Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کرشمہ آنٹی کی حسرتیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story کرشمہ آنٹی کی حسرتیں

    رفعت! بات سنو بچے!" اک خوبصورت کھنکتی سی آواز نےمجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں اس وقت گلی کے نکڑ کوکراس کرنے کو تھا۔ میں نے پیچھے دیکھاتو نہایت ہی شفیق
    لیکن خوبرو خاتون دروازے سے آدھی باہر کو نکلی مجھ سےمخاطب تھی۔ یہ کرشمہ آنٹی تھی۔ میں قریب جا کے آداب
    بجا الیا اور روکنے کی وجہ دریافت کی۔ کرشمہ آنٹی نے چند
    اشیاء کی فہرست مجھے تھما کر دوپٹے کے اندر ہاتھ ڈاال
    اور نہاں خانہ سے پیسے نکال کر مجھے دئے۔ مجھے بازار سے
    آتے وقت ان کے لئے سودا سلف کا انتظام کرنا تھا۔ رفعت
    یعنی میں، محلے کا شریف النفس بچوں میں تصور ہوتا تھا۔
    پھوپھی نے نام تو رفعت رکھا تھا لیکن مجھ میں گن سارے
    ابا کے تھے جو محلے میں اپنی وجاہت کی وجہ سے الگ
    پہچان رکھتے تھے۔ ابا سیمنٹ کے ہول سیل ڈیلر تھے، بزنس
    چمک رہا تھا، اس لئے محلے میں ہمیں اور بھی قدر کی نگاہ
    سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے ہماری تعلیم پر خصوصی
    توجہ دے رکھی تھی اور بائیس سال تک مجھے بزنس کے
    جھمیلوں سے دور ہی رکھا۔ تاہم انکے لئے کھانا پانی لے کے
    جانا میری ذمہ داری تھی۔ فی الوقوع میری عمر پندرہ سال
    تھی، آٹھویں کا طالبعلم تھا۔موسم گرما کی چھٹیاں تھیں
    اور اس وقت میں ابا کے لئے کھانا لے کر اپنی سیمنٹ کے
    گودام کی طرف جا رہا تھا۔ کرشمہ آنٹی ہمارے بچپن میں
    محلے شفٹ ہو گئی تھی۔ ان کے شوہر خلیل صاحب پہلے
    فروٹ سیلر تھے۔ کمائی اچھی تھی لیکن تھوڑے ایم بشس
    واقع ہوئے تھے۔ اسی لئے کوئی دس سال پہلے جب انہوں نے
    بہتر روزگار کی خواہش ظاہر کی تو ابا نے تھوڑی معاونت
    فراہم کر کے ان کا دبئ کا ویزہ کرا دیا تھا اور اب وہ اپنی
    زندگی کا بیشتر حصہ وہیں کاٹ رہے تھے۔ کام کاج بہتر ہونے
    کی وجہ سے اب گھر کے حاالت بدل گئے تھے۔ ان کے جانے کے
    بعد کرشمہ آنٹی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کی بیٹی
    مجھ سے کوئی پانچ سال بڑی تھی۔ اکیلے ہونے کی وجہ سے
    کبھی کبھی خلیل صاحب کا اک بھتیجا انور ان کے پاس آ
    رہتا، کبھی کرشمہ آنٹی کا بھانجا سلمان۔ سلمان چونکہ ہمارا
    ہم عمر تھا، اسی لئے ہم کرکٹ بھی ساتھ کھیال کرتے تھے
    اور اس توسط سے کرشمہ آنٹی کے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔
    ویسے بھی کبھی وہ ہمارے گھر، کبھی محلے داری میں امی
    ان کے ہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ کرشمہ آنٹی کی عمر تب کوئیچالیس سال رہی ہوگی لیکن انکا جسم ابھی بھی جواں اور
    فگر اچھی طرح مینٹینڈ تھا۔ سلمان کا داخلہ اسی سال
    بورڈنگ سکول میں کرنے کی وجہ سے اور پچھلے سال بیٹی
    کی شادی کرنے سے اب کرشمہ آنٹی اکیلی رہتی تھی۔ میں نے
    بازار سے واپسی پہ سودا سلف ان کے گھر چھوڑنا تھا۔ کوئی
    ڈیڑھ بجے گودام سے واپسی پر میں نے دروازے پر دستک
    دی۔ کرشمہ آنٹی نے دور سے پوچھا "کون ہے؟"

