Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پیار سے پیار تک۔۔۔سائیں صاحب

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    wah kmal ka peac hye lahtye hye hero kye ird ghird hosan ka daira hye or hero os darye sye khob lottf andoz bi ho ga hr pice hi aik sye padh kr aik....

    Comment


    • #22
      WAoooooo yar kia zabardast story ha bhot maza ane wala ha next update main

      Comment


      • #23
        Kamal kar diya bht hi behtreen

        Comment


        • #24
          کہانی کسی شہکار سے کم نہیں لگ رہی۔ بہت خوب

          Comment


          • #25
            Kamal ki update moji sir kia bhtreen mnzr nigari ha aik aik lfz ase likha jise prh ka lgta ha sb kuch ankho ka samne ho rha ho

            Comment


            • #26
              پیار سے پیار تک
              قسط # 003
              رائیٹر :- Enigma
              مترجم :- سائیں صاحب

              " چل چل جلدی یہاں سے . . . کالج کے لئے لیٹ ہو رہے ہیں . . . بعد میں کر لینا تعریف میری " . . .
              تھوڑا رُعْب سے بولتے ہوئے اس نے اپنی فائل اُٹھائی . . تو ببلی سہم سا گیا . . . اور باہر کی طرف چل دیا . . . وہی سائرہ بھی منہ نیچے کر کے دھیمی دھیمی مسکرا رہی تھی اپنے چھوٹے چچا زاد بھائی پر . . .
              " باجی آپ دھیان سے بیٹھنا . . . ایسا نہ ہو کہی کڈھا وڈا آیا تو گر نہ جاؤ " . . .
              ببلی جو اسکوٹر اسٹارٹ کر چکا تھا . . . اپنی تایا زاد بہن سائرہ سے بولا جب وہ بیٹھنے لگی . . . یہ لمبی سیٹ والا اسکوٹر تھا جس کو ون ٹو فائیو کہا جاتا ہے . . .،
              اس پر سائرہ اپنے دونوں پاؤں ایک ہی طرف کر کے بیٹھ چکی تھی . . . اس نے ایک ہاتھ میں اپنی فائلز اور چھوٹا سا پرس پکڑا ہوا
              تھا . . . اور دوسرا ہاتھ ببلی كے دائیں کاندھے پر تھا . . . دوپٹہ اب اس کے سَر كے اوپر سے آتا ہوا سینے کو ڈھانپے ہوئے تھا . . .
              شاید یہ بھی تربیت کا حصہ تھا كہ . . . گھر کی کوئی بھی لڑکی بنا سَر ڈھانپے گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی . . .
              " بس تو اسکوٹر چلانے پر دھیان دے بھائی . . . میں گری تو تجھے بھی لے کر گروں گی " . . .
              کھلکھلاتے ہوئے سائرہ بولی . . . اور وہ دونوں نکل دیئے گرلز کالج کی طرف . . .
              یہ تقریباً چار سے پانچ کلومیٹر دور تھا گھر سے . . . اور شہر كے پررونق حصے میں تھا . . . اِس کالج کا آس پاس كے کہی علاقوں میں نام تھا . . . کیونکہ یہاں تقریباً تمام سہولتیں میسر تھی . . اور پولیس چیک پوسٹ بھی تھی کالج میں داخل ہونے والے تمام راستوں پر . . .، اوباش نوجوانوں کی خیر خبر لینے كے لیے . . . .
              کالج سے تھوڑی دور پہلے ہی سڑک کچھ زیادہ ہے ٹوٹی ہوئی تھی . . . شاید کچھ ترقیاتی کام چل رہا تھا . . . وہاں تو اسکوٹر نے ہلکے سے جھٹکے کھائے . . . سائرہ نے اپنے ہاتھ سے ببلی کی کمر کو مضبوطی سے پکڑ لیا . . . اب اس کا ایک سائڈ کا پُورا پستان ببلی کی پیٹھ سے چپکا ہوا تھا . . . اور وہ تو مزے میں ہی آ گیا اپنی تایا زاد بہن كے اِس طرح سے چپکنے سے . . .
              " دھیان سے چلا چھوٹے یہاں تھوڑی زیادہ ہی روڈ خراب ہے " . . .
              یہ بولتے ہوئے سائرہ نے خود کو اور آگے کر لیا . . . بار بار چھوٹے موٹے کڈھوں كے آنے سے اب اس کی پیٹھ پر سائرہ كے تقریباً دونوں ہی ناریل گھس رہے تھے . . .
              نہ چاہتے ہوئے بھی ببلی كے جسم میں جھرجھری سی پیدا ہونے لگی تھی . . . ایسے ہی مزے كی لہروں سے ہوتے ہوئے . . وہ کب کالج كے گیٹ كے سامنے پہنچ گئے پتہ ہی نہیں چلا . . . اور جب ببلی نے بریک لگائی تب جا کر سائرہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی . . . وہ ابھی تک اپنے چچا زاد بھائی کی پیٹھ سے چپکی ہوئی تھی . . .
              " چلو باجی آپ جاؤ . .، میں یہی باہر آپ کا انتظار کرتا ہوں " . . .
              ببلی نے کالج کی دیوار کے ساتھ اسکوٹر
              کا اسٹینڈ لگاتے ہوا کہا . . .
              " بڑا آیا انتظار کرنے والا . . . سیدھی طرح چل میرے ساتھ اندر . . . اور ہاں میری سہیلیاں بھی ہونگی وہاں . . تو تھوڑا اچھے بچے جیسا برتاؤ کرنا " . . .
              یہ بول کر اس نے ببلی کا ہاتھ پکڑا اور لے گئی اس کو کھینچتے ہوئے کالج كے اندر . . . ویسے تو یہ گرلز کالج تھا لیکن یہاں پر پڑھنے والی لڑکیوں كے رشتے دار بھی اندر آ جا سکتے تھے . . .
              بِلڈنگ كے مین دروازے پر ہی سائرہ نے سیکورٹی گارڈ کے پاس ببلی کی انٹری کروائی اپنے کزن كے نام سے . . اور وہ دونوں چل دیئے اندر . . .
              ببلی تو آج پہلی ہی بار کسی کالج میں آیا تھا . . . ایک بار پہلے وہ کالج تک آیا ضرور تھا . . . لیکن باہر سے ہی امرین کو لے کر چلا گیا تھا . . . آج جب وہ یہاں اندر آیا تو حیران ہی رہ گیا . . . ہر طرف صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھی . . اور یہاں تقریباً دس بلاک تھے . . . جو ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلے پر تھے . . . تمام بلاک الگ الگ سبجیکٹ كے حساب سے تھے . . . اور چہل پہل بھی صرف دو بلاک میں ہی تھی . . . ایک تو جہاں وہ ابھی آئے تھے . . . اور ایک ان سے کچھ ہی فاصلے پر تھا . . . جہاں ہر طرف حسیناؤں كے جھنڈ کھڑے تھے . . .
              " چل پہلے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کا کام نپٹا لیتے ہے " . . . .
              سائرہ کی آواز سے ببلی کا دھیان واپس
              اپنی تایا زاد بہن پر آیا . . جو ابھی تک اس کا ہاتھ تھامے ہوے تھی . . . یہاں کھلی روشنی میں کھڑی وہ پورے کالج کی لڑکیوں کو پانی بھرنے پر مجبور کر رہی تھی . . .
              ببلی کو خود پر فخر محسوس ہو رہا تھا . . . جب اس نے آس پاس دیکھا كہ . . . کئی جوڑی آنكھوں كے انہی دونوں کو دیکھ رہی ہیں . . .
              سائرہ ان کی پرواہ کیے بنا ببلی کو لے کر چل دی وہی پاس میں بنی گیلری میں جہاں ہر دروازے كے باہر ایک تختی لگی ہوئی تھی . . .
              تین کمروں كے بعد آیا . . . " اکاؤنٹس اینڈ ایڈمیشن " . . . کا کمرا . . وہاں کچھ زیادہ بھیڑ نہیں تھی . . . کیوںکہ کالج آٹھ بجے شروع ہو جاتا تھا . . . اور آج زیادہ تر اسٹوڈنٹ کی چھٹی تھی . . .
              سائرہ کا کھڑکی پر چھٹا نمبر تھا . . . اسے یہاں دس سے پندرہ منٹ تو لگنے ہی تھے . . . ببلی نے یہ دیکھ کر بات کی شروعات کی . . .
              " باجی اپنی فائل آپ مجھے پکڑا دیجیئے " . . . ،
              اس نے اپنا ہاتھ فائلز پر رکھتے ہوا کہا . . . سائرہ نے عجیب سا منہ بنا کر ببلی کو دیکھتے ہوئے اپنی فائل اس کو تھاما دی . . . اور ببلی بھی سمجھ گیا كہ . . کچھ تو ہوا ہے . .
              سائرہ نے اس کے من کو بھانپ لیا اور اس کے قریب آ کر دھیمے سے کان میں بولی . . .،
              " یہاں تو مجھے باجی مت بول . . . صرف سائرہ بول یا کچھ بھی " . . .
              ببلی تو اپنی تایا زاد بہن کی سانسوں کی گرمی سے ہی سن ہو گیا تھا . . . جو سیدھا
              اس کے کان کی لوؤں پر محسوس ہوئی . . .
              وہ کچھ نہ بولا اور صرف سائرہ کو اوپر سے نیچے تک ایک بار دیکھا . . . اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا . . . سائرہ اپنے چچا زاد بھائی کی اِس ادا پر مسکرا اٹھی . . اور اس نے بھی اپنا دھیان سامنے کی طرف کر دیا . . .
              " تو کب آئی سائرہ . . .؟ اور یہ جناب کون ہے . . .؟ "
