Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پیار سے پیار تک۔۔۔سائیں صاحب

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    لاجواب اور. بہترین سٹوری مزہ نشہ س کچھ آگیا?❤?❤?❤?❤?❤?❤

    Comment


    • #62
      Bhut umda lafzon k jadogar hu bhi

      Comment


      • #63
        Shandar story hai jnab

        Comment


        • #64
          لازوال کہانی ہے۔

          Comment


          • #65
            کہانی کا رنگ ڈھنگ بلکل گھریلو ناول جیسا ہے لیکن اچانک جذبات کی جادو گری لفظوں کی چاشنی میں بھگو کر کہانی کا رخ اس نہج پر لے جاتے ہو کہ بے لگام ہوتی آ رزوں کو اپنے اظہار کا راستہ مل جاتا ہے غرض ہر دن نے انداز سے جذبات کے طوفان کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پڑھنے والوں کی جان نکال دیتے ہو

            Comment


            • #66
              Lajawab update ab mahol khul rha ha ab gyess ya krna ha ka ghr main sb se phle kon maza kre ga

              Comment


              • #67
                Ghr say lagta h nadra ki pehly khulay gye

                Comment


                • #68
                  پیار سے پیار تک
                  قسط # 005
                  رائیٹر :- Enigma
                  مترجم :- سائیں صاحب








                  " بات بالکل ٹھیک ہے تیری بیٹا . . لیکن" . . . .



                  خانم بی بی نے اپنے انداز میں ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ . . . سائرہ نے اپنے دادا جان کی سفارش لگوائی . . . .



                  " جب بات ٹھیک ہے تو بیگم صاحبہ اجازت دینے میں اتنا وقت کیوں . .؟ اور ویسے بھی میری بیٹیاں کیا بیٹوں سے کم ہے کیا . . . .؟
                  تو بول جنید بیٹا کتنے پیسے لگیں گے . . ، میں کل ہی دیتا ہو بینک سے نکلوا کر " . . .



                  بشیر صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں بات کہی . . .



                  " وہ دادا جان میں پہلے ہی بکنگ کروا چکا ہوں . . گُڑیا كی سالگرہ کا یہی تحفہ مجھے ٹھیک لگا تھا . . . مگر آپ کی اور دادی جان
                  کی اجازت كے بنا تو میں یہ کر نہیں سکتا تھا . . تو اس لئے آپ کی اجازت چاہیے تھی . . کل آ جائے گی گھر " . . .



                  جنید نے نہایت ہی ادب سے اپنی بات کی . . .



                  " ٹھیک ہے بیٹا . . . لیکن زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے . . . کالج سے آنے كے بعد چابی روزانہ میرے کمرے میں ہونی چاہیے " . . .



                  خانم بی بی نے اتنا ہی بولا تھا كہ . . سائرہ جا چپکی اپنی دادی جان سے . . . یہ دیکھ کر بشیر صاحب کو نہایت ہی خوشی ہوئی کہ . . . ان کے خاندان میں آج بھی ہر کام بڑے بزرگوں کے مشورے سے ہی ہوتے ہیں . . .
                  اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے انہوں نے ایک بار جنید کے سَر پر پیار سے ہاتھ پھیرا . . . اور خانم بی بی كے ساتھ اندر جانے لگے . . . تبھی انہیں ببلی منہ لٹکاے بیٹھا دکھا . . .



                  " اب تجھے کیا ہوا جو اس طرح منہ
                  بنائے بیٹھا ہے . . . ؟ "



                  بشیر صاحب نے اس سے پوچھا . . . تو جواب خانم بی بی نے دیا . . . .،



                  " اس کو گاڑی چلانی سیکھنی ہے . . . اور میں نے منع کر دیا ہے " . . .



                  " چل بیٹا کبھی کبھی اپنی دادی کی ایک آدھی بات بھی مان لیا کر . . . گرمی کی چھٹیوں میں تجھے گاڑی چلانا بھی سیکھا دیں گے . . . لیکن تجھے اپنی گاڑی کالج كے بعد ہی ملے گی " . . . .



                  اتنا بول کر دونوں چلے گئے . . اور یہاں جنید اپنی جگہ سے اٹھا . . اور ببلی کو اشارہ کر کے باہر چل دیا . . .



                  " ہاں بھائی . . اب بتاؤ " . . . .



                  باہر آ کر ببلی نے جنید سے پوچھا . . .



                  " چھوٹے میں نے پاپا کو بول دیا ہے كہ . . دوست كے گھر جا رہا ہوں . . . تو گھر کا دھیان رکھنا میرے پیچھے " . . .،



                  جنید نے گاڑی کی چابی جیب سے نکالتے ہوئے کہا . . .



                  " وہ تو ٹھیک ہے بھائی مگر آپ واپس کب تک آؤ گے . . .؟ "



                  " بھائی میں صبح سات بجے تک آ جاؤں گا " . . .



                  " ٹھیک ہے بھائی " . . .



                  اتنا بول کر جنید بھائی گاڑی لے کر نکل گیا . . . اور ببلی نے مین گیٹ کو تالا لگا دیا . . . اندر آیا تو اس کی سوتیلی ماں اور تائی جان كھانا بنا رہے تھے . . اور ثمرین اپنے دادا دادی کو ان کے کمرے میں ہی كھانا دے رہی تھی . . .



                  " تیرے پاپا نظر نہیں آ رہے امرین . . .؟ " ،



                  سفیر صاحب نے یہ بات پوچھی امرین سے جو وہی بیٹھی تھی . . .



                  " پاپا دیر سے آئیں گے تایا جان . . . وہ ریاض انکل كے ساتھ منصور انکل كے گھر گئے ہیں . . اور بول کر گئے تھے كہ . . صبح آپ کو ان کے ساتھ کہی جانا ہے " . . . .



                  اپنی بھتیجی کی بات سن کر . . ان کے چہرے پر ایک مسکان سی آ گئی . . .



                  " ٹھیک ہے " . . .



                  اب سائرہ . . .، ثمرین اور نادرا كھانا کھا رہی تھی . . . اور امرین كھانا لگا رہی تھی . . . ببلی بھی فریش ہو کر وہی آ کر بیٹھ گیا . . .



                  " مالکن صاحبہ اِس غریب کو روٹی ملے گی کیا آج . . .؟ "



                  ببلی نے یہ بات امرین کو چھیڑتے ہوئے کہی تھی . . .



                  " ہاں ٹھیک ہے لیکن ہمارے گھر میں رواج ہے كہ نوکر مالکوں كے بعد کھاتے ہیں " . . .



                  امرین نے بھی ببلی کو اس کے ہی لہجے میں جواب دیا . . یہ دیکھ کر سائرہ مسکرا رہی تھی . . .



                  " باجی آپ كھانا کھاؤ نہیں تو پھر سے کھانسنا شروع کر دو گی " . . .



                  ببلی نے اب سائرہ کو چھیڑا . . تو امرین اور سائرہ دونوں ہی ہنسنے لگی . . .



                  " چاچی آج مُنا دودھ ہی پئے گا " . . .



                  جب یہ بات سائرہ نے کہی . . تو چاروں لڑکیاں کھلکھلا کر ہنسے لگی . . . اور ببلی نے تلخی سے سائرہ کو دیکھا . . . لیکن کچھ کہا نہیں . . . امرین نے بھی اس کے آگے کھانا لگا دیا تھا . . . لیکن ببلی نے كھانا شروع نہیں کیا . . .



                  " ارے میرا پیارا بھائی . . . چل غصہ نہیں کرتے دیکھ كھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے نہ " . . .



