Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مجبوری کا فیصلہ

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    سن 1991

    وقاص کو امریکا آئے ہوئے چار سال ہو گئے تھے اور اب وقاص امریکن شہری سے شادی کی وجہ سے خود بھی امریکن شہری بن گیا۔ جس کے بعد وقاص نے اپنی پیپر شادی ختم کر دی۔

    وقاص اور اکرم اب بروکلین میں کونی آئی لینڈ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں پاکستانی کمیونٹی کافی تعداد میں آباد ہے۔

    اکرم ابھی تک پیٹرول اسٹیشن پر جاب کر رہا تھا جب کے وقاص نے اب ییلو کیب (ٹیکسی) چلانی شروع کر دی تھی۔

    ایک شام وقاص جاب سے واپس گھر آیا تو دیکھا کے اکرم ہاتھ میں فون تھمے کافی پریشان بیٹھا ہے۔

    اکرم نے لاہور میں اپنے گھر ایک مہینے پہلے ہی فون لگایا تھا اور اس کی ہفتے میں دو تین دفعہ زکیہ سے بات ہوتی تھی۔

    وقاص، اکرم کی بات سن کر خاموش ہو گیا اس کو پتا تھا کے اکرم اب کسی صورت پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا تھا اور زکیہ کا امریکا آنا ناممکن تھا۔

    لیکن اس کا ایک حل ہے جس کے لیے تجھے ایک قربانی دینا ہو گی۔

    "وو کیسے" وقاص نے بے چین ہوتے ہوئے پوچھا۔

    "چوہدری صاحب آپ کھل کر کہیں مجھ سے جو ہو سکا میں اپنی بہن کے لئے وہ ضرور کروں گا" وقاص نے اکرم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔

    "اس کا ایک ہی حل ہے کہ تو زکیہ کے ساتھ نقلی شادی کے پیپر بنوائے اور اس کا ویزا اپنی بیوی کی حیثیت سے اپلائی کرے۔"

    وقاص کے قدموں کے نیچے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔

    "چوہدری صاحب آپ یہ کیا کہ رہے ہو" وقاص نے غصے سے اکرم کو گھورتے ہوئے کہا۔

    آج کل کافی لوگ اسی طرح اپنے دوست کی بیوی، اپنی بھابھی اور تو اور اپنی سگی بھانجی کو اپنی بیوی بنا کر یورپ اور امریکا لا رہے ہیں۔

    "اس طرح کے واقعات کے بارے میں میں نے بھی سنا ہے مگر زکیہ اور میں بہن بھائی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے، نہیں چوہدری صاحب یہ بات نہیں ہو سکتی" وقاص نے اکرم کو صاف جواب دیا۔


    وقاص کو خاموش دیکھ کر اکرم بولا، "وقاص تم اب بچے نہیں تمہیں پتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ اور تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ مجھے تمہاری بہن سے جدا ہوئے چار سال ہو گئے ہیں اور اب تمہاری بہن سے یہ دوری مزید برداشت نہیں ہو رہی۔ مجھے ڈر ہے کہ اس دوری کی وجہ سے تمہاری بہن زکیہ گمراہ نہ ہو جائے۔"

    وقاص کو سمجھ تھی کہ اکرم کی اس بات کا کیا مطلب ہے۔

    وقاص اکرم کی یہ دھمکی سن کر ڈر گیا۔ وو کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی اس بہن کو جس نے اپنے پورے خاندان کے لیے قربانی دی تھی اب اس کا گھر اس طرح ٹوٹ جائے۔ وقاص ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔

    یہ کہ کر وقاص اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دو دن اس نے اس بارے میں کافی سوچا اور پھر نچاہتے ہوئے بی اس کو اکرم کی بات پر ہاں کر دی۔

    اکرم نے فون پر زکیہ سے اس بات کا ذکر کیا۔ یہ بات سن کر زکیہ کے بھی ہوش اڑ گئے۔

    اسے نہیں پتا تھا کہ اپنے شوہر کے پاس آنے کے لئے اس کو اپنے ہی سگے بھائی کی جعلی بیوی بنانے کا اتنا بڑا قدم بھی اُٹنا پڑے گا۔ زکیہ کے لئے یہ بھی ایک "مجبوری کا فیصلہ" تھا۔

    زکیہ نے اس بات کا اپنی ماں شریفہ بی بی سے ذکر کیا تو وہ بی ہل کر رہ گئی۔
    شریفہ بی بی غصے سے کانپنے لگی۔ اس کے باس میں ہوتا تو وہ اکرم کا منہ نوچ لیتی۔
    زکیہ نے یہ کہ کر شرم سے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔

    شریفہ بی بی سمجھ گئی کہ اس کی بیٹی کی جوان چوت اب لوڑے سے مزید دور نہیں رہ سکتی اور اگر اس کی بات نہ منی تو وہ لاہور میں ہی اپنے لیے کسی لن کا بندوبست کر لے گی۔

    شریفہ بی بی نے اپنے شوہر بابا رحمت سے بات کی اور کافی بحث کے بعد وہ بی آخر کار اس بات پر راضی ہو گئی۔

    کچھ دنوں بعد وقاص پاکستان آیا۔ اس کے ماں باپ اور اس کی تینوں بڑی بہنیں جو کہ لاہور وقاص سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔ وہ سب وقاص سے مل کر بہت خوش ہوئے۔

    سب سے مل کر جب وقاص گھر کے ڈرائنگ روم میں پانی وانی پی کر بیٹھ گیا تو اس کی نظریں اس کی چھوٹی بہن زکیہ کو تلاش کرنے لگیں مگر زکیہ اُسے نظر نہ آئی۔

    "امی زکیہ کہیں باہر گئی ہے" وقاص نے ماں سے پوچھا۔

    "نہیں وہ اپنے کمرے میں ہے بیٹا پتہ نہیں وہ کیوں تمہارے سامنے آنے سے گبرا رہی ہے" ماں نے جواب دیا۔

    "اچھا میں خود ہی اُس کو مل لیتا ہوں امی" یہ کہتے ہوئے وقاص زکیہ کو ملنے اُس کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

    "ٹھک ٹھک ٹھک" وقاص نے کمرے کے بند دروازے پر ناک کیا۔

    جووں ہی زکیہ نے دروازہ کھولا اور اس کی نظر اپنے بھائی وقاص پر پڑی تو زکیہ کی تو جیسے سانس ہی رک گئی۔ وہ جس سے چھپ کر کمرے میں ڈبکی بہتی تھی اس سے یوں اچانک سامنا ہو جائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔

    آج چار سال بعد وقاص اس کے سامنے ایک بھائی کے روپ میں نہیں بلکہ اس کا "ہونے والا جیہلی شوہر" کی حیثیت سے کھڑا تھا۔

    زکیہ اب اور تو کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لئے وہ بس شرما کر رہ گئی۔

    وقاص نے بھی چار سال بعد اپنی بہن کو دیکھا۔

    زکیہ اب وہ پہلے والی 18 سالہ لڑکی نہیں تھی جس کو وقاص 4 سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔

    اب وقاص کے سامنے ایک 22 سال کی شادی شدہ عورت کھڑی تھی۔

    ان چار سالوں میں زکیہ کا رنگ روپ پہلے سے زیادہ نکل آیا تھا۔ اس کا جسم پہلے سے تھوڑا اور بھر گیا تھا جس کا اثر اس کے کمیز سے باہر آتے ہوئے ماموں میں صاف نظر آ رہا تھا۔ جن کا سائز اب 36 ہو گیا تھا۔ اس کے کھلے بھی ٹھوٹے اور چوڑے ہو گئے تھے۔
    زکیہ وقاص سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
    "میں ٹھیک ہوں، آپ کسے ہیں بھائی" زکیہ نے آہستہ سے پوچھا۔
    "میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ہٹا کٹا"۔ وقاص بولا۔

    زکیہ کچھ نہ بولی اور نگاہیں نیچے کی۔ بس فراش کو ہی دیکھتی رہی۔ جس بھائی سے وہ بچپن سے لیکر جوانی تک باتیں کرتی نہیں تھکتی تھی آج اُسی بھائی سے بات کرنے کا زکیہ کا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا۔

    وقاص سمجھ گیا کہ زکیہ اُس سے گھبرا رہی ہے تو وہ اُس سے بات کرنے کا بہانہ کر کے واپس چلا آیا۔

    وقاص کے واپس آنے کی وجہ سے بابا رحمت کے گھر میں جیسے رونق سی آ گئی تھی۔ اُس کے سب بچے اُس کے ساتھ تھے اور وقاص اپنی سب بہنوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کر رہا تھا۔

    کچھ دن گزرے تو زکیہ کی وقاص سے گھبراہٹ بھی تھوری کم ہو گئی اور وہ اب وقاص سے تھوڑا کھل کر باتیں کرنے لگی۔ وقاص نے اکرم کے بتائے ہوئے بندے سے رابطہ کیا۔ جس نے وقاص کو زکیہ کا "جیہلی نکا نام، جیہلی برتھ سرٹیفیکیٹ، اور چنکھتی کارڈ" بنا کر دیا۔ جس کی وجہ سے زکیہ کا پاسپورٹ "زکیہ وقاص" کے نام سے بن گیا۔

    اب سب پیپرز تو مکمل ہو گئے۔ مگر اب وقاص اپنی اور بہن کی "جیہلی شادی" کچھ تصاویر بھی بنا چاہتا تھا۔ تاکہ کل کو اگر ایمبیسی والے ویزا انٹرویو کے وقت کچھ ثبوت مانگے تو وہ ان تصاویر کو انٹرویو کے وقت (ثبوت کے طور پر) ویزا آفیسر کو دکھا سکے۔

    اس لئے وقاص نے ایک دن اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی۔

    گھر کے ایک بڑے کمرے کو شادی والا گھر کی طرح سجایا گیا۔

    بابا رحمت اُس کی بیوی اور وقاص کی بڑی بہنیں سب ایسے تیار ہوئے جیسے شادی پر لوگ تیار ہوتے ہیں۔

    وقاص اور زکیہ بھی دولہا اور دلہن کی طرح تیار ہوئے۔ جلدی میں زکیہ کو اور تو کچھ پہنے کو نہ ملا تو اُس نے اپنے گھر میں ہی پڑا ہوا اپنی بڑی بہن کا پرانا لہنگا پہن لیا۔

    جس کی چولی زکیہ کو چٹیوں سے تانگ تھی۔ زکیہ اپنی دو بہنوں کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور وقاص ان کی فوٹو کنچ رہا تھا۔

    ایک دو تصویریں کنکوانے کے بعد جب زکیہ کرسی سے اُٹنے لگی تو اُس کی چولی سامنے سے تھوڑی پھٹ گئی۔ جس کی وجہ سے اُس کے گورے ممے انڈے سے زیادہ ننگے ہو گئے۔

    وقاص جلدی جلدی فوٹو پہ فوٹو کھنچ رہا تھا۔ وقاص کی انگلی کیمرہ کا بٹن کو بار بار دبا رہی تھی۔

    اس سے پہلے کے زکیہ اپنے ڈپٹے سے اپنے اُڑیاں مموں کا کور کرتی، وقاص کی تیزی سے بٹن پر چلتی ہوئی انگلیوں نے اُس حسین منظر کو کیمرہ کی ظالم آنکھوں میں محفوظ کر لیا۔

    اُس وقت وقاص کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ اُس نے کس پوز میں اپنی بہن کی فوٹو اپنے کیمرے میں سےو کر لی ہے۔


    پھر وقاص نے کیمرا اپنی بڑی بہن ریحانہ کو دیا اور خود زکیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا اور ریحانہ ان دونوں کی ایک ساتھ فوٹو کنچانے لگی۔

    یوں سب گھر والوں کے سامنے اپنے ہی سگے بھائی کے ساتھ اس طرح دلن بان کر بیٹھنے اور فوٹو اُٹھوانے سے زکیہ خوش تو نہ تھی مگر اس کو یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے مجبوران کرنا پڑا تھا۔

    دو مہینے پاکستان رہنے کے بعد وقاص واپس نیو یارک آیا اور اس نے آتے ہی زکیہ کی امیگریشن پیٹیشن فائل کر دی۔

    تقریباً ایک سال بعد زکیہ کی انٹرویو ڈیٹ اسلام آباد ایمبیسی میں آ گئی۔ اکرم اور زکیہ بہت خوش تھے کہ بہت جلد ہی ان دونوں کا دوبارہ ملنے والا ہے۔

    وقاص نے بھی دوبارہ پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ ویزا حاصل کرنے کے بعد وہ زکیہ کو ساتھ ہی امریکا لے آئے۔

    پاکستان جانے سے دو دن پہلے وقاص نے فوٹو اسٹوڈیو سے پاکستان والی تصویر کو پرنٹ کروایا۔

    شام کا اندھیرا تھوڑا ہو رہا تھا اور ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے تھوڑی سردی بھی ہو رہی تھی۔

    وقاص اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر سب فوٹوز کو ایک ایک کر کے دیکھنے لگا۔

    جیسے ہی اس کی نظر اپنی بہن زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی تصویر پر پڑی، اس کا دل تو جیسے دھڑکن ہی بھول گیا۔

    اس کو سمجھ نہ آئی کہ اُس نے کب اور کسے یہ تصویر کنچی تھی۔

    وقاص نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی کسی بھی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا اس لئے یوں اچانک اس نے یہ تصویر دیکھی تو وہ سمجھ نہ پایا کہ وہ کیا کرے۔

    وہ تو بس اپنی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اپنی سگی بہن کے جوان گورے اور خوبصورت ممے کا نہ چاٹتے ہوئے بناورا کرنے لگا۔

    اس کو تھوڑی سردی میں بھی پسینہ آنے لگا اور اس کے جسم میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔

    اس کی نظریں اپنی بہن کی نیم ننگی چھاتیوں پر جمی ہوئی تھیں اور اُس کا لن اُس کی پینٹ میں خود بخود کھڑا ہو گیا۔

    وقاص فوٹو کو دیکھنے میں مگن تھا کہ ایسے میں گھر سے اکرم کا فون آیا جو اس کا کھانے پر انتظار کر رہا تھا۔

    وقاص نے ٹیکسی فوراً گھر کی طرف موڑ لی۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے زکیہ کی پھٹی ہوئی چولی والی فوٹو باقی فوٹوز سے الگ کر کے اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال لی۔

    وقاص نے اکرم کو باقی فوٹوز دیکھائیں اور اس کے بعد دونوں نے مل کر شام کا کھانا ایک ساتھ کیا۔

    سن 1992

    وقاص کے پاکستان آنے کے ایک ہفتے بعد ہی زکیہ اور وقاص لاہور سے اسلام آباد ویزا انٹرویو کے لئے روانہ ہوئے۔

    وہ دونوں انٹرویو کے وقت سے کافی پہلے اسلام آباد پہنچ گئے تھے، اس لئے وہ ایمبیسی کی پارکنگ لاٹ میں ہی اپنی گاڑی میں بیٹھے انٹرویو کا وقت کا انتظار کر رہے تھے۔

    وقاص محسوس کر رہا تھا کہ زکیہ کافی نروس لگ رہی ہے۔

    "مگر کبھی کبھی وہ کچھ خاص چیزوں کے بارے میں بھی پوچھ لیتے ہیں"، وقاص اپنی بہن کو چھیڑ کر انجوائے کرنے کے موڈ میں تھا۔

    زکیہ اپنے بھائی کے منہ سے "خاص چیزوں" والے الفاظ پر زور کو سمجھ گئی مگر اس نے جان بوجھ کر انجان بنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا: "کیا مطلب کون سی خاص چیزیں بھائی؟"
    وقاص، جو اپنی بہن کے شرمندہ ہونے کا انتظار میں تھا، اب خود جسے شرمندہ ہو گیا۔

    اس کو اپنی بہن سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ مگر اس نے بھی ہار نہ منی اور فوراً بولا۔

    "شاید تمہارے علم میں نہ ہو کہ اگر آپ امریکا میں شادی کر کے گرین کارڈ حاصل کرتے ہیں تو امیگریشن افسر کبھی کبھی لڑکا اور لڑکی کو انٹرویو کے وقت الگ بلا کر ان سے ایسے سوال پوچھ لیتا ہے۔ اور یہ میرے ساتھ اس وقت ہو چکا ہے جب میں نے اپنے گرین کارڈ حاصل کیا تھا۔

    یہ عام طور پر ایسے وقت ہوتا ہے جب امیگریشن افسر کو شک ہو کہ شاید یہ پیپر میرج ہے اور لڑکا/لڑکی دونوں الگ ملک اور مذہب سے ہوں۔
    ہو سکتا ہے کہ یہ بات ہمارے ساتھ نہ ہو کیونکہ ہم دونوں پاکستانی ہیں۔

    مگر پھر بھی اگر افسر مجھ سے تمہارے جسم کے کسی خاص حصے پر کوئی نشان کا پوچھے گا تو میں ان کو بتاؤں گا کہ تمہاری بائیں چھاتی کے اوپر ایک تِل ہے۔"

    اپنے بھائی کے منہ سے یہ بات سن کر زکیہ کا منہ شرم سے لال ہو گیا۔


    اُس نے بے اختیاری میں جلدی سے اپنے سینے کو دوپٹے سے ڈانپا اور بولی: "آپ کو کیسے پتا ہے یہ بات؟"

    وقاص اُس کی حرکت سے محزوز ہو رہا تھا۔ اُس نے ہنستے ہوئے اپنی قمیض کی پاکٹ سے فوٹو نکالی اور زکیہ کی گود میں پھینک دی۔

    زکیہ نے اپنے جوانے سینے کو فوٹو میں اس طرح اُڑیاں دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اُس کا بھائی اُس کی حسین چھاتیوں کا دیدار کر چکا ہے۔

    یہ بات سوچ کر تو وہ بھی شرما کر رہ گئی۔

    "زکیہ، مجھے تو تمہارے جسم کے ایک پوسیدہ حصے پر پڑے نشان کا علم ہو گیا ہے، کیا اب تم بھی میرے کسی مخصوص نشان کو جاننا چاہتی ہو؟" وقاص نے اپنی بہن کو پھر چھیڑتے ہوئے پوچھا۔

    زکیہ وقاص کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر گاڑی سے باہر نکل گئی۔

    وقاص کی اُس بات نے اُس کے دل اور جسم میں گرمی سی آ گئی۔


    اتنی دیر میں زکیہ کے انٹرویو کا وقت ہو گیا۔ انٹرویو خیریت سے ہوا اور زکیہ کو اُسی دن امریکا کا ویزہ ایشو ہو گیا۔

    زکیہ بہت خوش تھی، اب اُس کا اکرم سے دوبارے ملنے کا وقت قریب تھا۔

    ویزہ ملنے کے اگلے ہفتے وقاص اور زکیہ امریکا پہنچ گئے۔ جہاں اکرم نے اب ایک دو بیڈروم اور دو باتھروم کا ایپارٹمنٹ کرایا تھا جس میں وہ سب اکتے رہنے لگے۔

    وقاص، اکرم اور اپنی بہن زکیہ کو آپس میں ملنے کا پورا موقع دینا چاہتا تھا۔

    اس لئے اُس نے رات کو ٹیکسی چلانے شروع کر دی اور دن کو گھر میں سوتا جب کہ اکرم دن کو جاب کرتا۔

    اس طرح اکرم اور زکیہ رات کو گھر میں اکیلے ہوتے۔ اب 23 سالہ جوان لڑکی زکیہ اور 49 سالہ بوڑھے اکرم کی چودائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

    اکرم ہر روز رات کی زکیہ کی جوان چوت میں اپنا بڈھا لن ڈالتا اور اپنی بیوی کی گرم چوت کی گرم آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا۔

    زکیہ کو بھی لن کا ایسا چسکا لگا کہ اگر ایک دن بھی لن نہ ملے تو اُسے رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اس طرح سے اُن کی زندگی کی گاڑی آگے چل پڑی۔


    1994

    زکیہ کو نیو یارک دو سال ہو گیا۔ مگر اب تک اُس کو اولاد کی نعمت نصیب نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے وہ 25 سال کی جوان، صحتمند عورت تھی اور اکرم اب 51 سال کا بوڑھا اور کمزور مرد تھا، جو اب کافی بیمار رہنے لگ گیا۔

    ایک دن اکرم نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا تو اُسے پتا چلا کہ اُسے ڈائیبیٹیس ہو گئی ہے اور اُس کی شوگر کافی زیادہ ہے۔ اکرم نے شوگر کی دوائی لینا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ اکرم پہ نہ صرف بڑھاپے بلکہ شوگر کی بیماری نے بھی اپنا اثر چھوڑنا شروع کر ہی دیا۔

    اب اُس کے لن میں پہلے جیسی طاقت بھی نہ رہی۔ اب بڑی مشکل سے ہی اُس کا لن کھڑا ہو پاتا تھا اور دو چار دھکوں کے بعد ہی لن پانی چھوڑ دیتا۔

    اسی دوران زکیہ کو تو ابھی ابھی جوان کا مزہ آنا شروع ہوا تھا۔

    اُسے چودائی میں نیا نیا مزہ آنے لگا تھا کہ اکرم کا لن اُس کو چودائی کے بیچ میں پانی چھوڑنے لگا جس کی وجہ سے زکیہ کی چوت کی پوری تسلی نہ ہو پاتی۔

    ایک رات وقاص کی ٹیکسی خراب ہو گئی تو وہ جلدی گھر واپس آ گیا۔ اُس نے خاموشی سے اپارٹمنٹ کے باہر کا دروازہ کھولا اور اندر چلا آیا۔ رات کا 1 بج رہا تھا اور اکرم اور زکیہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ اس لئے وقاص آہستہ سے اپنے بیڈروم میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ آج کافی سالوں بعد رات کو سونے کے لئے لیٹا تھا مگر اُس کو نیند نہیں آ رہی تھی۔
    کچھ دیر بعد وقاص کو ساتھ والے بیڈروم سے کچھ آواز آنے لگی جس کو سن کر وقاص کے کان کھڑے ہو گئے۔ وقاص اور اکرم کے بیڈ روم کی دیوار آپس میں جڑی ہوئی تھی۔

    (امریکہ میں مکان لکڑی کے بنے ہوتے ہیں جن کی اندر کی دیواریں پلايووڈ کی ہونے کی وجہ سے پتلی ہوتی ہیں۔ جس وجہ سے گھر اور خاص طور پر اپارٹمنٹس میں لوگوں کی پرائیویسی نہیں رہتی۔)

    پہلی آہٹ کے بعد تھوڑی سی خاموشی ہوئی اور پھر دوبارہ ساتھ والے کمرے سے ایک سسکاری کی آواز وقاص کے کانوں میں گھونجی۔

    "آهہہہہہ...ہائی...تیزی سے کرو...زور سے...زور سے چودو مجھے اکرم..."
    وقاص چونک پڑا۔ وقاص سمجھ گیا کے اکرم اُس کی بہن زکیہ کی چودائی کر رہا ہے۔

    وہ جلدی سے اپنے بستر سے اٹھا کر دیوار کے پاس ان کھڑا ہوا اور دیوار کے ساتھ کان لگا کر دوسرے کمرے میں ہونے والی کاروائی کو سنے لگا۔
    وقاص کو خود بھی چودائی کی بہتری کافی وقت ہو گیا تھا۔ اس لئے اُس کا لن اُس کے پجامے میں کھڑا ہونے لگا۔

    اُدھر دوسرے کمرے میں زکیہ اور اکرم وقاص کی گھر واپسی سے بےخبر تھے۔ زکیہ پلنگ پر بالکل ننگی لیٹی ہوئی تھی اور اُس نے اپنی ٹانگوں کو پھیلا رکھا تھا۔
    اکرم کا لنڈ مرجھایا ہوا تھا جس کو وہ زکیہ کی پھدی میں ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ لن ڈھیلا ہونے کی وجہ سے چوت سے بار بار پھسل جاتا تھا۔
    زکیہ گرم ہو چکی تھی۔ اور لن لانے کے لئے تڑپ رہی تھی، "چودو مجھے اکرم، ڈال بھی دو میری پھدی میں اپنا لن...اااااااا... بجھا دو میری پیاس۔"
    اتنی دیر میں اکرم کے لنڈ سے پانی کی دھارا بہ نکلی۔

    "آہووووووووووو زکیہ، میرا لن پانی چھوڑ چکا ہے...میں فارغ ہو گیا ہوں، مجھے معاف کر دو...میں تم کو آج بھی اچھی طرح نہیں چود سکا۔"

    "اکرم اب معافی کیوں مانگتے ہو...جب اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کی تھی تب کیوں نہیں سوچا...میری زندگی کیوں تباہ کی۔" زکیہ نے سسکتے ہوئے اکرم کو کوسا۔

    "میں کتنے مہینوں سے تڑپ رہی ہوں، تم اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے" زکیہ اپنی پھدی کو اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے بولی۔

    "زکیہ تمے پتہ ہے میں اپنا دوائی لے رہا ہوں...امید ہے کچھ وقت بعد میرا لن پہلے جیسا ہو جائے گا۔" اکرم شرمندگی سے بولا۔

    "جب آدمی بہرہ ہو جائے تو علاج نہیں ہوتا لن کا...اچھا میری چوٹ کی آگ آج پھر اپنی انگلی سے ہی بجھا دو نہیں تو میں مر جاؤں گی اکرم" زکیہ جل گئی۔

    اکرم نے آگے بھیڑ کے پہلے زکیہ کو اچھی طرح چوما اور پھر اس کی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنی دو انگلیاں زکیہ کی پھدی میں ڈال دیں۔

    زکیہ نے اپنی ٹانگیں اکرم کے ہاتھ پر کس دین اور اپنے مست چھوتڑ اٹھا اٹھا کر اکرم کی انگلی سے اپنی گرم پھدی کو چودوانا شروع کر دیا۔
    زکیہ گرم ہو کر بھربڑانے لگی، "آآآآآآآ... ہائی... تیزی سے اپنی انگلو ڈالو میرے اندر... چودو میری پھدی... اکرم میں فارغ ہو رہی ہوں۔"


    زکیہ انگلی سے چودائی کرواتے ہوئے چیخ رہی تھی اور اُس کے چٹر پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ زکیہ اپنے تنے ہوئے نپلز کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسل بھی رہی تھی۔ اور پھر کچھ دیر بعد زکیہ بھی چود گئی۔

    اُدھر ساتھ والے کمرے میں یہ سب گرم باتیں اور آوازیں سن کر وقاص کا لن بھی اُس کے باس میں نہیں تھا اور وہ زور زور سے اپنے ہاتھ سے اپنے لن کی مٹھ لگا رہا تھا۔
    اور پھر وہ بھی مٹھ مارتے مارتے اپنے پجامے میں ہی فارغ ہو گیا۔


    اس بات کے باوجود کہ ساتھ والے کمرے میں سے اُتنی والی سسکاریاں اور گرم آہیں اُس کی اپنی سگی چھوٹی بہن کی تھیں۔ وقاص کو نجانے کیوں یہ سب اچھا لگا۔

    اس کی وجہ شاید سسکاریوں میں شامل پیساپن تھا یا پھر شاید یہ کہ یہ سسکاریاں اُس کی اپنی سگی بہن کی تھیں۔
    جس لڑکی کو بچپن سے لے کر جوانی تک اُس نے صرف بہن کے مقدس رشتے کی حیثیت سے ہی دیکھا، سمجھا اور سوچا تھا۔ آج اُسی بہن کو ایک گرم پیاسی بیوی کے روپ میں سن اور سوچ کر وقاص کو بہت مزہ آیا۔

    وقاص کو زکیہ کی سسکاریوں نے پاگل بنا دیا۔ اُس کا باس چلتا تو وہ ان مدھور کر دینے والی سسکریوں کو ٹیپ کر لیتا اور واکمین میں لگا کر دن رات اپنی بہن کی پیاسی آواز کو سنتا رہتا۔

    اُدھر دوسرے کمرے میں بوڑھا اکرم اپنی جوان بیوی کی جوانی کی آگ کو اپنی انگلیوں سے تھوڑا سا ٹھنڈا کرنے کے بعد سرحنائے پر سار رکھ کر لیٹ گیا اور لیٹے ہی اُس کو نیند آ گئی۔

    زکیہ کا چوت کی پیاس ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے ابھی تک اپنی گڈھاز چوت کے موٹے لبوں کو آہستہ آہستہ مسل رہی تھی۔

    اکرم نے اب خراٹے لینا شروع کر دیے۔ زکیہ کو اکرم کے یہ خراٹے زہر لگ رہے تھے۔

    وہ بہت غصے میں اکرم کو سوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
    جو کد تو اپنے بوڑھے لن کا پانی نکال کر مطمئن ہو گیا مگر اُس کی جوان آگ ابھی تک سلگ رہی تھی۔

    اس وقت زکیہ کی حالت آج کال کے نئے پنجابی گیت جیسی تھی۔

    "آگ لے کے سانوں عشق دیاں
    تے اپ مٹھی نیند سونا آیا"

    زکیہ کے جسم کا ہر انگ پیاسا تھا۔ مگر اُس کی پیاس بجنے والا کاب کال تھک ہار کر سو گیا تھا۔

    زکیہ بھی اپنی قسمت کو کوستی روز کی طرح پیاسی آخر سو ہی گئی۔

    وقاص کو بھی جب زکیہ کے کمرے سے کسی قسم کی آواز آنا بند ہو گئی تو وہ بھی واپس اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔

    دوسرے دن وقاص کافی دیر سوتا رہا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو رات والا سارا واقعہ اُس کو دوبارہ یاد آیا۔
    چونکہ وقاص کے دماغ پر رات کو چھڑنے والی منی اُس کے لن کے رسٹے کال رات ہی نکل گئی تھی۔

    اس لئے اب وقاص کو احساس ہونے لگا کہ اُس نے اپنی بہن اور بہنوئی کی نیت پرائیویٹ باتیں سن کر بہت غلط کی ہے۔

    یہ سوچ کر وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے اپنے کمرے سے باہر آیا۔ وہ باتھروم میں جانے کے لئے اکرم اور زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ زکیہ کے کمرے کا دروازہ تھوڑا کھلا تھا۔

    اکرم صبح صبح جاب پر چلا چکا تھا۔ زکیہ کمرے میں لگے شیشے کے سامنے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر باندھے سائیڈ پوز میں ایسے کھڑی تھی کہ اُس کے جسم کا رائٹ سائیڈ والا حصہ وقاص کی نگاہوں کے سامنے تھا۔

    نیو یارک میں اچھی صحت مند خوراک اور دو کمروں والے اپارٹمنٹ میں کوئی خاص کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے زکیہ کا زیادہ وقت ٹی وی کے سامنے سوفے پر بیٹھ کر فرینچ فرائز (آلو کے چپس) کھاتے اور کوکا کولا پیتے ہی گزرتا تھا۔

    جس وجہ سے زکیہ کا پتلا جسم اب کافی بھر گیا تھا۔ اس کے ممائے پہلے سے کافی پھیل کر بڑے ہو گئے اور ان کا سائز دو سالوں میں ہی 38 ہو گیا۔
    زکیہ کی گانڈ بھی پیچھے سے کافی بڑی ہو گئی تھی۔ اُس کی گانڈ بالکل کالی (افریقی امریکی) عورتوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے جب زکیہ چلتی تو اُس کی گانڈ پیچھے سے چل چل کرتی اور دیکھنے والوں کے لنوں کا برا حال کر دیتی۔

    وقاص کے قدم اپنی بہن کو اپنے سامنے دیکھ کر زمین پر جیسے جم گئے اور وہ بہ گور اپنی بہن کے جسم کا جائزہ لینے لگا۔
    زکیہ کے ہاتھ اُس کے ممّوں کے نیچے بندے ہونے کی وجہ سے زکیہ کے ممّے اُوپر کی طرف اُٹھ گئے تھے اور سائیڈ پوز میں دیکھنے سے وقاص کو زکیہ کے بڑے بڑے گداز ممّے اُس کی قمیض سے اور بھی نمیاں اور بڑے نظر آ رہے تھے۔

    تھوری ہیل والی جوتی پہنے کی وجہ سے زکیہ کی مست گانڈ پیچھے سے اور زیادہ اُٹھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
    اور زکیہ کے بڑے چٹر کا ابھار وقاص کو زکیہ کی بڑے چک والی قمیض سلوار میں سے بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔
    اپنی بہن کو کمرے میں ایسے اسٹائل میں کھڑا دیکھ کر وقاص کے ذہن میں رات والی ساری باتوں ایک فلم کی طرح دوبارہ دور گئیں اور اُس کا لن جو پیشاب آنے کی وجہ سے پہلے ہی اُس کے پجامے میں فل کھڑا تھا مزید شکت ہو گیا۔

    اس سے پہلے زکیہ کی نظر وقاص اور پجامے میں کھڑے اُس کا لن پر پڑتی۔ وقاص جلدی سے باتھروم میں چلا آیا۔

    باتھروم میں جب وقاص نے پیشاب کیا تو لن پورے کھڑا ہونے کی وجہ سے پہلے تو اُس کا پیشاب ہی نہیں نکل رہا تھا مگر پھر جب نکلا تو کھڑے لن کی وجہ سے اُس کے پیشاب کی دھار دور تک گئی۔

    پیشاب سے فارغ ہونے پر وقاص کے لن کو تھوڑا سکون تو ملا مگر اب بھی اُس کا لن پجامے میں بیٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔


    وقاص اب اپنی بہن کے نام مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا اس لئے وہ باتھروم کے کموڈ پر بیٹھ کر اپنے لن کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب تھوڑی دیر بعد اس کا لن تھوڑا دھیلا پڑ گیا تو وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر آ گیا۔

    وقاص دوبارہ زکیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا پڑا ہے اور زکیہ کمرے میں نہیں۔

    تبھی اُسے کِچن سے آواز آئی تو اُسے زکیہ کی کِچن میں موجودگی کا پتہ چلا وقاص کِچن کی طرف چل پڑا۔

    وقاص جیسے ہی کِچن میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اپنے کانوں پر واکمین کا ہیڈفون لگاے گانے سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ چولے کے سامنے کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی۔ زکیہ کا منہ چولے کی طرف ہونے کی وجہ سے اس کی باہر نکلی ہوئی بڑی اور موٹی گانڈ وقاص کی بھوکی نظروں کے سامنے تھی۔

    وقاص نے کِچن کے دروازے پر کھڑے کھڑے تھوڑی دیر اپنی بہن کی مست گانڈ دیدار کیا اور پھر زکیہ کو آواز دی۔

    وقاص: "زکیہ میری چائے بھی بنا دینا۔"

    زکیہ کو کانوں میں لگے ہیڈفون کی وجہ سے آواز نہیں سنائی دی تو وقاص چپکے سے زکیہ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

    ہاتھ زکیہ کے کندھے پر رکھتے ہی وقاص کو ایسے لگا جیسے اس نے کسی گرم چیز کو چھو لیا ہے۔ زکیہ کا پیسا جسم اب بھی دھک رہا تھا۔ زکیہ جو کہ اپنے آپ میں مگن تھی بھی کہ ہاتھ کو اپنے کندھے پر اچانک محسوس کر کے ایک دم سے چونک کر پلٹی اور اس نے اپنا منہ وقاص کی طرف گھما لیا اور بولی "کون".

