Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ضدی_ایک_پریم_کتھا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Classic Story ضدی_ایک_پریم_کتھا

    #ضدی_ایک_پریم_کتھا
    #قسط_نمبر_1
    ”اٹھ جا بیٹا۔۔ انٹر ویو کے لیے جانا ہے نا آج تجھے۔۔“ حبیبہ بیگم نے معاز کو اٹھاتے ہوئے کہا پر شاید اسکے کان پر جوں بھی نہیں رینگی
    ”اٹھ جا بیٹا دیر ہو جائے گی“ اس بار حبیبہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کے ہلاتے ہوئے کہا
    ”امی سونے دو نا بہت نیند آرہی ہے۔۔“ معاز نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا اور منہ تک چادر اوڑھ لی
    ”ٹھیک ہے بھئی سو تو آرام سے۔۔ میں بھی خالہ سے بولتی ہوں رمشا کی شادی کردو کسی سے بھی ہمارے بیٹے نے تو کام وام کرنا نہیں ہے۔۔“ حبیبہ بیگم کی اس بات پہ معاز نے چادر سے منہ نکال کر امی کو دیکھا جس پر حبیبہ بیگم نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”چل اب اٹھ جا جلدی سے شاباش۔۔“
    حبیبہ بیگم کے جانے کے بعد معاز کو بالآخر اٹھنا ہی پڑا۔ معاز اپنی خالہ رافیعہ بیگم کی اکلوتی بیٹی رمشا سے بہت پیار کرتا تھا اتنا ہی نہیں خود رمشا بھی اسکی محبت میں گرفتار تھی۔۔ پہلے محبت دو دلوں کے درمیان چلتی رہی لیکن جب بات کھلی اور پورے خاندان میں پھیلی تو معاز اور رمشا کے گھر والوں نے آپس میں ملنا جلنا بند کر دیا لیکن محبت پھر بھی جاری رہی اور آخر کو رافیعہ بیگم کو اپنی بیٹی کی ضد کے آگے سر جھکانا ہی پڑا لیکن انہوں نے بھی رمشا کے آگے اپنی شرط رکھ دی کے اگر معاز اگلے دو سال میں اس قابل نا بن سکا کہ تمہارا بوجھ اٹھا سکے تو جس سے میں چاہوں گی تمہیں شادی کرنی پڑے گی۔۔ رمشا کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا اسے اپنی امی کی یہ شرط ماننی پڑی۔
    اس بات کو تین مہینے ہو چکے تھے اور معاز اب تک صرف انٹرویو ہی دیتا آرہا تھا۔ اس نے بی کام کر رکھا تھا پر اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر وہ پڑھنے کی جگہ کسی ہنر کو سیکھنے کا فیصلہ کرتا تو آج اسے اس طرح در در کی ٹھوکریں نا کھانی پڑتی۔ آج بھی اسے کسی مال میں انٹرویو کے لیے جانا تھا۔
    معاز کو اپنے بستر پر موبائیل کی وائبریٹ محسوس ہوئی۔ اس نے موبائیل دیکھا تو رمشا کے 34 میسجز آئے ہوئے تھے جن میں اس نے ہر طرح سے معاز کو اٹھنے کے لیے کہا ہوا تھا۔ سارے میسجز پڑھ کے معاز نے ایک میسج کر کے اسے اپنے اٹھنے کی نوید سنا دی۔
    ”کیا کرہا ہے معاز دیر ہو رہی ہے بیٹا“ باہر سے امی کی آواز آئی
    ”جی امی آیا۔۔“ اس نے موبائیل رکھا اور باہر آ کے واشروم میں چلا گیا
    ”امی واشروم میں کون ہے؟“ کمرے سے نکلتے ہوئے معاز کے بڑے بھائی امتیاز نے کہا
    ”معاز ہے بیٹا“ امی نے کچن سے کہا
    ”معاز باہر نکل یار مجھے کام پر جانا ہے۔۔“ امتیاز نے زور زور سے واشروم کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا
    ”آرہا ہوں بھائی منہ دھو رہا ہوں۔۔“ معاز نے اندر سے کہا
    ”گیا کیوں تھا یار؟؟ تجھے نہیں پتا مجھے جاب پہ جانا ہوتا ہے۔۔“ امتیاز نے دوبارہ دروازہ پیٹنا شروع کر دیا ”نکل جا یار۔۔“
    ”ارے بیٹا منہ دھو لینے دے اسے انٹر ویو کے لیے جانا ہے آج۔۔“ حبیبہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہوئے کہا
    ”کیا۔۔۔ انٹر ویو ہے آج اسکا۔۔؟“ امتیاز نے آرام سے صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا ”مجھے تو نہیں بتایا اسنے۔۔“
    ”ہاں بیٹا کسی مال میں سی وی دی تھی اسنے وہاں سے بلایا ہے اسے۔۔“ حبیبہ بیگم نے واپس کچن میں جاتے ہوئے کہا ”ناشتہ بنا دوں تیرا؟؟“
    ”جی امی بنا دیں۔۔“ امتیاز نے کہا اور اطمنان سے بیٹھ گیا
    ”سوری بھائی مجھے جانا تھا تبھی میں واشروم چلا گیا تھا۔۔“ معاز نے واشروم سے نکلتے ہوئے کہا
    ”ارے کوئی بات نہیں میرے شیر۔۔“ امتیاز نے اٹھ کر معاز کے کندھے پر ہاتھ مارا اور واشروم میں چلا گیا
    معاز آج بہت ٹینشن میں تھا۔ گزشتہ سبھی انٹرویو میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔ انٹرویو میں اسے اچھا رزلٹ ملتا تھا لیکن نوکری کے لیے اسے کوئی نہیں بلاتا تھا۔ اسکی نوکری کسی سفارشی یا رشوت دینے والے کو مل جاتی تھی۔ کئی جگہ پر اسکی جی ایم سے جھڑپ بھی ہوئی پر کوئی فائدہ نہیں۔ آج بھی اسکے دل میں بہت خدشات تھے۔ ناجانے انٹرویو میں پاس ہو سکوں گا یا نہیں۔ پاس ہوگیا تو بھی جاب کے لیے بلایا جاٶں گا یا ہمیشہ کی طرح کسی اور کو جاب مل جائے گی۔۔
    معاز اپنی سوچوں میں گم تھا جب کے امتیاز واشروم سے نکل کر اسکے برابر میں بیٹھا تولیہ سے منہ پونچھ رہا تھا۔
    ”کیا سوچ رہا ہے بیٹا۔۔؟“ امتیاز نے معاز کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا
    ”ہم۔۔۔۔۔ کچھ۔۔ کچھ نہیں بھائی۔۔“ معاز نے چونک کر امتیاز کو دیکھتے ہوئے کہا
