تے مریم نہیں رکھیندا میں تے اج مردی مردی بچی ہاں توں تے میری جان ہی کڈھ لئی میں بولا سوری میری جان سوری اور نصرت کو چومنے لگا نصرت رو رہی تھی واقعی ہی میں نے زیادہ ہی نصرت کو تنگ کر دیا تھا میں نصرت کو منانے کی کوشش کی پر ابھی نصرت غصے میں تھی اس لیے میں نے بھی کچھ نہیں کہا اور شلوار ڈال کر واشروم میں آگیا میں واپس آیا تو جویریہ اور مدیحہ عارفہ کے ساتھ مل کر نصرت کو سنبھال رہی تھیں میں تھک چکا تھا میں وہاں سے دوسرے کمرے میں آکر لیٹ گیا اور جلد ہی سو گیا نصرت کی چدائی نے اتنا تھکا دیا تھا کہ ساری رات ہلا ہی نہیں صبح میری آنکھ کھلی تو میرے اوپر جویریہ جھکی مجھے جگا رہی تھی میں نے آنکھ کھولی تو جویریہ بولی جناب جی جاگ جاؤ ہن تے میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو جویریہ میرے اوپر بالکل قریب ہوکر جھکی تھی رات نصرت کی چدائی کا خمار ابھی تک میرے اندر تھا میں نے جویریہ کو دیکھا تو جویریہ مسکرا دی جویریہ کے تن کر کھڑے ممے اور سے لٹکے قیامت ڈھا رہے تھے میں رات کو بغیر قمیض کے ہی سویا ہوا تھا میں سیدھا لیٹا تھا جس سے میرا تنا ہوا لن کلے کی طرح کھڑا تھا میں جویریہ کے مموں کو غور رہا تھا جویریہ نے اپنی گت مموں پر ڈال رکھی تھی کیا ہی منظر تھا جویریہ مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی جناب اپنا سامان تے کنج لئو رات نصرت نوں نسل کے ہلے وی سر چا کے کھلا اے اور مڑ کر جانے لگی میں نے جلدی سے ہاتھ آگے کیا اور جویریہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا جویریہ میرے ہاتھ پکڑنے پر چونک گئی اور پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا میں مسکراتا ہوا اسے دیکھ کر بولا جناب کوئی سانوں وی ٹائم دے دیو جویریہ بولی کیوں جی میں بولا ایویں ہی کجھ ساڈے کول وی بہ جا جویریہ بولی جی نہیں امی باہر ودی اے چھڈ مینوں اور اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑوانے لگی میں نے جویریہ کا ہاتھ پکڑ کر بولا کجھ نہیں ہوندا کوئی کجھ نہیں آکھدا وہ بولی نا جی ایویں کوئی ا جاسی میں بولا جویرو اوراں آ اور زور سے جھٹکا مار کر جویریہ کو اپنی طرف کھینچ لیا جس سے جویریہ میرے جھٹکے سے خود ہی میرے اوپر لڑھکتی ہوئی میرے اوپر گر گئی جویریہ نے اپنے تنے ہوئے ممے سیدھے میرے سیدھے میرے سینے پر زور سے مارے جس سے جوریہ کے سینے دھب کی آواز سے میرے سینے میں دب گئے اور جویریہ کراہ کر تڑپ سی گئی اور اپنے ممے خود ہی میرے سینے پر دبا کر بولی آئے ہالنی اماں مر گئی اففف ابو سسسسی میں سمجھ گیا تھا کہ جویریہ نے اپنے ممے جان بوجھ کر خود ہی میرے سینے میں مار دیے تھے جس سے منے سینے پر لگنے سے جویریہ کو تھوڑا درد بھی ہوا میں نے ہنس کر جلدی سے جوریہ کے گرد اپنے بازو گھما کر جویریہ کو اپنی جپھی میں بھر کر دبوچ لیا جویریہ سسک کر کراہ گئی بولی افففف ابو میرے تھنننن۔ افففف ابو ڈھاڈھے لگ گئے افففف سسسسیییی میں مر گئی میں ہنس دیا اور بولا میری جان آپ اپنے تھن چھک کے مارے نی میں تے نہیں آکھیا جویریہ سسک کر میرے قریب آگئی جویریہ کے ممے میرے سینے میں دب سے گئے تھے جویریہ بالکل میرے قریب آگئی اس کا گرم سانس میرے سانس سے مکس ہونے لگا جویریہ بولی افففف نا کر چھڈ دے کوئی آجاسی میں بولا کوئی نہیں آندا دو منٹ بہ جا ساڈے کول وی جویریہ بولی کیوں میں کیوں بہوں اپنی بیگم نوں بہا کول مین بولا کیوں توں وی بہ سگدی ایں سالی ہیں میری سالی تے آدھے گھر آلی ہوندی جویریہ بولا نا بھائی مینوں تے ڈر لگدا اے میں بولا کیوں ڈر کیوں لگدا اے وہ بولی ابو توں تے راتی جہڑے ارڑاٹ باجی نصرت دے کڈھے ہین میں تے ڈر گئی ہاس نصرت دی ایڈی حال حال تے دھاڑاں سن کے میں تے سمجھی ہاس آج نصرت نہیں بچدی میں ہنس دیا اور بولا کجھ نہیں ہوندا تسی جہریاں جوان تے آگ دیاں بھریاں چھوریں ہو تھوانوں کجھ نہیں ہوندا نالے تسی بنیاں وی تے مرداں واسطے ہی ہو جویریہ بولی ابو بنیاں تے مردا واسطے ہاں پر مرداں نوں چھٹی اے کہ ساڈی حال حال کڈھنی تے سانوں چیر پاڑ دینڑا میں جویریہ کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا اس دا مطلب توں وی اپنی بھین دی حالت تے میرے نال ناراض ہیں جویریہ بولی کیوں ناراض نا ہوواں ابو اس واسطے تے ناہ دتی کہ اس نوں چیر پاڑ دے ابو توں تے مزے لئے کے سیں گیا پر نصرت نوں تے اساں نویں سنبھالیا میں بولا سوری میری جان میں کی کردا تینوں نہیں پتا پہلے تے میں وی پرسکون ہاس پر جویریہ جدو میرا نصرت دے اندر گیا تے نصرت دے اندر بھانبڑ لگا ہا جس میرے ہوش ہی اڈا دتے بس میری دھی میرے تے کنٹرول نہیں رہیا میرا جویریہ مسکرا دی اور بولی اس۔ دا مطلب ابو وت میری وی خیر کوئی نہیں میں ہنس کر بولا نہیں میری جان ہنڑ میں اپنی دھیاں تے ایڈا ظلم نہیں کردا جویریہ بولی نہیں ابو ایڈا وی ظالم کوئی نہوں ہو جاندا اے جدو گرم جوان چھویر تھلے آئے انجن ہوجاندا میں بولا اچھا جی تے تیرا کی خیال اے جویریہ بولی نا بھئی مینوں تے رہن ہی دیو میں بولا کیوں جویریہ بولی ابو ہک واری نصرت نوں ٹھنڈا کر لئو جس ویلے نصرت سہی ٹھڈی ہو گئی میں توں سوچساں میں بولا کیوں جویریہ بولی ابو بس اے وی راز اے میں ہنس دیا اور سمجھ گیا کہ جویریہ بھی نصرت کی طرح میری فل توجہ چاہتی ہے وہ نہیں چاہتی کہ میں ایک ٹائم میں دنوں بہنوں کو چودوں جس سے جویریہ کی آگ سہی نہیں بجھ پائے گی میں بولا اچھا نصرت دا کی حال اے وہ بولی ہنڑ تے ستی ہی پئی اے بخار ہوگیا ہیس میں بولا اچھا وہ بولی توں وی جا کے پچھ لئیس میں بولا اچھا جی پر پہلے میرے شہزادے نوں تے سوا لئے جویریہ اوپر ہوکر بولی جی نہیں ابو میں انج نہیں میں جویریہ کو باہوں میں دبوچ کر اٹھنے نہیں دیا اور بولا گل تے سن میری دھی وہ بولی نہیں ابو چھڈ ناں میں بولی کملی دھی کجھ نہیں کردا بس پانی کڈھساں اتے اتے ہی جویریہ بولی ناں جی تھواڈا کہڑا پتا آتے دا آکھ کے وچ کردیو میں بولا میرے تے اعتبار نہیں جویریہ میری اس بات پر ہنس دی اور بولی نہیں ابو اعتبار نہیں پورا یقین اے میں ہنس دیا اور اپنا ہاتھ جویریہ کے سر کے پیچھے رکھا اور دبا کر جوریہ کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنے لگا جس سے جویریہ کی آہ نکل کر میرے منہ میں دب گئی اور جویریہ نے خود بھی اپنا سر دبا کر میرے ہونٹ کس کر چوستی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی جس سے میں اپنی بیٹی جویریہ کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے سسک گیا اور جویریہ کے منہ میں اپنی زبان دبا دی جسے جویریہ نے کھینچ کر منہ میں بھر کر دبا کر چوسنی لگی اور آہیں بھرتی تیز تیز سانس لیتی ہانپنے لگی جویریہ کی آہیں نکل کر میرے منہ دب رہی تھیں جویریہ بھی بےقراری سے میرے ہونٹ اور زبان چوس رہی تھی کہ اسی لمحے میری بیٹی مدیحہ بھی اندر آگئی اور جویریہ کو میرے اوپر گر کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر میرے ساتھ میرے ہونٹ چوستی ہوئی پچ پچ کرتی دیکھ کر چونک گئی اور بولی اچھا جی جناب آوری اس واسطے ابو نوں جگاون آئے ہانڑ کہ ایتھے ابو نال رنگ رلیاں منیساں گئی اور کھلکھلا کر ہنس دی میں اور جویریہ چونک گئے اور جویریہ میرے ہونٹ چھوڑ کر پچ کی آووز سے کرا بھر کر ہانپتی ہوئی اوپر ہوکر مدیحہ کو دیکھ کر بولی جی نہیں میں تے جگاون ہی آئی ہاس پر ابو تے مینوں قابو کرگئے چھڈدے ہی نہیں پئے مدیحہ مجھ سے بولی کیوں نہیں چھڈ رہے جناب میں ہنس کر بولا جناب کیوں کوئی اعتراض میری سالی ہے میرے کول نہیں بہ سگدی مدیحہ بولی بہ سگدی پر قابل اعتراض حالت اچ نہیں میں ہنس کر بولی سالی ادھے گھر آلی ہوندی اتنا ہک تے کر سگے آں مدیحہ ہنس دی اور بولی واہ ابو جی تھواڈی لاجک اچھا جویریہ جیجے صاحب اوراں نوں وہلا کرکے جلدی آ سکول نہیں جانا لیٹ ہو رہی وہ بولی اچھا آ رہی آں اور نکل گئی جویریہ بولی ابو ہنڑ مینوں جاونڑ دے میں بولا میری دھی پہلے مینوں تے پانی کڈھا لئے وہ بولی اففف ابو میں کنج کڈھاواں میں بولا میری دھی بس میرے کول ایتھے لیٹ جا میں آپے کڈھ لیندا اور جویریہ کو جپھی میں دبوچ کر اوپر کھینچا اور گھوم کر جویریہ کو بیڈ پر کھینچ لیا جس سے جویریہ چونک کر کراہ کر بولی آف ابو جویریہ کافی بڑی اور بھرے جسم کی مالک تھی اس لیے وزن کافی تھا جویریہ کو اٹھاتے ہوئے ایک طرف سے گھما کر اپنے اوپر سے دوسری طرف بیڈ پر لٹانے میں میرا زور لگا تھا میں جویریہ کو بیڈ پر لٹا کر اوپر چڑھ آیا جویریہ تھوڑی سی گھبرا کر بولی ابو توں تے صرف پانی ہی ناہ کڈھنا اپنا میں بولا میری جان نا فکر کر پانی ہی کڈھساں گیا کجھ نہیں آکھدا ہور اور جویریہ کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں جویریہ نے کسی ہوئی تنگ سی شلوار ڈال رکھی تھی جس سے جویریہ کی پھدی کے ہونٹ نظر آرہے تھے میں اپنا لن پھدی پر سیٹ کر جویریہ کے اوپر جھکا سو بولا میری جان بس دو منٹ لگنے تینوں کجھ وی نہیں ہوندا مزہ آسی اور جویریہ کے ہونٹ چوسنے لگا جوریہ ہانپتی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی جوریہ کی میرے کاندھوں سے لگی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں اور جوریہ میزےںسے ہانپتی سسکتی ہوئی کراہ کر میرا ساتھ دیتی مجھے چوسنے لگی میرا لن نصرت کی شلوار میں کسی پھدی سے ٹچ ہورہی تھا میرا لن بھی شلوار میں تھا میں اپنی بیٹی جویریہ کو لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کاندھوں پر رکھ کر اسے دوہرا کرکے اپنی بیٹی کے اوپر لیٹا چوس رہا تھا میری بیٹی کے ممے میں پکڑ کر دباتا ہوا اپنا لن اس کی پھدی سے مسلنے لگا جس سے جویریہ کراہ کر کانپنے اور آہیں بھرنے لگی میں جویریہ کے اوپر آکر لیٹ کر اپنا لن رگڑتا ہوا اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور اپنا نالا کھولا کر اپنا لن باہر نکال کر اپنی بیٹی جویریہ کی پھدی پر رکھ کر ہلکے ہلکے دھکے مارتا مسلتا ہوا اپنی بیٹی کی پھدی پر شلوار کے اوپر ہی مسلنے لگے جس سے میں کراہ کر تڑپ کر ہانپنے لگا جویریہ میرے لن کو پھدی پر محسوس کرکے کراہتی ہوئی بے قراری سے تڑپنے لگی جویریہ کی اونچی آہیں آہیں نکل کر گونجنے لگی جوریہ میرے ہونٹ چوستی ہوئی اونچی اونچی ہوووں ہوووں ہووووں کرتی کراہنے لگی جویریہ آہیں گونج رہی تھی جویریہ کی ٹانگیں میرے کاندھوں سے لگی کانپ رہی تھی ایک سے دو منٹ میں جویریہ زور سے تڑپی اور فارغ ہوگئی جویریہ کی شلوار بیلی ہوکر میرے لن پر جویریہ کی گرم پانی میرے لن لگ کر مجھے کراہ گیا جس سے میں تڑپ کر تیز تیز دھکے مارتا ہوا لن جویریہ کی پھدی پر مسلتا ہوا اپنی بیٹی جویریہ کو چود رہا تھا ایک منٹ میں میری بیٹی جویریہ کی آگ نے میری منی کھینچ لی اور کرہا کر تڑپ کر فارغ ہوتا جویریہ کے اوپر گر کر ہانپتے ہوئے سسکنے لگا جویریہ نے جوہر کرتڑپتے ہوئے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ کر مجھے دبوچ لیا میں کریات ہوا اپنی بیٹی جویریہ کی پھدی پر فارغ ہوگیا جویریہ بولی اففففف ابو تسی تے بڑا سواد دیندے ہو میں اوپر ہوکر جویریہ کو چوم ے لگا اسی لمحے عارفہ کی آواز گونجی جویریہ صاحب کے پیو دا پانی کڈھ کے فارغ ہو گئیں ہیں تے ہنڑ آجا سکول نہیں جانا میں چونک اوپر دیکھا تو عارفہ مجھے اپنی بیٹی کے اوپر گر کر اسے چومتا دیکھ رہی تھی ہم دونوں باپ بیٹی اس کی آنکھوں کے سامنے رنگ رلیاں مناتے فارغ ہوچکے تھے جویریہ ہنس کر بولی جیجا جی سالی دے چڈیاں اب اپنی آگ کڈھ لئی تے ہنڑ سالی نوں چھڈّ دیو میں ہنس کر اوپر ہوا اور ننگا سائڈ پر لیٹ گیا جویریہ میرا لن دیکھ کر بولی ابو توں ننگا ہوگیا ہائیں میں ہنس دیا جوریہ بولی تاں ہی میں اکھاں ایڈا مزہ کیو آیا اور میرے ہونٹ چوم کر باہر نکل گئی میں مسکراتا ہوا اٹھا اور واشروم چلا گیا میں واشروم سے نہا کر نکلا اور دوسرے کمرے میں گیا جس میں نصرت سو رہی تھی میں نصرت کے پاس گیا نصرت ٹانگیں سینے سے لگا کر پڑی تھی میں پاس بیٹھ گیا تو نصرت سو رہی تھی نصرت کو کافی تیز بخار تھا میں نصرت کی گال کو چوم لیا اور بولا سوری میری جان نصرت تھوڑا سا ہلی اور بولی نا کرو ابو جی ہک واری ہمت نہیں میں بولا اچھا آرام کر میں کیچن میں آیا تو جویریہ کھانا لکھا رہی تھی مدیحہ یونیورسٹی کا چکی تھی مجھے دیکھ کر جویریہ ہنس دی اور بولی جناب اوراں دی بیگم جاگی کہ نہیں میں ہنس دیا عارفہ بولی جویریہ نا تنگ کر پیو نوں اس دے قابو آیوں تے نصرت نالو وی بھیڑا حال کرسی جویریہ ہنس دی اور بولی افففف امی میں تے آپ چاہندی ہاں ابو مینوں مسل کے بھن کے رکھ دیوے نصرت ار میں بولا اچھا جی اکھو تے اج ہی بھن دیوں جویریہ بولی جی نہیں پہلے نصرت نوں نچوڑ لئو فر میری واری میں بولا اچھا جی جدو فر نصرت حاملہ ہو گئی اودوں تیرے وٹ کڈھ دیساں گیا جویریہ ہنس دی اور بولی جی نہیں باجی نصرت پتا نہیں کدو حاملہ ہوسی ایڈا انتظار نہیں ہوندا میں ہنس کر بولا اچھا جی فر کدو وہ بولی بس جدو نصرت دی بس ہو گئی میں ہنس کر بولا تینوں کنج پتا وہ بولی بس ابو راتی ویکھ لیا اے نصرت دی حال حال تے نصرت نوں ہلا کے رکھ دتا اے ابو تیرا ہتھیار ساڈے کڑاکے کڈھ دیسی گیا پر چس وی اسی اور شرارتی انداز میں مجھے دیکھ کر مسکرا کر اٹھ کر چلی گئی جویریہ سکول چلی گئی میں مسکرا کر عارفہ سے بولا دھیاں میریاں تے بڑا علم ہے اس بارے وہ بولی ہر ویلے دھیان جے اس پاسے ہوندا میں بولا نصرت نوں تے بخار ہویا پیا وہ مجھے کھانا دے کر بولی ہونا ہی ہا تیرے کھروے لن نصرت دی پھدی چھل کے رکھ دتی میں بولا بچ تے گئی عارفہ مسکرا کر بولی کجھ نہیں ہوندا تیریاں دھیاں وی کجھ گھٹ نہیں تیری ٹکر دیاں ہینڑ اور ہنس کر بولی شام تک فٹ ہوجاسی نصرت میں بولا اچھا جی میں کھانا کھا کر دکان پر چلا گیا بہزاد آوارہ سا لڑکا تھا اکثر گھر سے باہر ہی رہتا تھا اپنے دوستوں میں اس لیے رات کو نہیں آیا تھا میں دکان پر چلا گیا آج بہزاد نہیں آیا تھا کہیں دور ہی تھا اس لیے وہ سیکنڈ ٹائم آیا تو میں تب تک دکان پر رہا دکان سے واپس آیا تو مدیحہ نے دروازہ کھولا مدیحہ مجھے دیکھ کر ہسن دی اور بولی اؤ جی جناب آج لیٹ آئے ہو میں بولا جناب تھواڈا بھرا صاحب ہی ہنڑ آیا میں بولا کیوں توں میرا انتظار کر رہی ہائیں وہ ہنس دی اور بولی میرا انتظار تے لمبا ہے میں بولا کیوں وہ بولی ہلے میرے تو پہلے جویریہ ہے میں بولا پہلو تیرا کم کردیواں مدیحہ بولی نہیں جی ہلے نہیں ہلے تسی مدیحہ دا کم پہلو کرو میں ہنس دیا اور بولا اچھا جی مدیحہ کو عارفہ نے اندر بلالیا میں واشروم گیا اور واپس آیا کیچن میں تو جویریہ کھڑی تھی مجھے دیکھ کر جویریہ ہنس دی جویریہ اسی کسے ہوئے لباس میں تھی جس میں اس کا انگ انگ نظر آرہا تھا میں آگے بڑھا اور جویریہ کو پیچھے سے جپھی میں بھر کر اپنے سینے سے لگا کر کر دبوچ لیا جس سے جویریہ سسک کر کراہ گئی اور اور بولی اففف ابو سمجھ تے صبر کر لئو میں۔ جویریہ کی گال کو چوستا ہوا اسکے ممے دبا کر مسلنے لگا جس سے جویریہ کراہ کر مچل سی گئی اور میرے ہونٹ دبا کر چومنے لگی میں بھی جویریہ کو چومتا ہوا جویریہ کے ممے دبا کر لن جویریہ کے چڈوں میں دبا کر مسلتا ہوا سسکنے لگا جویریہ بھی میرا ساتھ دیتی میرے لن کو چڈوں میں دبا کر کس کر مسلتی ہوئی سسکتی آہیں بھرتی کراہنے لگی دو سے تین منٹ میں ہی میں اور جویریہ ایک دوسرے کے ساتھ فارغ ہوگئے میں جوریہ کو دبوچ کر چوس رہا تھا اور فارغ ہورہا تھا کہ اسی دوران نصرت چلتی ہوئی کیچن میں آئی اور مجھے جویریہ سے پیچھے سے چمٹا دیکھ کر جویریہ کو چومتا ہوا کانپتا فارغ ہوتا دیکھ رہا تھا ہمارے مزے کی آہوں سے کیچن گونج رہی تھی نصرت پاس آئی اور ہنس دی اور بولی واہ سالی ادھے گھر آلی دی ہوونڑ دا حق ادا کر رہی میں نے اسے دیکھا تو نصرت کا اترا چہرہ بتا رہا تھا رات والی چدائی کی کہانی میں سسک کر نصرت کی بہن جویریہ کے ہونٹوں کو چوستا ہوا اس کے چڈوں میں فارغ ہورہا تھا میں اسے سن کر اگنور کیا اور فارغ ہوتا ہوا کراہ رہا تھا جویریہ بھی کانپتی ہوئی میرے ساتھ کراہ کر فارغ ہورہی تھی میں فارغ ہوکر مڑا تو نصرت چلتی ہوئی کمر پر ہاتھ رکھ کر جا رہی تھی میں جویریہ کے ساتھ لگ کر سنبھل کر جویریہ کو چوم کر ہٹا اور واشروم جا کر کمرے میں گیا تو نصرت کمر پر ہاتھ رکھے ہوئی بیٹھی تھی نصرت کا چہرہ اترا تھا آنکھیں باہر کو نکلی تھیں میں پاس گیا نصرت کے تن کر کھڑے ممے ہوا میں کھڑے تھے میں پاس گیا اور نصرت کے پاس بیٹھ کر بولا میری جان دا کی حال اے نصرت سسک کر بولی اففف ابو ہنڑ تے آرام اے پر تیرے لن نچوڑ کے رکھ دتا ہے کمر ہی نہیں ہل رہی کنڈ بھن کے رکھ دتی توں میں ہنس کر بولا سوری میری جان نصرت بولی ابو کوئی گل نہیں شام تک آرام اجاسی میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چومنے لگا اور پھر نہا کر کھانا کھا کر چلاگیا شام کو آیا تو نصرت اب کچھ سنبھل چکی تھی کھانا کھایا تو آج بہزاد بھی گھر تھا اس لیے کچھ خاص نا کر سکا اور کھانا کھا کر سو گیا صبح مجھے جاگ ہوئی تو نصرت مجھے جگا رہی تھی میں جاگا تو نصرت مسکرا رہی تھی جس سے میں نصرت کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا نصرت میرے اوپر گر سی گئی اور بولی اففف ابو نا کرو میں بولا میری جان کیوں نا کروں میری بیگم ہیں ہنڑ تے اور نصرت کو اپنے اوپر کھینچ کر چومنے لگا نصرت بولی ابو