Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مجبوری کا فیصلہ

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    شاندار​

    Comment


    • #12
      سٹارٹ اچھا ھے، بھت مزہ آئے گا۔ بیسٹ آف لک ٹو رائیٹر، کیپ اٹ اپ

      Comment


      • #13
        شاندار اپڈیٹ

        Comment


        • #14
          Zabardast aghaz hai..

          Comment


          • #15
            کہانی کا اغاز تو شاندار لگ رہا ہے۔۔
            اپ کا بہت شکریا۔ایک نی کہانی شروع کرنے کا

            Comment


            • #16
              Bohat achi shuruwat hai maza a gaya zabardast

              Comment


              • #17
                اچھا آغاز ہے مزہ آگیا

                Comment


                • #18
                  Boht behtareen aghaz Kahani ka
                  Lagta ha Chaudhry ka Waqas ko lalach dyna Kam a jaye ga zakiya us ki ho jaye gi

                  Comment


                  • #19
                    بہت اچھا آغاز ہے۔
                    یہ سٹوری یقیناً فورم پر ایک اچھا اضافہ ثابت ہو گی۔

                    Comment


                    • #20
                      گھر واپس آ کر وقاص نے اپنے ماں باپ سے اکرم کی دی ہوئی دوسری پیشکش بھی بتا دی۔ اس بات کو سن کر بابا رحمت کا دل اکرم کو رشتے کے لئے ہاں کرنے کے لئے راضی ہونے لگا۔
                      مگر اس کے لئے اصل مسئلہ اس کو اپنی بیوی اور خاص طور پر اپنی کمسن بیٹی زکیہ کو راضی کرنا تھا۔
                      اُس رات گھر میں سب بچے سو گئے تو بابا رحمت اور اُس کی بیوی آپس میں اکرم کی پیشکش کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
                      بابا رحمت نے اپنی بیوی کو منا کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ منی تو رحمت "اچھا صبح اکرم کو نہ کا جواب دے دوں گا" کہتے ہوئے سو گیا۔
                      زکیہ ساتھ والے کمرے میں ابھی سوئی نہیں تھی۔ اُس نے اپنے ماں باپ کی سب باتیں سن لیں۔
                      ساری رات زکیہ اس بات کے بارے میں سوچتی رہی۔ صبح ہونے تک اُس نے اپنے دل میں ایک فیصلہ کر لیا۔
                      زکیہ صبح اپنی باقی بہنوں سے پہلے اٹھ گئی۔ وہ اپنی ماں کے پاس گئی جو چولے کے پاس بیٹھی روٹی پکا رہی تھی۔
                      زکیہ نے اپنی اماں سے کہا کے وہ اکرم کو یہ شرط بتا دے کہ زکیہ اور اس کی سب بہنوں کی شادی ایک ہی دن ہو گی اور اکرم وقاص کو امریکا بھیجنے کے لئے پیسے بھی کسی ایجنٹ کو شادی سے پہلے دے دے گا۔
                      شریفہ بی بی یہ بات سن کر چپ ہو گئی۔ اُس نے دوپہر کو رحمت سے زکیہ کی شادی پر راضی ہونے کی بات کی۔
                      ان دونوں نے آپس میں مشورہ کر کے اکرم کو ہاں میں جواب دیا اور ساتھ ہی زکیہ کی بتائی ہوئی شرط کا بھی بول دیا۔
