Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

رانی میری کرایہ دار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    اچھی اپڈیٹ ہے

    Comment


    • #52
      Bahtreen update hai
      shadi pr jany se pehly halki phulki chear char ho gai r shadi k bad full pyr ho ga

      Comment


      • #53
        zabardast lagta he rani shadi se wapsi par chud jay gi

        Comment


        • #54
          بہت ہی زبردست

          Comment


          • #55

            بہت خوب کمال کی اپڈیٹ ہے​

            Comment


            • #56
              بہت بہترین اپڈیٹ۔
              بہت جلد رانی بھی احسان کی بانہوں میں پکے پھل کی طرح ہوگی۔

              Comment


              • #57
                قسط 5

                گاڑی موٹر وے پر سوات کی طرف دوڑ رہی تھی۔ گاڑی میں نصرت فتح کی غزل گونج رہی تھ آگ دامن میں لگ جائے گی دل میں شعلہ مچل جائے گا۔
                احسان سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک ہلکے لیمن رنگ کی واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔بائیں بازو کی آستین چڑھائے احسان ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
                جبکہ ساتھ والی سیٹ پر خوبصورتی قیامت کا روپ دھار کر موجود تھی۔پنک رنگ کی ساڑھی پہنے بازو کے بغیر پیٹی کوٹ تھی اس لیے احسان کو نرم ملائم جلد کی خوشبو تک محسوس ہو رہی تھی۔ احسان کا دل چاہ رہا تھا کاش کبھی یہ ملائم اور خوبصورت جسم چھونے کا موقع مل جائے۔
                رانی کے موٹے 36 سائز کے بریسٹ جب سانس لیتی تو احسان کو ابھار کے ساتھ دھڑکن ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی۔رانی کے کھلے بال کچھ تو اس کے بائیں کندھے سے ہوتے ہوئے اس کے دامن میں پڑے تھے۔کچھ اس کی کمرپر جھول رہے تھے۔ رانی شائد اچھے موڈ میں تھی اور اپنا پسندیدہ میوزک انجوئے کر رہی تھی۔
                احسان نے کہا رانی بھابھی شادی میں سب سے زیادہ خوبصورت تم ہی ہوں گی۔
                رانی نے غصے سے احسان کو دیکھا۔ اور بولی تم کو لڑکیوں کی طرف آنے کی اجازت نہیں ہو گی وہاں۔اور یہ تم اب مجھ سے کیسے بات کرنے لگے ہو! شرم نہیں آتی تم کو۔
                احسان نے کہا قسم سے رانی بھابھی تم آج بہت اچھی لگ رہی ہو۔
                رانی نے احسان کو گھورا تو وہ خاموش ہو گیا۔
                راستے میں بچوں کی وجہ سے ان کو ایک جگہ رکنا بھی پڑا ۔ مگر وہ رانی کی پسندیدہ غزلیں سنتے ہوئے اس کی خالہ کے گھر پہنچ گئے۔رانی کے ایک کزن نے احسان کو گاڑی گھر کے اندرونی گیٹ تک لے جانے کا اشارہ کیا۔ اور خود بھی جا کر گیٹ پر کھڑا ہو گیا۔ رانی نے کہا احسان تم نے مردوں والی سائیڈ پر ہی رہنا ہے۔ اور ہاں شام کو ہم لوگ ماموں کے گھر چلے جائیں گے۔احسان نے گاڑی کی ڈگی سے اپنا اور رانی کے لائے ہوئے تحفے نکال کر وہاں اسقبال کے لیے موجود خالہ کے سپرد کیئے اور گاڑی کو سائیڈ پر پارک کر دی۔
                دوپہر کا وقت تھا اور مہمانوں کے کھانے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رانی کا کزن عظیم، احسان کو اپنے ساتھ لے گیا اور ایک کمرے میں بٹھایا اور کہا تم سفر کر کے آئے ہیں۔ فریش ہو جاو چینج کر لیں۔ بارات تین بجے تک آئے گی۔
                احسان نے کہا تین گھنٹے کا تو سفر تھا ابھی فریش ہوں۔ کوئی آرام کی یا چینج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مہمانوں کے ساتھ ہی بیٹھتا ہوں۔ تم تکلف نہ کرو۔ تم مصروف ہو. میں باہر چلتا ہوں۔
                احسان عظیم کے ساتھ ہی باہر آگیا جہاں شامیانے لگا کر بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ مقامی مہمان زیادہ تھے۔ اور پشتو ہی بولتے تھے۔