    میں نے
    رفعت" کہہ کے اپنا تعارف کرایا۔ کرشمہ آنٹی نے دروازہ
    "
    کھوال تو پوری بھیگی ہوئی تھی۔ کاٹن کی آف-وائٹ سوٹ
    میں سے انکے وجود کا ہر انگ نمایاں تھا۔ میں نے سودا دے
    کے اجازت چاہی تو کرشمہ آنٹی نے اصرار کیا ہے۔ "اففف
    کتنی گرمی ہے آج! بجلی بھی نہیں ہے، اندر آجاو... تمہیں تو
    بہت پسینہ آرہا ہے۔.. کچھ پی کر جانا!" میں نے پھر سے کہا
    امی انتظار کر رہی ہونگی لیکن کرشمہ آنٹی نے ہاتھ سے پکڑ
    کر اندر کھینچا۔ مجھے بٹھا کے وہ سودا سلف لئے کچن کی
    طرف بڑھی۔ انکو جاتے ہوئے دیکھا تو ان کی موٹی گانڈھ کے
    ہچکولے دیکھ کر میں نے شرما کر نظر نیچے کر دی۔ لیکن
    پندرہ سالہ بچہ بھی اب ویسے بچہ تو نہیں ہوتا۔ انکا مٹک
    کے چلنا تو جیسے ذہن پہ نقش ہی ہوگیا۔ کرشمہ آنٹی نے
    کچن سے جام شیریں کا شربت ال کے گالس مجھے تھما دیا۔
    وہ گالس دینے کے لئے جھکی تو میری نظریں انکے گلے پر
    پڑیں جس سے دوپٹہ سرک گیا تھا۔ انکی گیلی قمیض انکی
    دودو سے ایسی چپک گئی تھی کہ ان کی سفید چھاتیوں پر
    کالے رنگ کے لمبے نپلز مجھے چڑانے لگے۔ لجاجت سے میں نے
    جلدی سے گالس پکڑا اور غٹاغٹ پی کر گالس انہیں واپس
    کردیا۔ مجھے پسینہ آنے لگا تھا، لیکن گرمی کی شدت نے
    میری غیر ہوتی حالت پر پردہ ڈال دیا تھا۔ اس کے برعکس،
    کرشمہ آنٹی گرمی کی شکایتیں کرتے اپنی حالت سے بے
    پرواہ باتیں کئے جارہی تھیں جس پر میں بمشکل مسکرانے
    کی سعی کرتا۔ کرشمہ آنٹی نے میرے پسینے دیکھ کر اک اور
    گالس جام شیریں کا بھر کر مجھے پکڑایا، جسے میں ویسے
    ہی غٹاغٹ پی گیا اور آنٹی سے اجازت لے کر وہاں سے نکل
    آیا۔ انکے گھر سے اپنے گھر آنے تک مجھے آج شدت سے اپنے
    انڈروئیر کے تنگ ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ گھر پہنچ کر
    امی نے حالت دیکھی تو کھانے سے پہلے شاور لینے کا حکم
    صادر فرمایا۔ میں جلدی سے واشروم گھس گیا۔ ٹی-شرٹ
    اتار کے جینز پینٹ اتاری تو میرا لن کرشمہ آنٹی کی موٹی
    گانڈ کے مٹکنے اور دودو کی سفیدی پر بڑے کالے نپلز کا
    سوچ کے پھر سے بپھر گیا۔ میں نے جھنجھالہٹ میں لن کا
    سر پکڑ کر مروڑا تو میٹھا سا درد محسوس ہوا اور مجھے
    مزا آنے لگا۔ پہلی بار کرشمہ آنٹی کے خوبصورت بھرے وجود
    کے تخیل میں میں نے اپنا لن رگڑ رگڑ کر ہیجانی کیفیت میں
    اپنے گاڑھے پانی کو ٹائلٹ کی نذر کیا۔ اب تھوڑا سکون تو
    مال لیکن ساتھ کی بے چینی اب مجھے اور ستانے لگی اور
    میں اگلے کسی ایسے لمحے کا انتظار کرنے لگا کہ کب کرشمہ
    آنٹی کو پھر سے ایسے دیکھنے کا موقع ہاتھ آئیگا۔ قسمت۔۔۔
    کہ مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔
    جس دن میں نے کرشنہ آنٹی کو دیکھا تھا، اس دن کے بعد
    سے دو تین دفعہ وہ ہمارے گھر آئی تھی۔ جمعہ کے دن ابا
    کی کام سے چھٹی ہوتی تھی۔ اسی لئے اس جمعہ کو وہ گھر
    پر موجود تھے۔ کرشمہ آنٹی قریبا گیارہ بجے گھر ائی تھیاور ابا سے کہہ دیا تھا کہ جمعہ سے فارغ ہو کے رفعت یعنی
    مجھے ان کے گھر بھیج دیں، گھر میں کچھ کام ہے۔ میں نے
    جمعہ پڑھنے کو سفید کاٹن کی شلوار قمیض پہن رکھی
    تھی۔ نماز کے بعد ابا جی کے کہنے پر جا کر میں نے دروازے
    پر دستک دی۔ کرشمہ آنٹی نے دروازہ کھوال۔ گرمی آج بھی
    بال کی تھی۔ کرشمہ آنٹی نے پہلے مجھے پانی پالیا۔ پھر
    انہوں نے کمرے میں بالیا۔ میں ان کے پیچھے چال گیا۔ کرشمہ
    آنٹی نے سٹول اٹھایا اور لے جا کر واش روم کے عین بیچ
    شاور کے نیچے رکھ دیا۔ پھر مجھے بالیا۔ میں اندر گیا تو
    کرشمہ آنٹی نے دروازہ بند کر کے کہا،
    "رفعت بیٹے! زرا دیکھ
    لو اس شاور سے پانی بہت کم آتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں بند سا
    ہو گیا ہے۔ یہ شاور پیس اتار کر دیکھ لو۔ میں اوپر سٹول پہ
    چڑھا تو کرشمہ آنٹی نے دوپٹہ اتار کر دروازے سے باہر کمرے
    میں پھینک دیا۔ ان کے بال سارے جوڑے میں بندھے تھے۔میں
    نے اوپر سے نیچے ان کے گلے میں دیکھا تو ان کی 38 سائز
    کے دودو کیا جیسے بڑے غبارے نظر آرہے تھے۔ کرشمہ آنٹی
    نے اپنی نے آف وائٹ الن کی قمیض اور نیچے سفید شلوار
    پہن رکھی تھی۔ میں نے شاور پیسس اتارا اور اس کے پورز
    دیکھنے لگا۔ اندر تھوڑا گند بھی جمع تھا۔ میں نے اسے صاف
    کیا۔ جب دوبارہ سٹول پہ چڑھ کر اسے فٹ کرنے لگا تو اس
    میں سے پانی آنا شروع ہوگیا۔ کرشمہ آنٹی چالنے لگی، " ارے
    ۔۔۔ ارے۔۔۔ جلدی فٹ کرو، میرے سارے کپڑے گیلے کردئے۔ "
    میں نے نیچے دیکھا تو کرشمہ آنٹی ساری بھیگ چکی تھی۔
    ان کے وجود کا ہر انگ نمایاں تھا۔
    شاید وہ بھی یہی تو
    چاہتی تھی۔ کرشمہ آنٹی نے مجھے دیکھا تو دیکھتی ہی
    رہی۔ میرا خود پہ دھیان آگیا تو میرا کاٹن کا سوٹ بھی اب
    نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں شرما کر نیچے اترا اور جیسے ہی
    باہر نکل رہا تھا، کرشمہ آنٹی نے بازو دبوچ لیا۔ میں ہکا بکا
    ہی تو رہ گیا تھا! کرشمہ آنٹی مجھے دالسہ دیتے، اور گیلے
    کپڑوں کا کہتے کہتے خود کو مجھ سے مسل رہی تھی۔ وہ
    بات کر رہی تو میری نظریں ان کے چہرے کی بجائے، انکے 38
    سائز کے دودو پر جم گئیں۔ انکے بھورے نپلز انکی قمیض کو
    جیسے پھاڑ رہے تھے۔ کرشمہ آنٹی نے مجھے تاڑتے ہوئے دیکھا
    تو باتیں کرتے کرتے اپنے کھلے گلے میں ہاتھ ڈال کر ایک دودو
    باہر نکاال اور مسکرا کر، مجھے تسلی دے کر، اپنا نپل میرے
    منہ پر رگڑا۔ میں نے تھوڑا ڈرتے ہوئے نپل منہ میں لیا، پھر
    چوسنے لگا۔ کرشمہ آنٹی نے ہاتھ نیچے جھکا کر میرا لن پکڑ
    لیا۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔
    کرشمہ آنٹی نے دھمکی
    آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "دیکھو رفعت، اگر تم مجھے
    اپنے لن سے کھیلنے نہیں دو گے، تو میں تمہارے ابا کو بتا
    دوں گی!" "ابا!!!" انکا تو سوچ کر ہی میرا رنگ فق ہو گیا۔
    کرشمہ آنٹی نے شاور کو بند کردیا۔ اس کے بعد میرا سر پکڑ
    کر اپنے دودو کے بیچ رگڑنے لگی۔
    پھر دوسری چھاتی اپنی
    قمیض کے گلے سے نکال کر میرے لن کو رگڑنے لگی...انکی
    محنت سے چند ہی لمحوں میں میرا لن چھ انچ تک پھیل کر
    کھڑا ہوگیا۔ کرشمہ آنٹی نے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑی
    جیسے ان کی سالوں کی حسرت پوری ہونے جارہی تھی۔
    لیکن میرا ڈر اب بھی اپنی جگہ ہی تھا۔ کرشمہ آنٹی نے
    میرے ہونٹوں کی چمی لے کر
    پوچھا، "کبھی کسی لڑکی کو
    چھوا ہے؟" میں نے "نہ" میں سر ہالیا۔ "سکول میں بھی
    نہیں؟" "نہیں۔۔۔ وہ ۔۔۔ ہمارے سکول میں صرف لڑکے ہوتے
    ہیں۔ کبھی اپنی مس یا ٹیچر کو دیکھ کر بھی دل نہیں
    چاہا؟" "نہیں وہ، میڈم تو ہماری ٹیچر ہیں۔ " اچھی خالہ
    مجھ سے باتیں کرتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ میرے لن
    کا مساج بھی۔ اب میرا لن اتنا سخت ہوگیا تھا کہ میری
    رانوں کی نسیں بھی کھنچ رہی تھی۔ کرشمہ آنٹی مجھے
    کمرے کے اندر لے آئی اور اک کھری چارپائی پر چادر ڈال کر
    مجھے لٹا دیا۔ سائیڈ میں تکیہ رکھا اور میرے طرف میں اس
    پرایسے ٹیک لگایا کہ ان کی چھاتیوں کے لمبے اور تنے ہوئے
    نپل میرے چہرے کے اوپر تھے۔ اپنی ٹانگ اٹھا کر میری ران
    پر رگڑنے لگی اور اپنا نپل میرے چہرے پر۔ پھر کرشمہ آنٹی
