Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Poetry واصف علی واصف

ہر انسان یہی کہتا ہے دیکھو تو اب کیا ہوتا ہے
رستے میں دیوار کھڑی ہے اتنا تو سب کو دکھتا ہے
چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
میری سندرتا کے گہنے چھین کے وہ کہتا ہے مجھ سے
وہ انسان بہت اچھا ہے جو ہر حال میں خوش رہتا ہے
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
میں تقدیر زمانے بھر کی ہر انسان مقدر تیرا
جرم کسی کا چلتے چلتے میرے ہی سر آ پڑتا ہے
کتنے جلووں سے گزرا ہوں کتنے منظر دیکھے میں نے
اب بھی آنکھ سے اوجھل ہے وہ جو میرے دل میں رہتا ہے
دھوپ اور چھاؤں سے بنتا ہے ہستی کا افسانہ واصفؔ
بڑھ جاتے ہیں وہم کے سائے عزم کا سورج جب ڈھلتا ہے
 
ملا ہے جو مقدر میں رقم تھا
زہے قسمت مرے حصے میں غم تھا
جبین شوق نے یہ راز کھولا
مرا کعبہ ترا نقش قدم تھا
مری کوتہ نگاہی تھی وگرنہ
ستم ان کا تو اک حسن‌ کرم تھا
جسے تو رائیگاں سمجھا تھا واصفؔ
وہ آنسو افتخار جام جم تھا
 
چاندنی رات میں کھلے چہرے
صبح ہوتے ہی چھپ گئے چہرے
میں نگاہوں کو کس طرح بدلوں
آپ نے تو بدل لیے چہرے
غور سے دیکھ آبگینوں کو
کل کہاں ہوں گے آج کے چہرے
کھا رہے ہیں درخت کا سایہ
ٹہنیوں سے لگے ہوئے چہرے
اس کا چہرہ کب اس کا اپنا تھا
جس کے چہرے پر مر مٹے چہرے
زندگی میں کبھی نہیں ملتے
کاغذوں پر سجے ہوئے چہرے
آ گئے کھل کے سامنے واصفؔ
آستیں میں چھپے ہوئے چہرے
 
کون کسی کا اس دنیا میں کس نے پیت نبھائی
اپنی ذات میں گم ہیں سارے کیا پربت کیا رائی
کالا سورج دیکھ کے کالی رات نے لی انگڑائی
اپنی راہ میں حائل ہو گئی آنکھوں کی بینائی
پتے ٹوٹ گئے ڈالی سے یہ کیسی رت آئی
مالا کے منکے بکھرے ہیں دے گئے یار جدائی
اک چہرے میں لاکھوں چہرے ہر چہرہ ہرجائی
جھوٹا میلہ انت اکیلا جھوٹی پیت لگائی
اک ذرے میں صحراؤں کی وسعت آن سمائی
اک قطرے میں ڈوب کے رہ گئی ساگر کی گہرائی
تجھ بن ساجن میری ہستی میرے کام نہ آئی
بات بنانے سے کیا بنتی تو نے بات بنائی
سانس کی آری کاٹ رہی ہے صدیوں کی پہنائی
ہستی کے بہروپ میں واصفؔ موت سندیسہ لائی
 
سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے

جمال گل کے پردے میں شرر ہے ہم نہ کہتے تھے

لبوں کی تشنگی کو ضبط کا اک جام کافی ہے

چھلکتا جام زہر کارگر ہے ہم نہ کہتے تھے

زمانہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے جس کو اک زمانے سے

محبت کی وہ اک پہلی نظر ہے ہم نہ کہتے تھے

قیامت آ گئی لیکن وہ آئے ہیں نہ آئیں گے

شب فرقت کی کب کوئی سحر ہے ہم نہ کہتے تھے

غم جاناں غم ایام کے سانچے میں ڈھلتا ہے

کہ اک غم دوسرے کا چارہ گر ہے ہم نہ کہتے تھے

تڑپتی کوندتی تھی برق لہراتی مچلتی تھی

ہمارے چار تنکوں پر نظر ہے ہم نہ کہتے تھے

غبار راہ میں کھو جائے گا یہ کارواں آخر

کہ رہزن کارواں کا راہبر ہے ہم نہ کہتے تھے

نشان منزل مقصود سے آگاہ تھے واصفؔ

فریب آگہی سے کب مفر ہے ہم نہ کہتے تھے​​
 
نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں
مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں
بہت بدلے مرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں
وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں
نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں
 
خوبصورت شاعری ہے مزہ آگیا

شُکریہ
 
ذبردست جناب

شُکریہ
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat