Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

پیار سے پیار تک۔۔۔سائیں صاحب

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امید ہے اس فورم پر اسی طرح اچھی اور نئی کہانیاں ۤتی رہیں گی۔
    نہایت ہیجان انگیز اور جذبات کو بھڑکانے والی کہانی​

    Comment


    • Bary Kamal ki update de ha Maza a gia ha

      Comment


      • Keya story h bhai kamal h jes tara say ap lekh rhay ho salm h ap ko bnda partay party kho sa jata h bhot zabrdast story ha

        Comment


        • آج رات تائی کی مالش کے ساتھ ہوٹ اورہو گی شاید اگلا کام بھی ہو جائے مطلب سیکس کمال کی اپڈیٹ شدّتِ سے اِنتظار ہے انے والے لمہو کا

          Comment


          • بہت اعلی تائی امی کو آج کمر درد کا انجکشن لگے گا میرے خیال سے اور سائرہ اور امرین ثمرین ابھی صرف اوپر اوپر سے رگڑ کے ہی گزارا کریں گیں

            Comment


            • پیارسے پیار تک قسط # 008
              رائیٹر :- Enigma
              مترجم :- سائیں صاحب






              " وہ وہاں ڈریسنگ ٹیبل كے اوپر رکھا ہے بیٹا . . . دیکھ اگر تو تھکا ہوا ہے تو رہنے دے . . ویسے بھی میں ٹھیک ہوں " . . . ،



              لیلیٰ نے دوبارہ سے کہا لیکن ببلی نے تیل کی بوتل اُٹھائی . . اور ان کے قریب آ بیٹھا . . . تائی جان نے اس وقت ایک کھلی سی ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہنا ہوا تھا . . . جوکہ وہ کبھی بھی سوتے ہوے نہیں پہنتی تھی . . . زیادہ تر وہ رات میں شلوار قمیض پہنتی تھی . . . جب تایا جان گھر پر ہوتے تو کبھی کبھی مازی بھی پہن لیتی تھی . . .



              " چلیے الٹا لیٹ جائیے " . . .



              ایک حکم سا دیا ببلی نے تو کروٹ كے بل لیٹتے ہوئی لیلیٰ پیٹ كے بل ہو گئی . . ان کی گانڈ پوری ابھری ہوئی تھی . . . ٹی شرٹ انہوں نے پچھے سے تھوڑی سی اوپر اٹھا لی تھی . . . جس کی وجہ سے ان کمر برہنہ ہوگئی تھی . . . ببلی نے تھوڑا تیل اپنے ہاتھوں میں لگاتے ہوے کہا . . .،



              " تائی جان یہ ٹی شرٹ ہلکے رنگ کی ہے کہی تیل لگنے سے خراب نہ ہو جائے " . . .



              کچھ سوچنے كے بعد لیلیٰ نے کہا . . .،



              " بیٹا سوچ تو میں بھی یہی رہی تھی . .، لیکن پھر مجھے لگا كہ . . . اس طرح کرنا اچھا نہیں ہوگا " . . . .



              " اف هو . . آپ بھی نہ . . چلیے چینج کر لیجیے میں ویٹ کرتا ہوں " . . .



              " تو دروازہ کی کنڈی لگا اور زیرو کا بلب جلا دے . . . یہ بڑی والی لائٹ بند کر میں ٹی شرٹ بدلتی ہوں " . . .



              ببلی نے ویسی ہی کیا اور کنڈی چڑھا دی دروازے کی . . . پھر بڑی لائٹ بند کر كے زیرو کا بلب آن کر دیا . . . یہ زیرو کا سفید بلب تھا جس کی روشنی زیادہ نہیں تھی . . لیکن پھر بھی کچھ حد تک صاف دِکھ جاتا تھا . . .
              جیسے ہی کام مکمل کر کے ببلی نے اپنا منہ گھمایا . . . تو تائی جان کو ایک بنیان اور ٹراوزر میں بستر کی طرف جاتے ہوے دیکھا . . . بنیان کا سائز چھوٹا جو صرف ان کے سینے کا حصہ ہی چھپا رہی تھی . . . اور ان کا ٹراوزر بالکل پھنسا ہوا تھا پیچھے سے کولہوں کی دراڑ میں . . . شاید ان کے کولہے نادرا باجی سے بھی بڑے تھا . . .
              اتنے ہی نظارے سے اس کے کان گرم ہو گئے تھے . . . وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا بیڈ پر وہی آ کر بیٹھ گیا اور لیلیٰ كے چہرے کی طرف دیکھا . . جو انہوں نے تکیے پر رکھا ہوا تھا . . اور منہ دوسری طرف تھا . . .
              دوبارہ پھر سے تیل ہاتھوں پر لگا کر اس نے جھجکتے ہوئے . . . لیلیٰ کی کمر پر ہاتھ رکھے . . . ہلکے ہاتھوں سے وہ ان کی کمر پر مالش کرنے لگا . . . لیلیٰ کی کمر پر ڈھلان سی تھی . . . بنیان كے پاس سے ہاتھ جب نیچے آتے تو یہ ڈھلان واضح طور پر محسوس ہوتی . . . پھر جہاں ٹراوزر کا لاسٹک تھا وہاں یک دم سے اوپر اُٹھان تھی . . . ان کے کولہے کچھ زیادہ ہی باہر کو نکلے ہوے تھے . . .



              " وہ بیٹا دھیان رکھنا كہ . . کہی بنیان خراب نہ ہو جائے . . . اس رنگ کی ایک ہی بنیان ہے میرے پاس " . . .



              تائی جان کی آواز سے وہ واپس ہوش میں آیا . . .



              " کوشش تو کر رہا ہو تائی جان . . لیکن نیچے یہاں یہ آپ کی پینٹ کمر پر آئی ہوئی ہے . . . اور آپ کی بنیان اتی لمبی ہے كہ کچھ حصہ کمر پر ہے " . . .



              " ہاہاہا . . بیٹا یہ پینٹ نہیں ٹراوزر ہے . . . اور اب بوڑھی ہو گئی ہوں تو بنیان تو ایسے ہی پہنچے گی . . . ہاں اگر نبیلہ جتنی جوان ہوتی تو شاید میں بھی تھوڑا دھیان رکھتی اپنا " . . .