    نے نپل میرے منہ میں دیا۔اور کہا، "خلیل میاں سے تو ہو
    نہیں پاتا تھا۔ تم تو چوس لو" میں نے کرشمہ آنٹی کے نپل
    کے اوپر ہونٹ بند کردئے اور چوسنے لگا۔ کرشمہ آنٹی اب
    کسی ناگن کی طرح بے چین ہورہی تھی۔ مجھے بھی اب مزا
    آرہا تھا۔ جوش میں آ کر میں نے ان کے نپل کو دانتوں میں
    کاٹا تو وہ ششششششششششششش کی آواز نکال کر تڑپ
    اٹھی۔ میں نے ڈر کے مارے جلدی سے منہ ہٹایاتو کرشمہ آنٹی
    نے پیار سے میرے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پھر میرے ہونٹوں کو
    اپنے ہونٹوں سے چوما، پھر میرے نچلے ہونٹ کو چوسنے
    لگی۔ میں نے بے اختیار ان کی ٹانگ کو اپنی ٹانگوں میں
    پکڑلیا اور ان سے چمٹ گیا۔ لن اب میرے بس سے باہر ہو رہا
    تھا۔ میں نے کرشمہ آنٹی کے پیٹ پر ہی اپنا لن رگڑنا شروع
    کیا۔ کرشمہ آنٹی نے میرا ازار بند کھوال۔ میرے منہ میں پھر
    سے اپنا نپل ڈاال جسے میں نے اب زور سے کاٹا۔ کرشمہ آنٹی
    اب پوری گرم ہو چکی تھی اور کراہنے لگی تھی۔ ان کی
    سانسیں بے حال، منہ سے آہ آہ کی آوازیں اور چوت سے لیس
    دار پانی نکل رہے تھے۔ کرشمہ آنٹی نے السٹک لگائی تھی اس
    لئے انہیں شلوار اتارتے دیر نہیں لگی اور وہ میرے لن کے اوپر
    بیٹھ گئی۔ اب وہ بڑبڑا بھی رہی تھی۔ "خلیل کمینہ دبئ جا
    کے بیٹھے گا تو میری چوت کی آگ کون بجائے گا۔" پھر خود
    ہی میرے لن کو اپنی چوت میں ایڈجسٹ کرکے آرام سے لیکن
    مستقل زور سے ڈالنے لگی۔ کرشمہ آنٹی کی چوت کی گرمی
    الجواب تھی۔ اک پل کو مجھے لگا میرا پانی ابھی چوٹ
    جائے گا۔ ان سے اب اور برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ میرے
    سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اور میرے اطراف میں
    گھٹنے گاڑ کر اب وہ خود ہی میرے لن پر اٹھک بیٹھک کر
    رہی تھی۔ میں اپنے لن کے ذریعے ان کی چوت کے ہر کونے کو
    محسوس کر رہا تھا۔ وہ جھٹکے مار کر تھک گئی توسانس
    لینے کو رکی۔ پھر اپنی انگلیوں کو میرے ہونٹوں پر رکھا اور
    ہونٹوں کے قریب کر کے چاٹنے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ
    کرشمہ آنٹی نے اپنی چوت کی نسیں ٹائٹ کر لیں۔ میرا لن
    اور بھی تن گیا۔ میں نے ان کے کولہے پکڑ لئے اور اب خود ہی
    گھسے مارنے لگا۔ ہر گھسے کے ساتھ کرشمہ آنٹی کے بڑے
    بڑے سینوں کو اچھلتا دیکھتا تو گھسے بے اختیار تیز
    ہوجاتے۔ کرشمہ آنٹی اب مجھے گالیاں دینے لگی۔ "چود۔ چود۔
    خلیل نہیں آئے گا تو میں تم سے ہی چدواوں گی۔ مار نا۔
    کیاہیجڑوں کی طرح ہل رہا ہے۔ چود دے۔ ااااااااااااااااااہ۔۔۔
    خلیل کی بیوی کو اب تو چودے گا۔
    ہششششششششششششششش! اااااااااااااااہ۔۔۔ چود سالے،
    چود!" انکی گالیاں سن کر مجھے اور جوش آیا۔ اب کے اتنی
    تیزی سے چدائی کرنے لگا کہ کرشمہ آنٹی کی چوت سے لیس
    دار پانی کی چھینٹیں میرے لن کے اوپر لوور ابڈامن پر پڑنے
    لگی۔ کرشمہ آنٹی کی آنکھوں کا کالک اب جیسے غائب ہو رہا
    تھا۔ وہ کراہ رہی تھی اور جھوم رہی تھی۔ میرے پیروں کی
    نسیں تک تن گئی تھیں۔ کرشمہ آنٹی کا بولنا بند تھا
    جبکہ
    میں تقریبا چیخنے لگا تھا۔ میں نے شدت جذبات میں گھسے
    اور تیز کردئیے تو لن کرشمہ آنٹی کی بچہ دانی کو پھاڑنے
    لگا۔ ان کی آنکھیں باہر کو نکل آئی۔ منہ کھال رہ گیا۔ جبکہ
    میرے وجود سے آگ نکلنے لگی۔ میں نے آخری تیز جھٹکا مارا
    اور اپنے لن سے اک طاقتور فوارہ کرشمہ آنٹی کی چوت کی
    گہرائی میں چھوڑ دیا۔ میں نے اپنا لن ان کی بچہ دانی کے
    اندر زور سے ڈال کر روکے رکھا۔ کرشمہ آنٹی کے اندر بھی اک
    کرنٹ بھر گیا تھا۔