    "اوہ بھائی تم کب اُٹھے گئے" کہتے ہوئے زکیہ نے اپنے کانوں سے ہیڈفون اُتار کر سائیڈ پر رکھ دیا۔

    "زکیہ لگتا ہے جیسے تم کو بخار ہے، تمہارا جسم تو آگ کی بھاٹی کی طرح دھک رہا ہے۔ تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو، میں خود ناشتہ بنا لوں گا۔"

    "نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں، بس شاید چولے کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے جسم تھوڑا گرم ہو گیا ہے" زکیہ نے وقاص سے کہا۔
    اب بالا زکیہ کیسے اپنے بھائی سے کہتی کہ اس کے جسم میں یہ گرمی کیسی اور کس چیز کے لئے ہے۔

    "اچھا ٹھیک ہے تم میرا ناشتہ بھی بنا دو، مجھے باہر کام سے جانا ہے" کہتا ہوا وقاص کِچن سے باہر چلا آیا۔

    وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اُس کی بہن کے بدن کی تپش کی وجہ کِچن کا چولے نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔

    بہن کے پیسے بدن کی آگ کو بجھانے کا سامان تو اُس کے پاس تھا مگر بہن بھائی کے مقدس رشتے میں بندے ہونے کی وجہ سے وقاص بہت ہی بے بس تھا۔

    جب سے زکیہ نیو یارک آئی تھی، اُس کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا۔ اکثر اُس کو مہینے میں کبھی کبار ایک دفعہ کسی دیسی کہانی پر کھانے پینے کی چیزیں لانے یا کبھی کسی امریکن ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر گھر کا سامان خریدنے کے لئے ساتھ لی جاتا۔ اس سے زیادہ اکثر زکیہ کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس لئے ان دو سالوں میں زکیہ کے لئے نیو یارک یا امریکا صرف ان کے اپارٹمنٹ کے دو کمرے ہی تھے۔

    ایک وجہ یہ تھی کہ زکیہ اور اکرم کی عمر میں زمین آسمان کا فرق ہونے کی وجہ سے اکرم کو جوان لڑکے لڑکیوں کی طرح گھومنا پھرنا پسند نہیں تھا۔

    دوسرا عمر کے فرق کی وجہ سے اکرم زکیہ پر شک بھی کرتا تھا۔ اکرم کو یہ انجانہ ڈر بھی لگا رہتا کہ اگر اُس نے زکیہ کو باہر گھومنے کی آزادی دی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ اپنا تعلق فٹ کر لے۔ اس لئے اُس نے کبھی زکیہ کو اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔

    وقاص کو اکرم کی یہ عادت پسند نہیں تھی مگر وہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کچھ بول کر گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے اکرم سے کبھی اس سلسلے میں بات نہ کی۔

    اُس رات کے واقعے کے بعد اگلے دن اکرم جاب پر کھڑا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔

    اکرم شادی کے پہلے دن سے لے کر آج تک صرف اور صرف اپنے بڑھے لن کا پانی نکالتا اور سو جاتا۔ اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ زکیہ کی بھی جنسی تسلی ہوئی یا نہیں۔

    اکرم یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اگر کسی جوان عورت کا شوہر اپنی بیوی کی چودائی میں تسلی نہ کر سکے تو پھر مجبوراً ایک نہ ایک دن وہ عورت گھر سے باہر اپنا منہ مارنے لگتی ہے۔

    اس بات کو سوچ کر اکرم رات والے بات سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا اور اُس نے اُس دن کے بعد زکیہ کا اپنے اور وقاص کے ساتھ گھر سے باہر جانا بند کر دیا۔

    یہ بات زکیہ کو پسند نہ آئی مگر وہ ایک مشرقی بیوی کی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گئی۔

    اس طرح دو مہینے مزید گزر گئے۔ اب زکیہ اپنے گھر میں بالکل ایک قیدی جیسی زندگی گزار رہی تھی۔

    اکرم گھر کے سامان کے ساتھ ساتھ زکیہ کے روزمرہ استعمال کی چیزیں بھی خود کی کرید کر لاتا تھا۔ زکیہ کا اس ماحول میں دم گھٹنے لگا مگر وہ پھر بھی خاموش رہی۔

    ایک صبح جب وقاص کام سے گھر واپس آ رہا تھا کہ اُس کو گھر سے فون آیا۔
    "بھائی تم کدھر ہو، جلدی سے گھر آ جاؤ" دوسری طرف سے زکیہ کی روتی ہوئی آواز وقاص کے کانوں میں پڑی۔

    اتنی دیر میں وقاص گھر کے بالکل سامنے پہنچ گیا تھا وہ ٹیکسی کو پارک کرکے دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ زکیہ اکرم کے پاس بستر پر بیٹھی رو رہی ہے۔

    وقاص نے جلدی سے آگے بڑھ کر اکرم کے جسم کو ہاتھ لگایا تو محسوس کیا کہ اکرم کا جسم بالکل ٹھنڈا پڑا ہے اور اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں۔

    وقاص نے فوراً 911 (ایمرجنسی والوں) کو کال کی۔ کال کرنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی ایمبولینس والے گھر پہنچ گئے۔ اُنوں نے اکرم کو چیک کیا اور وقاص اور زکیہ کو بتایا کہ رات کو اکرم کی شوگر لو ہونے کی وجہ سے اُس کا سوتے میں ہی انتقال ہو گیا ہے۔

    وقاص، اور خاص طور پر زکیہ پر یہ بات بجلی بن کر گری۔

    اکرم جیسیا بھی تھا آخر اُس کا شوہر تھا اور اب وہ بھاری جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ زکیہ بہت روئی مگر اکرم تو اُس سے دور جا چکا تھا۔ پاکستان میں اکرم کا کوئی اور رشتہ دار تو تھا نہیں اس لئے اُس کو نیو یارک میں ہی دفن کر دیا گیا۔
    Last edited by Man moji; 03-03-2024, 11:31 AM.

    Comment


    • #22
      اکرم کی موت کے بعد زکیہ بہت اُداس رہنے لگی اور اُس کو گھر اب کٹنے کو ڈرتا تھا۔ اس لئے زکیہ نے ایک دن وقاص کو کہا

      “بھائی اب اکرم کے بعد میرا ادر رینے کا کوئی مقصد نہیں اس لئے آپ مجھے پاکستان بھیج دو”
      زکیہ اب امریکا اور رکنے کو تیار نہیں تھی۔ لیکن وقاص اُس کو پاکستان واپس بھیجنے کو خوش نہیں تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُس کے اندر کا جانور جو پہلے ہی اپنی بہن کی جوانی کی تپش کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا جاگ اٹھا تھا اب گھر میں بہن کے ساتھ اکیلا ہونے کی وجہ سے وقاص کے اندر سے پوری طرح بھڑ آنے کو بے طاب تھا اور کسی اچھے موقع کو ترس رہا تھا۔

      زکیہ نے واپس جانے کی ضد پکڑے رکھی اس پر وقاص نے اپنی ماں سے بات کی۔ شریفی بی بی نے بھی جب زکیہ کو سمجھایا تو وہ اس شرط پر رکنے کو راضی ہوئی کہ وقاص اُس کو لے کر کسی اور اپارٹمنٹ میں شفٹ کرے گا۔ کیونکہ اُس اپارٹمنٹ میں زکیہ کو اکرم کی بہت یاد ستاتی تھی۔

      اکرم کی موت کے بعد وقاص ویسے بھی دو بیڈروم والے کرایہ اکیلے اَفورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے وہ زکیہ کے ساتھ ایک اور بلڈنگ میں ون بیڈروم آپارٹمنٹ لے کر موو ہو گیا۔

      دوسرے گھر میں بھی پہلے کچھ دن زکیہ بہت اپسیٹ رہی۔ وہ ہر وقت اُداس اور پریشان رہتی۔ اُس کا گھر کے کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔

      وقاص نے اب دن کو ٹیکسی چلانا شروع کر دیا اور اب رات کو وہ گھر ہی ہوتا تھا۔

      ون بیڈروم ہونے کی وجہ سے زکیہ اندر کمرے میں سوتی اور وقاص اب بہر ٹی وی لونج میں ایک سوفا کم بیڈ پر سونے لگا۔

      وقاص سے اپنی بہن زکیہ کا اِس طرح ہر وقت پریشان رہنا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ زکیہ اب آہستہ آہستہ نارمل زندگی کی طرح لوٹ آئے۔ وقاص کو علم تھا کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ وقاص نے اس کام کو پورا کرنے کا بیاہرا اُٹھایا۔

      پہلے وقاص کوئی چھٹے کئے بغیر ہفتے کے ساتوں دن 12 گھنٹے ٹیکسی چلاتا۔ اب وقاص نے سوچا کہ وہ اتوار کو ایک چھٹی ضرور کرے گا اور اُس دن وہ زکیہ کو اپنے ساتھ نیو یارک سٹی کی سیر کروائے گا۔ اِس طرح ایک زکیہ کا دل بھی جلدی بہل جائے گا اور دوسرا اُس کو زکیہ کے قریب رہنے کا موقع بھی ملا گا۔

      یہ سوچ کر اُس نے اس بارے میں زکیہ سے بات کی۔ زکیہ پہلے تو بہیر گھمنے پھرنے پر راضی نہیں تھی مگر جب وقاص نے ضد کی تو وہ اُس کے ساتھ بہیر چلنے کو تیار ہو گئی۔

      وقاص ہر ویکنڈ پر زکیہ کو ایک نئی جگہ پر لے جاتا۔ کبھی کبھی وہ دونوں رات کی بھیر کسی ریستورانٹ میں کھانا کھانے اور کبھی کوئی مووی دیکھتے۔

      شروع میں زکیہ کو یہ سب پسند نہ آیا۔ کیونکہ اگر کسی جانور کو بھی گھر میں بند دیا جائے تو اُس سے انسان منوس ہو جاتا ہے اور اکرم آخر ایک انسان تھا اور سب سے بڑ کر اُس کا سرتاج۔

      مگر کہتے ہیں نا کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے، اس لئے آہستہ آہستہ زکیہ بھی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئی اور اُس نے بھی زندگی کو انجوائے کرنا شروع کر دیا۔

      دو مہینوں میں ہی وقاص نے زکیہ کو نیو یارک کی پوری سیر کرا دی۔ زکیہ خوش تھی کہ اُس کا بھائی اُس کا اتنا خیال رکھتا تھا۔ زکیہ بھی اب اپنے بھائی کی کمپنی کو جیسے انجوائے کرنے لگی تھی۔

      وہ شام ہونے پر گھڑی دیکھنے لگتی کہ کب وقاص گھر واپس آئے۔ جب وقاص گھر آتا تو دونوں بہن بھائی اکٹھے مل کر کھانا کھاتے اور پھر شام کو گھر کے قریب بنے ایک چھوٹے سے پارک میں واک کو جاتے۔ گھر واپس آ کر وہ اکٹھے تھوڑا ٹی وی دیکھتے ہوئے آپس میں بات چیت کرتے اور پھر اپنے اپنے بستر پر سو جاتے۔ زندگی اب اپنی روٹین پر چل پڑی۔


      اکرم جب زندہ تھا تو وہ زکیہ کو امریکن ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ امریکن ٹی وی پر نارمل پروگرام میں بھی کوئی نہ کوئی سیکسی سین ہوتا تھا اور کسنگ تو ہر مووی میں عام ہوتی ہے۔ اس لئے اکرم زکیہ کو امریکن ٹی وی دیکھنے سے منع کرتا تھا۔

      جس کی وجہ سے اُن دنوں زکیہ زیادہ طرح وی سی آر یا پھر ڈش نیٹ ورک پر انڈین پروگرام ہی دیکھتی۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے کی وجہ سے وقاص نے ڈش کا کنیکشن ابھی چلو نہیں کروایا تھا۔

      آج وقاص کے کام پر جانے کے بعد زکیہ گھر کے کام نپٹا کر ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئی۔

      زکیہ نے آج کافی مہینوں بعد ٹی وی آن کیا۔ دیسی پروگرام تو ابھی آن نہیں ہوئے تھے اس لئے زکیہ نے ریموٹ کو ہاتھ میں لے کر چینلز یوں ہی ادھر اُدھر گمانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے ریموٹ کو ایک اسپینش ٹی وی پر رک دیا جہاں شاید کوئی اسپینش زبان کا ڈرامہ چل رہا تھا۔

      زکیہ کو اسپینش زبان کی سمجھ تو نہیں تھی مگر اس کے باوجود اُس کو اسپینش پروگرام دیکھنا اچھا لگا۔

      اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ اسپین پر سو سالہ مسلمان حکومت کی وجہ سے اکثر اسپینش لوگوں کے فیس فیچرز اور اُن کا رہن سہن دیسی لوگوں سے بہت ملتا ہے۔

      دوسرا اُس ڈرامے میں ایک سپینش ہیرو زکیہ کو اچھا لگا اور زکیہ یہ ڈرامہ دیکھنے لگی۔

      چند منظروں کے بعد ڈرامے میں ہیرو اور ہیروئن کے کسنگ سینز چلو ہو گئے۔ چونکہ زکیہ کو اب اکرم کا کوئی خوف نہیں تھا، اس لئے وہ بڑے انمیہک سے وہ کسنگ سینز دیکھے لگی۔

      پتہ نہیں آج کیوں زکیہ کا دل بے کابو ہو رہا تھا۔ شاید زندگی نارمل ہونے کا اثر اب زکیہ کو بھی محسوس ہونے لگا۔

      آج اُس کا دل اور جسم ڈرامے میں موجود گرم سینز کو دیکھتے ہوئے گرم ہونے لگا۔

      آہستہ آہستہ زکیہ کے جسم کی بھوک نے کافی وقت کے بعد دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔

      پہلے تو اکرم اُس کے جسم کی گرمی کو کسی نہ کسی طرح ٹھنڈا کر دیتا مگر اب زکیہ اپنے جسم کی آگ کو کیسے ٹھنڈا کرے، یہ ابھی زکیہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

      زکیہ کو محسوس ہوا کہ اُس کی شلوار نیچے سے جسے گیلی ہو رہی ہے۔ پہلے تو زکیہ نے اس کو اپنا وہم سمجھا۔ مگر پھر تھوڑی دیر بعد زکیہ اُٹھ کر باتھروم میں چلی گئی اور اپنی شلوار اور پینٹی کو اُتار دیا۔

      زکیہ نے دیکھا کے واقعی ہی اس کی پینٹی ڈرامے کے سیکسی سینز کی وجہ سے گیلی ہو گئی تھی۔ اس کی چوت کے گرم پانی کا نشان اس کی پینٹی پر واضح نظر آ رہا تھا۔
      زکیہ اپنی چوت کے اس طرح گرم ہونے پر حیران ہوئی۔ زکیہ کی لاکھ کوشش کے باوجود آج اس کے جنسی جذبات دوبارہ سر اُٹھا چکے تھے۔

      زاکا نے اپنی گوری پھولی ہوئی چوت پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور اپنی کمیز اور بریزیئر بھی اُتارنے کے بعد اپنے کپڑوں کو باتھروم کے دروازے کے پیچھے ٹانگ دیا اور پھر شاور کے نیچے کھڑے ہو کر ٹھنڈا پانی کھول کر اپنے گرم جسم کو شاور کے ٹھنڈے پانی سے ٹھنڈا کرنے لگی۔

      اپنے سخت اور جوان جسم پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے زکیہ کے نپلز مزید تن گئے اور زکیہ کے جسم کی آگ اور بھڑک اُٹھی۔

      اُس کا دل چاہتا تھا کہ کوئی آ کر اُسے پیار کرے اور اُس کے جوان جسم کی ساری گرمی نکال دے۔ زکیہ یہ جانتی تھی کہ یہ کبھی نہ پوری ہونے والی آرزو تھی۔ اس لئے اُس کے ہاتھ بے بسی کے علامت میں اپنے گورے جسم پر پھسلتے رہے۔

      بڑے بڑے مموں کی اُونچائوں پر گمٹے رہے، چوت کی گرم گہرائیوں میں کھوتے رہے اور زکیہ کے جسم کی آگ اسی طرح جلتی رہی۔

      دوسری طرف سنڈے ہونے کی وجہ سے ٹیکسی کا کام بھی کچھ کم تھا اور ویسے بھی نجانے کیوں آج وقاص کا دل بھی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔

      وقاص نے دن کے ایک بجے ایک کسٹمر کو جیکسن ہائٹس میں ڈراپ کیا۔ وقاص کافی وقت بعد جیکسن ہائٹس آیا تھا۔ اس لئے وہ گاڑی پارک کر کے ونڈو شاپنگ کو نکل پڑا۔
      ایک انڈین فیشن شاپ کے باہر لگے ڈسپلے میں وقاص کو ایک انڈین سٹائل کی شلوار قمیض پسند آئی تو اُس نے اندر جا کر انڈین آنٹی سے اُس سٹائل میں کچھ مختلف رنگ دکھانے کو کہا اور ساتھ ہی گھر فون ملیا تا کہ زکیہ سے اُس کا سائز معلوم کر سکے۔
      فون کی بیل کافی دیر بجتی رہی مگر زکیہ کو باتھروم میں ہونے کی وجہ سے آواز سنائی نہ دی۔ وقاص نے اپنے اندازے سے ہی میڈیم سائز کی ڈریس خرید لی۔
      دکان سے باہر آ کر وقاص نے دوبارہ گھر فون ملیا۔ زکیہ نے اب باتھروم کا پانی بند کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کو اب فون کی گھنٹی کی آواز سنی دی تو وہ ننگی ہی دوڑتی ہوئی آئی اور فون انسر کیا۔

      فون رکھتے ہی زکیہ نے الماری سے نیا شلوار قمیض سوٹ نکال کر پہن لیا اور جلدی سے کِچن میں جا کر کھانا تیار کرنے لگی۔ زکیہ کا جسم ابھی تک جال رہا تھا۔

      کچھ ہی دیر میں وقاص بھی گھر پہنچ گیا۔ وقاص نے زکیہ کے خریدا ہوا سوٹ گاڑی میں ہی رکھا تھا۔ وہ زکیہ کو تھوڑا سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ وقاص گھر میں کے فورن بعد ہی ہاتھ منہ دھونے باتھروم میں چلا آیا۔
      وقاص نے اندر سے باتھروم کا دروازہ لاک کیا تو اس کی نظر دروازے کے پیچھے ٹانگے ہوئے ہیں زکیہ کے کپڑوں پر پڑی۔ جو کہ اُس کے پاجامے کے اُوپر لٹک رہے تھے۔
      پہلے والے اپارٹمنٹ میں دو باتھروم ہونے کی وجہ سے وقاص اور زکیہ کا الگ الگ باتھروم تھا۔ لیکن نئے گھر میں ایک ہی باتھروم کی وجہ سے دونوں بہن بھائی ایک ہی باتھروم شیئر کرنے لگے تھے۔

      جس کی وجہ سے دونوں بہن بھائی کی پہلے جو تھوڑی بہت پرائیوسی تھی وہ اب مزید کام ہونے لگی۔

      وقاص نے زکیہ کے کپڑوں کے نیچے لٹکا ہوا اپنا پاجمہ نکلنا چاہا تو زکیہ کی پینٹی اور بریزیئر نیچے فلور پر گر گئے۔

      وقاص نے جھک کر اپنی بہن کے دونوں انڈر گارمنٹس اُٹھائے اور ان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُن کا جائزہ لینے لگا۔

      زکیہ کا سفید رنگ کا دیسی اسٹائل کا براسیئر تھا۔ وقاص نے بڑے اشتیاق سے برا کا اسٹرپ والی جگہ پر نظر ڈالی تاکہ بہن کے بریزیئر کا سائز جان سکے۔ جیسے ہی اُس نے برا پر 38 سائز پڑا تو وہ مست ہو گیا۔

      بہن کے بریزیئر کو دیکھتے ہوئے وقاص کے ذہن میں اپنی بہن زکیہ کا سرپا گھومنے لگا۔

      اُس کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے زکیہ یہ بریزیئر پہنے اُس کے سامنے کھڑی ہے۔ بریزیئر میں زکیہ کی بھڑی بھڑی گول سفید چھاتیاں ایسے لگ رہی تھیں کہ جیسے اُن کو بریزیئر میں زبردستی قید کیا ہوا ہو اور وہ براسیئر کو پھاڑ کر باہر آنے کو مچل رہی ہوں۔
      براسیئر کے ساتھ ساتھ وقاص نے اپنی بہن کی پینٹی کا بھی جائزہ لینے لگا۔ زکیہ کی چھوٹی سی پینٹی بھی سفید رنگ کی تھی جس پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کی لائنز بنی ہوئی تھیں۔

      زکیہ کی پینٹی پر اُس کا پیاسی چوت سے نکلنے والے تازہ پانی کے نشان اب بھی خشک نہیں ہوا تھا۔
      وقاص نے پینٹی کی چوت والی جگہ پر نشان دیکھا تو ایک لمحے میں سمجھ گیا کہ یہ نشان اُس کی بہن زکیہ کی گرم پھدی سے نکلنے والے پانی کا ہے۔

      وقاص نے جوش و جذبت میں اپنی انکہیں بند کر کے دن میں ہی سپنے دیکھنے لگا۔

      وقاص کے سپنوں میں اُس کی بہن زکیہ کی گانڈ پینٹی میں لپٹی ہوئی اُس کی آنکھوں کے سامنے دوڑنے لگی۔ زکیہ کی گانڈ کی باری باری فھاریاں چھوٹی سی سیکسی پینٹی میں پھنسی، گذاب دہا رہی تھیں۔

      وقاص بے اختیار پینٹی کو اپنے ناک اور منہ کے قریب لایا اور پینٹی کو چھوا تو بہن کی جوان چوٹ کی بیحنی بیحنی مہک وقاص کو مدھوش کر گئی۔

      وقاص نے اپنی بند انکھیں کھولیں، اپنی زبان کو باہر نکالا اور بہن کی پینٹی کی گیلی جگہ پر اپنی زبان رکھ دی۔

      وقاص کو بہن کی چوٹ کے پانی کا نمکین مزا اپنی زبان پر محسوس ہوا تو وہ پینٹی کو پاگلو کی طرح چاٹتا چلا گیا۔

      وقاص دیوانہ وار اپنی بہن کی پینٹی کو چومتا اور چاٹا رہا۔ ساتھ ساتھ اُس کے ہاتھ اپنے لن سے بھی کہلتے رہے۔
      وقاص اپنے کھلون میں مست تھا کہ زکیہ کی آواز اُسے حقیقی دنیا میں واپس لے آئی۔ زکیہ اُس کو کِچن سے بلا رہی تھی کہ کھانا لگ گیا ہے۔

      وقاص نے جلدی سے بہن کے سارے کپڑوں کو پہلے والی حالت میں دروازے کے پیچھے لٹکا دیا اور پاجامہ چینج کیا۔

      وقاص کا لن ابھی بھی پاجامے میں کھڑا تھا اور کسی طرح بیٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وقاص نے پاجامے کے نیچے ایک تنگ انڈر وئیر پہن کر اپنے لن کو تھوڑا کابو کیا اور باتھروم سے باہر نکل آیا۔
      دونوں بہن بھائی نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے ہی وقاص پر نیند کی خماری آنے لگی تو وہ آرام ہی گراز سے سوفے پر ہی لیٹ گیا۔

      سوفے پر لیٹے ہی وقاص نے خراٹی لینا شروع کر دیا۔ زکی بھائی کو سوتا دیکھ کر اپنے کمرے میں تھوڑا آرام کرانے چلی گئی۔ وقاص جب سو کر اٹھا تو ٹی وی لاونج میں لگی گھڑی شام کے 6 بجا رہی تھی۔

      وقاص کو باتھروم سے پانی کی آواز سنائی دی تو وہ سمجھ گیا کے زکیہ اندر باتھروم میں ہے۔

      وقاص جلدی سے اٹھا اور پھر ٹیکسی سے زکیہ کے لیے خیردہ ہوا شلوار قمیض سوٹ زکیہ کے بستر پر رکھ کر دوبارہ ٹی وی لاونج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا۔

      زکیہ جب باتھروم سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی نظر اپنے بستر پر پڑے شاپنگ بیگ پر پڑی۔ زکی نے تجسس سے بیگ کھولا تو اس کو ہلکے پیلے رنگ کی چھوٹی سی رشمی سلیو لیس قمیض اور وائٹ رنگ کی پٹیالہ اسٹائل کی رشمی شلوار نظر آئی۔

      زکیہ حیران ہوئی کہ یہ کپڑے کدھر سے آئے اور کس کے ہیں۔ زکیہ نے سوٹ کو ہاتھ میں اٹھایا اور ٹی وی لاونج میں چلی آئی۔ ٹی وی لاونج میں وقاص اُسے ٹی وی دیکھتا ملا۔

      یوں تو شادی کے بعد اکرم نے زکیہ کو پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہونے دی تھی مگر اکرم نے کبھی بھی زکیہ کو کوئی گفٹ خود خرید کر نہیں دیا تھا۔

      اس لئے جب اُس کے بھائی نے پہلی بار اُس کو ایک سوٹ تحفے میں دیا تو زکیہ کو دلی طور پر بہت خوشی محسوس ہوئی۔ مگر پھر بھی زکیہ نے حیرت سے وقاص کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

      وقاص جو اتنے پیار سے اپنی بہن کے لئے یہ سوٹ لایا تھا اس کو زکیہ کی یہ بات پسند نہ آئی تو وہ بولا "زکیہ میں اتنے پیار سے تمہارے لئے لایا ہوں۔ اگر تم نے نہیں پہننا تو اسے ٹریش میں پھینک دو".

      زکیہ سمجھ گئی کے وقاص کو اُس کا انکار برا لگا ہے۔ وو اپنے بھائی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے اُس نے وقاص کا دل رکھنے کو کہا "اچھا بھائی آپ ناراض مت ہو میں ان کو کبھی پہن لوں گی".

