Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    Bhut maza ki update ha, apni betion ko kisi or sy bhi chudwao, in ko gashtian bna do aur bhi maza aye ga

    Comment


    • #92
      بہت عمدہ تحریر

      Comment


      • #93
        بہت ہی بہترین کہانی

        Comment


        • #94
          آپ کا لکھنے کا طریقہ بہت کی عمدہ ہے۔بس تھوڑا سا سپر نیچرل نہ لکھے۔۔ باقی سٹوری آپکی بہت اچھی ہے ۔ اس میں جو ایک خالص پنجابی دیسی ماحول آپ نے پیش کیا ہے وہ کمال کا ہے جو مجھے بہت پسند آیا ہے۔

          Comment


          • #95
            کمال کی کہانی ہے مزا ہے پر ک اب اس کی اپڈیٹ کب آئے گی

            Comment


            • #96
              مجھے چائے پیتا دیکھ کر مدیحہ بولی ابو ہنڑ کی خیال اے میرے بارے میں مدیحہ کو دیکھ کر ہنس دیا اور بولا توں دس میرا کی خیال ہوسی مدیحہ مست نظروں سے مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے چڈے کھول کر اپنی پھدی مجھے دیکھا کر بولی ابو جی اپنی دھی دی پھدی مار لئو ہنڑ اے مینوں ہنڑ کھاندی اے میں ہنس دیا اور بولا میری جان ہلے آج تے جویریہ دی پھدی پاڑی اے مدیحہ ہنس دی اور بولی ابو جی ہنڑ میری وی پڑ دیو سواد اجائے میں ہنس دیا اور بولا ہلا میری دھی آج اسدا کیڑہ کڈھ لیندا آں اور چائے پی کر نکل گیا میں دکان پر گیا تو مجھے دیکھ کر ارمان نکل گیا اپنے دوستوں کے ساتھ میں دکان پر کام کرنے لگا شام سے کچھ پہلے ارمان آیا میں دکان اسکے حوالے کرکے خود گھر کی طرف آگیا گھر آیا دروازہ کھٹکایا تو مدیحہ نے دروازہ کھولا مدیحہ اسی صبح والے کسے لباس میں تھی جس سے مدیحہ کے تنے موٹے ممے جھانک رہے تھے۔ میری بیٹی مدیحہ نے گت اٹھا کر آگے اپنے تنے مموں پر رکھی اور بولی آؤ جی میرا یار آیا اے میں اسکی بات پر ہنس دیا مدیحہ بولی صدقے جاواں میرے دلدارا آج جلدی آگئے ہو اور مدہوش نظروں سے مجھے دیکھا میں مسکرا کر دروازہ بند کرکے بولا میری جان ایڈی سوہنیاں تے سیکسی دھیاں گھر اچ ہونڑ وت گھر جلدی ہی آنا جس پر مدیحہ نے آنکھیں بھر کر مجھے دیکھا اور بولی اچھا جی اور میرے قریب ہوکر میرے سینے سے لگ کر میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگی میں بھی اپنی بیٹی کو اپنے سینے سے دبا کر اپنی بیٹی مدیحہ کے ہونٹ دبا کر چوسنے لگا مدیحہ کو میں سینے سے لگا کر دبا کر چوس رہا تھا مدیحہ بھی مجھے سینے میں دبا کر چوس رہی تھی کچھ دیر ہم دونوں ایک دوسرے کو چومتے رہے پھر مدیحہ پیچھے ہوئی اور میرے سینے سے لگی ہی بولی ابو کی خیال ہے آج میری پھدی نوں مار لئے میں اپنی بیٹی کے منہ سے اپنی پھدی مجھ سے مروانے کا کہتا سن کر مچل گیا اور بولا میری جان میں کوئی ناہں کر رہیا اپنی اتنی سوہنی دھی دی پھدی میں ناں ماراں تے وت ہور کرنا کی جس پر مدیحہ خوش ہوکر بولی اففف ابوووو قسمیں آج دھمی دی تیرے تے گرم ہوئی ودی آں دل سنبھل نہیں رہیا میں مسکرا کر اپنی بیٹی مدیحہ کا ماتھا چوم کر بولا میری دھی آج ہی تیری پھدی اچ اپنا لن پھیر کے تیری آگ بجھاندا جس پر مدیحہ مچل کر سسکتی ہوئی میرے سینے لگ گئی اتنے میں اندر سے جویریہ نکلی اور ہم باپ بیٹی کو ایک دوسرے کی باہوں میں دیکھ کر بولی لگدا آج مدیحہ تیری خیر نہیں میں مسکرا کر مدیحہ سے الگ ہوا تو وہ بھی دوپٹے کے بغیر تھی میں بولا کیوں تیری پھدی تے کھول دیتی ہنڑ کوئی تینوں اعتراض اے جس پر مدیحہ ہنس دی اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی اففف ابببووووو توں تے میری پھدی صرف جھولی نہیں سینے تک پاڑ کے رکھ دتی میں ہنس دیا اور بولا چلو کجھ ٹائم تیری آگ تے مٹھی ہوئی جس پر وہ ہنس دی اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھے واشروم جانے لگی میں مدیحہ کو چھوڑ کر اندر کیچن میں آیا تو سامنے چولہے پر میری بڑی بیٹی نصرت بیٹھی تھی نصرت بھی صرف کسے ہوئے شلوار قمیض میں تھی وہ چولہے پر بیٹھی تھی نصرت کا انگ انگ میری چدائی سے کھل رہا تھا جس سے نصرت بہت خوبصورت لگ رہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر مچل گیا نصرت کے بیٹھے سے نصرت کی کسی شلوار میں موٹے چوتڑ صاف نظر آرہے تھے نصرت کی گانڈ اور پٹ چوڑے تھے لیکن نیچے ٹانگیں پتلی تھیں جو تنگ شلوار میں پھنس کر بہت خوبصورت اور سیکسی لگ رہی تھی نصرت نے چھوٹا قمیض ڈال رکھا تھا جو اس کی رانوں تک ہی اور وہ اسے پھنس کر ا رہا تھا جس سے اس کا انگ انگ قمیض میں سے نظر آرہا تھا نصرت کے قمیض کے چاک اونچے تھے جس سے نصرت کے چاک سے اس کا سیکسی گورا جسم نظر آرہا تھا میری بیٹی میری نظروں کے سامنے سیکس بمب لگ رہی تھی میں اسے دیکھ رہا تھا تو اس نے مڑ کر دیکھا اور مجھے خود کو دیکھتا پا کر مسکرا دی اور بولی ابو جی کیوں کھا جاونڑ الی نظراں نال ویکھ رہے ہو آگے ہی تھواڈے لن حالت پتلی کر دتی اے میں ہنس دیا اور جا کر اس کے سامنے پڑی پیڑھی پر بیٹھ گیا وہ مجھے مسکرا کر دیکھنے لگی اسکی آنکھوں کی مدہوشی میرے اندر اتر رہی تھی میں نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت کے ناک کا کوکا مجھے نڈھال کر رہا تھا میں آگے اس کے قریب ہوا اور نصرت کے تنے مموں کو ہاتھ میں پکڑ لیا جس سے وہ سسک گئی اور بولی اففف ابووو نا کرو اور پیچھے ہوکر میرے ہاتھ سے اپنے ممے چھڑوا کر بولی ابو جی ہنڑ تے تھواڈیاں دوجیاں دھیاں وی ہینڑ ہنڑ اوہناں نوں نچوڑ اور ہنس دی میں مسکرا کر نصرت کے گورے سینے کو دیکھا نصرت کے تن کر کھڑے موٹے ممے نصرت کے قمیض سے جھانک رہے تھے نصرت کے قمیض کا گلہ کافی کھلا تھاا جس سے نصرت کے مموں کی گہری لکیر نظر آ رہی تھی نصرت نے مموں کی لکیر کے درمیان میرے نام کا این لکھوا رکھا تھا جسے دیکھ کر میں مسکرا دیا نصرت کا رویہ دیکھ کر میں بولا نصرت کی گل اے میرے تو تنگ پئے گئی ایں نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی نہیں ابو جی ایسی گل نہیں پر تھوانوں وی پتا اے ناں تھواڈا لن بہت مضبوط تے تگڑا اے پر میری پھدی اس نوں برداشت نہیں کر پا رہی اتوں تسی روز رگڑا لاندے ہو کجھ سکون وی تے کرن دیو نا جس پر اس نے مدہوش نظروں سے مجھے مسکرا کر دیکھا اور بولی ابو جی ناراض تے نہیں نا میں نصرت کا ہاتھ پکڑ کر بولا نہیں میری جان توں وی سچی ایں تیری وی ہک برداشت ہے اس توں میں ہی ودھیا آں تینوں پتا اے میرا لن آج تک کسے وی زنانی یا وڈی توں وڈی عورت وی پورا نہیں لئے پائی توں میری دھی ہی ہیں جس دی پھدی میرا پورا لن اپنے اندر سمو لیا اے آج تک تیری ماں وی نہیں پورا لئے پائی نصرت مجھے مدہوشی سے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی ابو جی وت ویکھ لئو جس پھدی تھواڈا پورا لن لیا اے اس دا ہی تساں اے حال کر دتا یہ کہ کر نصرت پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے چڈے کھول کر اپنا قمیض آگے سے اٹھا کر مجھے اپنی پھدی دکھائی میری نظر اپنی بیٹی نصرت کی پھدی پر پڑی تو میں دیکھ کر چونک گیا نصرت کی پھدی کے ہونٹ ایک دوسرے سے الگ ہوکر میرے لن کی رگڑ سے گہرے براؤن ہونے لگے تھے نصرت کی پھدی کا دہانہ کھل کر سرخ ہورہا تھا اپنی بیٹی نصرت کی پھدی کو میرے لن نے رگڑ کر رکھ دیا تھا جسے دیکھ کر میں مسکرا کر بولا نصرت لگدا واقعی میرے لن تیزی پھدی تے رگڑ کے رکھ دتی جس پر نصرت مسکرا کر مجھے دیکھ کر بولی چلو شکر ہے تھوانوں ی میری پھدی تے ترس آیا میں مسکرا دیا اور بولا ترس نہیں خیال آیا اے جس پر وہ مسکرا کر سیدھی ہوئی اور بولی بس ابو تھواڈے پیار دی لوڑ ہے اور آگے قمیض سے اپنی پھدی کو ڈھانپنے لگی میں نے ہاتھ آگے کرکے روک کر بولا نصرت میری شہزادی نوں میرے سامنے رہن دے جس پر نصرت مسکرا کر بولی ابو جی چولہے آگے بیٹھی آں تے آگ سدھی پھدی تے ہو دی تے ڈھاڈھی لگدی یہ سن کر میرے ذہن میں شرارت سوجھی میں مسکرا کر بولا نصرت چنگا اے اس نوں کجھ سیک لگنے دے آگ دا چنگا اے ٹکور ہوسی اور میں نے پھدی کو ننگا ہی رکھنے کا کہا جس پر نصرت مسکرا دی اور میں نے نصرت کی پیڑھی پکڑ کر کھینچ کر قریب کردی جس سے نصرت کی پھدی کا دہانہ سیدھا چولہے کی طرف ہوگیا نصرت کے موٹے چتڑوں کے درمیان پھدی دب سی گئی جس پر نصرت ہنس دی اور بولی ابو جی تسی وی ناں میں مسکرا دیا نصرت اپنی پھدی آگ کے سامنے کرکے مجھے مدہوش نظروں سے دیکھنے لگی میں آگے ہوکر نصرت کے ہونٹوں کو چومنے لگا نصرت بھی میرے ہونٹ چوسنے لگی ہم دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کو چومتے رہے اسی دوران مسلسل آگ کا ایک پھدی پر پڑ رہا تھا جس سے نصرت کو اب آگ کا سیک زیادہ لگنے لگا جس پر نصرت سسک گئی اور بولی اففف سسسیی ابوووو میں بولا کی ہویا نصرت بولی ابووو آگ ہنڑ ڈھاڈھی لگدی پئی جس پر نصرت کو میں تکلیف میں دیکھ کر مچل گیا جس پر میں بولا نصرت چنگا اے جتنا ایک لگسی اتنی ٹکور ہوسی جس پر نصرت منہ سا بنا کر مجھے دیکھنے لگی میں نے جان بوجھ کر چولہے میں آگ بڑھا دی جس سے آگ کا سیک نصرت کی پھدی پر بڑھنے لگا اور نصرت کی پھدی کو جلانے لگا جس پر نصرت سسک بولی اففف ابوووو پھدی سڑ گئی میں نصرت کو دلاسہ دے کر بولا نصرت چنگا ہے تھوڑا ہور سڑن دے تاکہ پھدی نوں چنگی ٹکور ہوجائے آگ کا سیک نصرت کی پھدی پر بڑھنے لگا اب آگ بھی تیز تھی اور سیک بھی تیز تھا جس سے نصرت کی پھدی جلنے لگی تھی نصرت کی پھدی چولہے کے بالکل سامنے تھی اوپر سے تیز آگ کا سیک اسے جلا رہا تھا جس پر نصرت چلا سی گئی اور مجھے دیکھ کر بولی افففففف ابووووووووو سسسسسسسییییییی اااااااااہ نصرت کی برداشت جواب دینے لگی مسلسل آگ کا سیک نصرت کی پھدی کو جلانے لگا تھا جس سے نصرت تڑپ کر کراہ سی گئی نصرت کی برداشت جواب دینے لگی میں نصرت کی پھدی کو مسلسل آگ کا سیک دے رہا تھا جس سے نصرت کی ہمت ٹوٹ رہی تھی مسلسل آگ کا سیک اسے جلا رہا تھا نصرت کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا نصرت میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر برداشت کر رہی تھی نصرت کا جسم آب ہلکا ہلکا کانپنے لگا اور پھدی کا دہانہ بے اختیار کھلتا بند ہوتا پانی چھوڑنے لگا ساتھ نصرت آہیں بھرتی سسکتی ہوئی سسکارنے لگی نصرت کو تڑپتا دیکھ کر میرا دل مچل رہا تھا اپنی سگی بیٹی کے ساتھ کھیل کر مجھے عجیب سا مزہ ا رہا تھا نصرت کو تڑپتا دیکھا کر مجھے شرارت سوجھی میں نے ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھا جس پر آگ لگی تھی اور اٹھا کر نصرت کی پھدی کے قریب لے گیا اور آگ کسا شعلہ نصرت کی پھدی کے بالکل قریب کردیا جس پر نصرت تڑپ کر کرلا کر اونچی کراہ مار کر بولی ااااااہ اففففف ابوووووو مرررر گئییی اففف اااامممممااااااں جس پر نصرت کی اونچی کراہ کیچن میں گونج گئی نصرت کو اذیت دے کر میرے دل کو عجیب سا سکون ملنے لگا تھا نصرت کی پھدی کے بالکل قریب آگ کا شعلہ اب نصرت کی پھدی کو جلانے لگا تھا جس سے نصرت کرب سے تڑپنے لگی اور آہیں بھرتی چیلانے لگی جس سے نصرت کی کراہیں کیچن میں گونجنے لگیں جس پر نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور نصرت تڑپ کر بولی ااااہ اااااہ ابوووو میرییی پھدددددییییییی سڑڑڑڑ گئی ااااہ اااااہ اااامممممااااااں ااااہ میں گئیہیی نصرت کی گانڈ اب تھر تھر کانپنے لگی تھی نصرت کی پھدی کے قریب بالکل شعلہ بھڑک کر نصرت کی پھدی کو جلا رہا تھا جس پر نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی نصرت کا چہرہ لال سرخ ہوکر کانپنے لگا نصرت کا سارا جسم تھر تھر کانپنے لگا میں نصرت کو سائیڈ سے پکڑ کر دبوچ لیا باہوں میں نصرت کا جسم اب پھڑکنے لگا تھا نصرت تڑپتی ہوئی کرلا رہی تھی پھدی مسلسل بند کھلتی پانی چھوڑ رہی تھی جس سے پھدی کے نیچے جلتی آگ پر نصرت کی پھدی کا پانی گر کر آگ کو بجھا رہا تھا نصرت کی پھدی کو لگتا سیک پھدی کو ساڑ رہا تھا جس سے مچل کر برداشت نا کر پائی اور غرا کر تڑپی اور جھٹکا مار کر اپنی پھدی آگے کو جھٹکا مار کر ایک لمبی منی کی دھار سیدھی چولہے میں ماری ساتھ ہی زور سے کرلا دی جس سے نصرت کی پھدی کے پانی نے آگ بجھا کر رکھ دی نصرت کراہ کر جھٹکے مارتا کرلا کر فارغ ہوتی پانی کی دھاریں سیدھی چولہے مارتی آگ بجھا گئی جس سے نصرت تڑپ تڑپ کر کراہنے لگی اور پانی چھوڑتی میرے سینے سے لگ کر ہانپتی ہوئی کراہ کر بولی افففف ابووووو مر گئی میں نصرت کے ہونٹ چوم کر بولا میری دھی سواد آیا کہ نہیں نصرت سسک کر میرے ہونٹ چوم کر بولی اففف ابووو انج دا سواد تے پھدی اچ لن لئے کے وی نہیں آیا جس پر میں مسکرا دیا نصرت بھی ہنسدی اور اوپر ہوکر بولی ابو جی تسی وی نا نوے توں نوا کم کردے ہو میں ہنس دیا چولہے کی آگ نصرت کی پھدی نے بجھا دی تھی میں بولا ویکھ میری دھی تیری پھدی دی آگ چولہے دی آگ بجھا دتی اے جس پر نصرت ہنس کر شرما گئی اور بولی ابو جی بس وی کرو ہنڑ اور آگ جلانے لگی اتنے میں مدیحہ اندر آئی تو ہمیں پرسکون دیکھ کر بولی ابو جی اتنی جلدی تے تسی فارغ ہوندے نہیں آج تے نصرت دے اندر جلدی فارغ ہوگئے جس پر میں ہنسدیا اور بولا کیوں تینوں کنج لگا وہ ہلبوکی ابو جی باجی نصرت دیاں آوازاں تے انج ا رہیاں ہانڑ کہ تسی اسدی پھدی مار رہے ہا جس پر ہم دونوں اسے دیکھ کر ہنس دیے نصرت بولی ابو جی ہنڑ مدیحہ رہ گئی اے اسدے دماغ تے ہنڑ تھواڈا لن سوار اے میں تے آکھدی آں آج اسدی پھدی اچ وی اپنا لن گھما دیو جس پر میں ہنس دیا اور بولا نصرت لگدا اسدی پھدی وی چیرنیںپوسی توں اس نوں سکون آسی جس پر نصرت بولی ابو میں کھانا بنا لواں تسی اسدی پھدی دا کچومر کڈھ کے آؤ جس پر میں ہنسدیا مدیحہ بولی ابو جی نصرت سہی آکھ رہی ہے تسی آج میری پھدی دا کیڑہ کڈھ دیو اور چلتی ہوئی میرے قریب آئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچ کر اٹھاتی ہوئی بولی ابو جی آؤ نا ہنڑ صبر نہیں ہوندا میں اٹھ کر مدیحہ کے ساتھ چل دیا دیحہ کے اندر اتنی آگ تھی میری بیٹی مدیحہ مجھے خود پکڑ کر اندر میرے لن کو اپنی پھدی مجھے دینے کھینچتی ہوئی کے کر جا رہی تھی وہ مجھے پکڑ کر اندر لے آئی اور اندر آتے ہی مدیحہ مجھ سے چمٹ کر مجھے باہوں میں بھر کر دبا کر چوسنے لگی میں بھی اپنی بیٹی کے جسم کا لمس پا کر تڑپ سا گیا اور اس کا قمیض کھینچ کر اتار دیا مدیحہ نے میرا قمیض بھی کھینچ کر اتار دیا اور اپنے تن کر کھڑے ممے میرے سینے سے لگا کر دبا دئیے اور میرے ہونٹ چوستی ہوئی میرا نالا کھول کر لن باہر کھینچ کر مسلنے لگی اپنا لن اپنی بیٹی مدیحہ کے نرم ہاتھوں میں محسوس کرکے میں مچل کر رہا گیا میرا لن ایک منٹ میں تن کر تیار کھڑا اور میری بیٹی کے ہاتھوں میں جھٹکے مار رہا تھا میں بھی بے قرار سا ہوکر مدیحہ کے کندھوں سے پکڑ مدیحہ کو اپنے سے لگ کرکے پیچھے بیڈ پر مدیحہ کو لٹا دیا مدیحہ لیٹتے ہی سر پیچھے رکھ کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر مجھے شہوت بھری نظروں سے ہانپتے ہوئے دیکھا میں نے اوپر اکر مدیحہ کی شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے مدیحہ کی بند ہونٹوں والی پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی میں نے مدیحہ کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر مدیحہ کے کاندھوں سے ملا کر مدیحہ کے اوپر گیا جس ے مدیحہ کے چڈے کھل کر پھدی کھول کر سامنے آگئی جس سے میرا لن مدیحہ کی پھدی سے ٹچ ہونے لگا جس سے مدیحہ سسک گئی اور میرا لن پکڑ کر خود ہی میری پھدی کے دہانے سے لگا کر مجھے تڑپ کر دیکھا اور بولی افففف سسسسسسیی ابوووو مند دے لن میں اوپر ہوا اور مدیحہ کی ٹانگیں جو دبوچ کر گانڈ کھینچ کر ہلکا سا جھٹکا مارا جس سے پڑچ کی آواز سے میرے لن کا ٹوپہ مدیحہ کی پھدی کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے مدیحہ تڑپ کر کرلا گئی اور بکا کر بولی آااااااااااااآ ہہہہ امممماااااں۔۔۔ میرا لن میری بیٹی مدیحہ کی پھدی کے پردے سے ٹکرا کر ترک گیا میں نے گانڈ کھینچ کر پوری طاقت سے دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا پورا لن یک لخت پورا جڑ تک ایک ہی جرک میں پورا جڑ تک اپنی بیٹی مدیحہ کی کنور سیل پیک پھدی میں جڑ تک اتار دیا میرا موٹا کہنی جتنا لن مدیحہ کی پھدی کو چیر کر پھاڑتا ہوا جڑ تک مدیحہ کی پھدی چیر کر بچہ دانی میں اتر گیا جس سے مدیحہ تڑپ کر بلبلا گئی اور بوکھلا کر پوری شدت سے ارڑڑاا کر چیختی ہوئی بکری کی طرح گلہ پھاڑڑڑ کر بکا گئی جس سے مدیحہ کی ارڑاٹ سے کمرہ گونج گیا اور باہر تک مدیحہ کی ارڑااااٹ سب نے سن لی مدیحہ میرے لن کی زوردار دھکے سے ارڑاتی ہوئی بکاتی ہوئی پھڑکنے لگی اور بکا کر بولتی گئی اااااااااہہہہہہہہ ابووووووووو اااااااااہ اممااااااااں میں مر گئئئییییی اااممممااااااااں اااامممممااااااں ااااااہ میری پھدی امااااااں پھٹ گئی میری پھدی مدیحہ کا جسم تھر تھر کانپتی ہوا پھڑکنے لگا میں مدیحہ کی کمر مسلتا ہوا اوپر ہوا اور لن کھینچ کر دھکا مارا اور پوری شدت سے مدیحہ کی پھدی کو چودنے لگا جس سے میرا لن تیزی سے مدیحہ کی پھدی کو چیر کر رگڑتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہونے لگا میری بیٹی مدیحہ کی پھدی میرے لن کو دبوچ کر پکڑ کر مسل رہی تھی جس سے میں تڑپتا ہوا کراہنے لگا مدیحہ کی تنگ پھدی کے ہونٹوں کی رگڑ میرے لن کو مسل کر میری جان کھینچ رہی تھی جس سے میں تڑپ کر کرلا رہا تھا اور زور زور سے دھکے مارتا اپنا لن اپنی بیٹی کی پھدی کے آرپار کرتا مدیحہ کی پھدی کو کس کر پوری شدت سے مسل کر خود رہا تھا جس سے مدیحہ تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی بکا رہی تھی میرے لن کی رگڑ مدیحہ کی پھدی کا کچومر نکال رہی تھی جس سے مدیحہ مسلسل ارڑا کر گلہ پھاڑ کر چیختی ہوئی بکا رہی تھی جس سے مدیحہ کے چلانے کی آوازیں باہر تک جارہی تھیں میں مسلسل کس کس کر دھکے مارتا اپنی بیٹی کو چود چود کر نڈھال کر رہا تھا مدیحہ بھی میرے نیچے پڑی ہوئی تڑپ تڑپ کر بکا رہی تھی میں دو منٹ میں ہی نڈھال ہوکر آہیں بھرتا اپنی بیٹی مدیحہ کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر فارغ ہوگیا اور آہیں بھرتا مدیحہ کے اوپر گر گیا مدیحہ بھی میرے ساتھ جھٹکے مارتا فارغ ہوگئی میں مدیحہ کے اوپر گر کر ہانپنے لگا میں تھک سا گیا تھا میری کمر جواب دے رہی تھی میں مدیحہ کے اوپر لڑھک گیا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میری کمر ستھ نا ہو اور میںآ ہیں بھرتا ہانپنے لگا اتنے عرصے سے بھرپور طریقے سے عورتوں کو چودتا آ رہا تھا پر اپنی تیسیر بیٹی کو چود کر آج مجھے لگا تھا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں کیونکہ اب تو میری کمر بھی درد کرنے لگی تھی میں پڑا ہانپ رہا تھا مجھ سے اب مزید ہلا نہیں جا رہا تھا اتنے میں پیچھے سے عارفہ آئی اور مدیحہ کو تڑپتا ہوا کرہتا ہو دیکھ کر مجھے ہلایا تو پہلی بار میں اٹھ نا سکا میں نے اسے کہا مجھے اٹھاؤ اس نے مجھے اٹھا کر الگ کیا جس پر میں سائڈ پر ہوکر اپنی کمر کو دبانے لگا عارفہ مدیحہ کو سنبھالتی بولی کی بنیا ہئی میں بولا عارفہ لگدا دھیاں دی آگ مینوں بڈھا کر دتا اے وہ بولی ہا وے نا کر ہنڑ ہی تے توں اہناں دی آگ بجھانی اے توں ہنے نال ہی جواب دے گیا ایں جس پر میں بولا عارفہ تیری دھیاں دی آگ ہی بڑی تتی اے اے نہیں چھڈدیاں مینوں میری کمر پیڑ پئی کردی وہ بولی کجھ نہیں ہوندا کجھ مال کھواساں تینوں پر ہک گل تینوں دساں مزے دی میں بولا او کی وہ مسکرا کر بولی جا ویلے توں اپنی دھی مدیحہ نوں یہندا پیا ہائیں اس ویلے تیرا پتر ارمان آگیا میں یہ سن کر چونک کر بولی کی وہ بولا ہاں اس مدیحہ دی حال حال سن کے پچھیا اے میں گھبرا کر بولا وت وہ ہنس کر بولی وت کی میں دس دتا کہ توں یہ رہیا ایں اپنی دھی نوں یہ سن کر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بولا اے تے بھیڑا ہویا عارفہ ہنس دی اور بولی وے بھیڑا نہیں چنگا ہویا میں نے اسے دیکھا تو وہ بولی وے ہنڑ توں وی جواب دتا پیا ایں میں ارمان نوں تیار کیتا اے اس نوں سنایا اے کہ بجائے اسدے کہ تیریاں بھیناں باہر منہ مارن بدنامی کراوںڑ تسی پیو پتر آپ ہی اپنی بھیناں دی آگ کڈھنی رکھو میں عارفہ کو دیکھ کر بولا وت وہ مسکرا کر بولی ہک واری تے ناہ کیتی کیا پر من جاسی گیا چپ کر گیا اے میں بولا کدے ہے وہ بولی روٹی کھا رہیا میری کمر درد کر رہی تھی میں کچھ دیر آرام کرنے لگا مدیحہ جو پہلے کراہ رہی تھی اسے بھی اب سکون آچکا تھا میں کچھ دیر بعد اٹھا اور واشروم گیا واپس آیا تو ارمان کیچن میں بیٹھا تھا عارفہ بھی بیٹھی تھی نصرت دوپٹے میں تھی اور برتن دھو وہی تھی مینا ندر آیا تو مجھے دیکھ کر وہ منہ نیچے کرگیا میں پاس ہی بیٹھ گیا عارفہ نے مجھے کھانا دیا میں کھانا کھانے لگا ارمان موبائل میں خود کو مصروف کرلیا اپنے باپ جو اپنی بہنوں کو چودنے کا سن کر وہ بھی شرمندہ تھا میں روٹی کھاتا بولا ارمان کیوں چپ ایں وہ بولا کجھ نہیں ابو ایویں میں بولا ارمان توں وی روز رات نوں اپنی حوس پوری کرنے جاندا ایں باہر تیرا وی دل کردا میں نصرت کی طرف اشارہ کرکے بولے اے تیریاں بھیناں وی جوان ہینڑ اہناں نوں وی مرد دی لوڑ اے اہناں دا وی مرد واسطے دل کردا یہ سن کر نصرت ہلکا سا مسکرا دی میں بولا ارمان ویکھ گل اے ہے کہ اگر اسی باہر حوس کڈھن دی بجائے اے حوس اپنی دھیاں نصرت اوراں تے کڈھیے تے اہناں دی حوس اور گرمی وی نکل جاسی اس وجہ توں بجائے اے کہ نصرت آوری باہر منہ مارن اور سادی عزت رہے اسی آپ ہی نصرت اوراں نوں ٹھنڈا رکھیے تاکہ عزت تے محفوظ رہسی یہ سن کر ارمان نے سر اٹھایا اور بولا ابو او تے گل سہی اے تھواڈی نصرت آوری باہر منہ آمدن سانوں آپ نوں اہناں دا بندوبست کرنا چاہیدا پر ابو تساں نصرت ناک تعلق بنایا ہویا اے اے میرے نال بنینسنڑ یہ سن کر نصرت برتن دھوتی مڑ کر بولی ارمان آگے ابو کول اسی سوندیاں آں سانوں ابو کول سسونڑ تے ااعترااض کوئی نہیں تے تیرے نال سونڑ تے وی اعتراض کوئی نہیں ویسے وی او ساڈا پیو اے توں ساڈا بھرا اے سانوں تے فرق کوئی نہیں اتھو اچھا ہی ہے توں وی ابو نال مل کے سانوں چدسیں تے ابو وی سوکھا ہوسی تے ساڈی آگ وی سہی مرسی نصرت کو یوں بے باکی سے بات کرتا دیکھ کر میں مسکرا دیا ارمان بولا اچھا ابو جی سکی اے میں فر سوچ کے دسدا یہ کہ کر وہ نکل گیا میں بھی کھانا کھا کر باہر نکلا میری کمر شدید درد کر رہی تھی اسلیے میں سمجھ گیا کہ اب اپنی بیٹیوں کو اکیلے چودنا میرے بس کی بات نہیں میں ڈاکٹر سے دوائی لایا اور کا کر جلد ہی سو گیا شاید اس نے آرام والی گولی دے دی تھی اسلیے رات بھر میں ہلا بھی نہیں صبح جاگ ہوئی تو میری کمر کا درد اب ٹھیک ہو چکا تھا میں اٹھا اور واشروم چلا گیا میں واپس آیا تو مدیحہ مجھے کمرے سے نکلتی ملی اور مسکرا کر میرے گلے لگ کر بولی تھینکس ابو تساں تے راتی میری پھدی دی جڑ کڈھ دتی میں ہنس دیا اور بولا میری جان میں حاضر ہر ویلے اپنی دھی واسطے مدیحہ بولی ابو ویسے اے گل چنگی نہیں میں بولا او کی مدیحہ بولی ابو صرف ہک واری پھدی یدھی تساں میری میں ۔سجرا کر بولا میری جان آج کسر کڈھ کسان گئے وہ ہنسدی اور اندر چلی گئی میں کیچن میں گیا تو عارفہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں سے خوش دیکھ کر بولا کی گل اے جناب آج بڑی خوش ایں وی ہنسدی اور بولی گل ہی خوشی دی اے جس پر میں بولا وت وی وہ بولی تیرے پتر تے ڈھل ہی نہیں لائی راتی سوچنے دا آکھ کے ہٹ کے اپنی بھین نصرت نوں یاہ کے رکھ دتا ہیس میں یہ سن کر چونک کر بولا نا کر وہ ہنس دی اور بولی جا کے اپنی دھی دی حالت وویکھ میں مسکرا دیا اور بولا چلو اے تے چنگا ہویا میں بولا جویریہ کل دی نظر نہیں آرہی ووہ بولی سکول گئی اے آج ارمان نال ٹائم بنا کے گئی اے میں مسکرا دیا اور بولا سہی ااے ہنڑ تے اے چنگا ہویا میں کھانا کھا کر اندر آیا تو نصرت لیٹی تھی مجھے دیکھ کر نصرت بولی اففف ابو تسی وی لگدا ہنڑ مینوں یہون آیے ہوسو میں نصرت کی حالت دیکھ کر بولا نصرت توں تے اکا ہی ہمت ہار گئی ایں نصرت بولی ابو کی کراں ہنڑ تے دل نہیں کردا پھدی مروان تے میں سمجھ گیا کہ نصرت کی آگ ٹھنڈی ہو رہی اے میں نہیں چاہتا تھا کہ اتنی خوبصورت اور چدکڑ لڑکی جلدی ٹھنڈی ہو جائے میں نصرت کو آرام کرتا چھوڑ کر نکل آیا میں سوچنے لگا کہ ایسا کیا کروں کہ نصرت پھر سے گرمی پکڑ جائے اور اتنی آگ میں جلے کہ لن کو ترستی رہے میں دکان پر آگیا اور سوچنے لگا کہ ایسا کیا کروں ایسے میں مجھے خیال آیا اوکسی ٹوسن انجیکشن کا جو گاؤں بھینسوں کو دودھ نکالنے کے لیے لگایا جاتا ہے کیونکہ اوکسی ٹوسن اتنا گرم ہوتا ہے کہ دو منٹ میں گائے بھینس دودھ اتار دیتی ہے میں نے سوچا کہ اگر یہ انجکشن نصرت کو لگایا جائے تو نصرت تو آگ میں جلنے لگے اور ہر وقت لن ہی مانگتی پھرے یہ سوچ کر میرا دل مچل سا گیا میں اٹھا اور میڈیکل سٹور پر آیا اور وہاں سے اوکسی ٹوسن انجیکشن کے کر گھر گیا گھر آیا تو نصرت کھانا کھا رہی تھی اس کا اترا چہرہ رات ارمان کے ساتھ گزری رات کا احوال بتا رہا تھا میں نصرت سے بولا نصرت توں تے بڑی جلدی ٹھڈی ہو گئی ایں آگے تے لن واسطے ترس رہی ہائی۔ نصرت بولی اففف ابو تسی پیوو پتر تے میری ساری آگ ہی کڈھ دتی ارمان دس لن تے رہے لن آر چیر دیندا تھواڈی اگ مینوں نچوڑ گئی اے یہ سسن کر میں بولا پر توں فکر نا کر تیری آگ نوں بھڑکانڑ دا انتظام میں کر کیا اے ہنڑ توں دس توں اپنی آگ بجھی ہی رہن دینی یا لن دا سواد کینٹ واسطے اپنی آگ نوں بھڑکانا چاہندی ایں نصرت بولی ابو ہلے میری عمر ہی کی ہے تے تساں پیو پتر مینوں نچوڑ لیا میں تے چاہندی آں مینوں کجھ ایسا کھواؤ کہ میری آگ پہلے آر ایسی بھڑکے کہ میں بجاھندی بجھاندی تھک جاواں میں ہنس کر بولا کیوں بجھی آگ نوں بھڑکاؤ ایں نصرت بولی ابو جی تھوانوں پتا لن پھدی دے کھیل اچ کیڈا مزہ آندا تے میں اس مزے نوں کھل کے انجوائے کرنا چاہندی آں میں چاہندی آں کہ لن میری پھدی اچ پھر کے مینوں سواد دیوے مینوں تنگ نا کرے میں اپنی بیٹی کی اس بات پر ہنس دیا اور بولا میری جان وت تیار ہوجا تیرے واسطے میں ہک شئے کئے آیاں نصرت مجھے دیکھ کر بولی ابو او کی میں نے اوکسی ٹوسن انجیکشن نکالا تو وہ بولی اے کی اے میں بولا اے دوائی اے جہڑی تیری بجھدی اگ نوں اگے نالو ڈھیر بھڑکا دیسی یہ سن کر نصرت مسکرا دی اور بولی سچی ابو میں بولی تیری قسم نصرت نے جھٹ سے میرے ہاتھ سے انجیکشن پکڑ لیا اور دیکھنے لگی عارفہ بھی یہ دیکھ کر بولی وے دیمی اے تے مجھیں الی دووائی جس نال دودھ لائی دا نصرت مسکرا کر بولی ہاں ابو اے تے مجھاں واسطے اے میں بولا میری دھی اے دوائی اتنی گرم ہوندی کہہ مجھ دا دودھ چھک لیندی تے آپے اندازہ لا تیرے اندر تے اے آگ کا دیسی یہ ن کر نصرت سسک کر بولی افففف ابوووو اے تے گل اے میں بولا چل میری دھی اس نوں کھول تے آدھی دوائی پی جا نصرت نے بوتل باہر نکالی اور چھری سے دوائی کا ڈھکن کھولا میں عارفہ سے بولا پانی کا آدھا گلاس دے اس نے پانی دیا میں بولا آدھی دوائی پانی اچ مکس کرکے پی جا نصرت نے جھٹ سے آدھی بوتل سے دوائی پانی میں ڈال کر مکس کی اور جھٹ سے پی گئی میں نصرت کو آگ والی دوائی پیرس دیکھ کر مچل گیا کہ نصرت خود بھی دوا لے کر گرم ہونا چاہ رہی تھی نصرت بولی ابو کدو تک اثر کرسی میں بولا میری دھی بس کجھ گھنٹے توں ویکھی وت آپے لن منگسی نصرت ہنس کر بولا ے تے ہوجائے تے بڑی گل اے میں جانتا تھا کہ اس کا ثر بہت جلد ہو جائے گا میں دکان پر گیا دوپہر کو گھر گیا تو جویریہ بھی آچکی تھی میں اندر گیا اور نصرت کا پوچھا تو مدیحہ مسکرا کر بولی ابو بھائی تے باجی ٹھوکا ٹھوکھا کر رہے ہیں میں مسکرا دیا کہ دوا اثر کر گئی اے میں اندر کمرے میں گیا تو ارمان اپنی بہن نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر تیزی سے دھکے لگاتا نصرت کو چود رہا تھا نصرت اب چیلانے کی بجائے آہیں بھرتی مزے سے چداوتی ہوئی چدائی کو انجوائے کر رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ گرم کرنے والی دوا نصرت کو گرم کر گئی اے میں یہ سوچ رہا تھا کہ ارمان کراہتا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہوگیا نصرت بھی جھٹکے کھاتہ فارغ ہوگئی دونوں بہن بھائی فارغ ہوکر ایک دوسرے کو چومنے لگے میں واشروم چلاگیا اور وہاں سے نکل کر کیچن میں کھانا کھانے لگا۔