    وہ آااااااااااااااہ آاااااااااااااااہ کی آوازیں
    نکال رہی تھیں۔ میں نے تھوڑا سا لن باہر نکاال۔ پھر اندر ڈال
    دیا حتی کہ باقی کا پانی بھی انکی چوت کے اندر ہی چھوڑ
    دیا۔ کرشمہ آنٹی اب ساکت ہو گئی تھی۔ میرا سارا پانی
    چوت میں نچوڑ کر وہ میرے ہی اوپر آ لیٹی۔ اب میرے وجود
    کے پٹھے ڈھیلے ہونے لگے تھے۔ کرشمہ آنٹی کی گرمی نکل
    گئی تھی۔ میں ان کی بے قرار سانسیں اپنے گلے پر محسوس
    کر رہا تھا۔ انکے دودو میرے سینے پر نرم محسوس ہونے لگے
    تھے۔ میں نے اپنا لن ان کی چوت سے باہر نکاال اور انکے
    چوتڑوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اپنی چوت کی گرمی بجا کر
    کرشمہ آنٹی نے بیٹھ کر پہلے میری گردن پر، پھر ہونٹوں پر،
    اس کے بعد نیچے پیڑو میں اور آخر میں میرے لن کو کس
    کیا۔میری سانسیں معمول پہ آ گئیں تو میں نے اٹھ کر شاور
    کا رخ کیا جو محض کرشمہ آنٹی کی چوت کی گرمی نکالنے
    کا بہانہ تھا۔ وہیں غسل کرنے کے بعد باہر نکال تو کرشمہ آنٹی
    نے میرا چہرہ ہاتھوں میں پکڑا، ماتھے پہ بوسہ لیا اور دودھ
    کا گالس پیش کیا جسے میں غٹا غٹ پی گیا۔ کرشمہ آنٹی نے
    مجھے گلے لگا کر، مسکرا کر گالیوں کے لئے معزرت کی تو
    میں نے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیااور گھر کے لئے نکل پڑا۔ گرمی
    کی وجہ سے سب اپنے اپنے رومز میں تھے، غنیمت جان کر
    میں بھی کمرے میں گھس گیا۔اس دن سونے کا مزامیں آج
    تک نہیں بھوال۔
    جمعے کا بقیہ دن میں نے سو کے گزارا۔ کرشمہ آنٹی کی چوت
    کو اتنی گہرائی میں چودنے اور اپنا پہال بھرپور سیکس کرنے
    کے بعد تھکن کے مارے آنکھ ہی نہیں کھل پا رہی تھی۔ شام
    کو امی نے کھانا کمرے کے اندر آکر ہی دیا۔ " رفعت بیٹا!
    تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کب سے سو رہے ہو؟" "نہیں
    امی! وہ کرشمہ آنٹی کے گھر کی بجلی میں کوئی مسئلہ تھا،
    سیڑھیوں پر چڑھ اتر کر بہت تھک گیا تھا، اس لئے آرام کرنے
    کا سوچا۔ آپ سب نے کھانا کھا لیا؟" "ہم نے تو ٹائم پر ہی
    کھا لیا۔ تم نہیں آئے، حاالنکہ میں نے آواز بھی دی تھی۔
    تمہارے ابا نے پوچھا لیکن میں نے بتایا شاید تم سو رہے ہو۔
    میں سونے جا رہی ہوں۔ تم کھانا جلدی کھا لینا۔" امی بالوں
    میں ہاتھ پھیر کر چلی گئی۔ میں نے منہ ہاتھ دھو کر کھانا
    کھایا۔ باقی کی ساری رات کرشمہ آنٹی کے بڑے مموں اور
    نرم چوت کی سوچوں میں گزری۔ صبح ابا نے گودام میں
    بالیا۔ گودام میں مختلف چیزوں کی فہرستیں دیکھنے کا کام
    ابا نے مجھے سونپا۔ شام تک ریکارڈ کی ایک فائل تیار کر کے
    میں نے ابا کو پیش کی۔ ہفتے کا دن کافی مصروف رہا۔ شام
    کو واپسی پہ سلمان سے مالقات ہوئی۔ کرشمہ آنٹی کے گھر
    اور کوئی نہیں تھا۔ سلمان نے اتوار کے دن لڈو کھیلنے کی
    پیشکش کی، میں نے بھی حامی بھر لی۔ سلمان ویک اینڈ پہ
    آیا تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے امی سے سلمان کے ساتھ لڈو
    کھیلنے کی اجازت لی اور کرشمہ آنٹی کے ہاں آ دھمکا۔ سلمان
    فریش ہو کے باہر الن میں ناشتے کا انتظار کر رہا تھا۔ کرشمہ
    آنٹی کچن میں تھی۔ سلمان تپاک سے مجھے گلے مال۔ ہم
    بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ سلمان نے مجھے بورڈنگ کے قصے
    سنائے۔ وہ ان کے ٹف روٹین سے تھوڑا ناالں تھا۔ کرشمہ آنٹی
    نے ناشتہ النے میں تھوڑی دیر کی تو وہ اٹھ کر ان کے پیچھے
    کچن میں چال گیا۔ وہ کچن کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ اس
    کی آڑ میں مجھے کرشمہ آنٹی کی موٹی گانڈ دکھائی دے
    رہی تھی لیکن اندر کا منظر دیکھ کر میری حیرت کی انتہا
    نہ رہی۔ سلمان کرشمہ آنٹی سے باتیں کر رہاتھااور تھوڑی دیر
    بعد اس نے اپنا ہاتھ کرشمہ آنٹی کی شلوار کے اندر ڈال دیا
    اور اب اپنے ہاتھ سے بہت مزے سے ان کے چوتڑوں کو سہال
    رہا تھا۔ کرشمہ آنٹی اس کے لئے انڈا تل رہی تھی۔