                      اکرم ان ساری باتوں پر راضی ہو گیا۔ اُس نے فوراً ہی دوسرے دن پروفیسر نور حسین (زمیندارا کالج گوجرات والے) کو وقاص کا امریکا جانے کا کیس دیا اور بابا رحمت کو بچیوں کے جہیز کے لئے پیسے دے دیے۔
                      گاؤں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ چودری اکرم گاؤں کے ایک موچی کے گھر شادی کر رہا ہے۔ گاؤں کے چودری تو اس سے پہلے کامیوں کی بہن بیٹیوں کو پسند آنے پر اٹھا کر چود لاتے تھے۔
                      اس لئے ایک چودری کا اس طرح بارات لے کر ایک کمی کے گھر جانا، گاؤں کے باقی چودریوں کو ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
                      گاؤں کے بڑوں نے اکرم کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اکرم نے ان کو کوئی بات نہ سنی۔ جس پر گاؤں کے سب چودریوں نے اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ مگر اکرم کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اپنی شادی کی تیاری میں لگا رہا اور پھر شادی کا دن آ پہنچا۔
                      شادی والے دن صبح صبح اپنے گھر کے ایک کونے میں بنائے ہوئے چھوٹے سے باتھ روم میں نہانے کے لئے چلی گئی۔ نہانے کے لئے ایک بالٹی میں پانی اُس نے پہلے ہی رکھ دیا تھا۔
                      باتھ روم کو اندر سے کنڈی لگا کر اُس نے اپنے کپڑے اُتارے۔
                      اس کی جوان کمسن چوت پر تھوڑا تھوڑا بال تھے۔
                      زکیہ نے گاؤں کی دکان سے خریدے ہوئے "لفافے" (گاؤں میں ان دنوں ہیئر ریموونگ کریم پاؤڈر کی شکل میں ملتی تھی) میں سے پاؤڈر نکالا اور اُس کو نہانے والے برتن میں ڈال کر اُس کا پیسٹ بنایا اور اپنی چوت کے بالوں پر مال لیا۔
                      کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اُس نے پانی سے اپنی چوت کو دھو دیا۔
                      شیو کرنے کے بعد اُس نے اپنی چوت پر ہاتھ پھیرا۔ زکیہ کی چوت شیو کرانے کے بعد نرم ہو گئی اور چوت کا حسن اور نکھار گیا تھا۔
                      اس کے بعد زکیہ نے غسل کیا اور کپڑے پہن کر غسل خانے سے باہر آ گئی اور اپنی شادی کی تیاری کرنے لگی۔
                      دوپہر کو بابا رحمت کی چاروں بیٹیوں کی باراتیں ایک ایک کر بابا رحمت کے گھر پہنچنا شروع ہو گئی۔
                      سب سے آخر میں چوہدری اکرم کی بارات اپنی گاؤں والے مکان سے نکلی۔
                      چوہدری اکرم گھوڑے پر سوار تھا اور اُس کی بارات میں شامل چند افراد اُس کے پیچھے پیدل چل رہے تھے۔
                      اکرم گھوڑے پر بیٹھا زکیہ کے جسم کو مختلف انداز میں گندے انداز میں سوچ رہا تھا۔ اکرم جتنا سوچتا، اتنا ہی زکیہ کا موم سا جسم اُس کے سامنے مزید رنگین انداز میں جلوہ گر ہوتا۔
                      اکرم کو سخت بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں بارات بابا رحمت کے گھر پہنچ گئی۔
                      بارات میں شامل لوگوں کو گھر سے باہر زمین پر داریاں بیچنے کا بٹایا گیا اور نکاح کے بعد سب برتیوں کی توزیع چائے اور میٹھائی سے کی گئی۔