                  نادرا نے یہ بات پیچھے سے ببلی كے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہی . . تو ببلی كے چہرے پہ دوبارہ سے چمک آ گئی . . اور وہ کھانا کھانے لگا . . .
                  سائرہ نے ببلی کو دیکھا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا . . . اور وہ چپ چاپ كھانا درمیان میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئی . . .



                  " اچھا سب ٹائم سے سو جانا ٹھیک ہے . . . صبح بہت کام ہے . . اور نادرا اور ثمرین ابھی تم دونوں ایک بار نہا لو . . . پھر ماں جی كے ساتھ بیٹھ جانا " . . .،



                  نبیلہ نے یہ بات سب سے کہی تھی . . .



                  ببلی اٹھا اور چل دیا اوپر اپنے کمرے میں . . . وقت تھا كہ گزر ہی نہیں رہا تھا . . . واپس اُٹھ کر اس نے ٹیلیوژن آن کیا اور ہاتھ میں تکیہ لےکر بیٹھ گیا . . . زی سنیما چینل پر ایک فلم آ رہی تھی . . " رات " . . .، وہ بس وہی دیکھنے لگا . . . تھوڑی دیر میں ہی امرین اور سائرہ اوپر آ گئی کپڑے بَدَل کر . . . سائرہ کا چہرے اداس اداس سا لگ رہا تھا . . . اور وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی . . .



                  " کیا دیکھ رہا ہے تو . . .؟ "



                  امرین نے حق جتاتے ہو یہ بات کہی ببلی سے اور بیٹھ گئی اس کے ساتھ . . . یہ پہلی
                  بار تھا كہ . . وہ بڑے صوفے پر ایسے بیٹھی تھی . . .



                  " تو وہاں کیوں بیٹھی ہے . .؟ چل ادھر آ دیکھ کتنی جگہ ہے یہاں " . . .



                  اس نے سائرہ کو بھی حکم نامہ جاری کیا . . . تو وہ کچھ سہمی ہوئی سے امرین كے ساتھ بیٹھ گئی . . . امرین کا دھیان فلم پر تھا . .، سائرہ چپکے چپکے ٹیلیوژن اور ببلی کو دیکھے جا رہی تھی . . . دس منٹ بعد بریک ہوا تو امرین کھڑی ہوئی . . .



                  " یار فلم مت بدلنا میں بس ابھی آئی پانی لے کر " . . .



                  اتنا بول کر وہ چلی گئی . . اور پیچھے رہ گئے ببلی اور سائرہ . . .



                  " آئی ایم سوری ببلی " . . .


                  جیسے ہی ببلی کو یہ آواز سنائی دی . . تو اس کی نظریں گئی سائرہ پر جس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی . . .
                  وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا . . . اور اپنے دونوں ہاتھوں سے سائرہ کا چہرہ تھامتے ہوے بولا . . .،



                  " باجی . .، یہ کیا ہے . . .؟ کس بات کی سوری . .؟ آپ رو کیوں رہی ہو . . .؟ "



                  اس کا دِل بیٹھ گیا اپنی تایا زاد بہن کی آنكھوں میں آنسو دیکھ کر . . . اور اس نے سائرہ کو اپنے سینے سے لگا لیا . . .



                  " وہ میں نے تجھ سے غلط طرح سے بات کی تھی اس لئے . . جب تجھے برا لگا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا . . . آئی ایم سوری ببلی " . . .،
                  اتنا بول کر وہ رونے لگی . . .



                  " ش ش ش . . . چُپ ہو جاؤ باجی . . وہ تو روزانہ کا مذاق ہی تھا نہ . . اب آپ کی آنكھوں میں آنسو دیکھ کر میرے دِل میں درد ہو رہا ہے . . پلیز چُپ ہو جاؤ " . . .



                  یہ کہتے ہوے . . اس نے ایک بار سائرہ كے گال چومے اور سَر سہلایا . . . سیڑھیوں پر قدموں کی آواز سے سائرہ سیدھا باتھ روم میں چلی گئی . . منہ صاف کرنے اور ببلی واپس وہی بیٹھ گیا . . .



                  " کتنی بھولی بھالی ہے سائرہ باجی " . . .
                  اس نے من ہی من میں سوچا . . .



                  " یہ شہزادی کہاں چلی گئی اب . . .؟ "
                  امرین نے آتے ہی ببلی سے پوچھا . . .



                  " وہ باجی واش روم گئی ہے " . . .



                  اتنی دیر میں سائرہ بھی باہر آ گئی . . . چہرہ پانی سے دھویا ہوا تھا . . اور کچھ بوندیں ابھی بھی تھوری سے نیچے ٹپک رہی تھی ٹی شرٹ پر . . .



                  " کیا ہوا جو تجھے منہ دھونا پڑا . . .؟ "



                  امرین نے مذاق کیا تو سائرہ نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا . . .،



                  " وہ تو نے دن میں گال چھو لیے تھے نہ تو
                  ابھی بھی جلن ہو رہی تھی " . . .
                  اور وہ دونوں ہنس پڑی . . .



                  ببلی کو علم نہیں تھا كہ . . ان دونوں نے دن میں کیا کیا تھا . . . تینوں گیارہ بجے تک فلم دیکھتے رہے . . . بیچ بیچ میں سائرہ امرین کا ہاتھ دبا دیتی تھی . . جب بھی کوئی خوفناک سین آتا تھا . . . ایسے ہی جب فلم ختم ہوئی تو وہ دونوں چل دی اپنے کمرے کی طرف . . . ببلی نے بھی سوچا کہ ایک چکر نیچے لگا آتا ہوں . . .



                  " آج تو مجھے اور ثمرین کو نیچے ہی سونا ہے دادی جان كے پاس . . . کل تیرے ساتھ چھت پر ہی سوؤں گی " . . .،



                  یہ بات نادرا نے ببلی كے کان میں کہی . . جب وہ کچن میں اکیلا کھڑا پانی پی رہا تھا . . .



                  " ٹھیک ہے باجی " . . .
                  اتنا بول کر اس نے جلدی سے ایک چھوٹا سا چُمّا لے لیا نادرا كے گال کا . . .



                  " بدمعاش " . . .
                  مسکراتے ہوئے وہ وہاں سے بیٹھک کی طرف چل دی جہاں خانم بی بی بیٹھی تھی . . .





                  ببلی بھی یونہی گھومتا ہوا تیسری منزل پر چلا گیا . . اور بیٹھ گیا خالی آسمان كے نیچے . . . تارے جگمگ رہے تھے اور نہایت ہی مزےدار ہوا چل رہی تھی . . . وہ کتنی ہی دیر تک ایسے ہی بیٹھا رہا اور دیکھتا رہا کالے آسمان کو . . . ببلی خیالوں کی دنیا سے تب لوٹا جب سائرہ کی آواز گونجی . . .



                  " تو جناب یہاں بیٹھے ہے . . . اور ہم نے سارا گھر دیکھ لیا " . . .


                  ہرنی کی طرح چلتے ہوے وہ ببلی کی طرف چلی آئی . . . اب ببلی کا دھیان گیا اپنی تایا زاد بہن کی طرف . . .
                  نہایت ہی چست جینس اور ٹائیٹ ٹی شرٹ میں وہ کمال لگ رہی تھی . . اس کو کپڑوں کا رنگ نہیں دِکھ رہا تھا . . .



                  " چلو جلدی نیچے چلو " . . .