    وہ اب اس
    کے پیچھے کھڑے ہو کے اس کی گانڈ پر اوپر اوپر گھسے مار
    رہا تھا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ سامنے بڑھا کر اس کی
    چھاتیوں کو دبانے لگا۔ اب میں سمجھا تھا کہ سلمان کرشمہ
    آنٹی کے ہاں اتنا خوش کیوں رہتا تھا۔ میرا منہ حیرت کے
    مارے کھال تھا اور دماغ اسی پہ سوچ رہا تھا کہ اوپر سے
    اتنی شریف اور سادہ دکھنے والی کرشمہ آنٹی دراصل کتنی
    چالو عورت تھی۔ کرشمہ آنٹی نے ایک انڈا اور پراٹھا میرے
    لئے بھی بنایا۔ میں نے ناشتہ کیا تو تھا لیکن مروتا سلمان کے
    ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ میری سوچ ابھی بھی سلمان اور
    کرشمہ آنٹی کے حوالے سے گردش میں تھی۔ خیر، ناشتے کے
    بعد ہم لڈو کھیلنے لگے۔ کرشمہ آنٹی بھی ساتھ ہی بیٹھی
    تھی۔ وہ ہمارے کھیل کے درمیان کبھی مجھے اور کبھی
    سلمان کو سپورٹ کرتی تھی۔ گیارہ بجے میں نے گھر جانے
    کی بات کی تو سلمان نے مجھے روکا۔ میں نے بتایا کہ مجھے
    ابا کے لئے کھانا لے جانا تھا۔ سلمان نے کہا کہ کھانا کر میں
    پھر اس کے ساتھ لڈو کھیلوں کیوں کہ شام کو اسے واپس
    جانا تھا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بہت خوش ہوا۔
    لیکن ساتھ کرشمہ آنٹی کچھ سوچ رہی تھی، مجھے ایسا
    لگا۔ گھر آیا تو امی نے دسترخوان میں روٹیاں لپیٹ دی تھیں
    اور اب ٹفن میں قیمہ کریلے کا سالن ڈال رہی تھی۔ یہ میری
    مرغوب ڈش تھی۔ اسی لئے جلدی جلدی ابا کو کھانا دے کر
    میں نے بھی خوب شکم سیر ہو کر کھایا۔ سلمان کے ساتھ
    لڈو کھیلنے کا کہہ کر میں نے پھر کرشمہ خالہ کے گھر کی راہ
    لی۔
    میں
    نے سلمان کو میسیج کیا کہ میں آرہا ہوں۔ وہاں پہنچا تو
    دروازہ کھال ہوا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔
    برآمدے میں کوئی نہیں تھا۔ کرشمہ آنٹی کے کمرے کے
    دروازے پر جالی لٹک رہی تھی اور وہاں سے کھسر پھسر کی
    آواز آ رہی تھی۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے چپکے سے اندر
    جھانکا تو حیرت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ سلمان کرشمہ
    آنٹی کے ساتھ کھری چارپائی پر صرف بنیان پہنے لیٹا تھا۔
    کرشمہ آنٹی نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈاال تھا اور اس کے
    لن کی مالش کر رہی تھی۔ جبکہ سلمان کرشمہ آنٹی کے بڑے
    کالے نپلز کو انگلیوں میں دبا رہا تھا۔ کرشمہ آنٹی نے قمیض
    اوپر کی تھی اور اس کے ناف کا گہرا ہول انکے دبلے پیٹ پر
    بہت سیکسی دکھ رہا تھا۔ میرے منہ میں پہلے تو پانی آگیا
    لیکن سلمان کو ایسے دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا،
    اس لئے میں نے واپسی کی راہ لی۔ شاید میرے قدموں کی
    چاپ سن کر سلمان جلدی سے لڈو بغل میں دبائے میرے
    پیچھے الن تک چال آیا۔ اپنے کھڑے لن کا سوچ کر اس نے لڈو
    سے لن کو چھپایا اور میرا بازو پکڑ کر اندر لے ایا۔ کرشمہ
    آنٹی نے اب قمیض نیچے کر رکھی تھی ۔ میری حیرت زدہ
    چہرے کو دیکھنے باوجود وہ چارپائی پر نارمل ہی لیٹی
    تھی۔ سلمان نے الن چئرز اندر روم میں رکھ لئے تھے۔ انہیں
    ٹیبل سمیت کھینچ کر کرشمہ آنٹی کی چارپائی کے قریب
    لگایا۔ ہم نے گھوٹیاں بانٹی۔ کرشمہ آنٹی نے اب سونے کا
    بہانہ کرکے آنکھوں پر اپنا بازو رکھ لیا تھا۔ لیکن ان کی
    قمیض پر انکے تنے ہوئے نپلز کا ابھار اب بھی مجھے اپنی
    طرف راغب کر رہا تھا۔ ہم نے کھیل کا آغاز کیا۔ پہلی باری
    سلمان نے لی۔ اس نے ڈائس پھینکا تو پانچ کا نمبر نکال۔ اب میری باری تھی۔ میں نے ڈائس پھینکنے کے لئے اٹھایا تو
    سلمان نے مجھے انکھ ماری اور کرشمہ آنٹی کے نپل کو
    انگلیوں میں مسلنے لگ گیا۔ میں نے شرم سے ڈائس کی طرف
    توجہ مرکوز کی۔ پھینکا تو چھکا نکل آیا۔ پھر تین۔ میرے
    گھوٹی چالنے تک وہ مسلسل آنٹی کے نپل کے ساتھ کھیلتا
    رہا۔ اس نے اپنی باری پہ ڈائس پھینکا تو اب کے تین نکل آیا۔
    پھر میری باری تھی۔ ڈائس پہلی دفعہ پھینکا تو اک اور
    چھکا، پھر دوبارہ پھینکا تو اب کے پانچ نکل آیا۔ میں نے
    دوسری گھوٹی نکالی اور پہلے چلی ہوئئی گھوٹی کو سٹاپ
    پہ رکھا۔ دیکھا تو سلمان نے اکرشمہ آنٹی کی قمیض اوپر
    کی تھی اور اس کے نپلز پر ہونٹ رکھ کر چوس رہا تھا۔
    کرشمہ آنٹی کا سفید پیٹ، بڑے بڑے دودو اور ان کے کالے
    نپلز، اور نیچے ناف کی گہرائی مجھ پر سحر طاری کرنے لگی
    اور اب میرا لن تنننے لگا تھا۔ سلمان نے اب ڈائس نہیں اٹھایا
    بلکہ میرا ہاتھ لے کر کرشمہ آنٹی کے شلوار کے اوپر ہی ان کے
    چوت پر رکھ دیا۔ میں نے اسے شرما کر دیکھا تو اس نے
    آنکھ مار کر میرا ہاتھ آنٹی کی چوت پر رگڑنے لگا۔ انکی
    چوت ویسے ہی بہت گرم تھی، اب اس کے نرم اور مالئم
    ہونٹ میری انگلی کے نیچے تھرکنے لگے۔ سلمان لڈو چھوڑ کر اٹھا اور اپنی شلوار نیچی کرکے اپنا تنا ہوا لن آنٹی کے
    ہونٹوں پر رگڑنے لگا۔ ” "کیا کر رہے ہو سلمان؟ تم جانتے ہو
    مجھے یہ سب نہیں پسند سلمان نے آنٹی کا ہاتھ لیا اور
    چوما، "خالہ کریں نا! مجھے آپکا چوسنا بہت اچھا لگتا ہے!"
    کرشمہآنٹی نے سلمان کا لن منہ میں لیا اور چاٹنے لگی، پھر
    پورا لن منہ میں لے کر اللی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔ سلمان
    نے آنٹی کے نپلز کو رگڑرگڑ کر اور جوش دالیا ۔ آنٹی کو
    جوش میں کروٹیں لیتے دیکھ کر میں نے ان کی شلوار نیچے
    کی۔ ان کی ٹانگیں اٹھائی اور اپنا بیلٹ ، زپ کھول کر اپنا
    لن نکالا

