Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پیار سے پیار تک۔۔۔سائیں صاحب

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اب یے اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے کہ ببلی کے نیچے کوئی گھر کی بندی پہلے آئے گی يا باہر کی ۔۔ چانس تو لبنٰی کا لگ رہا ہے۔۔۔ کہانی کا ٹیمپو بہترین جا رہا ہے۔۔۔

    Comment


    • پیار سے پیار تک
      قسط # 014
      رائیٹر :- Enigma
      مترجم :- سائیں صاحب







      " چل اٹھ اب تیری باری ہے . . تو نے وعدہ کیا تھا نہ . . سب ہٹو یہاں سے اب لبنیٰ کا نمبر ہے اور یہ ہی سائرہ کی ٹکر کی . . . باقی تو بس کمر ہلا كر چل دیتی ہیں " . . .



      اس نے اتنا ہی بولا . . پہلے تو لبنیٰ نہیں نہیں کرتی رہی . . پھر کچھ دیر بعد آ گئی وہاں جہاں پہلے سائرہ تھی . . .



      " اب بول کون سے گانے پر تو اپنا جلوہ
      دیکھائے گی . . .؟ "



      امرین تو تھی ہی ماہر . . . لبنیٰ نے اس کے کان میں کہا تو اس نے دوبارہ گانا چلانے والے لڑکے کو گانے كے بول بتائے . . . کچھ ہی دیر میں گانے کی دھن شروع ہوئی . . . یہ بالکل ہی نیا گانا تھا جو زیادہ تر لوگوں نے نہیں سنا تھا . . . اس کے بول تھے . . .



      " سپنے میں ملتی ہے وہ مجھے سپنے میں ملتی ہے " . . .



      میوزک بھی نہایت ہی تیز اور ڈھول کی ملاوٹ والا تھا . . . پھر جب لبنیٰ كے قدم ہلنے لگے . . تو وہ بس کمر میں دوپٹہ باندھ کر ایسے ناچی کہ . . ایک دو لڑکوں كے منہ سے سیٹی نکل گئی . . . اُن میں سے ایک نومی بھی تھا . . . ببلی کو اس کا یہ رویہ اچھا نہیں لگا . . . لیکن وہ بس پرسکون رہا . . .



      " تم یہاں کی لگتی نہیں ہو " . . .



      نومی اُٹھا کر اب لبنیٰ كے پاس پہنچ چکا تھا . . اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے یہ بات کہی . . .



      " تم سے مطلب . . . چلو اپنا کام کرو . . یہاں پر لڑکوں کا آنا منع ہے . . . اوپر سے تم نے شاید نشہ کیا ہوا " . . .



      امرین نے ہمت کی . . اور اس نے نومی کو پیچھے کر دیا . . . وہ بھی زیادہ بحث کیے وہاں سے چل دیا . . . لیکن تھا وہ بھی تھوڑا ٹیڑھی قسم کا . . . اسی طرح ہلکا پھلکا ناچنے گانے كے بعد سب كھانا کھانے چلے گئے . . .
      جنید نے بھی ببلی کو بولوا لیا تھا . . . کھانے کی طرف اچھی خاصی بھیڑ تھی تو سائرہ . .، امرین . .، لبنیٰ اور ان کے ساتھ وہی لڑکی جس نے ببلی کو پہلی نظر میں ہی دِل دے دیا تھا . . .، چاروں کھانے کی پلیٹ لے کر اوپر چھت پر چل دی . . . کمروں میں بھی لوگ بھرے تھے تو ان کا جانے پر کسی کو تعجب نہیں ہوا . . .
      جنید کو وہ بتا کر گئی تھی . . . سب نے كھانا کھایا اور باتیں بھی کی . . بڑے بوڑھے گھر کی طرف نکل گئے تھے تب تک . . . بشیر صاحب بھی منصور صاحب كے ساتھ ہی چلے گئے تھے . . . اِس دوران ببلی کی آنکھیں لبنیٰ کو تلاش کر رہی تھی . . .



      " ببلی چل سب کو ایک بار بول دے پھر گھر چلتے ہیں " . . .



      جنید نے ببلی سے کہا . . . تو وہ اسی طرف گیا جہاں سب بڑی عورتیں بیٹھی ہوئی تھی . . . جب وہاں پہنچا تو انیلہ آنٹی نے بتایا كہ امی . .، دادی جان اور تائی جان جا چکی ہیں . . .
      تبھی امرین اور سائرہ كے ساتھ ثمرین اور نادرا بھی آ گئی . . . سب نکلنے ہی لگے تھے کہ . . اچانک سائرہ نے بولا . . .



      " بھائی جلدی سے اوپر سے میرا پرس لے آ . . . وہ میں وہی کھانے كے ٹائم بھول گئی تھی شاید " . . .



      اس کی بات سن کر ببلی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چل دیا . . . دوسری منزل پر بالکل سکون تھا . . اور پیچھے ہلکا اندھیرا تھا . . . لیکن جب وہ وہاں سے نیچے گیا تھا . . تب تو بلب جل رہا تھا وہاں . . . ببلی نے یہ سوچا اور تھوڑا تیز رفتاری سے تیسری منزل پر چڑھنے لگا . . .



      " میرا ہاتھ چھوڑ دیجیئے . . . میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی " . . .



      لبنیٰ کی اتنی بات ہی ببلی كے کانوں
      پہ پڑی . . اور اگلی پانچ سیڑھیاں وہ ایک جھٹکے میں پار کر کے اوپر آ کھڑا ہوا . . .
      بیچ چھت پر تین سائے نظر آے . . . پاس جاتے ہی دیکھا تو ایک لڑکی . .، نومی اور لبنیٰ تھے وہاں . . . لبنیٰ ببلی کو وہاں دیکھتے ہی اس کی طرف مڑی . . .، نومی نے ابھی بھی اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا . . .



