Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

رانی میری کرایہ دار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    بہترین اور لاجواب کہانی ہے۔

    Comment


    • #22
      آغاز تو اچھا ہے بہت اعلی۔

      Comment


      • #23
        Mazy ki story ha agay bouth. Hi maza ki ho jia gi

        Comment


        • #24

          عمدہ اب دیکھو یار سے آگے کیا کیا بولا جاتا​

          Comment


          • #25
            Ahsan ki kahani bht tezgam ban gye ha. Maza ki lagi ha. Itna jaldi halat badal diye. Maza aa gya. Bhabi sa yar ka safar shandar ha.

            Comment


            • #26
              قسط 3

              رانی جانتی تھی کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت ہے۔ کیونکہ آج تک جس مرد نے بھی اس کو دیکھا تھا اس کی نظریں چپک گئی تھیں۔ رانی کا صرف چہرہ خوبصورت نہ تھا۔ اس کی آنکھیں، اس کی پلکیں، اس کے لمبے سیاہ بال، اس کے گلابی ہونٹ اس کے گال، اس کے جسم کی بناوٹ اس کے گورےسرخ پاوں اور ہاتھ جسم کے جس حصہ پر نظر جاتی وہ ہر کسی کے لیے آئیڈیل ہوتا تھا۔ رانی موٹی بھی نہ تھی مگر وہ دھان پان سی بھی ہر گز نہ تھی قدرے صحت مند جسم کی مالک تھی مگر پتلی کمر کے ساتھ ساتھ اس کی ہر وہ چیز موٹی سی تھی جو موٹی ہونی چاہیے. رانی جو بھی لباس پہنتی انتہائی سادہ سا ہونے کے باوجود وہ اس میں اور بھی زیادہ حسین لگتی تھی۔
              اکثر وہ باہر جاتے وقت سکارف پہن کر ہی نکلتی تھی۔ جبکہ گھر میں بھی رانی اپنے سر کو دوپٹے سے ڈھانپ کر رکھتی تھی۔
              رانی ایک بہت ہی نفیس خاتون تھی۔ روزانہ دو تین بار تو غسل کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی صوفوں،دروازوں اور گھر کی ہر جگہ کو صاف ہی کرتی رہتی تھی۔ اس نے کبھی کسی برتن میں کھانا نہ کھایا تھا جس کو وہ اپنے ہاتھ سے دھو نہ لے۔
              شادیوں اور ریسٹورنٹس میں بھی وہ اپنی پلیٹ چمچہ ، کپ اور ڈسپوز ایبل گلاس ساتھ لے کر جاتی تھی۔
              لان کی کرسیوں کو بھی وہ روزانہ شیمپو سے دھوتی تھی۔
              اس کی فطرت ہی کچھ ایسی تھی جس چیز کو کوئی اور چھو لے رانی اس کو دھو کر ہی استعمال کرتی تھی۔ بلکہ وہ سبزی اور فروٹ کو بھی شیمپو سے دھو کر رکھتی تھی۔
              رانی کے وہم اور گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے اتنے قریب اس کے سامنے جوانی میں داخل ہونے والا لڑکا احسان اس کے حسن کا دیوانہ بن سکتا ہے۔
              احسان کی کچھ باتوں کو اس نے محسوس ضرور کیا تھا مگر حالات ایسے تھے کہ اس کا دھیان ہی نہ رہا وہ اس تبدیلی پر غور کرے۔رانی کا خاوند مہینے دو مہینے بعد گھر آتا تھا اور چند روز گزار کر پھر چلا جاتا۔اس کا گواردر میں کنسٹرکشن کا کوئی بڑا منصوبہ زیر تکمیل تھا۔
              رانی کے لیے احسان گھر کا ہی فرد تھا۔ اور رانی کے خاوند کو بھی احسان پر اعتبار تھا۔ ویسے اعتبار تو اس کو اصل میں اپنی بیوی رانی پر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رانی ایک حیا دار لڑکی ہے اگر اکیلی ساری دنیا کے سفر پر بھی نکل جائے تو اس کو اپنی بیوی پر اعتبار تھا۔
              کچھ دنوں میں رانی کے بیٹے کی طبیعت بہت بہتر ہو گئی تھی۔ احسان کا رانی کے پاس آنا جانا جاری تھا۔ اکثر تو احسان رانی کے ہاتھ کا ناشتہ یا کھانا کھانے کے لیے ہی حاضر ہو جاتا تھا۔