                      شام سے تھوڑے پہلے سب دلہائی اپنی اپنی دلہن کو لے کر اپنے گھروں روانہ ہو گئے اور اکرم بھی زکیہ کو ڈولی میں بیٹھی کر اپنے گھر لے آیا۔
                      رات کو اکرم اُس کمرے میں داخل ہوا جہاں زکیہ سہاگ کی سائز پر بیٹھی، اُس کا انتظار کر رہی تھی۔
                      بستر کے چاروں طرف نالکیوں سے بنائی ہوئی "لڑیاں" کی وجہ سے سہاگ کی سائز کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔
                      اکرم نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ کمرے میں ایک زیرو والٹ کا بلب جل رہا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں تھوڑی روشنی تھی۔ کمرے میں زکیہ شلوار قمیض پہنے بستر پر سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ اکرم زکیہ کے پاس بستر پر بیٹھ گیا۔
                      "جی" زکیہ نے آہستہ سے جواب دیا۔
                      اکرم نے آگے بڑھ کر آہستہ سے زکیہ کا گونگھٹ اٹھا دیا۔ زکیہ اور سمٹ سی گئی۔ اُس کا چہرہ اور آنکھیں جھکی ہوئی ابھی تک جھکی ہوئی تھیں۔
                      اکرم نے زکیہ کو دیکھا۔ زکیہ اپنی ناک پر پہنی ہوئی نتھ اور پہلی بار کی ہوئی میک اور وجہ سے پہلے سے بھی خوبصورت نظر آ رہی تھی۔
                      اکرم نے اپنی بیوی کو پہلی بار اس طرح بنے سورے دیکھا تو اُس کے منہ سے "ماشاءاللہ" نکل گیا۔
                      اکرم کے لئے اب مزید انتظار محال ہو رہا تھا۔ اکرم نے زکیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔
                      اکرم نے زکیہ کے جھکی ہوئی تھوڑی کو ہاتھ سے اوپر کیا۔ زکیہ کو بہت شرم آ رہی تھی اور اس انکائیں شرم سے ابھی تک بند تھیں۔
                      اکرم نے زکیہ کے نرم و نازک ہونٹوں پر اپنے سخت اور خردرے ہونٹ رکھے اور زکیہ کے پکنہریوں جیسے نازک ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔
                      اکرم زکیہ کے ہونٹوں کو چوسے جا رہے تھے اور اس کے ہاتھ زکیہ کی پیٹھ پر چل رہے تھے۔
                      زکیہ ایک دم پاگل سی ہو گئی۔ زکیہ کو نہیں معلوم تھا کہ کس کرنے میں بھی اتنا مزا آئے گا۔
                      اکرم نے زکیہ کو اپنے ہاتھوں میں کس لیا اور زکیہ اُس سے چپک گئی۔ زکیہ کا گرم بدن اور سانسیں اکرم محسوس کر رہا تھا۔
                      اکرم کا بایا ہاتھ سرکتا سرکتا زکیہ کے بائیں ممے پر آ کر رک گیا۔ زکیہ کی تو سانس ہی رکنے لگی۔
                      اکرم بولا "زکیہ۔.."
                      زکیہ کچھ نہیں بولی تو اس نے ہولے سے زکیہ کے اُبھرتے ہوئے سینے پہ اپنا ہاتھ پھیر دیا۔
                      "واہ زکیہ، مجھے کب سے اس وقت کا انتظار تھا۔" ساتھ ہی اکرم نے قمیض کے اوپر سے ہی زکیہ کے نپل کو دبا دیا۔
                      زکیہ اب چپ نہیں رہ سکی اور اس کے منہ سے ایک سسکاری سی نکل ہی گئی.. ایسسسشااا..
                      زکیہ پوری طرح سے کانپ گئی اور شرم سے اکرم کو ہٹانے کی ایک ناکام سی کوشش کی، پر اکرم نے اُسے کس کر دبوچا ہوا تھا۔ اکرم کی حرکتوں اور اُس کے ہاتھوں کی گرمی سے زکیہ بہکنے لگی اور اُس کے پیاسے بدن میں آگ لگ گئی۔
                      اکرم کے ہاتھ اب آہستہ آہستہ زکیہ کی شلوار کے ناڈے پر آ گئے۔ اکرم نے زکیہ کے ہونٹوں اور گلو کو چوستے ہوئے ایک جھٹکے میں ہی شلوار کے ناڈے کو کھول دیا اور شلوار سرکا کر نیچے کی طرف کر دیا۔
                      جوہی اکرم نے زکیہ کی شلوار اتاری تو اُسے زکیہ کی دودھ جیسی گوری اور چکنی چکنی ٹانگیں نظر آئیں۔ اور اِن چکنی ٹانگوں کے درمیان زکیہ کی چھوٹی سی، گوری اور نرم چوت کا دیدار بھی اکرم کو پہلی بار ہوا۔
                      "اُفففففف" کیا زبردست چوت تھی چوت بالکل شفاف تھی اور پہلی ہوئی چوت کو دیکھ کر اکرم کے ہوش اُڑ گئے۔
                      اکرم زکیہ کی قمیض کو اوپر کی طرف کرنے لگے۔ اور آہستہ آہستہ زکیہ کی قمیض بھی اُس کے جسم سے آزاد ہو گئی۔
                      قمیض اتارنے کے بعد اکرم نے پیچھے سے زکیہ کی برا کا ہوک کھول دیا اور ایک جھٹکے سے زکیہ کے بریزیر کو اتار کر پھینک دیا۔
                      اب زکیہ کا ننگا کوڑا جسم پر سواۓ زیورات کے کچھ بھی نہ تھا۔
                      زکیہ شرم سے لال ہو گئی۔ پہلی بار وہ کسی مرد کے سامنے یوں ایک دم ننگی ہو گئی تھی۔
                      زکیہ کے منہ سے ایک سسکاری کے ساتھ نکلا "ہائے اللہ جیےےےے۔" زکیہ کی آواز میں بالا کا سیکسی پن تھا۔
                      زکیہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سینے اور چوت کو چھپانے کی کوشش کی۔ مگر وہ اپنے کنوارے جسم کو اکرم کی نگاہوں اور ہاتھوں سے چھپا اور بچا نہ سکی۔ زکیہ جو شرم سے بےہل ہو رہی تھی اُس نے ایک آخری کوشش کے طور پر اپنے بدن کو چھپانے کے لئے بستر کی چادر کو کھینچ کر اپنی طرف کرنے لگی تو اکرم نے وہ چادر بھی کھینچ کر پھینک دی۔ اور اُس نے آہستہ آہستہ زکیہ کی ساری جیویلری کو باری باری سے اُتارنا شروع کر دیا۔
                      اکرم نے زکیہ کے مموں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور زکیہ کے نوکیلے نپلز کو انگلی اور انگوٹھے سے مسلنا شروع کیا تو وہ سسکاریاں بھرنے لگیں۔
                      زکیہ کے سخت اور نوکیلے مموں کو دیکھ کے اکرم سے سہ رہا نہیں گیا اور وہ زکیہ کے تنے ہوئے مموں کو چومنے چاٹنے لگا۔
                      اکرم زکیہ کے مموں کو منہ میں پورا بھر کے چوس رہا تھا کیونکہ زکیہ کے چھوٹے چھوٹے سموسے جیسے ممے اُس کے منہ میں پورے سما رہے تھے۔ اکرم جیسے پاگل سا ہو رہا تھا۔ وہ زکیہ کے کنوارے مموں کو کس کرتا، ان کو سہلاتا، دباتا، مسلاتا، کھیلاتا، چوساتا، ایک نپل کو مسل رہا تھا اور دوسری نپل کو اپنے دانت سے کاٹنے لگا۔
                      زکیہ کو اپنے مموں میں درد ہونے لگا اور اُس نے درد کی سسکاریاں بھی ماری۔ لیکن اکرم اب کہاں کچھ سننے والا تھا۔
                      ساتھ ہی ساتھ اکرم نے اپنا ہاتھ زکیہ کی چکنی چکنی گرم ٹانگوں پر رکھا اور اُن کو سہلانے لگے۔ ٹانگوں پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اکرم بولا "زکیہ کتنا چکنا اور سخت بدن ہے تمہارا میری جان۔"
