Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ضدی_ایک_پریم_کتھا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    Bht zaberdast kahani lg rai ha. Bht aala yar

    Comment


    • #12
      اچھا آغاز ہے انتہائی اچھی اسٹوری ہے

      Comment


      • #13
        Achi uodate hai. Ab muhabbat jag jaayegi jald hi

        Comment


        • #14
          Lajawab start aa gay chl ke dekhte hain kinara kon krta ha

          Comment


          • #15
            Cha gaye ho yar. Bht zaberdast start lia ha

            Comment


            • #16
              بہت خوب جناب عمدہ آغاز ہے

              Comment


              • #17
                #ضدی_ایک_پریم_کتھا
                #قسط_نمبر_3

                کافی دیر بعد رمشا کے حواس بحال ہوئے اور اسکی سسکیاں بندھ گئیں۔ شاید زندگی میں اس طرح وہ پہلے کبھی نہیں روئی تھی جیسے آج رو رہی تھی۔ اپنے پاپا کی ڈیتھ پر بھی اسکی ایسی حالت نہیں تھی جو آج تھی۔ وہ اپنے آپ کو انتہائی بے بس محسوس کرہی تھی۔ اسکے ذہن میں معاز کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ کل میری میت پر آجانا۔ اس وقت اسے اپنے آپ سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔
                حقیقت یہ تھی کہ معاز کی طرح اسکی بھی بچپن کی صرف ایک ہی پسند تھی اور وہ معاز تھا۔ معاز کے اظہار نے اسے اندرونی طور پر کھلکھلا کر رکھ دیا تھا لیکن معاز اسکے کردار کے بارے میں کچھ غلط نا سوچے اس وجہ سے اسنے معاز کے سامنے کسی قسم کی کوئی بے تابی کا اظہار نہیں ہونے دیا تھا۔ پر اب وہ پچھتا رہی تھی کاش اسنے معاز کی بات مان لی ہوتی۔ کہتے ہیں جب ہر دروازہ بند ہو جائے تو انسان کو اللہ کی یاد آتی ہے۔ اسنے بھی وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نوافل پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ دل میں بس ایک ہی تمنا تھی کہ اس کا پیار سلامت رہے۔

