Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پیار سے پیار تک۔۔۔سائیں صاحب

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Boht peyri story h bhi story kay kerdar boht achy say add kar rhy ho asy he lagy rho boht maza h rha h par kay thkns bhi

    Comment


    • آجکل بہت کم اس معیار کی سٹوری پڈھنے کو ملتی

      Comment


      • Jazbat main dobi howi aik lajawab aur kamal ki update jis main mohbt hawas sb kych tha lajawab

        Comment



        • بہت اچھی اپ ڈیٹ تھی پڑھ کے مزہ آیا​

          Comment


          • شاندار کہانی. اس کہانی کی تعریف نہ کرنا لکھاری کے ساتھ زیادتی ہے. آپ کی لکھائی کی جتنی تعریف کیا جائے بہت کم ہے. اپڈیٹس جا سپیڈ سے آتے ہیں اور جتنی سائز کی آتے ہیں بہت ہی اچھے ہوتے ہیں اور تعریف کے لائق ہے. بہت مزہ آتا ہے سب کے ساتھ ببلی کا ٹنکا یو فٹ جانا.

            Comment


            • Boht he lajawab khani or manzir khasi

              Comment


              • پیار سے پیار تک
                قسط # 006
                رائیٹر :- Enigma
                مترجم :- سائیں صاحب







                دوپہر دو بجے تک سب لوگ گھر كے اندر آ چکے تھے باہر سے ہو کر . . . گھر کی عورتوں نے نہا دھو کر صاف کپڑے پہن لیے تھے . . اور اب وہ کچن میں لگ گئی تھی . . . ثمرین باہر والے باتھ روم میں نہا رہی تھی . . . اور اندر والے باتھ روم میں سائرہ اور اس کی سہیلیاں تھی . . .
                امرین نے ابھی صحن میں لگے نالکے پر ہی جتنا ہو سکا اتنی حد تک اپنے آپ کو صاف کیا . . اور اس کے ساتھ صفیہ تھی . . . نبیلہ نے صفیہ اور نصرت كے لیے بھی کپڑے نکال کر صحن میں لگی تار پر ڈال دیئے تھے . . .
                نادرا اوپر كے باتھ روم میں جانے کا بول کر دوسری منزل پر پہنچ گئی . . . ڈرائنگ روم میں بیٹھے ببلی کو ایک دلکش سی مسکان کے ساتھ دیکھتے ہوے . . وہ اس کے سامنے ہی باتھ روم میں گھس گئی . . . دروازہ کھلا ہی تھا . . اور ببلی کو پانی گرنے کی آواز آئی . . .
                ہر طرف کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کر بعد . . . اس نے کمرے کا داخلی دروازہ بند کیا . . اور وہ بھی گھس گیا باتھ روم كے اندر . . .
                سامنے کا منظر انتا ہیجان تھا کہ . . ببلی کا لنڈ ایک سیکنڈ میں ہی اپنے جوبن پر آ گیا . . . نادرا کی قمیض فرش پر گری ہوئی تھی . . اور وہ ایک پرانی سی بریزئیر اور شلوار پہنے ہوئے شاور كے نیچے جھکی ہوئی تھی . . . ببلی نے پیچھے سے جا کر نادرا کو بانہوں میں لیتے ہوے . . دونوں موٹے دودھ پکڑ لیے . . . نادرا نے بھی کوئی کوشش نہیں کی ببلی کو ہٹانے کی . . .
                آہستہ آہستہ اس نے اپنی تایا زاد بہن کی ننگی کمر . . اور گردن پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا . . . نادرا نے بھی دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر بریزئیر کے ہوک کھول دئیے . . . اور اپنے فٹبال جیسے ممے آزاد کر دیئے . . .



                " صابن لگا کر مسل ببلی . . ان پر کافی میل ہے " . . .



                مدہوش لہجے میں اس نے یہ بات کہی . . تو ببلی نے اپنی ٹی شرٹ اور پینٹ وہی جسم سے جدا کر دی . . اور دونوں ہاتھوں میں صابن لگا کر اس کے ملائم بڑے بڑے ممے مسلنے لگا . . .



                " آہ ببلی پیار سے کر زیادہ زور سے نہیں " . . .،



                اتنا بول کر وہ خود بھی اپنی گانڈ اس کے کھڑے لنڈ پر رگڑنے لگی . . .



                " باجی کتنے بڑے اور موٹے موٹے ممے ہیں آپ کے " . . .



                اتنا بول کر ببلی نے نادرا کو اپنی طرف گھوما لیا . . اور نیچے جھک کر اس کے ایک پپیتے کو مزے سے چوسنے لگا . . . اس کا دوسرا ہاتھ نادرا کی گیلی گانڈ کو مسل رہا تھا . . .



                " اس کو بھی اُتار دے ببلی " . . .،



                اپنی تایا زاد بہن کی بات سن کر . . . اس نے شلوار بھی ایک جھٹکے میں اس کے تن سے جدا کر دی . . . اب ببلی موٹے دودھ کو چوستے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی چوتڑوں کو بھی پھیلا رہا تھا . . . اس کو انہیں دبانے میں ایک الگ ہی مزہ آ رہا تھا . . .
                اب نادرا نے بھی ببلی کی چھاتی پر صابن لگانا شروع کیا . . اور پھر اپنے ہاتھ اس کی چڈی كے اندر ڈال کر اس کا کھڑا لنڈ سہلانے لگی . . .



                " ببلی تیرا یہ ڈنڈا کتنا بڑا اور گرم ہے . . . ہائے دیکھ کیسے اکڑ رہا ہے میرے ہاتھوں میں " . . .



                اتنا بول کر وہ اس کے لنڈ کو دونوں مٹھیوں میں بھر كر دبانے لگی . . .



                " باجی آپ کی وہ بھی تو کچھ کم گرم نہیں " . . .



                یہ بولتے ہوئے ببلی نے اس کی چڈی . . جو گانڈ کی دراڑ میں بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی باہر نکال كر نیچے کر دی . . .



                " واہ باجی . . آپ نے چوت کب صاف کی . . .؟ "



                وہ تو اس کی چکنی پھولی ہوئی پھدی میں ہی کھو گیا . . .



                " میں تو کل ہی تجھے یہ دکھانے والی تھی لیکن چل آج سہی " . . .



                اتنا بول کر نادرا نے بھی ببلی کا لنڈ چڈی سے آزاد کر دیا . . . ببلی کا لنڈ اِس وقت اپنے اصل روپ میں کھڑا تھا . . . اس کے لال ٹوپے کی شکل ایک درمیانے سائز کے ٹماٹر جیسی ہو چکی تھی . . . اور پورے لنڈ پر نسیں ابھر آئی تھی . .



                " باجی دیکھو یہ کیسے تڑپ رہا ہے آپ کے لیے " . . .،



                اتنا بول کر ببلی نے نادرا کو بانہوں میں بھر کر پاگلوں کی طرح چومنا شروع کر دیا . . . اس کے دونوں بڑے بڑے ممے اب ببلی کی چھاتی سے رگڑ کھا رہے تھے . . . اور ان پر لگے بھورے نپل ببلی کو اپنی چھاتی میں دهنستے ہوے محسوس ہونے لگے . . . اس کا لنڈ بھی نادرا كے پیٹ پر رگڑ کھا رہا تھا . . . کیونکہ وہ کچھ زیادہ لمبا تھا اپنی تایا زاد بہن سے . . .



                " آپ نیچے لیٹ جاؤ " . . .،



                اتنا بول کر ببلی نے نادرا کو وہی فرش پر لیٹا دیا . . . اور اس کے اوپر لیٹ گیا . . . شاور ابھی بھی چل رہا تھا . . . اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے موٹے ممے دباتے ہوئے وہ نادرا كے ہونٹوں کو چوسنے لگا . . اور اپنا لنڈ اس کی چکنی پھدی پر رگڑنے لگا . . .



                " دیکھ ببلی ابھی ٹائم زیادہ نہیں ہے تو ایک کام کر میں کھڑی ہوتی ہوں اور تو پیچھے آ " . . .


                یہ بول کر نادرا دیوار كے سہارے کھڑی ہوئی . . اور جھک کر اپنی بڑی گانڈ باہر نکال لی . . . ببلی جیسے ہی اس کے پیچھے آیا اس نے اپنے ہاتھ سے اس کا موٹا لنڈ اپنے چوتڑوں کی دراڑ سے نکالتے ہوئے پھدی کی لبوں كے بیچ و بیچ لگا لیا . . . ببلی بھی سمجھ گیا كہ . . اب کیا کرنا ہے . . . نادرا کی موٹی چکنی رانوں میں اس کا لنڈ نہایت ہی بری طرح جکڑا ہوا تھا . . .



                " چل اب آگے پیچھے کر . . . بس دھیان رکھنا یہ اندر نہ جائے . . . وہ کام ہم رات میں کریں گے " . . .



                نادرا کی بات ختم ہوتے ہی . . ببلی نے جھٹکے مارنے شروع کر دیئے . . . نادرا کو دیوار سے چپکائے اس نے اس کے دونوں ممے پکڑ کر نچوڑنا شروع کر دئیے . . . کبھی وہ ان کے نپل کھینچتا . . کبھی چوتڑوں کو پھیلا کر تیز ڈھکے لگاتے ہوئے اس کی گردن چومتا . . . اس کا لنڈ پھدی کے لبوں میں پھنسا ہوا آگے پیچھے ہو رہا تھا . . . بلکل اصلی چدائی جیسا سکون محسوس ہو رہا تھا . . . ایک بار اس نے پُورا لنڈ پیچھے کھینچا اور پھر جھٹکا مارا . . . تو لنڈ جا ٹکرایا پھدی كے سوراخ سے . . اور نادرا کی چینخ نکلتے نکلتے رہ گئی . . .