    ۔ اس پر تھوک لگا کر سیدھا آنٹی کی چوت کے
    ہونٹوں پر رکھا اور اوپر اوپر رگڑنے لگا۔ کرشمہ آنٹی اب
    جوش کے مارے اونہہہہ اونہہہہ کی آوازیں نکال کر زور زور
    سے سلمان کا لن چوسنے لگی۔ میں نے ان کی جوشیلی کراہ
    سن کر بے اختیار اپنا لن پورا آنٹی کی چوت کی گہرائی میں
    داغ دیا۔ کرشمہ آنٹی تڑپ اٹھی اور اپنے چوت کو ہال کر میرا
    لن نکالنے کی کوشش کی، لیکن میں نے پھر سے زور کا گھسا
    مارا۔۔۔ اس دفعہ آنٹی کی بھی تیز اونہہہہہہہہہہ نکل گئی
    اور سلمان کا لن ان کی منہ سے باہر آگیا۔ سلمان نے اپنا لن
    آنٹی کے دودو پر رگڑ کر پھر ان کے منہ میں دیا تو آنٹی کی چوت کی نسی میرے لن کے اوپر ٹائٹ ہوگئیں۔ اب میں زور
    زور سے گھسے مار رہا تھا۔ جتنا تیز میں گھسے مارتا، کرشمہ
    آنٹی اتنی ہی تیزی سے سلمان کا لن چوستی۔ میں نے کرشمہ
    آنٹی کی پوری شلوار گھسے مارتے مارتے اتار پھینکی اور
    جھک کر ان کے دودو کو بھی چاٹنے لگا۔ دودو پر میری زبان
    کی رگڑ سے کرشمہ آنٹی تڑپ کر ہلتی تو مجھے اور زور سے
    انہیں چودنے کا دل کرتا۔ کرشمہ آنٹی کی چوت اب مکمل
    گیلی ہو چکی تھی۔ اتنی کہ میرے لن کے اندر باہر جانے سے
    شڑاپ شڑاپ کی آوازیں آنے لگی۔ میں نے بے دھیانی میں اپنا
    انگوٹھا آنٹی کی چوت کے دانے پر رکھا تو ان کی
    آاااااااااااااااااااااااہ نکلی۔ ان کی چوت سے لیس دار پانی
    میرے لن کی حرکت اور آسان اور گہری بنا رہا تھا۔ کرشمہ
    آنٹی کا منہ سلمان کے لن کی وجہ سے بند تھا۔ وہ زیادہ
    باتیں تو نہیں کر پا رہی تھی لیکن جب میں نے انگوٹھے کا
    پریشر ان کے دانے پر بڑھا کر زور زور سے گھسے مارے تو وہ
    سلمان کے لن کو منہ سے نکال کر مجھے اک دفعہ پھر گالیاں
    دینے لگیں۔ ” چود نا! چود نا سالے، میری چوت گرم نہیں ہے
    کیا۔۔۔ چود۔۔۔ چود۔۔۔ کیا ہیجڑوں کی طرح ہل رہا ہے؟ مار ۔۔۔
    مار۔۔۔ اس پھدی کی ماں کی۔۔۔ سالے چود!" سلمان کے سامنے گالیاں سن کر میں نے اتنا زور سے گھسے مارنے شروع کئے،
    کہ آنٹی اسکا لن چھوڑ، اپنی کالئی پر کاٹنے لگی۔ اس کی
    چوت کی سکڑتی نسیں بتا رہی تھیں کہ آنٹی اب جلد ہی
    فارغ ہو جائے گی۔ میں نے گھسے اب بال رکاوٹ اور ٹھہراو
    کے زیادہ گہرے اور تیز کردئیے۔ کرشمہ آنٹی اب چیخنے لگی
    تھی۔ سلمان کے لنکو منہ میں رکھنے کی بجائے اب وہ ہاتھ
    سے جلدی جلدی اور پورے جوش سے ہال رہی تھی۔ کرشمہ
    آنٹی نے ناگن کی طرح انگڑائیاں لینا شروع کردیں اور بڑا
    بڑانے لگیں۔ پھر ان پر جھرجھری آگئی اور میری کمر کے گرد
    ٹانگیں ڈال کر میرے لن کو اپنی چوت کی گہرائی میںروکے
    رکھنے کی کوشش کی۔۔۔ سلمان نے اب اب اپنا لن خود ہالنا
    شروع کیا اس کی ٹوپی آنٹی کے منہ میں رکھوا دی۔ میں نے
    دو تین گہرے اور زور کے گھسے مارے تو کرشمہ آنٹی کی
    آنکھوں میں عجیب سا سرور آگیا۔ ان کا منہ کھل گیا اور
    سانسیں تیز ہو گئیں۔ سلمان نے جلدی جلدی اپنا لن ہالیا اور
    کرشمہ آنٹی کے منہ میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔ وہ دونوں
    فارغ ہو گئے تو اب اب میں کرشمہ آنٹی پر جھکا۔ ان کی
    پوری چھاتی منہ میں پکڑ لی اور زور زور سے گھسے مارنے
    لگا۔ کرشمہ آنٹی نے شہوت کی شدت سے اپنی ٹانگیں پھر
    سے میرے کمر کے گرد ڈال لیں۔ان کی چوت اتنی گرم تھی کہ
    اب میرے لئے مزید خود کو کنٹرول کرنا ناممکن تھا۔ میں نے
    جلدی جلدی جھٹکے لگائے تو میرا پانی کرشمہ آنٹی کی چوت
    کے گہرے رحم میں فوارے کی طرح پھنکار کر چوٹا۔ اب
    مجھے بھی سکون آگیا تھا۔ تینوں کے اس طرح فارغ ہونے
    کے بعد کرشمہ آنٹی نے ہنس کر مجھے اور سلمان کو گلے
    لگایا۔ پھر ہم دونوں کے لن کو چوما۔ اس کے بعد اک نپل
    سلمان کے اور دوسرا میرے منہ میں دیا اور ہماری کمر پر
    ہاتھ سے سہالیا۔ سلمان نے نپل چھوڑ کر کرشمہ آنٹی کو
    ”"کیوں خالہ؟ اب
    ہونٹوں پر کس کیا اور شرارت سے کہا،
    بجھ گئی آگ؟ کرشمہ آنٹی نے مسکرا کر کہا، "تم دونوں نے
    تو میری حسرت ہی پوری کردی؟" کرشمہ آنٹی نے کچن جا کر
    ہمارے لئے ملک شیک بنایا۔ سلمان نے خوشی سے ہاتھ ہوا
    میں اٹھا کر مجھ سے پنجہ مالیا۔ میں نے وہیں کرشمہ آنٹی
    کے شاور میں ہی غسل کیا۔ باہر نکال تو ملک شیک ریڈی تھا۔
    میں نے اور سلمان نے مزے سے پیا۔ اب ہماری دوستی اور
    گہری ہو گئی تھی۔ میں سلمان تو اسی شام بورڈنگ چال گیا
    لیکن کرشمہ آنٹی کی گرم چوت اگلے دن بھی میرا انتظار کر
    رہی تھی۔