              یہ بات انہوں نے عجیب لہجے میں کہی تھی . . . اور ببلی کو کچھ زیادہ سمجھ نہیں آیا . . تو اس نے منہ دھیان جواب دے دیا . . .



              " تائی جان آپ کہاں سے بڈھی ہو گئی . .؟ آپ تو خود ابھی نادرا باجی کی بہن لگتی ہو . . . شاید آپ اپنے آپ پر اب دھیان نہیں دیتی " . . .



              " کس کے لیے دھیان دوں اب . . .؟ "



              نہایت ہی دھیمی آواز میں کہی یہ بات . . . ببلی کے کان میں سہی طرح سے نہیں گئی تھی . . .



              " کچھ کہا تائی جان آپ نے . . .؟ "



              " وہ بیٹا تھوڑی بنیان اوپر سرکا دے . . . اور ٹراوزر بھی تھوڑا نیچے کر لے . . تل کا تیل ہے لگ گیا تو پھر داغ نہیں جائیں گے " . . .



              ببلی نے جیسے ہی بنیان اوپر کرنی چاہی . . تو وہ تو بری طرح پھنسی ہوئی تھی . . .



              " رک تھوڑا " . . .



              لیلیٰ نے اپنا سینہ اوپر کرتے ہوے بنیان کو آزاد کیا . . اور کمر كے پاس جہاں ٹراوزر کا بٹن تھا وہ کھول دیا . . .



              " لے بیٹا اب کر دے اوپر اور نیچے " . . .



              پھر سے یہ بات کسی اور طرف اشارہ کر کے کہی تھی انہوں نے . . . کچھ تو چل رہا تھا آج ان کے من میں . . . اور ببلی نے ان کی بنیان سہی سے اوپر کر دی پیٹھ تک . . . اور جیسے ہی ٹراوزر کو نیچے کرنے لگا اس کی انگلی لیلیٰ کی گانڈ کی دراڑ جہاں سے شروع ہوتی ہے . . . اس جگہ پر لگ گئی . . .
              " س س س " . . .
              ان کے منہ سے نکلی یہ ہلکی سی سسکی . . . ببلی کو بھی سنائی دی . . . .



              " کیا یہی پر درد ہے تائی جان . . .؟ "



              " ہاں بیٹا زیادہ درد تو یہی ہے . . بس بتا نہیں پا رہی تھی . . . تو ایک کام کر میرے دونوں طرف ٹانگیں کر لے . . اور پھر اچھی طرح سے رگڑ کر مالش کر دے . . . اپنا زیادہ بوجھ مت ڈالنا مجھ پر " . . . .



              ببلی کا دھیان اپنی تائی جان کی بات پر گیا . . تو وہ چہک کر اوپر آ گیا . . .



              " ایک اور کام کر . . اپنی شرٹ بھی اتار دے . . نہیں تو پسینہ آئے گا تو مشکل پیش آئے گی تجھے " . . .



              " ٹھیک ہے تائی جان . . ."
              اور ٹی شرٹ اُتَار کر وہ اپنے گھٹنے لیلیٰ کے دونوں طرف گانڈ كے اوپر سے ٹکا کر ان کی مالش کرنے لگا . . . ہاتھ اوپر جاتے تو اس کا لنڈ گانڈ کی ڈراڑ میں آگے کی طرف جاتا . . اور ہاتھ نیچے آتے تو پیچھے . . .
              کچھ ہی دیر میں اس کا لنڈ اپنی اوقات پر آ گیا تھا . . . اور اب آگے ہوتے وقت اس کا جسم تھوڑا جھکنا شروع ہوگیا تھا . . . لنڈ کا دباؤ لیلیٰ کو اپنی گانڈ پر ٹراوزر كے اوپر سے ہی محسوس ہو رہا تھا . . .



              " اتنا بھی چھوٹا نہیں رہا یہ اب " . . .
              وہ من ہی من میں یہی سوچ رہی تھی . . . ویسے تو دن میں ہی صفائی كے وقت اس کا اُبھار دِکھ گیا تھا . . . اور اس کا ہی نتیجہ تھا یہ کمر درد کا ڈرامہ . . . ان کی آگ جو سفیر صاحب پچھلے پانچ سال میں کم کرنے
              کی جگہ بڑھکا چکے تھے . . .، ایک خطرناک حد تک . . . جس کا نتیجہ یہ تھا کہ . . آج وہ اس میں جلتی ہوئی پہلی بار سہی غلط بھول چکی تھی . . . ببلی کا دماغ بھی لنڈ جیسا ہو چکا تھا . ، موٹا اور خالی . . . اب اس کا لنڈ زیادہ مالش کر رہا تھا اور ہاتھ کم . . .



              " بیٹا یہاں کی تو ہو گئی ہے " . . .



              اتنا بول کر لیلیٰ چُپ ہو گئی . . . ان کی گانڈ کی دراڑ کا شروع کا حصہ اب ٹراوزر سے
              باہر نکل آیا تھا . . .



              " آپ کی ٹانگ میں بھی درد تھا نہ تائی جان . . .؟ "



              ببلی کا من ابھی بھرا نہیں تھا . . . اوپر سے اس کا لنڈ آج تیسری بار کھڑا ہوا تھا . . . اور ہلکا ہلکا درد بھی کرنے لگا تھا . . .



              " ہاں بیٹا درد تو ہے لیکن کہی تجھے برا نہ لگے وہاں مالش کرنے میں " . . . .



              لیلیٰ نے سنجیدہ لہجے سے کہا . . . اور اپنی اگلی چال کھیلنے لگی . . .



              " مجھ کو تو اچھا لگے گا آپ کی خدمت کرنا . . . آپ بس بتاؤ باقی میں کر لوں گا " . . .



              " وہ بیٹا تھوڑا درد یہاں دونوں بازؤں كے نیچے ہے اور دائیں ران کی نس پر " . . .



              انہوں نے اتنا کہہ کر واپس سَر تکیے پر ٹکا لیا . . .


              " میں ہاتھ رکھتا ہوں آپ بتا دینا کہاں درد ہے . . . لیکن بانہوں كے نیچے تو آپ کی بنیان ہے نہ . . . آپ اس کو اُتَار کر کچھ اور پہن لو " . . .