                  ببلی نے سائرہ کا ہاتھ پکڑا . . اور اس کو کھینچتا ہوا دوسری منزل والے ڈرائنگ روم میں آ گیا . . . لائٹ جلائی تو اس کے ہوش ہی اُڑ گئے . . . وہ ہلکا گلابی رنگ کا ٹوپ ایسا لگ رہا تھا . . جیسے سائرہ كے جسم کا ہی حصہ ہو . . . دونوں کا رنگ ایک سا تھا . . . اور چست نیلی جینس ایسے چپکی ہوئی تھی . . . جیسے کھال كے اوپر کوئی رنگ کیا ہوا ہو . . . پنڈلیوں کو بناؤٹ . .، رانیں . .، کولہے سب اس کی آنكھوں كے سامنے ہی ہو جیسے . . . ببلی کو اپنی طرف یوں دیکھتے ہوے دیکھ کر . . . سائرہ کی نظریں فرش میں گڑھنے لگی . . اور چہرہ لال ہو چکا تھا . . . ببلی نے جیسے ہی اپنے قدم سائرہ کی طرف کیے . . . دونوں كے دِل کی دھڑکنیں بڑھ گئی . . . اس نے نہایت ہی آرام سے ایک ہاتھ سے سائرہ کی تھوری اوپر کی . . اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں لپٹا لیا . . .



                  "A very happy birthday to the most beautiful girl on earth."



                  اتنا بول کر ببلی نے اپنے ہونٹ سائرہ كے
                  ہونٹوں سے جوڑ دیئے . . . سائرہ اِس سب کے لیے جیسے اندر سے ہی تیار تھی . . . اس نے بھی بوسے کا جواب ایک بوسے سے دیا . . .



                  "Thank you so much for making it this special."



                  اور دونوں ایسے ہی چپکے کھڑے رہے ایک دوسرے كے ساتھ . . .



                  " اب میں چلتی ہوں نیچے . . . مجھے سونا ہے بھائی " . . .



                  اس نے یہ بات ایسے کہی . . جیسے صرف خاموشی توڑنا چاہتی ہو . . جو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی . . .



                  " کہی نہیں جا رہی ہو آپ ابھی . . . میرا ریٹرن گفٹ ہے كہ . . آپ تھوڑی دیر میرے پاس رہو گی " . . .



                  اتنا بول کر اس نے سائرہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا . . اور اپنے کمرے میں لے آیا . . یہاں سنگل بیڈ ہی تھا . . . اور دونوں کسی عاشق معشوق کی طرح چپک گئے ایک دوسرے سے . . .



                  " آئی لو یو ببلی " . . .،



                  سائرہ نے یہ الفاظ ببلی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے ادا کئے . . . اور یہ
                  سنتے ہی ببلی نے سائرہ کو اپنے اوپر لیٹا لیا . . اور پھر سے اپنے ہونٹ سائرہ كے ہونٹوں سے ملا دیئے . . . .
                  ایک ایک کر کے دونوں . . ایک دوسروں کے لبوں کو چوس رہے تھے . . . اور اب حالت یہ تھی کہ . . سائرہ کی لاڑ ببلی كے منہ میں جا رہی تھی . . . ہونٹ بری طرح سے بھیگ چکے تھے . . . سائرہ کی زندگی میں یہ پہلا مردانہ لمس تھا . . . اور اس لمس کو پاتے ہی اس کو احساس ہوا كہ . . اِس بوس و کنار میں اور امرین كے ساتھ کیے ہوئے بوس و کنار میں کتنا فرق تھا . . . ایک مردانہ لمس کتنا زیادہ شہوت زادہ ہوتا ہے خاتون کے لمس سے یہ اسے آج احساس ہوا تھا . . .



                  " آپ کے وہاں پر تل ہے . . .؟ "



                  ببلی نے یہ بات جب سائرہ سے کہی . . تو وہ مزید شرماتے ہوئے ببلی سے اور زور سے لپٹ گئی . . . اس کی ٹی شرٹ كے بڑے گلے سے ببلی نے آدھا منظر دیکھ لیا تھا . . .



                  " بتاؤ نہ " . . .



                  " اب دیکھ لیا تو کیوں پوچھ رہا ہے " . . .
                  شرماتے ہوئے سائرہ نے کہا . . .



                  " دیکھا کہاں ہے صرف جھلک ہی تو ملی تھی . . . پلیز دیکھنے دو نہ " . . .
                  ببلی نے التجا کی تو سائرہ شرماتے ہوئے ہنسنے لگی . . .



                  " لائٹ بند کر دو ببلی " . . .



                  " پھر میں اِس خوبصورت پری کا دیدار کیسے کروں گا " . . .



                  یہ کہتے ہوے ببلی نے اپنی تایا زاد بہن کو اپنے نیچے کر لیا . . اب وہ آہستہ آہستہ ٹی شرٹ کو اوپر اٹھا رہا تھا . . . اور سائرہ نے اپنا منہ تکیے میں چھپا لیا تھا . . . جیسے ہی ٹی شرٹ برا سے اوپر ہوئی . . ببلی کچھ لمحے كے لیے وہی رک گیا . . . سائرہ کا پیٹ مخمل کی طرح ملائم اور سپاٹ تھا . . . ناف تھوڑی سی ہی گہری تھی اور اس کا گورا رنگ . . ببلی نے برا كے نچلے حصے پر اپنی زبان پھیر دی . . . اس کے ایسا کرتے ہی سائرہ كے منہ سے ایک تیز سسکی نکل گئی . . ،
                  " آہ " . . .



                  ببلی اسی طرح ہی جھکا رہا . . . اور اس نے براہ کے اوپر سے ہی اس کا دایاں مما پکڑ لیا . . .



                  " نہ کر بھائی مجھے کچھ ہو رہا ہے . " . . .



                  سائرہ نے دھیمے لہجے میں یہ بات کہی . . لیکن اس میں انکار نہ تھا . . . اور ببلی نے اس کا پُورا موٹا مما اس برا كے کپ سے باہر نکال لیا . . . گول گورے تنے ہوئے ممے پر کشمش كی طرح کا گلابی بھورا نپل . . اور اس سے تھوڑی سا اوپر ایک مونگ کی دال کے جتنا کالا تل . . . ببلی نے اپنے ہونٹ اس تل كے اوپر رکھ دیئے . . . سائرہ کو ایسے لگا جیسے ببلی نے وہاں سے اس کے باطن تک کو چوس لیا ہو . . . اس کا سر بستر سے اوپر اٹھ گیا اور تبھی ببلی نے اس کا وہ گلابی نپل اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا . . .



                  " آہ ببلی . . کیا جادو کر رہا ہے تو . . . دیکھ میں مر جاؤں گی اِس مزے سے نہ کر " . . .



                  اب سائرہ تڑپنے لگی تھی لیکن ببلی یہی نہ رکا . . . دایاں مما چُوستے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس نے سائرہ کا دوسرا مما بھی باہر نکال لیا . . . برا كے کپ نیچے لٹک رہے تھے . . . اور وہ ایک ممے کو دبا رہا تھا . . اور ایک کو چوس رہا تھا . . .
                  ایک ایک کر کے چوس کر اور دبا کر اس نے سائرہ كے دونوں بڑے ممے لال کر دیئے تھے . . .



                  " باجی آپ کو پتہ ہے كہ . . آپ کے یہ انار مجھے سونے نہیں دیتے . . دِل کرتا ہے بس ان کو چوستا اور دباتا رہوں " . . . .



