Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گندا خاندان ۔۔۔۔۔۔از معلوم

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    گندا خاندان
    قسط 4
    (ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )





    جوان ہوتے انسان کو بچپن کی یادوں ، گزرے وقتوں کی تلخیوں ناچاقیوں ، خوشگوار لمحوں کی سوچیں بیک وقت ذہن میں آتی ہیں ۔
    بعض اوقات ذہن ماضی کے دریچوں سے خوشگوار لمحات کریدنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوائے تلخیوں اور بری یادوں کے کچھ نہیں ملتا۔۔۔
    عالیہ باجی کے چلے جانے کے کئیں دن بعد معاملاتِ زندگی روٹین کے لحاظ سے چلتے رہے۔
    اب میرا اور فہد کآ سامنا بھی گھر میں کم ہی ہوتا تھا اگر ھوتا بھی تو ہم ایک دوسرے کو دیکھے بغیر گزر جاتے ۔۔
    زرین اور ماہم فہد کی نسبت زیادہ مجھے ترجیح دیتی تھیں کیونکہ میں ان سے زیادہ قریب تھا دوسری طرف فہد کا رویہ جابرانہ ہوتا تھا ابو کی طرح اسلئے بہنیں اس سے زیادہ کلوز نہیں تھیں ۔
    امی بھی اب مجھ سے میرے غصے کی وجہ سے بات چیت نہیں کررہی تھیں ۔۔۔
    ناشتہ کھانا وغیرہ بھی مجھے کبھی ماہم اور زرین دینے آجایا کرتی تھیں کمرے میں ۔۔
    فہد اور امی کی راتوں کی رنگ رلیاں بھی اب نہیں ہورہی تھیں جس دن سے گھر میں ہنگامہ ہوا تھا۔۔۔
    مجھے عالیہ باجی کی کہی ہوئی بہت سی باتیں دماغ میں گردش کرتی تھیں ۔۔۔
    لیکن بہت سارے ادھورے سوالات تھے جنکو جاننے کی جستجو ابھی بھی میرے اندر تھی۔۔۔
    ابو کی وفات پر صرف زرینہ پھپھو اور چچا ہی آئے تھے گاؤں سے۔۔۔
    ثمینہ باجی اور انکے شوہر نہیں آئے تھے۔۔۔
    ہمیں رحیم یار خان اور پتوکی گئے ہوئے بھی کافی سال ہوچکے تھے۔۔۔
    میرے زہن میں اٹھ رہے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کےلئے میں نے عالیہ باجی سے اور امی سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
    میرے دل و دماغ میں امی سے اور عالیہ باجی سے بدتمیزی کرنے کی سخت شرمندگی بھی تھی افسوس طاری تھا۔۔۔
    یہی سوچ کر ایک دن میں نے کالج سے چھٹی کی۔۔۔
    ماہم یونیورسٹی جبکہ زرین کالج گئی ہوئی تھی۔
    فہد اپنے کام پر گیا ہوا تھا۔۔
    صبح ناشتہ امی میرے کمرے میں رکھ کر جا چکی تھی باوجود اسکے کہ امی اور میرے درمیان بول چال بند تھی۔۔۔
    لیکن امی کو پھر بھی میرے کھانے پینے کا احساس تھا وہ اس میں دروغ نہیں کرتی تھیں ۔۔۔
    ناشتہ کرنے کے بعد میں نے امی کو ڈھونڈا امی اپنے کمرے میں نظر نہ آئیں تو میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے کچن میں گیا تو امی سامنے کھڑی کام کررہیں تھیں ۔
    میرے قدموں کی آہٹ سے امی کو اندازہ ہوا تو انہوں نے ترچھی نظروں سے دیکھا اور آگے پھر سے برتن دھونے میں مشغول ہوگئیں ۔
    کئیں دن کی ناراضگی اور شرمندگی میرے دل و دماغ پر طاری تھی۔
    میں نے کچھ نہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ کر اپنے دونوں بازو امی کی گردن میں ڈال کر کہا : امی مجھے معاف کردیں ، آئی ایم سو سوری۔۔
    امی ایک دم سے ہلیں اور آگے کھڑے کھڑے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور پیچھے مڑ کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
    امی رو رہی تھیں ۔
    میں نے بھی اپنے بانہیں کھول کر امی کی پیٹھ کو سہلانے لگا ۔