              " بیٹا اور کوئی اس طرح کا کپڑا ہے ہی نہیں . . . تو ایک کام کر لائٹ بند کر دے میں بنیان اُتار دیتی ہوں " . . .



              ببلی نے زیرو کا بلب بھی بند کر دیا اور واپس آنے لگا . . . اندھیرا چھایا ہوا تھا اب کمرے میں . . . تو اندازے سے وہ بستر تک آیا تو اس کا ہاتھ اندھیرے میں کسی ملائم چیز سے ٹکرایا . . .



              " ایک منٹ بیٹا بس " . . .



              لیلیٰ کو ببلی کا ہاتھ اپنے بریزئیر كے اوپر نکلے اُبھار پر محسوس ہوا . . . وہ دوبارہ واپس لیٹ گئی تھی . . . ببلی نے ٹٹولتے ہوئے اپنے ہاتھ دوبارہ چلائے . . . تو اس کے ہاتھ لیلیٰ کی گانڈ پر لگے . . . بنا کوئی بات کیے وہ واپس پرانی جگہ پر بیٹھ گیا . . .



              " تائی جان تیل پتہ نہیں کہاں رکھ دیا " . . .



              " کوئی بات نہیں بیٹا . . .، ویسے بھی ہاتھوں میں بہت لگا ہوگا . . . تو بس مالش کر " . . .



              ببلی نے اپنے دونوں ہاتھ کمر کی سائڈ سے لے جاتے ہوئے آگے بڑھاے . . . تو بریزئیر کی پٹی دونوں طرف محسوس ہوئی . . .



              " یہ تو ابھی بھی بیچ میں آ رہی ہے تائی جان " . . .



              " رک بیٹا میں ہوک کھول دیتی ہوں . . . ویسے بھی اندھیرا تو ہے " . . .



              یہ کہتے ہوے انہوں نے پیچھے ہاتھ کر کے بریزئیر کھول دیا . . جو اب ان کی چھاتیوں کی نیچے پڑا ہوا تھا . . . یہاں ببلی كے ہاتھ ان کی مخملی گداز جسم پر چلنے لگے تھے . . . اُلٹا لیٹنے سے ان کے بڑے بڑے ممے تھوڑے باہر کو آ چکے تھے . . . جن پر اس کی انگلیاں رگڑ کھا رہی تھی . . . اور جھکنے سے اس کا موٹا لنڈ بار بار ان کی گانڈ کی دراڑ میں گھستا جا رہا تھا . . دونوں چُپ تھے لیکن مزہ برابر آ رہا تھا . . .
              نیچے دبے ہوئے نپل بھی سخت ہونے لگے تھے . . . اتنی سیکسی مالش پوری زندگی میں لیلیٰ کو نصیب نہیں ہوئی تھی . . . ببلی بھی اب جوش میں کبھی ان کے تھوڑے سے باہر نکلے مموں پر ہاتھ روک دیتاتھا . . . اور ان کی گانڈ کی گرمی لنڈ پر محسوس کر کے مزے لے رہا تھا . . .



              کسی سیانے نے ایک بات خوب کہی ہے . . .
              " لنڈ اور پانی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں . . . گھوڑا اور لوڑا دونوں بنا سکھائے ہی دوڑ سکتے ہیں " . . .



              یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال تھا . . . ٹراوزر تو اب آدھا گانڈ سے کھسک گیا تھا . . . اور لیلیٰ نے نیچے چڈی پہنی ہوئی نہیں تھی . . .
              جس وقت ببلی کا لنڈ ننگی دراڑ میں رگڑ کھاتا . . تو لیلیٰ کو ایسا لگتا جیسے اس کا لنڈ بھی ننگا ہی ہے . . .
              دونوں کچھ نہیں بول رہے تھے . . . اب ببلی ان کے باہر کو نکلے ہوے مموں کے حصوں کو بھی دبا رہا تھا . . . دونوں کسی اور ہی دُنیا میں تھے . . . لیکن لیلیٰ نے پھر سے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی . . .



              " بیٹا ایک بار اٹھ میں سیدھی ہو جاؤں . . تو پھر ران کی مالش کر كے سو جانا " . . .



              ببلی اٹھا تو وہ پلٹ کر سیدھی ہو گئی بریزئیر پشت کے نیچے ہے دبی ہوئی تھی . . . تو اب ان کے موٹے موٹے ممے کھلی ہوا میں سانس لے رہے تھے . . .
              ببلی نے دوبارہ جیسے ہی ٹراوزر کے اوپر سے ہاتھ رکھا ران دبانے كے لیے . . انہوں نے پھر وہی بات کہی . . .،



              " بیٹا ٹراوزر كے اندر سے دبا " . . .



              ببلی نے اپنا ہاتھ ٹراوزر کے اندر ڈال دیا . . . اس كا ہاتھ اپنی تائی جان کی موٹی سیڈول ران سے جیسے ہی ٹکرایا تو لنڈ پتھر ہی ہو گیا تھا . . . اتنی ملائم اور موٹی ران تھی كہ . . . ایک بار تو ہاتھ ہی پھسل گیا . .



              " بیٹا یہاں سے اوپر کی طرف تھوڑا زور لگا کر " . . .



