Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

فوزیہ باجی اور میں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • فوزیہ باجی اور میں

    فوزیہ باجی کے گھر کام کرتے تیسرا سال تھا۔
    جب یہاں آیا تھا تو کم عمر لڑکا تھا۔ اب اچھی خاصی مسیں بھیگ چکی تھیں۔
    بچپن کی معصومیت رخصت ہو گئی تھی اور چہرے پر مردانہ کشش جگہ بنا رہی تھی۔
    عام طور پر بنگلوں میں گھریلو کاموں کے لیے لڑکیاں ملازم رکھی جاتی ہیں لیکن فوزیہ باجی کی سمجھ داری تھی کہ وہ مجھ سے باہر کے کام سودا سلف ، گاڑی کی صفائی وغیرہ کے ساتھ برتن کپڑے گھر کی جھاڑ پونچھ بھی کرواتی تھی یوں دو کے بجائے ایک کی تنخواہ میں مزے سے مالکن بنی بیٹھی تھی۔
    شروع کا کچھ عرصہ چھوڑ کر یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر نہ تھا لیکن یہ سارا کام اتنا کٹھن بھی نہ تھا کہ میں کام بدلتا۔
    میرا رشتے کا چچا جو قریبی مارکیٹ میں پھل فروخت کرتا تھا اس کی بھی یہی تجویز تھی کہ جب تک یہاں سے روزی چلے ، کام کرتے رہو۔
    ایسی مفت رہائش اور کھانے کے ساتھ نوکری چھوڑنے کی چیز نہیں۔
    پرانے کپڑے بھی ملتے تھے۔
    نوکری کی ابتدا میں ڈرائیور نے اردو پڑھنا بھی سکھا دیا تھا۔باقی کسر ٹیلیویژن نے پوری کی اور اب میں پٹھان ہوتے ہوئے بھی صاف اردو بولتا تھا۔
    فوزیہ باجی کے بنگلہ پر ایک عورت نجمہ آتی تھی۔
    ہفتے میں دو سے تین بار
    عمر میں مجھ سے کم سے کم دگنی ہو گی یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
    ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ ان کی دور کی رشتے دار ہے۔
    ایک طرح سے وہ فوزیہ باجی کی ذاتی ملازمہ تھی
    ٹیلر کی دکان کے کام سے لے کر سر میں تیل ڈالنے تک بےشمار کام اس کے حوالے تھے۔
    اچھی بھلی خوبصورت اور دلکش عورت تھی۔
    کچھ فاصلے پر کھیل کی میدان کے پار فلیٹوں میں اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی۔ میری ذات میں اس کو خاص دلچسپی تھی۔
    شاید بےاولاد ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔
    پہلی بار جب ملی تو میرا مکمل انٹرویو لیا۔۔۔۔
    میری کمزور اردو پر کھل کر ہنستی رہی۔۔۔۔
    اور مجھے تصیح کرتی رہی۔۔۔
    بعد کے عرصہ میں بھی اس کا یہ معمول رہا کہ مجھ سے بات چیت میں اس کو مزا آتا۔۔۔۔
    کبھی میری غیر موجودگی میں آ کر چلی جاتی تو اگلے چکر پوچھتی بتاؤ کہاں تھے۔
    بےتکلفی الگ ہی نوعیت کی تھی۔۔۔
    راستہ میں آتے جاتے سیاہ چادر بدن پر لپیٹ کر نکلتی۔۔۔
    پھر ایک روز جب گرمیوں کے موسم کا آغاز باقاعدہ طور پر ہو چکا تھا۔
    ظہر سے قبل فوزیہ باجی کسی فوتگی پر چلی گئی۔۔
    گھر پر کوئی نہ تھا علاوہ فوزیہ باجی کی ساس کے جو اپنے کمرے سے کم ہی نکلتی تھی
    میں نے حسب معمول گھر کی صفائی ختم کی اور اوپری منزل پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
    کہنی سے چہرہ ڈھانپ کر گنگنا رہا تھا کہ زینے پر آہٹ ہوئی۔
    چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو نجمہ چلی آ رہی
    تھی۔۔۔
    میں اسے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
    اس نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔
    زمان ۔۔۔۔۔ تمہاری باجی کہاں ہیں۔۔۔؟
    اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔۔۔
    مار ڈالا کمبخت نے۔۔۔۔۔۔۔
    نجمہ نے آنکھوں سے دھوپ کا چشمہ اتار کر رومال سے پسینہ خشک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
    اس وقت وہ گلابی کلر کا لان کا سوٹ پہنے ہوئی تھی۔ ست رنگی دوپٹہ کاندھے پر رسی کی مانند ٹنگا ہوا تھا۔ سیاہ چادر ہاتھ میں تھی۔
    دھوپ میں چل کر آنے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
    وہ چشمے کی کمانی دانتوں میں دبا کر کچھ
    سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔
    میری نگاہیں اس کے حسین پیکر پر جمی ہوئی تھیں۔
    جن جگہوں سے پسنے کی نمی نے لباس کو متاثر کیا تھا وہاں سے بدن جھلک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
    وہ ایک دراز قد کی دلکش اور صحت مند عورت تھی۔
    اس کے سینے پر نگاہ گئی تو صبح کو خربوزے خریدنے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
    میں نے کبھی کسی عورت کو بے لباس نہیں دیکھا تھا۔۔۔
    بازارِ میں سبزیوں کی دکان پر کام کرنے والے لڑکے سے کچھ دوستی تھی اس نے مرد عورت کے تعلق کو مجھ پر ایک انگریزی رسالے کی مدد سے ظاہر کیا تھا۔۔۔۔
    اس کو تجربہ بھی تھا ایک فقیرنی کے ساتھ۔۔۔
    میں نجمہ کو کچھ دیر یوں ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
    اس وقت وہ مجھ کو بہت اچھی معلوم ہو رہی تھی۔۔
    چند سیکنڈ بعد میں نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔


    چند سیکنڈ بعد میں نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔
    کوئی ضروری کام تھا۔۔۔۔۔۔؟
    نہیں۔۔۔۔۔ نجمہ نے اسی طرح سوچتے ہوئے جواب دیا۔
    گھر پر طبعیت گھبرائی۔۔۔۔
    میں نے کہا چلو فوزیہ کے ہی پاس چل کر گپیں لڑائیں۔۔۔۔
    تو پھر چلیے۔۔۔۔۔۔۔
    کمرے میں بیٹھیے۔۔۔۔۔
    نجمہ نے مجھے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
    کچھ خاطر تواضع بھی کرو گے ۔۔۔۔۔
    کیوں نہیں۔۔۔۔
    میں نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
    وہ میرے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
    میں نے پنکھا کھول دیا اور اس سے کہا۔۔۔۔۔
    اب اس قدر گرمی میں کہاں جائیں گی۔۔۔۔۔۔
    یہیں آرام کیجیے۔۔۔۔
    سینڈل اتار ڈالیے۔۔۔
    گھر سے یہاں تک آنے میں پسینے میں تر ہو گئی ہوں۔۔۔۔
    غسل کر لیجیے۔۔۔بہتر محسوس ہوگا
    ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
    وہ اپنی جگہ سے اٹھی، دوپٹہ سرہانے پھینکا اور سینڈل اتارتی ہوئی غسل خانے میں چلی گئی۔
    میں کمرے کے دروازے کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
    اندر سے فوارے کا پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
    کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔

    کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
    زمان یہاں تولیہ نہیں ہے۔
    جسم کس چیز سے خشک کروں۔۔۔۔۔۔؟
    اس کے لہجے کی شوخی نے مجھے ایک عجیب احساس سے دوچار کیا
    میں نے الماری سے تولیہ نکالا اور غسل خانے کے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے پکارا۔۔۔۔
    " تولیہ لیجیے "
    ایک بار پھر دروازے کی جھری ایک بڑے خلا میں بدلی اور نجمہ کا چہرہ نمودار ہوا۔۔۔
    اس نے تولیہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس قدر بڑھایا کہ اس کا سینہ بھی جھانکنے لگا۔۔۔
    میرے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔۔۔۔
    اور تولیہ میرے ہاتھ سے گر گیا۔۔۔
    اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور لٹوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔
    دروازے کا کنارہ اس کے سینے سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
    اس کے کاندھوں تک ننگے بازو اور سینہ دیکھ کر میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہو گیا اور میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔۔
    اس نے مسکرا کر میری کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکارا۔۔۔
    "تولیہ دے دو"
    میں نے پر شوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
    اگر آپ نے تولیے سے بدن خشک کر لیا تو غسل کا فائدہ ہی کیا۔
    لطف تو جب آتا ہے جب پنکھے کی ہوا بھیگے ہوئے جسم پر لگتی رہے۔۔۔
    تو نہ خشک کروں تولیہ سے۔۔؟
    نجمہ نے معصومیت سے پوچھا۔
    نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے تو خشک کرنا بےکار ہے۔۔۔
    تو پھر میرے کپڑے جو بھیگ جائیں گے۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔
    ابھی کپڑے پہن کر کیا کیجیےگا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔
    اس نے ہنس کر کہا۔۔۔
    تو کیا میں یوں ہی ننگی آ جاؤں کمرے میں۔۔۔۔؟
    ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔ میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
    تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا میں تمھارے سامنے ننگی آ جاؤں۔۔۔
    میں تو آپ کا خادم ہوں۔۔۔
    مجھ سے کیا پردہ۔۔۔
    آپ کی سہیلی بھی مجھ سے کوئی تکلف نہیں کرتیں اگر لباس بدلنا ہو تو۔۔۔
    میں نے اس کو بتایا۔۔۔۔
    نہیں ، میں اس طرح نہ آؤں گی
    تم مجھے کوئی چادر لا دو۔۔۔۔۔
    نجمہ نے مجھے دیکھتے ہوئے نشیلی آواز میں کہا۔۔۔۔
    میں نے ایک باریک ریشمی چادر نکال کر اس کو دے دی اور وہ اس کو اپنے بھیگے بدن پر لپیٹ کر باہر آ گئی۔۔۔
    کچھ دیر قبل دیکھا ہوا اس کا تھن میرے حواس پر چھایا ہوا تھا۔
    میں نے اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
    اس وقت تو آپ جل پری معلوم ہو رہی ہیں۔۔۔۔
    وہ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔
    اچھا جی۔۔۔۔
    اب تمہیں مسکہ لگانا بھی آ گیا ہے۔۔۔۔۔
    میں نے کہا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    قسم لے لیجیے اگر جھوٹ لگے تو۔۔۔۔۔۔
    آپ زرا خود کو آئینے میں تو دیکھیں۔۔۔ یقین آ جائے گا۔۔۔
    اپنی تعریف سن کر وہ اس درجہ خوش ہوئی کہ مدہوشی کے عالم میں فخر کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔
    پھر بولی ۔۔۔۔۔
    زمان ۔۔۔۔!! ۔ دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔
    اگر کوئی اس طرح مجھے اور تمھیں یہاں دیکھ لے تو کیا ہو۔؟
    کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں نے کہا
    میں تو ایک معمولی ملازم ہوں اور کوئی ہوتا تو چاہے کوئی شک بھی کرتا۔۔۔۔۔
    نجمہ نے کہا۔۔۔۔۔۔
    نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔
    تم دروازہ بند کر دو۔۔۔۔
    میں اب خوشی کے مارے اپنے حواس میں نہ تھا۔
    کانوں کی لویں گرم ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
    دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی
    اور
    گلا خشک ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں نے لپک پر دروازہ بند کیا اور ۔۔۔۔۔۔

    میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی پھر جو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو وہ پلنگ پر چت لیٹی چھت پر نظریں جمائے سوچ میں گم تھی۔
    چادر جو غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے لی تھی، زیادہ وسیع نہ تھی۔
    پہلے بھی گھٹنوں سے اوپر تھی
    اب لیٹنے سے اور بھی بے ترتیب ہو گئی تھی
    اس کا جھلکتا بدن ایک یادگار نظارہ تھا
    سینے کے ابھار دیکھ کر میری سانس رکنے لگی
    بہت سوچ کر ایک خیال سوجھ ہی گیا
    میں نے پاس جا کر کہا ہاتھ پاؤں دبا دوں ۔۔۔۔۔؟
    آپ تھکی ہوں گی۔۔۔۔۔۔
    اس نے مجھ پر ترچھی نظر ڈالی اور مسکراہٹ دبا کر کہا۔
    جو چاہو دبا دو
    واقعی میرے سارے جسم میں درد ہو رہا ہے۔
    پھر کیا تھا، مجھے تو سمجھو اجازت کی صورت میں خزانہ مل گیا۔
    میں نے گھٹنوں کو فرش پر ٹکایا اور اس کی برہنہ ٹانگیں پاؤں سے گھٹنوں تک دبانے لگا
    پاؤں سے شروع کرتا اور گھٹنوں سے ایک مٹھی اوپر تک دبا کر واپس پاؤں پر لوٹ آتا
    جب دونوں ٹانگوں کو بےشمار دفعہ دبا کر دل بھر گیا تو میری توجہ اپنی شلوار کی طرف گئی جہاں میرا ہتھیار پلنگ کی کناری سے ٹکرا ٹکرا کر بپھر چکا تھا
    لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آگے کی حکمت عملی سوجھ نہیں رہی تھی اور وہ مزے سے آنکھیں موند کر گہری سانسیں لے رہی تھی جس کے سبب سینہ کی بلندی کبھی بڑھ جاتی کبھی کم ہو جاتی۔
    پھر سے شیطان نے آئیڈیا بھیجا اور میں نے یکایک نوٹ کیا کہ جیسے وہ چادر کو شال کی طرح لپیٹ کر باہر آئی ہے اسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
    میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چادر کا ایک سرا پکڑ کر یوں الٹ دیا جیسے آپ کتاب کا سرورق کھولتے ہیں۔
    اگلے پل اس کا سینہ نصف سے زیادہ میرے سامنے ننگا تھا۔
    فوراً ہی اس نے آنکھیں کھول کر حیرانگی اور بدحواسی سے مجھے دیکھا۔
    اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، میں نے اس کا ہاتھ کلائی سے پکڑا اور فضا میں بلند کرتا ہوا پلنگ کے سرہانے کی طرف لے گیا۔
    ہاتھ کو وہاں ٹکا کر میں نے چادر پھر سے وہیں ڈال دی جہاں وہ پہلے تھی۔
    اور بازو کو سرہانے سے واپس اس کے پہلو میں لے آیا۔
    سیکنڈوں میں سب کچھ ہو گیا۔
    وہ کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئی لیکن کچھ سیکنڈ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتی رہی ۔
    میں بے نیازی سے اس کے بازو کو دبانے میں خود کو مگن ظاہر کرتا رہا۔
    اب ہمارے درمیان ایک طرح کا بلی چوہے کا کھیل چل رہا تھا کہ پہل کون کرتا ہے۔
    میں اناڑی پن سے دوچار تھا اور وہ میرے حال سے لطف اٹھا رہی تھی۔
    کچھ لمحوں کے لیے اس نے آنکھیں بند کیں تو میں نے وہی عمل دہرایا اور دوسرے ہاتھ کو بھی چادر سے باہر نکال دیا۔
    اس بار چادر کو بے ترتیبی سے ڈالا کہ سینہ محض نام کو ڈھکا ہوا تھا اور بیشتر بالائی حصہ ظاہر تھا۔
    یہاں ایک تجزیہ پیش کرتا چلوں کہ جو شاعروں نے ہزاروں پرچے محبوبہ کی زلفوں اور نگاہوں کی تعریف میں کالے کیے ہیں سب بےکار ہیں۔
    میں جتنی دیر اس کے ساتھ رہا ایک پل بھی میری توجہ اس کی چھاتیوں سے کہیں اور منتقل نہ ہو سکی۔
    آج اس کی شکل بھی یادداشت میں واضح نہیں لیکن اس کا سینہ ایک پل میں آنکھیں بند کر کے چشم تصور سے صاف طور سے دیکھ سکتا ہوں۔
    شاید اس لیے کہ وہ پہلی بار تھا ۔
    شاید اس لیے کہ وہ بے مثال تھا۔
    لیکن اس کے بعد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ہر عورت کا موازنہ اس کے ساتھ نہ کیا ہو۔