    ”مجھے پتہ ہے ٹینشن میں ہے تو۔۔” امتیاز نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”ٹینشن مت لے جاب ملنا ہوگی مل جائے گی۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے بس تو کوشش کر اپنی۔۔“
    ”جی بھائی۔۔“ معاز نے کہا
    ”ہاں بس اللہ کا نام لے کر جاؤ۔۔“ امی نے کچن سے ناشتہ لے کر نکلتے ہوئے کہا اور ان کے سامنے رکھ دیا ”یہ لو ناشتہ کرو تم دونو۔۔“
    ”ہم دونو مطلب؟؟ آپ نہیں کریں گی ناشتہ؟“ معاز نے کہا
    ”میں نے تمہارے پاپا کے ساتھ کر لیا ناشتہ اب تم لوگ کرو۔۔“ امی نے کہا
    ”ہاں امی۔۔ پاپا کہاں ہیں نظر نہیں آرہے؟؟“ امتیاز نے پوچھا
    ”وہ تو سبزی منڈی گئے ہیں آج سبزی ختم ہو گئی تھی نا انکی۔۔“ امی نے کہا
    ”امی کتنی بار کہا ہے مجھے اٹھا دیا کرو اکیلے جانا پڑتا ہے انہیں۔۔“ امتیاز نے کہا
    ”ارے بیٹا وہ کہتے ہیں خواہ ما خواہ تم لوگ پریشان ہوگے۔۔“ حبیبہ بیگم نے ایک ساتھ دونوں بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”تم دونو آرام سے ناشتہ کرو بس۔۔“
    ”اچھا اور فضا کہاں ہے؟“ معاز نے پوچھا
    ”بیٹا وہ تو سو رہی ہے۔۔ پیپر ہیں نا تو رات دیر تک پڑھتی ہے آج کل۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا اور کمرے میں چلی گئیں
    ”چل بھئی میرا تو ہو گیا۔۔ مجھے جانا ہے۔۔“ امتیاز نے اٹھتے ہوئے کہا اور جوتے پہن کے باہر جانے لگا لیکن پھر کچھ سوچ کے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار کا نوٹ نکال کر واپس معاز کی طرف آیا اور اسے نوٹ دیتے ہوئے کہا ”یہ لے یہ رکھ ضرورت پڑے گی۔۔“
    ”ارے بھائی اسکی کیا ضرورت تھی۔۔“ معاز نے نوٹ لے کر جیب میں رکھتے ہوئے کہا
    ”اچھا ضرورت نہیں تھی پھر بھی فوراً رکھ لیا۔۔ چل میں جارہا ہوں۔۔“ امتیا نے کہا اور واپس باہر کی طرف مڑ گیا لیکن پھر کچھ سوچ کے واپس معاز کی طرف گھوما اور جیب سے چابی نکال کے اسے دیتے ہوئے کہا ”یہ لے بائیک لے جانا۔۔“
    ”ارے بھائی پھر آپ کیسے جاٶگے؟؟؟“ معاز نے چابی پکڑتے ہوئے کہا
    ”میری فکر مت کر میں دوست کے ساتھ چلا جاٶں گا۔۔ تو لے جا۔۔“ امتیاز نے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا
    اب معاز کمرے میں گیا الماری کھولی اور لائٹ بلیو شرٹ جو اسے رمشا نے گفٹ کی تھی نکالی اور ساتھ میں بلیک پینٹ اور ٹائی نکال کر چینج کرنے لگا۔ کپڑے پہن کے اسنے شیشے میں بال سنوارے اور فضا کی کریم نکال کے لگالی۔ باہر نکلا تو امی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔
    ”ہائے میرا بچا کتنا پیارا لگ رہا ہے۔۔“ امی نے اسکی بلائیں لیتے ہوئے کہا اور کچھ پڑھنے لگیں
    معاز نے جوتے نکالے اور پہن کے پوری طرح تیار ہوگیا ”اچھا امی میں جارہا ہوں۔۔“
    امی اٹھیں اور ایک بھرپور پھونک اس پہ ماری ”جا بیٹا اللہ تجھے کامیاب کرے۔۔“
    معاز نے اللہ حافظ کہا اور باہر آگیا۔ بائیک اسٹارٹ کی اور اپنی منزل کی جانب چلا گیا۔
    معاز کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ گھر میں کل پانچ افراد تھے جن میں پاپا اشرف علی جو کہ الگ ہی سوچ رکھتے تھے۔ بلا کہ خود دار تھے اپنے بیٹوں سے بھی پیسے مانگنا پسند نہیں کرتے تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ ٹھیلا لے کر گلی گلی سبزی بیچا کرتے تھے۔
    معاز کی امی حبیبہ بیگم جو انتہائی پرہیزگار خاتون تھیں۔ نماز روزے کی خود بھی پابند تھیں اور گھر کے ہر فرد کو تلقین بھی کرتی تھیں۔
    معاز کا بھائی امتیاز علی جو کے غربت کی وجہ سے پڑھ لکھ نہیں سکا تھا اور چھوٹی عمر سے ہی کام کرنے لگا تھا۔ وہ کسی گارمنٹس فیکٹری میں جاب کرتا تھا۔ لیکن اپنے دونوں چھوٹے بہن بھائی سے بہت پیار کرتا تھا۔ معاز کو تو بچپن میں مار مار کے اسکول بھیجا کرتا تھا اسی کا نتیجہ تھا جو آج معاز بی کام پاس کر سکا تھا۔ فضا کو بھی اسی نے پڑھایا تھا اور آج وہ بی اے کے امتحان دے رہی تھی۔
    معاز کی چھوٹی بہن اور گھر کی لاڈلی فضا۔ گھر بھر میں اس سے رونق لگی رہتی تھی۔
    معاز کا گھر نیو کراچی میں واقع تھا جہاں یہ لوگ دو کمروں کے ایک گھر میں کرائے پر رہتے تھے۔
    گھر میں داخل ہوتے ہی صحن تھا جب کے ایک طرف کچن اور واشروم وغیرہ بنا تھا۔ جبکہ سامنے کی طرف دو کمرے برابر برابر میں بنے تھے۔۔
    معاز بچپن سے ہی اپنی خالہ رافیعہ بیگم کی اکلوتی بیٹی رمشا کو پسند کرتا تھا لیکن کبھی اس سے کہنے کی ہمت نہیں کر پایا۔ جب معاز میٹرک میں تھا تب اسے پتہ لگا خالہ نے رمشا کو موبائیل دلایا ہے۔ بس تب سے معاز کے دل میں کھلبلی مچ گئی تھی کہ کسی طرح رمشا کا نمبر مل جائے۔ کافی کوشش کی پر نمبر نہیں ملا۔ کئی بار رمشا سے سامنا بھی ہوا پر اسکے سامنے آتے ہی معاز پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی کچھ کہا نہیں جاتا تھا۔