                رانی کے کچھ رشہ دار احسان کے جاننے والے تھے وہ احسان کے پاس آ کر بیٹھے گئے. اور ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔
                کھانا وغیرہ کھانے کے بعد احسان باہر نکل گیا اور کچھ دور ایک چشمے کے کنارے جاکر سموکنگ کرتے ہوئے فطرت سے لطف اندوز ہونے لگا۔
                کوئی تین بجے کے بعد ایک لڑکا اس کو بلانے کے لیے آ گیا۔ جب احسان شادی والے گھر پہنچا تو بارات آ چکی تھی۔ اور رانی کے ماموں اور ماموں کے بیٹوں نے تپاک کے ساتھ احسان سے ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ تم ہمارے ہاں تشریف لاتے اور بارات کے ہمراہ تشریف لاتے۔
                احسان نے بتایا کہ شام کو ان کی طرف آنے کا ارادہ ہے۔
                بارات کے ہنگامے ختم ہوئے تو احسان کمرے میں آ گیا اور آرام کرنے لگا۔
                شام کو سات بجے کے بعد اس کو دستک دے کر اٹھایا گیا۔ رانی کا کزن تھا اس نے رانی کا سوٹ کیس گاڑی سے نکالنے کا کہا۔
                احسان نے گاڑی سے اپنا بیگ نکالا ۔
                اور رانی کا سوٹ کیس بھی۔ احسان بیگ لے کر کمرے میں آیا اور اپنا ایک لباس نکال کر استری کروانے کے لیے دیا۔ پھر غسل کرنے لگا۔
                غسل کر کے اس نے تولیہ لپیٹ کر کمرے میں آیا تو اس کا استری شدہ لباس بیڈ پر رکھا ہوا تھا۔ احسان نے لباس پہنا اور بال درست کیئے پھر اپنا اتارا ہوا لباس بیگ میں منتقل کیا۔ اور باہر نکل آیا۔
                باہر مہمان رخصت ہو چکے تھے اور ٹینٹ والے سامان سمیٹ رہے تھے۔
                پھر رانی کے خالو اس کو صحن میں ٹیبل پر لے گئے۔ جہاں چائے وغیرہ کا انتظام تھا۔
                چائے سا فارغ ہو کر رانی کا پیغام آ گیا کہ گاڑی نکالیں اور سامان گاڑی میں شفٹ کریں۔ ایک بچہ احسان کا بیگ کمرے سے اٹھا لایا۔ اور گاڑی کے پاس رانی کا سوٹ کیس بھی موجود تھا۔ اتنے میں رانی ان کے گھر کی ساری خواتین کے ہمراہ نکل آئی۔ احسان نے سامان ڈگی میں رکھوایا۔ رانی کی خالہ نے بھی احسان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور سب مردوں نے بھی رخصت کیا۔
                رانی نے سرخ شلوار اور بلیک قمیض پہن رکھی تھی جبکہ سر پر سفید دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ اس لباس میں رانی پہلے سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔

                احسان نے گاڑی رانی کے ماموں کے گھر کی طرف دوڑانی شروع کر دی۔
                کوئی بیس منٹ بعد رانی کے ماموں کے گھر پر ان کا استقبال کیاگیا۔
                احسان کو ایک بڑے ہال نما کمرے میں بٹھایا گیا۔ جہاں فرش پر قالین اور گدے بچھے ہوئے تھے کمرے کے ایک کونے میں انگیٹھی میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ موسم تو سردی کا نہ تھا مگر یہاں شام کے بعد کافی سردی تھی۔ میزبانوں نے احسان کو ایک شال بھی لا کر دے دی تھی۔
                ہال میں کافی سارے لوگ موجود تھے۔ جن میں مہمان اور میزبان بھی شامل تھے۔
                شادی کی سرگرمی میں رات دیر تک جاگتے رہے پھر احسان کو ایک کمرہ دے دیا گیا۔
                دوسرے دن ولیمہ تھا۔ احسان کا بیگ کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔احسان دیر تک سوتا رہا۔ پھر رانی نے احسان کو فون پر کال کر کے سمجھایا کہ دن کی روشنی میں یہاں سے نکل جانا ہے۔ ہر حال میں ورنہ میرے خاندان والے شام کے بعد مجھے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
                شام کو چار بجے احسان اور رانی بہت مشکل سے اجازت لے کر ماموں کے گھر سے رخصت ہوئے۔
                رانی نے گرے کلر کی ایمبرائڈری والی قمیض اور سفید شلوار پہن رکھی تھی۔
                اور سی گرین دوپٹے میں کوئی حور ہی لگتی تھی۔ رانی کے جسم کی خوشبو احسان کی سانسوں کے زریعے اس کے اندر جا رہی تھی۔
                احسان گاڑی میں رانی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کے لیے آہستہ چل رہا تھا۔ جبکہ رانی احسان کے ساتھ شادی کی باتیں کرتی رہی۔
                ایک جگہ رانی جیولری اتار کر بیگ میں رکھنے لگی۔ رانی نے کہا بہت بھاری سی جیولری ہے تھک گئی ہوں۔ احسان رانی کے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔اور پھر رانی کے ہاتھ میں بریسلٹ نے اترنے سے انکار کر دیا۔احسان نے گاڑی روکی اور رانی کی کلائی پکڑ کر بریسلٹ اتارنے میں مدد کرنے لگا۔ جیسے ہی رانی کے جسم کو چھوا تو احسان کے جسم میں بجلیاں دوڑنے لگیں. مگر رانی نے اپنی کلائی احسان سے چھڑا لی۔ اور بولی تم تو رہنے دو احسان کوئی زور لگانے کا کام تو نہیں ہے۔ میں کر لیتی ہوں۔ پھر رانی ہاتھ سکیڑ کر بریسلٹ اتار ہی لیا۔ گاڑی آگے چل پڑین
                کچھ دیر بعد رانی نے میوزک آن کر دیا۔رانی ہمیشہ خوبصورت میوزک کا انتخاب کرتی تھی۔ گاڑی میں یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے گونج رہا تھا۔
                اور احسان حسن کا سرور محسوس کرنے لگا
                ((جاری ہے))

                Comment


                • #58
                  لاجواب

                  Comment


                  • #59
                    بہت بہترین اپڈیٹ

                    Comment


                    • #60
                      Zara zara touch tu hogaya..
                      ab buhat sara touch touch bhi ho hi jayega jaldi..
                      Umda update

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X