                معاز کے پاپا گھر آئے تو گھر پر ایک قیامتِ صغراں ان کی منتظر تھی۔ حبیبہ بیگم بہت زیادہ ڈیپریشن کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھیں۔ فضا بہتے اشکوں کے ساتھ انکا سر دبا رہی تھی۔
                ”فضا۔۔۔ یہ کیا ہوا تمہاری امی کو؟؟“ اشرف علی نے گھر آتے ہی فضا کو روتے ہوئے دیکھا اور حبیبہ بیگم کو بے ہوشی کی حالت میں پایا۔
                ”پاپا امی کو کچھ نہیں ہوا ہے۔۔ معاز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے“ فضا نے بتایا اور بے اختیار سسکیوں سے رونے لگی ”بھائی کے پاس فون آیا تھا ان کے دوست کا اسنے کہا ہے بہت بری حالت ہے معاز کی۔۔“
                ”کیا کہہ رہی ہو بیٹا۔۔ کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟؟“ اشرف علی کے پاٶں تلے سے زمین نکل گئی تھی انہیں اندازہ نہیں تھا گھر جاکر انہیں اس طرح کی خبر کا سامنا کرنا پڑے گا ”کونسے ہاسپٹل میں ہیں وہ لوگ بھائی نے بتایا کچھ؟؟؟“
                ”نہیں پاپا دو گھنٹے ہو گئے بھائی کا کوئی فون نہیں آیا“ فضا نے روتے روتے جواب دیا
                ”رو مت بیٹا۔۔ کچھ نہیں ہوگا میرے بچے کو“ اشرف علی نے فضا کے پاس بیٹھ کر اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ”اچھا ایک کام کرو بھائی کو فون لگاٶ۔۔“
                ”جی پاپا۔۔“ فضا نے کہا اور امتیاز کو کال ملا کہ موبائیل پاپا کو دے دیا
                ”ہیلو۔۔ فضا امی کو بولو معاز ٹھیک ہے بس تین چار دن یہیں رکھیں گے اسے۔۔“ امتیاز نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
                ”ہاں بیٹا۔۔ کونسے اسپتال میں ہو تم لوگ مجھے بتاٶ میں آجاتا ہوں۔۔“ اشرف علی نے کہا
                ”پاپا آپ ٹینشن مت لیں وہاں فضا اور امی اکیلی ہیں ان کا خیال رکھیں۔ ابھی میں آٶں گا آپ لوگوں کو لینے۔۔“ امتیاز نے کہا
                ”ٹھیک ہے بیٹا۔۔ پر معاز تو خیریت سے ہے نا۔۔؟؟؟“ اشرف علی نے فکر آمیز لہجے میں پوچھا۔۔
                ”جی پاپا۔۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔۔ خون چڑھ رہا ہے اسے تھوڑی دیر میں اسے وارڈ میں شفٹ کر دینگے۔۔“ امتیاز نے پاپا کو تسلی دیتے ہوئے کہا ”جیسے ہی اسے شفٹ کریں گے میں آٶں گا آپ لوگوں کو لینے۔۔“
                ”ٹھیک ہے بیٹا۔۔ پیسوں کی ضرورت ہے تو بتاٶ۔۔“ اشرف علی نے پوچھا
                ”جی پاپا ضرورت تو ہے۔ میرے پاس جو بھی پیسے تھے سب لگ گئے ہیں باقی راحیل کا خرچہ ہوا ہے۔۔“ امتیاز نے کہا ”اور آگے بھی پتہ نہیں ہے کب کیا ضرورت پڑ جائے۔۔“
                ”ٹھیک ہے بیٹا میرے پاس رکھے ہیں کچھ پیسے تم راحیل کو بھیج کے منگوا لو۔۔“ اشرف علی نے کہا
                ”ارے نہیں پاپا۔۔ ابھی معاز کو شفٹ کریں گے تب میں خود ہی آٶنگا۔۔“ امتیاز نے کہا ”راحیل بھی بے چارہ کب سے بھاگا بھاگا پھر رہا ہے۔۔“
                ”ٹھیک ہے بیٹا خیال رکھنا اپنا۔۔ خدا حافظ۔۔“ اشرف علی نے کہا اور کال کاٹ دی۔۔

                انہوں نے اب حبیبہ بیگم کو چیک کیا۔ انکی نبض چیک کی جو اپنی رفطار سے دوڑ رہی تھی۔ پھر فضا سے پانی منگوا کر انکے چہرے پر چھینٹے ماریں حبیبہ بیگم ہوش میں آگئیں۔ لیکن ہوش میں آتے ہی پھر انہیں بیٹے کا خیال آیا اور انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
                ”حبیبہ سنبھالو خود کو۔ میری امتیاز سے بات ہوئی ہے معاز ٹھیک ہے اب۔ تھوڑی دیر میں امتیاز آئے گا اور ہمیں لے کر جائے۔۔ تم سنبھالو خود کو۔۔“ اشرف علی نے حبیبہ بیگم کا ہاتھ ہاتھوں میں تھام کر تسلی دیتے ہوئے کہا اور انکے آنسو پونچھنے لگے
                ”میرے بچے کو کس کی نظر لگ گئی۔۔“ حبیبہ بیگم نڈھال ہو رہی تھی ”نا جانے کیسا ہوگا میرا بچہ۔۔“
                ”پاپا پانی۔۔“ فضا پانی کا گلاس لیے ابھی تک کھڑی تھی اشرف علی نے پانی کا گلاس لے کر حبیبہ بیگم کو پلاتے ہوئے کہا ”ٹھیک ہے ہمارا بچہ کچھ نہیں ہوا اسے۔۔۔ لو تم پانی پیو۔۔“