    ایک دن فضا نے امی کو بتایا ”امی رمشا کا میسج آیا ہے۔۔ کہہ رہی ہے مما نے بلایا ہے آپکو۔۔“
    معاز کے کان کھڑے ہو گئے فضا کے پاس رمشا کا نمبر ہے اور اسے آج تک نہیں پتا۔
    ”ارے پوچھ تو سہی کیوں بلایا ہے رافیعہ نے؟“ امی نے کہا
    ”وہ امی۔۔ ماموں کا رشتہ لے کے جانا ہے شاید۔۔ اتوار کو۔۔“ فضا نے بتایا
    ”ہیں۔۔۔۔ رافیعہ نے عادل کا رشتہ ڈھونڈ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔“ حبیبہ بیگم نے غصہ میں کہا ”بول دے اسے امی نہیں آئیں گی شادی بھی خود ہی کر دو عادل کی۔۔“
    ”جی امی بول دیتی ہوں“ فضا نے کہا اور میسج ٹائپ کرنے لگی ”بول دیا۔۔“
    معاز کو کھلبلی مچ گئی تھی۔ بس کسی طرح فضا کا موبائیل مل جائے۔
    شام کے ٹائم فضا واشروم گئی تو معاز کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ فوراً کمرے میں گیا اور فضا کا موبائیل اٹھا کر کانٹیکٹس میں چلا گیا۔ وہ فضا سے موبائیل مانگتا تو بھی مل جاتا لیکن اس کے دل میں ڈر تھا۔ اسنے رمشا لکھ کے سرچ کیا تو دو دو نمبر نمودار ہو گئے۔ اب وہ سوچ میں پڑ گیا کہ رمشا کا نمبر کونسا ہے۔ اسنے پھر دونوں ہی نمبر سیو کر لیے۔ اسکا موبائیل واپس رکھ کر دوسرے کمرے میں آگیا۔
    آتے ہی اسنے دونوں نمبرز پر ایک ساتھ ہیلو رمشا لکھ کر سینڈ کر دیا۔
    کافی دیر بعد ایک نمبر سے رپلائی آیا ”آپ کون؟“
    ”جی یہ رافیعہ خالہ کا نمبر ہے نا؟“ معاز نے لکھ کر بھیجا
    ”جی نہیں۔۔“ رپلائی آیا جسے پڑھ کے معاز کا دل بیٹھ گیا لیکن فوراً ہی دوسرا میسج بھی آیا ”یہ انکی بیٹی کا نمبر ہے۔۔ آپ کون ہیں؟؟“
    معاز خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ”ہاں ہاں وہی۔۔ تم رمشا ہو نا؟؟“
    ”ہاں۔۔۔۔۔۔۔ بٹ آپ کون ہیں؟؟“ رپلائی آیا
    ”میں معاز ہوں رمشا۔۔“ معاز نے جواب دیا
    کون۔۔۔ خالہ جان کے بیٹے؟؟“ رمشا نے کہا
    ”ہاں۔۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔“ معاز نے ہمت کر کہ کہا
    ”ہاں بولو۔۔“ رمشا نے جواب دیا
    چھوڑو۔۔ کیسی ہو؟؟“ معاز نے بات گھماتے ہوئے کہا اسکی ہمت نہیں تھی رمشا سے اپنے دل کی بات کہنے کی۔۔
    ”ٹھیک ہوں۔۔ تم سناٶ۔۔“ رمشا نے کہا
    کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بالآخر معاز نے اپنی پوری ہمت مجتمع کرتے ہوئے ایک میسج کیا ”آئی لو یو رمشا۔۔“
    لیکن اس بار کوئی جواب نہیں آیا۔ کافی دیر بعد معاز نے پھر میسج کیا ”کیا ہوا رمشا بولو نا۔۔“
    لیکن پھر کوئی جواب نہیں آیا۔ اب معاز کو ٹینشن ہونے لگی تھی کہ کہیں رمشا نے خالہ کو نا بتا دیا ہو۔ اس نے پھر میسج کیا ”رمشا بولو نا پلیز۔۔“
    پر رمشا کی طرف سے کوئی جواب نا آیا
    ”پلیز رمشا بولو نا کچھ۔۔“
    ”پلیز کسی کو بتانا نہیں یہ بات پلیز۔۔“
    ”تم بھلے منع کر دو پر کسی سے کچھ کہنا نہیں پلیز“
    معاز نے ایک ساتھ کئی میسجز کیے۔ وہ ڈر گیا تھا اگر خالہ تک یہ بات گئی تو دونوں گھروں میں بہت جھگڑا ہوگا۔ ٹینشن میں ہی سوگیا وہ۔
    صبح ناشتہ کرتے ہوئے اچانک مرکزی دروازے سے رافیعہ بیگم نمودار ہوئیں اور معاز انہیں دیکھتے ہی پسینے سے شرابور ہو گیا۔ اس نے سوچا شاید رمشا نے خالہ کو بتا دیا سب کچھ اب بہت لڑائی ہوگی۔
    ”السلام و علیکم۔۔ آئیں خالہ ناشتہ کر لیں۔۔“ معاز نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے خالہ سے کہا
    ”نہیں میں کر کہ آئی ہوں۔ امی کہاں ہیں تمہاری مجھے انسے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔“ خالہ نے دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا وہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھیں۔۔ معاز سمجھ گیا کیا بات کرنے آئی ہونگی۔۔
    ”جی امی اندر ہیں کمرے میں“ معاز نے کہا اسکے لہجے میں ڈر صاف ظاہر تھا
    خالہ اندر امی کے پاس چلی گئیں۔
    معاز کا گھبراہٹ سے برا حال تھا اس نے اندر سے آواز سننے کی کوشش کی پر کیا فائدہ کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔
    کافی دیر بعد رافیعہ بیگم واپس چلی گئی۔ معاز کہ ہاتھ میں چائی کا کپ تھا لیکن چائی سے زیادہ گرم اس وقت اسکا خون تھا اس پر پاگلوں سی کیفیت طاری تھی نا جانے اب کیا ہوگا۔۔
    اچانک کمرے سے امی کی آواز آئی ”معاز۔۔ معاز کہاں ہے بیٹا ادھر آ۔۔۔“
    معاز پر کپکپی طاری ہوگئی ناجانے اب کیا ہوگا
    وہ اٹھا اور کمرے میں چلا گیا ”جی امی بولیں۔۔“
    ”مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ تم نے کل جو کیا اچھا نہیں کیا۔۔“ امی کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ اتنا سننا تھا کہ چائے کا کپ معاز کے ہاتھ سے چھوٹا اور زمین پر گر کہ کرچی کرچی ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔
    .......................جاری ے
    Last edited by Man moji; 12-30-2023, 10:37 PM.