    بازو دبانے میں کچھ خاص لطف نہ تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں انگلیوں کی مدد سے چادر کو ذرا سرکایا کہ وہ دوبارہ سے برہنہ ہونے لگی۔
    یہ بات اس نے محسوس کر لی اور دوسرے ہاتھ سے چادر کو درست کر لیا۔
    میرے ذہن میں آگے کا کچھ خاکہ نہ تھا۔ میرا واحد مقصد اس کے سینے کو دوبارہ دیکھنا تھا لیکن بہرحال میں تھا تو ایک ملازم۔
    وہ مالکن نہ سہی لیکن اس سے کم بھی نہ تھی۔
    ماحول ایک دم سنجیدہ تھا کبھی اس کے چہرے پر مسکان جھلکتی تو کبھی چہرہ بےتاثر ہو جاتا۔
    میں نے اکتا کر سوچا کچھ ایسا ہو کہ یہ پلنگ سے اترے۔۔
    شاید کوئی صورت نکلے
    ہاتھ دبانا چھوڑ کر میں نے کہا
    سر دبا دوں
    نہیں، وہ بولی
    ادھر درد ہے۔ اس نے اپنی رانوں کو چھوا۔
    دبا دیتا ہوں۔ میں نے کہا
    نہیں۔ اوپر آؤ اور میری ٹانگوں پر بیٹھ جاؤ۔
    میں تعجب کی کیفیت میں دونوں گھٹنے اس کے پہلوؤں سے ملا کر دوزانو ہو کر اس کی رانوں پر بیٹھ گیا۔
    آ ہ ہ ہ ہ۔ ۔ ۔ ۔
    اس کے لبوں سے ایک کراہ برآمد ہوئی۔
    میں نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ ٹکا کر اپنا وزن اس پر سے کم کیا۔
    کہنے لگی۔ یوں تو دبلے پتلے ہو لیکن وزن رکھتے ہو۔
    ذرا آگے سرک جاؤ۔
    جی اچھا کہہ کر میں کچھ آگے ہو گیا۔
    اب میری گیندیں عین اس کی شرم گاہ کے قریب تھیں
    لیکن آپ میری سادگی دیکھیں کہ میرے ذہن میں اس وقت بھی ایک ہی خواہش تھی کہ میں کسی طرح اس کا سینہ دیکھ سکوں۔
    اف........ آرام تو مل رہا ہے لیکن وزن زیادہ ہے تمہارا۔۔
    یوں کرو کہ تم لیٹ جاؤ
    یہ کہتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں سے اٹھائے اور انگلیاں پھیلا کر پنجے میں پنجہ جکڑ لیا۔ پھر جو اپنے دونوں ہاتھوں کو اس نے دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں اس پر جھکتا چلا گیا
    یہاں تک کہ میرا سینہ اس کے سینے پر ٹک گیا۔
    دو سیکنڈ یا شاید تین گزرے ہں گے ۔۔۔۔۔۔۔
    اس نے ہاتھ چھوڑ کر مجھے شانوں سے پکڑا اور واپس اٹھا دیا
    میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو بولی۔۔۔
    پسینہ کی بو آتی ہے۔۔
    قمیض اتارو
    میں نے بلا توقف قمیض اتار ڈالی
    بنیان بھی اتارو
    میں نے یہ بھی کیا
    بنیان سے آخری بازو نکال کر کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے سینے سے چادر ہٹا دی ہے۔
    میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پایا کہ اس نے مجھے کہنیوں سے تھام کر خود پر جھکا لیا
    اس حد تک کہ میرا گال اس کے گال کو چھونے لگا
    اور میرا ہتھیار جو پہلے سے سوجا ہوا تھا اب مکمل طور پر اکڑ کر اس کی ناف کے نچلے حصے سے رگڑ کھانے لگا۔
    لاتیں بھی سیدھی کرو۔ وہ بولی
    میں اب اس کے اوپر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔
    اس نے اپنے ہاتھوں سے میری پشت کو سہلایا اور پھر ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے رکھ کر میرے گال سے گال رگڑنے لگی۔
    میری خواہش قدرے مختلف انداز میں پوری ہو گئی تھی
    گو کہ میں اس کے سینے کو دیکھ نہیں پا رہا تھا لیکن اپنے سینے پر اس کے سینے کا لمس ایک جادو بھرا احساس تھا۔
    اس نے اپنی ایک ٹانگ میرے گرد لپیٹی اور یکایک پلٹی کھائی کہ میں اب اس کے نیچے تھا
    وہ اپنی شرمگاہ کو میرے ہتھیار پر رکھ کر حرکت دینے لگی۔
    اس نے اپنے پاؤں کو میری پنڈلی پر دو چار دفعہ رگڑا۔۔۔
    میرے گال کا بوسہ لیا اور پھر اٹھ کر مجھ پر بیٹھ گئی
    جیسے کچھ دیر قبل میں اسکے اوپر بیٹھا تھا
    اب میں اس کا سینہ بہت قریب سے دیکھ رہا تھا
    اس نے میری نگاہوں کا ہدف بھانپ لیا ۔
    میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ذرا سا جھکی اور میرے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر غمگین انداز میں بولی۔
    ان سے میں بہت تنگ ہوں
    دیکھو تو یہ کتنے بڑے ہیں
    یہ مجھے بہت درد دیتے ہیں
    میں نے دونوں تھن گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی انگلیوں کی لمبائی کو ناکام پایا۔
    زور سے پکڑو۔
    آٹا گوندھا ہے کبھی تم نے۔۔۔؟
    اس نے پوچھا۔
    نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے بتایا
    اچھا دیکھا تو ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
    جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا
    بس وہی کرنا ہے۔۔۔
    میں تو ایک ملازم تھا
    اکیلے کمرے میں اس کے ساتھ تنہا
    وہ بھی ایسی صورت حال میں کہ وہ مجھ کو بستر پر لٹا کر مجھ پر چڑھی بیٹھی تھی
    انکار کی مجال ہوتی بھی تو ایسا غضب کا موقع کون جانے دیتا ہے
    سو میں نے پوری تسلی سے اس کی چھاتیوں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔
    اس دوران وہ آنکھیں بند کیے عجیب سی مبہم آوازیں نکالتی رہی۔
    آخر اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو گئی
    کہنے لگی کچھ فرق پڑا ہے
    ٹانگوں میں ابھی درد باقی ہے
    میری نگاہ اس کی شرم گاہ کی طرف گئی۔
    چادر ابھی بھی اس کے نچلے دھڑ سے الجھی ہوئی تھی۔
    اس نے کہا
    میری کسی بات کا برا تو نہیں لگا تم کو۔
    نہیں بالکل نہیں۔
    اس نے میرے ہتھیار پر اپنی شرمگاہ کو حرکت دی اور بولی
    بس ایک آخری چیز اور
    شاید چین آ جائے
    تکیہ اٹھایا اور میرے چہرے پر رکھ کر بولی اپنے ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھو۔
    میں نے ایسا ہی کیا۔
    وہ قدرے پیچھے کو سرک کر بیٹھی۔ تقریباً میرے گھٹنوں سے زرا سا اوپر ۔۔۔۔۔۔۔
    یوں ہی رہنا۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ بولی
    اور نہایت پھرتی سے اس نے میرا ناڑا کھینچ ڈالا
    جوتوں کی لیس والی ڈیڑھ گرہ لمحے میں کھل گئی۔
    دوسرے ہاتھ سے اس نے شلوار کا گھیر ڈھیلا کیا اور دونوں ہاتھ سے نیچے کھینچ دی
    میں نے بوکھلا کر اپنے ہاتھ نکالے اور تکیہ ہٹایا لیکن میرے سنبھلنے تک وہ پوزیشن بدل کر عین میرےہتھیار کے اوپر تھی
    جو کہ پہلے ہی راکٹ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا
    اس کاایک ہاتھ اپنی شرمگاہ پر تھا اور دوسرے سے اس نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر پوزیشن بنائی
    قبل اس کے میں کچھ کہتا سمجھتا
    دخول شروع ہو چکا تھا
    سیکنڈوں میں ہتھیار اس کے بدن کی گہرائی میں گم ہو چکا تھا۔
    میں نے پاگلوں کی طرح اس کو شانوں سے پکڑ کر کھینچا اور خود پر گرا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