              ایک نہایت ہی سریلی آواز پڑی ببلی كے کان میں . . . تو اس نے دیکھا كہ . . دو لڑکیاں اس کے اور سائرہ كے پاس کھڑی ہیں . . . اور جس کی یہ آواز تھی وہ ایک مدہم سے قد کی بےحد گوری لڑکی تھی . . . دودھ سی سفید سی اس لڑکی كے کاندھے تک تراشے ہوئے گھنے کھلے بال تھے . . اور اس نے ایک لال ٹی شرٹ اور نیلی رنگ کی دینیم پینٹ پہنی ہوئی تھی . . . . اور ساتھ میں جو لڑکی تھی وہ تھوڑی سانولی سی تھی . . . لیکن بھرے ہوئے جسم کی مالک تھی . . . اس نے کالی قمیض اور شلوار پہنی ہوئی تھی . . .
              جہاں اس گوری کی چھوٹی چھوٹی بھوری آنکھیں تھی . . .، اِس سانولی سی لڑکی کی کچھ زیادہ ہی بڑی اور کالی آنکھیں تھی . . . پھر ببلی نے اپنی نظریں کھڑکی کی طرف کر لی . . . لیکن کان انہی کی طرف تھے . . .
              " ببلی . . .، ان سے ملو یہ ہے صفیہ ( گوری ) اور یہ ہے نصرت . . . دونوں ہی میری کلاس فیلو اور پکی دوست ہیں " . . .
              سائرہ نے جب یہ کہا . . تو ببلی نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ان کو آداب کیا . . . جس کو دیکھ کر دونوں ہنس پڑی . . .
              " ارے ارے . . یہ کیا کر رہے ہو . . .؟ کیا ہم دونوں تمہیں انٹیاں لگتی ہے جو آداب کر رہے ہو " . . .
              یہ بات کہتے ہوے نصرت نے اور صفیہ اپنا ہاتھ آگے کر دیا . . .
              " میرا وہ مطلب نہیں تھا " . . .
              ہڑبڑاتے ہوئے ببلی نے بھی ہلکے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا لیا . . . تو دونوں لڑکیوں نے باری باری سے اس کا ہاتھ بھینچ لیا . . .
              " یہ ہوئی نہ بات " . . .
              یہ کہہ کر دونوں ہی اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگی . . . ادھر سائرہ کا نمبر آ گیا تھا . . . تو وہ اپنا کام کرنے لگی گئی . . . یہاں ببلی پھنس گیا تھا ان دو بےباک لڑکیوں میں . . .
              " تو مسٹر ببلی کیا کرتے ہو تم ؟ " . . .
              یہ سوال کیا تھے صفیہ نے . . .، سیدھا ببلی كے چہرے کو دیکھتے ہوئے . . .
              " جی ابھی تو ایگزامس دیئے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں اسپورٹس اکیڈمی جوائن کروں گا . . . دس تاریخ سے دوبارہ پڑھائی اور کوچنگ " . . .
              اس نے آنکھیں نیچے کرتے ہوئے جواب دیا . . . ببلی زیادہ ہی شرما رہا تھا . . کیونکہ وہ دونوں کچھ زیادہ ہے کھل کر اسے تاڑ رہی تھی . . .
              " اوہ ہو . . تبھی اتنا لمبے چوڑے ہو . . . مطلب صرف پڑھائی اور کثرت . . . کوئی اور کھیل بھی کھیلا ہے کیا کبھی . . .؟ "
              صفیہ كے اتنا بولتے ہی نصرت بھی کھلکھلا كر ہنس پڑی . . . لیکن تب تک سائرہ کا بھی کام ہو گیا تھا . . .
              " کیوں تنگ کر رہی ہو میرے ببلی کو تم دونوں مل کر . . .؟ یہ بلکل شریف اور پیارا لڑکا ہے " . . .
              بڑی ادا سے سائرہ نے اس کا بازؤ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا . . .
              " تو ہمیں بھی ایک موقع دے اس کا پیار دیکھنے کا . . . پھر پتہ چلے گا کتنا شریف ہے . . . ؟ "
              اِس بات پہ تینوں لڑکیاں ہنس پڑی . . . اور سائرہ نے کچھ سوچ کر بولا . . .،
              " چل یار ایک بار پریکٹیکل فائلز سبمٹ کروا دیتے ہیں . . . پھر کینٹین میں بات کریں گے . . . اور ببلی ہم تینوں ابھی واپس آ جائیں گے . . . تب تک تو یہی رہنا . . . ہمارا ڈیپارٹمنٹ سامنے والا ہی ہے " . . .
              یہ بول کر وہ تینوں نکل گئی . . . اور ببلی کو پیچھے چھوڑ گئی حیران و پریشان سا . . . جو ابھی تک یہی سوچ رہا تھا كہ . . . سیدھی سادھی دکھنے والی یہ لڑکیاں کتنا بولتی ہے . . . اور سائرہ نے اس کو کیوں منع کیا باجی بولنے سے . . .؟ پھر اپنے ہی خیالات سے پیچھا چھوڑوا کر . . . وہ ادھر اُدھر چہل قدمی کرنے لگا . . . بِلڈنگ کی ہر طرف ہریالی . . .، اور نیم كے پیڑ لگے ہوے تھے . . . ہر بلاک میں چھوٹے چھوٹے پارک بنے ہوے تھے . . جہاں بینچ بھی لگے تھے . . . اور زمین پر گھانس بھی تھی . . .، نہایت ہی سلیقے سے کٹی ہوئی . . . یونہی چہل قدمی کرتے ہوے . . . وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور پارک میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو دیکھنے لگا . . . ہر طرف کئی گروپ تھے اور سب کی سب لڑکیاں اپنے آپ میں لگی ہوئی تھی . . .
              " اوے لڑکے تم یہاں کیا کر رہے ہو . . .؟ " ،
              ببلی کا دھیان اس کے بلکل پیچھے سے آئی زوردار آواز کی طرف گیا . . تو اس نے دیکھا ایک 40 سے 42 سال کی خاتون بےحد ہی سلیقے سے پہنی کریم کلر کی شلوار قمیض میں کھڑی تھی . . . آنكھوں پر کالی پتلی فریم کا چشمہ تھا اور کھلے بال . . .
              " جی میں یہاں مس سائرہ سفیر كے ساتھ آیا ہوں . . . وہ ابھی اپنے فائلز سبمٹ کروانے گئی ہے . . . بی سی کے فرسٹ ایئر كے بلاک میں " . . .
              ببلی نے ہلکی سی گھبراہٹ میں کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا . . . . اس کو احساس ہو گیا تھا كہ . . یہ ایک ٹیچر ہے اور ببلی کو اس طرح معصومیت سے کھڑا ہوتے ہوے دیکھ کر . . . ا س میڈم کا لہجہ تھوڑا نرم ہوا . . . لیکن پھر بھی سخت لہجے میں اس نے کہا . . . .
              " ٹھیک ہے ٹھیک ہے . . . . لیکن زیادہ ادھر اُدھر مت جانا . . . یہ گرلز کالج ہے تو یہاں لڑکوں کا داخلہ ممنوع ہے " . . .
              " جی پھر میں باہر ہی کھڑا ہو جاؤں گا " . . .
              ببلی کی معصومیت دیکھ کر وہ میڈم بھی مسکرا دی اور بولی . . .،
              " بیٹا ایسی کوئی بات نہیں ہے . . . تم شریف ہو اور عمر بھی زیادہ نہیں لگتی تمھاری . . . وہ تو میں اس لئے کہہ رہی تھی کہ یہاں کا ماحول تھوڑا خراب ہے . . . تمہاری بہتری كے لیے میں نے ایسا کہا . . . تم یہی آرام سے بیٹھو " . . .
              میڈم كے اتنا کہتے ہی وہ واپس بینچ پر بیٹھ گیا . . . اور تبھی وہی پر سائرہ بھی آ گئی اپنی دونوں سہیلیوں كے ساتھ . . .
              " گڈ مارننگ میم . . . ہم تینوں نے آپ کے سبجیکٹ کی پریکٹیکل فائل بھی لیب اسٹنٹ کو سبمٹ کروا دی ہے . . . پلیز تھوڑا رحم کرنا " . . . .
              سائرہ نے شوخی سے یہ بات کہی . . . تو اس میڈم نے اس کا کان ہلکے سےکھینچتے ہوئے کہا . . .،
              " تجھ پر تو بلکل بھی رحم نہیں ہوگا . . . لیکن مجھے پتہ ہے میری لاڈلی ہی ٹاپ کرے گی " . . . .
              اتنا کہہ کر انہوں نے سائرہ كے سَر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بولی . . .،
              " کیا سائرہ اِس معصوم سے لڑکے کو تو یہاں
              بیٹھا گئی . . .؟ اور تم دونوں بھی تو تھی کم سے کم ایک تو اس کے پاس رہ ہی سکتا تھا . . . تمہیں تو پتہ ہی ہے ڈینٹل ڈیپارٹمنٹ کا حال " . . .
              " سوری میم . . .، جلدی میں دھیان ہی نہیں رہا " . . .
              تینوں نے کان پکڑے تو میڈم نے ہنستے ہوئے اجازت طلب کی وہاں سے . . .
              " کیا کہہ رہی تھی زینت میڈم ببلی ؟ "
              سائرہ نے پوچھا ببلی سے . . . لیکن جواب ملا صفیہ سے . . .
              " اور کیا کہے گی دِل آ گیا ہوگا ان کا اس پر . . ویسے بھی تو ہٹا کٹا تو ہے یہ " . . .
              اور پھر ہنسی کی آواز گونج اٹھی . . .
              " اچھا اب بہت ہوا . . . تم دونوں اب کوئی مذاق نہیں کرو گی " . . .
              یہ بات جب سائرہ نے کہی تو اس کا لہجہ
              نارمل . . لیکن دو ٹوک تھا . . . اور ان دونوں نے بھی ہاں میں سَر ہلا دیا . . .
              " چل اب تھوڑی دیر کینٹین میں چلتے ہیں . . . پھر مجھے واپس بھی جانا ہے اور ببلی کو بھی کام ہے . . . "
