میں نے زبان باہر نکالتے ہوئے اسے تھوڑا گول کیا اور امی کی پھدی کے سوراخ پہ رکھتے ہوئے اندر دھکیلا تو زبان پھسلتی ہوئی ان کی پھدی میں اترتی گئی اور ان کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور وہ کانپ اور لرز اٹھیں اور لرزتی آواز میں بولیں اففف گندے یہ کیا کر رہے ہو میری جان نکل جائے گی اور ان کے ہاتھ میرے سر کے پیچھے سے مجھے اپنی پھدی پہ دباتے گئے اور ان کی ٹانگیں اور اوپر اٹھتی گئیں اور ان کا جسم کمان کی طرح مڑتا گیا میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی سائیدزپہ رکھے اور ان کی پھدی میں زبان کو اندر باہر کرتا گیا میری ناک ان کی پھدی کے اوپری حصے سے لگتی اور ٹھوڑی ان کی گانڈ کی موری پہ لگتی اور زبان پھدی کے لبعں سے رگڑ کھاتی ان کے اندر گھس جاتی ان کی پھدی گیلی ہو رہی تھی اور مجھے اس کا بہت مزہ آ رہا تھا میں نے جب دیکھا کہ امی اس کو بہت انجوائے کر رہی ہیں تو میں اور تیزی سے زبان کو حرکت دینے لگا اور ان کی پھدی کو چاٹنے لگا اور زبان کو پھدی کے اندر سے باہر نکالتا اور پھر پھدی کے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے پھر پھدی میں گھسا دیتا اسی طرح کرتے میں نے زبان کو باہر نکالا اور پھر گانڈ کے سوراخ کے دھانے پہ رکھ کہ زبان کو دبایا تو زبان کی نوک گانڈ کی موری کو کھولتی ہوئی تھوڑی سی اندر گئی امی نے جیسے ہی زبان کو اپنی گانڈ کی موری میں اترتے محسوس کیا تو ان کے بھاری وجود میں ایک بھونچال آ گیا اور وہ زور سے بولیں افففف عمیر گندے بدتمیز ادھر تو زبان نا ڈال اب گندے۔ میں نے زبان کو اور زور سے ان کی موری میں گھسیڑنے کی کوشش جاری رکھی اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا ۔ میں نے گانڈ کو چاٹتے ہوئے پھر پھدی پہ حملہ کیا اور چاٹنے لگا امی نے اب اپنی ٹانگیں خود اٹھا رکھی تھیں اور وہ مجھے کسی کام سے نہیں روک رہی تھیں میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور وہ پسینے سے بری طرح بھیگ چکی تھیں ۔ میں پھدی چوستے چوستے ان کے پیٹ کی طرف بڑھا اور اس پہ پیار کرتے کرتے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے پاوں کو اپنے چہرے کے قریب کیا اور پاوں کے تلوے چاٹنے لگ گیا امی مدہوش ہو چکی تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے چہرے کی طرف دیکھ کر پھدی پہ لن کا دباو ایک دم بڑھا دیا اور میرا لن ان کی گیلی پھدی کی دیواریں کھولتا ہوا آدھے سے زیادہ اندر دھنس گیا امی کا جسم ایک دم لرزا اور ان کے منہ سے نہیں کی چیخ نکلی اور انہوں نے تڑپ کر میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ان کی ٹانگیں میرے ہاتھ میں تھیں اور ان کے چوتڑ بیڈ کے کونے پہ تھے ان کو اس کوشش میں کوئی کامیابی نا ملی
امی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں ان کے چہرے پہ درد اور کرب کے تاثرات تھے اور انہوں نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کپکپاتی آواز میں بولیں عمیر بہت غلط ہو گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پلیز اسے باہر نکال لو میں ماں ہوں تمہاری ۔ ان کی بات سن کہ میں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو وہ اگر چاہتیں تو میرے نیچے سے نکل بھی سکتی تھیں لیکن انہوں نے لن اندر جاتے ہوئے مزاحمت تو کی تھی لیکن اب ان کی پھدی مجھے اپنے لن کے گرد کھلتی اور بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور ان کے ہاتھ بھی میرے کندھوں پہ تھے جب کہ ان کے چہرے سے تھوڑی پشیمانی جھلک رہی تھی میں نے ان کی بات سن کر لن کو تھوڑا پیچھے کھینچا جس سے ان کی پھدی کی دیواروں سے لن رگڑ کھاتا ہوا باہر کی طرف نکلا اس سے پہلے کہ لن کی ٹوپی باہر نکلتی میں نے پھر ایک زوردار دھکا لگا کہ لن ان کی پھدی میں اتار دیا میرا یہ دھکا لگنے سے ان کے ممے اوپر کی طرف اچھل کر واپس جگہ پہ آئے اور ان کے منہ سے بھی ہلکی سی سسکی نکلی میں نے مموں کی اچھل کود کے نظارے کو بہت انجوائے کیا اور پھر ایک دھکا لگایا ممے پھر اسی طرح اچھلے تو مجھے بہت مزہ آنے لگا میں نے پھر دھکوں کی سپیڈ تیز کرنا شروع کر دی اور ہر دھکے پہ ممے اچھلتے جاتے مجھے یہ منظر اتنا دلکش لگا کہ میں کچھ بولے بغیر ان کے مموں کو دیکھتے جھٹکے لگانے لگا امی ہلکی ہلکی سسک رہی تھیں اور ان کے ممے ہر دھکے پہ اچھلتے جا رہے تھے مجھے سرور کی ایک نئی منزل مل چکی تھی جس کی مجھے کوئی توقع نہ تھی اور برسوں پہلے امی کے جسم سے لزت کشید کرنے کا خواب اب جا کر شرمندہ تعبیر ہوا تھا سچ کہتے ہیں کہ لگن سچی ہو تو منزلیں خود قدم چومتی ہیں یہ الگ بات کہ لن کی لگن کو یہاں پھدی چوسے جا رہی تھی اور ماں بیٹا ایک نئے رشتے کے بندھن میں جکڑے جا چکے تھے لزتوں کی ایک انوکھی منزل تھی جس نے میری روح تک کو سرشار کر دیا تھا کلثوم آنٹی کے ساتھ جو مزہ ملا تھا وہ مجھے اس مزے کے مقابلے کچھ نہیں لگ رہا تھا یہ تو شائد روح کی تکمیل تھی ادھر امی کی سسکیاں تیز ہو چکی تھی ان کے گھٹنے فولڈ ہو کر ان کے پیٹ سے لگے ہوئے تھے اور میں کی پھدی میں لن گھسائے انہیں چودتا جا رہا تھا شائد اس چودائی کو پانچ منٹ گزرے یا اس سے بھی زیادہ کہ مجھے یوں لگا میرے جسم جا سارا خون سمٹ کر میری ٹانگوں کے درمیان جا رہا ہے ابھی میں اس سرور کو سوچ ہی رہا تھا کہ امی کے منہ سے کچھ بے معنی غراہٹین نکلنے لگیں اور انہوں نے مجھے اپنی ٹانگوں میں کس لیا اور بازو میرے گلے میں ڈالتے ہوئے مجھے اپنے اوپر دبوچ لیا ادھر میری بھی بس ہو گئی اور میں بھی ایک جھٹکا لگاتے ہوئے ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا
میں فارغ ہوتے ہی امی پہ گرتا گیا اور ان کا جسم بھی ڈھیلا پڑتا گیا مجھے لن کے ارد گرد ان کی پھدی کی چکناہٹ واضح محسوس ہو رہی تھی میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک شرمیلی سی آسودگی رقص کر رہی تھی اور ان کی بند آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے چھوٹی بہن کی طرف دیکھا تو وہ سو رہی تھی میں ابھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ امی بولیں بڑی جلدی خیال آیا ہے کہ کوئی اور بھی اس کمرےمیں ہے اگر وہ دیکھ لیتی تو ۔ان کی آنکھیں بند ہی تھیں اور سانس نارمل انداز سے چل رہی تھی میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی نہیں یاد رہا نا اور اگر دیکھ بھی لیتی تو یہی سمجھتی کہ میں آپ سے پیار کر رہا ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ تو نہیں ہے ۔ امی نے شرمیلی مسکان سے کہا بدتمیز بس باتیں ہی بناتے ہو چلو اب نیچے اترو میں نہا لوں تمہارے ابا بھی آتے ہوں گے میرا لن ابھی ان کی پھدی میں تھا اور آہستہ سے سکڑ رہا تھا۔ میں نے ان کے چہرے کو ہاتھ میں تھام کر کہا کیا اب بھی آپ یہی کہو گی کہ مجھے کچھ نہیں آتا؟ امی نے میری طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کنجر زیادہ باتیں نا کرو اور نیچے اترو اب گدھے کہیں کے۔ میں بھی ہنس پڑا اور ہاتھ آگے بڑھا کر ان کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلکا سا دبا دیا اور ان کے اوپر سے نیچے اترنے کے لیے لن کو ان کی پھدی سےباہر کھینچا جیسے ہی میرا لن ان کی پھدی سے باہر نکلا انہوں نے تیزی سے ایک ہاتھ نیچے کر کہ اپنی پھدی پہ رکھا اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں میں نے ان کی طرف دیکھا تو بولیں اب جلدی سے نہا لو اور دیکھو کوئی نشان تو نہیں اور خود بھی مڑ کہ بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئیں ۔