Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ضدی_ایک_پریم_کتھا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    عمدہ کہانی

    Comment


    • #42
      Zabardast kahani hai janab..
      maza aaraha hai..

      Comment


      • #43
        #ضدی_ایک_پریم_کتھا
        #قسط_نمبر_5
        معاز کو تقریباً چھ مہینے ہو گئے تھے جاب کرتے ہوئے۔۔ اب اسکی بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بجائے 8 آٹھ گھنٹے کی شفٹنگ ڈیوٹی تھی۔ اس وقت وہ دوپہر تین بجے سے رات گیارہ بجے کی ڈیوٹی کرہا تھا۔۔ آج اسے سیلری ملنی تھی۔۔ اسنے اس مہینے بہت محنت سے کام کیا تھا۔ ڈبل شفٹ بھی کی تھی۔ وہ سیلری لینے کیشئیر کے کیبن میں گیا اور کیشئیر نے اسے 27000 ہزار سیلری کی سلپ تھما دی۔ پیسے اسے اے ٹی ایم سے نکلوانے تھے۔۔
        وہ واپس مال میں آیا اور سوچنے لگا۔
        وہ سوچ رہا تھا اس میں سے بارہ ہزار گھر پر دونگا اور رمشا کے برتھ ڈے پر اسے گولڈ رنگ گفٹ کرونگا اور باقی جو پیسے ہونگے اس سے اپنا مہینے بھر کا گزارا کرونگا۔۔ اشرف علی اب ٹھیلا نہیں لگاتے تھے ان کی طبیعت اب بہت خراب رہنے لگی تھی۔ لیکن پھر بھی ان کے گھر میں بیٹھ جانے سے پہلے ہی معاز نے اپنے لیے ایک بائیک لے لی تھی۔۔ لیکن اب گھر کے خرچے کی ذمہ داری دونوں بھائیوں کے کندھے پر آگئی تھی۔۔ بارہ ہزار معاز دیتا تھا اور پندرہ ہزار امتیاز دیتا تھا اس طرح گھر کا خرچہ چل رہا تھا۔۔
        آج معاز کافی خوش تھا۔ پہلی بار وہ رمشا کے برتھ ڈے پر اسے اپنی کمائی سے ایک بڑا گفٹ دینے والا تھا۔۔ چھٹی ہو گئی تھی۔ معاز نے حاضری کارڈ پنچ کیا اور مال سے نکل گیا۔۔ برابر میں ہی بنک تھا جس کا اے ٹی ایم چلتا رہتا تھا۔ اسنے وہاں جاکر پندرہ ہزار نکالے اور بائیک اسٹارٹ کر کے نکل گیا۔
        گھر پہنچ کر اسنے دیکھا سب ہی جاگ رہے تھے۔ حالانکہ پاپا اور امی دس بجے تک سو جاتے تھے اور فضا معاز کو کھانا وغیرہ دینے کی وجہ سے جاگ رہی ہوتی تھی۔۔ لیکن آج سب جاگ رہے تھے۔ اسنے سلام کیا اور جیب سے پیسے نکال کر پاپا کو دے دیے۔
        ”بیٹا۔۔۔ امتیاز ابھی تک آیا نہیں ہے۔۔“ پاپا نے پیسے جیب میں رکھتے ہوئے کہا ”فون بھی بند ہے اسکا۔۔“
        ”پاپا آجائیں گے بھائی آپ ٹینشن مت لیں۔۔“ معاز نے بیٹھتے ہوئے کہا
        ”نہیں بیٹا کوئی تو بات ہے۔۔“ امی نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا ”تو جا۔۔۔ جا راحیل سے پتہ کر اسے پتہ ہوگا۔۔“
        ”جی۔۔ جی امی آپ ٹینشن مت لیں۔۔“ معاز نے اٹھتے ہوئے کہا ”میں جاتا ہوں۔۔“
        معاز نے چپل پہنی اور باہر آکر راحیل کے گھر کی طرف چل دیا۔
        اسکے گھر کے پاس پہنچ کر اسنے آواز دی پر کوئی نہیں آیا۔۔ دو تین آوازوں کے بعد اسنے راحیل کے نمبر پہ میسج کیا اور ساتھ ساتھ کال بھی کی پر کال سامنے سے کاٹ دی گئی۔۔ مایوس ہو کر وہ واپس آنے لگا
        ”کہاں جارہا ہے بچے۔۔۔؟“ راحیل نے گھر سے نکلتے ہوئے اسے آواز دی
        معاز مڑا اور اس کے پاس جا کے بولا ”راحیل بھائی۔۔ بھائی ابھی تک نہیں آئے۔۔ آپ کو پتہ ہے کہاں ہیں۔۔؟“
        ”نہیں مجھے نہیں پتہ۔۔“ راحیل نے جیب سے موبائیل نکالتے ہوئے کہا ”رک میں کال کرتا ہوں۔۔“
        ”کوئی فائدہ نہیں نمبر بند ہے ان کا۔۔“ معاز نے وہیں گھر کے آگے چبترے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ راحیل کال ملاتے ملاتے اسکے برابر میں بیٹھ گیا اور موبائیل کان سے لگا لیا ”کھلا ہے نمبر۔۔“
        ”ہاں راحیل کیا ہوا۔۔؟؟“ امتیاز نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
        ”میرا چھوڑ اپنا بتا۔۔ تو کہاں ہے۔۔؟“ راحیل نے معاز کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ”تیرے گھر والے پریشان ہو رہے ہیں۔۔“
        ”ابے یار۔۔۔ تجھے بتایا تو تھا اپنے چکر کا۔ بس کر لیا وہ کام۔۔ اب بتا دے تو گھر پہ۔۔“ امتیاز نے اسے کوئی بات یاد دلاتے ہوئے کہا
        ”کتنا بڑا ....... ہے تو۔۔۔“ راحیل نے اسے گندی سی گالی دیتے ہوئے کہا ”تجھے منع بھی کیا تھا میں نے۔۔ اپنے ماں باپ کا تو کچھ خیال کر لیتا۔۔“
        ”لیکچر نہیں دے یار۔۔ بس بتا دے امتیاز نہیں آئے گا اب اور یہ بھی بول دے خرچہ بھیجے گا ہر مہینے۔ چل اللہ حافظ۔۔“ امتیاز نے کہا اور کال کاٹ دی
        ”اس سے یہ امید نہیں تھی۔۔“ راحیل نے اپنے آپ سے کہا
        ”کیا امید نہیں تھی راحیل بھائی۔۔؟“ معاز نے بے قرار ہوتے ہوئے کہا ”کیا ہوا۔۔۔؟ بتاٶ نا۔۔“
        ”دیکھ بچے۔۔ تیرے بھائی کا چکر تھا ڈیفینس میں کسی عورت سے۔۔“ راحیل نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ”طلاق شدہ عورت ہے کافی امیر ہے۔۔ زیادہ بڑی نہیں ہے پانچ چھ سال بڑی ہوگی امتیاز سے۔۔“
        ”ہاں تو پھر کیا ہوا۔۔؟“ معاز نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا
        ”پھر یہ ہوا کہ اس عورت نے تقریباً ہفتہ بھر پہلے امتیاز سے شادی کا کہا تھا اور شرط رکھی تھی کہ تمہیں اپنے گھر والوں کو چھوڑنا پڑے گا۔۔ امتیاز نے مجھے بتایا تھا اور میں نے بہت سمجھایا تھا اسے پر وہ نہیں مانا۔۔“ راحیل نے اسکا کندھا تھپکا ”آج اسنے نکاح کر لیا ہے۔۔ اب یہاں نہیں آئے گا وہ۔۔ ابھی کہہ رہا تھا خرچہ بھجوا دونگا ہر مہینے۔۔“
        ”راحیل بھائی آپ کو کیا لگتا ہے میں ان سے اب خرچہ لونگا۔۔۔؟؟“ معاز نے سوالیہ نظروں سے راحیل کی طرف دیکھا ”ان سے کہہ دینا کہ ہمیں خرچہ کی ضرورت نہیں۔۔“
        ”بڑا ہو گیا ہے میرا شیر ہاں۔۔“ راحیل نے دونوں ہاتھوں سے اسکے بازو پکڑ کے دباتے ہوئے کہا ”فکر مت کر تیرا ایک بھائی ابھی ہے۔۔“