بیگم تے ہاں پر ہمت نہیں پئے رہی میں بولا کیوں نصرت ہلے فٹ نہیں ہوئی نصرت بولی نہیں جی فٹ تے ہو گئی آں میں بولا وت نصرت بولی بس ایویں اور کھلکھلا کر ہنس دی میں بولا مینوں تنگ کر رہی ایں وہ بولی نہیں جی میں کیوں کراں تنگی اور میرے اوپر جھک کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر مجھے چومنے لگی میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چومنے لگا نصرت بولی ابو ٹھیک ہے پر صرف ہک وار کرنا ہے میں میں بولا نصرت کیوں نصرت بولی ابو تیرا لن برداشت نہیں ہوندا میرے کولو میں ہنس دیا اور بولا اچھا جی میری جان جیویں توں آکھ اور اٹھ کر نصرت کو بیڈ پر کھینچ لیا نصرت بیڈ پر چڑھ کر اپنا قمیض اتار دیا میں نصرت کو باہوں میں بھر کر چومنے لگا اور اپنا ناک کھول کر لن کھینچ لیا میرا کہنی جتنا لمبا موٹا لن نصرت دیکھ کر بولی اففف ظالم میری پھدی دا ویری اور لن کو مسلتی ہوئی جھکی اور جھک کر میرے لن کو منہ میں بھر کر چوم کر میرے لن کا ٹوپہ چوس کر سسک گئی میں نصرت کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے سسک گئی نصرت کراہ کر میرے لن کے چوپے مارتی سیدھی ہوئی اور اور پیچھے لیٹ گئی میں نے نصرت کی شلوار کھینچ کر اتار دی اور اپنی شلوار بھی اتار دی نصرت نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر کھول لیں میں نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر نصرت کے سینے سے لگا دیں جس سے میری بیٹی نصرت کے چڈے کھل گئے اور میری بیٹی نصرت کی پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی میرے لن کی پہلی چدائی کی رگڑ کی وجہ سے میری بیٹی کی پھدی کے ہونٹ کھل کر گلابی سے ہلکے براؤن ہو رہے تھے میں نے نے نیچے ہوکر اپنی بیٹی کی پھدی چوم لی جس سے نصرت سسک کر کراہ گئی میں اوپر ہوا اور نصرت کی پھدی سے لن ٹکا کر ہلکا سا دھکا مار کر لن کا ٹوپہ نصرت کی پھدی میں اتار دیا جس سے نصرت کراہ کر تڑپ سی گئی میں نصرت کے اوپر جھکا اور ٹانگیں کاندھوں کے ساتھ لگا کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی کے پار کردیا میرا لن میری بیٹی نصرت کی پھدی چیرتا ہوا نصرت کی بچہ دانی میں اتر گیا۔ جس سے نصرت تڑپ کر بک کر حال حال کرتی بولی اوئے ہالنی امممماااں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری جان۔۔ میں نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے اوپر ہوا اور اپنی گانڈ کھینچ کر اپنا لن ٹوپے تک کھینچ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا ہوا اپنی کہنی جتنا لن یک لخت جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا تیزی سے اپنی بیٹی کو چودنے لگا جس سے میرا لن تیزی سے اندر باہر ہوکر میری بیٹی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑتا ہوا مسل کر تیزی سے نصرت کی بچہ دانی کے پار گزر کر نصرت کے ہاں میں اتر کر میری بیٹی نصرت کو بے حال کرنے لگا نصرت میرے لن کے دھکوں کی رگڑ سے بے اختیار تڑپ کر اپنا سینہ ہوا میں اٹھا کر اپنی کمر ہلا کر چیختی ہوئی بکا کر حال حال کرتی تڑپنے لگی میں پوری شدت سے لن کھینچ کھینچ کرپوری طاقت سے دھکے مارتا اپنی بیٹی نصرت کو چودتا ہوا کراہنے لگا نصرت کی پھڈی کے ہونٹ میرے لن کو مسل کر میری جان نکال رہے تھے میں پیچھے ہٹ ہٹ کر پوری طاقت سے گانڈ اٹھا اٹھا کر لن پوری شدت سے نصرت کی پھدی میں مارتا پوری سپیڈ سے نصرت کو چودتا کراہ رہا تھا میرے لن کے ہر دھکے پر نصرت تڑپ کر بکا جاتی اور نیچے بیڈ میں دھنس کر دوہری ہو جاتی میرے لن کی کھردری چمڑی نصرت کی پھدی کے ہونٹ سختی ے رگڑ کر مسل رہی تھی تیزی سے اندر باہر ہوتا میرا کہنی جتنا لن نصرت کی پھدی کو اندر تک رگڑ کر مسل کر چیر رہا تھا جس سے نصرت نصرت تڑپ کر بے اختیار منہ کھول کر پوری شدت سے ارڑاٹ مار کر بکا کر حال حال کرتی دھاڑنے لگی نصرت بے اختیار تڑپتی ہوئی دھاڑتی ہوئی کرلا رہی تھی نصرت کی حال حال سے کمرہ گونج رہا تھا میں تڑپ کر کراہ رہا تھا نصرت کی پھڈی کے ہونٹ میرے لن نے مسل کر نصرت کی پھدی کو چیر کر رکھ دیا تھا نصرت کی پھڈی کی آگ نے مجھے دو منٹ میں نڈھال کردیا اور میں تڑپتا ہوا کراہ کر لن جڑ تک پھدی میں اتار کر ایک لمبی منی کی دھار اپنی بیٹی نصرت کی بچہ دانی میں مار کر اپنی بیٹی کی بچہ دانی بھرنے لگا جس کے ساتھ نصرت بھی تڑتپی ہوئی میرے ساتھ فارغ ہوکر کرلانے لگی میں نڈھال ہوکر نصرت کے اوپر گر کر کراہنے لگی نصرت کی پھدی کی آگ کے سامنے میرے لن کی بس بس ہوگئی نصرت کی پھدی میرا لن نچوڑ کر بچہ دانی میں سم گئی میں تڑپتا ہوا نصرت کو چومنے لگا نصرت آہیں بھرتی تھر تھر کانپتی ہوئی کرلا رہی تھی نصرت کی کاندھوں سے لگی ٹانگیں بھی پھڑک رہی تھیں میں اوپر ہوا تو نصرت مجھے دیکھ کر تڑپتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے ابووووووو تیری دھی مر گئی ابوووووو تیرا لن میری جان کڈھ لیندا اے میں نصرت کی کمر مسلتا ہوا نصرت کو چومنے لگا نصرت کراہ کر میرا ساتھ دینتی آہیں بھرتی ہوئی کانپنے لگی میرا لن نصرت کی جان نکال دیتا تھا نصرت کے اندر جتنی بھی آگ تھی پر میرا لن نصرت کو مسل کر نصرت کے کڑاکے نکال دیتا تھا جس سے نصرت مر سی جاتی تھی میں پانچ منٹ تک نصرت ہے اوپر پڑا نصرت کو چومتا ہوا مسلتا رہا نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی کانپتی آواز میں بولی افففف ابوووو میں تے مر گئی ہاں۔ ابو تیرا لن تے مینوں نچوڑ لیندا اے مر گئی آں میں ابو ہنڑ بس کر میں تھک گئی آں میں اوپر ہوا اور بولا میری دھی اے تے گل کوئی نہیں ہک پھیرے اب ہی توں تھک گئی نصرت کراہ کر بولی ااففف ابووو میں تے موئی پئی آں ابوووو تینوں نہیں پتا تیرا لن کیڈا ظالم ہے میرے سینے تک ودھ کے رکھ دیندا ابو ہنڑ گنجائش نہیں ہور کینٹ دی میں بولا نصرت توں تے اکا کوئی نہوں میں تے سمجھیا ہا کہ توں میری آگ بجھیسی پر توں تے ہمت ہی ہار گئی ہیں نصرت بولی ابو تیرے لن دی آگ میری آگ بجھا دتی اے ہنڑ بس ہوئی پئی میں بولا میری جان ہک وار تے ہور کرن دے نصرت تڑپ کر بولی افففف ابوووو تینوں کنج دساں میرے کولو ہور لن نہیں لیا جاندا تیرا افففف اممااااااااں میری پھدی پاٹ گئی اے ابوو۔ ہنڑ بس کر دے تینوں واسطہ ہے بس کر دے میں بولا میری جان ہنڑ تے میرے ہیٹھ پئی این ہنڑ تھے میں تینوں نہیں چھڈدا نصرت کراہ کر بولی اففففف ابووو نہیں ناں میں مر جاساں گئی ابو تینوں نہیں پتا تیرا لن کیڈی بلا اے میں مر گئی میں نصرت کو چوم کر بولا میری جان آخری واری نصرت تڑپ کر اپنے ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر پیچھے دبا کر مجھے اپنے اوپر سے اتارنے کی کوشش کرتی ہوئی تڑپتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے ابووو نا کر نا ابووووو تینوں واسطہ ہظی ساتھ ہی نصرت نے اپنی ٹانگیں کا زور لگا کر مجھے یچھے دھکیلنا چاہا پر میں نصرت کے اوپر گر کر نصرت کو قابو کرلیا نصرت کی ٹانگیں کانپتی ہوئی زور لگا کر مجھے پیچھے کو دھکیل رہی تھی ساتھ میں نصرت ہاتھوں سے میرا سینے بھی دبا رہی تھی نصرت سچی ہی تھی میرا بازو جتنا لن آج تک کوئی آدھا بھی مشکل سے لے پاتی تھی پر میری بیٹی نصرت تو پورا لن لے کر مجھے نڈھال کر دیتی تھی نصرت کی ہمت تھی جو میرا لن ہورہے جاتی تھی لیکن میرے ٹھوس کھردرے پن کی رگڑ نصرت کو قند تک مسل دیتی تھی جس سے میرا لن نصرت کی برداشت سے باہر ہوجاتا تھا بھلے نصرت کے اندر آگ کے بھانبڑ لگے تھے پر میرے لن کی ایک رگڑا نصرت کی آگ کو ٹھنڈا کردیتی تھی میرے اندر کی طاقت میری بیٹی نصرت کو مسل کر نصرت کی ہمت نچوڑ لیتی تھی یہی وجہ تھی نصرت دوسری بار لن نہیں لے پاتی تھی وہ مجھے دھکیل کر میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کررہی تھی میرا لن میری بیٹی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا تھا جس کو میری بیٹی کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا نصرت کی پھڈی کی آگ سے میں بھی نڈھال تھا میرا لن ایک بار اور فارغ ہونے کو تیار تھا میں نے نصرت کی کانپتی ٹانگیں پیروں کے پاس سے پکڑیں اور دبا کر نصرت کے سر کے قریب لا کر اپنا ہاتھوں کا سارا زور نصرت کی ٹانگوں پر دبا کر نصرت کے اوپر اک جھک گیا جس سے نصرت کی چڈے فل کھل گئے اور نصرت کی پھدی مزہ کھل کر سامنے آگئی جس سے نصرت تڑپ کر چیخ کر بولی اوئے ہالیوئے ابووووووو اور اپنا سر ادھر ادھر مارتی ہوئی میرے سینے پر ہتھ رکھ کر دبا کر بولی اڑا کر بولی نہیییییییںںںںںںںںں ابووووووووو نہیییییییںںںںںںںںں ابووووووووووووو میں مر گئی ابووووووووووووو اوووئئئئئئئئئئئے ہاااااالییییووووووئئئئئئے اماںںںںںںںںں۔۔