              Comment


              • #97
                بہت اعلیٰ جناب

                Comment


                • #98
                  ہائے ۔ہائے نصرت تری جوانی ۔۔۔ دوائی نے تو نصرت پر اثر کرنا ہی تھا۔۔۔ کیونکہ نصرت ہے ہی ایسی چیز ۔۔۔ کمال کر دیا جناب۔۔۔ مز۔۔۔مز۔۔۔مزہ آگیا ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

                  Comment


                  • #99
                    wah wah kia kamal ki update maza a gaya kamal mazeed zabardast hoti ja rahi hai

                    Comment


                    • میں کھانا کھا رہا تھا کہ جویریہ بھی ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی ہم دونوں باپ بیٹی کھانا کھانے میں مصروف تھے جویریہ بولی ابو راتی تے مدیحہ نوں کم پا دتا نے میں ہنس کر بولا میری دھی تیری بھین اب آگ ہی بڑی ہا نالے میں آکھیا کہ مدیحہ نوں ہنڑ ناں تڑپائیے جویریہ ہنس کر بولی ابو اے تے چنگا کیتا ہنئے بھائی وی ہنڑ ساڈے نال شامل ہوگیا اے ساڈی پھدی مارن اچ میں بولا میری دھی اے تے چنگا ہویا نہیں تے میں ہکلا اپنی دھیاں دی گرم جوانی نوں ٹھڈا کردے کردے آپ ٹھڈا ہو جانا ہا جویریہ ہنس کر بولی ابو جی انج وی گل کوئی نہیں اسی تھوانوں ٹھڈا نہیں ہوونڑ دیندے میں کھانا کھا چکا تھا میں اٹھا اور ہاتھ دھونے لگا کہ اتنے میں مدیحہ اندر داخل ہوئی مدیحہ رات والی چدائی سے ابھی آٹھ کر آئی تھی میں اسے دیکھ کر بولا صدقے جاواں میری دھی آگئی مدیحہ ہنس کر بولی جی ابو اور میرے پاس آکر مجھے باہوں میں بھر کر سینے سے لگا کر دبوچ لیا مدیحہ کے تنے ممے میرے سینے میں دب گئے میں نے بھی اپنی بیٹی کو باہوں میں بھر کر سینے سے دبوچ کر اپنی جپھی میں بھر کر دبوچ لیا اور نیچے ہوکر اس کی گال چوس لی مدیحہ نے اوپر ہوکر میرے ہونٹ دبا کر چوسنے لگی میں سسک کر کراہ سا گیا اور اپنی بیٹی کہ زبان دبا کر چوستا ہوا سسکنے لگا مدیحہ سسک کر کراہ کر میری زبان چوستی بولی اففف ابو راتی تے تساں اخیر کر دتی میں بولا کیوں میری دھی ڈھیر ہی اخیر ہوگئی مدیحہ بولی اففف ابوو نا پچھو کجھ ڈھیر ہی اخیر ہو گئی میں بولا کی بنیا مدیحہ بولی ابو تھواڈے کھردرے لن تے میری کنواری پھدی چیر پاڑ کے میری جان کڈھ لئی اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی ابو تھواڈا لن تے ایتھوں تک لاہ گیا میرے اندر میں یہ سن کر مدیحہ کے سینے کو وہاں سے چوم کر بولا اففف سوری میری جان میں کی کردا میری دھی تیری جوانی دی آگ میرے اندر ایسی آگ لئی کہ میرے توں رہیا نہیں گیا مدیحہ نے میرا سر پکڑا اور بولی ابووو خیر اے کوئی گل نہیں ساڈی آگ بجھانی وی تے تساں ہی ہے تھوانوں چھٹی اے جیویں مرضی آگ بجھاؤ اور میرے ہونٹ چومنے لگی مدیحہ کو مجھے چومتا دیکھ کر بولی مدیحہ تینوں تے ابو ہک واری ہی یدھا میرے کولو پچھ ابو دے ظالم لن میری کنواری پھدی نوں دو واری یدھا تے پھدی لیرو لیر کردتی میں ہنس دیا اور جویریہ کو بھی اپنے سینے کے ساتھ کھینچ کر دبوچ لیا جویریہ سسک گئی اور اپنی بہن مدیحہ کے ساتھ مل کر میرے ہونٹ چومنے لگی دونوں بہنیں باپ کے سینے سے لگیں باپ کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی سسکنے لگی۔ میرا لن دونوں بیٹیوں جویریہ اور مدیحہ کو سینے سے لگا کر چوستے ہوئے تن کر کھڑا ہو چکا تھا جویریہ نے نیچے ہاتھ ڈالا اور میرے لن کو دبا کر مسلنے لگی اپنی بیٹی کے ہتھ میں لن محسوس کرکے میں سسک کر کراہ سا گیا اتنے میں نصرت اندر داخل ہوئی اور میرے سینے سے لگی اپنی بہنوں کو دیکھ کر مسکرا دی اور بولی واہ ابو جی آگے تے آندیاں نال میرے تے پھیرا ہوندے ہا آج دوہاں دھیاں نوں یہونڑ دے چکر اچ ہو میں مسکرا کر بولا آیا تیرے کول ہی ہاس پر توں بھرا آگے ٹنگاں چا کے پئی ہائیں میں آکھیا بھرا دے لن توں سہی مزہ لئے لوے مڑ میں یہ لیساں نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی ہنڑ میں ویکی ہاں میں ہنس کر بولا پر ہنڑ میں نہیں وہلا نصرت بولی ابو اے تے زیادتی اے پہلے مینوں آگ لائی تے ہنڑ میرے نیڑے وی نہیں آ رہے میں ہنس دیا نصرت بولی ابو سچی گل اے صبح جہڑی گرم دوائی تساں پوائی اے اس تے بڑی آگ کا دتی میرے اندر میں ہنس کر بولا میری جانڑ اور بھینساں دا ددھ چونڑ واسطے بھینساں نوں لائی دی او تے بڑی گرم ہوندی نصرت بولی ابو وت مینوں پوائی کیوں ہے جے میری آگ بجھانی نہیں میں بولا میری جان کڈھ لیندے آں آگ تیری نصرت کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ دوا کی وجہ سے آگ میں جل رہی ہے مجھے لگا کہ غلطی ہو گئی ہے کیونکہ وہ دوا تو بہت گرم ہوتی ہے اس نے نصرت پر فل اثر کردیا تھا مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں نصرت کی آگ بھڑک نا جائے اور یہ نا ہو یہ کہیں باہر منہ مارنے لگ جائے اپنی آگ بجھانے کےلیے پھر میری ساری محنت تو رائیگاں گئی میں نے تو اس لیے دوا دی تھی کہ میرے لن سے چدائی کے بعد نصرت سنبھل نہیں پاتی تھی اور میرے لن کی رگڑ برداشت نہیں کر پاتی تھی مجھے لگا کہ میں نے زیادہ مقدار میں دے دی جو اب اپنا اثر تو دکھائے گی جبکہ دوسری طرف اپنی بیٹیوں کو چود چود کر میرے اندر بھی اب وہ والی پھرتی نہیں رہی تھی جبکہ ارمان بھی کچھ خاص نہیں کرپایا ہوگا میں سوچنے لگا کہ غلط ہی کیا مجھے اگر دینی بھی تھی تو اپنی بیٹی کو تھوڑی مقدار میں دے دیتا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھٹکا میں چونکا اور پیچھے ہوگیا جویریہ اور مدیحہ بھی الگ ہوگئیں میرا لن تن کر کھڑا تھا جس سے آگے ٹینٹ بنا ہوا تھا میں گھبرا گیا کہ کیسے جاؤں میں بولا ارمان کدھر نصرت مسکرا کر میرے لن کو دیکھ کر بولی ابو او تے اندر واشروم اچ میں جاندی آں دیکھنے میں نصرت کو دیکھا تو وہ بغیر برا کے تھی جس سے اس کے تنے مموں کے اکڑے نپلز صاف نظر آرہے تھے جبکہ قمیض کے کھلے گلے سے نصرت کا گورا سینہ مموں کی گہری لکیر تک نظر آ رہا تھا اوپر سے نصرت کے مموں کی لکیر میں اترا میرے نام کا لاکٹ بھی پھنسا تھا نصرت پوری سکیس رینڈ بنی تھی میں بولا انج کنج جاسیں نصرت ہنس دی اور بولی انج نہیں جاندی وہ اندر گئی اور دوپٹہ لے کر سینے پر ڈال لیا مدیحہ اور جویریہ بھی اندر چلی گئیں میں بیٹھ گیا نصرت جس کے اندر آگ لگی تھی نصرت کی پھدی اب بھی لن مانگ رہی تھی وہ چلتی ہوئی گانڈ مٹکاتی باہر گئی نصرت نے دوپٹہ سامنے سینے پر ڈال رکھا تھا جبکہ اس کی پھیلی چوڑی گانڈ جو قمیض اور شلوار میں کسی تھی وہ دوپٹے سے ڈھکی نہیں تھی نصرت نے جیسے ہی گیٹ کھولا تو سامنے ہمارے گاؤں کا مولوی کھڑا تھا جسے سب لوگ قاری کہتے تھے قاری کی عمر 40 سے 45 سال تک تھی لیکن گاؤں کے گھروں سے آئی دیسی گھی اور دودھ کی نیازیں کھا کھا کر وہ تگڑا جوان لگتا تھا لمبا قد سڈول پھیلا ہوا تگڑا مضبوط جسم پورا پہلوان لگتا تھا چھوٹی ہی عمر میں گاؤں کا مولوی بن گیا تھا اس لیے میری بیٹیاں نصرت جویریہ اور مدیحہ قاری کے پاس ہی پچپن میں پڑھیں تھیں قاری بھی دیسی گھی کی نیازیں کھا کر بھر پور زور میں تھا اور پھر پنڈ کی عورتوں کے ساتھ آکھ مٹکا بھی خوب کرتا تھا اس لیے اس کی جھجھک اتری ہوئی تھی نصرت کی بھرپور جوانی دیکھ کر وہ چونک گیا نصرت نے آگے دوپٹہ تو کر رکھا تھا لیکن نصرت کی جوانی ایسی شاندار تھی کہ دوپٹے سے بھی جھانک رہی تھی جسے دیکھ کر قاری نے ایک نظر میری بیٹی نصرت کے پورے جسم پر پھیری تو نصرت کی جوانی دیکھ کر اسکے منہ میں پانی بھر آیا قاری نے تو نصرت کا بچپن ہی دیکھ رکھا تھا جب وہ چھوٹی سی تھی آج پوری جوان اور آگ سے بھری نصرت دیکھ کر قاری بھی مچل گیا نصرت بھی قاری کو گھونٹ بھرتا دیکھ کر سمجھ گئی کہ قاری کس نظر سے اسے دیکھ رہا ہے ایک لمحے تو وہ چونکی کیونکہ قاری اسکا استاد تھا لیکن قاری کی نظر میں شہوت دیکھ کر نصرت بھی پگھل گئی نصرت کے اندر تو پہلے ہی آگ لگی قاری کے اپنے لیے جذبات دیکھ کر تو نصرت اور بھڑک گئی نصرت کے ذہن نے سوچا کہ یہ تو میرا استاد ہے احترام کی جگہ ہے پر نصرت کا دل زور سے دھڑک کر بولا نصرت استاد تھا پر اب تو وہ تیرے جسم میں دلچسپی لے رہا ہے توں کیوں رک رہی ہے یہ سوچ کر نصرت مچل گئی اور بے اختیار اپنی گت اٹھا کر آگے اپنے مموں پر ڈال کر مست نظروں سے قاری کو دیکھ کر مسکرا دی قاری نے نظر نصرت کی نظر سے ملائی تو اسے نصرت کی آنکھوں میں بلا کی شہوت اتری نظر آئی قاری سمجھ گیا کہ تیر ٹھیک نشانے پر لگا ہے تو نصرت کو دیکھ کر وہ بھی مسکرا دیا اور نصرت کے انداز سے سمجھ گیا کہ کام بن جائے گا نصرت اپنے استاد کو پہلی ہی ملاقات میں فل لفٹ کروا رہی تھی جبکہ قاری نصرت لفٹ کا پوری طرح سے جواب دے رہا تھا دونوں آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہ گئے تھے میرا لن بھی تب تک بیٹھ چکا تھا میں نکلا اور باہر گیا تو میں چونک گیا کہ دروازے پر قاری کھڑا ہے اور میری بیٹی نصرت اسے فل لفٹ کروا رہی ہے میں یہ دیکھ کر ڈر سا گیا اور ہلکا سا کنگھورا مارا جس سے قاری سن کر سنبھل گیا نصرت تو قاری کے اندر اتر چکی تھی اسے میرا کھنگوارا تو سمجھ نہیں آیا لیکن قاری کے سنبھلنے پر نصرت بھی چونک کر مڑی اور پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا میں سمجھ گیا کہ میری بیٹی نصرت اپنے استاد کے ساتھ ٹانکا فٹ کر رہی تھی لیکن میں نے اگنور کرتے ہوئے کہا قاری صاحب آئے ہینڑ جس پر نصرت چونک کر بولی جی ابو اور دروازہ کھلا چھوڑ کر پی مڑ گئی اور تیزی سے واپس چلدی جس سے نصرت کی موٹی گانڈ اور کمر قاری کی طرف ہوگئی نصرت کے تیز چلنے سے نصرت کی چوڑی پھیلی ہوئی گانڈ مٹکنے لگی قاری کی نظر نصرت کی گانڈ پر پڑی تو نصرت کی اتھل پتھل ہوتی گانڈ کے ساتھ وہ بھی مچل کر گھونٹ بھر کر رہ گیا میں سمجھ گیا کہ قاری میری بیٹی کے جسم پر مر مٹا ہے جس پر میں تھوڑا شرمندہ ہوا پر قاری نے بھی موقع سمجھتے ہوئے نظر ہٹا لی اور مجھے دیکھ کر بولا آؤ جی ندیم صاحب کی حال اے میں بولا جی ٹھیک قاری صاحب تسی سناؤ قاری گاؤں کا مولوی تھا اسلیے سب اسکی عزت کرتے تھے میں بھی اسے عزت دے کر اندر لایا۔ لانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن نا لاتا تو میری ہی بے عزتی تھی قاری صاحب اندر آئے میں نے گیٹ بند کیا تو نصرت نے کیچن میں داخل ہوتے ہوئے مڑ کر ایک نظر بھر کر قاری کو دیکھا قاری بھی نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت بھی مسکرا دی میں مڑا تو اپنی بیٹی نصرت اور قاری کو مسکراتا دیکھ لیا نصرت مجھے دیکھتی اندر چلی گئی میں تھوڑا سا پریشان ہوا کہ یہ تو غلط ہو رہا ہے میں اپنی بیٹیوں کو باہر منہ مارنے سے روکنے کےلئے خود چود ڈالا لیکن بیٹیاں پھر وہی کر رہی ہیں خیر میں نے اگنور کرتے ہوئے قاری سے باتیں کرنے لگا اور بولا ہور سناؤ جناب آج ساڈے گھر دا کیویں راہ بھل گئے قاری پہلے تو تھوڑا گھبرایا ہوا تھا پر مجھے نارمل دیکھ کر وہ بھی پر اعتماد ہوگیا اسے لگا کہ میں اگنور کر رہا ہوں اس لیے وہ بھی پر اعتماد ہوکر بولا کجھ نہیں بس میں آکھیا آج تھواڈے آل چکر لا لواں بڑے دن ہوگئے تھوانوں ملیا نہیں میں مسکرا دیا اور صحن میں پڑی چارپائی کی طرف لے کر چل دیا اور صحن میں چارپائی پر بٹھا دیا میں دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا سامنے ہی اتنے میں اندر سے عارفہ نکلی وہ چادر میں لپٹی تھی اور آکر قاری صاحب سے سلام دعا کی وہ بولی قاری صاحب آج کیوییں سادے در تے قاری مسکرا کر بولا کجھ نہیں بس ہک کم ہا اتنے میں نصرت اندر سے نکلی اسکے ہتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور مست نظروں سے قاری کو دیکھتی ہوئی آنے لگی اس نے دوپٹہ سر پر ایسے لے رکھا تھا کہ نصرت کا سینہ اندر سے جھانک رہا تھا قاری نصرت کو دیکھا اور مجھے دیکھا تو میری نظر نیچے تھی نصرت چلتی ہوئی پاس آئی اور جھک کر مستی سے قاری کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی اور دودھ سے بھرا شیشے کا گلاس ہتھیلی پر رکھ کر قاری کی طرف بڑھاتی ہوئی قاری کی نظروں میں مستی سے دیکھنے لگی نصرت کے جھکنے سے نصرت کا دوپٹہ تھوڑا اوپر نیچے ہوگیا جس سے نصرت کے لٹکتے مموں کی لکیر صاف نظر آنے لگی جس پر قاری کی نظر پڑی تو قاری میری بیٹی نصرت کا گورا سنیہ اور مموں کی لکیر میں لٹکتا میرے نام این کا لاکٹ دیکھ کر مچل گیا نصرت بھی قاری کو یہی دکھانا چاہ رہی تھی قاری بھی دیکھ کر مچل گیا اور نصرت کی آنکھوں میں دیکھتا گلاس پکڑ لیا نصرت پیچھے اپنی ماں کے پاس کھڑی ہوگئی قاری بولا اے تے تکلف ہی کیتا نہے نصرت بولی نہیں استاد جی تکلف کیوں اتنے دنوں بعد تسی آئے ہو ساڈے گھر اتنا تے بنڑدا اے قدیم نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا عارفہ بولی قاری صاحب چاہ بنا ہوئیے قاری بولا نہیں نہیں اے کافی ہے اور دودھ منہ سے لگا کر پینے لگا قاری کو دودھ پیتا دیکھ کر عارفہ بولی قاری حکم کرو کی کم ہا نصرت بھی پاس کھڑی قاری کو دیکھنے لگی قاری دودھ کے دو گھونٹ بھر کر بولا اصل اچ میری بیگم بچے لئے کے میکے گئی ہے کجھ دناں تو تے میں گھر اچ ہکلا آں صبح دی روٹی تے بچے لئے آندے ہینڑ دوپہر نوں وی صبح دی کھا لیندے ہاں شام نوں پنڈ ابو روٹیاں لیندے نہیں صبح ہی لیندے آں اس توں شام دی روٹی چاہیدی اے اگر مل سکے تے عارفہ یہ سن کر ہنس دی اور بولی لاہ قاری صاحب مل کیوں نہیں سگدی میں تے آپ پکا دیساں گئی جدو تک تھواڈی بیگم نہیں آندی بےشک آکے روٹی کھا گئے کرو نصرت یہ سن کر چہک کر بولی لہ امی استاد جی اوری ہنڑ روٹی کھاوںڑ اسنڑ سادے گھر میں تے آپ اپنے استاد اوراں نوں روٹی گھر پہنچا آساں جدو تک استانی ہوری نہیں آندیاں یہ سن کر مولوی دودھ کا گھونٹ بھرتا ہوا مسکرا کر نصرت ہو دیکھنے لگا نصرت بھی مولوی کو دیکھنے لگی میں یہ سن کر ٹھٹھک گیا کہ نصرت تو قاری سے ملنے کا راستہ بنا رہی ہے میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت قاری کو مستی سے غور رہی تھی میں یہ سب دیکھ کر پریشان ہوگیا میں اب قاری کے سامنے منع بھی نہیں کر سکتا تھا قاری اوپر سے بولا نہیں نصرت توں نا آویں میں کوئی شاگرد بھیج دیساں نصرت چہک کر جلدی سے بولی نہیں نہیں استاد جی تسی سادے استاد ہو تھواڈی خدمت تے ساڈا فرض اے نا میں شام نوں آپ روٹی پہنچا دیساں قاری بھی تھوڑا حیران ہو رہا تھا کہ نصرت بے جھجھک ہی میرے پاس آنے کو تیار ہے قاری بھی تھوڑا جھجھک رہا تھا کہ جو بھی ہو نصرت اس کی شاگرد تھی پر قاری تو پہلے بھی کئی شاگردنیوں پر ہاتھ صاف کر چکا تھا نصرت کو بھی پتا تھا کیوںکہ لڑکیوں اور عورتوں کی آپس میں بات چیت ہوتی ہی رہتی ہے اس طرح کی اس لیے نصرت تو ابھی اوتاولی ہو رہی تھی قاری کے پاس جانے کو قاری بھی نصرت کی بے قراری سمجھ گیا اس لیے مزید منع نا کیا اور دودھ پی کر گلاس عارفہ کو تھما کر بولا اچھا میں چلدا آں شام نوں روٹی آپڑا دینا قاری کی بات پر نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور میں اٹھ کر قاری کو دروازے پر چھوڑ کر خود واپس اندر کیچن میں آیا تو نصرت اپنی امن کے پاس کھڑی تھی میں تھوڑا سخت لہجے میں بولا نصرت اے کی کرو ہیں توں اس کم تو روکن کانڑ میں تیری پھدی مار رہیا آں تے توں وت ہی سادی عزت روکو ہیں نصرت بولی ابو جی کجھ نہیں ہوندا ہنڑ تھواادے ہک دے لن تے میرا گزارہ نہیں ہوندا اور مسکرا دی میں بولا نصرت اے مذاق نہیں نصرت بولی ابو میں آپ سیریس آں نالے میرا گناہ تے کوئی نہیں اس اچ تساں آپ مینوں ایسی دوائی پوائی اے کہ ہنڑ میری آگ میرے قابو توں باہر اے ہنڑ اے میں بجھانڑی تے ہے ناں میں بولا نصرت میں تے ارمان دو آں ساری رات تینوں پیلاں گے نصرت بولی ابو جی نا کرو نا اور میرے سینے لگ کر بولی بس ابو جی صرف ہک واری جاونڑ دیو وت نہیں جاندی میں بولا نصرت میں تے ارمان راتی گولی کھا کے دوویں تیری پھدی پیلاں گے توں رات نوں ہی ٹھڈا ہوجانا وت کسے دی لوڑ نہیں نصرت بولی ابو میں بولا بس نصرت میں تینوں باہر جانڑ دی اجازت نہیں دینی جو ہوجائے نصرت چپ ہوکر مجھے دیکھنے لگی میں نصرت کے ہونٹوں کو منہ میں بھر کر دبا کر چوسنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی مجھے چومنے لگی نصرت کا منہ کافی گرم ہو رہا تھا میں یہ محسوس کرکے مچل گیا نصرت کے جسم کی حرارت مجھے صاف محسوس ہورہی تھی میں نصرت کو چوستا ہوا باہوں میں بھر کر اٹھا لیا اور لے کر اندر چلا آیا اور نصرت کو بیڈ پر لٹا کر اوپر ہوکر اپنا قمیض اتار دیا نصرت نے بھی اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا نصرت ہانتپی ہوئی سسکنے لگی میں نے اپنا کہنی جتنا لن کھینچ کر باہر نکالا اور مسلنے لگا نصرت نے اپنی شلوار کو کھینچ کر اتار دیا اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی پھدی میرے سامنے کھول دی اپنی بیٹی نصرت کی کھلی پھدی اپنے سامنے دیکھ کر میں مچل گیا نصرت نے اپنی پھدی میرے سامنے کھول دی اور ہانپنے لگی میں نے لن مسل کر لن کا ٹوپہ اپنی بیٹی نصرت کی پھدی پر رکھا اور اوپر ہوکر دھکا مارا جس سے میرا کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتر گیا جس سے نصرت کراہ کر تڑپ کر کرلا گئی لن اندر جاتے ہی مجھے لگا جیسے میرا لن تندور میں اتر گیا ہو میں تڑپ کر رکراہ سا گیا نصرت کی پھدی میں آگ لگی تھی یہ اسی دوائی کا اثر تھا میں کراہ گیا اور نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے دبا کر لن کھینچا اور ٹوپے تک لن کھینچ کر پوری شدت سے کس کس کر دھکے مارتا اپنی بیٹی نصرت کو چودنے لگا نصرت تڑپ کر کراہ گئی اور کراہتی ہوئی مزے سے ہانپنے لگی میں گانڈ کھینچ کر کر پوری شدت سے دھکے مارتا اپنی بیٹی کی پھدی میں لن پوری شدت سے آرپار کرتا نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا نصرت میرے نیچے پڑی کراہتی ہوئی مزے سے ہانپتی ہوئی ہینگنے لگی اور نیچے گانڈ اٹھا اٹھا کر میرے دھکوں کا جواب دینے لگی جس سے اونچی اونچی تھپ تھپ کی آواز نکل کر کمرے میں گونجنے لگی نصرت میرا کہنی جتنا لن اب برداشت کرتی ہوئی کراہ رہی تھی میرے ان دھکوں کے سامنے جہان میری بیٹی مرنے والی ہوجاتی تھی اور اونچی حال حال کرتی میرے ترلے منتیں کرتی تھی اب وہ کراہ کر میرے لن جے جھٹکے برداشت کر رہی تھی نصرت کی پھدی میرے لن کو دبوچ کر نچوڑ رہی تھی نصرت کے اندر اتنی آگ لگی تھی کہ میں نصرت کی آگ برداشت نا کرپایا اور کراہتا ہوا آہیں بھرتا لن جڑ تک اپنی بیٹی نصرت کی پھدی میں اتار کر فارغ ہوگیا نصرت بھی آہیں بھرتی جھٹکے مارتی میرے ساتھ فارغ ہوگئی میں نڈھال ہوکر نصرت کے اوپر گر کر کراہنے لگا نصرت کی پھدی میرا لن جڑ تک دبوچ کر اپنے اندر نچوڑ گئی اور میں آہیں بھرتا کراہتا ہوا نصرت کے اوپر نڈھال پڑا ہانپنے لگا اب گزرتے دن کے ساتھ میری مردانگی میری بیٹیوں کی گرم جوانی کو ٹھنڈا کرتی کمزور ہو رہی تھی کیونکہ وہ تینوں آگ کا پہاڑ تھیں میں تو اب ڈھل رہا تھا اس لیے اب اچھا خاصا محسوس ہوتا تھا اوپر سے نصرت تو اب پہلے سے بھی زیادہ گرم تھی جس کی وجہ سے اب میری بیٹیاں مجھ سے سیٹسفائی نہیں ہوپا رہی تھیں اور اب وہ کسی اور مرد کی تلاش میں تھیں میں اوپر پڑا نصرت کے ہانپ رہا تھا نصرت بولی ابو جی بس ہو گئی تھواڈی تے میں ہانپ کر بولا ہوں میری جان ہور وت کی کراں ہنڑ تے میں بڈھڑا وی ہاں تے تسی جوان تے اتھریاں نصرت مسکرا کر میرا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر بولی ابو میری آگ ہلے ٹھڈی نہیں ہوئی ابو کجھ نہیں ہوندا جے میں باہر کسے کولو چدوا لوں خاص طور تے قاری صاحب جئے بندے کولو۔ ابو تھوانوں ڈر ہے کہ تھواڈی ہے کہ تھواڈی عزت ہاں باہر مرداں کول جاساں تے تھواڈی عزت تے داغ لگسی میں بولا ہاں میری دھی میں وی اے ہی آکھدا پیا نصرت بولی ابو قاری صاحب اوراں دی لوگ عزت کردے ہینڑ تے اوہناں نوں پنڈ آلے نیک تے شریف بندہ سمجھدے ہینڑ میں اوہناں نال اے شرط رکھساں کہ اور میرے نال تعلق دی گل کسے نال ناں کرسن ابو میں اوہناں نوں اکھساں کہ میرا پیو بڑا ڈھاڈھا اے اے گل باہر نا نکلے ابو ناکے او میرے استاد وی تے ہینڑ میں اوہناں کول پڑھدی وی تے رہی آں کجھ نہیں ہوندا اور میرے نال لوڈ تے پیار کرسن میں اس بات پر ہنس دیا میرے دل کو بھی نصرت کی بات لگی کیوں کہ میں جانتا تھا اب میں جتنا بھی روکنے کی کوشش کروں نصرت باہر اگلے ہر حال میں چدواظے گی میں اس کی آگ کے سامنے ویسے بھی بند نہیں باندھ سکتا تھا میں اسے چود کر اب تھک جاتا تھا جیسے اب تھکا پڑا تھا اس لیے میرے ذہن میں بھی آیا کہ کیوں نا نصرت کو اس کے حال پر چھوڑ دوں جو ہو گی دیکھی جائیگی ویسے بھی میں نے کئی لڑکیوں کو چودا ہے کچھ کے گھر والوں کو پتا ہوتا تھا لیکن ہمیشہ بات کو اگنور کر دیتے تھے اس لیے میری بیٹی اب کہیں باہر منہ مارنا چاہتی ہے تو میں بھی نہیں روکتا کرنے دیتا ہوں جس پر میں بولا ٹھیک ہے میری جان پر صرف قاری کولو یہاونڑ دا مطلب صرف قاری ہی کوئی ہور مرد نہیں نصرت اس بات پر کھلکھلا کر ہنس کر مچل کر بولی ابو جان اففف تھواڈا کنج شکریہ ادا کراں میں قسمیں تسی فکر ہی نا کرو میں مسکرا دیا نصرت نے میرا سر دبا کر اپنے ہونٹوں پر رکھ کر دبا کر چوسنے لگی میں بھی اپنی بیٹی نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا اس کی کمر مسلنے لگا میرا لن جو میری بیٹی کہ پھدی میں فارغ ہوکر مرجھا چکا تھا نصرت کی پھدی کی آگ سے پھر سے تن کر کھڑا ہوا رہا تھا جسے نصرت کی پھدی دبا رہی تھی نصرت نے اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھائیں اور میری کمر مسلتی ہوئی نیچے سے اپنے گانڈ کو ہلا کر میرا لن اپنی پھدی کے آرپار کرنے لگی اتنے میں دروازے سے میری دوسری بیٹی جویریہ داخل ہوئی اور مجھے نصرت کے اوپر دیکھ کر بولی واہ ابو جی اپنی وڈی دھی دی پھدی نوں ہی ٹھنڈا کردے رہندے ہو جس پر میں نے چونک کر اسے دیکھا تو وہ پاس آکر میری کمر کو دبا کر دھکا دیا جس سے میں دوسری طرف گھوما اور نصرت کے اوپر سے ہٹ کر آگے کو گر گیا ۔یرا لن نصرت کی پھدی ے نکل گیا جس سے نصرت بولی ہااااا نی جویرو کیڈی ہیں سہی طرح پھدی تے مروان دے ابو کولو جویریہ بولی باجی ہلے توں نہوں رجی آگے پورے گھنٹے توں بھائی ہیٹھ پئی رہی ہیں چدوا چدوا کے نہوں رجی ہنڑ ابو نوں قابو کر گئی ہیں نصرت ہنس دی اور سسک کر بولی اففف جویرو کی دساں کیڈی آگ لگی اے اور جویریہ کو اپنے اوپر کھینچ لیا جویریہ نصرت کے اوپر گر کر بولی باجی توں تے ہنڑ کوئی باہر دا مرد گھیر اور ہنس دی نصرت سسک کر بولی سسسس لگ تے کجھ انج ہی رہیا اے اور اپنی انگلیاں رکھ کر اپنی پھدی کو مسلنے لگی جویریہ ہنس کر بولی باجی ہنڑ بس کر تے جا مینوں وی ابو کولو پھدی دا کچومر کڈھانڑ دے اور ہنس کر میر طرف بڑھی نصرت ایسے ہی اٹھ کر باہر چلی گئی جویریہ پاس آ کر بولی ابو اس دن تو بعد میرے تے نیڑے ہی نہیں آئے جویریہ نے ایک کسا ہوا سلیولیس قمیض ڈال رکھا تھا جس سے جویریہ کے تن کر کھڑے ممے ہوا میں اٹھ کر کسے ہوئے تھے جویریہ اپنا سینہ نکال کر بولی ابو کی تھوانوں میری جوانی پسند نہیں آئی ایدو تے ویکھو میرا انگ انگ تھواڈے واسطے تیار کھڑا اے یہ کہ کر جویریہ نے اپنے ممے زور سے اوپر نیچے ہلائے اور سسک کر پکڑ کر بولی اففف ابووو ویکھو تے سہی اہناں آلو تھواڈا پیار منگ رہے ہینڑ میں نے آگے ہوکر جویریہ کے مموں کو دبا کر پکڑ لیا جس سے جویریہ سسک کر کراہتی ہوئی اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس سے جویہ ننگی ہوکر میرے سامنے آگئی اور جھک کر مممے میرے منہ میں ڈال ل دئیے میں بیڈ کی ٹیک سے لگ کر بیٹھا تھا میں جویریہ کے ممے دبا کر مسلتا ہوا اسے چوستا ہوا اسے پیچھے دھکا دیا اور اس کے اوپر آگیا جویریہ نے شلوار پہلے ہی نہیں ڈال رکھی تھی میں جوہری ہے مموں کو منہ میں بھر کر دبوچ کر چوسنے لگا جویریہ کے مموں کا ابھار میرے منہ میں اندر تک جا رہا تھا ہم دونوں باپ بیٹی فل مزے کی پیک پر تھے جویریہ میرا سر دبا کر ممے چسوا کر سسکتی ہوئی کراہ کر بول رہی تھی اااہ اففف ابووووو میر گئی میرا لن تن کر کھڑا میری بیٹی کی پھدی سے لگ رہا تھا جسے جویریہ نے محسوس کرلیا اور آوار اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر اپنی پھدی کھول کر میرا لن نیچے ہاتھ کرکے پکڑ کر مسلا اور میرا لن کو اپنی پھدی کے کے دہانے پر رکھ کر اپنی گانڈ اوپر کو دبا دی ساتھ ہی میں نے بھی ایک جھسا مار کر سٹ ماری اور اپنا کہنی جتنا لمبا موٹا لن آدھا اپنی بیٹی جویریہ کی پھدی ہے پار کردیا جس سے جوریہ تڑپ کرلا کر بولی ااااہ اففففف ابببببوووووووو مرررر گئییی ااااااا آااااااا آاااااااہ میں مما چھوڑا اور جویریہ کہ ٹانگوں کو دبا کر کاندھوں سے لگا کر گانڈ کھینچ کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن پورا یک لخت جڑ تک جوہری کی پھدی کے پار کردیا جس سے جویریہ کرلا کر تڑپی اور بکا گئی میں رکے بغیر گانڈ کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا اپنی بیٹی جویریہ کی پھدی کو پوری شدت سے چودنے لگا میرا لن تیزی سے میری بیٹی جویریہ کی پھدی کو مسلتا ہوا چیر کر اندر باہر ہوتا جوریہ کی کرپاین نکالنے لگا میں بھی اپنی بیٹی جویریہ کی پھڑکتی پھدی کی آگ سے تڑپ کر دھکوں کی سپیڈ بڑھا رہا تھا میری بیٹیوں کی آگ انہیں ٹڑپا رہی تھی میں کس کس کر دھکے مارتا پوری شدت سے اپنی بیٹی جویریہ کی پھدی کا کچومر نہاتا چود رہا تھا میرا سخت لن تیزی سے اندر باہر ہوتا جویریہ کی پھدی کے ہونٹوں کو رگڑ کر چیر رہا تھا جس سے دونوں مزے سے کراہ کر تڑپ رہے تھے میں ٹانگیں دبا کر کھینچ کر دھکے پہ دھکے مارتا جوریہ کی پھدی کو رگڑ کر چود رہا تھا میرے تیز دھکوں سے میرے لن کہ رگڑ سے میری بیٹی کی پھدی رگڑ کھا رہی تھی جس سے میری بیٹی جویریہ تڑپتی ہوئی کرلاتی آہیں بھرتی ہینگ رہی تھی ہممممم ہمممم ااااااہ ابووووووو ابوووووو اااااااہ اااااہ ااابوووووو اااااہ ہورررر تیییززززز تیززززز ابوووووو تیززززز میں بھی پوری شدت سے دھکے مارتا پیک پر تھا جوہری بھی جھٹکے کھاتہ کرلانے لگی میں دو سے منٹ تک بھرپ دھکے مارتا اپنی بیٹی کی پھدی چودتا فارغ ہوکر کراہ کر نڈھال ہوکر اپنی بیٹی جویریہ کے اوپر گر گیا جویریہ بھی کراہین بھرتی جھٹکے کھاتہ فارغ ہونے لگی تھی جس سے میں تڑپ کر ہانپتا ہوا اوپر گر گیا میرا لن جڑ تک میری بیٹی جویریہ کی پھدی میں اتر کر فارغ ہو رہا تھا جسے میری بیٹی کی پھدی دبوچ کر نچوڑ گئی دو منٹ تک ہم نڈھال پڑے رہے جوہری سسکتی ہوئی مجھے چومنے لگی میں اوپر پڑا جویریہ کو چوم رہا تھا جویریہ بولی ابووووو سواد اجاندا تھواڈے لن دا میں بولا میری جان تیری پھدی وی کجھ کم نہیں جویریہ ہنس دی میں اوپر ہوا اور لن کھینچ کر نکال لیا جویریہ سسک کر بولی اففف ابو ہنڑ مزہ آئے گا جدو تسی تے بھائی تک کے یہسو ساڈی پھدی میں پیچھے ہوکر لیٹ گیا اور بولا آج میں ارمان نوں اکھساں گھر ہی اسی جلدی جویریہ بولی ابو ہنڑ اس نوں آکھنڑ دی وی لوڑ نہیں آپے اسی میں مسکرا دیا اور کچھ دیر لیٹ کر دکان پر چلا گیا میں وہاں دیر تک کام کرتا رہا مجھے کچھ کمزوری آج محسوس ہو رہی تھی اس لیے سوچا کچھ طاقت بنا لوں اور پھر خشک میوہ لے کر اسے دودھ میں پھینٹ کر اچھی طرح پینے لگا ادھر نصرت آج بہت ہی ایکسائیٹڈ تھی اس کے اندر آگ کا الاؤ پک رہا تھا آج پہلی بار وہ گھرکی دہلیز پار کرکے کسی غیر مرد کے پاس جا رہی تھی وہ بھی اس کا بچپن کا استاد جو اسے پڑھاتا تھا۔ استاد کے ساتھ تو بڑا احترام والا رشتہ ہوتا ہے لیکن نصرت تو آج اپنے استاد سے ناجائز تعلق بنانے جا رہی تھی یہی سوچ سوچ کر نصرت کی پھدی پگھل رہی تھی نصرت تھوڑی دیر میں کھانا بنانے لگی آج وہ بڑے احتمام سے اپنے استاد اور یار کےلیے کھانا بنا رہی تھی نصرت کو کھانا بناتا دیکھ کر عارفہ ہنس دی اور بولی واہ میری دھی آج اپنے یار دی سہی خدمت کریں جویریہ پاس ہی کھڑی تھی وہ بولی ہائیں کہڑا یار نصرت ہنس دی عارفہ ہنس کر بولی نی تینوں نہیں پتا آج تھواڈا استاد آیا ہا گھر قاری صاحب نصرت تے عاشق ہو گیا جویریہ چونک کر بولی ہائیں امی استاد جی آئے ہانڑ پر او تے بڑے شریف بندے ہینڑ عارفہ ہنس دی نصرت مسکرا کر بولی ہووے پیا شریف پر تیری بھین دی جوانی اس نوں پگھلا دتا اے جویریہ بولی واہ باجی پر ابو تو پچھیا ہئی نصرت ہنس دی اور بولی ابو کی آکھنا ہا ابو تے آکھیا ہے توں یہا لئے پر باہر گل ناں نکلے جویریہ یہ سن کر مچل سی گئی اور خوشی سے اچھلتی ہوئی چولہے پر بیٹھی نصرت کو پیچھے سے دبوچ کر بولی واہ میری جان سواد آگیا نصرت ہنس دی جویریہ بولی باجیییی ہنڑ تیرے تے مزے ہی مزے ہوونڑ گے نصرت بولی تے اگے وی مزے ہی مزے ہانڑ جویریہ بولی نہیں آگے تے فر ہور گل ہا ویسے باجی ہک گل ہے پھدی مروان دا اصل مزہ باہر دے مرداں کولو آندا اے نصرت شرارتی انداز میں جویریہ کو دیکھ کر بولی کی توں باہرو پھدی مروائی ہے جویریہ مسکرا کر بولی نہیں میں ویسے کہ رہی آں نصرت بولی ہاں جیرو اے تے باہر دے مرداں نال زنا کرنا دا وی اپنا مزہ ہے پر گھر دے مرداں نال وی سواد تے بڑا آندا اے زنا دا۔ جویریہ بولی ہاں باجی پر پھدی وی عجیب شئے ہے ہلے لن لینڑا توں ڈردی کہ بدنام نا ہو جاواں جے ہک مرد دا لن لئے لوے تے وت پھدی نوں لن دا چسکا پئے جاندا ہک مرد نال زنا دا تے پھدی نوں سواد نہیں آندا پھدی وت آکھدی میرے اندر ہور وی لن پوا۔ نصرت اس کی بات سمجھ گئی تھی کہ وہ بھی پھدی مروانا چاہتی ہے نصرت ہنس کر جویریہ کی گال چوم کر بولی میری جان کیوں فکر کردی ایں ہک واری مینوں پھدی مروانے دے استاد جی کولو وت اگلی واری تیری جویریہ اس بات پر ہنس دی اور مچل کر بولی سچی باجی اور اسے جپھی میں پیچھے سے دبوچ کر چومنے لگی نصرت ہنس کر بولی ہلا میری ماں ہنڑ مینوں کم کروا میں روٹی بنا کے دے آنی استاد جی نوں جویریہ بولی ہاں توں ہی استاد جی اوراں دا لن پھدی اچ جانا اور دونوں ہنس دیں عارفہ بھی اپنی بیٹیوں کی باتوں پر ہنس کر رہ گئی دونوں بہنوں نے استاد جی کےلیے بڑے پیار سے کھانا بنایا اور پھر کھانا لے کر نصرت جانے لگی نصرت اچھی طرح تیار ہوکر ایک کسا ہوا لباس ڈالا اور اوپر بڑی سی چادر لپیٹ لی کہ دیکھنے والوں کو جسم نظر نا آئے نصرت نے اسی چادر سے نقاب کرکے منہ بھی چھپا لیا نصرت شام سے تھوڑا پہلے کھانا لے کر پہنچی ابھی سورج تھوڑا باہر تھا اور مغرب میں چند منٹ تھے قاری صاحب کا گھر نصرت کی گلی کی دوسری طرف تھا وہیں ساتھ ہی مدرسہ بھی تھا مدرسہ گاؤں کے بچے بچیاں پڑھتے تھے وہیں نصرت اور اس کی بہنیں بھی قاری صاحب کے پاس پڑھیں تھیں اسوقت قاری کی عمر 20 سال تھی اب قاری بھی 45 کا تھا لیکن اچھی خوراک کی وجہ سے 35 سے زیادہ کا نا لگتا تھا نصرت کھانا لے کر مدرسہ کے قریب پہنچی مدرسہ کی دیوار کے ساتھ مولوی کا گھر بھی تھا جبکہ مدرسہ اور گھر کے بیچ ایک ہجرہ تھا جو مہمانوں وغیرہ کےلیے بنایا گیا تھا یا ان لوگوں کےلیے جو دم وغیرہ کروانے آتے تھے قاری صاحب کا زیادہ تر وقت اسی مدرسہ میں گزرتا تھا نصرت جیسے ہی حجرہ کے دروازے پر پہنچی تو دروازہ ہلکا سا کھلا تھا وہ سمجھ گئی مولوی صاحب اندر ہی ہیں نصرت نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو دو عورتیں مولوی کے پاس بیٹھی تھیں جنہیں دیکھ کر پہلے تو نصرت گھبرائی لیکن پھر وہ سنبھل سی گئی نصرت کا باپ کے ساتھ جو بھی تعلق تھا وہ باپ اور بھائی سے چدواتی تھی لیکن آج پہلی بار کسی غیر مرد سے چدوانے کےلیے نکلی تھی اس لیے اس کا دل بھی دھڑک رہا تھا کہ کہیں کسی کو پتا نا چکے لیکن اسے پرواہ بھی نہیں تھی نصرت ان دو عورتوں کو دیکھ کر تھوڑی سی مایوس ہو گئی کیونکہ ان عورتوں کی موجودگی میں قاری صاحب اسکے ساتھ کچھ نہیں کر سکتے تھے نصرت اندر داخل ہوئی تو سامنے پلنگ پر قاری صاحب بیٹھے تھے انہوں نے اپنی ٹوپی اتار رکھی تھی جس سے ان کے سر کے گھنے بال نظر آرہے تھے نیچے لمبی گھنی داڑھی چہرے پر چمک رہی تھی نصرت نے ایک نظر قاری صاحب پر ڈالی تو وہ سسک گئی قاری کو دیکھ کر نصرت کی پھدی کھلتی بند ہوتی پانی چھوڑنے لگی اس نے اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر سوچا اففف کتنے تگڑے ہیں استاد جی ان کا لن بھی ایسے ہی تگڑا ہوگا یہ سوچ کر وہ پگھل گئی اس کو پھدی سے پانی کی ایک لائن نکل کر نیچے بیتی ہوئی ران پر صاف محسوس ہوگئی نصرت سسک کر کانپ گئی اتنے میں قاری کی نظر پڑی تو نصرت کو دیکھ کر بولا آؤ جی میری شاگرد آئی اے آو آؤ اندر آؤ نصرت گھونٹ بھر کر اندر چلی آئی قاری ان عورتوں سے بولا اے نصرت میری سب توں پہلی شاگرد ہے جدوں میں نواں نواں آیا سی بہت ہی لائق تے شریف اور نیک بچی ہے۔ وہ عورت بھی بولی جیا قاری صاحب اے تے پنڈ اچ مشہور اے کہ دیمی دیاں دھیاں بڑیاں شریف تے نیک ہینڑ کدی کسے دے منہ اچو گل نہیں سنی نصرت کا دھیان قاری صاحب کی طرف تھا اس کے ہاتھ میں کھانے کے برتن تھے قاری منہ نیچے کیے کاغذ پر لکھ کر کچھ کلام بنا رہا تھا قاری بولا میری بیوی بچے آج گھر کوئی نہیں سی تے آج میری شاگرد بڑے عرصے بعد روٹی بنا لیائی اے میرے واسطے اور ہنس دیا نصرت بھی ہنس دی قاری نے جلدی سے کلام بنائی اور ٹھپ کر پھونک مار کر ان کو دیں وہ عورتیں کلام کے کر چلی گئیں تو قاری نے آٹھ کر دروازہ بند کیا اور واپس آکر بولا جناب آئے ہو نصرت مسکرا دی اور بولی جی استاد جی میں آکھیا استاد جی اوراں روٹی دا آکھیا تے میں اپنے ہتھ نال بنا کے دے آواں قاری چلتا ہوا نصرت کے سامنے آیا اور ہاتھ سے نصرت کا نقاب اتار کر بولا جناب دیدار تے کرواؤ اپنا نصرت مست مدہوش آنکھوں سے اپنے استاد کو دیکھ کر مسکرا دی مولوی اپنی شاگرد نصرت کا حسن دیکھ کر مچل کر بولا افففف میں صدقے جاواں نصرت توں تے بہوں سوہنی ہو گئی ایں نصرت مسکرا دی اور بولی استاد جی آگے کوئی ناہیس قاری بولی نہیں آگے نالو سوہنی اور نصرت کے ہاتھ سے کھانا لے کر پلنگ پر رکھ دیا شام کا تھوڑا سا ہلکا چھپانے لگا تو مولوی نے آگے ہوکر نصرت کا ہاتھ پکڑ لیا نصرت جو چاہتی تو یہی تھی پر تھوڑا اپنے استاد کو تنگ بھی کرنا چاہتی تھی بولی استاد جی کی کر رہے ہو مولوی نے نصرت کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا نصرت کا قد بھی ٹھیک ٹھاک تھا پر قاری کا نصرت سے بھی قد کاٹھ اونچا اور جسم چوڑا تھا نصرت کسمساتی ہوئی بولی افففف سسسی استاد جی نا کرو کوئی آجاسی گیا مولوی نصرت کو تھوڑا اپنی طرف کھینچا کر قریب کیا اور نصرت کی چادر پر ہاتھ ڈال کر کھینچ کر اتارتے ہوا بولا میری جان چادر تے ہٹا تھوڑا اپنا حسن تے وکھا یہ دیکھ کر نصرت نے جلدی سے اپنی چادر کو پکڑ کر روکتے ہوئے کہا اففف استاد جی کی کر رہے ہو کوئی آجاسی گیا تے میں بدنام ہوجاساں مولوی نے زور لگا کر چادر کھینچ کر منہ قریب کیا اور نصرت کی گال پر ہونٹ دبا کر چوم لیے نصرت مولوی کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے سسک کر بولی افف استاد جی نا کرو نا قاری بولا نصرت کجھ نہیں ہوندا کیوں پریشان ہو رہی ہیں یہ کہ کر مولوی نے چادر کھینچی جو نصرت نے ہٹانے دی اور مولوی کو نہیں روکا مولوی نے چادر ہٹائی تو نصرت کا جسم سے کس کر لگے قمیض میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے مولوی نصرت ہوا میں تھے ممے دیکھ کر مچل کر کراہ گیا اور نیچے کسے پیٹ کی نظر آتی دھنی چوڑی پھیلی ہوئی گانڈ اور پتلی کمر قیامت ڈھا رہی تھی مولوی سسک کر چادر کندھوں تک کر دی جس سے نصرت سامنے سے فل واضح ہو گئی نصرت کے قمیض کا گلا کافی کھلا تھا جس سے گورا سینہ صاف نظر آ رہا تھا جبکہ مموں کی گہری لکیر نیچے تک جھانک رہی تھی نصرت نے گلے میں اس کے ابو کی نشانی ایک موٹی چین ڈال رکھی تھی جس میں ایک بڑا سا دل جس میں این۔لکھا تھا اور لیٹ کا دل نصرت کے مموں کی لکیر میں اترا ہوا تھا جسے مموں کی لکیر دبا رہی تھی اوپر سے نصرت کے موٹے ممے برا کی قید سے بھی آزاد تھے اور ہلکے سے پتلے قمیض سے نصرت کا پورا جسم جھانک رہا تھا جس سے نصرت کے مموں کے موٹے نپلز صاف نظر آ رہے تھے جنہیں کر مولوی بولا واہ میری جان صدقے جاواں نصرت آج تے پورے اہتمام نال آئی ہیں نصرت مسکرا دی مولوی بولا نصرت آج تک بڑی شاگردنیاں میرے کول آیاں پر تیرے جیا حسن نہیں ویکھیا کسے دا نصرت مسکرا کر مست انداز میں نشیلی انکھوں سے مولوی کو دیکھ کر بولی اچھا استاد جی سچی کون کون آیا فر تھواڈے کول مولوی قریب ہوا نصرت کے تن کر ہوا میں کھڑے ابھاروں پر ہاتھ رکھ کر بولا میری فی الحال اس حسن دا سواد چکھن دے باقی وت سہی نصرت بھی استاد جی کے بڑے ہاتھ اپنے مموں پر محسوس کرکے کراہ گئی اور بولی آہ آہ افففف استتتااددد جیییی اففففف مولوی نے نصرت کی مست نشیلی آنکھوں میں دیکھا اور بولا واہ سوہنیے اور ہاتھ ہلکے سے دبا کر نصرت کے موٹے ممے دبا کر مسلنے لگا جس سے نصرت مچل کر سسکتی ہوئی ہلکی ہلکی آہیں بھرنے لگی مولوی نصرت کے مموں کو ہلکا سا دبا کر مسلتا ہوا اوپر نصرت کے قمیض کے کھلے گلے سے جھانکتا گورا گلہ دیکھ کر اپنے دنوں ہاتھ نصرت کے جسم پر مسل کر پورا مزہ کے رہا تھا مولوی نے دونوں نصرت کے گلے پر پھیرے نصرت کے مموں کی لکیر کافی گہرائی تک نظر آ رہی تھی مولوی قریب ہوا اور نصرت کے ننگے گورے سینے کو چومتا ہوا ممے ہلکے ہلکے دبا کر مسلنے لگا نصرت نصرت مزے سے کراہتی ہوئی سسکنے لگی مولوی کے ہاتھوں کے لمس نے نصرت پھدی کے اندر آگ لگا رکھی تھی جس سے پھدی پچ پچ کرتی مسلسل پانی چھوڑ رہی تھی جو نصرت کی ران سے بہتا ہوا نصرت گھٹنوں تک آچکا تھا اور نصرت صف محسوس کر رہی تھی نصرت پوری مدہوش ہو چکی تھی قاری ہاتھ میں نپلز کو پکڑا اور منہ آگے کرکے نصرت کا گورا سینہ چومتا ہوا نصرت کے مموں کی لکیر ہو زبان سے چاٹ کر گیلا کرنے لگا جو نصرت کو بہت ہی مزہ دے رہا تھا اور نصرت آہیں بھرتی سسک کر قاری کے سر کر دبا رہی تھی قاری بھی فل مزے میں تھا اس نے اچھی طرح مموں کی لکیر چاٹ کر نصرت کیے دونوں مموں کے نپلز قمیض کے اوپر سے ہی ہونٹوں میں بھر کر دبوچ کر چوس لیے جس سے نصرت سسک گئی اور کراہ کر کانپنے لگی مولوی نپلز ہونٹوں میں دبا کر کھینچ کر چوستا ہوا ہلکے سے کاٹنے لگا جس سے نصرت تڑپ سی کرلا سی جاتی نصرت کی سانسیں فل تیز تھیں اور وہ ہانپتی ہوئی کرہا رہی تھی پھدی مسلسل پانی چھوڑ رہی تھی کہ اسی لمحے دروازہ کھلا تو دونوں چونک کر جلدی سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے نصرت کا دل جو پہلے ہی دھڑک دھڑک کر نصرت کی جان نکال رہا تھا اب سینے سے ہی باہر آنے لگا نصرت نے جلدی سے چادر اوپر کی اور پیچھے دیکھا تو سامنے چھوٹا سا دس سال کا بچہ کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں کچھ تھا جس نے بھی قاری کو نصرت کے ساتھ کچھ کرتے دیکھ کیا تھا قاری پہلے بھی بچوں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرتا اور بچوں کے سامنے لڑکیوں کے ساتھ بھی اس لیے ان بچوں کو دیکھنے کی عادت تھی اس لیے وہ پریشان نہیں ہوا نصرت اسے دیکھا اس کی جان میں جان آئی اور اس نے نظر اٹھا کر مولوی کو دیکھا تو دونوں مسکرا دئیے لڑکا اندر آیا اور جلدی سے بھاگ کر اندر مدرسے میں چلا گیا جس کا دروازہ حجرے کے اندر سے ہی بنا تھا مولوی بولا میری جان پریشان نا ہو اور قریب ہوکر نصرت کا دوپٹہ ہٹا کر قریب ہوکر نصرت کے کے ممے مسل کر نصرت کی کمر کو مسلنے لگا نصرت کے قمیض کے کندھے بھی بہت کھلے تھے کندھے بھی کافی ننگے تھے مولوی نے ہونٹ کاندھوں پر رکھ کر چومتے ہوئے نصرت کے قمیض کو کندھوں سے اتار دیا جس سے نصرت سسک گئی اور نصرت کے کندھے فل ننگے ہوگئے نصرت کی سسکیاں نکل رہی تھیں مولوی نے نصرت کے کندھے چومے اور پھر نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا ممے مسلنے لگا نصرت کی پھدی آگ برسا رہی تھی نصرت کی پھدی سے پانی بہتا ہوا گھٹنوں سے بھی نیچے آچکا تھا نصرت نے شلوار کھلی ڈالی ہوئی تھی جس سے پھدی سے نکلتا پانی شلوار سے نہیں لگ رہا تھا ہونٹ چومتے ہوئے مولوی بھی سسک رہا تھا اتنے میں وہی لڑکا مدرسے ولے دروازے سے نکلا اور مولوی اور نصرت کو ایک دوسرے کے ہونٹوں کو دبا کر چومتا دیکھ کر رک سا گیا مولوی کا اب جانے کا وقت تھا اس لیے دروازے کی آواز سے دونوں پیچھے ہو گئے مولوی بولا نصرت ہنڑ جا تے مغرب توں بعد برتن لینڑ آئیں وت نصرت سسک کر پیچھے ہو گئی اس کا دماغ مزے ے ماؤف تھا پر وہ بھی سمجھ گئی کہ مولوی کا مغرب کا وقت ہو گیا وہ سانس بحال کرکے بولی جی استاد جی نصرت کی چادر ایک طرف سے اتر گئی تھی جس سے اس لڑکے کی نظر نصرت کے ننگے گورے کندھوں پر پڑی اسے نصرت کا گورا سینہ اور کندھے صاف نظر آگئے نصرت نے اپنا قمیض ایسے ہی کندھوں سے نیچے رہنے دیا کیونکہ مولوی صاحب نے نیچے کیا تھا اس لیے اور جلدی سے چادر لے کر خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر نقاب کر لیا مولوی کا دھیان دوسری طرف تھا اس نے نصرت کو نہیں دیکھا نصرت کا سانس ابھی بھی تیز تھا اور اس کی پھدی آگ سے جل رہی تھی اس کی پھدی سے نکلتا مسلسل پانی نیچے اب نصرت کے ٹنخنے جو چھو رہا تھا نصرت مڑی تو اس کا دل تھوڑا سا گھبرایا کہ کہیں کوئی دیکھ نا لے لیکن اب صاف بھی نہیں کر سکتی اس لیے جیسے ہی اس نے پاؤں باہر رکھا تو ٹخنے تک آیا ہوا پھدی کا پانی نیچے اس کے پاؤں کی ہڈی کے پاس پہنچ گیا اوپر سے دماغ میں یہ خیال بھی دوڑ گیا کہ میرا قمیض کندھوں سے نیچے اترا ہے اور میرا سینہ کافی ننگا ہے اگر کہیں چادر اتر گئی تو میں تو بازار میں ننگی ہو جاؤں گی جس سے نصرت کا ذہن ماؤف ہوگیا کہ باہر کوئی دیکھ نا لے اس نے جب یہ سوچا کہ کہ بازار