        ”راحیل بھائی بس مجھے امی کی ٹینشن ہے۔۔ انہیں کیسے بتاٶں گا یہ سب۔۔“ معاز نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
        ”ٹینشن مت لے۔۔ چل میں چلتا ہوں۔۔“ راحیل اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے اسکے گھر کے پاس لے جانے لگا۔خبر گھر میں پہنچی۔۔ پاپا نے تو سہہ لیا پر امی نہیں سہہ پائیں۔۔ زار و قطار رونے لگیں۔ فضا انہیں دلاسے دے رہی تھی پر ماں تو ماں ہے۔۔ شاید بچے کے مر جانے پر اتنا دکھ نہیں ہوتا ماں کو جتنا کسی اور کی وجہ سے چھوڑ جانے کا ہوتا ہے۔ خیر اللہ اللہ کر کہ امی کی حالت بھی سنبھل گئی۔
        ”مجھے اب دوبارہ ٹھیلا لگانا پڑے گا۔۔“ پاپا نے معاز کی طرف دیکھ کر کہا
        ”نہیں پاپا آپ نے بہت کام کر لیا۔۔“ معاز نے باپ کا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے کہا ”بس آپ کا سایہ سلامت رہے میں اتنا خرچہ دونگا کے آپ لوگوں کو بھائی کی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔۔“
        ”بیٹا یہ مہینہ بھی تو گزارنا ہے نا اتنے پیسوں میں نہیں گزر سکتا۔۔“پاپا نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا
        ”میں جاب کر لوں پاپا۔۔۔؟“ فضا نے حالات کی نوعیت کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا
        ”چپ کر کے بیٹھ تو۔۔۔“ معاز نے فضا کی طرف غصے سے دیکھا پھر پاپا سے مخاطب ہوا ”پاپا میں کل آپ کو دس ہزار اور دے دونگا۔ آپ کو پریشانی نہیں ہونے دونگا۔۔“
        ”لیکن میرے بچے تجھے بھی تو مہینے بھر کا خرچہ چاہیے ہوگا نا۔۔“ پاپا نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
        ”ارے پاپا آپ میری فکر مت کریں۔۔“ معاز نے اٹھتے ہوئے کہا ”فضا مجھے کھانا دے دے۔۔“ معاز نے کہا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا
        فضا بھی اٹھ کر کچن میں آگئی۔ اشرف علی حبیبہ بیگم کے پاس گئے اور انکا ہاتھ پکڑ کر کہا ”حبیبہ تم رونا نہیں۔۔ میرا یہ بچہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا مجھے پتہ ہے۔۔“
        رات کے وقت معاز کمرے میں لیٹا سوچ رہا تھا کے کیسی قسمت ہے اسکی۔ کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے تو کہیں نا کہیں سے کوئی نا کوئی رکاوٹ آہی جاتی ہے۔ وہ رمشا کو سونے کی رنگ دینا چاہتا تھا پر سوچ رہا تھا کل پاپا کو مزید دس ہزار دینے کے بعد اسکے پاس پانچ ہزار ہی تو بچیں گے جو اس کے خرچے کے لیے بھی ناکافی ہیں تو گفٹ کہاں سے دیگا۔ اپنے بھائی کا سوچا تو پہلی بار اسکی آنکھوں میں یہ سوچ کر آنسو آئے کہ اسکا بھائی اب ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔ بھائی ہی تھا جس کی وجہ سے معاز اتنا پڑھ لکھ سکا تھا۔ باپ سے زیادہ بھائی نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کے ناز نخرے اٹھائے تھے۔ معاز کا دل بیٹھا جارہا تھا پھر اسنے سوچا کہ میرا یہ حال ہے تو امی کا کیا حال ہوگا۔ وہ اٹھا اور امی والے کمرے میں گیا۔ فضا بھی سو چکی تھی اور ایک طرف امی سو رہی تھیں۔ سوتے ہوئے بھی اسے ماں کے چہرے پر فکر کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے۔ اس نے پیار سے ماں کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور چادر اٹھا کر انہیں اوڑھا کر واپس اپنے کمرے میں آگیا۔
        اس بات کو تین دن گزر گئے تھے۔ امتیاز نے واپس گھر میں جھانکنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔ بقول راحیل کے امتیاز وہاں بہت خوش تھا۔ اسنے پیسے بھیجے تھے جسے راحیل نے واپس بھجوا دیے تھے۔ معاز آج گھر پر آیا پاپا صحن میں چارپائی پر سو رہے تھے۔ امی کے کمرے میں جھانکا تو امی کو بھی سوتا ہوا پایا۔ فضا کو کھانے کا بول کے وہ اپنے کمرے میں آگیا۔ کھانا وانا کھا کر آرام سے لیٹ گیا۔ اچانک اسکی موبائیل میں ٹائم پر نظر پڑی بارہ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے۔ اسے یاد آیا رمشا کا برتھ ڈے شروع ہو چکا تھا اسنے فوراً میسج میں ہیپی برتھ ڈے رمی ٹائپ کیا اور رمشا کو سینڈ کر دیا
        ”بڑی جلدی خیال آگیا تمہیں۔۔“ رمشا نے جواب میں غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
        ”سوری۔۔۔“ معاز نے ٹائپ کر کہ بھیجا
        ”کوئی بات نہیں مازی۔۔ میں مزاق کرہی ہوں۔۔ کم سے کم تمہیں یاد تو ہے۔۔“ رمشا نے رپلائی کیا
        ”اس لیے سوری نہیں کہہ رہا۔۔“ معاز نے جواب دیا اور فوراً دوسرا میسج بھی کر دیا ”بلکہ میں تمہیں کوئی گفٹ نہیں دے پاٶں گا۔۔“
        ”یہ نہیں ہو سکتا معاز۔۔ گفٹ تو مجھے چاہیے۔۔“ رمشا نے دوٹوک لہجے میں کہا
        ”رمشا پلیز سمجھو نا۔۔ میں بہت پرابلم میں ہوں ابھی۔۔“ معاز نے رپلائی کیا
        ”میں تم سے پیسے نہیں مانگ رہی اوکے۔۔ بس اتنا کرو کہ کل آٹھ بجے میرے گھر پر آجانا۔۔“ رمشا نے کہا
        ”رمشا پلیز۔۔ برتھ ڈے کے دن خالی ہاتھ تمہارے گھر آنا مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔“ معاز نے جواب دیا
        ”مجھے نہیں پتہ۔۔ میں بس ویٹ کرونگی۔۔ بائی۔۔“ رمشا نے کہا اور بات ختم کر دی
        ”اوکے اللہ حافظ۔۔۔“ معاز نے کہا اور موبائیل نیچے رکھ کر سوچنے لگا کہ کیسے سمجھاٶں اس لڑکی کو،
        وہ سوچ رہا تھا خالی ہاتھ جاٶں گا رمشا تو کچھ نہیں کہے گی لیکن خالہ جان کو ضرور ناگوار گزرے گا۔ ویسے بھی وہ اسے پسند نہیں کرتی بس بیٹی کی ضد کے آگے بے بس تھیں۔۔ سوچتے سوچتے اسنے موبائیل اٹھایا اور کسی کو کال ملا دی
        ”ہاں معاز۔۔۔ خیریت اتنی رات کو یاد کیا۔۔؟“ سامنے سے کسی نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