  • #2
    Buhat hi Zabardast acha aghaz hai .
    shabash aisay hi likhtay rahain

    Comment


    • #3
      ا چھی فیملی لو سٹوری لگتی ہے اچھا آغاز ہے

      Comment


      • #4
        Shandar janab bohot achha likh rahy ho

        Comment


        • #5
          شروعات بہت اعلی اور جاندار نظر آ رہی ھے۔
          امید ھے آگے چل کر شاندار کہانی ثابت ھوگی یہ ۔۔۔۔ اگلی قسط کا شدت سے انتظار ھے

          Comment


          • #6
            آغاز تو بہت شاندار ہے۔
            امید ہے آگے بھی ایسی مزیدار ہوگی۔

            Comment


            • #7
              آغاز تو بہت کمال ہے۔
              اُمید ہے کہانی لمبی چلے گی

              Comment


              • #8
                #ضدی_ایک_پریم_کتھا
                #قسط_نمبر_2

                ”ارے ارے یہ کیا کرہا ہے بیٹا۔۔۔؟“ امی نے نیچے گرے کپ کو دیکھ کر کہا پھر کھڑے ہو کر معاز کو چیک کرنے لگی ”بیٹا تو ٹھیک تو ہے نا۔۔؟؟؟“
                ”جی۔۔ جی امی میں ٹھیک ہوں۔۔“ معاز نے بوکھلاہٹ پر قابو کرتے ہوئے کہا ”وہ کپ سلپ ہو گیا تھا ہاتھ سے۔۔“
                کوئی بات نہیں۔۔“ امی نے کہا اور کمرے کے دروازے کی طرف منہ کر کے آواز لگانے لگی ”فضا۔۔۔ فضا۔۔ کہاں ہو بیٹا۔۔؟؟“
                ”جی امی کیا ہوا۔۔؟“ فضا نے دروازے پر آکر کہا ”ارے یہ کیا ہوا؟ مازی کپ توڑ دیا تو نے۔۔؟ سیٹ خراب کر دیا میرا۔۔“
                ”جان بوجھ کے نہیں توڑا ہے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔“ معاز نے کہا
                ”جان بوجھ کے کیا ہاں۔۔؟؟ کپ تو توڑا نا۔۔“ فضا نے کپ کی کرچیا سمیٹتے ہوئے کہا ”سیٹ خراب کر دیا میرا۔۔“
                ”ارے چھوڑ نا۔۔ تو صاف کر بس۔۔“ امی نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا
                ”ہاں آپ اور سائیڈ لو اسکی۔۔ اتنا بگاڑ دیا اور بگاڑ دو۔۔“ فضا نے کہا
                ”امی چپ کروا لو اسے ورنہ ماروں گا میں اسے۔۔“ معاز نے غصہ میں کہا
                ”فضا کیا ہے۔۔ صاف کر چپ چاپ۔۔“ امی نے فضا کو ڈانٹتے ہوئے کہا
                ”ہاں کر لیا صاف۔۔ آپ بس اسکی سائیڈ لو۔ میں تو کچھ ہوں ہی نہیں نا آپکی۔۔“ فضا نے ساری کرچیاں ایک گتے پر رکھیں اور لے کر کمرے سے باہر نکل گئی
                ”امی آپ بتائیں کیا کہہ رہی تھیں۔۔؟؟“ معاز پھر گھبراہٹ کا شکار ہو گیا تھا
                ”بیٹا کل تم سے کہا تھا دودھ لاکر رکھ دینا پر تم نہیں لائے۔۔“ امی نے اسکو نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھتے ہوئے کہا ”پتہ ہے پاپا کتنی سنا کے گئے ہیں مجھے صبح۔۔ انہیں ہی لے کر آنا پڑا۔۔“
                ”وہاٹ۔۔۔ کیا امی یہ بات تھی۔۔؟؟“ معاز نے خوش ہوتے ہوئے کہا
                ”ایک بات اور ہے۔۔ ابھی تمہاری خالہ آئی تھیں۔۔“ امی نے آرام سے لیٹتے ہوئے کہا ”بول کے گئی ہیں کل معاز کے ساتھ گھر پہ آجانا۔۔“
                ”کیا۔۔۔؟ پر کیوں امی؟؟؟؟“ معاز پر پھر سے گھبراہٹ طاری ہو گئی
                ”کیا کیوں۔۔۔؟ اتنی حیرت کیوں کرہا ہے بیٹا پہلی بار جارہا کیا خالہ کہ گھر۔۔؟؟“ امی نے معاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
                ”نہیں امی۔۔۔ پر پھر بھی کیوں بلایا ہے؟“ معاز نے جاننے کی کوشش کی
                ”ارے یہ تمہارے ماموں ہیں نا۔۔ کل کسی لڑکی کو بھگا کر لے آئے تھے۔۔“ امی نے واپس بیٹھتے ہوئے کہا ”رافیعہ لڑکی کو تو واپس گھر چھوڑ آئی ہے پر کل اسکے گھر جانے کا بول کے آئی تھی۔۔“
                ”او اچھا۔۔ تھینک گاڈ۔۔“ معاز نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا
                ”کس بات کا تھینک گاڈ۔۔؟؟ تمہارے ماموں نے پورے خاندان میں ناک کٹوا دی ہم دونوں بہنوں کی۔۔“ امی نے غصہ اور اداسی بھری فیلنگز میں کہا پر معاز خوش تھا
                ”ارے امی میرا مطلب تھینک گاڈ لڑکی کو کل ہی خالہ واپس چھوڑ آئیں۔۔“ معاز نے بات پلٹتے ہوئے کہا ”سوچو اگر رات بھر وہ گھر نا جاتی تو کتنی بدنامی ہوتی اسکے گھر والوں کی۔۔“
                ”ہاں بیٹا یہ ٹھیک کہا۔۔ عادل کی تو خبر لونگی میں کل۔۔“ امی نے ماموں پہ غصہ نکالتے ہوئے کہا پھر اچانک غصے کا رخ لڑکی پر کر دیا ”اور وہ لڑکی کیسی ہوگی۔ بنا سوچے بھاگ کے آگئی گھر والوں کا بھی نہیں سوچا۔۔“
                ”ارے امی جان آپ اتنا نا سوچا کریں۔۔“ معاز نے امی کو لٹاتے ہوئے کہا ”آپ آرام کریں۔ بارہ بجنے والے ہیں میں کالج جاتا ہوں۔۔“

