Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بیتے لمحے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا

    Comment


    • #82
      Shandar update de ha ab lagta ha Maa apny baty ko Kush Kary gee or gar ki baat gar ma rahy gee

      Comment


      • #83
        کلثوم انٹی مے محنت کی بچے پر، بچہ بے وقت کا غصہ کر گیا شاید، لیکن ماں مہربان ہو رہی ہے

        Comment


        • #84
          Maa ahasta ahasta baty ka qreeb as rahi ha

          Comment


          • #85
            بہترین اپڈیٹ
            کلثوم آنٹی نے پالش تو کر دیا ہے اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے

            Comment


            • #86
              آگے کیا کرنا ہے امی؟ میں نے خوش ہوتے ہوئے امی کی طرف دیکھا اور ندیدوں کی طرح ان کو تکنے لگا ۔ آگے یہ کرنا ہے کہ اب تمہیں بچا کہ رکھنا ہے کہ کلثوم جیسی کوئی ڈائن تمہارا خون نا پی جائے امی نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ میرے سر سے گزارتے ہوئے میری گردن پہ رکھ دیا میں نے ان کے بھاری جسم سے خود کو جوڑتے ہوئے ان میں پیوست کر لیا اور کہا آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی اور کچھ نہیں کہہ سکتی امی کوئی ڈائن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ ہلکی سی ہنسیں تو ان کے جسم کی لرزش مجھے اپنے سارے وجود پہ محسوس ہوئی اور وہ بولیں شکر ہے کہ مجھے وقت پہ پتہ چل گیا ورنہ تو حالات بڑے خراب ہو رہے تھے میرا بچہ مجھے ہی ننگا کروانے کے چکر میں تھا ۔ میں امی کی یہ بات سن کہ شرمندہ ہوا اور میری گرفت ان سے ڈھیلی ہو گئی ۔ انہوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگیں چلو اب میں کپڑے تبدیل کر لوں میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں میں نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر امی کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف چل پڑا باقی بہن بھائی لاوئنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں امی کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو امی بھی الماری سے کپڑے نکالنے لگیں میں ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا امی نے کپڑے نکال کہ میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے بولیں اوئے بدتمیز کیا بات ہے ؟؟ میں نے جب دیکھا امی غصے میں نہیں ہیں تو میں نے دل بڑا کر کہ کہا وہ میں فری ہینڈ کا مطلب پوچھنے آیا تھا ۔ امی نے سر کو جھٹک کر زیر لب کہا چل بدتمیز نا ہو تو اور اپنی قمیض کے دامن اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے اور اوپر کرنے لگیں لیکن اوپر کرتے کرتے رک گئیں اور میری طرف دیکھنے لگیں اور پھر بولیں ویسے یہ بہت بدتمیزی والی بات ہو جائے گی چلو بھاگو یہاں سے ۔ میں جو خوش ہو رہا تھا ایک دم میرا چہرہ اداس ہو گیا کیونکہ سارے ارمانوں پہ پانی پڑ چکا تھا میں مرے ہوئے قدموں سے اٹھا اور باہر نکلنے لگا میں دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ امی کی آواز آئی عمیر۔ میں پیچھے مڑا اور دیکھا کہ امی دوسری طرف مڑی ہوئی ہیں اور ان کی قمیض اتری ہوئی ہے البتہ نچلے جسم پہ شلوار تھی میں نے امی کی گوری چکنی کمر کو دیکھا تو مجھے بہت انوکھا سا احساس ہوا بہت الگ کہ جس کےلیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی امی؟؟ امی کی آواز تھوڑی بھاری لگی انہوں نے پیچھے دیکھے بغیر مجھے کہا عمیر یہ برا کے ہک کھول دو اور اپنے ہاتھ سے ان کی کمر پہ لگی برا کی طرف اشارہ کیا ۔ میں تھوڑا کنفیوز ہو چکا تھا کہ امی یہ کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور نا ہی مجھے یہ توقع تھی مین حیران سا ان کے پیچھے پہنچا اور ان کی گوری سفید کمر کو دیکھا اور کمر سے نیچے ان کے بھاری چوتڑوں پہ بھی نظر ڈالی۔ میں نے ان کی برا کے ہک کو پکڑنا چاہا تو میرا ہاتھ ان کی ننگی کمر سے ہلکا سا مس ہوا تو میرے جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی میں ان کے قریب ہوتے ان کی گردن کے اوپر سے ان کے ادھ ننگے مموں کو دیکھنے لگا اور برا کے ہکس کو مخالف سمت میں کھینچا جس سے ان کی برا ایک جھٹکے سے کھل گئی۔ امی سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کے موٹے ممے ان کی سانس کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ برا کے ہکس کھلتے ہی ان کی برا ڈھیلی ہوئی اور ان کے ممے آدھے سے زیادہ ننگے ہو گئے اور گورے گورے گول مموں کے اوپر براون رنگ کے نپلز پہ میری نظر پڑی تو مجھے ایک عجیب اور میٹھا سا احساس ہوا۔ امی نے برا کے اترتے ایک گہری سانس لی اور نظریں ترچھی کر کہ مجھے دیکھا اور برا کو سامنے بیڈ پہ چھوڑتے ہوئے قمیض کو اٹھانے کے لیے جھک گئیں۔ میں امی کے پیچھے کھڑا تھا تو ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گداز گانڈ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹکرائی اور میری للی اپنی ناتوانی کے باوجود ان کی گانڈ کے درمیان زور سے رگڑنے ہوئی جتنی اس میں ہمت تھی اور للی تقریبا ساری ان کی گانڈ کی گولائیوں کے درمیاں غائب ہو گئی۔ امی نے اسی طرح جھکے ہوئے اپنی گانڈ کی گولائیوں کو بھینچا تو میری ساری للی کو ان کی گانڈ کی نرمی اور گرمی محسوس ہوئی لیکن اپنے اناڑی پن کی وجہ سے میں کوئی بھی مزید حرکت نا کر سکا
              امی نے قمیض اٹھائی اور بازووں میں لیکر اسے پہننے لگیں تو میں ان کے پیچھے سے سائیڈ سے ہو کر ان کے ممے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جو ان کے بازو کے نیچے سے سائیڈ سے نظر آ رہے تھے مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن امی کے چپ ہونے کی وجہ سے ایک ہمت بھی مل رہی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ رہی ہیں انہوں نے جب قمیض پہننی شروع کی تو وہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور میری للی ان کی گانڈ سے باہر نکل گئی اور میں ان کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ امی نے قمیض پہنی لیکن اس کا دامن پیچھے سے مکمل نیچے نہ کیا اور ان کی کمر کا کچھ حصہ ننگا رہ گیا کمرے میں بالکل خاموشی تھی صرف امی کے کپڑے بدلنے کی سرسراہٹ کمرے میں گونج رہی تھی یا پھر امی کی سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھائے اور پیچھے سے امی کی کمر کو پکڑا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور انہوں نے اپنی شلوار کو سائیڈوں سے پکڑ کہ نیچے کیا اور جھک کہ شلوار اتارنے لگیں ۔۔۔ افففف امی کے اس طرح جھک کہ ننگا ہونے کا تو میں نے کبھی سوچا تک نا تھا ان کی بھاری سفید گول گانڈ ایک دم ایک جھٹکے سے اچھل کر سامنے آئی اور گانڈ کی سفید گہری پہاڑیوں کے درمیان (. ) شیپ کا گہرے براون رنگ کا سوراخ اور اس کے بالکل نیچے موٹے گہرے گلابی ہونٹوں والی پھدی جس پہ ہلکے ہلکے بال نمایاں تھے سامنے نظر آئی ۔ میں تو اس قاتلانا نظارے کی تاب نا لاتے ہوئے ایک طرح سے کومے کی حالت میں جا چکا تھا امی اسی طرح جھکی ہوئی آگے ہوئیں اور شلوار اٹھا کر پہننے لگیں اور میں پیچھے ہونق بنا ہوا ان کو دیکھتا رہا ۔ امی نے شلوار پہنی اور قمیض کا دامن کھینچ کر سیدھا کیا اور میری طرف دیکھ کہ بولیں چل ڈرپوک کہیں کا۔ اور اپنے بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی گئیں اور مجھے سمجھ ہی نہ آ رہی تھی میرے ساتھ یہ سب ہوا کیا ہے۔ امی کچن کی طرف چل پڑیں اور میں بھی کچھ لمحے سوچنے کے بعد ان کی طرف چل پڑا اور کچن میں انہیں کام کرتا دیکھنے لگ گی