                      اکرم نے بڑے پیار سے زکیہ کی ٹانگوں کو سہلاتے ہوئے اُن کی ٹانگوں کو پھیلا دیا۔ چوٹ کے دونوں لبس اپس میں چپکے ہوئے تھے۔ اکرم اپنی بیوی کی کنواری گوری گلابی چوت کو دیکھتا رہ گیا۔ اکرم نے زکیہ کی پوری چوت ہاتھ میں تھام لی اور چوت کو دبا دیا اور بولا "ہائے زکیہ میری بیوی کیا چیز ہے تو۔۔۔ اب اکرم نے آہستہ سے زکیہ کی چوٹ کے چپکے ہوئے لبس کو انگلی سے رگڑ دیا اور چوت میں اپنی انگلی ڈالنی چاہی۔ لیکن زکیہ کی چوٹ کافی ٹائٹ تھی اکرم کی انگلی چوت میں نہیں جا رہی تھی۔
                      زکیہ مستی سے سسکار اُٹھی۔
                      زکیہ اب ایک کبوتری کی طرح شکاری کے جال میں تھی اور وہ شکرائی اس کا شکار کرنے کو تیار تھا۔
                      اکرم نے زکیہ کو بیڈ پر لیٹا اور خود وہ اپنے کمرے اُتار کر زکیہ کی ٹانگوں کے بیچ آ گیا۔
                      اکرم نے زکیہ کی گانڈ کو اُٹھا کر ایک تکیہ نیچے رکھ دیا۔
                      اب زکیہ کی چٹ تھوڑا اور اُوپر ہو گئی۔
                      اکرم نے زکیہ کی ٹانگوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر پہیلا دیا اور اپنے لنڈ کی ٹوپی زکیہ کی چٹ کے درمیان میں رکھ دیا۔
                      اکرم زکیہ کے اُوپر جھک گیا اور زکیہ کے ہوتوں کو اپنے منہ میں لے لیا۔ لبوں کو چوستے چوستے اکرم نے ایک زور دار دھکا مارا۔
                      زکیہ کی چیخ نکل تے نکل تے رہ گئی کیونکہ اکرم نے اس کے ہوتوں کو اپنے ہوتوں سے دبا رکھا تھا۔
                      زکیہ درد سے کراہ اُٹھی تو اکرم رک گیا۔ اکرم اپنا آدھا لنڈ گھسا چکا تھا۔
                      اکرم جو اب تک کئی گشتیوں کی پھدی لے چکا تھا۔ آج پہلی بار کسی کنواری چوت کی سیل توڑ رہا تھا۔ اکرم کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اُس نے اپنا لنڈ کسی گرم تندور میں ڈال دیا ہے۔
                      اُس کو اپنی کمسین بیوی کی گرم چوت کا جو سواد ملا وہ اُس کو پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا اور وہ اِس سواد کا خوب مزہ لینا چاہتا تھا۔
                      2-3 منٹ تک زکیہ کے اُوپر لیٹے رہنے کے بعد اکرم نے آہستہ آہستہ اپنے لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔
                      زکیہ ابھی بھی درد سے کراہ رہی تھی۔ اکرم پھر رک گیا اور زکیہ کے ہوتوں کو چوسنے لگے۔
                      اکرم جو زندگی کی کئی بہاریں گزر چکا تھا۔ اپنی شادی سے کچھ وقت پہلے وہ اب یہ محسوس کرنے لگا کہ 44 سال کی عمر میں اُس کے لنڈ میں وہ سختی نہیں رہی تھی جو کبھی جوانی میں ہوتی تھی۔
                      مگر آج زکیہ کے کوڑے بدن نے اُس کے لئے جیسے ایک ٹونک کا کام کیا تھا۔
                      اکرم کے لنڈ میں اپنی گرم بیوی کے کنوارے پن کو توڑتے ہوئے ایک تار آ گئی تھی۔
                      (1987 میں اپنی شوگ رات کو اکرم کے جوش اور دیوانگی کو دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ شاید 2008 میں نصیبو لال نے یہ گانا اکرم کے لئے گایا تھا۔)
