Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بہن کا سہارا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Family بہن کا سہارا



    مجھے 12 سال کی عمر سے ہی میری بڑی بہن، انیلا نے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ مجھے تو اپنی ماں کا چہرہ بھی یاد نہیں ہے، میری بہن مجھ سے 9 سال بڑی ہے اور بہت ہی سیکسی ہے جس کو میں سالوں سے چھپ کر کپڑے بدلتے ہوئے اور نہاتے ہوئے دیکھتا آ رہا ہوں۔ انیلا ہمیشہ اپنی پھدی کو شیو کر کے رکھتی ہے۔ میری بہن کے چوتڑ اتنے مست ہیں کہ جو دیکھتا ہے وہ دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ بہن کے ممے زبردست ہیں، اور نپلز براؤن رنگ کے بہت مست ہیں۔ میں تو بہن پر تب سے عاشق ہو چکا ہوں جب میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ بہن شروع سے ہو میرے خوابوں کی رانی رہی ہے۔
    مجھے یاد ہے میں نے اپنا پہلی موٹھ اپنی بہن کے نام سے ہی ماری تھی۔ جب بہن کی شادی آصف کے ساتھ ہو گئی تو بہن نے آصف بھائی کو اس بات کے لئے منا لیا تھا کہ وہ اپنے بھائی، یعنی مجھے اپنا بیٹا بنا کر پالے گی کیونکہ ہمارے ماں باپ میرے بچپن میں ہی مر گئے تھے۔ اس وقت میری عمر 10 سال تھی، آصف بھائی بمبئی کی ایک بڑی فرم میں نوکری کرتے تھے اور ٹور پر جاتے رہتے تھے۔ آصف بھائی نے سوچا کہ باجی کو کمپنی مل جائے گی اور وہ اکیلا بھی محسوس نہ کرے گی اور اسی طرح مجھے ماں کا پیار دینے والی بہن کا ساتھ مل گیا۔ میرا نام شان ہے۔ جب میں 14 سال کا ہوا تو آدمی عورت میں فرق جان گیا تھا اور دوستوں کے ساتھ ایروٹک سٹوریز پڑنے لگ چکا تھا۔ وہ کہانیاں جس میں بھائی بہن کو یا بیٹا ماں کو اور باپ بیٹی کی چدائی کرتے ہیں، مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔
    ایروٹک کہانیوں نے میری سوچنے کی طاقت ختم کر دی۔ میں جو پڑھتا، اسکو ہی سچ مانتا تھا۔ کچی عمر میں ہی میری سوچ بچار کرنے کی صلاحیت خراب ہو گئی۔ ہم دوست بھی ایک دوسرے سے اسی طرح کی باتیں کر لیتے تھے۔ ایک دوست کاشف نے ایک دن کہا،
    "شان، تم جانتے ہو کل میں نے کیا دیکھا؟ میں نے اپنی بہن اور بھائی کی چودائی دیکھی۔ میری بہن کیا مست مال ہے، یار، اگر بھائی کہیں باہر چلے گئے تو بہن کو ضرور پتا لوں گا۔ سالی کی کیا گانڈ ہے اور ممے تو اتنی مست ہیں کہ بس دل کرتا ہے چوستے ہی جاؤ۔ اور میرے یار بہن کو پٹانا بھی مشکل نہ ہوگا کیونکہ کئی بار میں نے اس کے چوتڑ کو چھوا ہے مگر اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ کتنی جوان عورت ہے بہن، میرے بھائی کی تو لوٹری ہی نکل گئی ہے، تو بھی کوشش کر کہیں اپنی باجی اور آصف بھائی کی چودائی دیکھنے کی کوشش کر لو۔ سچ بولوں تو چودائی کے بغیر زندگی میں کچھ نہیں ہے۔ میں تو بہن کے ننگے جسم کی یاد میں ہی مرتا ہوں۔ اگر میرا کام بہن کے ساتھ بن گیا تو تجھے بھی چوڑنے کا موقع دلوں گا، اگر تم اپنی باجی کی چودائی کا موقع مجھے دلوانے کا وعدہ کرو تو، سالے تیری بہن بھی قاتل حسن کی ملکہ ہے، تو بہت خوش قسمت ہے یار۔
    کاشف کی بات سے میرا دل جل بھن گیا۔ میری بہن پر مجھ سے علاوہ کسی اور کا کوئی حق نہیں ہے۔ ویسے کاشف کی بہن بھی بہت مست عورت ہے۔ کاشف ضرور اپنی بہن اور بھییا کی چدائی دیکھتا ہو گا۔ میں نے جان بجھ کر کاشف کو کچھ نہ کہا اور بس اتنا ہی جواب دیا،
    " میری بہن کے بارے میں کچھ مت بول سالے، میری بہن ایک شریف عورت ہے، سالے میں اسکا بھائی ہوں اور تو مجھے اپنی بہن کو چودنے کے لیے بول رہا ہے، کیسا یار ہے تو میرا۔ یار تو دوست کی بہن کو اپنی بہن سمجھتے ہیں اور تو میری بہن پر بُری نیت رکھتے ہو،"
    میں نے غصہ دکھاتے ہوئے کہا تو کاشف چپ ہو گیا۔ ایک دن سنڈے کو میں اور کاشف دوپہر کو اسکے کمرے میں ایروٹک ناول پڑھ رہے تھے کہ اچانک آسمان میں بادل چھانے لگے اور بارش ہونے لگی۔ چھت پر کپڑے سکھانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ کاشف نے کہا،
    "چل یار، کپڑے اُتار لیتے ہیں ورنہ بھیگ جائیں گے اور بہن ناراض ہو جائے گی۔ "
    میں نے پوچھا،" بہن کہاں ہے؟'
    کاشف نے جواب دیا،" بہن سو رہی ہے اور بھائی شہر گئے ہوئے ہیں، چل ہم کپڑے اُتار لیں" میرے بھائی ایک دن بہن سے کہا رہے تھے... دیکھنا رانی میں تیرے سے ہی شادی کرونگا.... اور تجھے ہی اپنی رانی بناؤنگا.... کیا ایسا ہو سکتا ہے....؟ بھائی بہن میں شادی...؟ جب ہم چھوٹے تھے... اس سوالوں کے جواب نہیں تھے ہمارے پاس....
    ہم دونوں نے کپڑے اُتار کر ایک روم میں رکھنے شروع کر دیے۔ اچانک باجی کے کمرے سے آوازیں سنائی دی۔ کاشف نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔ لیکن میرا دھیان باجی کے کمرے سے آ رہی آواز کی طرف لگا ہوا تھا۔
    میں نے باتھروم جانے کا بہانہ کیا اور جا کر باجی کے کمرے میں جھانکنے لگا۔ باجی اندر پوری طرح سے ننگی ہوکر اپنی رانیں پھیلا کر پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی اور اپنی گوری گوری رانوں کے درمیان اپنی کالے بالوں والی پھدی کو اپنے ہاتھوں سے رگڑ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ بہن بہت ہی گرمی میں تھی اور لنڈ کے لئے تڑپ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک لمبا بینگن اُٹھا لیا اور اپنی پھدی پر رگڑنے لگی۔ اُسکی سیکسی آواز مجھے مست کرنے لگی اور بہن اپنے مموں کو زور زور سے مسلنے لگی۔ میں بہن کے مست چتڑ دیکھ کر اپنے ہوش کھو بیٹھا اور میرا لنڈ اتنا کڑا ہو چکا تھا کہ بیٹھنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ لیکن مجھے کاشف کے بارے میں بھی سوچنا تھا اور وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ اپنے دل کو مار کر میں واپس چلا گیا۔ کاشف اور میں ایروٹک کہانی پڑھ کر ہم دونوں دوستوں نے مٹھ لگائی۔ جب میرا فوارہ چھوٹ رہا تھا تو بہن کے ننگے ممے اور دلکش پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔ لیکن میں نے کاشف کو کچھ نہیں بتایا۔
    اُس رات کو میں اپنے کمرے میں جب سونے لگا تو میرا دھیان بہن کے کمرے کی طرف چلا گیا اور میں چوری چوری اٹھ کر ان کے کمرے کے باہر سے جھانکنے لگا لیکن بتی بند ہونے کی وجہ سے کچھ دیکھ نہ سکا لیکن بہن کی آواز آ رہی تھی،" آہستہ سے پیلو زرا، مجھے درد ہوتا ہے جب تم ایک ساتھ ہی پورا پیل دیتے ہو۔ تم بھی کئی بار بس جانور ہی بن جاتے ہو۔ تمہارا لنڈ بھی تو اتنا موٹا ہے اور میری پھدی اتنی نازک، ہاں ایسے ہی میرے ممے کو چوسو بہت مزا آ رہا ہے۔ میں آنے والے دن نا جانے کیسے بیتاؤں گی جب تم طور پر چلے جاؤ گے۔ میری پھدی تو بیچاری اکیلی ہو جائے گی،" آصف بھائی مذاق کرتے ہوئے بولے" میری جان انگلی، بینگن یا موم بتی سے کام چلا لینا، بس ایک ہفتے کی تو بات ہے،".
    اپنی پڑھائی کے بعد میری نوکری ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں لگ گئی۔ میں پہلی سیلری سے کچھ تحفے لے کر گھر پہنچا۔
    بہن- اچھا بھائی میرے لئے کیا لائے ہو، میں کرسی پر بیٹھا ہوا، بولو تم کیا چاہتی ہو۔
    میں آپ کے لئے یہ پائل لے کر آیا ہوں،
    پائل دیکھتے ہی باجی چہک کر مجھ سے لپٹ جاتی ہے اور میں بھی کوئی موقع چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسلئے بہن کو اپنی گود میں بیٹھا کر اپنے ہاتھ اُسکی بھاری ہوئی سخت چھاتیوں کو نظروں سے سہلاتا ہوا بہن کے گالوں کو چمتا ہوا، میری پیاری بہنا رانی اب تو خوش ہے اپنے بھائی سے
    بہن- ہا لیکن یہ پائل تجھے ہی پہنانی ہوگی میرے پیروں میں۔
    کیوں نہیں میری رانی بہنا لا پیر اُٹھا اور پھر میں نے اپنی باجی کے پیروں کو پکڑ کر اپنی رانوں میں رکھ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اسکا گھاگھرا اسکے گھٹنوں تک چڑھا دیا جس سے ایک پیر کی گوری پِنڈلی اور دوسرے پیروں کی موٹی رانیں بھی نظر آنے لگی، میرا لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے اور میں اپنے لنڈ کو اپنی پینٹ میں ایڈجسٹ کرنا چاہتا تھا پر سوچا کہ باجی دیکھیگی تو کیا سوچیگی، لیکن پھر مجھے یاد آتا ہے باجی کی چوت۔ میں نے پائل پہناتے ہوئے اپنے موٹے لنڈ کو باجی کے سامنے ہی مسل دیا
    پھر تو میں باجی کے لیے خوب گفٹ لانے لگا۔ اب میری عمر 24 اور باجی کوئی 33 سال کی تھی۔ پر انکے کوئی بچہ نہیں تھا۔ ایک بار مجھے بہت اچھا بونس ملا، دس لاکھ کا۔ میں باجی کے لیے نو لاکھ کا ہار خرید کر لے آیا۔
    جب میں نے یہ ہار باجی کو دکھایا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور میں جب انکی قیمت بتائی تو انکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا! اتنا مہنگا، کیوں لایا رے اتنا مہنگا؟ باجی وو ایک گانا ہے نا،