      " ہاتھ چھوڑیں اس کا " . . .



      نومی کو تھوڑی سخت آواز میں اس نے یہ بات کہی . . .



      " تو جا یہاں سے . . . مجھے بات کرنی ہے اِس سے " . . .


      تھوڑی بدمعاشی سے اتنا ہی بولا تھا نومی نے کہ . . . اچانک اس کی چیخ نکل گئی . . .
      ساتھ میں کھڑی لڑکی بھی دونوں کی طرف دیکھ کر بولی . . .



      " چھوڑو میرے بھائی کو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے " . . .



      ببلی نے نومی کا جو ہاتھ لبنیٰ کی کلائی کو پکڑا تھا . . . وہ پکڑ کر تقریباً پُورا ہی مروڑ دیا تھا . . اور اب نومی کا جسم آدھا جھک چکا تھا . . اور آنكھوں میں درد کی شدت سے پانی آ گیا تھا . . .



      " اپنے بھائی کو کہو کہ . . لڑکیوں کی عزت کرنا سیکھے . . . کوئی جاگیر نہیں ہے لبنیٰ اس کی . . اور تم ایک لڑکی ہو کر اپنے بھائی كا غلط کام میں ساتھ دے رہی ہو . . . اتنا بھی مت گرو كہ . . دوبارہ اٹھ ہی نہ پاؤ خود کی نظروں میں " . . .



      لبنیٰ پوری طرح چپک چکی تھی ببلی کے سینے سے . . . ایسا نہیں تھا كہ . . وہ کوئی کمزور لڑکی تھی لیکن کسی شادی والے گھر میں وہ بھی اکیلی ایک شراب پئے لڑکے كے سامنے وہ سہم گئی تھی . . .
      نہیں تو کسی اور جگہ تو نومی جیسا لڑکا اس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا . . ببلی نے اس کو خود سے الگ کیے بنا ہی وہاں پڑی چارپائی پر سے پرس اٹھایا اور چلنے لگا . . .
      لبنیٰ کا ہاتھ تھوڑا گیلا سا لگا . . تو بس اس نے اس ہاتھ کو اپنی نظروں كے سامنے ہی کیا . . اور پھر نومی کی طرف واپس گھوم کر اس کے گال پر زور سے تھپڑ جڑ دیا . . . ایک كے بعد ایک مسلسل چار پانچ تھپڑیں کھانے كے بعد . . نومی بھی گھٹنوں پر گر گیا تھا . . . ناک سے خون نکل چکا تھا اس کے . . .
      لبنیٰ نے ببلی کو اپنی طرف کیا اور منت بھرے لہجے میں بولی . . .،



      " پلیز یہاں سے چلو ببلی . . اب اور کوئی
      تماشہ نہیں کرنا . . پلیز " . . .



      ببلی اس کا سَر سہلاتا ہوا سرد آواز میں نومی کو بولا . . .



      " میری لبنیٰ کا ایک قطرہ خون بھی اتنا قیمتی ہے کہ . . اس کے بدلے میں تیری جان بھی لے سکتا ہوں . . . اور تو نے تو اس کا ہاتھ ہی زخمی کر دیا . . اگر دوبارہ تو نظر آیا تو میں بھول جاؤں گا سب کچھ " . . .



      اور اتنا بول کر وہ لبنیٰ کو ساتھ لیے نیچے چل دیا . . . صحن میں آنے پر دیکھا . . تو وہ سفید کالی چوڑیاں جو اس کے سیدھے ہاتھ کی کلائی میں تھی . . . اُن میں سے چار پانچ ٹوٹ کر اوپر ہی رہ گئی تھی . . . کلائی پر ابھی بھی ہلکا ہلکا خون تھا . . .



      " مجھے روک کر اچھا نہیں کیا تم نے " . . .



      ببلی ابھی بھی غصے میں تھا . . اور لبنیٰ اس کو اِس طرح دیکھ کر بس مسکرا دی . . .



      " اوئے تو پرس لینے گیا تھا یا بنانے . . . اور لبنیٰ تم کہاں تھی . . .؟ "



      سائرہ ان کی طرف آتے ہوئے بولی . . .




      " آپ كے ساتھ گئی تھی نہ یہ . . .؟ تو لے کر بھی ساتھ آنا چاہیے تھا آپ کو " . . .



      ببلی بنا کوئی جواب سنے وہاں سے نکل لیا . . . . مین گیٹ پر ہی جنید اور باقی لڑکیاں بھی کھڑی تھی . . . سب کو سامنے دیکھ کر تھوڑا پرسکون پڑ گیا ببلی . . اور ان کے پاس رک گیا . . .



      " چلو بھئی اب . . . . سب ایسے کیوں کھڑے ہو " . . .



      سائرہ نے ہنستے ہوئے کہا اور سب چلنے لگے . . . اپنے گھر كے باہر پہنچتے ہی نادرا نے ببلی کو روکا . . .



      " پہلے لبنیٰ کو گھر تک چھوڑ کر آ " . . .



      " لبنیٰ آج تم ہمارے یہاں رک جاؤ نہ " . . .



      امرین نے اس کے قریب جا کر کہا . . .



      " نہیں باجی . . آج تو نہیں لیکن جلدی ہی آؤں گی . . . آج ویسے بھی تھکن ہے تھوڑی . . اور پھر دادا جان کو نہیں بتایا ہے " . . .



      " چل ٹھیک ہے . . . کل آ جانا ساتھ میں تیار ہونگے . . گوڈ نائٹ " . . .