              یہ بول کر سائرہ ببلی کا ہاتھ تھام كر چل دی پارک كی دوسری طرف . . . جہاں ٹین کی چادر سے ڈھانپی ہوئی ایک لمبی کینٹین بنی ہوئی تھی . . . وہ دونوں بھی ساتھ چل دی . . .
              کینٹین کا اندورنی حصہ بھی رش سے بھرپور تھا . . . میز کے آمنے سامنے لگی کرسیوں پر بیٹھی لڑکیوں کا شور . . .، كھانا پینا اور گپ شپ ہو رہی تھی . . . یہ چارو بھی کونے کی ایک ٹیبل پکڑ كے بیٹھ گئے . . .
              سائرہ نے سب سے پوچھا کھانے کا . . تو جہاں نصرت اور صفیہ نے کولڈ ڈرنک کی فرمائش کی . . .، اور سائرہ نے چاۓ کی . . .
              ببلی کاؤنٹر پر گیا . . اور وہاں سے دو کولڈ ڈرنک . .، ایک چاۓ اور اپنے لیے اورنج جوس لے کر ٹرے اٹھاے ٹیبل پر آ گیا . . . . اس کو ہر مہینے جیب خرچ ملتی تھی . . جس کو وہ جمع کر کے رکھتا تھا . . .
              جنید بھائی سے دو ہزار . .، تین ہزار دادا جی کی پینشن سے . . .، چار ہزار اپنے والد کبیر صاحب سے اور ایک ہزار اپنے تایا جان سے . . . آج بھی وہ گھر سے نکلتے ہوئے پانچ ہزار روپے پرس میں لے کر آیا تھا . . . کیونکہ یہ کبیر صاحب کی ہدایت تھی کہ . . اگر کبھی مارکیٹ جانا ہو یا اسکوٹر سے جا رہے ہو . . . تو اپنی جیب میں ہمیشہ کچھ رقم رکھنی
              چاہیے . . . یہاں تو بِل بھی کچھ خاص نہیں آیا تھا صرف 325 روپے . . .
              " تو آج کی ٹریٹ سائرہ كے بوائے فریںڈ کی طرف سے ہے . . .؟ مجھے تو لگا تھا كہ . . . یہ سائرہ دے گی اپنے آنے والی سالگرہ کی . . . کیونکہ پرسوں تو چھٹی ہے " . . .
              نصرت نے اتنا کہا تو ببلی اور سائرہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے . . .، جو ایک دوسرے کے سامنے ہی بیٹھے تھے . . . .
              صفیہ . . .، جو ببلی كے ساتھ بیٹھی تھی . . . اس نے بات کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا . . .،
              " ببلی صاحب . . .، اِس سے کام نہیں چلے گا . . . ہمیں تو پارٹی چاہیے . . . ابھی اِس سے کام چلا رہے ہیں . . . لیکن ایگزامس كے بعد ہمیں اپنی مرضی کی پارٹی دینی پڑے گی . . . نہیں تو بھول جاؤ سائرہ کو " . . .
              یہ کہنے کے بعد دونوں لڑکیوں نے آپس میں تالی ماری . . . یہاں ببلی گھبرا رہا تھا . . اور اس کا گلا خشک ہو گیا تھا یہ سن کر کہ . . باجی نے اپنی سہیلیوں کو اسے اپنا بوائے فریںڈ بتایا ہے . .
              " ارے بس بھی کرو اب . . . اور لے لینا پارٹی جیسی مرضی . . . کیا یاد کرو گی کہ کس دلدار سے پالا پڑا ہے " . . .
              یہ بات سائرہ نے ببلی کی طرف مسکراتے ہوے دیکھ کر کہی تھی . . . جس کو سن کر ایک بار پھر ببلی کو جھٹکا لگا . . . اس کا جوس گلے میں ہی اٹک گیا تھا . . .
              " یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ . . . اور
              باجی بھی " . . .
              بس یہی سوچ رہا تھا وہ كہ . . تینوں اٹھ کھڑی ہوئی . . اس نے دیکھا تو اس کا گلاس بھی خالی ہو چکا تھا . . .
              " اچھا تو اب ہم نکلتے ہیں . . . ٹائم بھی ہو گیا ہے کافی . . . ایگزامس میں ملتے ہے نہیں تو ٹیلی فون پر بات ہو ہی جائے گی " . . .
              سائرہ نے کہا . . اور ان دونوں نے سائرہ اور ببلی سے ہاتھ ملایا . . . ہاتھ ملاتے ہوئے نصرت نے ببلی کی ہتھیلی سہلا دی . . اور نظریں ملا کر کہا . . .،
              " تم بھی فون کر سکتے ہو . . . سائرہ کی کالج ڈائری كے پیچھے نمبر ہے میرے گھر کا . . . رات میں اکیلی ہی ہوتی ہوں میں " . .
              ببلی تو بےچارہ پانی پانی ہو گیا تھا یہ سن کر . . . وہ تو اچھا ہوا سائرہ نے اس کا ہاتھ
              کھینچا اور چل دیئے گیٹ کی طرف . . . دونوں بالکل کسی عاشق معشوق کی طرح چل رہے تھے . . . جہاں ببلی سیدھا سیدھا چل رہا تھا . . . وہی سائرہ نے اس کے بازؤ کو تھام رکھا تھا . . .
              باہر آئے تو ایک بار پھر سائرہ نے سَر پر دوپٹہ لیا . . . اور اببلی كے پیچھے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
              " بھائی تجھے برا تو نہیں لگا آج جس طرح سے میں نے تجھے ملوایا اپنی فرینڈز سے . . .؟ "
              اسکوٹر كے چلتے ہی سائرہ نے ببلی كے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا . . . اب وہ بڑے ہی آرام سے اس کے ساتھ چپک کر بیٹھی تھی . . .
              " دیکھ بھائی ہم لڑکیوں کی دُنیا کچھ زیادہ بڑی نہیں ہے . . . گھر كے کام . .، کالج اور گھر . . . بس یہی دُنیا ہے . . . اور وہ دونوں بھی بڑی اچھی لڑکیاں ہیں . . . ہاں آپس میں سب مذاق چلتا ہے لیکن کسی کا بھی کریکٹر خراب نہیں ہے " . . .
              اس نے اپنی بات مزید بڑھائی . . . ببلی بھی یہی سوچ رہا تھا كہ . . اس کی چاروں باجیوں کو کتنی تھوڑی سی آزادی تو ملتی ہے . . . کہی کوئی دوست نہیں نہ کہی آنا جانا . . . وہ تو پھر بھی گھوم لیتا ہے . . .، جنید بھائی كے ساتھ باہر چلا جاتا ہے . . . جو بھی کرنا چاہتا ہے اس کے دادا جان اس کا ساتھ دیتے ہیں . . . بنا مانگے اس کو اتنی جیب خرچ اور سب ملتا ہے . . . لیکن باجیاں تو ہر چیز پر منت سماجت کرتی ہیں . . . کتنی عجیب ہے ان کی زندگی . . . لڑکی ہونے کا مطلب اتنی سختی . . .، اتنی بندش . . . پتہ نہیں اس کو کیا سوجھا اور اس نے اسکوٹر گھوما دیا ماڈل ٹاؤن مارکیٹ کی طرف . . . جہاں بڑے بڑے شوروم اور کھانے پینے کی اچھی مارکیٹ تھی . . .
              " یہ ہم کہا جا رہے ہیں . . .؟ یہ راستہ تو گھر کی طرف نہیں جاتا بھائی . . .؟ اور تو کسی بات کا جواب کیوں نہیں دے رہا . . .؟ "
              سائرہ نے گھبراہٹ میں کئی سوال کر دیئے . . . لیکن ببلی بس ہلکا ہلکا مسکرا رہا
              تھا . . . اور پانچ منٹ بعد وہ دونوں کھڑے تھے ایک بڑے شوروم كے سامنے . . .
              " چلو آپ میرے ساتھ آؤ یہاں " . . .
              اتنا کہہ کر ببلی نے سائرہ کا ہاتھ پکڑا اور چل دیا اس شوروم كے اندر . . . سائرہ حیران ہوتے ہوئے کھینچی چلی گئی . . .
              " ایک اچھا سا گرلز ٹوپ دیکھائیں " . . .
              ببلی نے نے کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے سے کہا . . . تو سائرہ کا دھیان گیا شو روم پر . . . ہر طرف رنگ برانگی ٹاپس . .، ٹی شرٹ . .، اور دیزائنڈ سوٹ لگے ہوے تھے . . . ایسا نہیں تھا كہ . . بشیر صاحب كے بچوں کو اچھے کپڑے نہیں ملتے تھے . . . لیکن زیادہ تر شلوار قمیض . .، تہوار وغیرہ پر ریشمی لباس ہی ہوتے تھے . . .
              بےشک وہ مہنگے ہوتے تھے . . . لیکن کچھ زیادہ چست نہیں تھے . . . رات كے ٹائم یا گھر میں ضرور لڑکیاں ٹی شرٹ / قمیض اور پجامہ پہن لیتی تھی . . . لیکن چست جینس . . .، چھوٹے ٹاپس ایسا کچھ نہیں ملتا تھا . . . یہاں ببلی نے اپنی مرضی سے دو تین ٹوپ سیلیکٹ کیے . . تو کاؤنٹر والے لڑکے نے ایک اسٹنٹ لڑکی کو بلایا . . .
              " میم . . .، کیا سائز آتا ہے آپ کو . . .؟ "
              اس لڑکی نے سائرہ سے پوچھا تو گھبراہٹ میں سائرہ نے جواب دیا . . .
              " 36 ڈی " . . .
              اور وہ لڑکی تھوڑا ہنس دی . . .
              " میم میرا مطلب ہے كہ لارج . . .، میڈیم یا سمال " . . .
              " پتہ نہیں " . . .
              سائرہ نے جھجھکتے ہوئے کہا . . . تو وہ لڑکی ناپ لینے والا فیتہ لے کر باہر آئی . . . اور سائرہ كے کاندھے اور چھاتی کا ناپ لینے لگی . . .
              " مجھے لگتا ہے آپ کو لارج سائز آئے گا . . . فٹ نہیں ہوا تو ہم بَدَل دیں گے " . . .
              اتنا کہہ کر اس نے ببلی كے پسند کیے ٹاپس كے لارج سائز نکلواے اور سائرہ کو دیکھانے لگی . . .