    "تجھے نو لاکھا پہنا دوں اے سجنی دیوانی"، شرابی فلم کا میں نے بچپن میں سنا تھا، میں نے جب ہی ارادہ کر لیا تھا کہ میں تمہیں نو لاکھا ہار لا کر دونگا، جب بڑا ہو جاؤں گا،
    میرا بچہ۔!!!! باجی میری بات سن کر نہال ہو گئیں اور مجھے بہوں میں بھر لیا اور میرا منہ انکے مموں میں دھس گیا۔ میں کچھ دیر ایسے ہی رہا، باجی نے کہا چل تو لایا ہے، تو ہی پہنانا۔ میں نے کہا کل پہناؤں گا۔ رکشا بندھن کے دن اپنی پیاری بہنا کو اتنا کہا کر میں نے باجی کے دونوں گال بھر- بھر کے چوم لیے اور انہیں کس کر اپنے سے گلے لگا لیا۔
    میں نے ایک بار پھر رات کو مُٹھ ماری اور اس باری میری آنکھوں کے سامنے میری باجی کی تصویر تھی۔ میرا لنڈ جب چھوٹا تو چھوٹتا ہی چلا گیا۔ اُس رات میں باجی کے ساتھ اپنی زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے سو گیا۔ صبح جب اُٹھا تو دن نکل چکا تھا اور آصف بھائی ٹور پر جا چکے تھے۔ باجی وائٹ رنگ کی کاٹن کی میکسی پہنی مجھے اُٹھا رہی تھی۔ وہ میرے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسکے بھرپور ممے نائٹی کے اوپر سے جھلک دکھا رہی تھی۔ میری نظر انیلا کے مموں پر گئی اور میرا لنڈ پھر اکڑنے لگا، لیکن میں نے اُسکو چادر سے ڈھک لیا تھا۔ میں جان بجھ کر آنکھیں بند کر لی اور ہاتھ اُوپر اُٹھا کر جمھائی لینے کی ایکٹنگ کی۔ میرے ہاتھ انیلا کے بھرپور ممے سے جا تکرائے اور وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ اُسکا پیر پھسل گیا اور وہ میرے اوپر گر پڑی اور میں نے اپنی باجی کے جسم پر کس ڈالی۔ اب میرا چہرہ باجی کے مموں میں چھپ گیا تھا اور میرے ناک میں ایک دلکش مہک آ رہی تھی۔ باجی نے مجھ سے الگ ہونے کی کوشش کی تو اُسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو ٹچ کر گئے۔ کتنے نازک اور گرم ہونٹ تھے میری بہن کے۔ باجی نے شرما کر آنکھیں نیچے کی طرف جھکا لی اور بولی،
    "شان، جلدی سے اُٹھو، آج رکشا بندھن ہے، تم نہا لو، میں بھی تیار ہو جاتی ہوں۔"
    میں اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا۔ نہاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر سے مُٹھ مار دی۔ باجی کے مموں کا لمس ابھی میرے دل میں تازہ تھا۔ نہا کر باہر نکلا، کپڑے پہنے اور ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر باجی کا ویت کرنے لگا۔ باجی آج ریڈ رنگ کی ساڑی پہنی ہوئی تھی۔
    بلاؤس سے ممے صاف-صاف دکھائی پڑ رہیں تھیں اور اسکے مست چوتاد میرا لنڈ کھڑا کر رہے تھے۔ نتھن پکڑنے لگا اور باجی کے ممے میری چیسٹ سے ٹکرانے لگی۔ انیلا کے ممے میں بھی کڈا پن آنے لگا اور اسکے نپلز سخت ہو گئے۔ باجی نے مجھے راکھی باندھ دی اور مٹھائی میرے منہ میں ڈال دی۔
    میں مٹھائی کو باجی کے منہ میں ڈال کر بچا ہوا حصہ خود کھا لیا۔ کچھ مٹھائی باجی کے منہ پر لگ گئی جسکو میں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ باجی کے نرم ہونٹوں کو تو چھونے کا مجھے بہانہ ہی چاہیے تھا اور اتنے میں باجی نے میری انگلی کو منہ میں لے کر چوس لیا۔ باجی کی نرم زبان کا لمس پا کر میں نصیب ہو اٹھا اور میں نے باجی کو گلے سے لگا لیا۔ باجی چیخ کر بولی،
    "کیا بات ہے میرے بھائی کو آج اپنی بہن پر بہت پیار آ رہا ہے؟"
    میں مسکرا دیا اور میں نے دل ہی دل پلان بنا لیا کہ باجی کو ادھک سے ادھک ٹچ کروں گا اور اگر کوئی بات ہوئی تو کہ دوں گا کہ مجھے اپنی باجی سے بہت پیار آ رہا ہے۔ میں ان سے کافی دیر تک لپٹا رہا۔ باجی کی سانسیں بھی تیز ہونے لگیں۔ آخر کار باجی کو کسی مرد کے جسم کا لمس نصیب تو کر ہی رہا تھا۔
    میں نے کہا چلو باجی آپکی گفٹ... میں نو لکھا ہار باجی کے گلے میں پہنا دیا۔ اور انکے گالوں کا ایک کس لے لیا۔ باجی تھوڑا شرما سی گئی۔ اب میں بڑا ہو گیا تھا۔ باجی بولی چل یہ ہار میں ابھی رکھ لیتی ہوں۔ بعد میں تیری بیوی کو پہنا دوں گیں، میں نے باجی کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے۔ یہ میں آپکے لیے لایا ہوں۔ اور مجھے نہیں کرنی شادی وادی۔... آرے میرے چھوٹے میان کو بڑا غصہ آ جاتا ہے شادی کے نام سے... مجھے یاد ہے بچپن میں جب بھی کوئی مجھ سے پوچھتا تھا کہ تو کس سے شادی کرے گا... عموماً بچے کسی ہیروئین کا نام لیتے تھے لیکن میں ہمیشہ کہتا تھا، میں باجی سے شادی کروں گا۔...
    میں نے باجی کو اپنی باؤں میں جکڑ کے کافی دیر تک رکھا اور باجی کی پیٹھ اور کولہوں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر بولا باجی مجھے کبھی اپنے سے جدا مت کرنا۔ باجی کے نرم بوبز کو چھو کر میرا دل پاگل ہونے لگا۔ باجی کی سانس میرے چہرے سے ٹکرانے لگی۔ میرا دل اپنے بس میں نہ رہا تو میں نے باجی کے گال کو چم لیا۔ باجی بہت پیار کرتا ہوں آپکو... باجی نے غصہ دکھاتے ہوئے کہا،
    "شان، یہ کیا کر رہے ہو، میں تیری بہن ہوں، تم کو پتہ ہے کی نہیں؟"
    میں نے اپنا ریڈی میڈ بہانہ بتا دیا،
    "باجی آج مجھے اپنی باجی سے بہت پیار ہو رہا ہے۔ کیا تم مجھے پیار نہیں کرتی؟"
    اس دن میرا اور باجی کا جسمانی تعلق کافی نزدیکی ہوتا جا رہا تھا۔ اور میں بار-بار انکے ممے گھور رہا تھا۔ باجی میرے بدلے برتاو کو سمجھ نہیں پا رہی تھیں۔ آخر کیسے جس بہن نے اپنے چھوٹے بھائی کو ماں باپ دونوں کا پیار دے کر پالا ہو وہ کیسے سوچ سکتی ہے کہ اسکی پرورش میں اتنی بڑی خطا ہو سکتی ہے۔
    شام کو میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے دوست کاشف کے پاس چلا گیا۔... جب واپس آیا تو دیکھا باجی نے ایک کیک منگوا رکھا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر کیک کاٹا۔ جیسے ہسبینڈ وائف.. انیورسری کیک کاتتے ہیں.. میں نے باجی کے منہ میں.... ایک بڑا کیک کا بڑا سا ٹکڑا انکے منہ میں ٹھونس دیا۔
    اور بچا ہوا... پورا انکے منہ پر مال دیا...
    باجی غصے سے کیا شان یہ کیا کر دیا... پورا میک اپ خراب کر دیا... میں نے کہا باجی پریشان مت ہو... اور میں نے چاٹ-چاٹ کر انکا پورا... کیک چاٹ لیا... اور بولا.. دیکھو اپنا چہرہ... کیسا دمک رہا ہے... باجی نے جب اپنا چہرہ... آئینہ میں دیکھا اور اپنا دمکتا چہرہ دیکھ کر مند مند مسکرائی... میں نے باجی کو پیچھے سے اپنی باؤں میں جکڑ لیا... پیچھے سے جکڑنے سے میرا ہاتھ انکے ممے کی اُوپر تھا... اور میرا کھڑا لنڈ انکی گانڈ میں گھسا ہوا تھا...چل چھوڑ مجھے... آج کیا ہو گیا ہے تجھے.. وہ مسکراتے ہوئے بولی...
    پھر ہم نے کھانا کھایا... اور ہم دونوں اپنے اپنے روم میں آ گئے.... میں نے پھر اپنے بستر کی نیچے سے سیکسی کتاب نکالی اور پڑھنے لگا... اور آج کے دن بھر کے واقعات کو یاد کرنے لگا.... رات کے کوئی دس بج رہے ہوں گے... میں نے سوچا دیکھ کر آؤں... باجی سوئی یا نہیں...
    انکا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ وہ ایک بلاؤز اور پیٹیکوٹ پہن کر سو رہی تھی۔۔۔ انکی گانڈ میری طرف تھی، میں آہستہ سے انکے بغل میں جا کر سو گیا۔۔۔ باجی جاگ رہی تھی۔۔۔ مجھے پاس دیکھ اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے۔۔۔ تو یہاں آ گیا۔۔۔ باجی کیا آج میں آپ کے پاس سو جاؤں۔۔۔ سو جا۔۔۔ اور میں نے باجی کے اوپر اپنے پیر رکھ کر سو گیا۔۔۔ کمرے میں مدھم-مدھم اندھیرا تھا، کھڑکی سے چاند دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ میرا لنڈ اپنے پورے شباب پر تھا۔۔۔ میں نے آہستہ سے اپنا لنڈ باجی کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال دیا۔۔۔ اور ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔ اور اپنا ہاتھ انکے پیٹ پر پھیرنے لگا۔۔۔ باجی کو میرے جوان لنڈ کا احساس اپنی گانڈ میں مل رہا تھا۔۔۔ پر وہ بولی کچھ نہیں۔۔۔ میں ان پلوں کو الفاظ میں نہیں بتا سکتا۔۔۔ میں کتنے حسین سکھ میں تھا۔۔۔ باجی پھر میری طرف موڑی۔۔۔ اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے۔۔۔ بڑا پیار آ رہا ہے تجھے۔۔۔ میں نے کیسے انہیں اپنی اور دبوچ لیا۔۔۔ اور انکی زبراٹ ممّے میرے چھاتی سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔ میں نے باجی کے گالوں کو چوس-چوس کر پیار کرنے لگا۔
    باجی کسمساتے ہوئے بولی۔۔۔ شان کیا ہو گیا ہے تجھے۔۔۔ کیوں اتنا پیار کر رہا ہے اپنی باجی کو۔۔۔ میں بولا باجی مت پوچھوں آج بہت پیار آ رہا ہے آپ پر۔۔۔ اور باجی کو میں اپنی باہوں سے باجی کو اپنے سے سٹا لیا۔۔۔ میرا لنڈ سامنے سے باجی کے پیٹیکوٹ کے اوپر سے انکی پھدی کے منہ پر تھا۔۔۔ اور پیار سے انکے گالوں کو چوسنے لگا۔۔۔
    کیا کر رہا ہے پاگل؟، کوئی ایسے بھی کرتا ہے اپنی بہنوں کے ساتھ؟
    انہوں نے میرے گال پر ایک چپٹ ماری اور مسکرائی۔۔۔ چل چپ چاپ سو جا۔۔۔ اور میں باجی کو کس کر اپنے سے چپکا لیا اور سو گیا۔۔۔