      سب آپس میں ملے . . جنید نے بھی بڑاپن دکھاتے ہوئے . . .
      " گڈ نائٹ گُڑیا کہا " . . .
      اور دوسری طرف سے بھی لبنیٰ نے سب کو باے کہہ کر جواب دیا . . .



      " آپ سب ایسے مل رہے ہو . . جیسے یہ دوسرے شہر جا رہی ہے . . . دو گھر دور ہی ان کا گھر ہے " . . .



      ببلی کی بات سن کر سب ہنس دیئے . . اور لبنیٰ ببلی کو چھوڑ کر سب اندر چلے گئے . . .



      " ویسے مجھے لگا تھا کہ . . اب تمہیں غصہ آنا بند ہو گیا ہوگا . . . بہت معصوم سے تو دکھتے ہو " . . .



      لبنیٰ نے چلنے سے پہلے . . گھر سے باہر آتی روشنی میں ایک بار اس کے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا . . .



      " بند ہو گیا ہوگا سے مطلب . .؟ تمہیں کیا پتہ ہے میرے بارے میں . . .؟ "



      " وہ تمہاری باجی نے بتایا تھا كہ . . بچپن میں تمہیں بڑا غصہ آتا تھا . . لیکن پھر تم ہاسٹل میں رہنے كے بعد سے ہی بالکل معصوم ہو گئے تھے " . . .



      صفائی سے لبنیٰ نے جواب دیا . . .



      " اچھا تمہارا گھر آ گیا ہے " . . .



      ببلی اور لبنیٰ دونوں باتیں کرتے ہوئے گھر پہنچ گئے تھے . . . لبنیٰ اور ببلی نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہوا . . . اور ساتھ چلنے پر ان کے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے سے کھیل رہی تھی . . . اس کی بات سنتے ہی لبنیٰ نے ایک بار ببلی کا ہاتھ کس کر پکڑ کر واپس چھوڑ دیا . . .



      " میری لبنیٰ کو ہاتھ بھی لگایا تو تیری جان لی لوں گا " . . .



      گیٹ کی طرف جاتی لبنیٰ نے ببلی کی نقل
      کرتے ہوئے . . اس کی ہی بات دوہرائی تو وہ شرما کر اپنے گھر کی طرف واپس چل دیا . . اور لبنیٰ اپنے گھر کے اندر۔۔۔۔۔۔۔



      " بھائی آپ سو گئے . .؟ "


      ببلی کپڑے بَدَل کا جنید كے کمرے میں آیا . . .



      " کیا بات ہے تجھے نیند نہیں آ رہی کیا . . .؟ "



      جنید ویسے ہی لیٹا ہوا تھا . . .



      " نہیں بھائی بس کپڑے بَدَل کر یہی آ گیا آپ کے پاس " . . .



      " کچھ پوچھنا ہے کیا تو نے . . .؟ "



      جنید اب بستر پر ٹیک لگا کر بیٹھ سا گیا تھا . . . اس نے اپنے چاچا زاد بھائی کو تھوڑا پریشان دیکھا . . .



      " آپ میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں نہ . . . .؟ سب سے بڑے تو آپ ہی ہیں . . . مجھے زیادہ کچھ یاد نہیں لیکن کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں . . .؟ "



      ببلی کی بات سن کر تھوڑی دیر تک تو جنید کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا . . پھر اس کو اپنے پاس بیٹھا لیا . . .



      " جو بھی میں بتاؤں گا تو وہ کسی سے نہیں کہے گا . . . خاص کر گھر میں تو بالکل بھی نہیں " . . .



      یہ بات کہہ کے اس نے ببلی کی طرف دیکھا . . تو اس نے ہاں میں سَر ہلا دیا . . .




      " تو اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوا تھا میرے بھائی . . . مطلب عام طور پر بچے ماں کے پیٹ میں نو ماہ تک ہوتے ہیں . . . لیکن تو آٹھ ماہ کے بعد پیدا ہوگیا تھا . . آپریشن کے وقت تیری اپنی ماں بھی چل بسی تھی . . اس کی وجہ سے کافی پریشانی اُٹھائی تھی سب نے تجھے تین سال تک تو بہت ہی پیار سے اور احتیاط سے سنبھالا . . . کہی باہر نہیں لے جاتے تھے کہ . . تو کہی بیمار نہ ہو جائے . . .
      تجھے جو بھی پسند ہوتا سب فرمائش پوری ہوتی تھی . . . پھر جب ایک دن جب ڈاکٹر نے بتایا کہ . . تو اب بالکل ٹھیک ہے تو گھر میں تھوڑا سکون ہوا سب کو . . . لیکن سب کے اِس پیار نے تجھے بہت زیادہ ضدی بنا دیا تھا . . . امرین تو تجھے اپنے سے چپکا کر ہی گھمتی رہتی تھی . . . اس کے ساتھ ہی تجھ کو اسکول بھی بھیجنا شروع کیا . . لیکن تو وہاں بھی امرین کی کلاس میں بیٹھنے کی ضد کرتا تھا . . .
      دادا جان کا اچھا نام تھا کیوںکہ اپنے وقت کے وزیر رہ چکے تھے . . تو اسکول میں بھی تجھے اتنی آزادی مل گئی ". . .



      پھر جنید نے ایک گہری سانس لی
      اور کہا . . . ،



      " تیری وجہ سے سائرہ اور امرین دونوں كے ہی خراب نمبر آنے لگے تھے . . تو کبیر چاچا ناراض رہنے لگے . . . دادا جان نے ہی ان کو سمجھایا . . کچھ وقت بعد منصور انکل کا بیٹا اور بہو آئے پڑوس میں . . .،
      ان کی بیٹی بھی اس کے ساتھ آئی تھی . . . وہ لوگ شاید امریکہ میں کہی رہتے تھے " . . .



