زُلف سے، چشم و لب و رُخ سے، کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دِل و جاں کو رہا کِس سے کریں
ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنْسا بیٹھے ہیں
اب بتا! کون سے دھاگے کو جُدا کِس سے کریں
ایوب خاورؔ
گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو
کوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہو
کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں، کہیں مِل لیں
یہ کب کہا تھا، کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
پروین شاکر
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھُلا در اِس کا
وہ مُسافر اِسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہُوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
پروین شاکر