                  ببلی نے اپنے آپ کو پوری طرح سے سائرہ كے اوپر ڈھالتے ہوئے کہا . . اس کا لنڈ اب سائرہ کی رانوں کو رگڑ رہا تھا . . .



                  " بھائی کیا تو ایسے ہی مجھے ساری زندگی پیار کرے گا . . . .؟ "
                  اس نے ببلی کا منہ اوپر کرتے ہوئے کہا . . .



                  " آخری سانس تک " . . .



                  اتنا بول کرر دونوں ایک دوسرے کی زبان سے زبان لڑانے لگے . . کبھی ببلی سائرہ کی زبان اپنے منہ میں لے کر چوستا تو کبھی سائرہ . . .
                  سائرہ کی پھدی نے صرف مموں کی چوسائی سے ہی پانی بہا دیا تھا . . . جیسے ہی اس کا جسمہ اکڑا باہر گاڑی کا ہارن سنائی دیا . . .
                  سائرہ اور ببلی دونوں ہی کھڑے ہو گئے . . . اور ببلی سامنے والی سیڑھیوں سے نیچے چل دیا مین گیٹ کھولنے . . . اس کے والد کبیر صاحب واپس آ گئے تھے . . .



                  "You still awake?"



                  "Yes dad. Actually most members are awake. Some enjoyment."



                  "Okay, I'm going to my room. Just pass this message to your mother."



                  گاڑی کھڑی کر کے کبیر صاحب اندر چلے گئے . . اور ببلی نے گیٹ پر تالا لگا لیا اندر سے . . .



                  " امی پاپا آ گئے ہے " . . .


                  دادی جان کے کمرے سے بھٹک بس ابھی ختم ہوئی تھی تو سب لوگ کھڑے ہو گئے . . . نبیلہ اور لیلیٰ اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دی . . . اور ثمرین اور نادرا اپنی دادی كے ساتھ . . .
                  ببلی جب اوپر آیا تو وہاں کوئی نہیں تھا . . . لیکن وہ خوش تھا کیونکہ بستر پر ایک کاغذ كے ٹکڑے پر لکھا تھا . . .
                  " آئی لو یو " ۔۔۔۔۔۔۔




                  رات كے تقریباً دو بجے تھے . . اور خانم بی بی كے کمرے میں سوئی ہوئی نادرا کی آنکھ پیاس کی وجہ سے کھل گئی تھی . . . کمرے میں ہلکی روشنی میں اس نے دیکھا كہ . . پانی مخالف سمت میں رکھا تھا . . . اور درمیان میں دادی جان اور ثمرین سو رہی تھی . . . نادرا بنا آواز کئے کچن کی طرف چل دی . . . فریج سے بوتل نکال كر وہی کھڑے ہو کر پانی پیا . . اور پیشاب کرنے كے لیے صحن میں بنے باتھ روم کی طرف چل دی . . .
                  نادرا ننگے پاؤں ہی تھی تو اس کے چلنے کی کوئی آہٹ نہیں ہو رہی تھی . . . گھر میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی . . . نادرا نے کموڈ پر بیٹھنے سے پہلے پجامہ سارکایا اور بیٹھ گئی . . . اتنی خاموشی میں اس کے پیشاب کی سیٹی کی آواز عجیب سا شور مچا رہی تھی . . . پیشاب کرنے كے بعد باہر نکل کر جیسے ہی نادرا نل کی طرف بڑھی اس کے کانوں میں چوریوں كے کھنکنے کی آواز آئی . . . یہ نہایت ہی دھیمی آواز تھی . . لیکن اتنی خاموشی میں واضح سنائی دے ہی گئی . . .
                  نادرا نے غور کیا تو یہ آواز نبیلہ چاچی كے کمرے سے آ رہی تھی . . جہاں ابھی بھی زیرو بلب کی روشنی چھلک رہی تھی . . . دھیمے قدموں سے وہ بےچینی سے اس طرف چل دی . . .
                  دیوار پر لگی ہوئی بڑی کھڑکی كے پلے تھوڑے سے کھلے ہوئے تھے . . تو نادرا نے اپنی نظر وہی گاڑھ دی . . . اس کی نظر جیسے ہی اندر کے منظر پر گئی تو اس کا گلا ہی خشک ہو گیا . . .

                  نبیلہ چاچی جو ہمیشہ مکمل لباس زیب تن کئے ہوے ہوتی ہیں . . اور ہمیشہ دوپٹہ سر پر اوڑھے ہوے رہتی ہیں . . . نادرا كی نظروں سے کچھ ہی فاصلے پر بلکل ننگی پڑی تھی . . . ان کے بڑے بڑے ممے کسی خربوزے کی طرح ہل رہے تھے . . . اس کو چاچا کا چہرہ اور چھاتی ہی نظر آ رہی تھی . . . جو نہایت ہی بےدردی سے چاچی کی ٹانگیں اوپر اٹھائے مشینی انداز میں جھٹکے مار رہے تھے . . .
                  " ٹھپ ٹھپ . . .، پچک پچک " . . . کی آوازوں سے کمرا گونج رہا تھا . . . چاچا کا ایک ہاتھ چاچی كے ایک بڑے ممے کو بےدردی سے نچوڑ رہا تھا . . . لیکن چاچی كے چہرے پر مزے کی لہریں صاف نظر آ رہی تھی . . . ان کی سیسکاریاں ہلکی تھی لیکن وہ مسلسل سسک رہی تھی . . .
                  کچھ ہی دیر میں چاچا نے انہیں گھٹنوں كے بل کر دیا . . . پہلی بار نادرا کو اپنے چاچا کا
                  ہتھیار نظر آیا . . . جو تقریباً چھے سے سات انچ لمبا تھا . . . اور چاچی کی پھدی كے پانی سے بھیگا ہوا چمک رہا تھا . . .



                  " اب ڈال بھی دو جی " . . .



                  نہایت ہی دھیمی سی آواز سنائی دی چاچی کی . . . پھر چاچا نے ہنستے ہوئے اپنا لنڈ پھدی پر سیٹ کر کے ایک کرارا جھٹکا مار دیا . . . اور پُورا لنڈ جڑ تک اندر گھس چکا تھا . . .



                  " آوئی ماں . . . ہاں ایسے ہی کرتے رہو " . . .



                  چاچی کی بات مانتے ہوئے چاچا لگ گئے ان کی پھدی مارنے . . . ان کے بڑے بڑے چوتڑ ہر جھٹکے كے ساتھ ہل رہے تھے . . اور بڑے بڑے ممے ہوا میں جھول رہے تھے . . .
                  کچھ دیر بعد ہی چاچی کا سَر بستر پر ٹک چکا تھا . . اور ان کی سانسیں بھی نادرا کو
                  سنائی دے رہی تھی . . .



                  " تمہارا تو ہو گیا جان اب تھوڑا اس کا بھی خیال کرو " . . .



                  چاچا نے اپنا لنڈ چاچی كے منہ كے سامنے کر دیا . . . یہ دیکھ کر نادرا حیران رہ گئی كہ . . یہ کیا ہو رہا ہے . . .



                  " ادھر لاؤ جی . . نہیں تو پھر تیسری بار میری جان نکال دو گے " . . .