              " میم پسند کیجیے " . . .
              ببلی بھی یہاں سائرہ کی ہیلپ کرنے لگ . . کیونکہ اس کے پس ٹی شرٹ کا انبار لگا تھا گھر پر . . .
              سائرہ کو ایک ہلکا گلابی ٹوپ پسند آیا . . لیکن اس کا گلا تھوڑا ڈھیلا اور کمر پر لاسٹک تھا . . . . اس کے اوپر کپڑوں کی کترن لٹک رہی تھی اور دونوں کندہوں پر کٹ تھے . . .
              " یہ والا پیک کر دیجیئے " . . . .
              ببلی نے بنا سائرہ کو دیکھے وہ ٹوپ پیک کروا دیا . . .
              " اور ایک جینس بھی دیکھا دیجیئے ان کے لیے " . . . .
              لڑکی نے پھر سے سائرہ کا ناپ لیا . . .
              " رضوان 28 ویسٹ کی جینس لانا " . . .
              اس لڑکی نے بولا تو ببلی کو پتہ لگا کہ . . . سائرہ باجی کی کمر 28 ہے . . . ایک گہری نیلی اسکن فٹ جینس ببلی نے پسند کی . . . اور اس کو پیک کروا لیا . . .
              " کتنا ہوا . .؟ "
              ببلی نے مین کاؤنٹر پر پوچھا . . . تو سائرہ اپنا پرس کھولنے لگی . . .
              ۔" 2650/ - "
              اور ببلی نے 2700 روپے کاؤنٹر پر دے دیئے . . . اور بیگ اور بقایا واپس لے کر باہر آ گیا . . .
              " یہ سب کیا تھا ببلی . . .؟ "
              سائرہ نے تھوڑی ناراضگی سے کہا . . .
              " اب اپنی اتنی خوبصورت گرل فرینڈ كی برتھ ڈے كے لیے کچھ تو تحفہ لینا ہی چائیے یا نہیں ؟ " . . .
              ببلی نے ذرا مذاق میں یہ بات کہی . . . تو سائرہ کا گلابی چہرہ یکدم لال ہو چکا تھا . . .
              اس کے منہ سے کوئی الفاظ نہیں نکلا . . . یہ دیکھ کر پہلی بار ببلی كے دِل کی دھڑکن کچھ الگ سی دھڑکتے ہوے محسوس ہوئی . . . .
              جیسے یہ مسکراہٹ دُنیا کی سب سے خوبصورت چیز اس نے دیکھی ہو . . .
              پیار سے سائرہ كے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے کہا . . .،
              " چلیں گھر یا ابھی آپ نے کچھ اور بھی لینا
              ہے " . . .
              " نہیں . . . چل گھر چلتے ہیں دیکھ ایک بج چکا ہے " . . .
              اتنا کہتے ہوئے بھی سائرہ کا سَر نیچے تھا . . . اور پاؤں کی انگلیاں سینڈل کو کورید رہی تھی . . .
              وہ شرماتے ہوئے ببلی كے پیچھے بیٹھ گئی . . . اور ببلی نے اسکوٹر آگے بڑھا دیا . . . اب وہ بڑے ہی آرام سے اسکوٹر چلا رہا تھا . . .
              " ویسے باجی ایک بات پوچھوں . . .؟ برا نہیں مانو گی تو ہی پوچھوں گا " . . .
              ببلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا . . . .
              " ہاں تیری بات کا برا کیوں مانوں گی . . .؟ پوچھ " . . .
              " باجی یہ 36 ڈی کا کیا مطلب ہوا . . .؟ جب آپ نے اس شوروم والی لڑکی کو بولا تو وہ مسکرائی بھی تھی " . . .
              " اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا . . . اور مجھے کیا پتہ وہ کیوں مسکرا رہی تھی " . . .
              اب تو سائرہ کا چہرہ لال بھی تھا . . . اور پسینے سے بھیگ بھی گیا تھا . . .
              " کوئی بات نہیں . . نہیں بتانا تو سیدھا منع کر دو . . . میں نہیں پوچھتا " . . .
              اتنا بول کر ببلی چپ چاپ اسکوٹر چلانے لگا . . . سپیڈ بھی تھوڑی تیز ہو گئی تھی . .
              دو منٹ بھی سائرہ کو کسی کانٹے کی طرح چُبھ رہے تھے . . تو وہ خود ہی بول پڑی . . .
              " میرا پیارا بھائی ناراض ہے ؟ " . . .
              " نہیں تو میں کس لیے ناراض ہوں گا . . .؟ "
              ببلی نے سیدھا سا جواب دیا . . .
              " بھائی دیکھ یہ بات کوئی بھی لڑکی کسی لڑکے سے نہیں کرتی . . . لیکن میں تجھے ناراض نہیں دیکھ سکتی . . . یہ جو میرا سینہ ہے یہ اس کا ناپ ہے 36 " . . .
              سائرہ نے کانپتے ہونٹوں سے اپنی بات کہی . . تو ببلی سے اسکوٹر کی سپیڈ کم ہو گئی . . .
              " باجی اس طرح تو میرا بھی 42 ہے . . . لیکن یہ ڈی کیا ہوتا ہے " . . .
              اس نے پھر نا سمجھی میں سوال کر دیا . . .
              " وہ . . وہ لڑکیاں جو اندر پہنتی ہے یہ اس کا سائز ہوتا ہے " . . .
              شرم سے سائرہ اندر گاڑھی جا رہی تھی یہ بات کہتے ہوئے . . .
              " کیا اندر اور یہ ڈی ہی کیوں ہوتا ہے . . .؟ "
              " دیکھ بھائی جو ہم لڑکیاں قمیض كے نیچے پہنتی ہے اس کو برا بولتے ہیں . . . اور برا کا سائز سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا . . . میرا ڈی ہے . . . بس اتنا ہی ہے یہ " . . .
              اب تو سائرہ کی سانسیں بہک ہی گئی تھی . . . لیکن ببلی كے تو اور سوال پیدا ہو گئے . . .
              " مطلب سب کا ڈی کیوں نہیں ہوتا . . . .؟ کیا فرق ہے اس میں . . .؟ "
              " اچھا اب میں جو بولوں گی . . اس کے بعد کوئی سوال نہیں کرے گا . . . چُپ چاپ سنے گا " . . .
              “ ٹھیک ہے باجی " . . .
              " دیکھ میرا سینہ بھاری ہے تو جو برا کا کپ سائز مجھے آتا ہے وہ ڈی سائز ہے . . . اور جو میرے سینے کی پیمائش ہے وہ 36 انچ ہے . . .، جیسے تیری 42 ہے . . . لیکن لڑکیوں کا سینہ الگ ہوتا ہے . . تو انہیں اس کے ابھار كے حساب سے کپ لینا پڑتا ہے . . . اے سب سے چھوٹا کپ ہوتا ہے . .، پھر بی . .، پھر سی اور ایسے ہی سائز كے حساب سے . . . امرین کا 34 سی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے . . . لیکن نادرا باجی کا 38 ایف ہے . . کیونکہ ان کا ہم سب سے بڑا سائز ہے . . . اب مل گئے جواب تو سیدھا گھر چل " . . .
              اتنا بول کر سائرہ نہایت ہی سکون سے ببلی
              كے پیچھے چپک کر بیٹھی رہی . . . اور ببلی بھی خاموش سا چلاتا رہا اسکوٹر . . . گھر بس تھوڑا ہی دور تھا كہ . . ببلی نے پھر سے اس سکون کو برباد کیا . . .
              " ویسے باجی آپ ہو بڑی خوبصورت . . اور آپ جیسی لڑکی اب میری گرل فرینڈ ہے یہ سوچ کر ہی دِل جھوم رہا ہے میرا ' . . .
              اس نے یہ بات دونوں كے درمیان پھیلی سنجیدگی کو کم کرنے كے حساب سے کہی تھی . . . اور ایسا ہوا بھی . . .
              " میں اور تیرے جیسے بندر کی گرل فرینڈ . . . کبھی خواب بھی مت دیکھنا . . .، بڑا آیا بوائے فریںڈ " . . .
              نہایت ہی شوخی سے سائرہ نے یہ بات کہی تھی . . لیکن اندر ہی اندر اس کا دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا . . . جیسے ایک نیا نیا احساس پیدا ہونا شروع ہوا ہو اس کے دِل میں ببلی كے نام کا . . .
              صبح جو سب ایک مذاق سے شروع ہوا تھا . . اور پھر ببلی کا اس کی ہر بات ماننا . .، عزت دینا . . . ، بنا کہے گفٹ دلانا اور پیار سے اس کی بات سمجھنا . . .
              یہ سب سائرہ كے دِل میں پکی سیاہی سے چھپ چکا تھا . . . اور دونوں گھر پہنچ گئے . . . سائرہ کپڑے والا بیگ لے کر ہرنی کی طرح اچھلتے ہوئے اندر چلی گئی . . اور ببلی اسکوٹر کو اندر کھڑا کر کے چل دیا گھر کی بیٹھک میں . . .
              دوپہر كے 2 بج گئے تھے . . .
              " آ گئے میرے سرکار " . . .
              بشیر صاحب نے بنا دیکھے طنز کیا . . . کیونکہ بیٹھک میں اس طرح صرف ببلی ہی آتا تھا . . .
              " بابا وہ باجی كے کالج میں ٹائم لگ گیا تھوڑا . . . سوری آئندہ سے نہیں ہوگا " . . .
              بشیر صاحب اپنے پوتے كے اِس جواب پر مسکرا دیئے . . اور سَر پہ ہاتھ رکھ کر بولے . . .،
              " ارے بیٹا تو تو میرا مان ہے . . . تو سوری مت بولا کر کسی بات پر . . . ایک تو ہی تو ہے جو میرا اچھا بیٹا ہے اور میرا دوست ہے . . میں تو مذاق کر رہا تھا . . . تیرا تایا كھانا کھا رہا ہے پھر اس کے ساتھ جا کر سائیکل لے آنا . . . جا كھانا کھا لے " . . .
              ببلی بھی اپنے دادا سے گلے لگ کر چل دیا کھانے کی ٹیبل پر . . .
              " آج بڑا نکھر رہا ہے تو " . . .
              نادرا نے جب یہ بات کہی . . تو ببلی کو رات یاد آ گئی . . .
              " وہ آپ میرا اتنا خیال جو رکھتی ہو باجی " . . .
              بےخیالی میں اس نے نادرا کی آنكھوں میں دیکھا . . تو پایا كہ وہ بھی چمک رہی ہیں . . .
              "رکھنا تو پڑے گا ہی . . . تو بھی تو اتنی خدمت کرتا ہے " . .
              یہ بات بول کر وہ دھیمی مسکان دیکھا كر روٹی لینے چلی گئی . . .
              " باجی کو شاید پتہ لگ گیا ہے رات والی بات کا . . . لیکن وہ غصہ نہیں ہوئی " . . .
              ببلی نے یہ سوچا اور پھر اس کو جیسے یاد آیا سائرہ کا کہے لفظ . . .،
              " نادرا باجی کا تو 38 ایف ہے . .، سب سے بڑا " . . .
              اور یہ سوچتے ہی پینٹ میں ہلچل ہو گئی . . .