    عمر کے حساب سے وہ اپنی جوانی کے عروج پر تھی بدن بہت کسا ہوا اور متناسب تھا۔
    میں اگر اس کی خلوت میں اس کو بےحجاب اور بے لباس اپنی دسترس میں پا سکا تو میرا اس میں کچھ کمال نہ تھا۔
    یہ محض میرا گڈلک تھا
    دراصل میں اس کے تصرف میں تھا۔
    وہ مجھ کو حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں ہرگز نہیں آئی تھی۔
    غسل کے بعد سینے کی گولائی ظاہر کرنا بھی ممکنہ طور پر محض شرارت ہو سکتی تھی۔
    لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عورت کو آج تک کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔
    میں اس کے بدن تلے دبا اسی پیچیدگی سے فیض یاب ہو رہا تھا۔
    میں نے اس کو خود پر گرا کر بازوؤں کے حلقے میں اس کے اوپری دھڑ کو دبوچ لیا۔
    اب میرے ذہن میں کچھ غلط فہمی نہ تھی کہ یہ درد سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
    میں سبزی والے اکرم کے پاس دیکھی ہوئی تصویروں سے ملتےجلتے منظر کا حصہ تھا اور وہ میری بانہوں کی قید میں تھی۔
    میں نے ہاتھ میں اپنی دوسری کلائی کو تھام کر ایک زور کے جھٹکے سے گھیرا تنگ کیا۔
    اس کے منہ سے ایک نشیلی ہائے نکلی ، میں نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا اس کی کمر پر قدرے نیچے سیٹ کیا اور دوبارہ طاقتور جھٹکے سے اپنی طرف دبایا۔
    مار ڈالا کمبخت، یوں تو میں تیری پسلیاں گن لوں۔ زور پتا نہیں کہاں سے لگا رہا ہے۔
    تیسرا جھٹکا میں نے اس کی کمر کے اوپری حصے پر دیا تو وہ جھنجھلا گئی۔
    موڈ خراب نہ کرو میرا ۔۔۔۔۔۔۔
    میں نے بازو ڈھیلے کر دیے۔
    وہ سیدھی ہوئی اور میرے ہاتھ قابو کر کے مجھ پر ایسے جھکی کہ سینے کی گولائی پر سجا انگور دانہ میرے ہونٹ چھونے لگا۔
    میں نے چومنے کی کوشش کی تو اس نے ذرا سی حرکت سے میری کوشش ناکام کر دی۔
    پھر دوبارہ وہی حرکت دہرائی اور پھر مجھے ناکامی ہوئی۔
    تیسری بار میں تیار تھا۔اس کے قریب آتے ہی میں نے جھٹکے سے سر اٹھا کر منہ میں انگور سمیت پورا براؤن دائرہ قابو کر لیا۔
    اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی تو میں نے دانت گاڑ دیے۔
    اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ کر میرے چہرے پر اپنا سینہ اور سارا وزن ڈال دیا۔
    اب میں کیا کرتا، میں نے منہ کھول دیا۔
    وہ پھرتی سے سیدھی ہوئی اور مجھ پر سے اتر کر برابر میں لیٹ گئی۔
    میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں۔
    کیا ہوا۔۔۔ میں اٹھ بیٹھا۔۔۔
    اس نے اوپری دھڑ کو ایک طرف موڑ کر دونوں ہاتھ بلند کیے اور زور کی انگڑائی لی۔۔
    دونوں کام سکھا کر وہ مجھے کارکردگی دکھانے کا موقع دے رہی تھی۔
    میں بےتاب ہو گیا۔اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو اس نے ٹانگیں کشادہ کر دیں۔
    لیکن منہ سے کچھ بولی نہ آنکھیں کھولیں۔۔۔
    میں اس کے اوپر آ کر دوبارہ ڈالنے لگا لیکن مجھے ہدف نہ ملا۔
    دو تین کوششیں ناکام ہونے پر وہ آنکھیں کھول کر مسکرائی اور اپنی ٹانگیں سمیٹ کر پیٹ پر لے گئی۔
    مجھے اس کے دونوں سوراخ واضح نظر آئے تو میں جلدی سے گھٹنوں کے بل اس کے کولہوں سے اپنی رانیں جوڑ کر پھر سے داخل کرنے لگا
    جیسے ہی مجھے لگا جگہ مل گئی ہے میں نے یکدم پورا اندر کر دیا۔اور اس پر جھک کر دوسرا سبق دہرانے لگا۔
    ایک سبق سینے سے متعلق تھا اور دوسرا نیچے شرمگاہ کی تواضع کا۔
    میں اس پر جھکا دونوں گیندوں سے کھیلتا رہا۔
    پہلے تجربے میں جتنی عجیب و غریب حرکات سرزد ہو سکتی ہیں۔
    وہ سب میں نے کیں۔ ایک موقع پر میں اس کے دونوں پھل ملا کر دونوں انگور بیک وقت چوسنے میں کامیاب ہوا تو اس کی کیفیت عجیب ہو گئی، میں ڈر گیا کہ یہ کیسا دورہ پڑا ہے۔
    اب تک میں نیچے کچھ نہیں کر رہا تھا داخل کرنے کے بعد سینے پر توجہ تھی۔
    اس نے دونوں ہاتھ میرے پہلوؤں پر رکھ کر اپنی دونوں ٹانگوں سے میری کمر پر قینچی لگا لی۔
    ہاتھوں کے دباؤ سے مجھے دور کرتی اور پیروں کے دباؤ سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔
    کئی بار کرنے کے بعد بولی۔
    اب یہی کرتے رہو۔۔۔
    میں نے یہ حرکت دہرانا شروع کی تو لذت کے نئے زاویے سے واقف ہوا اور میری بھی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
    تیز تیز کرو۔۔۔۔
    میں نے رفتار بڑھا دی۔
    اس کی کیفیت مجھے کچھ خبر نہ تھی۔بس یہ پتا تھا کہ جتنی تیز گھوڑے کو دوڑائیں گے اتنا ہی مزہ آئے گا۔
    سواری بھی بھرپور مزہ لے رہی تھی۔میں نے اس کے سینے کو دبوچ رکھا تھا کہ اچانک اس نے مجھے کھینچ کر چمٹا لیا اور اپنے دانت میرے کاندھے پر گاڑ کر عجیب طریقے سے کمر پر ناخن سے کھروچنے لگی۔
    اس کے بدن کا نچلا حصہ بدستور حرکت میں تھا۔ میرے ہتھیار میں سرسراہٹ ہوئی۔
    میں نے سوچا باتھروم جاتا ہوں یہ پیشاب کی حاجت ہے لیکن اس کی گرفت میں ہلنے کے قابل بھی نہ تھا سو میں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا لیکن ہتھیار کے ساتھ جو ہو رہا تھا اس کے بدن کے اندر ہی اندر۔۔۔۔۔
    تو آخر وہ لمحہ آیا جب مجھے انزال ہوا اور لذت کے جھولے کی پہلی سواری کا مزہ نکتہ عروج پر پہنچ گیا۔
    وہ بھی سکون پا کر نارمل ہو گئی اور ہم دونوں برابر لیٹ گئے ۔۔
    میں کچھ دیر آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
    جب اٹھا تو وہ دوبارہ نہانے جا چکی تھی.
    میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح باہر نکلا۔
    کوٹھی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
    میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور نیچے جا کر
    ایک گلاس روح افزا بنا کر اوپر آ گیا۔
    نجمہ غسل خانے سے لباس پہن کر آ چکی تھی اور سنگھار میز کے سامنے بیٹھی کنگھا کر رہی تھی۔
    مجھے آئینے میں دیکھ کر کہنے لگی
    دیکھو زمان!! میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کسی سے کچھ نہ کہنا۔
    میں نے گلاس سنگھار میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
    کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔۔
    میں تو خادم ہوں آپ کا۔۔۔
    بھلا میری اتنی ہمت پڑ سکتی ہے۔۔
    وہ مطمئن ہو گئی اور میں باہر چلا آیا۔
    کچھ دیر بعد نجمہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔


    اگلے دو دن کوئی خاص بات نہ ہوئی
    علاوہ یہ کہ میری ذہنی کیفیت بہت منتشر رہی۔
    ہر وقت ایسے ہی خیالات ذہن میں آتے رہے کہ یہ موقع پھر ملے تو مزہ اٹھا سکوں۔
    تیسرے روز دوپہر کھانے سے قبل میں کوئی کام نپٹا کر نیچے جا رہا تھا تو وہ سیڑھیوں پر ملی۔
    میں خوشی سے نہال ہو گیا اور مسکرا کر اس پر محبت بھری نظر ڈالی۔
    ہم آمنے سامنے کھڑے تھے ، اس نے مجھے نارمل انداز میں دیکھتے ہوئے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ میں دونوں بازو پھیلا کر اس کی طرف بڑھا۔
    قریب تھا کہ میں لپٹ جاتا مگر اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا اور دھیمی آواز میں بولی۔
    یوں نہ کرو۔ ہر دن عید نہیں ہوتی۔
    تمہاری باجی کہاں ہیں۔۔۔
    اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔ میں نے جواب دیا
    وہ ایک طرف کو ہوئی اور میری طرف اجنبی انداز سے دیکھا۔
    میں خاموشی سے ترچھا ہو کر برابر سے گذرتا ہوا نیچے چلا گیا۔
    وقتی طور پر میری توجہ دیگر کاموں کی طرف منتقل ہو گئی۔
    کچھ دیر بعد صحن میں لگی گھنٹی بجی جس کا مطلب یہ تھا کہ فوزیہ باجی مجھے اوپر بلا رہی ہیں۔

    وقتی طور پر ڈر لگا۔۔۔
    حالانکہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی لیکن نجمہ کی موجودگی کی وجہ سے لگا کہ جیسے کوئی سوالات کا سامنا ہو گا۔
    اوپر پہنچا تو ہال میں دونوں خواتین فیشن میگزین اور کپڑے پھیلائے بیٹھی تھیں۔
    فوزیہ باجی کی شخصیت بیان کرنے کے لیے آپ کو فرح خان کی مثال دیتا ہوں جو انڈیا میں فلموں کی ہدایات دیتی ہے۔
    جب ان کے قریب پہنچا تو مجھے بازار کے دو چار کام اور پیسے دیے۔
    کاموں سے متعلق ہدایات سنتے ہوئے میری نگاہ ان کے بدن کا غیر محسوس جائزہ لینے لگی ۔
    موسم گرم ہونے کی وجہ سے دوپٹہ وغیرہ کچھ نہ تھا جو رکاوٹ بنتا۔
    نجمہ کے ساتھ گزرے وقت نے مجھے ایک جست میں جوان کر دیا تھا جب کہ ابھی تک بچپنا بھی ٹھیک سے رخصت نہ ہوا تھا۔
    میری شخصیت پر اس وقت بالغ مرد جیسی کیفیت طاری تھی۔
    فوزیہ باجی کے سینے پر نظر گئی تو میں نے تصور میں نجمہ کے برہنہ سینے کو دیکھا اور دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا کہ یہ سامان کافی ڈھیلا لگتا ہے۔
    جیسے کبھی دودھ والے کے پاس لیٹر والی تھیلی ختم ہو جائے تو دو لٹر والی تھیلی استعمال کرتا ہے ۔
    ایک لٹر کی مقدار بھرنے پر تھیلی کا اپنا کوئی انداز نہیں رہتا۔
    اس کو پلیٹ میں رکھ دیں تو پلیٹ میں پھیل جاتی ہے اور دیگچی میں رکھ دیں تو دیگچی کے حساب سے سمٹ جاتی ہے۔
    نجمہ لاتعلقی سے بیٹھی منتظر تھی۔
    میں ہدایات لے کر قریبی بازار کی طرف چل پڑا۔
    بازار کے ہر چکر میں سبزی والے اکرم سے گپ شپ تو معمول تھی لہذا اس کے پاس جا پہنچا۔ وہ کچھ مصروف تھا۔
    میں آگے بڑھ گیا۔
    ایک دکان تھی اسٹیشنری اور گفٹ وغیرہ کی جہاں سے مجھے فوٹوکاپی کروانی تھی۔
    دکان میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے موجود عورت کے لباس نے عجب حیران کیا۔
    باوجود یہ کہ وہ کم عمر تھی لیکن لباس کے معاملے میں وہ بلا جھجھک جسم کی نمائش کر رہی تھی۔
    ان دنوں اونچے چاک والی قمیض فیشن میں داخل تھی جسے پہن کر پہلو کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہے۔
    نیلی قمیض کی سائڈ میں جہاں اگلا پچھلا حصہ جدا ہوتا ہے اس جگہ سے گوری جلد کی جھلک نے اتنا اثر نہیں کیا جتنا کہ شلوار سے باہر نظر آتے انڈرویر کے لاسٹک والے بارڈر نے چونکا دیا۔
    میں اس حصے پر نظر جما کر تخیل کی پتنگ اڑانے لگا۔
    ایسی کوئی بےشرم بےپردہ بھی نہ تھی۔
    درمیانے سائز کے دوپٹے سے آدھا پونا ڈھانپ رکھا تھا لیکن دکان کا کاونٹر اونچا تھا تو اس نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر کہنیاں کاؤنٹر پر ٹکا رکھی تھیں اور نظارہ عام کے مفت مزے دستیاب تھے
    سینہ کاؤنٹر سے جڑا تھا لیکن دوپٹہ کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔
    اس کی چڈی کو دیکھنے میں اتنا مگن رہا
    کب وہ سامان لے کر اچانک جانے کے لیے
    گھوم گئی
    اور میری نگاہ کی سمت بھانپ لی۔
    ناگواری سے گھورتی ہوئی نکل گئی۔
    فوٹو کاپی اور پینسل سیل لے کر دوبارہ اکرم کے پاس جا پہنچا۔
    سرسری حال چال کے بعد کچھ دیر قبل دیکھے منظر کا ماجرا سنا ڈالا۔
    میری جوشیلی حالت پر وہ ہنسا
    ہنس کیوں رہے ہو۔؟ سچ کہہ رہا ہوں
    ارے بدھو۔۔!! تم نے کچھ نہیں دیکھا
    علاوہ اس کے جو اس نے دکھانا چاہا
    وہ سنجیدگی سے مجھے سمجھانے لگا
    تم سمجھتے ہو کہ یہ اتفاق تھا جو اس کی انڈرویر شلوار سے باہر تھی اور قمیض سائڈ سے اوپر تک کھلی تھی
    تو یہ تمہارا غلط خیال ہے
    اس کو لباس کی حد اچھے سے معلوم تھی
    کہ کیا پہنو تو کیا دکھے گا کیسا دکھے گا
    تم کو پہلی بار دکھا تم کو جوش آیا
    اس کا مقصد پورا ہو گیا۔
    میں وہاں سے نکل آیا
    اس کی باتوں کو نجمہ کی ذات سے ملا کر سوچا تو بات صحیح لگی۔
    اپنی گلی میں پہنچا تو سامنے سے ایک عورت پیدل آ رہی تھی۔
    گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ تھی
    کسی کی اترن پہن رکھی تھی
    لباس اس کے بدن پر قدرے چست تھا اور دوپٹہ گلے میں تھا
    ایک ہاتھ میں شاپر لٹکائے جب نزدیک آئی تو بے اختیار میری نظر اس کے سینے پر جم گئی۔
    میں نے سوچا کہ جب یہ عورتیں مردوں کو دکھانے کے لیے ترکیبیں لڑا سکتی ہیں تو میرے دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔
    لیکن وہ میری نگاہ کی سمت جان کر غصہ میں آ گئی اور دوسرے ہاتھ سے گلے میں پڑے دوپٹہ کو چٹکی سے پکڑ کھینچ کر نیچے ناف تک لے آئی
    غضب ناک نگاہوں سے گھورتی ہوئی آگے نکل گئی اور میں گھر میں گھس گیا۔
    کسی نے سچ کہا ہے کہ
    عورت کو غریب کا تاڑنا بھی ہوس لگتا ہے
    اور امیر کا چھیڑنا بھی تعریف لگتا ہے