                دوسرے دن شام کے ٹائم معاز نے امتیاز سے بائیک لی اور امی کو لے کر خالہ کے گھر روانہ ہو گیا۔۔
                گھر پہنچتے ہی خالہ نے وہاں جانے کا کہا اور زبردستی خالہ اور امی ماموں کو بھی لے گئیں۔ اب گھر میں معاز اور رمشا کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ڈائیریکٹ تو معاز کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی رمشا سے کچھ کہنے کی۔ دونوں ایک ہی صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے پھر بھی معاز کی بات کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
                معاز نے میسج کا سہارا لینے کا سوچا ”تم نے میرے میسج کا جواب نہیں دیا۔۔“
                رمشا کے موبائیل کی رنگ بجی اسنے موبائیل دیکھا تو معاز کا میسج تھا وہ پوری طرح معاز کی طرف گھوم کر بیٹھ گئی اور مخاطب ہوئی ”پاگل ہو کیا تم۔۔؟؟ میں سامنے بیٹھی ہوں پھر بھی میسج کرہے ہو۔۔ اور کونسا میسج۔۔؟؟“
                ”کونسا میسج مطلب؟؟ وہ جو میں نے پرسوں لاسٹ میسج کیا تھا پر تم نے جواب نہیں دیا تھا۔۔“ معاز نے بھی اس بار اس سے مخاطب ہو کر کہا
                ”کونسا لاسٹ میسج یار۔۔؟؟“ رمشا نے ریموٹ اٹھا کر چینل بدلتے ہوئے کہا ”مما پاس تھیں میں نے تمہارا نمبر بلیک لسٹ میں ڈال دیا تھا مجھے نہیں ملا کوئی میسج۔۔“
                ”میسج نہیں ملا یا ناٹک کرہی ہو۔۔؟“ معاز نے اسکے ہاتھ سے ریموٹ لیا اور ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا ”اسے بند کر دو ابھی۔۔“
                ”یار میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے کوئی میسج نہیں ملا۔۔“ رمشا نے کہا ”تم بتاٶ کیا کہا تھا تم نے۔۔؟“
                ”کچھ نہیں۔۔ چھوڑو۔۔“ معاز کی ہمت پھر جواب دے گئی
                ”بتاٶ نا یار۔۔“ رمشا نے کہا
                ”چھوڑو نا رمشا۔۔“ معاز کے دل میں تھا بول دوں پر حواس قابو میں نہیں تھے۔ اسکی ذہنی کیفیت اس وقت عجیب ہو رہی تھی۔ پورا جسم بے قابو ہو رہا تھا۔
                ”اوکے چھوڑ دیا۔۔ عجیب ہی ہو تم۔۔“ رمشا نے کہا اور اٹھ کر جانے لگی پر نا جانے اسی وقت معاز کے اندر کہاں سے اتنی ہمت آگئی اسنے اٹھ کر فوراً رمشا کا ہاتھ پکڑ کر روکا اور اسے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا کر دیا اور خود اس کے سامنے دیوار پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا اور دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا ”ہاں۔۔ عجیب ہی ہوں میں۔۔“
                ”معاز یہ کیا کرہے ہو تم۔۔ پلیز چھوڑو مجھے۔۔“ رمشا کی دھڑکنیں اس وقت قابو میں نہیں تھیں ”پلیز چھوڑو مجھے۔۔“
                ”نہیں رمشا۔۔ اب نہیں۔۔“ معاز کا شاید رمشا سے زیادہ برا حال تھا اسکے ہونٹ بھی کانپ رہے تھے ”بہت ہمت کر کہ تمہارا ہاتھ تھاما ہے اب نہیں چھوڑوں گا۔۔“
                ”کیا مطلب ہے؟؟ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟؟“ رمشا کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ”پلیز چھوڑ دو۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔۔“
                ”رمشا۔۔ رمشا رو کیوں رہی ہو۔۔“ معاز نے اسے دونوں بازو سے پکڑا اور واپس صوفے پر لا کر بٹھایا اور خود بھی برابر میں بیٹھ گیا اور اسکا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ”رمشا پلیز رو مت پلیز۔۔ میں بھی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں یار۔۔“
                ”اچھا۔۔ تو پھر کیا کرہے تھے ابھی۔۔۔ ہاں؟؟ بولو۔۔“ رمشا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ”ہاتھ چھوڑو میرا پلیز۔۔“
                ”رمشا ایسا کچھ نہیں ہے یار۔۔ میں پیار کرتا ہوں تم سے اسی کا اظہار کرہا تھا بس۔۔“ معاز نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوظ کرتے ہوئے کہا ”اور یہ ہاتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا اب میں۔۔“
                ”یہ اظہار تھا معاز۔۔؟ ایسے اظہار ہوتا ہے۔۔؟“ رمشا نے پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی پر نہیں چھڑا پائی اور اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”یہ اظہار نہیں تھا معاز یہ زبردستی تھی جو تم اب بھی کرہے ہو۔۔“
                ”او کے نہیں کرہا زبردستی۔۔“ معاز نے اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا ”پر میں کیا کروں رمشا میں نے تو میسج کیا تھا تمہیں پر تم نے نہیں پڑھا۔۔ اور میں نے پہلی بار پیار کیا ہے مجھے نہیں پتہ کیسے اظہار ہوتا ہے۔۔“
                ”کہہ تو رہی ہوں نہیں ملا مجھے میسج۔۔“ رمشا نے اکتا جانے والے انداز میں کہا
                ”ٹھیک ہے اب تو سن لیا نا تم نے اور نہیں سنا تو پھر کہہ دیتا ہوں آئی لو یو۔۔“ معاز نے اس سے تھوڑا دور ہٹتے ہوئے کہا ”دیکھ لو بہت دور ہوں تم سے کوئی زبردستی نہیں کرہا۔۔ پلیز مان جاٶ۔۔“
                ”ایسے کیسے مان جاٶ۔۔ میری زندگی کا سوال ہے میں ایسے ہی کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔“ رمشا نے اٹھتے ہوئے کہا ”اور ویسے بھی مجھے ٹین ایج لو پہ بھروسا نہیں۔۔“
                اتنا بول کر وہ اٹھی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ معاز جو اس کے پیچھے ہی آرہا تھا کمرے کا دروازہ اسکے منہ پر بند ہو چکا تھا۔۔
                ”دروازہ کھولو رمشا پلیز بھاگو نہیں۔۔“ معاز نے دروازے کو بری طرح پیٹتے ہوئے کہا ”پلیز رمشا جواب دو اس طرح مت کرو۔۔“
                ”جواب تمہیں مل چکا ہے معاز۔۔“ رمشا نے اندر سے ہی جواب دیا ”میرے دل کے دروازے بند ہیں ہر کسی کے لیے۔۔“
                ”ٹھیک ہے رمشا۔۔ اب کروں گا میں زبردستی۔۔“ معاز نے غصے میں دروازے پر مکا مارتے ہوئے کہا ”اگر تم نہیں مانی نا تو آگے میرے ساتھ جو بھی ہوگا اسکی ذمہ دار بس تم ہوگی۔۔ جارہا ہوں میں۔۔“
                ” ہاں ہاں جاٶ جو کرنا ہے کرو مجھے پرواہ نہیں۔۔“ رمشا نے اندر ہی سے جواب دیا۔
                کافی دیر تک رمشا کو کوئی جواب نہیں ملا اسنے دروازہ کھول کر باہر کمرے میں جھانکا پر وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ باہر آئی پورے گھر میں دیکھا پر معاز نہیں تھا۔ اسنے مرکزی دروازے سے باہر جھانکا پر باہر بھی کوئی نہیں تھا اور بائیک بھی غائب تھی۔ رمشا سوچ میں پڑ گئی اب کیا کرے گا یہ لڑکا۔ انہی سوچوں میں گم وہ اندر آ کر صوفے پر گر پڑی۔ وہ سوچ رہی تھی کاش پیار سے سمجھاتی اسے۔ اس نے موبائیل اٹھایا اور معاز کو میسج کیا۔۔ ”کہاں ہو یار۔۔؟؟“
                پر کوئی جواب نا آیا اسنے پھر میسج کیا ”کہاں ہو معاز واپس آؤ۔۔“
                اس بار بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ رمشا نے یکہ بعد دیگر کئی میسج کیے پر کوئی جواب نہیں آیا۔
                معاز کو سبھی میسجز مل رہے تھے پر وہ دیکھ کر نظر انداز کرہا تھا۔ رمشا بہت زیادہ پریشان تھی معاز خود کو نقصان پہنچانے کا بول کہ گیا تھا کہیں حقیقت میں کچھ نا کر لے۔ اسنے پھر میسج کیا ”پلیز معاز آجاٶ۔۔“
                کوئی رپلائی نہیں آیا۔ کافی دیر بعد گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ رمشا کے چہرے پر اطمنان کی لہر دوڑ گئی۔ وہ بھاگتی ہوئی دروازے پر گئی پر سامنے معاز کے بجائے رمشا کی ماما ،خالہ اور ماموں کھڑے تھے۔
                ”رمشا۔۔ رمشا۔۔“ رافیعہ بیگم نے رمشا کو ہلاتے ہوئے کہا
                ”ہاں۔۔۔ جی جی مما۔۔؟“ رمشا نے چونکتے ہوئے کہا
                ”سائیڈ میں ہو ہمیں اندر آنا ہے۔۔“ رافیعہ بیگم نے کہا ”کہاں گم ہو۔۔؟“
                ”جی مما۔۔ کچھ نہیں۔۔“ اسنے اندر آتے ہوئے کہا ”آئیں۔۔ آئیں نا اندر۔۔“
                ”کیا ہو گیا بیٹا۔۔؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟“ رافیعہ بیگم نے اسکے پاس جا کر اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا
                ”جی مما ٹھیک ہوں میں۔۔“ اسنے حبیبہ بیگم کی طرف دیکھ کر صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”بیٹھیں نا خالہ جان۔۔“
                ”ہاں۔۔ ہاں۔۔ بیٹا۔۔ ہائے۔۔۔۔۔۔“ حبیبہ بیگم نے بیٹھتے ہوئے کہا
                ”آپی۔۔ آپ لیٹ جائیں۔ کچھ دیر آرام کر لیں۔۔“ رافیعہ بیگم نے حبیبہ بیگم سے کہا
                ”ارے نہیں رافیعہ۔۔ گھر جاٶں گی فضا اکیلی ہے۔۔“ حبیبہ بیگم نے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے رمشا سے مخاطب ہو کر کہا ”رمشا۔۔۔ معاز کہاں ہے بیٹا؟؟“
                ”جی۔۔۔ جی خالہ جان وہ پتہ نہیں باہر ہی گیا ہے۔۔“ رمشا کو دوبارہ سب کچھ یاد آگیا
                ”ارے ہاں۔۔ تم سے تو پتہ نہیں کیوں اتنا شرماتا ہے وہ۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا ”اچھا بیٹا کال کرو اسے بلاٶ۔۔“
                ”جی ۔۔ جی خالہ جان کرتی ہوں“ رمشا نے کال ملا کر موبائیل حبیبہ بیگم کو دے دے۔ حبیبہ بیگم نے موبائیل کان پر لگایا اور فوراً ہی ہٹا کر بولیں ”ارے بیٹا کاٹ دی اس نے۔۔“
                رمشا بے چاری کیا کہتی۔۔ اسنے پھر معاز کو میسج کیا ”دیکھو خالہ جان کال کرہی ہیں۔ بلا رہی ہیں تمہیں۔۔“
                تھوڑی دیر بعد ہی رمشا کے موبائیل کی رنگ بجی معاز کی کال تھی اسنے رسیو کر کے خالہ جان کو موبائیل دے دیا معاز کچھ کہہ رہا تھا جسے حبیبہ بیگم سن رہی تھیں ”رمشا میں بیوقوف نہیں ہوں۔۔ مجھے نہیں آنا واپس۔۔“
                ”ارے ارے ارے۔۔۔ کیوں بچی سے لڑ رہا ہے۔۔؟؟ جلدی آ گھر جانا ہے مجھے۔۔“ حبیبہ بیگم نے ڈانٹتے ہوئے کہا ”اور خبردار آئندہ تو نے رمشا سے ایسے بات کی۔۔“
                ”جی امی آرہا ہوں۔۔“ معاز نے کہا اور کال کاٹ دی
                ”کیا ہوا آپی کیا کہہ رہا تھا وہ۔۔؟“ رافیعہ بیگم نے کہا
                ”کہہ رہا تھا رمشا میں بیوقوف نہیں ہوں مجھے نے آنا واپس۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا
                ”ہیں۔۔۔۔۔؟؟ پر کیوں۔۔۔؟“ رافیعہ بیگم نے کہا پھر غصے سے رمشا کو دیکھنے لگیں پر کچھ بولی نہیں

                تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ رمشا کے موبائیل کی رنگ بجی۔ معاز کی ہی کال تھی۔ رمشا دوسرے کمرے میں تھی اسنے بہتر موقع جان کر خود ہی کال رسیو کی۔۔ ”کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ہاں۔۔؟ کیوں تنگ کرہے ہو مجھے؟؟ گھر آٶ فوراً۔۔“
                رمشا لسٹن۔۔ جسٹ ون کوئسشن۔۔ یو لو می۔۔؟؟؟“ معاز نے دو ٹوک جواب مانگتے ہوئے کہا
                ”میں ایسے نہیں بول سکتی معاز مجھے سوچنے کا ٹائم تو دو پلیز۔۔“ رمشا نے رکویسٹ کرتے ہوئے کہا
                ”ٹھیک ہے رمی۔۔ سات بج رہے ہیں۔۔ میں کل سات بجے تک کا ٹائم دیتا ہوں تمہیں۔۔“ معاز نے کہا
                ”اور اسکے بعد۔۔؟؟“ رمشا نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔
                ”مجھے نہیں پتہ۔۔ امی کو بھیجو میں باہر کھڑا ہوں۔۔“ معاز نے کہا
                ”اوکے بھیج رہی ہوں۔۔“ رمشا نے کہا اور دروازے کی طرف پلٹی لیکن دروازے پر مما کھڑی تھی جو اس وقت غصے سے اسے گھور رہی تھیں۔
                ”ک۔۔ک۔۔ک۔۔کیا ہوا مما۔۔۔؟“ رمشا نے گھبراہٹ میں ہکلاتے ہوئے کہا
                ”کیا چل رہا ہے رمشا۔۔۔؟“ مما نے غصے میں اس کے پاس جا کر سرگوشی سے پوچھا ”سچ سچ بتاٶ رمشا کیا چل رہا ہے تمہارے اور معاز کے بیچ۔۔؟؟“
                ”کچھ نہیں مما۔۔۔“ رمشا گھبرائی ہوئی تھی اسنے رافیعہ بیگم کو یقین دلانے کی کوشش کی ”آپ غلط سمت میں سوچ رہی ہیں ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔۔“
                ”ہونا بھی نہیں چاہیے بتا رہی ہوں میں۔۔“ انہوں نے رمشا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ”اگر ایسا ویسا کچھ بھی ہوا نا تو کھال کھینچ لونگی میں تمہاری سمجھی۔۔“
                ”جی مما۔۔“ رمشا نے مودبانہ انداز میں سر جکاتے ہوئے کہا ”مما معاز باہر کھڑا ہے خالہ جان کو بتا دیں۔۔“
                ”میری بات ذہن میں رکھنا رمشا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔“ مما نے کہا اور واپس دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ باہر جاکر انہوں نے حبیبہ بیگم کو معاز کے آنے کا بتایا اور معاز انہیں لے کر چلا گیا