              كھانا کھانے كے بعد سفیر صاحب ببلی کو اپنی گاڑی میں لے کر اگلے سیکٹر کی مارکیٹ میں آ گئے . . . ببلی کو وہاں جاتے ہی ہیرو کمپنی کی نئی رنگین اور ایک پتلی ٹائر والی سائیکل نظر آئی . . .
              " انکل یہ سائیکل كے ٹائر اتنے پتلے کیوں ہیں . . .؟ "
              دکاندار سے اس نے سوال کیا . . . یہ سائیکل اس نے ایک بار کہی دیکھی تھی لیکن یاد نہیں آ رہا تھا . . .
              " بیٹا یہ ایک الگ سائیکل ہے جو ریس كے کام آتی ہے . . اور یہ وہ لوگ رکھتے ہیں جو لوگ ریسنگ كے شوقین ہوتے ہیں . . . ماہر لوگ تو اس کو 60 کی سپیڈ پر بھی چلا لیتے ہے " . . .
              دکاندار کا جواب سن کر اس کا دِل آ گیا سائیکل پر . . .
              " تایا جان یہی سائیکل لینی ہے مجھے " . . .
              " دیکھ لے بیٹا . . . چلانی تجھے ہے بعد میں کچھ مت کہنا . . . اور ہاں اس کے پیچھے تو کوئی بیٹھ بھی نہیں سکتا " . . .
              تایا جان نے جب سائیکل کو دھیان سے دیکھا . . . تو یہ کہا کیونکہ اس کا تو کارئیر ہی نہیں تھا . . .
              " میں نے کس کو بیٹھانا ہے . . . ایکسرسائز كے لیے تو چاہیے اور اس پر ٹائم بھی بچے گا میرا " . . .
              " ٹھیک ہے بیٹا . . . تو بھائی صاحب اس کو یہ سائیکل تیار کر دیجیئے اور پیسے بتائیں " . . .
              تایا جان نے اتنا بول کر پرس نکال لیا . . .
              " سفیر صاحب آپ سے تو وہی دام لیں گے جتنے میں ہمارے پاس یہ آئی ہے . . . لیکن اتنا کہوں گا کہ . . ایک یہ ہیلمنٹ ضرور لے جائیے گا . . .، سیفٹی بھی ضروری ہے " . . .
              دوکاندار نے نہایت ہی اپنےپن سے یہ بات ببلی کو دیکھ کر کہی . . .
              " ہاں انکل دے دیجیئے یہ ہیلمنٹ اور وہ پانی کی بوتل بھی " . . .
              تایا جان نے پیسے دیئے اور چلے گئے . . . دکان پر کام کرنے والے دو لڑکوں نے پندرہ منٹ میں ہی سائیکل تیار کر كے ببلی کو دے دی . . .
              ہیلمنٹ جو صرف سَر كے اوپر تک ہی تھا لگایا . . اور مار دیا اس نے پیڈل . . .
              " واہ یہ تو بلکل ہلکی ہے " . . .
              تھوڑی دور چلتے ہی ببلی نے محسوس کیا كہ . . یہ اور سائیکلوں سے بہت تیز ہے . . .
              دس سے بارہ منٹ لگے اس کو گھر آنے میں . . . اور پھر سب کو اس نے اپنی نئی سائیکل دیکھائی . . .
              باہر صحن میں ہی تالا مار كر کھڑی کی . . اور چل دیا اپنے کمرے میں . . . آج بہت تھک گیا تھا وہ تو تھوڑا آرام بھی ضروری تھا۔۔۔۔۔۔۔
              میرے ہونٹ سائرہ باجی كے ہونٹوں سے چپکے ہوئے تھے . . . میں ان کا لال نیچلا ہونٹ آہستہ آہستہ اپنے منہ سے چوس رہا تھا . . . ان کا ایک ہاتھ میرا سَر سہلا رہا تھا . . . اور دوسرا میری پیٹھ . . . مدہوشی کے عالم میں ان کی آنکھیں بند ہوئی پڑی تھی . . اور میرا ایک ہاتھ ان کے کولہوں کو دبا رہا تھا . . . اور ایک گردن کو . . .
              ہم دونوں جیسے اِس دُنیا سے دور ایک اپنی ہی دُنیا میں تھے . . . ان کے منہ کی وہ مٹھاس مجھے پاگل بنا رہی تھی . . . جس کو میں اور زور سے پینے لگا تھا . . . کولہوں سے سارکتا ہوا ہاتھ قمیض كے اندر سے ان کے پیٹ کو سہلا رہا تھا . . . سائرہ باجی كے لیے یہ برداشت کرنا جب مشکل ہو گیا . . . تو انہوں نے اپنا منہ کھول كر میری زبان کو چوسنا شروع کر دیا تھا . . .
              اب وہ مجھے خود سے چپکا رہی تھی . . . جیسے مجھے خود میں سما لینا چاہتی ہو . . . یہاں میرا ہاتھ اب ان کے چھاتی كے ابھار کو مسل رہا تھا . . جو روئی سے ملائم لیکن ربڑ سے لچک دار اور سخت تھے . . . جیسے ہی میں نے ان کا نپل کو کریدا . . . انہوں نے مجھے چومنا چھوڑا اور میرا منہ اپنی گردن پر دبا دیا . . .
              میری زبان ان کی صُرائی دار گردن پر کمال دیکھا رہی تھی . . . اور ہاتھ ان کے پستان سے دودھ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے . . . جیسے ہی میں نے اپنا دوسرا ہاتھ ان کی شلوار كے اندر کیا . . . . .
              " ببلی ببلی . . ارے کب سے ہلا رہی ہوں . . اٹھ جا کمبخت . . .؟ "
              یہ آواز بیچ میں کہی سے آئی . . . اور جیسے ہی میری نظر سامنے پڑی . . تو نادرا باجی میرے اوپر جھکی ہوئی تھی . . . ان کا آدھا سینہ قمیض سے باہر جھلک رہا تھا . . . ان کی تیز آواز سے میں ہوش واپس آیا . . .
              " کیا ہوا باجی . . .؟ اس طرح کیوں جنجھوڑ رہی ہو آپ مجھے . . .؟ "
              ببلی نے سامنے کھڑی نادرا سے پوچھا . . . .
              " چار بجے سویا تھا تو اور اب آٹھ بج رہے ہیں . . . چل سب نیچے بولا رہے ہیں تجھے " . . . ،
              اتنا بول کر وہ ہنستے ہوئے باہر نکل گئی . . . جاتے ہوئے ایک بار پھر پیچھے گھوم کر دیکھا . . اور ہنستے ہوے غائب ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔
              " جانے کیا ہوا ہے ان کو . . .؟ "
              لیکن جیسے ہی نظر پینٹ پر پڑی تو سچ میں وہاں ابھار بنا ہوا تھا . . . اس خواب کی وجہ سے . . .
              ببلی ہڑبڑاتا ہوا باتھ روم گیا اور ہاتھ منہ
              دھو کر سوتی پجامہ اور لوز ٹی شرٹ پہن کر ببلی نیچے چل دیا . . .
              " بھائی تو بیٹھ میں كھانا لگاتی ہوں " . . .،
              ثمرین نے اس کے لیے کرسی کھینچ کر کہا . . .
              سامنے امرین اور نادرا بیٹھے تھے . . . بشیر صاحب آج اپنے کمرے میں ہی كھانا کھا چکے تھے خانم بی بی كے ساتھ . . . اور سفیر صاحب ان کے پاؤں دبا رہے تھے . . .
              نبیلہ روٹیاں بنا رہی تھی . . اور سائرہ انہیں سیک رہی تھی . . .
              " امی . . .، تائی جان اور جنید بھائی کہاں ہے . . .؟ نظر نہیں آ رہے " . . . .
              ببلی نے روٹی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے اپنی سوتیلی ماں نبیلہ سے پوچھا . . .
              " بیٹا وہ دونوں جنید کی نانی کے گھر گئے ہیں . . . صبح تک آئیں گے . . . جنید کو
              وہاں کچھ کام تھا آفس کا . . . تو تیری تائی بھی اِس بہانے اپنے ماں باپ سے ایک رات مل آئے گی " . . . .
              نبیلہ نے روٹی بناتے ہوئے ہی جواب دیا . . .
              " اچھا . . . اور امی یہ امرین باجی کبھی کچن میں کام کیوں نہیں کرتی . . .؟ "
              یہ بات ببلی نے امرین کو چھیڑتے ہوئے ہی کہی تھی . . جوکہ کھانے میں ہی گم تھی لیکن اپنا نام سن کر ببلی کو غصے میں دیکھنے لگی تھی . . . .
              " بیٹا اس کی مرضی ہے وہ ہی جانے . . . میں کچھ نہیں کہتی جب اپنے گھر جائے گی تب دیکھیں گے " . . .
              نبیلہ نے یہ بات غصے والے انداز میں کہی تھی . . .
              " یہ ہی میرا گھر ہے اور میں یہاں کی مالکن . . . اور اپنے منے کو تھوڑا پلو سے باہر نکالو امی . . نہیں تو بالکل لڑکیوں کی طرح ہوتا جا رہا ہے یہ دن با دن " . . .
              امرین بھی کہاں کم تھی . . .
              ایسے ہی ہنسی مذاق کے ساتھ وہ لوگ كھانا کھاتے رہے . . . اور سائرہ بھی آ گئی اپنی ٹرے لے کر . . . نبیلہ چولہے كے پاس ہی بیٹھ گئی اپنا كھانا کھانے . . . جیسے ہی ببلی نے سائرہ کی طرف مسکرا کر دیکھا . . .، شرم سے اس کی نظریں نیچے ہو گئی اور اسے کھانسی ہونے لگی . . .
              " لو باجی پانی پیو " . . .
              ببلی جھٹ سے اپنا گلاس لے کر اس کے سَر كے پاس کھڑا ہو گیا . . . جیسے ہی سائرہ نے یہ دیکھا اس کا چہرہ چمک اٹھا . . .
              " تھینک یو . . .، ببلی " . . .
              اس نے پانی پیتے ہی کہا . . .، ببلی اس کی پشت پیار سے سہلا رہا تھا . . .
              " کیا یہی پیار ہے ؟ " . . . .
              دونوں كے من میں یہی تھا . . .
              " مجھے تو آج تک اتنے پیار سے تو نے پانی نہیں پلایا . . . سائرہ شاید تجھے زیادہ پیاری ہے " . . .
              اب امرین نے پھر سے ببلی کو چھیڑا . . .
              " باجی پیاری تو ایک آپ ہی ہو میرے لیے . . . لیکن کہا میں نوکر اور کہا آپ مالکن " . . .
              ببلی نے اس کی پہلے والی بات ہی کر دی . . .
              تمام لڑکیاں یہ جملہ سن کر زور زور سے ہنسنے لگی . . . اور نبیلہ بھی بچوں كے درمیان اتنا پیار دیکھ کر مسکرا رہی تھی . . .
              " چاچی آپ كھانا کھا كر آرام کیجیے . . . برتن میں دھو دوں گی " . . . .
              نادرا نے ٹیبل سے تمام برتن اٹھاتے ہوئے کہا . . .
              " ٹھیک ہے میری بچی . . . بس میں تمہارے دادا دادی کو چاۓ دے آؤں . . اور تو بھی ٹائم سے سو جانا سارا دن کام کرتی ہے " . . .
              نبیلہ نے نادرا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا . . .
              " بھائی اوپر والے ٹی وی پر ہم فلم دیکھ لے کیا . .؟ "