        ”سر میں کل بارہ سے آٹھ والی شفٹ میں آسکتا ہوں۔۔؟ رات کو جانا ہے کہیں۔۔“ شاید وہ معاز کا کوئی سینئر افسر تھا
        ”ابے تو کال کیوں کی۔۔؟ صبح آجاتا بارہ بجے کوئی مسئلہ تھوڑی ہے۔۔“ افسر نے کہا
        ”میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں ایک بار۔۔“ معاز نے کہا
        ”ہاں ہاں آجا کوئی مسئلہ نہیں۔۔“ افسر نے کہا
        ”تھینک یو سر۔۔ اللہ حافظ۔۔“ کال کاٹ کر معاز نے موبائیل رکھا اور سو گیا۔۔
        دوسرے دن آٹھ بجے چھٹی ہوئی۔ معاز پہلے گھر گیا پر دروازے پہ تالا لٹک رہا تھا وہ سوچنے لگا گھر والے کہاں چلے گئے۔ اسنے بائیک اسٹارٹ کی اور خالہ کے گھر کے لیے نکل گیا۔
        وہاں پہنچ کر اسنے دستک دی۔ دوسری دستک پر دروازہ کھلا اور وہ یہ دیکھ کہ حیران رہہ گیا کہ سامنے فضا کھڑی تھی۔ اسنے باہر کھڑے کھڑے ہی پوچھا ”فضا تو یہاں۔۔۔؟“
        فضا مسکرائی اور بنا کچھ بولے ہی اندر چلی گئی۔۔ وہ بھی اندر داخل ہو گیا۔ اندر پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نا رہی۔ امی اور پاپا بھی یہیں تھے۔ سب بالکل تیار تھے۔
        اسنے سلام کیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ خالا کے گھر میں دو کمرے تھے کمرے کے اندر ہی سے دوسرے کمرے کا راستہ تھا۔۔ ادھر امی ، پاپا ، ماموں اور خالہ تھیں جب کے ممانی ، فضا اور رمشا شاید دوسرے کمرے میں تھیں۔ اتنے میں شاید خالہ کو کچھ یاد آیا اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں کپڑے تھے۔ انہوں نے کپڑے معاز کو دیتے ہوئے کہا ”جا واشروم میں جا کہ چینج کر لے اور تیار ہوجا۔۔“
        ”خالہ یہ کپڑے کس کے ہیں۔۔؟“ معاز نے کپڑے دیکھتے ہوئے کہا۔ ایک شرٹ تھی سی گرین کلر کی اور بلیک کلر کی ڈریس پینٹ تھی اور کپڑے دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کے پہلی بار ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔ مطلب نئے کپڑے تھے۔
        ”ہر چیز کی چھان بین مت کیا کرو۔۔ تمہیں دیے ہیں نا بس پہن کے آٶ۔۔“ خالہ نے اسکے گال پر آہستہ سے چماٹ مارتے ہوئے کہا۔ امی سامنے بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔
        ”ٹھیک ہے جارہا ہوں۔۔“ معاز نے کپڑے لیے اور واشروم میں چلا گیا۔۔
        تھڑی دیر میں باہر آیا شیشے میں خود کو سنوارا اور واپس کمرے میں آگیا۔ صوفے پر بیٹھنے لگا تبھی ممانی اور فضا دوسرے کمرے سے رمشا کو لے کر نکلنے لگیں۔ معاز نے رمشا کو دیکھا اور بس پھر دیکھتا ہی رہہ گیا۔ وہ تقریباً دلہن کے روپ میں تھی۔ اسے لگا شاید کوئی پری آسمان سے اتر کر آگئی ہو۔ بے ساختہ ہی وہ صوفے پر گر پڑا۔ ان دونوں نے رمشا کو لا کر معاز کے برابر میں بٹھا دیا پر معاز ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
        ”کیا دیکھ رہا ہے نظر لگائے گا میری بچی کو۔۔؟“ امی نے معاز کا کان پکڑ کر کہا
        ”آآآآ۔۔ نہیں امی۔۔ پر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔؟“ معاز جو اب تک صورتِ حال سے انجان تھا اسنے پر تجسس انداز میں پوچھا
        ”رمشا کا برتھ ڈے گفٹ میری طرف سے۔۔“ خالہ جان نے کہا اور رمشا کے برابر میں بیٹھ گئیں اور اسکا چہرہ تھام کر کہا ”میں نے سوچا آج اپنی بیٹی کو یادگار گفٹ دوں۔۔ آج تم دونوں کی منگنی ہے۔۔“
        ”لیکن خالہ میرے پاس تو ابھی اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ میں رمشا کو کوئی گفٹ ہی دے سکوں۔۔“ معاز نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا
        ”ہم۔۔۔ ہر سال گفٹ دیتے ہو نا۔۔“ خالہ اٹھ کر معاز کے پاس آئیں اور اور اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا ”لیکن اس بار تم نے مجھے گفٹ دیا ہے خود کو بدل کر۔۔ میں بس یہی چاہتی تھی کے تم اپنی ذمہ داری کو سمجھو۔۔“
        معاز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ آج وہ اپنی خالہ کہ دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
        پھر منگنی کی رسم شروع ہو گئی۔ معاز اور رمشا آج بہت خوش تھے۔ اتنے کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن خوشیوں کو نظر لگتے دیر نہیں لگتی۔۔
        معاز پابندی سے جاب پر جارہا تھا۔ آج بھی کام کرتے کرتے اچانک اعلان کیا گیا کے مال کلوز ہونے کے بعد تمام اسٹاف اسٹاف روم میں پہنچے سیٹھ اکرم آج وزٹ کر کہ کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔۔
        سیٹھ اکرم اس مال کے اونر تھے۔ مال میں بہت ہی کم آتے تھے۔ آٹھ مہینے سے معاز جاب کرہا تھا بٹ کبھی اسنے انہیں نہیں دیکھا تھا۔ اسکی جاب کے دوران بس ایک بار ہی شاید سیٹھ اکرم نے مال کا وزٹ کیا تھا لیکن معاز نے تب بھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔ صرف معاز ہی نہیں بلکہ مال کا زیادہ تر اسٹاف ان سے نا واقف تھا۔ صرف آفس کے کچھ لوگ ہی ان سے ملے ہوئے تھے۔
        چھٹی کے بعد تمام اسٹاف اسٹاف روم میں جمع ہو گیا۔ تھوڑے انتظار کے بعد ہی ایک باوقار شخص اسٹاف روم میں داخل ہوا۔ شخصیت ایسی کے کسی کو بھی اپنے سحر میں مبطلا کر دے۔ اس نے سامنے لگے عارضی اسٹیج پر پہنچ کر مائیک لیا اور سب سے پہلے سلام کیا۔ پھر اسٹاف سے مخاطب ہوا اسکی تقریر کا خلاصہ کچھ یوں تھا۔
        ”السلام و علیکم۔۔ میں جانتا ہوں میں اس مال کو زیادہ توجہ نہیں دے پاتا کیونکہ میں اپنے ایکسپورٹ کے بزنس میں زیادہ بزی رہتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے جو آج ہمارا مال شہر بھر کے مالز کی نسبت ریٹنگ میں کافی نچلی سطح پر آگیا ہے۔۔
        لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ اب اس مال کو ایک نیا اونر ملنے والا ہے۔۔“
