سن 1991
وقاص کو امریکا آئے ہوئے چار سال ہو گئے تھے اور اب وقاص امریکن شہری سے شادی کی وجہ سے خود بھی امریکن شہری بن گیا۔ جس کے بعد وقاص نے اپنی پیپر شادی ختم کر دی۔
وقاص اور اکرم اب بروکلین میں کونی آئی لینڈ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں پاکستانی کمیونٹی کافی تعداد میں آباد ہے۔
اکرم ابھی تک پیٹرول اسٹیشن پر جاب کر رہا تھا جب کے وقاص نے اب ییلو کیب (ٹیکسی) چلانی شروع کر دی تھی۔
ایک شام وقاص جاب سے واپس گھر آیا تو دیکھا کے اکرم ہاتھ میں فون تھمے کافی پریشان بیٹھا ہے۔
اکرم نے لاہور میں اپنے گھر ایک مہینے پہلے ہی فون لگایا تھا اور اس کی ہفتے میں دو تین دفعہ زکیہ سے بات ہوتی تھی۔
وقاص، اکرم کی بات سن کر خاموش ہو گیا اس کو پتا تھا کے اکرم اب کسی صورت پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا تھا اور زکیہ کا امریکا آنا ناممکن تھا۔
لیکن اس کا ایک حل ہے جس کے لیے تجھے ایک قربانی دینا ہو گی۔
"وو کیسے" وقاص نے بے چین ہوتے ہوئے پوچھا۔
"چوہدری صاحب آپ کھل کر کہیں مجھ سے جو ہو سکا میں اپنی بہن کے لئے وہ ضرور کروں گا" وقاص نے اکرم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
"اس کا ایک ہی حل ہے کہ تو زکیہ کے ساتھ نقلی شادی کے پیپر بنوائے اور اس کا ویزا اپنی بیوی کی حیثیت سے اپلائی کرے۔"
وقاص کے قدموں کے نیچے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔
"چوہدری صاحب آپ یہ کیا کہ رہے ہو" وقاص نے غصے سے اکرم کو گھورتے ہوئے کہا۔
آج کل کافی لوگ اسی طرح اپنے دوست کی بیوی، اپنی بھابھی اور تو اور اپنی سگی بھانجی کو اپنی بیوی بنا کر یورپ اور امریکا لا رہے ہیں۔
"اس طرح کے واقعات کے بارے میں میں نے بھی سنا ہے مگر زکیہ اور میں بہن بھائی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے، نہیں چوہدری صاحب یہ بات نہیں ہو سکتی" وقاص نے اکرم کو صاف جواب دیا۔
وقاص کو خاموش دیکھ کر اکرم بولا، "وقاص تم اب بچے نہیں تمہیں پتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ اور تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ مجھے تمہاری بہن سے جدا ہوئے چار سال ہو گئے ہیں اور اب تمہاری بہن سے یہ دوری مزید برداشت نہیں ہو رہی۔ مجھے ڈر ہے کہ اس دوری کی وجہ سے تمہاری بہن زکیہ گمراہ نہ ہو جائے۔"
وقاص کو سمجھ تھی کہ اکرم کی اس بات کا کیا مطلب ہے۔
وقاص اکرم کی یہ دھمکی سن کر ڈر گیا۔ وو کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی اس بہن کو جس نے اپنے پورے خاندان کے لیے قربانی دی تھی اب اس کا گھر اس طرح ٹوٹ جائے۔ وقاص ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔
یہ کہ کر وقاص اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دو دن اس نے اس بارے میں کافی سوچا اور پھر نچاہتے ہوئے بی اس کو اکرم کی بات پر ہاں کر دی۔
اکرم نے فون پر زکیہ سے اس بات کا ذکر کیا۔ یہ بات سن کر زکیہ کے بھی ہوش اڑ گئے۔
اسے نہیں پتا تھا کہ اپنے شوہر کے پاس آنے کے لئے اس کو اپنے ہی سگے بھائی کی جعلی بیوی بنانے کا اتنا بڑا قدم بھی اُٹنا پڑے گا۔ زکیہ کے لئے یہ بھی ایک "مجبوری کا فیصلہ" تھا۔
زکیہ نے اس بات کا اپنی ماں شریفہ بی بی سے ذکر کیا تو وہ بی ہل کر رہ گئی۔
شریفہ بی بی غصے سے کانپنے لگی۔ اس کے باس میں ہوتا تو وہ اکرم کا منہ نوچ لیتی۔
زکیہ نے یہ کہ کر شرم سے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
شریفہ بی بی سمجھ گئی کہ اس کی بیٹی کی جوان چوت اب لوڑے سے مزید دور نہیں رہ سکتی اور اگر اس کی بات نہ منی تو وہ لاہور میں ہی اپنے لیے کسی لن کا بندوبست کر لے گی۔
شریفہ بی بی نے اپنے شوہر بابا رحمت سے بات کی اور کافی بحث کے بعد وہ بی آخر کار اس بات پر راضی ہو گئی۔
کچھ دنوں بعد وقاص پاکستان آیا۔ اس کے ماں باپ اور اس کی تینوں بڑی بہنیں جو کہ لاہور وقاص سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔ وہ سب وقاص سے مل کر بہت خوش ہوئے۔
سب سے مل کر جب وقاص گھر کے ڈرائنگ روم میں پانی وانی پی کر بیٹھ گیا تو اس کی نظریں اس کی چھوٹی بہن زکیہ کو تلاش کرنے لگیں مگر زکیہ اُسے نظر نہ آئی۔
"امی زکیہ کہیں باہر گئی ہے" وقاص نے ماں سے پوچھا۔
"نہیں وہ اپنے کمرے میں ہے بیٹا پتہ نہیں وہ کیوں تمہارے سامنے آنے سے گبرا رہی ہے" ماں نے جواب دیا۔
"اچھا میں خود ہی اُس کو مل لیتا ہوں امی" یہ کہتے ہوئے وقاص زکیہ کو ملنے اُس کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
"ٹھک ٹھک ٹھک" وقاص نے کمرے کے بند دروازے پر ناک کیا۔
جووں ہی زکیہ نے دروازہ کھولا اور اس کی نظر اپنے بھائی وقاص پر پڑی تو زکیہ کی تو جیسے سانس ہی رک گئی۔ وہ جس سے چھپ کر کمرے میں ڈبکی بہتی تھی اس سے یوں اچانک سامنا ہو جائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔
آج چار سال بعد وقاص اس کے سامنے ایک بھائی کے روپ میں نہیں بلکہ اس کا "ہونے والا جیہلی شوہر" کی حیثیت سے کھڑا تھا۔
زکیہ اب اور تو کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لئے وہ بس شرما کر رہ گئی۔
وقاص نے بھی چار سال بعد اپنی بہن کو دیکھا۔
زکیہ اب وہ پہلے والی 18 سالہ لڑکی نہیں تھی جس کو وقاص 4 سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔
اب وقاص کے سامنے ایک 22 سال کی شادی شدہ عورت کھڑی تھی۔
ان چار سالوں میں زکیہ کا رنگ روپ پہلے سے زیادہ نکل آیا تھا۔ اس کا جسم پہلے سے تھوڑا اور بھر گیا تھا جس کا اثر اس کے کمیز سے باہر آتے ہوئے ماموں میں صاف نظر آ رہا تھا۔ جن کا سائز اب 36 ہو گیا تھا۔ اس کے کھلے بھی ٹھوٹے اور چوڑے ہو گئے تھے۔
زکیہ وقاص سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں، آپ کسے ہیں بھائی" زکیہ نے آہستہ سے پوچھا۔
"میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ہٹا کٹا"۔ وقاص بولا۔
زکیہ کچھ نہ بولی اور نگاہیں نیچے کی۔ بس فراش کو ہی دیکھتی رہی۔ جس بھائی سے وہ بچپن سے لیکر جوانی تک باتیں کرتی نہیں تھکتی تھی آج اُسی بھائی سے بات کرنے کا زکیہ کا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا۔
وقاص سمجھ گیا کہ زکیہ اُس سے گھبرا رہی ہے تو وہ اُس سے بات کرنے کا بہانہ کر کے واپس چلا آیا۔
وقاص کے واپس آنے کی وجہ سے بابا رحمت کے گھر میں جیسے رونق سی آ گئی تھی۔ اُس کے سب بچے اُس کے ساتھ تھے اور وقاص اپنی سب بہنوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کر رہا تھا۔
کچھ دن گزرے تو زکیہ کی وقاص سے گھبراہٹ بھی تھوری کم ہو گئی اور وہ اب وقاص سے تھوڑا کھل کر باتیں کرنے لگی۔ وقاص نے اکرم کے بتائے ہوئے بندے سے رابطہ کیا۔ جس نے وقاص کو زکیہ کا "جیہلی نکا نام، جیہلی برتھ سرٹیفیکیٹ، اور چنکھتی کارڈ" بنا کر دیا۔ جس کی وجہ سے زکیہ کا پاسپورٹ "زکیہ وقاص" کے نام سے بن گیا۔
اب سب پیپرز تو مکمل ہو گئے۔ مگر اب وقاص اپنی اور بہن کی "جیہلی شادی" کچھ تصاویر بھی بنا چاہتا تھا۔ تاکہ کل کو اگر ایمبیسی والے ویزا انٹرویو کے وقت کچھ ثبوت مانگے تو وہ ان تصاویر کو انٹرویو کے وقت (ثبوت کے طور پر) ویزا آفیسر کو دکھا سکے۔
اس لئے وقاص نے ایک دن اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی۔
گھر کے ایک بڑے کمرے کو شادی والا گھر کی طرح سجایا گیا۔
بابا رحمت اُس کی بیوی اور وقاص کی بڑی بہنیں سب ایسے تیار ہوئے جیسے شادی پر لوگ تیار ہوتے ہیں۔
وقاص اور زکیہ بھی دولہا اور دلہن کی طرح تیار ہوئے۔ جلدی میں زکیہ کو اور تو کچھ پہنے کو نہ ملا تو اُس نے اپنے گھر میں ہی پڑا ہوا اپنی بڑی بہن کا پرانا لہنگا پہن لیا۔
جس کی چولی زکیہ کو چٹیوں سے تانگ تھی۔ زکیہ اپنی دو بہنوں کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور وقاص ان کی فوٹو کنچ رہا تھا۔
ایک دو تصویریں کنکوانے کے بعد جب زکیہ کرسی سے اُٹنے لگی تو اُس کی چولی سامنے سے تھوڑی پھٹ گئی۔ جس کی وجہ سے اُس کے گورے ممے انڈے سے زیادہ ننگے ہو گئے۔
وقاص جلدی جلدی فوٹو پہ فوٹو کھنچ رہا تھا۔ وقاص کی انگلی کیمرہ کا بٹن کو بار بار دبا رہی تھی۔
اس سے پہلے کے زکیہ اپنے ڈپٹے سے اپنے اُڑیاں مموں کا کور کرتی، وقاص کی تیزی سے بٹن پر چلتی ہوئی انگلیوں نے اُس حسین منظر کو کیمرہ کی ظالم آنکھوں میں محفوظ کر لیا۔
اُس وقت وقاص کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ اُس نے کس پوز میں اپنی بہن کی فوٹو اپنے کیمرے میں سےو کر لی ہے۔
پھر وقاص نے کیمرا اپنی بڑی بہن ریحانہ کو دیا اور خود زکیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا اور ریحانہ ان دونوں کی ایک ساتھ فوٹو کنچانے لگی۔