              ثمرین نے ببلی سے التجا بھرے لہجے میں
              کہا . . .
              " ارے باجی . . آپ کا بھی تو ہے وہ . . . پوچھ کیوں رہی ہو . . . اور ویسے بھی میں آج دن میں سویا تھا. .، میں بھی دیکھ لوں گا " . .
              اتنا بول کر ببلی اپنی سوتیلی ماں کے گال چوم کر اوپر کمرے میں چل دیا . . . پیچھے پیچھے ثمرین . .، سائرہ اور امرین بھی آ گئی . . .
              " کیبل پر ہم دِل دے چکے صنم آ رہی ہے . . . وہی لگا لے امرین " . . .
              سائرہ نے امرین کو یہ بات کہی جس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا . . .
              " تو نے تو نہیں دے دیا کسی کو دِل . . ہا ہا ہا " . . .
              یہ کہتے ہوئے اس نے وہ چینل لگا دیا اور بیٹھ گئی فلم دیکھنے . . .
              امرین ہمیشہ سنگل صوفہ پر بیٹھ کر ہی دیکھتی تھی . . اور بڑے صوفے پہ ثمرین اور سائرہ تھے . . . منہ صاف کر کے ببلی بھی آ گیا اور بیٹھ گیا دونوں كے بیچ میں . . . . کوئی آدھے گھنٹے بعد نادرا بھی آ گئی تھی . . . اب اس نے ایک کھلی ٹی شرٹ اور پجامہ پہی ہوئی تھی . . . امرین بھی کچھ ایسے ہی لباس میں تھی . . . سب فلم دیکھنے میں کھوئے ہوئے تھے . . . بس ایک ببلی تھا جو سائرہ میں کھویا تھا . . .
              ببلی نے سائرہ كے کان میں سرگوشی کی . . .
              " باجی نیا ڈریس کب پہن کر دیکھا رہی ہو . . .؟ "
              " پرسوں سالگرہ ہے اسی دن دیکھ لینا " . . .
              اس نے ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے شرما کر جواب دیا . . .
              " سالگرہ تو کل رات بارہ بجے سے شروع ہو جاۓ گی نہ . . . میں چاہتا ہوں آپ کو سب سے پہلے میں وش کروں . . . اور زیادہ اچھا لگے گا اگر آپ اس وقت میرے دیئے گفٹ کو پہن کر آؤ " . . .
              ببلی نے یہ بات ایسے کہی تھی . . . جیسے کوئی عاشق اپنی معشوقہ سے ضد کر رہا ہو . . . .
              سائرہ نے ایک بار پیار سے اس کی طرف دیکھا . . . اور اس کی آنكھوں نے کچھ کہا جو صرف ببلی کو ہی نظر آیا . . وہ بھی خوش ہو گیا . . .
              سائرہ اٹھ گئی اپنی جگہ سے اور بولی . . .،
              " چلو باجی میں تو سونے جا رہی ہوں . . . ہو گئی فلم ختم " . . .
              ببلی نے جب دیکھا تو سچ میں فلم ختم ہو چکی تھی . . . وہ سارا ٹائم صرف سائرہ کو ہی دیکھ رہا تھا . . .
              " میں تو ابھی تھوڑی دیر اور دیکھوں گی جس نے سونا ہے وہ سو جائے " . . .
              نادرا نے ریموٹ لیتے ہوئے کہا لیکن ثمرین . . .، امرین اور سائرہ چلی گئی نیچے سونے . . . اور اوپر رہ گئے ببلی اور نادرا . . .
              " آپ جنید بھائی كے کمرے میں ہی سو جانا باجی . . وہاں ڈبل بیڈ بھی ہے " . . .
              ببلی نے ریموٹ نادرا کے ہاتھ سے لے کر چینل چینج کرتے ہوئے نادرا سے کہا . . تو اس نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا . . .
              " میں اکیلے نہیں سوؤں گی . . ہاں اگر تو بھی وہی سوے گا تو ٹھیک ہے . . آلارم وہی لگا دینا " . . .
              " چلو ٹھیک ہے . . . لیکن آپ زیادہ دیر ٹی وی نہیں دیکھوں گی " . . .
              ببلی نے کہا کیونکہ ساڑھے گیارہ ہو چکے تھے . . .
              " بس آدھا گھنٹہ بھائی " . . .
              اتنا بول کر وہ صوفے پر ببلی كے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی . . . ایک طرف کا صوفہ خالی ہی تھا . . .
              ببلی کی نظر جب ٹی وی پر گئی تو اس کی آنکھیں وہی جم سی گئی . . . ٹائیٹینک آ رہی
              تھی اسٹار موویز پر . . .
              یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں کیبل پر رات گیارہ بجے كے بعد اکثر گندی فلمیں آتی تھی . . .
              فلم کا سین بھی سب سے پاپولر چل رہا تھا . . . ہیروئن ایک صوفے پر لیٹی تھی اور ہیرو اس کے سامنے بیٹھا تھا . . . آہستہ آہستہ لڑکی نے اپنا ڈریس اُتار دیا اور لیٹ گئی . . . کیمرہ کا فوکس جب اس کے پستانوں پر آیا . . . تو دونوں کی دھڑکنیں باہر تک سنائی دے رہی تھی . . . کمرے کی لائٹ بند تھی لیکن ٹی وی کی روشنی میں چہرے صاف نظر آ رہے تھے . . . جہاں ببلی ہیروئن کی سَر اٹھائے ابھار دیکھ رہا تھا . . .،
              وہی نادرا کبھی ببلی کو تو کبھی فلم کو دیکھ رہی تھی . . . بول کوئی بھی نہیں رہا تھا . . .
              کچھ ہی دیر میں سین ختم ہو گیا تھا . . لیکن ان دونوں کی حالت خراب ہو چکی تھی . . .
              " چل بھائی اب سونے کا ٹائم ہو گیا ہے " . . .
              یہ بولتے ہوئے نادرا بنا پیچھے مڑے جنید كے کمرے میں چلی گئی . . . ببلی نے ٹی وی بند کیا. . . اور باتھ روم میں جا کر اپنا انڈرویئر اُتَر کر واپس پجامہ پہن کر اسی کمرے میں چل دیا . . . .
              نادرا چپ چاپ ایک طرف کروٹ لے کر لیٹی ہوئی تھی . . اور اس کی طرف ہی منہ کر کے
              ببلی بھی لیٹ گیا . . . کمرے میں لائٹ بند دی اور پنکھا چل رہا تھا . . . تھوڑی بہت چاند کی روشنی آ رہی تھی کھڑکی سے . . . جس میں ببلی اپنی تایا زاد بہن كے کھلے بال اور خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا . . . بلکل
              چاندنی جیسی لگ رہی تھی نادرا . . .
              " ایسے کیا دیکھ رہا ہے ؟ " . . .
              " آپ کتنی خوبصورت ہو باجی . . وہ دیکھو چاند کی روشنی میں آپ کی آنکھیں کیسے چمک رہی ہے . . . اور آپ کے کھلے ہوئے بال " . . .
              اتنا بول کر ببلی دوبارہ سے دیکھنے لگا . . .
              " اتنی بھی کچھ خاص نہیں ہوں . . . سائرہ اور امرین کو دیکھ وہ دونوں کتنی زیادہ خوبصورت ہیں . . اور میری تو عمر بھی کتنی زیادہ ہو گئی ہے " . . .
              اتنا بول کر نادرا کسی سوچ میں ڈوب سی گئی . . .
              اس کو احساس تب ہوا . . جب ببلی کا ہاتھ اسے اپنے کان كے پیچھے محسوس ہوا . . . وہ اس کی لٹو کو کھول رہا تھا . . . دیکھ رہا تھا كہ . . کتنے پیار ہے یہ بال جو اس کی باجی كے گال کو سہلا رہے ہیں . . .
              " کیا ہوا ببلی . . .؟ ایسے کیا دیکھ رہا ہے . . .؟ "
              " دیکھ رہا ہو باجی كہ . . . یہ بال کتنے خوش نصیب ہیں جو آپ کے چہرے کو سہلاتے رہتے ہے " . . .
              " تو بھی تو سہلا سکتا ہے . . . تجھے کس نے منع کیا " . . .
              یہ بات نادرا نے اس کی طرف سارکتے ہوئے کہی تھی . . .
              بڑا پیار آ رہا تھا اس کو اپنے چچا زاد بھائی كے اِس پیار کو دیکھ كر . . .
              اب منظر یہ تھا کہ . . . دونوں ہی ایک دوسرے كے ساتھ لیٹے ہوئے تھے . . . منہ سے منہ چار سے پانچ انچ دور تھا . . جسم کو
              بھی دوسرے بدن کا احساس ہو رہا تھا . . .
              ببلی نے جیسے ہی اپنا ہاتھ نادرا كے گال پر رکھا . . اس کا روم روم کھل گیا . . . اس کے جسم میں بھی ترنگ اٹھ رہی تھی . . .
              نادرا ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی . . . جس کو لڑکا اور لڑکی كے تعلق کا کچھ کتابی اور کچھ سنا سنايا علم تھا . . . اس کی کچھ سہیلیوں نے تو کالج کے دور میں ہی یہ مزہ حاصل کر لیا تھا . . . لیکن نادرا نے ایسا کبھی نہیں
              کیا تھا . . . ایک دو بار اس نے ایسی فلمیں ضرور دیکھی تھی لیکن کیا کبھی کچھ نہیں تھا . . .
              لیکن آج آثار کچھ اور ہی تھے . . . ببلی کا ایک ہاتھ خود ہی نادا کی کمر پر آ گیا تھا . . اور ایک ہاتھ سے وہ اپنی باجی کی ماتھے سے بال پیچھے کر رہا تھا . . . اب دونوں کچھ بول نہیں رہے تھے . . لیکن ان کے جسم چپک
              چکے تھے . . .
              نادرا نے اپنا ایک بازؤ اس کے اوپر رکھ دیا . . . جس سے اس کے پستان اب اپنے چچا زاد بھائی كے سینے میں دهنس رہے تھے . . . جب اس نے دیکھا كہ . . . ببلی اِس سے آگے کچھ نہیں کر رہا تو نادرا نے آہستہ سے اپنے تپتے ہوے گرم ہونٹ اس کے ہونٹوں سے چپکا دیئے . . .
              مزے سے ببلی کی آنکھیں بند ہو گئی تھی . . اور ہاتھ خود با خود ہی نادرا كے ٹھوس چوتڑوں کو سہلانے لگے تھے . . . یہ دیکھ کر نادرا کا بھی جوش بڑھ گیا . . اور اس نے اپنی ران ببلی کی ٹانگ پر رکھ دی . . . دونوں چپ چاپ بس ایک دوسرے كے ہونٹ چوم رہے تھے کہ . . ببلی کا ہاتھ نادرا کے سینے پر آ گیا . . .
              " باجی . . .، مجھے یہ سب نہیں آتا . . .؟ "
              نہایت ہی معصومیت سے اس نے یہ بات کہی . . تو نادرا مسکرائی اور بیٹھ گئی . . .
              اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس نے قمیض كے اندر سے اپنی براہ کھولی اور گلے سے نکال دی . . .
              " اچھا یہ بتا تجھے کتنا پتہ ہے ؟ " . . .