              ترنگ لیلیٰ پر بھی حاوی ہو چکی تھی . . . اتنی دیر سے جو یہ مستی چل رہی تھی . . وہ اب ایسی جگہ آ چکی تھی کہ . . تھوڑا سا بھی آگے بڑھیں اور دوریاں ختم . . .
              ببلی تو نہ سمجھ تھا . . لیکن اب لیلیٰ بھی دماغ کی جگہ چوت سے سوچ رہی تھی . .، جو آج کئی سال بعد اس طرح رس بہا رہی تھی . . .
              اس کے ہاتھ موٹی ران کو مسلتے ہوئے اوپر جاتے . . اور پھر ویسے ہی نیچے آ جاتے . . . تھوڑی دیر بعد جب ہاتھ آسانی سے چلنے لگے تو انگلیاں مزید آگے جانے لگی . . . ببلی کی انگلی کسی ملائم سی جگہ سے ٹکرائی . . تو اس کو پتہ چل گیا كہ . . یہ کونسی جگہ تھی . . . اور لیلیٰ کی سسکی نکل گئی . . . ان کو مزاحمت نہ کرتا ہوا دیکھ کر . . . وہ بار بار اپنی انگلیوں کو اس جگہ پر لے جانے لگا . . . پھدی كے موٹے ہونٹ رس بھرے ہوے تھے . . . لیکن ان کے یہاں بھی بال نہیں تھے . . .
              ببلی کو اتنا کھل کر مزے لیتے ہوے دیکھ کر . . . لیلیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ لیا . . . وہ بھی بنا اعتراض کئے ان کے اوپر چھا گیا . . . لیلیٰ كی ساری شرم و حیا چوت کی آگ میں جل چکی تھی . . اور وہ ببلی كے ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چُوسنے لگی . . . اتنے جذباتی طریقے سے چُماچاٹی تو ببلی نے پہلے کبھی نہیں کی تھی . . اس کی تائی خود سے ہی اس کی زبان اور ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوس رہی تھی . . . ان کا پُورا جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا . . اور اپنے نیچے ان کے ننگے ممے دیکھ کر ببلی بھی انہیں مزے سے بھینچنے لگا . . .



              " دبا بیٹا اور زور سے دبا انہیں . . . بہت درد دیا ہے انہوں نے آج ان کی ساری اکڑ نکال دے . . . آہ کھا جا انہیں " . . .



              اس کو چومنا چھوڑ کر وہ خود اپنے دودھ اس کے منہ میں ڈالنے لگی . . . ٹراوزر تو گھٹنوں پر پڑا تھا اور پھدی ننگی . . . لیلیٰ نے اپنے ہاتھ سے خود ہی پھدی کو رگڑنا شروع کر دیا . . .



              " بہت ستایا ہے اِس نگوڑی نے . . . جینا حرام کر رکھا ہے بیٹا میرا . . . ساری رات جلتی رہتی ہوں اور تیرے تایا جان بس اِس آگ کو جلا کر چلے جاتے ہیں . . . آج تو مجھے مایوس مت کرنا " . . . .



              ببلی کو بولتے ہوئے انہوں نے اپنی دو انگلیاں پھدی میں گھسا دی . . جو پہلے ہی آنسو بہا رہی تھی . . . دوسرے ہاتھ کو جیسے ہی انہوں نے اس کے ٹراوزر كے اوپر رکھا . . .، لنڈ پکڑتے ہی ان کو جھٹکا لگا . . . لیکن پھر ان کے ہاتھ کی گرفت مضبوط ہوگئی اس تگڑے لنڈ پر . . .



              " اتنی سی عمر میں تو پُورا گھوڑا ہو گیا ہے میرے بیٹے " . . .



              لیلیٰ ببلی كے ہتھیار سے مکمل طور پر متاثر ہو چکی تھی . . . اور یہ بھی سوچ رہی تھی کہ . . یہ اتنی دیر سے کھڑا رہنے كے بعد بھی جھڑا نہیں تھا . . . انہوں نے اس کے ٹراوزر کی ڈوری کھولی . . تو ببلی نے کروٹ لے کر پُورا ٹراوزر اُتار دیا . . . اور اب لیلیٰ کا ٹراوزر بھی اس کے بدن سے غائب تھا . . .
              وہ واپس اپنی تائی كے اوپر لیٹ گیا . . اور ان کے دودھ چوسنے لگا . . . لیلیٰ کی نظروں میں تو وہ نادان تھا تو انہوں نے خود کمان اپنے ہاتھ میں لی . . .



              " رک بیٹا آج تجھے سب سیکھاتی ہوں اچھی طرح سے " . . . .



              اس کو نیچے لٹا کر وہ اس کے لنڈ پر جھک گئی . . . ببلی کو کرنٹ سا لگا جب تائی جان نے اس کے لنڈ كے ٹوپے کو چوم کر منہ میں بھر لیا . . . اس نے ایسا بس کاشان كے گھر اس رسالے میں دیکھا تھا . . .



              " کتنا موٹا ہے تیرا . . . اندر ہی نہیں جا رہا " . . .



              منہ سے نکال کر وہ پورے لنڈ کو زبان سے
              چاٹنے لگی . . . بیچ بیچ میں اس کو تھوک سے گیلا بھی کر رہی تھی . . .



              " چل بیٹا میں نیچے لیٹتی ہوں تو میری ٹانگوں كے بیچ میں آ " . . .
              ببلی نے ویسا ہی کیا . . .



              " دیکھ جب میں کہوں تو آگے کو دھکہ دینا . . . اور ہاں رکنے کا کہوں تو رک جانا . . . تیرے تایا جان کا اِس سے پانچ اُنگل چھوٹا ہے اور موٹائی تو آدھی ہوگی ". . .



              ان کو پتہ تھا کہ . . . آج چوت کا پھٹنا طے ہے لیکن وہ تیار تھی . . . اپنے ہاتھ سے انہوں نے اس کا گیلا لوڑا اپنی پھدی كے منہ پر رکھا . . تھوڑی دیر رگڑنے كے بعد خود ہی سوراخ پر دبایا . . .



              " دیکھ مجھے درد ہوگا . . . لیکن آدھا ڈالنے تک رکنا نہیں " . . .
              اور اپنا بریزئیر اب منہ میں دبا لیا . . .