              دوسری طرف جب احسان نے صنم کے گھر اپنا وزیٹنگ کارڈ چھوڑا تو سب کی نظروں سے بچ کر صنم نے وہ کارڈ اٹھا کر دیکھا اور اس میں لکھے موبائل نمبر کو اپنے موبائل میں سیو کرلیا اور دو دن بعد جب ڈاکٹر ارشد ایک کانفرنس کے لئے دو ہفتوں کے لئے امریکہ چلے گئے تو صنم نے رات کو احسان کو فون کیا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا میں ہوں صنم ہینڈ سم بوائے، تم نے کارڈ چھوڑا تھا تو سوچا بچے کی خیریت پوچھ لوں، احسان نے خیریت بتائی اور شکریہ ادا کیا تو صنم کہنے لگی شکریہ کس بات کا، بھئ بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے، کبھی مجھے کام پڑا تو تم بدلہ اتار لینا، سیدھی سی بات۔ اسی طرح رات گئے احسان اور صنم کی واٹس ایپ پر بات شروع ہوگئی، ایک دن صنم نے پوچھا ہینڈ سم بوائے کوئی گرل فرینڈ ہے یا بس تنہائ کے مسافر ہو؟ احسان نے ہنستے ہوئے کہا کہاں صنم جی ہم تو فلحال ہاتھ سے مشقت کررہے ہیں تو صنم ہنسی اور کہنے لگی کوئی بات نہیں کبھی ہمیں وقت دو ہم بھی تم کو زندہ رہنے کے طریقے بتا سکتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ہنسنے لگی، احسان نے موبائل کی گھڑی پر نظر دوڑائی تو ایک بجنے والا تھا رات کا، اس نے سوچا نازک وقت ہے پتہ پھینکا جائے سو اس نے کہا صنم جی وڈیو کال پر جلوہ تو دیکھائیں تو موڈ بنے، صنم نے احسان کی بات سمجھتے ہوئے فورا وڈیو کال کرلی، احسان نے کال پک کی تو سامنے نائیٹ ڈریس میں صنم اپنے پورے شباب کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ احسان نے وڈیو پر بات کرتے ہوئے اندازہ لگالیا تھا کہ صنم نے نائیٹی میں برا نہیں پہنی ہے یہ کنفرم ہونے کے بعد احسان نے صنم سے کہا یار جلوہ دیکھانے کا کہا تھا آپ سے تو صنم نے ہنستے ہوئے کہا تو دیکھا تو دیا جلوہ اور کونسا جلوہ دیکھنا چاہتے ہو ہینڈ سم، احسان نے کہا صنم قدرت کا کرشمہ دیکھنے کا من ہے، صنم نے مسکرا کر جواب دیا اچھا تویہ بات ہے چلوکیا یاد کرو گے اور یہ کہتے ہوئے اپنی ناَئیٹی کا ربن کھول دیا اور کیمرے کا رخ اپنے چھتیس سائیز مموں کی طرف کردیا مگر اس نے مموں پر سے نائیٹی کا پلو نہیں ہٹایا تھا مگر اس میں بھی اس کا سب کچھ دکھ رہا تھا۔ احسان تھا تو نوجوان، اور خون جب گرم ہو تو وہ اندھا ہوجاتا ہے اس نے بھی اپنا ٹراوزر لیٹے لیٹے اپنے گھٹنوں تک کردیا اور کیمرے کا فرنٹ اپنے لنڈ کی جانب کرتے ہوئے کہا صنم ایسے دیکھاتے ہیں جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔ صنم کی نظر جیسے ہی احسان کے لنڈ پر پڑی وہ ایک دم حیرانی سے کیمرے کی اسکرین پر موجود احسان کے تنے طاقتور لنڈ کو دیکھنے لگی، لنڈ دیکھ کر اس کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت نے جنم لیا۔صنم احسان سے بولی احسان یہ تو ایک آئیڈیل لنڈ ہے، میں نے اپنی زندگی میں ایسا لنڈ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ احسان نے صنم سے کہا ویسے اب تک کتنے دیکھ چکی ہیں آپ تو صنم نے کہا نہ صرف دیکھے ہیں بلکہ میں تو مستفید بھی ہوئی ہوں، دو تین تو ارشد کے دوست ہیں دو میرے کزن ہیں اور تین میرے دوست مگر کسی کا بھی تم جیسا طاقتور اور خوبصورت لنڈ نہیں ہے۔ یہ بتاو کل تم میری طرف آو گے یا میں کل رات تمہارے ساتھ وقت گزار لوں۔ احسان نے کہا جیسا آپ کو ٹھیک لگے ویسے آپ میرے گھر آجائیں تو بہتر ہوگا کیونکہ رانی بچوں کےساتھ اکیلی ہوتی ہے تو رات کو اس کو ڈر لگتا ہے اگر میں گھر پر موجود نہ ہوں۔ صنم نے کہا رانی کے بارے میں کیا ارادے ہیں جناب کے؟ تو احسان ہنسا اور کہا صنم کام جاری ہے کسی بھی وقت یا کسی بھی دن انتظار کی گھڑی ختم ہوجانی ہے۔ صنم نے کہا گڈ۔