                  اتنا بول کر مسکراتے ہوئے نبیلہ چاچی نے
                  چاچا کا لنڈ ہاتھ میں پکڑ لیا . . . اور اگلے ہی لمحے آدھے سے زیادہ لنڈ ان کے لپسٹک سے سجے رسیلے ہونٹوں کے اندر داخل ہو چکا تھا . . . اور چاچی مزے سے اپنا منہ اُس پر چلا رہی تھی . . . ایسا نظارہ نادرا نے اپنی 25 سالا زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا . . . اور وہ بھی اپنی چاچی کو کرتے ہوے . . . ادھر چاچا کی آنکھیں مزے سے بند ہو رہی تھی . . .،
                  یہ دیکھ کر نادرا سوچ رہی تھی كہ . . اس کی چاچی کتنی شریف اور سادہ سی دکھتی ہے . . لیکن چاچا كے ساتھ تو کھل کر مزے اڑا رہی ہیں . . .



                  " میرا ہونے والا ہے جان " . . .



                  چاچا کی آواز سے اس کی سوچ کا بندھ ٹوٹا تو دیکھا كہ . . چاچی ابھی بھی ان کا لنڈ چوسے جا رہی ہے . . . اور پھر جب اس نے دیکھا كہ . . اب چاچی نے لنڈ نکال دیا ہے تو نظر آیا کہ . . کچھ سفید سفید بوندیں ان کے ہونٹوں پر لگی ہوئی ہے . . .



                  " اف ف . . یہ دونوں تو عاشق معشوق کو بھی پیچھے چھوڑ دیں " . . .



                  نادرا اپنی چاچی کا یہ روپ دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہو گئی تھی . . . تبھی تو چاچا ان کے آگے پیچھے گھومتے رہتے ہیں جب بھی گھر ہوتے ہیں . . وہ دونوں اب کپڑے پہن چکے تھے . . . نادرا بھی چپکے سے کھسک گئی وہاں سے . . . اس کی پھدی نے بھی اچھا خاصہ پانی بہا دیا تھا یہ منظر دیکھ کر . . .
                  واپس کمرے میں آ کر پتہ نہیں وہ کتنی دیر تک کروٹیں بدلتی رہی . . . پھر تھوڑی ہی دیر میں اس کی بھی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔۔



                  ببلی ساڑھے چار بجے اپنا ٹریک ٹراوزر پہن کر نیچے آیا تھا . . تو دیکھا اس کے والد صاحب بھی اسپورٹس شوز پہنے ہوے وام اپ کر رہے تھے . . .



                  "Good morning son. I was expecting you at this time and see you are right on time."



                  کبیر صاحب نے کہا تو ببلی نے بھی فوراً جواب دیا . . .



                  "Good morning dad. but I was not expecting you at this early time. But glad that you still maintain
                  your health routine."



                  یہ کہتے ہوے من ہی من میں وہ سوچنے لگا كہ . . اگر آج لیٹ ہو جاتا تو اپنے والد صاحب سے نظریں نہ ملا پاتا . . . اور دادا جان سے بھی والد صاحب سوال کرتے . . .



                  "Come on. Let's go."



                  اتنا بول کر کبیر صاحب نے ہلکے قدموں سے بھاگنا شروع کر دیا . . . اور ببلی بھی ان کے نقش قدم پر روانہ ہوگیا . . . ایسے ہی پندرہ منٹ دوڑنے كے بعد اس کے والد صاحب پارک میں چلے گئے . . اور ببلی روز کی طرح اپنے راستے پر روانہ ہوگیا . . .
                  کبیر صاحب پارک میں ہلکی پھلکی چہل قدمی کرتے ہوئے . . گھاس پر بیٹھ کر یوگا کرنے لگے . . اور پھر ننگے پاؤں گھاس پر ٹہلنے لگے . . . ببلی نے جب دیکھا كہ . . آج وہ پانچ کلومیٹر دوڑ چکا ہے تو واپس چل دیا دوڑ لگاتا ہوے گھر پر . . .
                  موسم میں ابھی بھی ہلکی پھلکی خنکی تھی . . لیکن اب اجالا ہو رہا تھا . . . . ساڑھے پانچ بجے جیسے ہی وہ گھر كے اندر آیا . . تو سامنے اپنے والد صاحب کو دادا جان كے ساتھ بیٹھے ہوے پایا . . . دونوں باتیں کر رہے تھے کہ . . دادی جان چائے کی ٹرے لے کر آ گئی . . .



                  " آ گیا میرا شیر " . . .
                  داداجان نے ببلی کو شوز اتارتے ہوے دیکھا تو پکارا . . .



                  " ہاں دادی جان . . موسم اچھا تھا تو آج پتہ ہی نہیں چلا " . . .



                  " اچھا ب تو یہاں بیٹھ میں تیرے لیے دودھ لے کر آئی " . . .



                  اتنا بول کر دادی جان واپس چلی گئی . . اور بشیر صاحب اپنے بیٹے سے باتیں کرتے ہوئے ہی . . . ببلی كے پاؤں کی انگلیوں پر سرسوں كے تیل سے مالش کرنے لگے . . .






                  { اب سے کبیر صاحب اور ببلی کی بات چیت بھی اردو میں ہی بیان کی جاۓ گی }









                  " آپ تو اس کو کھلاڑی ہی بنانے میں لگے ہو پاپا . . . اتنی ٹریننگ اور خدمت سے کل کو اگر کہی یہ ہاتھ سے نکل گیا تو . . .؟ " ،



                  کبیر صاحب نے اپنے والد صاحب سے نہایت ہی دھیمے لہجے میں یہ بات کہی . . .



                  " بیٹا بڑے سانڈ کو پالنے والا اس کو ایک پتلی سی رسی سے بھی باندھ ہی لیتا ہے " . . .



                  اتنا بول کر بشیر صاحب نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا . . . تو اب کبیر صاحب خاموشی سے مسکرا رہے تھے . . .



                  " کس سانڈ کی بات ہو رہی ہے دادا جان . . . ؟ "



                  ببلی نے بھولے پن سے پوچھا تو اس کے داداجان نے بھی ہنس کر کہا . . .،



                  " بیٹا تیرے پاپا کی ہی بات کر رہا ہوں . . . یہ شادی سے پہلے سانڈ جیسا ہی تھا . . . اور پھر تیری ماں كے پیار سے دیکھ اب شریف بیل بن گیا ہے " . . .



                  اِس بات پر تینوں ہی ہنس دیئے . . . کبیر صاحب کو آج نہایت اچھا محسوس ہو رہا تھا . . . دادی جان نے دودھ کا گلاس ببلی کو دیا . . . کپڑے اور تولیہ کبیر صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوے کہا . . .



                  " جا بیٹا اب نہا لے . . . پھر تیرا کیا بھروسہ تو کہاں نکل جائے " . . .



                  اپنی ماں کو ایک بار پھر گلے سے لگا كر . . ببلی كے والد صاحب چل دیئے باتھ روم کی طرف . . اور ببلی دودھ ختم کر کے پچھلے صحن کی طرف چل دیا . . . .جہاں پر اس کی سوتیلی ماں نبیلہ جھاڑو لگا رہی تھی . . .



                  “ آ گیا میرا بچہ " . . .،



                  اتنا کہہ انہوں نے ببلی کا ماتھا چُوما . . اور گلے لگایا . . . ابھی تک نادرا . .، ثمرین اور امرین سو رہی تھی . . . لیکن سائرہ اپنی دادی جان كے پاس بیٹھی تھی . .، اس کی سالگرہ کا دن جو تھا . . .



                  " اچھا بیٹا تیری تائی جان اوپر صفائی کر رہی ہے . . اور میں اب کچن میں جا رہی ہوں . . . تو جا کر امرین اور ثمرین کو اٹھا دے . . پھر نہانے چلے جانا " . . .