    تبھی فون کی آواز سے ہم دونوں کی نیند کھلی، آصف بھائی کے ہوٹل سے فون آیا کہ انکو دل کا دورہ پڑا ہے۔ مجھے اُسی وقت پلین سے ان کے پاس جانا تھا ان کی مدد کے لیے۔
    پہنچتے ہی پتہ چلا کہ آصف بھائی کی کنڈیشن بہت نازک ہے۔ اُنکو ایک کے بعد دوسرا دورہ پڑا جو ڈاکٹرز نہ سنبھال پائے اور اُنکی ڈیتھ ہو گئی۔ اب میرے اور باجی کے درمیان کوئی نہیں رہا۔ میں دل ہی دل سوچا کہ اب باجی میری ہو جائے۔ اگلے دن میں بھائی کی دیڈ بادی لے کر گھر پہنچا۔ رونے دھونے کا کام کچھ دن چلا۔ سبھی لوگ افسوس کر رہے تھے۔
    آصف بھائی کی لائف انشورنس کے 80 لاکھ روپے باجی کو مل گئے۔ میں نے باجی کو سجھاو دیا کہ اگر وہ شہر چھوڑ دے تو ماحول بدل جائے گا اور دل بھی ہلکا ہو جائے گا۔ باجی مان گئی اور میں نے انکے گھر کو بیچنے کے لیے کسٹمر ڈھونڈ لیا۔ مکان کو 2 کروڑ میں درمیان کر ہم دونوں ایک چھوٹے سے شہر میں جا کر بس گئے۔ میں وہاں پر جا کر ایک ریسٹورنٹ کھول لیا اور ایک مکان خرید لیا۔ ہم وہاں پر کسی کو نہیں جانتے تھے۔
    باجی بہت اداس رہتی تھی۔ اس وجہ سے میرا بھی دل کسی کام میں لگتا تھا۔ آخر کار میں باجی کو بےشرمی سے پیار جو کرتا تھا۔ میں شام کو جب گھر پہنچا تو دیکھا۔ باجی کمرے میں بنا لائٹ جلائے۔ باجی کا گلابی چہرہ آنسووں سے بھرا ہوا تھا۔ کیا باجی... میں انکے آنسو پونچھاتے ہوئے... اور پھر وہ پھپھک پھپھک کے میرے سینے سے لگ کر رونے لگی۔ بھییا اب کیا ہوگا۔۔۔ میں نے تھوڑی پکڑ کے انکا چہرہ اٹھایا۔ اور دونوں گالوں پر ایک-ایک کس دیا۔ اور اپنی زبان نکال کر انکے آنسووں پی گیا۔
    میں باجی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے چلو باجی کیا پورے گھر میں منحوسیت سی پھیلا رکھی ہے۔ چلو زرا باہر چلتے ہیں۔ کہیں گھوم کر آتے ہیں۔
    نہیں شان میرا دل نہیں ہے۔
    پر میرا تو دل ہے چلو نا۔
    دیکھو آج میں آپ کے لیے... کیا لایا ہوں...
    میں نے ایک پیکٹ میں سے نئی... اورنج رنگ کی ساڑی انکو دی کیونکہ لائے ہے، اس سے کون پہنے گا، اب اسے میں نے کہا آپ پہنوگی... اب چلو ہاتھ منہ دھو لو، باجی اندر روم میں چلی گئیں۔ اور چینج کر کے باہر آئیں۔ ہائے کیا گدڑ مال لگ رہی تھی۔ انکے ممّے انکے ایکسٹرا کھلے گلے سے باہر نکلنے کو بیتاب تھے۔ کیونکہ بلاؤز کا گلا کچھ زیادہ ہی بڑا تھا۔ بولی سائز چھوٹا ہے بہت ٹائٹ ہے... پر میں نے کہا باجی فٹ ہے آپ کتنی پیاری لگ رہی ہو، چل ہٹ ہر وقت مذاق کرتا رہتا ہے... دیکھ کتنی ٹائٹ ہے، سانس بھی نہیں لے پا رہی... اور پھر انہوں نے اپنے کولہوں کی طرف دیکھ کر کہا یہاں سے بھی پہت ٹائٹ ہے.. پیٹیکوٹ.. کم سے کم سائز تو پونچ لیتا...
    میں نے پوچھا... کیا سائز ہے... باجی اپنے سوال سے ہی شرما گئی... اور اپنی انگلیں منہ میں ڈال کر جیسے کچھ غلط بول گئی... میں نے پھر اپنا سوال دہرایا... باجی نے اپنا سر جھکا لیا.. اور میری طرف پیٹھ کر کہا چل نا کیوں باتیں بنا رہا ہے.. اب تک تو میرا لوڑا پورا تن چکا تھا... میں نے پیچھے سے باجی کو اپنی باہوں میں لے لیا... اور انکے گالوں سے اپنے گال رگڑتا ہوا.... بولو نا... اور اپنا لنڈ انکی گانڈ کی دراڑ میں سٹا دیا اور ہلکا سا دبائو بنایا... بتو نا... میں نہیں بتاتی... تو ٹھیک میں ایسے ہی پکڑے رہوںگا... بتو نا میری پیاری باجی... شرم نہیں آتی تجھے جو اپنی باجی کا سائز پوچھ رہا ہے... میں نے کہا... اب میرے سوا تمہارا کون ہے مجھے ہی اب سب دھیان رکھنا ہو اپنی پیاری بہن کا۔... اتنا کہا کر میں نے انہیں زور سے اپنی باہوں میں کس لیا۔
    اب بتاو نا آگے سے صحیح ناپ لے کر آؤں گا... وہ نظریں نیچے جھکاتی ہوئی کوئیل جیسی میٹھی آواز میں بولی... 38... کرتے کا... میں نے کہا ایسے نہیں، ایگزیکٹ بتاؤ سیلز مین کو بولنا پڑتا ہے... براہ سائز بولو نا... پھر وہ بغیر رکے... بول گئی 38-D... خوش، اب چل... میں نے پھر بھی انہیں نہیں چھوڑا... اور آہستہ سے انکی گانڈ پر ہاتھ پھیرتا ہوا... اور انکا... چل بہت بدتمیز ہوتا جا رہا ہے... پھر وہی بات... میں نے کہا اوپر کا بتا دیا... اب نیچے کا بھی تو بتاؤ، تبھی تو ٹھیک کپڑے لا پاؤں گا... وہ پھر شرماتے ہوئے... 40... اب چل رات ہونے والی ہے۔
    میں بہر آ کر بائیک میں کک ماری... اور باجی مجھ سے جڑ کر بیٹھ گئی... میں اپنی بائیک شہر کے اوٹ سکرٹس کی طرف دوڑا دیا... "یہ کہاں جا رہا ہے"، شان باجی نے پوچھا، میں نے کہا ایک مست جگہ لے کر جا رہا ہوں۔ بائیک 100-120 کی رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ بہت تیز چلا رہا ہے تو پلیز آہستہ سے چلا... میں نے کہا باجی فاصلہ تھوڑا دور ہے... آپ مجھے اچھی طرح سے پکڑ کے بیٹھ جاؤ۔ انیلا نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا... مجھے لگا جیسے وہ شرما رہی ہے، میں نے اسکا ہاتھ پکڑا... اور کھینچ کر اسکا ہاتھ اپنی جینز کے بیلٹ والے حصے کے پاس رکھا اور اسکے کڑک ممے میری پیٹھ میں دھس سے گئے۔ اچھی طرح سے پکڑ کر بیٹھو نہیں تو گر جاؤگی... اور دوسرا ہاتھ بھی... آگے کی طرف لے آیا...
    میں مزے میں تھا، تھوڑی دیر میں ہم آتھیراپلی واٹر فال پہنچ گئے... بڑا ہی خوشنما نظارہ تھا۔
    بارش کا موسم تھا۔... اور واٹر فال کوا پانی دور-دور تک بچار فینک رہا تھا۔.......میں نے باجی کا ہاتھ پکڑا اور وہاں گھومے لگا۔....پانی کی بچاروں نے ہمیں بھی بھگا دیا۔....... تبھی زور-زور سے بارش شروع ہو گئی۔.... میں باجی کو لے کر ایک پہاڑ کی چھاؤں میں آ گیا۔....لیکن کوئی فائدہ نہیں بارش بہت تیز تھی۔.... ہم پورے بھیگ گئے تھے... اور اندھیرا شروع ہو گیا۔.... کڑک- کڑک کر بجلی چمک رہی تھی۔.... سبھی لوگ... بارش کی وجہ سے وہاں سے چلے گئے..... اور وہاں ایک دم سے سناتا سا پھیلا گیا۔.... ہمارے پاس کوئی چارا نہیں تھا..... ہم دونوں پورے بھیگ چکے تھے۔
    بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی... باجی مجھ سے بالکل ساتھ کے کھڑی ہو گئی.. تبھی زور سے بجلی کڑکی اور وہ ڈر سے مجھ سینے سے لگ گئی..... میں نے بھی باجی کو کس کر جکڑ لیا اپنی باہوں میں.....اور انکے گالوں کو چمنے لگا۔......... انکی زبراٹ ممّے مجھ سے سینے سے ڈھانسی جا رہی تھی..... میں نے انکی گانڈ پر ایک دباؤ بنایا اور انہیں اپنے سے بالکل سٹا لیا میرا گرم لوڑا...... انکے پیٹ پر دھس رہا تھا..... باجی روئانسی سی ہوتے ہوئے بولی... اب کیا ہوگا.... میں نے کہا میں ہوں نا.... پر ابھی تو ان پلاؤں کو انجوائے کرو... اتنے دنوں سے منہ لٹکائے ہوئی بیٹھی ہئی تھی گھر پر.... اور میں نے انہیں پھر ایک بار جکڑ سا لیا.... وو بھی شاید میرے وجود سے گرم محسوس کر رہی تھی....
    تبھی ایک ملیالی لڑکا ہمارے پاس آیا، سسٹر! بارش بہت تیز اور ہونے والی ہے....اور راستے میں پہاڑ ٹوٹ کے گر گیا ہے... میں نے اُس سے پونچھا یہاں کوئی ہوٹل ہے... وہ اشارہ کرتے ہوئے اُس طرف رین فارسٹ ریزارٹ ہے.. میں نے باجی کو بٹھایا اور ریزارٹ کی طرف چل دیے...ریزارٹ پر جا کر پتا چلا کہ سارے روم بک ہیں.... کیونکہ سارے ٹورسٹ بارش کی وجہ سے کہیں جا ہی نہیں پائے...... میں نیراشا سے باہر جانے لگا....
    تبھی ریسیپشن پر بیٹھے ہوئے مینیجر نے آواز لگائی... سنو.... ہم اُس کے پاس گئے.... اُس نے کہا
    یو آر ہسبینڈ وائف؟
    میں نے باجی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے... اِس سے پہلے وہ کچھ بول پائے... کہا یہس....
    We have one room.
    اسکا گیسٹ ابھی تک نہیں آیا اور شاید لگتا ہے آ بھی نہیں پائیں... کیونکہ راستے بند ہو گئے ہیں... میں وو روم آپکو دے دیتا ہوں لیکن اگر میرے گیسٹ آ گئے تو آپکو روم خالی کرنا پڑیگا... میں نے کہا اوکے... لیکن مارننگ میں آپکو میں روم دے دونگا..
    میں خوشی سے اوکے... شکریہ... اور اُس نے روم کی چابھی دے دی... روم کیا... وو تو شاندار سوٹ تھا...... روم کے کونے میں آگ جل رہی تھی... بہار مشعل دار بارش ہو رہی تھی... روم میں آ کر میں نے اپنے سارے گیلے کپڑے اتار دیئے... اور بدن پر ایک تولیہ لپیٹ لی۔....... میں نے باجی سے کہا... آپ بھی چینج کر لو.... پر میں پہنونگی کیا.... میں نے کہا تولیہ لپیٹ لینا اُنکے پاس کوئی چارا بھی نہیں تھا....... باجی باتھروم میں گئی... تب تک میں نے کھانے کا آرڈر دے دیا.... اور ایک برانڈی کی بوتل بھی منگا لی...
    باجی جب باتھروم سے نکلی، کیا لگ رہی تھی چھوٹی سی تولیہ.. اُنکا چھپا کم اور دکھا زیادا رہی تھی....