        سیٹھ اکرم کی اس بات پر مال کے زیادہ تر اسٹاف کے چہرے اتر گئے جن میں آفس کے لوگ شامل تھے۔ جتنی آسانی سے وہ لوگ یہاں پر حکومت کرتے تھے کسی اور اونر کے آجانے کی صورت میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ بلکہ آفس کے حضرات نے آپس کے گٹھ جوڑ سے دیگر اسٹاف کی سیلری میں بھی کرپشن کی ہوئی تھی۔ جتنی سیلری اسٹاف کی اونر کی طرف سے مقرر کی گئی تھی اس سے بہت کم سیلری یہاں اسٹاف کو دی جارہی تھی اگر سیٹھ اکرم یہ مال کسی کو بیچ دیتے تو نئے اونر کی موجودگی میں یہ سب کرنا ناممکن ہی تھا۔ سیٹھ اکرم اب بھی تقریر کرہے تھے۔
        ”نیا اونر مطلب۔۔؟“ سیٹھ اکرم نے ایک سوالیہ نظر اپنے اسٹاف پر ڈالی اور دوبارہ کہنے لگے ”میری بیٹی زینب اسٹریلیا سے اپنی تعلیم مکمل کر کہ کل صبح کی فلائٹ سے واپس آرہی ہے اور کل ہی وہ یہاں کا وزٹ کرے گی۔ اور پرسوں سے ریگولری وہ یہاں موجود رہے گی۔ وہ کیا پالیسیز بناتی ہے مجھے اس سے مطلب نہیں بٹ وہ جو بھی کرے گی ہر ایک کو ماننا پڑے گا۔ ہر اتھارٹی میں اسے دونگا۔ جسے چاہے جاب پر رکھے اور جسے چاہے نکال دے یہ اس کے اوپر ہے۔ امید کرتا ہوں مجھے آپ لوگوں سے کسی قسم کی شکایت سننے کو نا ملے۔۔ اے لڑکی تم کیا کرتی ہو۔۔۔؟“ سیٹھ اکرم نے حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
        ”جی۔۔ جی میں سیلز گرل ہوں۔۔“ حیا نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ”پہلے یہاں کی پراڈکٹ انچارج کی اسسٹنٹ تھی لیکن اب بس سیلز گرل ہوں۔۔“
        ”ادھر آٶ۔۔۔“ سیٹھ اکرم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا۔ حیا اٹھ کر اسٹیج پر چلی گئی۔ سیٹھ اکرم نے اس سے کچھ دیر بات کی اور پھر اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسٹاف سے مخاطب ہوئے ”یہ لڑکی زینب کی اسسٹنٹ کے طور پر کام کرے گی۔۔“
        یہ بات آفس کے سبھی لوگوں کو کافی ناگوار گزری خاص طور پر جی ایم کو کیوں کہ سعدیہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا حیا اس سے اچھی طرح واقف تھی۔ سعدیہ کے جانے کے بعد جی ایم نے اسے اپنی اسسٹنٹ کے لیے منتخب کیا تھا پر اسنے سیلز گرل کی جاب کو ترجیح دی۔ اگر حیا سیٹھ اکرم کی بیٹی کی اسسٹنٹ بن جاتی تو یہ بات جی ایم کی صحت کے لیے بہت مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ جی ایم نے فوراً کھڑے ہو کر کہا ”سر آپ یہ کیا کرہے ہیں۔۔؟؟ یہ لڑکی اس قابل نہیں ہے۔۔“
        ”تو کیا تم اس قابل ہو۔۔؟“ سیٹھ اکرم نے اسکی طرف غصے سے دیکھتے یوئے کہا ”وہ میری بیٹی ہے اور مجھے پتہ ہے میری بیٹی کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔“
        ”سر آپ سمجھ نہیں رہے۔۔ یہ لڑکی ان کے اسٹینڈرڈ کی نہیں ہے۔۔“ جی ایم نے انہیں قائل کرنے کی ناکام کوشش کی
        ”مسٹر وقار میں اس لڑکی کو اپنی بیٹی کی اسسٹنٹ بنا رہا ہو گود نہیں لے رہا۔۔“ سیٹھ اکرم نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا ”تم بھی میرے اسٹینڈرڈ کے نہیں ہو پھر بھی تمہیں جنرل مینیجر کی پوسٹ پر بٹھایا ہوا ہے۔ بہتر ہوگا کے اپنے کام پہ توجہ دو۔۔“
        جی ایم کی ساری اکڑ نکل چکی تھی اسنے ایک نظر حیا کی طرف دیکھا جو اس وقت اسے ایسے گھور رہی تھی جیسے قتل کر دیگی۔ سیٹھ اکرم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”یہ لڑکی زینب کی اسسٹنٹ ہوگی اور ممکن ہے زینب سے زیادہ آپ لوگوں کو اس سے کانٹیکٹ میں رہنا پڑے تو جو لوگ اسے حقیر سمجھتے ہیں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ ریزائن کر سکتے ہیں۔ جی ایم تک کو بھی حیا کی بات کو فالو کرنا پڑے گا۔ کل وہ وزٹ کرے گی اور اگر یہاں پر اسے کسی کی کوئی حرکت ناگوار گزری تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“ سیٹھ اکرم نے کہا اور اسٹیج سے اتر کر اسٹاف روم سے باہر چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسٹاف روم خالی ہوگیا۔۔ نائٹ شفٹ والوں کے علاوہ باقی سب لوگوں کی چھٹی ہو گئی تھی۔ معاز نے بھی بائیک اسٹارٹ کی اور گھر کے لیے نکل گیا۔
        وہ سونے کے لیے لیٹا تھا اور سوچ رہا تھا کے شاید اب مال میں اسے آگے بڑھنے کا چانس مل جائے گا کیونکہ حیا اونر کی اسسٹنٹ بننے والی تھی اور حیا سے بول کر وہ اونر سے سفارش کر سکتا تھا۔ پھر اسے سعدیہ کا خیال آیا سوچنے لگا بہت برا ہوا تھا اسکے ساتھ۔ اس نے سوچا کہ یہ بات بھی حیا کے ذریعے اونر تک پہنچائے گا اور سعدیہ کو نوکری پر واپس بحال کروائے گا۔ انہی سوچوں میں کب وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا پتا ہی نہیں چلا۔۔
        دوسرے دن شام کے وقت مال کی بیک سائیڈ پر ایک نیو لینڈ کروزر آ کر رکی۔ ڈرائیور گیٹ کھول کے باہر نکلا اور پھر پچھلے گیٹ کی طرف آکر گیٹ کھولا۔ اندر سے ایک خوبصورت لڑکی باہر نکلی۔ مال کے گارڈ سے لے کر روڈ پر سے گزرنے والا ہر شخص بس اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ اسکا لباس اسے زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا تھا۔ اونچی ہیل اور پھر ایک انتہائی چست جینز جس کے پائینچے گٹھنے سے بس تھوڑے ہی نیچے تھے۔ اوپر ایک بہت زیادہ فٹنگ کی شرٹ جس کے اوپر کے آخری دو بٹن کھلے ہوئے تھے اور شرٹ کی فٹنگ کی وجہ سے وہ بند بھی نہیں ہو سکتے تھے۔
        تین گارڈ وہاں موجود تھے اور تینوں ہی ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس لڑکی نے ایک نظر گارڈز کو دیکھا اور ناگوار سا منہ بنا کر پچھلے گیٹ سے مال میں داخل ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        جاری ے

