Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ضدی_ایک_پریم_کتھا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    جاندار اپڈیٹ​

    Comment


    • #22
      آگے دونوں کے گھر والے کیسے راضی ہوں گے یہ دیکھنا باقی ہے
      شاندار اپڈیٹ

      Comment


      • #23
        Inthai shandar soopppeeerr update

        Comment


        • #24
          شاندار اغاز

          Comment


          • #25
            Boht behtareen update rimsha or maaz ki mohabbat ka aghaz ho gya dekhte han yeh mohabbat kya rang laati ha

            Comment


            • #26
              اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا ہے انتہائی دلچسپ اور مزےدار اسٹوری ہے

              Comment


              • #27
                کمال کی اپڈیٹ۔۔۔
                پڑھ کر ایسا لگا جیسے کوئی اپنی آپ بیتی پڑھ رہا ہو

                Comment


                • #28
                  بہت اچھی اپڈیٹ۔
                  مزہ آیا پڑھ کر۔

                  Comment


                  • #29
                    #ضدی_ایک_پریم_کتھا
                    #قسط_نمبر_4

                    ”رمشا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔ رمشا۔۔۔؟؟“ کافی دیر بعد معاز کو سمجھ آیا کیا ہو رہا ہے اسکے ساتھ۔ اسکی سانسیں اس کے قابو سے باہر تھیں۔۔ ”بولو۔۔۔۔ بو۔۔ بولو نا رمشا۔۔۔ تم ہو کیا۔۔؟؟“
                    ”ہاں۔۔ معاز میں ہی ہوں۔۔“ رمشا نے اپنا سر تھوڑا اٹھایا اور اسکی طرف دیکھ کر اپنے کان پکڑتے ہوئے کہا ”مجھے معاف کر دو۔۔ میری وجہ سے ہوا نا یہ سب۔۔“
                    ”نہیں۔۔۔ میری ہی غلطی تھی۔۔“ معاز کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ بنا آنکھیں ملائے اسنے دوسری طرف منہ کرتے ہوئے کہا ”میں زبردستی تمہیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔“
                    ”ہیئی۔۔۔ ادھر دیکھو۔۔۔“ رمشا نے اسکا چہرہ اپنی طرف گھماتے ہوئے کہا ”زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ میں نہیں چاہتی ایسی حالت میں تم مجھ سے مار کھاٶ۔۔“
                    ”سچ ہی تو کہہ رہا ہوں۔۔ تم پیار کرتی نہیں مجھ سے اور میں چاہتا تھا زبردستی میری ہو جاٶ۔۔“ معاز نے بے بسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ”اگر کرتی ہو پیار تو۔۔ بولو یو لو می۔۔؟؟؟“
                    معاز نے کہا اور پھر چہرہ دوسری طرف گھما لیا
                    ”آنکھوں مت چراٶ۔۔ تمہیں یہی سننا ہے نا تو میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ بات کرو۔۔“ رمشا نے پھر سے اسکا چہرہ اپنی طرف گھما لیا اور بالکل اسکے نزدیک جا کر اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ”سنو۔۔۔ آئی لو یو۔۔ آئی۔۔۔۔۔۔ لو۔۔۔۔۔۔ یو۔۔۔۔۔“
                    ”نہیں رمشا۔۔۔ نہیں۔۔ مجھے پتہ ہے تم اس لیے کہہ رہی ہو تاکہ میں دوبارہ کچھ نا کروں۔۔“ معاز نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور دوبارہ اپنا چہرہ گھما لیا ”مجھے ہمدردی کی ضرورت نہیں۔ پیار مانگا تھا بس۔۔“
                    ”اب اگر منہ گھمایا نا تو گردن بھی توڑ دونگی تمہاری سمجھے۔۔۔۔۔ ایک زخم اور سہی۔۔“ رمشا نے پھر اسکا چہرہ اپنی طرف گھمایا اور پہلے سے زیادہ نزدیک ہوکر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ”غور سے دیکھو معاز میری آنکھوں میں ہمدردی ہے یا پیار ہے۔۔؟؟ اور ویسے بھی تم اتنے شریف نہیں کہ تم سے ہمدردی کروں گی۔۔“
                    ”تم سچ کہہ رہی ہو نا رمی۔۔؟؟“ معاز نے اس بار دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسکی آنکھوں میں دیکھا
                    ”ہاں میرا بچہ۔۔۔۔۔۔۔“ رمشا نے پیار سے اسے دیکھا پھر اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا ”ٹائم ہی مانگا تھا نا بس۔۔۔ منع تو نہیں کیا تھا۔۔؟؟ لیکن تم۔۔۔۔۔۔ بس کر لیا جو کرنا تھا۔ ایک بار بھی نہیں سوچا میرے بارے میں۔ پتہ ہے کتنا روئی ہوں میں رات بھر۔۔ پر تمہیں نہیں فکر۔۔۔ بالکل فکر نہیں۔۔“ رمشا نے دوبارہ رونا شروع کر دیا تھا۔ بس روئے جارہی تھی اور بولے جارہی تھی۔۔ معاز نے اپنے ہاتھوں کے گھیرے میں اسے مضبوطی سے جکڑ لیا۔۔
                    کافی دیر دونوں ایسے ہی پڑے رہے۔ معاز نے اسے اپنی گرفت سے آذاد کیا اور رمشا وہیں بیڈ پر اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔۔ معاز نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ”رمی۔۔ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاٶ گی۔۔۔؟؟؟“