میں نصرت کے تڑپنے سے بے قابو ہونے لگا نصرت کی حالت مجھے جنونی بنا رہی تھی میں نے ٹانگیں دبا کر گانڈ کھینچی اور اپنا کہنی جتنا لمبا موٹا لن ٹوپے تک کھینچ کر نکل کر پوری طاقت سے دھکا مار کر لن یک لخت جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی میں اتارتا پوری شدت سے اپنی بیٹی کو چودنے لگا میرے کھردرے پن کی رگڑ تیزی سے نصرت کی پھدی کے اندر باہر ہوتی نصرت کی پھدی کو چیر کر کاٹنے لگی جس سے نصرت منہ کھول کر چیخ کر دھاڑی اور دھاڑتی ہوئی نصرت ایک لمحے کےلئے چپ سی ہوکر پھڑکنے لگی میں رکے بغیر گانڈ کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی سر ادھر ادھر مارتی ہوئی ارڑا کر حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے امماااااااااااں اوئے ہالیوئے امماااااااااااں میں مر گئی اممممااااااں ۔۔۔ اممممااااااں کرتی ہوئی اونچا اونچا شور مچاتی عارفہ کو پکارتی بولی اوئے ہالیوئے اماں کدے گئی ہیں اوئئئئے ہہہاااااللییووووئئئئے اممممااااااں میں مرررررر گئییی امااااااااااااں مینوں چھڑڑڑڑڑوووااااا اممممااااااں ابووووووووو مہررری جاااااان کڈڈڈڈھ گیا اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی میں رکے بغیر پوری طاقت سے نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا کس کس کر دھکے مارتا انصرف کو چود رہا تھا جس ے میرے لن کی رگڑ نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر پھدی کو چیر رہی تھی میرے لن کی مسلسل رگڑ نے نصرت کی پھدی کے اندر کا ماس رگڑ کر کاٹ دیا تھا جس سے لن اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کا ماس باہر کھینچ لاتا اور اندر جاتے وقت اندر لے جاتے نصرت تڑپ تڑپ کر حال حال کرتی پوری شدت سے دھاڑتی ہوئی عارفہ کو پکارتی رہی تھی عارفہ باہر سن رہی تھی لیکن اسے پتا تھاکہ میں اپنی آگ نکال کر پی اپنی بیٹی کو چھوڑوں گا جویریہ اور مدیحہ بھی سن رہی تھیں میں بھی جلد ہی نصرت کی پھدی کی آگ کے سامنے ہمت ہار گیا اور لن جڑ تک پھدی میں اتار کر کراہتا ہوا تڑپ کر نصرت کی پھڈی میں فارغ ہوگیا جس سے نصرت بکا کر تڑپتی ہوئی ہینگتی میرے ساتھ فارغ ہوگئی میں بھی تڑپ کر کرلا گیا اور آہیں بھرتا فارغ ہوتا نصرت کےا وپر گر گیا نصرت مسلسل پھڑکتی ہوئی حال حال کرتی میرا لن نچوڑ کر مجھے نڈھال کر گئی اتنے میں پیچھے سے عارفہ اندر آئی اور مجھے نصرت کو مسلتا دیکھ کر بولی وے کمینہ ذرا وی ترس نہوں کھاندا دھی تے اودوں تے ویکھ مار دتا ہئی نصرت نوں تے نصرت تڑپتی ہوئی کراہتی رونے لگی تھی میں ہانپتا ہوا نصرت کو چوم رہا تھا عارفہ نے میرے کندھوں کو پکڑ کر پیچھے کھینچا اور بولی ہنڑ بس کر اودوں تے ویکھ ماروں ہیں نصرت نوں نصرت بیڈ میں دھنس کر مچھلی کی طرح پھڑکتی ہوئی کرلا رہی تھی نصرت کی درد بھری کرلاٹوں سے کمرہ گونج رہا تھا میں ہانتا ہوا اوپر ہوا تو نصرت پھڑکتی ہوئی ہینگنے لگی عارفہ بولی لن کڈھ کئے نصرت نوں سنبھلنڑ وی دے ہنڑ توں تے کسے دن چھویر مار گھتنی میں ہانپتا ہوا پیچھے ہوا اور لن کھینچ کر نکال لیا میرا کہنی جتنا لن جب سے میری بیٹی نصرت کی پھدی میں جانے لگا تھا مزید تگڑا ہوگیا تھا عارفہ لن کو دیکھ کر بولی اودو تے ویکھ ظالم دھی دی جان کڈھ کے وت وی سر چا کے کھلا ہے میرا لن نصرت کی پھدی کے پانی سے بھرا تھا لن نے میری بیٹی کی پھدی کا کچومر نکال دیا تھا پھدی کا ماس رگڑ کر نکال لیا تھا نصرت کی پھدی کافی کھل کر اندر تک نظر آرہی تھی جس سے نصرت کی پھدی کا گلابی ماس نظر آ رہا تھا نصرت کی پھدی پچ پچ کرتی کھلتی بند ہوتی نظر آرہی تھی میں کراہتا ہوا اوپر ہوکر بیڈ پر لیٹ کر ہانپنے لگا نصرت کی آگ مجھے بھی نچوڑ لیتی تھی میں بھی تھک سا جاتا تھا نصرت جو چود کر۔ نصرت پھڑکتی ہوئی بکانے لگی عارفہ نصرت کی ٹانگیں کے بیچ آکر نصرت کی کمر مسلتی ہوئی نصرت کا سینہ دبا کر نصرت کو سنبھالنے لگی نصرت پھڑکتی ہوئی بکا رہی تھی میں کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر اٹھا اور ننگا ہی واشروم کےلیے نکلا تو سامنے کیچن سے میری بیٹی جویریہ اور مدیحہ تیار ہوکر نکل رہی تھیں دونوں فل تیار تھیں اور خود کو چادر میں لپیٹ رکھا تھا مجھے ننگا دیکھ کر دونوں رک گئیں میرا نیم کھڑے لن کو دونوں غور کر دیکھنے لگیں میرا لن ان کی بہن نصرت کی پھدی کے پانی سے بھرا تھا اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنا لن دیکھتا دیکھ کر میں رک گیا اور اپنا لن ان کے سامنے اپنا لن ہاتھ میں بھر کر مسلنے لگا جسے وہ دیکھ کر مسکرا کر مجھے مدہوش آنکھوں سے دیکھ کر مسکرا دیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیں مدیحہ نے ہاتھ کے اشارے سے زبردست کہا اور بیگ اٹھا کر جانے لگی جبکہ جویریہ نے فلائنگ جس میری طرف پھینکی اور چلی گئی میں واشروم اسے نہا کر نکلا اور کمرے میں ایک تو نصرت گھٹنے سینے سے لگا کر پڑی ہانپ رہی تھی عارفہ بولی ہنڑ سنبھل گئی ہے کجھ نا اکھیں میں ہنس دیا اور باہر نکل کر کیچن میں آگیا عارفہ بولی ویسے جیدی نصرت اب آگ ہوا نا اتنا ہی تیرے لن نصرت نوں نچوڑ لیا اے میں بولا برداشت نہیں کرپاندی عارفہ بولی تیرا لن تے اس نوں مسل رہیا اے پر تینوں نہیں پتا جتنا مسلسی آگ ودھنی ہی اے کجھ دناں تک نصرت دی آگ آپے پن منگسی فکر نا کر میں ہنس دیا اور کھانا کھا کر دکان پر گیا ویسے جب سے نصرت کو چودنے لگا تھا میرے اندر بھی ایک تروتازگی سی آگئی تھی میرا بھی اب دل کرتا کہ نصرت کو ہی چودتا رہوں میں دکان پ ر مصروف۔ رہا دو بجے کے قریب گھر گیا میں نے دروازہ کھٹکایا تو جویریہ نے دروازہ کھولا جویریہ دوپٹے کے بغیر تھی جس سے اس کے تنے ہوئے تھن نظر آرہے تھے میں جویریہ کو دیکھ کر مسکرا دیا اور اندر آکر دروازہ بند کر دیا جویریہ گھومی اور اپنی موٹی گانڈ۔ ہلاتی آگے کو جانے لگی جویریہ کی لمبی گت گانڈ پر پڑی گانڈ کے مٹکنے ںسے ہل رہی تھی میں جویریہ کی گت کو دیکھا اور بے اختیار ہاتھ جویریہ کی گت کو ڈال کر اپنی طرف کھینچ لیا جس سے جویریہ آگے کو چلتی جھٹکا لگنے سے بے اختیار پیچھے کو میرے سینے سے آلگی جھٹکا لگنے سے جویریہ کی گت کھینچ گئی جس سے جویریہ تڑپ کر میرے سینے آلگی اور اپنی گت پکڑ کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی ابووو گت ہی پٹ کے رکھ دتی ہئی افففف اور میرے سینے سے لگے ہوئے ہی اپنا منہ پیچھے کیا اور میرے ہونٹ منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی مٹی اور مجھے اپنی باہوں میں بھر کر میرے سینے سے اپنے تنے ممے لگا کر دبا کر مجھے چوسنے لگی اپنی سگی بیٹی کو باہوں میں بھر کر میں بھی چوسنے لگا میرا لن تن کر سر اٹھاتا جویریہ کی پھدی کو ٹچ ہونے لگا میں جویریہ کی کمر دبا کر مسلتا ہوا جویریہ کو دیکھا چومنے لگا جویریہ ہانپتی ہوئی میرے ہونٹ چوستی ہوئی میری زبان ن کھینچ کر چوسنے لگی ہم دنوں باپ بیٹی اپنی مستی میں گم صحن میں ہی کھڑے پیار کر رہے تھے کہ اتنے میں گیٹ کھڑکا تو ہم الگ ہوگئے مدیحہ۔ ہمیں دیکھ کر ہنس دی۔ میں جلدی سے واشروم چلا گیا واشروم سے نکلا تو مجھے نصرت نظر آئی نصرت اب سنبھل چکی تھی لیکن اس کا چہرہ اترا ہوا لگ رہا تھا میں نصرت کے اترے چہرے کو دیکھ کر بولا لگدا میری جان میرا لن برداشت نہیں کر رہی نصرت مسکرا دی اور بولی کوئی گل نہیں ابو تھوڑے دن ہینڑ جدو میں برداشت کرنے لگ پئی تساں تھک جانا میں بولا اچھا جی چیلنج دے رہی ہیں نصرت ہنس دیا ور بولی انج ہی سمجھو میں نصرت کو پکڑ کر چوم لیا نصرت بولی فل حال ابو جی کھانا کھا لئو میں بولا کھانا کھا کے ہک پھیرا ہو نا جائے نصرت بولی نا ابو ہک واری ہمت نہیں پئے رہی آگے آلی ہی چدائی میری پھدی دا کم کر دتا ہنڑ لن نہیں کیا جانا میں بولا بس آگے آپ چیلنج کر رہی ہائیں نصرت بولی چیلنج تے ہے ہر ابو جدو تیرا لن میری پھدی برداشت کرنے لگ پئی اودوں پچھسا گئی ہنڑ ہک واری برداشت نہیں ناں ہوندا نوں نوں ہن اے میں ہنس دیا ور بولا نصرت تیری پھدی مارن دا سواد وی تے ہنڑ ہی آندا اے نصرت بولی ہر ابو میری جان کے کڈھ لیندا اے تیرا لن میں بولا کجھ نہیں ہوندا نصرت بولی نہیں ابو آج دس دن صبر کر جاؤ آگے آلی چدائی دی وجہ توں پھدی نوں جلن ہو رہی ہے کجھ جلن کم ہو لوے میں بولا وت کدو نصرت بولی ابو ہنڑ کل کر لویں میں بولا نصرت صبر نہیں ہونا نصرت بولی ابو تھوانوں آکھیا تے ہا کہ تسی ہور وی کوئی بنا لئو میں ہلکی تے تھواڈی آگ بجھانفی مر جاساں گئی میں ہسن دیا اور بولا کجھ نہیں ہوندا تیری بھین جویریہ وی آکھدی پہلے نصرت نوں حاملہ کر توں میں لن کی ڑا تیرا وہ بولا تے باہر کر کئے