              اگلی رات پروگرام کے مطابق بارہ بجے جب رانی ا ور بچے اپنے پورشن میں سوگئے اور ملازم سب چلے گئے تو احسان کے واٹس ایپ پر میسیج آیا میں گھر کے باہر ہوں، یہ پڑھکر احسان دبے پاوں سیڑھیاں اتر کر باہر آیا اور صنم کو لیکر دبے پاوں ہی واپس اوپر اپنے بیڈ روم میں پہنچ گیا۔ صنم نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا واہ ہیڈ سم تم نے تو سنگل ہوکر بھی اپنا کمرہ تمیز سے رکھا ہوا ہے۔ ہر چیز سلیقے سے موجود ہے۔ احسان نے کہا شکریہ میں اپنی زندگی میں متوازن امور رکھنے کا عادی ہوں۔ یہ کہہ کر احسان صنم کے قریب آیا اور اس کے دونوں بازو تھام کر اس کو کھڑا کردیا اور اپنے لب صنم کے لبوں پر رکھ دیئے، صنم نے بھی احسان کے لبوں کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے رسپانس دینا شروع کردیا۔ وقت کب تیزی سے گزرنے لگا احساس ہی نہیں ہوا اور کب دونوں قدرتی لباس میں آگئے اس کا اندازہ مشکل تھا۔ اب دو ننگے جسم بیڈ پر مچل رہے تھے، احسان بیڈ پر لیٹ گیا اور صنم اس کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھ گَء اور اپنے نرم ہاتھوں میں احسان کا گورا پنک ہیڈ والا موٹا اور لمبا لنڈ لیکر آہستگی کے ساتح اوپر سے نیچے ہاتھ چلانے لگی۔ اس کا یہ عمل بتا رہا تھا کہ صنم ایک تجربہ کار عورت ہے اور مرد کو کیسے ڈھیر کرنا ہے وہ بخوبی جانتی تھی۔صنم نے مسکرا کر احسان کو دیکھا جو نیم بند آنکھوں سے صنم کو عمل کو دیکھ رہا تھا۔ صنم نے اپنی گردن جھکائی اور احسان کے لنڈ کی ٹوپی کو اپنی منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا۔ احسان کے منہ سے تسکین بھری ایک آہ نکل گئی، اس کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں اور وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔تقریبا دس منٹ صنم نے احسان کو مزے کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور جب احسان کو محسوس ہوا کہ اس کا ضبط کا دامن جواب دینے والا ہے تو اس نے صنم کو خبردار کیا کہ میں ہونے وال ہوں صنم نے احسان کالنڈ منہ سے نکال کر کہا میرے منہ میں ہی فارغ ہوجانا مسئلہ کی کوئی بات نہیں اور یہ کہہ کر اس نے احسان کا لنڈ دوبارہ چوسنا شروع کردیا اور دو منٹ بعد ہی احسان کے لنڈ نے صنم کے منہ میں ہی پچکاریوں کی بھرمار کردی اور صنم کا منہ اس قدر بھر گیا کہ منی صنم کے منہ سے بہہ کر منہ سے باہر آنے لگی۔ جب احسان فارغ ہوگیا تو صنم نے ایک ہی گھونٹ میں ساری منی پی لی اور مسکرا کر کہنے لگی امیزنگ ہینڈ سم، اتنا آرگیزم تو آج تک کسی کا نہیں ہوا۔ میں تو غلام بن گئی تمہاری۔ کچح دیر بعد احسان کا لنڈ صنم کی سانولی چوت پر دستک دے رہا تھا جبکہ صنم کے چہرے پر بے قراری عیاں تھی۔احسان نے اجازت طلب نگاہوں نے صنم کو دیکھا تو صنم نے اثبات میں سر ہلایا اور احسان کا لنڈ اپنی چوت پر پراپر سیٹ کرکے کہا اب دھکا لگاو۔ احسان کے ایک جاندار دھکا لگایا تو صنم کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ احسان نے ایک ہیجھٹکے سے پورا آٹھ انچ کا پنڈ صنم کی چوت میں اتار دیا اور جھٹکوں کی رفتار رفتہ رفتہ بڑھاتا گیا۔ کمرے میں سسکیوں کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، صنم اپنی دونوں ٹانغیں احسان کی کمر کے کرد لپیٹے احسان کے دھکوں کا جواب دے رہی تھی۔ تقریبا بارہ منٹ بعد احسان نے ایک جحٹکے سے اپنا لنڈ صنم کی چور سے نکالا اور ایک زور دار پچکاری اس کے پیٹ پر ماری جس کی کچھ بوندیں صنم کے چہرے تک گئیں اور ایک کے بعد ایک پچحکاری نکلتی رہی اور وہ نڈھال ہوکر صنم کے برابر میں گر گیا اور اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے لگا۔ آج باقاعدہ صنم نے نو جوان کو جوانی میں داخل کردیا تھا۔ دوسری طرف احسان کا کمرہ بند نہیں تھا مگر اس کی جھری سے یہ سارا عمل کوئی دیکھ رہا تھا۔