                " پاگل ہے کیا . . .؟ "



                نادرا نے پیچھے مڑ کر بولا . . اور دوبارہ گانڈ باہر نکال کر اس کے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ لیے . . . ببلی پھر سے مستی میں جھٹکے لگانے لگا . . . اس کو تو یہ خواب سا لگ رہا تھا . . .
                دن كے وقت . .، گھر كے باتھ روم میں . .، اپنی اِس تایا زاد بہن کی گانڈ کے نیچے لنڈ پھنسائے اس کے موٹے دودھ دبانا . . . اس کا جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا . . اور نادرا کی پھدی بھی رسنے لگی تھی . . . اب اس کے ہاتھ نادرا كے مموں پر کچھ زیادہ ہی مضبوطی سے گرفت بنانے لگے . . اور جھٹکے بھی تیز ہو گئے تھے . . . .



                " آہ . . . آہ . . ببلی . . آرام سے . . میں گئی " . . . .



                نادرا جھڑنے لگی تھی . . لیکن ببلی تو طوفانی رفتار سے لگا رہا . . . اور دس سے پندرہ تیز جھٹکوں كے بعد . . اس کی پچکاریاں بھی چھوٹنے لگی . . . کچھ نادرا کی پھدی پر گری . . کچھ سامنے کی دیوار پر . . .
                نادرا نے اس کو ایک بار خود سے چپکا کر اس کے ہونٹوں کو اچھی طرح سے چوما . . اور باہر نکال دیا . . .
                مسکراتے ہوئے نادرا كے چہرے پر اب الگ ہی بہار آ گئی تھی . . . خود کو صاف کر کے کپڑے پہن کر وہ نیچے چل دی . . . کچھ دیر بعد ببلی بھی وہی بیٹھا تھا . . . صفیہ اور نصرت جا چکی تھی . . .





                " لے بیٹا تو شروع کر " . . .



                ببلی کی تائی لیلیٰ نے اس کے آگے کھانے کی ٹرے لگائی . . تو امرین بھی ببلی کے برابر میں آ بیٹھی . . .



                " میں بھائی کی ڈش میں ہی کھاؤں گی " . . .



                اتنا بول کر اس نے ببلی كے ساتھ ہی كھانا شروع کر دیا . . . سب حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے . . اور ببلی اپنی سوتیلی بہن کو اپنے ہاتھوں سے کھلا رہا تھا . . . نبیلہ تو یہ دیکھ کر بس دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی . . . ببلی كی دوسری طرف جب سائرہ آ کر بیٹھی تو . . . ببلی ایک نوالہ بنا کر اس کے بھی منہ میں ڈالنے لگا . . لیکن شرم کے مارے سائرہ نے چھوٹا سا منہ کھولا . . .



                " آپ نے نہیں كھانا میرے ہاتھ سے . . .؟ "



                ببلی کی بات سنتے ہی . . سائرہ نے ایک جھٹکے میں اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے لیا . . .



                " آوچ . . . پہلے تو کھاتی نہیں ہو پھر انگلی پر چک بھی کاٹ لیا " . . .،



                ببلی نے چھیڑا تو سائرہ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح شرما گئی . . .



                " اب اس کو کیا ہوا ہے . . .؟ "



                امرین نے یہ بات کہہ تو دی . . لیکن کچھ کچھ اس کو بھی سمجھ آ گیا تھا . . . پھر وہ سائرہ کی طرف دیکھ کر ایک اشارہ کر کے مسکرائی . . . تو اب سائرہ نے شرم سے نظریں ہی جھکا لی تھی . . .



                واہ میری شرمیلی بہن " . . . .



                امرین نے نہایت ہی دھیمی آواز میں یہ بات کہی . . . جس کو صرف ببلی اور سائرہ نے ہی سنا تھا . . . اب باری ببلی کی تھی نظریں جھکانے کی . . کیونکہ سائرہ تو اتنا سن کر وہاں سے اٹھ کر نبیلہ كے پاس ہی بیٹھ گئی تھی . . . ببلی نے پھر سے امرین کو نوالہ بنا کر کھلایا . . . تو اسے ببلی کی نگاہوں میں خود كے لیے بھی وہی نظر آیا جو سائرہ كے لیے تھا . . .



                " بس بھائی میرا پیٹ بھر گیا " . . .



                اتنا بول کر اٹھتے ہوئے امرین نے سائرہ کی طرف دیکھتے ہوئے . . ببلی کی انگلی چوس لی . . . امرین اپنے کمرے میں گئی ہی تھی کہ . . سائرہ بھی کھانے کی ٹرے لے کر اس کے پیچھے چل پڑی . . .



                ببلی کچھ دیر بعد كھانا ختم کر کے اوپر چلا گیا اپنے کمرے میں آرام کرنے . . . جیسے ہی وہ وہاں داخل ہوا تو ڈرائنگ روم میں ثمرین بیٹھی ٹیلیوژن پر گانوں کا چینل لگا کر دیکھ رہی تھی . . . ببلی بھی جا کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا . . . ثمرین نے اس کو دیکھا پھر ٹیلیوژن کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی . . .



                " کل سے دیکھ رہا ہوں آپ بات نہیں کر رہی " . . .



                ببلی نے جب اتنا کہا . . تو ثمرین نے پھر اس کو دیکھا اور پھر سے نظریں پھیر لی . . .



                " کیا بات کروں . . .؟ "



                اتنا بول کر ثمرین دھیمے دھیمے مسکرانے لگی . . . ببلی نے بڑے پیار سے اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا . . . تو وہ بنا مزاحمت کئے اس کی طرف گھوم گئی . . . دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے . . پھر مل گئے دونوں كے لب ایک دوسرے سے . . . ببلی ایسے ہی ثمرین کو جھکائے اس کے اوپر لیٹ گیا صوفے پر ہی . . . دونوں بڑے ہی اطمینان سے ایک دوسرے کو چوم رہے تھے . . کوئی جلدی نہیں تھی ان کو . . .
                ثمرین ہی تھی جس کے ممے نادرا کے مموں کا مقابلہ کرتے تھے . . . لیکن ابھی ان دونوں کا دھیان شہوت سے دور ہی تھا . . . تقریباً دو منٹ بعد ببلی نے ہی اس بوس و کنار کا اختتام کیا اور اوپر سے اٹھ گیا . . .



                " میں چلا سونے باجی اینڈ تھینک یو
                فار سویٹ ٹریٹ " . . .



                ثمرین بھی اس کی بات پر بس مسکرانے لگی۔۔۔۔۔۔۔




                کبیر صاحب تقریباً پانچ بجے آئے تھے . . . پھر سب سے مل کر اور ببلی کو سویا ہوا دیکھ کر واپس نکل گئے اپنے شہر جہاں وہ روزگار کے سلسلے میں آباد تھے . . .
                سفیر صاحب بھی سو چکے تھے گھر آنے كے بعد . . . گھر میں زیادہ تر افراد آرام کر رہے
                تھے . . لیکن یہ دو حُسْن کی دیویاں کمرے میں بند باتیں کر رہی تھی . . .



                " اب مجھے سب بتا . . . اور کچھ بھی چھپایا تو پھر تو مجھے جانتی ہے " . . .



                امرین نے اپنے گٹھنوں پر تکیہ رکھ کر بیٹھے ہوئے . . . وہی پر لیٹی سائرہ سے کہا . . . ایک حکم نامے کی طرح لیکن آواز نہایت ہی دھیمی تھی . . .



                " یار دیکھ تجھ سے میں نے آج تک کچھ نہیں چھپایا . . لیکن پتہ نہیں تو اس بات کو سمجھے گی بھی یا نہیں " . . .



                سائرہ نے سوچتے ہوے یہ بات کہی . . .



                " تو بس پوری بات بتا . . میرے سمجھنے نہ سمجھنے کی بات بھول جا " . . .



                اب امرین نے تھوڑا پیار سے کہا . . . سائرہ کو ڈر تھا كہ . . کہی امرین اس کے پیار کو رسوا نہ کر دے . . .



                " دیکھ امرین جب سے میں بڑی ہوئی ہوں . . . مجھے کبھی لڑکوں میں دلچسپی نہیں تھی . . پھر کالج میں لڑکیوں كے کئی قصے سنے تھے كہ . . فلاں کے بواے فرینڈ نے یہ کیا . .، وہ کیا . . . کسی کو دھوکہ دیا تو کسی کو اپنے دوستوں كے ساتھ ہی لیٹا دیا . . . ان سب باتوں سے میرے دِل میں ڈر سا بیٹھ گیا تھا " . . .



                " جو پوچھا ہے یہ وہ بات نہیں " . . .
                امرین نے تنگ آ کر بولا . . . .



                " پوری بات سنے گی یا پھر میں چلی جاؤں . . .؟ "



                پہلی بار سائرہ نے اس کو غصہ دکھایا تھا . . تو امرین بھی پرسکون ہو گئی . . .



                " اب سن . . . جب ہر طرف میں نے دیکھا کہ . . لڑکے صرف ایک ہی چیز دیکھتے ہیں ہر لڑکی میں . . تو میں نے ارادہ کر لیا كہ . . کبھی بواے فرینڈ نہیں بناؤں گی . . پھر کلاس میں کچھ لڑکیوں نے میرا مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ . . . باہر سے اتنی خوبصورت ہے لیکن شاید اندر ہی کچھ کمی ہوگی جو اس کا بواے فرینڈ نہیں ہے . . .
                کچھ نے تو یہ بھی کہنا شروع کر دیا كہ . . مجھے لڑکیاں ہی پسند ہے . . . چل مان بھی لوں کہ . . مجھے تو پسند ہے . . . تیرا ساتھ میرے لیے زندگی کے اہم حصے کی طرح ہے . . . لیکن اس کا یہ تو مطلب نہیں ہوا كہ . . مجھ میں کچھ کمی ہے . . .
                اس طرح کی باتیں ہر روز ہونے لگی . . . پھر ابھی دو دن پہلے میں ببلی کو لے گئی اپنے کالج . . .، ایگزام فیس جمع کروانے اور فائل سبمٹ کروانے . . . وہاں تمام لڑکیاں بس ببلی کو ہی دیکھ رہی تھی لیکن اس نے کسی کی طرف نہیں دیکھا . . . میں نے اپنی دو سہیلیوں کو بھی اشارہ کیا ببلی کو چھیڑنے كے لیے . . . لیکن ببلی نے ان کو بھی نظرانداز کر دیا . . . جب وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کینٹین لے جا رہا تھا . . تب سب لڑکیاں مجھے حسد سے دیکھ رہی تھی . . . لیکن ببلی صرف میرے ساتھ تھا . . . وہاں بھی اس نے مجھے کرسی سے اٹھنے نہیں دیا . . .، بِل بھی خود دیا ایک اچھے معشوق کی طرح " . . .