میں اسے کوئی ننگا دیکھے گا تو کیا ہوا گا جس سے اس کا دل مچل گیا جس سے یہ سوچ نصرت کو بہت ہی عجیب سا مزہ دے گئی اسی لمحے نصرت کی پھدی جو آگ سے تپ کر کندن تھی نے بے اختیار پچ کی آواز سے سونا اگلا دیا جس سے ایک لمبا پانی کا نکلا بہنے لگا اور تیزی سے نیچے ران سے بہتا پاؤں کی ہڈی تک پہنچ کر نیچے زمین پر بہنے لگا نصرت نے ایک لمحے تک کر ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا اس کو اطمینان ہوا اس نے نیچے نظر پاؤں کو دیکھا تو پانی بہتا ہوا زمین پر گر رہا تھا نصرت کے اندر تو اور آگ لگ گئی کہ وہ تو باہر سر عام بازار میں پانی چھوڑ رہی ہے ساتھ ہی اسے تھوڑی شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ پھدی پر اتنا بھی کنٹرول نہیں وہ چلتی ہوئی سوچ رہی تھی اور اپنی پھدی کو دبوچ کر پانی روک ے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جتنا وہ روکتی اتنا اور پانی بہ کر نصرت کی رانوں سے ہوتا نصرت کے پاؤں سے بازر میں بہ رہا تھا وہ کافی شرمندہ ہی ہو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یہ اسی گرمی چڑھانے والے ٹیکے کی وجہ سے ہے جو ابو نے مجھے پلایا تھا پر اسے مزہ بڑا آتا تھا یہ سوچ کر وہ ہلکا سا مسکرا دی نصرت کو یہ بھی احساس تھا کہ استاد جی نے اس کا قمیض کندھوں سے کافی نیچے تک کیا ہے جس سے وہ اوپر سے ننگی ہے گلی میں کچھ لوگ تھے جن کا سوچ کر نصرت مچل گئی اور سوچنے لگی کہ یہ مجھے ننگا دیکھنے کی چاہ تو کر رہے ہوں گے پر انہیں کیا پتا کہ میں ہوں ہی ننگی اسے یہ سب سوچ کر بڑا مزہ آیا اس کی پھڈی سے نکلتا پانی بازر میں گر رہا تھا یہ بھی عجیب سا مزہ تھا کہ نصرت کی پھدی کا پانی جو بہت قیمتی تھا اور کسی نے دیکھا تھا آج بھرے بازار میں بہ کر اپنے نقش لگا رہا تھا انہیں سوچوں میں نصرت گھر پہنچ گئی گھر پہنچ کر نصرت اندر گئی اور کپڑے سے پھدی سے پانی صاف کیا نصرت کی پھدی لن کےلیے لال سرخ ہو رہی تھی نصرت بولی کر لیندی آں تیرا وی یہ سوچ کر وہ ہنس دی اور کیچن میں آئی جویریہ اسے دیکھ کر چونک کر بولی کی بنیا جلدی آگئی نصرت نے چادر اتاری تو کندھوں تک قمیض اترا دیکھ کر جویریہ بھی ہنس کر بولی اے کی نصرت ہنس کر بولی ہلے تک استاد جی ایتھو تک ہی آپڑے ہانڑ کہ مغرب دا ٹائم ہو گیا ہنڑ باقی وت جانا وہ ہنس دی جویریہ پاس آئی اور بولی ہلا چکھا تے سہی ذائقہ اور ہونٹ جوڑ کر چوسنے لگی ایک منٹ تک دونوں ایک دوسرے کو چوس کر الگ ہوئیں اور نصرت بولی جہڑا توں چکھنا چاہندی ایں او ہلے میرے منہ اچ نہیں گیا جویریہ بولی باجی کیوں اتنا تے رہی ہیں اوتھے نصرت بولی استاد جی اوراں مغرب پڑھانے جانا ہا اوہنا آکھیا مغرب توں بعد آویں اس تو مغرب توں بعد جاساں تے تیرے واسطے وی لئے اساں دونوں ہنس دیں اور کام کرنے لگیں کام کرتے بھی نصرت کی پھدی قاری کے لن کےلیے اتنی بے قرار تھی کہ پانی چھوڑتی رہی نصرت اس دوران اسیے ہی قمیض کندھوں سے نیچے تک کیے رہی مغرب کے بعد نصرت بھی کھانا کھا کر فارغ ہوئی اتنے میں تھوڑا اندھیرا چھا گیا تو نصرت چادر لے کر خود کو ڈھانپ کر باہر نکلی اور چلتی ہوئی تیزی سے قاری کے حجرے پہنچ گئی نصرت نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو قاری کھانا کھا چکا تھا اور بیٹھا تھا نصرت اندر داخل ہو گئی جسے دیکھ کر قاری ہنس کر بولا آؤ جی جناب آگئے ہو نصرت مسکرا کر بولی جی استاد جی کھانا کھا لیا قاری بولا جیا بڑا مزے دار ہا کھانا لگدا سپیشل بنایا نصرت مسکرا کر بولی ہاں جی میں آکھیا اپنے استاد اوراں واسطے چنگا کھانا تیار کیتا وہ بولا مزے دار ہا تیرے آر نصرت ہنس دی اچھا فر برتن دے دیو میں جاواں یہ سن کر مولوی ہنس دیا نصرت پاس ہی کھڑی تھی مولوی نے ہاتھ ڈال کر نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا جس سے نصرت خود بھی لکھتی ہوئی مولوی کے جھولی میں جا گری جس سے نصرت سسک کر بولی اففف استاد جی کی کر رہے ہو مولوی بولا او ہی جہڑا کرنا چاہیدا اور نصرت کے ہونٹوں کو چوستا ہوا دوپٹہ کھینچ دیا نیچے نصرت کا قمیض وہیں تک تھا جتنا پہلے اس نے نیچے کیا تھا مولوی چونک کر ہونٹ۔ چھوڑ کر بولا اے کی اے قمیض ٹھک نہیں کیتا نصرت ہنس کر بولی استاد جی تساں کی ننگا کیتا ہا تساں مڑ آتے کیتا نہیں میں وی آکھیا جتھوں ختم ہویا اوتھوں ہی شروع ہووے قاری ہنس کر نصرت کو بولا واہ میری شہزادی کمال شئے ہیں توں نصرت ہنس کر بولی استاد جی ایتھے حجرے اچ ہی کوئی ہور جگہ نہیں اے جگہ تے محفوظ نہیں یہ سن کر مولوی اٹھا اور نصرت کو لے کر پاس سے دروازے سے نصرت کو گھر کی طرف داخل ہو گیا جہاں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو شاید گھر کا کمرہ تھا گھر کا اصل دروازہ تو دوسری طرف سے تھا یہ ایک کمرہ تھا مولوی نصرت کو اس کمرے میں کے کر آیا اور بولا یہ جگہ محفوظ ہے نصرت بولی ہوں ٹھیک ہے مولوی نصرت کو آگے منہ کرکے چومتا ہوا نصرت کے قمیض کو ہاتھ ڈالا اور کھینچ کر نصرت کا قمیض اتار دیا مولوی اپنا قمیض اتار کر نصرت کو سینے سے دبوچ کر مسلتا ہوا چومنے لگا نصرت نے نیچے شلوار میں ہاتھ ڈالا اور لن کھینچ لیا مولوی کا لن بھی کہنی جتنا لمبا اور موٹا تھا جسے محسوس کرکے نصرت مچل گئی اور لن محسوس کرکے بولی اففف استاد جی اے تے بہوں وڈا اے مولوی ہنس دیا اور بولا چیک تے کر یہ سن کر نصرت ہنس کر نیچے جا بیٹھی مولوی کا پن کہنی جتنا لمبا اور موٹا تھا نصرت کے ابو سے بھی موٹا لن تھا نصرت سسک کر بولی اففف اور دونوں ہاتھ سے لن مسل کر منہ آگے کیا اور مولوی کا لن چوم لیا جس سے مولوی کراہ گیا نصرت کے سینے میں بھی ٹھنڈ سی پڑ گئی مولوی نے نصرت کے سر پر ہاتھ رکھا اور دبا کر قریب کیا نصرت نے منہ کھولا اور مدہوش آنکھوں سے مولوی کو دیکھتی ہوئی قاری کے لن کا موٹا ٹوپہ چوس کر تھوک نگل گئی نصرت تھوک نگل کر کراہ گئی استاد کے قابل احترام رشتے کا لن منہ میں لے کر چوستی ہوئی نصرت تڑپ کر کرہا گئی قاری بھی کراہ گیا وہ نصرت جو کبھی چھوٹی سی اس کے پاس پڑھنے آتی آج وہ اس کا لن منہ میں بھر کر چوس رہی تھی یہ سوچ کر مولوی کی جان لن کے منہ پر جا پہنچی نصرت نے ہانپتے ہوئے لن کو ہونٹوں میں دبوچ کر کا کر چوستی ہوئی چوپے مارتی تھوک نگلنے لگی تھوک اندر اتر کر نصرت کو آگ لگا رہی تھی نصرت دبا کر لن منہ میں بھر کر تیز تیز چوپے مارتی لن کو چوس رہی تھی نصرت کے نرم ہونٹوں کی رگڑ قاری کی جان لے رہی تھی قاری کراہ کر تڑپتا ہوا نصرت کے چوپوں کو برداشت نا کرپایا اور آہیں بے اختیار جھٹکا مار کر نصرت کے منہ میں فارغ ہو گیا جس سے قاری کے لن سے منی کی ایک لمبی دھار نصرت کے گلے میں اتر گئی جس سے نصرت کراہ کر رک گئی اور ہونٹوں کو دبا کر لن کو چوس کر منی کھینچتی ہوئی پینے لگی مولوی کراہ کر جھٹکے مارتا نصرت کے منہ میں فارغ ہو رہا تھا نصرت مزے دار منی دبا کر پی رہی تھی کہ اسی لمحے دروازہ کھلا اور پڑھنے والے لڑکے اندر آگے وہ لڑکے سامنے مولوی کو نصرت کے منہ میں لن دبا کر فارغ ہوتا دیکھ کر چونک گئے نصرت بھی منی پیتی دیکھ کر چونک گئی لڑکوں نے ایک منٹ تک سین دیکھا اور پھر مڑ گئے نصرت اپنے استاد جی کا پن دبا کر چوس کر منی نچوڑ کر مولوی ہانپتا ہوا کراہ کر بولا ففف نصرت اڈا دتا ہئی مر گئے اسی نصرت مولوی کے لن کو دبا کر چوستی ہوئی پچ کی آواز سے چھوڑ کر بولی ااااہ اففففف استاد جی منہ تے بڑی سوادی ہے تھواڈی میں تے روز پیسوں گئی مولوی ہنس کر بولا میری جان روز آئی کر پیونڑ نصرت کچھ دیر مولوی کا لن مسلتی رہی پھر اوپر ہوکر بولی ہنڑ کی خیال اے مولوی نے نصرت کو پکڑ کر پاس پڑی چارپائی اور بستر پر گھوڑی بنا دیا نصرت بولی استاد جی کی کرو ہو قاری ہنس کر بولا میری جان اے ہی تے کرنا نصرت بولی استاد جی نا کرو نا اور اوپر ہونے لگی تو مولوی نے نصرت کو دبوچ لیا اور نصرت کی شلوار کھینچ کر اتار دی اور نصرت کا بستر پر گھوڑی بنا کر نصرت کی ایک ٹانگ اٹھا کر چارپائی کے اوپر رکھی جس سے نصرت کی پھدی اوپر سے کھل گئی اتنے میں وہ شاگرد لڑکے اندر آئے تو سامنے نصرت کو گھوڑی بنا دیکھ کر نصرت کی پھدی کے سامنے تنے قاری کے لن کو دیکھ کر چونک سے گئے مولوی نے لن مسلا اور پکڑ کر نصرت کی پھدی کے دہانے سے لگا دیا اتنے میں لڑکے بولے استاد جی چھٹی کر جائیے نصرت سسک کر چونک گئی اور بولی استاد جی دروازہ تے بند کر دیندے لڑکے ویکھ رہے ہینڑ مولوی نے دھکا مارا اور ٹوپے سے زیادہ لن نصرت کی پھدی کے پار کردیا جس سے نصرت تڑپ کر بکا گئی مولوی بولا کجھ نہیں ہوندا میری جان کیوں فکر کر رہی ہیں بچے ہی ہینڑ ویکھنڑ دے اور پھر جھٹکا مار کر پوری شدت سے اپنا کہنی جتنا لن پورا جڑ تک یک لخت نصرت کی پھدی کے پار کردیا قاری کا لن نصرت کی پھدی کو چیر کر نصرت کے ہاں سے جا لگا جس سے نصرت بکا کر ہینگ گئی لڑکے بھی حیران ہوئے کیونکہ آج تک قاری کا پورا لن کسی لڑکی نے نہیں لیا یہ واحد لڑکی تھی جو آئی تو پہلی دفعہ تھی پر آج مولوی کا لن بھی پورا جڑ تک لے گئی تھی جس سے نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی مولی لن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا پوری شدت سے اپنی شاگرد نصرت کو پوری شدت سے چودنے لاگ قاری کا لن نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کا کچومر نکال رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی پھٹک رہی تھی قاری کا مضبوط لن نصرت کو سینے تک اترتا محسوس ہو رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی بکاٹیاں مارتی پھڑکتی ہوئی بکا تک بولی اااااہ اااہ استاد جی میں مر گئی اوئے ہال ہوئے استادددد جیہیی ہولللی کروو میں مردی پئی اااہ ااااہ اااہ مولوی رکے بغیر پوری شدت سے نصرت کی پھدی کا کچومر نکال رہا تھا مولوی کا لن تیزی سے نصرت کی پھدی کا رگڑا نکال رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر ہینگنے لگی ایک سے دو منٹ میں مولوی کا کام تمام ہوگیا جس سے مولوی تڑپ کر کراہ کے ہانپتا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہوگیا نصرت تڑپ کر مولوی کے ساتھ فارغ ہو گئی نصرت کو آج لگا تھا کہ کوئی کلہ اس کے اندر اتر گیا جس سے وہ دہوری ہوکر بکا گئی نصرت کی آگ مولوی کا لن نچوڑ کر منی بچہ دانی میں کے گئی مولوی ہانپتا ہوا نصرت کی کمر چومتا ہانپنے لگا نصرت سسک کر بولی آہ استاد جی اڈا کے رکھ دتا تھواڈے لن مولوی بولا میری جان مزہ آیا کہ نہیں نصرت بولی اففف استاد جی سواد تے بڑا آیا پر تھواڈے شاگرد سانوں ویکھ رہے مولوی نے دیکھا تو وہ دیکھ رہے تھے مولوی بولا اوئے چلو شو مک گیا آج چھٹی ہے یہ سن کر وہ بھاگ گئے نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی اے روز شو ویکھدے ہینڑ مولوی ہنس کر بولا تے ہور کی اہناں نوں سارا پتا نصرت بولی کسے نوں دسدے تے نہیں ۔