    میری بھی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے اور میں بار بار انکو سوری بول رہا تھا ، امی نے مجھ سے الگ ہو کر میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھدیا اور کہا : تمہیں اپنی بدتمیزی کا احساس ہوگیا یہی کافی ہے رافعع۔
    امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
    میں نے روتے روتے کہا : امی میں بہت برا بیٹا ہوں نا؟
    امی : نہیں میرے چندا تم بہت اچھے بیٹے ہو۔
    روتے نہیں چلو اندر کمرے میں چلو۔۔۔
    امی مجھے لے کر ماہم کے کمرے میں آگئیں ۔
    ہم دونوں بیڈ پر بیٹھ گئے اور ہمارے درمیان کافی دیر خاموشی رہی ۔۔
    تھوڑی دیر بعد میں نے ہی بات کی شروعات کی : امی مجھے آپسے کچھ باتیں جاننی ہیں ؟
    امی میری طرف دیکھتے ہوئے : کونسی باتیں رافع؟
    رافع : امی ہم رحیم یار خان اور پتو کی کیوں نہیں جاتے کیا ہماری اپنے خاندان والوں سے کوئی لڑائی ہے؟
    امی : نہیں رافعع لڑائی نہیں بس اندر ہی اندر کچھ تلخیاں ناراضگیاں ہوتی ہیں ۔
    لیکن یہ رشتے جیسے بھی ہوں نبھانے پڑتے ہیں آخری وقت تک۔
    میں نے امی کی طرف تجسس سے دیکھتے ہوئے کہا : امی ہماری پھپھو اور چچا وغیرہ ،، ننھیال ددھیال کے بارے میں تو کچھ بتائیں ۔
    ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو اور چچا وغیرہ ؟
    امی : تو تمہیں عالیہ نے کچھ باتیں بتائیں ہونگی ضرور ۔
    رافع : ہاں امی بتائیں تھیں لیکن سوالات کے جوابات ابھی بھی ادھورے ہیں ۔
    امی اشتیاق سے : تو کیا جاننا چاہتے ہو؟
    رافع : امی سب کچھ ۔
    امی : ٹھیک ہے رافعع لیکن پورے جوابات اس جگہ ہی جا کر مل سکتےہیں جہاں کا یہ خمیر ہے۔
    میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن تم کسی بھی رشتے سے اگر اس بنیاد پر نفرت کرو گے تو کوئی رشتہ نہیں نبھا سکو گے۔
    ان رشتوں میں برداشت کرنا پڑتا ہے ، جیسے میں نے کیا تھا شروع شروع میں ۔
    کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں ۔
    رافع اشتیاق سے : تو کیا امی آپکو ابو اور زرینہ پھپھو والا چکر پتہ تھا؟
    امی : ہاں عالیہ نے بتایا تو تھا لیکن مجھے تو یہ بھی خاندان میں سننے کو ملا تھا کہ تمہارے باپ زبیر کے اپنی سے ایک سال بڑی بہن یا عمر میں انکے لگ بھگ ہی ہونگی ، ثمینہ کے ساتھ بھی ایسا کوئی چکر تھا۔
    میں حیرت سے : کیاااا؟
    امی : رافعع لیکن لوگ زیادہ بدنام کرتےہیں مسئلہ اتنا بڑا ہوتا نہیں ،، اوپر سے یہ خاندانی گہما گہمی اور محلے داریاں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ایک کی دس اور دس کی پچاس بنا کر سناتے ہیں ۔
    تمہارے ابو اور زرینہ کا چکر بھی شادی سے بہت سال پہلے جوان عمری میں تھا اسکے بعد نہیں تھا۔۔۔
    رافع : امی مجھے یہ بتاؤ آخری بار ہم رحیم یار خان کب گئے تھے؟
    امی : جب تم نو سال کے تھے ، آج سے نو سال پہلے۔۔
    رافع : تو امی اب کیوں نہیں جاتے؟ کیا آنا جانا بند ہونے کی وجہ ناراضگی ہے؟
    امی : نہیں رافع ناراضگی نہیں ، بس یہ شہر کی زندگی ہماری بہت مختلف ہے دیہات کی زندگی سے ۔۔
    تمہاری ایک پھپھو ثمینہ ضلح رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں رہتی ہے جبکہ چھوٹی والی پھپھو رحیم یار خان کی ہی تحصیل لیاقت پور میں رہتے ہیں ،، دونوں کی شادیاں قریب ہی ہوئیں تھیں ۔