      " منصور . . . .؟ "
      ببلی نے نام دوبارہ لیا . . .



      " ہاں منصور صاحب لبنیٰ کے دادا جان . . . اور جب وہ ہمارے گھر آتے تو ان کی پوتی بھی یہاں آتی تھی . . .
      امرین . .، سائرہ كے ساتھ ساتھ تو اس کے ساتھ بھی کھیلنے لگا تھا . . . تم دونوں اتنا ساتھ رہنے لگے کہ . . کئی بار وہ یہی سو جاتی یا تو ان کے گھر . . .
      تِین سال تک ہر سال وہ یہاں آتے ایک مہینے كے لیے . . . اور تو ان کی بیٹی كے ساتھ ہی کھیلتا رہتا . . .
      پھر ایک بار وہ لوگ ہمیشہ واپس جانے لگے . . اور جب منصور انکل تجھے سمجھانے لگے . . تو تو نے ان کے اوپر پتھر پھینک كر مار دیا تھا . . . تو سات سال کا تھا اس وقت . . .
      یہ بات کبیر چاچا کو بری لگی اور غصہ دلا گئی . . . تو سب کے ساتھ لڑنے لگا تھا . . . صرف امرین اور سائرہ كے ساتھ ہی خوش رہتا . . . اور وہ دونوں بھی تیرے اوپر جان قربان کرتی تھی . . . لیکن چاچا جان نے تھان لی تھی کہ . . تجھے وہ ٹھیک کرکے ہی رہیں گے . . .
      ان کو سب سے زیادہ امید تیرے پیدا ہونے سے ہوئی تھی . . لیکن تیری ضد اور غصے نے ان کو بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا . . . پھر انہوں نے تجھے ہاسٹل بھیج دیا . .، سب کے منع کرنے كے باوجود . . . نبیلہ چاچی بھی بہت غمزدہ تھی . . سب آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا . . . دادا جان ہی تجھ سے ملنے ہاسٹل جاتے تھے اور کوئی نہیں . . ہاسٹل كے وارڈن اور اسکول كی انتظامیہ نے تیرا غصہ تجھ پر ہی الٹا کر کے تیرا دھیان صرف کھیل پر لگا دیا . . . اب جو غصہ اور ضد تھی وہ کھیل پر نکلنے لگا . . آہستہ آہستہ غصہ تو ختم ہی ہو گیا تھا . . . اور اپنے داداجان نے بھی بڑے پیار سے تیری زندگی میں یہ تبدیلی لائی کہ تو سب کے جذبات کو سمجھے . . .
      مجھے آج بھی یاد ہے جب تو واپس آتا تھا تو وہ سب کام چھوڑ کر دو تین گھنٹے صرف پیار . .، اخلاق اور بھائی چارے کی باتیں سکھاتے تھے . . .
      سائرہ اور امرین کو تو صاف بول دیا گیا تھا كہ . . وہ اس ایک مہینے میں کبھی گھر كے باہر والے کمرے میں نہیں جائیں گی . . . تجھے جو یہ سب باغیچے كے کام اب اچھی طرح سے آتے ہیں . . یہ تو پانچ چھے سال سے کر رہا ہے . . ہے نہ " . . .



      جنید اتنا بول کر چھت کی طرف دیکھنے لگا . . .



      " ہاں . . اور یہ لڑکی لبنیٰ وہی ہے . . .؟ "



      " ہاں جب وہ امریکہ میں بیمار رہنے لگی . . تو پھر منصور انکل اس کو یہاں اپنے ہی پاس لے آئے . . . اب اتنا کچھ بتا دیا ہے تو تو اپنا منہ بند رکھنا . . اور جا کر بنا کوئی سوال کئے سو جا " . . .



      ببلی كے دماغ پر چھاے بادل کچھ حد تک ہٹ چکے تھے . . کچھ سوال تھے لیکن اس کے جواب صرف اس کے دادا بشیر صاحب ہی دے سکتے تھے اتنا اس کو پتہ تھا . . . کمرے میں آ کر بستر پر تھوڑی دیر وہ سوچتا رہا . . اور اپنے آپ اس کی آنکھیں بند ہو گئی۔۔۔۔۔



      " میری لبنیٰ " . . .



      اپنے آپ سے کہتے ہوئے . . لبنیٰ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی . . . آج اس نے وہ دیکھ تھا جو آٹھ نو سال پہلے ہوتا تھا . . . ببلی کا اس کو خود سے چپکانا . . اور کسی کو اس کے ساتھ نہیں کھیلنے دینا . . آج جس طرح
      سے اس نے ببلی کو اپنے اندر تک اترتا محسوس کیا تھا . . ویسا کبھی اس کے ساتھ نہیں ہوا تھا . . . اپنی کلائی کا درد بھول چکی تھی . . لیکن چوریاں ٹوٹنے کا درد بہت تھا اس کو . . . یہ ببلی نے لے کر دی تھی . .
      ان کو اُتار کر ڈبے میں بند کر کے . . وہ واپس لیٹتے ہوے خیالوں میں کھو گئی . . . کب نین کی آغوش میں گئی اسے بھی معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔



      وقت سے پہلے ہی ببلی کی آنکھ کھل گئی تھی . . . گھڑی میں دیکھا تو ابھی ساڑھے تین بج رہے تھے . .
      بستر سے اُٹھ کر وہ نیچے آیا . . اور پانی کی بوتل نکال کر سیدھا چھت پر چل دیا . . وہاں پر کوئی سویا ہوا تھا . . .
      " نادرا باجی " . .
      اتنا سوچ کر ہی اس نے پانی پی کر بوتل دیوار پر رکھی . . اور اس ایک ہی گدے پر سوئے ہوے شخص کی چادر میں آ گھسا . . . یہ نادرا ہی تھی . . . اس کے ساتھ لیٹتے ہی ببلی دوبارہ پھر اس نشے میں کھونے لگا . . جس میں اکثر وہ دونوں کھو جاتے تھے جب بھی اکیلے ہوتے تھے . . .
      اس کی قمیض كے اوپر سے ہی ببلی نے ہاتھ پھیرے . . . بڑے بڑے اور موٹے ابھار قمیض كے اندر اکڑے ہوے ہی تھے . . .
      نادرا كی قمیض كے اندر ہاتھ ڈال کر اس کا ایک ننگا دودھ اس نے ہاتھ میں بھر لیا . . اور سہلانے لگا . .
      نپل اکڑتا ہوا اس کو محسوس ہوا . . تو وہ اور جوش سے نادرا کے ساتھ چپک گیا تھا . . .
      نیچے والا ہاتھ تو ممے پر تھا . . ، دوسرا ہاتھ اس نے پیچھے سے شلوار میں ڈال اس کے ننگے چوتڑوں پر پھیرنا شروع کر دیا . . . نادرا کی گرم سانسیں اس کی بھی گرمی بڑھا رہی تھی . . اپنے ہونٹ اس نے نادرا كے ہونٹوں پر رکھ کر اس کے دونوں ہونٹوں کا رس پینا شروع کیا . . تو نیند میں ہی نادرا نے اس کو خود سے چپکا لیا . . . کچھ زیادہ ہی جوش میں اس نے اس کا وہ موٹا دودھ منہ سے دبایا تو نادرا کی آنکھیں کھل گئی . . .
      اپنی آنكھوں كے سامنے ببلی کو دیکھ کر اس کے ہونٹ بھی حرکت میں آنے لگے . . . ببلی بھی زور زور سے اس کی گانڈ کی دراڑ تک انگلیاں ڈال کر اس کے کولہے مسل رہا تھا . . .
      ملائم ربڑ سے کولہے ایک الگ ہی مزہ دے رہے تھے . . . اپنے کپڑے نکال کر وہ پھر سے اس کے ساتھ لپٹنے لگا . . تو نادرا بھی بیٹھ گئی اور قمیض اور شلوار اتار کر ببلی كے اوپر ہو گئی . . .
      اپنے منہ كے پاس لٹکتے اس کے بھاری دودھ وہ نیچے لیٹ کر پینے لگا . . اور نادرا اپنی پھدی اس کے لنڈ پر رگڑنے لگی . . . وہ دونوں کافی دیر تک ایسے ہی لگے رہے . . .
      ببلی نے اس کے چوتڑ دبا دبا کر لال کر دیئے تھے . . اور نپل بھی پھول کر موٹے ہونے لگے تھے . .
      لنڈ کسی لکڑی سا سخت نیچے سے ہی پھدی میں جانے کی کوشش کر رہا تھا . . . جب برداشت نہ ہوا تو اس نے نادرا کو اپنے نیچے گھوما لیا . . اور اس کے اوپر آتے ہی پھدی پر لنڈ لگا کر جھٹکا لگا دیا . . .



      " اُوں ماں . . ببلی آرام سے کر . . کہی نہیں بھاگی جا رہی تیری یہ داسی " . .



      آدھا لنڈ گیلی پھدی میں کسی پسٹن کی طرح گھس گیا تھا . . اور پھدی پھیل گئی تھی . . دونوں ہاتھوں سے اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا کر اس نے پھر سے ایک جھٹکا مارا . . اور دو انچ كے آس پاس لنڈ اور آگے چلا گیا . . .
      نادرا تڑپ رہی تھی . . اور اس کے ممے جھٹکے سے ہل رہے تھے . . یہ دیکھ کر ببلی اس کے اوپر جھک گیا . . اور اس کے دونوں اچھلتے فٹبال پکڑ کر چُومتے ہوئے جھٹکے لگانے لگا . . .
      پیار سے آدھا لنڈ ہی باہر نکال کر . . . وہ دھیمی رفتار میں چُدائی کرتا رہا . . . نادرا كے ہاتھ جب اس کی پیٹھ سہلانے لگے . . تو اس نے اس کے ہونٹ چھوڑ کر ایک جھٹکے میں لنڈ جڑ تک ٹھونس دیا . .



      " آہ ببلی . . ہر بار یہ میرے پیٹ میں درد دیتا ہے . ہائے ماں . . لیکن اس کا یہ درد . . . آہ مزہ بھی خوب . . آہ آہ دیتا ہے " . . .



      اس کے جملے بیچ بیچ میں ٹوٹ جاتے . . جب ببلی لمبے کرارے جھٹکے لگاتا . . .



      " آپ کا جسم ہی ایسا ہے . . . آہ . . كہ میں . . . آہ کھو جاتا ہوں . . "



      ٹوپے تک لنڈ نکال کر پھر جڑ تک ٹھوکتے ہوئے . . ببلی بھی مزے میں ڈوبا لگا ہوا تھا . . .
      نیچے سے اس کے ہاتھ جب نادرا کی گانڈ كے چھید سے ٹکرائے . . تو اس نے ایک انگلی سے اس کو سہلا بھی دیا . . .



      " آہ ببلی یہ کیا دبا دیا . . اوئی میری ماں " . . .