      "کبھی نہیں آج اور ابھی ان کو پہن کر تیار ہو جاؤ آج باہر کسی ریستورانٹ میں کھانے چلتے ہیں"۔ وقاص یہ کہتے ہوئے شاور لینے باتھ روم میں گزر گیا۔

      زکیہ اب مشکل میں پڑ گئی۔ اُس نے بھائی سے جلدی میں یہ کپڑے پہننے کا وعدہ تو کر لیا تھا۔ اُس کو یہ نہیں پتا تھا کہ اُس کو اپنا وعدہ اتنی جلدی نبھانا پڑے گا۔

      اب چاروں نچر "اچھا بھائی" کہتے ہوئے زکیہ کپڑے اُٹھا کر اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔

      زکیہ نے اپنے کپڑے اُتارے اور اپنے بھائی کی لائی ہوئی شلوار قمیض پہننے لگی۔

      زکیہ عام طور پر بند گلے والے کھلے کھلے کپڑے پہننے کی عادی تھی۔ وقاص کی خریدی ہوئی قمیض لو کٹ تھی جس کا سائز بھی زکیہ کو تھوڑی تنگ محسوس ہو رہا تھا۔

      وقاص کی خریدی ہوئی قمیض لو کٹ تھی جس کا سائز بھی زکیہ کو تھوڑی تنگ محسوس ہو رہا تھا۔

      زکیہ کے ممے اب پہلے سے کافی بڑے ہو چکے تھے۔ اس وجہ سے جب زکیہ نے قمیض پہنی تو وہ اس کی بڑی بڑی چھاتیوں پہ جا کر پھنس گئی۔

      زکیہ نے جیسے تیسے کر کے اور اپنے بڑے بڑے ممے دبا کر وہ قمیض پہن ہی لی۔

      شلوار پینے کے بعد زکیہ نے تھوڑا ہلکا سا میک اپ کیا۔ ہاتھوں میں چوڑیاں پہنیں، گلے میں نیکلس ڈالا اور کانوں میں میچنگ ایئر رنگس۔ پھر اپنا دوپٹا سینے پر لیا اور کمرے میں لگے شیشے میں اپنے آپ کا جائزہ لینے لگی تو وہ اپنا روپ دیکھ کر خود ہی شرما گئی۔

      کپڑے کی فٹنگ ٹائٹ ہونے کی وجہ سے یہ سوٹ زکیہ کے جسم سے چپکا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے جوان بھرے جسم کا ہر حصہ نمایاں ہو رہا تھا۔

      قمیض چھاتیوں پر بھی کافی تنگ ہونے کی وجہ سے زکیہ کے ممے قمیض میں دبے ہوئے تھے۔ اور قمیض لو کٹ ہونے کی وجہ سے زکیہ کے ممے اور بھی اُبھر کر باہر کو نکلے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔

      (یہ وہ منظر ہے جس کے بارے میں پاکستانی فلم سٹار محترمہ سائمہ جی نے ایک فلم میں اپنے پاکستانی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمیا ہے)

      "میری پھولا والی کرتی ہوئی وقعیان تو تنگ وے
      گورے پنڈے نال ڈولا کرے ہر ولے جنگ وے"

      زکیہ آج بہت اچھی طرح سے تیار ہوئی اور بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔

      زکیہ نے کوشش کی کہ اس کی چھاتیاں کسی نہ کس طرح اس کے چھوٹے سے دوپٹے میں چھپ جائیں۔ اس کے لئے اُس نے دوپٹے کو پھیلا کر اپنے سینے کو ڈھانپنے کی کوشش بھی کی۔

      مگر اس کا دوپٹا بھی رشمی ہونے کی وجہ سے اس کی جوان چھاتیوں سے سرک سرک جا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے زکیہ کے سینے کے ابڑ اور بھی نمیان ہو رہے تھے۔

      زکیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے اس روپ میں اپنے ہی بھائی کا سامنا کرے۔

      مگر ساتھ ہی اُسے یہ خیال آیا کہ اس کی بھائی ہی تو اُس کے لئے یہ کپڑے خود خرید کر لایا ہے۔ اب اگر کپڑوں کی فٹنگ کی وجہ سے اُس کا جسم نمیاں ہو رہا ہے تو اس میں اُس کا کیا قصور ہے۔

      زکیہ ایک کشمکش میں تھی کہ وہ ان کپڑوں کا اُتار کر کوئی دوسرا سوٹ پہن لے۔ وہ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ اُسے وقاص کی آواز آئی "زکیہ میں تیار ہوں تم زرا جلدی کرو نا"۔

      بھائی کی آواز سن کر زکیہ نے اپنے بھائی کا ان کپڑوں میں سامنا کرنے کی ہمت کر ہی لی اور اپنی تیاری کو ایک فائنل ٹچ دے کر کمرے سے باہر آئی۔

      وقاص باہر سوفے پر تیار بیٹھا گیس کا بل دیکھ رہا تھا اس لئے اس کی نظر ابھی اپنی بہن زکیہ پر نہیں پڑی۔

      زکیہ کمرے میں بچے کارپٹ پر دبے پاوں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وقاص کے سامنے والے سوفے پر بیٹھ گئی اور اپنی ہیل والی جوتی کو پہن کر جوتی کے اسٹرپ بند کرنے کے لئے جھکی۔

      اس طرح جھکنے سے زکیہ کے ممے اس کی قمیض سے ایک دم باہر چھلک پڑے۔

      ایسے مقام پر جب وقاص کی نظر اپنی بہن کے مموں پر پڑی تو وہ اپنی بہن کی جوانی کو یوں آزاد دیکھ کر حیران رہ گیا۔

      وقاص نے پہلے تو فوراً اپنی نظریں جھکا لیں۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے دوبارہ نظریں اُٹھائیں تو وہ اپنی بہن کا حسن دیکھتے ہی رہ گیا۔

      اُبھرے ہوئے گورے گورے مموں اور لو کٹ سے نظر آتا پورا کلیویج۔ وقاص کی نظر چپکی ہی رہ گئی۔ اس کی حالت تو دیکھنے جیسی ہو گئی تھی۔

      زکیہ اپنی اسٹرپ باندنے میں مصروف تھی اور وہ ایسے برتاوٴ کر رہی تھی جیسے اُسے پتہ ہی نہیں۔

      زکیہ اسٹرپ کو بندا اور اپنی ہی دھن میں اُٹھی اور سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔

      اُس نے ایک لمبی سانس بھری اور ہلکے سے چھوڑی۔ چھاتی بھر آئی تو مموں کی موومنٹ بھی ہوئی۔

      وقاص کے دل پر تو جیسے چھڑیاں چل گئیں۔

      اسی لمحے میں دونوں بہن بھائی کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں۔ تو دونوں نے ایک دم سے اپنی نظریں چرا لیں۔ جیسے وہ ایک دوسرے کے چور ہوں۔

      زکیہ کو اب بہت شرم آ رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی۔ اس لئے وہ سر نیچے کر کے کھڑی تھی۔

      آج کافی وقت بعد دوبارہ وقاص کو سلیو لیس قمیض میں اپنی بہن کی گوری باؤں اور بڑی بڑی سفید چھاتیوں دیکھنے کو ملی تھی۔

      وقاص اپنے دل میں سوچنے لگا کہ وہ اپنے ہی گھر میں کیسے قیامت کے حسین جسم کے ساتھ رہ رہا ہے۔ وہ اُس کی بہن ہی سہی تھی تو ایک حسین عورت کا حسین جسم۔

      اور اپنی بہن کا مست جوان بدن وقاص کے جسم میں آگ لگا رہا تھا۔ اُس کا لن اُس کی پینٹ میں پوری طرح ٹان گیا۔

      وقاص دم بخود ہو کر اپنی بہن کا جوان بدن کا نظارہ کر رہا تھا۔

      زکیہ نے چور نظروں سے وقاص کی طرف دیکھا تو اُس نے بھائی کو اپنی طرف ہی دیکھتے پایا۔

      زکیہ کو اپنے ہی بھائی کا اُسے اس بے اختیاری سے دیکھنا عجیب سا لگا۔

      اتنی دیر میں وقاص بے اختیار سوفے سے اٹھا، زکیہ کے پاس آکر اُسے زور سے اپنے ساتھ بیٹھا لیا اور زکیہ کے فارہیڈ پہ ایک چھوٹا کس کر کے بولا، "واہ !!! تم تو غذب کی خوبصورت لگ رہی ہو میری بہن۔"

      ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے دونوں بہن بھائی اس سے پہلے کبھی اتنے نزدیک نہیں آئے تھے اور نہ ہی کبھی آپس میں اتنے فری ہوئے تھے۔
      اِس لیے وقاص کا اُسے یوں اپنے ساتھ لپٹانا زکیہ کو اجیب سا محسوس ہوا۔

      زکیہ حیران تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آئی کے اُس کے بھائی کو آج کیا ہوا ہے۔

      زکیہ نے اپنے بھائی سے الگ ہونے کی کوشش کی "چھوڑو بھائی میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔"

      آج پہلی بار وقاص نے اپنی بہن کے بدن کو یوں اپنی باہوں کے گہرے میں لیا تھا۔ اِس لیے اِس کا دل کر رہا تھا کے وقت اِدھر ہی تھم جائے۔

      وقاص نے بہن کو چھوڑنے کی بجائے اُس کو اتنا زور سے پکڑا کہ اُس کے ممے وقاص کے جوان چوڑے سینے میں دب گئے۔

      وقاص کا لن پورا کھڑا ہوا تھا اور زکیہ کے جسم کی گرمی سے وقاص کی حالت بہت بُری ہو رہی تھی۔

      دونوں بہن ایک دوسرے کے ساتھ پورے چپک گئے۔ دو پیسے بدن ایک لہمے میں ایک دوسرے میں جذب ہوئے۔

      دونوں بہن بھائی کے جسم دوپہر میں ہونے والے واقعے کی وجہ سے ابھی تک گرم تھے۔

      اِس لیے جب اُوپر چھاتی سے چھاتی تکری تو نیچے بھائی کے لن نے (وقاص کے لکھ روکنے کے باوجود) رشمی شلوار کے اوپر سے پہلی بار بہن کی پھدی کے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دی۔

      (انڈین مووی "دل تو بچا ہے" کے ایک گانے میں ناصر الدین شاہ نے اِسی لیے کہا ہے کے) "لن سا کوئی کمینا نہیں"۔

      لگتا تھا کے آج وقاص کا لن پوری طرح اپنی کمینگی پر اتر آیا تھا۔

      زکیہ کوئی بچی تو تھی نہیں، وہ ایک شادی شدہ میچور عورت تھی۔ اِس لیے جیسے ہی اُسے اپنی گڈاز ٹانگوں کے درمیان کوئی سخت سی چیز چبی تو وہ ایک لمحے میں ہی سمجھ گئی کے یہ کیا ہے۔

      اِس سے پہلے کے دونوں بہن بھائی کے جوان گرم بدن، جوانی کی پیاس میں مزید بہکتے۔

      زکیہ نے نے اپنے آپ کو بھائی کی مضبوط گرفت سے آزاد کروا لیا۔

      بھائی کے جوان ٹگڑے لن کا اپنی گرم چوت پر تھوڑا احساہ ہوتی ہی زکیہ کی سانسیں رک سی گئیں۔

      اُسے یقین نہ ہو رہا تھا کے واقعہ ہی اُس کے بھائی کا لن اُسے اپنی ٹانگوں کے درمیان محسوس ہوا ہے۔

      زکیہ نے وقاص سے الگ ہوتے ہی اپنے بھائی کے چہرے پر ایک حیرت زدہ نظر ڈالی۔

      وقاص کو گڈاز مموں کو اپنی سخت چھاتی سے ٹکرانے اور بہن کی چوت پر لن ٹچ ہونے کا بہت مزہ آیا۔ مگر وقاص نے اس مزے کا اظہار اپنے چہرے سے نہیں کیا۔

      وہ اپنے رویے سے ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے اُن دونوں کے درمیان کچھ خاص بات نہیں ہوئی۔

      وقاص نے زکیہ سے الگ ہوتے ہی کمرے کی دیوار پر لٹکی ہوئی ٹیکسی کی چابی اُٹھائی اور بولا۔
      ٹیکسی میں بھائی کے ساتھ سفر کراتے زکیہ کی سانسیں ابھی تیز چل رہی تھیں۔

      ایک پاکستانی ریستورانٹ میں پہنچ کر زکیہ وقاص کے این سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

      دونوں کے درمیان ٹیبل پڑی تھی۔ وقاص ویٹر کے دیے گئے ریستوران کے مینو کو ہاتھ میں لیے دیکھ رہا تھا۔

      زکیہ نے بھی ایک مینو اُٹھایا اور ٹیبل پر رکھ کر پڑھنے لگی۔

      اپنے سینے کے نیچے ہاتھ ڈالے زکیہ ٹیبل پر جھکی ہوئی جس کی وجہ سے زکیہ کی بڑی اور خوبصورت چھاتیاں واضح ہو گئیں۔

      دونوں بہن بھائی بیروز مینو دیکھنے میں مصروف تھے۔ لیکن وقاص کی نظر زکیہ کے بدن پر ہی پڑی ہوئی تھی۔ وہ چوری چوری اپنی بہن کے مموں کو دیکھ رہا تھا کر گرم ہو رہا تھا۔

      اخیر کچھ دیر بعد زکیہ نے وقاص کو مخاطب کیا "بھائی آپ نے جو بھی چیز کھانی ہے جلدی سے آرڈر کر دو بہت بھوک لگی ہے۔"

      وقاص چونکا اور اس نے اپنی نظروں کے سامنے سے مینو ہٹایا اور ساتھ ہی اس کی نظر اپنی بہن کی گوری چھاتیوں پر پڑی۔

      "کھانا تو میں چاہتا ہوں تمہاری اِن گوری بڑی چھاتیوں کو مگر" وقاص کے دل کی بات اس کے ہونٹوں پر آتے آتے رک گئی۔

      "آج تم جو چاہو آرڈر کر دو" وقاص نے جواب دیا۔

      زکیہ نے ویٹر کو بلا کر کھانے کا آرڈر کیا اور کھانا آنے پر دونوں بہن بھائی بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
      کھانے کے دوران زکیہ چٹنی بہت استعمال کرتی تھی۔ اِس لیے اب بھی چٹنی کی بوتل اُس کے پاس ہی رکھی تھی۔

      وقاص بھی اپنے سالن میں چٹنی ڈالنا چاہتا تھا، اس لئے جب اُس نے زکیہ کے پاس پڑی چٹنی کو دیکھا تو زکیہ سمجھ گئی کے بھائی کو کیا چاہیے تو وہ بولی:

      "بھائی آپ کو چٹنی چاہیے۔"

      "چٹ نی تو میں چٹا ہوں اگر تم مجھے چٹنی دو تو" وقاص کے منہ سے بے اختیار نکل پڑا۔

      وقاص کا دل دھک دھک کرنے لگا کہ کیسے یہ بات اُس کے منہ سے سلپ ہو گئی اور نہ جانے اب زکیہ اُس کی بات کا کیسے ری ایکٹ کرے۔

      لیکن زکیہ کو وقاص کی بات کی سمجھ نہ آئی بلکہ وقاص کی بات زکیہ کے دماغ کے اوپر سے گزر گئی اور وہ کچھ نہ بولی۔

      وقاص نے دل میں شکر کیا، چٹنی لے کر پلیٹ میں ڈالی اور دوبارہ کھانے میں مصروف ہو گیا۔

      کھانے کے بعد دونوں جب گھر واپس آئے تو رات کافی ہو چکی تھی۔ گھر کے باہر جونہی وقاص نے ٹیکسی پارک کی۔ زکیہ وقاص سے پہلے ٹیکسی سے نکلی اور گھر کا دروازہ کھولنے لگی۔

      دروازہ کھولتے ہوئے زکیہ کو نہ جانے کیوں وہم ہوا کہ اُس کے بڑے بڑے کولہوں اور پیٹھ پر اُس کے اپنے بھائی کی تپتی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ مگر اُس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ مڑ کر پیچھے دیکھے۔

      شاید اپنے وہم کو یقین میں بدلتے دیکھنے کی زکیہ میں ہمت نہ تھی۔



      وقاص گاڑی سے نکل کر اپارٹمنٹ کمپلیکس کی لابی میں لگے میل باکس کی طرف گیا اور وہاں سے اپنی میل چیک کی۔

      میل باکس میں پاکستان سے آیا ہوا ایک لفافہ وقاص کا متاظر تھا۔

      وقاص نے لفافے کو کھولا تو اس میں اس کی امی کا لکھا ہوا خط اور دو تصویریں تھیں۔

      بھر ہی کھڑے کھڑے خط پڑنے کے بعد وقاص نے تصویریں دیکھا اور مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔

      وقاص کو ٹی وی لاؤنج میں زکیہ نظر نہ آئی تو اس نے آواز دی "زکیہ کدھر ہو، ادھر آو"
      تھوڑی دیر بعد زکیہ ٹی وی لاؤنج میں آئی اور وقاص کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔

      وقاص ابھی تک ہاتھ میں پکڑی تصویریں کو دیکھ کر مسکراے جا رہا تھا۔
      وقاص نے خط زکیہ کو دیتے ہوئے کہا "خط امی کا ہے اور یہ تصویریں ریحانہ بجی کے دیور اور نند کی ہیں جن سے امی نے میرا اور تمارا رشتہ طہ کرنا ہے۔"

      زکیہ نے امی کا خط پڑا اور فوٹوز کو دیکھ کر ایک طرف پھینکتے ہوئے بولی "بھائی میں نے تو ابھی دوبارہ شادی نہیں کرنی، اس لئے مجھے تو آپ لوگ معاف کریں، ہاں آپ کو اب شادی کر لانی چاہیے"

      "میری تو دو دفعہ شادی ہو چکی ہے، ایک گرین کارڈ لینے کے لئے اور دوسری تم سے، تمہیں گرین کارڈ دلوانے کے لئے، اب امریکن قانون کے مطابق میں اپنی دوسری بیوی کے ہوتے تیسری شادی تو نہیں کر سکتا۔" وقاص زکیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا۔

      وقاص اپنی بہن کو تنگ کرنے میں مزہ آتا تھا۔ اس لئے وہ زکیہ کو چھیڑنے کے موڈ میں تھا۔

      "بھائی کی منہ سے اپنے آپ کو اس کی 'بیوی' کہتے سن کر زکیہ شرما گئی۔"

      وقاص کی بات بہت حد تک صحیح تھی۔ گھر میں بیشک وہ بہن بھائی تھے مگر 'جعلی نکاح نامے' کی وجہ سے گھر سے باہر دوسرے لوگوں کی نظر میں تو وہ ایک 'میاں بیوی' ہی تھے۔ "وہ اس لئے کہ مجھے اب شادی اُس لڑکی سے کرنی ہے جو تم سے زیادہ پیاری اور خوبصورت ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس دنیا میں میری بہن سے زیادہ پیاری لڑکی کوئی ہو نہیں سکتی، اس لئے میری شادی تو تم اب امکان سمجھو" وقاص نے اپنی بہن کو مسکا مارتے ہوئے کہا۔

      "بھائی کی بات سن کر زکیہ کا چہرہ شرم سے سوراخ ہو گیا۔ وہ چپ رہی، بولتی بھی تو کیا۔"

      وقاص زکیہ کے جواب کا متظر تھا۔ وہ انتظار کر رہا تھا کہ زکیہ اس کی بات سے چھڑے اور اس سے بحث کرے۔

      مگر زکیہ اپنے بھائی سے جان چھڑانے کے لئے صوفے سے اٹھی اور بولی "بھائی آپ بھی حد کرتے ہیں۔" یہ کہتے ہوئے زکیہ سونے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔

      نجانے کیوں زکیہ کو دل ہی دل میں اپنے بھائی کا اسے اپنی "بیوی" کہنا اور اس کی "تعریف" کرنا اچھا لگا۔ مگر وہ اس کا اظہار اپنے بھائی کے سامنے نہیں کرنا چاہتی تھی۔

      زکیہ نے اندر سے کمرے کی کنڈی لگائی اور بستر پر گر گئی۔ زکیہ بستر پر جاتے ہی سو گئی اور زور زور سے خراٹے لینے لگی۔
      Last edited by Man moji; 03-03-2024, 11:31 AM.

      Comment


      • #23
        باہر وقاص کو بھی بہن کے خراٹے سنائی دینے لگے۔ وقاص صوفے سے اٹھ کر زکیہ کے کمرے کی طرف گیا تو دیکھا کہ زکیہ کے کمرے کا دروازہ بند ہے۔
        وقاص کو پتا تھا کہ زکیہ ہمیشہ دروازہ اندر سے لاک کر کے سوتی ہے۔ مگر پھر بھی اس نے اپنی تسلی کے لئے دروازے کو تھوڑا زور لگا کر چیک کیا تو اُسے یقین ہو گیا کہ دروازہ اندر سے لاک ہے۔
        وقاص واپس ٹی وی لاؤنج میں آیا اور اپنی پینٹ اتار دی۔ اب وہ صرف اپنے انڈر وئیر میں ٹی وی لاؤنج میں کھڑا تھا اور اُس کا لن اپنی بہن کے بدن کی گرمی کی وجہ سے ابھی تک اُس کے انڈر وئیر میں فل ٹن کر کھڑا تھا۔

        تھوڑی دیر بعد وقاص اپنے سوفہ کم بیڈ پر بیٹھ کر دیکھنے لگا۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے وقاص نے انڈر وئر کے درمیان میں سے اپنا ہیرا ہوا لن نکالا اور لن پر اپنا ہاتھ مارنے لگا۔
        لن سے کہلاتے ہوئے وقاص کو بیڈ روم کی طرف سے تھوڑی آواز آئی تو وہ سمجھا کے زکیہ باتھ روم میں گئی ہے۔
        وقاص کا خون خوشک ہو گیا۔ اب وہ جلدی سے اٹھ کر پینٹ یا پاجامہ تو پہن نہیں سکتا تھا اس لئے اس نے فوراً اپنے لن پر کمبل ڈال لیا۔
        تھوڑی دیر بعد جب باتھ روم سے مزید کوئی آواز نہ آئی تو وہ سمجھ گیا کے اس کا وہم تھا۔
        وقاص نے اپنے لن سے کمبل ہٹایا اور زکیہ کے مست جوان جسم کو اپنے ذہن میں یاد کرتے لن سے دنبرا کھلنے لگا۔
        آج اپنی بہن کے گرم جسم کا کھلا نظارہ دیکھ کر وقاص کو بہت سواد آیا تھا۔
        وقاص نے تھوڑی دیر لن سے کھیلنے کے بعد اپنا انڈر وئر بھی اتار دیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے ٹوٹو اور لن کو پکڑ کر موٹھ مارنے لگا۔
        وقاص زکیہ کے نام کی موٹھ لگاتے اُس کی گرم پھدی، گول بھیرو کو نکلی گانڈ اور چورے، بڑے ممو کو یاد کرتا اپنے لن سے کہلتا رہا اور پھر خیالوں میں ہی اپنی گرم منی اپنی بہن کی پیاسی چوٹ میں انڈیل دی۔
        وقاص کے لن نے اتنی زیادہ منی چھوڑی کہ اس کی منی نے وقاص کے سوفے پر پڑی چادر اور کمبل کو خراب کر دیا تھا۔
        وقاص نے ٹیبل پر پاس پڑے ٹشو پیپرز سے اپنی ٹانگوں اور بیڈ پر لگی منی صاف کی اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔
        چونکہ فائرگ ہونے کے بعد وقاص کو کافی سکون ملا اس لئے وہ لیٹے ہی نیند کی وادی میں چلا گیا۔
        (ہر انسان اپنی زندگی میں اکثر رات کو سوتے ہوئے خواب دیکھتا ہے۔ کہتے ہیں کے انسان اکثر جو دن بھر سوچتا اور دیکھتا ہے وہی رات کو خواب کی صورت میں بھی اس کے سامنے آتا ہے)
        کچھ اسی ہی حالت اندر کمرے میں اپنے بستر پر سوتی زکیہ کی تھی جو رات کے پچھلے پھر نیند میں، دن والے سپینش ڈرامے کے ہیرو کا خواب دیکھ رہی تھی۔
        اصل میں دوپہر کو ڈرامے کے گرم سینس دیکھنے کی وجہ سے زکیہ کے جسم میں جو گرمی پیدا ہوئی۔
        اس گرمی کو زکیہ نے باتھروم میں نہاتے وقت اپنے ہاتھوں سے کام کرانے کی کوشش تو کی تھی۔
        لیکن وقاص کا بے وقت فون آنے سے زکیہ اپنی چوت کا پانی نکال کر فارغ نہ ہو پائی۔
        اس لئے لگتا تھا کہ دن کی گرمی کا اثر زکیہ کے دل و دماغ پر ابھی تک چھایا ہوا تھا جو زکیہ کے نیند میں ہونے کی وجہ سے اب ایک خواب کی شکل میں اس کے سامنے آنے لگا۔
        اپنے خواب میں زکیہ اسپینش ہیرو کی باہوں میں ہیروئن کی جگہ اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔
        زکیہ کے خواب میں ہیرو اور زکیہ پورے ننگے کھڑے تھے۔ دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں جذب تھے اور وہ دوسرے کے ساتھ زبردست کس کی صورت میں مصروف تھے۔
        زکیہ کے ہاتھ ہیرو کی کمر اور گانڈ پر پھر رہے تھے۔ جب کے زکیہ ہیرو کا ایک ہاتھ اپنی ننگی چوت کے اوپر بے تابی سے پھیرتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔
        تھوڑی ہی دیر میں، چوت پر گرمجوشی سے ہاتھ پھرتے پھرتے، ہیرو کے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دم زکیہ کی پیاسی گرم پھدی کی گہرائیوں میں گھراپ کر کے داخل ہو گئیں۔
        جو ہی زکیہ کو ہیرو کی انگلیاں اپنی چوت میں داخل ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں زکیہ ایک دم سسکاریاں آئیں اور ساتھ ہی زکیہ کی آنکھیں کُل گئیں۔
        یوں پکی نیند سے اچانک اُٹھنے پر پہلے تو زکیہ کو سمجھ نہیں آیا کے وہ کدھر ہے اور یہ سب کیا ہوا ہے۔
        دوسرے ہی لمحے زکیہ نے محسوس کیا کے اُس کا اپنا ہاتھ اُس کی شلوار کے اندر ہے اور اُس کے ہاتھ کی دو اُنگلیاں اُس کی چوت کے اندر گھسی ہوئی تیزی سے اندر باہر حرکت کر رہی ہیں۔ زکیہ کی چوت پانی پانی ہو رہی تھی۔
        زکیہ اپنی اس حرکت پر خود بھی حیران ہوئی کہ اُس نے یہ کیا ہو گیا ہے۔ اب اُسے سمجھ آیا کہ وہ جس بات کو ایک خواب سمجھی تھی وہ خواب نہیں بلکہ کافی حد تک ایک حقیقت تھی۔
        فرق صرف اتنا تھا کہ اُس کی چوت سے کھیلنے اور اُس میں داخل ہونے والی اُنگلیاں کسی ہیرو کی نہیں بلکہ اپنی ہی تھیں۔
        زکیہ کا ہاتھ ابھی تک اُس کی شلوار کے اندر تھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی چوت سے کھیل رہی تھی۔
        زکیہ نے شلوار کے اندر سے ہاتھ نکال لیا مگر بستر پر لیٹے لیٹے شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
        چوت سے کہلتے کہلاتے زکیہ کا دماغ آج دن میں بھائی وقاص اور اُس کے درمیان ہونے والی باتوں کی طرف مُڑ گیا۔
        (یہ یقینی ہے کہ عورت چاہے کوئی بھی ہو وہ ہمیشہ تعریف کی بھوکی ہوتی ہے۔ ہر عورت چاہتی ہے کہ اُسے کوئی اُس کا خیال رکھے، اُس کو پسند کرے اور اُس کی تعریف کرے۔)
        شادی کے بعد جب بھی زکیہ نے کوئی نئے کپڑے پہنے یا کبھی کہیں جانے کے لئے تیار ہو کر اکرم کے سامنے آئی تو وہ ہمیشہ اسی بات کی متضرع رہی کہ اکرم اُسے دیکھے اور تعریف کرے۔
        مگر اکرم ہمیشہ زکیہ پر ایک سرسری ڈال کر خاموش رہتا جو زکیہ کو اچھا نہیں لگتا تھا۔
        اس لئے آج پہلی بار جب وہ بھائی کی پسند کے کپڑے پہن کر اُس کے سامنے آئی اور جس طرح اُس کے بھائی نے اُس کو دیکھا اور تعریف کی، وہ نہیں جانتی کیوں زکیہ کے دل کو اچھی لگی۔
        لیکن ساتھ ہی ساتھ وقاص کے آج کے دن کا "رویہ" زکیہ کے لئے کافی حیران کن بھی تھا۔
        (قدرت نے عورت کو یہ "صلاحیت" عطا کی ہے کہ جب ایک مرد اُس کے جسم پر نگاہ ڈالتا ہے تو عورت کی "چھٹی حس" اُسے فوراً یہ بتا دیتی ہے کہ یہ مرد اُسے کس نظر سے دیکھ رہا ہے۔)
        زکیہ نے بھی آج پہلی بار اپنے بھائی وقاص کو اپنے جسم کے پوشیدہ اور چھپے ہوئے نازک حصوں کو کھوجتے اور دیکھتے محسوس کیا تھا۔
        بھائی کا خیال آتے ہی زکیہ کی چوت سے کھیلتی ہوئی انگلیاں رک گئیں۔
        "سپینش ہیرو کا خواب دیکھتے یہ وہ اچانک اپنے ہی بھائی کے بارے میں کیوں سوچنے اور اُس پر شک کرنے لگی ہے" یہ سوچ کے زکیہ اپنے آپ سے شرمندہ سی ہوئی۔
        "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بھائی اپنی ہی بہن پر گندی نظر ڈالے یہ ناممکن ہے"

        بستر پر پڑی زکیہ اپنے آپ سے لڑتی رہی کہ اُس کا بھائی ایک شریف انسان ہے اور وہ بلاوجہ اپنے بھائی کو غلط سمجھ رہی ہے۔
        دوسرے ہی لمحے زکیہ کے ذہن میں وہ منظر دور گیا جب وقاص کا ہیرا ہوا لن اُسے اپنی گداز ٹانگوں کے درمیان چبھتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
        "کیا واقعی ہی اُس کا بھائی اُس کے لئے گرم ہوا تھا؟" زکیہ سوچ میں پڑ گئی۔
        وہ بھائی کی نگاہوں کا مطلب تو غلط سمجھ سکتی ہے لیکن اُس کے جسم سے ٹچ ہونے والے اُس تنے ہوئے لن کا مطلب وہ کیا سمجھے۔
        "وقاص بے شک اُس کا بھائی ہے مگر ہے تو ایک جوان مرد" اور زکیہ نے آج پہلی بار اپنے مرحوم شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کے لن کو اپنے جسم کے ساتھ ٹچ ہوتے محسوس کیا تھا... کیا گرم روڈ جیسا تھا۔
        یہ سوچ کر زکیہ کے جوان جسم میں ایک سنسنی سی دور گئی اُس کا بھائی ایک مرد کے روپ میں پہلی بار اُس کے سامنے آیا تھا۔


        نہ چاہتے ہوئے بھی زکیہ کی اپنی چوت پر رکی اُنگلیاں خود بخود اُس کی چوت پر حرکت کرنے لگیں۔
        اب اُس کے بدن میں سرسراہٹ ہونے لگی تھی۔ زکیہ نے کئی بار اپنی چوت کو شلوار کے اوپر سے ہی دبایا اور سسکاری ماری... اِییییییی اے۔۔۔۔۔۔۔۔
        اب کی بار زکیہ کی اُنگلیاں اُس کی گرم چوت مزید تیزی سے چلنے لگیں۔
        "اُوووووووف نہییییی یہ میں کیا کر رہی ہوں" زکیہ نے اپنی پیاسی چوت پر پھسلتے ہاتھ کو روک لیا۔
        زکیہ کے جسم میں گرمی دور رہی تھی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف اُس کی چوت پانی چھوڑ رہی تھی بلکہ اُس کا پورا جسم بھی چوت کی گرمی کے اثر سے پَسینے پسینے ہو رہا تھا۔
        زکیہ بستر سے اُٹھی اور دروازے پر لگی کنڈی کو چیک کیا کہ وہ لگی ہوئی ہے۔
        اُس کے بعد زکیہ نے اپنے کپڑے اُتارے اور صرف برا اور پینٹی میں بستر پر اُنڈے منہ آ کر لیٹ گئی۔
        اس طرح لیٹنے سے اُس کا انڈر ویئر اُس کی بڑی گانڈ میں پھنس گیا اور اُس کی بھاری گانڈ کی بڑی بڑی پھاڑیاں پھیل گئیں۔

        زکیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور وقاص کے خیال کو ذہن سے نکالنے کے لئے اس نے دوبارہ اسپینش ہیرو کے خیال اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی۔
        لیکن زکیہ کے ذہن میں ہیرو کا چہرہ آنے کی بجائے ریستوراں میں بھائی کے ساتھ گزرے وقت کا خیال آیا اور وہ دوبارہ بھائی کے روائی کے بارے میں سوچنے لگی۔
        ریستوراں میں بھائی کے بارے میں کئی بار اُسے محسوس ہوا تھا کہ اُس کے بھائی کی گرم نگاہیں اُس کے سینے پر ٹکی ہیں۔ جیسے وہ بیتاب ہو کہ کب وہ ذرا سا جھکے اور کب وہ اپنی بہن کی اُبھری ہوئی جوان چھاتیوں کا نظارہ کرے۔
        زکیہ کو یقین تھا کہ جب وہ گھر کا دروازہ کھولنے میں مصروف تھی تو اُس کا بھائی اُس کے پیچھے سے اُس کے بڑے بڑے کولہوں کو غور رہا تھا۔
        بھائی کی اپنے خوبصورتی کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ زکیہ کے کانوں میں رس گھولتے جا رہے تھے۔
        “یہ مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں بار بار بھائی کا خیال میرے ذہن میں آ رہا ہے” زکیہ نے خود کو اپنے بھائی کے خیالات سے نکالتے ہوئے اپنے آپ سے خود ہی سوال کیا۔
        زکیہ کے بدن میں لگی آگ کپڑے اتارنے سے بھی کام نہ ہوئی۔ زکیہ کو ابھی بھی نہ جانے کیوں گرمی محسوس ہو رہی تھی۔


        زکیہ ایک ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے لے گئی اور اپنے بریزیئر کی ہوک کھول کر بریزیئر اُتار دیا اور سیدھی ہو کر بستر پر لیٹ گئی۔
        زکیہ نے اپنا ایک ہاتھ اپنے انڈر ویئر میں ڈالا اور چوت سے کھیلنے لگی۔
        زاکی کی چوت بہت پانی چھوڑ رہی تھی۔ جس سے زکیہ کی چوت کی گرمی مزید بڑھنے لگی۔ زکیہ اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنا انڈر ویئر بھی اُتار دیا تھا تاکہ اُس کا ہاتھ پوری آزادی سے اس کی چوت کے ساتھ کھیل سکے۔
        زکیہ کی چوت پر اُس کا ہاتھ پوری رفتار سے حرکت میں تھا اور زکیہ تیزی سے اپنی چوت کے موٹے لبوں کے درمیان اپنی انگلی کو اپنی گداز چوت کے اندر گھسا رہی تھی۔
        زکیہ اپنی ٹانگیں کھولے بستر پری پری اپنی پھدی کی آگ کو اپنے ہاتوں سے کام کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔
        اس لمحے زکیہ کی پھدی کی آگ نے اُس کو اتنا بے قابو کر دیا تھا کہ اُس کی سوچ سمجھ کی سالیوٹ جیسے ختم ہو گئی۔
        اُسے اب نہ کسی ہیرو کا خیال تھا نہ وہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اُسے فکر تھی تو بس یہ کہ وہ اپنی پھدی کی بڑھتی آگ کو کیسے ٹھنڈا کرے۔
        پھر چوت سے کھیلتے کھیلتے بل اخیر زکیہ کو منزل ہو گئی۔ اُس کی چوت نے اتنا پانی چھوڑا کہ وہ پانی اس کی گداز رانو کے درمیاں میں سے بہتا بستر کی چادر میں بھی جذب ہو گیا۔
        آج کافی وقت بعد زکیہ نے اپنی پھدی سے اس طرح کےھلا اور اس کی چوت بہت زیادہ چوٹی تھی مگر پھر بھی زکیہ کو سکون نہیں ملا۔ اُس کا جسم پھر بھی پیاسا ہی رہا۔
        رات بھر زکیہ کروٹیں بدلتی رہی۔ رات بھر بنا کچھ کیے ہی زکیہ کئی بار گیلی ہو گئی۔
        آج دونوں بہن بھائی گھر کی دیوار کے دونوں طرف اپنے اپنے جسم کی آج کو اپنے ہاتھوں سے مٹانے کی ناکام کوشش میں مشغول تھے۔
        لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ
        “عشق اسی آگ ہے ظالم
        لگے نا لگے بجھے نا بجھے”
        اس لئے یہ بھی وہ آگ تھی جو مٹھ یا انگلی سے اب بجھنے والی نہیں تھی۔

        شام کے پانچ بجے وقاص ٹیکسی سے اٹھ کر گھر آیا تو اُسے زکیہ ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی دیکھتی ہوئی ملی۔
        “زکیہ جلدی سے کھانا لگا دو بہت بھوک لگی ہے” وقاص پر بیٹھا اور نظریں جکھے اپنے بوٹ کے تسمے کھولتے ہوئے بولا۔
        “اچھا بھائی آپ ہاتھ منہ دو لو میں اتنی دیر میں روٹی بنتی ہوں” زاکی بھی بھائی کو دیکھنے کی بجائے ٹی وی اسکرین کو دیکھتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔
        آج دونوں بہن بھائی آپس میں نظریں ملانے سے کٹرا رہے تھے۔ شاید رات میں ہونے والی حرکتوں کی وجہ سے دونوں کے دل میں ایک شرمندگی سی تھی۔
        یا ان کو ڈر تھا کہ اگر ان کی نظروں کا آپس میں ملاپ ہوا تو کہیں ان کے دل کا حال ان کی آنکھوں سے عیان نہ ہو جائے۔
        وقاص نے صرف منہ ہاتھ دونوں کی بجائے جلدی سے شاور لیا اور کپڑے چینج کر کے باہر آ گیا۔
        زکیہ نے اتنی دیر میں کھانا لگا دیا تھا۔ کھانے کے دوران بھائی بہن آپس میں تھوڑے کچھے کچھے رہے۔
        کھانا ختم کرتے ہی وقاص نے زکیہ سے کہا" میں ایک دوست کے گھر اُس کے والد کی فاتحہ پڑھنے جا رہا ہوں اور شاید واپس آنے میں کچھ دیر ہو جائے اس لئے تم میرا انتظار نہ کرنا"

        اچھا بھائی۔ زکیہ نے جواب دیا۔
        وقاص کے جاتے بہر جاتے ہی زکیہ نے بھی اپنے امی ابو کو پاکستان فون میلیا اور ان سے باتوں میں لگ گئی۔
        وقاص کافی رات گئے واپس لوٹا تو زکیہ اپنے کمرے میں جا کر سو چکی تھی۔
        اس طرح کرتے کرتے ایک ہفتہ گزر گیا اور دونوں بہن بھائی کے درمیان کوئی خاص بات نہ ہوئی۔
        اگلے اتوار کو وقاص دن کے 10 بجے ہی کام ختم کر کے گھر لوٹ آیا۔
        زکیہ جو ابھی ابھی ناشتے سے فارغ ہوئی تھی اپنے بھائی کو اتنی جلدی گھر میں دیکھ کر تھوڑی حیران ہوئی۔
        "بھائی آج کاحالت ہے جلدی واپس آ گئے، آپ کی طبیت تو ٹھیک ہے، کہیں ٹیکسی تو خراب نہیں ہو گئی؟" زکیہ نے وقاص پر سوالوں کی بوچار کر دی۔
        "سب ٹیک ہے بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ، آج تمہیں ایک جگہ لے کر جانا ہے" وقاص نے بہن سے کہا۔
        "کدھر جانا ہے بھائی؟" زکیہ نے سوال کیا۔
        "زکیہ تمے شاید پتہ ہو یا نہ ہو کہ ہر سال اگست کے مہینے بروکلین میں کونی آئلینڈ ایونیو پر پاکستان انڈیپینڈنس ڈے کی خوشی میں پاکستانی میلہ منعقد کیا جاتا ہے اور آج میں تم کو اس میلے میں لے جانا چاہتا ہوں" وقاص نے اپنی بہن کو بتایا۔
        "ٹھیک ہے بھائی میں بھی تیار ہوتی ہوں" زکیہ خوشی سے بولی اور کمرے میں جا کر تیار ہونے لگی۔
        جب سے زکیہ نیو یارک آئی تھی تو کونی آئلینڈ کے علاقے میں رہنے کے باوجود کبھی بھی زکیہ کو پاکستانی میلے میں نہیں لے کر گیا تھا۔
        اب اکرم کی موت کے بعد، باوجود اس کے وہ لوگ کونی آئلینڈ کے علاقے سے تھوڑی دور برائٹن بیچ کے علاقے میں شفٹ ہو گئے تھے۔ زکیہ آج پہلی بار اپنے بھائی کے ساتھ اس میلے میں شریک ہونے جا رہی تھی۔
        تھوڑی دیر میں زکیہ تیار ہو کر لاونج میں آئی جہاں وقاص اُس کا انتظار میں بیٹھا تھا۔
        "چلو بھائی میں تیار ہوں" زکیہ نے بھائی سے کہا۔
        آج پھر وقاص اپنی بہن کی تیاری کو دیکھ کر کافی متاثر ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ امریکا آنے کے بعد اُس کی بہن کو اب آہستہ آہستہ فیشن کی تھوڑی سوج بوج اور میک اپ کرنے کا تھوڑا بہت سلیقہ آ گیا ہے۔
        "اسی لئے کہتے ہیں۔"
        "خدا جب حسن دیتا ہے
        تو نزاکت آ ہی جاتی ہے"
        اسی طرح جب انسان کی جیب میں جب پیسہ آتا ہے تو پھر سلیقہ بھی آ ہی جاتا ہے۔
        زکیہ تیار ہو کر بہت سکسی لگ رہی تھی۔ اُس نے ریڈ کلر کی ٹائٹ ریشمی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور اُس کا دوپٹہ بھی ریشمی تھا۔
        اُس کا منہ میک اپ کی وجہ سے چمک رہا تھا اور ہونٹوں پر فل ریڈ لپ سٹک تھی۔
        زکیہ ریڈ شلوار قمیض میں بنی، سانوری ایک نئی نوالی دلہن ہی لگ رہی تھی۔
        بہن کی یہ تیاری وقاص کو اچھی لگی۔ وقاص کے دل میں بہن کے لئے پیار امد آیا۔
        زکیہ کی "چلو بھائی" والی بات کے جواب میں گلام علی کا ایک گانا گا کر زکیہ سے کہنا چاہتا تھا کہ،
        "بے جا، میرے کول تینوں فکڈا راوا
        فکڈا راوا، منہوں کج نہ کوا"
        وقاص کو یہ پتہ تھا کہ وہ اپنی بہن کو چودنے کی خواہش اپنے دل میں راکھ سکتا ہے اور اپنے خوابوں میں اپنی بہن کے نام کی مٹھ بھی مار سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ کام اگر ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے۔
        اس لئے وقاص اپنے ارمانوں کا گلا گہونٹ کر یہ شعر دل ہی دل میں پڑھتا بھاڑ نکل گیا کہ،
        "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
        بہت نکلے میرے ارمان، مگر پھر بھی کام نکلے"
        زکیہ بھی خاموشی سے اپنے بھائی کے پیچھے چل پڑی۔
        گھر سے نکل کر وقاص اپنی ٹیکسی کی طرف جانے کی بجائے گھر کے قریب بنے ٹرین اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔
        "بھائی کیا ہم نے اپنی ٹیکسی میں نہیں جانا؟" زکیہ بھائی کو ٹرین اسٹیشن کی طرف جاتا دیکھ کر بولی۔
        "تم کو پتہ ہے کہ عام دنوں میں نیو یارک میں گاڑی کی پارکنگ ملنا آسان نہیں اور آج تو کونی آئلینڈ کے علاقے میں پارکنگ ملانا ناممکن ہے اس لئے ہم کیو ٹرین سے جائیں گے" وقاص زکیہ سے آگے چلتے چلتے جواب دیا۔
        وہ دونوں نیوکرک ایوینیو کے اسٹاپ پر اتر کر اسٹیشن سے باہر آئے اور میلے کی لوکیشن کونی آئلینڈ ایوینیو اور فوسٹر ایوینیو کی طرف پیڈل چل پڑے جہاں اسٹیشن سے تقریباً چار بلاک دور تھا۔
        پیڈل چلتے زکیہ اور وقاص نے راستے میں دیکھا کہ اُن کے ساتھ ساتھ اور بھی کافی پاکستانی مرد، عورتیں اور بچے میلے کی طرف روا دوا تھے۔
        میلہ میں مختلف اشیاء کے بہت سارے اسٹالز تھے جن پر لوگوں کا کافی رش ہوا۔ زکیہ کو اس جگہ آ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ آج اتنے پاکستانیوں کے درمیان آ کر زکیہ کو ایسے ہی لگ رہا تھا کہ جیسے وہ نیو یارک نہیں بلکہ پاکستان کے ہی کسی شاعر میں گوم رہی ہو۔
        ایدھر اُدھر نظریں دوراتی زکیہ کی نظر ایک اسٹال پر پڑی جہاں ایک آدمی گنے کا جوس نکال کر بیچ رہا تھا۔
        زکیہ کو اپنے بچپن کی یاد آ گئی جب وہ اپنے گاؤں میں کمڑ (سگر کین) کی کٹائی کے وقت چودھریوں کے درے پر جاتی اور وہاں سے وہ گرم گرم "رو" (گنے کا جوس) پیتی اور تازہ تازہ بنا ہوا "گڑ" کہتی تھی۔
        آج نیو یارک میں اتنے سالوں بعد گنے کے جوس کا اسٹال دیکھ کر زکیہ کا دل "رو" پینے کو مچل گیا۔
        "بھائی مجھے گنے کا جوس پینا ہے" زکیہ نے وقاص سے فرمائش کی۔
        "کون سا کیا مطلب وہ سامنے ایک ہی تو جوس کا اسٹال ہے بھائی" زکیہ وقاص کی زو مہنی بات کو نہ سمجھی اور جوس کے اسٹال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
        "تجھے وہ ہی گانا نظر آیا ہے بیوقوف، تو نہیں جانتی کہ گانا تو میرا بھی بہت بڑا اور مزیدار ہے کبھی اس کے ٹیسٹی جوس کا سواد بھی تو چکو میری جان" وقاص دل ہی دل میں زکیہ کو کوستہ سترک کے پار گنے کے اسٹال کی جانب چل پڑا۔
        دونوں بہن بھائی جوس پینے میں مصروف تھے کہ کسی نے وقاص کے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا "کداں چودھرے صاحب"۔
        "چودھرے صاحب" ہم کب سے "چودھرے" ہو گئے۔ یہ کون ہے جو بھائی کو "چودھرے" کہ کر بلا رہا ہے۔
        زکیہ یہ سوچتی، وقاص کے ساتھ ہی پیچھے کی طرف مڑی تو دیکھا کہ ایک انڈین سردار جی اپنی پوج (ٹربن) باندھے اور ہاتھ میں اورنج جوس کی ایک بوتل تھامے ان کے پیچھے کھڑے تھے۔
        وہ وقاص کا ایک انڈین دوست منجیت سنگھ بجوا تھا جو کہ وقاص ہی کی طرح ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا اور اس کے ساتھ ہی "سٹی" میں یلو کیب چلاتا تھا۔
        منجیت سنگھ اپنے تین پاکستانی روم میٹس کے ساتھ کنگز ہائیوے کے علاقے میں رہتا تھا۔
        ویسے تو منجیت سنگھ اور اس کے پاکستانی روم میٹس اپنے اپنے ملکوں سے دور پردیس میں، ایک ہی گھر میں امن اور پیار سے رہتے تھے۔
        لیکن جب کبھی انڈیا/پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا تو ان کے گھر میں بھی انڈیا/پاکستان کے بارے میں وہی ماحول ہوتا۔
        جب کبھی انڈیا میچ جیت جاتا تو منجیت کے پاکستانی روم میٹس گھر کے برتن توڑتے اور جب کبھی پاکستان میچ جیت جاتا تو پھر منجیت سنگھ گھر کے برتوں کی سختی لے آتا۔
        اب کافی برتن ضائع کرنے کے بعد ان صاحب نے اس بات کا یہ حل نکلا کہ وہ بازار سے پلاسٹک کے ڈسپوزیبل برتن لے آئے۔
        تاکہ "نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری".
        "منجیت سین ٹو اتھے کی کر رے ایاں" وقاص نے اپنے انڈین دوست منجیت سنگھ بجوا کو پاکستانی میلے میں دیکھ کر حیران ہوتے پنجابی میں پوچھا۔
        "اوہ پاؤ اپا ٹے ابرار الحق (پاکستانی پنجابی گلوکار) دے فین ہاں اپا ٹے اونو سونن آوو" (وہ بھائی ہم تو ابرار کے فین ہیں ہم تو اس کو سننے آئے ہیں) منجیت نے انڈین پنجابی لہجے میں بولتے ہوئے کہا۔
        "او بی آئے ہوئے نے ادر اُدر فریڈے پے نے" (وہ بھی آئے ہوئے ہیں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہوں گے) منجیت سنگھ نے ہاتھ میں پکڑی بوتل سے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
        جون ہی منجیت سنگھ نے اورنج جوس کی بوتل کو منہ سے لگا تو اُس کے قریب کھڑے وقاص کو ایک "مخصوص" قسم کی بوئیں آئیں تو وہ فوراً سمجھ گیا کہ منجیت سنگھ کے ہاتھ میں پکڑی بوتل میں اورنج جوس نہیں بلکہ شراب ہے۔

        ( امریکا میں ہر قسم کی آزادی ہونے کے باوجود پبلک پلیس میں کلے عام شراب پینا منع ہے۔ اسی لئے منجیت سنگھ نے شراب اورنج جوس کی بوتل میں ڈالی ہوئی تھی تاکہ اگر کوئی پولیس والا دیکھے تو یہی سمجھے کہ وہ اورنج جوس ہی پی رہا ہے)
        “چودھرے لگدا ہے تودے نال اہ اپنی پہاڑی جی نے؟" منجیت سنگھ نے زکیہ کی طرف دیکھتے وقاص سے سوال پوچھا۔
        “اہو” وقاص نے زکیہ کی طرف دیکھا اور جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
        “سسری کال پرجائی جی" منجیت سنگھ نے اپنے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے سکھ اسٹائل میں زکیہ کو مخاطب کیا۔
        “سلام بھائی صاحب” زکیہ نے بھی منجیت سنگھ کو جواب دیا۔
        “تودے کتنے بچے ہیں پاؤ" منجیت سنگھ نے وقاص سے دوبارہ سوال کیا۔
        “بچےےےےےے تے اجے کوئی نہیں سردار جی” وقاص جو اب منجیت سنگھ کے برتائے ہوئے سوالوں سے تھوڑا پریشان ہونے لگا تھا، آہستہ سے بولا۔
        “کوئی بچے نئی، کنا عرصہ ہویا شادی نوں" منجیت نے ایک اور سوال ڈالا۔

        “تریبان تین سال” وقاص نے نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دیا۔
        وقاص دیکھ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ ساتھ زکیہ بھی منجیت سنگھ کے برتائے ہوئے سوالوں سے تھوڑی پریشان لگ رہی تھی۔
        مگر وہ اُسے کیسے بتائے کہ منجیت سنگھ اُس وقت سرور کی حالت میں ہے۔
        سردار جی تو عام حالت میں بھی بہت زیادہ زندہ دل اور مذاق کرنے میں کھلے دلے ہوتے ہیں۔ اور جب اُنہوں نے “پیٹی” ہوئی ہو تو پھر جٹ دے پٹ کسی کے کابو میں نہیں آتے۔
        “وقاص پاؤ تو وی بڑا سدا ہے،میری انی سونی ووٹی ہوندی تے اپا نے تے فٹے چک دینے ساں۔ انے ٹائم وچ اپا تے انڈیا دی پوری کرکٹ ٹیم بنا دو پاؤ” (وقاص بھائی تم بھی بہت سیدھے ہو،اگر میری اتنی خوبصورت بیوی ہوتی تو میں نے تو فٹے چک دیتے، اتنے وقت میں تو میں انڈیا کی پوری کرکٹ ٹیم بنا دوں بھائی) یہ کہ کر منجیت سنگھ کھل کھل کر ہنس پڑا۔
        اُدھر زکیہ اور وقاص دونوں کی حالت بھی دیکھنے والی تھی۔ منجیت سنگھ کے اِنتے کلے مذاق نے اُن دونوں کو بہت شرمسار کر دیا۔
        دونوں بہن بھائی شرم کے مارے ایک دوسرے کو دیکھنے کی بجائے ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔
        وقاص کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ منجیت سنگھ کی اس بات کا کیا جواب دے۔
        اس لئے اُس نے منجیت سنگھ سے رخصت لینے میں ہی بہتری سمجھی اور وہ منجیت سنگھ کو سلام کر کے زکیہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
        آگے بڑھتے ہوئے زکیہ کے دماغ میں منجیت سنگھ کی باتیں ابھی تک دور رہی تھیں۔
        راہ چلتے چلتے زکیہ اس بات پر بھی غور کرنے لگی کہ اُسے اپنے بھائی کے سامنے منجیت سنگھ کی کہی گئی اتنی اوپن باتوں پہ شرمندگی تو ضرور ہوئی مگر نجانے کیوں اُسے غصہ نہیں آیا تھا۔
        اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُس کے بھائی کے کہنے کے مطابق ان کا اپس میں بھائی بہن کے رشتے کا تو صرف اُن دونوں کو علم تھا۔
        باہر، دنیا کی نظر میں تو وہ ایک میاں بیوی ہی تھے اور اسی لئے تو آج منجیت سنگھ اُن سے بچوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
        آج منجیت سنگھ کی انجانے میں کہی ہوئی باتوں نے زکیہ کو اپنے اور بھائی کے درمیان "میاں بیوی" کے جعلی رشتے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔
        زکیہ دل میں خیال آیا کہ کاش وقاص اُس کا بھائی نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
        "دل میں یہ کیا خیال دل میں لے آئی" زکیہ نے اپنے دماغ سے یہ بات نکلنے کی کوشش کی۔
        "وقاص تو میرا بھائی ہے اُس سے تو اصل شادی ناممکن ہے لیکن اگر اب میں کبھی دوبارہ شادی کروں گی تو اُس آدمی سے جو میرے بھائی کی طرح اسمارٹ ہو، جو بھائی کی طرح ہس مُکھ ہو اور بھائی ہی کی طرح میرا خیال رکھے"
        زکیہ، وقاص کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی ہی دھن میں سوچتی جا رہی تھی کہ اُسے منجیت سنگھ کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آ گئی۔
        “بھائی ہم لوگ تو ذات کے موچی ہیں یہ اب تم اچانک ایک دم “چودری” کب سے بن گئے، کیا آپ نے کسی حکیم سے اپنا علاج کروا لیا ہے؟” زکیہ نے بھائی سے مذاق کرتے ہوئے پوچھا۔
        “میری بہن پیسہ بڑی ظالم چیز ہے جب یہ انسان کی جیب میں آتا ہے تو پھر کسی بھی کمی کو “چودری” بنتے دیر نہیں لگتی” وقاص نے بہن کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
        تھوڑی دیر کے بعد ہی سڑک کے درمیان بنے ہوئے اسٹیج سے ابرار کی آمد کا اعلان ہوا تو وہ دونوں بہن بھائی بھی ابرار کے گانے سننے اُس طرف چلے گئے اور پھر شام تک کافی انجائے کیا۔
        شام کے 7 بج گئے تھے اور شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ ابھی دونوں بہن بھائی میلہ میں ہی تھے کہ تھوڑی تھوڑی پوائر پڑنے لگی جس سے ایک دم ٹھوڑی سی ٹھنڈ سی ہو گئی۔
        اس لئے وقاص نے اب گھر واپس جانے کا ارادہ کیا۔ دونوں بہن بھائی کچھ ہی دور بنے بس اسٹاپ کی طرف بڑھنے لگے۔

        زکیہ وقاص سے تھوڑا آگے چل رہی تھی اور وقاص اپنی بہن کے پیچھے اُس کی کمر اور گانڈ پر نظریں جما رہا تھا۔
        زکیہ بھائی کے آگے چلتی جا رہی تھی اور چلتے چلتے اُس کے کولھے تھوڑا ہلانا شروع ہو گئے تھے۔ زکیہ کی کمر اتنی لچکدار تھی کہ اُس کے ایک ہلکے سے جھٹکے سے ہی اُس کے بھاری کولھے تھرک اُٹھتے تھے۔
        اور اُن کا یوں ٹھرکنا کسی بھی مرد کے دل کا سکون برباد کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا تھا۔ وقاص بھی آخر ایک مرد تھا اور وہ بھی اپنی بہن کے تھرکاتے خلوو کا لطف اُٹھا رہا تھا۔
        تھوری دیر بعد ہی بس اسٹاپ آ گیا۔ بس اسٹاپ لوگوں کے رش کی وجہ سے بھرا پڑا تھا۔
        ابھی بس کیا نے میں تھوڑی دیر تھی اس لئے دن بھر کی تھکی ہاری زکیہ بس اسٹاپ کے ساتھ لگے لوہے کے ایک جنگلے پر اپنی گانڈ ٹیکا کر بیٹھ گئی۔ وقاص اُس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی بہن کی گانڈ کا نظارہ لینے لگا۔
        جنگلے پر بیٹھنے سے زکیہ کے بھاری گوشت سے بڑی ہوئی گانڈ کی موٹی موٹی پھاڑیاں لوہے کے راڈ کے دونوں طرف لٹک گئیں۔
        زکیہ کا جنگلے پر بیٹھنے کا انداز تباکوں تھا اور یہ انداز دیکھ کر وقاص دل میں سوچے لگا کہ کاش وہ لوہے کا یہ راڈ ہی ہوتا تو آج اُس بہن کی اُس پر اپنی مست گانڈ ٹکا کر بیٹھتی۔
        وقاص کا لن اپنی بہن کے بدن کے نظروں کو دیکھ کر جگ اُٹھا اور اُس کو بے چین کرنے لگا۔
        تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد بس آئی تو سب لوگوں کے ساتھ وہ دونوں بھی اُس میں سوار ہو گئے۔
        بس میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی اور زکیہ اور وقاص کے پیچھے بس میں سوار ہونے والے لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔
        اس لئے وہ ڈرائیور کو ٹکٹ کے پیسے دے کر بس کے پچھلے حصے میں جا کر کھڑے ہوگئے اور بس اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔
        زکیہ بس کے درمیان لگا ہوا ڈنڈا پکڑے کھڑی تھی، جو بس میں لگے اے سی کی وجہ سے کافی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
        وقاص بھی اپنی بہن کے پیچھے بس کی چھت کے ساتھ لگے ہوئے راڈ کو پکڑے ہوئے کہر تھا۔
        تھوڑی دیر کے بعد بس ڈرائیور نے اچانک بس کو ایک دم زور سے بریک لگائی جس کی وجہ سے زکیہ اور وقاص دونوں اپنا توازن کھو بیٹھے۔
        زکیہ کا جسم اپنے سامنے لگے بس کے دندے سے ٹکریا، جس سے زکیہ کی بھاری چھاتیاں اور گرم چوت لوہے کے دندے میں پھنس گئیں۔
        وقاص نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر اُس کا جسم اُس کا کنٹرول میں نہ رہا اور وہ بے اختیار اپنی بہن کے جسم کے ساتھ پیچھے سے ٹکرا گیا۔

        وقاص نے اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کے لئے جب زکیہ کا سہارا لینے کی کوشش کی تو وقاص کا ایک ہاتھ زکیہ کی گانڈ کے اوپر لگا اور دوسرا ہاتھ بہن کے دائیں ممے پر پہنچا۔
        وقاص پوری طرح پیچھے سے اپنی بہن کے جسم سے چپک گیا۔ اُس کا لن اپنی بہن کے چوتروں کی دھرار میں دبا ہوا تھا اور اُس کا ہاتھ اپنی بہن کی بڑی چھاتی کی سختی اور گولائی کے مزے لے رہا تھا۔
        وقاص بس کا جٹکا بھول کر اپنی بہن کے مست فگر، اس کے نرم، بڑے چوتڑ اور بہن کے جسم کی مدہوش کردینے والی خوشبو میں کھو گیا۔
        دوسری طرف زکیہ ڈنڈے کو ٹھمائے ہونے کی وجہ سے گرنے سے تو بچ گئی مگر اُسے آگے سے تہنڈے لوہے کی رگڑ اپنی پتلی شلوار کے اوپر سے اپنی جوان گرم چوت پر محسوس ہوئی تو پیچھے سے اُسے بھائی کا ہاتھ اپنے موٹے ممے پر اور اُس کا گرم لن اپنی چوتڑ کی دیوار میں دباو محسوس ہوا۔
        بھائی کے ہاتھ اپنے جسم کے نازوک حصوں پر محسوس کرتے ہی زکیہ اک دم گبرا گئی۔
        “بھائی آپ مجھ میں ہی گھسے جا رہے ہو، تھوڑا پیچھے ہٹ کے کھڑے ہو نا، پلیز” زکیہ نے بڑی مشکل سے بھائی کو اپنے پیچھے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔


        "میں کہا گھوس رہا ہوں، میری بہن، یہ تو بس والا مجھے تم میں گھوس رہا ہے" وقاص نے بہن کے جسم سے پیچھے ہٹتے جواب دیا اور اپنے ہاتھ اپنی بہن کے گداز جسم سے ہٹا کر دوبارہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔
        وقاص پیچھے تو ہٹ گیا مگر وہ خوش تھا کہ آج اُسے اپنی بہن کی چھاتی اور گانڈ کو چھونے کا موقع نصیب ہوا تھا۔
        وہ سوچنے لگا کہ اُس کی بہن کی گولائی لئے ہوئے مکمل چھاتی بالکل پکے ہوئے آم کی طرح ہے جسے دباؤ تو فوراً رس چلک پڑے۔
        اور اُس کی بہن کی گانڈ کسی پرشین کارپٹ کی طرح گداز تھی۔ جس کے اوپر لن رکھو تو وہ پورے کا پورا گانڈ کی دھرار میں گُستا چلا جائے۔
        وقاص اپنی سوچوں میں مغرور تھا اور زکیہ یہ سوچنے میں لگی تھی کہ اُس کے بھائی کو آج کل کیا ہو رہا ہے۔
        کچھ دن پہلے گھر میں اُس نے اپنے بھائی کے لن کو اپنی چوت سے چھوے ہوئے محسوس کیا تو اُس بات کو وہ اپنا وہم سمجھ کر بھول گئی مگر آج اُس کے بھائی کا اُس کے جسم کے نازوک اور پوشیدہ حصوں کو چھونا محض ایک اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔
        زکیہ اپنے جسمانی حسوں پر اپنے بھائی کے گرم ہاتھوں کی تاپش اب بھی محسوس کر رہی تھی۔
        زکیہ نے میلے میں کئی مردوں کی گرم پیاسی نگاہیں اپنے جوان جسم کے اُبھرے ہوئے حصوں پر چبھتی ہوئی محسوس کی تھیں۔
        "شاید میرا جسم، دوسرے مردوں کی طرح میرے ساگھے بھائی کو بھی اپنی جانب کھینچتا ہے، مگر کیوں، وہ کوئی عام مرد نہیں بلکہ میرا ساگھا بھائی ہے؟
        مگر اس "کیوں" کا جواب شاید زکیہ کے پاس ابھی نہیں تھا۔
        گھر کے قریب پہنچ کر دونوں بہن بھائی بس سے اُترے اور کاموشی سے چلتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے۔ کچھ دن ایسے ہی گزرے اور اگست کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
        ستمبر کا مہینہ شروع ہی ہوا تھا کہ وقاص کو پاکستان سے ایک الارم ناک خبر ملی کہ اُس کے ماں باپ کو ان کے ایک ڈرائیور (جس کو انوں نے حال ہی میں لاہور والے گھر میں نوکری پر رکھا تھا) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر، لوٹنے کے بعد قتل کر دیا ہے۔
        وقاص اور زکیہ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ وہ دونوں بہن بھائی فوراً پاکستان پہنچے۔ اُن کے لاہور والے گھر میں وقاص اور زکیہ کی ساری بہنیں اور ان کے باقی رشتے دار اکٹھے ہوتے ہوئے تھے۔

        ماں باپ کا کفن دفن کرانے کے بعد وقاص تقریباً ایک مہینہ پاکستان رہا اور اپنی جو تھوڑی بہت جائیداد تھی اس کے معاملات نبٹائے۔ اکتوبر میں وقاص نے امریکا واپسی کا ارادہ کیا تو زکیہ نے اُسے بتایا کہ وہ ابھی اپنی بہنوں کے پاس کچھ دیر مزید ٹھہرنا چاہتی ہے۔ اس لئے وقاص نے زکیہ کو پاکستان چھوڑ کر اکیلا نیو یارک چلا آیا۔
        Last edited by Man moji; 03-03-2024, 11:30 AM.