              " مطلب باجی . . .؟ "
              ببلی نے دھیمی آواز سے پوچھا . . .
              " یہی كہ عورت اور مرد كے بیچ یہ جو پیار ہوتا ہے یہ کیسے کرتے ہے . . .؟ "
              نادرا نے بھی یہ بات بہت پیار سے کی . . . .
              " باجی جو ابھی ہم کر رہے تھے وہ کس ہوتا ہے . . . یہ آپ کے پستان ہیں . . ( اپنا ہاتھ ہلکے سے نادرا كے سینے پر رکھتے ہوئے ) . . .، یہ آپ کی گانڈ ہے ( کولہوں کو سہلاتے ہوئے ) . . .، یہاں آپ کی چوت ہوتی ہے ( رانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ) . . .، یہ میری لُلی ہے . . . بس اتنا معلوم ہے باجی"
              ببلی نے بھولےپن سے کہا . . .
              اس پر شہوت ضرور حاوی تھی . . لیکن وہ اپنی تایا زاد بہن سے پیار کرتا تھا . . . اور ان کا بھروسہ نہیں توڑنا چاہتا تھا . . .
              " ہاہاہا . . . تجھے کچھ بھی نہیں معلوم . . . یہ دیکھ جو یہ غبارے ہیں ان کو ممے . .، بوبس . .، بریسٹس یا دودھ بولتے ہیں . . .، اور جس کو تو نے گانڈ بتایا اس کو کولہے . . .، اور چوتڑ بھی بولتے ہیں . . . چوت کو بولتے ہیں پھدی . .، وجینا یا پوسی . . . اور تیری لُلی کو کہتے ہیں لنڈ . .، لوڑا پینس یا ڈک " . . .
              اتنا بول کر نادرا نے ایک بار پھر ببلی كے ہونٹ چوم لیے . . .
              " اور جب یہ لنڈ پھدی كے اندر جاتا ہے تو اس کو بولتے ہے چدائی . . .، سیکس یا لو میکنگ . . نرا بدھو ہے تو تو " . . .
              " باجی کیا آپ نے یہ سب کیا ہوا ہے . . .؟ "
              بھولےپن سے ایک بار پھر اس نے پوچھا . . .
              " نہیں بھائی کبھی کسی کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیا ہے میں نے . . . میری فرینڈز ہے کچھ جنہوں نے یہ سب کیا . . . کئی سہیلیوں کی تو شادی اور بچے بھی ہو چکے ہیں . . . لیکن میں آج تک اِس مزے سے دور ہوں . . . لیکن اب مجھے پیار کرنے والا تو مل گیا ہے نہ . . تو میں بھی کروں گی . . . بول تو اپنی باجی کو پیار کرے گا . . .؟ "
              نادرا نے اپنے چچا زاد بھائی کی چھاتی سہلاتے ہوئے کہا . . .
              " آپ بس مجھے سیکھا دینا . . . آپ جیسا کہو گی میں کروں گا " . . .
              ببلی نے بھی اپنا ہاتھ نادرا كے پستان پر رکھتے ہوئے جواب دیا . . .
              " میرا پیارا بھائی " . . .
              اور اس کے ساتھ ہی نادرا نے ہونٹ کھول کر ببلی کا منہ چوسنا شروع کر دیا . . . دونوں کی زبان ایک دوسرے كے منہ میں آ جا رہی تھی . . ببلی کو اپنی تایا زاد بہن کا یہ میٹھا رس ایک الگ ہی سکون دے رہا تھا . . . جب سانس لینا بھی مشکل ہو گیا . . تو دونوں الگ ہوئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے . . .
              ہر سانس كے ساتھ نادرا كے پہاڑ جیسے ممے ہل رہے تھے . . . یہ منظر اتنا دلکش تھا كہ . . ببلی سے برداشت کرنا مشکل ہو گیا . . اور اس نے قمیض كے اوپر سے ہی انہیں پکڑ کر
              دبانا شروع کر دیا . . .
              " ایک منٹ رک میرے چندا " . . .
              نادرا کی ترنگ بھی انتہاہ پر پہنچ چکی تھی . . . لیکن پھر بھی اس نے ببلی کو خود سے دور کیا . . . اور اپنی قمیض کا ایک کونا
              پکڑ کر قمیض اُتار دی . . . اس کے ممے
              اتنے بڑے تھے جیسے کوئی درمیانے سائز کا فٹبال ہو . . . اور بالکل ٹھوس تنے ہوئے . . .
              شہوت میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے ان پر لگے دونوں نپل . . . کسی سوئی کی طرح شان سے کھڑے ہوئے تھے . . . لیکن نپل کی موٹائی ایک چھوٹے چنے كے دانے جتنی تھی . . . جو بیان کر رہی تھی كہ . . . ان کو آج سے پہلے کبھی مسلا یا چوسا نہیں گیا . . . اتنے بڑے ابھار دیکھ کر ببلی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا . . اور اس نے دونوں ہاتھ بڑھا كر ان ابھاروں کو پکڑ لیا . . .
              ہاتھ میں لیتے ہی ان کے وزن کا احساس ہو گیا تھا ببلی کو کہ . . . اس کی تایا زاد بہن اپنی چھاتی پر کتنا بوجھ اٹھا كر رکھتی ہے سارا دن . . . یہ سب سوچتے سوچتے وہ ان بڑے بڑے مموں کو پیار سے دبا بھی رہا تھا . . اور سہلا بھی رہا تھا . . .
              نادرا کی تو اتنے میں ہی حالت خراب ہو چکی تھی . . اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی پھدی سے کچھ نمی سی رس رہی ہے اور اس کی چڈی کو گیلا کر رہی ہے . . .
              اگلے ہی لمحے ببلی نے ایک دودھ کو اپنے منہ میں بھر لیا . . اور مزے سے چوسائی کرنے لگا . . . بیچ بیچ میں وہ اپنے دانت سے نپل کو بھی کاٹ دیتا . . . اس کے دوسرے ہاتھ کا پنجہ اب نادرا كے دوسرے ممے کو مسل رہا تھا . . . اور وہ مدہوشی میں اپنے چچا زاد بھائی کا سَر سہلا رہی تھی . . . اب ببلی نے دوسرا والا منہ میں لیا . . اور پہلے والے کو ہاتھ سے مسلنے لگا . . . ان دونوں کو اس کا پتہ ہی نہیں چلا کہ . . کب ببلی پُورا کا پورا نادرا كے اوپر آ چکا تھا . . اور وہ اب بیڈ پر پیٹھ كے بل لیٹی ہوئی مچل رہی تھی . . .
              " باجی . .، ایسا لگ رہا ہے جیسے ان میں سے کچھ نکل رہا ہے لیکن دِکھ نہیں رہا . . . ان کو چھوڑنے کا دِل ہی نہیں کر رہا " . . . .
              ببلی نے ایک بار اوپر ہو کر اپنی باجی کا منہ دیکھا . . . دونوں خربوزے اب ببلی کی لار
              سے بھرے ہوئے تھے اور ان کے نپل چمک رہے تھے . . .
              " بھائی تو بھی اپنے کپڑے اتار نہ " . . .
              اپنی تایا زاد بہن کی فرمائش سن کر ببلی نے اپنا ٹی شرٹ اور پجامہ ایک ہی پل میں جسم سے الگ کر دیا . . . وہی نادرا نے بھی اپنی اپنی شلوار پاؤں سے نکال کر الگ کر دی تھی . . .
              ببلی ایک بار پھر اپنی تایا زاد بہن كے اوپر آ گیا . . . نادرا نے اپنی ٹانگیں پھیلا دی تھی . . جن کے بیچ میں اس کے چچا زاد بھائی کا لنڈ گھس رہا تھا . . . دونوں ایک بار پھر سب کچھ بھول کر پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چومنے میں ہوے لگے تھے . . .
              ببلی کی چوڑی چھاتی كے نیچے نادرا كے بڑے بڑے ممے کچلے جا رہے تھے . . . نادرا نے ابھی تک اپنے چچا زاد بھائی کا لنڈ نہیں دیکھا تھا . . . اور نہ ہی ببلی نے اپنی تایا زاد بہن کو کمر سے نیچے دیکھا تھا . . .
              ببلی كے ہاتھ پھسل کر نیچے آ رہے تھے . . . اس کو اپنی چچا زاد بہن کی موٹی مخملی رانیں ایک الگ ہی احساس دینے لگی . . . وہ اتنی ملائم تھی جتنے ان کے ممے تھے . . . ببلی نے خود ہی اپنی تایا زاد بہن کی دونوں رانیں پھیلا دی تھی . . . اور اب وہ اپنا لنڈ ٹھیک ان کی چڈی كے پھولے ہوئے حصے پر گھسا رہا تھا . . .
              وہ جگہ کسی گرم بھٹی كے طرح تپتے ہوے محسوس ہو رہی تھی . . . اس نے ایسے ہی نادرا کی آنكھوں میں دیکھا . . تو نادرا نے اپنی کمر ہلکی سے اوپر اُٹھائی . . اور ایک سائڈ سے چڈی کو نیچے کھینچ دیا . . .
              ببلی نے باقی کا کام کر دیا اور اس چڈی کو پاؤں سے باہر نکال دیا . . . ایک بڑی تیز اور عجیب سی خوشبو اس کی سانسوں سے ٹکرائی . . . یہ نادرا کی پھدی کے رس کی خوشبو تھی . . جو پھدی سے نہ جانے کب سے ٹپک رہا تھا . . .
              " باجی . .، اب کیا کروں . . .؟ "
              کانپتے ہوئے ببلی نے کہا . . .
              نادرا نے دیکھا اس کا چچا زاد بھائی اس کی پھدی كے اوپری حصے کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا ہے . . . نادرا نے نیچے سے آگے ہو کر اپنا ہاتھ بڑھایا ببلی کا لنڈ پکڑنے كے لیے . . . تو ایک ہی جھٹکے میں ہاتھ پیچھے کھینچ لیا . . .
              " بھائی . . . یہ کیا چیز ہے . . .؟ کھڑا ہو تھوڑا " . . .
              حیرت سے نادرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی . . اور ببلی كے پاس آئی . . . جیسے ہی اس کی نظر اس موٹے ڈنڈے پر گئی . . .، نادرا کی دھڑکنیں ہی رک گئی کچھ لمحے كے لیے . . .
              کبھی وہ نیچے اپنی پھدی کی طرف دیکھتی . . جہاں صرف ایک پتلی سے لکیر تھی دو موٹے موٹے پھولے ہوئے ہونٹوں كے درمیان . . . اور کہا یہ موٹا لنڈ جس کا اگلا حصہ انڈے کے جتنا تھا . . . ہمت کر کے اس نے صرف اتنا کہا . .،
              " بھائی ایک کام کر میرے اوپر لیٹ کر اپنا یہ
              ڈنڈا میری پھدی كے اوپر آرام سے رگڑ " . . .
              یہ بولتے ہی نادرا نے ببلی کو اپنے اوپر لیٹا
              لیا . . اور پھر سے اپنی ٹانگیں پوری طرح کھول لی . . .
              اپنے ہاتھ سے اس کا لنڈ جو کہ . . . پوری مٹھی میں بامشکل سما رہا تھا . . .، پکڑ كر اپنی پھدی كے ہونٹوں پر لگا گر رگڑنے لگی . . .
              " آہ باجی . . آپ کی یہ پھولی ہوئی پھدی کتنی گرم ہے . . اور اس کے پانی سے جب لنڈ پھسلتا ہے تو کتنا مزہ آتا ہے . . آہ " . . .