              میں امی کے پاس کچن میں چلا گیا اور جا کر ان سے باتیں کرنے لگا پھر ہم نے کھانا کھایا اور اس کے بعد عام روٹین چلتی رہی ۔ اس واقعہ کے بعد میری اور امی کی دوستی ہو گئی ہم کھل کہ بات کرنے لگے امی بھی مجھ سے مختلف باتیں شئیر کر لیتیں اور ہمارے درمیان ہنسی مزاق بھی چلتا رہتا ۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ ہم یہ گھر بیچ کر کسی اور جگہ منتقل ہو رہے ہیں اور ایسا ہی ہوا کہ امی ابو نے گھر تبدیل کر لیا اور اس طرح ہمارا محلہ بدل گیا اور نئے محلے میں امی مجھے زیادہ باہر نہیں گھومنے دیتی تھیں اسی طرح وقت گزرتا گیا اور ہمارے پیپر آ گئے امی اسی طرح چادر لیکر جاتی تھیں اور بڑی کلاسسز کو نہیں پڑھاتی تھیں میرے پیپرز کے بعد امی نے میرا سکول تبدیل کروا دیا اور ہم سب ایک نئے سکول میں داخل ہو گئے اس طرح میرے وہ کلاس فیلو بھی بدل گئے ۔ اب ہم ایک نئے ماحول میں تھے اسی طرح عام روٹین میں امی سے ہنسی مزاق میں سال اور گزر گیا اب میری للی بھی بڑی ہو کہ لن کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اس کی سائیڈوں پہ ہلکے ہلکے بال بھی نمودار ہو چکے تھے اور مجھے دو تین بار اختلام بھی ہو چکا تھا اور سکول فیلوز سے بہت کچھ ہنسی مزاق میں پتہ بھی چل چکا تھا ۔ امی کے جسم سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہتی تھی لیکن ایک حد ہمارے درمیان قائم تھی ایک پردہ درمیان میں حائل تھا۔ پھر کرتے کرتے گرمیوں میں ہمارا پروگرام مری جانے کا بن گیا اور ہم سب اپنی گاڑی میں مری روانہ ہو گئے ۔ ہمارا ارادہ وہاں تین دن رہنے کا تھا۔ ایک لمبے سفر کے بعد ہم لوگ مری پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے پہلے دن تو ہم پہنچتے ہی مشکل سے کھانا کھا کہ لیٹ گئے اور آرام کیا۔ صبح جب ہم جاگے تو ایک حسین منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا سر سبز پہاڑ اور آسمان کو چھوتے ہوئے درخت اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ایک عجیب سماں باندھ رہی تھی۔ امی ابو بھی بہت خوش تھے اور ہم بچے بھی سب بہت خوش تھے۔ ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد ہم لوگ پیدل ہی پہاڑوں میں گھومنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ ہمارے ہوٹل کے قریب سے ہی ایک واکنگ ٹریک جنگل کی طرف بنا ہوا تھا جو اوپر پہاڑی کی طرف جا رہا تھا ہم نے اس ٹریک پہ چلنا شروع کر دیا اور سب اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ باقی بہن بھائی ابو کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے چلتے جا رہے تھے جبکہ امی کی رفتار بھاری ہونے کی وجہ سے کچھ کم تھی اور میں ان سے آگے مگر ان کے قریب قریب چل رہا تھا۔ وہاں ٹریک کے ارد گرد جو چیز ہمیں حیران کر رہی تھی وہ بندروں کی موجودگی تھی جہاں بندر درختوں پہ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ ابو لوگ ہم سے آگے آگے چل رہے تھے ہم نے پاس پانی اور دیگر سامان بھی رکھا ہوا تھا اور ہم پہاڑی پہ چڑھ رہے تھے امی بھی میرے ساتھ ماحول درختوں کی باتیں کرتی اوپر چڑھی جا رہی تھیں ان کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے ابو لوگ ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے۔ ہم اوپر جنگل میں ایک جگہ پہنچے تو امی کچھ بے چین نظر آنے لگیں میں تھوڑی دیر تو چپ رہا لیکن پھر ان سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں تو امی کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بولیں ایویں شودا نا بنا کرو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میرے بازو پہ ہلکا سا مکا مارا اور پھر خود بولیں یار مجھے سُوسُو آیا ہے یہی سوچ رہی تھی کہ کدھر کروں یہاں تو ٹائلٹ مشکل ہی ہو اس جنگل میں۔ میں ان کی بات پہ ہنس پڑا اور کہا ارے امی یہ پورا جنگل ہی ٹائلٹ سمجھ لیں یہاں کون ہے اور رک کر پیچھے کی طرف دیکھا تو واکنگ ٹریک بالکل ویران تھا اسی طرح میں نے پھر اوپر نظر دواڑائی اور پھر دائیں بائیں دیکھا تو صرف پرندوں اور ان کی چہکار کے سوا کوئی انسان نظر نا آیا ۔ امی نے بھی میری نظر کے تعاقب میں نظریں دوڑائی اور کہا ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہو یہاں تو کوئی نہیں ہے۔(جاری ہے)