                کچھ رک کر سائرہ نے پھر بات آگے بڑھائی . . . جو امرین اب سکون سے سن رہی تھی . . . اس کی دلچسپی مزید بڑھ چکی تھی . . . .



                " جب میری فرینڈز نے میرے برتھ ڈے کا ذکر کیا . . . اور اس کو میرا بواے فرینڈ کہہ کر مخاطب کیا . . . تو اس نے کچھ نہیں کہا . . . گھر آنے سے پہلے مجھے لے کر ماڈل ٹاؤن مارکیٹ چل دیا . . . اپنی پسند سے مجھے ایسے کپڑے لے کر دئیے . . . جو صرف میں ٹی وی پر دیکھتی تھی . . . اور وہ سب باتیں کری جو ہر عاشق کرتا ہے . . . میرا اتنا خیال رکھا کہ . . اگر گلے میں نوالہ بھی پھنستا تو پیٹھ سہلاتے ہوئے . . . سب کے سامنے مجھے اپنے ہاتھوں سے پانی پلاتا . . . اور سب سے بڑی بات جو اس نے ایک اصلی عاشق کی طرح کی . . وہ یہ کہ . . اپنے دلائے ہوے کپڑے سب سے پہلے اس کو دیکھاؤں . . . اور وہ بھی بارہ بجے رات کو . . . تاکہ وہ سب سے پہلے مجھے وش کرے . . . یہاں تک کہ . . اس نے جنید کو بھی رات میں باہر بھیج دیا " . . .



                آخری جملہ اس نے اپنی طرف سے ہی بول دیا تھا . . . اتنا سب سن کر تو امرین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی . . . اس کو یقین ہی نہیں تھا كہ . . اس کا سوتیلا بھائی ایسا کچھ بھی کر سکتا ہے . . . سائرہ نے پھر آگے بات بڑھائی . . .،



                " اور جب میں اس کے پاس رات کو گئی . . تو کسی شہزادی سا احساس دلایا اس نے مجھے . . . اس کے ہونٹ جب میرے لبوں سے جڑے . . . تو مجھے احساس ہوا كہ . . مرد کا لمس کیا ہوتا ہے " . . .



                " اوئے . . . کیا تو نے سب کچھ کر لیا اس کے ساتھ . . .؟ "
                امرین نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا . . .



                " چُپ کر پاگل کہی کی . . . میں نے کہا نہ کہ . . یہ پیار ہے . . . میں اوپر سے ننگی تھی اس کے سامنے لیکن اس نے مجھے صرف پیار کیا . . . کوئی زبردستی نہیں کی . . . اس میں کوئی ہوس نہیں تھی . .، صرف پیار تھا . . . جب اس نے میرے گال کو سہلایا تبھی میرا باطن اس میں سما چکا تھا . . .
                کوئی ننگی لڑکی کو نہیں چھوڑتا اگر وہ اس کے بستر پر پڑی ہو . . . لیکن دیکھ اس کا پیار کہ . . صرف پیار سے چومنے كے علاوہ اس نے کچھ کیا ہی نہیں . . . صرف ہم دونوں تھے وہاں اور سارا گھر سویا ہوا تھا . . . لیکن ببلی نے میری عزت کی . . . اور وہ اگر اس وقت میرے ساتھ کچھ بھی کرتا . . تو میں اس کو ایک بار بھی نہیں روکتی . . . لیکن اس کا پیار بہتے ہوئے پانی کی طرح صاف ہے " . . .



                یہ سب کہتے کہتے . . . سائرہ کی آنکھیں بہنے لگی . . لیکن اب اس کو امرین نے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا . . .



                " ارے پگلی رو مت تو . . . میں نے کہا تھا نہ کہ . . مجھے تو صرف سب سننا ہے . . . میری طرف دیکھ اور بالکل بھی برا مت ماننا میری بات کا . . . مجھے تیرے اور ببلی كے رشتے سے کوئی فرق نہیں پڑتا . . . اُلٹا میں تو خوش ہوں كہ . . تو نے سہی انسان کو منتخب کیا ہے اپنے پہلے پیار كے روپ میں . . . لیکن اس میں بھی ایک مسلہ ہے . . . یہ پیار بھی برابر تقسیم ہوگا " . . . .



                امرین نے اتنا ہی کہا تھا كہ . . . سائرہ نے دونوں ہاتھوں سے اس کا سَر پکڑ كر . . اس کے ہونٹوں کو چوم لیا . . .



                " مجھے شروع سے پتہ ہے تیرا بھی پیار وہی ہے جو میرا ہے . . . جو تو اس سے دور رہنے کا ڈرامہ کرتی تھی نہ . . . وہ صرف ایک ناراضگی تھی اس سے . . جس سے تو سب سے زیادہ پیار کرتی ہے . . . لیکن میں نے تیرے لیے ببلی کی آنكھوں میں صرف اور صرف پیار ہی دیکھا ہے . . . شاید مجھ سے بھی زیادہ " . . . .



                اتنا بول کر وہ وہی لپٹ گئی ایک دوسرے سے . . .



                " ویسے ایک بات تو بتا تو نے کبھی مجھے تو اپنے کپڑے اُتار کر نہیں دکھائے " . . .



                اب امرین نے سائرہ سے مزے لیتے ہوئے کہا . . .



                " کیونکہ تیرے پاس بھی وہی ہے نہ جو میرے پاس ہے . . . لیکن اس کے پاس جو ہے نہ وہ تو بس س س س " . . .



                اتنا بول کر دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑی . . . اور ایک دوسرے سے لپٹ کر لیٹ گئی . . . من بالکل ہلکا ہو چکا تھا دونوں کا . . . مگر رشتہ زیادہ مضبوط ہو گیا تھا . . . پیار جو ایک ہی انسان سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔




                رات کو سب ہلکا پھلکا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں آ گئے تھے . . . ببلی بشیر صاحب كے پاؤں دبا رہا تھا . . . اور خانم بی بی بھی سو چکی تھی . . . جنید آج رات بھی باہر تھا کیونکہ اگلے دن اس کو دوسرے شہر جانا تھا کمپنی کی طرف سے . . . ثمرین آج اپنی ماں كے کمرے میں سونے لگی تھی . . . کیونکہ نبیلہ کو ہلکا پھلکا بخار تھا . . . امرین اور سائرہ بھی سو چکی تھی دن بھر کی تھکن سے ہلکان ہو کر . . . اپنے دادا جان کے سوتے ہی ببلی بھی سیڑھیاں چڑھتا ہوا دوسری منزل پر چل دیا . . .



                " بڑی دیر لگا دی صنم آتے آتے " . . .



                ببلی نے جب یہ جملہ سنا . . تو دیکھا كہ . . . نادرا ہاتھ میں چادر اور تکیے لے کر کھڑی تھی . . . اس نے مسکراتے ہوئے اپنے کمرے سے گدا اٹھایا اور دونوں چل دیئے چھت پر . . . نیچے واپس آ کر جنید كے بیڈ سے ایک اور گدا لے کر واپس اوپر آ گیا دونوں چُپ تھے . . .​