                      بڈے وڑے وی عشق پیا کرنا وے
                      پندا ہووے گا جوانی وچ اندر زلیما
                      سینے لگ میری جان کر دیوا گی جوان
                      تے مُندا جیوں پنجی (25) سال دا۔
                      اکرم جو زکیہ کا درد کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا، جب یہ محسوس کیا کہ زکیہ اب درد سے تھوڑی سمبھل گئی ہے تو اُس نے پھر ایک زوردار دھکا دیا۔
                      اکرم کا لنڈ سنسناتا ہوا زکیہ کی چٹ میں اور زیادہ اندر تک گھس گیا۔ زکیہ کی چوت کی جالی پھٹ گئی اور زکیہ کا کنوارہ پن تار تار ہو گیا۔
                      زکیہ کی چوت سے خون نکلا جو اُس کی جوان رنوں سے ہوتا ہوا بستر کی سفید چادر میں جذب ہو گیا۔
                      آہ!!!! اسی کے لئے تو یہ سارا کھیل تھا۔۔۔ اکرم نے چودنا شروع کیا۔
                      زکیہ اپنی پھدی کے اندر کچھ الگ محسوس کر رہی تھی۔ اُسے درد بھی ہو رہا تھا اور مزہ بھی آ رہا تھا۔
                      اکرم نے اپنی رفتار بڑھا دی۔
                      زکیہ چلانے لگی۔
                      اکرم رکا نہیں، وہ زکیہ کو چودتا رہا۔
                      کچھ دیر بعد اکرم کا گرم پانی زکیہ کی چوت میں فارغ ہو گیا تو اکرم زکیہ کے اُوپر سے ہاتھ کر اُس کے برابر لیٹ گیا۔
                      اکرم کو جسے ایک سکون سا آ گیا تھا۔ اُس کا بدن پسینے سے شربور تھا وہ لیٹے ہی خراٹے لانے لگا۔
                      زکیہ بستر پر لیٹ کر اپنی سانسیں ٹھیک کرتی رہی۔ اُس کا آنگ آنگ چدائی کی وجہ سے دکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باتھروم جانے کے لئے اُٹھی تو اُس کی نظر اپنی ٹانگوں کے درمیان اپنی چھوٹی سی چوت پر پڑی۔
                      اکرم نے زکیہ کی چوت کو خونم خون کر دیا تھا۔
                      شادی کے پہلے ہفتے اکرم ہر روز رات کو زکیہ کو چودتا رہا۔
                      زکیہ کو پہلی رات اپنی کنواری چوت کی سیل ٹوٹنے کی وجہ سے کافی درد ہوا جس کی وجہ سے اُسے اپنی شوہری رات کو چدائی کا زیادہ مزہ نہیں آیا۔
                      مگر پھر آہستہ آہستہ زکیہ کی چوت کو بھی اکرم کے لنڈ کا چسکا لگ گیا اور اُس کو بھی چدائی کا مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔
                      مگر اکرم سہاگ رات سے کی پوری رات میں زکیہ کو صرف ایک ہی دفعہ چودتا۔ اُس کو کبھی اس بات سے کوئی گراز نہیں تھی کہ زکیہ اُس کی چدائی سے سیٹسفائی ہوئی ہے یا نہیں۔
                      اکرم بس دو چار دقے مارتا، اپنا پانی زکیہ کی پھدی میں ڈالتا اور پھر تھک کے سو جاتا۔
                      زکیہ کو بھی ابھی کچھ سمجھ نہیں آیا کہ سیکس کی سیٹسفکشن کیا ہوتی ہے اور چدائی کے وقت عورت کو آرگزم کیسے ہوتا ہے۔
                      اُس کے خیال میں بھی چدائی اسے ہی کہتے تھے کہ میں نے بیوی کی ٹانگیں اٹھائیں اور پھر دو چار دفعہ اندر باہر کیا اور ختم۔۔۔۔
