Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

‎ہنی مون

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    زبردست جناب ​
    بہت زبردست کہانی ہے​

    Comment


    • #22
      Zabardast aghaz he

      Comment


      • #23
        کہانی بہت زبردست جا رہی ہے

        Comment


        • #24
          بہت ھی اعلی اپڈیٹ ہے۔۔ زبردست

          Comment


          • #25
            بہت شہوت انگیز کہانی ہے اور موضوع نہایت منفرد ہے

            Comment


            • #26

              ‎مارٹن، انجیلا اور ان کے دونوں بچوں کے ہمراہ ساحل سمندر کی سر میری زندگی کے چند منفرد ترین واقعات میں سے ایک ہے. اس ایک واقعے نے میری آنے والی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے. ہر ایک انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا ان کی انفرادی زندگیوں پر اثر نہ قابل زائل ہوتا ہے. ایسے واقعات خوشگوار بھی ہوتے ہیں اور نا خوشگوار بھی. میرے لئے تو یہ واقعہ خوشگوار ہی تھا. اس واقعے نے میرے ذہن میں نیوڈ زم سے متعلق تمام شکوک شبھات رفع کر دیے اور میں نے دل و جان سے اپنی بقیہ زندگی نیو ڈزم کے مطابق گزارنے کا تہیہ کر لیا. شائد میرا بیان کرنے کا طریقہ اتنا مسحور کن نہیں ہے یا پھر شائد اس قسم کے واقعات کو بیان کرنا ہے ہی مشکل کیوں کہ میں اپنے جذبات کا مکمل عکس اور بیتے واقعات کا سو فیصد احوال اس تحریر میں نہیں ڈھال پا رہی. اگر باریک سے باریک تفصیل بیان کروں تو آپ لوگ بور ہوتے ہیں، نا کروں تو پھر لکھنے کا مزہ نہیں آتا. بہرحال، کوشش یہی ہے کہ مختصر طور پر ہی کچھ لکھ ڈالوں. ادھوری کہانی نا پڑھنے والوں کو پسند آتی ہے نا ہی لکھاری کو.

              ‎چھٹی کا دن تھا. انجیلا اور مارٹن نے ہمیں گھر سے پک کیا. ان کے پاس ایس یو وی گاڑی تھی جس میں کار سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے. میں اور انجیلا پچھلی سیٹ پر جوزف کے ساتھ بیٹھ گئیں. چھوٹی بیٹی کو وہ اپنے ساتھ نہیں لے کر آے تھے بلکہ گھر پر ہی اس کے لئے بے بی سٹر کا انتظام کر دیا تھا. جوزف بہت ہی کیوٹ بچہ تھا. میں نے اس سے ہاتھ ملانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا لیکن وہ تو آگے بڑھ کر مجھ سے لپٹ ہی گیا. یاد رہے کہ ہم سب ننگے ہی تھے. جرمنی میں ننگے ہو کر سڑکوں پر گھومنا تو ممنوع ہے لیکن اپنی گاڑی کے اندر آپ ننگے رہ سکتے ہیں خواہ باہر سے نظر ہی کیوں نا آے. جوزف کی اس جپھی نے میرے پورے جسم میں جنجھناہٹ کی ایک لہر پیدا کر دی تھی لیکن میں نے فورا ہی اپنے آپ کو سنبھالا اور چہرے پر ایسے تاثرات نا آنے دیے جن سے پتہ چلتا کہ بچے سے گلے ملنے پر ہی میں خود پر قابو نا رکھ سکی. میرے نپلز اگرچہ سخت ہو گئے تھے. باتیں کرتے کرتے وقت کا پتہ بھی نا چلا اور ہم پہنچ بھی گئے. پہلی بار مجھے پتہ چلا کہ ساحل سمدر پر پکنک کیسے منائی جاتی ہے. کراچی کے ساحل پر سینکڑوں مرتبہ جانے کے باوجود کبھی پنڈلیوں سے اوپر کے کپڑے گیلے نہیں ہونے دیے تھے. بچپن کی بات الگ تھی. تب تو ہم سب کزنز سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہی کپڑے اتار دیتے تھے اور صرف ایک نیکر میں لہروں کے پانی سے خوب کھیلتے تھے. بڑے ہونے پر ایسے اچھل کود تو ختم ہو گئی اور ہماری پکنک بس یہ ہی رہ گئی کہ سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اور پاؤں بھگو کر دل کو تسلی دے دیتے. ویسے میرے دل کے کسی نہاں خانے میں یہ خواہش تو تھی کہ کہ بچپن کی طرح پھر سے سمندر کی لہروں سے کھیل سکوں. شائد یہ خواہش پوری ہونے کا وقت آ گیا تھا. ہم نے گاڑی سے ٹینٹ نکل کر لگایا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی. پھر انجیلا نے سن برن سے بچنے کے لئے کریم دی. اس نے جوزف اور مارٹن کے جسم پر کریم لگائی اور پھر مارٹن نے انجیلا کے پورے جسم پر. میں سب کے سامنے شہریار کے جسم پر کریم لگانے سے ہچکچا رہی تھی. شہریار نے یہ بات بھانپ لی اور کریم میرے ہاتھ سے لے کر میرے جسم پر لگانے لگا. اف. شہریار کے ہاتھوں کا لمس میرے لئے اجنبی نہیں تھا لیکن ایسے سب کے سامنے کریم لگانے سے میں کسی حد تک گرم ہونے لگی تھی. خاص طور پر جب اس نے میرے مموں، پھدی اور کولہوں پر کریم کا مساج کیا تو میں نے بہت مشکل سے اپنے منہ سے نکلنے والی آہ کو روکا تھا. شہریار کے جسم پر میں نے کریم کا مساج کیا لیکن اس کے ساتھ عجیب مسلہ تھا. اس دن مارٹن اور انجیلا کے گھر میں بھی اس کا لنڈ مجھے سب کے سامنے ننگی دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور آج بھی وہی ہوا. میں نے جب لنڈ پر کریم لگانے کے لئے ہاتھ لگایا تو لنڈ ایسے تیزی سے کھڑا ہوا کہ میں خود حیران رہ گئی. مارٹن اور انجیلا بھی مسکراے بغیر نا رہ سکے. مسکراہٹ تک تو بات ٹھیک تھی شہریار بیچارہ شرمندہ سا ہو رہا تھا. میں نے جلدی جلدی کریم کا مساج کیااور ہم لوگ وہیں ٹینٹ کے نیچے