Offline
- Thread Author
- #11
ہر انسان یہی کہتا ہے دیکھو تو اب کیا ہوتا ہے
رستے میں دیوار کھڑی ہے اتنا تو سب کو دکھتا ہے
چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
میری سندرتا کے گہنے چھین کے وہ کہتا ہے مجھ سے
وہ انسان بہت اچھا ہے جو ہر حال میں خوش رہتا ہے
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
میں تقدیر زمانے بھر کی ہر انسان مقدر تیرا
جرم کسی کا چلتے چلتے میرے ہی سر آ پڑتا ہے
کتنے جلووں سے گزرا ہوں کتنے منظر دیکھے میں نے
اب بھی آنکھ سے اوجھل ہے وہ جو میرے دل میں رہتا ہے
دھوپ اور چھاؤں سے بنتا ہے ہستی کا افسانہ واصفؔ
بڑھ جاتے ہیں وہم کے سائے عزم کا سورج جب ڈھلتا ہے