              " ہاں " کی آواز سنتے ہی ببلی نے اپنی کمر کو ایک زور دار جھٹکا دیا . . اور اس کا لنڈ ٹوپے سمیت تین انچ اندر گھس گیا . . . چوت اتنی تنگ تھی كہ ٹوپا ہلکا چھیل گیا تھا . . . نادرا کو تو چودتے وقت دونوں كے حصے لوشن سے چکنے تھے . . . اور یہاں صرف لنڈ پر تھوڑا سا تھوک لگا ہوا تھا . . .
              لیلیٰ کی چیخ کسی طرح بریزئیر میں ہے دبی رہ گئی . . . ببلی نے بنا وقت برباد کئے ایک اور جھٹکا مار دیا . . . دو انچ لنڈ مزید اندر چلا گیا . . . لیکن اب لیلیٰ اپنا سَر پٹخ رہی تھی . . . ان کے شوہر کا لنڈ اِس جگہ تک ہی گیا تھا . . . لیکن ببلی كے لنڈ نے اِس تنگ گلی کو ہائی وے بنا دیا تھا . . . وہ اپنی تائی كے اوپر جھک کر ان کے ہونٹ چوسنے لگا . . . ساتھ ہی ساتھ ان کے ممے دبانے لگا . . . نپل کو کس کر کھینچنے سے چوت کا درد کم ہونے لگا . . . کیونکہ اب نپل بھی درد کرنے لگے تھے . . . تھوڑی دیر میں ان کی سانسیں درست ہوئی . . تو بریزئیر منہ سے نکال دیا . . .



              " تیرا لنڈ سچ میں گھوڑے کا ہے بابا . . . پھاڑ ہی ڈالی تو نے تو میری . .، اب اس میں جب تیرے تایا جان کا جاۓ گا تو پتہ بھی نہیں چلے گا . . . چل اب اپنی کمر ہلا . .، لیکن آرام سے " . . .



              اتنا تو ببلی کو پتہ ہی تھا . . . شروع میں وہ ہلکے ہلکے اور چھوٹے جھٹکے مار رہا تھا . . . پھدی کی کھال کھنچ رہی تھی ہر جھٹکے كے ساتھ . . .



              " ہاں بیٹا ایسے ہی . . . اب اچھا لگ رہا ہے . . . درد كے ساتھ یہ مزہ . . آں . . . میرے لال ایسے ہی کرتا رہ " . . .



              " تائی جان یہ کیا مزہ دلا دیا آپ نے . . . مجھ سے رکا نہیں جا رہا " . . .



              اتنا بول کر ببلی نے آدھے لنڈ سے ہی تیز جھٹکے مارنے شروع کر دیئے . . . اب بند کمرے میں لیلیٰ کی آوازیں گونج رہی تھی . . .



              " ہائے ہاے . . تھوڑا آہستہ کر بیٹا . . اس طرح تو پوری پھٹ جاے گی . . آہ ماں . . . . . . مار دیا بابا . . ہاں بیٹا کر شاباش لگا ایسے ہی جھٹکے " . . .



              اب ان کی بھی تال ملنے لگی تھی ببلی کی تال کے ساتھ . . جھٹکے کھاتے ہوئے ہی ان کے ہاتھ تیل کی بوتل لگ گئی . . .



              " بیٹا رک رک . . . یہ لے اور اپنا لنڈ تھوڑا سا اندر رکھ کر باہر والے حصے پر تیل لگا لے " . . .



              انہوں نے وہ بوتل ببلی کو پکڑا دی . . . اور یہی غلطی ہو گئی ان سے . . . تیل اچھی طرح سے لگاتے ہی ببلی نے ایک کرارا جھٹکا دے مارا . . . اور لنڈ پھدی کو کسی کپڑے کی طرح پھاڑتا ہوا اندر جا دھنسا . . .



              " اوئی ماں جی . . مر گئی میں کمینے کتے . . پھاڑ ڈالی تو نے تو " . . .



              ان کی آنكھوں سے آنسو نکل پڑے . . . اور چوت ٹھنڈی پڑ گئی درد کی وجہ سے . . لیکن تنگ جگہ ہونے کی وجہ سے لنڈ اندر مزید پھولنے لگا . . . ببلی نے اب تائی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھٹکے لگانے شروع کر دیئے . . .
              ہر جھٹکے كے ساتھ وہ ان کے مموں کو نوچ رہا تھا . . اور ہونٹ کاٹ رہا تھا . . . لنڈ جڑ تک اندر جا رہا تھا . . اور اس کے ٹٹے لیلیٰ کی گانڈ سے لگ رہے تھے . . .



              " آہ کتنی گرم ہے آپ کی اندر سے . . . میرا لنڈ جیسے جل رہا ہے تائی جان " . . .



              لیلیٰ کی پھدی کچھ زیادہ ہی پھولی ہوئی تھی . . . اس طرح کی گداز پھدی کا مزہ سب سے زیادہ تھا . . . اتنی تو نادرا کی بھی نہیں تھی . . . .



              " بیٹا اب پھاڑ تو دی ہے بس جان نہ نکال دینا . . . ہائے رے . . . غلطی ہو گئی . . آہ . . تھوڑا آہستہ سے کر بیٹا . . . تیری تائی کی جان نکل رہی ہے " . . .



              لیکن ببلی تو ٹوپے تک لنڈ کھینچتا . . اور پھر پُورا ٹھوک دیتا . . . جب لیلیٰ کو مزہ آنے ہی لگا تھا كہ . . وہ رک گیا . . . .



              " ارے کیا ہوا بیٹا . . .؟ "



              " تائی جانا تھوڑا رک کر کرتے ہیں نہ . . . اس طرح کرنے سے پیٹھ میں درد ہو رہا ہے " . . .



              " بیٹا تو ایک بار لنڈ نکال باہر " . . .



              جیسے ہی لنڈ باہر آیا . . . لیلیٰ کو لگا جیسے اندر سے جان بھی نکل گئی ہو . . . وہ جلدی سے چوپایہ کی طرح ہو گئی . . اپنی بڑی گانڈ باہر نکال کر بستر کے کنارے . . . اور ببلی کو زمین پر پیچھے کھڑے ہونے کا کہا . . .



              " اب یہاں سے لنڈ نشانے پر لگا بیٹا . . . اس طرح تیری پیٹھ درد نہیں کرے گی " . . .



              اس نے ویسا ہی کیا . . یہاں سے تو لنڈ اور بھی سختی سے اندر جنے لگا . . . ایک ہی جھٹکے میں ببلی کا لنڈ پُورا اندر جا چکا تھا . . . اب کمرے میں بس لیلیٰ کی سسکیاں . . . اور ان کی گانڈ پر پڑتے جھٹکوں سے نکلتی . . ٹھپ ٹھپ . . کی آوازیں گونج رہی تھی . . .
              ببلی كے لیے یہ اب تک کی سب سے مست چدائی تھی . . . کبھی وہ ان کی موٹی گانڈ کو دباتا تو کبھی لٹکتے ممے پکڑ كر کھینچتا . . . .

