چندر مکھی ایک ایسی کہانی جس نے چار سو دہشت اور سیکس پھیلا رکھی تھی مگر کس وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا
Announcement
Collapse
No announcement yet.
چندر مکھی
Collapse
X
-
چندر مکھی کا اصلی نام کالی تھا جو کہ یتیم خانے میں پل بڑھ کر جوان ہوا تھا اب وه گاؤں میں سردار بخت کے پاس ملازم تھا جسمانی طور پر وه ہٹا کٹا تھا اور لن بھی موٹا اور لمبا تھابختو کے ڈیرے پر ہفتے میں ایک بار ننگا ناچ ہوتا تھا گاؤں کی عوام اپنی لڑکیاں عیاشی کے بھینٹ چڑھا کر قرض معاف کرواتے تھے
- Likes 29
Comment
اس کی بہنیں شادی کی عمر گزار کر گھر میں بیٹھی تھیں،جائداد کے حصے بخرے نہ ہوں اسی لئے وہ کبھی بیاہی ہی نہ گئی تھیں۔
بلقیس اس کی بیوی بھی ایک زمیندار خاندان سے تھی
چوہدری ایک دن ایک غریب لڑکی کو لایا اور ایک کمرے میں اسے زبردستی چودنے لگا۔ لڑکی کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔
بلقیس اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گئی، لڑکی چوہدری کے بھاری وجود کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ کم خوراک اور سخت محنت نے اسے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی گوشت آتا۔ چوہدری شراب کے نشے میں اس کی چوت پھاڑنے حد تک مار رہاتھا۔ بلقیس کچھ لمحے تو یہ ننگا ناچ دیکھتی رہی پھر آ گئی۔
لڑکی کی چیخیں اب بند ہو گئی تھیں، شاید وہ درد سے بیگانہ گئی تھی یا ہوش سے۔ ایک ملازمہ اندر گئی اور ادھ مری لڑکی کو ایک چادر میں لپیٹ کر اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔
اس لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے کنوارے خون سے سنے چند لال نوٹوں پر جھپٹا،نیم بےہوش بیٹی باپ کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اپنی پہلی کمائی پر دل ہی دل میں نازاں ہوئی۔
بلقیس کو اپنی بڑی نند نصرت جو تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی وہ اپنے کمرے ہی مل گئی۔ اس نے بلقیس کو
بلا لیا۔
نصرت بولی: کی ہویا بھرجائی، آج تجھے نیند نہیں آئی۔
بلقیس : نیند تو شاید آ جاتی مگر اس نمانی کی چیخوں نے سونے نہ دیا۔
نصرت ہنسی: وے جھلی نہ ہو تو یہ کوئی نویں گل ہے کیا۔
بلقیس: نویں تو نہیں بس آج عجیب سا درد ہوا تھا مجھے۔
نصرت بولی: کیسا درد بھرجائی کھل کے بول۔
بلقیس: رہن دے وڈی باجی تو میری چنتا نہ کر سو جا۔
نصرت: وے بھلیے لوکے میں نے سو کے کیا کر لینا تو بیٹھ اور بتا۔
بلقیس: باجی مجھے اج ایک عجیب سا درد ہویا کہ چوہدری صیب میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتا۔
نصرت: تیرے ساتھ مطلب، تو تو اس کی زنانی ہے، تیرے ساتھ ایسا کیوں کرے گا۔
بلقیس: کنا ویلے ہو گیا چوہدری نے مجھے ھاتھ نہیں لگایا ویاہ کے بعد تو بس وہی کمی کمیں عورتیں یا رنڈیاں ہی اس کے ساتھ سوتی ہیں۔ اج میرے من میں ہوک اٹھی کہ کنا چنگا ہوتا کہ اس نمانی کے بدلے میں چیخ رہی ہوتی۔چوہدری بھلے درد دیتا پر دیتا تو صحیح۔
نصرت نے گہری سانس لی اور بولی: بھرجائی یہ جو مرد ہوتا ہے نا اسے اپنا نالہ تو کھلا پسند ہے مگر گھر کی عورتوں کا نالہ اسے کسا ہوا چاہئیے۔ اپنے لئے تو سارے عورتیں جائز ہیں پر اپنی عورت کے لئے سب حرام۔ جس آگ میں تو سال سے جل رہی ہے میں اٹھارہ سال سے جل رہی ہوں۔
جو درد تجھے اج ہویا ہے وہ مجھے اٹھارہ سال پہلے ہوتا تھا جب کسی نمانی کی چیخیں نکلتی تو میں سوچتی کہ کوئی میری بھی یوں چیخیں نکالے۔ جب کسی کو جھوٹا چوہدری کو کھلانے کی سزا ملتی تو میں روتی کاش اس گاؤں کا ہر مرد میرے اوپر چڑھ ڈورے، میں مرد کی نیچے سے ہی مر جاؤں۔
بلقیس یہ سب سن کے حیران تھی کہ اس کی نند اسی دور سے گزر چکی ہے۔
نصرت بولی: میری اگ تو بجھ گئی ہے تجھے تو اٹھارواں لگا ہے تیری شلوار تو ابھی تر ہے تو اس اگ میں کیوں جلے۔
بلقیس: کیا مطلب وڈی باجی۔
نصرت: ویکھ میرا ویاہ ہوتا تو اج تیرے جتنی میری دھی ہوتی، مرد کی اگ پہ تو قطرے گرتے رہتے ہیں عورت کی اگ اسے آپ بجھانی پڑتی ہے۔ اگلا بوہا(دروازہ) بند ہوے تے پچھلی کھڑکی کھول لینی چاہی دی ہے۔
بلقیس:مگر۔۔ ۔ ۔
نصرت: اگر تو اس اگ کو پالتی رہی تو اک دن یہ تجھے ساڑ دے گی، چوہدری کا کیا ہے نویں زنانی آ جائے گی، تجھے مرجھانا نہیں ہے بلکہ ایس کو نال نال بجھانا بھی ہے۔ بانی گرتا رہے تے زمین بنجر نہیں ہوندی۔
بلقیس: لیکن اگر کسی کو پتہ لگ فیر۔
نصرت: فیر کی روز روز مرنے سے اک واری چنگا۔
بلقیس کسی حد تک مطمئن ہو گئی تھی مگر ڈر بھی رہی تھی۔
بلقیس: پر یہ ہو گا کیسے۔
نصرت: ویسے جیسے چوہدری کڑی لاتا ہے تو منڈے لے ائے گی۔
بلقیس: مگر کیسے
نصرت: تو مجھ پہ چھوڑ دے، پرسوں کی رات چوہدری کے ڈیرے پہ کنجریاں ناچیں گی، چوہدری ویلے سے نہیں مڑے گا، تو بس تیار رہنا۔
بلقیس جو شاید پچھلے سوا سالہ شادی شدہ زندگی میں ایک دو بار چدی تھی اب اس آگ کے ھاتھوں بے چین ہو گئی تھی
- Likes 57
Comment
Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)
Powered by vBulletin® Version 5.7.5
Copyright © 2024 MH Sub I, LLC dba vBulletin. All rights reserved.All times are GMT+5. This page was generated at 12:24 PM.Working...X
Comment