یوں سب گھر والوں کے سامنے اپنے ہی سگے بھائی کے ساتھ اس طرح دلن بان کر بیٹھنے اور فوٹو اُٹھوانے سے زکیہ خوش تو نہ تھی مگر اس کو یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے مجبوران کرنا پڑا تھا۔
دو مہینے پاکستان رہنے کے بعد وقاص واپس نیو یارک آیا اور اس نے آتے ہی زکیہ کی امیگریشن پیٹیشن فائل کر دی۔
تقریباً ایک سال بعد زکیہ کی انٹرویو ڈیٹ اسلام آباد ایمبیسی میں آ گئی۔ اکرم اور زکیہ بہت خوش تھے کہ بہت جلد ہی ان دونوں کا دوبارہ ملنے والا ہے۔
وقاص نے بھی دوبارہ پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ ویزا حاصل کرنے کے بعد وہ زکیہ کو ساتھ ہی امریکا لے آئے۔
پاکستان جانے سے دو دن پہلے وقاص نے فوٹو اسٹوڈیو سے پاکستان والی تصویر کو پرنٹ کروایا۔
شام کا اندھیرا تھوڑا ہو رہا تھا اور ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے تھوڑی سردی بھی ہو رہی تھی۔
وقاص اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر سب فوٹوز کو ایک ایک کر کے دیکھنے لگا۔
جیسے ہی اس کی نظر اپنی بہن زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی تصویر پر پڑی، اس کا دل تو جیسے دھڑکن ہی بھول گیا۔
اس کو سمجھ نہ آئی کہ اُس نے کب اور کسے یہ تصویر کنچی تھی۔
وقاص نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی کسی بھی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا اس لئے یوں اچانک اس نے یہ تصویر دیکھی تو وہ سمجھ نہ پایا کہ وہ کیا کرے۔
وہ تو بس اپنی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اپنی سگی بہن کے جوان گورے اور خوبصورت ممے کا نہ چاٹتے ہوئے بناورا کرنے لگا۔
اس کو تھوڑی سردی میں بھی پسینہ آنے لگا اور اس کے جسم میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔
اس کی نظریں اپنی بہن کی نیم ننگی چھاتیوں پر جمی ہوئی تھیں اور اُس کا لن اُس کی پینٹ میں خود بخود کھڑا ہو گیا۔
وقاص فوٹو کو دیکھنے میں مگن تھا کہ ایسے میں گھر سے اکرم کا فون آیا جو اس کا کھانے پر انتظار کر رہا تھا۔
وقاص نے ٹیکسی فوراً گھر کی طرف موڑ لی۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی فوٹو باقی فوٹوز سے الگ کر کے اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال لی۔
وقاص نے اکرم کو باقی فوٹوز دیکھائیں اور اس کے بعد دونوں نے مل کر شام کا کھانا ایک ساتھ کیا۔
سن 1992
وقاص کے پاکستان آنے کے ایک ہفتے بعد ہی زکیہ اور وقاص لاہور سے اسلام آباد ویزا انٹرویو کے لئے روانہ ہوئے۔
وہ دونوں انٹرویو کے وقت سے کافی پہلے اسلام آباد پہنچ گئے تھے، اس لئے وہ ایمبیسی کی پارکنگ لاٹ میں ہی اپنی گاڑی میں بیٹھے انٹرویو کا وقت کا انتظار کر رہے تھے۔
وقاص محسوس کر رہا تھا کہ زکیہ کافی نروس لگ رہی ہے۔
"مگر کبھی کبھی وہ کچھ خاص چیزوں کے بارے میں بھی پوچھ لیتے ہیں"، وقاص اپنی بہن کو چھیڑ کر انجوائے کرنے کے موڈ میں تھا۔
زکیہ اپنے بھائی کے منہ سے "خاص چیزوں" والے الفاظ پر زور کو سمجھ گئی مگر اس نے جان بوجھ کر انجان بنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا: "کیا مطلب کون سی خاص چیزیں بھائی؟"
وقاص، جو اپنی بہن کے شرمندہ ہونے کا انتظار میں تھا، اب خود جسے شرمندہ ہو گیا۔
اس کو اپنی بہن سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ مگر اس نے بھی ہار نہ منی اور فوراً بولا۔
"شاید تمہارے علم میں نہ ہو کہ اگر آپ امریکا میں شادی کر کے گرین کارڈ حاصل کرتے ہیں تو امیگریشن افسر کبھی کبھی لڑکا اور لڑکی کو انٹرویو کے وقت الگ بلا کر ان سے ایسے سوال پوچھ لیتا ہے۔ اور یہ میرے ساتھ اس وقت ہو چکا ہے جب میں نے اپنے گرین کارڈ حاصل کیا تھا۔
یہ عام طور پر ایسے وقت ہوتا ہے جب امیگریشن افسر کو شک ہو کہ شاید یہ پیپر میرج ہے اور لڑکا/لڑکی دونوں الگ ملک اور مذہب سے ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بات ہمارے ساتھ نہ ہو کیونکہ ہم دونوں پاکستانی ہیں۔
مگر پھر بھی اگر افسر مجھ سے تمہارے جسم کے کسی خاص حصے پر کوئی نشان کا پوچھے گا تو میں ان کو بتاؤں گا کہ تمہاری بائیں چھاتی کے اوپر ایک تِل ہے۔"
اپنے بھائی کے منہ سے یہ بات سن کر زکیہ کا منہ شرم سے لال ہو گیا۔
اُس نے بے اختیاری میں جلدی سے اپنے سینے کو دوپٹے سے ڈانپا اور بولی: "آپ کو کیسے پتا ہے یہ بات؟"
وقاص اُس کی حرکت سے محزوز ہو رہا تھا۔ اُس نے ہنستے ہوئے اپنی قمیض کی پاکٹ سے فوٹو نکالی اور زکیہ کی گود میں پھینک دی۔
زکیہ نے اپنے جوانے سینے کو فوٹو میں اس طرح اُڑیاں دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اُس کا بھائی اُس کی حسین چھاتیوں کا دیدار کر چکا ہے۔
یہ بات سوچ کر تو وہ بھی شرما کر رہ گئی۔
"زکیہ، مجھے تو تمہارے جسم کے ایک پوسیدہ حصے پر پڑے نشان کا علم ہو گیا ہے، کیا اب تم بھی میرے کسی مخصوص نشان کو جاننا چاہتی ہو؟" وقاص نے اپنی بہن کو پھر چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
زکیہ وقاص کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر گاڑی سے باہر نکل گئی۔
وقاص کی اُس بات نے اُس کے دل اور جسم میں گرمی سی آ گئی۔
اتنی دیر میں زکیہ کے انٹرویو کا وقت ہو گیا۔ انٹرویو خیریت سے ہوا اور زکیہ کو اُسی دن امریکا کا ویزہ ایشو ہو گیا۔
زکیہ بہت خوش تھی، اب اُس کا اکرم سے دوبارے ملنے کا وقت قریب تھا۔
ویزہ ملنے کے اگلے ہفتے وقاص اور زکیہ امریکا پہنچ گئے۔ جہاں اکرم نے اب ایک دو بیڈروم اور دو باتھروم کا ایپارٹمنٹ کرایا تھا جس میں وہ سب اکتے رہنے لگے۔
وقاص، اکرم اور اپنی بہن زکیہ کو آپس میں ملنے کا پورا موقع دینا چاہتا تھا۔
اس لئے اُس نے رات کو ٹیکسی چلانے شروع کر دی اور دن کو گھر میں سوتا جب کہ اکرم دن کو جاب کرتا۔
اس طرح اکرم اور زکیہ رات کو گھر میں اکیلے ہوتے۔ اب 23 سالہ جوان لڑکی زکیہ اور 49 سالہ بوڑھے اکرم کی چودائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
اکرم ہر روز رات کی زکیہ کی جوان چوت میں اپنا بڈھا لن ڈالتا اور اپنی بیوی کی گرم چوت کی گرم آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا۔
زکیہ کو بھی لن کا ایسا چسکا لگا کہ اگر ایک دن بھی لن نہ ملے تو اُسے رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اس طرح سے اُن کی زندگی کی گاڑی آگے چل پڑی۔
1994
زکیہ کو نیو یارک دو سال ہو گیا۔ مگر اب تک اُس کو اولاد کی نعمت نصیب نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے وہ 25 سال کی جوان، صحتمند عورت تھی اور اکرم اب 51 سال کا بوڑھا اور کمزور مرد تھا، جو اب کافی بیمار رہنے لگ گیا۔
ایک دن اکرم نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا تو اُسے پتا چلا کہ اُسے ڈائیبیٹیس ہو گئی ہے اور اُس کی شوگر کافی زیادہ ہے۔ اکرم نے شوگر کی دوائی لینا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ اکرم پہ نہ صرف بڑھاپے بلکہ شوگر کی بیماری نے بھی اپنا اثر چھوڑنا شروع کر ہی دیا۔
اب اُس کے لن میں پہلے جیسی طاقت بھی نہ رہی۔ اب بڑی مشکل سے ہی اُس کا لن کھڑا ہو پاتا تھا اور دو چار دھکوں کے بعد ہی لن پانی چھوڑ دیتا۔
اسی دوران زکیہ کو تو ابھی ابھی جوان کا مزہ آنا شروع ہوا تھا۔
اُسے چودائی میں نیا نیا مزہ آنے لگا تھا کہ اکرم کا لن اُس کو چودائی کے بیچ میں پانی چھوڑنے لگا جس کی وجہ سے زکیہ کی چوت کی پوری تسلی نہ ہو پاتی۔
ایک رات وقاص کی ٹیکسی خراب ہو گئی تو وہ جلدی گھر واپس آ گیا۔ اُس نے خاموشی سے اپارٹمنٹ کے باہر کا دروازہ کھولا اور اندر چلا آیا۔ رات کا 1 بج رہا تھا اور اکرم اور زکیہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ اس لئے وقاص آہستہ سے اپنے بیڈروم میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ آج کافی سالوں بعد رات کو سونے کے لئے لیٹا تھا مگر اُس کو نیند نہیں آ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد وقاص کو ساتھ والے بیڈروم سے کچھ آواز آنے لگی جس کو سن کر وقاص کے کان کھڑے ہو گئے۔ وقاص اور اکرم کے بیڈ روم کی دیوار آپس میں جڑی ہوئی تھی۔
(امریکہ میں مکان لکڑی کے بنے ہوتے ہیں جن کی اندر کی دیواریں پلايووڈ کی ہونے کی وجہ سے پتلی ہوتی ہیں۔ جس وجہ سے گھر اور خاص طور پر اپارٹمنٹس میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں رہتی۔)
پہلی آہٹ کے بعد تھوڑی سی خاموشی ہوئی اور پھر دوبارہ ساتھ والے کمرے سے ایک سسکاری کی آواز وقاص کے کانوں میں گھونجی۔
"آهہہہہہ...ہائی...تیزی سے کرو...زور سے...زور سے چودو مجھے اکرم..."