    اسلئے انکا وہاں آنا جانا آسان ہے،، ہم مصروفیت کے باعث نہیں جاتے اور ایک اور بھی وجہ ہے۔
    رافع : کییا وجہ ہے امی؟
    امی : انکے اور ہمارے ماحول میں بہت فرق ہے،، وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتےہیں ، پردہ داری کا خیال رکھتے ہیں ،، تمہارے باپ نے تو ہمیں شروع سے ہی کبھی برقعے یا حجاب نہیں پہنائے،، ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو کے شوہر اس چیز کا خاص خیال کرتےہیں ۔۔۔
    رافع : اچھا تو یہ بات ہے۔۔
    اچھا امی ہمارے کتنے چچا ہیں ، ابو لوگ کتنے بھائی تھے؟
    امی : تمہہارا ایک چچا زولفقار ہے جو ابو سے دو سال چھوٹا ہے وہ پتو کی میں رہتےہیں ۔
    جبکہ ابو کے ایک بڑے بھائی تھے جنکا انتقال بیس سال پہلے ہی ہوگیا تھا وہ بھی پتو کی میں ہی رہتے ہیں ۔
    انکی بیوی بچے وہیں انکے چھوٹے بھائی کے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔
    میں : امی کیا ہماری کوئی زمینیں بھی ہیں پتو کی میں ؟
    امی : پہلے تھیں ، اسکے بعد تمہارے باپ نے اپنے حصے کی زمین بیچ دی تھی اپنے ہی بھائیوں کو۔
    تمہارے باپ کے چاروں بہن بھائیوں نے دیہاتی پنڈ کے ماحول میں نشونما پائی ہے جبکہ تمہارے باپ نے شہر میں نشونما پائی ،، یہاں رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔۔۔
    شروع میں جب تمہارے دادا یہاں آئے تھے تو اپنے سارے بچوں کو لائے تھے،، تمہارے تایا بس پتوکی میں تھے،، بعدازاں چاچا کو بھی یہاں کا ماحول کچھ راس نہ آیا اسلئے وہ بھی شادی کرکے پتوکی میں اپنے گاؤں میں سکونت اختیار کر گئے۔
    اور پھپھو کی شادیاں بھی پھر وہی پنڈ دیہات کے ماحول میں ہوئی ہیں ۔۔۔
    تمہارے ابو کا دماغ یہاں بہت جما انکو یہ ماحول راس آگیا تھا،، ماڈرن خیالات تھے۔
    جبکہ باقی بہن بھائیوں میں اس قسم کی روش نہیں تھی۔۔۔
    میں امی کی باتیں غور و تجسّس سے سن رہا تھا ، ہر نئی بات میرے لئے ایک سسپینس تھی۔
    جاننے کا تجسّس ۔
    جیسے انسانی دماغ کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔
    ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اسکا خیال بھی نہ لایا جائے ۔
    لیکن نہیں ۔
    یہ انسانی دماغ ہے۔
    امی کی باتیں سن کر میں نے ایک اور سوال داغا : کیا اب ہم پتوکی یا اپنی پھپھووؤں کے گھر رحیم یارخان نہیں جاسکتے ؟
    امی میرے طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولیں : جاسکتے ہیں لیکن کیوں پوچھ رہے ہو؟
    میں نے کہا : امی میں جانا چاہتا ہوں۔
    مجھے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی خواہش ہے۔
    کیا ہمارا وہاں کوئی گھر بھی ہے؟
    امی : ہاں بیٹا گھر بھی ہے جو کہ ہمارا تھا اب وہ کرائے پر دے رکھا ہے کسی کو۔
    اسکا ہر ماہ کا کرایہ تمہارے چاچو مجھے بھجوا دیتےہیں ۔۔۔
    رافع : امی ٹھیک ہے میں آپکے ساتھ جانا چاھتا ہوں اپنے گاؤں پتو کی اور اپنی پھپھوؤں کے گھر۔۔۔
    امی کچھ سوچتے ہوئے : اچھا ٹھیک ہے چلے جائیں گے کچھ سوچتی ہوں اس بارے میں ۔
    اب تم لیٹ جاؤ ۔
    آرام کرو۔
    امی نے پیار سے میرا ماتھا چوما اور مجھے لٹا دیا۔۔
    امی نے کہا : آج تم کالج کیوں نہیں گئے۔