میں بولی اپنے گھر اچ ایڈی جوان جہان دھی ہوووے تے باہر کیوں منہ مارا اپنی دھی دی آگ بجھیساں نصرت ہنس دیا ور بولی آج تے میں تھواڈے قابو نہیں انسان ور جلدی سے واشروم چکی گئی میں اسے دیکھتا رہ گیا میں کیچن میں آیا تو عارفہ نے کھانا دیا میں کھانا کھانے لگا نصرت آئی تو مجھے دیکھ کر ہنس دی میں دیکھ رہا تھا نصرت کمر پر ہاتھ رکھے کام کر رہی تھی میں سمجھ گیا کہ میری بیٹی کو میرے لن نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے جس سے وہ کمر پکڑ کر پھر رہی ہے میں نے کھانا کھایا اور چائے پی مجھے بھی نصرت کی طلب ہو رہی تھی لیکن نصرت تو نہ کر چکی تھی میں اندر کمرے میں گیا تو سامنے نصرت جھک کر کھڑی بیڈ پر کپڑے شاید رکھ رہی تھی میں نے موقع پا کر اپنا قمیض چپکے سے باہر اتارا اور پیچھے سے جا کر نصرت کو باہو میں بھر کر اپنے سینے سے لگا لیا نصرت اوپر ہوکر میرے سینے سے آلگی اور بولی افففففف ابو تسی تے رجدے ہی نہیں میں ہنس دیا اور بولا میری دھی تیری آگ تو کون رجدا توں سواد ہی ایڈا دیندی نصرت بولی ابو پر ہنڑ گنجائش نہیں ہے میں بولا میری دھی گنجائش بنا نا نصرت بولی ابو تیرا لن ہی بڑی ظالم ہے ہک واری تے چیر دیندا اے میں نصرت کی گال کو چوس کر بولا نصرت وت آتے آتے ہی پانی کڈھن دے اندر نہیں کردا نصرت سسک کر بولی اچھا جی کڈھ لئو میں نے نصرت کے قمیض کو ہاتھ ڈالا اور کھینچ لیا نصرت اپنا قمیض پکڑ کر بولی ابو نا کرو تسی تے آکھیا پانی آتے ہی کڈھنا میں بولا نصرت پر ننگی تے ہوجا نصرت سسک کر قمیض اتار دیا میں نصرت کے تن کر کھڑے موٹے مموں کو مسلتا ہوا چوسنے لگا میرا لن تن کر کھڑا تھا میں نے اپنا لن بھی ننگا کر دیا اور نصرت کے چڈوں میں دبا کر مسلتا ہوا نصرت کی ممے ہاتھوں میں دبا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوستا ہوا سسک رہا تھا نصرت بھی کراہ کر مچلتی ہوئی میرا لن اپنی چڈوں میں دبا کر سسکتی ہوئی کراہ رہی تھی میں نصرت کو چوم کر بولا نصرت شلوار وی لاہ مزہ نہیں آرہیا نصرت بولی اففف ابو تسی وی نا میں ہنس دیا نصرت نے اپنی شلوار نیچے کرتی ہوئی جھکی میں نے اپنا کہنی جتنا لن مسلا نصرت جھکی ہی شلوار اتار رہی تھی میں نے لن نصرت کی پھدی پر رکھا تو نصرت چونک کر اوپر ہو کر میری طرف منہ کر بولی افففف ابو نہیں نا اندر نہیں کرنا آگے پھدی بجلی پئی ہے میں ہنس کر بولا میری دھی پھدی اچ ہمت نہیں تے چت مروا لئے نصرت سسک کر بولی ابو آج نہیں نا کل جو مرضی کر لویں میں ہنس دیا اور نصرت کو پکڑ کر چومتا ہوا نصرت کے ممے دبا کر مسلنے لگا نصرت بھی آہیں بھرتی سسکنے لگی میں نصرت کو سیدھا کیا اور نصرت کو بیڈ پر دھکا دے دیا جس سے نصرت منہ بھار بیڈ پر گری تو میں نصرت کے اوپر چڑھ کر نصرت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نصرت کو گھوڑ بنا لیا نصرت بھی سمجھ گئی کہ ابو میرے ساتھ زبردستی کرنے لگا ہے نصرت نے آگے کو زور لگا کر میرے ہاتھ سے نکلنے لگی جسے نصرت ایک بار تو میرے ہاتھ سے نکل گئی نصرت آگے کو بیڈ سے اترنے لگی جس سے میں نے ہاتھ آگے کیاا ور نصرت کی لمبی گت کو پکڑ کر کھینچ لیا جس سے نصرت کراہ کر بولی اوئے ہالیوئے اماں سسسسسسہیییی ابوووو چھوڑڑڑ میں نہیں ابووووو کی بسسسسس کرو میں نصرت کی گت پکڑ اوپر ہوا اور نصرت کی کمر سے پکڑ کر نصرت کو بیڈ سے نیچے لے آیا اور کنارے پر کھڑا ہوگیا نصرت خود کو مجھ سے چھڑوانے کی بھرپور کوشش کرتی ہوئی کراہ کر بولے جا رہی تھی نہیں نا ابوووو میں مرجاواں گئی ابو نا کر نا ابوووووو چھوڑ مینوں پر مجھے تو آگ چڑھی تھی میں نے نصرت کے پیٹ کے گرد ہاتھ ڈال کر دبوچ کر پکڑا ہوا تھا میں نے دوسرے ہاتھ سے لن نصرت کی پھدی پر رکھ کر نصرت کے پیٹ کو اپنی طرف اور اپنی طرف سے ہلکا سا دھکا مارا جس سے میرا لن ٹوپے سے آگے تک میری بیٹی نصرت کی پھدی میں اتر گیا جس سے نصرت کی کراہ نکلی اور نصرت آگے بیڈ کو پکڑ کر آگے کو زور لگا کر خود کو چھڑواتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی ابوووو چھڈ دے مینوں اممممااااااں میں نے نصرت کی گت کو پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر ولیٹ کر نصرت کی گت اپنی طرف کھینچ کر اپنی گانڈ کھینچ کر کس کر دکھا مارتے ہوئے اپنا کہنی جتنا لن پورا جڑ تک نصرت کی پھدی اتارتے ہوئے نصرت کی گت دبا کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا جس سے نصرت پیچھے کی طرف دوہری ہوکر کر چیختی ہوئی بکاٹ مارتی ہوئی تڑپ گئی گت کھینچنے سے نصرت کا سر میرے سینے سے آلگا نصرت کی کمر درمیان سے دوہری ہو کر آگے کی طرف نکل گئی جبکہ نصرت کا سر گت کھینچنے سے پیچھے میرے سینے سے لگ گیا نصرت کا کی گت میرے زور سے اکھڑنے لگی نصرت کی لخت تڑپتی ہوئی منہ کھول کر بکا کر حال حال کرتی اپنے ہاتھ اٹھا کر اپنی گت پر رکھ کر اپنی گت کوں چھڑواںے انداز میں آگے کو زور لگا کر حال حال کرتی دھاڑتی ہوئی بولی اوووئئئئئے ہہہہہہہہااااااللللیییییوووووئئئئئے ابببببووووووووووو میں مرررررر گئئئئئئئئئئئئی ااااببببووووووووو میں مررر گئی نصرت پیچھے کو دوہری ہوکر اپنی گت پکڑ کر دھاڑتی ہوئی ارڑا ارڑا کر حال حال کرتی ہوئی پھڑکنے لگی تھی نصرت کے دوہرے ہونے سے نصرت کی کمر ٹوٹ رہی تھی جبکہ نصرت کا کوکا ناک میں اچھل کر مجھے نڈھال کر رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے آگے ہوکر نصرت کے ناک کے کوکے کو منہ میں بھر کر دبا کر چوستے ہوئے نصرت کی گت کھینچ کر گانڈ کھینچ کھینچ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا اپنی بیٹی کی گت کھینچ کر دوہرا کر پوری شدت نصرت کو چودنے لگا میرا لن تیزی سے میری بیٹی نصرت کی پھدی کو چیر کر اندر باہر ہوتا نصرت کی جان نکالنے لگا نصرت دھاڑیں مار کر پھڑکتی ہوئی بکا کر حال حال کرتی اپنی ماں کو پکار رہی تھی میں نصرت کو اس انداز میں چودتا ہوا مزے سے نڈھال ہورہا۔ تھا کیوں نصرت کی گت کھینچ کر نصرت کو دوہرا کرکے نصر تکو تکلیف میں دیکھ کر ایک سرور سا میرے اندر اتر چکا تھا نصرت کے دوہرے ہونے سے نصرت کی پھدی بھی میرے لن پر دب سی گئی تھی جس سے میں تڑپ کر کراہیں بھرتا نصرت کی گت کھینچ کر نصرت کو پوری شدت سے چودتا ہوا نڈھال کر رہا تھا نصرت بکاتی ہوئی حال حال کر تی مچھلی کی طرح پھڑکنے لگی تھی میں نے بے اختیار نصرت کیلے کوکے کو چوستا ہوا کوکا کھینچ لیا جس سے میرے اندر ایک جنونی کیفیت سی اتر گئی اور میں لن ٹوپے تک نکال کر پوری طاقت سے جرکیں مار کر لن اپنی بیٹی کی پھدی کے آر پار کرنے لگا میری ہر جرک پر میری بیٹی نصرت ہل کر رہ جاتی اور میں مزے سے تڑپ کر نڈھال ہو جاتا جس سے نصرت کی ارڑاٹ بھری بکاٹ نکل کر گونجنے لگی اسی لمحے نصرت کی ارڑاٹیں ان کر عارفہ اندر آئی اور بولی ہالنی اماں میں مرجاواں دیمی توں تے ماردیسیں چھویر نوں میں اسی لمحے ہانپتا ہوا نصرت کے اوپر گر کر نڈھال ہوگیا ور لمبی منی کی دھاریں مارتا اپنی بیٹی نصرت کی بچہ دانی بھرنے لگا جس سے نصرت بھی پھڑکتی ہوئی اوپر ہوکر ہینگتی ہوئی بکا کر ہینگتی ہوئی حال حال کرتی رونے لگی میں نصرت کی گت چھوڑ دی اور نصرت کے اوپر بیڈ پر نڈھال ہوگیا نصرت میرے نیچے پڑی پھڑکنے لگی عارفہ نصرت کو سنبھالنے لگی نصرت کی پھدی اب کچھ کھل چکی تھی اس لیے میرے لن کی رگڑ اب وہ کچھ دیر میں برداشت کر گئی اور کانپتی ہوئی تھوڑی ہی دیر میں سنبھل گئی میں نے لن کھینچ لیا اور پیچھے ہوکر لیٹ گیا عارفہ نصرت کی کمر مسل رہی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی دیمی ساڈی نصرت دی آگ تے بجھ گئی اے ہنڑ دوہاں دی واری اے میں نصرت کی گانڈ پر ہاتھ مار کر نصرت دی آگ بجھ گئی ہوسی پر میری تے نہیں بجھی عارفہ مجھے نصرت کی گانڈ مسکرا دیکھ کر سمجھ گئی اور ہنس کر بولی ہور کی کڈھنا ہئی نصرت اچو پھدی دا تے کچومر کڈھ دتا ہند تیری نصرت دی چت تے نظر اے میں یہ سن کر مسکرا دیا اور بولا توں سمجھدار ہیں نصرت ٹانگیں سینے سے لگا کر پڑی تھی عارفہ بولی دیمی ہنڑ تے نصرت اب گنجائش کوئی نہیں اس نوں کجھ نا آکھ میں بولا سوہنیے آج نصرت دی بنڈ مارن تے بڑا دل کر رہیا عارفہ ہنس دی اور بولی ہلا وت مار لئے نصرت پھدی اچ تیرا لن لئے گئی چت اچ وی لئے جاسیں نصرت پڑی ہماری باتیں سن رہی تھی نصرت کراہ کر بولی امممییی میں تے مر گئی آں امی ابو دا لن میرے تو ڈھاڈھا اے میں اے برداشت نہیں کر پا رہی امی بولی نصرت میری جان کجھ نہیں ہوندا جتنی تیرے اچ آگ ہا تینوں ایو تیرے پیو دا لن ہی قابو کرسگدا ہا تے اس تینوں قابو کر لیا اے نصرت بولی ابو دے لن تے میری پھدی نوں نتھ پا دی اے میں اٹھ کر بیٹھ چکا تھا اور اپنے کہنی جتنے لن