              رانی کی خالہ زاد کی شادی ہونے والی تھی۔ اور یہ شادی بھی رانی کے ماموں کے بیٹے سے ہونی تھی۔اس لیے رانی کو ہر حال میں جانا تو تھا۔ اور یہ شادی بھی سوات میں ہونی تھی۔
              اور رانی کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ کسی دوسرے کے گھر میں سو نہیں سکتی تھی۔ بلکہ وہ اپنے ماں کے گھر بھی رات کو نہ رکتی تھی۔ اب یہ شادی خاندان کی تھی۔
              نہ تو رانی وہاں جا کر رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس میں شرکت سے انکار کر سکتی تھی۔ کرتے کرتے شادی کے دن قریب آ رہے تھے۔

              شام کو رانی اپنے خاوند سے فون پر بات کر رہی تھی کہ اس کا بلکل دل نہیں چاہ رہا سوات جانے کا۔اس کے خاوند نے بھی اس کو کہا کہ ڈرائیور کا بندوبست کر دیتا ہوں۔ تم کل صبح ہی نکل جاو شام کی بارات ہے بارات میں شرکت کر لو دوسرے دن ولیمہ ہے ایک دن خالہ کے گھر شرکت کر لو دوسرے دن ماموں کی طرف ہو آنا۔ رانی نے کہا اتنا لمبا سفر میں ڈرائیور کے ساتھ کیسے کروں ! مجھے اچھا نہیں لگتا۔گفٹ بھیج دیتی ہوں ۔اتنے میں احسان رانی کے گھر داخل ہو گیا۔ رانی ڈرائنگ روم میں بیٹھی خاوند سے بات کر رہی تھی۔ احسان کو دیکھ کر رانی اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
              مگر احسان کو کچھ نہ کچھ معاملہ سمجھ آ گیا۔ اور احسان کے لیے موقع بن گیا۔ رانی کے خوبصورت جسم کو قریب سے محسوس کرنے اور شکار کے قریب ہونے کا۔
              رانی جیسے ہی کمرے سے ڈرائنگ روم میں آئی احسان اس کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ رانی نے کہا احسان تم کو کتنی بار منع کیا ہے ہاتھ دھو کر کھلونوں کو ٹچ کیا کرو۔ پتہ نہیں کہاں کہاں پھرتے ہو اور اب مجھے بچوں کے کپڑے بدلوانے پڑیں گے۔
              احسان نے کہا رانی بھابھی پلیز بعد میں چینج کروا دینا ابھی تو بچوں سے کھیلنے دیں۔
              احسان رنگز لے کر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ جبکہ رانی دانت پیستے ہوئے سوچنے لگی کہ اب کھلونے بھی دھونے پڑیں گے۔