      نادرا کی پھدی اتنے میں جھڑ گئی . . پھدی سے نکلتا پانی جب ببلی کی اس انگلی پر پڑا تو اس وہ گیلی انگلی کو واپس چھید پر دبانے لگا . . اس کا ناخن تک کا حصہ اندر چلا گیا . . . .



      " ہائے ہاے . . یہ کیسا نشہ ہے . . ببلی یار . . مر جاؤں گی میں . . "



      وہ گانڈ كے اِس حملے سے پاگل ہو اٹھی تھی . . ببلی بھی انگلی اندر کرتے ہوئے جھٹکوں کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا . . . پوری انگلی گانڈ كے اندر باہر ہو رہی تھی . . اور پھدی ہوا میں اٹھی پُورا لنڈ کھانے لگی تھی . .
      چند منٹ میں ہی نادرا پھر سے اکڑنے
      لگی . . اور جیسے ہی وہ جھڑی تو ببلی نے بھی لنڈ دونوں ٹانگیں اٹھا کر اس کی گانڈ کی لکیر پر لگا دیا . .
      اس کا سارا سفید پانی گانڈ كے چھید پر پریشر سے گرا . . اپنی گانڈ پر گرم گرم منی محسوس کر كے نادرا کو مسلسل جھٹکے لگنے لگے . . مزے میں وہ بستر پر گر پڑی تھی . .



      " تو نے یہ کونسا نیا جادو کیاہاں . . سچ میں ایسا لگ رہا ہے كہ ہواؤں میں ہوں میں . . "



      نادرا کی بات سن کر ببلی نے جھک کر اس کے ہونٹ چومے اور کپڑے پہن لیے . . . نادرا نے بھی جیسے تیسے کپڑے پہنے . . اور ببلی کو جاتا دیکھ کر واپس وہی لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔



      چدائی کے بعد جسم بالکل ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا . . اور ببلی کو امید تھی کہ . . آج پھر پارک میں لبنیٰ آئے گی . . . اور وہ اس کے ساتھ بات کرے گا . . .
      کچھ دیر بعد وہ پارک كے اندر تھا . . آج بھی بوڑھوں کا گروپ وہی تھی جنہوں نے مسکرا کر ببلی کا استقبال کیا . . . اور اس نے بھی بھاگتے ہوئے ہی جواب میں گردن ہلا دی . . .
      پتہ ہی نہیں چلا کب وہ پانچ چکر پورے کر چکا تھا . . . تھکن رتی برابر بھی نہیں تھی . . . لیکن ایاز صاحب کو تنہاہ چہل قدمی کرتا ہوا دیکھ کر ان کی طرف ہلکے قدموں سے بڑھ گیا . . .



      " آداب سر " . . .



      " کیسے ہو بیٹا . . . سب ٹھیک ہے نہ . . .؟ "



      انہوں نے یہ بات کہی . . تو ببلی نے صرف ہاں میں سَر ہلایا . . .



      " ان درختوں کو دیکھ رہے ہو . . . کتنے بڑے دل کے ہوتے ہیں یہ . . . ہم انسانوں کو زندگی بھر پھل . .، چھاؤں . .، تازہ ہوا دیتے ہیں . . . اور ہم صرف ان کو ایک بار پانی دے کر اپنا فرض پُورا سمجھ کر بس ان سے ہی امید لگاے رہتے ہیں " . . .



      " ایاز صاحب یہ قدرتی چیزیں ہمیں فائدہ دیتی ہیں . . اور ہماری لالچ زندگی بھر رہتی ہے " . . .



      ببلی نے ان کی پچھلی نصحیت کو آج ان کی بات سے جوڑ دیا تھا . . .



      " سہی بات کہی بیٹا " . . .



      انہوں نے ننگے پاؤں ہی گھاس پر چلتے ہوئے . . ببلی كے کاندھے پر ہاتھ رکھ لیا . . اور ایک پھولوں کی ڈال دکھانے لگے . . .



      " یہ خوبصورت پھول دیکھ رہے ہو بیٹا . . یہاں دیکھو تتلیاں اور شہد کی مکھیاں ہے . . . لیکن کسی نیم کے درخت یا بابُل کے درخت كے پیڑ پر تم نے کبھی انہیں دیکھا ہے . . .؟ "



      " نہیں سر . . . ان کو پھولوں سے رس لینا ہوتا ہے جو ان کا زندگی کا اہم حصہ ہوتا ہے " . . .



      ببلی کی یہ خاص بات تھی کہ . . ہر سبق کو دل سے سمجھا تھا اس نے . . صرف رٹا مار کر آگے بڑھنے والا لڑکا نہیں تھا . . .



      " بہت خوب بات کہی . . . اب اِس بات کو انسان کی زندگی سے جوڑ کر دیکھو . . . اور بتاؤ کیا سمجھے " . . .



      ببلی نے کافی دیر اِس بات پر غور کیا . . . اس کو بات سمجھ آ رہی تھی . . لیکن سہی الفاظ نہیں مل پا رہے تھے . . .



      " زیادہ مت سوچو بیٹا . . . جس کو ضرورت ہوتی ہے وہ اسی کے پاس ہی جاتا ہے . . جو اس کو پُورا کر سکتا ہے . . لیکن فرق ہے ایک پہلے والی بات اور اِس بات میں . . . ایک شہد کی مکھی رس لینے كے باوجود پھول کو نقصان نہیں دیتی . . . وہ بدلے میں اس کے ننھے بیج زمین پر بکھیر کر ان درختوں کا شکریہ ادا کرتی ہے . . . آج کا سبق یہی ہے . . . سچا پیار کرو ان درختوں کی طرح " . . .



      یہ کہتے ہوئے . . وہ وہاں سے آگے بڑھ چلے اور ببلی ان کے ساتھ چلتا رہا . . .