وقاص چونک پڑا۔ وقاص سمجھ گیا کے اکرم اُس کی بہن زکیہ کی چودائی کر رہا ہے۔
وہ جلدی سے اپنے بستر سے اٹھا کر دیوار کے پاس ان کھڑا ہوا اور دیوار کے ساتھ کان لگا کر دوسرے کمرے میں ہونے والی کاروائی کو سنے لگا۔
وقاص کو خود بھی چودائی کی بہتری کافی وقت ہو گیا تھا۔ اس لئے اُس کا لن اُس کے پجامے میں کھڑا ہونے لگا۔
اُدھر دوسرے کمرے میں زکیہ اور اکرم وقاص کی گھر واپسی سے بےخبر تھے۔ زکیہ پلنگ پر بالکل ننگی لیٹی ہوئی تھی اور اُس نے اپنی ٹانگوں کو پھیلا رکھا تھا۔
اکرم کا لنڈ مرجھایا ہوا تھا جس کو وہ زکیہ کی پھدی میں ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ لن ڈھیلا ہونے کی وجہ سے چوت سے بار بار پھسل جاتا تھا۔
زکیہ گرم ہو چکی تھی۔ اور لن لانے کے لئے تڑپ رہی تھی، "چودو مجھے اکرم، ڈال بھی دو میری پھدی میں اپنا لن...اااااااا... بجھا دو میری پیاس۔"
اتنی دیر میں اکرم کے لنڈ سے پانی کی دھارا بہ نکلی۔
"آہووووووووووو زکیہ، میرا لن پانی چھوڑ چکا ہے...میں فارغ ہو گیا ہوں، مجھے معاف کر دو...میں تم کو آج بھی اچھی طرح نہیں چود سکا۔"
"اکرم اب معافی کیوں مانگتے ہو...جب اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کی تھی تب کیوں نہیں سوچا...میری زندگی کیوں تباہ کی۔" زکیہ نے سسکتے ہوئے اکرم کو کوسا۔
"میں کتنے مہینوں سے تڑپ رہی ہوں، تم اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے" زکیہ اپنی پھدی کو اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے بولی۔
"زکیہ تمے پتہ ہے میں اپنا دوائی لے رہا ہوں...امید ہے کچھ وقت بعد میرا لن پہلے جیسا ہو جائے گا۔" اکرم شرمندگی سے بولا۔
"جب آدمی بہرہ ہو جائے تو علاج نہیں ہوتا لن کا...اچھا میری چوٹ کی آگ آج پھر اپنی انگلی سے ہی بجھا دو نہیں تو میں مر جاؤں گی اکرم" زکیہ جل گئی۔
اکرم نے آگے بھیڑ کے پہلے زکیہ کو اچھی طرح چوما اور پھر اس کی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنی دو انگلیاں زکیہ کی پھدی میں ڈال دیں۔
زکیہ نے اپنی ٹانگیں اکرم کے ہاتھ پر کس دین اور اپنے مست چھوتڑ اٹھا اٹھا کر اکرم کی انگلی سے اپنی گرم پھدی کو چودوانا شروع کر دیا۔
زکیہ گرم ہو کر بھربڑانے لگی، "آآآآآآآ... ہائی... تیزی سے اپنی انگلو ڈالو میرے اندر... چودو میری پھدی... اکرم میں فارغ ہو رہی ہوں۔"
زکیہ انگلی سے چودائی کرواتے ہوئے چیخ رہی تھی اور اُس کے چٹر پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ زکیہ اپنے تنے ہوئے نپلز کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسل بھی رہی تھی۔ اور پھر کچھ دیر بعد زکیہ بھی چود گئی۔
اُدھر ساتھ والے کمرے میں یہ سب گرم باتیں اور آوازیں سن کر وقاص کا لن بھی اُس کے باس میں نہیں تھا اور وہ زور زور سے اپنے ہاتھ سے اپنے لن کی مٹھ لگا رہا تھا۔
اور پھر وہ بھی مٹھ مارتے مارتے اپنے پجامے میں ہی فارغ ہو گیا۔
اس بات کے باوجود کہ ساتھ والے کمرے میں سے اُتنی والی سسکاریاں اور گرم آہیں اُس کی اپنی سگی چھوٹی بہن کی تھیں۔ وقاص کو نجانے کیوں یہ سب اچھا لگا۔
اس کی وجہ شاید سسکاریوں میں شامل پیساپن تھا یا پھر شاید یہ کہ یہ سسکاریاں اُس کی اپنی سگی بہن کی تھیں۔
جس لڑکی کو بچپن سے لے کر جوانی تک اُس نے صرف بہن کے مقدس رشتے کی حیثیت سے ہی دیکھا، سمجھا اور سوچا تھا۔ آج اُسی بہن کو ایک گرم پیاسی بیوی کے روپ میں سن اور سوچ کر وقاص کو بہت مزہ آیا۔
وقاص کو زکیہ کی سسکاریوں نے پاگل بنا دیا۔ اُس کا باس چلتا تو وہ ان مدھور کر دینے والی سسکریوں کو ٹیپ کر لیتا اور واکمین میں لگا کر دن رات اپنی بہن کی پیاسی آواز کو سنتا رہتا۔
اُدھر دوسرے کمرے میں بوڑھا اکرم اپنی جوان بیوی کی جوانی کی آگ کو اپنی انگلیوں سے تھوڑا سا ٹھنڈا کرنے کے بعد سرحنائے پر سار رکھ کر لیٹ گیا اور لیٹے ہی اُس کو نیند آ گئی۔
زکیہ کا چوت کی پیاس ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے ابھی تک اپنی گڈھاز چوت کے موٹے لبوں کو آہستہ آہستہ مسل رہی تھی۔
اکرم نے اب خراٹے لینا شروع کر دیے۔ زکیہ کو اکرم کے یہ خراٹے زہر لگ رہے تھے۔
وہ بہت غصے میں اکرم کو سوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
جو کد تو اپنے بوڑھے لن کا پانی نکال کر مطمئن ہو گیا مگر اُس کی جوان آگ ابھی تک سلگ رہی تھی۔
اس وقت زکیہ کی حالت آج کال کے نئے پنجابی گیت جیسی تھی۔
"آگ لے کے سانوں عشق دیاں
تے اپ مٹھی نیند سونا آیا"
زکیہ کے جسم کا ہر انگ پیاسا تھا۔ مگر اُس کی پیاس بجنے والا کاب کال تھک ہار کر سو گیا تھا۔
زکیہ بھی اپنی قسمت کو کوستی روز کی طرح پیاسی آخر سو ہی گئی۔
وقاص کو بھی جب زکیہ کے کمرے سے کسی قسم کی آواز آنا بند ہو گئی تو وہ بھی واپس اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔
دوسرے دن وقاص کافی دیر سوتا رہا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو رات والا سارا واقعہ اُس کو دوبارہ یاد آیا۔
چونکہ وقاص کے دماغ پر رات کو چھڑنے والی منی اُس کے لن کے رسٹے کال رات ہی نکل گئی تھی۔
اس لئے اب وقاص کو احساس ہونے لگا کہ اُس نے اپنی بہن اور بہنوئی کی نیت پرائیویٹ باتیں سن کر بہت غلط کی ہے۔
یہ سوچ کر وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے اپنے کمرے سے باہر آیا۔ وہ باتھروم میں جانے کے لئے اکرم اور زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ زکیہ کے کمرے کا دروازہ تھوڑا کھلا تھا۔
اکرم صبح صبح جاب پر چلا چکا تھا۔ زکیہ کمرے میں لگے شیشے کے سامنے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر باندھے سائیڈ پوز میں ایسے کھڑی تھی کہ اُس کے جسم کا رائٹ سائیڈ والا حصہ وقاص کی نگاہوں کے سامنے تھا۔
نیو یارک میں اچھی صحت مند خوراک اور دو کمروں والے اپارٹمنٹ میں کوئی خاص کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے زکیہ کا زیادہ وقت ٹی وی کے سامنے سوفے پر بیٹھ کر فرینچ فرائز (آلو کے چپس) کھاتے اور کوکا کولا پیتے ہی گزرتا تھا۔
جس وجہ سے زکیہ کا پتلا جسم اب کافی بھر گیا تھا۔ اس کے ممائے پہلے سے کافی پھیل کر بڑے ہو گئے اور ان کا سائز دو سالوں میں ہی 38 ہو گیا۔
زکیہ کی گانڈ بھی پیچھے سے کافی بڑی ہو گئی تھی۔ اُس کی گانڈ بالکل کالی (افریقی امریکی) عورتوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے جب زکیہ چلتی تو اُس کی گانڈ پیچھے سے چل چل کرتی اور دیکھنے والوں کے لنوں کا برا حال کر دیتی۔
وقاص کے قدم اپنی بہن کو اپنے سامنے دیکھ کر زمین پر جیسے جم گئے اور وہ بہ گور اپنی بہن کے جسم کا جائزہ لینے لگا۔
زکیہ کے ہاتھ اُس کے ممّوں کے نیچے بندے ہونے کی وجہ سے زکیہ کے ممّے اُوپر کی طرف اُٹھ گئے تھے اور سائیڈ پوز میں دیکھنے سے وقاص کو زکیہ کے بڑے بڑے گداز ممّے اُس کی قمیض سے اور بھی نمیاں اور بڑے نظر آ رہے تھے۔
تھوری ہیل والی جوتی پہنے کی وجہ سے زکیہ کی مست گانڈ پیچھے سے اور زیادہ اُٹھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
اور زکیہ کے بڑے چٹر کا ابھار وقاص کو زکیہ کی بڑے چک والی قمیض سلوار میں سے بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔
اپنی بہن کو کمرے میں ایسے اسٹائل میں کھڑا دیکھ کر وقاص کے ذہن میں رات والی ساری باتوں ایک فلم کی طرح دوبارہ دور گئیں اور اُس کا لن جو پیشاب آنے کی وجہ سے پہلے ہی اُس کے پجامے میں فل کھڑا تھا مزید شکت ہو گیا۔
اس سے پہلے زکیہ کی نظر وقاص اور پجامے میں کھڑے اُس کا لن پر پڑتی۔ وقاص جلدی سے باتھروم میں چلا آیا۔
باتھروم میں جب وقاص نے پیشاب کیا تو لن پورے کھڑا ہونے کی وجہ سے پہلے تو اُس کا پیشاب ہی نہیں نکل رہا تھا مگر پھر جب نکلا تو کھڑے لن کی وجہ سے اُس کے پیشاب کی دھار دور تک گئی۔
پیشاب سے فارغ ہونے پر وقاص کے لن کو تھوڑا سکون تو ملا مگر اب بھی اُس کا لن پجامے میں بیٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