لیٹ گئے. میں تو سمجھ رہی تھی کہ اب شائد سمندر میں نہایں گے لیکن اگر کریم لگانے کے بعد نہاتے تو کریم لگانے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا تھا. ایسے لیٹنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لیٹے لیٹے وقت ضایع کیا جائے بلکہ مجھے مارٹن اور انجیلا کی زبانی معلوم ہوا کہ اس طرح لیٹنے کا مقصد یہ ہے کہ جسم کو دھوپ اور موسم سے ہم آہنگ کیا جائے. وہ دونوں تو پہلے سے نیو ڈسٹ تھے لیکن میں چونکہ پہلی بار اس طرح سے دھوپ میں ننگی ہی تھی اس لئے میرے جسم پر دھوپ کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ تھا. دراصل جب جسم کو کپڑوں میں ملبوس رکھا جائے اور ایسا سالہاسال تک کیا جائے تو جسم اپنے آپ کو کپڑوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور ایسے میں اچانک ننگا پن جسم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کئی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے. اس لئے احتیاتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے. خاص طور پر جسم کے وہ حصے جن پر ہم سری زندگی دھوپ لگنے ہی نہیں دیتے، ان حصوں کے لئے یہ ننگا پن زیادہ خطرناک ہے. ایک تو ایسے حصے پہلے ہی اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان کے لئے خصوسی احتیاط برتنی پڑتی ہے، اوپر سے اگر ان حصوں کو مسلسل بند رکھا جائے تو ان کی حساسیت میں اضافہ ہونا نا گزیر ہے. سورج کی شعاؤں میں وٹامن ڈی ہوتا ہے. یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ وٹامن ڈی جسم کے تمام حصوں کو یکساں مقدار میں چاہئے ہوتا ہے، یہ سب کو معلوم نہیں ہے. کپڑے پہن کر دھوپ میں لیٹنے سے جسم کی وٹامن ڈی کی ضروریات پوری نہیں ہوتی. میں یہ نہیں کہ رہی کہ سب کو میری طرح ننگی ہو کر سہل سمندر پر جا کر سب کے سامنے ننگی لیٹنے سے ہی یہ ضروریات پوری ہوں گی. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جسم کی مناسب دیکھ بال کرنے کے لئے کچھ وقت نکال کر گھر میں ہی ننگے ہو دھوپ سینک لیا کریں. ہم نے جو ٹینٹ لگایا تھا اس کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ دھوپ بارہ راست جسموں پر نا پڑے بلکہ پہلے سایے میں لیٹ کر جسم کو ماحول سے ہم آہنگ کریں اور کچھ دیر بعد سمندر میں نہ کر جسم خشک کر کے ٹینٹ کے بغیر دھوپ سینکی جائے. یہ سب باتیں تو اپنی جگہ درست لیکن میرے لئے یہ بات اب تک حیرت کا سبب تھی کہ ہماری نظروں کے سامنے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں مرد عورت ننگے گھوم رہے تھے، نہا رہے تھے لیکن اب تک میں سواے شرجیل کے کسی مرد کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی جس کا لنڈ کھڑا ہوا ہو. اپنے جسم پر اتنا اختیار دیکھ کر حیرانی ہوئی. انجیلا اور مارٹن ایک دوسرے سے چپک کر لیٹے تھے لیکن مجال ہے کہ مارٹن کا لنڈ ذرا بھی سخت ہوا ہو. شہریار کی بات البتہ الگ تھی. اس کا لنڈ تو سختی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا. اب تو مجھے خود بھی شرمندگی ہونے لگی تھی کیوں کہ قریب سے گزرتے لوگوں کی آنکھوں میں اس نظارے کے لئے ناپسندیدگی واضح تھی ۔(جاری ہے )