              یہ بولتے بولتے . . ببلی نادرا کے موٹے موٹے مموں کو اپنی چھاتی کے نیچے دهنس رہا تھا . . . اور اپنا لنڈ نادرا کی گیلی پھدی پر رگڑ رہا تھا . . . بیچ بیچ میں جب لنڈ کا ٹوپا ہلکا سا پھدی كے ہونٹ زیادہ پھیلا دیتا . . . تو دونوں كے مزے کی انتہا ہو جاتی تھی . . . دونوں کزنوں كے جسم پسینے سے تر ہو چکے تھے . . اور پُورا کمرا اِس جسنی خوشبو سے مہک اٹھا تھا . . .
              اب تو نادرا کی کمر بھی بیڈ سے اوپر اٹھنے لگی تھی . . اور اس کے ناخن اپنے چچا زاد بھائی كے سخت چوتڑوں میں دهنس رہے تھے . . .
              ناجانے یہ کھیل کتنی دیر تک چلتا رہا . . . لیکن کچھ دیر كے بعد نادرا کا پُورا جسم اکڑ گیا . . اور اس کی پھدی میں رہ رہ كے جھٹکے
              اٹھنے لگے . . . پھدی میں جیسے سیلاب ہی آ گیا تھا . . اور گیلی پھدی پر ببلی کا لنڈ بھی تیز رفتاری سے پھسل رہا تھا . . .
              اس کو بھی کرنٹ لگا جب اس کے لنڈ نے پانی پھینکنا شروع کیا . . . پچکاری اتنی تیز تھی کہ نادرا كے ممے . . .، پیٹ . . .، گردن تک وہ گرم لاوا جا کر گرا . . . اور ببلی ایسے ہی اپنی تایا زاد بہن كے اوپر ڈھیر ہو گیا . . .
              اتنا مزہ تو اسے نرگس کی چدائی سے بھی نہیں آیا تھا . . . جتنا اپنی تایا زاد بہن کی پھدی پر صرف لنڈ رگڑنے سے آیا تھا . . .
              دس منٹ بعد جب دونوں کی سانسیں کچھ درست ہوئی . . تو نادرا نے پیار سے اپنے چچا زاد بھائی کو اوپر سے اٹھایا اور کان میں بولا . . .
              " بھائی اٹھ مجھے باتھ روم جانا ہے . . .، خود کو صاف کرنا ہے " . . .
              ببلی کی ہمت نہیں تھی لیکن وہ اٹھ گیا . . .
              نادرا نے چادر لپیٹی اور باتھ روم میں چلی گئی . . . پانچ منٹ بعد وہ آئی تو ببلی اپنا لنڈ صاف کر کے واپس آیا . . . اور دوبارہ اپنی باجی کے ساتھ لپٹ گیا . . .
              " باجی . .، کیا اس کو ہی چدائی کہتے ہے . . . ؟ "
              ہونٹوں کو چومنے كے بعد اس نے پوچھا . . .
              " نہیں بابا . . . یہ تھوڑی نہ چدائی ہوتی ہے . . . یہ تو صرف ربینگ تھی . . . تیرا اتنا بڑا ہے كہ . . اس طرح یہ میری پھدی كے اندر نہیں جائے گا . . . لیکن تھوڑا ٹائم صبر کر کچھ کروں گی اس کا بھی حَل . . . اور ہاں بیٹا یہ بات کبھی بھی بھول كر کسی كے سامنے مت کر دینا . . . میں برباد ہو جاؤں گی . . . تو میرے پیار کی حفاظت کرے گا نہ بھائی . . .؟ "
              جذباتی ہوتے ہوئے نادرا لپٹ گئی ببلی سے . . .
              " باجی آپ کے لیے میں اپنی جان دے سکتا ہوں . . . اور آپ ہی میرا پہلا پیار ہو . . . میں قسم کھاتا ہوں میں کبھی کسی کے ساتھ اس بات کا ذکر نہیں کروں گا " . . .
              اور اس نے مضبوطی سے بھینچ لیا نادرا کو اپنی بانہوں میں . . .
              نادرا نے ایک بار سَر اُٹھا کر اس کو دیکھا . . اور پھر آہستہ سے بولی . . .،
              " بھائی اب سو بھی جا دیکھ ڈھائی بج
              رہے ہیں . . . تجھے اٹھنا بھی ہے " . . .
              انہیں پتہ ہی نہ چلا تھا كہ . . وہ پچھلے ڈھائی گھنٹے سے پیار کر رہے تھے . . . ببلی نے اپنی تایا زاد بہن . . .، جو کہ بلکل ننگی تھی . . .، اس کو بانہوں میں بھرا اور دونوں نیند كے آغوش میں چلے گئے۔۔۔۔۔۔
              " تن ن ن ن . . تن ن ن " . . . کی پہلی ہی آواز سے ببلی اُٹھ کر بیٹھ گیا . . . الارم کا بٹن دبا كر اس کو بند کیا . . . اور پھر نظر گئی ایک دلکش منظر پر . . نادرا کا پُورا جلوہ اس کی آنكھوں كے سامنے تھا . . . بڑے ٹھوس ممے جو بیڈ پر ٹکے ہوے تھے . .، معصوم سا چہرہ . .، گھنے کالے بال . . ، بڑے لیکن گداز چوتڑ . . .، ریشم سے چکنی رانیں . . .
              پھر خود کو سنبھالتے ہوئے ببلی نے اپنا ہاتھ اس کے ایک ممے پر لگایا . . . اور اس کے ہونٹوں کو چوم کر آہستہ سے بولا . . . .،
              " آئی لو یو باجی . .، یو آر بیوٹیفُل " . . .
              اور اس کو چادر سے ڈھانپ کر پُورا سامان سمیٹ کر اپنے کمرے میں آ گیا . . .
              پھر وہی روزانہ کی روٹین . .، رننگ ، بادام والا دودھ . .، نہانا دھونا کیا اور آ گیا کچن میں . . .
              سوتیلی ماں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا . . . آج نبیلہ نے لال رنگ کا ریشمی لباس پہنا ہوا تھا . . . اور بال کھلے چھوڑے ہوے تھے . . .
              " آج کوئی خاص دن ہے کیا امی . . .؟ "
              ببلی نے جیسے ہے یہ کہا تو خانم بی بی نے جواب دیا . . .،
              " اوہ میرے بدھو بیٹے . . .، آج تیری باپ کی ویڈنگ انیورسری ہے . . کبھی کبھی اپنے باپ کی شادی کی مووی بھی دیکھ لیا کر . . . اور ہاں آج میرا لاڈلا بھی آ رہا ہے گھر . . .، تیرا باپ آ رہا ہے " . . .
              ایک بار انیورسری کا سن کر ببلی خوشی سے جھوم اٹھا . . . مگر جیسے ہی اپنے والد صاحب كے آنے کی خبر سنی تو اس کی ساری خوشی غائب ہو گئی . . .
              " اچھا آج پاپا آ رہے ہیں . . .؟ کب تک آئیں گے
              وہ . . .؟ "
              بجھے من سے اس نے پوچھا . . . تو نبیلہ نے کہا . . . .،
              " بیٹا تیرے پاپا تو سات بجے ہی آ گئے تھے لیکن انہیں باہر تیرے جمال انکل سے کچھ کام تھا تو وہ آدھے گھنٹے تک آ جائیں گے " . . .
              ڈاکٹر جمال ایک سرجن تھے سرکاری اسپتال كے . . اور کبیر صاحب كے اسکول كے دوست تھے . . .
              جب بھی کبیر صاحب اپنے شہر آتے تھے . . تو سب سے پہلے وہ اپنے دوست سے مل کر ہی گھر آتے تھے . . . شام کا پروگرام بنا کر . . .
              اپنے پاپا کو یاد کرتے ہی ببلی کی پرانی یادیں تازہ ہو گئی . . . کیسے اس کے والد صاحب اس کو سخت سزا دیتے تھے . . جب اس کے کم نمبر آتے تھے . . .، اور دادا جان بھی ان کو کچھ بول نہیں پاتے تھے . . . آخری بار وہ اپنے والد صاحب سے تب ملا تھا جب وہ واپس گھر آیا تھا بورڈنگ اسکول سے . . .
              کبیر صاحب کا ڈر ہی تھا كہ . . ببلی نے کبھی بھی زندگی میں زیادہ دوستی نہیں کی تھی . . اور صرف اپنے مستقبل پر ہی دھیان دیتا تھا . . . پھر سب یادوں کو بھول کر اس نے ناشتہ کرنا شروع کیا . . .
              آس پاس کوئی کیا بول رہا ہے اس کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا . . . بس جلدی سے ناشتہ کیا اور اٹھنے لگا کرسی سے کہ . . ایک
              ہاتھ اس کو اپنے کاندھے پر محسوس ہوا . . . سانسیں رک گئی کیونکہ اس کے دِل کو احساس ہو گیا تھا كہ . . یہ کس کا ہاتھ
              ہے .
              " Goodddddd Morning Dad . . How are you . .? Happy to see you around . . .? "
              یہ سب اس نے بنا پیچھے مڑے ہی کہا تھا . . .
              کبیر صاحب کا خواب تھا كہ . . ان کا بیٹا ان سے زیادہ پڑھے . . . اور جب بھی وہ ان سے اور ان کے دوستوں سے ملے تو صرف انگلش میں ہی بات کرے . . . ان دنوں یہ بہت کم ہی ہوتا تھا كہ . . کوئی بچہ چھوٹی عمر میں ہی روانگی سے انگلش بولے . . . لیکن ببلی نے اِس زبان پر کافی عبور حاصل کر لیا تھا دسویں
              تک آتے آتے . . .
              " You know kid, you are my pride. And now I'm more than happy to see you all grown up and getting
              this handsome . . . Son . ., turn around " . . .
              جیسے ہی کبیر صاحب نے یہ بات کہی ببلی اپنے والد صاحب كے بلکل سامنے کھڑا تھا . . .
              انہوں نے آج پہلی بار اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا . . .
              " I've missed this comfort throughout . . .
              my schooling dad . . . Don't leave me for somewhile " . . .
              یہ کہہ کر ببلی زور سے چپک گیا اپنے والد صاحب کے سینے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              جاری ہے۔۔۔۔۔۔
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #27
                واہ یار کیا اسٹوری ہے یقین مانوں بلکل حقیقت کے قریب ترین لکھی ہے بہت مزہ آرہاہےاسکو پھڑِھ کےسچی میں

                Comment


                • #28
                  lagta hye ghr ki or pahli seal nadra ki phatye gi...

                  Comment


                  • #29
                    Bhot hi shandar story ja rahi easa lag raha hy babbli aghy chal kr khalari bany wala hy.

                    Comment


                    • #30
                      بہت شاندار آغاز، عمدہ تحریر

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 2 guests)

                      Working...
                      X