Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

رانی میری کرایہ دار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    بہت ہی عمدہ

    Comment


    • #72
      لاجواب اپڈیٹ ہے جناب مزہ آگیا

      Comment


      • #73
        Buhat umda update.. aahista aahista line par la raha hai rani ko..

        Comment


        • #74
          زبردست کہانی
          آہستہ آہستہ رانی کو لائن پر لا رہا ہے ہیرو
          کمال کی اپڈیٹ

          Comment


          • #75
            بہت عمدہ سٹوری پڑھنے کو ملی ۔انکی نوک جھوک کو کما ل مہارت سے لکھا گیا ہے

            Comment


            • #76
              zabardast achhi nok jhok maza agya

              Comment


              • #77
                زبردست ... مزا ہی آ گیا

                Comment


                • #78
                  اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا

                  Comment


                  • #79
                    قسط 7

                    گاڑی نوشہرہ سے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہی تھی۔ رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ بچہ پچھلی سیٹ پر سویا ہوا تھا۔جبکہ بچی ویڈیو گیم کھیل رہی تھی۔
                    باہر بارش ہو رہی تھی۔ گاڑی کے اندر ہیٹر بھی چل رہا تھا کیونکہ بارش کی وجہ سے سردی سی ہو رہی تھی۔ گاڑی کی سکرین پر وائپر پانی کو صاف کرنے میں مصروف تھے۔ جبکہ گاڑی میں عطااللہ کا گانا دھیمی دھیمی آواز میں چل رہا تھا۔ کپڑے لیراں ، حال فقیراں ،عشق پوائیاں زنجیراں۔
                    احسان کی انگلیاں میوزک کے ساتھ سٹئیرنگ پر تھپک رہی تھیں۔ رانی کا موڈ بارش کی وجہ سے مزید خوشگوار ہو گیا تھا۔
                    ورنہ دیر ہو جانے کے باعث کچھ دیر قبل رانی غصے میں تھی۔
                    گاڑی میں اب بھی چپلی کباب کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کیونکہ احسان نے گھر لے جانے کے لیے بھی کباب پیک کروا لیا تھا۔ شائد ملازموں کے لیے یا کسی دوست کے لیے۔
                    احسان نے گاڑی کی کھڑکی زرا سا نیچے کر لی۔ اور گاڑی کی کنسول سے سگریٹ لائٹر اٹھا کر سگریٹ سلگا لیا۔اور کش لینے لگا۔
                    گاڑی میں مالبرو ہارڈ کی خوشبو پھیل گئی۔ رانی کو ہمیشہ سے مالبرو کی خوشبو پسند تھی۔ مگر رانی نے احسان پر اپنی پسندیگی کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
                    بلکہ ایک بار گھور کر احسان کو دیکھا۔
                    احسان نے رانی کی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کر لیا۔
                    اور مڑ کر رانی کی طرف دیکھ کر سوچا کاش کبھی یہ خوبصورت آنکھیں میری دسترس میں ہوں تو میں ان آنکھوں کو اپنی پلکوں سے چوم لوں۔کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد احسان نے گاڑی گھر میں داخل کی۔ بارش ابھی بھی جاری تھی۔ رانی نے مڑ کر بچوں کی طرف دیکھا اور پھر احسان کی طرف دیکھا۔
                    احسان نے کہا رانی بھابھی تم جاو اندر بچے پہنچ جاتے ہیں فکر نہ کرو۔
                    رانی اپنا ہنڈ بیگ لے کر گاڑی سے نکلی اور بارش کی بوندوں میں تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کے دروازے کی طرف بڑھی۔
                    چند قدم کا ہی فاصلہ تھا پھر رانی دروازے کے شیڈ کے نیچے پہنچ گئی اور بارش سے محفوظ ہو گئی۔
                    بارش کے چند قطرے رانی کے بالوں اور چہرے پر جگمگانے لگے۔
                    رانی نے مڑ کر گاڑی کی طرف دیکھا۔تو احسان نے سوچا یہ قطرے اپنے ہونٹوں سے چوم لوم لوں۔ مگر یہ صرف کاش اس کے دل تک ہی محدود رہا۔رانی نے ہینڈ بیگ سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر ایک بار پھر مڑ کر احسان کی طرف دیکھا۔
                    اور اندر چلی گئی۔
                    رانی گھر کی لائٹس روشن کرنے لگی۔ جبکہ احسان نے رانی کی بچی کو اٹھایا اور اندر لے کر آ گیا۔ پھر رانی نے احسان کو دیکھا اور کہا ایک منٹ رکو احسان۔ رانی نے کمرے سے چھوٹا سا بلینکٹ لا کر احسان کو دیا تا کہ بچے کے اوپر کمبل ڈال کر لاہا جائے۔ احسان نے کمبل لیا اور اورگاڑی میں بچے پر کمبل ڈال کر اندر لے آیا۔ رانی بچی کو غسل کروانے کے لیے لے جا رہی تھی۔
                    رانی احسان کو دیکھ کر پلٹ آئی اور کہا بچے کو بیڈ میں لٹا دو احسان ۔احسان بچے کو اٹھائے ہوئے بیڈ روم میں چلا گیا۔واپس آ کر
                    احسان نے گاڑی کی چابی ڈرائنگ روم میں سنٹر ٹیبل پر رکھی اور رانی کو بتایا۔ تم فری ہو جاو تو ملازموں سے سامان نکلوا لینا گاڑی سے۔ اور چابی بھیج دینا۔
                    میں زرا فریش ہو جاوں۔ اور تم کے لیے کباب بھی گاڑی میں ہے۔
                    احسان اوپر اپنے پورشن میں آ گیا۔
                    دوسرے دن صبح احسان ناشتے کے وقت رانی کے پورشن میں داخل ہوا۔
                    موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ باہر شوخ چمکیلی دھوپ چمک رہی تھی۔
                    رانی نے سی گرین کلر کا ٹراوزر اور سفید قمیض پہن رکھی تھی۔شائد ابھی ابھی غسل کر کے نکلی تھی۔ کیونکہ رانی نے سر پر تولیہ لپیٹ رکھا تھا۔
                    جیسے ہی احسان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ رانی کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی۔ احسان کی آواز سن کر رانی پریشان ہو گئی۔ کیونکہ اس کے پاس کچن میں دوپٹہ نہیں تھا۔ اور رانی اس حلیے میں احسان کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔
                    رانی نے کچن سے ہی احسان کو آواز دی۔ احسان تم دو منٹ بیٹھو میں آتی ہوں۔
                    پھر کچھ سوچ کر رانی کچن سے نکلی تو احسان اس کی ہی طرف دیکھ رہا تھا۔اور اس کی نظر بھی رانی کی بلاوز کے ابھاروں پر ہی تھی۔رانی کچن سے نکل کر کمرے کی طرف چلی گئی۔
                    احسان رانی کو جاتے ہوئے پیچھے سے دیکھنے لگا۔ رانی کی سفید قمیض میں پیٹھ پر اس کی بلیک برا کی ڈوریاں جھلکتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ رانی کو اپنے پیچھے احسان کی نظریں اپنے جسم پر محسوس ہو رہی تھیں۔کمرے میں آ کر رانی نے تولیہ اتار پھینکا اور ڈرائر لے کر آئینے کے سامنے اپنے بال خشک کرنے لگی۔ رانی سوچنے لگی پچھلے کچھ دنوں سے احسان کے تیور کچھ خطرناک سے ہو گئے ہیں۔ویسے رانی کو آج تک جس نے بھی دیکھا پیار بھری اور حوس بھری ہی نظروں سے دیکھا تھا۔ اور رانی جانتی تھی اس کی خوبصورتی ہمیشہ مرد پر قیامت بن کر گرتی ہے۔ مگر احسان تو اس کے سامنے بڑا ہوا تھا۔ اور اب جب مکمل جوان ہوا ہے تو رانی کے ہی حسن کا گرویدہ ہو گیا ہے۔