              " آہ بیٹا میں تو گئی رے . . . "



              یہ کہتے ہوے . . لیلیٰ کا سَر بیڈ سے ٹک گیا . . . وہ ایک كے بعد ایک پانچ چھے بار مسلسل جھڑی تھی . . . اتنے سالوں سے سوکھی پڑی ان کی چوت آج بڑھ چکی تھی . . .
              مزے سے دہری ہوتے ہوے وہ بےہوش سی ہو گئی . . . اور اِس حالت میں ان کی گانڈ اوپر اٹھ گئی تھی . . ببلی پھر سے چودنے لگا ان کی گانڈ کو اوپر اٹھا کر . . . لنڈ اب اتنا اندر تک جا رہا تھا جتنا کبھی نہیں گیا تھا . . . پانچ منٹ بعد لیلیٰ پھر سے سسکنے لگی . . .



              " بس کر دے بیٹا . . اب تو پھدی بھی دُکھنے لگی ہے . . . ہاے ہاے کوئی بچا لے مجھے اس کے حبشی لنڈ سے " . . .



              ایک کرارا جھٹکا مار كر . . وہ تائی جان کی گانڈ سے چپک کر جھڑنے لگا . . . اس کے منہ سے ہانپنے کی آوازیں نکل رہی تھی . . . اور اتنی پچکاریاں چھوڑی اس کے لنڈ نے کہ . . . چوت بھر گئی اور اٹھی ہوئی گانڈ سے بھی اس کا پانی باہر نکلنے لگا . . .



              " دھڑام " کی آواز سے وہ بستر پر ڈھیر ہوگیا اور لیلیٰ بھی . . . رات كے ایک بج چکے تھے . . . ان کی چدائی مالش كے بعد پورے ایک گھنٹے چلی تھی . . . لیلیٰ کا جسم بھی ساتھ چھوڑ گیا . . تو وہ بھی ننگی ہی سو گئی . . . بس سونے سے پہلے انہوں نے ببلی کو بستر پر سہی سے بھینچ لیا . . . اور اپنے سینے سے چپکا کر سو گئی۔۔۔۔۔۔۔



              ببلی کی گلا سوکھنے کی وجہ سے آنکھ کھلی . . . تو اسے اپنی سینے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا . . . تھوڑی دیر ببلی دھیان سے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا . . .



              " رات میں تائی جان كے ساتھ تھا . . اور پھر وہ سب ہوا . . . ہاں مزے سے شاید میں گر ہی گیا تھا " . . .



              سب یاد کر کے وہ آرام سے لیلیٰ کا ہاتھ بستر پر رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا . . . آرام سے کنڈی کھولی . . .، واپس دروازہ بند کیا باہر سے اور کچن میں فریج کی طرف چل دیا . . . ابھی بھی اندھیرا تھا . . . اور تازی ہوا کی وجہ سے صحن میں اچھی خاصی ٹھنڈک تھی . . .،
              فریج سے پانی نکال کر وہی صحن میں کھڑے ہو کر پانی پیا . . اور بوتل میز پر رکھ کر واپس اندر آ کر زیرو کا بلب جلایا . . .
              چار بجنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے . . اور گھر پر سب سے پہلے اٹھنے والے بشیر صاحب بھی ساڑھے چار كے بعد ہی اٹھتے تھے . . .
              اب کمرے میں اتنی روشنی تھی كہ . . سب دِکھ رہا تھا . . . واپس بستر پر آیا تو اب اپنی لیلیٰ کو غور سے دیکھنے لگا . . . تھوڑا سا گولائی لیا ہوا چہرہ . .، بھرے ہوئے گال . .، موٹے ہونٹ . .، گوری اور لمبی گردن . . . خلاصہ تمام یہ کہ . . ان کا چہرہ اِس عمر میں بھی دلکش تھا . . .
              نظر گردن سے نیچے گئی . . جہاں وہ الٹی لیٹی تھی اور ایک بازؤ ابھی وہی تھا جہاں کچھ دیر پہلے ببلی سویا ہوا تھا . . . ہلکے چوڑے کاندھے . .، ملائم پیٹھ كے نیچے پہاڑ جیسے اٹھے ہوئے چوتڑ . .، جو گھر کا کام کرنی کی وجہ سے ابھی تک بہترین شیپ میں تھے . . .، کہی کوئی ڈھیلاپن نہ تھا . . . ان کے نیچے چکنی اور آپس میں جڑی ہوئی رانیں جو ان کے اِس جسم کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی . . . گوری گول پنڈلیاں اور چھوٹے خوبصورت پاؤں . . .
              تقریباً پانچ فٹ سے کچھ اوپر لمبائی ہوگی ان کے قد کی . . . ان کو دیکھتے دیکھتے وہ ساتھ میں ہی لیٹ گیا . . . بغل كے نیچے سے ان کا بایاں بڑا مما باہر نکلا ہوا تھا . . . اور اس کا نپل بستر کی طرف چھپا ہوا تھا . . .



              " واہ کتنے ملائم ہیں یہ . . . اور اب تو نرم ہے . .، رات کی طرح کٹھور نہیں لگ رہے " . . .