                      یہ سلسلہ ایک ہفتہ چلا۔ اب اکرم کا پاکستان میں یہ آخری ہفتہ تھا۔
                      زکیہ بستر پر لیٹی تھی اور اکرم اُس کے پاس آ کر لیٹا اور اُس کو چومنے چاٹنے لگا۔
                      زکیہ کو چومتے اکرم کے ہاتھ اُس کی شلوار کے اُوپر سے زکیہ کی پھدی سے ٹکرے تو زکیہ نے اُس کا ہاتھ ایک دم روک لیا۔
                      "کیوں آج کیا منگل یا بدھ ہے جو گوشت کا ناگا ہے" اکرم نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
                      "صرف منگل بدھ نہیں بلکہ پورے ہفتے کا ناگا ہے جناب" زکیہ نے بھی شرارتی انداز میں جواب دیا۔
                      "کیوں میں نے کون ایسی غلطی کر دی کہ جس کی اتنی بڑی سزا" اکرم نے زکیہ کے گال پر اپنے دانت گارتے ہوئے کہا۔
                      “آپ جو ہر روز مجھے تنگ کرتے ہیں اس کی سزا تو آپ کو ملے گی آب” زکیہ بی اکرم کو فل ستانے کے موڈ میں تھی۔
                      “اچھا بابا نہیں کرو اور مجھے اپنی پھدی دو” اکرم نے زبردستی شلوار کے اوپر سے زکیہ کی چوت پر ہاتھ رکھا تو اس پھدی پر کچھ رکھا محسوس ہوا۔
                      “یہ کیا ہے” اکرم نے زکیہ کی طرف دیکھتے حیرت سے پوچھا۔
                      “مجھے (کپڑے) پیریڈز آئے ہوئے ہیں جی اس لئے اب آپ کی ایک ہفتہ چھٹی” زکیہ نے اپنی زبان نکالی اور اکرم کو چہرتے ہوئے کہا۔
                      “مارا ڈالا ظالم، میرا تو یہ آخری ہفتہ ہے اب میں کیا کروں گا” اکرم نے بد دل ہوتے ہوئے کہا۔
                      “اپ صبر کریں اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” یہ کہتے ہوئے زکیہ چادر اُڑا کر سو گئی۔
                      ایک ہفتے بعد اکرم واپس امریکا چلا گیا۔
                      اکرم کو ائیرپورٹ پر الوداع کہتے وقت زکیہ بہت روئی۔
                      اکرم نے اُس کو تسلی دی کہ وہ زکیہ کو بھی جلد اپنے پاس امریکا بلالے گا۔
                      اکرم کے جانے کے دو دن بعد وقاص بھی ایجنٹ کے ذریعے امریکا اکرم کے پاس پہنچ گیا۔
                      اب زکیہ اپنے گھر میں اکیلی رہ گئی جس کی وجہ سے بابا رحمت اور اُس کی بیوی بھی اپنی بیٹی کے گھر میں آ کر رہنے لگے۔
                      وقاص نیو یارک کے ایک علاقے برونکس میں رہنے لگا۔ برونکس میں پورٹو ریکو سے آئے ہوئے امیگرینٹس کی بڑی تعداد آباد ہے۔
                      وقاص کے امریکا آنے کے کچھ دن بعد اکرم نے کچھ پیسے دے کر گرین کارڈ کے لئے وقاص کی پیپر شادی ایک بڑی عمر کی پورٹو ریکن عورت سے کروا دی۔
                      پیپر شادی کی وجہ سے اُس پورٹو ریکن عورت کا وقاص کے ساتھ رہنا اور سیکس ضروری نہیں تھا۔
                      مگر جب اُس عورت نے جب وقاص جیسے گبرو جوان کو دیکھا تو اُس کی چوت پانی چھوڑ گئی۔
                      اُس نے ہفتے میں دو تین بار وقاص سے سیکس کرنا شروع کر دیا۔
                      اپنے گاؤں میں "کھوتی " چودنے والے کو جب ایک گوری چٹی عورت کا پھدا ملا تو اُس کی تو جیسے "موجے" ہی لگ گئیں۔