              Comment


              • #27

                ‎شہریار کا لنڈ اپنے جوبن پر تھا. یہ بتانا مشکل تھا کہ اس کے لنڈ میں اس بے پناہ سختی کی وجہ میرا ننگا جسم تھا یا پھر ہماری نظروں کے سامنے ساحل سمندر پر سیر کرتی، سمندر کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتی سینکڑوں ننگی حسینائیں اس کی وجہ تھیں. یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی مشرقی بیوی کو پہلی بار اس طرح عوام الناس کے درمیان ننگی دیکھ کر بے قابو ہوا جا رہا تھا. وجہ جو بھی رہی ہو، اس وقت مسلہ یہ تھا کہ شہریار کا لنڈ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے جا رہا تھا اور زیادہ تر لوگوں کی نظروں میں اس کے لئے نا پسندیدگی کے تاثرات تھے. میں نے سوچا کہ بیشک یہ لوگ اپنے آپ کو قدرت کے قریب ترین کہتے ہیں اور یہ دعوا کرتے ہیں کہ ننگا پن قدرتی عمل ہے لیکن لنڈ کھڑا ہونے پر تیوری چڑھانا کیا اس بات کی دلیل نہیں تھی کہ ابھی اس طرز زندگی میں کسی حد تک دقیانوسیت موجود ہے. میرا مطلب یہ ہے کہ لنڈ کھڑا ہونا بھی تو ایک قدرتی عمل ہی ہے. اس پر برا کیوں منایا جائے؟ کیا لنڈ کھڑا ہونا اتنا ہی برا عمل ہے؟ اگر ہے تو پھر بعض لوگوں کے نزدیک تو ننگا پن بھی ایک اچھا عمل نہیں ہے.

                ‎میرے ذہن میں سوالات کی بھرمار کے باوجود پوچھنے کا یہ موقع نہیں تھا. میں شدت سے یہ چاہتی تھی کہ کوئی بھی ہماری طرف نا دیکھے اور سب اپنے کم سے کام رکھیں. میری سمجھ سے باہر تھا کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے. میں تو کچھ نہیں کر پائی لیکن انجیلا اور مارٹن سے مزید صبر نہیں ہوا. انجیلا اپنی جگہ سے اٹھی اور ایک تولیہ اٹھا کر شہریار کے لنڈ پر اس طرح سے رکھ دیا کہ لنڈ اس کے نیچے چھپ گیا. ابھار البتہ اب بھی نظر آ رہا تھا. تولیہ لنڈ پر ڈال کر انجیلا نے میری طرف دیکھا اور آنکھ ماری تھی. اس کا انداز ایسا تھا جیسے مجھے کسی کام کا اشارہ کر رہی ہو. فورا تو میں نہیں سمجھی لیکن تولیہ کے اوپر سے لنڈ کا ابھار دیکھ کر مجھے سمجھ آ گیا کہ انجیلا کا مطلب کیا تھا. دراصل مقصد تو یہ ہی تھا کہ شہریار کے لنڈ کا تناؤ ختم ہو جائے اور ایسا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لنڈ کو ریلیف دیا جائے. لنڈ کو ریلیف دینے کے جتنے بھی طریقے ہیں، ان سب پر تنہائی میں ہی عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے لیکن ہاتھوں سے لنڈ کو سہلا کر منی نکال دی جائے تو لنڈ کا تناؤ ختم ہو سکتا ہے. اب میں اچھی طرح سمجھ گی تھی کہ انجیلا نے تولیہ اس لئے لنڈ پر نہیں ڈالا تھا کہ لنڈ سب کی نظروں سے چھپ جائے بلکہ اس کا مقصد مجھے موقع فراہم کرنا تھا کہ میں تولیے کے نیچے سے لنڈ کی سختی ختم کرنے کی کوشش کر سکوں. میں نے ہاتھ بڑھا کر تولیے کے نیچے سے شہریار کا لنڈ پکڑ لیا. اف. فولاد کی طرح سخت تھا. لیکن تھا بلکل خشک. میرا دل کیا منہ میں لے لوں. اگر لے لیتی تو شائد مجھے اور شہریار دونوں کو یہاں سے نکال باہر کیا جاتا کیوں کہ غیر اخلاقی کام کوئی بھی برداشت نہیں کرتا. میں نے ہاتھ پر تھوک لگایا اور لنڈ کو اس ہاتھ سے مسلنے لگی. تھوک کی چکناہٹ سے ہاتھ لنڈ پر پھسلتا جا رہا تھا. شہریار کو تو جو مزہ آ رہا تھا وہ اپنی جگہ لیکن یہاں تو میں خود گرم ہوتی جا رہی تھی. میں نے ہینڈ جاب سے پہلے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ اپنی پوزیشن اس طرح سیٹ کی تھی لوگوں کی نظر پڑے بھی تو انہیں یہ پتا نا چلے کہ تولیے کے نیچے کیا ہو رہا ہے. سکچول یعنی جنسی کاموں کو پبلک میں کرنا بیہودگی کے زمرے میں آتا ہے. ویسے یہاں بچے بھی موجود تھے اس لئے زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی ۔(جاری ہے )