ولوی بولا میری جان کسے نوں نہیں دسدے تیرے عاشق اہناں نوں پتا کسے نوں داناں تے۔ میں لن پورا چت اچ مند دینا اہناں دی جس پر وہ ہنس دی مولوی بولا ہلا ہنڑ توں آرام کر میں جا رہیا۔ اسی کم واپسی تے نصرت بولی ہلے ہور کم رہندا مولوی ہنس کر بولا سوہنیے ہلے تے تیری چت مارنی نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی میں حاضر جناب نصرت ہنس دی جس پر مولوی ہنس کر پیچھے ہوکر لن نصرت کی پھدی سے نکال لیا نصرت کراہ کر سسک گئی اور لیٹ گئی مولوی واشروم گیا اور نہا کر چلا گیا نصرت بستر میں لیٹ کر آرام کرنے لگی نصرت کی آنکھ لگ گئی۔ نصرت کی آنکھ کھلی تو قاری نصرت کے اوپر چڑھا تھا جسے نصرت دبا کر چوسنے لگی مولوی اوپر چڑھا تو قاری ننگا تھا اور اس کا لن تن کر کھڑا تھا قاری نے نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر کاندھوں سے لگا دیں جس سے پھدی کھل کر سامنے آگئی نصرت نے لن کو مسل کر دبا کر اپنی پھدی پر لگا کر آنکھ مار مولوی نے جھٹکا مار کر لن نصرت کی پھدی ہے پار کردیا جس سے نصرت تڑپ کر رکراہ گئی مولوی نصرت کے اوپر جھک کر تیز تیز جھٹکے مارتا نصرت کی پھدی کو پوری شدت سے چودنے لگا مولوی کا لن پوری شدت سے نصرت کی پھدی کو رگڑ کر مسل رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی مولوی سہی طرح سے نصرت کی پھدی کا کچومر نکالتا کس کس کر دھکے مارتا نصرت کو چودے جا رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی کرلا رہی تھی دو تین منٹ میں مولوی نصرت کے اندر فارغ ہوکر کراہ گاہ اور نصرت کے اوپر گر گیا نصرت بھی پھڑکتی ہوئی آہیں بھرتی ہانپنتی ہوئی کرلا گئی نصرت بھی فارغ ہوکر کراہ گئی مولوی نصرت کے اوپر گر کر نصرت کو چومنے لگا کچھ دیر تک دونوں پڑے رہے مولوی اٹھا اور لن کھینچ کر پھدی سے نکال کر نصرت کو گھوڑی بنا کر پیچھے آیا اور نصرت کی گانڈ پر لن رکھ کر دھکا مارا اور لن نصرت کی گانڈ کے پار کرے نصرت کو پوری شدت سے چودتا ہوا نصرت کی گانڈ چیرنے لگا جس سے نصرت پھڑکتی ہوئی بکاٹیاں مارتی حال حال کرتی ارڑا گئی مولوی تین چار منٹ تک نصرت کی گانڈ پیکرا فارغ ہوگیا نصرت اس بار ہل کر رہ گئی اور گر کر نڈھال ہو گئی مولوی نے نصرت کی گانڈ چیر کر رکھ دی تھی جس ے نصرت تڑپ کر کراہنے لگی مولوی بھی نصرت کے ساتھ لگ کر سو گیا کچھ دیر تک نصرت بھجی سو گئی رات کو کسی پہر جاگ ہوئی تو مولوی نصرت کو چود رہا تھا نصرت بھی مولی کا ساتھ دے رہی تھی مولوی نصرت کو چودتا فارغ ہوا کچھ دیر آرام کے بعد نصرت نے ٹائم دیکھا تو 4 بج رہے تھے نصرت بولی استاد ہنڑ میں جاواں ٹائم کافی ہو رہیا مولوی آٹھ کر کپڑے پہننے لگا نصرت نے بھی کپڑے پہن لیے اور بولا چل تینوں چھوڑ اواں نصرت بولی نہیں میں چلی جاندی آں تھوانوں اس ٹائم کوئی میرے نال ویکھسی تے میری بدنامی اے مولوی ہنس کر بولا میرا تے سارے پنڈ نوں پتا اے نصرت ہنس کر بولی پر میرا تے نہیں ناں پتا اور مولوی کے ہونٹ چوم کر حجرے والے دروازے سے باہر نکلی تو گلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی گلی سنسان تھی کوئی تھا نہیں نصرت کو ڈر تو نہیں لگا لیکن اسے ڈر یہ تھا کہ کوئی دیکھ نا لے وہ اپنی گلی میں مڑی تو سامنے اس کے ہمسائے شدو کی ویگن گاڑی کھڑی تھی وہ گاڑی چلاتا تھا اور اکثر رات کو اس وقت پھیرا لگ کر آتا تھا ہنڈائی ویگن کا رنگ کا گہرا سانولا بڑی مونچھوں والا تھوڑا سا موٹا نصرت چلتی ہوئی گھر کے قریب پہنچی نصرت گاڑی کے اوپر سے گھوم کر گھر کے گیٹ کی طرف گئی کیونکہ اس کے گھر کے سامنے تھوڑی جگہ کھلی تھی اس لیے شدو گاڑی وہیں کھڑا کرتا تھا نصرت گیٹ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ پیچھے سے اس کا ہاتھ کسی نے پکڑا تو وہ چیختی چیختی رہ گئی رات کے اس پہر نصرت کو یوں بیچ بازار بازو سے پکڑنے پر نصرت کا دل بیٹھ گیا نصرت نے اپنی چیخ روکنے کےلیے ہاتھ منہ پر رکھا اس کا دل منہ کو آگیا نصرت نے پیچھے ہوکر دیکھا تو ہلکی سی کہین سے آتی روشی میں اس کا سانولا بڑی مونچھوں والا چہرہ چمک رہا تھا نصرت پہچان گئی یہ تو وہی شدو تھا یہ کمینہ کیسے پہنچ گیا یہاں وہ بھی پہچان گیا اور بولا نصرت ہیں نصرت نے بازو چھڑواتے ہوئے کہا ہاں مڑ وہ بولا اس ٹائم توں کدے نصرت بولی میری مرضی کدے جاواں وہ بولا چھا جی اسی ایویں تینوں شریف سمجھ رہے ہاں نصرت بولی تے نا سمجھا کرو وہ بولا ہنڑ تے نہیں سمجھدے نصر بولی ہلا چھڈ ہنڑ کوئی ہور آندا ہئی وہ بولا اے ہیں بڑا ڈر ہے نصرت بولی کمینیا چھڈ مینوں شدو نے نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا وہ نصرت کے سینے سے لگا شدو نے قمیض اتار رکھا تھا وہ شاید ابھی آیا تھا نصرت کو گلی سے آتا دیکھ کر وہ رک گیا کہ دیکھوں اس وقت کون ہے اور کیا کر رہا ہے یہ تو آگے سے نصرت تھی جس کو وہ نہائیت شریف سمجھ کر اگنور کرتا تھا کہ یہاں دال ویسے ہی نہیں لگنی آج نصرت اس کے ہاتھ آگئی تھی آج وہ نہیں چھوڑنے لگا تھا اس نے آگے منہ کے نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوس لیا نصرت کے منہ میں ہونٹ جاتے ہیں شدو کے منہ کا عجیب سا ذائقہ نصرت محسوس کرکے کراہ گئی اور منہ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی شدو دبا کر نصرت کے ہونٹوں کو چوستا ہوا پیچھے دیوار سے لگا دیا نصرت ہونٹ چھوڑ کر بولا وے کمینیا ہنڑ جانڑ دے کل اساں گئی وہ بولا اے دس کس کول گئی ہائیں وہ بولی کیوں دساں شدو کا لمس محسوس کرکے نصرت کے اندر کی بھی گرمی پھر سے جاگ اٹھی تھی شدو بولا وت میرا حصہ وی دے مینوں کے نہیں نصرت کچھ نا بولی شدو نے جپھی میں دبا کر نصرت کو گیٹ کے تھڑے پر لٹا کر جلدی سے نصرت کی شلوار کھینچ دی نصرت نے مزاحمت کرتے ہوئے شلوار پکڑنے کی کوشش کی پر تب تک شدو شلوار اتار چکا تھا نصرت بولی بولی کمینیہ کی پیا کردا ایں گلی اچ ہی ڈھاہ دتا ہئی شدو بولا میری جان ۔وقع ملے تے فائیدہ اٹھاؤ اور اپنا لن نکال کر نصرت کی پھدی پر رکھ کر نصرت کی ٹانگیں دبا کر کھول کر دھکا مارا اور لن جڑ تک نصرت کی پھدی کے پار کردی جس سے لن پورا نصرت کی پھدی کے پار اتر گیا شدو کا لن مولوی کے لن کے آدھے لن جتنا تھا نصرت کراہ کر سسک گئی شدو اوپر چڑھ کر دھکے مارتا ہوا نصرت کو چودنے لگا لن تیزی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کو تیزی سے چودنے لگا نصرت کو بھی شدو کے لن سے چدوانے کا مزہ آ رہا تھا چاہے چھوٹا ہی تھا نصرت بھی مزے سے چدوا رہی تھی نصرت نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں گلی میں سرعام اپنے گھر کے گیٹ پر چدوائے گی پر یہ سوچ کر اسے مزہ ا رہا تھا دو منٹ تک دھکے مارتا شدو نصرت کے اندر فارغ ہوگیا نصرت بھی فارغ ہوکر نڈھال ہو گئی اور شدو کو کھینچ کر چومنے لگی منہ کا ذائقہ عجیب تھا پر اسے اچھا لگ رہا تھا شدو فارغ ہوکر بولا شہزادئیے کدو تو چدوا رہی ہیں نصرت بولا کجھ دن ہی ہوئے وہ بولا ویسے او خوش نصیب ہیں کون وہ بولی ہک تے توں ہیں جس دا راہ اچ ہی سر گیا دونوں ہنس دئیے اتنے میں گلی میں سکوٹر کی آواز آئی تو دونوں چونک گئے شدو نے جلدی سے نصرت کو باہوں میں بھرا اور اٹھا کر جلدی گاڑی کے پیچھے چھپ گیا لن ابھی تک نصرت کی پھدی میں تھا بائیک والا قریب آیا تو وہ پہرے دار تھا اس نے ادھر دیکھا تو اسے شلوار پڑی نظر آئی جو نصرت کی تھی اس نے رک کر ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا وہ سمجھ گیا کہ کوئی چدائی کر رہا تھا اس نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نا تھا اس نے گاڑی میں جھانکا پر کوئی نا تھا تب تک اس نے نصرت کی شلوار اٹھائی اور لے کر چل دیا نصرت بولی کمینہ میری شلوار ہی لئے گیا شدو نے نصرت کو گاڑی کے بمپر ہر ٹیک لگا کر قابو کیا اور بولا جناب اسی تھوانوں لئے دساں گئیے سوٹ نا فکر کرو وہ بولی فکر تے کوئی نہیں بس کسے نوں وکھا نے دیوے وہ بولا کجھ نہیں ہوندا کسے نوں کی پتا کس دی ہا وہ بولی اے تے ہے شدو بول ویسے گئی کس کول ہائیں نصرت ہنس دی اور بولی اگاں ناں دسیں قاری کول گئی ہاس شدو ہنس دیا اور بولا بڑا بھین چود اے قاری پتا نہیں کی جادو ہیس پنڈ دا ہر کم دا پیس اس کولو یہیندا نصرت ہنس دی اور شدو ایک بار پھر نصرت کو گاڑی کے بمپر پر رکھ کر دھکے مارتا ہوا چودنے لگا شدو کا لن نصرت جو بہت مزہ دے رہا تھا تیزی سے اندر باہر ہوتا لن نصرت کی پھدی کو مزے سے لبرلیز کر رہا تھا نصرت مزے سے شدو سے چدوا رہی تھی گاڑی بھی اب ہلنے لگی تھی پر نصرت کو ہوئی پرواہ نا تھی شدو تیز دھکے مارنے لگا جس سے نصرت کی بھی کہیں نکلنے کبھی۔ مزے سے نصرت پاگل ہورہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ اندر لن نہیں کچھ اور ہی پھر رہا ہو دو تین منٹ کی اور چدائی کے بعد دونوں کراہتے ہوئے فارغ ہوگئے دونوں کو اتنا مزہ آیا کہ دونوں آس پاس سے بے نیاز ہوگئے کہ وہ گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو چود رہے تھے دونوں ہانپتے ہوئے تھک گئے تو چومتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے نصرت بولی شدو بڑا سواد آیا تیرے کول یہاونڑ دا پھدی وہ بولا سوہنیے روز آئی کر وہ بولی روز اساں شدو نے اسے اپنا نمبر لیا اور نصرت بغیر شہوت کے ہی دروازے پر پہنچی تو دروازہ بند تھا نصرت نے موبائل نکالا اور امی کو کال ملائی تو کچھ دیر بعد عارفہ نے کال اٹینڈ کی نصرت بولی امی دروازہ کھول میں آگئی کچھ دیر بعد عارفہ نے دروازہ کھولا تو وہ بولی نصرت آج تے کیٹ کر دتی ہئی نصرت ہنس دی اور بولی امی سواد لینڑا ہووے تے انج ہی ہوندا عارفہ نے دیکھا تو نصرت شلوار کے بغیر تھی وہ حیران ہوکر بولی شلوار کدے ہئی نصرت ہنس کر بولی امی کمینہ قاری بڑا کھلاڑی ہا شلوار ہی نہیں دتی کہ ننگی گھر جا عارفہ ہنس دی اور بولی مرد ہوندا ہی کمینہ عورت دے جذبات نال کھیڈدا اے نصرت ہنس دی اور اندر جا کر سو گئی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X