        Comment


        • #24
          نیو یارک پہنچ کر اُس نے زکیہ کی امریکی شہریت کی درخواست جمع کروا دی۔ کچھ وقت بعد زکیہ کی فنگر پرنٹس کی تاریخ کا خط وقاص کو ملا تو وقاص نے زکیہ کو واپس نیو یارک آنے کو کہا۔

          دسمبر کے آخری ہفتے میں زکیہ کا امریکن شہریت کا انٹرویو ہوا تو زکیہ نے پاس کر لیا۔

          اب زکیہ کا دل تھا کہ وہ جلدی سے اپنا امریکن پاسپورٹ بنوا کر پاکستان چلی جائے۔ مگر وقاص کا دل کچھ اور ہی چاہ رہا تھا۔


          وہ ڈسمبر کی 18 تاریخ تھی۔ وقاص شام کو کام سے واپس آیا تو دیکھا کہ اُس کی بہن زکیہ اپنے کمرے میں اپنے بستر بیٹھی ہوئی تھی۔

          وقاص کی نظر بہن کے چہرے پر پڑی تو اُسے زکیہ شکل سے تھکی تھکی سی لگی۔

          اصل میں آج ہی زکیہ کی ماہواری (پیریڈز) شروع ہوئی تھی۔ ماہواری کے شروع ہونے کے پہلے ایک دو دن زکیہ کو پیٹ میں بہت شدید قسم کا درد ہوتا اور شات ہی اُسے کافی ہیوی بلیڈنگ ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے اُسے پیریڈ کے پہلے دن کافی تھکاوٹ بھی ہوتی تھی۔

          اب زکیہ اِن سب باتوں کا اظہار اپنے بھائی سے تو کرنے سے کثیر تھی۔ اس لئے وہ "کچھ نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں" کے علاوہ بھائی کو "کہ" بھی کیا سکتی تھی۔

          وقاص بہن کا جواب سن کر خاموش ہو گیا۔ اتنی دیر میں زکیہ نے بستر پر بھٹے بھٹے اپنی ٹانگیں تھوڑی اور کھول دیں۔

          وقاص کی نظر بہن کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان پڑی تو اُسے بہن کی شلوار پر گانڈ کے قریب "خون" کے چند "دھبے" لگے نظر آئے۔ اپنے بھائی کے منہ سے اپنی شلوار پر لگے خون کا سن کر زکیہ کا تو جیسے "رنگ" ہی "اڑ" گیا۔

          وہ فوراً سمجھ گئی کہ اُس کا بھائی جس چیز کو خون کہ رہا ہے اصل میں وہ اُس کی مینسٹرول بلیڈنگ کے دبے ہیں۔

          اصل میں جب تک اکرم زندہ تھا تب تک زکیہ کو کبھی پیڈز کی کمی کا مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ چونکہ اکرم کو زکیہ کی پرسنل استعمال کی چیزیں مثلاً ہیئر ریموونگ کریم اور پیڈز وغیرہ ہر بار بار خرید کر لانا اچھا نہیں لگتا تھا۔



          اس لئے جب بھی اکرم شاپنگ کے لئے جاتا وہ زکیہ کے لئے چار، پانچ مہینے کے پیڈز اور دوسری چیزیں خرید کر ان کو گھر میں اسٹاک کر دیتا تھا۔

          اور آج جب دوپہر کو زکیہ کے پیریڈز شروع ہوئے تو زکیہ نے پیڈز لگانا چاہا تو اُسے پتا چلا کہ نہ صرف اکرم کے لئے لائے ہوئے پیڈز ختم ہو چکے تھے بلکہ زکیہ خود بھی پاکستان سے آتے ہوئے جلدی میں اپنے پیڈز ساتھ لانا بھول گئی۔

          زکیہ کو اس بات کی بہت پریشانی ہوئی۔ اُس نے کاٹن کو ایک پرانے کپڑے میں رکھ کر اُسے اپنے انڈر وئیر میں رکھا تو تھا مگر اُسے نہیں معلوم تھا کہ یہ کاٹن اور پرانا کپڑا اُس کی ہیوی بلیڈنگ کو روک سکے گا۔

          اب اُس کا بھائی اُس کے سامنے کھڑا نہ صرف اُس کی شلوار پر لگے ہوئے "خون" کو دیکھ چکا تھا بلکہ وہ اُسے نہ سمجھی میں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضد بھی کر رہا تھا۔ زکیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے بستر سے اُٹھ کر باتھروم جائے اور اپنے جسم کو صاف کرے۔

          "میرے بڈھو بھائی میں آپ کو کیسے سمجھوں، میری شلوار پر لگا خون کسی زخم کا نہیں بلکہ عورتوں کو جو ہر مہینے ماہواری ہوتی ہے یہ اُس کا داغ ہے" وقاص کی ضد کے آگے ہر منٹے، زکیہ نے چاہتے ہوئے بھی آخری بولی اور جلدی سے اُٹھ کر باتھروم میں گئی۔

          وقاص کو اپنی بہن کے منہ سے یہ بات سننے کی توقع نہیں تھی۔ اس لئے وہ یہ بات سن کر ادر ہی ایک بٹ کی مانند "ہکا بکا" کھڑا بہن کو باتھروم کی طرف جاتا دیکھتا رہا۔

          وقاص نے شاید کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اُس کی بہن اپنی ڈیٹس کے بارے میں یوں اُس سے کہے گی۔

          باتھروم میں جاتے ہی زکیہ نے اپنی شلوار اُتاری تو دیکھا کہ کاٹن اور پرانا کپڑا اُس کی ہیوی بلیڈنگ کو روکنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ "خون" سے اُس کی ساری شلوار اور ٹانگیں بھر گئیں تھیں۔

          زکیہ نے فوراً اپنی ٹانگیں اور چوت کو پانی سے اچھی طرح دھو کر صاف کیا اور نئے کاٹن اور ایک پرانا ٹوئل کا چھوٹا سا ٹکڑا اپنی چوت کے اُوپر رکھ کر دوبارہ نئیا انڈر وئیر اور شلوار پہن لی۔

          زکیہ باتھروم میں کھڑی اپنے اور بھائی کے درمیان کمرے میں ہونے والی گف تگو کے بارے میں سوچنے لگی۔

          اُس نے بھائی کی ضد سے مجبور ہو کر اپنی ماہواری کی بات تو اُس سے کر دی تھی لیکن اب زکیہ کو یہ بات سوچ کر بھی اپنے آپ سے شرم آنے لگی تھی۔

          زکیہ جانتی تھی کہ اپنی ہیوی بلیڈنگ کو روکنے کے لئے اُسے اب پیڈز کی اشد ضرورت ہیں مگر شرم کے مارے اُس میں حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ بھائی سے کہہے کہ اُسے اسٹور سے پیڈز لینے جانا ہے۔

          زکیہ باتھروم سے باہر آئی اور بھائی کو کہنا دیا۔ کھانا سے فارغ ہو کر وقاص ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا کہ زکیہ اُس کے پاس آئی اور گجکاتے ہوئے بولی۔

          وقاص زکیہ کو ساتھ لے کر گھر کے قریب ہی ایک امریکن اسٹور پر چلا آیا۔ اسٹور میں داخل ہوتے ہی زکیہ نے ایک شاپنگ بسکٹ ہاتھ میں اُٹھا لی۔

          ایک تو زکیہ اس اسٹور میں پہلی بار آئی تھی دوسرا اُس کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہیں تھی کہ اسٹور کے اندر لکھے ہوئے سائنز کو پڑھ کر یہ جان سکتی کہ کون سے ایلس نمبر میں پیریڈز کے پیڈز رکھے ہوئے ہیں۔ زکیہ اسٹور میں داخل ہو کر مختلف ایلس میں نگاہ دورانے لگی۔ "کوئی خاص نہیں میں خود ہی ڈھونڈ لیتی ہوں" زکیہ نے بھائی کو ٹالتے ہوئے کہا۔


          اچھا میں باتھروم سے ہو کر آتا ہوں کہتا ہوا وقاص اسٹور کے ایک کونے میں بنے ریسٹ روم کی طرف چلا گیا۔

          بھائی کو باتھروم کی طرف جاتا دیکھ کر زکیہ کی جان میں جان آئی۔ وہ تیزی سے سب آئلز میں گمنے لگی اور اخیر کار اسٹور کے آخری آئل میں زکیہ کو پیڈز رکھے نظر آہی گئے۔

          اس سیکشن میں مختلف سائز اور اسٹائل کے پیڈز مختلف پیکٹس میں لپیٹے پڑے ہوئے تھے۔

          زکیہ نے ایک پیکٹ اٹھایا اور اسے گور سے دیکھنے لگی۔ زکیہ اب اس سوچ بیچار میں تھی کہ کون سے پیڈز خریدے کہ اُسے بھائی کی آواز کانوں میں پڑی۔

          "زکیہ تم کیا دیکھ رہی ہو" وقاص نے اس کے ہاتھ میں پکڑا پیکٹ دیکھ کر پوچھا۔

          زکیہ کی تو جان ہی نکل گئی۔ اس کے بھائی نے اُسے اپنے ہاتھ میں پیڈز کا پیکٹ پکڑے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا، اس لئے اب وہ بھائی سے کوئی جھوٹ بولنے سے کثیر تھی۔

          "مجھے اپنی ڈیٹس کے پیڈز لینے ہیں" زکیہ اپنی نظریں جھکائے شرماتے ہوئے بولی۔

          وقاص بہن کی یہ بات سن کر جھنپ سا گیا۔ اُس نے زکیہ کے ہاتھ میں پکڑا پیڈز کا پیکٹ دیکھا تو وہ ریگولر پیڈز کی بجائے ٹیمپون کا پیکٹ تھا۔


          وقاص کو اپنی امریکن بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے لیڈیز کے پیڈز کے بارے میں اتنی تو معلومات ہو گئی تھی کہ ٹیمپون کو زیادہ طرہ امریکن لیڈیز ہی استعمال کرتی ہیں۔

          کیونکہ ٹیمپون کو چوت کے اوپر رکھنے کی بجائے امریکن عورتیں اسے اپنی چوت کے اندر ڈالتی ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس طرح ٹیمپون ماہواری کے دوران چوت سے نکلنے والا سارا "خون" چوس لیتا ہے۔

          وقاص کو زکیہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے گیا کہ اس کی بہن اس قسم کے پیڈز اس سے پہلے نہیں دیکھے اور زکیہ کو اب سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ یہ پیڈز لے یا نہ لے۔

          وقاص نے بہن کو اس شوشو پنج میں دیکھا تو اس نے اچانک کاؤنٹر پر پڑا ایک "الویز میکسی اوورنائٹ ایکسٹرا ہیوی فلو"

          والا پیکٹ اٹھایا اور اُسے اپنی بہن کے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولا "وہ رکھ دو یہ اچھا ہے" اور یہ کہتا اپنی بہن کو "حیران پریشان" کرتا چیک آؤٹ کاؤنٹر کی طرف بھاڑ گیا۔

          زکیہ کو اپنے بھائی کی اس حرکت سے بہت شرم آئی مگر وہ اب کر بھی کیا سکتی تھی۔ بھائی کے علاوہ اب ادھر کون تھا جس کے ساتھ جا کر وہ اپنی پرسنل استعمال کی اشیاء خریدتی۔

          زکیہ کو پتہ تھا اسٹور کے کلوزنگ ٹائم ہونے کی وجہ سے چیک آؤٹ کاؤنٹرز پر رش تھا اور اسی وجہ سے وقاص اُس سے پہلے ہی لائن میں جا کر کھڑا ہو کر اُس کا انتظار میں ہے۔


          اس لئے اُس نے ساتھ والے آئل سے اپنی ہیئر ریموونگ کریم اور ایک دو اور چیزیں اٹھائیں کر بسکٹ میں رکھیں اور لائن میں لگے وقاص سے ٹیکسی کی چابی لے کر بھائی کو بسکٹ دی اور خود باہر ٹیکسی میں آ کر بیٹھ گئی۔

          جب وقاص نے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو ساری چیزیں اسکین کرنے کے لئے دین تو وقاص اپنی بہن کی ہیئر ریموونگ کریم کو دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوا۔

          وہ سمجھ گیا کہ اُس کی بہن نے اپنے پریئڈ کے بعد اپنی چوت کو نکھرانے اور سنوارنے کا پورا انتظام کر لیا ہے۔

          وقاص کو اُس لمحے ہون مشوش ہوا جیسے شلوار میں چھپی اس کی بہن کی چوت اُس کے پینٹ میں بندے لن کے کان میں سرگوشی کرتے گنگنا رہی ہو،

          “سجنا ہے مجھے سجنا کے لئے”

          یہ سوچتے آتے ہی وقاص بے اختیار خود ہنس پڑا۔ جس پر کیشیئر لڑکی اُسے ایسے دیکھنے لگی جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔

          وقاص اُس وقت واقعی ہی پاگل ہو رہا تھا۔ پیمنٹ کرتے وقت وقاص کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ آج ایک ساگھا بھائی اپنی سگی بہن کی ہیئر ریموونگ کریم اور اپنی بہن کے پریئڈز کے پیڈز کی خود خریداری کر رہا ہے۔


          وقاص اپنی قسمت پر راضی ہوتے ہوئے ٹیکسی میں آن بیٹھا اور دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے کوئی بات کیے بغیر گھر چلے آئے۔
          ایک ہفتے بعد زکیہ کے پریئڈز ختم ہو گئے اور وہ "غسل" کر کے "پاک صاف" ہو گئی۔

          دسمبر 1994 کا آخری ہفتہ چل رہا تھا اور نیو یار کی رات قریب آ رہی تھی۔

          پورے امریکہ میں عام طور پر اور نیو یارک شہر میں خاص طور پر سب ٹیکسی ڈرائیورز پورے سال نیو یار کی رات کا انتظار کرتے ہیں۔

          کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور اس ایک رات میں ہی پورے ہفتے کی کمائی کے برابر پیسے بناتے ہیں۔

          لیکن اس بار اگر کسی کو اس رات کا شدت سے انتظار تھا تو وہ وقاص تھا۔

          وقاص آنے والی نیو یار کی رات کو ٹیکسی چلا کر نہیں بلکہ وہ اس دفعہ نیو یار کی رات کو اپنی بہن زکیہ کے ساتھ لاس ویگاس نیواڈا میں جا کر منانا چاہتا تھا۔

          وقاص جب آیا امریکا تو اس نے لاس ویگاس کے بارے میں بہت کچھ سنا رکھا تھا۔

          جس طرح پاکستان میں لاہور کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ،

          "جنے لاہور نئی تکیا او جمیا ہی نئی"

          اسی طرح وقاص کو اس کے وہ دوست جو ویگاس کا دورہ کر چکے تھے۔ اکثر کہتے تھے کہ اگر تم نے امریکا میں رہتے ہوئے ویگاس نہیں دیکھا تو پھر تم نے امریکا نہیں دیکھا۔


          لاس ویگاس کو "سن سٹی" یعنی "گناہوں کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔

          لاس ویگاس کے بارے میں مشہور ہے کہ


          What happens in Vegas stays in Vegas.

          وقاص نے اپنی بہن زکیہ کو بتائے بغیر ہی لاس ویگاس کا پروگرام بنایا کر جہاز کی ٹکٹ خرید لیں مگر اس نے ہوٹل کی بکنگ نہ کروائی۔

          وقاص کا ارادہ تھا کہ لاس ویگاس پہنچ کر وہ اُدھر ہی کوئی ہوٹل دیکھ لے گا۔

          لاس ویگاس جانے سے ایک دن پہلے وقاص نے زکیہ کو اپنے پروگرام کے متعلق بتایا۔

          زکیہ بھی جب سے امریکا کی تھی اس نے بھی کبھی نیو یارک سے باہر کا سفر نہیں کیا تھا۔ اس لئے زکیہ بھی بھائی کا پروگرام سن کر کافی خوش ہوئی۔

          1994 اور 1995 کی آخری رات

          31 دسمبر کی صبح دونوں بہن بھائی یونائیٹڈ ایئر لائن کی فلائٹ سے 5 گھنٹے کا سفر کر کے لاس ویگاس پہنچ گئے۔

          ایئرپورٹ سے نکل کر دونوں نے ٹیکسی لی اور سب سے پہلے وہ ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے کسی ہوٹل کی تلاش میں نکلے۔

          لاس ویگاس میں نیو یار کو منانے والوں کا کافی رش ہونے کی وجہ سے ایک طرف بہت سے ہوٹل سولڈ آؤٹ ہو گئے تھے اور جن میں کوئی روم دستیاب بھی تھا اس کا ریٹ آسمان سے بتین کر رہا تھا۔

          وقاص کو ایک ڈیسنٹ ہوٹل میں کوئی روم نہیں ملا تو اس نے کافی دیر کے بعد تنگ آ کر ایک لو کلاس والے گندے سے موٹل میں ہی رات بسر کرنے کا ارادہ کر لیا۔

          وقاص نے ایک روم لیا جس میں دو الگ الگ بیڈ لگے ہوئے تھے۔


          دن کے 3 بجے اپنے روم میں چیک ان کرنے کے بعد دونوں بہن بھائی نے شاور لیا اور فریش ہونے کے بعد لیٹ دوپہر کا کھانا کھانے نکلے۔

          لاس ویگاس کی سڑک پر چلتے ہوئے وقاص نے محسوس کیا کہ چونکہ اُس کی بہن زکیہ نے شلوار کمیز پہنی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ ساتھ گزرتے ہوئے اس کو تھوڑا عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

          ایک انڈین ریستوراں میں کھانا کھانے کے بعد دونوں بہن بھائی ریستوراں کے قریب ہی ایک مال میں چلے گئے تو وقاص کو ایک ڈریس نظر آیا۔
          زکیہ نے اُس ڈریس کی طرف دیکھا تو وہ ایک لو کٹ شرٹ اور اُس کے ساتھ ایک لانگ اسکرٹ تھی۔

          "مگر مجھے کچھ وجہ تو بتاؤ بھائی" زکیہ نے ضد کرتے ہوئے بھائی سے پوچھا۔

          "زکیہ تم نے گھور کیا کے جب ہم سڑک پر چل رہے تو لوگ کیسے گھور سے تمے دیکھ رہے تھے۔ مجھے پتا ہے کے نیو یار کی رات کو ہر بندہ ڈرنک ہوتا ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کے کوئی شرابی تمے شلوار کمیز میں دیکھ کر تم سے کسی قسم کی بدتمیزی کرے" وقاص نے بہن کو سمجھایا۔

          اپنی بھائی کی بات سن کر زکیہ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر اپنی سائز کا ڈریس ہینگر سے اُٹھا کر اسٹور میں بنے فٹنگ روم میں ڈریس کو ٹرائی کیا اور وہ پھر دونوں بہن بھائی ڈریس خرید کر واپس اپنے روم میں آ گئے۔


          روم میں آنے کے بعد وقاص نے زکیہ سے کہا کہ وہ تھوڑا آرام کر لے اور پھر شام کو وہ دوبارہ باہر گھومنے نکلنے جائیں گے۔

          لاس ویگاس میں ابھی شام کے 6 بجے تھے مگر وہ لوگ نیو یارک کے وقت کے آدھے تھے اور نیو یارک کا وقت ویگاس سے 3 گھنٹے آگے ہونے کی وجہ سے زکیہ اور وقاص کو نیند آنے لگی اس لئے وہ تھوڑا سونا چاہتے تھے۔

          لاس ویگاس کے وقت کے مطابق رات کے 8 بجے دونوں بہن اُٹھے اور باہر جانے کے لیے تیار ہونے لگے۔

          زکیہ نے باتھ روم میں جا کر اپنا نیا ڈریس پہنا اور تیار ہو کر جب باہر آئی تو وقاص اپنی بہن کو پہلی بار ایک ویسٹرن ڈریس میں دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا۔

          آج زکیہ نے اپنے سینے کو دوپٹہ نہیں ڈھکا ہوا تھا بلکہ آج دوپٹے کی بجائے ایک چھوٹی سی کپڑے کی پٹی اس کی بازوں میں جھول رہی تھی جس کی وجہ سے وقاص اس کی باری باری چھاتیوں کا کھلا نظرہ کر سکتا تھا۔

          زکیہ نے اپنے بال بھی آج کھلے رکھے تھے جو اُس کی خوبصورتی میں نکھار پیدا کر رہے تھے۔

          "بھائی میں ان کپڑوں میں کیسی لگ رہی ہوں" زکیہ نے ایک ادا سے اپنے بھائی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

          "میں ویسے ہی تمہاری تعریف نہیں کرتا، تم واقعی بہت پیاری لگ رہی ہو" وقاص نے اپنی بہن کے بدن پر، اوپر سے نیچے ایک بہروپور نظر ڈالتے ہوئے کہا۔


          وقاص کا لن اپنی بہن کی جوانی کی مستی کا مزہ چکنے کے لیے بے قرار ہونے لگا۔

          دونوں بہن بھائی رات کے 10 بجے روم سے باہر نکلے اور نیو ایئر رات کو ویگاس کی رونقیں دیکھنے چل پڑے۔

          ویگاس کو رات میں دیکھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ لاس ویگاس میں صرف جوا ہی نہیں ہوتا بلکہ ادر بنے ہوئے مختلف ہوٹل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ہوٹل ایک دوسرے سے مختلف اسٹائل میں بنایا اور سجایا گیا ہے۔

          ویگاس کے ہوٹل اور ویگاس کی سڑکوں پر نیو ایئر کی سیلبریشن فل زوروں پر تھی۔

          لڑکیوں نے چھوٹے چھوٹے ڈریس پہنے ہوئے تھے جن میں سے ان کے ادے سے زیادہ مومے اور انڈی سے زیادہ ننگی ٹانگوں کا نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔

          شراب کے نشے میں دوست کافی کپلز ہر کونے میں ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے کسیس میں مصروف تھے۔

          زکیہ نے محوش کیا کے آتے جاتے مردوں کی بھوکی نظریں اُس کا بھی پیچھا کر رہی ہیں۔

          زکی جانتی تھی کہ ان کی نظروں میں کیا بھوک اور ہوس ہے مگر وہ ان سب نظروں سے بے پروا ہو کر اپنے بھائی کے ساتھ چلتی رہی۔

          دونوں بہن بھائی کافی دیر اِدر اُدر گمٹے رہے اور پھر اَخیر کار رات کے 12 بج گئے۔

          رات کے 12 بجنے کی دیر تھی کے ویگاس کی فضا اٹھش بازی اور ہیپی نیو ایئر کی آوازوں سے گُنج اُٹھی۔

          وقاص اور زکیہ کے اراد گرد لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے میں لگے ہوئے تھے۔

          دونوں بہن بھائی کے آس پاس کا ماحول بہت گرم ہو گیا تھا اور اس کا اثر ان دونوں پر بھی پڑنے لگا۔


          وقاص نے سب لوگوں کو ایک دوسرے میں گم ہوتے دیکھا تو اُس سے بھی رہا نے گیا اور اُس نے آگے بار کر زکیہ کو ایک دم اپنی باہوں میں بھر لیا جس کی وجہ سے دونوں کے جسم آپس میں چپک گئے۔

          "ہیپی نیو ائیر اینڈ ہیپی 26 برتھڈے میری بہن"۔ وقاص نے زکیہ کے جسم کو اپنی باہوں کی گرفت میں غیرتے ہوئے کہا۔

          زکیہ جو اپنے بھائی کا اُسے یوں اپنے ساتھ ایک دم چپکانے سے حیران ہو رہی تھی کہ اپنے بھائی کی کہی ہوئی بات کو سن کر اُس کا منہ کھولا کھولا رہ گیا۔

          زکیہ جنوری 1 کو پیدا ہوئی تھی اور اس لئے جب ہی رات کے 12.01 منٹ ہوئے تو جنوری فرسٹ شروع ہو گئی جس پر وقاص نے اپنی بہن کو نیو ایئر کے ساتھ ساتھ اُس کی سالگرہ کی مبارک بھی دی۔

          زکیہ کو اپنی سالگرہ کچھ یاد نہیں تھی۔ کیونکہ بچپن سے لے کر جوانی تک غربت کے دور میں جب کے گھر میں روٹی کے لالے پڑے ہوں تو پھر سالگرہ منانے کے چونچلے نہیں ہوتے۔

          اور شادی کے بعد بھی اکرم نے زکیہ کی سالگرہ منانا تو دور کی بات اُسے سالگرہ والے دن کبھی وش تک نہیں کیا تھا۔

          اس لئے زکیہ کو بہت خوشی ہوئی کہ آج پہلی بار کسی نے اُس کو ایسے اُس کی سالگرہ پر مبارک دی تھی۔

          زکیہ بھائی کی بات سن کے مست ہو گئی اور اس کی باہیں بھی خود بخود اپنے بھائی کے جسم کے گرد لپٹ گئیں اور وہ ایک دوسرے سے مزید چمٹ گئے۔

          تھوڑی دیر وہ دونوں ایک دوسرے سے اسی طرح لپٹے ایک دوسرے کی گرم سانسیں سنتے رہے اور اس کے بعد زکیہ نے بھائی سے واپس موٹل جانے کا کہا تو وہ ایک دوسرے سے الگ ہو کر موٹل کی طرف چل پڑے۔

          راستے میں زکیہ اپنے بھائی کی پیاسی نگاہوں کا اپنے جسم کے ہر حصے کو مکمل طور پر محسوس کر رہی تھی۔

          آج شاید لاس ویگاس کے گرم ماحول کا اثر تھا کہ زکیہ کو اپنے بھائی کے اس طرح اپنا جسم کو کھوجنا نہ صرف بُرا نہ لگا۔ بلکہ آج وہ خود بھی شاید یہ چاہتی تھی کہ اس کا بھائی اُسے دیکھے اور وہ اپنے جسم کو اُس کی نگاہوں کے سامنے لالچا کر اُس کی بیقراری بڑھاتی رہے۔

          موٹل کے روم میں آتے ہی وقاص باتھ روم گئے اور زکیہ اپنے بستر پر لیٹ کر بھائی کے باتھ روم سے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی تاکہ وقاص کے بعد باتھ روم میں جا کر اپنے کپڑے تبدیل کر سکے۔

          وقاص نے باتھ روم سے باہر آنے میں کچھ دیر لگا دی تو زکیہ جو دن بھر کی تھکی ہوئی تھی وہ بیڈ پر لیٹی اور تھکی مارے فوراً ہی اُس کی آنکھ لگ گئی۔ جس وجہ سے وہ اپنے کپڑے بھی تبدیل نہ کر سکی۔

          تھوڑی دیر بعد جب وقاص باتھ روم سے اپنے کپڑے تبدیل کر کے باہر نکلا تو اُس نے اپنی بہن کو اُس کے بستر پر سوتے پایا۔ وقاص نے زکیہ کو دسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور اُس نے زکیہ کے جسم پر بستر کی چادر دے دی۔


          وقاص نے کمرے کی لائٹ آف کی مگر باتھ روم کی لائٹ آن رہنے دی جس کی وجہ سے کمرے میں معمولی سی روشنی تھی۔ اس کے بعد وقاص بھی اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر میں اُس کو بھی نیند آ گئی۔

          دونوں بہن بھائی کو سوتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں ساتھ والے کمرے میں سے "ٹھک ٹھک" کی آوازیں نے دونوں بہن بھائی کو سوتے سے جگا دیا۔

          دونوں کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی کہ ساتھ والے کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن پھر ساتھ والے کمرے سے

          Haaaaaaa ohhhhhh do it, fuck meeee hardddddddddd,

          کے ساتھ بیڈ کی "چین چین" کی آواز اور بیڈ کا دیوار سے لگانے کی آوازیں بھی وقاص اور زکیہ کے کانوں میں گھونگھنے لگیں۔

          Yessssssssssss! Do meeeee harddd baby”

          ساتھ والے کمرے سے آتی آوازیں سن کر وقاص کو سمجھ آ گئی کہ کوئی مرد اور عورت آپس میں سیکس کر رہے ہیں۔

          نیو ائیر کی رات اور اُپر سے ایک گھٹیا موٹل میں اس قسم کی آوازیں تو ایک عام سی بات تھی۔

          لیکن وقاص کو اس بات کا اندازہ دن کے وقت موٹل کا روم رینٹ کراتے وقت نہ ہوا کہ اس گھٹیا موٹل میں رات کے وقت اُس کو اس قسم کی سورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہ ساتھ والے کمرے سے چدائی کی آوازیں ان کے کمرے میں بھی سنی جا رہی ہوں اور وہ بھی اس وقت جب وہ اپنی سگی بہن کے ساتھ سو رہا ہو۔


          وقاص اپنے دل میں دعا منگے نے لگا کے یہ آوازیں سن کر زکیہ کی آنکھ نہ کھلے اور وہ بدستور سوتی رہے۔

          مگر اس کے ساتھ ہی وقاص کا لن اُس کے پاجمے میں گھس گیا اور وقاص چودائی کی آواز سن کر اپنی چادر کے اندر ہی آہستہ آہستہ اپنے لن سے کھیلنے لگا۔

          وقاص تو اپنے دل میں دعا منگ رہا تھا مگر اُسے یہ علم نہیں تھا کے اُس کی دعا آج پوری نہیں ہوئی تھی۔

          کیونکہ ساتھ والے کمرے سے آتی ہوئی آوازوں سے زکیہ بھی اپنی نیند سے اُٹھ گئی تھی لیکن کمرے میں کم روشنی کے بہت سے دونوں بہن بھائی کو ایک دوسرے کے جگنے کا علم نہ ہوا۔

          زکیہ بچی نہیں تھی کے اُسے اندازہ نہ ہوتا کے ساتھ والے کمرے میں کیا کھیل کہلا جا رہا ہے۔

          زکیہ نے بھی یہ "کھیل" اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ کافی دفعہ کہلا تھا مگر زکیہ اور اکرم نے کبھی چودائی کے وقت اس طرح شور نہیں کیا تھا نہ اس سے پہلے زکیہ نے کسی اور کی چودائی کی آوازیں سنی تھیں۔

          اس لئے زکیہ کو یہ آوازیں سن کر اندرے میں بھی شرم آنے لگی کے وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں لیٹتے کسی اور کی چودائی کی آوازوں کو سنے پر مجبور ہے۔

          زکیہ نے بستر پر لیٹے لیٹے اپنا سر ہلکا سا اُٹھایا اور اپنے بھائی کے بیڈ کی طرف دیکھا تو اُسے کمرے میں کم روشنی کے بہت بہتیس بھائی کا چہرہ تو نظر نہیں آیا جس سے وہ اندازہ لگا سکتی کے اُس کا بھائی سو رہا ہے یا نہیں۔

          لیکن زکیہ کو جب اپنے بھائی کے بستر سے کسی قسم کی آواز سنی نہ دی تو اُسے یقین ہو گیا کے اُس کا بھائی سو رہا ہے۔

          وقاص کی طرح زکیہ بھی دوسرے کمرے سے آتی آوازیں سن کر گرم ہونے لگی اور اُس کا بھی ایک ہاتھ بستر کی چادر کے اندر سے خود بخود اُس کی چوت پر چلا گیا۔

          زکیہ نے اپنے ہاتھ سے اپنی ٹانگ پانٹی کو آہستہ سے ایک طرف کر کے جب اپنی چوت کو ہاتھ لگایا تو زکیہ کو محسوس ہوا کے اُس کی چوت تو چودائی کی آوازوں کے اثر سے ہی پانی پانی ہو رہی تھی۔

          چیپ موٹل ہونے کی وجہ سے موٹل کی پرانی اور خستہ حال دیواریں ایک روم کی آواز کو دوسرے روم میں جانے سے روکنے میں کثیر تھیں اس لئے دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بستر پر لیٹے ساتھ والے روم سے آنے والی آوازوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی سنے پر مجبور تھے۔

          دوسرے کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد دونوں بہن بھائی کے کانوں میں ایک عورت کی آواز پڑی۔


          “How YO Like My Motha Fucka Pussy NIGA”

          یہ آواز اور بولنے والوں کا ایکسنٹ سن کر وقاص کو اندازہ ہو گیا کے ساتھ والے کمرے میں شاید کوئی افریکن امریکن (کالے) چودائی میں مصروف ہیں اور چودائی کے دوران ہی "سلینگ" میں آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ ("سلینگ" ایک ایسی زبان ہے جو کالے لوگ اکثر آپس میں بات چیت کرتے اس استعمال کرتے ہیں، آپ "سلینگ" کو "ممبو جمبو" یا بس عام "بد انگلش" بھی کہ سکتے ہیں)


          Yo motha fuckan pussy is tight, you fuckan whoooo…

          آواز سے لگا تھا کے کالے نے اب کالی کی چوت میں اپنا لن دوبارہ ڈال دیا ہے۔

          کالی بھی نے جذبات میں آتے ہوئے کہا: "تھاپ تھاپ" کی زوردار آوازوں کے ساتھ کالی بھی اب پوری آواز میں شور مچا رہی تھی۔

          "Cum…..Cum…Motha-fucka…fuck me.. Cum in dat pussy Playa…take it… make me your bitch
          "Cum…..Cum…. Motha-fucka…. Come in my Pussy."
          "Agggghhhh…Agghhhhh…. Oh My God!!!"

