Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

‎ہنی مون

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story ‎ہنی مون


    ‎میرا نام روبینہ ہے. میری عمر پچیس سال ہے. حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور میں اپنے خاوند کے ہمراہ ہنی مون پر ہوں. میرا تعلق نسبتاً امیر گھرانے سے ہے اور جہاں میری شادی ہوئی ہے وہ ہم سے بھی زیادہ امیر ہیں. میں بچپن سے اچھے تعلیمی اداروں سے پڑھی ہوں. ہمارے گھر کا ماحول بھی کافی آزادانہ ہے. اس سے میری مراد یہ ہے کہ خیالات اور رہن سہن ایسا ہے جیسا ایلیٹ کلاس کے گھرانوں کا ہوا کرتا ہے. اتنے ماڈرن ہونے کے باوجود شادی کے بعد مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز ملا. میں لباس میں ہمیشہ جینس اور شرٹ پسند کرتی تھی. کالج اور یونیورسٹی میں بھی میرا لباس یہ ہی تھا. لڑکوں سے دوستی بھی تھی لیکن ایک حد تک. میں نے کبھی کسی کو حد کراس نہیں کرنے دی. ایسا اس لئے کے مجھے معلوم تھا کہ اگر میں نے کوئی ایسا قدم اٹھا لیا تو پھر واپسی ممکن نہیں ہو گی. پارٹیوں میں جانا میرا معمول تھا. ویکینڈز پر ایسی پارٹیاں بھی ہوتی تھیں جہاں شراب نوشی اور دیگر نشہ اور چیزیں عام چلتی تھیں. میں نے بھی کی مرتبہ شراب پی تھی لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا تھا کہ نشے میں آوٹ نا ہو جاؤں. سگریٹ نوشی بھی دوستوں کے ہمراہ چلتی رہتی تھی. یہ تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ سب کو اچھی طرح سے اندازہ ہو جائے کہ میرا لائف سٹائل کیسا تھا. ایسے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے میں یہ سمجھتی تھی کہ مجھ سے زیادہ ماڈرن شاید ہی کوئی ہو اس ملک میں.

    ‎میری شادی بھی انتہائی ماڈرن سیٹنگ میں ہوئی تھی اور میں نے اپنے شوہر کے ہمراہ اسٹیج پر ڈانس بھی کیا تھا. مجھے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ میرا شوہر بھی میری طرح آزادانہ خیالات کا ملک ہے اور وہ مجھ پر کسی قسم کی پابندیاں لگانے سے گریز کرے گا. ویسے تو میں رتی برابر پریشان نہیں تھی کیوں کہ مجھے اپنی طبیعت کا بھی پتہ تھا. اگر شوہر مجھ پر پابندیاں لگاتا تو میں نے برداشت ہی نہیں کرنی تھیں. میں ان عورتوں میں سے تو تھی نہیں کہ اپنا گھر بچانے کی خاطر میں سری زندگی شوہر کی فرمانبردار بن کر رہتی. خیر، شادی خوب دھوم دھڑکے سے ہوئی. سب رسمیں ہوئیں. سہاگ رات بھی منا لی. اگلے دن معلوم ہوا کہ میرے شوہر شہریار نے ہنی مون کے لئے جرمنی کی ٹکٹس پہلے ہی خرید رکھی ہیں. میں پاکستان سے باہر کی مرتبہ سفر کر چکی تھی لیکن جرمنی کبھی نہیں گیی تھی. شائد شہریار کو بھی اس بات کا پتہ تھا تب ہی اس نے جرمنی کا انتخاب کیا تھا. میرا ویزہ لگنے میں ایک ہفتہ لگا اور ہم ویزہ لگتے ہی جرمنی روانہ ہو گئے. کراچی سے برلن کا سفر سات گھنٹے سے زیادہ وقت میں طے ہوا. وقت کے فرق کی وجہ سے جب ہم وہاں پہنچے تو صبح صادق کا وقت تھا. برلن کے مغربی حصّے میں ہمارا ہوٹل تھا. شائد میں ان تفصیلی باتوں سے آپ سب کو بور کر رہی ہوں لیکن معذرت چاہتی ہوں کہ میرے لکھنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے. جب تک باریک سے باریک باتیں بیان نہ کر دن مجھے لگتا ہے کہ میری تحریر معیاری نہیں ہے. امید ہے آپ لوگ غصہ نہیں کریں گے.