کو مسل رہا تھا عارفہ دیکھ کر ہنس دی میرا کھڑا لن پورا وحشی لگ رہا تھا عرفہ بولی نصرت گھوڑی بن جا تیری تھوڑی جئی مالش کروں نصرت کراہ کر کمر پکڑ کر اٹھی اور میرے سامنے گھوڑی بن گئی نصرت کا سر اپنی ماں کی گود میں آگیا عارفہ نے مجھے اشارہ کیاا ور عارفہ کی گانڈ پکڑ کر ہوا میں اٹھا دی اور نصرت کا سر اپنی گھٹنوں میں پھنسا دیا میں اٹھا اور نصرت کے پیچھے آکر اپنا لن نصرت کی گانڈ پر ٹکایا تو نصرت کو جھٹکا لگا ور نصرت سمجھ گئی نصرت نے جلدی سے اپنا سر اٹھانا چاہ لیکن عارفہ نصرت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نصرت کے اوپر آکر نصرت کو دبوچ کر بولی نصرت میری دھی ٹھہر جا ہک واری کجھ نہیں ہوندا نصرت کراہ کر تڑپتی ہوئی بولی نااااا کر ااممممااااں میں مر جاساں آگے میری پھدی دا کچومر کڈھ دتا ہنڑ چت پڑواؤ ہیں عارفہ بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا برداشت کر ہنڑ آگ تے تیری بجھانڑی ہے نصرت زور لگاتی چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی پر عارفہ نے اسے قابو کیے رکھا اور نصرت کی گانڈ کی براؤں موری میرے سامنے کھول دی میں نے اپنا لن اپنی بیٹی نصرت کی گانڈ سے لگا کر زور لگا کر لن گانڈ کی موری پر دبا دیا جس سے میرے لن کا موٹا ٹوپہ نصرت کی گانڈ کھول کر اندر اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا کر بولی حالنی اممماااااں میں مرگئئئئئئیییی میں نے گانڈ پکڑی تو عارفہ نے مجھے نصرت کی گت پکڑا دی میں نے گت پکڑ کر ہاتھ پر ولیٹ کر کس کر نصرت کی گت کھینچ کر نصرت کو درمیان سے دوہرا کرتا نصرت کو اپنے سینے کی طرف کھینچتے ہوئے ساتھ ہی زور سے دھکا مار کر اپنا کہنی جتنا لن اپنی بیٹی نصرت کی گانڈ میں جڑ تک پیل دیا جو نصرت کی گانڈ چیر کر اندر تک اتر گیا جس سے نصرت گت کھینچنے سے نصرت کا سر پھر سے میرے سینے آلگا اس بار نصرت اندر سینے تک ہل کر بولی شدت سے بلبلا کر تڑپی اور ہینگتی ہوئی پورا زور لگا کر اپنا منہ کھول کر اتنی شدت سے دھاڑی کہ کمرہ ہل گیا نصرت ابے اختیار ہاتھ گت پر رکھ چلاتی ہوئی پھڑکنے لگی عارفہ نے نصرت کا منہ کھلا دیکھا اور نصرت کی پینٹی اٹھا کر نصرت کے کھلے منہ میں ٹھونس کر نصرت کی آواز بند کر دی میں نیچے ہوا اور نصرت کی گال کو منہ میں بھر کر چوستا ہوا لن کھینچ کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے اپنی بیٹی کی گانڈ میں مارتا نصرت کی گانڈ کو پھاڑنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی ہینگنے لگی نصرت کے منہ میں پینٹی ہونے سے نصرت کی دھاڑیں غغغغوووووں غغغغوووںں میں بدل کر کمرے میں گونج رہی تھیں میرے لن نے نصرت کی کنواری گانڈ چیر کر رکھ دی تھی جس سے نصرت تڑپتی ہوئی پھڑک رہی تھی میں گت کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا نصرت کی گانڈ کو چیر رہا تھا میرے لن کا کھردرا پن میری بیٹی نصرت کی گانڈ کے ہونٹ رگڑ کر مسل رہا تھا جس سے نصرت گانڈ پھٹنے لگی تھی جس سے نصرت بے اختیار تڑپی اور اپنا زور لگا کر شرینی کی طرح چنگھاڑی اور چنگھاڑتی گئی میں تڑپ کر اپنے دھکوں کی سپیڈ مزید تیز کردی اور پوری طاقت سے دھکے دھکے مارتا نصرت کی گانڈ چیرنے لگا میرے لن کی رگڑ نصرت کی گانڈ کے ہونٹ مسل کر کاٹنے لگا جس سے نصرت پھڑکتی ہوئی چیخی اور چیختی ہوئی حواس کھونے لگی نصرت کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا اور نصرت کی مزاحمت بھی کم ہونے لگی میرا لن نصرت کی پھدی رگڑ کر چیر رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی پھڑکنے لگی نصرت کے منہ میں نصرت کی پینٹی پھنسی تھا ور نصرت کا منہ کا پ رہا تھا میں نصرت کی گال چوس کر نصرت کی گال کو دانتوں میں بھر کر دبا کر چک مارتا ہوا نصرت کی گال کاٹ کر پوری شدت سے نصرت کو چودتا جا رہا تھا جس سے نصرت کی گال میں میرے دانت گڑھ سے گئے جس سے میں مزے سے تڑپ کر رکراہ رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی بے سدھ ہوکر بے ہوش ہوچکی تھی جس عارفہ نصرت کو بے ہوش دیکھ کر بولی نی اماں میں مر جاواں دینی وے لعنتیا بس کر نصرت مردی پئی ہئی اور آگے ہوکر میرے ہاتھوں سے نصرت کی گت کھینچ کر چھڑوانے لگی میں بھی انڈ پر تھا اس لیے میں نے دبا کر کس کر نصرت کی گال کو چک مار کر کاٹتا ہوا نصرت کی گانڈ میں لن پوری شدت سے پھرتا ہوا نصرت کی گانڈ کو چیر رہا تھا میرے دانت نصرت کی گال میں گڑھ چکے تھے نصرت بے ہو چکی تھی نصرت کا جسم پھڑک رہا تھا عارفہ گھبرا سی گئی اور بولی وے لعنتیا بس کر دھی نوں ماردا پیا ایں وے کمینیا میں بھی اینڈ پر آچکا تھا میں دو تین دھکے مار کر لن نصرت کی گانڈ میں اتار کر کراہتا ہوا نصرت کی گانڈ میں فارغ ہونے لگا میں مزے سے اتنا نڈھال تھا کہ عارفہ نے نصرت کی گت میرے ہاتھ سے چھڑوا کی جس سے نصرت پھڑکتی ہوئی ربڑ کی طرح سیدھی ہوکر دھڑام سے بیڈ پر گر گئی میں بھی نصرت کے اوپر گر کر ہاہنپتا ہوا کراتا نصرت کے اوپر گر فارغ ہورہا تھا عارفہ نے نصرت کے منہ سے پینٹی نکال دی میں ہانپتا ہوا فارغ ہوکر کرہا رہا تھا عارفہ نصرت کو سنبھالتی ہوئی مسلنے لگی میں نے فارغ ہوکر نصرت کی گانڈ سے لن کھینچ کیا جس ے پچ کی آواز سے لن نکلا ساتھ ہی نصرت پھڑکتی ہوئی ہینگ کر بکا گئی میں ہانپتا ہوا ایک طرف ہوا اور لیٹ گیا عارفہ نصرت کو سنبھالنے لگی میں سکتا ہوا ہانپ رہا تھا عارفہ نصرت کو سنبھالنے لگی میں اٹھا اور نہانے چلا گیا نہا کر نکلا تو سامنے جویریہ مجھے ننگا دیکھ کر ہنس دی میں جویریہ کو دیکھتا ہوا اندر گیا تو عارفہ نصرت کی کمر کو دوپنٹے سے باندھ کر نصرت کو سنبھال رہی تھی عارفہ بولا ظالما آج تے نصرت نوں چیر کے رکھ دتا ہئی میں سسک کر بولا سوری میری جان نصرت کراہ کر بولی اااہہہ ابو مار دتا ہئی مینوں پر کوئی نہیں ہنڑ برداشت تے کرنا ہے نا تینوں میں نصرت کو چوم کر نکلا اور کیچن میں آیا تو جویریہ مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی افففف ابو نصرت نوں تے مار دیندا ہیں میں ہنس کر بولا میری جان اگلی واری تیری اے تیار ہوجا جویریہ سسک کر بولی اففف ابو میں تے انتظار کر رہی ہاں کدو توں نصرت توں وہلا ہوسیں کدو میرے تے چڑسیں گیا میں بولا میری جان نصرت تے ہنڑ دو دن ہلدی نہیں جو حال آج کیتا آکھ تے تیرے تے چڑھ جاوا جویریہ نے مجھے باہوں میں بھر کو اپنے سینے سے لگا کر دبو چ لیا اور مجھے چوستی ہوئی سسک کر بولی اففف ابو میں تے مر گئی آں اس دن واسطے اور میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی مجھے اپنی باہوں میں بھر کر چوسنے لگی میں بھی جویریہ کو دبا کر چوستا ہوا جویریہ کی گال کو چوم کر چاٹ کر جویریہ کی گال منہ بھر کر چوس کر دانتوں میں دبا کر کس کر جویریہ کی گال پر چک مارفیا جس سے جوریہ چک لگنے پر تڑپ کر کرلا گئی اور بولی افففف ابوووو میں مر گئی اففف ابو گل ہی لاہ لئی ہئی افففف ابووووو۔ میں جویریہ کی گال کو چک مار کر کاٹ رہا تھا کہ مدیحہ اندر داخل ہوئی اور ہمیں ایک دوسرے کی باہوں میں دیکھ کر بولی افففف ابوووو توں تے رجدا ہی نہوں میں نے جویریہ کی گال چھوڑ کر اسے دیکھا اور ہنس دیا جویریہ سسک گئی اس کی گال پر میرے دانتوں کا نشان بن گیا مدیحہ بولی اففف ابو جویریہ دی تے گل ہی لاہ لئی ہئی میں نے جوہری کو دیکھا اور جویریہ کی گال کو چوم کر چوس لیا اور جویریہ کے ہونٹ چوس کر جویریہ کے منہ کو ہاتھا ے پکڑ کر کھولا اور ایک بڑی سی تھوک جویریہ کے منہ میں پھینک دی جویریہ جسے ہانپتی ہوئی چوس گئی میں پیچھے ہوا تو مدیحہ بڑے انہماک سے مجھے دیکھ رہی تھی میں بولا جویریہ دی گل تے پیار دی نشانی لائی اے مدیحہ بولی اچھا جی سانوں وی کوئی نشانی دے دیو میں نے مدیحہ کو پکڑا اور اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگا کر مدیحہ کو چومتا ہوا مدیحہ کے ہونٹ دبا کر چومتا ہوا باہوں میں بھر کر ایک چک مدیحہ کی گال پر بھی کس کر امرا جوس ے مدیحہ تڑپ سی گئی میں پیچھے ہوا تو مدیحہ بولی ابو اپنی تھک مینوں وی دے چا میں سنبھال کے رکھساں گئی میں ہنس دیا اور ایک بڑی سی تھوک مدیحہ کے منہ میں پھینک دی جسے مدیحہ منہ بھر کر چوس کر دبا گئی اور مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی اور پیچھے ہوکر تھوک جویریہ کے منہ کو کھول کر جویریہ کے منہ میں پھینک کر جویریہ کے ہونٹ چوستی ہوئی بولی ابو تسی جاؤ ہنڑ تھواڈی اس تھوک نال کھڈدیاں رہساں اور دونوں ہنس دیں مدیحہ نے منہ کھول کر جویریہ سے تھوک کے لی اور منہ میں بھر کر منہ میں رکھ کر کام کرنے لگیں میں نکلا اور دکان پر آ گیا اس دوران میری بیٹیاں جویریہ اور مدیحہ میری تھوک