    Attached Files

  • #2
    آنٹیوں کی حسرتیں جتنی گہری ہونگی اُتنا ہی تڑپتی رہتی ہیں ۔ اور جب پوری ہونے کا ہلکا سا بھی اندیشہ انہیں نظر آ جائے تو پھر پیچھے نہ تو ہٹتی ہیں اور نہ ہی ہٹنے دیتی ہیں۔ اور کوئی اُن حسرتوں كو پورا کر دے تو کوئی شک نہیں اس بات میں کے آنٹیاں بھرپور ساتھ نبھاتی ہیں ۔
    یہ کہانی پڑھ کے ماضی کی خوبصورت یاد کو ترو تازہ کر دِیا ہے ۔
    مصنف بُہت بہترین لکھا ہیں۔ آپکا شکریہ ۔

    Comment


    • #3
      Uff karishma aunty to sahe garam ha do do bachon ko sath bahrpor maza dya

      Comment


      • #4
        واہ مزا آگیا۔ آنٹیوں کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے

        Comment


        • #5
          اچھی اسٹوری ہے مزہ آگیا

          Comment


          • #6
            bohat hi kamal ki waha maza a gaya zabardast

            Comment


            • #7
              اس سٹوری نے تو اپنے بچپن کے دن یاد دیلادے

              Comment


              • #8
                گرم شہوت انگیز

                Comment

                Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                Working...
                X