              Comment


              • #87
                Akhar kar Maa baty ka sath khul gee ha

                Comment


                • #88
                  لاجواب
                  بہت ہی عمدہ اور بہترین اپڈیٹ

                  Comment


                  • #89
                    بہت خوب جناب کیا بات ہے مزہ آگیا

                    Comment


                    • #90
                      یہاں کوئی نہیں ہے آپ ادھر سائیڈ پہ کر لیں میں یہاں کھڑا ہو جاتا ہوں میں نے امی کو تجویز پیش کی انہوں نے ایک بار پھر چاروں​طرف دیکھا اور مطمئن ہو کر سائیڈ کی طرف چل پڑیں اور میں نے ان سے پشت کر لی اور دوسری طرف دیکھنے لگ گیا جدھر وہ گئی تھیں میں نے اس طرف اپنی کمر کر لی تا کہ ان پہ نظر نا پڑے۔ ابھی انہیں گئے ایک یا دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے امی کی تیز چیخ سنائی دی ان کی چیخ سنتے ہی میں بجلی کی تیزی سے مڑا اور امی کی طرف دیکھا تو دوسری طرف ایک عجیب منظر تھا ایک موٹا تازہ بڑے قد کا بندر امی کے پیچھے تھا اور امی جھک کہ پاؤں سے شلوار اوپر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور بندر ان کے پیچھے لگا ہوا دھکے مار رہا تھا جیسے انہیں چود رہا ہو امی چیختے ہوئے شلوار اوپرکرنے کی کوشش کر رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر ان کی طرف دوڑا اور بندر کو مارنے کے لیے کوئی چیز بھی ساتھ ڈھونڈنے لگا اور ساتھ شش شش کرتا ہوا ان کی طرف بھاگا۔ بندر نے مجھے اپنی طرف بھاگتے دیکھا تو امی کے پیچھے سے ہٹ گیا اور مجھے دیکھ کر دانت نکالتا ہوا ایک طرف اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے بھاگ گیا۔ میں جلدی سے امی کے قریب پہنچا جو بندر سے جان چھوٹنے کے بعد اپنی شلوار اوپر کر رہی تھیں اور ایک بات پھر بہت مدت بعد مجھے امی کے جسم کا دیدار حاصل ہوا موٹی تازی سفید گانڈ دن کے اجالے میں اپنی بھرپور آب وتاب کے ساتھ چمک رہی تھی اور ان کے حصوں کے درمیان گئرے براون رنگ کی کھلی سی موری خود میں گزرے ہوئے لن کی داستان سنا رہی تھی اور سامنے ہی میری جائے پیدائش کہ جس کے ہونٹ بھی شدت استعمال سے موٹے ہو چکے تھے لیکن کمال کی بات یہ تھی کہ ان پہ کوئی بال نہیں تھا۔ میں نے ایک طویل نظر ان کے جسم پہ ڈالی جس وقت تک نظارہ سامنے تھا پھر امی نے جلدی سے شلوار اوپر کر لی ان کے بال بکھر چکے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور شرمندہ ہوتے ہوئے اپنا حلیہ درست کرنے لگ گئیں اور بولیں پتہ نہیں یہ جنگلی کدھر سے آ گیا تھا افففف یہ کتنا گندہ جانور ہے۔ میں اس صورتحال پہ پہلے بوکھلایا ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ امی شرمندہ ہیں تو مجھے بھی ہمت مل گئی میں نے بھی امی کی طرف دیکھا اور کہا قصور جانور کا نہیں ہے اور اتنی بات کر کہ چپ ہو گیا۔ امی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولیں تو؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ساری غلطی آپ کے حسن کی ہے آپ کی خوبصورتی کی ہے کہ انسان تو فدا ہوتے ہیں جانور بھی نہیں رہ سکتے۔ بدتمیز انسان چپ کرتے ہو یا لگاؤں ایک امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف آنکھیں نکالیں تو میں نے دل پہ ہاتھ رکھ کہ کہا اے خدا یہ بھی کیا انصاف ہے کہ بندر تو حسن کے نظارے سے جسم کی نرمی سے فیضیاب ہو کہ بھی بچ نکلا اور یہاں تعریف پہ بھی مار پڑنے والی ہے ۔ امی اس بات پہ پھر ہنس پڑیں اور بولیں بدتمیزی مت کرو تم بیوقوف اب ماروں گی لیکن ان کے غصے میں کوئی اصلیت نہ تھی بلکہ وہ بناوٹی غصہ کر رہی تھیں
                      ہم نے پھر آگے کی طرف چلنا شروع کر دیا اور امی میرے آگے چلنے لگیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا پیچھے چلتے چلتے میری نظر جب ان کی کمر اور چوتڑوں پہ پڑی تو واپس پلٹنا جیسے بھول ہی گئی درمیانی سی کمر کے نیچے اچانک انتہائی پھیلی ہوئی چوڑی گانڈ اور اس کے موٹے الگ الگ حصے ان کے پہاڑی پہ چڑھنے کی وجہ سے باہر کو ابھرے ہوئے تھے بلکہ الگ الگ نظر بھی آ رہے تھے۔ میری نظر میں ابھی کچھ لمحے پہلے کا منظر یوں واضح ہوا کہ مجھے لگنے لگا کہ امی نے شلوار ہی نہیں پہنی ہوئی ہے ۔ میں اس نظارے میں ڈوبا ہوا ان کے پیچھے چلنے لگا اور میری نگاہ مسلسل انہی پہ تھی امی نے شاہد چلتے ہوئے کوئی بات کی لیکن میں جس نظارے میں کھویا ہوا تھا وہ میرے لیے سب سے اہم تھا اور اس سے ہٹ کر مجھے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا مجھے دنیا کی سبھی رنگینیاں امی کے وجود سے لگ رہی تھیں اور میں جسم کی کشش میں کھویا ہوا تھا۔ امی چلتے چلتے رکیں اور فورا پیچھے ہی مڑیں ان کے اس طرح پیچھے مڑنے سے میں ان کو دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گیا امی نے میری طرف دیکھا اور ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے بولیں اوہے مار کھانی ہے کیا مجھ سے؟؟ میں نے امی کی طرف دیکھا اور کہا اگر میری اوقات بندر سے بھی گئی گزری ہے تو بیشک مار لیں ۔ بدتمیز انسان کچھ شرم کرو کیوں خود کو بندر سے ملا رہے ہو امی نے اسی لہجے میں کہا۔ بندر تو مجھ سے اچھا ہے وہ اتنا کچھ کر بھی گیا مجھے دیکھنے پہ بھی ڈانٹ پڑ رہی ہے میں نے چہرے پہ مظلومیت طاری کرتے ہوئے کہا دیکھیں نا میری آنکھوں کے سامنے وہ کیا کچھ کر گیا اور اسے کچھ نہیں کہا جب کہ میں تو صرف ایک نظر دیکھتے ہی مجرم بن جاتا ہوں ۔۔ ہائے یہ کتنا ظلم ہے میرے ساتھ میں نے ڈرامہ کرنا شروع کر دیا