    ‎ائیرپورٹ سے ٹیکسی لے کر ہم ہوٹل پہنچے اور کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر گر گئے. تھکاوٹ کے باوجود ایک دوسرے سے لپٹنے پر شہوت بھڑک اٹھی اور ہم نے سیکس کیا. ویسے یہ بتاتی چلوں کہ میرا تجربہ ہے کہ سیکس کا اصل مزہ صبح کے وقت آتا ہے جب آپ سو کر اٹھیں. یہ بات نہیں کہ رات کو مزہ نہیں آتا، آتا ہے لیکن اگر صبح کو دس گنا زیادہ مزہ آتا ہے. پتہ نہیں وجہ کیا ہے. ہم دونوں سیکس کر کے ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے. آنکھ کھلی تو لنچ کا وقت تھا. ہم نے اکٹھے غسل کیا اور اور ہوٹلکی لابی میں لنچ کر کے روانہ ہو گئے. اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ ہماری اگلی منزل کہاں ہے. شہریار سے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں لیکن اس نے بھی بس یہ ہی کہا کہ تھوڑا صبر کرو. مجھے بے چینی تو تھی لیکن یہ بے چینی جلد ہی شدید حیرانی میں بدل گی جب ہم اپنی منزل پر پہنچے. ہماری منزل سٹرانڈ بینڈ وانسی جھیل تھی. ابھی ہم جھیل کے ساحل تک پہنچے نہیں تھے کیوں کہ ٹیکسی نے ہمیں سرک پر اتارا تھا اور یہاں سے آدھ کلومیٹر پیدل واک تھی. جھیل کے ساحل پر لوگ دھندلے سے نظر آ رہے تھے. یہ گرمیوں کا موسم تھا. شہر یار نے پنٹس کی بجے شارٹس پہنے تھے اور ٹی شرٹ پہنی تھی. میں نے بھی بغیر بازوں والی ٹی شرٹ پہنی تھی لیکن جینز پہنی تھیں جو کے ٹخنوں سے کچھ اپر تک تھی. جیسے جیسے ہم ساحل کے قریب ہوتے گئے ویسے ویسے ہر چیز واضح ہوتی گی. یہ گروبر جھیل کا مشرقی کنارہ تھا. شائد اپ سوچ رہے ہوں کہ جھیل میں ایسی کیا خاص بات ہو سکتی ہے لیکن خاص بات تو تھی اس جھیل میں. میں کراچی کا سمندر ہزاروں بار گھوم چکی تھی اور منوڑا، ہاکس بے، کلفٹن، سی ویو سب جگہیں میری دیکھی بھالی تھیں. وانسی جھیل ان سب جگہوں سے مختلف اور بہتر تھی. جھیل کے کنارے کیبن بنے ہوے تھے. اسی ترتیب میں آگے شاور لگے تھے. ایک سائیڈ پر واشرومز بنے ہوے تھے. کیبن اور واشروم تو ٹھیک لیکن میں کھلے میں شاور دیکھ کر حیران ہوئی لیکن میری اس حیرانگی کی جگہ ایک اور حیرانگی نے لے لی لوں کہ جو نظارہ میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں مجھے اس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا. جھیل کے کنارے بے شمار لوگ تھے. تا حد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے. ننگے لوگ. بچے، بوڑھے، جوان، مرد، خواتین. سب کے سب ننگے. میں جو اپنے آپ کو اتنی ماڈرن سمجھتی تھی، شرم کے مارے نظریں جھکا کر شہریار سے کہنے لگی کہ واپس چلیں یہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں ۔(جاری ہے )