                    رمشا دوبارہ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے بالکل پاس لے گئی اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ”معاز۔۔۔۔ میں نے پہلی بار کسی سے پیار کیا ہے اور آخری بار بھی۔۔ موت کے سوا مجھے اب تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔۔“ رمشا اپنے چہرے کے لمس اسکے گال پر مسلنے لگی پھر اچانک اٹھی اور اسکا گریبان پکڑ کر پوری طرح اس پر جھک کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ”اور سن لو۔۔۔ اگر تم نے کبھی جدا ہونے کا سوچا۔۔ تو جان لے لونگی تمہاری۔۔“
                    معاز نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور دوبارہ اپنی بانہوں کے گھیرے میں بھر لیا۔۔۔۔۔

                    ان دونوں کی محبت کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن کچھ ہی ٹائم بعد یہ بات رافیعہ بیگم تک پہنچ گئی اسکے بعد رمشا کی شامت آئی۔ انہوں نے اسکا موبائیل چھین لیا۔ گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا۔ جس کے بعد آخر کو بات گھر کے بڑوں تک پہنچی اور بہت منانے کے بعد رافیعہ بیگم اس شرط پر راضی ہوئیں کہ معاز دو سال میں کسی قابل بن کر دکھائے ورنہ وہ جس سے چاہیں گی رمشا کی شادی کر دینگی۔۔