                      سیکس کے دوران اُس عورت نے وقاص کو سیکس کرانے کے ایسے ایسے طریقے سکھائے کہ وقاص کے ہوش اڑ گئے۔
                      وقاص کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ سیکس کسے کہتے ہیں اور سیکس کے دوران کس طرح نہ صرف خود مزہ لیا جاتا ہے بلکہ عورت کو بھی کس طرح مزہ دیا جاتا ہے۔
                      وقاص کی "بیوی" نے کہ جب پہلی دفعہ وقاص کے لن کا چوپا لگایا تو وہ تو جیسے پاگل ہو گیا۔
                      پھر اُس نے وقاص کو میجر کر دیا کہ وو بھی اُس کی پھدی چاٹے۔
                      پہلے تو وقاص کی انکار کر دیا مگر جب اُس عورت نے اُسے دھمکی دی کہ اگر وو اُس کی پھدی نہیں چاٹے گا تو وو اُس کو گرین کارڈ حاصل کرنے میں مدد نہیں کرے گی تو وقاص مجبور ہو گیا۔
                      وقاص کو پہلے تو چوت چاٹنے کا مزہ نہیں آیا مگر پھر آہستہ آہستہ اُس کو چوت سک کرنے میں بھی مزہ آنے لگا اور وو ایک چوت سکنگ ایکسپرٹ بن گیا۔
                      اب تو وقاص کو 69 کے بغیر چدائی کا مزہ نہیں آتا تھا۔
                      وقاص کو پیپر میرج کے فورن بعد جب پہلا گرین کارڈ ملا تو اُسے بہت خوشی ہوئی۔
                      مگر اسی دوران اکرم کے امیگریشن کے پیپرز کی چیکنگ ہوئی تو وو فیک ثابت ہو گئی جس کی وجہ سے اکرم کا کیس ڈینائی ہو گیا۔
                      اب اکرم پاکستان جا کے واپس امریکا نہیں آ سکتا تھا۔ اُس نے ایجنٹ کے ذریعہ زکیہ کو اپنے پاس بلانے کی کوشش کی مگر وو اسلام آباد ایئرپورٹ پر پکڑی گئی۔
                      اس بات کے کچھ مہینے بعد اکرم نے زکیہ کو لاہور شادمان میں مکان خرید کر دیا جس میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ شفٹ ہو گئی۔
                      سن 1990
                      اکرم اور زکیہ کو بھی ایک دوسرے سے جدا ہوۓ تین سال ہو گئے۔ یہ تین سال زکیہ نے کیسے اکیلے گزارے یہ وہی جانتی تھی۔
                      اکرم اس کو ہر مہینے پیسے تو بھیج رہا تھا مگر چوت کی گرمی نے اس کا برا حال کر دیا تھا۔
                      رات کو اس کا بستر اس کو کتنے کو ڈوڑتا اور وو تکیہ ہو اپنی گرم ٹانگوں کے درمیان ڈبا کے سو جاتی۔
                      ان تین سالوں میں زکیہ نے اکرم کو بہت سے خط لکھے اور ہر خط میں ایک ہی بات تھی کہ مجھے کب اپنے پاس امریکا بلو گے مگر اکرم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
                      اکرم جیسا آدمی جس نے جوانی میں رنڈی عورتوں کے ساتھ بہت عیاشی کی تھی۔
                      شادی کے بعد بہت بدل گیا تھا۔
                      اکرم کو پتا تھا کہ امریکا تو "پھدیوں کا سمندر" ہے۔ جدر ہر مذہب، رنگ اور سائز کی چوت ہر وقت دستیاب ہے۔
                      مگر اس کا لن اب صرف اپنی بیوی زکیہ کی جوان پھدی کے لئے مچلتا تھا۔
                      اکرم خود بھی زکیہ سے دوری کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وو کس طرح زکیہ کو امریکا بلائے۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X