    میں نے اُنہیں دیکھا اور دیکھتا ہی رہا.... میری نظریں نیچے ہی نہیں جھک رہیں تھیں ایسے کیا دیکھ رہا ہے... وہ بولی... میں شرما گیا... تبھی وو زور سے چھینکی... میں نے کہا باجی لگتا ہے آپکو سردی ہو گئی ہے... میں نے کہا... چلو... یہ برانڈی پی لو اور میں اِسے آپکی مالش بھی کر دونگا.... صبح تک آپ بالکل ٹھیک ہو جاؤگی..... وہ بولی پاگل میں شراب نہیں پیتی... میں نے کہا باجی پاگل مت بنو... یہاں اِتنی ٹھنڈ ہے...اور میں کون سا شرابی ہوں آپنے دیکھا کبھی.... پر آج ٹھنڈ کی وجہ سے اور ہمارے پاس کپڑے بھی نہیں ہیں....
    ایتنا کہا کر میں نے دو پیگ بنائے.... اور اُنہیں ایک گلاس پکڑا دیا... اور بولا.... دوا سمجھ کے پی جاؤ...
    اِک جھٹکے میں... باجی نے پیگ پی لیا.... ہائے خدایا کتنی کڑواۓ... ہے میں نے جلدی سے اُنہیں نمکی دی.... اور پھر اُنکا دوسرا گلاس بھی بنا دیا......
    ارے نہیں بس ایک ہی بہت ہے میں نے کہا باجی آپ میرے ساتھ ہو... جیسا کہتا ہوں.... کرتی جاؤ... بھروسہ ہے نا... ہا بڑا آیا... جیسا کہتا ہے کرتی جاؤں... کیوں تیری باجی ہوں بی بی نہیں سمجھیں.... اُس پر روب چلانا... میں دل ہی دل سوچا باجی ایک بار اپنی بی بی بنا لوں.... تب تمہیں پتا چلےگا.... دبا کے چھوڑونگا.....
    کہاں سوچ میں پڑ گیا.... میں نے کہا کچھ نہیں... اور میں باجی کا دوسرا پیگ بھی بنا دیا.....میں آگ والی سائیڈ میں بیٹھا ہوا تھا... میں نے باجی سے کہا اِس طرف آ جاؤ.... میرے پاس یہاں آ جاؤ... وو بولی وہاں جگہ کہاں ہے میں نے کہا باجی جگہ دل میں ہونی چاہیے... اِتنا کہا کر میں نے باجی کا ہاتھ پکڑ کے اپنی گود میں بٹھا لیا....
    ہائے... آپ اندازہ لگا لو 40 سائز والی عورت وو بھی چھوٹی سی تولیہ میں کسی کی گود میں بیٹھے تو کیا حالت ہوگی... ارے یہ کیا کرتا ہے... پر اُن پر شراب کا شورور چھا رہا تھا.... میں نے اُنہیں اپنی گود میں بٹھا ہی لیا.... اُنکے بیٹھنے سے اُنکی تولیہ گانڈ سے اُٹھا گئی.... اور اُنکی ننگی گانڈ... میں نے بھی آہستہ سے اپنی تولیہ کھسکا دی....
    ہائے.... میرا ننگا تنا لنڈ اُنکی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا.... ہائے.... وو بھی لذت کے ساتویں آسمان پر تھیں... میں اپنے ہاتھ والے گلاس سے آہستہ-آہستہ اُنہیں پلانے لگا...
    تبھی لائٹ چلی گئی.... اور روم میں بالکل اندھیرا ہو گیا.......
    اور اچانک زوروں کی بجلی چمکی.... اتنی زوروں کی دو پل کے لیے پورا آسمان جگمگا اُٹھا....
    انیلا ڈر کے اپنے بھائی کی باہوں میں آکر سمٹ گئی۔ اُف......انیلا کے دونوں ممّے کی گرمی سے میری ٹھنڈی شرٹی آگ کا شعلہ بن گئی۔ اُسکی بہن کے بارش کی ٹھنڈ سے کرک ہو چکے نپلز سویوں کی طرح اُسکی شرٹیوں میں چبھے۔ دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کی باہوں میں لپٹے ہوئے اپنی سانسوں کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔
    انیلا-"بھائی.....مجھے پلیز بچا لو......اس کرکٹ بجلی سے بہت ڈر لگتا ہے." باجی کے ہونٹ میری گردن کو ملیم احساس کروا رہے تھے۔
    میں-" جب تک میں ہوں باجی.......آپکو کچھ نہیں ہو سکتا" میرے کے منہ سے نکلتی ہر ایک سانس انیلا کے جسم کو بھرکا رہی تھی۔
    انیلا-"بھائی.....پلیز مجھے ایسے ہی ہمیشہ سب سے بچاتے رہنے.......اپنی باہوں میں ہمیشہ سمیٹے رکھنا" انیلا اپنے جذباتوں کو کھل کر بیان کرنے لگی۔ اب شورور اپنے چرم پر تھا... میں نے باجی کو پورا گلاس انکے منہ سے لگا دیا... اور اپنی باہوں میں زوروں سے جکڑ لیا۔
    میں-" ہمیشہ باجی........آخری سانس تک " انیلا کے بدن میں ایک عجیب سی لہر دوڑ گئی۔
    انیلا-"اوہ بھائی.......میرا جسم...میری جان.....ہر ایک سانس آپکی ہے.........میں خود کو پوری طرح آپ کو سمجھتی ہوں ......" انیلا نے کہتے ہوئے شان کو اور بھی کس کر جکڑ لیا جس سے شان کی شرٹ میں انیلا کے دونوں رسیلے ممے بُری طرح سے ڈھس گئے۔
    دونوں بھائی بہن آس پاس کی پرواہ کئے بغیر بھاری بارش میں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں۔ دونوں اب کسی سے کچھ نہیں کہہ رہے اور شان نے انیلا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور دو پل اُسکو نہارا اور اب دونوں آہستہ آہستہ اپنے ہونٹوں کو ایک دوسرے کے ہونٹوں کے قریب لانے لگے۔ اور قریب ........اور قریب ......اور اور قریب.........اور بس................
    دونوں کی ٹول کب کی کھل کر زمین پر پڑی تھی...میں نے پہلی بار باجی کی زبراٹ مموں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا.... پھر تو جیسے.... باؤنوں کا ایسا طوفان اُٹھا..... اور میں اُنکے مموں پر چا گیا... وہ بھی بر بس مجھے چومے جا رہی تھی.... میں نے باجی کو گود میں اپنی طرف گھما لیا....اور اپنا منہ باجی کی مموں پر ڈال دیا اور اُنہیں چوسنے لگا،، باجی شراب کی پوری خماری میں تھی... اور میں بھی...
    "ممم۔۔" دونوں کے ہونٹ آخرکار ایک دوسرے سے مل گئے۔ اف کیا رومانٹک صورتحال میں دونوں بھائی بہن کا پہلا میلن ہو رہا ہے۔ باجی اور میں بڑے ہی ادب سے ایک دوسرے کے ہونٹوں کا ٹپکتا میٹھا رس چوس چوس کر لذت لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی میرا کا ہاتھ اپنے آپ باجی کے بھیگی پیٹ سے ہوتا ہوا نیچے اسکی گیلی گانڈ کو محسوس کر رہا ہے۔ میں گانڈ میں ہاتھ ڈال کر انہیں اپنے لوڑے سے بالکل سٹا لیا۔ اور پنا منہ انکی مموں کی پہاڑیوں کا زبردست چوسنے لگا۔ باجی کے دونوں ممے اب بالکل کڑک ہو چکے تھے۔
    تبہی میرا ہاتھ نیچے انکی پھدی پر چلا جاتا ہے۔ باجی کی ایک چیخ نکل جاتی ہے۔ ہے کیا گھنے گھنے بالوں والی چھوت تھی میری پیاری بہنا کی۔ پھدی بالکل رس سے بھیگ چکی تھی۔ میں نے اپنی انگلیاں انکی پھدی کے منہ پر پھیرنے لگا۔ انکا منہ ایک دم سے لال ہو گیا جو مجھے کڑکتی ہوئی بجلی کی روشنی میں دکھائی دیا۔ ایک پل کو ہماری آنکھیں ملی اور انہوں نے پلکیں جھکا لی۔ اور میں نے اپنی درمیان کی انگلی انکی پھدی میں ٹھسا دی۔ باجی... وو کچھ نہیں بولی... اے باجی... ہوں... کیا ہے... کیا باجی یہاں کے بال نہیں کاٹتی میں نے انکی پھدی کو زور سے اپنے ہاتھ میں بھرتے ہوئے کہا۔.. ہوں.. بولو نا کچھ... کیا بولوں... چل ہاتھ ہٹا وہاں سے... کہاں سے... میں نے پھدی کو اور زور سے جکڑ لیا... یہاں سے... اسکا کچھ نام بھی ہوتا ہوگا باجی... بہت بے شرم ہو گیا ہے... شان...
    تبھی لائٹ آ گئی... اور باجی کا سنگماری بدن بالکل ننگا میری باہوں میں تھا۔ انکا منہ شرم سے لال ہو رہا تھا۔ میں نے انکی گالوں کو چوس لیا۔ انیلا روشنی میں جھٹپٹانے لگی۔ اُسے بہت شرم آ رہی تھی۔ شان اب اور زیادہ نہیں... لیکن میں کہاں ماننے والا تھا۔ میں نے انکی پھدی کو کس کے پکڑ لیا۔ اور پھدی کے لبوں کو سہلانے لگا۔ باجی نے اپنے دونو ہونٹ دبائے۔... کیا... کرا رہا ہے... بلیز وہاں سے ہاتھ ہٹا... میں نے اپنی دو موٹی موٹی اُنگلیاں اُسکی پھدی میں ڈال دی۔ درد اور لذت سے انیلا کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔... اوہ... اہ... اور اُسکی پھدی کا جیسے بانڈ ٹوٹ گیا... اور وہ بھر بھرا کے جھڑ گئی۔... میں نے اپنی اُنگلیاں جاری رکھی۔... مجھے نیچے سے کچھ گھاڑا گھاڑا سا لگا۔... میں نے جب اپنا ہاتھ دیکھا تو اس میں خون لگا ہوا تھا۔... میں نے اُسے دکھاتے ہوئے... باجی یہ کیا ہے... میں تھوڑا ڈر گیا تھا۔...
    باجی ہانپ رہی تھی اور انکے ممے اُوپر نیچے ہو رہی تھیں۔ مسکراتے ہوئے...: لگتا ہے پیریڈز شروع ہو گئے... آج کا دن ڈیو ٹھا... تیری انگلی کرنے سے کھل گئی... اب میں نے پونچھا...؟ ایک ہفتے کی چھٹی... مجھے بہت غصہ آیا...
    ہم گھر آ گئے۔ اگلے دن... باجی مجھ سے نظر نہیں ملارہیں تھیں۔ شاید وہ نشہ کو بلیم کر رہی تھیں۔ گھر پہنچ کر ہم فریش ہوئے اور میں... اپنے ریسٹورنٹ چلنے کے لئے نکلا... باجی بولی ناشتہ تو کر کے جا... میں نے کہا دیر ہوگی وہ بولی... ریڈی ہے... بس پانچ منٹ...
    میں رک گیا۔ باجی کچن میں کام کر رہی تھیں۔ میں آہستہ سے انکے پیچھے گیا۔ وہ جلدی جلدی میرے لئے بریکفاسٹ بنا رہی تھیں۔ میں نے پیچھے سے انہیں اپنی باہوں میں لے لیا۔ وہ ایک دم سے چونک گئی۔.. کیا کرتا ہے ابھی ہاتھ جل جاتا۔.. میں نے انکے گالوں کو چومتے ہوئے.. کہا.. اور میں یہاں جل رہا ہوں۔..
    دیکھ شان... زیادہ مستی نہیں میں تیری باجی ہوں... بی ان لمٹ... تو میں نے کب کہا آپ میری باجی نہیں ہو... میں تو بس اپنی پیاری باجی کو پیار کر رہا ہوں... اور پھر میں نے باجی کو اپنے سے لگا لیا... باجی کی گانڈ کی گرمی پا کر چھوٹا ٹائیگر پھر... پھر باجی کی گانڈ میں کرنٹ دینے لگا... باجی تھوڑی اوکورڈ فیل کرنے لگی۔.. لیکن اپنی باجی کے د مست چوڑے-چوڑے چوتڑر... چھوڑنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا... میں نے پھر ایک بار باجی کو کمر سے پکڑا اور اپنے لنڈ سے لگا دیا۔
    وہ تقریباً چیختی ہوئی... کیا کر رہا ہے چھوڑ مجھے اور ناشتہ کر... میں انہیں چھوڑ کر نکل گیا... اور ریسٹورنٹ پہنچ گیا۔۔۔