وقاص اب اپنی بہن کے نام مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا اس لئے وہ باتھروم کے کموڈ پر بیٹھ کر اپنے لن کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب تھوڑی دیر بعد اس کا لن تھوڑا دھیلا پڑ گیا تو وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر آ گیا۔
وقاص دوبارہ زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا پڑا ہے اور زکیہ کمرے میں نہیں۔
تبھی اُسے کِچن سے آواز آئی تو اُسے زکیہ کی کِچن میں موجودگی کا پتہ چلا وقاص کِچن کی طرف چل پڑا۔
وقاص جیسے ہی کِچن میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اپنے کانوں پر واکمین کا ہیڈفون لگاے گانے سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ چولے کے سامنے کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی۔ زکیہ کا منہ چولے کی طرف ہونے کی وجہ سے اس کی باہر نکلی ہوئی بڑی اور موٹی گانڈ وقاص کی بھوکی نظروں کے سامنے تھی۔
وقاص نے کِچن کے دروازے پر کھڑے کھڑے تھوڑی دیر اپنی بہن کی مست گانڈ دیدار کیا اور پھر زکیہ کو آواز دی۔
وقاص: "زکیہ میری چائے بھی بنا دینا۔"
زکیہ کو کانوں میں لگے ہیڈفون کی وجہ سے آواز نہیں سنائی دی تو وقاص چپکے سے زکیہ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
ہاتھ زکیہ کے کندھے پر رکھتے ہی وقاص کو ایسے لگا جیسے اس نے کسی گرم چیز کو چھو لیا ہے۔ زکیہ کا پیسا جسم اب بھی دھک رہا تھا۔ زکیہ جو کہ اپنے آپ میں مگن تھی بھی کہ ہاتھ کو اپنے کندھے پر اچانک محسوس کر کے ایک دم سے چونک کر پلٹی اور اس نے اپنا منہ وقاص کی طرف گھما لیا اور بولی "کون".
"اوہ بھائی تم کب اُٹھے گئے" کہتے ہوئے زکیہ نے اپنے کانوں سے ہیڈفون اُتار کر سائیڈ پر رکھ دیا۔
"زکیہ لگتا ہے جیسے تم کو بخار ہے، تمہارا جسم تو آگ کی بھاٹی کی طرح دھک رہا ہے۔ تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو، میں خود ناشتہ بنا لوں گا۔"
"نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں، بس شاید چولے کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے جسم تھوڑا گرم ہو گیا ہے" زکیہ نے وقاص سے کہا۔
اب بالا زکیہ کیسے اپنے بھائی سے کہتی کہ اس کے جسم میں یہ گرمی کیسی اور کس چیز کے لئے ہے۔
"اچھا ٹھیک ہے تم میرا ناشتہ بھی بنا دو، مجھے باہر کام سے جانا ہے" کہتا ہوا وقاص کِچن سے باہر چلا آیا۔
وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اُس کی بہن کے بدن کی تپش کی وجہ کِچن کا چولے نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
بہن کے پیسے بدن کی آگ کو بجھانے کا سامان تو اُس کے پاس تھا مگر بہن بھائی کے مقدس رشتے میں بندے ہونے کی وجہ سے وقاص بہت ہی بے بس تھا۔
جب سے زکیہ نیو یارک آئی تھی، اُس کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا۔ اکثر اُس کو مہینے میں کبھی کبار ایک دفعہ کسی دیسی کہانی پر کھانے پینے کی چیزیں لانے یا کبھی کسی امریکن ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر گھر کا سامان خریدنے کے لئے ساتھ لی جاتا۔ اس سے زیادہ اکثر زکیہ کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس لئے ان دو سالوں میں زکیہ کے لئے نیو یارک یا امریکا صرف ان کے اپارٹمنٹ کے دو کمرے ہی تھے۔
ایک وجہ یہ تھی کہ زکیہ اور اکرم کی عمر میں زمین آسمان کا فرق ہونے کی وجہ سے اکرم کو جوان لڑکے لڑکیوں کی طرح گھومنا پھرنا پسند نہیں تھا۔
دوسرا عمر کے فرق کی وجہ سے اکرم زکیہ پر شک بھی کرتا تھا۔ اکرم کو یہ انجانہ ڈر بھی لگا رہتا کہ اگر اُس نے زکیہ کو باہر گھومنے کی آزادی دی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ اپنا تعلق فٹ کر لے۔ اس لئے اُس نے کبھی زکیہ کو اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔
وقاص کو اکرم کی یہ عادت پسند نہیں تھی مگر وہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کچھ بول کر گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے اکرم سے کبھی اس سلسلے میں بات نہ کی۔
اُس رات کے واقعے کے بعد اگلے دن اکرم جاب پر کھڑا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
اکرم شادی کے پہلے دن سے لے کر آج تک صرف اور صرف اپنے بڑھے لن کا پانی نکالتا اور سو جاتا۔ اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ زکیہ کی بھی جنسی تسلی ہوئی یا نہیں۔
اکرم یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اگر کسی جوان عورت کا شوہر اپنی بیوی کی چودائی میں تسلی نہ کر سکے تو پھر مجبوراً ایک نہ ایک دن وہ عورت گھر سے باہر اپنا منہ مارنے لگتی ہے۔
اس بات کو سوچ کر اکرم رات والے بات سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا اور اُس نے اُس دن کے بعد زکیہ کا اپنے اور وقاص کے ساتھ گھر سے باہر جانا بند کر دیا۔
یہ بات زکیہ کو پسند نہ آئی مگر وہ ایک مشرقی بیوی کی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گئی۔
اس طرح دو مہینے مزید گزر گئے۔ اب زکیہ اپنے گھر میں بالکل ایک قیدی جیسی زندگی گزار رہی تھی۔
اکرم گھر کے سامان کے ساتھ ساتھ زکیہ کے روزمرہ استعمال کی چیزیں بھی خود کی کرید کر لاتا تھا۔ زکیہ کا اس ماحول میں دم گھٹنے لگا مگر وہ پھر بھی خاموش رہی۔
ایک صبح جب وقاص کام سے گھر واپس آ رہا تھا کہ اُس کو گھر سے فون آیا۔
"بھائی تم کدھر ہو، جلدی سے گھر آ جاؤ" دوسری طرف سے زکیہ کی روتی ہوئی آواز وقاص کے کانوں میں پڑی۔
اتنی دیر میں وقاص گھر کے بالکل سامنے پہنچ گیا تھا وہ ٹیکسی کو پارک کرکے دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اکرم کے پاس بستر پر بیٹھی رو رہی ہے۔
وقاص نے جلدی سے آگے بڑھ کر اکرم کے جسم کو ہاتھ لگایا تو محسوس کیا کہ اکرم کا جسم بالکل ٹھنڈا پڑا ہے اور اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں۔
وقاص نے فوراً 911 (ایمرجنسی والوں) کو کال کی۔ کال کرنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی ایمبولینس والے گھر پہنچ گئے۔ اُنوں نے اکرم کو چیک کیا اور وقاص اور زکیہ کو بتایا کہ رات کو اکرم کی شوگر لو ہونے کی وجہ سے اُس کا سوتے میں ہی انتقال ہو گیا ہے۔
وقاص، اور خاص طور پر زکیہ پر یہ بات بجلی بن کر گری۔
اکرم جیسیا بھی تھا آخر اُس کا شوہر تھا اور اب وہ بھاری جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ زکیہ بہت روئی مگر اکرم تو اُس سے دور جا چکا تھا۔ پاکستان میں اکرم کا کوئی اور رشتہ دار تو تھا نہیں اس لئے اُس کو نیو یارک میں ہی دفن کر دیا گیا۔
وقاص کو امریکا آئے ہوئے چار سال ہو گئے تھے اور اب وقاص امریکن شہری سے شادی کی وجہ سے خود بھی امریکن شہری بن گیا۔ جس کے بعد وقاص نے اپنی پیپر شادی ختم کر دی۔
وقاص اور اکرم اب بروکلین میں کونی آئی لینڈ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں پاکستانی کمیونٹی کافی تعداد میں آباد ہے۔
اکرم ابھی تک پیٹرول اسٹیشن پر جاب کر رہا تھا جب کے وقاص نے اب ییلو کیب (ٹیکسی) چلانی شروع کر دی تھی۔
ایک شام وقاص جاب سے واپس گھر آیا تو دیکھا کے اکرم ہاتھ میں فون تھمے کافی پریشان بیٹھا ہے۔
اکرم نے لاہور میں اپنے گھر ایک مہینے پہلے ہی فون لگایا تھا اور اس کی ہفتے میں دو تین دفعہ زکیہ سے بات ہوتی تھی۔
وقاص، اکرم کی بات سن کر خاموش ہو گیا اس کو پتا تھا کے اکرم اب کسی صورت پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا تھا اور زکیہ کا امریکا آنا ناممکن تھا۔
لیکن اس کا ایک حل ہے جس کے لیے تجھے ایک قربانی دینا ہو گی۔
"وو کیسے" وقاص نے بے چین ہوتے ہوئے پوچھا۔
"چوہدری صاحب آپ کھل کر کہیں مجھ سے جو ہو سکا میں اپنی بہن کے لئے وہ ضرور کروں گا" وقاص نے اکرم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
"اس کا ایک ہی حل ہے کہ تو زکیہ کے ساتھ نقلی شادی کے پیپر بنوائے اور اس کا ویزا اپنی بیوی کی حیثیت سے اپلائی کرے۔"