                معاز کو ایک خون کی بوتل چڑھا دی گئی تھی اور ڈاکٹر نے پہلے ہی نوید سنا دی تھی کہ اسکی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اسے اب وارڈ میں شفٹ کیا جارہا تھا۔ وارڈ کو بڑی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اوپنلی بیڈ لگانے کے بجائے پورے وارڈ میں چھوٹے چھوٹے سے روم بنائے گئے تھے جس میں ایک بیڈ اور بنچ کے بعد بھی کچھ جگہ بچ جاتی تھی جبکہ دروازے کی جگہ پردے لگائے گئے تھے لیکن پھر بھی وارڈ میں موجود کسی بھی مریض کی پرائیوسی متاثر نہیں ہو سکتی تھی۔ معاز کو بھی ایسے ہی ایک روم میں شفٹ کردیا گیا۔ امتیاز اور راحیل وہیں بیٹھے تھے۔ معاز کو ہوش نہیں آیا تھا اور ڈاکٹر نے بھی کہا تھا اسے صبح تک ہوش آئے گا۔ امتیاز اور راحیل معاز کے بیڈ کے رائٹ سائیڈ پر لگی بنچ پر بیٹھے تھے
                راحیل معاز کی ہی گلی میں رہتا تھا اور امتیاز کا بچپن کا دوست تھا جبکہ اسی طرح راحیل کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جو معاز کے بچپن کا دوست تھا لیکن ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا تب سے وہ معاز کو ہی اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا تھا۔

                ”تیرا احسان کیسے اتاروں گا یار میں۔۔“ امتیاز نے راحیل کا کندھا دباتے ہوئے کہا ”تو نہیں ہوتا تو پتہ نہیں آج کیا ہوتا۔۔“
                ”دوستی میں احسان کی بات کر کہ تو دماغ خراب کرہا ہے میرا۔۔“ راحیل نے اسے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا ”اور یہ تیرا بھائی نہیں ہے۔۔ میرا بھی بھائی ہے۔ میرے منا کے ساتھ کھیل کے بڑا ہوا ہے آج وہ نہیں ہے تو کیا ہوا میرا یہ بھائی تو ہے۔۔“ کہتے کہتے راحیل کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں امتیاز نے اسے گلے لگا لیا ”رو نہیں یار منا جہاں بھی ہے ہم لوگوں سے زیادہ سکون میں ہوگا رو نہیں تو۔۔“
                ”لیکن یہ ٹھیک ہو جائے پھر دیکھ کیسا مارتا ہوں میں اسے۔ تو بائیک کیوں دیتا ہے اسے جب یہ چلا نہیں پاتا؟؟“ راحیل نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا
                ”ابے نہیں یار سہی چلاتا ہے۔ امی کو بھی لے کر جاتا ہے۔۔“ امتیاز نے کہا
                ”ابے چلانا نہیں آتی اسے۔۔ یار خود جا کہ کھڑے ہوئے ٹرک میں گھس گیا۔۔ تو بتا ایسا ہوتا ہے کیا۔۔؟؟؟“ راحیل نے اپنی آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا
                ”یار میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔۔“ امتیاز نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ”اس نے مجھ سے چابی مانگی تھی پر اسکا انداز بڑا مختلف تھا۔ مجھے لگا ہی نہیں تھا یہ میرا بھائی ہے۔۔“
                ”چل چھوڑ ٹینشن ہوگی پڑھائی وغیرہ کی۔۔“ راحیل نے اسکی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا
                ”ہاں سہی کہہ رہا ہے تو“ امتیاز نے اٹھتے ہوۓ کہا ”اچھا یار تو یہاں رک میں امی پاپا لوگ کو لے کر آتا ہوں۔۔ رات کو رکنا بھی پڑے گا یہاں۔۔“
                ”ہاں جا ہو کر آجا“