                نادرا نے دونوں گدے بچھائے . . . اور ان پر ایک پرانی چادار بچھا دی . . . پھر تین تکیے گدوں كے اوپر رکھ کر وہ نیچے چلی گئی . . .
                ببلی وہی بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا . . . کوئی پندرہ منٹ بعد وہ آئی . . . تو اس کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھی . . . اور اب جسم پر ایک ڈھیلی ڈھالی مازی پہنے ہوئے تھی . . .
                مطلب وہ نہا کر آئی تھی . . . اور شلوار قمیض اُتار دی تھی . . . اس کے ایک ہاتھ میں کٹوری اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھی . . . جیسے ہی وہ گدے پر بیٹھی ببلی کی سانسیں گلاب کی خوشبو سے مہک اٹھی . . .
                " واہ . "
                اتنا بول کر وہ نادرا کی گردن سے آتی مہک کو سونگھنے لگا . . . . نادرا كے گیلے بال بھی
                مہک رہے تھے . . .
                " باجی لگتا ہے آج مار ہی ڈالو گی " . . .
                اتنا بولتے ہی اس نے نادرا كے گال چوم لیے . . . اب نادرا نے بھی اس کو خود سے لگا كر اس کی گردن پر بوسوں کی برسات کر دی . . . اس کا پُورا بدن خوشبو سے مہک رہا تھا . . . جلد اتنی ملائم ہو رہی تھی جیسے مالئی ہو . . . ببلی آہستہ آہستہ نادرا کے بالوں کو سہلانے لگا . . . اور گردن سے لے کر ہونٹوں تک آہستہ آہستہ زبان پھیرنے لگا . . .
                نادرا نے اپنا آپ ببلی کے سپرد کر دیا اور لیٹ گئی گدے پر . . . چاند کی روشنی میں اس کے اُبھار مازی میں سے ہلتے ہوے واضح طور پر نظر آ رہے تھے . . . ببلی نے اپنی قمیض اُتَار کر رکھ دی . . اور صرف پاجامے میں اس کے اوپر آ گیا . . . دونوں بےسدھ ہو کر ایک دوسرے کو چومنے لگے . . .
                " ببلی آج کوئی روک ٹوک نہیں ہے تجھے . . . آج اپنی باجی کو اتنا پیار دے کہ کبھی بھول نہ پاؤں " . . .
                اتنا بول کر نادرا ببلی کے ساتھ بیل کی طرح لپٹ گئی . . . اور اپنے چاچا زاد بھائی کی پشت کو سہلانے لگی جو کہ . . بلکل چکنی اور سخت تھی . . . جب ببلی تھوڑا سا اوپر اٹھا تو نادرا نے ببلی کے چھاتی پر زبان لگا دی اور اس کے سینے کو چاٹنے اور چومنے لگی . . .
                " باجی یہ کیا کر رہی ہو . . . مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا "
                مزے كے سمندر میں غوطہ زنی کرنے ہوے . . . ببلی کو جب کچھ نہیں سوجھا تو اس نے کپڑوں كے اوپر سے ہی نادرا كے غبارے دبا لیے . . جو اندر بلکل آزاد تھے . . . نپل اکڑ چکے تھے اور تنے ہوئے تھے . . . ببلی نے دونوں نپل اپنے دونوں ہاتھوں کی ایک انگلی اور انگوٹھے كے درمیان بھینچ لیے . . .
                " آہ ببلی . . آج اتنا درد دے کہ پھر کبھی درد نہ ہو . . . کھینچ انہیں اور خوب دبا . . . ان کی ساری اکڑ ختم کر دے " . . .
                اتنا بول کر نادرا پاجامے كے اوپر سے ہی ببلی کا لنڈ سہلانے لگی . . اور دونوں كے ہونٹ آپس میں کشتی کرنے لگے . . . لنڈ کو سہلاتے ہوے ہی نادرا نے ببلی کا پجامہ کھول دیا . . . اس کا لنڈ کسی اسپرنگ کی طرح سیدھا آ لگا اس کے ناف کے نچلے حصے پر . . .
                " کتنا خوبصورت ہے یہ تیرا لنڈ میرے بھائی . . . اور کتنا بڑا پتہ نہیں کیا ہوگا لیکن آج یہ تیری باجی کو چاہیے " . . .
                اتنا بول کر وہ اپنے ایک ہاتھ سے ببلی کی کمر تھام کر . . دوسرے ہاتھ سے اس کا لنڈ سہلانے لگی . . . مٹھی میں پُورا لنڈ سما نہیں رہا تھا . . . اور اس کا ٹوپا تو اس سے بھی کہی زیادہ موٹا تھا . . .
                " باجی . .، کھڑی ہو جاؤ " . . .
                اتنا بول کر ببلی سیدھا ہوا . . اور اپنی تایا زاد بہن کو کھڑا کر کے اس کی مازی اُتَار کر گدے پر پھینک دی . . . اس ایک کپڑے كے نیچے نادرا پوری ننگی تھی . . . اس کی سیڈول موٹی رانیں آپس میں چپکی ہوئی تھی . . . جس سے اس کی پھدی دکھائی نہیں دے رہی تھی . . . سپاٹ پیٹ . . .، اور اس سے اوپر دو بڑے پہاڑ سے ممے . . .
                ببلی یہ نظارہ دیکھ کر اپنی تایا زاد بہن سے کھڑے کھڑے ہی چپک گیا . . . اس کا لنڈ نادرا کی ناف پر ٹھوکریں مار رہا تھا . . . ترنگ اتنی زیادہ تھی کہ . . رہ رہ کر لنڈ میں جھٹکے لگ رہے تھے . . . نادرا سرکتے ہوئے نیچے بیٹھ گئی . . اور ایک بار پھر ببلی كے لنڈ کو سہلانے لگی . . . پھر اس نے وہ چھوٹی بوتل اُٹھائی اور اس میں سے لوشن نکال کر لنڈ کی مالش کرنے لگی . . . ببلی مزے سے بےحال ہو رہا تھا . . .
                " باجی . . .، آپ لیٹ جاؤ نہ " . . .
                اتنا بول کر اس نے اپنی تایا زاد بہن کو لیٹا دیا . . .
                " ببلی بوتل سے لوشن لے کر تو بھی میری چوت کی تھوڑی مالش کر . . جیسے تیرے لنڈ کی میں کر رہی ہوں " . . .
                نادرا نے یہ کہا تو ببلی نے ڈھیر سارا لوشن لے کر . . . اس کی ٹانگیں پھیلائی اور پھدی كے اوپر انگلی سے لگانے لگا . . . پھدی پھول کر ڈبل روٹی جیسی ہو رہی تھی . . . اور اس میں سے مزے کے قطرے بھی بہہ رہے تھے . . . پھر ببلی نے دو انگلیاں پھدی کی دراڑ میں گھمائی . . اور انہیں چکنا کرنے لگا . . . بچا ہوا لوشن اس نے نادرا كے دونوں بڑے غباروں پر مسل دیا . . .
                " چل بھائی اب میرے اوپر آ جا . . اور جیسے میں کہوں ویسے ہی کرنا . . . دیکھ تیرا بہت بڑا ہے کوئی غلطی نہیں کرنا " . . .
                نادرا کی آواز میں تھوڑا ڈر سا تھا . . لیکن ہمت بھی تھی . . . ببلی اس کے پورے بدن پر چھا سا گیا تھا . . . گٹھنے زمین پر رکھ کر نادرا کی پھیلی ہوئی ٹانگوں كے درمیان اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا اس کی پھدی پر رگڑنا شروع کیا . . اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے پپیتے آٹے کی طرح گوندنے لگا . . . اِس دوہری مزے سے نادرا کی سسکیاں نکلنے لگی . . . اور اس نے اپنے ہاتھ سے ببلی کا لنڈ چھید پر ٹکا لیا . . .
                " ببلی میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا لے . . اور جیسے ہی میں اشارہ دوں تو دھکہ مار دینا " . . .
                یہ بات اس نے نہایت ہی ہمت سے کہی . . . تو ببلی نے بھی اس کی تائید میں سَر ہلایا . . . نادرا اپنے ہاتھ سے ہی اس کا لنڈ پھدی کی دراڑ میں رگڑ رہی تھی . . . پھر یک دم پھدی كے چھید پر لنڈ کا ٹوپا ٹکا کر . . . دونوں نے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دیئے . . . نادرا نے ببلی کی گانڈ پر ہلکی چپت لگا کر اشارہ کیا . . تو ببلی نے ایک کرارا دھکہ لگا دیا . . . نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے منہ سے تیز چیخ نکل گئی . . جو زیادہ تر تو ببلی کے منہ میں ہی دبی رہی . . . مگر پھر بھی کچھ حد تک باہر نکل ہی گئی . . .
                " آہ میں مر گئی " . . .
                درد سے تڑپتے ہوے وہ اپنی گردن ادھر اُدھر ہلانے لگی . . . ببلی اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا تھا . . . اس کے لنڈ کا ٹوپا پُورا اندر جا چکا تھا . . اور کچھ گرم گرم سا احساس اس کو لنڈ پر محسوس ہوا . . . ببلی کو عظمیٰ كے ساتھ کی ہوئی چدائی یاد آ گئی . . اور وہ جھک کر نادرا كے ممے چُوسنے لگا اور سَر کو سہلانے لگا . . . اس کا لنڈ پھدی میں پھنس چکا تھا . . . تقریباً پانچ منٹ بعد نادرا پرسکون ہوئی . . .
                " ببلی تھوڑا آہستہ جھٹکا مارنا اِس بار " . . .
                ایک بار پھر ببلی نے نادرا كے ہونٹ دبائے . . . اور پہلے جتنا ہی تیز دھکہ مارا . . . لنڈ تمام روکاوٹیں توڑتا ہوا چھے انچ تک پھدی میں سما گیا تھا . . . اِس بار دونوں کی چیخ نکل گئی تھی . . . نادرا کی ٹائیٹ پھدی نے اس کا لنڈ چھیل دیا تھا اور لنڈ کا ٹوپا بچہ دانی سے جا ٹکرایا تھا . . .
                " باجی بس ہو گیا " . . .
                اس نے نادرا کے گالوں کو سہلاتے ہوئے کہا . . . اور اس کے ممے رگڑنے لگا . . . نادرا کی تو بس جان نکلنی باقی رہ گئی تھی . . . اسی طرح ممے دباتے اور چوستے ہوے ببلی نے اس کا درد کم کرنے کی کوشش کی جو کافی حد تک کامیاب بھی رہی . . .
                " دیکھ اب بالکل آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا اور جتنا گیا ہے اتنا ہی ڈال کر چود مجھے " . . .