                      بس ڈرامہ ہی کرتے رہنا اور کچھ نا سوچنا کبھی یہ دماغ سوچنے کے لیے ہوتا ہے نا کبھی اسے استعمال بھی کیا کرو امی نے مجھے زرا تیز لہجے میں کہا۔ کیا سوچا کروں آپ ہی بتا دو نا مجھے میں نے بھی ہلکی ٹون میں کہا۔ امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور بولیں اپنا اور بندر کا مقابلہ تو کر رہے ہو کہ میں نے بندر کو کچھ نہیں کہا لیکن یہ بھی غور کرو کہ کیوں کچھ نہیں کہا ۔ میں نے نا سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا تو امی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا بندر نے مجھ سے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور میری طرف دیکھ کر نظر جھکا لی۔ اب یہ صورتحال بہت عجیب تھی میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کیا کہنا چاہتی ہیں کیا میں ان سے نا پوچھا کروں؟؟ کیا مجھے سب کرنے کی اجازت دے رہی ہیں لیکن یہ وہ سوال تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور نا ہی میں امی سے پوچھ سکتا تھا اپنی تمام تر فرینکنس کے باوجود امی سے یہ بات پوچھنی آسان نا تھی ہلکی پھلکی چھیڑ خانی تو ہو بھی جاتی تھی اور مزاق بھی مگر اس حد تک کیا میں جا سکتا ہوں یہ مجھے یقین نہیں تھا ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا اور سر جھکا کہ چلنے لگا امی بھی ہلکی سی مسکرا کہ چلنے لگیں اور ہماری درمیان ایک چپ سی چھا گئی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد امی بولیں یہ بندر والی بات کسی کو نا بتانا بس اپنے تک رکھنا میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا ۔تھوڑا ہی آگے جا کہ دیکھا تو ابو لوگ بھی کھڑے تھے اور چھوٹی بہن کو الٹیاں ہو رہی تھیں ہم جلدی سے ان کے پاس پہنچے اور امی اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں جب اس کی طبعیت سنبھلی تو ابو نے ہوٹل چلنے کا کہا کہ سب ہوٹل چلتے ہیں تو امی نے انہیں منع کر دیا اور کہا کہ نہیں آپ بچوں کے ساتھ انجوائے کرو میں اس کو ہوٹل لے جاتی ہوں لیکن ابو امی کو اکیلے بھیجنے پہ راضی نہ ہوئے تو میں نے کہا ابو میں بھی ہوٹل چلا جاتا ہوں امی کے ساتھ اور امی کی طرف دیکھا۔ ابو یہ بات سن کہ چپ ہوئے تو امی نے بھی ان کو کہا کہ آپ انجوائے کرو میں اور عمیر چلے جاتے ہیں اس کی طبعیت سنبھلی تو پھر نکل آئیں گے ۔ اس بات پہ ابو نے اتفاق کر لیا اور ہم واپس ہوٹل کی طرف لوٹ آئے ۔ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چھوٹی سو چکی تھی ہم باری باری اسے اٹھا کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچ گئے ہم نے کمرے کی چابی لی اور کمرے میں داخل ہو کہ میں نے دروازہ بند کر دیا اور امی چھوٹی کو بیڈ پہ لیٹا کر اس کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں
                      امی چھوٹی کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں اور میں جوتے اتار کر کمرے میں سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا ہمارے درمیان ایک چپ سی چھائی ہوئی تھی میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کا لباس بے ترتیب ہو رہا تھا اور وہ چپ لیٹی ہوئی تھیں میں بھی تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلا گیا اور پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگ گیا۔ ہوٹل ایک پہاڑی پہ بنا ہوا تھا اور کھڑکی کھولتے ہی ایک حسین منظر سامنے تھا اونچی اونچی پہاڑیاں درختوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور نیلے نیلے آسمان پہ ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے اور انتہائی تازہ تازہ مہکی ہوا چل رہی تھی ۔ میں نے اس تازہ ہوا کو اپنے منہ پہ محسوس کیا اور گہری سانس لینے لگا۔ اسی دوران مجھے پیچھے کمرے میں ہلکی سی آواز آئی تو میں نے دیکھا کہ امی اٹھ کر باتھ کی طرف جا رہی ہیں اور ان کی قمیض ان کے بھاری چوتڑوں میں پھنسی ہوئی ہے میں نےجب دیکھا تو وہ باتھ کے دروازے سے اندر ہو رہی تھیں اور باتھ میں داخل ہوتے انہوں نے دروازے کو پیچھے دھکیل دیا لیکن انہوں نے دروازے کو کنڈی نا لگائی ۔ انہوں نے شائد یہی سوچا ہو گا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے دروازہ نہیں بند کیا تو میرے ذہن میں شرارت آ گئی ۔ میں دبے قدموں سے باتھ کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے ایک نظر سوتی ہوئی چھوٹی بہن کو دیکھا اور پھر قدم بڑھاتا باتھ کی طرف بڑھتا گیا اور باتھ کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا اور دروازہ نے آواز کھلتا گیا ۔ دروازے کے بالکل قریب ٹوائلٹ سیٹ تھی اور امی اس پہ بیٹھی خود کو دھو رہی تھیں ان کی پشت میری طرف تھی اور ان کی شلوار نیچے تھی اور قمیض بھی چوتڑوں سے بہت اوپر تھی اور وہ پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں ان کا منہ دوسری طرف تھا میں نے دروازہ بغیر کوئی آہٹ پیدا کیے بہت احتیاط سے کھولا تھا اور چپکے سے ان کو دیکھا لیکن میری نظر پڑتے ہی وہ میری طرف دیکھے بغیر بولیں سچ ہی کہا تھا کسی سائنسدان نے کہ انسان پہلے بندر تھا اور بندر سے انسان بنا لیکن تم انسان سے اب بندر والی حرکت کر رہے ہو بدتمیز اور یہ بھول گئے کہ میں تمہاری ماں ہوں ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ ان کو میرے دیکھنے کا علم نہیں ہو گا لیکن اس بات نے میرا ذہن فورا بدلا دیا اور میں نے دیکھا کہ ان کی بات میں غصہ نہیں ہے تو میرا بھی ڈر ختم ہو گیا۔ میں نے بھی وہیں کھڑے کھڑے ان کے ننگے بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے نا ہی شرم ہے جس چیز کو دیکھ کر جانور نا صبر کر سکیں تو میں کیسے کروں۔ امی نے اوپر اٹھتے ہوئے کہا یہی تو فرق ہوتا ہے ایک انسان اور جانور میں کہ انسان خود کو قابو میں رکھے اور وہ اوپر اٹھیں اور پھر نیچے جھک کہ اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگیں اور انہوں نے اپنی گانڈ ساری میری طرف موڑ کر ہاتھ نیچے شلوار کی طرف کئیے تو ان کی گول موٹی گانڈ ان کے جھکنے سے اس طرح کھلی کہ گانڈ کے سوراخ کے ساتھ مجھے ان کی پھدی کا بھی اچھے سے دیدار ہو گیا ۔ امی نے جب شلوار اوپر کرنے میں تاخیر کی تو میں کچھ سمجھتے کچھ نا سمجھتے ہوئے اندر داخل ہو گیا امی نے میرے قدموں کی چاپ سن کر میری طرف مڑ کہ دیکھا تو ان کے چہرے پہ شرم کے تاثرات تھے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ شلوار پوری اوپر کیوں نہیں کر رہی ہیں انہوں نے شلوار ایسے اوپر کر کہ چھوڑ دی تھی کہ ان کی گانڈ کی ادھ ننگی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں وہ میری طرف مڑیں تو ان کے سینے پہ میری نظر پڑی جو کہ ادھے سے زیادہ گلے سے باہر جھانک رہے تھے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئین اور میری کنپٹیاں سلگنے لگیں
                      امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں مجھ میں اور کلثوم میں فرق ہے اور ہمارا کوئی رشتہ بھی ہے یہ بات ہم دونوں اگر یاد رکھیں تو فائدے کی ہے لیکن یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پہ کوئی غصہ نہیں تھا۔ کلثوم آنٹی کے حوالہ سے مجھے ایک دم شرمندگی سی محسوس ہوئی اور میری آنکھیں ایک لمحے کو جھک گئیں اور مجھے تھوڑی چپ سی لگ گئی۔ میں نے کچھ پلان تو کیا ہوا نہیں تھا بس وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اسے گزار رہا تھا ہم باتھ میں اتنے قریب کھڑے تھے کہ مجھے امی کی بدن کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔ امی نے پھر بات شروع کی اور بولیں ۔ دیکھ عمیر میں جانتی ہوں تم جوان ہو چکے ہو اور یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جوانی کے بہت تقاضے ہوتے ہیں لیکن ہم پہ بھی کچھ زمہ داریاں ہوتی ہیں میں تمہاری ابھی شادی کرا سکتی ہوں جہاں تم چاہو گے وہیں پہ لیکن اس کے لیے تمہیں خود پہ قابو رکھنا ہو گا اوراب تم بچے تو ہو نہیں کہ یہ باتیں نا سمجھ سکو میں ایک دوست بن کہ تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں لیکن ہم کچھ حدود کے پابند بھی تو ہیں جہاں ہمیں اس رشتے کی لاج رکھنی ہے میں سر جھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا اور میرے دل میں جو امیدوں کے چراغ تھے ایک ایک کر کہ بجھتے جا رہے تھے کبھی مجھے لگتا تھا امی مجھے اپنا آپ سونپ دیں گی اور اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے ہزاروں میل دور ہو جاتیں تھیں۔ زبانی کلامی یہ باتیں سوچنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی خونی رشتے سے جسمانی تعلق بنا لینا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے جس کے لیے تو سالوں گزر جاتے ہیں ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو شائد میرے چہرے پہ لکھی ہوئی مجبوری واضح نظر آ رہی تھی میں نے ایک طرح ٹوٹے دل سے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی امی واش بیسن کی طرف مڑیں اور جھک کر منہ دھونے لگیں ۔ میں نے ایک نظر امی کے پیچھے سے جھانک کر امی کا چہرہ شیشے میں دیکھا تو وہ منہ پہ صابن لگا رہی تھیں ان کی قمیض چوتڑوں سے ہٹی ہوئی اور چوتڑ بھی ادھے ننگے تھے اور میں اب ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔ میں نے جب دیکھا کہ امی منہ پہ صابن لگا رہی ہیں تو میں فورا پاوں کے بل امی کے پیچھے نیچے بیٹھا اور ان کی شلوار کو پکڑ کر ان کے گھٹنوں تک اتار دیا اور ان کے بھاری چوتڑ سائیڈوں سے پکڑ کر اپنا منہ ان پہ رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی میں نے ان کی شلوار اتاری ان کے منہ سے بے ساختہ ہلکی سی چیخ نکلی اور بولیں اوئے بدتمیز ابھی اتنا کچھ سمجھایا تھا مگر تمہیں کوئی اثر نہیں ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ مجھ سے چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کی اور ہاتھ آگے واش بیسن پہ رکھ کہ جھک گئین میں نے اپنا منہ ان کے چوتڑوں کے ساتھ رگڑتے ہوئے کہا بس امی جتنی دیر آپ منہ دھو رہی ہیں اتنی دیر دیکھنے دو پلیز ۔۔ میری سانس اکھڑ چکی تھی اور جزبات کی شدت سے میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ انہوں نے کچھ بولے بغیر اپنا منہ دھونا شروع کر دیا میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹانگوں کے درمیاں سے گزارتےہوئے ان کی پھدی کے موٹے ہونٹوں پہ رکھ دیا اور وہاں رگڑنے لگا جو کہ گیلی ہوئی تھی امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا مگر وہ کچھ نا بولیں اور اپنا منہ دھونے میں مصروف رہیں میں نے بھی نیچے سے ہاتھ گھسا کہ ان کی پھدی کو ہاتھ سے مسلنے کے عمل کو تیز کر دیا اور ان کی موٹی گوری گانڈ کو چومتا اور دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنے لگ گیا