        Comment


        • #44
          #ضدی_ایک_پریم_کتھا
          #قسط_نمبر_6
          وہ گودام سے گزر رہی تھی اور گودام میں موجود سبھی لڑکوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ بظاہر وہ کسی کو نہیں دیکھ رہی تھی لیکن حقیقت میں وہ سب کچھ نوٹ کرہی تھی۔ گودام میں سبھی لڑکوں نے کام وام چھوڑ کر اسے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں معاز اپنے کام میں مصروف تھا اور نئے آنے والے مال کے کاٹن چیک کرہا تھا۔ اسے کھٹ کھٹ کی آواز سنائی دی وہ لڑکی معاز کی طرف ہی آرہی تھی۔ معاز نے آواز سن کر دیکھا پر اس لڑکی کی ڈریسنگ دیکھ کر اسنے ناگوار سا منہ بنا کر منہ گھما لیا۔ وہیں اس لڑکی کے قدم جم گئے۔ اس نے معاز کو دیکھا جو اسے ناگواری کے ساتھ نظر انداز کر کے اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔ اس لڑکی کو شاید معاز کا یہ انداز ناگوار گزرا تھا۔ اس نے کچھ دیر وہیں کھڑے رہہ کر غصے سے معاز کو دیکھا لیکن معاز نے پلٹ کر دوبارہ اسکی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس وقت اس لڑکی کو اپنی شدید انسلٹ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ غصے بھرے انداز میں پیر پٹختی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ معاز سوچ رہا تھا شاید یہ کوئی نیو ایمپلائی ہے۔ نا جانے لڑکیوں کو اس طرح عریانی میں رہہ کر کیا ملتا ہے جاب کے لیے بھی ایسے کپڑوں میں آگئی۔
          وہ لڑکی گودام سے ہوتی ہوئی گودام سے مال میں داخل ہونے والے راستے سے مال میں داخل ہوگئی۔ مال میں آکر اس نے مال کا جائزہ لیا۔ باری باری تینوں فلور کا جائزہ لینے لگی۔ گراٶنڈ فلور پر زیادہ تر فوڈ آئٹم تھے۔ اور ایک طرف جیولری اور کاسمیٹک کا ڈیپارٹ تھا۔ ائر بیس میں گئ وہاں بچوں کے کھلونے ، برتن ، بیگز اور دیگر چیزوں کے ڈیپارٹ تھے۔ پھر وہ فرسٹ فلور پر گئی جہاں گارمنٹس اور انڈر گارمنٹس کے ڈیپارٹمنٹ تھے۔ اس نے اچھی طرح مال کے سبھی ڈیپارٹمنٹس کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ اسٹاف کو بھی نوٹ کرتی رہی۔ یہاں بھی اسٹاف کے سبھی ممبرز اسے تک رہے تھے خاص طور پر لڑکے۔ جبکہ شاپنگ کے لیے آئے ہوئے لوگ بھی اسے نوٹس کرہے تھے اور کچھ خواتین کو اس نے اپنے آپ کو دیکھنے کے بعد کھسر پھسر کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ خیر وہ واپس مال سے گودام میں گئی اور گودام سے آفس کی طرف چلی گئی۔ پہلی منزل پر جاکر وہاں موجود گیٹ میں اسنے ایک کارڈ لگایا اور دروازہ کھل گیا۔۔ یہ شاید کنٹرول روم تھا۔ بہت ساری ایل ای ڈی لگی تھیں جو مال کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھا رہی تھیں۔ وہاں موجود سبھی اسٹاف نے پہلی نظر تو اسے للچائی نظر سے دیکھا لیکن پھر انہیں محسوس ہوا کے ضرور یہ کوئی سنئیر افسر ہوگی کیونکہ بنا کارڈ یا انچارج کی اجازت کے کوئی کنٹرول روم میں نہیں آسکتا تھا۔ اسنے ایک نظر پورے اسٹاف پر ڈالی۔ انچارج بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا۔ ”جی میم کون ہیں آپ یہاں کی۔۔؟“
          اسنے سر سے پیر تک انچارج کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”مال میں اناٶنس کرواٶ کے حیا ملک جہاں بھی ہیں اونر کے کیبن میں پہنچیں جلدی۔۔“ اسنے کہا اور کنٹرول روم سے باہر نکل گئی۔ سیکنڈ فلور پر جاکر اسنے اونر کا کیبن ڈھونڈا اور وہی کارڈ وہاں لگا کر اندر داخل ہوگئی۔ یہ کیبن الگ ہی تھا۔ ایک طرف سائیڈ میں صوفے لگے تھے جبکہ سامنے ہی اونر کی ٹیبل تھی۔ جبکہ ایک سائیڈ پر ایک دروازہ تھا جسے کھول کر ایک مکمل آرام دہ روم تھا جہاں ضرورتِ آسائیش کی ہر چیز موجود تھی۔ وہ اس کمرے میں داخل ہوگئی اور دھڑام سے بیڈ پر گر گئی۔۔
          حیا کو پتہ چل گیا تھا کہ اونر آگئیں ہیں۔ وہ بھاگتی ہوئی گودام میں پہنچی۔
          ”حیا۔۔۔ آرام سے۔۔“ معاز نے اسے ہڑبڑاہٹ میں بھاگتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ”کہاں جارہی ہو اتنی جلدی میں۔۔۔؟“
          ”آ کر بتاتی ہوں یار۔۔“ حیا نے ایک نظر اسے دیکھا اور تھوڑا رک کر کہا ”اونر آگئی ہیں مجھے بلا رہی ہیں۔۔“ اور وہ دوبارہ بھاگتی ہوئی چلی گئی۔
          حیا نے اونر کے کیبن کے پاس پہنچ کر ہلکا سا دروازہ کھولا دروازہ آرام سے کھل گیا حالنکہ کسی سے بھی یہ دروازہ نہیں کھلتا تھا۔ ”می آئی کم ان میم۔۔۔؟“ اسنے اندر جھانکتے ہوئے اجازت چاہی پر اسے کوئی نظر نہیں آیا وہ اندر داخل ہو گئی۔
          زینب کمرے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ زینب اٹھی اور واپس کیبن میں آگئی۔ حیا ابھی تک کھڑی تھی۔ زینب کیبن میں آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی اور اپنے پاس رکھی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”بیٹھو۔۔۔۔“
          حیا نے دیکھا یہ تو وہی لڑکی ہے جو ابھی مال میں گھوم کر آئی تھی۔ وہ جی میم کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔۔
          زینب نے اس سے سبھی اسٹاف اور آفس کے لوگوں کی ڈیٹیل لینا شروع کردی۔ اپنا کمپیوٹر کھول کر اسکے سامنے کر دیا اور ایک ایک کر کہ سبھی اسٹاف ممبرز کی پروفائیل کھول کر ان کے بارے میں پوچھنے لگی۔ آخر کو معاز کی پروفائیل آئی۔ زینب نے غصے سے اسکی تصویر دیکھی اور پوچھا ”یہ بدتمیز کون ہے۔۔۔؟“
          حیا کو زینب کے لہجے میں صاف طور پر غصہ نظر آرہا تھا۔ پچھلے کئی مہینے معاز کے ساتھ کام کرنے کے بعد اسے معاز کے نیچر کا علم ہو گیا تھا بلکہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے تھے اور وہ نہیں چاہتی تھی معاز کسی مصیبت میں پھنسے ”یہ۔۔۔ گودام میں ہوتا ہے میم بہت محنتی لڑکا ہے۔۔“
          ”وہاٹ ایور۔۔۔۔“ اس نے حیا کی طرف غصے سے دیکھ کر کہا ”اس کے پاس جاٶ اور کہو میں نے بلایا ہے۔۔“
          حیا کو نوعیت کافی سنگین لگ رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ معاز کو نوکری سے نکالا جائے۔ وہ سوچ رہی تھی معاز ایسا تو نہیں ہے جو اسے چھیڑے یقیناً میم نے ہی اسے چیک کرنے کے لیے کچھ کہا ہوگا اور اسنے بدتمیزی کر دی ہوگی ”میم چھوڑیں نا۔۔ اچھا لڑکا ہے۔۔“ حیا نے بات سنبھالنے کی کوشش کی ”اگر کوئی غلطی کی ہے اسنے تو میں آپ سے معافی مانگ لیتی ہوں۔۔“
          ”کیوں۔۔۔؟ تم معافی کیوں مانگو گی۔۔؟“ زینب نے سوالیہ نظروں سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”یہ تمہارا لور ہے کیا۔۔؟“
          ”لور تو نہیں۔۔ ہاں دوست ہے بہت اچھا۔۔“ حیا نے سوچا اسے سمجھانا بیکار ہے ”ٹھیک ہے میں اسے بولتی ہوں آنے کا۔۔“
          حیا کیبن سے چلی گئی اور زینب نے اب معاز کی تصویر سے نظر ہٹاکر اسکی پروفائل ریڈ کرنا شروع کی۔ بی کام ود 80% مارکس۔ سی آئی ٹی کمپلیٹ ڈپلومہ۔ تھری یئرز ڈرائونگ ایکسپیریئنس۔۔ پوسٹ لوڈر۔ جاب پرفارمنس ایکسلینٹ۔ پروفائل پڑھتے ہوئے سوچنے لگی اتنا پڑھا لکھا لڑکا یہاں لوڈر کا کام کرہا ہے۔۔
          ”معاز۔۔۔ معاز۔۔“ حیا معاز کے پاس پہنچی ”میم نے بلایا ہے تمہیں۔۔“
          ”مجھے۔۔۔۔۔؟؟ کیوں۔۔؟“ معاز نے اسے حیرت سے دیکھا
          ”پتہ نہیں۔۔ غصے میں ہیں وہ۔۔“ حیا نے کہا ”میں انہیں اسٹاف کے بارے میں بتا رہی تھی تمہاری تصویر دیکھی تو غصے میں کہنے لگیں اسے میرے پاس بھیجو۔۔ کچھ کیا ہے تم نے۔۔؟؟؟“
          ”میں کیا کروں گا یار۔۔؟ میں نے تو دیکھا بھی نہیں انہیں کبھی۔۔“ معاز نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
          ”اچھا چھوڑو۔۔ چلو ابھی۔۔“ حیا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لے جانے لگی
          کیبن کے پاس پہنچ کر حیا نے نوک کیا اور اندر جھانک کے اندر آنے کا پوچھا اور معاز کو لے کر اندر چلی گئی۔ زینب کرسی سے اٹھ کر اسکے پاس آئی اور سر سے پیر تک اسے دیکھنے لگی۔ ”حیا تم جاٶ۔۔۔“
          ”جی میم۔۔“ حیا نے کہا اور باہر چلی گئی
          معاز نیچے نظریں کیے کھڑا تھا اسے نہیں پتہ تھا یہ لڑکی اونر ہوگی۔ زینب اسے دیکھتے دیکھتے اپنی کرسی کے پاس گئی اور بیٹھ گئی ”بیٹھ جاٶ۔۔“ اس نے معاز کو بھی بیٹھنے کا کہا
          معاز نے بیٹھتے ہوئے کہا ”جی میم کیوں بلایا ہے مجھے۔۔؟“
          ”میری تم سے کوئی دشمنی ہے۔۔؟ یا تمہارے پیسے لے کر بھاگی ہوں میں۔۔؟“ زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا
          ”آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں میم۔۔؟“ معاز اس کی طرف دیکھے بنا بات کرہا تھا
          ”اچھا تو کیا وجہ تھی جو ابھی گودام میں مجھے دیکھ کے اتنا ناگوار سا منہ بنا لیا تھا۔۔؟“ زینب نے اسے اور گھورتے ہوئے کہا
          ”میم اسکا جواب میں دینا نہیں چاہتا۔ آپ کو کام کے حوالے سے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھیں۔۔“ معاز نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
          ”جو پوچھا ہے وہ بتاٶ مجھے۔۔“ زینب نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے کہا ”ادھر دیکھ کہ بات کرو ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو۔۔“
          ”آئی ایم سوری میم۔۔ میری امی کہتی ہے جس جگہ بھٹکنے کا اندیشہ ہو ادھر دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔۔“ معاز نے ٹیبل پر نظریں جماتے ہوئے کہا
          ”ہے۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔؟“ زینب کو اسکی بات پہ شدید غصہ آگیا تھا وہ اٹھ کر اس کے پاس آگئی ”کہنا کیا چاہتے ہو ہاں۔۔۔؟“
          ”کبھی آپ غور سے موجودہ حالت میں آئینہ دیکھیں تو مطلب آپ کو خود سمجھ آجائے گا۔۔“ معاز نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے کہا
          ”بدتمیزی کرہے ہو تم مجھ سے۔۔“ زینب نے غصے کے مارے اسکا گریبان پکڑ لیا ”میں تمہں نوکری سے نکال دونگی۔۔“