  • #2
    maza aa gaya,
    kiya kamal ka scene tha behan k saath,
    aik to baarish,
    doosra jisam per sirf towel,
    teesra, kayi dino'n se ruki behan,
    chootha, bheege badan,
    sab kuch hi shehwat angez,
    shukriya share karne k liye

    Comment


    • #3
      دوپہر میں باجی بھی ریسٹورنٹ پہنچ گئیں۔۔۔ اور ہم دونوں اپنی باتوں میں کھو گئے۔۔۔ باجی نے پیلے رنگ کی سلیو لیس شلوار قمیض اور پرپل کلر کا دوپٹا پہنا ہوا تھا۔۔۔ کرتے کا گلا کافی کھلا ہوا تھا۔۔۔ اور انکے بھاری ممے۔۔۔ بہر جھانک رہے تھے۔۔۔ سونے پہ سہاگا یہ باجی نے ایک اپنی ناک میں۔۔۔ ایک چھوٹی سی نتھ بھی پہن رکھی تھی۔۔۔ میرا دھیان بار بار باجی کے مموں پر جا رہا تھا۔۔۔ اور وہ بار بار اپنا دوپٹا ٹھیک کر رہی تھی۔۔۔
      .
      میرے ناشتہ چھوڑ کر آنے سے وہ سوچ رہی تھیں کہ میں ناراض ہو کر آ گیا ہوں۔۔۔ میرے ریسٹورنٹ میں میرا ایک الگ کیبن ہے۔۔۔ ہم دونوں وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
      .
      باجی: کیا ابھی بھی ناراض ہے۔۔۔
      .
      میں: کس بات پر؟
      .
      باجی: تو صبح ناشتہ چھوڑ کر چلا آیا نا اس لئے۔۔۔
      .
      میں: باجی میں آپ سے کیسے ناراض ہو سکتا ہوں۔۔۔ آپ کے سوا میرا اور کون ہے۔۔۔
      .
      باجی: میرا بھی تیرے سوا کون ہے۔۔۔ پر کچھ دن سے۔۔۔
      .
      اور باجی کہتے کہتے چپ ہو گئیں۔۔۔
      .
      میں: کچھ دن سے کیا؟
      .
      میں نے پوچھا۔۔۔ باجی کچھ نہیں بولی۔۔۔ ایک خاموشی سی چا گئی۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان میں۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا سوال پھر دہرایا۔۔۔
      .
      باجی: تیرا کچھ دنوں سے جو برتاو بدلا ہے۔۔۔ کیا وہ صحیح ہے؟۔۔۔ میں تیری بڑی بہن ہوں۔۔۔
      .
      میں چپ رہا۔۔۔ کچھ بولا نہیں۔۔۔ شاید میری ایک خاموشی۔۔۔ سو اور نئے سوالوں۔۔۔ کا جواب تھا۔۔۔ ہم دونوں ایسے ہی چپ-چاپ بیٹھے رہے۔۔۔ بغیر کچھ کہے۔۔۔ بنا کچھ بولے۔۔۔
      .
      نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی بیٹھے رہے۔۔۔ تبھی ایک لڑکا ہمارے لئے چائے لے کر آیا۔۔۔ ہم دونوں چائے پینے لگے۔۔۔ میں نے کہا باجی میں دوسرے شہر جا رہا ہوں کچھ کام ہے۔۔۔ ایسا کیا کام آ گیا۔۔۔ باجی بزنس کا کام ہے۔۔۔ آپ کو تو معلوم ہے۔۔۔ اپنا ریسٹورنٹ بہت اچھا چل رہا ہے۔۔۔ ایک نیا آفر آیا ہے۔۔۔ وہی پراپرٹی دیکھنے جا رہا ہوں۔۔۔
      .
      "یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔کب لوٹ کر آئیگا۔۔۔۔ میں نے کہا جلدی سے جلدی آنے کی کوشش کروںگا۔۔۔۔میرے جانے کی بات سن کر باجی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔۔ جلدی آنا۔۔۔ میرا یہاں اکیلا میں دل نہیں لگےگا۔۔۔۔
      .
      میں جانتا ہوں باجی۔۔۔ اور پھر میں اُٹھتے ہوئے۔۔۔ باجی کے گلابی گالوں پر ایک کس کیا۔۔۔۔باجی نے پانی سے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا میں نے کہا۔۔۔
      .
      بائی باجی جلدی ملتا ہوں۔۔۔۔ اور میں نکل گیا۔۔۔۔ بہر ٹیکسی میرا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔باجی نے دب-دبائی آنکھوں سے مجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے وداع کیا۔۔۔ اور میں نکل گیا۔۔۔۔۔
      .
      مجھے ادھر میں ایک ہفتہ ہو گیا۔۔۔۔ادھر والی پارٹی بہت مضبوط تھی مالی طور پر۔۔۔ اور انہیں میرا پروپوزل اچھا لگا۔۔۔۔ ریسٹورنٹ پر فوراً کام شروع ہو گیا۔۔۔۔ ان لوگوں نے کہا سر آپ کچھ دن یہیں رک کر کام کو سیٹ کر دیجئے۔۔۔ میں انہیں منا نہیں کر پایا۔۔۔
      .
      میں شام کو ایک مال میں گھومنے آیا ہوا تھا۔۔۔۔ تبھی میں نے دیکھا فون بجنے لگا۔"
      .
      فون دیکھا تو باجی کا تھا۔۔۔ شان کہاں ہے تو۔۔۔ باجی میں ایک مال میں ہوں۔۔ تونے ایک بار بھی فون نہیں کیا۔۔۔
      .
      میں: باجی میں زرا بزی تھا۔۔۔ ریسٹورنٹ کا کام شروع ہو گیا ہے اس میں بزی ہو گیا تھا۔۔۔ آپ بولو آپ کیسی ہو۔۔۔۔
      .
      باجی: میں کیسی ہوں۔۔۔۔۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔
      .
      میں: کیا ہوا۔۔۔۔
      .
      باجی: جلدی آ جا یہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
      .
      میں: باجی کیا کروں گا۔۔۔ یہاں آ کر۔۔۔ یہاں بہت کام ہے۔۔۔ اور میرے رہنے نہ رہنے سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔
      .
      باجی: ایسے کیوں بول رہا ہے۔۔۔۔۔۔
      .
      میں: صحیح تو بول رہا ہوں۔۔۔۔
      .
      باجی:شان تو جو چاہتا ہے وہ غلط ہے۔۔۔۔۔
      .
      میں: مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔ پر میں نے اب نہ آنے کا ڈیسائیڈ کر لیا ہے۔۔۔آپ وہیں رہو میں یہاں سٹل ہو جاوگا۔۔۔
      .
      باجی:کیا بک رہا ہے۔۔۔۔میرا تیرے سوا کون ہے۔۔۔۔ پگلے
      .
      میں:آپ کی زندگی میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔۔۔اور اتنا سب ہونے کے بعد میں آپ کے ساتھ رہ نہیں سکتا۔۔۔۔۔
      .
      باجی:تو کیا چاہتا ہے۔۔۔؟
      .
      میں: تم جانتی ہو میں, کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔
      .
      باجی:ایسا کیوں چاہتا ہے۔۔۔۔؟
      .
      میں:تم یہ بھی جانتی ہو۔۔۔۔
      .
      ہم دونوں کے درمیان میں ایک سکتا سا چا گیا۔۔۔۔پھر سکتا میں نے ہی توڑا۔۔۔۔
      .
      میں: اگر ہمارے درمیان میں کچھ ممکن نہیں ہے تو۔۔۔اس رشتے کو یہیں ختم کرتے ہیں۔۔۔۔۔
      .
      مجھے باجی کے سسکیوں کی آواز آئی فون پر۔۔۔۔ باجی رو رہی تھی۔۔۔۔
      .
      میں: باجی پلیز آپ رو مت۔۔۔۔میں ہی غلط ہوں
      .
      باجی: تو آجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      .
      پھر ایک بار ہم دونوں کے درمیان سکتا چھا گیا۔۔۔۔۔۔
      .
      میں: کیا۔۔۔۔۔۔میں چونکتے ہوئے۔۔۔۔کہا۔۔۔
      .
      باجی: ہاں تو واپس آجا۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔جو۔۔۔چاہتا۔۔۔۔۔ہے۔۔۔۔۔۔
      .
      باجی پھر چپ ہوگئی اور انکا گلا بھاری ہوگیا۔۔۔۔۔
      .
      میں: کیا باجی۔۔۔۔میں چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔سچ۔۔۔ آپ راضی ہو۔۔۔۔۔
      .
      باجی: ہاں تو واپس آ جا۔۔۔۔۔
      .
      میری تو خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔۔۔۔۔بچپن سے جو خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ سچ ہونے جا رہا تھا۔۔۔۔
      .
      باجی: کب آ رہا ہے۔۔۔۔
      .
      میں: آپ بولو ابھی رات کی فلائٹ چیک کرتا ہوں۔۔۔۔۔آپسے ضروری کوئی کام ہے میرے لئے۔۔۔
      .
      باجی: ارے پاگل اتنا بے صبرا مت ہو۔۔۔۔کل مارننگ کی فلائٹ میں آ جانا۔۔۔۔۔۔ میں کہیں بھاگی نہیں جا رہی ہوں۔۔۔۔
      .
      میں: باجی میں تم سے محبت کرتا ہوں میں آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
      .
      اب تو میرے پیر زمین پر ہی نہیں پڑ رہے تھے۔۔۔میری ڈریم گرل مجھے بلارہی تھی۔۔۔
      .
      میں نے فوراً اپنے پارٹنر کو فون کیا اور اُسے بتایا کہ میں واپس جا رہا ہوں کچھ ضروری ہے۔۔۔۔اور میں نے فوراً ایئرلائنز میں فون کیا۔۔۔۔۔شام کی فلائٹ جا چکی تھی۔۔۔۔۔مارننگ کی فلائٹ اُس نے کنفرم کر دی۔۔۔۔۔
      .
      میں نے سوچا جلدی کچھ خریداری بھی کر لوں۔۔۔۔ مجھے پتا تھا باجی کو جیویلری کا بہت شوق ہے۔۔۔ میں ایک جواہروں کے دکان میں گھس گیا۔۔۔۔ اور میں باجی کے لئے ایک گلے کا سیٹ لیا۔۔۔۔ ساتھ ۔۔۔نیکلیس۔۔۔ایر رنگ، باجی کو نوز رنگ (نتھ) بہت پسند تھی میں نے وہ بھی لے لی۔۔۔۔۔ میں شاپنگ کر رہا تھا۔۔۔۔ تبھی۔۔۔۔ سیلز گرل بولی۔۔۔سر۔۔۔ یہ شاپنگ کیا اپنی شادی کے لئے کر رہے ہو کیا۔۔۔۔۔
      .
      میں مسکراتے ہوئے بولا ہاں۔۔۔۔۔ تو وہ بولی۔۔۔سر۔۔۔ منگل سترا کا ایک بہت اچھا سیٹ آیا ہے۔۔۔۔۔۔"
      .
      میں ارے ہاں اِس بھی پیک کر دو۔۔۔۔ پھر میں نے باجی کے لئے ایک ساؤتھ انڈین لینگا چولی کا سیٹ بھی لیا۔۔۔۔اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا
      .
      میں صبح سیدھا ایئرپورٹ سے اُتر کے گھر پہنچ گیا۔ صبح کے کوئی ۸ بج رہے تھے۔ باجی نہا کے تیار تھی۔ میں جیسے ہی گھر میں گھسا، باجی گھر کے اندر چلی گئیں۔ شاید شرما گئی تھی۔ اور کِچن میں چلی گئیں۔
      .
      میں دوڑتا ہوا سیدھا کِچن میں آ گیا۔ باجی مجھے دیکھ کر ایک دم سے شرما گئی۔ اور میری طرف پیٹھ کر کے کِچن میں کام کرنے لگی۔ میں نے باجی کو پیچھے سے پکڑ لیا۔
      .
      باجی۔۔۔ میں۔۔۔
      .
      باجی: ہوں۔۔۔
      .
      میں: باجی کیا بات ہے۔۔۔
      .
      میں نے باجی کو کس کے اپنے سے لگا لیا اور انکی کمر میں اپنے ہاتھ ڈال دئے اور انہیں اپنے سے لگا لیا۔ میرا لنڈ کھڑا ہو چکا تھا اور وہ باجی کی گانڈ میں چبھ رہا تھا۔
      .
      باجی تھوڑا سا کسمسائی۔ میں نے باجی کے گلابی گالوں کو چمنے لگا۔ میں برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ آہستہ سے باجی کی مموں کی طرف بڑھا دیا اور انہیں زور سے دبا دیا۔ باجی چیخ اٹھی اور مجھے ایک کہنی ماری۔ کیا کرتا ہے اپنی باجی کے ساتھ۔ میں نے انکی کچھ نہیں سنی اور اپنا کام جاری رکھا۔ باجی کا بدن تھرتھرا رہا۔ نہ جانے کس جذبات میں آ کر میں نے باجی کو اپنی طرف گھما لیا اور ان کے کمال کے سمان ہونٹوں پر کس لینے لگا۔
      .