وقاص کے قدموں کے نیچے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔
"چوہدری صاحب آپ یہ کیا کہ رہے ہو" وقاص نے غصے سے اکرم کو گھورتے ہوئے کہا۔
آج کل کافی لوگ اسی طرح اپنے دوست کی بیوی، اپنی بھابھی اور تو اور اپنی سگی بھانجی کو اپنی بیوی بنا کر یورپ اور امریکا لا رہے ہیں۔
"اس طرح کے واقعات کے بارے میں میں نے بھی سنا ہے مگر زکیہ اور میں بہن بھائی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے، نہیں چوہدری صاحب یہ بات نہیں ہو سکتی" وقاص نے اکرم کو صاف جواب دیا۔
وقاص کو خاموش دیکھ کر اکرم بولا، "وقاص تم اب بچے نہیں تمہیں پتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ اور تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ مجھے تمہاری بہن سے جدا ہوئے چار سال ہو گئے ہیں اور اب تمہاری بہن سے یہ دوری مزید برداشت نہیں ہو رہی۔ مجھے ڈر ہے کہ اس دوری کی وجہ سے تمہاری بہن زکیہ گمراہ نہ ہو جائے۔"
وقاص کو سمجھ تھی کہ اکرم کی اس بات کا کیا مطلب ہے۔
وقاص اکرم کی یہ دھمکی سن کر ڈر گیا۔ وو کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی اس بہن کو جس نے اپنے پورے خاندان کے لیے قربانی دی تھی اب اس کا گھر اس طرح ٹوٹ جائے۔ وقاص ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔
یہ کہ کر وقاص اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دو دن اس نے اس بارے میں کافی سوچا اور پھر نچاہتے ہوئے بی اس کو اکرم کی بات پر ہاں کر دی۔
اکرم نے فون پر زکیہ سے اس بات کا ذکر کیا۔ یہ بات سن کر زکیہ کے بھی ہوش اڑ گئے۔
اسے نہیں پتا تھا کہ اپنے شوہر کے پاس آنے کے لئے اس کو اپنے ہی سگے بھائی کی جعلی بیوی بنانے کا اتنا بڑا قدم بھی اُٹنا پڑے گا۔ زکیہ کے لئے یہ بھی ایک "مجبوری کا فیصلہ" تھا۔
زکیہ نے اس بات کا اپنی ماں شریفہ بی بی سے ذکر کیا تو وہ بی ہل کر رہ گئی۔
شریفہ بی بی غصے سے کانپنے لگی۔ اس کے باس میں ہوتا تو وہ اکرم کا منہ نوچ لیتی۔
زکیہ نے یہ کہ کر شرم سے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
شریفہ بی بی سمجھ گئی کہ اس کی بیٹی کی جوان چوت اب لوڑے سے مزید دور نہیں رہ سکتی اور اگر اس کی بات نہ منی تو وہ لاہور میں ہی اپنے لیے کسی لن کا بندوبست کر لے گی۔
شریفہ بی بی نے اپنے شوہر بابا رحمت سے بات کی اور کافی بحث کے بعد وہ بی آخر کار اس بات پر راضی ہو گئی۔
کچھ دنوں بعد وقاص پاکستان آیا۔ اس کے ماں باپ اور اس کی تینوں بڑی بہنیں جو کہ لاہور وقاص سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔ وہ سب وقاص سے مل کر بہت خوش ہوئے۔
سب سے مل کر جب وقاص گھر کے ڈرائنگ روم میں پانی وانی پی کر بیٹھ گیا تو اس کی نظریں اس کی چھوٹی بہن زکیہ کو تلاش کرنے لگیں مگر زکیہ اُسے نظر نہ آئی۔
"امی زکیہ کہیں باہر گئی ہے" وقاص نے ماں سے پوچھا۔
"نہیں وہ اپنے کمرے میں ہے بیٹا پتہ نہیں وہ کیوں تمہارے سامنے آنے سے گبرا رہی ہے" ماں نے جواب دیا۔
"اچھا میں خود ہی اُس کو مل لیتا ہوں امی" یہ کہتے ہوئے وقاص زکیہ کو ملنے اُس کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
"ٹھک ٹھک ٹھک" وقاص نے کمرے کے بند دروازے پر ناک کیا۔
جووں ہی زکیہ نے دروازہ کھولا اور اس کی نظر اپنے بھائی وقاص پر پڑی تو زکیہ کی تو جیسے سانس ہی رک گئی۔ وہ جس سے چھپ کر کمرے میں ڈبکی بہتی تھی اس سے یوں اچانک سامنا ہو جائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔
آج چار سال بعد وقاص اس کے سامنے ایک بھائی کے روپ میں نہیں بلکہ اس کا "ہونے والا جیہلی شوہر" کی حیثیت سے کھڑا تھا۔
زکیہ اب اور تو کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لئے وہ بس شرما کر رہ گئی۔
وقاص نے بھی چار سال بعد اپنی بہن کو دیکھا۔
زکیہ اب وہ پہلے والی 18 سالہ لڑکی نہیں تھی جس کو وقاص 4 سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔
اب وقاص کے سامنے ایک 22 سال کی شادی شدہ عورت کھڑی تھی۔
ان چار سالوں میں زکیہ کا رنگ روپ پہلے سے زیادہ نکل آیا تھا۔ اس کا جسم پہلے سے تھوڑا اور بھر گیا تھا جس کا اثر اس کے کمیز سے باہر آتے ہوئے ماموں میں صاف نظر آ رہا تھا۔ جن کا سائز اب 36 ہو گیا تھا۔ اس کے کھلے بھی ٹھوٹے اور چوڑے ہو گئے تھے۔
زکیہ وقاص سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں، آپ کسے ہیں بھائی" زکیہ نے آہستہ سے پوچھا۔
"میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ہٹا کٹا"۔ وقاص بولا۔
زکیہ کچھ نہ بولی اور نگاہیں نیچے کی۔ بس فراش کو ہی دیکھتی رہی۔ جس بھائی سے وہ بچپن سے لیکر جوانی تک باتیں کرتی نہیں تھکتی تھی آج اُسی بھائی سے بات کرنے کا زکیہ کا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا۔
وقاص سمجھ گیا کہ زکیہ اُس سے گھبرا رہی ہے تو وہ اُس سے بات کرنے کا بہانہ کر کے واپس چلا آیا۔
وقاص کے واپس آنے کی وجہ سے بابا رحمت کے گھر میں جیسے رونق سی آ گئی تھی۔ اُس کے سب بچے اُس کے ساتھ تھے اور وقاص اپنی سب بہنوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کر رہا تھا۔
کچھ دن گزرے تو زکیہ کی وقاص سے گھبراہٹ بھی تھوری کم ہو گئی اور وہ اب وقاص سے تھوڑا کھل کر باتیں کرنے لگی۔ وقاص نے اکرم کے بتائے ہوئے بندے سے رابطہ کیا۔ جس نے وقاص کو زکیہ کا "جیہلی نکا نام، جیہلی برتھ سرٹیفیکیٹ، اور چنکھتی کارڈ" بنا کر دیا۔ جس کی وجہ سے زکیہ کا پاسپورٹ "زکیہ وقاص" کے نام سے بن گیا۔
اب سب پیپرز تو مکمل ہو گئے۔ مگر اب وقاص اپنی اور بہن کی "جیہلی شادی" کچھ تصاویر بھی بنا چاہتا تھا۔ تاکہ کل کو اگر ایمبیسی والے ویزا انٹرویو کے وقت کچھ ثبوت مانگے تو وہ ان تصاویر کو انٹرویو کے وقت (ثبوت کے طور پر) ویزا آفیسر کو دکھا سکے۔
اس لئے وقاص نے ایک دن اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی۔
گھر کے ایک بڑے کمرے کو شادی والا گھر کی طرح سجایا گیا۔
بابا رحمت اُس کی بیوی اور وقاص کی بڑی بہنیں سب ایسے تیار ہوئے جیسے شادی پر لوگ تیار ہوتے ہیں۔
وقاص اور زکیہ بھی دولہا اور دلہن کی طرح تیار ہوئے۔ جلدی میں زکیہ کو اور تو کچھ پہنے کو نہ ملا تو اُس نے اپنے گھر میں ہی پڑا ہوا اپنی بڑی بہن کا پرانا لہنگا پہن لیا۔
جس کی چولی زکیہ کو چٹیوں سے تانگ تھی۔ زکیہ اپنی دو بہنوں کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور وقاص ان کی فوٹو کنچ رہا تھا۔
ایک دو تصویریں کنکوانے کے بعد جب زکیہ کرسی سے اُٹنے لگی تو اُس کی چولی سامنے سے تھوڑی پھٹ گئی۔ جس کی وجہ سے اُس کے گورے ممے انڈے سے زیادہ ننگے ہو گئے۔
وقاص جلدی جلدی فوٹو پہ فوٹو کھنچ رہا تھا۔ وقاص کی انگلی کیمرہ کا بٹن کو بار بار دبا رہی تھی۔
اس سے پہلے کے زکیہ اپنے ڈپٹے سے اپنے اُڑیاں مموں کا کور کرتی، وقاص کی تیزی سے بٹن پر چلتی ہوئی انگلیوں نے اُس حسین منظر کو کیمرہ کی ظالم آنکھوں میں محفوظ کر لیا۔
اُس وقت وقاص کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ اُس نے کس پوز میں اپنی بہن کی فوٹو اپنے کیمرے میں سےو کر لی ہے۔
پھر وقاص نے کیمرا اپنی بڑی بہن ریحانہ کو دیا اور خود زکیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا اور ریحانہ ان دونوں کی ایک ساتھ فوٹو کنچانے لگی۔
یوں سب گھر والوں کے سامنے اپنے ہی سگے بھائی کے ساتھ اس طرح دلن بان کر بیٹھنے اور فوٹو اُٹھوانے سے زکیہ خوش تو نہ تھی مگر اس کو یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے مجبوران کرنا پڑا تھا۔
دو مہینے پاکستان رہنے کے بعد وقاص واپس نیو یارک آیا اور اس نے آتے ہی زکیہ کی امیگریشن پیٹیشن فائل کر دی۔
تقریباً ایک سال بعد زکیہ کی انٹرویو ڈیٹ اسلام آباد ایمبیسی میں آ گئی۔ اکرم اور زکیہ بہت خوش تھے کہ بہت جلد ہی ان دونوں کا دوبارہ ملنے والا ہے۔
وقاص نے بھی دوبارہ پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ ویزا حاصل کرنے کے بعد وہ زکیہ کو ساتھ ہی امریکا لے آئے۔