سے کھیلتی رہیں کبھی تھوک جویریہ منہ میں رکھتی کبھی مدیحہ جویریہ سے اپنی منہ میں لے کر رکھ لیتی میری بیٹیوں کی آگ انہیں اپنے باپ کی تھوک سے کھیلنے پر لگا رکھا تھا دونوں کے اندر گرمی اور آگ بھری ہوئی تھی جو انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر چکی تھی میں رات تک آج دکان پر ہی رہا کیونکہ آج بہزاد پھر غائب تھا میں رات لیٹ دکان بند کرکے گھر آیا میں گھر آیا تو دروازہ عارفہ نے کھولا مجھے دیکھ کر بولی آج لیٹ آیا میں بولا آج تیرا شہزادہ نہیں آیا وہ بولی ہلا جویریہ کیچن اچ ہے کھانا کھا لئے میں بولا اچھا جی تے نصرت دا کی حال وہ مسکرائی اور بولی ہنڑ فٹ اے اس نوں کجھ نہیں ہوندا نا فکر کر میں مسکرا کر قمیض اتار کر اسے پکڑایا کیونکہ مجھے ہاتھ منہ دھونا تھا اور میں واشروم چلا گیا میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے مدیحہ بیٹھی پشاب کر رہی تھی میں اسے دیکھ کر اور وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی میں دروازہ کھول کر رک گیا اس نے مجھے دیکھا تو مسکرا دی اسی لمحے چھررررر کی آواز میرے کانوں میں گونجی میں نے سامنے دیکھا تو میری بیٹی مدیحہ کی بند ہونٹوں والی ننگی پھدی کا دہانہ کھل کر پیشاب کی دھار چھوڑ رہا تھا میں بڑے انہماک سے مدیحہ کی پھدی سے نکلتے پیشاب کی دھار دیکھ رہا تھا مدیحہ کی گلابی پھدی کو دیکھ کر میرے لن نے انگڑائی بھری مجھے بڑے انہماک سے اپنی پھدی دیکھ کر مدیحہ مسکرا دی اور اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر اپنی پھدی کو دونوں انگلیوں کے درمیان رکھ کر اپنی پھدی پر دبا کر اپنی پھدی کا دہانہ مزید کھول دیا جس سے مدیحہ کی گلابی پھدی کا دہانہ کافی اندر تک نظر آنے لگا مدیحہ اپنی پھدی میرے سامنے کھول کر بولی لئو ابو جی نا اوکھے ہووو میں یہ دیکھ کر ہنس کر مدیحہ کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں شہوت اتری تھی جبکہ اس کا منہ لال ہونے لگا میں سمجھ گیا کہ مدیحہ کو بھی لن کی طلب بہت زیادہ ہے پر وہ جانتی تھی کہ جویریہ کی باری ہے میں مسکرا دیا اور بولا مدیحہ لگدا تیرا وی دل ہے میرے ہیٹھ اونٹ تے مدیحہ تب تک پیشاب کر چکی تھی اور اپنی پھدی کو کھولتی بند کرتی پیشاب کے قطرے پھینک رہی تھی مدیحہ اپنی پھدی پر اپنی دونوں انگلیاں دبا کر پھیرتی ہوئی سسک کر بولی اففففف ابوووو دل جتنا وی کرے پیا آگ تے اودوں ہی بجھنی جدو میری واری انی میں ہنس کر بولا وت میری جان اپنی بھین نوں آکھ میرے کولو یہاں لووے میں یہ بول کر اندر داخل ہوکر اس کے پاس چلا گیا میں نے قمیض اتارا ہوا تھا اس لیے میں صرف شلوار میں تھا مدیحہ مجھ قریب آتا دیکھ کر مدہوشی سے ہانپنے لگی تھی وہ اپنی پھدی مسلتی ہوئی اپنی انگلی اندر تک گھماتی ہوئی سسک کر کراہ کر بولی افففف ابو او تے پتا نہیں کس مٹی دی بنی ہوئی میرے کولو تے صبر ہی نہیں ہورہیا پر او تے آکھدی جدو نصرت حاملہ ہوسی اودو میں ابو کول سونا میں جھکا اور مدیحہ کے ہونٹ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیے جس سے مدیحہ سسک کر کراہ گئی اور ہانپتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوسنے لگی مدیحہ کے منہ میں تو آگ لگی تھی میں اپنی بیٹی کا رس چوس کر سسک سا گیا مدیحہ نے اپنا ایک ہاتھ میرے سر پر رکھا اور کھینچ کر دبا لیا اور میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی چتھنے لگی مدیحہ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ مرد کو چوسنے کےلیے بےقرار ہوکر مری جارہی ہے مدیحہ ٹوائلٹ کے اوپر ننگی ہی بیٹھی مجھے چوس رہی تھی میں اوپر جھکا اس کو چوس رہا تھا میں نے نیچے ہاتھ کیا اور اپنی بیٹی کی پھدی پر اپنی درمیان والی انگلی رکھ کر پھیری تو مدیحہ کو کرنٹ سا لگا اور مدیحہ کانپ کر کراہ گئی مدیحہ کی کراہ میرے اندر دب گئی اور اور وہ تیز تیز سانس بھرتی ہانپتی ہوئی کراہنے لگی جیسے مرد کا لمس پھدی پر محسوس کرکے وہ کنٹرول کھو سی گئی مجھے بھی اپنی بیٹی مدیحہ کی نرم پھدی کا لمس محسوس کرکے کرنٹ سا لگا جس سے میں کراہ گیا میں نے انگلی اپنی بیٹی کی نرم پھدی پر پھیرا ہوا مسلنے لگا جس سے مدیحہ بے قرار ہوکر تڑپی ہو مدیحہ کا جسم لرز سا گیا ساتھ ہی مدیحہ کے سینے سے غرانے کی آواز نکلی جو میرے اندر دب گئی میں بھی مزے سے مدیحہ کی پھدی کو رب کرتا اپنی انگلی اپنی بیٹی مدیحہ کی پھدی کے دہانے پر لے جا کر اندر دبا دی جسس ے میری انگلی مدیحہ کی پھدی کے اندر تک اتر گئی مجھے ایسا لگا جیسے میری انگلی آگ میں اتر گئی دوسری طرف مدیحہ میری انگلی اپنی پھدی میں اترتا محسوس کرکے تڑپ کر میرے ہونٹ کو داب چوستی ہوئی مسلسل غووووووووں غووووووووں غووووووووں غووووووں کرتی اپنی گانڈ ہلاتی میری انگلی کا اپنی پھدی میں مزہ لینے لگی میں سمجھ گیا کہ میری بیٹی کی اگ میری انگلی سے ہی بھڑک اٹھی ہے میں نے انگلی اپنی بیٹی کی پھدی میں ایک دو بار مسلی تو مدیحہ کی غراہٹ نکل کر میرے میں دب گئی اور ساتھ مدیحہ نے ہوا میں گانڈ اٹھا کر کھینچ کر نیچے ماری ساتھ ہی مدیحہ کی بکوٹی نکلی اور مدیحہ نے تڑپ کر ایک بار پھر گانڈ ہوا میں اٹھا کر ماری جس ے مدیحہ کی آواز دھاڑ گئی اور ساتھ ہی مدیحہ کی پھدی سے فل پریشر کے ساتھ سفید پانی کی ایک لمبی موٹی دھار نکل کر بہنیں لگی جیسے پانی کا پائپ سا چل گیا ہوا اور ساتھ ہی مدیحہ پھڑکتی ہوئی کراہ کر میرے منہ میں ہی دھاڑنے لگی جیسے شیرنی دھاڑ رہی ہو مدیحہ کی پھدی سے اتنی موٹی دھار سے پانی نکل کر بہ رہا تھا کہ مدیحہ کی پھدی کا دہانہ فل کھل سا گیا اور مدیحہ بکاتی ہوئی تڑپتی ہوئی میرے ہونٹ چوستی ڈھیلی ہو رہی تھی میں بھی ڈر سا گیا کہ مدیحہ کے اندر تو آگ لگی ہے مدیحہ دومنٹ میں فارغ ہوکر نڈھال ہوکر ہانپتی ہوئی کراہنے لگی اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا میرا ہاتھ جو مدیحہ کی پھدی پر تھا وہ مدیحہ کے سفید پانی سے بھر گیا تھا مدیحہ بولی افففففف اااااہ اااہ ابووووو آج تے مزہ آگیا ابووووو ااااہ میں مر گئی افففففف میں مدیحہ کی گال چوم کر چوس لی جس پر میرے دانتوں کا نشان ابھی تک بنا تھا میں بولا میری دھی توں وی آگ اچ سٹ رہی ہیں مدیحہ ہانپتی ہوئی بولی ابو جی کی کراں ہنڑ تھواڈا ہی سہارا اے اس آگ نوں بجھانڑ دا پر تسی وی دور لگ رہے ہو میں بولا میری جان توں چاہویں تے میں نیڑے اسگدا آں وہ بولی ابو او کنج میں بولا جویریہ نہیں منندی تے اس نوں ہک واری سائیڈ کرا توں تے اپنی آگ بجھا مدیحہ بولی ابو اے تے زیادتی ہوجاسی اس نال نالے او ناراض ہوسی میں مسکرا کر بولا میری دھی اس نوں ناں دسیں اس دی غیر موجودگی اچ کرلواں گے مدیحہ بولی ابو وت وی اس نوں پتا تے لگ جانڑا اے میں بولا میری جان اس نوں نہیں لگدا لگ گیا تے اس نوں منا لواں گے مدیحہ بولی پر ابو او تے ہر ویلے گھر ہوندی ہے میں بولا جدو سکول جاندی اے اودوں کرلواں گے توں اس دن یونیورسٹی نا جائیں مدیحہ نے یہ سن کر میری آنکھوں میں نشیلے انداز سے دیکھا جیسے اسے یہ بات اچھی لگی ہو میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے اپنی تھوک والی بات یاد آئی جو مدیحہ پہلے کہ رہی تھی کہ سنبھال کے رکھساں میں بولا مدیحہ پہلے آلی تھوک پی گئی ہیں مدیحہ میری آنکھوں میں دیکھ کر مسکرائی اور بولی ابو سنبھال کے رکھی ہوئی ہے واشروم اونڑ لگیاں جویریہ نوں دے آئی ہاس میں ہنس دیا اور بولا ہلا جا میں وی آندا ہاں جویریہ تے تیرے کولو اکھٹا لن دا چوپا لوانڑا اے نصرت تے ہنڑ چدوانا نہیں تسی ہی مینوں ٹھنڈا کرنا ہے مدیحہ مسکرا کر میرے تنے لن کو دیکھا جو تن کر شلوار میں سے نظر آرہا تھا مدیحہ نے مسکرا مجھے دیکھا اور منہ آگے کرکے شلوار کے اوپر سے ہی میرے لن کا ٹوپہ چوم کر بولی ااافففف صدقے جاواں تیرے توں میرے شہزادیا۔۔۔ اور پکڑ کر شلوار میں ہی مسلنے لگی میں سسک گیا مدیحہ بولی ابو میں ہک واری ویکھ جواب اپنا شہزادہ میں بولا میں کوئی منی کر رہیا مدیحہ نے میرا نالا کھول کر لن باہر کھینچ کر نکال لیا میرا کہنی جتنا تنا لمبا موٹا لن دیکھ کر مدیحہ تڑپ سی گئی اور سسک کر بولی افففففففف ابووووووو اتنااا وڈڈڈاااا۔ میں صدققققے جاوواااں۔ اور میرا لن مسل کر میرے لن کا ٹوپہ دبا کر ہونٹوں میں کر کس کر چوم کر پیار کرکے بولی اففففف ابوووووو میں تے مر رہی آں اے لینڑ واسطے میں سسسک گیا اور اپنی بیٹی کے ہاتھوں اور ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے کانپ سا گیا مدیحہ بولی ابو ایتھ ہی چوپا مار لواں میں بولا چوس کے نچوڑ دے میری دھی ہنڑ رہیا میرے کولو وی نہیں جا رہیا یہ سن کر مدیحہ نے پرجوش ہوکر مجھے دیکھا اور منہ کھول کر میرا لن پورا منہ میں بھر لیا اپنی بیٹی کے گرم منہ کا لمس محسوس کرکے میں کانپ کر کراہ گیا مدیحہ نے زور لگا کر جتنا لن منہ میں لے جا سکتی تھی لے جا کر اپنے ہونٹ کس کر چوپا مارتی ہوئی لن کو دبا کر چوسنے لگی میں اپنی بیٹی کے نرم ہونٹوں کو اپنے لن پر محسوس کرکے تڑپ کر کراہ گیا اور ہانپتا ہوا مدیحہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دبا کر ہلکے ہلکے دھکے مارتا لن مدیحہ کے منہ میں دبا کر مدیحہ کا منہ چودنے لگا جس سے مدیحہ ہانپنتی ہوئی سسک کر آہیں بھرتی میرا لن دبا کر چوستی ہوئی میرے لن کے چوپے مارتی مجھے نڈھال کر رہی تھی میری بیٹی میرے لن کو دبا کر چوس رہی تھی مدیحہ کے نرم ہونٹوں کی رگڑ سے جلدی ہی میں نڈھال ہوگیا اور ایک لمبی منی کی دھار اپنی بیٹی مدیحہ کے منہ میں مار کر فارغ ہوگیا میری منی کی دھار منہ میں محسوس کرکے مدیحہ تڑپ کر رکلا گئی اور غغغغوووںں کی آواز سینے سے نکال کر میری منی پی گئی میں مدیحہ کا سر دبا کر کانپتا ہوا آہیں بھرتا مدیحہ کے منہ میں فارغ ہورہا تھا مدیحہ کا سر مزے سے کانپنے لگا اور اس کے منہ سے آنسو بہنے لگے میں ہانپتا ہوا کانپ کر آہیں بھرتا اپنی بیٹی مدیحہ کے منہ میں فارغ ہورہا تھا مدیحہ میری منی دبا کر چوستی ہوئی نچوڑ کر پی گئی میں تڑپتا ہوا کراہنے لگا مجھے ایسا لگا جیسے مدیحہ کا منہ میری جان کھینچ لی ہو میں کراہتا ہوا آہیں بھرتا نڈھال ہوگیا مدیحہ میری ساری منی نچوڑ گئی میرا جسم کانپنے لگا میں نے فارغ ہوکر لن کھینچ لیا مدیحہ نے میرے سامنے منہ کھولا تو اس کا منہ میری منی سے بھرا تھا جو اس نے روک لی تھی منہ میں میں یہ دیکھ کر مچل گیا اپنی سگی بیٹی کے منہ میں اپنی منی دیکھ کر میں مچل گیا اس نے میرے سامنے منہ کھولے رکھا میں سمجھ گیا ایک بڑی سی تھوک منہ سے نکال کر مدیحہ کے منہ پھینک دی جسے مدیحہ منہ میں دبا کر میری منی کے ساتھ منہ میں گھمانے لگی اور اوپر اٹھ کر کھڑی ہوگئی اس کی شلوار گھٹنوں تک ہی تھی میں اسے دیکھ رہا تھا مدیحہ اٹھی میرے سامنے کھڑی ہو گئی میرا لن مرجا رہا تھا مدیحہ نے شلوار اوپر نہیں کی بلکہ میرا لن مسل کر اپنی پھدی پر لگا کر ایک دو بار مسل کر گھوم کر میرے سامنے گھوڑی بن کر کھڑی ہوکر اپنی پھدی کھول کر میرا لن اپنی پھدی پر رکھ کر دبا کر کھڑی ہوکر بھی طرح پھدی پر مسلا اور آگے ہوکر مجھے چھوڑ کر آگے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنا قمیض پکڑ کر اوپر ہوا میں اٹھا کر اپنے تنے ہوئے ممے مجھے دیکھائے جنہیں دیکھ کر میں مچل گیا مدیحہ نے منہ ابھی تک منہ میں ہی رکھی ہوئی تھی پی نہیں اور مجھے آنکھ مار کر باہر نکل گئی میں سمجھ گیا کہ یہ اب منی جویریہ کے ساتھ شئیر کرے گی میں یہ سوچ کر مچل گیا اور واشروم سے ہوکر کیچن کی طرف آگیا میں کیچن میں داخل ہوا تو سامنے مدیحہ جویریہ کی گردن میں ہاتھ ڈال کر جویریہ کے منہ سے جوڑے دونوں بہنیں ایک دوسرے کا منہ چوس رہی تھی جویریہ نے اپنا منہ نیچے کھولا اور مدیحہ نے اوپر سے پڑوووچ کہ آواز سے اپنے منہ سے میری منی ایک لمبی تھوک کی صورت میں جویریہ کے منہ میں پھینک دی جسے جویریہ منہ میں دبا کر چوس گئی اور منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی مدیحہ کا منہ چوسنے لگی دنوں بہنیں مزے سے ایک دوسرے کو چوس رہی تھیں میں انہیں دیکھ رہا تھا مدیحہ نے اپنا منہ نیچے کھول دیا اور اوپر سے جویریہ نے اسی طرح پڑوووچ کی آواز سے میری منی مدیحہ کے منہ میں پھینک دی میں اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنی منی سے کھیلتا دیکھ کر مچل سا گیا مدیحہ منی منہ میں بھر کر جویریہ کو چومتی ہوئی دونوں بہنیں کچھ دیر اسی طرح میری منی سے کھیلتی رہیں پھر مدیحہ اور جویریہ دونوں منی پی گئیں اور ایک دوسرے کو چومتی ہوئی پیار کرنے لگیں میں دونوں کو دیکھ رہا تھا جویریہ اور مدیحہ دونوں جنونی ہوکر ہانپنے لگی تھیں دونوں ایک دوسرے کو دبا کر چوستی ہوئی سسک رہی تھیں جویریہ نے مدیحہ کا منہ پکڑا جسے مدیحہ نے کھول لیا جویریہ زبان نکال کر مدیحہ کا منہ دبا کر چاٹنے لگی میں تو جویریہ کا یہ انداز دیکھ کر مچل گیا دنوں بہنیں جنونی ہو رہی تھیں مدیحہ نے بھی جویریہ کا منہ پکڑ کر چاٹتے ہوئے سسکنے لگی جویریہ منہ چاٹتی ہوئی بے اختیار کس کر ایک تھوک مدیحہ کے منہ پر پھینکی مدیحہ کے ہونٹوں پر گری جسے منہ کھول کر جویریہ چاٹ گئی جواب میں مدیحہ نے بھی تھوک جویریہ کے منہ پر پھینکی اور پھر چاٹ گئی دنوں بہنیں ایک دوسرے کے منہ پر تھوک پھینکتی ہوئی چاٹتی ہوئی ایک دوسرے کو چوس رہی تھی مجھے دیکھ کر مدیحہ رک گئی اور بولی ابو کی ویکھ رہے ہو میں مسکرا گیا جویریہ مڑی اور مجھے ہانپتا ہوا دیکھنے لگی میں قمیض کے کے بغیر تھا مجھے دیکھ کر دونوں مسکرا گئی اور ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہا اور مسکرا دیں جس سے ان کی آنکھوں میں چمک سی آگئی میں دونوں کو آپس میں کھیلتا انجوائے کر رہا تھا دو نوں بولی ابو جی اجاؤ اگاں اور میرے قریب آکر دونوں میرے سینے لگ کر مجھے چومنے لگی دنوں کے جسموں سے آگ نکل رہی تھی دونوں نے کسے ہوئے لباس میں تھیں جس سے سب کچھ نظر آ رہا تھا میں مدیحہ کے ہونٹ چوسنے لگا جویریہ نیچے ہوکر میرے سینے کو چوم کر چاٹنے لگی جس سے میں سسک کر کراہ سا گیا اور بے اختیار کراہ سا گیا جویریہ میرے لن کو مسلتی ہوئی میرا نالا کھول کر میرا لن نکال کر مسل کر نیچے پن کے سامنے بیٹھ گئی اور میرا لن دونوں ہاتھو میں پکڑ کر مسلنے لگی اوپر مدیحہ میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی پیچھے ہوئی اور منہ کھول دیا میں نے ایک بڑی سی تھوک مدیحہ کے منہ میں پھینک دی مدیحہ نے تھوک منہ میں بھر کر چوس لی نیچے جویریہ نے میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا اور لن کی موری کے سامنے سے منہ کھول دیا اوپر سے مدیحہ نے میری تھوک نیچے لن پر پھینکی میرے لن پر گر کر نیچے جویریہ کے منہ گر گئی جویریہ نے تھوک منہ میں بھر کر لن کو منہ میں بھر کر لن پر لگی تھوک چوس کر میرے لن کا ٹوپہ مارنے لگی میں سسک کر کراہ سا گیا مدیحہ بھی مجھے چومتی ہوئی سسک کر کراہتی ہوئی نیچے بیٹھ گئی اور میرے لن کو سائڈ سے منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی سسکنے لگی جویریہ میرے لن کو دبا کر چوستی ہوئی سسکتی ہوئی لن پچ کی آواز سے چھوڑ دیا مدیحہ نے جویریہ کا منہ دبا کر چوس لیا اور لن کی تھوک اپنے منہ میں بھر کر میرے سامنے منہ کھول دیا میں نے اوپر سے ایک بڑی سی تھوک مدیحہ کے منہ میں پھینک جسے منہ میں بھر کر مدیحہ لن کو منہ میں بھر کر دباؤ کر چوستی ہوئی لن چھوڑ کر تھوک لن پر مل دی جسے جویریہ چوسنے لگی اپنی بیٹیوں کی آگ سے میں تڑپ کر نڈھال تھا دونوں بیٹیاں پوری شدت سے میرا لن چوستی ہوئی مجھے نڈھال کر گئیں میں تڑپ کر سسکتا ہوا آہیں بھرتا ہوا ہانپنے لگا جس سے دونوں سمجھ گئیں اور میرے لن کا ٹوپہ دونوں بہنیں منہ میں بھر کا دبا کر چوس لیا جس سے میں کراہتا ہوا آہیں بھرتا اپنی بیٹیوں کے منہ میں فارغ ہوتا آہیں بھرنے لگا میری دونوں بیٹیاں سسکتی ہوئی میرا لن دبوچ کر چوستی ہوئی نچوڑنے لگیں میں کراہیں بھرتا فارغ ہوکر نڈھال ہوگیا دونوں بہنیں میری منی نچوڑ کر پی گئیں دونوں نے میری منی نچوڑ کر ایسی آگ کھینچی کہ میرا لن جلد ہی مرجھا گیا دونوں بیٹیاں ہنسنے لگیں اور بولی ابو توں تے ٹھہو ہی فارغ ہوگیا ہیں ساڈے آگے میں بولا تھواڈی آگ تے مار دیسی گئی دونوں ہنس دی میں بولا ہلا ہنڑ روٹی تے دیو دونوں ہنس دیں اور اٹھ کر کھانا بنانے لگیں میں اٹھا اور واشروم سے واپس آکر کھانا کھانے لگا میں کھانا کھا کر سو گیا

          Comment


          • #65
            اچھی سٹوری ہے

            Comment


            • #66
              بہت اعلی کہانی ہے

              Comment


              • #67
                zabardast update kamal ho gaya bahtreen maza a gaya jinab wah

                Comment


                • #68
                  Uff intehai garam update ka sath wapsi ki ha akhir kar baap or beti ka milan ho gya mgr nusrat kj to sahe phudi or gand baja di maza a gya

                  Comment


                  • #69

                    واہ جی واہ
                    کمال کر دیا
                    ساریاں کسراں پوریاں کرا دیتاں

                    Comment


                    • #70
                      کمال کر دیا آپ نے تو

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X