                  اتنا بول کر نبیلہ کچن میں چلی گئی . . . ببلی بھی اپنی بڑی بہن كے کمرے کی طرف چل دیا . . . اس نے ایک بار دروازے پر دستک دی . . لیکن کوئی جواب نہیں آیا . . . دروازہ ویسے ہی بند تھا لوک نہیں تھا . . تو اس نے داکھیل دیا اور اندر آ گیا . . . ثمرین نے چھاتی تک ایک چادار لے رکھی تھی . . اور وہ سیدھی سو رہی تھی . . . لیکن جب اس کی نظر امرین پر گئی تو اس کے قدم اس کی طرف خود ہی چل دیئے . . . گھٹنے تک پجامہ چڑھا ہوا تھا . . .، گوری پنڈلیاں نمایاں ہو رہی تھی . . اور پھر پُورا پیٹ قمیض سے باہر جھانک رہا تھا . . . اتنی خوبصورت اور گوری پتلی کمر . .، اور چاند سے چہرے پر آئی ہوئی بالوں کی لٹ . . . خوبصورتی کا مجسمہ سی دِکھ رہی تھی . . . دھیان سے دیکھا تو امرین كے ممے قمیض كے نیچے آزاد دِکھ رہے تھے . . . ببلی ہوش میں آیا . . اور امرین كے پاس جا بیٹھا . . .



                  " باجی اٹھا جائیں . . . آج سائرہ باجی کی سالگرہ کا دن ہے اٹھ جائیں نہ " . . .



                  اس نے اپنی سوتیلی بہن كے گال کو ایک بار ہلکے سے چھوا . . . اور پھر کاندھے پر ہلکے سے تھپتھپایا . . امرین غنودگی کے عالم میں اپنے آس پاس دیکھنے لگی . . . جیسے ہی اس کو اپنے پاس اپنا چھوٹا بھائی بیٹھا دکھا . . اس کی معصوم صورت میں ایک لمحے كے لیے کھو سی گئی وہ . . اور اس نے ببلی کو اگلے ہی لمحے گلے سے لگا لیا . . .



                  "Good morning bhai. Glad to see you here."



                  ایک طرف تو ببلی کو امرین كے ننگے ممے اپنی چھاتی پر محسوس ہوئے . .، لیکن اگلے ہی پل وہ اپنی سوتیلی بہن کے پیار کو محسوس کرنے لگا . . . لیکن اس نے اپنے ہاتھ سے امرین کو کہی نہیں چھوا . . .



                  " آج تو شاید سورج مغرب سے ہی نکلا ہے . . یا میں خواب دیکھ رہی ہوں " . . .



                  جیسے ہی امرین نے ثمرین کی آواز سنی . . وہ جھٹ سے ببلی سے الگ ہو گئی . . .



                  " امی کو بول وہ چاۓ بنائے میں ابھی فریش ہو كر آ رہی ہوں " . . .



                  امرین نے جیسے حکم سا جاری کیا . . اور ببلی فوراً باہر چل دیا . . .



                  " تو تو میری سمجھ سے باہر ہی ہے امرین . . . اتنا پیار بھی کرتی ہے اس سے اور پھر اس کو اپنے پاس بھی نہیں آنے دیتی . . . مسلہ کیا ہے تیرے ساتھ . . .؟ "



                  تھوڑای ناراضگی بھرے لہجے میں . . ثمرین نے امرین کو ڈانٹ سی پلائی . . کیونکہ اِس کی وجہ سے ببلی ثمرین سے ملے بنا ہی چلا گیا تھا . . .



                  " جو اپنی مرضی سے کبھی دور گیا ہو . . اور پھر اتنے سال بعد واپس آئے تو رشتے میں فرق آ ہی جاتا ہے باجی " . . . .



                  تھوڑا غصہ تھا امرین کی آواز میں اور درد بھی . . وہ چپ چاپ باہر نکل گئی . . . ببلی اوپر والے باتھ روم میں چلا گیا تھا اپنی سوتیلی ماں کو امرین کا حکم نامہ سنا کر . . .
                  ببلی کو اس کے دادا جان نے ایک بات بار بار سیکھائی تھی . .، جو بات یا انسان تمہیں دکھ دے اس کے بارے میں سوچنا نہیں . . . اور اس نے وہی کیا . . . بس اتنی خوشی تھی کہ . . وہ آج نو سال بعد اپنی سوتیلی بہن کے گلے لگا تھا . .
                  نہانے كے بعد . . اس نے جنید بھائی کو اٹھایا . . اور خود تیسری منزل پر جا کر بیٹھ گیا . . نہایت ہی سکون تھا وہاں پر تو وہ پانی کی ٹنکی سے پیٹھ لگا کر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا . . .
                  پندرہ منٹ گزرے ہونگے كہ . . اس کو اپنے ہونٹوں پر کچھ گیلا گیلا سا محسوس ہوا . . . پلکیں کھولی تو دیکھا نادرا اپنی زبان اس کے ہونٹوں پر پھیر رہی تھی . . . نہایت ہی سیکسی لگ رہی تھی اس کی یہ حرکت . . . ببلی نے بھی نیچے سے ہاتھ بڑھ کر اس کا ایک ابھار پکڑ کر دبا دیا . . .



                  " آوچ . . . بدمعاش کچھ بھی کرتا ہے . . . چلا نیچے ناشتہ کر لے پھر تو ٹائم ملے گا نہیں . . . کیک کاٹنا ہے . . پڑوسی اور امرین سائرہ کی سہیلیاں بھی آ جائیں گی " . . .



                  اتنا بول کر وہ پلٹ گئی جانے كے لیے . . لیکن ببلی نے اس کو ایک بار پیچھے سے بانہوں میں بھر کر ممے دبائے . . . اور اس کے کولہوں پر چٹکی کاٹ کر اس سے آگے بھاگ گیا . . .
                  نادرا بھی اپنے تایا زاد بھائی کو مستی کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے . . اس کے پیچھے چل دی . .
                  نیچے سب لوگ سائرہ کو مبارک باد دے رہے تھے تحائف كے ساتھ . . . تو ببلی نے بھی . .
                  " Happy Birth Day"
                  کہا . . . اس کی آواز سن کر سائرہ نے شرماتے ہوئے تھینک یو کہا . . . ہلکا پھلکا ناشتہ کیا تو دادی جان نے سب کے سامنے دس پونڈ کا کیک رکھوا دیا . . . .
                  بشیر صاحب اپنے دوست كے گھر جا چکے تھے . . . ان کو میٹھے سے پرہیز تھا . . لیکن بچوں کو کھانے کی اجازت تھی . . .
                  کبیر صاحب بھی اپنے بڑے بھائی کو لے کر نکل دیئے اپنی دوست کی طرف . . جانے سے پہلے وہ خود بھی کیک کھا گئے اور ساتھ ہی ساتھ سائرہ کو بھی کیک کھلا گئے تھے . . . پھر سائرہ نے بھی جنید بھائی کو کیک کھلایا . . .
                  جنید بھائی تو اتنی دیر میں ہی چل دیئے گھر سے باہر اپنے دوستوں كے پاس . . . لیکن ابھی تک ببلی نے کیک کو ہاتھ نہیں لگایا تھا . . .
                  دادی جان . . .، تائی جان اور ماں جیسے ہی باہر والے صحن میں گئی . . جہاں پڑوس کی عورتیں آئی ہوئی تھی ملنے کے لئے . . .،
                  ببلی نے پچھلے صحن میں ٹیبل پر رکھے ہوے کیک سے اپنی دونوں مٹھیاں بھری . . . اور ثمرین کو پیچھے سے جکڑ کر دونوں گالوں . .، گلے اور سَر کو کیک سے بھر دیا . . . ثمرین اس کے لیے تیار نہیں تھی . . .
                  جیسے ہی سنبھلی ببلی نے پاس میں رکھی . . . پانی کی بھری ہوئی بالٹی اس کے سَر پر اُلٹ دی . . . پُورا لباس پانی سے گیلا ہو گیا تھا . . .