          ”ایک نوکری بچانے کے لیے میں خود کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا۔۔“ معاز نے پہلی بار اسکی آنکھوں میں دیکھا اور اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے کہا ”یہ بدتمیزی نہیں حقیقت ہے۔۔ کوئی کام کے متعلق بات ہو تو مجھے بلایے گا اب ایسے مت بلایے گا۔۔“ معاز نے گریبان چھڑایا اور گیٹ کھول کر باہر جانے لگا پر پھر پیچھے گھوم کر بولا ”اگر نوکری سے نکالنا ہو تو میری آج تک کی سیلری کی سلپ بنوا کر مجھے بھجوا دیجیے گا۔۔“
          معاز چلا گیا تھا پر زینب اب تک وہیں کھڑی تھی۔۔ پہلی بار اسے کسی نے سامنے سے جواب دیا تھا۔ وہ اس وقت خود کو ایک ہاری ہوئی کھلاڑی کی طرح محسوس کرہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جان سے مار دے اس لڑکے کو لیکن اسے بدلا لینا تھا۔ اسے معاز کو اپنے آگے جھکانا تھا۔ گرانا تھا اپنے آگے۔ پہلی بار اس نے کسی لڑکے کا ایٹی ٹیوڈ دیکھا تھا۔ وہ شدید غصے میں بھری ہوئی تھی۔
          گھر آکر معاز نے رمشا سے بات کی اور مال کی ساری بات بتائی۔ رمشا نے اسے زینب سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ بس اپنے کام سے کام رکھنے کا کہا۔ اور پھر دونوں اپنے فیوچر کی باتیں کرنے لگے۔
          زینب گھر آگئی تھی۔ اسکے ڈیڈ نے محسوس کیا کہ اس کا موڈ خراب ہے۔
          ”کیا ہوا بیٹی۔۔؟“ سیٹھ اکرم نے بیٹی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
          ”کچھ نہیں ڈیڈ۔۔“ زینب نے روکھے سے انداز میں کہا
          ”پریشان لگ رہی ہو۔۔ مال میں کچھ بات ہوئی ہے کیا۔۔؟“ ڈیڈ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا
          ”کچھ نہیں ڈیڈ۔۔ پہلی بار کام کیا تو بس تھوڑی تھکن ہے۔۔“ زینب چاہتی تو انہیں ساری بات بتا دیتی لیکن وہ اسے اسی کے طریقے سے سبق سکھانا چاہتی تھی
          ”اوکے نا بتاٶ۔۔ تمہاری موم زندہ ہوتی تو مجھے پوچھنے کی ضرورت نا پڑتی۔۔“ ڈیڈ نے کہا
          ”اوہ ڈیڈ۔۔۔ آپ نے پھر وہی بات کردی نا۔۔“ زینب نے مسکراتے ہوئے انکے سینے سے لگ کر کہا ”آج تک آپ سے کوئی بات چھپائی ہے میں نے جو آج چھپاٶں گی۔۔؟“
          ”اچھا بیٹا چلو بس تم خوش رہو۔۔“ ڈیڈ نے اسے بانہوں کے گھیرے میں لے لیا
          ”ڈیڈ آپ اپنا ڈرائیور واپس لے لیں۔۔“ زینب نے اچانک ان سے الگ ہو کر انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”مجھے دوسرا ڈرائیور رکھنا ہے۔۔“
          ”کیا۔۔۔ ڈرائیور نے کچھ کیا ہے۔۔“ ڈیڈ نے اسے بازوٶں سے پکڑتے ہوئے کہا
          ”ارے نہیں میرے پیارے بابا جانی۔۔ مال کے گودام میں ایک لڑکا ہے معاز نام کا سنا ہے بہت اچھا ڈرائیور بھی ہے۔۔“ زینب نے ڈیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”میں چاہتی ہوں اسے ڈرائیور رکھ لوں۔۔“
          ”اچھا۔۔ تو بات کر لو اس سے۔۔“ ڈیڈ نے کہا
          ”نہیں ڈیڈ آپ اپنے طریقے سے بات کریں اس سے۔۔“ زینب نے کہا ”اور اسے اسکی لمٹس بھی بتا دیجیے گا۔۔“
          ”ہاں یہ ٹھیک کہا۔۔“ ڈیڈ نے کہا ”ٹھیک ہے کل شام میں جاکر میں اس سے بات کر لونگا۔۔“
          ”میرے پیارے ڈیڈی۔۔۔۔“ زینب نے کہا اور انکے گلے لگ گئی۔ ناجانے اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا پر جو بھی تھا معاز کے لیے بہتر نہیں تھا۔
          دوسرے دن شام کے ٹائم معاز اپنے کام میں مصروف تھا کہ پیچھے سے کسی نے اسے اسکے نام سے پکارا ”معاز علی۔۔“
          ”سر آپ۔۔۔“ معاز نے سیٹھ اکرم کو دیکھا اور ادب سے کھڑا ہو گیا
          ”میں نے تمہاری پروفائیل ریڈ کی ہے ویلڈ پرفارمنس۔۔“ سیٹھ اکرم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ”میں نے تمہیں زینب کے پرسنل ڈرائیور کے طور پر منتخب کیا ہے۔۔“
          ”سر میں ڈرائیونگ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔۔“ معاز کچھ کہنا چاہتا تھا پر سیٹھ اکرم نے اسکی بات کاٹ دی
          ”ام ۔۔۔ ہم۔۔۔۔ مجھے نا سننے کی عادت نہیں۔ تمہاری جو مجھے انفارمیشنز ملی ہیں میں شور ہوں کے تمہارے ساتھ زینب محفوظ رہے گی۔۔“ سیٹھ اکرم نے سگار سلگایا اور کش لیتے ہوئے کہا ”صرف ڈرائیور ہی نہیں بلکہ میرا انفارمر بھی۔ زینب کی ہر ایکٹوٹی تمہں نوٹ کرنی ہے۔۔ کہاں جاتی ہے ، کس سے ملتی ہے سب کچھ۔۔ ہر بری لت سے اسے بچانا تمہارا کام ہوگا۔۔“
          ”بٹ سر میری یہ اتھارٹی نہیں ہے۔۔ وہ آپ کی بیٹی ہیں میں انہیں کچھ بھی کرنے سے نہیں روک سکتا۔۔“ معاز نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
          ”وہ میری بیٹی ہے اسی لیے کہہ رہا ہوں۔۔ وہ بہت ضدی اور خود سر ہے۔۔“ سیٹھ اکرم نے ایک اور کش لیا ”اور یہ اتھارٹی میں تمہیں دے رہا ہوں۔۔ ممکن ہے وہ تم پر غصے کا اظہار کرے لیکن تم پیچھے نہیں ہٹو گے۔۔ بس وہ کسی غلط چکر میں نا پڑے۔۔“
          ”سر پلیز۔۔ اتنی بڑی ذمہ داری میں نہیں اٹھا سکتا۔۔“ معاز نے بچنے کی کوشش کی ”پلیز سر ذرا بھی اونچ نیچ ہوئی تو ساری ذمہ داری مجھ پر آئے گی۔۔“