                نادرا نے اتنا بولا . . اور ببلی لنڈ باہر کھینچنے لگا . . . لنڈ كے ساتھ پھدی کی دیواریں بھی باہر کی طرف کھینچنے لگی . . . نادرا كے جسم میں پھر سے درد کی لہر دوڑ گئی . . . لیکن ببلی نے اب دِل مضبوط کر کے آہستہ آہستہ لنڈ تھوڑا تھوڑا اندر باہر کرنا شروع کیا . . . اس کی پھدی میں جیسے کانٹے سے چھبنے لگے تھے . . . اتنے درد كے بعد بھی وہ شہوت زادہ ہو رہی تھی . . اور اس کا ثبوت تھا پانی بہاتی اس کی پھدی . . . . ببلی
                نے بوتل سے ہی تھوڑا لوشن باہر نکلے لنڈ پر گرایا اور پھر سے اندر باہر کرنے لگا . . . .
                پانچ منٹ کی اِس دھیمی چُودائی سے کچھ سکون ملا نادرا کو . . . اب اس کے چوتڑ بھی اوپر اٹھنے لگے تھے . . . یہ دیکھ کر ببلی نے بھی تھوڑا زیادہ لنڈ باہر نکال کر اندر کرنا شروع کر دیا . . .
                " ہاں ببلی بس ایسے ہی . . آں . . ایسے ہی کر میرے بھائی . . . میں تو نہال ہو گئی تیرے جیسا کزن پا کر . . . کتنے پیار سے چدائی کر رہا ہے " . . .
                اب سسکیاں گونجنے لگی تھی چھت پر . . . ببلی کی ٹانگیں تھکنے لگی . . . تو اس نے تھوڑا تیز رفتاری سے چدائی شروع کر دی . . . اب وہ لنڈ کو ٹوپے تک نکالتا اور اتنا ہی اندر ٹھوک دیتا . . . ساتھ ہی ساتھ وہ اس کے ممے بھی بےدردی سے مسل رہا تھا اور چوس رہا تھا . . .
                " آہ باجی . . . کتنی پیاری چوت ہے آپ کی . . . اندر سے بلکل گرم جیلی جیسی . . . میرا لنڈ پھنستا ہوا جا رہا ہے " . . . .
                " ببلی رک تو تھک گیا ہوگا " . . .
                نادرا کو احساس ہو گیا تھا كہ . . . ببلی كے گھٹنے درد کرنے لگے ہوں گے . . . اور تکیہ اس کی طرف سرکایا . . . ببلی نے ایک تکیہ اپنے گھٹنوں كے نیچے رکھا . . اور دوسرا تکیہ نادرا کی گانڈ كے نیچے سرکا دیا . . . اب پھدی اوپر اٹھ گئی تھی . . . ببلی نے اب نادرا کی رانوں کو تھوڑا اونچا کیا . . . اور نادرا كے ہونٹ منہ میں لے کر آخری زوردار دھکہ دے مارا . . . لنڈ بچہ دانی کو مزید دبا گیا . . . اور پھر بنا رکے وہ جھٹکے مارتا رہا . . . اب نادرا کی . . " گوں گوں " . . کی آوازیں اور دونوں کی رانوں سے . . . " ٹھپ ٹھپ " . . کی آوازیں نکل رہی تھی . . . پانچ منٹ تک ببلی کسی گھوڑے كے طرح اس کی پھدی کو پیلتا رہا . . . پھر جھک کر اس کے ہونٹ چھوڑ کر دودھ پینے لگا . . .
                " تو تو پاگل ہی ہو گیا تھا ببلی . . جان نکل جاتی . . پتہ ہے ابھی تو رکا ہے پھر بھی پیٹ تک درد ہو رہا ہے " . . .
                " باجی ایسے تو یہ درد کبھی ختم نہ ہوتا . . . اس لئے ایک بار ایسا کرنا ضروری لگا مجھے " . . .
                مٹھی میں ممے دباتا ہوا ببلی بولا . . . تو نادرا كے آنکھیں بند ہو گئی . . .
                " باجی . .، آپ گھٹنوں پر آ جاؤ نہ " . . .
                اور اس کے ساتھ ہی اس کا لنڈ پھدی سے باہر آ گیا . . . 7up کی بوتل کھلنے پر جیسی آواز آتی ہے ویسی ہی آواز آئی پھدی سے . . . نادرا بھی ہمت والی تھی . . . جلدی ہی اپنے گھٹنوں پر ہو کر اپنے چاچا زاد بھائی کی لیے گھوڑی بن گئی . . . ببلی نے لنڈ كے ٹوپے پر تھوڑا مزید لوشن لگایا . . اور نشانے پر ٹوپا پیل دیا . . .
                " آہ ببلی درد ہوتا ہے آہستہ نہیں ڈال سکتا تھا " . . .
                " باجی ابھی پُورا کہاں گیا ہے تھوڑا باہر ہے . . . اور آپ کی یہ مخملی گانڈ کتنی بڑی ہے " . . .
                یہ کہتے ہوئے ببلی نے چوتڑوں کو پکڑ كر بچا کچا لنڈ بھی پیل دیا پھدی كے اندر . . .
                " آہ ببلی بس اب مت رک . . . زور لگا كر پیل اپنی باجی کو پھاڑ دے اِس پھدی کو . . بڑا تنگ کیا ہے اس نے مجھے " . . .
                ببلی بھی اب تابڑتوڑ جھٹکے مارے جا رہا تھا . . . پیچھے سے ہاتھ بڑھا كر اس نے نادرا كے ممے پکڑے ہوے تھے . . . منظر ایسا تھا جیسے کسی آسٹرلین گاۓ پر کوئی جنگلی سانڈ چڑھا ہوا ہو . . .
                ہر جھٹکے پر لنڈ پھدی کی اختتامی گہرائی تک جا رہا تھا . . . اور یہ تیسری بار نادرا کی پھدی میں کرنٹ سا پیدا ہوا تھا . . . پہلی دو بار تو درد كے وجہ سے وہ جھڑتے جھڑتے رہ گئی تھی . . . لیکن اب جس رفتار سے ببلی چدائی کر رہا تھا . . . نادرا بےہوشی کی حالت میں جا رہی تھی . . . آخری جھٹکے تیز رفتاری سے لگ رہے تھے . . . . اور نادرا کی پھدی نے فوارہ چھوڑنا شروع کر دیا . . . ببلی نے بھی جڑ تک لنڈ پھنسا کر نادرا کی پھدی کو اپنی منی سے بھرنا شروع کر دیا . . .
                تقریباً تیس سیکنڈ تک اس کا لنڈ پچکاریاں مارتا رہا . . اور وہ اس کے اوپر ہی گر گیا . . .
                کچھ دیر بعد لنڈ خود با خود ہی باہر نکل گیا . . . نادرا تو نڈھال ہو کر گری پڑی تھی . . . اور ببلی اس کے اوپر ہی لوڑکا ہوا تھا . . .
                " اٹھ میرے اوپر سے ببلی " . . . .
                کچھ دیر بعد نادرا کی آواز سے وہ ایک طرف لوڑک گیا . . .
                " مجھے نیچے لے چل صفائی کرنی ہے . . . مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا " . . .
                اپنا پیٹ پکڑتے ہوے . . . نادرا نے ببلی سے کہا . . تو اس نے اپنی تایا زاد بہن کو کسی بچی کی طرح گود میں اٹھا لیا . . اور اپنے کمرے میں لے آیا . . . لائٹ جلاتے ہی ببلی نادرا کی حالت دیکھ کر سہم گیا . . .
                " آہ . . دیکھ کیسے پھاڑی ہے تو نے میری ". . .
                نادرا نے پھدی کی طرف اشارہ کیا . . تو ببلی کو پھٹی ہوئی خون اور منی سے بھری ہوئی پھدی نظر آئی . . . جو بدن صبح کسی مکھن ملائی سا لگ رہا تھی . . . اب وہاں جگہ جگہ اس کے ڈانٹ كے نشان تھے ممے لال پڑ گئے تھے . . . ببلی نے گیلے کپڑے سے نادرا کی پھدی صاف کی . . . اور اُس پر فریج سے برف نکال کر رگڑنے لگا . . . پھدی کو کچھ ٹھنڈک ملی تو نادرا کا درد بھی کچھ کم ہوا . . .
                " ببلی . . جنید كے کمرے میں میڈیکل بکس ہوگا وہ تو لے آ " . . .
                اتنا بول کر نادرا صوفے پر لیٹ سی گئی . . . اور ببلی بھاگ كر ساتھ والے کمرے سے میڈیسن بکس لے آیا . . . جو ہمیشہ جنید كے بیڈ كے ساتھ والی میز پر موجود رہتا تھا . . . نادرانے جب تک دوا لی . . .، ببلی باتھ روم سے اس کی شلوار قمیض اٹھا لایا . . . بڑے پیار سے اس نے پہلے شلوار پہنائی . . اور پھر اس کو قمیض پہنائی . . نادرا بھی اپنے چاچا زاد بھائی کا اتنا پیار دیکھ کر پرسکون ہوگئی . . .
                " چل اب پریشان مت ہو . . . دو دن تک سب ٹھیک ہو جائے گا . . . ایک بار تو ہونا ہی تھا یہ درد " . . .
                ماحول کو خوشگوار کرتے ہوئے . . جب نادرا نے یہ بات کہی . . تو ببلی نے اسے واپس اٹھا لیا . . اور اوپر لے گیا . . پہلے نادرا کو لیٹایا اور پھر اس کو اپنی بانہوں میں بھر کر خود بھی لیٹ گیا . . . نادرا نے پیار سے ایک چُما اس کے ہونٹوں پر دیا . . . اور کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کی بانہوں میں سمٹی ہوئی سو گئی . . . اِن سب معملات میں تقریباً دو بج چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
                سائرہ کی آنکھ آج وقت سے پہلے ہی کھل گئی تھی . . . اس نے کروٹ بدلی تو امرین کو اپنی طرف منہ کر كے لیٹا ہوا پایا . . . وہ اِس وقت بلکل کسی چھوٹی بچی کی طرح گھٹنے موڑے ہوے سوئی ہوئی تھی . . . سائرہ نے بیڈ كے کنارے رکھی ہوئی چھوٹی گھڑی کی طرف دیکھا . . . تو ابھی چار ہی بجے تھے . . . وہ امرین کی طرف کھسکی اور اس کو اپنی بانہوں میں لے کر دوبارہ لیٹ گئی . . . امرین كے گرم جسم نے اس کو جیسے کچھ آرام دیا . . . پھر ایسے ہی سائرہ نے پلکیں بند کر لی . . باہر ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
                ادھر چھت پر بھی نادرا ببلی کے ساتھ چپک کر سو رہی تھی . . . اس وقت اس کا چہرہ بھی پرسکون اور معصوم سا لگ رہا تھا . . . ہلکی ٹھنڈ تھی تو دونوں كے جسم جیسے ایک ہونے کی کوشش میں تھے . . .