                رمشا اور معاز دونوں ہی کی رات کروٹیں بدلتی گزری۔ رمشا اس لیے پریشان تھی کے نا جانے وہ کیا کرے گا۔ اسے ایک یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں اسکا پیار کا دعوہ جھوٹا نا نکلے۔ دوسری طرف اسے مما کا بھی ڈر تھا جو موجودہ دور میں افیئرز وغیرہ کو پسند نہیں کرتی تھی وہ بھی معاز سے۔۔۔؟؟ یہ تو ایک طرح سے خواب تھا رمشا کا کیونکہ اسکی مما معاز کو بالکل بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
                معاز بھی سوچوں میں گم تھا کہ نا جانے رمشا کیا فیصلہ کرے گی۔۔ صبح ہوئی اور دن بھی پریشانی میں گزر گیا۔ ٹھیک سات بجے معاز نے رمشا کو کال کی ”کیا سوچا تم نے۔۔؟“
                ”معاز زندگی کے فیصلے اتنی آسانی سے نہیں ہوتے پلیز سمجھو نا۔۔“ رمشا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ”اور تمہاری آوارہ گردیوں کی وجہ سے مما ویسے بھی تمہیں پسند نہیں کرتی ہیں۔۔“
                ”رمشا بس کرو پلیز۔۔ بس اتنا بتاٶ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔؟“ معاز کو بے بسی کی لہروں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا
                ”معاز پلیز سمجھنے کی کوشش کرو نا۔ مجھے تھوڑا ٹائم تو دو نا۔۔“ رمشا نے دوبارہ ریکویسٹ کی
                ”نہیں رمی۔۔ بس کرو پتہ ہے مجھے تمہارا فیصلہ۔۔ لیکن اب میں تمہیں دکھاٶں گا زندگی کے فیصلے کتنی آسانی سے ہو جاتے ہیں۔ کل آجانا میری میت میں۔۔“ معاز کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں اسے شدید بے بسی محسوس ہو رہی تھی۔ اتنا بول کر اسنے کال کاٹ دی اور ڈسکنیکٹ کے بٹن کو دبا کے رکھا موبائیل بھی اوف ہو گیا
                ”معاز۔۔ معاز سنو نا۔۔ ہیلو۔۔ ہیلو۔۔“ رمشا ہیلو ہیلو کرہی تھی پر کال کٹ چکی تھی۔ رمشا نے کال ملائی پر نمبر بند ملنے کی نوید سنائی دی۔ اس نے کئی بار کال ملائی پر موبائیل بند جارہا تھا۔ رمشا کو اب شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ نا جانے اب وہ کیا کرے گا۔