          اور لگتا تھا کہ کالا چوت میں فارغ ہو گیا تھا۔ کیونکہ اُس کے بعد ساتھ والے کمرے میں پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔

          ادھر زکیہ بستر پر لیٹے ہوئے ساتھ والے کمرے سے آتی آوازوں کو سن کر اپنے جوان جسم کو بھی تپتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔ زکیہ کی چوت میں جیسے ایک آگ سی جل اٹھی تھی۔

          اس سے پہلے زکیہ اکثر اپنی جوانی کی گرمی کو اپنے ہاتوں سے نکال لیتی تھی۔ لیکن آج اپنے بھائی کے ساتھ ایک کمرے میں سونے کی وجہ سے زکیہ کے دل میں خوف تھا کے کہیں اُس کا بھائی اُس کو اپنی چوت سے کھیلتا ہوا دیکھ نہ لے۔ اس لئے وہ آج کھل کر اپنی پھدی میں انگلی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔

          آج کافی وقت کے بعد زکیہ کی پھدی فل تاپ گئی تھی مگر زکیہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پھدی کی گرمی کو بھائی کی موجودگی میں ٹھنڈا کرے بھی تو کیسے۔

          یہی سوچتے سوچتے نجانے کب اُس کی انکھیں دوبارہ لگ گئیں اور وہ اپنی پیاسی چوت کی نکل پائی۔



          نیڈ کے دوران بھی ساتھ والے کمرے سے آتی سسکیوں کی آوازیں زکیہ کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے اُس رات کئی بار زکیہ کی چوت کافی گیلی ہوتی رہی۔

          وہاں دوسری طرف وقاص بھی کچھ دیر چادر کے اندر اپنے گرم لن سے کھیلتا رہا مگر اپنے لن کا پانی نہیں نکل پایا اور پھر اُس کو بھی نیند نے دوبارہ گھیر لیا اور وہ بھی دوبارہ سو گیا۔

          رات کے آخری پہر تھا کہ وقاص پیشاب کی وجہ سے نیند سے دوبارہ جاگ اُٹھا۔

          وقاص باتھروم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو اُس کی نظر اپنی بہن کے جسم پر پڑی۔

          کمرے میں باتھروم سے آنے والی ہلکی روشنی میں وقاص نے دیکھا کہ اُس کی بہن بہت بے خبر سو رہی ہے۔

          چادر زکیہ کے جسم سے تھوڑی ہٹی ہوئی ہونے کی وجہ سے زکیہ کا جسم کا اُوپر والا حصہ ننگا نظر آ رہا تھا۔

          وقاص آہستہ سے چلتا ہوا زکیہ کے بیڈ کے نزدیک آیا اور زور زور سے "کھڑتے" لیٹی ہوئی اپنی بہن کو سوتے ہوئے گھور سے دیکھنے لگا۔

          وقاص نے اپنی بہن کو اس طرح سوتے ہوئے پہلی دفعہ دیکھا اس لئے اُس کو بہن کا جسم اس حالت میں اچھا لگنے لگا۔

          کمرے میں کھڑے کھڑے بہن کے بدن کا نظارہ کرتے وقاص کو نجانے کیا سوجا کہ وہ جا کر اپنی بہن کے قریب اُس کے بیڈ پر بیٹھا اور اپنی بہن کے جسم کا نزدیک سے جائزہ لینے لگا۔

          وقاص کو پتا تھا کہ زکیہ جب سوتی ہے تو "گھوڑے بیچ کر سوتی ہے" اور وہ ایک دفعہ سو جائے تو پھر صبح سے پہلے نہیں جگتی۔

          اس لئے وہ بہن کے نزدیک بیٹھا اور بستر کی چادر کے اندر "اوپر نیچے" ہوتے ہوئے اپنی بہن کے نیم عریاں جوان سینے کا دیدار کرتا رہا۔

          وقاص کو زکیہ کے جسم کے اُوپری حصے کا جائزہ لیتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری کہ زکیہ نے ایک کروٹ لی تو اُس کے جسم پر پڑی اس کے بستر کی چادر اس کے جسم کے نچلے حصے سے تھوڑی سڑک گئی۔

          جس کی وجہ سے زکیہ کی ٹانگیں چادر سے باہر نکل کر اس کے بھائی کی پیاسی نگاہوں کو اپنا دیدار کروانے لگیں۔

          وقاص نے دیکھا کہ گہری نیند میں ہونے کی وجہ سے زکیہ کا ڈریس بے ترتیب ہو کر اُوپر کو اُٹھ گیا تھا جس وجہ سے زکیہ کی گوشت بھری پنڈلیوں اور ننگی ہوتی ہوئی ٹانگیں کا منظر آنکھوں کو خیرہ کرانے والا تھا۔

          وقاص اپنی بہن زکیہ کی ننگی ٹانگوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

          زکیہ کی رانیں نہایت گوری تھل تھل کرتی، انتہائی صحت مند اور ریشمی جن پر ایک بال بھی نہ تھا۔

          وقاص نے اپنی بہن کو اس حالت میں دیکھا تو اُس کی بنچ ہی کھل گئیں۔ اُس کا لن ابھی تک کالو کی چودائی کی گرمی کی وجہ سے فل گرم تھا وہ اپنی بہن کی ننگی ٹانگوں کو دیکھ کر فل ٹن گیا۔


          وقاص نے جو پجامہ پہنا ہوا تھا اُس کے سامنے لن والی جگہ پر بٹن لگے ہوئے تھے۔ وقاص کے دل میں نہ جانے کیا سجا کہ اُس کے پجامے کے بٹن کو کھول کر اپنا لن جو کہ فل ہرا ہوا تھا، نکالا اور اپنی بہن کے بستر پر بیٹھ کر اپنی بہن کی گداز جسم کو دیکھتے ہوئے ہلکے ہلکے اپنی موٹھ لگانے لگا۔

          اپنے لن سے کھیلتے ہوئے وقاص ابھی بہن کے کولہوں کا گولائی لیے ہوئے پھیلاؤ اور موٹی موٹی سخت رانوں کو دیکھ کر ہی بےقرار ہو رہا تھا مگر وہ شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک اور جھٹکا اُس کا منتظر ہے۔

          زکیہ نے لیٹے ہوئے ایک دم دوبارہ کروات لی تو اُس کے جسم پر پڑی چادر اُس کے جسم سے سلپ ہو کمرے کے فرش پر گر گئی۔

          دوسرے ہی لمحے زکیہ نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سمیٹی تو زکیہ کا ڈریس اور اُوپر کو اُٹھا گیا جس کی وجہ سے زکیہ کی پینٹی اور اُس میں پھنسی ہوئی اس کی گرم چوت اُس کے بھائی کے سامنے اپنی پوری آب و تاب سے نمیا ہو گئی۔

          یہ منظر دیکھ کر وقاص حکا بکا رہ گیا۔ اُس کا منہ حیرت سے کھل گیا اور وہ اپنے لن کی موٹھ مارنا بھول گیا۔



          شاید کسی شاعر نے اسی موقع کے لئے یہ پنجابی گیت لکھا تھا:

          “حسن مُخرے تو لے کے نقاب آ گیا
          نظر پھٹرا کے رہ گئی
          دل تے بجلی پے گئی
          چال چلدا غضب دی شباب آ گیا”

          وقاص کی نظر آج واقعی ہی اپنی بہن کا شباب کو یوں بے نقاب ہوتا دیکھ کر پھٹرا گئی تھی۔

          وقاص نے دیکھا کہ زکیہ کی پینٹی اس کی چوت کی جگہ سے بہت گیلی ہو رہی ہیں۔ بہن کی گیلی پینٹی کو دیکھ کر وقاص پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید چھوٹے بچوں کی طرح اُس کی بہن زکیہ کو بھی رات میں سوتے وقت بستر پر ہی پیشاب کرنے کی بیماری ہے۔

          لیکن جب وقاص نے گھور کیا تو اُس کو زکیہ کے گانڈ کے صرف نیچے والی جگہ ہی تھوڑی گیلی تھی اس کے علاوہ بستر کی چادر کسی بھی جگہ سے گیلی نظر نہ آئی۔

          اس پر وقاص نے سمجھ گیا کہ اُس کی بہن کی چوت پیشاب کی وجہ سے نہیں بلکہ کالو کی چودائی کی آوازوں کے اثر سے گیلی ہوتی رہی ہے۔

          وقاص دم بہ کھود ایک بت کی طرح چپ چاپ بیٹھا اپنی بہن کی چوت والی جگہ پر نظریں جمائی دیکھتا رہا۔

          وااااہ! زکیہ کی پینٹی میں اُس کی مکھن ملائی جیسی گوری چٹی چوت صاف نظر آ رہی تھی۔
          زکیہ کی پینٹی کے دونوں طرف ڈبل روٹی کی طرح پھولی ہوئی اس کی چوت کے لبوں اور سفید بھری اور گول گانڈ پر کسی ہوئی پینٹی کو دیکھ کر وقاص کی برداشت جواب دینے لگی۔

          بہن کی چوت کو اس طرح پینٹی میں نمائیہ دیکھتے ہوئے وقاص کو ایسے لگا جیسے اُس کی بہن کی چوت اُسے دعوتے گناہ دیتے ہوئے "حسن مُخرے تو لے کے نقاب آ گیا" والے گیت کا ایک اور "مصرعہ" کہ رہی ہو کہ، بھائی جان،

          "میرا گورا بدن کیسا کیسا ہوئیا
          وچ ریشم دے ریشم ہے پسیا ہوئیا"

          وقاص اپنی بہن کے کسے ہوئے جوان بدن اور بہن کی ریشم جیسی نرم و ملائم پھدی کا مزہ لینا چاہتا تھا۔

          اسی لمحے اُس کے دل نے اُس کو ایک دفعہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ آج جو کچھ بھی دیکھ اور کر رہا ہے وہ غلط ہے جو بھی ہو زکیہ ہے تو اس کی سچی بہن اس لئے وقاص کو اُس سے ہاتھ چلانا چاہیے۔

          لیکن وقاص کا لن آج اپنی بہن کی پینٹی میں چھپی ہوئی چوت کا دیدار کرنے کے لئے مچلا جا رہا تھا۔

          کیونکہ اُسے پتہ تھا کہ اُس کو یہ موقع شاید دوبارہ نہ ملے اس لئے وہ آج اس موقع سے پورا فائدہ اُٹنے پر وقاص کو مجبور کر رہا تھا۔

          وقاص ابھی اپنے دل اور لن کی کچھی ہوئی باتوں پر ہی گھور رہا تھا کہ زکیہ نے لیٹے ہوئے ایک طرف پر کروٹ بدل لی۔


          آخر کر وقاص نے اپنے لن کی ہی سنی اور اس نے ڈرتے ڈراتے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بہن کی پینٹی کو ایک سائیڈز سے اُٹھا کر اپنی بہن کی فُل ناگی چوت کا پہلی بار دیدار کیا۔

          اُففففف بہن کی چوت کو دیکھتے ہی دل ہی دھڑکن رک سی گئی۔ وقاص نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے اس کی بہن کی چوت اتنی پیاری اور خوبصورت ہو گئی۔

          وقاص نے دیکھا کے اس کی بہن زکیہ کی چوت پر بہت ہی ہلکے بال تھے۔ جن کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کے جیسے زکیہ نے تین چار دن پہلے ہی اپنی حسین چوت کی شیو کی ہو۔

          زکیہ کی چوت کے موٹے اور بہاری ہونٹوں کو آپس میں چپکے ہوئے دیکھ کر وقاص دل ہی دل میں گن گنانے لگا۔

          "تانو پین گے نصیبا والے
          تے نساہے دیئے بند بوتلے"

          وقاص کو یہ تو پتا تھا کے اب اس کی بہن کی چوت بند بوتل تو نہیں مگر اُسے یہ بھی علم تھا کے

          "شراب جتنی پرانی ہو اُس کا مزہ بھی اُتنا ہی زیادہ ہوتا ہے"

          وقاص نے ایک دیوانگی کے ساتھ آہستہ سے اپنی انگلی کے زیرے اپنی بہن کی چوت کی دونوں لبوں کو کھولا جیسے کوئی تتلی اپنے چھوٹے چھوٹے پر پھیلتی ہے۔ اندر سے وقاص کو اپنی بہن کی پنک کلر کی چوت کا چید صاف نظر آنے لگا۔

          بہن کی رس بھری چوت کو اس طرح اوپن کراتے وقت وقاص کو اپنے مرحوم بہنوئی اکرم سے ایک جلن سی محسوس ہونے لگی۔

          جس نے اس کی بہن کی کنواری چوت کی سیل توڑ کر اُسے ایک عورت بنایا تھا۔ وقاص سوچنے لگا کے کاش اکرم کی جگہ اگر وہ اپنی بہن کی سیل توڑتا تو کتنا مزا آتا۔
          "اب گیا وقت تو ہاتھ نہیں آ سکتا اس لئے اب پرانی باتوں پر افواہ کرانے کی بجائے مجھے اس موجودہ لمحے کا مزہ لینا چاہئے" وقاص نے اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے اپنا دھیان بستر پر پڑے بہن کے ادے ننگے بدن پر ڈالا۔

          وقاص کا اپنی بہن کی چوت کو اس ہاتھ لگانے سے بہت مزہ آیا۔ زکیہ کی پھدی بہت نرم تھی۔ وقاص جب زکیہ کی چوت کو ہلکا کا ٹچ کیا تو اُسے محسوس ہوا کے اُس کی بہن کی گرم پھدی رات بھر چوٹنے کی وجہ سے ابھی تک چپ چپ کر رہی ہے۔

          اپنی بہن کی چوت کو اس طرح ننگا کرنے اور اُسے پہلی بار چھونے سے ہی وقاص کی حالت بُری ہونے لگی۔

          کمرے میں لگے اے سی کے باوجود وقاص کو بہن کی چوت کے اتنے نزدیک ہونے کی وجہ سے شدید گرمی محسوس ہوئی تو چند سیکنڈز کے اندر وقاص اپنے کپڑوں سے آزاد ہو کر بالکل ننگا ہوگیا اور اس کا لن تن کر اس کے پیٹ سے لگا ہوا تھا۔

          اب کمرے میں حالت یہ تھی کہ وقاص بالکل ننگا نیند میں بے ہوش بہن کے بستر پر چڑھ کر اُس کی ٹانگوں کے درمیان بہتا ہوا تھا۔

          وقاص آج اپنے جنسی جذبات میں اتنی بُری طرح سے بہک چکا تھا اور اُسے کچھ ہوش اور سمجھ نہ رہی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

          اس وقت اُس پر صرف اور صرف اپنی بہن کی جوانی کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔

          اور اسی نشہ میں ڈوبے ہوئے وقاص نے بستر پر بیٹھے بیٹھے اپنے لن سے کھیلنا شروع کیا۔ لن سے کہتے وقت وقاص نے اپنی بہن کی پینٹی کو ایک ہاتھ میں پکڑ کر اپنی بہن کی چوت پر لگی ہوئی بہن کی "کم" کو دیکھنے لگا۔


          پتا نہیں وقاص کو کیا سجھا کہ اُس نے جھجکتے جھجکتے اپنی دوسرے ہاتھ کی انگلی آگے بڑھائی اور زکیہ کی چوت میں لگی اُس کی کم کو ہلکا سے چھوا تو زکیہ کی چوت کا پانی اُس کے بھائی کی انگلی پر لگ گیا۔

          وقاص کے اس طرح زکیہ کی چوت کو چھونے سے زکیہ نیند میں تھوڑی سی ہلی۔ جس پر وقاص کا خون اُس کے جسم میں خشک ہو گیا۔

          اُسے لگا کے جیسے زکیہ اب اُٹھ گئی ہے مگر دوسرے ہی لمحے زکیہ نے پھر خرتے لینا شروع کر دی۔ جس پر وقاص کی جان میں جان آئی۔

          وقاص اپنی بہن کے جوس سے بھری انگلی اپنی ناک کے پاس لے کر پہلے تو اُسے سونگھا۔ پھر اُس نے اپنی انگلی کو منہ میں لے کر چاٹنے شروع کر دیا۔

          "اُفففففففففففففففففففففففففف، ہاااااااااااااااااااااا، مزدار،" وقاص نے بہن کی نمکین چوت کے سواد کو اپنی زبان سے پہلی بار چاکتے ہوئے دل میں کہا۔

          زکیہ اپنے بستر پر بے ہوش پڑی سو رہی تھی۔ اُسے معلوم تھا کے اُس کا بھائی اُس کے جسم سے کیا کھیل کھیل رہا ہے۔

          وقاص کو اپنی شادی کے بعد جب اُس کی پورٹو ریکن بیوی نے چدائی کے طور طریقے سکھائے تھے تو ان میں ایک وقاص کا فیورٹ کھیل یہ تھا کہ وہ پھدی کی لکیر میں اپنا لن ڈال کر اوپر نیچے پھیرتا۔ اس طرح پھدی کے اوپر لن پہننے میں وقاص کو بہت مزا آتا۔

          آج اپنی بہن کی ننگی چوت کے اتنے نزدیک ہونے کی وجہ سے وقاص کا لن اُسے اپنی بہن کی چوت کے ساتھ مستی کرنے کے مشورے دینا لگا تھا۔

          وقاص یہ خوب جانتا تھا کے یہ "کھیل" اُس کے لئے "خطرناک" بھی ہو سکتا ہے۔ مگر پتا نہیں آج اُس پر جیسے کوئی جنون سوار ہو گیا تھا۔

          وہ جانتا تھا کے اُس کے لئے اپنی بہن کی چوت میں اپنا لن ڈالنا ایک ناممکن بات ہے۔

          لیکن آج وقاص کا دل اور لن اُسے کہ رہا تھا کہ آج موقع ہے اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کے وہ اپنی بہن کی پھدی اپنے لن کو ایک دفعہ ضرور رگڑے۔ کیونکہ ایسا موقع بار بار نہیں ملتا۔

          اُس وقت وقاص پر ایک آگ سوار تھی، ایک پاگل پن سوار تھا۔ جس نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صاحب صلاحیتاں سلب کر لیں۔

          اور اس پاگل پن کی وجہ سے وقاص نے آگے بڑھ کر اپنی بہن کی پینٹی کو ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے اپنی سگی بہن کی چوت کو اپنے لن سے ٹچ کیا۔

          "سیییییییییییییییییی،" بہن کی مخملی چوت سے لن کی ٹوپی ٹکراتی ہی وقاص کے منہ سے ایک سکاری سی نکل گئی۔

          زکیہ کی انتہائی نرم اور پیاسی چوت کے لمس نے وقاص کی گرمی میں اضافہ کر دیا۔

          زکیہ جو کہ نیند میں تھی وہ اپنے بھائی کے لن کے "لمس" سے تھوڑی "کسمسی" مگر پھر بھی نہ جاگی۔

          وقاص نے اپنی سوتی ہوئی بہن کے چہرے پر ایک بھرپور نظر ڈالی تو اُسے یقین ہو گیا کے زکیہ ابھی تک سو ہی رہی ہے۔ اس بات کا یقین ہونے پر وقاص کا حوصلہ بارگیا۔

          بہن کی چوت کی گرمی اپنے لن پر محسوس کر کے وقاص بُری طرح سے بہک گیا۔ وقاص کا ٹنا ہوا لن ایک پھن کرتے ہوئے سنپ کی طرح اپنے فول جوبن پر تھا۔

          اب وقاص زکیہ کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور اپنے دونو ہاتھوں کی کہنیوں پر اپنا وزن ڈالتے ہوئے اپنی بہن کے بدن پر جھکا اور اس طرح اپنی بہن کی چوت پر اپنا لن دھڑا رگڑا۔

          زاکیا کی پانی چھوڑتی پھدی پر وقاص کا لن پھسلتا چلا گیا۔ وقاص اپنی بہن کی پیچ پیچ کرتی چوت پر آہستہ آہستہ اپنا لن تکراتے ہوئے بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔

          وقاص کو بہن کی چوت سے لن تکراتے ہوئے بہت سواد تو مل رہا تھا مگر پھر بھی اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اپنے لن کو بہن کی پیاسی چوت میں ڈالے۔

          وقاص کے لن کا ٹوپہ زاکیا کی پھدی کے این سوراخ پر رکھا تھا۔

          وقاص کے لن نے آج تقریباً تین سال بعد ایک گرم جوان پھدی کو چوا تھا اور چوت کی گرمی محسوس کرتے ہوئے اُسے بہت مزا آیا۔ اس لئے وقاص میں اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ہمت جواب دے رہی تھی۔

          وقاص اب اپنے آپ نفس سے بہن کی پودائی کو چودنے یا نہ چھوڑے کی جنگ میں مصروف تھا کہ اُسی لمحے زاکیا کا بدن تھوڑی دیر کے لئے ایک دم سے اُوپر کی طرف پھونکا۔

          جس کے ساتھ ہی وقاص کی کہنیوں نے وقاص کے جسم کا بوج اٹھانے سے انکار کر دیا اور وقاص اپنی بہن کے آدے ننگے بدن پر گرتا چلا گیا۔

          ساتھ ہی ساتھ وقاص کا لن جو کہ اُس کی بہن کی پھدی کے سوراخ کے اوپر پڑا تھا وہ زاکیا کی نازک نشیلی پھدی (جو آج تک اُس کے لئے ایک شجرے ممنوعہ تھی) کو پھاڑتا ہوا اندر چلا گیا۔


          جب ہی وقاص کا لن پوری شدت سے بہن کو چوت کی دیواروں کو چیرتا ہوا چوت کی گہرائوں میں گھسا تو زاکیا کی انکہ کل گئی۔

          مگر اب زاکیا کے لئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ

          "کمان سے نکلا تیر
          اور چوت میں گیا لن کبھی واپس نہیں ہوتا"

          اور اب ایک بھائی کا لن اُس کی اپنی ہی سگی بہن کی چوت میں ہی گھسا تھا۔ اور اس عمل کو واپس کرنا اب ایک ناممکن بات تھی۔

          جب زاکیا نے اپنے بھائی کو اپنے اوپر چڑھے دیکھا تو اُس کے ہوش اُڑ گئے۔ زاکیا نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اُس کا بھائی جو کہ اُس کی عزت کا رکھ والا تھا کبھی اس طرح اُس کی چوت کو لوٹ بھی سکتا ہے۔

          "بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہوں میں آپ کی بہن ہوں" زاکیا نے وقاص کو اپنے اوپر سے ہٹنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

          "زاکیا میں جانتا ہوں کہ تم میری بہن ہو مگر میرا بہن میں کیا کروں کہ میں اب تم سے پیار کرنے لگا ہوں۔ تمہارے پیار اور تمہارے اس خوبصورت جسم نے آج مجھے ایک انسان سے ایک جانور بنا دیا ہے" وقاص نے اپنی بہن کے جسم پر پڑے زاکیا کے گالو کو چمتے ہوئے کہا۔

          بھائی کی بات سن کر زاکیا کے تو جیسے ہوش اڑ گئے۔ مرد کا یہ روپ پہلی بار زاکیا کے سامنے آیا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جن رشتوں کی دنیا پرستیش کرتی ہے وہ جب ایک مرد کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو ہر عورتوں کی نظر میں بس ایک عورت ہی ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنا دل بہلانا چاہتی ہیں اور اپنی جنسی تسکین حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

          یہ سوچتے ہوئے زاکیا کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ وقاص سے کہنے لگی "پلیز مجھے چھوڑ دو اور اپنے آپ کو وقاص کی گرفت سے آزاد کرانے لگی۔"

          وقاص جو کہ دو تین سال سے موٹھ مار کر اپنے لوڑے کی گرمی نکال رہا تھا۔ اس کو آج اتنے عرصے بعد ایک اصل فودائی کا مزہ ملا تھا، اس لئے وہ آج پوری طرح بہن کی چوت کا مزہ لینے کے موڈ میں تھا۔

          "زاکیا، پلیز آج مجھے مت رکو، میں جانتا ہوں کہ ہم دونوں اس جوانی کی آگ میں جا رہے ہیں تو کیوں نہ آج ہم دونوں ایک دوسرے کی پیاس کو بجھا دیں" کہتے ہوئے وقاص نے بہن کی شرط کے اوپر سے ہی اس کے موٹے بڑے ممو پر منہ رکھا اور ان کو چوسنے لگا۔

          ساتھ ہی وقاص نے ایک جھٹکا مارا اور اُس کا لنڈ دوبارہ اُس کی بہن زاکیا کی پھدی کا اندر گھس گیا۔ اپنے آپ کو بھائی کی قید سے آزاد کرواتی زاکیا کے منہ سے بے اختیار نکلا "ہائے میں مر گئی"۔

          زاکیا جو کہ آج سے پہلے ایک بُرے اور دھیلے لن کی عادی تھی، آج پہلی بار اُسے واقعی ہی یوں لگا کہ جیسے اُس کے بھائی کے جوان اور ٹھگرے ٹھگرے لن نے اُس کی ساری جان اُس کی پھدی کے رستے نکال دی ہو۔

          آج پہلی بار زاکیا ایک اصل مرد سے چود رہی تھی اور وہ مرد کوئی اور نہیں بلکہ اُس کا اپنا سگا بھائی تھا۔


          ابھی زاکیا بھائی کے پہلے جھٹکے ہی کی طرف نہ لے سکی تھی کہ وقاص نے دوسرا بھرپور جھٹکا دیا۔ جس کی وجہ سے وقاص کا بھرپور لنڈ بہن کی بچہ دانی تک جا کر ٹھوکر مارنے لگا۔

          زاکیا کی پھدی کا ہر پارٹ، ہر طہ، وقاص کے فولاد جیسے لنڈ کے سامنے ہر مان رہی تھی۔

          بھائی کے زبردست جھٹکوں کے آگے زاکیا اپنی ہمت ہار بیٹھی اور ایک بے بس انسان کی طرح اپنی ہی ٹانگیں کھولی اپنے ہی بھائی سے چودھتی رہی۔

          وقاص کے لنڈ کو زاکیا کی پھدی کا مزا آ رہا تھا۔ زاکیا کی پھدی اندر سے انتہائی گرم تھی کہ جیسے کوئی آگ ہو۔ پھر کیا تھا، وقاص پاگل سا ہو گیا اور انتہائی زور دار جھٹکے پہ جھٹکے دینے لگا، اُس کے جھٹکے اتنے زور دار تھے کہ بیڈ سے بھی چون چون کی آوازیں نکلنے لگیں۔

          اور زاکیا اپنے بھائی کی چودائی کی شدت سے بے حال ہو گئی۔ ہر جھٹکے کے ساتھ وہ کبھی "ہائے مر گئی" کہتی تو کبھی "بس، بس"، لیکن وقاص تھا کہ اُس کے جھٹکے تیز سے تیز تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔

          زاکیا کی پھدی پوری طرح سے کھل چکی تھی، پھٹ چکی تھی۔ اب وقاص کا لنڈ پھدی میں اندر باہر ہونے کی وجہ سے زاکیا کی پھدی سے پچ پچ پچ جیسی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔


          وقاص بہن کی چودائی کے ساتھ ساتھ اپنی بہن زاکیا کی چھاتیوں سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ کبھی بہن کی چھاتیوں کو ہاتھ سے پکڑ کر دباتا اور کبھی شرٹ کے اوپر سے ان کو کس کرتا۔

          وقاص پسینے سے شرابور تھا، گرمی اُس کے دماغ تک چڑ چکی تھی اور آخر کار اوپر سے بھائی کے گرم لنڈ نے اپنا بیج نکالا تو نیچے سے بہن کی بچہ دانی نے ایک بھوکے بچے کی طرح اپنے منہ کھول کر بھائی کے بیج کو فوراً اپنے اندر نگل لیا۔

          زاکیا کی پھدی اُس کے اپنے بھائی کی منی سے بھر گئی۔ وقاص کافی دیر تک ریلیز ہوتا رہا۔

          اور آخر کار اُس نے اپنا لنڈ ایک جھٹکے کے ساتھ زاکیا کی پھدی سے نکالا اور وہ زاکیا کے ساتھ ہی بستر پر ڈیڑ ہو گیا۔

          پورا بیڈ پر جگا جگا نمی تھی، وقاص کی منی کی نمی، زاکیا کی پیاسی گرم چوت کی نمی۔

          مگر بستر پر پڑی نمی کے ساتھ ساتھ زاکیا کی اُداس آنکھیں بھی آنسوں کی شکل میں اپنی نمی چھوڑ رہی تھیں۔ لیکن وقاص اس نمی کو دیکھے بغیر ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

          تھوڑی دیر زکیہ بھی بھائی کے ساتھ اُسی بستر پر ایک طرف ہو کر سیدھی لٹی رہی۔

          جس وجہ اُس کے بھائی کی منی اُس کی چوت کے آخری کونے میں جا کر جازب ہوتی رہی۔

          وقاص کی اِتنائی بے رحم اور بھرپور تڑکے سے کی ہوئی چودائی کے اثر اُس کی بہن کی سجی ہوئی چوت پر صاف دیکھے جا سکتے تھے۔

          اپنے بھائی کو اپنے ساتھ زبردستی چودائی کرنے کے بعد اپنے ہی بستر پر سوتا دیکھ کر زکیہ کے پورے بدن میں غصے کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔

          زکیہ کا دل چاہتا کہ وہ اسی طرح آدھی ننگی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل جائے اور چیخ چیخ کر لوگوں کو اپنے ساتھ اپنے ہی بھائی کے کیے ہوئے ظلم کی داستان سنائے۔

          مگر زکیہ یہ سوچ کر بستر پر خاموش پڑی رہی کہ اگر رات کی "تاریکی" میں ایک بھائی کے اندر کا "جانور" اپنے جنسی جذبات کے نشے میں اس طرح جاگ کر اپنی ہی سگی بہن کی عصمت کو بے دردی سے تر تر کر سکتا ہے۔ تو پھر باہر کے لوگوں سے وہ کیا امید رکھ سکتی ہے۔

          ویسے بھی زکیہ رات کو اپنے جسم پر مردوں کی بھوکی نظروں کو دیکھ کر جان گئی تھی کہ اگر وہ آدھی ننگی حالت میں رات کے اس وقت لاس ویگاس جیسے گناہوں سے بھرے شہر میں نکلی تو باہر کے بھوکے مرد اُس کے جسم کی بوٹی بوٹی نوچ لیں گے۔

          اسی طرح کی باتیں اپنے دماغ میں سوچتے زکیہ اُس بیڈ سے اُٹھی۔ زکیہ کی اسکرٹ وقاص اور اُس کے اپنے جوس لگنے کی وجہ سے کافی گیلی ہو گئی تھی اس لئے زکیہ نے اپنی اسکرٹ کو اپنے جسم سے اُتار کر اپنے انڈر ویئر میں وقاص کے بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔


          لیکن اب نیند زکیہ کی آنکھوں سے کوسوں دور بھاگ گئی تھی۔ اس لئے زکیہ نے باقی کی رات اپنی جاگتی آنکھوں سے کی کٹ دی۔

          اُدھر دوسری طرف صبح صبح جب وقاص کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ وہ اپنے بیڈ کی بجائے اپنی بہن زکیہ کے بیڈ پر ہی ایک طرف کروات کی ہوئی سو رہا ہے۔

          "رات کا نشہ ابھی
          آنکھ سے گیا نہیں"

          والے گانے کی مانند وقاص کے "حوش و حال" پر اپنی بہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے "رات" کے "نشے" کا "خمار" اب تک چھایا ہوا تھا۔

          رات کو بہن کے ساتھ ہونے والی چودائی کے سین کو یاد کر کے وقاص کے دماغ میں اپنے ایک دوست کا سنا ہوا ایک پنجابی شعر گمنے لگا کہ،

          "اُنہیں پگ عشق دی بھڈی نئی
          جنہیں بہن بنا کے یاری نئی"

          وقاص اپنے دل میں بہت خوش تھا کہ کل رات اُس نے اپنی ہی بہن کی چوت میں اپنا لن ڈال کر بالاخرہ اپنی بہن کے ساتھ اپنے عشق کی تکمیل کر لی تھی۔

          وقاص اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے خوشنصیب انسان تصور کرتے ہوئے ابھی بھی اپنی بہن کی چوت کی "گرمائش" کو اپنے لن کی ایک ایک "رگ" میں محسوس کر رہا تھا۔

          ابھی وقاص بہن کی جوانی کے نشے میں ہی مدھوش تھا کہ اتنے میں اُس کے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز پڑی۔

          جس کو سنتے ہی وقاص کے دماغ پر چھایا ہوا سارا "سرور" اُتر گیا اور وہ فوراً اپنے بیڈ سے اُٹھ بیٹھا۔

          بیڈ سے اُٹھے ہی وقاص نے اپنے پیچھے مُڑ کر دیکھا کہ جس بیڈ پر وہ رات کو موٹل میں واپسی پر خود سوئیا تھا۔



          اُدھر اُس کی بہن زکیہ اپنے انڈروئیر اور شرٹ میں ہی ملبوس اُس کی طرف پہنتے کر کے "انڈے منہ" لیٹی ہوئی زورو کتر روئے جا رہی ہے۔

          وقاص سمجھ گیا کہ زکیہ ابھی تک رات کے واقعے کی وجہ سے اپسٹ ہے۔ اپنی بہن کو یوں روتے دیکھ کر وقاص کا دل ٹوٹ گیا۔

          اور چند لمحے پہلے تک اپنی بہن کی گرم جوانی کے نشے بھرے اور بہن کی پھدی کی اتنی گہرائیوں میں جا کر دھوم مچانے والا اور بہن کی پھدی کے مزے سے مچلتا وقاص کا موٹا اور مضبوط لن "مُتر کی جھاگ" کی طرح بیٹھ گیا۔

          بہن کو یوں روتا دیکھ کر وقاص کو بھی اب احساس ہوا کہ رات کو اُس سے کتنی بڑی غلطی ہوئی۔

          بلکہ اپنی جنسی حواس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔

          گناہ کا احساس کر کے وقاص کو اپنے آپ سے ہی شرمندگی محسوس ہونے لگی۔

          اُس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اب اپنی بہن کا سامنا کس منہ سے کرے۔

          مگر اب جو بھی ہو وقاص کو اپنی بہن کا سامنا تو ہر حال میں کرنا ہی تھا۔

          اس لئے وقاص بوجھل قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا زکیہ کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ بہن کی طرف جاتے ہوئے وقاص کو اپنے قدم منو بھاری محسوس ہو رہے تھے۔
          Last edited by Man moji; 03-03-2024, 11:29 AM.

          Comment


          • #25
            "زکیہ میری بہن، کیا بات ہے تم رو کیوں رہی ہو" وقاص نے زکیہ کے پیچھے سے جا کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکتے اور "انجان" بنتے ہوئے پوچھا۔

            "چھوڑو مجھے بے غیرت انسان، مجھے ہاتھ مت لگاؤ اور نہ مجھے بہن کہ کر بلو، بہن بھائی کے مقدس رشتے کو تو تم خود کل رات اپنے ہاتھوں سے قتل کر چکے ہو" زکیہ نے وقاص کا ہاتھ اپنے کندھے سے ایک زوردار جٹکہ سے ہٹتے ہوئے کہا۔

            " زکیہ مجھے پتا ہے کہ رات کو ویگس کے ماحول اور ساتھ والے کمرے سے آتی آوازوں کے اثر سے میں بہک گیا اور تم سے ایک غلط کام کر بیٹھا اور اس کے لئے میں تم سے معافی کا طالب ہوں" وقاص نے زکیہ کے سامنے آتے ہوئے کہا۔

            جوں ہی وقاص زکیہ کے سامنے آیا تو زکیہ نے دیکھا کہ اُس کا بھائی اُس کے سامنے بالکل ننگا کھڑا ہے۔

            وقاص کی ٹانگوں کے درمیان لٹکے ہوئے اُس کے موٹے اور لمبے لن پر زکیہ کی چوت کا جوس جم کر کشک ہو گیا تھا۔ اور اس جمے ہوئے چوت کے جوس کی وجہ سے لن پر ایک چھوٹی سی ٹیکھ بن گئی تھی۔

            جس وجہ سے وقاص کے لن کو پہلی نظر میں دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی نے اُس کے ہلکے سنوالے لن پر تھوڑا سا سفید پینٹ لگا دیا ہو۔

            زکیہ نے بھائی کو اِس حالت میں دیکھتے ہوئے فوراً اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور زور سے چلائی " بے شرم انسان اب تو اپنے کپڑے پہن لو".


            وقاص کو اپنی بہن کی غصے بھری آواز سن کر ایک دم یاد آیا کہ وہ تو ننگا ہی بستر سے اُٹھ کر زکیہ کے سامنے چلا آیا ہے۔

            وقاص نے بے اختیاری میں اپنے لن پر ہاتھ رکھا اور ڈرتے ہوئے زکیہ کے بیڈ سے کپڑے اُٹھا کر باتھروم میں گُس کیا اور اپنے کپڑے پہنے لگا۔

            ادھر وقاص کے باتھروم جانے کے بعد زکیہ بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ساتھ بیٹنے والے واقعے کو ایک بیانک خواب سمجھ کر بھول جانا چاہتی تھی۔

            لیکن اُس کی چوت سے اُٹھتی ہوئی سخت درد کی لہریں اُسے واضح کر رہی تھیں کہ رات اُس کے ساتھ ہونے والا واقعہ ایک خواب نہیں تھا۔ بلکہ اُس کے بھائی نے حقیقت میں اُس کی چوت کی پہلی بار صحیح معنوں میں تسلی سے چودائی کی ہے۔

            زکیہ نے بیڈ سے اُٹھنا چاہتو اُسے بیڈ سے اُٹنے میں بھی تکلیف ہوئی۔ بہت ہمت کر کے وہ اُٹھی اور اپنے بیگ میں پڑی اپنی شلوار قمیض کو نکالنے کی لے کمرے کے کونے میں رکھے بیگ کی طرف قدم بڑھائی تو اُسے چلتے ہوئے اپنی چوت کے سرخ میں سخت درد ہوا۔

            جس وجہ سے زکیہ سے اب صحیح طور پر چلنا بھی نہیں جا رہا تھا۔ مجبوراً وہ اپنی ٹانگیں تھوڑا کھول کر چلنے لگی۔

            دوسری طرف باتھ روم میں کپڑے پہنتے وقت وقاص کو چند لمحے پہلے کی اپنی حرکت پر خود ہی تھوری ہنسی آنے لگی۔ کہ اُس نے زکیہ کے سامنے ننگا ہونے کے احساس ہوتے ہی کیسے اپنے لن کو ہاتھ سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔

            حالانکہ یہ وہی لن تھا جسے وہ رات اپنی ہی بہن کی چوت میں داخل ہو کر کے اُسے چود بھی چکا تھا۔

            اپنے ہی اوپر اِس طرح ہنسی آنے کی وجہ سے وقاص جو کچھ دیر پہلے تک ٹینس تھا اب تھوڑا ریلیکس محسوس کرنے لگا۔

            اس نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ وہ جو تقریباً ایک سال سے اپنی بہن کے بارے میں سوچ کر گرم ہوتا رہا ہے۔ تو ایک نہ ایک دن اُس کی گرم سوچ کا انجام کچھ اسی طرح کا ہونا تھا۔

            ویسے بھی کہتے ہیں کہ "محبت اور جنگ میں سب جائز ہے" اور پھر "جب پیار کیا تو ڈرنا کیا" کے بکول اب جو ہو گیا تھا اُس کو واپس تو کیا نہیں جا سکتا۔

            اور رہی زکیہ کا اس طرح غصہ کرانے اور اُس سے ناراض ہونے کی بات، تو وقاص کو امید تھی کہ زکیہ کا یہ رویہ وقتی ہے اور چند دنوں کے بعد شاید وہ بھی حالات سے سمجھوٹہ کر لے۔

            یہ سوچتے ہوئے وقاص باتھروم سے باہر آیا تو دیکھا کہ زکیہ اپنی شلوار قمیض پہن کر نہ صرف تیار ہو گئی تھی۔ بلکہ وہ روم سے اپنی ذاتی چیزوں کو سمیٹ کر اپنے ٹریول بیگ میں رکھ رہی تھی۔

            وقاص نے جب زکیہ کو تیار ہوتے دیکھا تو اُس نے زکیہ سے دھمکی آواز میں پوچھا "زکیہ تم ناشتہ کرنے باہر چلنا ہے یا میں خود ہی باہر سے کچھ لے آؤں؟"

            "مجھے نہیں کرنا کوئی ناشتہ وشتہ، بس میں تیار ہوں اور مجھے ابی اور اسی وقت واپس نیو یارک واپس جانا ہے" زکیہ نے وقاص کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔

            "آج اور اب مگر ہم نے تو دو دن اور ادھر رکنا تھا" وقاص نے حیران ہوتے ہوئے زکیہ سے کہا۔

            "آپ دو دن کی بات کر رہے ہیں، رات کو آپ نے جو حرکت میرے ساتھ کی ہے اس کے بعد میں تو اب دو پال بھی اِدھر نہیں ٹھہر سکتی" زکیہ نے وقاص کو جواب دیا۔

            "دیکھو زکیہ میں اپنی اس بات سے بہت شرمندہ ہوں اور میں اب وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا" وقاص نے زکیہ کے سامنے جا کر اپنے کنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔

            "وقاص بھائی میں بچی نہیں میں جانتی ہوں کہ انسان زندگی میں صرف پہلی دفعہ کوئی بھی غلط حرکت کرتے ہوئے گھبراتا اور ڈرتا ہے اور جب ایک دفعہ وہ کوئی غلط کام کر بیٹھتا ہے تو پھر شرم کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔

            میں ایک دفعہ تو رات کے اندھیرے میں آپ سے لٹ چکی ہوں اب بار بار اپنے ہی بھائی سے لٹنا کی مجھے میں ہمت نہیں۔ اس لئے مجھے نہ صرف ابھی نیو یارک جانا ہے بلکہ میں اب ایک دو دن میں ہی واپس پاکستان چلی جانا چاہتی ہوں" زکیہ نے غصے سے پھونکتے ہوئے وقاص کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔


            وقاص جو کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک یہ سوچ کر مطمئن ہو رہا تھا کہ زکیہ تھوڑے دنوں میں سنبھل جائے گی۔ اُسے اب زکیہ کا فیصلہ کن انداز یہ بتا رہا تھا کہ اب اُس کے سامنے مزید کسی "اگر مگر" کی گنگائش نہیں ہے۔

            اس لئے اُس نے روم میں لگا فون اُٹھایا اور ایئرلائن کو کال کر کے اُسی دن کی اگلی دستیاب فلائٹ میں اپنی سیٹ بکنگ کو بدل کوائیا اور اس طرح دونوں بہن بھائی شام 4 بجے کی فلائٹ سے واپس نیو یارک چلے آئے۔

            نیو یارک پہنچنے کے دوسرے دن وقاص نے زکیہ کا امریکن پاسپورٹ ارجنٹ فیس دے کر بنوایا اور اُس کے بعد دوسرے دن اُس نے پاکستانی کونسلیٹ میں جا کر زکیہ کا پاکستانی ویزا بھی حاصل کر لیا۔

            زکیہ کے ٹریول ڈاکیومنٹس تیار کرنے کے بعد وقاص نے ٹریول ایجنٹ کے ذریعے پاکستان کے لئے زکیہ کے ساتھ اپنی سیٹ بھی بک کروا لی اور دو دن بعد وہ دونوں پاکستان روانہ ہونے والے تھے۔

            لاس ویگاس سے واپس آ کر زکیہ کا رویہ وقاص سے کیچا کیچا تھا۔ وہ اب وقاص سے صرف مطلب ہی کی بات کرتی اور وہ بھی بات کم اور "ہوں ہاں" زیادہ ہوتی۔

            وقاص جب گھر میں ہوتا تو زکیہ اپنے کمرے میں بند کر لیتی اور وقاص کی موجودگی میں صرف کھانا بناتی اور کسی بہت ضروری کام سے ہی اپنے کمرے سے باہر نکلتی۔

            زکیہ میں وقاص کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی اور وہ پاکستان جانے کے دنوں کا انتظار اپنی انگلیوں پر کر رہی تھی۔


            زکیہ کا پروگرام یہ تھا کے اب وہ پاکستان واپس جا کر اپنی باقی کی زندگی اپنی بہنوں اور ان کے بچوں کے درمیان گزار دے۔

            اور پھر چار دن بعد وہ وقت آن پہنچا جب ان کو پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد فلائی کرنا تھا۔

            دونوں بہن بھائی اپنے بورڈنگ پاس لے کے ایئرپورٹ کے لونج میں اپنی بورڈنگ کے انتظار میں بٹھے تھے۔ دونوں بہن بھائی خاموش بیٹھے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔

            زکیہ سوچ رہی تھی کے کاش وہ بھائی کی بات نہ مانتی اور اکرم کی موت کے فوراً بعد واپس اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاتی تو اُسے اپنے بھائی کا یہ گے نونا روپ دیکھنے کو نہ ملتا اور نہ بہن بھائی کا ایک مقدس رشتہ رات کی ترکی میں یوں پمال ہوتا۔

            ادر وقاص جو جانے انجانے میں اپنی ہی بہن کو اپنا دل دے بیٹھا تھا۔ وہ بھی زکیہ کو اپنے آپ سے اس طرح جدا ہوتے دیکھ کر اندر ہی اندر بہت گمگین تھا مگر اس میں اپنی اپنی بہن کو اب روکنے کی ہمت نہ تھی۔ اس لئے وہ بھی اب بے بسی سے آنے والے وقت کا انتظار کر رہا تھا۔

            وقاص کو یہ تو شاک تھا کے پاکستان جا کر زکیہ شاید دوبارہ شادی نہ کرے۔ مگر اُسے یہ پورا یقین تھا کے اب وہ دوبارہ کبھی واپس اُس کے پاس نیو یارک نہیں آئے گی۔

            وقاص ایک عجیب سی الجھن میں تھا کے وہ کرے تو کیا کرے۔ آخر کار تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وقاص نے اپنے دل میں ایک فیصلہ کیا کے آج آخری موقع ہے کے وہ اپنے دل کی بات پوری طرح اپنی بہن کے سامنے کھول دے اور پھر اس کے بعد

            "جو مزاجے یار میں آئی"

            کی طرح جو ہو گا وہ اُس کو فیس کر لے گا۔


            یہ سوچ کر اُس نے زکیہ کو مکتب کیا: "زکیہ، میں آج تم سے آخری بار ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔"
            "زکیہ، کچھ بھی ہو، میں اب خود کو نہیں روک پاؤں گا۔ اس لئے جب تک میں اپنی بات پوری مکمل نہ کر لوں، پلیز مجھے روکا مت۔" وقاص نے یہ کہتے ہوئے زکیہ کو اُس کی سیٹ سے اٹھایا اور اُسے ساتھ لے کر لاونج کے ایک کونے میں جہاں "دیسی" لوگ کام کر رہے تھے، اُس جدر میں بیٹھا دیا۔ اُس کے بعد وقاص نے اپنی بات اُس وقت سے شروع کی جب اُس نے اپنے جعلی نکاح کی تقریب میں پہلی دفعہ زکیہ کے عریان ممے کے دیدار کیا تھا۔

            اور پھر وہ کیسے ایک رات جلدی گھر واپس آیا اور غلطی سے اکرم اور زکیہ کی چودائی کی آوازیں سنی۔

            پھر زکیہ اور اُس کے درمیان ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کی وجہ سے وہ کیسے آہستہ آہستہ اپنی ہی بہن کی محبت میں گرفتار ہوتا گیا۔

            وقاص ان تمام باتوں کو مختصر الفاظ میں بیان کرتا چلا گیا۔

            زکیہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے بھائی کے دل کے جذبات سنتی رہی اور سن کر حیرت زدہ ہوتی رہی۔

            اُسے تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کے ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اُس کا اپنا بھائی اُس کا عاشق بن جائے گا۔


            وقاص نے کھل کر زکیہ کو بتا دیا کہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر پھر بھی وہ اب زکیہ کو ایک بہن کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عورت کے روپ میں دیکھتا اور چاہتا ہے۔

            اور بیشک اُس کا زکیہ سے ہونے والا نکاح جعلی تھا۔ مگر ویگس میں زکیہ کے ساتھ رات گزارنے کے بعد اب وہ زکیہ کو اپنی بیوی کی حیثیت میں پیار کرنے لگا ہے اور وہ زکیہ کو ہمیشہ اسی طرح چاہتا رہے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

            جب ہی وقاص نے اپنی بات مکمل کی، فلائٹ کی بورڈنگ شروع ہو گئی اور وہ دونوں بغیر کوئی مزید بات کیے جہاز میں سوار ہو گئے۔


            جہاز کے سفر کے دوران دونوں بہن بھائی نے آپس میں اس موضوع پر اور کوئی بات نہ کی کیونکہ ایک تو پوری فلائٹ پاکستانی مسافرین سے بھری ہوئی تھی اور دوسرا اب ان کے درمیان اب کو بات کرنے کو رہ بھی نہیں گئی تھی۔

            اسلام آباد ایئرپورٹ پر وقاص کا ایک بہنوئی ان کو لینے آیا تھا جس کے ساتھ وہ دونوں پہلے منڈی بھاولادین کے قریب اپنے گاؤں پہنچے۔

            جہاں وقاص اور زکیہ کی سب بہنیں اور ان کے بچے ان کے انتظار میں تھے۔ وہ سب لوگ آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے۔

            اکرم اور زکیہ کے گاؤں والے مکان میں اب زکیہ کی بڑی بہن مختار بی بی اور اُس کا خاندان رہائش پذیر تھا۔

            زکیہ اور وقاص ایک دو دن گاؤں میں رہے۔ جس دوران ان دونوں نے اپنے ماں باپ کی قبر پر حاضری دی اور اپنے پرانے گھر کو جا کر دیکھا جہاں وہ دونوں پل بھر کر جوان ہوئے تھے۔

            اُس گھر کی حالت پہلے ہی بہت خراب تھی اور اب اتنے عرصے بعد تو وہ گھر بالکل خندر بن چکا تھا۔

            دو دن بعد وہ لوگ لاہور چلے آئے۔ زکیہ کا لاہور والا مکان ڈبل اسٹوری تھا۔


            جب سے زکیہ کے ماں باپ فوت ہوئے تھے، اُس کے بعد زکیہ کی دونوں بڑی بہنیں اپنے بچوں کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں تھیں۔

            اب مکان کے نچلے حصے میں زکیہ اور وقاص کی بہن ریحانہ اور اُس کی فیملی رہتی تھی اور اوپر والے حصے میں ان کی درمیانی بہن عاصمت بی بی اور اُس کی فیملی کا بسیرا تھا۔

            لاہور میں اپنے بہنوں اور اُن کی فیملیوں کے ساتھ وقاص کا اچھا وقت گزر رہا تھا۔ زکیہ بھی اپنے فیملی میں واپس آ کر اپنے آپ کو تھوڑا مطمئن محسوس کر رہی تھی۔ مگر اس بات کے باوجود وہ اپنے بھائی سے تھوڑا الگ تھلگ ہی رہتی۔

            زکیہ اور وقاص کو لاہور آئے ہوئے دو تین دن ہی گزرے تھے کہ ریحانہ بھاجی کا دیور عثمان اور نند شازیہ جن کی فوٹوز وقاص کی ماں نے مرنے سے پہلے رشتے کے لئے ان کو نیو یارک بھیجی تھیں، وہ بھی اپنے گاؤں سے ان کے گھر نزل ہوگئے۔

            زکیہ نے ان دونوں کے آتے ہی ان کی حرکتوں سے اندازہ لگا لیا کہ عثمان تو کافی سیدا سادہ اور شرمیلی طبیعت کا نوجوان ہے۔ جو اُس سے ملتے ہوئے ایسے جھجک رہا تھا کہ جیسے وہ لڑکی ہو اور زکیہ لڑکا۔

            جبکہ اُس کے برخاص زکیہ کو عثمان کی بہن شائزہ ایک بہت چالو چیز نظر آئی۔

            شائزہ نے وقاص سے ملتے ہوئے ساتھ ہی وقاص کو گھیرنے کے لئے اُس پر دورے ڈالنے شروع کردیے۔

            زکیہ نے نوٹ کیا کہ شائزہ ہر وقت وقاص کے ارادے گھیرد مُنڈلاتی رہتی ہے اور اس کو اپنی آداؤں کے جال میں پھسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

            شائزہ کے لاہور آنے کے تیسرے دن جب وقاص شاپنگ کے لئے انارکلی بازار گیا ہوا تھا تو زکیہ نے چھپکے سے شائزہ کو وقاص کے کمرے میں گھسٹے دیکھا۔

            زکیہ کو تجسس ہوا کہ جا کے دیکھے کہ شائزہ وقاص کے کمرے میں کیا کرنے گئی ہے۔

            جب زکیہ شائزہ کے پیچھے پیچھے وقاص کے کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے شائزہ کو وقاص کے بستر کے سرحنے کے نیچے ایک رقعہ رکھتی ہوئے پکڑ لیا۔

            شائزہ پہلے تو اپنی چوری پکڑے جانے پر تھوری گھبرائی مگر پھر فوراً ہی سنبھل گئی۔

            زکیہ نے تکیہ کے نیچے سے شائزہ کا رکھا ہوا رقعہ اٹھا کر پڑھا تو پتا چلا کہ شائزہ نے وقاص کے نام ایک لوو لیٹر لکھا ہے۔


            "ڈبے میں ڈبا اور ڈبے میں کیک
            میرا وقاص تو ہے لاکھوں میں ایک"

            "یہ کیا بکواس ہے شائزہ؟" زکیہ نے بہت غصے سے شازیہ کے سامنے خط کو لہراتے ہوئے پوچھا۔

            "یہ بکواس نہیں بلکہ وقاص سے میرے پیار کا اظہار ہے بھاجی" شائزیہ نے جواب دیا۔

            "تمہیں شرم نہیں آتی غیر مردوں پر دورے ڈالتے اور ایسے وحیات کیسم کے خط لکھتے ہوئے" زکیہ نے شائزیہ کو غصے میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔

            شائزیہ زکیہ کا یہ رویہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی اور بولی: "خط تو میں نے وقاص کو لکھا ہے مگر پتا نہیں آپ کی 'جھنٹیں' کیوں سلگنے لگی ہیں بھاجی۔"
            "باجی آپ تو مجھ سے یوں لہر رہی ہیں جیسے آپ وقاص کی بہن نہیں بلکے بیوی ہیں اور میں آپ کی ہونے والی سوکن" شازیہ نے جب زکیہ کو غصے میں آتے دیکھا تو اُس نے بھی زکیہ کو ٹھرکی باتوں پر جواب دیا اور غصے سے اپنے پیر پٹکتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

            شائزیہ کے چلے جانے کے بعد زکیہ کو خود بھی شازیہ سے کیے گئے اپنے برتاؤ پر حیرت ہوئی۔

            زکیہ جو کہ اس سے پہلے اپنے بھائی سے شدید قسم کی تفرقہ کرنے لگی تھی۔ مگر آج نہ جانے کیوں شازیہ کے یہ خط پڑتے اور اُسے اپنے بھائی سے پیار کی پہنگی بڑھاتے دیکھ کر زکیہ کو اچھا نہ لگا۔


            اِس کا سبب شاید یہ تھا کہ شازیا کی کہی ہوئی باتوں نے زکیہ کی انڈر پوشیدہ عورت کو آج جیسے جگا دیا۔

            زکیہ ایک بہن کے ساتھ ساتھ تھی تو ایک عورت۔ اور یہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے پیار میں کسی اور عورت کو حصے دار بنتا نہیں دیکھ سکتی۔

            بیشک آج سے پہلے تک زکیہ وقاص کو ایک بھائی کی رشتے میں ہی دیکھا اور سوچا تھا مگر بھی سحزیا کا یوں وقاص سے کھلا اظہار محبت کرنا زکیہ کو ایک انکہ نہ بایا اور وہ سحیزہ سے نچھاٹے ہوئے بھی ایک عجیب سی جلن محسوس کرنے لگی۔

            "اِس پیار کو میں کیا نام دوں
            ربا میرے ربا، ربا میرے ربا"

            اِس گانے کی طرح زکیہ کو بھی اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ وہ اپنے اندر پیدا ہونے والی اس جلن کو کیا نام دے۔

            اُس دن کے بعد شائزہ اور زکیہ کے درمیان ایک تناوو سا آ گیا جس کو گھر میں کسی اور نے تو نہ صحیح لیکن وقاص نے ضرور محسوس کر لیا مگر اُس نے اُن دونوں میں سے کسی ایک سے بھی اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی۔


            اس دوران زکیہ کا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں ہی گزرنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دو دن سے وہ اپنے آپ کو کچھ تھکی تھکی سی محسوس کرنے لگی تھی۔ اس لئے اس کا کہیں انجائے جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔

            اپنی تھکوت کے ساتھ ساتھ زکیہ کو یاد آیا کہ اس کا لاسٹ پریڈ آئی ہوئی ایک مہینہ ہونے والا تھا مگر اب تک اس کا پریڈ شروع نہیں ہوا تھا۔

            لیکن زکیہ اس بات سے زیادہ پریشان نہ ہوئی کیونکہ اس سے پہلے بھی ایک بار اس کے ہارمونز کا امبالنس ہونے کی وجہ سے اس کے پریڈ کی ڈیٹ اوپر نیچے ہو گئی تھی۔

            اُدھر وقاص جو صرف دو ہفتے کے لیے پاکستان آیا تھا اور اس کے یہ دو ہفتے پلک جپکاتے میں ہی گزر گئے اور اس کی واپسی کا دن آن پہنچا۔

            وقاص کی نیو یارک واپسی سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ زکیہ اپنے کمرے میں پڑے بیگ میں اپنا امریکن پاسپورٹ تلاش کر رہی تھی کہ اسے یاد آیا کہ اس کا پاسپورٹ تو وقاص کے پاس ہے جس کو لانے کے لئے وہ اپنے بھائی کے کمرے کی طرف چلی آئی۔

            وقاص کے کمرے میں داخل ہونے کے لئے جون ہی زکیہ نے کمرے کا بند دروازہ کو ہلکا سا دھکا دیا تو دروازہ بغیر کوئی آواز پیدا کئے تھوڑا سا کھل گیا۔

            زکیہ کی نظر جیسے ہی روم کے اندر پڑی تو اندر کا منظر دیکھ کر زکیہ بس دیکھتی ہی رہ گئی۔

            اندر کمرے میں اس کا بھائی وقاص اپنے سارے کپڑے اتار کر نہ صرف بالکل ننگا کھڑا تھا۔ بلکہ وہ ساتھ ہی اپنے تنے ہوئے لن کو ہاتھ میں لیے ہوئے زور زور سے اپنے لن کے ساتھ کھیل بھی رہا تھا۔



            اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر زکیہ کی آنکھیں جپکنا ہی بھول گئی۔

            اُس کے سینے کی دھڑکن بڑھ گئی۔ زکیہ کے سامنے اُس کا بھائی اپنے ہاتھ میں اپنا تنا ہوا لن لے کر مشت زنی میں مصروف تھا۔

            زکیہ نے اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھا تو ایک شرمو ہیا والی مشرقی لڑکی ہونے کی وجہ سے زکیہ کے دماغ نے اُسے وہاں سے ہٹنے کا کہا۔

            مگر لگتا تھا کہ جیسے زکیہ کے قدموں کو زمین نے جیسے جکڑ لیا ہو اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس جگہ سے ہل نہ پائی اور دم بکھر کر اپنے بھائی کی حرکتوں کو دیکھتی رہی۔

            زکیہ اس سے پہلے بھی ویگاس میں سرسری طور پر اپنے بھائی کے لن کو ایک دفا دیکھ چکی تھی مگر آج پہلی دفا وہ اپنے بھائی کو اپنے ہی لن سے اس طرح کھیلتا دیکھ رہی تھی۔

            زکیہ نے آج سے پہلے صرف اپنے مرحوم شوہر اکرم کو ہی پوری ننگی حالت میں دیکھا تھا۔ اکرم کا بہرہ بدن تو وقت کے ساتھ ساتھ ڈھیلا پڑ گیا تھا۔

            زکیہ نے اپنی سہیلیوں سے مردوں کی مردانہ وجوہات کے بارے میں سن تو رکھا تھا۔ لیکن آج پہلی بار وہ ایک مرد کی جوانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جو کہ اُس کا ہی بھائی تھا۔


            اوہ، کیا سین تھا !!! پوری جوانی میں آیا ہوا، کسرتی بدن والا ایک جوان اس کے سامنے ننگا کھڑا تھا۔ وقاص کا کھلا اور چھوڑا سینا کسی بھی لڑکی کو پاگل بنانے کے لئے کافی تھا۔