  • #2
    Ache tehreer hay

    Comment


    • #3
      Acha aghaaz hai

      Comment


      • #4
        آگاز بتا رہا ہے کہ یہ شاہکار کہانی ہو گی زبردست سیکسی گرم مصالحہ ہ

        Comment


        • #5
          Acha aghaaz hai

          Comment


          • #6

            ‎کوئی مانے یا نہ مانے، مشرقی لڑکی جتنی بھی ماڈرن ہو جائے، مغربی لڑکی سے مقابلہ نہیں کر سکتی. مشرقی سے میری مراد پاکستانی، بھارتی، بنگلادیشی لڑکیاں ہیں. میں اپنے آپ کو اتنی ماڈرن سمجھتی تھی. سکن ٹائٹ جینز پہن کر مالز میں گھومنا، اور لڑکوں سے کھلم کھلا ہر قسم کی بات چیت کر کے میں سمجھتی تھی کہ میں نے موڈرنزم کی ہر حد پار کر دی ہے اور لڑکے مجھے دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں لیکن شہریار کے ساتھ اس جھیل کے کنارے پہنچ کر میں یہ سوچ رہی تھی کہ جہاں میرا موڈرنزم ختم ہوتا ہیں، ان مغربی خواتین کا موڈرنزم تو اس کے بھی بعد کہیں شروع ہوتا ہے.

            ‎شہریار میرے اسرار کے باوجود واپس جانے کی بجاے مجھے سمجھنے لگا کہ وہ پہلے سے ہی یہاں ایک کیبن بک کروا چکا ہے. میری نیی نیی شادی ہوئی تھی اور میں شادی کے شروع کے دنوں میں ہی اپنے شوہر سے لڑائی تو مول نہیں لینا چاہتی تھی. شہریار نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے کپڑے اتار کر نہاتے ہیں اور حکومت کی طرف سے انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے. میں حیرانی سے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی تو شہریار نے مجھے ٹوکا کہ ایسے نہ دکھوں کیوں کہ ایسے گھورنے سے ہو سکتا ہے کوئی برا مان جائے. پاکستان میں تو مجھے ذاتی تجربہ تھا مردوں کی نگاہوں کا مرکز بننے کا اور سچی بات ہے کہ بہت برا لگتا تھا. شہریار کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ یہاں ہر ایک کو ننگا ہونا پڑے. یہ ہر ایک کی اپنی مرضی پر منحصر ہے. میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا کرنے کا. شہریار اور میں کیبن میں آ گئے. میں کسی حد تک اپنے آپ کو سنبھال چکی تھی اور اب حیرت کم ہو گئی تھی کیوں کہ حیرت کی جگہ تجسس نے لے لی تھی. میں شہریار سے سوال کیے جا رہی تھی اور وہ میرے سوالات کا جواب دے جا رہا تھا. ایک بات میں نے محسوس کی تھی کہ وہاں کپڑوں میں صرف میں ہی تھی. باقی سب کے سب یا تو ننگے تھے یا پھر چند مردوں اور خواتین نے انڈر ویر پہن رکھے تھے. شہریار نے مجھ سے کہا کہ اگر ہم یہاں یں اور بغیر نہاے واپس جایئں تو اس سے بڑی بدقسمتی نہیں ہو سکتی. میں نے پہلے تو صاف انکار کر دیا کہ میں ان ننگے لوگوں کے ساتھ کیسے نہ سکتی ہوں. بیشک میں نے کپڑے پہنے ہیں لیکن وہ سب تو ننگے ہیں نہ. میں خود تو نہانے پر تیار نہ ہوئی لیکن شہریار کو نہانے سے روکنا بھی غلط محسوس ہو رہا تھا


            ‎مجھے وہ وقت بھی یاد تھا جب پہلی بار مجھے ماہواری آنی شروع ہوئی تھی. تب بھی میں نے اپنی امی سے یہ کہا تھا کہ امی میری اس جگہ سے خون نکل رہا ہے. امی کے پوچھنے پر بھی کہ کس جگہ سے میں بس یہ ہی کہ پائی تھی کہ جہاں سے سوسو نکلتا ہے. شہریار کے پہلو میں لیٹے ہوے اب میں یہ سوچ رہی تھی کہ آخر ان چیزوں کے نام لینے میں کیا برائی ہے. یہ سب تو قدرتی چیزیں ہیں. میرے پاس اپنے ذہن میں آنے والے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا. انہی سوچوں میں گم نہ جانے کب میری آنکھ لگ گیی.