      " کیا کوئی پریشانی چل رہا ہے دماغ میں بیٹا . . . .؟ "
      انہوں نے اس کو چُپ دیکھا تو پوچھ لیا . . .



      " سر . .، ایک سوال پریشان کر رہا ہے کچھ دنوں سے " . . .

      " بیٹا میں کوئی نجومی تو نہیں . . . جو تمہاری پریشانی سمجھ سکوں . . بتاؤ گے تو معلوم ہوگا " . . .
      یہ بول کر وہ مسکرا دیئے . . .



      " اگر زندگی میں پہلے کچھ بھی برا ہوا ہو . . لیکن پھر وقت گزر جائے . . اور تب تک سب ٹھیک ہو تو کیا . . ان پرانی باتوں پر غور کر كے کچھ حاصل ہوگا . . . .؟ "



      " تم کیا چاہتے ہو . .؟ "
      انہوں نے پلٹ کر سوال کر دیا . . .



      " میں صرف سچ اور اس سب بات كی پیچھے کی وجہ جاننا چاہتا ہوں " . . .



      " سب حقیقت ہی ہوتا ہے بیٹا . . . حقیقی اور غیر حقیقی جیسا کچھ نہیں ہوتا . . عموما ایک انسان کسی بات کو الگ طریقے سے کہتا ہے . . . لیکن دوسرے نے اگر وہ بات اس طرح نہیں پڑھی ہو تو وہ اس کو غیر حقیقی کہے گا . . . دونوں کی باتوں میں سے کس کی بات حقیقی ہے اور کس کی غیر حقیقی اس کو پھر لوگوں کی راے ( ووٹ ) ثابت کرتی ہے . . . لیکن حقیقت یہی ہوتا ہے . .؟
      جس نے تمھارے ماضی میں جو بھی کیا ہو اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوگا . . . ضروری نہیں كہ ہر انسان جو تمہیں دکھ دے وہ تمہارا دشمن ہو . . اور جو تمھارے ساتھ ہر وقت میٹھی باتیں کرے وہ دوست . . .
      ایسی باتیں من کو بھلاتی ہیں . .، اس کو قابو کرنا سیکھو . . . ماضی سے صرف میٹھی یادیں ہی لینا ٹھیک ہے . . یا پھر غلطیوں سے سیکھنا " . . .



      ببلی اب مطمئن تھا . . . وہ بھی تو اب جو سب کچھ ہوا اس کو بَدَل نہیں سکتا تھا . . . اور جو بھی زندگی میں اس کے والد صاحب نے کیا تھا اس کے ساتھ وہ بھی تو کسی بات کو سوچ کر کیا ہوگا . . .
      جنید نے بھی کہا تھا كہ . . جب میں پیدا ہوا تھا تو ان کو مجھ میں امید نظر آئی تھی . . . آج یہی سب ہے جو میں اتنے اچھے طریقے سے پڑھ پا رہا ہوں . . اور یہ جسم جو پیدا ہونے پر کمزور تھا وہ آج کتنا طاقت وار ہے . . .



      " بیٹا آؤ تھوڑا ساتھ میں ٹہل لیں . . . پھر تو ہم اب ایک ہفتے بعد ملیں گے " . . .



      اتنا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لیے پارک میں چکر کاٹنے لگے دھیمے قدموں سے . . . ببلی کو اب کوئی سوال کسی سے نہیں پوچھنا تھا . . . کیونکہ اس کو پتہ چل گیا تھا کہ . . کسی بیماری کو ٹھیک کرنے كے لیے جو انجیکشن دیا جاتا ہے . . وہ تکلیف ضرور دیتا ہے . . .
      لیکن پھر مرض ٹھیک بھی اس سے ہی ہوتا ہے . . . اس کے تمام خامیاں اس کے والد صاحب نے سختی سے ہی سہی لیکن ختم کر ہے دی تھی . . اور اب اس کو اپنے آپ کو ثابت کرنا تھا . . .



      " آپ کہاں جا رہے ہیں سر . .؟ "



      اس کو جانے کی بات سن کر اچھا نہیں لگا تھا . . .



      " بیٹا ایک یوگا کے استاد اور ایک دوست ہیں **** میں . . بس وہی جا رہا ہوں . . . تم سب سے زیادہ تب سیکھتے ہو . . جب تم انہی لوگوں کی سنگت میں رہو جس میں وہ سب یا تو مہارت رکھتے ہو . . یا پھر ان کا دِل اس میں لگا ہو . . . میرے بھی کچھ استاد / دوست وہاں ملیں گے تو شاید کچھ سیکھ سکوں " . . .



      اسی طرح ہی چلتے ہوئے . . وہ ببلی کو آس پاس کی زندگی دکھا رہے تھے . . . کہی کوئی باتیں کر رہا تھا . .، کہی کچھ لوگ کھیلتے ہوئے مسکرا رہے تھے . . . پانچ بجے سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا . . اور اچھی خاصی روشنی ہو چکی تھی . . . ان کے ساتھ ببلی وقت بھول ہی چکا تھا . . .
      گھر سے نکلا تھا صرف تو جسم ہلکا پھلکا تھا . . . لیکن اب تو اس کا دِل اور من دونوں پرسکون تھے . . .



      " آپ کا انتظار کروں گا " . . .



      پہلی بار ببلی نے ان کو گلے سے لگایا . . ایاز صاحب نے بھی اس کی پشت کو سہلا کر صرف اتنا کہا . . .،



      " پیار سے زندگی جی لی جائے تو بہتر ہے بیٹا . . .، سب کے ساتھ . . اکیلا تو دیکھو سورج بھی گرم ہی رہتا ہے " . . .