    میں : امی میں نے جان بوجھ کر چھٹی کی ، آپسے بدتمیزی کرکے اندر ہی اندر پچھتا رہا تھا ،، آپسے معافی مانگنی تھی۔
    امی میرے طرف پیار سے دیکھتے ہوئے اور میرے بال سہلاتے ہوئے : میرے چندا تمہاری ماں ہوں آخر کب تک تم سے دور رہونگی۔
    امی میرے اوپر ہوتے ہوئے میرے ماتھے کو چومنے کے لئے جھکی تو انکی چھاتیاں میرے سینے میں پیوست ہوگئیں جس سے میرے جسم میں جھرجھری سی ہوئی۔
    یہ پہلی بار تھا کہ کسی عورت کے لمس کو میں نے اپنے جسم پر محسوس کیا۔
    میرا ذہن مجھے کوسنے لگا۔
    امی پھر میرے اوپر سے اٹھ کر باہر جانے کےلئے بیڈ سے اٹھیں تو یہ دیکھ کر مجھے ایک زور دار جھٹکا لگا کہ امی کی قمیض انکے بڑے بڑے کولہوں میں دھنسی ہوئی تھی۔
    لیکن یہ منظر چند لمحوں کا ہی تھا پھر آنکھوں سے اوجھل ہوا اور امی کمرے سے رخصت ہوگئیں ۔
    میرا اپنا آپ مجھے کوس رہا تھا یہ کیا بکواس باتیں میں سوچ رہا ہوں ، لعنت ہے مجھ پر۔
    اسی اثناء میں میں نے دیکھا تو میرا لوڑا اپنے ٹراؤزر میں سر اٹھائے ہوئے تھا۔۔
    میں نے اپنے لنڈ پر ہاتھ رکھ کر زور سے مسلا۔
    اور اسکو بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
    مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی لیکن یہ سب نیچرل تھا ،، جب کسی عورت کے جسم کے نشیب و فراز اسطرح کے ہوں وہ مرد کو اپنی جانب مائل کرتےہیں ۔
    شیطان نے میرے دماغ کو جھٹکا دیا تھا کہ وہ تمہارے لئے ایک عورت ہے، اگلے لمحے میرے پارسا دل نے کہا کہ نہیں نہیں وہ تمہاری ماں ہے اسکے بارے میں اسطرح کا سوچ بھی مت۔
    پھر دماغ نے کہا : ماں ہے تو کیا ؟
    بڑے بھائی کے ساتھ ، اپنے بیٹے کے ساتھ بھی تو کتنے عرصے سے یہ سب کچھ کررہی ہے۔
    میرے دماغ پر ہوس غالب آچکی تھی۔
    گھر کی تنہائی ۔
    امی اور میرے علاوہ گھر پر کسی اور کے نہ ہونے کا خیال مجھے بار بار دعوتِ گناہ دے رہا تھا۔
    ان سب میں جیت ہوس کی بالآخر ہونی تھی۔۔
    میں نے بستر چھوڑا بیڈ سے اٹھا باتھ روم میں گھس کر منہ پانی مارا ،، باہر نکلا تو گھڑی پر ساڑھے گیارہ ہورہے تھے ، زرین کے اسکول سے آنے میں بہت ٹائم تھا۔۔۔
    میں نے کمرے سے باہر نکل کر کمرے کی کچن کی طرف قدم بڑھائے جہاں امی کھڑی پھر سے برتن دھو رہی تھیں ۔
    امی کو میری موجودگی کا احساس ہوا تو انہوں نے گردن گھما کر مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہا : کیا ہوا رافع؟
    کچھ چاہیے کیا۔
    پھر آگے کو مڑ گئیں ۔
    امی کی قمیض اب تک انکے بڑے بڑے کولہوں میں پھنسی ہوئی تھی۔
    میں اوپر سے نیچے تک امی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا۔
    اوپر کندھوں کی دونوں جانب دوپٹے کا پلو۔
    ٹائٹ قمیض میں پھنسی ہوئی انکی کمر ، جس میں سے جھانکتی ہوئی انکی بریزر کی اسٹرپ صاف دکھائی دے رہی تھے۔
    سر پر بالوں کا بنا ہوا گول جوڑا۔
    قمیض کے نچلے دامن سے تھوڑا اوپر انکی شلوار کا ناڑے والا حصہ اور اسکے عین نیچے انکے بڑے بڑے گول چوتڑ جس میں پھنسی ہوئی قمیض ، دونوں گول غباروں کو جدا کرتی بیچ کی لکیر مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھی۔
    میرا لنڈ شلوار میں سر اٹھا چکا تھا ۔
    میں اب تلک کچن کے دروازے پر کھڑا تھا۔