                    ******

                    معاز شہر کے بہت بڑے مال کے باہر کھڑا تھا۔۔ دروازے کے پاس پہنچا تو کلیئر کلیئر کی آواز آئی اور دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔۔ اندر جاکر اسنے سیلز کاٶنٹر ڈھونڈا اور وہاں جا کر کھڑا ہو گیا اسکے ہاتھ میں ایک فائیل بھی تھی۔۔
                    ”جی سر۔۔ لائیں بل بنا دوں۔۔۔“ کاٶنٹر پر موجود لڑکی نے مسکراتے ہوئے اسکی فائیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
                    ”جی نہیں۔۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ انٹرویو کے لیے کدھر جانا ہے۔۔؟؟“ معاز نے فائیل اوپر کر کہ اسے دکھاتے ہوئے کہا ”یہ میری ڈگریاں ہیں۔ مجھے انٹر ویو کے لیے بلایا گیا تھا یہاں پر۔۔۔“
                    ”او اچھا۔۔ آئی ایم سوری۔۔ ویٹ میں پتہ کرتی ہوں۔۔“ لڑکی نے معزرت خواہانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ”آپ یہ فائیل مجھے دکھائیں۔۔“
                    معاز نے اسے فائیل دی اور وہ فائیل کھولتے ہوئے کاٶنٹر پر رکھے فون پر کسی کو کال ملانے لگی
                    معاز نے مال کا جائزہ لیا۔ یہ مال نہیں کوئی سپر مارکیٹ تھی۔ ضرورتِ استعمال کی ہر چیز یہاں موجود تھی۔ ائر کنڈیشنڈ کی ٹھندک یہاں محسوس کی جا سکتی تھی۔ شاہد یہاں کوئی خوشبودار گیس بھی پھیلائی گئی تھی۔ ایک مسحور کن خوشبو آرام سے محسوس کی جا سکتی تھی۔
                    ”ایکسکیوز می سر۔۔“ لڑکی نے معاز کو آواز لگائی
                    ”جی۔۔ جی کیا ہو۔۔؟“ معاز جو مال کا جائزہ لیتا ہوا تھوڑی دور چلا گیا تھا دوڑتا ہوا اسکے پاس پہنچا
                    ”جی۔۔۔ آپ کو بلایا ہے۔۔“ اسنے ایگزٹ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”آپ اس دروازے سے باہر جائیں اور مال کے بیک سائیڈ پر چلے جائیں۔ وہاں گارڈ کھڑے ہوتے ہیں ان سے پوچھ لیجیے گا آپ کو راستہ بتا دینگے۔۔“
                    ”جی تھینکس۔۔“ معاز نے کہا اور خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا
                    مال کے بیک سائیڈ پر پہنچا تو واقعی وہاں گارڈز موجود تھے۔ پیچھے بہت سارے شٹر لگے تھے اور اس وقت ایک شٹر کھلا ہوا تھا اور کسی کمپنی کے ٹرک سے سامان اتار کر اندر منتقل کیا جارہا تھا۔۔ معاز نے ایک گارڈ کے پاس جا کر کہا ”بھائی یہ انٹر ویو کے لیے کدھر سے جانا پڑتا ہے۔۔؟؟“
                    گارڈ نے ایک نظر اسکا سر سے پیر تک جائزہ لیا اور اسکی تلاشی لی۔ پھر ان شٹروں کے بیچ موجود ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اس دروازے سر اندر جاٶ۔۔ سیدھے ہاتھ پر سیڑھیاں چڑھنا وہاں دیکھنا اور بھی لوگ آئے ہوئے ہیں انٹر ویو کے لیے۔۔ وہیں بیٹھ جانا۔۔“