    وقتی طور پر ڈر لگا۔۔۔
    حالانکہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی لیکن نجمہ کی موجودگی کی وجہ سے لگا کہ جیسے کوئی سوالات کا سامنا ہو گا۔
    اوپر پہنچا تو ہال میں دونوں خواتین فیشن میگزین اور کپڑے پھیلائے بیٹھی تھیں۔
    فوزیہ باجی کی شخصیت بیان کرنے کے لیے آپ کو فرح خان کی مثال دیتا ہوں جو انڈیا میں فلموں کی ہدایات دیتی ہے۔
    جب ان کے قریب پہنچا تو مجھے بازار کے دو چار کام اور پیسے دیے۔
    کاموں سے متعلق ہدایات سنتے ہوئے میری نگاہ ان کے بدن کا غیر محسوس جائزہ لینے لگی ۔
    موسم گرم ہونے کی وجہ سے دوپٹہ وغیرہ کچھ نہ تھا جو رکاوٹ بنتا۔
    نجمہ کے ساتھ گزرے وقت نے مجھے ایک جست میں جوان کر دیا تھا جب کہ ابھی تک بچپنا بھی ٹھیک سے رخصت نہ ہوا تھا۔
    میری شخصیت پر اس وقت بالغ مرد جیسی کیفیت طاری تھی۔
    فوزیہ باجی کے سینے پر نظر گئی تو میں نے تصور میں نجمہ کے برہنہ سینے کو دیکھا اور دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا کہ یہ سامان کافی ڈھیلا لگتا ہے۔
    جیسے کبھی دودھ والے کے پاس لیٹر والی تھیلی ختم ہو جائے تو دو لٹر والی تھیلی استعمال کرتا ہے ۔
    ایک لٹر کی مقدار بھرنے پر تھیلی کا اپنا کوئی انداز نہیں رہتا۔
    اس کو پلیٹ میں رکھ دیں تو پلیٹ میں پھیل جاتی ہے اور دیگچی میں رکھ دیں تو دیگچی کے حساب سے سمٹ جاتی ہے۔
    نجمہ لاتعلقی سے بیٹھی منتظر تھی۔
    میں ہدایات لے کر قریبی بازار کی طرف چل پڑا۔
    بازار کے ہر چکر میں سبزی والے اکرم سے گپ شپ تو معمول تھی لہذا اس کے پاس جا پہنچا۔ وہ کچھ مصروف تھا۔
    میں آگے بڑھ گیا۔
    ایک دکان تھی اسٹیشنری اور گفٹ وغیرہ کی جہاں سے مجھے فوٹوکاپی کروانی تھی۔
    دکان میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے موجود عورت کے لباس نے عجب حیران کیا۔
    باوجود یہ کہ وہ کم عمر تھی لیکن لباس کے معاملے میں وہ بلا جھجھک جسم کی نمائش کر رہی تھی۔
    ان دنوں اونچے چاک والی قمیض فیشن میں داخل تھی جسے پہن کر پہلو کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہے۔
    نیلی قمیض کی سائڈ میں جہاں اگلا پچھلا حصہ جدا ہوتا ہے اس جگہ سے گوری جلد کی جھلک نے اتنا اثر نہیں کیا جتنا کہ شلوار سے باہر نظر آتے انڈرویر کے لاسٹک والے بارڈر نے چونکا دیا۔
    میں اس حصے پر نظر جما کر تخیل کی پتنگ اڑانے لگا۔
    ایسی کوئی بےشرم بےپردہ بھی نہ تھی۔
    درمیانے سائز کے دوپٹے سے آدھا پونا ڈھانپ رکھا تھا لیکن دکان کا کاونٹر اونچا تھا تو اس نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر کہنیاں کاؤنٹر پر ٹکا رکھی تھیں اور نظارہ عام کے مفت مزے دستیاب تھے
    سینہ کاؤنٹر سے جڑا تھا لیکن دوپٹہ کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔
    اس کی چڈی کو دیکھنے میں اتنا مگن رہا
    کب وہ سامان لے کر اچانک جانے کے لیے
    گھوم گئی
    اور میری نگاہ کی سمت بھانپ لی۔
    ناگواری سے گھورتی ہوئی نکل گئی۔
    فوٹو کاپی اور پینسل سیل لے کر دوبارہ اکرم کے پاس جا پہنچا۔
    سرسری حال چال کے بعد کچھ دیر قبل دیکھے منظر کا ماجرا سنا ڈالا۔
    میری جوشیلی حالت پر وہ ہنسا
    ہنس کیوں رہے ہو۔؟ سچ کہہ رہا ہوں
    ارے بدھو۔۔!! تم نے کچھ نہیں دیکھا
    علاوہ اس کے جو اس نے دکھانا چاہا
    وہ سنجیدگی سے مجھے سمجھانے لگا
    تم سمجھتے ہو کہ یہ اتفاق تھا جو اس کی انڈرویر شلوار سے باہر تھی اور قمیض سائڈ سے اوپر تک کھلی تھی
    تو یہ تمہارا غلط خیال ہے
    اس کو لباس کی حد اچھے سے معلوم تھی
    کہ کیا پہنو تو کیا دکھے گا کیسا دکھے گا
    تم کو پہلی بار دکھا تم کو جوش آیا
    اس کا مقصد پورا ہو گیا۔
    میں وہاں سے نکل آیا
    اس کی باتوں کو نجمہ کی ذات سے ملا کر سوچا تو بات صحیح لگی۔
    اپنی گلی میں پہنچا تو سامنے سے ایک عورت پیدل آ رہی تھی۔
    گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ تھی
    کسی کی اترن پہن رکھی تھی
    لباس اس کے بدن پر قدرے چست تھا اور دوپٹہ گلے میں تھا
    ایک ہاتھ میں شاپر لٹکائے جب نزدیک آئی تو بے اختیار میری نظر اس کے سینے پر جم گئی۔
    میں نے سوچا کہ جب یہ عورتیں مردوں کو دکھانے کے لیے ترکیبیں لڑا سکتی ہیں تو میرے دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔
    لیکن وہ میری نگاہ کی سمت جان کر غصہ میں آ گئی اور دوسرے ہاتھ سے گلے میں پڑے دوپٹہ کو چٹکی سے پکڑ کھینچ کر نیچے ناف تک لے آئی
    غضب ناک نگاہوں سے گھورتی ہوئی آگے نکل گئی اور میں گھر میں گھس گیا۔
    کسی نے سچ کہا ہے کہ
    عورت کو غریب کا تاڑنا بھی ہوس لگتا ہے
    اور امیر کا چھیڑنا بھی تعریف لگتا ہے