    کہ امی نے پھر نظریں گھما کر مجھے دیکھا اس بار انہوں نے اس نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا کہ میں حیران ہوگیا، انکا نچلا ہونٹ انکے دانت میں پھنسا ہوا تھا ، اس ادا سے دیکھ کر امی پھر سے آگے کو مڑ گئیں ۔
    اور میں نے دیر نہ کرتے ہوئے تین چار قدم آگے بڑھا کر آمی کو کس کے جپھی ڈال لی ۔
    امی کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی۔۔۔
    میں نے ہاتھ امی کے مموں پر لے جاکر آنکے دوپٹے کے اوپر سے انکے مموں کو زور زور سے بھینچنا شروع کردیا اور نیچے سے اپنا للا فل امی کے گول چوتڑوں سے جوڑ دیا۔۔
    امی نے میرے اس لمس کا مزہ لیتے ہوئے میرے ہاتھوں کو اپنی چھاتیوں پر دبایا۔۔
    اب ایک گناہ کی باقاعدہ شروعات ہوچکی تھی.
    میں نے امی کی جسم کے ساتھ خود کو جوڑتے ہوئے جھٹکے مارنے والے انداز میں آگے پیچھے ہونے لگا جیسا کہ میں نے پورن ویڈیوز میں دیکھ رکھا تھا ۔
    اچانک مجھے اپنے ٹراؤزر میں اڑے للے پر امی کا ہاتھ محسوس ہوا امی نے کس کر میر لنڈ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور شدت جذبات میں بہک کر میرے ہاتھ اپنی چھاتیوں پر سے ہٹا کر گھوم کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
    مجھے امی کا یہ انداز بہت حیران کر گیا اور میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ انکی پیٹھ پر لے جاکر آہستہ آہستہ نیچے لے آیا۔۔
    جہاں انکے بڑے بڑے چوتڑ میرے ہاتھوں کے لمس کا بے صبری سے انتظار کررہے تھے۔
    امی بدستور میری گردن کو پیچھے سے چوم کر مجھے اپنی جانب دبا رہی تھیں جبکہ میں نے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے انکے چوتڑ پر لاکر بھرپور اوپر سے نیچے تک نشیب و فراز کا اندازہ لگایا۔
    امی کے چوتڑ کوئی اڑتیس سائز کے ہونگے جسکی وجہ سے انکی گانڈ چلتی ہوئی تھرکتی تھی۔
    جب امی چلتی تو چوتڑ ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنے وجود کا احساس دلاتے ۔
    میں نے امی کے چوتڑوں کو مٹھی میں بھر بھر کر زور سے دبانا شروع کردیا ،، امی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں بھر رہی تھیں ۔
    اور بدستور آہ سسسس سییی کرے جارہی تھی ۔۔۔
    میں نے امی کے چوتڑوں کو جب زور سے دبایا تو امی نے دانتوں سے ہلکا سا میری گردن پر کاٹ دیا جس سے مجھے تھوڑا درد ہوا۔
    ہم دنیا و مافیا سے بے خبر اس گندے رشتے کی شروعات میں مگن تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور اس دستک نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔۔۔
    امی اور میرے سانسیں تھوڑی پھولی ہوئیں تھیں ، امی مجھ سے الگ ہو کر باہر گیٹ کھولنے چلی گئیں ۔۔۔
    تو میں نے کچن سے باہر نکل کر دیکھا تو دودھ والا آیا تھا دودھ دینے۔۔۔
    امی نے دودھ لے کر کچن میں آکر جلدی سے رکھا اور مجھے شہوت بھری نظروں سے دیکھنے لگی ،، امی کو اس گرمی میں بھی پسینہ آچکا تھا ،، میں سوچنے لگا امی سچ میں اتنی گرم ہیں اس عمر میں بھی۔۔
    امی نے میرا ہاتھ پکڑا اور زرین کے کمرے کی طرف چل پڑی اور میں بھی امی کی تھرکتی گانڈ پر ہاتھ رکھے پیچھے پیچھے چلدیا۔۔۔
    ( جاری ہے)
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #62
      لو جی امی اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی ٹرین کرنے لگی ہیں
      واہ بہت ہی عمدہ مزہ آگیا
      کہانی کا پلاٹ بہت اچھا ہے
      ❤❤❤❤❤❤