              آہستہ سے اس نے اپنا ہاتھ تقریباً آدھے ممے پر پھیرا . . . پھر اپنا بایاں ہاتھ نیچے لے جا کر بستر پر لگے ہوے ممے کے حصے کو ہتھیلی میں لے لیا . . . لیلیٰ گہری نیند میں تھی اور ببلی اب ان کے ممے کو اچھی طرح سے اپنے ہاتھ میں لے کر مسل رہا تھا . . . وہ بڑا سا نرم گوشت کا گولا ببلی کو دوبارہ وہی لے جا رہا تھا . . . جہاں رات کو وہ ہوش کھو بیٹھا تھا . . .
              ہلکا ہلکا مسلنے سے اب ان کا بڑا سا بھورا نپل پھول کر سخت ہونے لگا . . . اور لیلیٰ نے مستی میں ایک انگڑائی لی . . . اب وہ
              سیدھی بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور ان کے دونوں پہاڑوں پر لگے مٹر كے دانے جتنے نپل چھت کی طرف دیکھ رہے تھے . . .
              ببلی نے جھک کر دائیں سائیڈ والا جو اس کی طرف ہو گیا تھا . . اس کو اپنے منہ میں ہلکا سا لیا . . . اور دوسرے والے کو اپنی مٹھی میں بھرنے کی کوشش کرنے لگا . . . یہ اتنا بڑا تھا کہ . . اس کا ہاتھ جتنا اوپر تھا . . .، مما دونوں طرف سے اتنا باہر تھا . . . جسم پر صرف ٹراوزر تھا جو اس نے اتار کر نیچے سرکا دیا . . . اب وہ بنا بوجھ دیئے اپنی تائی کے اوپر آ گیا . . . لیکن ڈنڈ لگانے والے انداز میں . . . صرف اس کے پنجے بستر پر تھے . . اور کوہنیاں دونوں مموں کی باہر کی طرف . . . لیلیٰ کی رانیں آپس میں ملی ہوئی تھی . . . .



              " ایسا سواد منہ میں آ رہا ہے جیسے کوئی رس سا نکل رہا ہو ان میں سے " . . .



              دونوں ابھاروں کو پیار سے پیتے ہوئے . . . اس نے من ہی من میں یہ بات کہی . . . اپنی ایک ٹانگ لیلیٰ کی دونوں ٹانگوں كے بیچ لے جا کر اس نے ان کی رانوں کو الگ کرنے کی کوشش کر . . . اور کامیاب بھی ہو گیا وہ . . ، اب لیلیٰ کی ٹانگیں تھوڑی کھل سی گئی تھی . . .
              مموں کو چھوڑ کر وہ گھٹنوں پر بیٹھ کر ان کی پھدی کو دیکھنے لگا . . . جو رات كے اندھیرے میں دیکھی نہیں تھی . . .



              " تائی جان کی پھدی کتنی پھولی ہوئی ہے " . . .



              دونوں موٹے ہونٹ اور ان کے درمیان لال رنگ سا چھید . . اس کو واضح طور پر نظر آ رہا تھا . . . رات کی چدائی سے باہر تک وہ لالی دِکھ رہی تھی . . اور شاید اتنا بڑا لنڈ کھانے سے ہی ڈبل روٹی کی طرح پھول گئی تھی . . . اپنے ہاتھ سے کھڑا لنڈ اس نے پھدی كے لکیر پر پھیرا . . . تو نیند میں ہی لیلیٰ كے چہرے پر مزے كے رنگ آ گئے . . .
              چار سے پانچ بار آرام آرام سے ٹوپا اس لکیر پر پھیرنے كے بعد . . . ببلی نے نیچے کی طرف جھکتے ہوئے . . .تھوڑا سختی سے اپنے ہونٹ اپنی تائی جان كے ہونٹوں پر رکھ دیئے . .،
              ادھر لیلیٰ شاید ایسا ہی کوئی خواب دیکھ رہی تھی . . .، انہوں نے بھی اب نیند میں ہی ببلی كے منہ میں زبان گھمانی شروع کر دی . . .
              اگلے ہی لمحے ان کی آنکھیں کھل گئی . . . اور سانسیں رکتی ہوئی سی محسوس ہوئی . . . ان کی آنکھوں كے سامنے ببلی کا چہرہ تھا . . . اور پھدی میں اس کا ڈنڈا گھس چکا تھا . . . ان کی طرف آرام سے دیکھتے ہوئے . . ببلی نے پھر ایک جھٹکا مارا اور جتنا لنڈ اندر گھس چکا تھا اسی سے لیلیٰ کو چودنے لگا . . .
              لیلیٰ کو پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا سواے پھیل چکی چوت . . اور اس میں ہوئے درد کے . . . پھر انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور ببلی كے آدھے لنڈ سے ہی چدنے كے مزے لینے لگی . . . اندر سے پھدی پوری گیلی تھی اور لنڈ سختی سے پھسل رہا تھا . . . ایک بار پھر زور سے ان کے پپیتے پکڑ کر ایسا جھٹکا مارا کہ . . جڑ تک لنڈ اندر گھس گیا . . .
              اتنے بڑے لنڈ سے لیلیٰ پہلی بار صرف چار گھنٹے پہلے ہی چدی تھی اور ان کی چوت ابھی ابھر بھی نہیں پائی تھی کہ . . . ببلی كے لنڈ نے پھر سے اس کو پھاڑنا شروع کر دیا تھا . . . .



              " کتنا بےدرد ہے تو بابا . . . تجھے مجھ پر تھوڑا بھی ترس نہیں آیا جو سوتے ہوئے مجھے ایسے رنڈی کی طرح چودنے لگا " . . .



              کراہتے ہوئے لیلیٰ نے پہلی بار اتنے گندے الفاظوں میں بات کری تھی . . . وہ شادی شدہ تھی تو انہیں ان سب کا پتہ ضرور تھا . . . لیکن اِس خاندان میں کبھی انہوں نے کسی سے اس طرح بات تو دور . . . کسی نے ان کی اونچی آواز بھی نہیں سنی تھی . . .



              " وہ تائی جان جب میں اٹھا . . تو آپ سوئی ہوئی اتنی پیاری لگ رہی تھی . . . رات کو آپ کا جسم دیکھ نہیں پایا تھا . . اور اب دیکھنے كے بعد رکا نہیں گیا " . . .



              اس کی ایسی بات سن کر لیلیٰ کو ایک بار تو اپنے بھتیجے پر بڑا پیار آیا . . . اور خود کی تعریف سن کر خوشی بھی ہوئی . .، لیکن پھر دوبارہ بناوٹی غصے اور درد سے کہا . . .



              " تو مطلب مجھے ننگا دیکھ کر کہی بھی چود دے گا . . .؟ "



              " کیا کروں تائی جان اب آپ نے ایسا مزہ دیا ہے تو پھر رکا ہی نہیں گیا " . . . .



              ببلی اب انہیں آہستہ آہستہ چود رہا تھا . . . وہ بھی زیادہ لنڈ اندر باہر کیے . . .



              " چل پھر جلدی سے اپنا کام ختم کر " . . .