      پھر تو میں پورا جوش سے کس کرنے لگا۔ پھر نہ جانے شاید باجی بھی گرمی میں آ گئیں اور انہوں نے اپنا منہ کھول دیا اور میں نے ان کی زبان اپنے منہ میں لے لی۔ پھر تو ہم دونوں ایک جوشیلے کس میں سما گئے۔ باجی کے ممے مجھ سے سینے سے کچل رہی تھیں۔ مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں سامنے سے باجی کے ممے مسلنے لگا۔
      .
      ہائے کیا وہیں گمنام منظر تھا۔ ایک بھائی اپنی بہن کے لیے دیوانوں کی طرح چوم رہا تھا۔ ہم کوئی ۱۰ منٹ تک ایسے ہی ایک دوسرے میں سمائے رہے۔ تبھی کوکر کی سیٹی سے ہمیں ہوش آیا۔ باجی کو جیسے ہوش ۔۔۔ انہوں نے مجھے ایک دھکا دیا۔ بڑا اتاولا ہو رہا تھا اور انہوں نے جلدی سے گیس کا برنر بند کیا۔
      .
      چل جا یہاں سے۔ تیار ہو جا۔ نہا لے آج رکشا بندھن ہے۔ لیکن میں آج دوسرے ہی موڈ میں تھا۔ میں نے کہا، باجی پر آج۔۔۔۔۔؟
      .
      میں نے ہکلاتے ہوئے۔۔۔وہ ہمارا۔۔۔؟
      .
      کیا ہمارا، ہمارا، لگا رکھا ہے۔۔۔
      .
      میں نے باجی کو پھر اپنی باؤں میں بھر لیا اور کہا، ہمارا میلن؟۔۔۔
      .
      باجی ایک دم سے شرما گئی اور نیچے نظریں کر کے مجھے پیار سے ایک چپٹ لگاتے ہوئے۔ بڑا آیا۔۔۔ میلن والا جا جلدی تیار ہو جا۔۔۔ راکھی بندھنی ہے۔
      .
      باجی مجھ سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھیں۔ وہ یہ سوچ نہیں پا رہی تھی کہ آج تک جس بھائی کو انہوں نے پال پوس کے بڑا کیا تھا۔ وہ ہی اسکا۔۔۔ وہ سوچ سوچ کر کشمکش میں پڑ جاتی تھی۔
      .
      باجی کا تو پتہ نہیں پر میں تو اپنا پورا دل بنا چکا تھا۔ اور یہ ارادہ تھا میں اپنی زندگی انیلا کے ساتھ ہی بیتانا چاہتا تھا۔
      .
      میں باتھروم میں نہانے چلا گیا۔ نہا کے باہر آیا تو دیکھا باجی تھالی سجا رہی تھیں۔
      .
      شان چلو میں تجھے راکھی باندھ دیتی ہوں، پھر باتیں کریں گے، اور ریسٹورنٹ کا کیا ہوا؟" باجی نے پوچھا اور کمرے سے ایک تھالی میں مٹھائی اور راکھی لے آئی۔ باجی نے میرے ماتھے پر ٹیکا لگایا اور کلائی پر راکھی باندھ دی اور میرے منہ کو پیار سے چوم لیا۔ میں جب باجی کو اپنی طرف کھینچ کر پیار کیا تو میری نظر اُس کے کھلے گلے والے بلاؤز پر چلی گئی جہاں سے باجی کے گورے گورے ممے جھانک رہے تھے۔ میرے جسم میں ایک آگ سی لگ گئی اور میں بنا کچھ سوچے سمجھے باجی کے ممے ہاتھ میں لے کر مسل دیے۔ اُس کے نپلز ایک دم ٹائٹ ہو گئے لیکن اُس نے جلدی ہی سنبھال کر قدم پیچھے ہٹا لیے۔
      .
      کچھ تو شرم کر۔۔۔ شان۔۔۔ اچھا میرا گفٹ کہاں ہے۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنا بریف کیس کھولا اس میں سے نیکلیس سیٹ نکالا۔۔۔ باجی اُسے دیکھ کر ایک دم سے خوش ہو گئیں۔۔۔ کتنا پیارا ہے۔۔۔ میں نے کہا لاؤ اسے میں پہنا دوں۔۔۔ میں نے نیکلیس باجی کو پہنا دیا۔۔۔ پھر اس کے جھمکے۔۔۔ اور باجی کی نتھ۔۔۔ میں نے اُسے بھی پہنانے لگا۔۔۔ چل ہٹ میں خود پہن لوں گی۔۔۔ میں بولا۔۔۔۔۔ چلو میں نتھ اتار دونگا۔۔۔ باجی ایک شرمیلی مسکان کے ساتھ بولی بڑا آیا نتھ اتارنے والا۔۔۔
      .
      باجی پورا سیٹ پہن کر۔۔ شیشے کے سامنے اپنے آپ کو نہارنے لگی۔۔۔۔۔۔ ہائے کیا پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں اُن کے پیچھے گیا اور اُن کے مد مست چُتڑوں پر کھڑا لنڈ رگڑتے ہوئے۔۔۔ اُنہیں اپنی باہوں میں لے لیا پیچھے سے۔۔۔۔ ہم دونوں کے عکس مرر میں تھی۔۔۔ میں میرر کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔ ہائے باجی کیا لگ رہی ہو۔۔۔ بولو نا آج نتھ اُتاروگی نا۔۔ (شادی کے بعد لڑکی کی چودائی کے بعد نتھ اُتارائی کہتے ہیں)
      .
      باجی نے شرم سے اپنا منہ ڈھک لیا۔۔۔ میں نے اُنہیں اپنی طرف گھما لیا۔۔۔ بولو نا باجی۔۔ وہ کچھ نہیں بولی۔۔۔ میں نے پھر خوبصورت سا منگل سوترا نکال کر انہیں دیا۔۔۔ باجی یہ میرا آج کا تحفہ آپ کے لیے۔۔۔ باجی نے منگل سوترا کو دیکھا اور اُن کی آنکھیں گیلی ہو گئیں۔۔۔ شان کیوں ضد کر رہا ہے۔۔ میں اسے کیسے پہن سکتی ہوں؟۔۔۔
      .
      باجی آج سے آپ میری۔۔ اور میں چپ ہو گیا۔۔۔
      .
      باجی: کیا میری۔۔
      .
      میں: باجی آپ میری اب تک کی سب سے بڑی چاہت ہو۔۔ اگر آپ نہیں مانیں تو میں سمجھوں میں مر جاؤں۔۔
      .
      باجی: خبردار۔۔ جو تونے مرنے کی بات منہ سے نکالی۔۔ پر کیوں ضد کر رہا ہے۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔
      .
      میں: باجی سب ممکن ہے۔۔ میں آپکو بہت خوش رکھونگا۔۔۔
      .
      باجی: ہماری عمر میں بہت فرق ہے۔۔
      .
      میں: مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
      .
      باجی: کہیں مجھے دھوکہ تو نہیں دے جائے گا۔۔
      .
      میں: کبھی نہیں۔۔ مر جاؤں پر دھوکہ نہیں دوں گا۔۔
      .
      باجی: بار بار مرنے کی کیوں بات کرتا ہے۔۔
      .
      میں: بولو پہنوگی نہ میرے ہاتھ سے مانگلسوتر۔۔۔۔ باجی کچھ نہیں بولی۔۔۔ بس نیچے دیکھنے لگی۔۔۔ میں نے انکی تھوڑی پکڑی اور اپنی طرف منہ کیا اور انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے۔۔۔ بولا نہ باجی۔۔۔ بنوگی نہ میری جیون سنگنی۔۔۔ باجی کچھ نہیں بولی اور انکی بڑی بڑی آنکھوں سے 2 بڑی بڑی بوندیں نکل گئی۔۔۔ ہے کتنی خوبصورت لگ رہی تھی میری پیاری باجی۔۔۔ باجی کی چوت میری باتوں سے گرما رہی تھی اسکا بھی دل مجھ سے چپکنے کا کر رہا تھا لیکن وہ ہمت نہیں کر پا رہی تھی، اسکے موٹے موٹے گدرائی ممے اسکو پریشان کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ مجھے خوب کس کس کر مسل دے۔۔
      .
      ۔ میں - باجی کیا سوچ رہی ہو
      .
      باجی - کچھ نہیں
      .
      میں - باجی اچھا تھوڑا سا پاس تو آ جاؤ
      .
      اور اسکے گال پر اپنے ہاتھ سے سہلانے لگتا ہے، باجی - کی رسیلی پھدی میرے اس نشیلہ انداز سے رس چھوڑنے لگتی ہے اور باجی آنکھیں بند کر لیتی ہے، میں نے موقع دیکھ کر باجی کے تھوڑا قریب آ جاتا ہوں، باجی کی سانسیں تیز ہونے لگتی ہیں، میں نے باجی کو تھوڑا اپنی اور کھینچ کر اسکے چہرے کو اپنے چہرے کے بالکل قریب کر لیا، باجی کی تیز سانسیں میرے چہرے سے ٹکرانے لگیں۔
      .
      میں- باجی آنکھیں کھولو نہ کیا ابھی سے سونے لگی ہوئی ہے
      .
      باجی جیسے ہی آنکھیں کھولتی ہے مجھے اپنے اتنے قریب دیکھ کر پھر آنکھیں بند کر لیتی ہے
      .
      میں- باجی میری طرف دیکھو نہ
      .
      باجی- اپنی آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگتی ہے اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں سے اتنے قریب تھے کہ لگتا تھا ابھی چوم لیں گے۔ میں باجی کی کمر اور موٹی گدرائی گند کو اپنے ہلکے ہاتھوں سے بڑے پیار سے سہلایا اور آنکھوں سے باجی کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں، باجی کا چہرہ ایک دم نشیلہ نظر آنے لگتا ہے،
      .
      میں- باجی کو دیکھتے ہوئے باجی تمہارے ہونٹ کتنے خوبصورت ہیں بالکل گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں
      .
      باجی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بڑے دھیان سے سن رہی تھی لیکن کوئی جواب نہیں دے پا رہی تھی، باجی کو میری باتیں بہت اچھی لگ رہی تھی اور اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ مجھ سے کس کر اپنے دودھ کو چپکا لے لیکن انکی ہمت نہیں پڑ رہی تھی،
      .
      میں- باجی تم بہت سخت ہو تمہیں اپنے بھائی پر زرا بھی دیا نہیں آتی ہے، بس ایک بار ہی سہی مجھے بھی پیلا دو اپنے ان رسیلے ہونٹوں کا رس
      .
      باجی- اُسے مسکرا کر دیکھتی ہوئی، کیوں اپنی بہن کو حاصل کرنا چاہتا ہے
      .
      میں- باجی کوئی تو راستہ ہوگا تمہیں حاصل کرنے کا
      .
      باجی -مسکرا کر کوئی راستہ نہیں ہے
      .
      میں- اچھا ٹھیک ہے، میری قسمت میں شاید تمہیں پیار کرنا لکھا ہی نہیں ہے، اس جنم میں، میں تمہیں نہیں پا سکا تو کیا ہوا، میں مالک سے دعا کروںگا کہ اگلے جنم میں وہ تمہیں بی بی بنا کر بھیجے، اور اپنی آنکھیں بند کرکے لیٹ جاتا ہے۔
      .
      باجی- مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگتی ہے، میں اپنی آنکھیں بند کیے کافی دیر تک پڑا رہتے ہیں اور باجی اپنی آنکھیں کھولے اسکے چہرے کو دیکھتی ہوئی مسکراتی رہتی ہے، جب بہت دیر تک میں اپنی آنکھیں نہیں کھولتا ہے تو باجی آہستہ سے اپنے ہاتھ کو میرے سر پر رکھ کر بالوں میں اپنی انگلیاں چلانے لگتی ہے، اور اپنے دل میں سوچتی ہوئی، باجی کو میرے پر پیار آ رہا تھا اور وہ میرے سر کو سہلاتی ہوئی گالوں کو سہلانے لگی، اور آہستہ سے سو گیا کیا، میں جاگ رہا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھیں بند رکھی اور کوئی جواب نہیں کیا، باجی نے ایک بار اور تھوڑا ہلا کر، سو گیا کیا؟
      .
      میں چپچاپ پڑا رہا۔
      .
      میں نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی اور اچانک ہماری آنکھیں ٹکرا گئی۔
      .
      باجی اُٹھو۔۔۔
      .
      باجی: کیا ہوا۔۔۔ اتنی جلدی میں۔۔۔
      .
      میں: ہاں باجی جلدی چلو۔۔۔۔
      .
      باجی: کہنا جا رہا ہے۔۔۔ اتنی جلدی میں۔۔۔
      .
      میں: شادی کرنی ہے۔۔۔
      .
      باجی: شادی۔۔۔ کس سے۔۔۔
      .
      میں: سب جانتی ہو کس سے۔۔۔
      .
      باجی: پاگلہ گیا ہے کیا۔۔۔
      .
      میں: وہ تو جس دن سے آپکو دیکھا ہے۔۔۔ میں ہو گیا ہوں۔۔۔ چلو جلدی اُٹھو۔۔۔
      .
      باجی: ارے۔۔۔ اتنا دیوانا مت بن۔۔۔
      .
      پر میں نے ایک نہیں سنی۔۔۔ اور باجی کو باہر لے آیا۔۔۔