                    ”اوکے شکریہ۔۔“ معاز نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ پر اندر جاتے ہی اسے رکنا پڑا کیونکہ سامنے دیوار تھی۔۔ ایک راستہ الٹے ہاتھ پر تھا جہاں گیٹ لگا تھا۔ سیدھی طرف دیکھا تو سیڑھیا اوپر جارہی تھی۔ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ پہلی منزل پر پہچا تو کوئی راستہ نہیں تھا بس ایک طرف گیٹ لگا تھا۔ اسنے پاس جا کر گیٹ کھولنا چاہا پر گیٹ نہیں کھلا۔۔ پھر وہ سیڑھیوں سے مزید اوپر جانے لگا۔۔ دوسری منزل پر پہنچا تو دونوں ہی طرف راہداریاں تھیں اور سائڈ میں دروازے لگے تھے شاید یہ اوفیشل کیبن تھے۔ ایک طرف کی راہداری کے بالکل آخر میں لوگ بیٹھے تھے۔ وہ بھی اسی طرف بڑھ گیا۔ وہاں پہنچ کر اسنے کسی سے پوچھا۔۔ ”انٹر ویو یہیں ہوگا نا۔۔؟؟“
                    اس آدمی نے گردن ہلا کر ہاں کا اشارہ کر دیا اور معاز بھی اسی کے برابر میں بیٹھ گیا۔ دس بارہ افراد کے بعد اسکا نمبر آنا تھا۔ دو گھنٹے سے زائد بیٹھنے کے بعد بالآخر کیبن سے لڑکی باہر آئی اور معاز کو اندر آنے کا اشارہ کر کے چلی گئی۔
                    ”می آئی کم ان س۔۔۔۔ میڈم۔۔؟؟“ معاز نے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے اجازت چاہی اور خلافِ توقع اندر لیڈی افسر تھی اور اسنے سر کہتے کہتے میڈم کر دیا
                    ”کم ان۔۔“ افسر نے اسے دیکھے بنا ہی اپنی فائیل پر کچھ لکھتے ہوئے کہا
                    معاز نے اندر جاکر کھڑے کھڑے ہی کہا ”یس میڈم۔۔۔“
                    ”بیٹھ ج۔۔۔۔۔۔“ افسر معاز سے بیٹھنے کا کہہ رہی تھی پر اسکی پہلی بار معاز پہ نظر پڑی اور کہتے کہتے رک گئی۔۔ وہ غور سے معاز کو دیکھ رہی تھی۔۔ پھر اپنی کرسی سے اٹھی اور معاز کو دیکھتے ہوئے ہی اسکے پاس آگئی اور کندھوں سے اسے پکڑ کر غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔
                    اسکی اسسٹنٹ حیرت سے سب دیکھ رہی تھی۔۔ اسسٹنٹ کیا خود معاز کی عجیب کیفیت تھی نا جانے وہ افسر کیا کرہی تھی۔۔ ”میڈم یہ کیا کرہی ہیں آپ۔۔؟“ معاز نے کہا
                    افسر نے اسکے کندھے چھوڑ دیے اور چٹکی بجاتے ہوئے انگلی کا اشارہ معاز کی طرف کرتے ہوئے بولی ”معاز علی۔۔۔ رائٹ۔۔۔؟“
                    ”یس میڈم۔۔ میں نے سی وی دی تو تھی۔۔“ معاز نے کہا
                    ”ابے یار سی وی میں کوئی تصویر تھوڑی تھی تیری۔۔“ افسر نے بے تکلفانہ انداز میں اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ”یہ تو میں تیری شکل دیکھ کر پہچانی ہوں۔۔ تو نے نہیں پہچانا مجھے۔۔؟؟“
                    ”نہیں۔۔۔ دیکھی ہوئی لگ رہی ہیں پر یاد نہیں آرہا۔۔“ اس بار معاز نے غور سے اسکو دیکھتے ہوئے کہا ”آئی تھنک سعدیہ۔۔۔۔؟؟“
                    ”چلو کم سے کم پہچانا تو سہی۔۔“ اس نے معاز کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اسکے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی اور اپنی اسسٹنٹ سے مخاطب ہوئی ”حیا۔۔ یہ میرے اسکول فرینڈ ہیں۔۔ اور کوئی ہے انٹر ویو کے لیے۔۔؟“