                    کچھ دیر بعد رانی دوپٹہ اوڑھ کر ڈرائنگ روم میں آئی اور احسان سے ناشتے کا پوچھا۔ احسان نے کہا اگر زحمت نہ ہو تو تم ناشتہ دے دو۔ ورنہ میں یونی ورسٹی میں کر لوں گا ناشتہ۔
                    رانی نے کہا لاتی ہوں۔اور ایک بات اپنے لیے کوئی لڑکی دیکھ لو ابھی سے۔ احسان نے قہقہ لگایا۔ رانی کچن میں چلی گئی۔ رانی نے احسان کو ناشتہ لگا دیا اور۔ خود اس نے احسان کے ساتھ ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ رانی نے کہا میں ناشتہ کر چکی ہوں۔احسان ناشتہ کر کے رانی کا شکریہ ادا کیا۔ اور گاڑی کی چابی اٹھا کر نکل گیا۔
                    رات کو احسان دیر سے گھر آیا ۔ اور اپنی سیڑھیاں چڑھنے ہی لگاتھا کہ اس نے دیکھا رانی کے پورشن میں روشنی ہورہی تھی۔جبکہ دروازہ بھی زرا سا کھلا ہوا نظر آ رہا تھا۔ احسان نے سوچا حسن کی ملکہ جاگ رہی ہے کسی بہانے دیدارکر لے۔ اس وقت ملازم بھی سب جا چکے تھے۔رانی تو ملازموں کے چلے جانے کے بعد ایک دم سے دروازے کو لاک لگا دیتی تھی۔
                    احسان نے سوچا شائد کوئی مہمان آئے ہوں یا رانی کے خاوند ظفر صاحب آئے ہوئے ہیں۔
                    احسان نے دروازے پر دستک دی تو رانی کی قدرے خوفزدہ سی آواز آئی کون ہے۔
                    احسان اندر داخل ہو گیا۔ رانی صوفے پر بیٹھی تھی۔ اور اس نے اپنا بائیاں پاوں موڑ کراپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ رانی کے جسم پر صبح والا ہی لباس تھا۔ اس کے بال پونی کر لیے ہوئے تھے۔ جبکہ احسان کو داخل ہوتے دیکھ کر رانی کچھ بے بس سی ہو گئی کیونکہ وہ اپنا دوپٹہ کہیں چھوڑ آئی تھی۔ احسان کے آنے پر رانی نے کہا شکر ہے احسان تم آ گئے۔
                    یہ فون آج بند ہیں پتہ نہیں کیوں۔ احسان سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ کچھ مذہبی جماعتوں والے جلوس لے کر شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس لیے فون کے سگنلز جام کر دیئے گئے ہیں۔
                    خیریت تو ہے تم پریشان لگ رہی ہو۔ رانی کو دو پریشانیاں تھیں۔ ایک تو احسان کے سامنے بغیر دوپٹا لیے بیٹھنا اور دوسری اس کا پاوں۔
                    مگر رانی اس کو دوپٹے کا کہہ کر مزید کمزور نہیں ہونا چاہتی تھی۔
                    اس لیے اس نے احسان کو بتایا کہ احسان میرا پاوں ٹوٹ گیا ہے۔کافی دیر سے بیٹھی ہوں۔ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ گھر والوں کو فون کر رہی تھی فون بھی بند ہے۔ احسان اچھل پڑا کیا کہا ۔ پاوں ٹوٹ گیا ہے!
                    احسان اٹھ کر رانی کے قریب آ گیا۔ کیسے ٹوٹ گیا۔ کچھ بھاری چیز گری ہے پاوں پر۔
                    رانی نے کہا نہیں چلتے ہوئے پاوں الٹ گیا۔ احسان جھک کر پاوں کو دیکھنے لگا۔ رانی کا پاوں سوج کر بہت موٹا ہو گیا تھا۔
                    احسان نے پاوں کو چھونے کے لیے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا رانی نے روک دیا۔ نہیں تم کسی لیڈی ڈاکٹر کو لے کر آو۔