      ان کی مذاق میں کہی بات بھی گہری بات تھی . . .



      " اپنا خیال رکھنا اور ہمیشہ ایسے ہی پرسکون رہنا " . . .



      وہ دونوں ہی ساتھ میں باہر چل دیئے۔۔۔۔۔۔۔



      " بیٹا آج بھی رننگ کرنے گئے تھے . . .؟ "



      بشیر صاحب نے ببلی کو گھر میں آتے دیکھا . . . ساڑھے پانچ ہوئے تھے ابھی اور وہ چائے پی رہے تھے . . .



      " آج جلدی چلا گیا تھا دادا جان . . پھر ایک دوست جیسے بزرگ ہیں . . آج ان کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا " . . .



      " اچھا تو اب تیرے دوست بھی ہیں . . .؟ اور وہ بھی بزرگ . . .؟ "



      اپنے دادا جان کی الجھن کو سمجھ کر اس نے سہی طرح سے بتانا ہی ٹھیک سمجھا . . .



      " وہ کوئی نجومی وغیرہ نہیں ہے دادا جان . . وہ یوگا اور کثرت والے استاد ہیں . . . اور 70 سال كے بھی ہو کر مشکل سے پاپا جتنے لگتے ہیں . .، بس سارے بال آپ کی طرح سفید ہیں . . . روز ایک سبق سیکھاتے ہیں . . میری رننگ پوری ہونے كے بعد . . اور اگلے دن سبق پوچھتے ہیں نیا سبق سیکھانے سے پہلے " . . .



      اپنے پوتے کے خیالات اور لوگوں کا انتخاب بھی بشیر صاحب کو خوش کر گیا . . .



      " آج کا کیا سبق سکھایا تیرے دوست نے . . .؟ "



      " سچا پیار . . . اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انسان كی اپنی زندگی میں حقیقی اور غیر حقیقی جیسا کچھ نہیں ہوتا . . . سب حقیقی ہوتا ہے . . . ایک بات جس شخص نے محسوس کی ہو . . وہی بات دوسرے نے نہیں کی ہو تو وہ صرف ان دونوں كے لیے ایک حقیقی غیر حقیقی ہے . . . اور انہوں نے یہ بھی سکھایا کہ . . دکھ دینے والا شخص آپ کا دشمن ہو ایسا ضروری نہیں . . . شاید جب آپ کو وہ دکھ دیتا ہوگا . . تب آپ کمزور ہونگے اور اس دکھ کو سہنے كے بعد پتہ چلے کہ . . یہ سب اس دکھ اور تکلیف کا نتیجہ ہے کہ . . جو آج ہم کامیاب ہیں " . . .



      یہاں ببلی نے دوطرفہ بات کری تھی . . . دادا جان کو یہ بھی بتا دیا کہ . . جو بھی اس کے ابو نے اس کے ساتھ کیا تھا . . اس کو اب اس بات کا کوئی گلا شکوہ نہیں ہے . . .



      " بہت بڑی بات کہی ہے بیٹے انہوں نے . . . اتنا اہم نصحیت کرنے والا شخص کوئی عام تو نہیں ہو سکتا . . . کیا نام بتایا تم نے اس کا . . .؟ "



      بشیر صاحب تھوڑا سنجیدہ ہو گئے تھے اس کی باتوں سے . . .



      " جی کوئی ایاز صاحب ہیں . . . میرے سے بھی لمبے اور تگڑے ہیں وہ " . . . . .



      بشیر صاحب کی بھی آنکھیں چمک اٹھی نام سن کر . . .



      " خوش نصیب ہو بیٹا جو تم ان جیسی شخصیت كی سنگت میں ہو " . . . .



      انہوں نے اپنے پوتے کا ماتھا چُوما . . . ان کا من بھی پریشان سا تھا . . . لیکن نام سن کر کافی سکون ملا . . .



      " چل اٹھ اور دودھ پی لے . . پھر تیرا پتہ نہیں کہاں نکل جائے " . . .



      لاڈ سے انہوں نے کہا . . اور ببلی اندر آ گیا جہاں نبیلہ کچن میں سب کے لیے چائے بنا رہی تھی . . اور امرین اور سائرہ كے لیے کافی۔۔۔۔۔۔





      جاری ہے۔۔۔۔۔
      Last edited by Man moji; 02-02-2023, 08:41 AM.
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • کہانی کا ٹیمپو بہترین جا رہا ہے

        Comment


        • رائٹر کےالفاظ کا انتخاب نہایت عمدہ ہے رائٹر کی جتنی تعریف کی جائے انتہائی کم ہے اسٹوری کی کامیابی میں رائٹر کی جتنی تعریف کی جائے ہے اور کاوشوں کو سراہا جائے اس کے لیے الفاظ کی کمی محسوس ہوتی ہے

          Comment


          • Great Yar Kia words hai...

            Comment


            • زبردست بہت اعلی مزہ آگیا سٹوری بہترین کمبی نیشن کے ساتھ چل رہی ہے من موجی جی تسی گریٹ او

              Comment


              • کمال کر دیا بھای

                Comment


                • اتنے کرداروں کو لے کر چلنا اور سب سے انصاف کرنا بہت مشکل کام ہے اور من موجی صاحب نہایت عمدہ طریقے سے یہ توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں

                  Comment


                  • من موجی اپنے دل سے لکھ رہا ہے اسی لیے بہترین ہیں

                    Comment


                    • سحر انگیز اپڈیٹ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح لاجواب۔۔۔ بڑی خوبصورتی سے کہانی میں سیکس کے ساتھ جذبات کا عنصر شامل کیا ہے رائٹر نے۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (1 members and 2 guests)

                      master007
                      Working...
                      X