              لیلیٰ نے بات ختم کرتے ہی تیز سسکی لی . . . اور ادھر ببلی دوبارہ پھر سے تیز رفتاری سے ان کی چُدائی میں لگ گیا . . .



              " ہائے تائی جان یہ آپ نے کیا سیکھا دیا ہے . . . اتنا مزہ آ رہا اس میں كہ . . کبھی زندگی میں ایسا مزہ نہیں ملا . . . اور یہ آپ کے دودھ ہلتے ہوئے کتنے پیارے لگتے ہیں " . . .



              " ہائے . . ادھر میری جان نکل رہی ہے اور تو بےشرمی سے ایسی باتیں کر رہا ہے . . . باتیں مت کر . .، یہ مزہ اب دوبارہ کبھی نہیں ملے گا " . . .



              اتراتے ہوے اور سسکتے ہوے لیلیٰ نے اپنے ہاتھ ببلی كے چوتڑوں پر رکھے . . . اور اوپر ہو کر اپنی چھاتیاں اس کے بدن سے چپکا کر چدائی کا مزہ لینے لگی . . .



              " اب تو جب بھی آپ اکیلی ملو گی میں یہی کروں گا " . . .



              گانڈ تک اس کے اَخْروٹ ٹکرا رہے تھے . . اور چوت کسی ندی کی طرح باہر تک پانی نکال رہی تھی . . . دونوں کی سیسکاریوں سے کمرا گونج رہا تھا . . .
              ایسے ہی دس سے پندرہ منٹ تک چودنے كے بعد . . ببلی نے ان کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر لنڈ جڑ تک اندر بھر دیا . . . اس کے ٹوپے سے نکلتا ہوا گرم لاوا . . . سیدھا لیلیٰ کی بچہ دانی میں اترنے لگا . . .



              " ہائے ماں جی . . . کتنا بھرے گا میری چوت کو . . .؟ اِس عمر میں ماں بن گئی تو زندگی برباد ہو جائے گی " . . .



              اپنے اوپر ہانپ کر گرتے ہوئے . . اپنے بھتیجے كے سَر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے . . انہوں نے فکر مندی کا اظہار کیا . . .



              " کیا ایک ہی بار میں آپ ماں بن جاو گی . . .؟ "



              " ہو سکتا ہے بن بھی جاؤں . . . لیکن ابھی میری ماہواری چار دن پہلے ختم ہوئی ہے تو امید کم ہے . . . مگر یاد رکھنا آئندہ سے اندر نہیں نکالنا " . . .



              " ٹھیک ہے میری پیاری تائی جان . . اور اب پتہ چل گیا كہ . . آئندہ آپ مجھے منع بھی نہیں کریں گی " . . .



              ان کے ہونٹ چومنے كے بعد . . آنکھ مار کر وہ اٹھ كے ٹراوزر پہن کر باہر بھاگ گیا . . .



              " بدمعاش . . پوری چوت کو پھاڑ گیا . . لیکن اتنا مزہ بھی تو دے گیا " . . .



              درد میں مسکراتے ہوئے . . . لیلیٰ نے اپنی پھٹی ہوئی پھدی سے اپنے بھتیجے کی گاڑھی منی بہتے ہوے دیکھی . . تو چہرے پر چمک آ گئی . . . اتنا درد تو پہلی چدائی میں بھی نہیں آیا تھا . . لیکن مزہ بھی پہلی چُودائی سے زیادہ آج 27 سال بعد
              ملا تھا . . . اپنے بریزئیر سے پھدی کو صاف کر کے دوبارہ پھر سے لیٹ گئی وہ بستر پر . . . اور ببلی تیار ہو کر پارک کی طرف
              چل دیا۔۔۔۔۔۔



              پانچ بج چکے تھے . . . نادرا اٹھی اور باتھ روم سے فری ہو کر اپنے اور سائرہ كے لیے چاے بنانے لگی . . .، جس کا آج امتحان تھا . . . جتنی بار وہ پیشاب کرتی اس کا دِل اتنا ہی چُدائی كے لیے تڑپتا . . . کچن میں بھی اس نے اپنی پھدی کو کپڑوں کے ا پر سے سہلایا اور سسکا گئی . . .



              " جلدی کچھ کرنا پڑے گا نہیں تو مرنے جیسی حالت ہو جائے گی . . . اب سہا نہیں جاتا ببلی ایک بار پھر سے اپنی باجی کو جی بھر كر پیار کر دے " . . .



              من ہی من میں سوچتے ہوئے بھی وہ ببلی کو پُکار رہی تھی . . .



              " باجی بن گئی چاۓ . . .؟ "
              سائرہ کی آواز آئی جو اندر آ گئی تھی . . .



              " ہاں تو اندر چل میں لے کر آئی بس دو منٹ میں " . . .



              مڑ کر اس نے سائرہ کو دیکھا . . جو ایک گلابی ٹی شرٹ اور ٹراوزر میں تھی . . . اس کے اُبھار بھی بڑی باجی پر ہی جا رہے تھے . . . لیکن لمبائی زیادہ . . کمر پتلی اور تیکھے نین نقش اس کو بالکل الگ کرتے تھے . . .
              تھوڑی دیر بعد دونوں اپنے کمرے میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی . . اور نبیلہ صحن کی صفائی کر رہی تھی . . .
              نبیلہ صبح کی چائے اپنی جیٹھانی لیلیٰ كے ساتھ پیتی تھی . . لیکن وہ ابھی تک کمرے سے باہر نہیں آئی تھی . . .



              " باجی . .، آپ اٹھ گئی ہیں تو میں چائے بناؤں . . .؟ "



              وہی سے انہوں نے لیلیٰ کو آواز دی . . جو ابھی تک ویسے ہی لیٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔




              جاری ہے۔۔۔۔۔​
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • سپرب سٹوری مزہ آ رہا ہے

                Comment


                • کمال اپڈیٹ لطف اگیا

                  Comment


                  • کیا گرما گرم کہا نی ہے ہر بار پرھ کر اتنا مزا اتا ہے لیکن جلدی قسط پوری ہو جاتی ہے

                    Comment


                    • Maza a gaya hai bhai

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X