                    احسان ہنسنے لگا۔ یار رانی بھابی تم بھی پاگل ہو۔ رات کو اس وقت کون سی لیڈی ڈاکٹر بیٹھی ہو گی جو میرے ساتھ یہاں آ جائے گی۔ جبکہ فون بھی بند ہیں۔ اور مجھے چیک تو کرنے دیں پاوں کو۔ رانی نے کیا نہیں تم جاو میری امی کو لے کر آو وہ مجھے ہسپتال لے جائیں۔ میرا پاوں ٹوٹ گیا ہے۔
                    رانی نے سوچا احسان کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ گاڑی تک سہارہ دے کر کر یا اٹھا کر لے جائے۔ ویسے بھی احسان رانی کے قریب ہونے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔
                    احسان نے کہا ہسپتال میں جا کر بھی کسی نہ کسی نے پاوں کو چھو کر ہی علاج کرنا ہے۔ اور تم اپنی امی کو اس وقت تکلیف نہ ہی دو تو بہتر ہے۔ میں دو منٹ میں آتا ہوں۔ یہ کہہ کر احسان اوپر اپنے پورشن میں چلا گیا۔
                    رانی نہیں چاہتی تھی کہ احسان اس کے جسم کو چھوئے مگر کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
                    جاری ہے

                    Comment


                    • #80
                      بہترین اپڈیٹ جناب
                      مزہ آ گیا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X