                    ”جی نہیں میم۔۔ اور کوئی نہیں ہے۔۔“ اسسٹنٹ نے کہا
                    ”ٹھیک ہے۔۔ تم جاٶ مال میں دیکھو کیا چل رہا ہے۔۔ اور پیون سے کہنا کول ڈرنک بھجوا دے میرے کیبن میں۔۔“ سعدیہ نے اسے آرڈر کرتے ہوئے کہا
                    ”جی میم۔۔“ حیا نے کہا اور باہر چلی گئی
                    ”آئی کانٹ بلیو دس سعدیہ تم تو بہت چینج ہو گئی ہو میں پہچان ہی نہیں سکا۔۔“ معاز نے سعدیہ سے مخاطب ہوتے کہا
                    ”چینج مطلب۔۔۔؟؟“ سعدیہ نے اسکے قریب کرسی کھسکاتے ہوئے کہا ”عجیب سی ہو گئی ہوں کیا۔۔۔؟“
                    ”نہیں یار۔۔ مطلب آتنگ ہو گئی ہو بالکل۔۔“ معاز نے ازراہِ مزاق کہا
                    ”کمینے لائن مار رہا ہے۔۔ نوکری نہیں دونگی۔۔“ سعدیہ نے اسکے پاٶں پر زور سے چماٹ مارتے ہوئے کہا
                    ”ایسا مت کرو یار۔۔ یہ نوکری میری زندگی پر ڈیپینڈ کرتی ہے۔۔“ معاز نے اس سے گزارشانہ انداز میں کہا اور سعدیہ نے اسکی فائیل لے کر پڑھنا شروع کر دی
                    ”دیکھ معاز تیری جو قابلیت ہے اس طرح کی جاب تو میں تجھے فی الحال نہیں دلا سکتی۔۔“ سعدیہ نے فائیل پڑھتے پڑھتے معاز کی طرف دیکھ کر کہا ”لیکن ابھی تو کچھ ٹائم لوڈر کا کام کر لے۔۔ جیسے ہی کوئی فارغ ہوا میں تجھے ادھر فٹ کر دونگی۔۔“
                    ”لوڈنگ یار۔۔۔۔“ معاز نے مایوسی بھرے انداز میں کہا
                    ”دیکھ زبردستی نہیں ہے۔۔ بٹ میں تجھے یہی ایڈوائز کروں گی۔۔“ اسنے معاز کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے دباتے ہوئے کہا ”یہاں رہے گا تو جیسے ہی تیرے مطلب کی کوئی پوسٹ نکلے گی میں تجھے لگا دونگی۔۔ آگے تیری مرضی ہے۔۔“
                    ”ٹھیک ہے۔۔ کیا سیلری ہوگی میری اور ڈیوٹی ٹائمنگ۔۔۔؟؟“ معاز نے پوچھا
                    ”ویسے لوڈر کو اٹھارہ ہزار دیتے ہیں۔۔“ سعدیہ نے اٹھ کر اپنی کرسی کی طرف جاتے ہوئے کہا ”لیکن تجھے میں بیس دلواٶنگی اینڈ الاٶنس اور کنوینس الگ۔۔“
                    ”ٹھیک ہے۔۔ کب آٶں۔۔؟؟“ معاز نے دونوں ہاتھ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا
                    ”بڑی جلدی ہو رہی ہے تجھے کام کرنے کی۔۔۔“ سعدیہ نے بھی دونوں ہاتھ ٹیبل پہ رکھ دیے اور معاز کی طرف جھک کے کہا ”امی سے پٹ کے آیا ہے کیا جاب کرنے۔۔۔ ہاہاہاہاہا“
                    ”سعدیہ ڈو ناٹ جوکنگ یا۔۔ بی سیریس۔۔“ معاز نے سنجیدگی سے کہا ”تجھے کہا تو ہے یہ جاب میری پوری زندگی کا فیصلہ کرے گی۔۔“
                    ”اچھا ٹھیک ہے تو کل سے ہی آجا۔۔ اور بول۔۔“ سعدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر دونوں اپنی اسکول لائف کی باتیں کرنے لگے۔۔