            ‎اگلے دن شہریار کے کسی دوست کے ہاں ہماری دعوت تھی. سارا دن ہم نے تفریح کی اور رات کو ان کے گھر پہنچ گئے. مجھے شہریار نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس کے دوست کی فیملی عملی طور پر نیو ڈسٹ ہیں اور کافی عرصے سے یہ تض زندگی اختیار کے ہوے ہیں. انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی طرز پر کی ہے. ساری رات کی سوچ بچار اور شہریار سے کھل کر اس موضوع پر بات چیت سے اب میرا ذہن اس طرز زندگی کی لاجک سے آشنا ہو چکا تھا. اگرچہ میں اب بھی اس بات کے لئے ہر گز تیار نہیں تھی کہ کوئی بھی مجھے مکمل برہنگی کی حالت میں دیکھے لیکن دوسرے لوگوں کو برہنگی کی حالت میں دیکھنا اب اتنا ناگوار محسوس نہیں ہو رہا تھا. دراصل میرے ذہن میں برہنگی کا ایک ہی مقصد تھا یعنی سیکس. آج تک جب بھی برہنہ لوگوں کو دیکھا تھا، انہیں پورن فلموں میں مباشرت کرتے ہی دیکھا تھا. لہٰذہ قدرتی طور پر میرے ذہن کا ننگے پن کو مباشرت سے منسوب کرنا لازمی امر تھا. شہریار نے میری باتوں کو تحمل سے سنا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ جب اس نے پہلی بار مجھے یہ بات بتائی کہ ننگے ہونے کا مقصد صرف سیکس ہی نہیں ہوتا تو میں خوب ہنسی تھی اور اسکا مذاق بنایا تھا. شہریار کا تحمل ہی تھا کہ اس نے میری مضحکہ خیز باتوں کو برداشت کیا.