              احسان نے کہا رانی بھابھی شادی میں نہیں گئی تم ۔ تمہاری والدہ کی طرف سے تو سب لوگ جا چکے ہیں۔
              رانی نے پوچھا تم کو کیسے پتا۔
              احسان نے کہا راحیل سے بات ہوئی تھی میری فون پر۔ راحیل رانی کا بھتیجا تھا۔
              رانی نے کہا میرا دل نہیں کر رہا جانے کا۔

              احسان نے کہا تمہارے ماموں اور خالہ کی طرف سےمجھے بھی دعوت دی گئی ہے۔ تم ہی نے کارڈ دیئے تھے نا مجھے۔
              جانا تو میں نے بھی تھا۔ مگر تم نہیں جا رہی تو میرا ان سے تمہاری وجہ سے تعارف ہے نا۔ میں کیسے جاوں گا ؟ اچھا تو نہیں لگتا۔ وہاں سب لوگ تو تمہاری وجہ سے مجھے جانتے ہیں۔چلو پھر میں بھی نہیں جاتا۔ویسے بھی ابھی ایک ہفتہ باقی ہے تو جب تک ہمارے پاس سوچنے کا وقت ہے۔
              اب رانی مشکل میں پڑ گئی۔ وہ احسان کو شادی میں جانے کا بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس طرح تو رانی شادی میں نہ جانے کا بہانہ بھی نہ کر سکتی تھی۔
              اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ماموں کی ایک بیٹی رانی کی بھابھی بننے والی تھی۔ ایسے میں احسان کا نہ جانا ہی درست تھا۔تا کہ رانی اکیلے سفر نہ کر سکنے کا بہانہ تو کر لے گی۔مگر رانی جانتی تھی کہ احسان بعد میں جب کبھی ماموں نے پوچھا تو کہہ دے گا کہ رانی نہیں گئی تھی شادی میں تو میرا جواز نہ تھا شرکت کرنے کا۔
              اب رانی کے پاس شادی میں شرکت کے علاوہ دوسرا راستہ نہ تھا۔ بلکہ احسان کے جانے کی صورت میں تو رانی کسی ڈرائیور کے ساتھ جاتی تو بھی اچھا نہ لگتا۔ رانی نے کچھ دیر سوچا اور پھر کمرے میں جا کر اپنے خاوند کو صورت حال بتائی اور اگلے ہفتے احسان کے ساتھ سوات جانے کا بتا دیا۔
              رانی نے واپس آ کر احسان کو کہا تمہاری وجہ سے مجھے شادی میں جانا ہی ہو گا۔ سویرے جلدی جانا ہے۔ اور تم ہم کو اپنے ساتھ لے جاو گئے یا میں کسی ڈرائیور کے ساتھ چلی جاوں ؟
              احسان نے کہا رانی بھابھی !
              ((جاری ہے))

              Comment


              • #27
                تمام دوستوں، ایڈمن اور قارئین کی پسندیدگی کا شکریہ اور عید کی مبارکباد

                Comment


                • #28
                  تمام دوستون، قارئین اور ایڈمن کا شکریہ اور سب کو عید مبارک

                  Comment


                  • #29
                    ابتدا تو بہت اچھے انداز میں ہوئی ہے. اب رانی کو احساس کب ہوتا پیار کا تب کا انتظار رہے گا

                    Comment


                    • #30
                      سب سے پہلے کہانی پوسٹ کرنے کا شکریہ
                      کہانی بہت عمدہ اور کمال کی ہے
                      حُسن ہو تو پھر حُسن پرست بھی بہت ہوتے ہیں اور حُسن کے قدر دان بہت کمال لوگ ہوتے ہیں
                      مزید کا انتظار ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X