                  " ببلی كے بچے . . "



                  اس نے اتنا ہی بولا تھا کہ . . ببلی بھاگ گیا دوسری منزل پر . . . ثمرین سے پہلے نادرا بھاگی ببلی کو پکڑنے . . . لیکن جیسے ہی وہ دوسری منزل پر پہنچی . . ببلی نے ایک بالٹی
                  اس کے اوپر بھی الٹا دی . . .
                  جب تک وہ سنبھالتی . . . اس کا لباس بھیگ چکا تھا . . اور ببلی واپس بھاگ کر نیچے صحن میں آ گیا . . . نادرا نے ثمرین اور سائرہ كے ساتھ مل کر پلان بنایا تھا ببلی کو رگڑنے کا . . . لیکن ببلی پہلے ہی تیاری کر کے بیٹھا تھا . . . جگہ جگہ پانی سے بھری بالٹی اور کیک کی پیس چھپا کر . . .
                  اس نے سب طرف دیکھا . . لیکن سائرہ نہیں دکھی . . . ثمرین منہ پر پانی ڈال رہی تھی کیونکہ زیادہ ہی کیک لگ گیا تھا . . . اور اتنے میں ہی ببلی کو سائرہ کچن كے پاس والے پلر كے پیچھے چھپی ہوئی نظر آئی . . .
                  وہ چپکے سے ایک بالٹی لے کر اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا . . . جیسے ہی سائرہ پلٹی ببلی نے یہ بالٹی بھی الٹا دی اس کے اوپر . . . اور جیب سے دو پیس کیک کے نکال کر چہرے كے ساتھ ساتھ گلے اور اس سے نیچے بھی مل دیا . . .



                  " تو اس کو پکڑ سائرہ . . . میں بتاتی ہوں اِس حرام خور کو " . . .



                  نادرا نے زور سے آواز لگائی . . . وہ سیڑھیوں پر کھڑی تھی . . اور اس کا مکمل لباس جسم سے چپکا ہوا تھا . . . بہت سیکسی لگ رہی تھی وہ اِس روپ میں بھی . . . کچھ یہی حال تھا سائرہ اور ثمرین کا . . . لیکن ببلی ابھی کھیلنے كے ہی موڈ میں تھا . . .
                  تینوں لڑکیوں كے کپڑے گیلے تھے . . اور وہ فرش پر بھاگ بھی نہیں سکتی تھی پھسلنے كے ڈر سے . . .



                  " ہمت ہے تو کوئی بھی چھو كر دیکھاؤ . . . جس نے بھی میرے منہ پر کیک لگایا میں اس کی ایک وش پوری کروں گا " . . .



                  ببلی نے تھوڑا چیخ کر یہ بات کہی تھی . . . صحن کافی بڑا تھا اور اوپر سے کچن كے سامنے بنے تین پلروں کا ببلی با خوبی فائدہ
                  اٹھا رہا تھا . . . تینوں لڑکیاں آسانی سی نظر آ رہی تھی کہ . . . اگلا منظر دیکھ کر سب رک ہی گئی اپنی جگہ پر . . . .



                  " بڑا آیا کھلاڑی . . . دیکھ اب تو بھاگ کر دکھا " . . . .



                  امرین پتہ نہیں کہا سے حاضر ہوئی . . اور
                  اس نے ببلی کو پیچھے سے پکڑ کر ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا کیک کا پیس اس کے منہ پر مل دیا . . وہ وہی ساکت ہو گیا . . . ہوش آیا تو اس کی چھپائی ہوئی دو بالٹاں اس کے اوپر ڈل چکی تھی . . . اور اب وہ بری طرح پھنس چکا تھا . . .



                  " امرین اس کو چھوڑنا مت " . . .



                  اتنا بول کر نادرا نے دو پیس کیک کے لے کر . . . ببلی کے سَر اور منہ پر مل دئیے . . . اس کی ٹی شرٹ اٹھا كر پوری چھاتی اور پیٹ پر بھی کیک لگایا . . . ثمرین نے بھی تھوڑا کیک لگایا اور سائرہ نے تھوڑا سا کیک ببلی كی ناک پر لگایا اور دور کھڑی ہو گئی . . . ثمرین نے اب امرین کو پکڑ لیا جو کب سے اس کھیل سے دور ہی تھی . . .



                  " باجی نہیں میں یہ کھیل نہیں کھیلتی پلیز " . . .



                  وہ چلائی لیکن ثمرین نے اس کی ایک نہیں سنی . . اور پورا چہرہ کیک سے بھر دیا . . . نادرا نے بھی یہی کیا . . اور سائرہ نے ایک بالٹی پانی ڈال دی اس کے اوپر . . .



                  " یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا باجی " . . .
                  وہ بےچاری بس رو ہی پڑی تھی . . .



                  " جب کھیلنا نہیں تھا تو ببلی کو کیوں پکڑ
                  كر کیک لگایا . . .؟ "
                  ثمرین نے یہ بات کہی تو وہ چپ ہو گئی . . . اور تھوڑی دیر بعد بولی . . .



                  " وہ اس نے شرط لگائی تھی نہ كہ . . بدلے میں وہ ایک وش پوری کرے گا تو اس لئے " . . .



                  " ببلی چل تو بھی لے لے اِس سے بدلہ " . . .



                  ثمرین نے یہ بات کہی . . تو پہلی بار ببلی نے امرین کو غور سے دیکھا . . . اس کی ٹی شرٹ مکمل طور پر بدن سے چپکی ہوئی تھی . . اور مموں كے نپل بھی نمایاں ہو رہے تھے . . . ان سب کو نظر انداز کر کے وہ دھیمے قدموں سے آگے بڑھا . . تو امرین کی دھڑکن بےترتیب ہو گئی . . . دونوں ہی ایک دوسرے کی آنكھوں میں دیکھ رہے تھے . . . امرین آنكھوں سے ہی اپنے سوتیلے بھائی کو رکنے کی التجا کر رہی تھی . . . لیکن ببلی اب اس سے بس کچھ ہی انچ دور کھڑا تھا . . . .



                  " آج سائرہ کی برتھ ڈے ہے باجی " . . .



                  اتنا بول کر اس نے تھوڑا سا کیک امرین كے گال پر لگا دیا . . .



                  " اور ہاں آپ مجھ سے اب کچھ بھی مانگ سکتی ہیں . . .، میں منع نہیں کروں گا آپ کی کسی بھی وش کو " . . .