      *-جاری-*

      Comment


      • #4
        شاندار بہت ہاٹ سٹوری ریلی مزہ أگیا پڑھ کے

        Comment


        • #5
          Wah Behan bahi kye Pyar ki behtareen Kahani

          Comment


          • #6
            گرم اور شھوت بھ رپور

            Comment


            • #7
              Aik unda izafa hai yea kahani. Zabardast

              Comment


              • #8
                اچھا آغاز ہے

                Comment


                • #9
                  بہت خوب جناب

                  Comment


                  • #10
                    میں نے ریسٹ فاریسٹ ریزارٹ کے مینیجر کو فون کر دیا۔۔۔
                    .
                    اور اس سے ایک ہنی مون سویٹ بک کرنے کو کہا اور شادی کا ارینجمنٹ کرنے کو کہا۔۔۔ وو بولا شادی سر اتنے شارٹ نوٹس میں۔۔۔ کتنے گیسٹ ہوں گے؟۔۔۔
                    .
                    میں نے کہا کوئی گیسٹ نہیں ہیں۔۔۔ لیکن آپ کے ریزارٹ میں جتنے بھی گیسٹ اور ایمپلوائی ہیں۔۔۔ آج میری شادی میں انوائٹ ہیں۔۔۔
                    .
                    وو بھی چونکتے ہوئے۔۔۔ خوش ہوگیا۔۔۔ میں نے کہا پلیز سبکو انوائٹ کر دینا اور نیٹ بینکنگ سے 1 لاکھ ٹرانسفر بھی کر دیے۔۔۔ ایڈوانس۔۔۔
                    .
                    اسنے مجھے انشور کیا کہ وو سارا ارینجمنٹ کر دیگا۔۔۔
                    .
                    میں کال سے فارغ ہوا تو باجی آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
                    .
                    شان! یہ کیا کر رہا ہے؟ ہمیں کسی جاننے والے نے دیکھ لیا تو؟ پلیز!!!، میں نے اپنے آپکو تجھے سونپنے کا ارادہ کر لیا ہے، مگر کھلے عام شادی؟ یہ بچگانہ حرکت ہے۔
                    .
                    میں نے کوئی جواب دیے بغیر آگے بڑھ کے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا اور آہستہ سے پوچھا۔
                    .
                    ہمیں کون جانتا ہے؟ ہمارا ایک دوسرے کے سوا اور کون ہے؟ کسی کو کیا پڑی ہے ہماری زندگی میں مداخلت کرنے کی۔ اگر واقعی تمہیں اعتراض ہے تو ابھی کال کر کے کینسل کر دیتا ہوں۔ مگر یہ کوئی بچگانہ حرکت نہیں، یہ میرا بچپن کا خواب ہے کہ میں تمہیں اپنی دلہن بناؤں، اب آپ خود بتاؤ۔ لوگوں کو کیوں نہ دکھاؤں میں اپنی دلہن؟
                    .
                    باجی نے جواب میں کہا، قسم سے تو بڑا ضدی شوہر ثابت ہو گا میرے لیے۔
                    .
                    میں نے اسے باہوں میں بھینچ کر اسکے پاؤں سے اٹھا کے گھمایا، وہ چینختی ہوئی ہنسنے لگی۔ اور پھر جلدی سے جانے کی تیاری میں لگ گئے۔
                    .
                    ہم نے کچھ کپڑے اور باجی کی شادی کی ڈریس اور انکی جیویلری ایک بریفکیس میں ڈال لی۔۔۔ اور فورن کار سے ریزارٹ کو روانہ ہوگئے۔۔۔
                    .
                    ہم کوئی 4 بجے پر ریزارٹ پہنچے۔۔۔ مینیجر نے بھی شارٹ نوٹس پر بہت کچھ ارینج کر دیا تھا۔۔۔
                    .
                    ہم دونوں اپنے روم کی طرف چل دیے۔۔۔ مینیجر نے کہا سر۔۔۔ میم کے لئے بیوٹی پارلر بھی ارینج ہیں۔۔۔ باجی بیوٹی ٹیکنیشن کے ساتھ چلی گئیں۔۔۔
                    .
                    اُدھر میں بھی روم میں ریڈی ہونے چلا گیا۔۔۔
                    .
                    کچھ دیر میں ہم ریڈی ہو کر مین ہال میں آ گئے۔۔۔ ہال گیسٹ سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ ان کسی کو نہیں جانتے تھے۔۔۔ پر سب آج ہماری خوشی میں شریک ہو رہے تھے۔۔۔ اور شاید۔۔۔ پہلی بار کسی بھائی بہن کی شادی میں شریک ہو رہے تھے۔۔۔
                    .
                    ہم نے شادی کی رسومات کیں اور دھوم دھام سے ہماری شادی کروا دی۔۔۔
                    .
                    سارے مہمانوں نے ہمیں مبارک دی۔۔۔ ایمپلوائی پارٹی اپنے کمرے میں پہنچ گئی تھی۔۔۔
                    .
                    کچھ خواتین باجی کو سویٹ (ہمارے روم) کی طرف لے گئیں۔۔۔ اور پھر مجھے بھی روم تک لے گئے۔۔۔ دروازہ بند ہوا تھا لیکن اندر سے لاک نہیں تھا۔ ہوٹل کے اسٹاف نے روم پھولوں سے سجا دیا تھا۔۔۔ مجھے پتا بھی نہیں چلا اتنا کچھ ہو گیا تھا۔۔۔ میں مسکراتا ہوا روم کے اندر چلا گیا۔۔۔
                    .
                    میری جان بیڈ پر گھونگٹ نکالے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ گھونگٹ میں اسکے ناک کے نیچے کا حصہ اور گلابی ہونٹ دکھ رہے تھے۔۔۔ باجی کی نتھ پورے روم میں جگمگا رہی تھی۔۔۔ میرے آنے کی آہٹ سے ہی باجی تھرک گئی۔۔۔ میرا دل تو جیسے سکتے میں آ گیا تھا۔۔۔ جس دن کا سالوں سے انتظار تھا۔۔۔ آخر وہ گھڑی آ ہی گئی۔۔۔
                    .
                    میں آہستہ سے باجی کے پاس آیا۔۔۔ اور ہلکے سے اس کی گھونگٹ اٹھایا۔۔۔ ہائے۔۔۔ ایسا لگا جیسے سارے ستارے ایک ساتھ جگمگا گئے ہوں۔۔۔
                    .
                    میں نے آگے بڑھ کر ایک پیار بھرا کس اس کے گال پر دے دیا۔۔۔ وو شرما کے تھوڑا کھسک گئی۔۔۔
                    .
                    اس نے کنارے رکھا کاجو بادام کا دودھ کا گلاس میری طرف بڑھا دیا۔۔۔ واہ! کیا فلمی سین چل رہا ہے۔۔۔ اور ایک گہونٹ بھر کر میں نے دودھ باجی کو بڑھا دیا۔۔۔ وو بولی یہ آپ کے لئے ہے۔۔۔
                    .
                    میں نے کہا واہ! اب میں تو سے آپ ہو گیا؟۔۔۔
                    .
                    ہاں اب تم میرے شوہر ہو۔۔۔
                    .
                    میں نے کہا اب یہ فارمالٹی نہیں جیسے پہلے بولتی ویسے ہی بولو۔۔۔ اور میں نے دودھ کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔۔۔
                    .
                    وو بولی شان یہ آپ کے لئے ہے پلیز پی لو۔
                    .
                    میں نے کہا آج میں دوسرا دودھ پیونگا۔۔۔
                    .
                    کون سا؟ اس نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
                    .
                    میں نے چولی کے اوپر سے اس کے مموں کو دباتے ہوئے۔۔۔ یہ والے دودھ۔۔۔
                    .
                    تم بھی نا شان!! با خدا بہت شرارتی ہو گئے ہو۔۔۔
                    .
                    میں نے ایک جھٹکے میں دودھ ختم کیا۔۔۔ پیار کی لو میں ہم ایک دوسرے کی طرف بڑھے اور ہمارے ہونٹ آپس میں ایک ہو گئے۔۔۔ دونوں کے بدن ایک انجانی خوشی میں کانپ رہے تھے۔۔۔ باجی کے ہونٹوں کو تھوڑی دیر چومنے کے بعد اسے الگ ہوا تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔ ایک انجانی خوشی دل میں چھائی ہوئی تھی۔۔۔
                    .
                    باجی خوشی میں اپنے نیچلے کے ہونٹوں کو دانتوں سے چبا کر زمین کی طرف دیکھ رہی تھی، زمین کی طرف دیکھتے ہوئے اُسکی نگاہ میری رانوں پر گئی تو اُس نے دیکھا کہ وہاں ایک تمبو سا بنا ہوا تھا۔ میرا کھڑا لنڈ۔
                    .
                    میں نے باجی کی ٹھوڑی پکڑ اُسکے چہرے کو اُٹھایا، باجی نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور میں نے اپنے ہونٹ اُسکی ہونٹوں پر رکھ دیے۔
                    .
                    اُسکے ہونٹوں کو چوستے چوستے میں نے اپنی زبان باجی کے منہ میں ڈال
                    دی۔ باجی نے بھی اپنا منہ کھولا اور اپنی زبان میری زبان سے ملادی۔ "مممم کب سے ترس رہی تھی میں اس ٹائم کے لیے' سوچتے ہوئے باجی میری زبان کو زور سے چوسنے لگی۔ نہ جانے کتنی دیر تک دو پریمی ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے رہے۔
                    .
                    میں نے باجی کو چومتے ہوئے زور سے اپنی باؤں میں دبا لیا۔ اُسکے نازک بڑے- بڑے ممے میری سینے میں دھنس گئے۔ میں نے اپنے ہاتھ باجی کے چوتڑوں پر رکھے اور زور سے اُسے اپنی باؤں میں بھیچ لیا۔ باجی نے بھی اُسکی پیٹھ پر اپنی پنجوں کی پکڑ کو کستے ہوئے اپنے جسم
                    .
                    کو میرے جسم سے چپکا دیا۔ اُسکی پھدی میرے کھڑے لنڈ سے ٹکرا رہی تھی۔
                    .
                    نہ جانے کتنی بار اور کتنے روپ میں دونوں یہ خواب دیکھا تھا اور آج وہ خواب پورا ہو رہا تھا ایک الگ ہی انداز میں۔
                    .
                    "تم نہیں جانتی باجی میں نے کتنی راتیں تمہارے ہی خواب دیکھتے ہوئے بِتائی ہیں۔" میں اُسے زور سے دباتے ہوئے بولا،
                    .
                    "کیا میں تمہیں چُھو سکتا ہوں؟"
                    .
                    "ہاں بھائی مجھے چُھو، مجھے مسلو، مجھے پیار کرو، کب سے ترس رہی ہوں میں پیار کے لیے۔"
                    .
                    باجی اپنے پیار کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔ میں نے اپنا ہاتھ ڈال اُسکے ملائم ممے کو پکڑ لیا۔ اُس نے اُسکے کھڑے نپل کو اپنی اُنگلی اور انگوٹھے میں لیا اور آہستہ آہستہ مسلنے لگا۔
                    .
                    جیسے ہی میں اُسکے نپل کو مسلتا باجی اپنی زبان کو میرے منہ چاروں اور گھوماتی، اُسکے ناخن اُسکی پیٹھ پر گڑ جاتے۔
                    .
                    باجی کو محسوس ہوتا کہ میرا کھڑا لنڈ اُسکی پھدی کے اوپر سے ٹٹول رہا۔
                    .
                    وہ اپنی رانوں کو اور اُسکی رانوں سے سٹا دیتی۔