                دوسرے دن صبح کے وقت معاز کو ہوش آیا تو اسنے خود کو اس انجان جگہ پر پایا۔ بنچ پر اسکی امی سو رہی تھیں جب کے اس سے آگے امتیاز کرسی پر بیٹھا تھا جو اس وقت بیڈ پر سر رکھ کر سو رہا تھا۔ معاز نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا پر اسکی ہمت جواب دے گئی۔ پر اسکی آہٹ سے حبیبہ بیگم کی آنکھ کھل گئی تھی۔ انہوں نے اٹھ کر دیکھا تو معاز کی آنھیں کھلی ہوئی تھی۔ انکی آنکھوں میں بے اختیار آنسو چھلک پڑے
                ”امی آپ کیوں رو رہی ہیں۔۔؟“ معاز نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
                ”کچھ نہیں بیٹا۔۔ کیسا محسوس کرہے ہو۔۔“ حبیبہ بیگم نے اسکا ہاتھ چومتے ہوئے کہا ”کوئی تکلیف ہے تو بتاٶ۔۔“
                ”ہاں امی سر میں اور اس پاٶں میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔“ اسنے ہاتھ سے پکڑ کر پاٶں اوپر اٹھانے کی کوشش کی پر اٹھا نہیں پایا
                ”ہاں بیٹا۔۔ چوٹ لگی ہے درد تو ہوگا نا۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا ”کل سے تو نے سارے گھر والوں کی جان نکال کے رکھی ہوئی ہے۔۔“
                ”چوٹ۔۔۔۔؟ کیسی چوٹ امی۔۔؟؟ کیا ہوا ہے مجھے؟“ معاز نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا
                ”یہ تو کسی کو بھی نہیں پتہ کیا ہوا ہے۔۔“ امتیاز نے نیند سے بیدار ہو کر کہا ”راحیل بتا رہا تھا کہ تیرا بھائی بائیک لے کر کھڑے ہوئے ٹرک میں گھس گیا تھا۔۔“
                اب معاز کو یاد آگیا تھا۔۔ ساتھ ہی ساتھ رمشا کی یاد نے بھی اسے تڑپا دیا۔
                ”امی خالہ کو بتایا تھا کیا یہ سب۔۔؟؟“ معاز نے امی کی طرف گردن گھماتے ہوئے کہا
                ”نہیں بیٹا۔۔ اتنی ٹینشن تھی یاد ہی نہیں رہا۔۔“ امی نے جواب دیا
                ”ہاں۔۔ کل رات تیرے نمبر پہ رمشا کی کال آئی تھی تو میں نے اسے بتایا تھا۔۔“ امتیاز نے کل رات کی کال کا ذکر کرتے ہوئے کہا
                ”اچھا۔۔۔؟؟ پھر۔۔ پھر کیا ہوا۔۔؟؟“ معاز نے بے قرار ہوتے ہوئے کہا
                ”کچھ نہیں ہوا۔۔ میں نے اسے بتایا تو سامنے سے کوئی جواب ہی نہیں دیا اسنے۔۔“ امتیاز نے کہا ”میں ہیلو ہیلو کرتا رہا پر اسنے کوئی جواب نہیں دیا۔۔“
                یہ سن کر معاز کا دل بیٹھ گیا۔۔ اسے اب یقین ہو گیا تھا رمشا کو اس سے تھوڑا سا بھی لگاٶ نہیں ہے۔ اسے اب افسوس ہو رہا تھا اپنے زندہ ہونے کا۔۔