                  اتنا بول کر وہ چھت پر چلا گیا . . . ادھر امرین کی آنكھوں میں آنسو آ گئے تھے . . جو اس کے سَر سے ٹپکتے ہوے پانی کی وجہ سے کسی کو نہیں دیکھائی دیئے . . . باقی تینوں لڑکیاں بھی باہر والے صحن میں چلی گئی . . . کیونکہ سائرہ کی سہیلیاں بھی آنے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔
                  امرین باتھ روم میں لگے شاور كے نیچے کھڑی تھی . . . اور صابن کی جھاگ فرش سے بہتی ہوئی جا رہی تھی . . . اس کا دِل بھاری بھاری سا ہو رہا تھا . . یہی سوچ کر كہ . . یہ کیا ہو رہا ہے . . . جتنا وہ ببلی کو خود سے دور
                  کرتی ہے . . وہ کیوں اس کے دِل میں اور گہرا ہوتا جاتا ہے . . . اس کا ہاتھ اپنے گال كے اس حصے پر گیا جہاں ببلی نے کیک لگایا تھا . . . امرین کو محسوس ہوا كہ . . ہاتھ گال پر لگا تھا لیکن چھو اس کی باطن کو گیا . . . بھیگے کپڑوں میں ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔



                  جیسے ہہی ببلی نیچے آیا تو صحن کا نظارہ ہی بَدَلا ہوا تھا . . . نصرت . .، صفیہ . . .، سائرہ . .، ثمرین . .، نادرا اور پانچ چھے لڑکیاں اور تھی . . جو ایک دوسرے کو کیک لگا رہی تھی . . . نصرت اور صفیہ نے جیسے ہی ببلی کو دیکھا . . وہ اس کی طرف چل دی . . .



                  " واہ ہیرو تو تو بڑا بہادر نکلا . . اپنی معشوقہ كے گھر ہی آ گیا برتھ ڈے منانے " . . .



                  صفیہ نے یہ بات نہایت ہی دھیمے لہجے میں کہی تھی . . . پھر ان دونوں نے ببلی کو بڑے ہی پیار سے کیک لگانا شروع کیا . . منہ پر . .، گلے پر . . ، چھاتی پر اور اس کے سَر پر . . . ببلی نے بھی دونوں كے گال پر تھوڑا تھوڑا کیک لگا دیا . . .



                  " کبھی اکیلے ملنا پھر اصل والا کیک کھلاؤں گی " . . .



                  نصرت نے اپنے بڑے بڑے دودھ ببلی کی چھاتی سے رگڑتے ہوئے . . یہ بات اس کے کان میں کہی تھی . . .



                  " یہی آفر میری طرف سے بھی ہے " . . .



                  اتنا بول کر صفیہ نے بھی آنکھ مار دی . . . ببلی مسکرا دیا . . لیکن اِس دوران دو آنکھیں اس کو نہایت ہی غور سے دیکھ رہی تھی . . دوسری منزل کی جالی والی کھڑکی سے . . .
                  ببلی نے دیکھ كر ان دیکھا کیا اور اندر چل دیا . . . باتھ روم میں جا کر رگڑ كر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے . . کچن سے پانی کی بوتل لے کر پانی پیا اور اوپر چل دیا . . اپنے کمرے میں جا کر اس نے اپنی خراب شرٹ اتاری پھر پینٹ بھی . .، اور ایک صاف ٹی شرٹ پینٹ نکالی اور باتھ روم میں جا کر نہایا . . . اور
                  سیدھا تیسری منزل پر چلا گیا . . . امرین جنید كے کمرے سے اس کی ساری حرکت دیکھ رہی تھی . . . وہ بھی کچھ دیر بعد اوپر چل دی . . .
                  ببلی چھت پر پچھلی دیوار كے پاس کھڑا تھا . .، جہاں گھر كے پیچھے کا حصہ تھا . . . گھنا جنگل سا تھا وہاں سرکاری زمین پر . . .



                  " مجھے معاف کر دے میرے بھائی . . . میں نے تجھے بہت دکھ پہنچایا ہے " . . .



                  اس کے پیچھے جا کر امرین لپٹ کر رو پڑی . . . ببلی نے گھوم کر اس کی طرف منہ کیا . . . لیکن ویسے ہی کھڑا رہا بنا حرکت کئے . . .



                  " جب تو بورڈنگ چلا گیا . . تو میرے تو جیسے سب ارمان ہی ٹوٹ گئے تھے . . . اور پھر جب بھی تو آیا کبھی میرے پاس نہیں رہا . . . ہر رات میرے ساتھ سوتا تھا . . اور ایک ہی بار میں مجھے اکیلا چھوڑ گیا " . . .
                  وہ بولتی رہی اور ببلی سے لپٹ کر روتی رہی . . .



                  " میری زندگی ہمیشہ سے ہی تیرے ساتھ تھی . . . تجھے میں نے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا . . لیکن تو مجھے نو سال كے لیے چھوڑ گیا . . . پھر کیوں بات کرتی میں تیرے ساتھ . . .؟ ایک بار بھی تو نے مجھ سے پیار سے بات نہیں کی . . . میرا پیار اتنا کمزور تھا کیا . . .؟ "



                  اس کے آنسوں کی رفتار اور تیز ہو چکی تھی . . اور پھر اچانک اس کی آواز بند ہو گئی تھی . . . ببلی نے پہلی بار پچھلے نو سال میں آج اس کو اپنی بانہوں میں بھرا تھا . . .
                  اس کا چھوٹا سا سوتیلا بھائی اب اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ . . اس کو بانہوں میں بھر کر اپنے سینے میں چھپا رہا تھا . . .
                  ببلی کی آنكھوں سے بھی آنسو چھلک آئے . . اور جیسے ہی یہ امرین کو محسوس ہوا . . اس نے اپنا چہرہ اوپر کر کے اپنے سوتیلے بھائی کو دیکھا . . جس کی آنكھوں میں اس کے لیے صرف پیار ہی تھا . . . اور اس سے بچھڑنے کا درد بھی . . امرین سہم سی گئی اپنے سوتیلے بھائی كے حالت دیکھ کر . . . اور اس کے چہرے کو اپنی چھاتی سے لگا لیا . . . جب آنسو بہنا بند ہوگئے تو ایک بار پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا . . اور اِس بار ببلی نے اپنی سوتیلی بہن کو اپنی بانہوں میں اوپر اٹھا لیا . . .



                  " آپ میری جان ہو باجی . . میں خود کو بھول سکتا ہوں لیکن آپ کو ہلکی سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو میری روح تڑپ اٹھتی ہے . . . آپ زندگی بھر بھی مجھ پر طنز کے نشتر چلاؤ . . تو بھی مجھے برا نہیں لگے گا " . . .



                  ببلی نے جب اتنا کہا . . تو امرین نے اپنے ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھ کر . . اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے . . . ببلی ابھی بھی امرین کو اوپر اٹھائے ہوے تھا . . . وہ اپنے
                  سوتیلے بھائی کو پاگلوں کی طرح چوم رہی تھی . . آخر یہی تو تھا اس کا پہلا پیار . . . اور جب دونوں کے دل کا غبار کچھ کم ہوا تو دونوں الگ ہوئے . . . ببلی نے بڑے پیار سے اپنی سوتیلی بہن کو نیچے اتارا . . تو امرین دوبارہ ایک بار پھر اس کے گلے لگی اور گال چوم کر نیچے بھاگ گئی . . . .
                  ببلی جب گھر كے سامنے کی طرف آیا تو دیکھا كہ . . اب نظارہ بے حد حَسِین ہو گیا تھا . . . بچوں كے طرح سائرہ اور امرین ایک دوسرے کو کیک لگا رہی تھی . . اور ڈھول کی تھاپ والا میوزک لگا کر ناچ رہی تھی . . اور ببلی ان کو دیکھ کر بس مسکرا دیا۔۔۔۔۔۔
                  Last edited by Man moji; 01-18-2023, 09:50 PM.
                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #69
                    بہت اچھی اپ ڈیٹ تھی۔۔۔۔پڑھ کے مزہ آیا

                    Comment


                    • #70
                      ہر اپڈیٹ ہی شاندار ہوتی ہے ??

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X