      Comment


      • #63
        Ab Maham bhi neeche aye gi rafeh k

        Comment


        • #64
          ہاے مزے ۔۔۔ آخر رافع بھی شیطان کے راستے پر چل پڑا ھے۔۔۔ اور اپنی امی کے ساتھ چدائی کرنے جا رھا ہے۔۔۔ اس کے بعد اپنے گندے خاندان اور اور گندا کرے گا ۔۔۔ لاجواب ۔۔۔کمال ۔۔۔ بہترین ۔۔۔

          Comment


          • #65
            آخر کار بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور ہیرو صاحب اپنی ماں کے پاس چلے ہی گئے اب کچھ دنوں میں سب اسی ایک کام میں مصروف ہو جائینگے

            Comment


            • #66
              Lo g mas Betsy ki shoorwat hoo gayi

              Comment


              • #67
                زبردست اپڈیٹ ماں کی اسٹوریز ہمیشہ ہی دبنگ ہوتی ہیں عمدہ اپڈیٹ

                Comment


                • #68
                  ???رافع اور اسکی ماں کی چدائی کا وقت ہواجاتا ہے تاخیر کے لیے معذرت

                  Comment


                  • #69
                    Akhir rafay bhi is khel m shamil hogya g

                    Comment


                    • #70
                      یار میں نے ابھی یہ کہانی شروع کی ھے کافی مذےدار ھے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X