                ببلی کی آنکھ چڑیوں کی چہچاہت سے کھلی . . . جو شاید قریب کے درخت سے آ رہی تھی . . . آنکھیں کھولی تو اپنی تایا ذاد بہن کو اپنی چھاتی سے چپکا ہوا پایا . . . کچھ سوچ کر اس نے اپنی جگہ ایک تکیہ رکھا . . اور نہایت ہی آرام سے چادر سے باہر آ کر دوبارہ پھر سے نادرا کے اوپر چادر اوڑھا دی . . . پاس میں پڑی ایک اور چادر بھی اس پر ڈال کر وہ نیچے آ کر فریش ہوا . . اور تیار ہو کر وقت سے پہلے ہی رننگ کرنے چل دیا . . . ابھی تو بشیر صاحب بھی نہیں اٹھے تھے . . .
                گزری رات کو یاد کر کے وہ بس دھیمے قدموں سے بھاگ رہا تھا . . . صرف دو گھنٹے کی نیند لینے كے باوجود آج اس کا جسم خود اس کو چاک و چوبند لگ رہا تھا . . . اور ایک خاص بات ہوئی . . . ببلی جہاں روز آبادی سے دور نئے سیکٹر کی طرف رننگ کرنے جاتا تھا . . .، آج وہ اپنے ہی سیکٹر کی مین سڑک كے کنارے رننگ کر رہا تھا . . .
                کچھ آگے چلنے کے بعد اس نے دیکھا كہ . . کچھ بڑی عمر کے افراد ایک پارک میں ورزش اور یوگا کر رہے تھے . . . پانچ سے چھے لوگوں کا گروپ تھا جو یہ سب کر رہا تھا . . . اور وہ لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے . . . بڑے بڑے درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچاہت اِس منظر کو مزید دلکش بنا رہی تھی . . . ببلی پارک كے اندر چلا گیا اور کنارے پر بنے فٹ پاتھ پر پھر سے دوڑ لگانے لگا . . . تقریباً آٹھ سو گز لمبائی كے اِس پارک كے چار چکر لگا کر وہ واپس گھر کی طرف نکل پڑا . . . اب کافی لوگ آنے لگے تھے وہاں تو اس کو بھی ٹائم کا اندازہ ہو گیا تھا . . . آسمان ہلکا نیلا ہو چکا تھا . . . جیسے ہی گھر میں داخل ہوا . . تو دیکھا کہ . . دادا جان نہا کر بیٹھک سے اندر جا رہے تھے . . . وہ بھی سیدھا اوپر چل دیا بنا کوئی آواز کیے . . . اپنے کمرے میں جوتے اُتار کر اس نے کپڑے بَدَل کر گھر کی چپل پہنی . . اور تیسری منزل پر پہنچ گیا . . . نادرا کسی کپڑے کی گٹھری کی طرح چادر كے اندر سمٹی ہوئی تھی . . . پھر اس کا دھیان گیا نیچے بچھی ہوئی چادر پر جہاں الٹی . . " وی " . . . كی شکل میں تقریباً ایک فٹ كے جتنا گہرا لال بھورا دھبہ بنا ہوا تھا . . . یہ دیکھتے ہی ببلی کو نادرا کی چُدائی سے پھٹی ہوئی پھدی یاد آ گئی . . . اس نے نادرا كے منہ سے کپڑا ہٹا کر اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھا . . .، جو بری طرح تپ رہا تھا . . .
                " باجی . . .، اٹھ جائیں اور آپ نیچے چل کر آرام کیجیے . . دیکھو آپ کو تیز بخار ہے " . . .
                اس نے پیار سے نادرا کو جگایا . . .
                اپنی بڑی بڑی آنكھوں سے نادرا نے اپنے چاچا زاد بھائی کو اپنے پاس بیٹھے دیکھا . . . اس کی آنکھیں بھی کچھ زیاده ہی لال ہو رہی تھی . .، شاید چُدائی كے درد اور نیند کی کمی سے . . .
                " ببلی تو کب اٹھا . . .؟ "
                اتنا بول کر نادرا نے جیسے ہی اٹھنے کی کوشس کری . . پورے جسم میں درد کی تیز لہر دوڑ گئی . . .
                " آرام سے باجی کوئی جلدی نہیں ہے . . . اور میں ایک گھنٹہ پہلے ہی اٹھ گیا تھا . . . اور ابھی سب سو ہی رہے ہیں . . تو آپ بھی نیچے اپنے کمرے میں ہی سو جاؤ . . . یہ سب میں اٹھا لوں گا یہاں سے . . . چلو میں لے چلتا ہوں آپ کو نیچے " . . .
                اتنا بول کر ببلی نے نادرا کو دونوں بازؤں میں پکڑ كر آرام سے کھڑا کیا . . تو ہمت کر كے وہ بھی کھڑی ہو گئی . . . دو قدم چلی تو پھر رک گئی . . .
                " ہائے ببلی ایسا لگ رہا ہے جیسے اندر سے چوت میں کٹ لگ گئے ہیں " . . .
                " آپ رکو " . . .
                اتنا بول کر اس نے بڑے آرام سے نادرا کو اپنی بانہوں میں لیا . . اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا نیچے چل دیا . . . دوسری منزل سے نیچے دیکھا تو تایا جان . .، ثمرین اور امی كے کمرے كے دروازے ابھی بند ہی تھے . . . اسی طرح نادرا کو اٹھائے وہ نیچے آیا . . اور اسے اس کے کمرے میں لے جا کر لیٹا دیا . . . پھر ماتھا چوم کر بولا . . .،
                " آپ ابھی آرام کرو . . اور اگر کوئی پوچھے تو بول دینا اوس گرنے کی وجہ سے بخار ہو گیا ہے اور رات کو پاؤں سلپ ہو گیا تھا " . . .
                " آئی لو یو سو مچ ببلی " . . .،
                ببلی كے گلے میں اپنی بانہوں کا ہار ڈال کر . . . نادرا نے ایک لمبا سا کس کیا . . اور پھر لیٹ گئی . . . ببلی باہر جاتے ہوئے اس کے کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا گیا . . .
                چھت پر جا کر تمام سامان اپنی جگہ رکھ کر . . وہ خون سے بھری ہوئی چادر چھپا کر نیچے واپس آ گیا . . . امرین كے کمرے کا دروازہ ہلکا کھلا ہوا دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا . . .
                " اتنی جلدی تو یہ کبھی نہیں اٹھتی . . اور ابھی تھوڑی دیر پہلے تو یہ بھی بند ہی تھا " . . .
                من ہی من میں سوچتا ہوا . . ببلی اس کمرے کی طرف چل دیا . . . ہلکا دروازہ کھولا تو دیکھا سائرہ بیڈ سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہی تھی . . . اور اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا . . .
                " کچھ کھو گیا ہے کیا باجی . . .؟ "
                ببلی کی آواز نے سائرہ کو ہوش کی دنیا میں واپس لایا . . تو وہ اس کو دیکھ کر مسکرا اٹھی . . . پاس میں امرین ویسے ہی لیٹی تھی جیسے پہلے تھی . . .
                " کچھ نہیں . . . کل شام کو زیادہ ہی سو لیا تھا پھر رات میں بھی تو اٹھ گئی تھی " . . .
                " پھر تو میرے سے ہی غلطی ہو گئی . . آپ کو بھی اپنے ساتھ ہی پارک لے جاتا . . . دن شاید اور حَسِین ہو جاتا میرا " . . .،
                یہ کہہ کر ببلی بھی دونوں كے درمیان لیٹ گیا سیدھا . . .
                " جو منہ میں آیا بولتا رہتا ہے تو " . . . .
                واپس شرم نے آ گھیرا تھا اسے . . اور ببلی کو موقع مل گیا تھا اسے چھیڑنے کا . . .
                " ویسے ایک بات کہوں باجی . . .، آپ نہ میرے ساتھ سویا کرو . . . کیا پتہ مجھے اور میرے اِس دِل کو بھی تھوڑا سکون مل جائے " . . .
                یہ کہتے ہوے ببلی نے سائرہ كے پیٹ پر ہاتھ رکھ دیا . . . اب سائرہ نے بھی کچھ نہیں کہا . . . اور جھک کر خود ہی پہلے ببلی کے گالوں کو چُوما پھر اس کے ہونٹ . . . سائرہ كے کھلے بالوں سے اس کا پُورا چہرہ ڈھک سا گیا تھا . . . دونوں پیار سے ایک دوسرے كے ہونٹ چوس رہے تھے . . کبھی اوپر والا تو کبھی نیچے والا . . . اور یہاں امرین نے اپنا ہاتھ ببلی كے چھاتی پر رکھا . . اور چپک گئی اس سے . . . سائرہ اور ببلی دونوں کچھ دیر بعد الگ ہو چکے تھے . . . وہ وہی بیٹھی بس مسکرا رہی تھی . . . ببلی اب نہ اٹھ سکتا تھا اور نہ ہل سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                امرین شاید کوئی خواب دیکھ رہی تھی . . جو اچانک اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سیدھے لیٹے ببلی كے اوپر رکھ دی اور اپنا منہ اس کی گردن پر . . . ببلی بےسدھ ہو کر لیٹا رہا۔۔۔۔۔۔
                " بہت برا پھنسا آج سائرہ باجی كے چکر میں . . . اب اگر امرین باجی اٹھ گئی تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا كہ . . یہاں ان کے بستر پر میں کیا کر رہا ہوں " . . .
                ببلی یہی سوچ رہا تھا . . . اور اس کے چہرے پر پھیلی خوف کی لہر کو دیکھ کر سائرہ ہنسنے لگی۔۔۔۔۔۔
                یہاں امرین شاید نیند میں سائرہ سمجھ کر ببلی كے اوپر آدھی لیٹ چکی تھی . . . دونوں کی ہونٹ ہلکے ہلکے ٹکرا رہے تھے . . . امرین کے ہاتھوں نے ببلی کو بانہوں میں لیا . . اور نیند میں ہی اس نے ببلی كے ہونٹ اپنے ہونٹوں سے پکڑ لیے . . . لیکن جیسے ہی ہاتھ چھاتی پر آیا تو وہ بالکل سخت جگہ تھی . . . امرین نے نیند میں اپنی آنکھیں کھولی . . تو نیچے ببلی کو پایا . . . اس منظر کو خواب سمجھ کر وہ پھر سے اس کے ہونٹ چومنے لگی . . . امرین نے اندر کوئی بریزئیر تو پہنی نہیں تھی . . اس کے مموں کے لمس سے ببلی کا لنڈ بھی سخت ہو کر امرین کی رانوں سے تھوڑا اوپر ٹکرانے لگا . . . ایک بار پھر آنکھیں کھولی تو نیچے ببلی اور اس کے برابر میں ہنستی ہوئی سائرہ کو پایا۔۔۔۔۔
