ماضی شریکِ حال ہے، کوشِش کے باوجود
دُھندلے سے کچھ نقُوش ابھی تک نظر میں ہیں
لِلہ اِس خلُوص سے پُرسِش نہ کیجئے
طُوفان کب سے بند مِری چشمِ ترمیں ہیں
اقبال عظیم
حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اقبال عظیم