                    .
                    میں نے اب اپنا دوسرا ہاتھ بھی اُسکی دوسرے ممے پر رکھ دیا۔
                    .
                    اُسکی دونوں ممے کو پکڑ اپنے اور کھینچتے ہوئے میں اُنہیں مسلنے لگا۔ باجی کے منہ سے ہلکی سی سسکاری پھوٹنے لگی۔ اُسکی چوت لذت میں گیلی ہو چکی تھی۔
                    .
                    "اوہ بھا۔۔آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" باجی سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اُسکی چوت میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنا ہاتھ گرم لنڈ پر رکھ دیا۔
                    .
                    "آہ۔۔۔۔۔۔۔۔" لنڈ کی گرمی پا اُسکی پھدی اور سلگ اُٹھی۔
                    .
                    "آہ میں کتنا اچھا لگ رہا ہے۔" کہ کر وہ اپنی اُنگلیاں میرے لنڈ پر اُوپر سے نیچے پھیرانے لگی۔ اُسے محسوس ہوا کہ میرا لنڈ اور تنا جا رہا ہے ساتھ ہی اور لمبا بھی ہو رہا تھا۔ اُسکی موٹائی کو ماپتے ہوئے اُس نے اپنی ہتھیلی لنڈ کے چاروں طرف جکڑ لی۔ پھر نیچے کی طرف کرتے ہوئے اُسکی گولیاں سے کھیلنے لگی۔ کبھی ایک گولی کو لے دباتی تو کبھی دوسری کو۔
                    .
                    میں اب اُسکی گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں بھر مسل رہا تھا پھر اُس نے اپنی ہتھیلی کو اُسکی پھدی پر رکھ دبانے لگا۔
                    .
                    "آہ راجا آہ۔" باجی سسکتے ہوئے لنڈ کو اور زور سے دبانے لگی۔
                    .
                    میں نے اپنی اُنگلیوں سے اُسکی پھدی کو کھولا اور اپنی دو اُنگلیاں اُسکی پھدی میں گھسا دی۔ پھدی گیلی ہونے سے اُسکی اُنگلیاں آسانی سے اندر چلی گئی۔ باجی کا جسم کنپ اُٹھا۔ جیسے ہی میری اُنگلیوں نے اُسکی پھدی کے اندرونی حصوں کو سہلایا وہ سہر اُٹھی۔
                    .
                    "آہ میں اب نہیں رہا جاتا۔۔۔۔۔پلیز اپنے لنڈ کو میری پھدی میں ڈال دو۔۔۔۔۔پلیز۔"
                    .
                    "سہی میں سم ای۔۔۔" میں اُسکی پھدی کو اور زور سے دباتے ہوئے بولا۔ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ آج ایک ساتھ سارے خواب پورے ہو رہے تھے۔
                    .
                    باجی نے میرے لنڈ کو آزاد کر دیا۔ میرا لنڈ اب اُسکی ننگی پھدی کو چھو رہا تھا۔
                    .
                    میں نے اپنے لنڈ کو پکڑا اور اپنی بہن کی ملائم اور گیلی چوت پر رگڑنے لگا۔
                    .
                    "اوہ بھائی۔۔۔ اوہ۔۔۔"
                    .
                    کھڑے کھڑے میرا لنڈ باجی کی پھدی میں نہیں گھس سکتا تھا پھر بھی میں اپنے لنڈ کو باجی کی پھدی پر گھستے ہوئے اُسکی رانوں میں اندر کرتا اور پھر باہر کھینچتا۔ لنڈ کا پھدی کے اوپر پھسلن سے باجی کی پھدی اور پانی چھوڑنے لگی تھی۔
                    .
                    "آہ میں اب مت تڑپاؤ نا نہیں رہا جاتا پلیز گھسا دو نا میں مر جاؤں گی۔"
                    .
                    باجی گڑگڑا رہی تھی۔ میں اُسے باہوں میں لیے لیے بیڈ پر آیا۔
                    .
                    باجی نے اپنے سر کو کھڑکی میں لگے شیشے پر ٹیکا دیا اور اپنی کمر کو تھوڑا اُوپر اُٹھا میرا لنڈ لینے کے لیے تیار ہو گئی۔
                    .
                    میں نے پہلے تو اپنے لنڈ کو اُسکی پھدی پر تھوڑا پھسلا جس سے لنڈ گیلا ہو جائے پھر اُسکی پھدی کی پنکھڑیوں کو تھوڑا پھیلا اپنے لنڈ کو آہستہ سے اُسکی پھدی کے اندر گھسا دیا۔
                    .
                    "آہ میں کتنا اچھا لگ رہا ہے۔۔۔" باجی سسک پڑی۔
                    .
                    "تم ٹھیک تو ہو نا باجی؟" میں نے پوچھا۔
                    .
                    "مممممم رکو مت۔"
                    .
                    میں نے ایک دھکا مارا اور میرا لنڈ باجی کی کنواری جیسی ٹائٹ پھدی کو چھیرتا ہوا اندر گھس گیا۔ میں نے ایک زور کا دھکا مارا تو وہ باجی کی پھدی کو پھاڑتا ہوا اور اندر تک گھس گیا۔ لنڈ اُسکی بچیدانی میں ہِٹ کر رہا تھا۔ اور پھدی کی گہرائیوں میں۔۔۔ چلا گیا۔ "ہاں اوہ" درد اور خوشی کے مختلف آنسو اُسکی آنکھوں سے بہ اُسکی گالوں تک آ گئے۔ میں اپنے لوہے جیسے لنڈ کو اور زور لگایا تو لنڈ اور اندر تک چھیرتے ہوئے سیدھے باجی کی پھدی کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ باجی کی پھدی کی دیواروں نے میں لنڈ کو جگہ دیتا ہوئے اپنی پکڑ میں جکڑ لیا۔
                    .
                    میں بھی لذت کی لو میں بہ چلا تھا۔ باجی کی پھدی کسی بھٹی سے کم نہیں تھی۔ اُسکی پھدی کی گرمی اور پھدی کی پکڑ اُسکے لنڈ کو تنا تی جا رہی تھی۔
                    .
                    میں اپنی پیاری بہن کو پیار کر رہا تھا۔ آج دو جوان دل دو جسم ایک جان ہو رہے تھے۔
                    .
                    دلوں کے ساتھ ساتھ جسموں کا بھی ملاپ ہو رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو جسم اور جان سے پیار کر رہے تھے۔ میرے ہر دھکے پر باجی پیار میں سسک اُٹھتی اور اُسکی پھدی میں میرے لنڈ کو اور اندر تک لے لیتی۔ دونوں کے اس پیار بھرے چھانوں کو الفاظ میں نہیں لکھا جا سکتا صرف احساس کیا جا سکتا تھا۔ جب میرا لنڈ اُسکی پھدی کے گہرائیوں کو چھوتا تو اُسکی آنکھیں اور خوشی سے اُبل پڑتی۔ آج عرصے بعد کسی مرد کے لنڈ کو اُسنے اپنی پھدی میں لیا تھا وہ بھی اپنے پیارے بھائی کا۔
                    .
                    اپنی آنکھوں سے بہے نمکین آنسووں کو اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے وہ میرے دھکوں کا ساتھ دینے لگی۔ اپنی کمر کو اُسکے ہر دھکے کے ساتھ ملانے لگی۔ میرے لنڈ کی نسوں تننے لگی تھی اور گولیوں میں اُبل اُٹھ رہا تھا۔ اُسے اب اپنے آپ کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی جان، اپنی بہن کی آنکھوں میں جھانکا۔
                    .
                    "بس قریب ہوں میں۔" وہ آہستہ سے پھسپھسائی۔
                    .
                    میں اور زور سے دھکے مارنے لگا۔ ہر دھکے پہلے دھکے سے زیادہ پیار بھرا ہوتا۔ باجی کا جسم اکڑا اور اُسکی پھدی جیسے کسی لاو کی طرح فٹ پڑی۔ پانی دار پانی چھوڑنے لگی۔ اُسکی سسکاریاں اب ہلکی سبکی میں بدل گئیں۔ خوشی اور لذت میں اُسکے جسم کو جکڑ لیا۔
                    .
                    پریم کا رس پھدی میں بہ رہا تھا۔ میرا بھی چوٹنے والا تھا۔ باجی کی کمر کو پکڑ میں اور زور سے دھکے لگا رہا تھا۔ میں اپنے لنڈ کو باہر کھینچتا اور جب صرف سپادا اندر رہ جاتا تو جوہر سے اُسے پھدی کی گہرائیوں تک گھسا دیتا۔ "ہاں میں ایسے ہی اندر تک گھساو۔۔۔۔ اوہ میں چھوڑ دو اپنا پانی میری پھدی میں۔۔۔۔۔ میں تمہاری منی کی دھار کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ آج نہلا دو میری پھدی کو بھر دو اسے اپنے پانی سے میرے پیارے بھائی۔۔۔۔ میرے سائیاں۔"
                    .
                    میں نے ایک اور دھکا مارا اور اُسکی منی اُسکی گولیوں سے ہوتا ہوا اُسکی نسوں کو اور تناتا ہوا نکال پڑا۔ لنڈ سے ایسی پچکاری چھوٹی کی میں نے خوشی کے مارے باجی کو اور کس کر پکڑ لیا۔ اپنے لنڈ کو تب تک اندر گھسائے رکھا جب تک اُسکی گولیوں میں ایک بھی بوند باقی نہیں بچی تھی۔ لنڈ کے پچکاری کی دھار باجی کے بچیدانی پر پڑی۔
                    .
                    میں پیار سے اپنی بہن کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا،
                    .
                    "i love you baji"
                    .
                    میں نے چومتے ہوئے کہا۔
                    .
                    "i love you too"
                    .
                    باجی آہستہ سے بول پڑی۔ خوشی سے اُسکی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔
                    .
                    میں نے اسے اپنے نیچے پڑے ہوئے دیکھا تو نم آنکھوں سے میری طرف مسکرا رہی تھی۔
                    .
                    اس کا بدن پسینے سے شرابور مجھے دعوت دے رہا تھا کہ میں اسے سہلاؤں اور مزید پیار کروں۔
                    .
                    میری نظر اس کے پیٹ پر پڑی جس کی گہرائیوں کے اندر میں نے کچھ لمحے پہلے اپنے پیار کا بیج انڈھیلا تھا۔
                    .
                    جانے کیوں میں نے اچانک کہا۔ باجی اب آپ کو میرے بچے کی ماں بننا ہوگا۔
                    .
                    مجھے تھوڑا سا فیل ہوا کہ باجی یہ نہ سوچیں کہ ابھی آج ہی تو ہمارے پیار کی شروعات ہوئی ہے، کس بات کی جلدی پڑی ہے۔
                    .
                    مگر میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب جواب میں باجی نے میری طرف دیکھ کر صرف مسکرایا اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے اپنے پیٹ پر رکھ دیا۔ جیسے اشارے سے کہہ رہی ہو کہ وہ ابھی سے یہ ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
                    .
                    اور پھر یہ بات کچھ ہی دنوں میں سچ ہو گئی۔
                    .
                    میری باجی کو الٹیاں ہونے لگیں اور میں سچ میں اپنے کو بہت خوش نصیب سمجھنے لگا۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (1 members and 0 guests)

                    Amel
                    Working...
                    X