                امرین کو جب کچھ سمجھ میں آیا . . تو وہ شرم اور گھبراہٹ سے مخالف سمت میں پلٹ گئی . . ان دونوں کی طرف بنا دیکھے سائرہ سے پوچھا . . .،
                " یہ یہاں کب آیا . . .؟ "
                " تو ہی تو رات کو اس کے ساتھ کمرے میں آئی تھی . . . اور پھر پوری رات تو اس کے اوپر سوتی رہی . . . دیکھ یہ آج رننگ کرنے بھی نہیں جا پایا " . . .
                سائرہ نے سنجیدہ ہو کر کہا . . .
                " اور تو اور مجھے تو ٹھیک سے سونے بھی نہیں دیا تو نے . . . اور یہ تو رات سے گونگا بنا لیٹا ہے تیرے ساتھ . . . ابھی چاچی یا امی آ جاتی کمرے میں تو بس ہو گیا تھا نہ ہمارا کام " . . .
                سائرہ نے مزید مرچ مصالحہ لگایا . . امرین کی تو آنکھیں بھیگ ہی گئی یہ سب سوچ کر۔۔۔۔۔۔
                نیند میں کبھی کبھی چلنے کی بیماری تھی اس کو . . . یہ زیادہ پڑھنے اور دیر رات تک جاگنے سے اس کو لگی تھی۔۔۔۔۔۔
                " یار میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے کچھ یاد نہیں . . . تو بھی جانتی ہے نہ میری پروبلم . .، تو ببلی کو بتا میں ایسی نہیں ہوں " . . .
                ابھی بھی امرین ببلی کی طرف منہ کرنے سے گھبرا رہی تھی . . . ببلی کو لگا شاید اب زیادہ ہو گیا ہے . . .
                اس نے اپنے ہاتھ سے امرین کو اپنی طرف گھمایا . . اور قریب کرتے ہوئے اس کے ماتھے کو چوم کر بولا . . . .
                " ارے میری پیاری باجی . . آپ کو لگتا ہے کہ . . اپ ایسا کر سکتی ہو . . .؟ نہیں نہ . . میں تو خود ابھی پانچ دس منٹ پہلے آیا تھا . . . اور یہاں آ کر لیٹ کر سائرہ باجی سے باتیں کر رہا تھا . . . اور آپ کیوں گھبراتی ہیں جب میں ہوں آپ کے ساتھ " . . .
                اتنا بول کر اس نے ایک بار چوم لیا امرین کے گال کو . . . امرین بھی پیار اور شرم سے لپٹ گئی اپنے سوتیلے بھائی سے . . .
                " واہ مطلب اب ہماری تو قدر ہی نہیں " . . .
                سائرہ نے مسکرا کر یہ بات کہی تو امرین بھی بولی . . .
                " ببلی اِس غریب کو بھی تھوڑا پیار دے ہی دے . . . دیکھ کیسے جل کر لال ہو چکی ہے " . . .
                ببلی نے ہنستے ہوئے سائرہ کو پکڑنا چاہا . . . تو وہ بھاگ کھڑی ہوئی اور دروازے پر پہنچ
                كر بولی . . .
                " اپنے حصے کا میں پہلے ہی لے چکی ہوں . . . سنا نہیں تھا کیا ببلی دس منٹ سے یہاں تھا تیرے اٹھنے سے پہلے " . . .
                یہ بول کر وہ ہنستے ہوئے بھاگ گئی باہر . . . پانچ منٹ تک دونوں سوتیلے بہن بھائی ایسے ہی لیٹے رہے . . . پھر امرین نے ایک چھوٹا سا کس کیا ببلی کے گال پر اور کھڑی ہو گئی . . . یہی پر ببلی کی نظر امرین کی ٹی شرٹ میں چونچ دکھا رہے کھڑے نپلوں پر چلی گئی . . . اور امرین کو بھی پتہ چل گیا کہ . . اس کا سوتیلا بھائی کیا دیکھ رہا ہے . . . شرم سے دوہری ہوتے ہوے وہ مڑ گئی . . اور ببلی بھی ہنستا ہوا باہر صحن میں آ گیا . . .
                " پاگل ہے یہ دونوں اور مجھے بھی کر دیا ہے " . . .
                خود سے اتنا بولا اور سامنے آئینے میں اپنے بریسٹ دیکھ کر امرین مسکرا اٹھی . . .
                " اس کا ہی تو ہے سب "۔۔۔۔۔۔۔
                " نادرا نظر نہیں آ رہی لیلیٰ . . کوئی کام کر رہی ہے کیا . . .؟ "
                خانم بی بی نے اپنی بہو سے پوچھا . . کیونکہ اِس ٹائم زیادہ تر کچن میں نادرا ہی کام کرتے ہوے نظر آتی تھی . . . ببلی كے بھی کان کھڑے ہو گئے . . جو وہی بیٹھا ناشتہ ہی کر رہا تھا اپنے تایا جان كے ساتھ . . .
                " وہ اما جی اس کو بخار ہوگیا ہے . . . اور پھر رات کو پانی پینے كے لیے کمرے سے نکلی تو پھسل گئی تھی . . پاؤں میں موچ بھی آئی ہوئی ہے " . . .
                لیلیٰ نے فکرمندی سے کہا . . . اب سائرہ اور امرین کو بھی پتہ چلا كہ . . ان کی بڑی باجی کیوں غائب تھی وہاں سے . . .
                " میں دیکھتی ہوں اپنی بچی کو . . . اور بیٹا ثمرین اپنی ماں کو بھی کمرے میں ہی كھانا دے آ . . . اس کو بھی آرام کرنے دے " . . .
                اتنا کہہ کر خانم بی بی اٹھ گئی . . .
                " امی کو کیا ہوا ہے تائی جان . . .؟ "
                كھانا درمیان میں چھوڑ کر ببلی نے ثمرین كے ہاتھ سے ڈش لی . . اور تھوڑا گھبرایا ہوا سا اپنی سوتیلی ماں کی طرف چل دیا بنا اپنی تائی کا جواب سنے . . . اندر آیا تو نبیلہ
                بستر پر لیٹی ہوئی تھی . . .
                " امی . .، کیا ہوا آپ کو . . .؟ اور آپ اٹھو كھانا کھا لو پھر میں ڈاکٹر کو بلا لاتا ہوں . . . .
                اپنے سوتیلے بیٹے کو اِس طرح پریشان دیکھ کر . . نبیلہ اٹھ گئی اور اس کے سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوے بولی . . .
                " ارے میرے بیٹے مجھے کچھ نہیں ہوا . . . وہ موسم تبدیل ہو رہا ہے نہ بس اس لئے تھوڑا بخار ہو گیا تھا رات میں . . . لیکن اب ٹھیک ہوں . . . تو پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوا مجھے . . . رات ثمرین نے میرا اچھا خاصہ خیال رکھا تھا " . . .
                اسی دوران ثمرین اور امرین بھی اندر چلی آئی . . .
                " یہاں تو مُنا ابھی بھی ماں سے چپکا ہوا ہے . . . جانے کب بڑا ہوگا یہ . . .؟ "
                امرین نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے . . . سنجیدہ لہجہ اختیار کرتے ہوے کہا . . . اور پھر ببلی کو چھوڑ کر سب ہنس پڑے . . .
                " امی دیکھو نہ باجی کو " . . .
                ببلی نے بھی جھوٹی شکایت لگائی . . .
                " اچھا اچھا تم دونوں باہر جا کر لڑائی کرو اور امی کو كھانا کھانے دو . . . پھر دوا بھی دینی ہے " . . .
                ثمرین نے دونوں کو باہر کر دیا . . .
                خانم بی بی بھی نادرا كے کمرے سے واپس آ گئی تھی . . .
                " ابھی ٹھیک ہے پہلے سے وہ . . . بخار تو اُتَر گیا ہے شام تک ٹھیک ہو جائے گی " . . .
                انہوں نے لیلیٰ کو بتایا . . .
                ایسے ہی ناشتہ اور روز کا کام ختم ہوا . . . تمام احباب اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے . . . گیارہ بجے كے قریب جنید بھائی گھر آئے . . اور سیدھا سائرہ اور امرین كے کمرے كے دروازہ کھٹکھٹایا . . سائرہ باہر آئی اور جنید نے اس کے ہاتھوں میں دو چابیاں رکھ دی . . اور مسکرا كر واپس باہر کی طرف چل دیا . . .
                " امرین . . .، چل باہر دیکھ ہماری آلٹو آ گئی ہے " . . . .
                سائرہ تقریباً چیختے ہوے بولی تو امرین بھی اس کے ساتھ اچھلتی ہوئے نکل گئی . . .
                " بھائی یہ تو اسکوٹی ہے . . . آپ نے تو آلٹو کا کہا تھا " . . .
                سائرہ نے جنید کو اسکوٹی پر بیٹھے دیکھا تو منہ بناتے ہوے کہا . . .
                " دادا جان نے کل رات کو منع کر دیا تھا . . . کہا فی الحال اسکوٹی ہی لے کر دے دو " . . .
                جنید نے دادا جان کی طرف دیکھتے ہوے کہا . . .
                " ویسے یہ بھی برتھ ڈے پریزنٹ کے طور پر ٹھیک ہے؟ " . . .
                سائرہ نے امرین سے کہا . . .
                " یاد کر اپنی خود کی کہی بات " . . .
                یہ کہتے ہوے اس کے ہاتھ سے چابی لے کر . . اسکوٹی كے چاروں طرف گول گول گھومنے لگی . . .
                " ہوں ں ں " . . .
                سائرہ چھوٹی بچی کی طرح ناراضگی کا اظہار کرنے لگی . . .
                " الے الے میلی بچی . . . تجھے ٹافیاں ملے گی . .، اسکوٹی نہیں " . . .
                امرین نے پھر سے چھیڑا . . . .
                " اور ہاں جنید بھائی اِس سائرہ کی بچی نے خود ہی کہا تھا كہ . . آپ جو بھی پریزنٹ اس کو لے کر دو گے وہ میرا ہوگا " . . .
                اب امرین نے جنید کو پوری بات بتائی . . .
                " پھر تو بات ٹھیک ہے . . . اس کو امرین ہی رکھے گی " . . .
                جنید بھی آج مذاق كے موڈ میں تھا . . .
                " کوئی بات نہیں . . . مجھے نہیں چاہیے کچھ بھی " . . .