            ‎بہرحال، رات کو جب ہم شہریار کے دوست مارٹن کے گھر پہنچے تو ڈور بیل دینے پر انجیلا نے دروازہ کھولا. انجیلا مارٹن کی بیوی تھی. انجیلا مکمل ننگی تھی اور اس نے گود میں اپنی بیٹی کو اٹھا رکھا تھا جس کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال کے قریب لگتی تھی. وہ بھی مکمل ننگی تھی. اس نے نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا. جرمن لوگوں کا ملنے کا طریقہ ہمارے یہاں سے مختلف ہے. پاکستان میں تو خواتین صرف خواتین سے ہی ہاتھ ملتی ہیں لیکن جرمنی میں خواتین اور مردوں کی تمیز کے بغیر سب ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں. اگر ملنے والے لوگوں کا درمیان بےتکلفی ہو تو ایک دوسرے کے گال پر بوسہ بھی دیتے ہیں. انجیلا نے البتہ صرف ہینڈ شیک پر ہی اکتفا کیا. ہاتھ ملانے کے بعد اس نے مارٹن کو آواز دی. مارٹن بھی ایسے ہی ننگ دھڑنگ ڈرائنگ روم سے باہر آ کر ہم سے ملا. میری نظریں خود بہ خود نیچے کی طرف تھیں. ہاتھ ملاتے وقت تو میں نے انجیلا اور مارٹن کی آنکھوں میں دیکھا تھا لیکن اس کے بعد سے میری نظریں مسلسل زمین میں گڑی تھیں. انہوں نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا جہاں انکا بڑا بیٹا جوزف ٹیلی ویژن پر کارٹون دیکھ رہا تھا. جوزف کی عمر چار سال تھی. جوزف اور انجیلا ایکصوفے پر بیٹھ گئے جبکہ میں اور شہریار دوسرے صوفے پر. شہریار کو تو وہ لوگ پہلے سے جانتے تھے اسلئے کافی حد تک بے تکلفی سے باتیں ہونے لگیں. میری جھکی نظروں کو البتہ زیادہ دیر تک وہ لوگ نظر انداز نہ کر سکے. شہریار نے میرا طرف کرواتے ہوے انہیں بتا دیا تھا کہ میں سری عمر پاکستان میں ہی رہتی آیی ہوں اس لئے میرے روئے سے اگر انہیں نا گوری کا احساس ہو تو برا نہ مانیں. ننگے تو وہ دونوں تھے لیکن شرم مجھے آ رہی تھی. پہل انجیلا نے کی. اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ روبینہ شائد آپ ہمیں دیکھتے ہوے شرما رہی ہیں. میرے پاس جواب میں کہنے کو کچھ نہیں تھا کیوں کہ سچ تو یہی تھا کہ میں شرما رہی تھی لیکن کب تک. ایسے کسی کے گھر جا کر نظریں جھکا کر بیٹھنا ویسے بھی مروجہ آداب کے خلاف ہے. مجھے بلا آخر اپنی نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا ہی پڑا. میں نے انہیں بتایا کہ میرا تعلق جس جگہ سے ہے وہاں پر لوگ برہنہ پن کو غلط کاموں سے منسوب کرتے ہیں اسلئے میری شرم فطری ہے اور اس پر برا نہ منایا جائے. میں نے اگرچہ انجیلا کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کی تھی لیکن نظریں ایک ہی جگہ مرکوز رکھنا مشکل تھا اور نہ چاہتے ہوے بھی میری نظریں ہر اس جگہ پر گئیں جہاں دیکھنے سے میں احتراز برت رہی تھی. جی ہاں، آپ درست سمجھے. انجیلا اور مارٹن دونوں ہی بہت ملنسار لوگ تھے. بجے برا ماننے کے وہ لوگ تو اس وجہ سے فکر مند تھے کہ کہیں ان کے مہمان کو کسی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے. میں متاثر ہوے بغیر نا رہ سکی. مارٹن نے بات کو آگے بڑھتے ہوے کہا کہ میری بات درست ہے اور واقعی آغاز میں ننگے پن سے مانوس ہونا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے. مارٹن کی بات کو سپورٹ کرتے ہوے انجیلا نے تجویز پیش کی کہ اگر میں چاہوں تو وہ دونوں کپڑے پہننے کے لئے تیار ہیں. اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا. یہ لوگ تو مہمان نوازی کی ہر حد کراس کرتے جا رہے تھے. انجیلا نے یہ تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ وہ سمجھ رہی تھی کہ میزبانوں اور مہمانوں کے درمیان یہ تناؤ اسلئے بھی ہے کہ میزبانوں نے کچھ بھی نہیں پہنا جبکہ مہمان مکمل لباس میں ملبوس بیٹھے ہیں اور اس تناؤ کو دور کرنے کے لئے یا تو میزبانوں کو کپڑے پہن لینے چاہئیں یا پھر مہمان بھی کپڑے اتار کر ننگے ہو جایئں. اس سے چونکہ دونوں پارٹیاں ایک ہی حالت میں آ جایئں گی تو تناؤ اور شرم قدرتی طور پر ہی اپنے آپ ختم ہو جائے گا. اب ظاہر ہے کہ مہمانوں کو کپڑے اتارنے کی تجویز دینا تو غیر مناسب تھا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ مہمان پہلے ہی ننگے پن سے شرم محسوس کر رہی ہو. بہرحال، اسکی تجویز پر میں دل میں بہت شرمندہ ہوئی. یہ سوچ بھی میرے ذہن میں بار بار آ رہی تھی کہ شہریار کو بھی میری وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ان سب سوچوں کے جنجھٹ سے چھٹکارا پانے کے لئے میں نے وہ فیصلہ کیا کہ جسکی توقع مجھے اپنے آپ سے بھی کبھی نہیں تھی. میں نے انجیلا کی بات کے جواب میں اسے کہا کہ انہیں کپڑے پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ کسی مہمان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے گھر جا کر ان کا رہن سہن کا طریقہ تبدیل کرے بلکہ مناسب یہ ہے کہ مہمانوں کو میزبانوں کے رنگ میں ڈھال جانا چاہئے کم از کم جب تک وہ مہمان ہیں تب تک لہٰذہ شہریار اور میں بھی اپنے کپڑے اتار دیتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کر سکیں کسی رکاوٹ کے بغیر. میری تجویز پر نہ صرف مارٹن اور انجیلا خوش ہوے بلکہ شہریار کے چہرے کے تاثرات بھی دیدنی تھے. اس نے میری طرف پیار سے دیکھا اور میں نے اس کی نظروں سے بھانپ لیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے. ایسا لگتا تھا جیسے وہ آنکھوں سے کہ رہا ہو کہ روبینہ! مجھے تم پر فخر ہے (جاری ہے )

            Comment


            • #7
              Lajwab story hai

              Comment


              • #8
                واہ کیا کمال کی سٹوری ہے زبردست

                Comment


                • #9
                  واہ بھائی آغاز سے ہی چھا گئے ہو بہت زبردست

                  Comment


                  • #10
                    واہ بھائی آغاز سے ہی چھا گئے ہو ببہت زبردست کہانی ہے۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X