          ”فکر مت کرو میرے گارڈز ہمیشہ تم لوگوں کہ آس پاس ہی ہونگے۔۔ تمہیں ایک ٹریکر دونگا۔۔“ سیٹھ اکرم نے اپنی آستین اوپر کی اور اپنی گھڑی میں ایک بٹن دکھاتے ہوئے کہا ”جب یہ بٹن دباٶ گے گارڈز کو تمہاری لوکیشن کا علم ہو جائے گا وہ فوراً آکر تمہیں پروٹیکٹ کریں گے۔۔“
          ”جی سر۔۔۔ پر پھر بھی اتنی بڑی ذمہ داری۔۔۔“ معاز نے دوبارہ اپنے خدشات کا اظہار کرنا چاہا
          ”اتنی بڑی ذمہ داری کے لیے میں تمہیں سیلری بھی اتنی ہی دونگا۔۔“ سیٹھ اکرم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ”ایک لاکھ روپے مہینہ۔۔ کہو منظور ہے۔۔؟“
          معاز نے اتنی بڑی رقم کا سنا تو نا کہنے کا جواز نہیں تھا اسکے پاس۔۔ ویسے بھی گھر کے جو حالات تھے اس وقت اسے پیسوں کی بہت ضرورت تھی۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد اس نے رضا مندی ظاہر کر دی۔
          گھر جاکر اسنے گھر پر سب کو بتایا تو سب بہت خوش ہوئے۔۔ پر رمشا کے لیے یہ خبر اچھی نہیں تھی۔ اس نے معاز سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ لیکن معاز نے کسی نا کسی طرح اسے بھی منا ہی لیا۔
          دوسرے دن صبح معاز کے گھر کے باہر ایک مرسڈیز کھڑی تھی۔ اس میں سے ڈرائیور نکلا اور معاز کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔
          ”جی کون۔۔؟؟“ فضا نے اندر سے ہی آواز لگا کر پوچھا
          ”معاز ہے گھر پہ۔۔۔؟“ ڈرائیور نے پوچھا
          ”جی سو رہا ہے۔۔ آپ کون ہیں۔۔؟“ فضا اندر سے ہی بول رہی تھی
          ”جی انہیں اٹھا دیں۔۔ ان سے کہیں سیٹھ اکرم نے گاڑی بھیجی ہے۔۔۔“ ڈرائیور نے کہا
          ”جی اچھا اٹھاتی ہوں۔۔۔“ فضا نے کہا اور معاز کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
          ”معاز اٹھ کوئی آیا ہے۔۔“ اسنے معاز کو آواز دے کہ اٹھایا پر معاز بے خبر سورہا تھا
          ”معاز اٹھ جا کوئی آیا ہے باہر۔۔۔“ اس بار فضا نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا
          ”کیا ہے سونے دے نا۔۔“ معاز نے آنکھیں بند کیے ہوئے ہی کہا
          ”اٹھ جا یار کوئی آیا ہے باہر۔۔“ رمشا نے اس پر سے چادر کھینچ لی
          ”کون آیا ہے یار۔۔؟“ معاز نے آنکھیں کھول کہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا
          ”مجھے نہیں پتہ۔۔ کوئی آدمی ہے کہہ رہا ہے سیٹھ اکرم نے گاڑی بھجوائی ہے۔۔ جا کہ دیکھ لے خود ہی۔۔“ فضا نے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
          سیٹھ اکرم کا نام سن کر معاز کی ساری نیند غائب ہوگئی۔ وہ فوراً اٹھا اور باہر آیا۔ ڈرائیور کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ”آپ معاز ہیں۔۔۔؟“
          ڈرائیور نے اسے سر سے پاٶں تک دیکھتے ہوئے کہا۔۔ معاز اس وقت چڈے میں تھا اور اوپر صرف ایک سینڈو بنیان تھی۔
          ”جی میں ہی ہوں۔۔“ معاز نے کنفرم کیا
          ”مطلب آپ وہی معاز ہیں جنہیں سیٹھ اکرم نے ڈرائیونگ کا کہا ہے۔۔۔؟“ ڈرائیور کو یقین نہیں ہو رہا تھا اس نے پھر اسے سر سے پاٶں تک دیکھ کر کہا
          ”جی بھائی میں ہی ہوں یار۔۔“ معاز نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ”آپ کون ہیں۔۔؟“
          ”میں سیٹھ اکرم کا ڈرائیور ہوں۔۔“ اس نے کہا ”مجھے انہوں نے آپ کو لے جانے کے لیے بھیجا ہے۔۔“
          ”اچھا آپ تھوڑی دیر انتظار کریں میں اپنا حلیہ درست کر لوں۔۔“ معاز نے اپنے حلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
          ”اتنی دیر سے انتظار ہی کرہا ہوں۔۔“ ڈرائیور نے ناگواری سے کہا ”ٹھیک ہے جلدی آٶ۔۔“
          معاز نے اندر جاکر نہایا اور کپڑے وغیرہ پہن کے باہر آگیا۔ ڈرائیور نے اسے چابی دی اور گاڑی چلانے کا بول کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر میں بیٹھ گیا۔ معاز نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھ گیا۔۔۔
          سیٹھ اکرم کے گھر کے پاس پہنچ کر ڈرائیور نے اپنی طرف کے دروازے کا شیشہ تھوڑا اتارا اور بنگلے کے گیٹ پر کھڑے گارڈ کو اشارہ کیا۔ گارڈ نے دروازہ کھول دیا۔۔ اندر داخل ہوتے ہی معاز کو لگا جیسے وہ کسی نئی دنیا میں آگیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          جاری ے

          Comment


          • #45
            انتہای دلچسپ اور سسپنس سے بھر پور کہانی ھے

            Comment


            • #46
              لاجواب کاوش

              Comment


              • #47
                Bohot khoob janab kahani me aik naya mor

                Comment


                • #48
                  Zabardast updates .

                  Maaz ka intahan start hogaya.. muhabbat bachaye ya nokri...

                  Comment


                  • #49
                    لاجواب کیا بات ہے مزہ آگیا اچھی اسٹوری ہے

                    Comment


                    • #50
                      انتہائی خوبصورت اور لاجواب اپڈیٹ​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X