                اور وہ جیسے سچ میں روٹھ گئی . . .
                " ارے میری پیاری باجی . . جو میرا ہے وہ آپ کا . .، اور جو آپ کا ہے وہ میرا . . . ہم میں کون سا بٹوارہ ہے " . . .
                یہ بات امرین نے آنکھ مارتے ہوئے کہی . . جس کو جنید نہیں دیکھ پایا . . .
                " ویسے بھائی ایک بات کہوں گا . . .، آپ نے بندر کو اَدْرَک لا کر دے دی ہے " . . .
                ببلی اپنے دادا جان كے ساتھ بیٹھا یہ ڈرامہ دیکھ رہا تھا . . اور آخر میں بول ہی پڑا . . . جنید اور دادا جان تو ہنس پڑے . . . لیکن امرین اور سائرہ کو بات سمجھ نہیں آئی . . .
                " کیا کہا اس نے . . .؟ مجھے بندر کہا . . .؟ "
                امرین نے غصے میں نخرے سے کہا . . .
                " بیٹا اس کا مطلب ہے كہ . . تم دونوں کو سائیکل چلانی تو آتی نہیں اِس اسکوٹی کو کیسے چلاؤ گی " . . .
                دادا جان نے دونوں كے چہرے دیکھتے ہوے کہا . . .
                " بھائی . . .، آپ ہمیں سیکھاؤ گے نہ . . .؟ "
                دونوں جنید کی منت سماجت کرنے۔لگی . . .
                " گُڑیا مجھے تو کل سے بالکل بھی ٹائم نہیں ملے گا . . . تین شہر اور میرے انڈر آ گئے ہے تو میں تو گھر بھی روز نہیں آ پاؤں گا " . . .
                " پھر تو ایک ہی کام کرتے ہیں بیٹا كہ . . یہ اسکوٹی ہم ببلی کو دے دیتے ہے " . . .
                دادا جان کی بات سن کر دونوں چونک گئی . . . اور ببلی دونوں کو چھیڑنے لگا . . .
                " اب تو پھر یہی ہم دونوں کو سیکھاے گا . . . نہیں تو میں پاپا کو فون لگا دیتی ہوں ابھی اسی وقت " . . .
                امرین نے اتنا کہا تو اب دادا جان نے بھی بات ختم کرنے كے حساب سے کہا . . .
                " دونوں ایک دن چھوڑ کر ایک ایک کر کے اس کے ساتھ جاو گی روز صبح . . . اور یہ ایک گھنٹہ تم دونوں کو اسکوٹی سیکھاے گا " . . .
                پھر دونوں نے کچھ بات کی آپس میں . . . اور سائرہ بولی . . .
                " کل امرین جائے گی اور پرسوں میں . . یہی شیڈول رہے گا روز صبح سات بجے " . . .
                " نہیں بیٹا نہیں . . . کچھ پانے كے لیے کھونا پڑتا ہے . . سات بجے نہیں چھے بجے اور جس دن جو شخص بھی دس منٹ لیٹ ہوا وہ اس دن گھر پر ہی رہے گا " . . . .
                بشیر صاحب یہ بول کر اٹھ گئے . . . انہیں پتہ تھا كہ . . دونوں ہی سات بجے تک اٹھتی ہیں . . . جنید بھائی واپس کام پر چلے گئے . . . اور امرین / سائرہ پڑھائی کرنے اپنے کمرے میں . . . ببلی کو بس آج کے دن تک ہی آزادی تھی . . کل سے اس کو بھی اسٹیڈیم جانا تھا بوکسنگ سیکھنے كے لیے . . ایک بار نادرا سے مل کر وہ اپنے کمرے میں بیٹھ گیا . . . باہر کہی جانا نہیں تھا تو شارٹ اور ٹی شرٹ پہن لی آرام کرنے كے غرض سے . . . ٹیلیوژن چلایا . . اور گانے چلا کر بڑے صوفے پر ہی آنکھیں بند کر كے لیٹ گیا . . .
                تھوڑی دیر بعد کسی فلم کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی . . تو اپنے قدموں كے پاس سائرہ کو بیٹھے ہوے پایا . . . جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے ہی چہرے کو دیکھ رہی تھی . . . اسے لگا کہ . . وہ سو رہا ہے تو من مار كر بیٹھی رہی . . .
                " اپنے بواے فرینڈ كے بنا دِل نہیں لگ رہا تھا نہ . . . .؟ "
                ببلی نے سائرہ کو کھینچ کر اپنے اوپر لیٹا لیا . . . حیرانگی كے ساتھ ساتھ خوش ہوتے ہوئے وہ بھی پوری اُس پر لیٹ گئی . . .
                " سہی کہا تو نے . . پتہ نہیں کیوں نیچے دل نہیں لگ رہا تھا . . تیری یاد آئی تو یہاں چلی آئی . . لیکن تو تو سو رہا تھا " . . .
                یہ کہتے ہوئے خود ہی اس نے کس کرنا اسٹارٹ کر دی . . . ببلی نے با خوبی ساتھ دیتے ہوئے اپنے ہاتھ اس کے مٹکے جیسے کولہوں پر رکھ دیئے . . . کولہوں کو مسلتے ہوئے ہی اس نے سائرہ كے اوپر كے ہونٹوں کو
                پکڑ کر چوسنا شروع کر دیا . . . پھر ہاتھ اوپر آئے اور ایک ہاتھ لاسٹک والی شلوار كے اندر سے اس کے نرم چوتڑوں کو مسلنے لگا . . . سائرہ اب اپنی زبان چسوا رہی تھی ببلی سے . . اور اس کے منہ کا سواد ببلی کو شہد سا مزہ دے رہا تھا . . دوسرے ہاتھ میں اس کا ایک دودھ پکڑ لیا . . .
                مزے سے دونوں پاگل ہو رہے تھے . . . لیکن ببلی كو یہ نہیں پتہ تھا كہ . . . سائرہ کو امرین نے ہی بھیجا تھا . . . اور وہ کھڑکی سے دونوں کو مزے لیتے ہوے دیکھ رہی تھی . . .
                " باجی آپ کا ذائقہ تو فروٹ جیسا ہے . . . میٹھا اور مزے سے بھرا . . اور آپ کے یہ دونوں ابھار کتنے سوفٹ ہیں . . . میرا دِل ہی نہیں کرتا آپ کو چھوڑنے کا " . . .
                ببلی کا اشارہ سمجھ کر سائرہ نے دوبارہ کسسنگ پر دھیان لگا لیا . . . مزے سے اس نے اپنی کمر ببلی كے کھڑے لنڈ پر رگڑنی شروع کر دی . . .
                " ببلی یہ کیا ہے . .؟ بڑا گرم اور گول ہے . . . کسی موٹے ڈنڈے جیسا " . . .
                جب سائرہ سے رہا نہ گیا تو کمر ہلانا روک دی اور اس سے پوچھا . . .
                " باجی خود ہی دیکھ لو نہ آپ . . . میں آپ کے کسی حصے کو پوچھ كر تھوڑی چھوتا ہوں " . . .
                سائرہ نے جھجکتے ہوئے باہر سے ہی اس کے لنڈ پر ہاتھ رکھا . . . اور جب رہا نہیں گیا تو شارٹ اتارنے کی کوشش کرنے لگی . . . لنڈ پھنسا ہوا تھا کھڑا ہونے سے . . اور نیچے سے شارٹ پھنسی ہوئی تھی . . . ببلی نے کمر پیچھے کر کے سائرہ کی مشکل آسان کر دی . . . کسی اسپرنگ کی طرح ببلی کا آٹھ انچ کا لنڈ سائرہ کے ہاتھوں سے جا لگا . . . .
                " ہاے ہاے . . یہ کیا ہے ببلی . . .؟ "
                لنڈ کا نظارہ دیکھتے ہی حیران ہوتے ہوئے سائرہ نے کہا . . . ادھر باہر کھڑی امرین کی بھی سانس اٹک سی گئی تھی . . . اسے تھوڑا اس حوالے سے علم تھا . . . اور کچھ سہیلیوں كے منہ سے سنا تھا کہ . . لڑکوں کا لنڈ ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے . . لیکن یہ تو اس کی سوچ سے مختلف تھا . . .
                " یہ جائے گا کیسے . . .؟ "
                ببلی كے لنڈ کو دیکھ کر امرین کے منہ سے نکلا . . . اس کو اپنی پھدی کا خیال آیا اور وہ سہم سی گئی . . . اندر سائرہ کا بھی یہی حال تھا . . .
                " کیوں باجی . . . .، کیا سب کا ایسا نہیں ہوتا . . .؟ "
                اس نے بھی سنجیدہ ہو کر یہ بات کہی . . . لیکن یہ اس کا بھولاپن تھا . . .
                " وہ بات نہیں ہے ببلی . . . میں نے اپنی فرینڈز سے سنا تھا . . لیکن یہ تو ان کی باتوں سے بالکل ہی مختلف ہے " . . .
                " باجی سب کا ایسا ہی ہوتا ہے " . . .
                ببلی دوبارہ پھر سے سائرہ كے ممے مسلنے لگا . . . ادھر امرین نے کچھ اشارہ کیا . . تو سائرہ نے ایک بار ببلی کا لنڈ سہلایا . . اور واپس اندر ڈال کر اس کو ایک میٹھی چُمی دیتے ہوئے فورا نکل گئی . . .
                " آج تو نے مروا ہی دیا نہ امرین کی بچی " . . .
                اکھڑتی ہوئی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے . . . سائرہ نے امرین سے کہا . . . دونوں کمرے میں بیٹھی تھی . . .
                " ارے سچ کہہ رہی ہے مر ہی جائے گی تو اگر اس کا تیرے اندر گیا . . . اف ف ف . . کتنا بڑا اور موٹا ہے اس کا " . . .
                امرین ابھی تک صدمے میں تھی . . .
                " عام طور پر پانچ سے چھے انچ كے درمیان ہی لڑکوں کے ہوتے ہیں . . . لیکن اس کا تو کلائی جتنا موٹا . . اور ایک گٹھ کا لگ
                رہا تھا . . . سائرہ غلطی سے بھی اس کے نیچے نہ آنا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • Aisi kahani sadiyon baad milti hy kay parh kr insan khud wnhi phunch jata hy sir bhut shahndar salute you?

                  Comment


                  • سواد آ گیا بادشاہو

                    Comment


                    • اف بہت زبردست یار ریلی مزہ أجاتا أگیا یوںیوںأگے پڑتے جا رھا ھوں

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X