                رمشا شدید اذیت کا شکار تھی۔ معاز کے نمبر پر بھی کانٹیکٹ نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ موبائیل امتیاز کے پاس تھا۔۔ وہ کچھ نہیں کر پارہی تھی۔ جی تو چاہتا تھا اڑ کر معاز کہ پاس چلی جائے پر وہ مجبور تھی بنا اجازت کہیں جا نہیں سکتی تھی۔ ماموں جاب پر جا چکے تھے اور مما بھی جانے کے لیے تیار تھیں۔ مما کے جانے کے بعد اسنے کچھ دیر سوچا لیکن آخر کو معاز کا نمبر ڈائل کر دیا
                ”کیا ہوا رمشا۔۔۔؟“ امتیاز نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
                ”جی امتیاز بھائی معاز کیسا ہے اب۔۔؟؟؟“ رمشا نے سب سے پہلے معاز کی کیفیت جاننے کی کوشش کی
                ”ٹھیک ہے اب۔۔ ہاسپٹل میں ہے۔۔؟“ امتیاز نے کہا ”اچھا رات کو جب میں نے بتایا تھا تو جواب کیوں نہیں دیا تھا تم نے۔۔؟؟“
                ”وہ امتیاز بھائی میں بول رہی تھی پر آپ کو شاید آواز نہیں جارہی تھی“ رمشا نے بہانا بنانے کی کوشش کی ”تھوڑی پرابلم ہے موبائیل میں۔۔“
                ”اچھا کوئی بات نہیں۔۔“ امتیاز نے کہا
                ”اچھا امتیاز بھائی آپ ہاسپٹل میں ہیں۔۔؟؟“ رمشا نے پوچھا
                ”نہیں۔۔۔ میں گھر آیا ہوں ذرا کچھ سامان لے کر جانا ہے اور فضا بھی ضد کرہی تھی ہاسپٹل جانے کی۔۔“ امتیاز نے کہا
                ”امتیاز بھائی کونسے ہاسپٹل میں ہے معاز۔۔؟“ رمشا نے جاننے کی کوشش کی
                ”سٹی ہاسپٹل میں پرائیوٹ وارڈ نمبر تین بیڈ نمبر آٹھ “ امتیاز نے کہا ”امی وہیں ہیں ابھی۔۔ تم لوگ آرہے ہو کیا۔۔؟؟“
                ”جی۔۔۔ جی ہاں آرہے ہیں۔۔ آپ ٹینشن نہیں لیں دوپہر تک آنا واپس۔ ہم لوگ ہونگے تب تک۔۔“ رمشا نے کہا ”آپ کل سے وہیں ہونگے تو ریسٹ کر لیں تھوڑا۔۔“
                ”ہاں۔۔ یہ ہوئی نا بات کم سے کم کسی کو تو میرا خیال آیا۔۔ جب جانے لگو تو بتانا میں پھر آجاٶں گا فضا کو لے کر۔۔ اوکے اللہ حافظ۔۔“

                رمشا نے اپنے پرس میں دیکھا دو سو اور کچھ روپے تھے۔ وہ فوراً تیار ہو گئی۔ اسنے اپنی مما کو فون ملایا
                ”کیا ہوا رمشا۔۔؟“ مما نے پریشانی کے عالم میں کہا ”کوئی پرابلم ہے کیا۔۔“
                ”مما وہ معاز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا کل۔ امتیاز بھائی نے بتایا ہے۔۔“ رمشا نے کہا
                ”کیا۔۔ کیسے بھئی۔۔؟؟“ مما نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا
                ”پتہ نہیں مما۔۔ وہ خالہ نے بلوایا ہے مجھے۔۔ میں چلی جاؤں۔۔؟“ رمشا نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا
                ”جاٶ گی کیسے۔۔۔؟“ مما نے پوچھا
                ”وہ امتیاز بھائی کو بھیجا ہے خالہ نے۔۔ آنے والے ہونگے۔۔“ اسنے ایک اور جھوٹ بولا
                ”اچھا ٹھیک ہے چلی جانا۔۔“ مما نے کہا ”اور وہاں جا کہ بتانا کیسا ہے وہ اب۔۔“
                ”جی مما۔۔۔ اوکے اللہ حافظ“