                      میں نے امی کے چوتڑوں پہ ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کیا تو امی کے منہ سے سسکی نکلی اور انہوں نے جسم کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور بولیں اوئے کنجر اب اس عمر میں ماں کو طلاق دلوایا گا کمینے ۔۔مجھے ان کی یہ بات بالکل سمجھ نہ آئی میں نے پھر ہلکا سا کاٹا اور چومتا گیا وہ پھر بولیں عمیر بیٹا کاٹو نہیں نا دانت کے نشان پڑ جائیں گے اور تیرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے مجھے پھر ان کی اس بات کی سمجھ آئی اور مین ان کی کمر کو پکڑے چوم رہا تھا کہ وہ سیدھی ہو گئین اور اپنی شلوار کھینچ کر اوپر کر لی اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگیں میری حالت یوں ہو گئی جیسے بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھین لیا گیا ہو میں نے اسی طرح پاؤں کے بل بیٹھے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر وہ بولیں گندہ بچہ ماں اور رکھیل کے فرق کو ہی بھول گیا ہے بدتمیز انسان ۔ امی آپ میری رکھیل کیسے ہو سکتی ہو میں نے اس طرح ظاہر کیا کہ مجھے ان کی بات بری لگی ہو اور واقعی مجھے ان کی بات بہت بری لگی تھی مجھ میں ان کے لیے ہوس یا پیار تو تھا لیکن اس گندے الفاظ کے ساتھ تو بالکل بھی نہین ۔ میرے ردعمل پہ وہ ہنس کہ بولیں یہ گندے کام کوئی اپنی ہی ماں سے کرتا ہے جو جناب کر رہے ہیں اور شرما بھی نہیں رہے بدتمیز۔ میں اوپر اٹھا اور اپنے بازو ان کے کندھوں پہ رکھ دیئے اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ان کی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں میں محبت اور ممتا کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ان کے موٹے موٹی سرخ ہونٹ اور پھولے ہوئے گلابی گال بہت ہی پیارے لگ رہے تھے ۔ میں نے آگے ہو کر ان کے گال پہ پیار دینے کی کوشش کی تو وہ چہرہ پیچھے کرتے ہوئے ہنستی ہوئی بولیں گندے ابھی بنڈ چاٹ رہے تھے ابھی وہی ہونٹ میرے چہرے پہ مت لگاو بدتمیز اور ہنسنے لگ گئیں ۔ میں بھی تھوڑا شرمسار ہوا اور ان کو چھوڑ دیا اور واش بیسن کے پاس جا کہ منہ دھعنے اور کلی کرنے لگ گیا وہ بھی باتھ میں کھڑی مجھے دیکھتی رہیں جب میں منہ دھو کر فارغ ہوا اور ان کی طرف دیکھا تو وہ وہیں خاموش کھڑی تھیں اور میری جانب دیکھ رہی تھیں میں نے بھی ان کی طرف دیکھا اور ان کے قریب ہونے لگا انہوں نے مجھے پاس آتا دیکھا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئیں ان کے اس طرح بھاگنے سے ان کے گداز وجود میں جو ہلچل ہوئی اس نے میرے سارے وجود کو ایک تازگی کا احساس دے دیا اور میں بھی ان کے پیچھے چلتا ہوا کمرے میں آ گیا۔ وہ صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گئیں اور ایک انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں اوئے بدتمیز خبردار میرے قریب نا آنا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ ان کے چہرے پہ غصے کا نام و نشان تک نا تھا
                      میں ان کی طرف دیکھتے ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا مجھے اپنے طرف بڑھتا دیکھ کر وہ پھر بولیں اوئے بے شرم میں نے تجھے منع کیا ہے مجھ سے دور رہو ورنہ میں ماروں گی انہوں نے پھر انگلی میری طرف کرتے ہوئے تنبہیہ کی لیکن میں ان کی طرف بڑھتا گیا انہوں نے جب دیکھ کہ میں ان کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہوں تو وہ صوفے پہ پاوں اوپر کر کہ کھڑی ہو گئیں اور صوفے کا چھوٹا کشن ہاتھ میں اٹھا لیا اور دھمکی بھرے انداز میں بولیں بدتمیز اب مجھ سے مار کھائے گا جو مجھے ہاتھ لگایا تو ۔ لیکن مجھے ان کا غصہ بناوٹی لگ رہا تھا تو میں ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کے قریب پہنچ کر ان کی طرف دیکھا وہ صوفے پہ کھڑی تھیں اس لیے وہ مجھ سے کافی اونچی لگ رہی تھیں میں نے آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو وا کرتے ہوئے ان کی گانڈ کے گرد لپیٹ لیے میری کوشش تو کمر سے پکڑنے کی تھی لیکن کیونکہ وہ صوفے پہ تھیں تو میرے ہاتھ ان کی گانڈ کے گرد کس گئے اور میرا منہ سیدھا ان کےمموں کے درمیان لگ گیا میں نے اپنا منہ مموں کے درمیان رکھتے ہی ان کے مموں کو چومنا شروع کر دیا اور زبان درمیانی جگہ پہ رکھ کہ پھیری اور پھر ایک مما قمیض کے اوپر سے منہ میں لینے کی کوشش کی جیسے ہی میں نے ان کا مما منہ میں لیا وہ اچھل پڑین اور بولی گدھے اس عمر مین اب ماں کا طلاق دلوا کے رہے گا کیوں میرے کپڑے خراب کر رہا ہے اس سے تمہارے باپ کو ایک دم شک ہو جانا ہے ۔ سچ تو یہ کہ میں ہوش سے بیگانہ ہو چکا تھا اور اگر ہوش ہوتا بھی تو یہ باریکیاں ایک جوان ہوتے بچے کی پہنچ سے بہت باہر کی بات تھی تو میں نے منہ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا امی تو قمیض اتار دو پھر خراب نہیں ہو گی نا اور ان کی آنکھ میں دیکھا تو انہوں نے ہاتھ میں سے کشن پھینکا اور بولی توبہ بدتمیزی کی بھی انتہا ہو گئی ہے امی بھی کہتے ہو اور ڈیمانڈ بھی دیکھو اپنی او لڑکے کچھ تو حیا کر لے ۔ میں نے کہا اب میرا اور کون ہے میں سبھی فرمائشیں آپ سے نا کروں اور کس سے کرون یہ کہتے ہوئے میں نے ایک ہاتھ سے ان کی موٹی گانڈ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ظاہر ہے بہت موٹی تھی اس کوشش میں ناکسمی کے بعد میں نے ہاتھ کو ان کی گانڈ کی دراڑ میں گھسایا اور منہ اوپر کر کہ ممے کو پھر منہ میں لینے کی کوشش کی انہون نے پھر اپنا مما میرے منہ سے چھڑا لیا اور بولیں بدتمیز سمجھا کرو نا کپڑے خراب ہو رہے ہیں ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کی قمیض کا دامن اوپر کرناچاہا لیکن انہوں نے ہاتھ آگے کر کہ میری اس کوشش کو ناکام کر دیا اور بولیں عمیر بیٹا نہیں تمہارے ابو کسی بھی وقت آ سکتے ہیں اور پھر یہ چھوٹی بھی سوئی ہے یہ بھی اٹھ گئی تو مسئلہ بن سکتا ہے پلیز حد پار مت کرو ان کے لہجے میں لاچاری تھی ۔ میں نے امی کی طرف دیکھ کر کہا جتنی دیر آپ روکنے میں لگا رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں دیکھ بھی لیتا ۔ میری یہ بات سن کر انہوں نے ایک ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا اور بولیں ہائے او ربا یہ لڑکا تو انتہائی گندہ ہو گیا ہے اس نے تو شرم و حیا ہی اتار کہ رکھ دی ہے میں نے ایک بار پھر ان کو گانڈ کے زرا نیچے سے بازو ڈال کر پکڑا اور اٹھانے کی کوشش کی انہوں نے توازن بگڑتے ہی میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ لیے اور بولیں اوئے بدتمیز کچھ حیا کر میرے بازو ان کی گانڈ کے گرد تھے اور ممے منہ پہ رگڑ کھا رہے تھے میں نے ان کو صوفے سے اٹھایا اور نیچے اس طرح چھوڑا کہ ان کی قمیض کا اگلا پچھلا دامن اوپر اٹھتا ان کے پیٹ اور کمر تک پہنچا اور میں نے بجلی کی تیزی سے ان کے دامن پکڑے اور ان کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی مگر امی نے بازو اوپر نا کیے اور پھر بولیں عمیر بچے یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے بہت غلط ہے پلیز رک جاو لیکن میں کیسے رکتا اس وقت تو مجھے یہی لگا اب کچھ نا کیا تو ساری عمر کچھ نہیں ملے گا
                      میرے مما پکڑنے اور پیار کرنے سے امی نے ایک سسکی بھری اور میرے سے چپک گئیں نیچے میرے لن نے بھی ان کی ران سے گلے ملتے ان کو سلامی پیش کی میرا لن جیسے ان کی ران سے ٹکرایا انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنی ران پیچھے کی میں ان کے گال ہونٹوں کے درمیان بھر کہ باری باری چوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے انکا مما باری باری دباتا جا رہا تھا امی کی آنکھیں بند تھیں ۔ انہوں نے اپنا ایک ہاتھ غیر محسوس انداز میں نیچے کیا اور میرے لن کو ہاتھ سے ٹٹول کر پکڑا انہوں نے جیسے ہی میرے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو میرے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو بھی ایک جھٹکا لگا اور انہوں نے پکڑتے ہی میرے لن کو چھوڑ دیا لیکن مزے کی اس لہر نے میرے سارے وجود کو جکڑ لیا مجھے بے انتہا مزہ ملا تھا۔ میں نے ان کے گال چومتے ان کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے ہونٹ آپس میں جوڑ کر سختی سے بند کر لیے لیکن میں نے ہونٹوں کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے شروع کر دئیے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن کی طرف کرنے کی کوشش کی جیسے ہی ان کا ہاتھ میرے لن سے ٹکرایا انہوں نے اپنا ہاتھ مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی تا کہ میرا لن اس سے ٹچ نا ہو۔ ان کی حالت عجیب تھی وہ مجھے کچھ کرنے بھی نہین دے رہی تھیں مگر مجھے اس طرح روک بھی نہیں رہی تھیں مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ چاہتی کیا ہیں مگر میں یہ سوچنے کے بجائے جو مل رہا ہے اس سے لطف لو کی تھیوری پہ عمل پیرا ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور ان کے ممے مسل رہا تھا ان کے جسم پہ شلوار اور برا تھی اور میں بھی مکمل لباس میں تھا اور مجھے جو مسئلہ درپیش تھا وہ لباس سے چھٹکارہ پانے کا تھا مجھے یہ خطرہ تھا کہ ایسا نا ہو وہ بے لباس ہونے سے منع کر دیں اور مجھے جو مل رہا ہے اس سے بھی جاؤں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ کی طلب کرتا ہے تو میں نے بھی ان کے ہونٹ اور گال چومتے چومتے دونوں ہاتھ ان کی سائیڈز سے شلوار کو پکڑا اور ایک دم نیچے بیٹھتے ہوئے شلوار کو نیچے کرتا گیا اس طرح نیچے ہوتے ہوئے میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتا گیا اور ان کی گوری سڈول رانیں اور بالوں سے صاف ستھری پھولی ہوئی پھدی دیکھ کر میں اپنے ہواس کھو بیٹھا اور پھدی کو سامنے پا کر میں نے اپنے ہونٹ پھدی کے ہونٹوں سے ملا دئیے۔ امی ابھی شلوار اترنے کے حملے سے نہیں سنبھلی تھیں اوپر سے اس وار نے تو ان کو چاروں شانے چت کر دیا ان کے منہ سے تیز سسکی نکلی اور انہوں نے میرا سر اپنی ٹانگوں میں دباتے ہوئے کہا افففف عمیر یہ کیا کر رہا ہے گندے پیچھے ہٹو لیکن ان کے ہاتھ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے درمیان دبا رہے تھے اور میں ان کی پھدی سے ہونٹ جوڑے یہ سوچ رہا تھا ان کی کس بات پہ یقین کروں اب جو اوپر والے ہونٹوں سے کہہ رہی ہیں یا جو نیچے والے لب بول رہے ہیں