                Comment


                • #28

                  میرا خیال تھا کہ جہاں سب لوگ بنا کپڑوں کے ننگے رہتے ہوں، وہاں صفائی کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا ہو گا کیوں کہ جب سمندر میں سب لوگ ننگے نہا رہے ہوں تو کسی کو کیا پتا کس نے سمندر کے پانی میں اپنے پیشاب کی ملاوٹ کی لیکن مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا یہ دیکھ کر کہ بہت سے لوگ پیشاب یا حوائج ضروریہ کی خاطر سمندر سے نکل کر ساحل پر بنے واشروم کا رخ کر رہے تھے. شہریار کا لنڈ میرے ہاتھوں کی مہارت اور تھوک کی چکناہٹ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکا. کوئی کچھ ہی کہے کہ انٹرنیٹ پر پورن فلمیں دیکھنے کے بہت نقصانات ہیں لیکن مجھے تو اب تک پورن کا فائدہ ہی ہوا تھا. ہینڈجاب، بلوجاب اور اورل سیکس اور بہت سی چیزیں میں نے پورن سے ہی سیکھی تھیں اور اب شادی کے بعد انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کر رہی تھی. شہریار کے لنڈ سے منی نکلی تو میں نے فورا اپنا ہاتھ نہیں کھینچا بلکہ مسلسل ایسے ہی مسلتی رہی. کچھ مزید جھٹکوں کے بعد شہریار کا لنڈ اپنی لمبائی کھونے لگا. میں نے تولئے سے لنڈ صاف کیا اور لنڈ پر سے تولیہ ہٹا دیا. اب لمبائی کھو کر بلکل چھوٹا سا ہو کر رہ گیا تھا. ویسے دیکھنے میں بہت کیوٹ لگ رہا تھا
                  شہریار کے لنڈ کو تو جیسے سکون مل گیا ہو. ایسے دبکا تھا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے یہ لوہے کے راڈ کی طرح سخت تھا. تھوڑی دیر اس طرح سستانے کے بعد ہم سب نے نہانے کا ارادہ کیا اور ساحل کی جانب چلے. ننگے پیروں سے نرم نرم گیلی ریت پر چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن جو احساس پورے جسم پر سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا ہو رہا تھا وہ نا قابل بیان ہے. اتنی خوش گوار احساس تھا. ایسا لگتا تھا جیسے جسم کے تمام مسام کھل گئے ہوں. پانی کافی ٹھنڈا تھا. میرا تو سمندر میں نہانے کا بچپن کا ہی تجربہ تھا. بعد میں تو زیادہ سے زیادہ پر گیلے کرنے تک ہی نوبت آتی تھی. اسی لئے میں کھل کر نہانے سے گریز کر رہی تھی لیکن وہاں کا ماحول ایسا تھا کہ زیادہ دیر تک گریز کر نہ سکی. شہریار اور میں نے پانی میں خوب اٹھکھیلیاں کیں. ابھی ہم نہ ہی رہے تھے کہ انجیلا ایک گیند اٹھا لی اور بولی چلو واٹر بال کھیلیں. میں اور شہریار ایک طرف ہو گئے اور انجیلا اور مارٹن نے اپنی ٹیم بنا لی. میں پہلی بار کھل رہی تھی اس لئے ہم لوگ مسلسل ہار رہے تھے. میں نے کہا یہ غلط بات ہے. ہم دونوں نہ تجربہ کار ہیں اور اس طرح کھیلنے کا مزہ بھی نہیں آ رہا، پارٹنر بدلو. وہ دونوں فورن ماں گئے. میں اور مارٹن ایک ساتھ ہو گئے اور انجیلا اور شہریار ایک ساتھ. ٹیم بدلنے کا اور کوئی فائدہ ہوا یا نہیں، مجھے مارٹن کو قریب سے دیکھنے اور ابزرو کرنے کا کا موقع ضرور مل گیا. کھیل بہت دلچسپ تھا اور آہستہ آہستہ کھیل میں شدت آتی جا رہی تھی. میرا پہلا تجربہ ضرور تھا لیکن میں کوشش پوری کر رہی تھی. کوشش کا ہی نتیجہ تھا کہ گیند کو دوسری طرف پھینکنے کے چکر میں میں اس بات کا بھی لحاظ نہیں کر رہی تھی گیند مارٹن کے سامنے ہے یا میرے. اسی کا نتیجہ تھا کہ گیند کو ہاتھ مارنے کی کوشش میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور قریب تھا کہ پانی میں گر جاتی لیکن مارٹن نے ایک لمحہ ضایع کے بغیر مجھے تھام لیا اور اٹھا کر سیدھی کھڑی کر دیا. بمشکل کوئی دس سیکنڈ لگے ہونگے اس تمام کام میں لیکن اس کے ہاتھوں کا لمس اپنے جسم پر محسوس کر کے میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور میں بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹ گئی. میرا انداز ایسا تھا جیسے شرما گئی ہوں اور سچ بھی یہی تھا. میں مانتی ہوں میں مکمل ننگی تھی لیکن پھر بھی میرے اندر شرم باقی تھی. شائد یہ شرم مرنے پر ہی ختم ہو سکتی ہے ہم مشرقی لڑکیوں کے اندر سے. میری ادا پر مارٹن سمجھ گیا کہ میں ابھی اس حد تک بے تکلف نہیں ہی. ویسے بات بے تکلفی کی تھی بھی نہیں. اس نے بھی کوئی مجھے چھونے کی غرض سے تو ہاتھ نہیں لگایا تھا. اس کا مقصد تو مجھے گرنے سے بچانا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہا تھا. باجود اس کے، مارٹن نے مجھے سوری کہا. میں ابھی تک سکتے کی سی حالت میں تھی. شہریار نے میرے قریب آ کر مجھے اپنے گلے سے لگایا اور میرے جسم پر ہاتھ پھیرا آہستگی سے. تب کہیں جا کر میں نارمل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرا رویہ غیر مناسب تھا اور یہ کہ مجھے مارٹن کو سوری کہنا چاہئے لیکن اپنے اندر اتنی ہمت نہ پیدا کر پائی. اب مزید کھیلنے کا تو کسی کا موڈ نہیں تھا اس لئے ہم نے کھانا کھایا اور دھوپ سینکی. میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ احساس ندامت میں ڈوبتی چلی جا رہی تھی. باتوں میں بھی میں زیادہ حصہ نہ لے سکی. البتہ شہریار نے ان دونوں کو بور نہیں ہونے دیا اور خوب باتیں کیں. شام ہونے کا پتہ بھی نہ چلا اور ہم نے واپسی کی راہ لی. واپسی پر شہریار نے مارٹن اور انجیلا کو چاۓ کی دعوت دے ڈالی کہ میرے ہاتھ کی چاۓ بہت مزیدار ہوتی ہے. ہم نے ہوٹل میں اپنے کمرے میں چاۓ پی اور انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا. جب مارٹن نے مجھ سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی. یہ سب کے لئے غیر متوقعہ تھا. منہ سے ایک لفظ نہیں نکل پا رہا تھا میرے. مارٹن نے آہستگی سے میرے سر اور کمر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا. وہ لوگ تو اس کے بعد الودا کہ کر اپنے گھر چلے گئے لیکن شہریار کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی. نیند تو مجھے بھی نہیں آ رہی تھی لیکن شہریار کی آنکھوں میں مستی نمایاں تھی. میں سمجھ گئی کہ شوہر نامدار اب مجھے چودے بنا نہیں چھوڑیں گے (جاری ہے )



                  Comment


                  • #29
                    Ache kawish hy

                    Comment


                    • #30
                      Boht zabardast or hot kahani ha

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X