                رمشا نے کال کاٹی۔ ابایا پہنا۔ پرس سنبھالا۔۔ سینڈل پہنی اور دروازے کو تالا لگا کر نکل گئی۔۔
                ایک رکشے والے کو روکا۔۔
                ”سٹی ہاسپٹل چلو گے۔۔؟؟“
                ”جی میڈم چلیں“ رکشے والے نے کہا
                ”کتنے پیسے لینگے۔۔۔؟؟“ رمشا نے پوچھا
                ”ڈھائی سو روپے دے دیجیے گا۔۔“ رکشے والے نے کہا
                ”بہت زیادہ ہیں کچھ کم کر لیں۔۔“ رمشا پرس سے پیسے نکال کر گنتے ہوئے کہا
                ”آپ کتنے دینگی۔۔؟“ رکشے والے نے کہا
                ”ایک سو بیس روپے لے لینا۔۔۔“ رمشا نے کہا
                ”نہیں بہت کم ہو جائیں گے۔۔ فائنل ایک سو اسی روپے دے دیجیے گا اس سے کم نہیں ہو سکتا۔۔“ رکشے والے نے کہا
                رمشا نے ایک پل کو سوچا بیٹھ جائے لیکن اسے واپس بھی آنا تھا بالآخر اسنے رکشہ چھوڑ دیا اسکے بعد دو تین لوگوں سے اور پوچھا پر سب اسکی پہنچ سے باہر پیسے بتا رہے تھے۔ بالآخر اسنے چنگچی سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری چنگچی نے اسے ہاسپٹل سے کافی فاصلے پر اتارا اور وہ پیدل ہی ہاسپٹل کی طرف بڑھ گئی۔۔ ہاسپٹل کے پاس سے اسنے بچے ہوئے پیسوں سے جوس وغیرہ لیا اور اند داخل ہو گئی۔ پوچھتے پوچھتے اسنے وارڈ ڈھونڈا پھر بیڈ نمبر دیکھتی ہوئی معاز کے بیڈ تک پہنچی۔ اسنے پردہ ہٹایا تو بالکل سامنے ہی معاز کو لیٹا ہوا پایا جو اس وقت سو رہا تھا، رمشا اسے بے سدھ کھڑی دیکھنے لگی۔ حبیبہ بیگم کچھ پڑھ رہی تھیں۔ رمشا پر نظر پڑی تو فوراً حیرت کے مارے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
                ”بیٹا۔۔۔ تم یہاں اکیلے۔۔؟؟“ حبیبہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بنچ پر بٹھاتے ہوئے کہا
                ”خالہ۔۔ خالہ جان میں نے سنا تو میرے ہاتھ پاٶں پھول گئے۔۔ میں بس چلی آئی۔۔“ اسکی آنکھو میں آنسو نمودار ہو گئے
                ”ارے میری بچی۔۔“ حبیبہ بیگم نے اسکا سر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ”مما نے آنے دیا تمہیں اکیلے۔۔؟؟“
                ”نہیں مما کو بولا ہے آپ نے امتیاز بھائی کو بھیج کے مجھے بلوایا ہے“ رمشا نے سچائی بتاتے ہوئے کہا
                ”جھوٹ بول کے آئی ہو مما سے ہاں۔۔؟“ حبیبہ بیگم نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا لیکن ان آنکھوں میں انہیں کوئی چالاکی نظر نہیں آئی بس تھا تو ایک اداسی تھی ، ایک سنجیدگی تھی جسے دیکھنے کے بعد حبیبہ بیگم مزید اور کچھ نا کہہ سکیں
                ”پلیز خالہ جان۔۔۔ مما کو نہیں بتانا میں اکیلے آئی تھی۔۔ پلیز۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔“ رمشا نے ان سے التجا کرتے ہوئے کہا
                ”ارے نہیں بتاٶں گی۔۔“ حبیبہ بیگم نے کہا تبھی پردہ ہٹا اور نرس نے ایک پرچی حبیبہ بیگم کو تھماتے ہوئے کہا ”یہ ڈرپ منگوا لیں چڑھانی ہے۔۔“ اتنا بول کے وہ نرس واپس چلی گئی
                ”لائیں خالہ جان میں لے کر آتی ہوں۔۔“ رمشا نے انسے پرچی مانگتے ہوئے کہا
                ”نہیں بیٹا۔۔ تم اس سے ملو جس سے ملنے کے لیے مما سے جھوٹ بول کے اکیلے یہاں آگئی ہو۔۔“ حبیبہ بیگم نے کھڑے ہوکر چپل پہنتے ہوئے کہا ”ماں ہوں۔۔۔ پتہ چل جاتا ہے بچوں کے دلوں میں کیا چل رہا ہے۔۔“
                حبیبہ بیگم کی بات سن کر رمشا کو بے اختیار اٹھنا پڑا اور اپنی خالہ سے چمٹ گئی۔۔
                ”کیا کرہی ہے پگلی۔۔؟ مجھے جانے دے ورنہ پھر آجائے گی نرس۔۔“ حبیبہ بیگم نے پیار سے اسکے ماتھے پر بوسہ لیا اور باہر جاتے جاتے کہا ”اٹھا دے اب اسکو بہت دیر سے سو رہا ہے۔۔“