                      وہ سامنے کھڑی تھیں اور میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا ان کی پھدی کے اوپر حصے پہ پیار کیے جا رہا تھا اور یہ مجھ سمجھ آ گئی تھی کہ یہاں سے جڑے رہنے سے ہی کچھ ملنے کی امید ہے کیونکہ ان کا ری ایکشن پہلی بار ساتھ دینے والا بن رہا تھا اور وہ میرا سر اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی گرد کستے ہوئے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومنا اور زبان سے چاٹنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ سے ان کی گانڈ کے ایک حصے کو کھولتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے گانڈ کی گلی کے درمیانی حصہ کو ٹٹولنے لگ گیا امی کے منہ سے اففففف ہائےےےے اففف عمیرررررررر نہینننننن کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ میرے سر کو اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں مجھے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومتے اور ان کی گانڈ سے کھیلتے دو سے تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ امی کی سسکیوں اور آہوں کے درمیان ان کی لرزتی ہوئی آواز آئی عمیررررر پلیز مجھے بیڈ پہ بیٹھنے دو میری ٹانگوں سے جان نکل رہی ہے میں نے ان کی پھدی کو چومتے ہوئے ان کی شلوار کو پکڑا اور ان کے پاوں اوپر اٹھاتے ہوئے شلوار کو ان کے پاؤں سے نکال باہر کیا اور ان کی رانوں اور پھر پیٹ پہ پیار کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے ان کی کمر کے گرد بازو ڈال کر انہیں دیکھا۔ میری پیاری امی کےمنہ پہ پسینہ چمک رہا تھا اور ان کی پلکیں اور ہونٹ لرز رہے تھے ان کا چہرہ گلابی ہو رہا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہی انہوں نے زیر لب کہا گندہ بدتمیز اور پھر شرما کہ آنکھیں بند کر لیں میں نے امی کو اسی طرح پکڑے بیڈ کے قریب کیا اور انہیں کہا کہ بیڈ پہ بیٹھ جائین اور ان کو چھوڑ دیا امی گرنے والے انداز میں بیڈ پہ بیٹھیں اور پھر بیڈ پہ لیٹتی چلی گئیں کہ ان کی گانڈ بیڈ کے کونے پہ تھی لیکن اوپری حصہ سارا بیڈ پہ اور ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں امی نے گہرے گہرے سانس لینا شروع کر دئیے اور سانس کے ساتھ ہی ان کے موٹے ممے اوپر نیچے ہونے لگےمیں نے اپنا لباس جلدی سے اتارا اور ننگا ہوتے ہی ان کے اوپر چڑھ گیا جیسے ہی امی نے مجھے اپنے اوپر محسوس کیا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور وہ بولیں عمیر پلیز اپنی حد مت پار کرنا ایک حد میں ہی رہنا ۔ مجھے ان کی بات پہ ہنسی تو بہت ہوئی لیکن میں نے فرمانبرداری سے کہا اچھا امی بس تھوڑا ساپیار اور کرنا ہے اور یہ کہتے ہوئے ان کے مموں کے اوپری حصے پہ پیار دیا اور ساتھ ایک ہاتھ سے ان کے چہرے کو سہلانے لگا امی کے جسم پہ ایک برا تھی اور میرا سارا جسم ننگا تھا میں نے ہاتھ سے برا کو پکڑکر اوپر کیا تو مجھے یقین تھا وہ اوپر نہیں ہو گی لیکن مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ برا ایک دم اترتی چلی گئی اور میں ایک لمحے کو حیران ہوا کہ اس کے ہک کیسے کھلے لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ اسے حیرت میں ضائع نا کیا جائے تو میں نے ایک نظر مموں پہ ڈالی جو گنبد کی طرح امی کے سڈول پیٹ پہ اکڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان نپل پوری طرح اکڑے ہوئے تھے میں نے بھوکوں کی طرح جھپٹ کر ان کے ممے کی ایک نپل کو منہ میں بھرا تو امی نے ایک زوردار سسکی بھری اور بولیں عمیر پلیز کوئی نشان نا ڈالنا میرے جسم پہ فورا نشان پڑ جاتے ہیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں میں نے ان کی بات کا جواب نا دیا اور مما اسی طرح چوستا گیا وہ پھر بولیں بدتمیز میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی آرام سے کرو ان کی اس بات نے مجھے حوصلہ دیا کہ اب معاملات کسی حد تک قابو میں آ چکے ہیں میں نے مما منہ سے باہر نکالا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھا جو کہ سرخ ہو رہا تھا اور انہوں نے نچلے ہونٹ کو دانتوں کے نیچے دبا رکھا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے وہ شرما گئیں اور بولیں بدتمیز کچھ تو حیا کر لو تمہاری ماں ہوں میں ۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا امی یہ شرم ہی تو کر رہا ہوں ساتھ ہی میں نے اپنے لن کو جو ان کی نرم رانوں کے درمیان دھنسا ہوا تھا ہلکا سا دھکا لگایا کیونکہ وہ بیڈ کے کونے پہ تھیں اور ان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور میں ان کے اوپر تھا تو وہ مجھے بولیں عمیر میں تھک گئی ہوں اس طرح اور مجھے بھی احساس ہوا کہ وہ آرام دہ پوزیشن میں نہیں ہیں تو میں ان کے اوپر سے کھسکتا ہوا نیچے ہوا اور ان کے کچھ کرنے سے پہلے ان کی دونوں ٹانگیں پنڈلیوں کے پاس سے پکڑ کر اوپر اٹھائیں اور ان کے گھٹنے فولڈ ہوتے ہوئے ان کے پیٹ سے لگے اور امی کے منہ سے نکلا اوئے بدتمیز بیغرت یہ کیا کر رہا ہے ۔ ان کی ٹانگیں اوپر ہوتے ہی ان کی رسیلی پھدی کا دلکش نظارہ میرے سامنے آیا اور ان کے دونوں سوراخ کھل کر سامنے آ گئے میں نے ان کی بات کا جواب دئیے بغیر اپنا منہ بجلی کی سی تیزی سے نیچے کیا اور ان کی پھدی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کہ چوسنے لگ گیا امی کے منہ سے ایک زوردار سسسسسی پورے کمرے میں گونجی اور ان کا جسم لرز اٹھا میں نے اس ردعمل کو دیکھتےہوئے ان کی پھدی کے چوسنے کو تیز تر کر دیا اور پھدی کے ہونٹ چوستے چوستے زبان باہر نکالی اور پھدی کے ہونٹ پہ پھیری امی کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور ان کی گانڈ اور اوپر اٹھ گئی میں نے زبان پھدی کے دونون ہونٹوں پہ رگڑی اور پھر زبان کو گانڈ کے سوراخ پہ پھیرا جدھر سوراخ کا دہانہ تھا اس پہ زبان کو زور سے پھیرتے ہوئے پھدی کے سوراخ تک لایا امی کا جسم زور سے کانپا اور انہوں نے گانڈ کو اور اوپر اٹھا دیا اور سسکتے ہوئے بولیں عمیر یہ کیا کر رہا ہے گندے بچے کدھر زبان گھسا رہا ہے یہاں سے کیا پیار کر رہا ہے ایسا مت کر ۔ لیکن ان کا جسم یوں ردعمل دے رہا تھا کہ ان کو بہت مزہ مل رہا ہے۔(جاری ہے)

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X