    ایک دو ہفتہ پریشانی رہی اور میرے دماغ پر گندے خیالات کا غلبہ رہا پھر کیفیت قدرے نارمل ہو گئی۔
    کوئی عورت نظر آتی تو خیال آ جاتا
    وہ کیفیت نہ رہی کہ اٹھتے بیٹھتے نظر کے سامنے گذرا ہوا وقت فلم کی مانند چلنے لگے۔
    میرے معمولات وہی روزمرّہ کے کاموں پر مشتمل تھے جن کی انجام دہی کے لیے مجھے ملازمت پر رکھا گیا تھا۔
    شام کو اجازت لے کر کھیل کے میدان چلا جاتا اور کرکٹ دیکھ کر واپس آ جاتا۔
    کبھی لڑکے مجھے کھیل میں شامل بھی کرتے اگر ان کی تعداد کم ہوتی۔ محض فیلڈنگ کا موقع ملتا لیکن ان کی باتوں سے بہت کچھ سیکھا۔ لباس اور گفتگو پر اثر پڑنے لگا۔ ایک دن فوزیہ باجی کو خیال آیا۔ مجھے کہنے لگی تم کو پڑھنے کا کچھ خیال ہے کہ ساری عمر یہی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔؟
    میں نے جی کہا اور خاموش رہا۔
    بولی کل سے جلد کام نپٹا رکھنا
    میں بات کرتی ہوں کسی جگہ
    شام کو پڑھنے جانا کہ آگے کسی ڈھنگ کے دھندے میں کام کے قابل بنو۔
    ایک دو روز میں ترتیب اس طرح بنی کہ دو چار گھنٹے کا جو وقت کھیل کے میدان اور فرصت و بےکاری میں ضائع ہوتا تھا اب وہ پڑھائی پر لگنے لگا۔
    مارکیٹ میں جہاں پڑھنے جاتا تھا اس بلڈنگ کے مالک کے دو جوان لڑکے تھے۔ایک نے کوچنگ سینٹر بنا رکھا تھا وہ سنجیدہ طبیعت شخص تھا اور اس کا بھائی جواد یکسر مختلف۔
    اس نے باڈی بلڈنگ اور کراٹے سینٹر کھول رکھا تھا۔
    ایک دن میں نے کوچنگ والے بندے کو غیر موجود پایا تو میں اوپر کراٹے سینٹر چلا گیا۔
    ایک طرف کھڑا دوسروں کو سیکھتے اور مشق کرتے دیکھتا رہا۔
    جواد کی نظر مجھ پر کئی دفعہ پڑی۔
    کچھ دیر بعد میرے نزدیک آیا اور کتابیں دیکھ کر پوچھا۔ کلیم کے پاس پڑھتے ہو۔؟
    میں نے سر ہلا کر تصدیق کی۔۔
    کراٹے سیکھنے ہیں۔۔۔۔؟
    میں نے پھر اقرار میں سر ہلایا۔۔
    فیس معلوم ہے سیکھنے کی۔۔۔؟
    میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
    وہ تنگ ہو کر بولا ۔۔گونگے ہو۔۔؟
    نہیں نہیں۔۔۔میں یکدم بول پڑا
    اور وہ ہنس دیا۔
    پیسے دینے ہوں گے ہر مہینے۔۔۔
    کہاں سے آتے ہو۔۔
    پیسے نہیں ہیں۔ میں بنگلہ پر کام کرتا ہوں۔ پڑھنے کی فیس وہی دیتے ہیں۔ رہتا بھی وہیں ہوں۔ میرے کام کی تنخواہ گھر والوں کو جاتی ہے گاؤں میں۔۔۔
    ساری بات اس کو میں نے ایک ساتھ بتا ڈالی۔
    کوئی بات نہیں۔ ہفتے میں ایک دن پڑھائی کی جگہ لڑائی سیکھ لینا۔ بدلے میں یہاں کی صفائی کر دینا۔
    میں نے ہامی بھر لی۔
    کلیم سے میں بات کر لوں گا۔ اس نے تسلی دی۔
    جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی
    میں شام کو جا کر صفائی کر آتا۔
    بدھ کو پڑھائی کی ناغہ لگا کر کراٹے کلاس میں شامل ہو جاتا۔
    اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا
    جمعہ کی اس وقت عام تعطیل ہوتی تھی تو مجھے بھی پورا دن کی آزادی ملتی تھی۔
    کچھ وقت چچا کے ٹھیلے پر، کچھ اکرم سبزی والے کی دکان پر گزرتا یا پھر بنگلہ پر ہی سویا رہتا۔
    اکرم بڑی چیز تھا۔۔ اس کے پاس اخبار کی طرح سارے جہاں کی خبریں ہوتی تھیں۔ میں اس کو استاد کہا کرتا تھا۔
    ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم سے خریداری کے لیے جو لیڈیز آتی ہیں۔۔۔
    تم نے کسی کو پٹایا کہ نہیں۔۔۔
    وہ اپنے مخصوص انداز میں نصیحت کرنے لگا۔ دیکھ بھائی۔۔روزی کی جگہ بندہ کمزور ہوتا ہے۔۔۔
    جس فقیرنی کو یہاں پچھلی سائڈ پر لٹایا تھا وہ لمبے عرصے تک مجھ سے دھونس کے ساتھ بھیک لیتی رہی۔
    وہ تو اچھا ہوا کہ مانگنے والے علاقے تبدیل کرتے رہتے ہیں تو جان چھوٹ گئی ورنہ میرے لیے درد سر تھا۔
    حکمت کی بات سمجھانے سے پہلے کہتا۔۔۔
    ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔۔
    پھر سبق دینے والی بات کہتا۔۔۔
    میں اس کے آگے خود کو ایک احمق طالب علم جیسا محسوس کرتا۔۔
    اس کے پاس آنے والے خریداروں میں سب قسم کے لوگ ہوتے۔۔۔ مرد،عورت،مالک اور ان کے ملازمین۔۔
    وہ سب کی نفسیات کو سمجھتا تھا
    راہگزر پر دکان تھی تو سب کی خیر خبر ہو جاتی تھی اس کو۔
    بات کرنے کے لیے موضوعات کی کمی نہ ہوتی اس کے پاس۔
    میں بہانے سے اس کو چٹپٹی باتوں پر اکساتا اور مزے لیتا۔
    وہ اپنی دھن میں بولے جاتا۔
    یوں ہی کئی ہفتے گزر گئے۔ساری گرمیاں اور بارشیں۔۔۔۔۔
    مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کیا موقع تھا۔
    شاید کوئی تہوار آنے والا تھا۔
    ایک دن رات کو فوزیہ باجی نے مجھے کہا۔
    چھت کے دروازے پر لکڑی کی سیڑھی رکھی ہے وہ لے کر آؤ۔
    نجمہ کے ہاں بھجوانی ہے۔ رنگ روغن والا بلایا ہے اس نے۔۔ چھت پر سفیدی پھیرنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔۔
    صبح کو جا کر دے آنا اس کے گھر۔۔۔