ان کے ننگے وجود کو دیکھتے میرا پھر موڈ بن رہا تھا جیسے ہی میں نے ان کی طرف اس نظر سے دیکھا وہ ایک دم میرھ طرف مڑتے ہوئے بولیں بدتمیز چلو بس اب اور کچھ بھی نہیں کرنا اور باتھ کی طرف دوڑنے کے انداز میں گھس گئیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ کی طرف بڑا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے باتھ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر میں نے آرام سے وہ کوشش ناکام بنا دی اور دروازہ کھول کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کہ ہنستے ہوئے دروازہ بند کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور بولین بے شرم سب کچھ تو کر چکے ہو اب مجھے نہانے دو مجھے تنگ کرو گے تو اگلی باد کچھ نہیں دوں گی۔ میں نے دروازہ اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا امی تنگ کون حرامی کر رہا ہے میں تو سب کچھ کھولنے کے چکر میں ہوں ۔ اندر سے امی نے ہنستے ہوئے کہا اففف کتنا بدتمیز بیٹا ہے کاش اس رات میں چوپا لگا لیتی یا گانڈ ہی مروا لیتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا ۔ میں نے دروازے کو زور لگاتے ہوئے کہا افسوس کیوں کر رہی ہیں یہ دونوں کام آپ اب بھی کر سکتی ہو اور میں پوری مدد کروں گا
امی دروازے کو دھکیل کر بند کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور میں دروازے کو اندر دھکیل کر کھول رہا تھا دروازے کو دھکا دیتے دیتے میں نے کہا امی کھول دو نا اب اندر آنے دو میری مراد دروازہ کھولنے سے تھی امی نے جواب دیا کھول بھی دی ہے اور ایک بار اندر بھی لے لیا ہے اب اور نہیں کرنے دوں گی اور بات ختم کر کے ہنسنے لگ گئی اور دروازے کو بند کرنے کے لیے اسی طرح دھکا لگانا جاری رکھا ۔ میں نے دروازے کو دھکیلتے ہوئے کہا امی جتنی دیر ادھر لگا رہی ہیں اتنی دیر میں پھر کام ہو بھی گیا ہوتا دروازہ کھول دیں نا پلیز میں نے باہر سے پھر آواز دی ۔ انہوں نے کہا بدتمیز اب بس بھی کر دو ایک بار بہت ہے پھر جب موقع ملے گا تو دیکھیں گے ۔ میں نے پھر منت بھرے لہجے میں کہا امی پلیزصرف دیکھنے دیں میں اور کچھ بھی نہیں کروں گا انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے سب کچھ تم نہیں رہ سکو گے اور پھر انہوں نے دروازہ کھول دیا میں تیزی سے اندر داخل ہوا کہ ان کا ارادہ نا بدل جائے انہوں نے جب مجھے دوڑ کہ باتھ میں گھستے دیکھا تو منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگ گئیں اور بولیں عمیر بہت احتیاط کرنا کسی کو شک ہو گیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے اپنی کسی بھی حرکت سے ہماری یہ بے تکلفی کبھی ظاہر نا ہونے دینا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پریشانی کے آثار تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ یہ کوئی عام بات تو نا تھی کہ مان اور بیٹے کا یوں تعلق بن جائے میں ان کے قریب ہوا اور ان کے ننگے جسم سے لپٹ گیا اور ان کے بھاری بھرکم متناسب بدن کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں بھر لیا اور ان کے گال چومتے ہوئے کہا امی جیسا آپ کہو گی ویسا ہی ہو گا آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کبھی کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا اور نا میری حرکت سے ایسا کچھ ظاہر ہو گا وہ میرے بازوں میں کسمساتے ہوئے بولیں میرا بچہ میرے لرل مجھے تم سے امید بھی یہی ہے کہ ماں کی لاج رکھو گے اور یہ راز راز ہی رہے گا جیسے میں نے تمہارا اور کلثوم کا رکھا تھا ۔میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے منہ اوپر کرتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے چاہے تو انہوں نے اپنا چہرہ نیچے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیے اور میرا نچلا ہونٹ اپنے سرخ میٹھے موٹے ہونٹوں میں بھر بھر کہ چوسنے لگیں میں نے بھی ان کے اوپری ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور اسے آب حیات سمجھ کر چوسنے لگ گیا اور ہونٹ چوستے چوستے میں ان کے گورے ننگے بدن کو سہلاتا گیا میں اپنے ہاتھ ان کے کندھوں کے نیچے تک لاتا اور پوری کمر پہ پھیرتے ہوئے ان کی گانڈ کی پہاڑیوں تک لے جاتا اور گانڈ کی پہاڑیوں کو ہاتھ میں دبا کر دبوچتا ان پہ ہلکا سا تھپڑ مارتا اور پھر دونوں ہاتھ اوپر لے آتا انہوں نے بھی اپنے بازو میرے گرد حائل کیے ہوئے تھے اور مجھے بے تحاشہ چومے جا رہی تھیں ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پہ ہلکا ہلکا پسینہ آیا ہوا تھا اور ان کے ممے تیز سانس لینے کی وجہ سےمجھے اپنی چھاتی پہ پھولتے محسوس ہو رہے تھے یہ وہ لزت کی ابتدا تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی یہ وہ سرور تھا جس کے آگے تمام نشے ہار مان چکے تھے میں دیوانوں کی طرح ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور وہ میرا ساتھ دئیے جا رہی تھیں کافی دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ الگ کئیے اور ان کے مموں پہ ٹوٹ پڑا میں نے ان کا ایک مما منہ میں بھرنے کی ناکام کوشش کے بعد جتنا بھی منک میں آیاتھا اسے چوسنے لگ گیا اور دوسرے ممے کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگ گیا۔ امی کے ممے کلثوم آنٹی کی نسبت ٹھوس اور اچھی حالت میں تھے شائد ایک ہاتھ میں رہنے والی عورت کے جسم پہ کبھی خزاں نہیں آتی اس میں ایک کشش ہمیشہ رہتی ہے امی کی سسکیاں تیز ہوتی گئیں اور وہ مجھے اپنے ممے چوستے ہوئے بھاری پلکوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک خماری ایک مستی سی چھائی ہوئی تھی اور وہ میرا سر سہلاتی جا رہی تھیں اور تیز تیز سسکیاں بھر رہی تھیں اور میں ہوش ہ ہواس سے بےگانہ ہو کر ان کے ممے چوستا جا رہا تھا۔ اففف اب بس بھی کرو میرے دیوانے امی نے سسکتے ہوئے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے آپ سے جوڑنے کی کوشش کی میں سمجھ گیا کہ اب وہ گرم ہو چکی ہیں میں نے ممے کی نپل کو دانت سے ہلکا سا کاٹا اور پھر دونوں ہونٹوں کے درمیاں ہلکا سا دبا کہ اپنے ہاتھ ان کے گانڈ کے گرد رکھتے ہوئے کہا امی جی ۔۔ اور گانڈ کو ہلکا سا دبا دیا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور بولیں بیٹا یہ بہت سکون کا کام ہے یہ گھر جا کہ دوں گی ابھی پلیز یہ گانڈ نہیں دے سکتی ۔ میں ان کی بات سے حیران رہ گیا کہ وہ میرے کہے بغیر ہی میری بات سمجھ گئی ہیں ۔ میں نے امی کو بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا جیسے میری امی کہیں گی ویسا ہی ہو گا اور میں نے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور انہوں نے بھی میرے ہونٹوں کو اپنے نرم ہونٹوں میں دبا لیا۔(جاری ہے)