                انکے جانے کے بعد رمشا نے اب بھرپور نظروں سے معاز کی طرف دیکھا اور نا جانے کیوں خود بخود جھک کر اسنے آہستہ سے اسکے ہونٹ چوم لیے۔۔
                اب وہ بنچ پر بیٹھ گئی اور اپنا گال معاز کے ہاتھ کو تھام کر اسپر رکھ دیا اور پھر سب کچھ یاد کر کے دوبارہ رونے لگی۔
                معاز کو شاید اپنے ہاتھ پر نمی کا احساس ہو اسنے ہاتھ چھڑانا چاہا پر نہیں چھڑا پایا۔ رمشا نے اسکی طرف دیکھا تو وہ بیدار ہو رہا تھا۔
                معاز کے گمان میں بھی نہیں تھا اسکی آنکھ کھلتے ہی اسے اپنی حقیقی زندگی سے ہمکنار ہونے کا موقع ملے گا۔ اسنے پہلے آنکھیں مینچتے ہوئے نیند میں رمشا کو دیکھا لیکن پھر اچانک ہی اسکی آنکھیں حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیات کے باعث کھلی کی کھلی رہہ گئیں۔ وہ بس رمشا کو تک رہا تھا اور رمشا کی آنکھوں سے موتیوں کی لڑیاں جاری تھیں اور پھر دیوانہ وار رمشا اس پر جھکی اور اس سے چمٹ کر زوردار ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا۔۔
                ”بہت برے ہو تم۔۔ بہت بے مروت ہو بہت زیادہ۔۔ ٹائم ہی تو مانگا تھا میں نے پر تم بہت بے مروت ہو۔۔ میں بہت ناراض ہوں تم سے بہت زیادہ مازی بہت زیادہ۔۔ نہیں بولوں گی آئی لیو یو نہیں بولوں گی بلکہ آئی ہیٹ یو معاز آئی ہیٹ یو۔۔“ رمشا اس وقت جذبات سے بھری ہوئی اپنے دل میں قید تمام احساسات کو بنا کسی چیز کی پرواہ کیے نکالنے میں مگن تھی جبکہ معاز تو اس وقت ہوش میں ہوتے ہوئے بھی بالکل مدہوش ہو چکا تھا

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                جاری ے​

                Comment


                • #18
                  بہت ہی مزادار اپ ڈیٹ ہے۔۔۔

                  Comment


                  • #19
                    شاندار اور جاندار اپڈیٹ

                    Comment


                    • #20
                      شاندار اپڈیٹ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X