                معاز پر شدید بے بسی کی کیفیت طاری تھی۔ وہ گھر میں چارپائی پر بیٹھا سوچ رہا تھا ایسی کیا وجہ ہے جو رمشا اسے پیار کرنا نہیں چاہتی۔۔
                ”کیا ہوا بچے۔۔ ایسے کیوں بیٹھا ہے۔۔؟؟“ امتیاز نے آکر معاز کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا
                ”کچھ نہیں بھائی کوچنگ جانا ہے بائیک دے دو۔۔“ معاز نے بھائی کی طرف دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں کہا
                ”ہاں ہاں لے جا یہ لے چابی۔۔“ امتیاز نے اسکی طرف چابی بڑھاتے ہوئے کہا ”اور یہ بتا اتنا سیریس کیوں ہے آج۔۔؟ پیسے چاہیے۔۔؟؟“
                ”ارے نہیں بھائی۔۔ بس ایسے ہی۔۔“ معاز نے کہا اور بھائی کچھ اور بولے اس سے پہلے ہی چابی لے کر باہر نکل گیا۔
                اسنے بائیک اسٹارٹ کی اور روانہ ہو گیا ایک ایسی منزل کی جانب جس کا اس کے پاس مکمل پتہ بھی نہیں تھا۔ اپنی سوچوں میں گم بس وہ بائیک چلا رہا تھا اور پھر اچانک ہی اسکی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ اب وہ روڈ پر بے سدھ پڑا تھا۔ بائیک کافی دور رگڑتی ہوئی جاکر فٹ پاتھ کی آڑ سے رک گئی تھی۔ معاز بے ہوش تھا اس کے سر اور ٹانگ سے خون نکل رہا تھا۔ جس گاڑی میں وہ گھسا تھا وہ کوئی ٹرک ٹائپ کی گاڑی تھی۔ اسکا ایکسیڈنٹ گھر کے پاس ہی روڈ پر ہوا تھا۔ امتیاز کے کسی دوست نے اپنی آنکھوں سے یہ حادثہ دیکھا اور فوراً ہی اس ٹرک والے اور آس پاس جمع لوگوں کی مدد سے معاز کو ٹرک میں ہی ڈالا اور ہسپتال کے لیے نکل گیا۔ بائیک اسنے کسی جاننے والے کو لے جانے کا بولا اور فوراً امتیاز کو فون ملایا اور سارا حادثہ بیان کر دیا۔
                حبیبہ بیگم تک خبر پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ فضا بھی رو رہی تھی اور حبیبہ بیگم کی تو حالت ہی غیر ہو گئی تھی۔ امتیاز فوراً ہی ہسپتال کے لیے نکل گیا۔
                ہسپتال پہنچا تو اسکا دوست وہاں موجود تھا۔
                ”کیا ہوا۔۔؟؟ معاز کہاں ہے راحیل۔۔؟“ امتیاز نے جاتے ہی اپنے دوست کو جھنجوڑتے ہوئے کہا
                ”قابو رکھ۔۔ امتیاز قابو رکھ خود پر۔۔“ اس نے امتیاز کو پکڑ کر بینچ پر بٹھایا ”دیکھ ڈاکٹر اسے آپریشن تھیٹر میں لے کر گئے ہیں ابھی کچھ پتہ نہیں ہے۔۔“
                ”کچھ پتہ نہیں کا کیا مطلب ہاں۔۔؟ بھائی ہے میرا۔۔۔۔۔۔“ امتیاز نے حواس باختہ ہو کر اسکا گریبان پکڑ کر چلاتے ہوئے کہا ”کہاں ہے وہ ٹرک والا جان سے مار دونگا اسے میں۔۔“
                ”امتیاز۔۔ یار قابو رکھ بھائی خود پر۔۔ ٹرک والے کی غلطی نہیں تھی وہ تو روڈ کے سائڈ پہ کھڑا ہوا تھا۔۔ معاز ہی جاکر گھس گیا تھا اس میں۔۔“ اسنے امتیاز کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی ”دیکھ بھائی وہ میرا بھی بھائی ہے۔ بس تو دعا کر سب اچھا ہو۔۔“
                اتنے میں ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا
                ”کہاں ہے میرا بھائی۔۔؟؟ کیسا ہے وہ بولو ڈاکٹر کیسا ہے وہ۔۔؟؟“ امتیاز اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا اسنے ڈاکٹر کا بھی گریبان پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے کہا
                ”وہاٹ دا ہیل۔۔؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔؟؟“ ڈاکٹر نے غصے سے راحیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
                ”امتیاز۔۔ امتیاز چھوڑ دے انہیں یار۔۔“ بڑی مشکل سے راحیل نے اس سے ڈاکٹر کا گریبان چھڑوایا اور اسے واپس بٹھاتے ہوئے کہا ”ریلیکس ہوجا یار انہیں اپنا کام کرنے دے۔۔“
                ”آپ آئیں میرے ساتھ۔۔“ ڈاکٹر نے راحیل سے مخاطب ہوکر کہا اور اپنے کیبن کی جانب بڑھ گیا۔ راحیل پیچھے ہی تھا۔ ڈاکٹر نے کیبن میں پہنچ کر اپنا کوٹ اتار کر کرسی کی پشت پر ٹانگا اور بیٹھتے ہوئے کہا ”دیکھو سر میں جس جگہ اسکے چوٹ لگی تھی اس لڑکے کا بچنا بہت مشکل تھا لیکن اللہ کا شکر ہے اسکی جان بچ گئی ہے لیکن خون کی بہت ضرورت ہے آپ کہیں سے بھی خون کا بندوبست کرو۔۔“
                ”جی ڈاکٹر کونسا خون لگے گا۔۔؟؟“ راحیل نے کہا ”آپ کے پاس نہیں ہے۔۔؟؟ آپ چڑھا دیں بل بنا دیجیے گا۔۔“
                ”دیکھو اسکا خون او نیگیٹو ہے جو بہت مشکل سے ملتا ہے۔ پھر بھی اگر میرے پاس ہوتا تو میں چڑھا دیتا لیکن معزرت چاہتا ہوں وہ خون ہمارے پاس نہیں ہے اسکا آپ کو ہی انتظام کرنا پڑے گا کم سے کم دو بوتل۔۔“ ڈاکٹر نے کہا ”آپ جلدی کیجیے کیوں کہ ٹائم زیادہ نہیں ہے۔۔“
                ”جی ڈاکٹر میں کچھ کرتا ہوں۔۔“ راحیل نے کہا اور کیبن سے باہر آگیا
                ”امتیاز۔۔ خون کا بندوبست کرنا ہے۔ دونوں تو نہیں جاسکتے۔۔“ اسنے امتیاز کے پاس جاتے ہوئے کہا ”ایک کام کر یا تو چلا جا یا میں چلا جاتا ہوں۔۔“
                ”تو جا۔۔۔۔ اور یہ بتا ڈاکٹر کیا بول رہا ہے۔۔؟“ امتیاز نے زمین کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا
                ”کچھ نہیں یار۔۔ بس خون چڑھے گا بالکل ٹھیک ہو جائے گا وہ۔ میں انتظام کرتا ہوں خون کا۔۔“ راحیل نے کہا اور جانے لگا لیکن پھر جیب سے موبائیل نکال کر امتیاز کو دیتے ہوئے کہا ”ہاں۔۔ یہ رکھ معاز کا ہے، میں خون کا بندوبست کرتا ہوں۔۔“
                امتیاز نے موبائیل دیکھا آف پڑا تھا اسنے آن کیا۔ اور اٹھ کر آپریشن تھیٹر سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی موبائیل وائیبریٹ ہوا ”رمی۔۔۔۔ یہ کون ہے“ اسنے موبائیل پر نظر ڈال کر اپنے آپ سے کہا اور کال رسیو کر لی۔
                ”معاز کیا ڈرامہ بازی ہے موبائیل کیوں بند کیا ہوا تھا۔۔؟؟“ دوسری طرف سے امتیاز کو زنانہ آواز سنائی دی
                ”میں معاز نہیں ہوں اسکا بھائی ہوں۔۔ آپ کون ہو۔۔؟؟“ امتیاز نے پوچھا
                ”امتیاز بھائی آپ۔۔ یہ تو معاز کا موبائیل ہے نا۔۔؟؟“ رمشا نے کہا
                ”کون۔۔؟ رمشا۔۔۔۔؟؟“ امتیاز نے کنفرم کرنا چاہا
                ”جی میں رمشا ہوں۔۔ معاز کہاں ہے۔۔؟ میں نے اسے ایک کام بولا تھا اب تک نہیں آیا۔۔“ رمشا نے بات کا رخ گھماتے ہوئے کہا تاکہ امتیاز کو کوئی شک نا ہو
                ”رمشا معاز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے بہت سیریس کنڈیشن ہے میں ہسپتال میں ہوں۔۔“ امتیاز نے کہا پر کوئی جواب نا آیا ”ہیلو۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔ رمشا۔۔“
                رمشا پر یہ خبر آسمانی بجلی کی طرح گری۔ وہ ایک ہی جگہ پر ساکت ہو کر رہہ گئی۔ ہاتھ موبائیل سمیت نیچے آگیا۔ اسکا دماغ ماٶف ہوکر رہہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                جاری ے​

                Comment


                • #9
                  آغاز تو بہت شاندار ہے۔​

                  Comment


                  • #10
                    Boht khoobsurat aghaz ha kahani ka boht zabardast love story lag rahi ha

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X