                    رمشا یونیورسٹی سے نکلی تو روڈ پر ہی اس نے معاز کو اپنا منتظر پایا۔۔
                    ”مازی۔۔ تم یہاں۔۔۔؟“ رمشا دوڑتی ہوئی اسکے پاس پہنچ گئی۔۔
                    ”ہم۔۔۔۔ تمہارے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔۔“ معاز نے اسکے کان کے پاس جا کہ سرگوشی میں کہا ”کہیں بیٹھ کے سنو گی یا یہیں سناٶں۔۔؟“
                    ”کہاں جاٶ گے۔۔؟“ رمشا نے پوچھا
                    ”یہیں کسی ریسٹورنٹ میں۔۔“ معاز نے بائیک پر بیٹھتے ہوئے کہا اور رمشا پیچھے بیٹھ گئی۔۔
                    ایک آئیس کریم پارلر کے پاس معاز نے بائیک روکی اور دونوں اتر کر اندر چلے گئے۔ ایک ٹیبل پر دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔۔ معاز ٹکٹی باندھے رمشا کو دیکھ رہا تھا۔۔
                    ”کیا ہے۔۔۔؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔؟“ رمشا نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ”کیا خبر ہے بولو نا۔۔ انٹرویو میں پاس ہو گئے۔۔؟“
                    ”چپ۔۔۔“ معاز نے اسکے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھتے ہوئے کہا ”بس مجھے دیکھنے دو ابھی جی بھر کہ۔۔۔“
                    ”ٹھیک ہے میں بھی دیکھوں گی اب۔۔“ رمشا نے دونوں ہاتھ کونیوں کہ بل ٹیبل پر رکھے اور اپنا چہرہ ان پر ٹکاتے ہوئے کہا ”دیکھو اب جی بھر کہ۔۔۔“
                    ”ہاہاہاہا۔۔۔ لوگ پاگل سمجھیں گے ہمیں۔۔“ اسنے رمشا کا ایک ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ”رمی۔۔ مجھے جاب مل گئی ہے۔۔“
                    ”وہاٹ۔۔۔۔ ڈو ناٹ جوکنگ معاز۔۔“ رمشا نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا ”معاز پلیز سیریس ہو جاٶ اب یار لائف بہت آگے نکلتی جا رہی ہے۔ کیوں نہیں سمجھتے۔۔؟؟“
                    ”بٹ رمشا سچ کہہ رہا ہوں میں یار۔۔“ معاز نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا
                    ”ایسے کیسے ڈائریکٹ جاب مل گئی۔۔۔؟“ رمشا نے کہا ”تم تو انٹر ویو کے لیے گئے تھے نا۔۔ یا رکھ ہی لیا انہوں نے فوراً۔۔۔؟“
                    ”سر آرڈر پلیز۔۔“ ویٹر نے آکر کہا
                    معاز نے آرڈر دیا اور پھر دوبار رمشا سے مخاطب ہوا اور مال میں پیش آنے والا پورا ماجرا اسے سنا دیا
                    ”یہ وہی سعدیہ ہے نا جو اسکول میں بہت اچھی دوست تھی تمہاری۔۔۔۔؟؟“ رمشا نے اسکی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا
                    ”ہاں۔۔۔۔ بٹ رمی وہ اسکول لائف تھی یار۔۔“ معاز نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
                    ”ہاں۔۔ وہ اسکول لائف تھی اور یہ ورکنگ لائف ہے۔۔“ رمشا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ”تمہارے تو مزے آگئے نا۔۔ مال میں بھی اسکول جیسا مزا ملے گا۔۔۔“
                    ”تو تمہیں مجھ پہ بھروسا نہیں۔۔؟“ معاز نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر وہ منہ پھلائے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی معاز کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرہی تھی۔۔
                    ”رمی۔۔ ٹیل می۔۔ تمہیں بھروسا نہیں مجھ پر۔۔۔؟“ ابھی بھی رمشا نے اسکی طرف نہیں دیکھا ”ٹھیک ہے میں وہاں جاٶنگا ہیں نہیں۔۔ کہیں اور ٹرائی کرونگا۔۔“
                    ”بھروسے کی بات نہیں ہے معاز۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔۔“ اب رمشا نے اسکی طرف التجائی نظروں سے دیکھا لیکن پھر اچانک غصے بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا ”ٹھیک ہے جاٶ۔۔ لیکن سن لو“ رمشا نے زور سے اسکا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ”حد میں رہنا۔۔۔“
                    ”کیوں۔۔۔ تمہیں کیا ایسا ویسا لگتا ہوں میں۔۔۔؟“ معاز نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا
                    ”آئی ڈو ناٹ نو۔۔۔ لیکن مجھے پتہ ہے لڑکیوں کے سامنے بہت معصوم بن جاتے ہو تم۔۔“ رمشا نے اسے انگلی دکھاتے ہوئے کہا ”اگر تمہاری معصومیت کی وجہ سے وہاں کچھ ہوا نا تو سن لو جان سے مار دونگی تمہیں۔۔“
                    اسی طرح ان دونوں کی نٹ کھٹ حرکتیں چلتی رہیں۔۔ معاز نے اسے گھر چھوڑا اور اپنے گھر جاکر سب کو یہ خبر سنائی۔۔ گھر میں بھی سب بہت خوش ہوئے۔۔