    گھںٹی بجا کر میں انتظار میں تھا کہ نجمہ نے دروازے میں لگے لینس سے مجھے دیکھ کر دروازہ کھول دیا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر میرے لیے اندر آنے کا رستہ چھوڑ دیا۔ میں نے سیڑھی کو لے کر احتیاط سے چوکھٹ پار کی اور نجمہ کی طرف دیکھا تو اس نے اشارہ کیا۔۔۔
    اندر لے چلو۔۔۔۔۔۔
    تین کمروں کے فلیٹ میں عام طور پر ایک خواب گاہ ہوتی ہے ، ایک مہمان خانہ اور ایک آخری کمرہ بیک وقت بطور اسٹور، سٹنگ روم ، ڈائننگ روم وغیرہ
    اسی آل راؤنڈر کمرے کے آخر میں ایک دروازے سے گیلری میں جا کر سیڑھی دیوار سے ٹکا دی۔ پلٹ کر دیکھا تو نجمہ بھی واپس چل پڑی تھی۔
    ابھی تک اور کوئی گھر میں نظر نہیں آیا تھا۔ لیکن میں پھر بھی محتاط تھا۔
    نجمہ کے جسم پر سرمئی رنگ کی بغیر کالر والی فری سائز ٹی شرٹ جھول رہی تھی جو یقیناً اس کی اپنی نہیں تھی۔
    نچلے دھڑ پر بڑے بڑے کشادہ پائنچوں والا انگریزی اسٹائل کا پھولدار پاجامہ تھا۔ شرٹ کی لمبائی نے پیچھے سے کولہے بھی ڈھانپ رکھے تھے۔
    واپس فلیٹ کے درمیان میں آ کر میں نے ایک بار پھر سب دروازوں پر نظر دوڑائی۔
    بیڈروم کا دروازہ کھلا تھا وہاں لائٹ بھی جل رہی تھی لیکن کسی کی موجودگی کا امکان نہیں تھا۔
    ڈرائنگ روم کا دروازہ بھی کھلا تھا
    صوفے عین درمیان میں سینٹر ٹیبل کے گرد رکھ کر چادر ڈھانپ رکھی تھی۔
    فلیٹ میں نجمہ کے ساتھ تنہا ہونے کے احساس پر دل نے خوشی سے نعرہ لگایا اور میں نجمہ کی طرف متوجہ ہوا۔
    جو چھوٹے سے کچن میں چولھے کو بند کر کے واپس میری طرف بڑھتے ہوئے نارمل انداز میں مخاطب ہوئی۔۔۔
    پانی پیو گے۔۔۔ !!! باہر گرمی ہے نا۔۔۔۔
    میں نے کچھ نہ کہا یہاں تک کہ وہ کچن سے ایک قدم باہر تک آ گئی
    میں نے ایک نظر میں اس کے سینے پر نپل کی جگہ سے شرٹ کو ابھرا ہوا دیکھا
    ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے سامنے آیا اور پھرتی سے ہاتھ بڑھا کر انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان اس کے بائیں نپل کو دبوچ لیا۔
    میری گرفت قدرے سخت رہی۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے اثرات نمودار ہوئے۔
    ذرا سا جھکتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو پکڑ کر کوسا۔۔
    مت کر کمینے۔۔ تکلیف ہوتی ہے۔۔
    میں نے پکڑ ڈھیلی کی۔
    اس نے میرے ہاتھ کو سینے سے ہٹا دیا لیکن پکڑے رکھا۔
    ٹھہر جا ذرا۔۔ ابھی تجھے بتاتی ہوں۔
    ایک ہاتھ اس نے میری ٹانگوں کے درمیان دیا اور سب سامان اپنی مٹھی میں نرمی سے پکڑ کر بولی۔
    یہ کیا ہے۔۔
    راکٹ ہے۔ میں نے اس کو جواب دیا۔
    اس نے گیندیں چھوڑ کر میرے ہتھیار کو یوں ہلانا شروع کیا جیسے گئیر بدلتے ہیں۔
    راکٹ پر بیٹھو یہ چاند پر لے جائے گا۔
    اس کا قہقہہ نکل گیا۔
    راکٹ مٹھی میں دبا کر ہاتھ کو آگے پیچھے کرنے لگی
    لمبی ہنسی ہنستے ہنستے بے حال ہو کر اس نے اپنا چہرہ میرے کاندھے پر ٹکا دیا اور دوسرا ہاتھ میری کمر پر ٹکا کر مجھے سینے سے لگا لیا۔
    نیچے والا ہاتھ میری بے چینی بڑھا رہا تھا۔
    میں نے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر اس کے کولہے دبانے شروع کیے ہی تھے کہ میرے کھلاڑی نے ہار مان لی اس کے جسم کی مہک سونگھتے ہوئے میری آنکھیں بند تھی اور میں اس کے نرم کولہے دباتے ہوئے اخراج کے مزے لینے لگا۔۔۔
    اچانک مجھے ہاتھوں میں نمی کا احساس ہوا۔۔۔

    نمی کے احساس نے چونکا دیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ نیند کے خمار میں اول تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ پھر خواب کی باتیں یاد آنے لگیں اور پھر بے چینی کے سبب اٹھ کر خود کو صاف کیا، دوسری شلوار پہن کر سو گیا۔
    اگلے دن سیڑھی نجمہ کے فلیٹ پہنچا دی۔
    بعد میں پتا چلا اس طرح انزال کو احتلام کہتے ہیں۔ بلوغت کی سرحد مکمل عبور کر چکا تھا۔ مختلف ذرائع سے جنسی تعلق کے بارے معلومات بڑھ رہی تھی۔یہ نر مادہ کا چکر کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا۔ہر مخلوق کی فطرت میں یہ تقاضا بھوک پیاس کی مانند رکھ دیا گیا ہے۔
    اس تشنگی کا شکار میں بھی تھا۔
    جب تک ملاپ کی لذت نہ ملی تھی۔ایسی بےچینی نہ تھی۔جنسی بیداری اکثر طاری ہو جاتی لیکن ذہنی بے سکونی جس قدر ان دنوں غالب تھی، اس کا بیان کرنا مشکل ہے۔
    حل کچھ نہ تھا۔ کتے بلی کا ملاپ بھی نظر آتا تو کچھ دن اسی قسم کے خیالات کا غلبہ رہتا۔ اور تصور میں بہت سی باتیں جو ناممکنات میں سے تھیں مجھے تنگ کیے رکھتی۔
    لے دے کر ایک سبزی والے اکرم سے بےتکلفی تھی۔ اس کے بارے مجھے اندازہ تھا کہ یہ اس تفریح کا عادی یے اور اس کو آسان رسائی بھی میسر ہے لیکن وہ مجھے ہمیشہ ڈپٹ دیتا۔
    کہتا ابھی تم بہت چھوٹے ہو ، اس کام کے لیے عمر پڑی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کام کی مثال ایسی ہے جیسے شیر کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو پھر وہ جانور نہیں کھاتا۔
    صرف انسان کھاتا ہے اور آخر کار خود انسان کا شکار بن جاتا ہے۔
    بڑے بھائی جیسا بھی تھا اور مخلص دوست بھی تھا۔موقع نکال کر اس نے مجھے موٹر سائیکل چلانا بھی سکھائی۔
    عورتوں کے بارے گر کی باتیں بھی بتایا کرتا۔
    کہتا تھا جتنی گرمی مرد کے اندر ہوتی ہے اس سے دس گنا زیادہ عورت میں ہوتی ہے۔
    میں سوچ میں پڑ جاتا کہ جس قدر بےتاب میں ہوں، یہ حالت نجمہ کی کیوں نہیں۔۔۔۔
    اور اگر اکرم ٹھیک کہتا ہے تو ایسی عورتیں کس بستی میں رہتی ہیں۔
    نجمہ حد درجہ محتاط رہتی،اور
    دیگر عورتوں سے میں حد درجہ محتاط رہتا۔
    میں نے ایسی شکایت پر سیکنڈ کے اندر نوکری سے نکال دیے جانے والے واقعات سن رکھے تھے۔
    اکرم کہتا تھا کہ برا کام کرنا ہو تو کام کی جگہ اور رہنے کی جگہ سے دس کوس دور جا کر کرو۔
    میرے لیے صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
    آج برسوں بعد
    میں یہ سمجھتا ہوں کہ جن خواتین کا ذکر اس قسم کی کہانیوں میں ملتا ہے وہ کہیں وجود نہیں رکھتی ہیں۔
    چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتی ہوں عموماً ان کو سب سے زیادہ اپنے تاثر کی فکر ہوتی ہے کہ لوگ ان سے عزت سے ملیں اور اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ جو عزت شریف عورت کو ملتی ہے وہ کسی مشکوک بات کے مشہور ہونے سے خاک میں مل جاتی ہے۔


  • #2
    شاندار آغاز

    Comment


    • #3
      Buhat hi zabardast aghaz hai.
      tafseelan likha hai.
      Buhat umda..

      Comment


      • #4
        Bht hi behtreen aghaz hy

        Comment


        • #5
          Boht undah garam or shehwat sa bharpor aghaz

          Comment


          • #6
            بہترین

            Comment


            • #7
              Lajawab aaghaz bhot bhtreen

              Comment


              • #8
                Bahtreen aghaz

                Comment


                • #9
                  شاندار​

                  Comment


                  • #10
                    بہت عمدہ اور زبردست آغاز

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X