پاکستان جانے سے دو دن پہلے وقاص نے فوٹو اسٹوڈیو سے پاکستان والی تصویر کو پرنٹ کروایا۔
شام کا اندھیرا تھوڑا ہو رہا تھا اور ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے تھوڑی سردی بھی ہو رہی تھی۔
وقاص اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر سب فوٹوز کو ایک ایک کر کے دیکھنے لگا۔
جیسے ہی اس کی نظر اپنی بہن زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی تصویر پر پڑی، اس کا دل تو جیسے دھڑکن ہی بھول گیا۔
اس کو سمجھ نہ آئی کہ اُس نے کب اور کسے یہ تصویر کنچی تھی۔
وقاص نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی کسی بھی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا اس لئے یوں اچانک اس نے یہ تصویر دیکھی تو وہ سمجھ نہ پایا کہ وہ کیا کرے۔
وہ تو بس اپنی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اپنی سگی بہن کے جوان گورے اور خوبصورت ممے کا نہ چاٹتے ہوئے بناورا کرنے لگا۔
اس کو تھوڑی سردی میں بھی پسینہ آنے لگا اور اس کے جسم میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔
اس کی نظریں اپنی بہن کی نیم ننگی چھاتیوں پر جمی ہوئی تھیں اور اُس کا لن اُس کی پینٹ میں خود بخود کھڑا ہو گیا۔
وقاص فوٹو کو دیکھنے میں مگن تھا کہ ایسے میں گھر سے اکرم کا فون آیا جو اس کا کھانے پر انتظار کر رہا تھا۔
وقاص نے ٹیکسی فوراً گھر کی طرف موڑ لی۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی فوٹو باقی فوٹوز سے الگ کر کے اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال لی۔
وقاص نے اکرم کو باقی فوٹوز دیکھائیں اور اس کے بعد دونوں نے مل کر شام کا کھانا ایک ساتھ کیا۔
سن 1992
وقاص کے پاکستان آنے کے ایک ہفتے بعد ہی زکیہ اور وقاص لاہور سے اسلام آباد ویزا انٹرویو کے لئے روانہ ہوئے۔
وہ دونوں انٹرویو کے وقت سے کافی پہلے اسلام آباد پہنچ گئے تھے، اس لئے وہ ایمبیسی کی پارکنگ لاٹ میں ہی اپنی گاڑی میں بیٹھے انٹرویو کا وقت کا انتظار کر رہے تھے۔
وقاص محسوس کر رہا تھا کہ زکیہ کافی نروس لگ رہی ہے۔
"مگر کبھی کبھی وہ کچھ خاص چیزوں کے بارے میں بھی پوچھ لیتے ہیں"، وقاص اپنی بہن کو چھیڑ کر انجوائے کرنے کے موڈ میں تھا۔
زکیہ اپنے بھائی کے منہ سے "خاص چیزوں" والے الفاظ پر زور کو سمجھ گئی مگر اس نے جان بوجھ کر انجان بنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا: "کیا مطلب کون سی خاص چیزیں بھائی؟"
وقاص، جو اپنی بہن کے شرمندہ ہونے کا انتظار میں تھا، اب خود جسے شرمندہ ہو گیا۔
اس کو اپنی بہن سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ مگر اس نے بھی ہار نہ منی اور فوراً بولا۔
"شاید تمہارے علم میں نہ ہو کہ اگر آپ امریکا میں شادی کر کے گرین کارڈ حاصل کرتے ہیں تو امیگریشن افسر کبھی کبھی لڑکا اور لڑکی کو انٹرویو کے وقت الگ بلا کر ان سے ایسے سوال پوچھ لیتا ہے۔ اور یہ میرے ساتھ اس وقت ہو چکا ہے جب میں نے اپنے گرین کارڈ حاصل کیا تھا۔
یہ عام طور پر ایسے وقت ہوتا ہے جب امیگریشن افسر کو شک ہو کہ شاید یہ پیپر میرج ہے اور لڑکا/لڑکی دونوں الگ ملک اور مذہب سے ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بات ہمارے ساتھ نہ ہو کیونکہ ہم دونوں پاکستانی ہیں۔
مگر پھر بھی اگر افسر مجھ سے تمہارے جسم کے کسی خاص حصے پر کوئی نشان کا پوچھے گا تو میں ان کو بتاؤں گا کہ تمہاری بائیں چھاتی کے اوپر ایک تِل ہے۔"
اپنے بھائی کے منہ سے یہ بات سن کر زکیہ کا منہ شرم سے لال ہو گیا۔
اُس نے بے اختیاری میں جلدی سے اپنے سینے کو دوپٹے سے ڈانپا اور بولی: "آپ کو کیسے پتا ہے یہ بات؟"
وقاص اُس کی حرکت سے محزوز ہو رہا تھا۔ اُس نے ہنستے ہوئے اپنی قمیض کی پاکٹ سے فوٹو نکالی اور زکیہ کی گود میں پھینک دی۔
زکیہ نے اپنے جوانے سینے کو فوٹو میں اس طرح اُڑیاں دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اُس کا بھائی اُس کی حسین چھاتیوں کا دیدار کر چکا ہے۔
یہ بات سوچ کر تو وہ بھی شرما کر رہ گئی۔
"زکیہ، مجھے تو تمہارے جسم کے ایک پوسیدہ حصے پر پڑے نشان کا علم ہو گیا ہے، کیا اب تم بھی میرے کسی مخصوص نشان کو جاننا چاہتی ہو؟" وقاص نے اپنی بہن کو پھر چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
زکیہ وقاص کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر گاڑی سے باہر نکل گئی۔
وقاص کی اُس بات نے اُس کے دل اور جسم میں گرمی سی آ گئی۔
اتنی دیر میں زکیہ کے انٹرویو کا وقت ہو گیا۔ انٹرویو خیریت سے ہوا اور زکیہ کو اُسی دن امریکا کا ویزہ ایشو ہو گیا۔
زکیہ بہت خوش تھی، اب اُس کا اکرم سے دوبارے ملنے کا وقت قریب تھا۔
ویزہ ملنے کے اگلے ہفتے وقاص اور زکیہ امریکا پہنچ گئے۔ جہاں اکرم نے اب ایک دو بیڈروم اور دو باتھروم کا ایپارٹمنٹ کرایا تھا جس میں وہ سب اکتے رہنے لگے۔
وقاص، اکرم اور اپنی بہن زکیہ کو آپس میں ملنے کا پورا موقع دینا چاہتا تھا۔
اس لئے اُس نے رات کو ٹیکسی چلانے شروع کر دی اور دن کو گھر میں سوتا جب کہ اکرم دن کو جاب کرتا۔
اس طرح اکرم اور زکیہ رات کو گھر میں اکیلے ہوتے۔ اب 23 سالہ جوان لڑکی زکیہ اور 49 سالہ بوڑھے اکرم کی چودائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
اکرم ہر روز رات کی زکیہ کی جوان چوت میں اپنا بڈھا لن ڈالتا اور اپنی بیوی کی گرم چوت کی گرم آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا۔
زکیہ کو بھی لن کا ایسا چسکا لگا کہ اگر ایک دن بھی لن نہ ملے تو اُسے رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اس طرح سے اُن کی زندگی کی گاڑی آگے چل پڑی۔
1994
زکیہ کو نیو یارک دو سال ہو گیا۔ مگر اب تک اُس کو اولاد کی نعمت نصیب نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے وہ 25 سال کی جوان، صحتمند عورت تھی اور اکرم اب 51 سال کا بوڑھا اور کمزور مرد تھا، جو اب کافی بیمار رہنے لگ گیا۔
ایک دن اکرم نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا تو اُسے پتا چلا کہ اُسے ڈائیبیٹیس ہو گئی ہے اور اُس کی شوگر کافی زیادہ ہے۔ اکرم نے شوگر کی دوائی لینا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ اکرم پہ نہ صرف بڑھاپے بلکہ شوگر کی بیماری نے بھی اپنا اثر چھوڑنا شروع کر ہی دیا۔
اب اُس کے لن میں پہلے جیسی طاقت بھی نہ رہی۔ اب بڑی مشکل سے ہی اُس کا لن کھڑا ہو پاتا تھا اور دو چار دھکوں کے بعد ہی لن پانی چھوڑ دیتا۔
اسی دوران زکیہ کو تو ابھی ابھی جوان کا مزہ آنا شروع ہوا تھا۔
اُسے چودائی میں نیا نیا مزہ آنے لگا تھا کہ اکرم کا لن اُس کو چودائی کے بیچ میں پانی چھوڑنے لگا جس کی وجہ سے زکیہ کی چوت کی پوری تسلی نہ ہو پاتی۔
ایک رات وقاص کی ٹیکسی خراب ہو گئی تو وہ جلدی گھر واپس آ گیا۔ اُس نے خاموشی سے اپارٹمنٹ کے باہر کا دروازہ کھولا اور اندر چلا آیا۔ رات کا 1 بج رہا تھا اور اکرم اور زکیہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ اس لئے وقاص آہستہ سے اپنے بیڈروم میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ آج کافی سالوں بعد رات کو سونے کے لئے لیٹا تھا مگر اُس کو نیند نہیں آ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد وقاص کو ساتھ والے بیڈروم سے کچھ آواز آنے لگی جس کو سن کر وقاص کے کان کھڑے ہو گئے۔ وقاص اور اکرم کے بیڈ روم کی دیوار آپس میں جڑی ہوئی تھی۔
(امریکہ میں مکان لکڑی کے بنے ہوتے ہیں جن کی اندر کی دیواریں پلايووڈ کی ہونے کی وجہ سے پتلی ہوتی ہیں۔ جس وجہ سے گھر اور خاص طور پر اپارٹمنٹس میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں رہتی۔)
پہلی آہٹ کے بعد تھوڑی سی خاموشی ہوئی اور پھر دوبارہ ساتھ والے کمرے سے ایک سسکاری کی آواز وقاص کے کانوں میں گھونجی۔
"آهہہہہہ...ہائی...تیزی سے کرو...زور سے...زور سے چودو مجھے اکرم..."