امی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں ان کے چہرے پہ درد اور کرب کے تاثرات تھے اور انہوں نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کپکپاتی آواز میں بولیں عمیر بہت غلط ہو گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پلیز اسے باہر نکال لو میں ماں ہوں تمہاری ۔ ان کی بات سن کہ میں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو وہ اگر چاہتیں تو میرے نیچے سے نکل بھی سکتی تھیں لیکن انہوں نے لن اندر جاتے ہوئے مزاحمت تو کی تھی لیکن اب ان کی پھدی مجھے اپنے لن کے گرد کھلتی اور بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور ان کے ہاتھ بھی میرے کندھوں پہ تھے جب کہ ان کے چہرے سے تھوڑی پشیمانی جھلک رہی تھی میں نے ان کی بات سن کر لن کو تھوڑا پیچھے کھینچا جس سے ان کی پھدی کی دیواروں سے لن رگڑ کھاتا ہوا باہر کی طرف نکلا اس سے پہلے کہ لن کی ٹوپی باہر نکلتی میں نے پھر ایک زوردار دھکا لگا کہ لن ان کی پھدی میں اتار دیا میرا یہ دھکا لگنے سے ان کے ممے اوپر کی طرف اچھل کر واپس جگہ پہ آئے اور ان کے منہ سے بھی ہلکی سی سسکی نکلی میں نے مموں کی اچھل کود کے نظارے کو بہت انجوائے کیا اور پھر ایک دھکا لگایا ممے پھر اسی طرح اچھلے تو مجھے بہت مزہ آنے لگا میں نے پھر دھکوں کی سپیڈ تیز کرنا شروع کر دی اور ہر دھکے پہ ممے اچھلتے جاتے مجھے یہ منظر اتنا دلکش لگا کہ میں کچھ بولے بغیر ان کے مموں کو دیکھتے جھٹکے لگانے لگا امی ہلکی ہلکی سسک رہی تھیں اور ان کے ممے ہر دھکے پہ اچھلتے جا رہے تھے مجھے سرور کی ایک نئی منزل مل چکی تھی جس کی مجھے کوئی توقع نہ تھی اور برسوں پہلے امی کے جسم سے لزت کشید کرنے کا خواب اب جا کر شرمندہ تعبیر ہوا تھا سچ کہتے ہیں کہ لگن سچی ہو تو منزلیں خود قدم چومتی ہیں یہ الگ بات کہ لن کی لگن کو یہاں پھدی چوسے جا رہی تھی اور ماں بیٹا ایک نئے رشتے کے بندھن میں جکڑے جا چکے تھے لزتوں کی ایک انوکھی منزل تھی جس نے میری روح تک کو سرشار کر دیا تھا کلثوم آنٹی کے ساتھ جو مزہ ملا تھا وہ مجھے اس مزے کے مقابلے کچھ نہیں لگ رہا تھا یہ تو شائد روح کی تکمیل تھی ادھر امی کی سسکیاں تیز ہو چکی تھی ان کے گھٹنے فولڈ ہو کر ان کے پیٹ سے لگے ہوئے تھے اور میں کی پھدی میں لن گھسائے انہیں چودتا جا رہا تھا شائد اس چودائی کو پانچ منٹ گزرے یا اس سے بھی زیادہ کہ مجھے یوں لگا میرے جسم جا سارا خون سمٹ کر میری ٹانگوں کے درمیان جا رہا ہے ابھی میں اس سرور کو سوچ ہی رہا تھا کہ امی کے منہ سے کچھ بے معنی غراہٹین نکلنے لگیں اور انہوں نے مجھے اپنی ٹانگوں میں کس لیا اور بازو میرے گلے میں ڈالتے ہوئے مجھے اپنے اوپر دبوچ لیا ادھر میری بھی بس ہو گئی اور میں بھی ایک جھٹکا لگاتے ہوئے ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا
میں فارغ ہوتے ہی امی پہ گرتا گیا اور ان کا جسم بھی ڈھیلا پڑتا گیا مجھے لن کے ارد گرد ان کی پھدی کی چکناہٹ واضح محسوس ہو رہی تھی میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک شرمیلی سی آسودگی رقص کر رہی تھی اور ان کی بند آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے چھوٹی بہن کی طرف دیکھا تو وہ سو رہی تھی میں ابھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ امی بولیں بڑی جلدی خیال آیا ہے کہ کوئی اور بھی اس کمرےمیں ہے اگر وہ دیکھ لیتی تو ۔ان کی آنکھیں بند ہی تھیں اور سانس نارمل انداز سے چل رہی تھی میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی نہیں یاد رہا نا اور اگر دیکھ بھی لیتی تو یہی سمجھتی کہ میں آپ سے پیار کر رہا ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ تو نہیں ہے ۔ امی نے شرمیلی مسکان سے کہا بدتمیز بس باتیں ہی بناتے ہو چلو اب نیچے اترو میں نہا لوں تمہارے ابا بھی آتے ہوں گے میرا لن ابھی ان کی پھدی میں تھا اور آہستہ سے سکڑ رہا تھا۔ میں نے ان کے چہرے کو ہاتھ میں تھام کر کہا کیا اب بھی آپ یہی کہو گی کہ مجھے کچھ نہیں آتا؟ امی نے میری طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کنجر زیادہ باتیں نا کرو اور نیچے اترو اب گدھے کہیں کے۔ میں بھی ہنس پڑا اور ہاتھ آگے بڑھا کر ان کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلکا سا دبا دیا اور ان کے اوپر سے نیچے اترنے کے لیے لن کو ان کی پھدی سےباہر کھینچا جیسے ہی میرا لن ان کی پھدی سے باہر نکلا انہوں نے تیزی سے ایک ہاتھ نیچے کر کہ اپنی پھدی پہ رکھا اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں میں نے ان کی طرف دیکھا تو بولیں اب جلدی سے نہا لو اور دیکھو کوئی نشان تو نہیں اور خود بھی مڑ کہ بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئیں ۔ان کے ننگے وجود کو دیکھتے میرا پھر موڈ بن رہا تھا جیسے ہی میں نے ان کی طرف اس نظر سے دیکھا وہ ایک دم میرھ طرف مڑتے ہوئے بولیں بدتمیز چلو بس اب اور کچھ بھی نہیں کرنا اور باتھ کی طرف دوڑنے کے انداز میں گھس گئیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ کی طرف بڑا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے باتھ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر میں نے آرام سے وہ کوشش ناکام بنا دی اور دروازہ کھول کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کہ ہنستے ہوئے دروازہ بند کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور بولین بے شرم سب کچھ تو کر چکے ہو اب مجھے نہانے دو مجھے تنگ کرو گے تو اگلی باد کچھ نہیں دوں گی۔ میں نے دروازہ اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا امی تنگ کون حرامی کر رہا ہے میں تو سب کچھ کھولنے کے چکر میں ہوں ۔ اندر سے امی نے ہنستے ہوئے کہا اففف کتنا بدتمیز بیٹا ہے کاش اس رات میں چوپا لگا لیتی یا گانڈ ہی مروا لیتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا ۔ میں نے دروازے کو زور لگاتے ہوئے کہا افسوس کیوں کر رہی ہیں یہ دونوں کام آپ اب بھی کر سکتی ہو اور میں پوری مدد کروں گا
امی دروازے کو دھکیل کر بند کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور میں دروازے کو اندر دھکیل کر کھول رہا تھا دروازے کو دھکا دیتے دیتے میں نے کہا امی کھول دو نا اب اندر آنے دو میری مراد دروازہ کھولنے سے تھی امی نے جواب دیا کھول بھی دی ہے اور ایک بار اندر بھی لے لیا ہے اب اور نہیں کرنے دوں گی اور بات ختم کر کے ہنسنے لگ گئی اور دروازے کو بند کرنے کے لیے اسی طرح دھکا لگانا جاری رکھا ۔ میں نے دروازے کو دھکیلتے ہوئے کہا امی جتنی دیر ادھر لگا رہی ہیں اتنی دیر میں پھر کام ہو بھی گیا ہوتا دروازہ کھول دیں نا پلیز میں نے باہر سے پھر آواز دی ۔ انہوں نے کہا بدتمیز اب بس بھی کر دو ایک بار بہت ہے پھر جب موقع ملے گا تو دیکھیں گے ۔ میں نے پھر منت بھرے لہجے میں کہا امی پلیزصرف دیکھنے دیں میں اور کچھ بھی نہیں کروں گا انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے سب کچھ تم نہیں رہ سکو گے اور پھر انہوں نے دروازہ کھول دیا میں تیزی سے اندر داخل ہوا کہ ان کا ارادہ نا بدل جائے انہوں نے جب مجھے دوڑ کہ باتھ میں گھستے دیکھا تو منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگ گئیں اور بولیں عمیر بہت احتیاط کرنا کسی کو شک ہو گیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے اپنی کسی بھی حرکت سے ہماری یہ بے تکلفی کبھی ظاہر نا ہونے دینا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پریشانی کے آثار تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ یہ کوئی عام بات تو نا تھی کہ مان اور بیٹے کا یوں تعلق بن جائے میں ان کے قریب ہوا اور ان کے ننگے جسم سے لپٹ گیا اور ان کے بھاری بھرکم متناسب بدن کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں بھر لیا اور ان کے گال چومتے ہوئے کہا امی جیسا آپ کہو گی ویسا ہی ہو گا آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کبھی کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا اور نا میری حرکت سے ایسا کچھ ظاہر ہو گا وہ میرے بازوں میں کسمساتے ہوئے بولیں میرا بچہ میرے لرل مجھے تم سے امید بھی یہی ہے کہ ماں کی لاج رکھو گے اور یہ راز راز ہی رہے گا جیسے میں نے تمہارا اور کلثوم کا رکھا تھا ۔میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے منہ اوپر کرتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے چاہے تو انہوں نے اپنا چہرہ نیچے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیے اور میرا نچلا ہونٹ اپنے سرخ میٹھے موٹے ہونٹوں میں بھر بھر کہ چوسنے لگیں میں نے بھی ان کے اوپری ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور اسے آب حیات سمجھ کر چوسنے لگ گیا اور ہونٹ چوستے چوستے میں ان کے گورے ننگے بدن کو سہلاتا گیا میں اپنے ہاتھ ان کے کندھوں کے نیچے تک لاتا اور پوری کمر پہ پھیرتے ہوئے ان کی گانڈ کی پہاڑیوں تک لے جاتا اور گانڈ کی پہاڑیوں کو ہاتھ میں دبا کر دبوچتا ان پہ ہلکا سا تھپڑ مارتا اور پھر دونوں ہاتھ اوپر لے آتا انہوں نے بھی اپنے بازو میرے گرد حائل کیے ہوئے تھے اور مجھے بے تحاشہ چومے جا رہی تھیں ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پہ ہلکا ہلکا پسینہ آیا ہوا تھا اور ان کے ممے تیز سانس لینے کی وجہ سےمجھے اپنی چھاتی پہ پھولتے محسوس ہو رہے تھے یہ وہ لزت کی ابتدا تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی یہ وہ سرور تھا جس کے آگے تمام نشے ہار مان چکے تھے میں دیوانوں کی طرح ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور وہ میرا ساتھ دئیے جا رہی تھیں کافی دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ الگ کئیے اور ان کے مموں پہ ٹوٹ پڑا میں نے ان کا ایک مما منہ میں بھرنے کی ناکام کوشش کے بعد جتنا بھی منک میں آیاتھا اسے چوسنے لگ گیا اور دوسرے ممے کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگ گیا۔ امی کے ممے کلثوم آنٹی کی نسبت ٹھوس اور اچھی حالت میں تھے شائد ایک ہاتھ میں رہنے والی عورت کے جسم پہ کبھی خزاں نہیں آتی اس میں ایک کشش ہمیشہ رہتی ہے امی کی سسکیاں تیز ہوتی گئیں اور وہ مجھے اپنے ممے چوستے ہوئے بھاری پلکوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک خماری ایک مستی سی چھائی ہوئی تھی اور وہ میرا سر سہلاتی جا رہی تھیں اور تیز تیز سسکیاں بھر رہی تھیں اور میں ہوش ہ ہواس سے بےگانہ ہو کر ان کے ممے چوستا جا رہا تھا۔ اففف اب بس بھی کرو میرے دیوانے امی نے سسکتے ہوئے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے آپ سے جوڑنے کی کوشش کی میں سمجھ گیا کہ اب وہ گرم ہو چکی ہیں میں نے ممے کی نپل کو دانت سے ہلکا سا کاٹا اور پھر دونوں ہونٹوں کے درمیاں ہلکا سا دبا کہ اپنے ہاتھ ان کے گانڈ کے گرد رکھتے ہوئے کہا امی جی ۔۔ اور گانڈ کو ہلکا سا دبا دیا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور بولیں بیٹا یہ بہت سکون کا کام ہے یہ گھر جا کہ دوں گی ابھی پلیز یہ گانڈ نہیں دے سکتی ۔ میں ان کی بات سے حیران رہ گیا کہ وہ میرے کہے بغیر ہی میری بات سمجھ گئی ہیں ۔ میں نے امی کو بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا جیسے میری امی کہیں گی ویسا ہی ہو گا اور میں نے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور انہوں نے بھی میرے ہونٹوں کو اپنے نرم ہونٹوں میں دبا لیا۔(جاری ہے)
Comment