                    دوسرے دن سے معاز نے جاب جوائن کر لی۔۔ آج دسواں دن تھا جاب کا۔۔
                    معاز اپنے کام میں مصروف تھا کہ سعدیہ اسکے پاس آئی ”معاز۔۔۔“ سعدیہ کافی سیریس اور گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی
                    ”سعدیہ۔۔۔ کیا ہوا۔۔؟“ معاز نے اسے دیکھا۔۔ اسکی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور ایک عجیب گھبراہٹ تھی اسکے چہرے پر ”سعدیہ۔۔۔ بول نا کیا ہوا تجھے۔۔؟؟“
                    ”معاز بس چل۔۔ چل یہاں سے۔۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہے معاز چل نا۔۔“ سعدیہ نے بری طرح اسے کھینچتے ہوئے کہا معاز نے مزید کچھ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا اور اسکے ساتھ ساتھ جانے لگا چلتے چلتے سعدیہ نے اپنا حلیہ درست کیا اور معاز کو مال سے باہر لے گئی۔۔
                    ”اب بتاٶ نا سعدیہ ہوا کیا ہے۔۔؟“ معاز نے باہر آکر رکتے ہوئے کہا
                    ”معاز پلیز اس جگہ سے مجھے دور لے جا پھر بتا دونگی سب۔۔“ سعدیہ نے اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔ اسکی آنکھوں میں بے بسی کا عکس نمایاں تھا۔ اسکو دیکھنے کے بعد دوبارہ معاز کی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی اور اسنے وہیں روڈ پر رکشہ روکا اور دونوں اس میں بیٹھ گئے۔
                    ”کہاں جانا ہے صاحب۔۔؟؟“ رکشے والے نے بیک ویو مرر سے دیکھتے ہوئے کہا
                    ”کسی فوڈ اسٹریٹ پر لے لیں۔۔“ سعدیہ نے جواب دیا
                    پورے راستے معاز نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ سعدیہ پر نا جانے عجیب سدمہ طاری تھا وہ پیچھے ٹیک لگائے رکشے کی چھت کو تک رہی تھی۔ رکشے والے نے ایک فوڈ اسٹریٹ پر ٹرن لیا لیکن وہیں سعدیہ نے اسے رکنے کا بول دیا۔ پرس سے پیسے نکال کر اسے دیے اور معاز کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔ ایک باربی کیو ریسٹورنٹ میں داخل ہو کر اس نے ایک اکیلی ٹیبل کا انتخاب کیا اور بیٹھ گئی۔ معاز بھی اس کے سامنے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا
                    ”سعدیہ کچھ بتاٶ گی۔۔۔؟“ معاز نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
                    ”معاز۔۔ پہلے وعدہ کرو۔۔“ اسنے معاز کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ”کسی کو۔۔۔ کسی کو نہیں بتاٶ گے۔۔ وعدہ کرو۔۔“
                    ”وعدہ سے زیادہ اہم ہماری دوستی کا یقین ہے سعدیہ۔۔“ معاز نے بھی اسکے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کر لی اور اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ”کیا تجھے مجھ پر یقین نہیں۔۔؟؟“
                    ”ہے۔۔ بہت ہے۔۔۔ معاز ابھی جی ایم نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا تھا۔۔ اور پھر میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی۔۔۔“ اسنے بولتے بولتے سر جھکا لیا ”بہت مشکل سے بھاگ کر آئی ہوں۔۔“
                    ”اوہ گاڈ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہے تو۔۔؟؟“ معاز نے اٹھ کر اسکے برابر والی کرسی پر بیٹھ کر اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ”سعدیہ تو ٹھیک ہے نا۔۔۔؟ سچ بتا کچھ ہوا تو نہیں نا۔۔؟؟“
                    ”نہیں۔۔ میں بھاگ گئی تھی۔۔“ سعدیہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا
                    ”تو لڑکی تو نے کسی کو بتایا کیوں نہیں۔۔؟؟“ معاز نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ”سب کے سامنے ذلیل کروانا چاہیے تھا نا اسے۔۔“
                    ”اسکو ذلیل کرنے کی وجہ سے میں خود ذلیل ہو جاتی معاز۔۔“ سعدیہ نے معصومیت سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
                    ”اچھا۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔ ریلیکس ہوجا تو۔۔“ معاز نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور اٹھ کر واپس سامنے والی کرسی پر آگیا ”کچھ دن جاب پر نہیں آنا بس۔۔۔“
                    ”میں اب کبھی نہیں آٶں گی۔۔۔“ اسنے معاز کی طرف دیکھ کر کہا ”میں یہ جاب چھوڑ رہی ہوں۔۔“
                    ”لیکن کیوں۔۔ تو آ۔۔ میں دیکھ کیسا مزا چکھاتا ہو جی ایم کو۔۔۔“ معاز نے ٹیبل پر مکا مارتے ہوئے کہا ”تو جاب نہیں چھوڑ سعدیہ۔۔“
                    ”نہیں۔۔ میں نہیں آٶں گی اب۔۔“ سعدیہ نے اسکی طرف معزرت بھرے انداز میں دیکھ کر کہا ”آئی ایم سوری۔۔ میں تجھے کسی اچھی پوسٹ پر نہیں لگا سکی۔۔“
                    معاز نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پیار سے اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیکر دباتے ہوئے کہا ”کوئی بات نہیں۔۔ میں اپنا راستہ بنا لونگا۔۔ اور وعدہ ہے میرا جی ایم کو سبق سکھا کر رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
                    جاری ے​

                    Comment


                    • #30
                      عمدہ کہانی

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X