وقاص چونک پڑا۔ وقاص سمجھ گیا کے اکرم اُس کی بہن زکیہ کی چودائی کر رہا ہے۔
وہ جلدی سے اپنے بستر سے اٹھا کر دیوار کے پاس ان کھڑا ہوا اور دیوار کے ساتھ کان لگا کر دوسرے کمرے میں ہونے والی کاروائی کو سنے لگا۔
وقاص کو خود بھی چودائی کی بہتری کافی وقت ہو گیا تھا۔ اس لئے اُس کا لن اُس کے پجامے میں کھڑا ہونے لگا۔
اُدھر دوسرے کمرے میں زکیہ اور اکرم وقاص کی گھر واپسی سے بےخبر تھے۔ زکیہ پلنگ پر بالکل ننگی لیٹی ہوئی تھی اور اُس نے اپنی ٹانگوں کو پھیلا رکھا تھا۔
اکرم کا لنڈ مرجھایا ہوا تھا جس کو وہ زکیہ کی پھدی میں ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ لن ڈھیلا ہونے کی وجہ سے چوت سے بار بار پھسل جاتا تھا۔
زکیہ گرم ہو چکی تھی۔ اور لن لانے کے لئے تڑپ رہی تھی، "چودو مجھے اکرم، ڈال بھی دو میری پھدی میں اپنا لن...اااااااا... بجھا دو میری پیاس۔"
اتنی دیر میں اکرم کے لنڈ سے پانی کی دھارا بہ نکلی۔
"آہووووووووووو زکیہ، میرا لن پانی چھوڑ چکا ہے...میں فارغ ہو گیا ہوں، مجھے معاف کر دو...میں تم کو آج بھی اچھی طرح نہیں چود سکا۔"
"اکرم اب معافی کیوں مانگتے ہو...جب اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کی تھی تب کیوں نہیں سوچا...میری زندگی کیوں تباہ کی۔" زکیہ نے سسکتے ہوئے اکرم کو کوسا۔
"میں کتنے مہینوں سے تڑپ رہی ہوں، تم اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے" زکیہ اپنی پھدی کو اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے بولی۔
"زکیہ تمے پتہ ہے میں اپنا دوائی لے رہا ہوں...امید ہے کچھ وقت بعد میرا لن پہلے جیسا ہو جائے گا۔" اکرم شرمندگی سے بولا۔
"جب آدمی بہرہ ہو جائے تو علاج نہیں ہوتا لن کا...اچھا میری چوٹ کی آگ آج پھر اپنی انگلی سے ہی بجھا دو نہیں تو میں مر جاؤں گی اکرم" زکیہ جل گئی۔
اکرم نے آگے بھیڑ کے پہلے زکیہ کو اچھی طرح چوما اور پھر اس کی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنی دو انگلیاں زکیہ کی پھدی میں ڈال دیں۔
زکیہ نے اپنی ٹانگیں اکرم کے ہاتھ پر کس دین اور اپنے مست چھوتڑ اٹھا اٹھا کر اکرم کی انگلی سے اپنی گرم پھدی کو چودوانا شروع کر دیا۔
زکیہ گرم ہو کر بھربڑانے لگی، "آآآآآآآ... ہائی... تیزی سے اپنی انگلو ڈالو میرے اندر... چودو میری پھدی... اکرم میں فارغ ہو رہی ہوں۔"
زکیہ انگلی سے چودائی کرواتے ہوئے چیخ رہی تھی اور اُس کے چٹر پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ زکیہ اپنے تنے ہوئے نپلز کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسل بھی رہی تھی۔ اور پھر کچھ دیر بعد زکیہ بھی چود گئی۔
اُدھر ساتھ والے کمرے میں یہ سب گرم باتیں اور آوازیں سن کر وقاص کا لن بھی اُس کے باس میں نہیں تھا اور وہ زور زور سے اپنے ہاتھ سے اپنے لن کی مٹھ لگا رہا تھا۔
اور پھر وہ بھی مٹھ مارتے مارتے اپنے پجامے میں ہی فارغ ہو گیا۔
اس بات کے باوجود کہ ساتھ والے کمرے میں سے اُتنی والی سسکاریاں اور گرم آہیں اُس کی اپنی سگی چھوٹی بہن کی تھیں۔ وقاص کو نجانے کیوں یہ سب اچھا لگا۔
اس کی وجہ شاید سسکاریوں میں شامل پیساپن تھا یا پھر شاید یہ کہ یہ سسکاریاں اُس کی اپنی سگی بہن کی تھیں۔
جس لڑکی کو بچپن سے لے کر جوانی تک اُس نے صرف بہن کے مقدس رشتے کی حیثیت سے ہی دیکھا، سمجھا اور سوچا تھا۔ آج اُسی بہن کو ایک گرم پیاسی بیوی کے روپ میں سن اور سوچ کر وقاص کو بہت مزہ آیا۔
وقاص کو زکیہ کی سسکاریوں نے پاگل بنا دیا۔ اُس کا باس چلتا تو وہ ان مدھور کر دینے والی سسکریوں کو ٹیپ کر لیتا اور واکمین میں لگا کر دن رات اپنی بہن کی پیاسی آواز کو سنتا رہتا۔
اُدھر دوسرے کمرے میں بوڑھا اکرم اپنی جوان بیوی کی جوانی کی آگ کو اپنی انگلیوں سے تھوڑا سا ٹھنڈا کرنے کے بعد سرحنائے پر سار رکھ کر لیٹ گیا اور لیٹے ہی اُس کو نیند آ گئی۔
زکیہ کا چوت کی پیاس ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے ابھی تک اپنی گڈھاز چوت کے موٹے لبوں کو آہستہ آہستہ مسل رہی تھی۔
اکرم نے اب خراٹے لینا شروع کر دیے۔ زکیہ کو اکرم کے یہ خراٹے زہر لگ رہے تھے۔
وہ بہت غصے میں اکرم کو سوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
جو کد تو اپنے بوڑھے لن کا پانی نکال کر مطمئن ہو گیا مگر اُس کی جوان آگ ابھی تک سلگ رہی تھی۔
اس وقت زکیہ کی حالت آج کال کے نئے پنجابی گیت جیسی تھی۔
"آگ لے کے سانوں عشق دیاں
تے اپ مٹھی نیند سونا آیا"
زکیہ کے جسم کا ہر انگ پیاسا تھا۔ مگر اُس کی پیاس بجنے والا کاب کال تھک ہار کر سو گیا تھا۔
زکیہ بھی اپنی قسمت کو کوستی روز کی طرح پیاسی آخر سو ہی گئی۔
وقاص کو بھی جب زکیہ کے کمرے سے کسی قسم کی آواز آنا بند ہو گئی تو وہ بھی واپس اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔
دوسرے دن وقاص کافی دیر سوتا رہا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو رات والا سارا واقعہ اُس کو دوبارہ یاد آیا۔
چونکہ وقاص کے دماغ پر رات کو چھڑنے والی منی اُس کے لن کے رسٹے کال رات ہی نکل گئی تھی۔
اس لئے اب وقاص کو احساس ہونے لگا کہ اُس نے اپنی بہن اور بہنوئی کی نیت پرائیویٹ باتیں سن کر بہت غلط کی ہے۔
یہ سوچ کر وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے اپنے کمرے سے باہر آیا۔ وہ باتھروم میں جانے کے لئے اکرم اور زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ زکیہ کے کمرے کا دروازہ تھوڑا کھلا تھا۔
اکرم صبح صبح جاب پر چلا چکا تھا۔ زکیہ کمرے میں لگے شیشے کے سامنے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر باندھے سائیڈ پوز میں ایسے کھڑی تھی کہ اُس کے جسم کا رائٹ سائیڈ والا حصہ وقاص کی نگاہوں کے سامنے تھا۔
نیو یارک میں اچھی صحت مند خوراک اور دو کمروں والے اپارٹمنٹ میں کوئی خاص کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے زکیہ کا زیادہ وقت ٹی وی کے سامنے سوفے پر بیٹھ کر فرینچ فرائز (آلو کے چپس) کھاتے اور کوکا کولا پیتے ہی گزرتا تھا۔
جس وجہ سے زکیہ کا پتلا جسم اب کافی بھر گیا تھا۔ اس کے ممائے پہلے سے کافی پھیل کر بڑے ہو گئے اور ان کا سائز دو سالوں میں ہی 38 ہو گیا۔
زکیہ کی گانڈ بھی پیچھے سے کافی بڑی ہو گئی تھی۔ اُس کی گانڈ بالکل کالی (افریقی امریکی) عورتوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے جب زکیہ چلتی تو اُس کی گانڈ پیچھے سے چل چل کرتی اور دیکھنے والوں کے لنوں کا برا حال کر دیتی۔
وقاص کے قدم اپنی بہن کو اپنے سامنے دیکھ کر زمین پر جیسے جم گئے اور وہ بہ گور اپنی بہن کے جسم کا جائزہ لینے لگا۔
زکیہ کے ہاتھ اُس کے ممّوں کے نیچے بندے ہونے کی وجہ سے زکیہ کے ممّے اُوپر کی طرف اُٹھ گئے تھے اور سائیڈ پوز میں دیکھنے سے وقاص کو زکیہ کے بڑے بڑے گداز ممّے اُس کی قمیض سے اور بھی نمیاں اور بڑے نظر آ رہے تھے۔
تھوری ہیل والی جوتی پہنے کی وجہ سے زکیہ کی مست گانڈ پیچھے سے اور زیادہ اُٹھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
اور زکیہ کے بڑے چٹر کا ابھار وقاص کو زکیہ کی بڑے چک والی قمیض سلوار میں سے بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔
اپنی بہن کو کمرے میں ایسے اسٹائل میں کھڑا دیکھ کر وقاص کے ذہن میں رات والی ساری باتوں ایک فلم کی طرح دوبارہ دور گئیں اور اُس کا لن جو پیشاب آنے کی وجہ سے پہلے ہی اُس کے پجامے میں فل کھڑا تھا مزید شکت ہو گیا۔
اس سے پہلے زکیہ کی نظر وقاص اور پجامے میں کھڑے اُس کا لن پر پڑتی۔ وقاص جلدی سے باتھروم میں چلا آیا۔
باتھروم میں جب وقاص نے پیشاب کیا تو لن پورے کھڑا ہونے کی وجہ سے پہلے تو اُس کا پیشاب ہی نہیں نکل رہا تھا مگر پھر جب نکلا تو کھڑے لن کی وجہ سے اُس کے پیشاب کی دھار دور تک گئی۔
پیشاب سے فارغ ہونے پر وقاص کے لن کو تھوڑا سکون تو ملا مگر اب بھی اُس کا لن پجامے میں بیٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
وقاص اب اپنی بہن کے نام مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا اس لئے وہ باتھروم کے کموڈ پر بیٹھ کر اپنے لن کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب تھوڑی دیر بعد اس کا لن تھوڑا دھیلا پڑ گیا تو وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر آ گیا۔
وقاص دوبارہ زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا پڑا ہے اور زکیہ کمرے میں نہیں۔
تبھی اُسے کِچن سے آواز آئی تو اُسے زکیہ کی کِچن میں موجودگی کا پتہ چلا وقاص کِچن کی طرف چل پڑا۔
وقاص جیسے ہی کِچن میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اپنے کانوں پر واکمین کا ہیڈفون لگاے گانے سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ چولے کے سامنے کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی۔ زکیہ کا منہ چولے کی طرف ہونے کی وجہ سے اس کی باہر نکلی ہوئی بڑی اور موٹی گانڈ وقاص کی بھوکی نظروں کے سامنے تھی۔
وقاص نے کِچن کے دروازے پر کھڑے کھڑے تھوڑی دیر اپنی بہن کی مست گانڈ دیدار کیا اور پھر زکیہ کو آواز دی۔
وقاص: "زکیہ میری چائے بھی بنا دینا۔"
زکیہ کو کانوں میں لگے ہیڈفون کی وجہ سے آواز نہیں سنائی دی تو وقاص چپکے سے زکیہ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
ہاتھ زکیہ کے کندھے پر رکھتے ہی وقاص کو ایسے لگا جیسے اس نے کسی گرم چیز کو چھو لیا ہے۔ زکیہ کا پیسا جسم اب بھی دھک رہا تھا۔ زکیہ جو کہ اپنے آپ میں مگن تھی بھی کہ ہاتھ کو اپنے کندھے پر اچانک محسوس کر کے ایک دم سے چونک کر پلٹی اور اس نے اپنا منہ وقاص کی طرف گھما لیا اور بولی "کون".
"اوہ بھائی تم کب اُٹھے گئے" کہتے ہوئے زکیہ نے اپنے کانوں سے ہیڈفون اُتار کر سائیڈ پر رکھ دیا۔
"زکیہ لگتا ہے جیسے تم کو بخار ہے، تمہارا جسم تو آگ کی بھاٹی کی طرح دھک رہا ہے۔ تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو، میں خود ناشتہ بنا لوں گا۔"
"نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں، بس شاید چولے کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے جسم تھوڑا گرم ہو گیا ہے" زکیہ نے وقاص سے کہا۔
اب بالا زکیہ کیسے اپنے بھائی سے کہتی کہ اس کے جسم میں یہ گرمی کیسی اور کس چیز کے لئے ہے۔
"اچھا ٹھیک ہے تم میرا ناشتہ بھی بنا دو، مجھے باہر کام سے جانا ہے" کہتا ہوا وقاص کِچن سے باہر چلا آیا۔
وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اُس کی بہن کے بدن کی تپش کی وجہ کِچن کا چولے نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
بہن کے پیسے بدن کی آگ کو بجھانے کا سامان تو اُس کے پاس تھا مگر بہن بھائی کے مقدس رشتے میں بندے ہونے کی وجہ سے وقاص بہت ہی بے بس تھا۔
جب سے زکیہ نیو یارک آئی تھی، اُس کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا۔ اکثر اُس کو مہینے میں کبھی کبار ایک دفعہ کسی دیسی کہانی پر کھانے پینے کی چیزیں لانے یا کبھی کسی امریکن ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر گھر کا سامان خریدنے کے لئے ساتھ لی جاتا۔ اس سے زیادہ اکثر زکیہ کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس لئے ان دو سالوں میں زکیہ کے لئے نیو یارک یا امریکا صرف ان کے اپارٹمنٹ کے دو کمرے ہی تھے۔
ایک وجہ یہ تھی کہ زکیہ اور اکرم کی عمر میں زمین آسمان کا فرق ہونے کی وجہ سے اکرم کو جوان لڑکے لڑکیوں کی طرح گھومنا پھرنا پسند نہیں تھا۔
دوسرا عمر کے فرق کی وجہ سے اکرم زکیہ پر شک بھی کرتا تھا۔ اکرم کو یہ انجانہ ڈر بھی لگا رہتا کہ اگر اُس نے زکیہ کو باہر گھومنے کی آزادی دی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ اپنا تعلق فٹ کر لے۔ اس لئے اُس نے کبھی زکیہ کو اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔
وقاص کو اکرم کی یہ عادت پسند نہیں تھی مگر وہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کچھ بول کر گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے اکرم سے کبھی اس سلسلے میں بات نہ کی۔
اُس رات کے واقعے کے بعد اگلے دن اکرم جاب پر کھڑا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
اکرم شادی کے پہلے دن سے لے کر آج تک صرف اور صرف اپنے بڑھے لن کا پانی نکالتا اور سو جاتا۔ اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ زکیہ کی بھی جنسی تسلی ہوئی یا نہیں۔
اکرم یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اگر کسی جوان عورت کا شوہر اپنی بیوی کی چودائی میں تسلی نہ کر سکے تو پھر مجبوراً ایک نہ ایک دن وہ عورت گھر سے باہر اپنا منہ مارنے لگتی ہے۔
اس بات کو سوچ کر اکرم رات والے بات سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا اور اُس نے اُس دن کے بعد زکیہ کا اپنے اور وقاص کے ساتھ گھر سے باہر جانا بند کر دیا۔
یہ بات زکیہ کو پسند نہ آئی مگر وہ ایک مشرقی بیوی کی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گئی۔
اس طرح دو مہینے مزید گزر گئے۔ اب زکیہ اپنے گھر میں بالکل ایک قیدی جیسی زندگی گزار رہی تھی۔
اکرم گھر کے سامان کے ساتھ ساتھ زکیہ کے روزمرہ استعمال کی چیزیں بھی خود کی کرید کر لاتا تھا۔ زکیہ کا اس ماحول میں دم گھٹنے لگا مگر وہ پھر بھی خاموش رہی۔
ایک صبح جب وقاص کام سے گھر واپس آ رہا تھا کہ اُس کو گھر سے فون آیا۔
"بھائی تم کدھر ہو، جلدی سے گھر آ جاؤ" دوسری طرف سے زکیہ کی روتی ہوئی آواز وقاص کے کانوں میں پڑی۔
اتنی دیر میں وقاص گھر کے بالکل سامنے پہنچ گیا تھا وہ ٹیکسی کو پارک کرکے دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اکرم کے پاس بستر پر بیٹھی رو رہی ہے۔
وقاص نے جلدی سے آگے بڑھ کر اکرم کے جسم کو ہاتھ لگایا تو محسوس کیا کہ اکرم کا جسم بالکل ٹھنڈا پڑا ہے اور اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں۔
وقاص نے فوراً 911 (ایمرجنسی والوں) کو کال کی۔ کال کرنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی ایمبولینس والے گھر پہنچ گئے۔ اُنوں نے اکرم کو چیک کیا اور وقاص اور زکیہ کو بتایا کہ رات کو اکرم کی شوگر لو ہونے کی وجہ سے اُس کا سوتے میں ہی انتقال ہو گیا ہے۔
وقاص، اور خاص طور پر زکیہ پر یہ بات بجلی بن کر گری۔
اکرم جیسیا بھی تھا آخر اُس کا شوہر تھا اور اب وہ بھاری جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ زکیہ بہت روئی مگر اکرم تو اُس سے دور جا چکا تھا۔ پاکستان میں اکرم کا کوئی اور رشتہ دار تو تھا نہیں اس لئے اُس کو نیو یارک میں ہی دفن کر دیا گیا۔
Comment