            وقاص کی ٹانگیں بہت مضبوط نظر آ رہی تھیں۔ اور ان مضبوط ٹانگوں کے درمیان میں پورا زور سے اٹھا ہوا اس کا گدھے جیسا لن!!!!!!!!. جس کو دیکھ کر زکیہ کے سینے کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور اس کے جسم میں ایک ہلچل مچ گئی۔

            زکیہ کی نظریں اپنے بھائی کے تنے ہوئے لوڑے پر جمی ہوئی تھیں۔ یہ وہی لن تھا جو رات کے اندھیرے میں ایک دفا اس کی چوت کی گہریوں میں گس کر اس کی چوت کی گرمی کو دور کر چکا تھا۔

            وقاص کمرے میں اپنے کام میں مگن تھا اور زور زور سے مٹھ لگا رہا تھا۔ اپنے گدھے جیسے لن کی مٹھ مارتے ہوئے وقاص اپنے ہاتھوں کو تیزی سے چلا رہا تھا۔

            جوں جوں وقاص مٹھ لگتا جا رہا تھا اس تون تون اس کے لن کی رگوں میں مزید تنووں آتا جا رہا تھا جس وجہ سے وقاص کا لن اور موٹا اور سخت ہوتا جا رہا تھا۔

            اور پھر تھوڑی دیر میں اپنے لن سے کھیلتے کھیلتے وقاص کے منہ سے ایک ہلکی سی سسکاری کے ساتھ زکیہااااااااااااااااااااااااااا کا نام نکلا اور ساتھ اس کے لن سے پانی چھوٹ گیا۔

            وقاص کے لن کی پچکاری کمرے میں پڑے بیڈ کی چادر کو گیلا کر گئی۔

            اس کی پچکاری کی دھار اتنی لمبی تھی کہ اس کی منی کی چیٹیں کمرے کی دیوار تک بھی جا پہنچیں۔

            بھائی کو اس طرح اپنے نام کی مٹھ لگتے اور پھر فیرغ ہوتے دیکھنے کے بعد زکیہ کے پیر کپنے لگے اور اس کا وہاں پر کھڑا رہنا اس کے لئے مشکل ہو گیا اور وہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئی۔


            جب زکیہ واپس اپنے کمرے میں پہنچی تو اُسے اپنی چوت والی جگہ میں گیلا پن محسوس ہوا۔ جب زکیہ نے اپنی پھدی پر ہاتھ لگایا تو اُسے یہ سمجھ آیا کہ اُس کی چوت بھی اپنے بھائی کو مٹھ لگتے دیکھ کر گیلی ہو چکی تھی۔

            زکیہ نے باتھروم میں جا کر اپنے کپڑے بدلے۔ مگر اپنے بھائی کی مشت زنی والا نظارہ اُس کے دماغ میں جیسے نقش ہو گیا۔ جس وجہ سے زکیہ سارا دن اپنی چوت میں گرمی محسوس کرتی رہی۔


            اُسی دن شام کو باجی ریحانہ نے وقاص اور زکیہ سے شائزہ اور عثمان کے رشتے کی بات کی مگر وقاص اور زکیہ نے شادی سے صاف انکار کر دیا۔

            جب ریحانہ نے انکار کی وجہ پوچھی تو زکیہ نے تو کہ دیا کہ وہ اب دوبارہ کبھی شادی نہیں کرے گی۔

            جب کہ وقاص نے صاف کہ دیا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے اس لئے وہ شائزہ کو اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔

            شائزہ کو جب وقاص کے جواب کا علم ہوا تو وہ دل برداشتہ ہو کر اپنے بھائی کے ساتھ واپس اپنے گاؤں چلی گئی۔

            دوسرے دن ایئرپورٹ پر جب وقاص صاحب سے الوداع ہو رہا تھا تو اس کی آنکھوں کی پتلی سے چلکتے آنسوں کو صرف زکیہ ہی دیکھ پائی۔

            وقاص کا دل چاہتا تھا کہ کاش زکیہ اُس کے ساتھ چلی آئے یا اُسے ہی جانے سے روک لے مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور وقاص ٹوٹے ہوئے دل اور بہت جلدی کے ساتھ ڈپارچر لاؤنج کی طرف چلا گیا۔

            وقاص کو گئے ہوئے ابھی تین دن ہی ہوئے تھے کہ زکیہ نے نوٹ کیا کہ اُس کی بہنوں کا اُس سے سلوک پہلے کی نسبت تھوڑا مختلف ہو گیا ہے۔ جن بہنوں کے ساتھ وہ اپنی بقیہ زندگی گزارنے امریکہ چھوڑ کر چلی آئی تھی۔ لگتا تھا کہ ان بہنوں کو جیسے اُس کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔


            زکیہ کی دونوں بہنوں کا زیادہ وقت اپنے بچوں کے درمیان ہی گزرتا اور چند ہی دنوں میں زکیہ اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی سا محسوس کرنے لگی۔

            پہلے تو زکیہ نے اس بات کو اپنا وہم سمجھا مگر پھر ایک دو دن بعد اُسے یقین ہو گیا کہ کوئی بات ضرور ہے جس کی وجہ سے اُس کی بہنیں اُس سے بدلی بدلی سی ہیں۔

            اس بات کی وجہ پہلے تو زکیہ کو سمجھ نہیں آئی۔ مگر پھر ایک دن اُس پر یہ راز بھی افشاں ہو ہی گیا۔

            ایک رات زکیہ کو نیند نہیں آ رہی تھی اور بستر پر کروٹن بدلتے بدلتے اُسے پانی کی پیاس محسوس ہوئی تو وہ آہستہ سے اپنے کمرے سے نکل کر کِچن کی طرف چلی آئی۔

            کِچن کی طرف جاتے ہوئے جب وہ اپنی بہن ریحانہ کے کمرے کے پاس سے گزرنے لگی تو زکیہ کو بہن کے کمرے سے باجی ریحانہ اور عاصمت کی باتوں کی آواز سنائی دی۔ ساتھ ہی میری پوری کوشش تھی کہ وقاص سے شائزیا اور زکیہ سے عثمان کی شادی کروا کر شازیا اور عثمان کے ذریعے وقاص اور زکیہ کا سارا روپیہ پیسہ قابو کر لوں۔

            مگر وہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا اور اب یہ چڑیل زکیہ ادر ہی رہنا چاہتی ہے تو اب ہمیں زکیہ کے مکانوں کو اپنی ملکیت بنانے کا خیال دل سے نکال دینا ہو گا۔


            بہنوں کی باتیں سن کر زکیہ اپنی پیاس کو بھول گئی اور پانی پیے بغیر واپس اپنے کمرے میں چلی آئی۔

            اسے اپنی بہنوں کی بات سن کر بہت دلی تکلیف پوچھی۔

            اکرم کی جہد میں سے اب زکیہ کے پاس گاؤں اور لاہور والا مکان ہی بچے رہ گئے تھے اور اگر زکیہ ان دونوں مکانوں کو بھی اپنے ہاتھ سے گوا بیچتی تو اسے ڈر تھا کہ آخری عمر میں وہ کدار دھکے کھاتی پھرے گی۔

            اس لئے دوسرے دن اُس نے صبح اپنی بہن ریحانہ کو سب بتا دیا کہ اُس نے رات کو ان دونوں بہنوں کی باتیں سن لی ہیں۔ اور ساتھ ہی ریحانہ کو یہ بھی بتا دیا کہ "ہاں" وہ اب واپس امریکا بھی نہیں جا رہی اس لئے اُس کے جیتے جی وہ لوگ اُس کے مکانوں پر قبضے کا خیال دل سے نکال دیں۔

            زکیہ کی بات سن کر ریحانہ کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ کسی مصلحت کی وجہ سے چپ ہو گئی۔

            ریحانہ ایک چالاک عورت تھی اور وہ زکیہ کو کابو میں کرنے کے لیے کسی مناسب موقع کی تلاش میں لگ گئی اور یہ موقع اُس کو جلد ہی مل گیا۔

            کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک شام ریحانہ نے زکیہ کو باتھروم میں الٹیاں کرتے دیکھا تو اُس کا ماتھا تھنکا۔

            ریحانہ جو کہ اب تک تین بچوں کی ماں بن چکی تھی اُسے نہ جانے کیوں شک پڑا کہ یہ الٹیاں پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔

            اس لئے اُس نے فوراً زکیہ کو ساتھ لیا اور نزدیکی کلینک میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے چلی آئی۔
            لیڈی ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد جب زکیہ کو بتا کے وہ نہ صرف "امید" (pregnant) سے ہے بلکہ اس کی پریگنیسی کا دوسرا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ تو ڈاکٹر کی بات سن کر زکیہ کے تو ہوش ہی اُڑ گئے اور اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

            زکیہ کو اب یاد آیا کے وقاص سے چُدائی کے وقت اس کی بچہ دانی اپنے پورے جوبن پر تھی۔

            پھر جب وقاص نے اپنا پانی اس کی پھدی میں چھوڑا تھا تو اس کی بچہ دانی نے وقاص کے لن کا سارا پانی اپنے اندر پُرا جاذب کر لیا تھا۔ اور اس کا نتیجہ آج زکیہ کے سامنے ظاہر ہو گیا تھا۔

            ریحانہ پر بھی یہ خبر ایک بجلی بان کر گری مگر اُس نے کلینک میں زکیہ سے پوچھ گچھ مناسب نہ سمجھی۔

            جون ہی ریحانہ زکیہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی اُس نے زکیہ پر سوالوں کی بُچھھر کر دی۔ زکیہ کموچ رہی جواب دیتی بھی تو کیا کہ اُس کے پیٹ میں پلنے والے بچے کا باپ اُس کا اپنا ہی ساگھا بھائی ہے۔ "کوئی انگریز نہیں ہے بجی" زکیہ اپنی نظریں جُکائے شرمندگی سے بولی۔

            "کوئی انگریز نہیں تو پھر کون ہے جس سے تو اپنا منہ کالا کرتی رہی ہے" ریحانہ چلی۔

            زکیہ کچھ نہ بولی۔

            زکیہ کی خاموشی دیکھ کر ریحانہ کے دماغ میں اچانک ایک بات آئی اور اُس بات کو سوچتے ہی ریحانہ فوراً چونک گئی اور بولی "اچھا اب مجھے یہ سارا معاملہ سمجھ آیا ہے، لگتا ہے کے وقاص اور تم نے نکاح تو جعلی کیا تھا مگر سُہاگ رات اصلی والی منا کر بچہ بھی اصلی ہی بنا لیا ہے، کیوں میں ٹھیک کہ رہی ہوں نا؟"


            ریحانہ کے منہ سے یہ بات سن کر زکیہ کا رنگ فوک ہو گیا اور وہ اپنی بہن سے نظریں چھپانے لگی۔

            زکیہ کے چہرے کا رنگ اڑتا دیکھ کر ریحانہ سمجھ گئی کہ اس کا تیر صحیح نشانے پر لگا ہے۔

            "زکیہ تم شرم نہیں آئی اپنے ہی بھائی سے ناجائز تعلقات قائم کرتے۔ اگر تمہیں اتنی ہی گرمی چڑھی تھی تو کسی اور کو کابو کر لیتی، مگر اپنا ہی بھائی، لعنت ہے تم پر بے غیرت" ریحانہ نے زکیہ کو کوستے ہوئے کہا۔

            "نہیں بجی آپ ان دونوں کو کچھ نہ بتانا ورنہ میں خود کشی کر لوں گی" زکیہ نے روندی آواز میں اپنی بہن کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔

            جب ریحانہ نے زکیہ کو اپنی منات کرتے دیکھا تو اس نے سوچا کے اب اس کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا کے وہ زکیہ کو بلیک میل کر کے اس کی جائیداد اپنے نام کروا سکتی تھی۔

            "اگر مگر کی کوئی گنگائش نہیں، میری شرط منظور ہے تو بتا دو ورنہ میں تمیں پورے خاندان میں رُسوا کر دوں گی" ریحانہ نے ایک صافک لہجے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔

            بہن کے دو طوق فیصلے کے سامنے زکیہ کو انکار کی ہمت اور چوائس نہیں تھی اس لئے "اچھا بجی میں راضی ہوں مگر مجھے ایک دو دن کی مہلت دو" زکیہ نے اپنی ہار منتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔

            کمرے میں واپس آتے وقت زکیہ کو پیچھے سے ریحانہ کی آواز سنی دی "اگر تم نے دو دن تک اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو یاد رکھنا میں تمیں ہیرا منڈی میں جا کر کسی کوٹھے پر بیٹھا دوں گی سمجھی تم"


            اپنی بہن کی بکواس کو سن کر زکیہ کی آنکھوں میں آنسو امد آئے۔

            لیکن وہ ریحانہ کی بات کو انسونی کر کے اپنے کمرے میں پہنچ گئی اور دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر گری اور پھوٹ پھوٹ کر اپنی قسمت پر رونے لگی۔

            رات کی تاریکی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور زکیہ بنا کچھ کئے پیئے ہی اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

            وہ کافی دیر تک سونے کی کوشش کرتی رہی مگر اس کے دماغ میں چلے والے سوچوں نے اسے سونے نہ دیا۔

            اپنی بہن کا صافکانہ اور بیک میل والا رویہ دیکھ کر زکیہ کو اس بات کی اب سمجھ آ گئی کہ اس دنیا میں صرف اور صرف ماں باپ کا ہی ایک رشتہ ایسا ہے جو بیلوس ہوتا ہے۔ باقی سب رشتے وقت کے ساتھ ساتھ کبھی نا کبھی لالچی ہو جاتے ہیں۔

            جن بہنوں کے گھر آباد کرنے کے لئے زکیہ نے قربانی دی اور اپنی جوانی کو ایک بُرے آدمی کے حوالے کر دیا تھا۔ آج ان ہی بہنوں کا لالچی پن کھل کر اس کے سامنے آ گیا تھا۔

            آج اُس کی بہنیں اُس کی قربانی کا صِلہ اُس کے سر سے چھٹ کا سایہ چھین کر لوٹانا چاہ رہی تھیں۔ اپنی بہنوں کے اس سلوک سے زکیہ کا دل خون کے آنسو روح رہا تھا۔

            اسی قسم کی باتیں سوچتے سوچتے زکیہ کا دماغ اپنے آپ اُس کے بھائی وقاص کی طرف مُڑ گیا۔

            وقاص کا خیال دل میں آتے ہی بچپن سے لے کر جوانی تک زکیہ کو اپنے اور بھائی کے درمیان ہونے والے تمام واقعات اور باتیں اپنی جگتی آنکھوں میں ایک خواب کی طرح سامنے آنے لگیں۔

            اپنی جیلی نکاح سے لے کر اُس کے شوہر اکرم کی موت کے بعد وقاص نے اُس کو حوصلہ دینا اور زکیہ کو ایک گمزادہ زندگی سے باہر نکالنا۔

            اس کے بعد کئی مواقع پر وقاص نے زکیہ سے اپنی باتوں اور حرکتوں کے ذریعے اظہار محبت کرنا اور آخر کار اپنی ہی بہن کے ساتھ زبردستی جسمانی تعلقات قائم کر کے اُسے اپنے بچے کی ماں بنانا۔ یہ زکیہ کے خیال میں اُس کے بھائی وقاص کی اُس کے ساتھ پیار کی انتہا تھی۔

            کہتے ہیں کے ماں بننے کے بعد ہی ایک عورت کی تکمیل ہوتی ہے۔

            اسی لئے ہر عورت کی طرح اپنی شادی کے بعد زکیہ کی بھی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ ایک بچے کی ماں بن کر اپنے آپ کو ایک مکمل عورت کے روپ میں ڈھالے۔ مگر اکرم بہرہ ہونے کی وجہ سے زکیہ کو اولاد کی خوشی نہ دے سکا۔

            اور آج جب زکیہ کو پتہ چلا کہ وہ پریگننٹ ہے تو اس بات کے باجود کہ اُس کے پیٹ میں اُس کے اپنے بھائی کا ناجائز بچہ پال رہا ہے۔

            پھر بھی نجانے کیوں آج زکیہ اپنے آپ کو ایک مکمل عورت محسوس کرنے لگی تھی۔

            یہ باتیں سوچتے سوچتے زکیہ کے ہاتھ اپنے آپ شلوار کے اوپر سے اُس کے پھولی ہوئی چوت کے موٹے لبس تک پہنچے۔ اُس کی چوت میں ایک تندور جیسی آگ لگی ہوئی تھی۔

            “نہیں میں یہ کیا باتیں سوچنے لگی ہوں،کچھ بھی ہو بہن بھائی کا کسی بھی قسم کا جسمانی تعلق ایک بہت بڑا گناہ ہے اور میں یہ گناہ نہیں کر سکتی” زکیہ نے اپنے جذبات سے لہراتے ہوئے فوراً اپنی چوت سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔

            بابا بلہے شاہ کا ایک بہت پیارا شعر ہے کہ

            “اینویں روز شیطان دے نال لڑدا
            کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نہیں”

            یہ صحیح بات ہے کہ انسان ایک شیطان سے تو لڑ سکتا ہے مگر اپنے جسم کے اندر چھپے ہوئے “نفس” (اپنی خواشیات اور جذبات) سے لڑنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

            اسی لئے یہ لگتا تھا کہ آج زکیہ بھی اپنے نفس سے لڑتے ہوئے اپنی لڑائی ہارنے لگی تھی۔

            اخیر کار زکیہ خوبصورت اور جوان تھی۔ اور ہر جوان عورت کی طرح اس کے جسم میں بھی امنگیں اور جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ اس کے جسم کی بھی کچھ ضرورتیں تھیں۔

            جن کو اکرم ساری زندگی کبھی بی سہی طریقے سے پورا نہیں کر پایا تھا۔ وہ زکیہ کو ہر دفعہ پیاسا اور ترپتا چھوڑ دیتا اور زکیہ اسے اپنی قسمت سمجھ کر صبر شکر کے ساتھ برداشت کرتی رہی۔

            مگر آج اپنی بہنوں کے سلوق کی وجہ سے زکیہ کے اندر اپنی بہنوں کے لئے ایک نہ صرف نفرت پیدا ہو گئی بلکہ اس نفرت نے فوراً ایک بغاوت کی شکل اختیار کر لی۔


            زکیہ یہ سوچنے لگی کہ جب اُس کی بہنیں لالچ میں آ کر اُس کے ساتھ بہن کے سگے رشتے ہو بُلا بہتی ہیں۔

            تو پھر اُس کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ وہ بھی

            “چاہت میں کیا دنیا داری
            عشق میں کسی مجبوری”

            والے اس شعر کے بکول اپنے آپ کو رشتوں کی قید سے آزاد کر کے اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارے اور انجوائے کرے۔

            ہمارے علاقے میں ایک مثال بہت مشہور ہے کہ “رنڈی (بیوہ عورت) تو شاید اپنا رنڈی پن کاٹ ہی لے مگر اُسے محلے کے “چھرے” (بچلر) نہیں کاٹنے دیتے”.

            اسی طرح کہتے ہیں کہ پہلی بار کسی سے بیچنے میں ہر لڑکی یا عورت نخرا ضرور کرتی ہے لیکن ایک بار چدنے کے بعد جب اُسے چدائی کا سواد اٹھتا ہے تو پھر وہ چدائی کے بغیر رہ نہیں پاتی۔

            اور پیپسی کے ٹی وی ایڈ کی طرح ہر وقت یہی کہتی رہتی ہے کہ،

            “یہ چوت مانگے مور”

            اِسی طرح کچھ حال اُس وقت زکیہ کو ہو رہا تھا۔

            وہی زکیہ جو اِس سے پہلے اپنے بھائی سے جنسی تعلقات کو گناہ سمجھاتی تھی۔

            آج وہ اِس قدر بگی ہو گئی تھی کہ بستر پر لیٹی اپنے بھائی کے لن کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی۔

            زکیہ اُلٹی ہو کر بستر پر لیٹ ہوئی تھی۔اب دوبارہ اُس کا ایک ہاتھ اُس کے پیٹ کے نیچے سے اور دوسرا ہاتھ اُس کی کمرے کے پیچھے سے ہو کر اُس کی چوت پر آ کر اُس کی پھدی سے کھلنے لگا تھا۔

            زکیہ نے اپنی انکھیں مندی لین اور اُس لمحے کو یاد کرنے لگی جب ویگاس میں وقاص کا لن اُس کی چوت کی دیواروں کو چھیرتا ہوا اُس کی پھدی میں پہلی بار داخل ہوا تھا تو ایک شادی شدہ عورت ہونے کے باوجود زکیہ کو اُس وقت ایسا لگا جیسے کہ جیسے وہ اپنی سہاگ رات کو پہلی دفعہ چدوا رہی ہو۔


            “بھائی کے لن کا ٹرکا
            بہن کی چوت کا انگ انگ پھرکا”

            زکیہ کو یاد آنے لگا کہ کیسے اُس رات وقاص کے لن نے اُس کی چوت کے ہر انگ میں ہلچل مچائی تھی۔

            وقاص کے لوڑے میں ایسی سختی تھی جس کا زکیہ نے کبھی اکرم کے لن میں تصور بھی نہ کیا تھا۔

            زکیہ کی آنکھیں بند تھیں اور اُسے اپنی بند آنکھوں میں اپنا بھائی اپنے سامنے بڑھانا ہو کر کھڑا نظر آ رہا تھا۔

            زکیہ کو یوں محوس ہو رہا تھا جیسے وقاص کا خالص مردانہ حصہ (لن) اُسے اپنی جانب کھینچ رہا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور وقاص کے مضبوط اور موٹے لنڈ سے اپنی پیاسی چوت کی پیاس بجھا لے۔

            لیکن اس سے پہلے کہ زکیہ آگے بڑھتی وقاص کا تصور اُس کی نگاہوں کے سامنے سے ایک دم غائب ہو گیا۔

            وقاص کے بارے میں سوچتے سوچتے زکیہ کا ایک ہاتھ خودبخود اُس کی شلوار کے اندر چلا گیا۔

            زکیہ بستر پر پڑی سسک رہی تھی،تڑپ رہی تھی اور اپنی چوت سے ساتھ کھیل رہی تھی۔

            زکیہ کے جسم میں ایک ایسی آگ تھی جس سے زکیہ کا بدن پگھلتا جا رہا تھا۔ زکیہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وقاص اس وقت اُس کے پاس ہو اور وہ زکیہ کے جنسی حسوں کو چھوئے،انہیں چوسے انہیں مسلے اور اُسے چودے۔

            زکیہ کے جسم کا ہر حصہ جوانی کے مہکتے رس سے بھرا ہوا تھا۔ اُس کی چھاتیاں جیسے تن کر اکڑ گئیں تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ شدتِ جذبات سے پھٹ جائیں گی۔


            زکیہ کے دماغ میں بس اپنے بھائی وقاص کی شکل ہی آ رہی تھی اور ساتھ ہی اُس کا ہاتھ کبھی اُس کے موموں پر آ جاتا تو کبھی پیٹ سے ہوتا ہوا شلوار کے اندر چلا جاتا۔

            زکیہ کی چوت اب تک نہ جانے کتنی بار اپنے ہی پانی سے بھیگ چکی تھی۔

            زکیہ اپنی چوت سے کیلتے ہوئے اپنی شلوار کا نارا کھولا

            اور اپنی شلوار کو آہستہ سے اپنی ٹانگوں سے تھوڑا نیچے کیا جس سے اُس کی موٹی ٹانگیں ناگی ہو گئیں۔اب زکیہ تھوڑی سائیڈ پر لیٹی ہوئی تھی

            اور اس طرح لیٹ کر وہ اکرم اور وقاص کی چدائی کا موازنہ کرنے لگی۔

            کہ کیسے اکرم اُس سے چدائی کے وقت اُس کے جنسی جذبات کو بھڑکاتا ان کو انچ دیتا مگر پھر وہ زکیہ کی چوت کی تسلی کرنے سے پہلے ہی فارغ ہو جاتا۔

            مگر اس کے برعکس وقاص وقت میں کچھ الگ ہی تھا۔ آج پہلی بار زکیہ یہ محسوس کرنے پر میجر ہو گئی کہ وقاص صحیح معنوں میں اُس کے لئے ایک زبردست جنسی کشش رکھتا ہے۔

            اگرچہ چائے کہ زکیہ نے اکرم سے شادی مجبوری میں کی تھی لیکن ہر لڑکی کی طرح زکیہ نے بھی اپنی چرتی جوانی میں اپنے ذہن اور دل کے ایک کونے میں اپنا ایک آئیڈیل بنایا تھا۔

            آج زکیہ کو سمجھ آئی کہ جس آئیڈیل کو وہ آج تک اپنے دل کے کونے میں بہتا کر اُس کی “پوجا” کرتی رہی اور اُسے باہر تلاش کرتی رہی ہے۔
            اُس کے خوابوں کا وہ شہزادہ تو اُس کے بھائی کی شکل میں ہمیشہ سے ہی اُس کے سامنے ہی تھا۔

            وقاص نے ایک شہزادہ کی طرح ہی آ کر زکیہ کی پیاسی اور بنجر چوت کو چود کر نہ صرف زکیہ کو اصل چودائی کا مزہ دیا بلکہ اپنی بہن کو اُس کی بیوگی کی قید سے بھی نگت دی۔

            زکیہ سوچنے لگی کہ اگر وقاص اُس رات اُسے زبردستی نہ چوڑتا تو پھر شاید اُسے اُس کی زندگی میں جینے کا کوئی مقصد ہی باقی نہ رہتا۔


            وقاص نے ایک ہی رات میں جو جنسی اسودگی (sexual satisfaction) زکیہ کو دی تھی۔ اُس کا اثر زکیہ اپنی چوت میں اب تک محسوس کر رہی تھی۔

            اُس ایک ہی رات میں وقاص نے زکیہ کو جوانی کا وہ مزہ دیا جو آرام اُسے پوری شادی شدہ زندگی میں نہ دے پایا تھا۔

            وقاص سے اپنی چدائی کو یاد کرتے ہوئے زکیہ کے جسم سے ایک زبردست قسم جنسی آگ نکلتی گئی اور وہ آگ اُس کے جسم کی تاپش بڑھاتی گئی۔

            زکیہ کو اِنتہائی گرمی لگی کہ اُس کے بدن کو پسینہ آ گیا اور اُس نے اپنے آپ کو فوراً کپڑوں کے بھوج سے آزاد کر دیا۔

            زکیہ بالکل ننگی ہو گئی اور بستر پر کرواتی ہوئے اپنی پیسی چوت سے کھیلتی رہی۔

            “اووووووووو۔۔۔۔۔۔ مجھے آج پتا چلا ہے کہ اس دنیا میں اگر کوئی کوئی مرد میری جنم جنم کی پیاسی چوت کی پیاس بجا سکتا ہے تو وہ مرد صرف تم ہو میری بھائی”

            بھائی سے چدائی کی یادوں کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے ہوئے زکیہ کا جسم ٹوٹنے لگا، دل انگڑائیاں لینے لگا، اُس پر عجیب سی مستی سوار ہو گئی اور اُس کی آنکھوں میں ایک خمار اُتر آیا۔

            زکیہ اپنی آنکھیں بند کی ہوئی اپنے جسم سے کھیل رہی تھی۔ وہ اپنی ایک انگلی اپنی چوت میں ڈال کر
            اندر باہر کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ ہلکی آواز میں آہہہہہہ آہہہہہہ کر رہی تھی۔

            اپنی چوت سے کھیلتے ہوئے۔


            وقاص کی نیو یارک ایئرپورٹ پر کہی ہوئی ایک بات زکیہ کے کانوں میں دوبارہ گھونجی۔ جب وقاص نے اُسے کہا تھا کہ وہ اُسے اب اپنی بیوی کی حیثیت سے دیکھتا اور پیار کرتا ہے۔ زکیہ کو اُس وقت تو بھائی کے یہ الفاظ اچھے نہیں لگے تھے۔

            مگر اب اپنی چوت سے کھیلتے ہوئے اپنے بھائی کے یہ الفاظ یاد کرکے زکیہ کی چوت انتہائی گرم ہو گئی۔

            ساتھ ہی زکیہ ہلکی آواز میں بربڑانے لگی۔ “بھائی اگر تم مجھے اپنی بیوی کے روپ میں قبول کر چکے ہو تو پھر مجھے بھی تم ایک شوہر کے روپ میں قبول ہو۔ قبول ہو قبول ہو قبول ہووووووووو میرے سرتاج میرے بھائی وقاص اور پھر زکیہ کے جسم نے ایک زوردار جھٹکا لیا اور جھٹکے پہ جھٹکے کھاتی ہوئی زکیہ اتنی چھوٹی کہ اُس کی چوت سے پانی کی ندیاں بہ نکلی جو زکیہ کی ٹانگوں کو بھی گیلا کر گئی۔

            اُس رات زکیہ کئی بار وقاص پر فارغ ہوئی۔ زکیہ کی چوت رات بھر بہتی رہی مگر ایک بار بھی اُس کے جسم کی پیاس نہیں بجھ پائی۔

            صبح ہونے تک زکیہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ اپنے ارمانوں کو مار کر اور گھٹ کر ایک بیوہ کی طرح اپنی زندگی مزید نہیں گزارے گی۔

            وہ جھیلی نکاح کی وجہ سے امریکا میں لوگوں اور قانون کی نظر میں پہلی ہی اپنے بھائی کی بیوی بنی ہوئی تھی۔ اس لئے زکیہ نے اب یہ تہ کر لیا تھا کہ وہ وقاص کے پاس واپس نیو یارک چلی جائے گی۔

            اور پھر گناہ اور ثواب کے تصور کو بھول کر اپنی باقی زندگی اپنے بھائی کی “اصل بیوی” بن کر اُس کی مضبوط بازووں کے حصر میں قید ہو کر اور اُس کے گھوڑے جیسے لن کو اپنی گرم چوت کی اغوش میں جذب کر گزر دے گی۔
            اور اپنے پیٹ میں پلتے ہوئے بھائی کے بچے کو ضرور جنم دے گی۔


            زکیہ کے پہلے دو مجبوری کا فیصلوں کی طرح اس کا یہ تیسرا فیصلہ بھی ایک مجبوری کا فیصلہ تھا۔ مگر اس فیصلے کو کرتے ہوئے زکیہ کو ایک عجیب سے خوشی بھی ہو رہی تھی۔

            زکیہ اپنی اس فیصلے پر مطمئن ہونے کے بعد ایک پرسکون نیند میں چلی گئی۔

            **THE END**
            Last edited by Man moji; 03-03-2024, 11:29 AM.

            Comment


            • #26
              سٹوری کا سٹارٹ اچھا نہئں
              بلکہ بہت ہی اچھا ہے
              شاندار لگتا بہت مزےدار ہو گی
              نیو اپڈیٹ کا انتظار رہے گا

              Comment


              • #27
                That's it folks.
                I prefer the stories which are more focused on the relationship part rather than you know
                "Just Fucking".

                Anyways, a HUGE thanks to the writer (unknown).
                If anyone knows this writer or their work please let me know.
                ​​​​​​​
                CHEERS

                Comment


                • #28
                  Achi story hy keep it up

                  Comment


                  • #29
                    bohot hi zabardt kahani he. is ka 2nd part b zaror likhen jis min zakia apne bhai k pass chali jae our USA ki azad life ko b enjoy kre khul k wahn

                    Comment


                    • #30
                      ایک شاندار سٹوری کا شاندار آغاز ر شاندار طریقے سے چلتی ہوئی سٹوری کا شاندار اختتام لاجواب سٹوری

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X